میں کیا کیا بتاؤں کہ کیا کیا کہوں گا
انہیں رب کی رحمت سراپا کہوں گا
انہیں تا قیامت میں اچھا کہوں گا
نہ فادر نہ ڈیڈی نہ پاپا کہوں گا
میں اب اپنے ابا کو ابا کہوں گا
کہوں آنٹی اب میں چاچی کو کیونکر
پکاروں میں ناموں سے باجی کو کیونکر
کہوں ماما، ممی ، میں امی کو کیونکر
میں اچھی روایت پہ چلتا رہوں گا
میں اب اپنے ابا کو ابا کہوں گا
میں چاچا کو انکل نہ بولوں گا ہرگز
نہ اغیار کا مال مولوں گا ہرگز
خلافِ ادب لب نہ کھولوں گا ہرگز
جو اس راہ میں ہو مشقت سہوں گا
میں اب اپنے ابا کو ابا کہوں گا
کزن کیوں کہوں رشتہ داروں کو آخر
میں اک نام کیوں دوں ہزاروں کو آخر
نہ کیوں روکوں جدت کے ماروں کو آخر
میں اپنی سی کوشش تو کرتا رہوں گا
میں اب اپنے ابا کو ابا کہوں گا
اثرؔ خیر و برکت بھی اس میں چھپی ہے
ہماری روایت بھی اس میں چھپی ہے
سعادت محبت بھی اس میں چھپی ہے
میں اغیار کی سمت مائل نہ ہوں گا
میں اب اپنے ابا کو ابا کہوں گا