ہرگز نہ مجھ سے اپنی عداوت نکالیئے
پگڑی نہ میری برسرِ بازار اچھالیئے
ہے ڈوبنے کو میری صحافت سنبھالیئے
ردی کی ٹوکری میں مرا خط نہ ڈالیئے
میں جانتا ہوں لکھنا نہیں آتا ہے مجھے
مجھ میں جو اک ادیب ہے اکساتا ہے مجھے
اب آپ اس ادیب کو ہرگز نہ ٹالیئے
ردی کی ٹوکری میں مرا خط نہ ڈالیئے
شائع ہو میرا خط یہ مجھے اشتیاق ہے
ردی کی ٹوکری کا ستم مجھ پہ شاق ہے
ردی کی ٹوکری ہی کو باہر نکالیئے
ردی کی ٹوکری میں مرا خط نہ ڈالیئے
کرتا ہوں میں بھی بچوں کے اسلام کا ادب
پر میں نہ چھپ سکا تو ہے کس کام کا ادب
اپنے ادب کو آپ ہی انکل سنبھالیئے
ردی کی ٹوکری میں مرا خط نہ ڈالیئے
اب تک میں لکھ چکا ہوں کوئی سو پچاس خط
لیکن ہمیشہ توڑتا ہے میری آس خط
کم ہوں گے ساری دنیا میں مجھ سے مَلالیئے
ردی کی ٹوکری میں مرا خط نہ ڈالیئے
واضح جھلک رہا ہے اگر سچ پنا تو کیا
تحریر میں ہے میری اگر بچپنا تو کیا
آغوش میں ادب کی اسے آپ پالیئے
ردی کی ٹوکری میں مرا خط نہ ڈالیئے
گر جیب خرچ کی ہے ضرورت تو بولیئے
بھر دوں گا سوٹ کیس ذرا لب تو کھولیئے
اوروں کی اشاعت کے بھلا دام کیا لئے
ردی کی ٹوکری میں مرا خط نہ ڈالیئے
اب ساری باتیں چھوڑ دیں اتنا بتائیں آپ
جب مجھ سے کر رہے ہیں مسلسل جفائیں آپ
جائے کہاں ادیب امیدِ وفا لئے
ردی کی ٹوکری میں مرا خط نہ ڈالیئے