03:00    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ناول / افسانے

2905 4 0 05

بھگت رام - کرشن چندر

بھگت رام

ابھی ابھی میرے بچے نے میرے بائیں ہاتھ کی چھنگلیا کو اپنے دانتوں تلے داب کر اس زور کا کاٹا کہ میں چلاّئے بغیر نہ رہ سکا اور میں نے غصّہ میں آکر اس کے دو تین طمانچےبھی جڑ دیئے بیچارا اسی وقت سے ایک معصوم پّلے کی طرح چلاّ رہا ہے۔ یہ بچے کمبخت دیکھنے میں کتنے نازک ہوتے ہیں لیکن ان کے ننھے ننھے ہاتھوں کی گرفت بڑی مضبوط ہوتی ہے ان کے دانت یوں دودھ کے ہوتے ہیں لیکن کاٹنے میں گلہریوں کو بھی مات کرتے ہیں۔ اس بچے کی معصوم شرارت سے معاً میرے دل میں بچپن کا ایک واقعہ ابھر آیا ہے، اب تک میں اسے بہت معمولی واقعہ سمجھتا تھا اور اپنی دانست میں میں اسے قطعاً بھلا چکا تھا لیکن دیکھئے یہ لا شعور کا فتنہ بھی کس قدر عجیب ہے اس کے سائے میں بھی کیسے کیسے خفیہ عجائب مسطور ہیں۔ بظاہر اتنی سی بات تھی کہ بچپن میں میں نے ایک دفعہ اپنے گاؤں کے ایک آدمی بھگت رام کے بائیں ہاتھ کا انگوٹھا چبا ڈالا اور اس نے مجھے طمانچے مارنے کے بجائے سیب اور آلوچے کھلائےتھے۔ اوربظاہرمیں اس واقعہ کو اب تک بھول چکا تھالیکن ذرا اس بھان متی کے پٹارے کی بوالعجبیاں ملاحظہ فرمائیے۔

 

یہ معمولی سا واقعہ ایک خوابیدہ ناگ کی طرح ذہن کے پُشتارے میں دبا ہے اور جونہی میرا بچہ میری چھنگلیاں کو دانتوں تلے دباتا ہے اور میں اسے پیٹتا ہوں۔ یہ پچیس تیس سال کا سویا ہوا ناگ بیدار ہوجاتا ہے اور پھن پھیلاکر میرے ذہن کی چار دیواری میں لہرانے لگتا ہےاب کوئی اسے کس طرح مار بھگائے، اب تو دودھ پلانا ہوگا ، خیر تو وہ واقعہ بھی سن لیجئے جیسا کہ میں ابھی عرض کر چکا ہوں یہ میرے بچپن کا واقعہ ہے۔ جب ہم لوگ رنگپور کے گاؤں میں رہتے تھے۔ رنگپور کے گاؤں تحصیل جوڑی کا صدر مقام ہے اس لئے اس کی حیثیت اب تک ایک چھوٹے موٹےقصبے کی ہے لیکن جن دنوں ہم وہاں رہتے تھے رنگپور کی آبادی بہت زیادہ نہ تھی یہی کوئی ڈھائی تین سوگھروں پر مشتمل ہوگی جن میں بیشتر گھر برہمنوں اور کھتریوں کے تھے۔ دس بارہ گھرجُلاہوں کے اور کمہاروں کے ہونگے۔ پانچ چھ بڑھئی اتنے ہی چمار اور دھوبی اور یہی سارے گاؤں میں لے دے کے آٹھ دس گھر مسلمانوں کے ہونگے لیکن ان کی حالت ناگفتہ سی تھی اس لئے یہاں تو ان کا ذکر کرنا بھی بیکار سا معلوم ہوتا ہے۔

 

گاؤں کی برادری کے مکھیا لالہ کانشی رام تھے یوں تو براہمنی سماج کے اصولوں کے مطابق برادری کا مکھیا کسی براہمن ہی کو ہونا چاہئے تھااور پھر برہمنوں کی آبادی بھی گاؤں میں سب سے زیادہ تھی۔ اس پربرادری نے لالہ کانشی رام کو جو ذات کے کھتری تھے اپنا مکھیا چنا تھا پھر وہ سب سے زیادہ لکھے پڑھے تھے یعنی نئے شہر تک پڑھے تھے۔ جو خط ڈاکیہ نہیں پڑھ سکتا تھا اسے بھی وہ اچھی طرح پڑھ لیتے تھے تمک ہنڈی، نالش ،سمن گواہی نشان دہی کے علاوہ نئے شہر کی بڑی عدالت کی بھی کاروائی سے وہ بخوبی واقف تھے۔اس لئے گاؤں کا ہر فرد اپنی مصیبت میں چاہے وہ خود لالہ کانشی رام کی ہی پیدا کردہ کیوں نہ ہو، لالہ کانشی رام ہی کا سہارا ڈھونڈتا تھا۔ اور لالہ جی نے آج تک اپنے کسی مقروض کی مدد کرنے سےانکار نہ کیا ۔ اسی لئے وہ گاؤں کے مکھیا تھے اور گاؤں کے مالک تھے اور رنگپور سے باہر دور دور تک جہاں تک دھان کے کھیت دکھائی دیتے تھے۔لوگ ان کا جس گاتے تھے۔

 

ایسے شریف لالہ کا منجھلا بھائی تھا لالہ بانشی رام ، جو اپنے بڑے بھائی کے ہر نیک کام میں ہاتھ بٹاتا تھا لیکن گاؤں کے لوگ اسے اتنا اچھا نہیں سمجھتے تھے کیونکہ اس نے اپنے برہمن دھرم کو تیاگ دیا تھااور گورو نانک جی کے چلائے ہوئے پنتھ میں شامل ہوگیا تھا۔ اس نے اپنے گھر میں ایک چھوٹا سا گورودارہ بھی تعمیر کرایا تھا اور نئے شہر سے ایک نیک صورت نیک طبعت نیک سیرت گرنتھی کو بلا کر اسے گاؤں میں سکھ مت کے پرچار کے لئے مامور کردیا تھا۔

 

لالہ بانشی رام کے سکھ بن جانے سے گاؤں میں جھٹکے اور حلال کا سوال پیدا ہو گیا تھا مسلمانوں اور سکھوں کے لئے تو گویا ایک مذہبی سوال تھا لیکن بھیڑ بکریوں اور مرغے مرغیوں کے لئے تو زندگی اور موت کا سوال تھا۔ لیکن انسانوں کے نقّارخانے میں جانوروں کی آواز کون سنتا ہے۔

 

لالہ بانشی رام کے چھوٹے بھائی کا نام تھا بھگت رام یہ وہی شخص ہے جس کا انگوٹھا میں نے بچپن میں چبا ڈالا تھا کس طرح یہ تو بعد میں بتاؤں گا۔ ابھی تو اس کا کردار دیکھئے۔۔۔ یعنی کہ سخت لفنگا، آوارہ، بدمعاش تھا یہ شخص، نام تھا بھگت رام لیکن دراصل یہ آدمی رام کا بھگت نہیں، شیطان کا بھگت تھا ۔ رنگپور کےگاؤں میں آوارگی، بدمعاشی ہی نہیں، ڈھیٹائی اور بےحیائی کا نام اگر زندہ تھا تو محض بھگت رام کے وجود سے،ورنہ رنگپور تو ایسی شریف روحوں کا گاؤں تھا کہ غالباً فرشتوں کو بھی وہاں آتے ہوئے ڈر معلوم ہوتا ہوگا۔

 

نیکی اور پاکیزگی اور عبادت کا ہلکا ہلکا سا نور گویا ہر ذی نفس کے چہرے سے چھنتا نظر آتا تھاکبھی کوئی لڑائی نہ ہوتی تھی، قرضہ وقت پر وصول ہو جاتا تھا ورنہ زمین قرق ہو جاتی تھی۔ اور لالہ کانشی رام پھر روپیہ دے کر اپنے مقروض کو پھر کام پر لگادیتےتھے۔ مسلمان بے چارے اتنے کمزور تھے اور تعداد میں اس قدر کم تھے ان میں لڑنے کی ہمت نہ تھی سب بیٹھے مسجدوں کے مناروں اور اس کے کنگروں کو خاموشی سے تاکا کرتے کیونکہ گاؤں میں انہیں اذان دینے کی بھی ممانعت تھی۔

 

کمیروں اور اچھوتوں کا سارا دھندا دو جنمے لوگوں سے وابستہ تھا ۔اور وہ چوں تک نہ کر سکتے تھے ا س کے علاوہ انہیں یہ احساس بھی نہ تھا کہ زندگی اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہو سکتی ہے۔ بس جو ہے وہ ٹھیک ہے، یہی مسلمان سمجھتے تھے، یہی براہمن، یہی کھتری، یہی چمار اور سب مل کر بھگت رام کو گالیاں سناتے تھے کیونکہ اس کی کوئی کل سیدھی نہ تھی۔

 

بھگت رام لٹھ گنوار تھا بات کرنے میں اکھڑّ، دیکھنے میں اکھڑّ، کندہ نا تراش، بڑے بڑے ہاتھ پاؤں، بڑے بڑے دانت، بتیسی ہر وقت کھلی ہوئی، لبوں سے رال ٹپکتی ہوئی، جب ہنستا تو ہنسی کے ساتھ مسوڑھوں کی بھی پوری پوری نمائش ہوتی۔ گاؤں میں ہر شخص کا سر گھٹا ہوا تھا اور ہر ہندو کے سر پر چوٹی تھی۔ لیکن بھگت رام نے بلوچوں کی طرح لمبے لمبے بال بڑھائے تھے اورچوٹی غائب تھی۔ بالوں میں بڑی کثرت سے جوئیں ہوتیں جنہیں وہ اکثر گھر کے باہر بیٹھ کر چنا کرتا تھا۔ سرسوں کا تیل سر میں دو تین بار رچایا جاتا، گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے جاتے اور بیچ میں سے سیدھی مانگ نکال کر اور زلفیں سنوار کر وہ سر شام گاؤں کے چشموں کا طواف کیا کرتا۔ اپنی ان بری حرکتوں سے کئی بار پٹ چکا تھا لیکن اس کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا تھا۔ بڑی موٹی کھال تھی، اور اس کی اور پھر میرا خیال ہے کہ اس کے کے شعور میں ضمیر کی آگ کبھی روشن ہی نہ ہوئی تھی۔ وہ شرارہ ناپید تھا جو حیوان کو انسان بنا دیتا ہے۔ بھگت رام سو فیصدی حیوان تھا اور اسی لئے گاؤں والے برہمن اور کھتری امیر اور غریب، ہندو اور مسلمان، سنار اور چمار سب اس سے نفرت کرتے تھے۔

 

لیکن چونکہ لالہ کانشی رام کا چھوٹا بھائی تھا اور بظاہر گاؤں کے سب سے بڑے گھر کا ایک معزز فرد۔ اس لئے اپنی پسندیدگی کے باوجود گاؤں کے لوگ اس کے وجود کو اور اس کے وجود کی مذبوحی حرکات کو برداشت کرتے تھے اور آج تک کرتے چلے آئے تھے لیکن جب ہم رنگپور میں آئے اس وقت بھگت رام کے بڑے بھائی نے پریشان ہو کر اسے اپنے گھر سے نکال دیا تھا۔ اور توی کا ایک گھراٹ اس کے سپرد کر دیا تھا جہاں بھگت رام کام کرتا تھا اور وہ رات کو سوتا بھی وہیں تھا کیونکہ گھراٹ تو دن رات چلتا ہے نہ جانے کس وقت کسے آٹا پسوانے کی ضرورت درپیش ہو اور وہ چادر میں یا بھیڑ کھال میں مکئی یا گندم کے دانے ڈالے گھراٹ پر چلا آئے۔ اور پھر اس کے علاوہ یہ بھی تو ہے کہ دن بھر میں گیہوں جتنا بھی جمع ہوتا ہے یا جو اناج ابھی پس نہیں جاتا وہ بھی وہیں گھراٹ پر دھرا رہتا ہے اور اس کی نگہبانی کے لئے بھی توایک آدمی کاوہاں موجود ہونا ضروری ہے یہی سوچ کر لالہ کانشی رام نے اپنے چھوٹے بھائی بھگت رام کو اپنے گھراٹ کا کام سونپ دیا اور لالہ کانشی رام کا گھراٹ گاؤں میں سب سے نامی گھراٹ تھا۔ یعنی تقریباً سارے گاؤں کا اناج وہیں پسوایا جاتا تھا ایک اور گھراٹ بھی تھا لیکن وہاں بالعموم مسلمانوں، اچھوتوں، اور کمیروں کے لئے اناج پیسا جاتا تھا یاجب کبھی بڑا گھراٹ چلتے چلتے رک جاتا اور اس کی مہیب چکی کام کرنے سے انکار کردیتی یا جب پاٹوں کی سطح پر پتھریلےدندانے بنانے کے لئے انہیں دیا جاتا تو اس صورت میں دوسرے گھراٹ والوں کو چند روز کے لئے اچھی آمدنی ہو جاتی تھی بصورت دیگر بڑے گھراٹ پر گاہکوں کی بھیڑ لگی رہتی۔

 

جب بڑا گھراٹ چلتا تھا اس وقت کسی مسلمان، کسی کمیرے، کسی ا چھوت کی یہ جرات نہ تھی جرات تو کیا کبھی ان کے ذہن میں یہ خیال بھی نہ آیا تھا کہ ان کا اناج کبھی بڑے گھراٹ پر پس سکتا ہے۔

 

شروع شروع میں جب بھگت رام نے کام سنبھالا تو اس نے بھی چند روز تک یہی وطیرہ اختیار کیا ۔ لیکن بعد میں اس کے مزاج کے لاابالی پن نے بلکہ یوں کہیئے کہ شیطان پن نے زور مارا اور اس نے سوچا چلو جی کیا ہے۔ اس میں جو آئے آٹا پسا کرلے جائے۔ ان پھتر کے دو پاٹوں میں دھرا ہی کیا ہے اور یہ آخر اناج ہی تو ہے جسے کتّا بھی کھاتا ہے اس سے گھراٹ کی آمدنی میں اضافہ بھی ہوگا اور دوسرے گھراٹ کا حال جو پہلے ہی بہت پتلا ہے اور بھی پتلا ہو جائےگا۔ اور عین ممکن ہے کہ دوسرا گھراٹ بالکل ہی بند ہو جائے ۔ جانے اس نے کیا سوچا بہر حال اس نے کوئی ایسی ہی بری بات سوچی ہوگی جو اس نے گاؤں کے چماروں اور کمیروں کو بھی اپنے گھراٹ پر سے آٹا پسانے کی دعوت دی۔

 

پہلے تو لوگوں نے بڑی شدّ ومد سے انکار کیا۔۔۔’’ بھلا ایسا بھی ہو سکتا ہے؟ کیا کہتے ہو لالہ، ہم رعیّت ہیں، تم راجا ہو، یہ تمھارے گھراٹ ہے، ہمارا گھراٹ وہ ہے۔۔۔ ہم بھلا یہاں آٹا پسانے کیوں آئیں؟ نا بابا یہ کام ہم سے نہ ہوگااور جو چاہے ہم سے کام لے لوپر ہم سے نہیں ہونےکا۔‘‘

 

لیکن بھگت رام نے آخر اپنی چالاکیوں سے ان بیچاروں کوپھسلا ہی لیااورانہیں اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ اناج اسی کے گھراٹ پر لایا کریں گے اور وہیں پسایا کریں گے۔

 

بھلا ایسی بات بھی برادری میں چھپی رہ سکتی ہے۔ برادری میں ایک کہرام مچ گیا، چہ میگوئیاں ہونے لگی، ہر روز بھگت رام سےلڑائی ہونے لگی، تگڑا آدمی تھا اس لئے گالیاں سہہ گیا، ہنس ہنس کر ٹالتا گیا۔ پھر اس نے غصہ میں آکردو چار کو پیٹ دیا پھر ایک دن خود پیٹا گیا۔ یہ معاملہ بڑھتے بڑھتے لالہ کانشی رام کے پاس پہنچا انہوں نے بھگت رام کو بلا کر ڈانٹا، سمجھایا بجھایا، ٹھنڈے دل سے نرمی سے پچکار کر باتیں کی۔ اونچ نیچ سمجھائی لیکن جس کے دل میں کمینہ پن ہو وہ دھرم کرم کی بات کب سنے گا۔ بھگت رام نے اس کان سے نکال دی۔ پہلے جب بھگت رام اپنے گھر پر رہتا تھا اس کے لئے تھوڑی بہت روک ٹوک بھی تھی یہ ڈر بھی تھاکہ بڑے بھائی کیا کہیں گے لیکن اب تو وہ رات دن گھراٹ پر رہتا تھا۔ اب اسے وہاں روکنے والا کون تھا اب وہ خود کفیل تھا انہی دنوں وہ بھانگ پینے لگا اور ایک مسلمان فقیر کے ہاں آنا جانا شرع کیا جو ان دنوں اپنی بیوی اور ایک نوجوان لڑکی کے ساتھ ندی کنارے ایک تکیے پر آکر ٹھہرا تھا۔

 

جوں جوں دن گزرتے گئے بھگت رام گھراٹ کے کام کاج سے غافل رہنے لگا اور دن کا بیشتر حصہ تکیے پر چرس گانجا پینے میں گزارنے لگا۔ بھائی نے بہتیرا سمجھایا خود گاؤں کے شریف مسلمانوں نے اس پر نفریں کے آوازے کسے، لیکن وہ تو کسی اور ہی نشے میں چور تھا۔ چند دن اور گزرنے اور پھر پتہ چلا کہ بھگت رام نے نئے شہر جا کر اس مسلمان فقیر کی بیٹی سے نکاح کر لیاہےاور اسلام قبول کر لیا ہے سارے گاؤں میں ہل چل سی مچ گئی۔

 

جب انہوں نے بھگت رام کو سیاہ پھندنے والی سرخ رنگ کی اونچی ٹوپی پہنے ہوئے دیکھا ، فقیر تو خیر ڈر کے مارے پھر بھی گاؤں میں گھسا ہی نہیں اور یہ اس نے اچھا ہی کیاورنہ لالہ کانشی رام اور بانشی رام ضرور اس سے بدلہ لینے کی کوشش کرتےلیکن اپنے بھائی کو اب وہ کیا کہہ سکتے تھے جو اپنی بیوی کو لیکر پھر گاؤں میں آگیا تھا اور گھراٹ میں، اپنے بڑے بھائی کے گھراٹ میں آکر بس گیا تھا۔ دونوں میاں بیوی یہیں رہتے تھے اور بھگت رام اب بڑا خوش تھا اور سفید لٹھے کی شلوار اور سیاہ چکن کی واسکٹ جس پر کئی سو گھنڈی دار بٹن لگی ہوئے تھے، گاؤں کی گلیوں میں فخریہ گھومتا تھا اور گاؤں کی بہوبیٹیوں پر بلا امتیاز مذہب و ملت آوازے کستا تھا۔ ایسا دس نمبر کا بدمعاش تھا وہ کہ جب میری ماں مجھے گالی دیا کرتی تو میرے خصائل کا مقابلہ بھگت رام کے اوصافِ حمیدہ سے کیا کرتیں اورمیں ہمیشہ رودیتا۔ بھگت رام سے مجھےسخت چڑ تھی ایک تو اس نے ہمارا دھرم چھوڑ دیا تھا، بھلا ایسے آدمی کا کیا اعتبار اور بھگت رام کی شیطانیت دیکھو مسلمان ہوتے ہی اس نے گاؤں کے مسلمانوں کو اُکسانا شروع کیا کہ وہ مسجد میں منارے پر چڑھ کر اذان دیں لیکن وہ تو بھلا ہو مسلمانوں کا، کسی نے اس کی بات نہیں مانی او رڈرتے ڈرتے کہا کہ گاؤں میں آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا ہے اس پر وہ بدمعاش بہت ہنسا اور اس نے خود وضو کر کے مسجد کے منارے پر چڑھ کر اذان دی اور اس کی گونجتی گرجتی ہوئی آواز وادی کی چوحدی میں ندی کنارے ناشپاتیوں کے جھنڈ میں اور دور دور صنوبروں سے ڈھکی ہوئی پہاڑیوں کی چھاتیوں میں دھمک پیدا کرتی ہوئی گونج گئی۔ اور گاؤں کے برہمن اور کھتری کا دل ایک نامعلوم خوف سے بھر گیا۔ گھور کلجگ ہے، گھور کلجگ ہے یہ۔۔۔ اب کوئی دن میں ضرور نش کلنکی اوتار پیدا ہوں گے۔ ہے رام۔۔۔ ہے رام۔۔۔ اور لالہ کانشی رام نے برہمنوں سے مشورہ کر کے ایک بہت بڑا یگیہ کیا اور پرائشچت کیا ، اور اپنے چھوٹے بھائی بھگت رام کو برادری سے خارج اور جائداد سے بے دخل کردیا۔ اور پرانے گھراٹ کے پانی کا بہاؤموڑ کر ایک عمدہ سا گھراٹ بنایا۔

 

پرانا گھراٹ جہاں اب بھگت رام اور اس کی بیوی رہتے تھے اب بڑی خستہ حالت میں تھا گاہک کم ہوتے ہوتے معدوم ہو گئے۔ مسلمانوں کے جو چند گھر باقی رہ گئے تھے انہوں نے بھی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا کیونکہ گاؤں کی سماجی زندگی میں بھگت رام نے جابجا سوراخ کر دیئے تھے اور اسےکوئی پسند نہ کرتا تھا۔

 

انہی دنوں بھگت رام کی بیوی کے ہاں بچہ ہونے والا تھا لوگ کہتے تھے کہ فقیرن بیاہ سے پہلے ہی حاملہ تھی اور وہ فقیر بھگت رام کو جل دے کر فرار ہوگیا تھا۔

 

کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ، جتنے منھ اتنی باتیں ہاں یہ بات ضرور سچ تھی کہ بھگت رام ہر وقت اپنی بیوی کی دل جوئی میں مصروف رہتا وہ اس کےلئے ہر طرح کی محنت اور مشقت کرنے پر آمادہ تھا۔ لیکن گاؤں میں اب کوئی اسے کام دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔ اور ایسے لوفر کیلئےبھلا اس شریف گاؤں میں کام کر نیکی کیا سبیل ہوسکتی ہے۔

 

مجھے وہ رات نہیں بھولتی جب بھگت رام کی بیوی کے ہاں بچہ ہونے والا تھا صبح ہی سے بھگت رام نے ہمارے گھر کے چکر لگانےشروع کئے تھے، میری ماں کی منتیں کی تھیں اور اس کے پاؤں پر اپنا ماتھا ٹیک کر کہا تھا ’’تم چلو گی ماں تو میری بیوی بچ جائے گی۔‘‘ لیکن میری ماں نے جو بڑے بڑے کھتری گھرانوں اور برہمنوں کے گھر میں دایہ بن کر جاتی تھی بھگت رام کو ٹکا سا جواب دے دیا تھا۔

 

آدھی رات کے وقت بھگت رام نے چیخ چیخ کر دہائی دی لیکن ہم لوگوں نے دروازہ نہیں کھولا اور مسٹ مار کر سو رہے۔ دوسرے دن پتہ چلا کہ بھگت رام کی بیوی زچگی میں مرگئی۔بچہ پیدا نہیں ہو سکاتھا بھگت رام بہت رویا زاروقطار رویا، لیکن وہ کوئی سچے آنسو تھوڑے ہی تھے۔۔۔ کسی انسان کے آنسو تھوڑے ہی تھے۔۔۔ ایک حیوان کے آنسو تھے جو یونہی اپنی تکلیف پر ٹسوے بہا رہا ہو کیونکہ چند دنوں میں ہی وہ اس فقیرنی کو بھول گیا تھا۔ اب اس نے اپنا مسلمانی نام بھی ترک کردیا تھا اب وہ پھر اپنے کو خدا بخش نہیں، بھگت رام کہتا تھا اور اسی طرح گاؤں کی گلیوں میں چکر لگاتا تھا۔ لیکن شباش ہے ہندوُوں کو کہ کسی نے اسے منھ نہیں لگایا کہ اس کے بھائی بھی اس سے بات تک کرنے کے روادار نہیں ہوئے اور بھگت رام اپنا سا منھ لے کر رہ گیا۔

 

چند روز کے بعد بھگت رام گاؤں چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔ تین چار مہینوں کے بعد جو لوٹا تو اس کے پاس دو تین درجن سانپ تھے اور بہت سے چھچھوندر اور نیولے اور ایسے ہی بہت سے جانور۔ اور ایک پنجرے میں ایک خوب صورت مینا بھی تھی جو بہت اچھا گاتی تھی۔ میں گھنٹوں اس مینا کے پنجرے کے قریب جاکر گانا سنا کرتا تھا اور گاؤں کے بہت سے لڑکے میرے ساتھ بھگت رام کے پاس آیا کرتے اور اب بھگت رام کے پاس بہت سی جڑی بوٹیاں تھیں جن کے متعلق وہ کہتا تھا کہ دنیا کی ہر بیماری کو یوں چٹکی میں دور کر سکتی ہیں۔ آہستہ آہستہ لوگ اس کی طرف کھنچنے لگے اور اسے اچھی خاصی آمدنی ہونے لگی میری ماں کو جو گاؤں کی مشہور دایہ تھیں اور عورتوں کے ہر روگ کا علاج جانتی تھیں بھگت رام کا یہ بہروپ بہت برا معلوم ہوا مگر وہ اب کیا کر سکتی تھیں۔ ہاں جب کبھی ان دونوں کی مڈبھیڑ ہوجاتی وہ اسے خوب کھری کھری سناتی۔ بھگت رام یہ صلواتیں سن کر ہنس دیتا یا اپناسر کھجانے لگتا اور پھر ایک زور کا قہقہہ لگا کر آگے چل دیتا ۔ پرلے درجے کا چھٹاہوا بدمعاش تھا وہ، ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ۔۔۔ بھگت رام کی جڑی بوٹیوں کی دھاک سارے گاؤں میں بندھ گئی۔ پھرقرب وجوار کے پڑوسی اس کےپاس آنےلگے، اب اس نے گاؤں کے چھوٹے سے بازار میں ایک چمار کی آدھی دکان کرائے پر لے لی اور وہاں بیٹھ کر دوائیاں بیچنے لگا۔

 

آدھی دکان میں مولو چمار جوتیاں بنتا تھا ۔ مولو چمار اور اس کی بیوی اور اس کی بیوہ بہن رام دئی، بس یہ تینوں افراد ہر وقت جب دیکھو جوتیاں سیتے رہتے تھے۔ دوکان کے دوسرے حصے میں بھگت رام نئے گاہکوں کو پھانستا تھا اور سانپوں کاتماشا دکھاتا تھا اور اپنی زبان کو سانپوں سے ڈسواتا تھااور خود سنکھیا کھا کر بتاتا تھا کہ اس پر زہر کا کوئی اثر نہیں ہوتا کیونکہ اس کے پاس ایسی تیزبہدف بوٹیاں تھیں جو قاتل سے قاتل زہر کے لئےتریاق کا حکم رکھتی ہیں۔ غرص اسی قسم کی جھوٹی گپیں ہانک کر شیخیاں بگھارکر وہ اجڈ گنوار اور بھولے بھالے دیہاتوں سے ٹکے بٹورتا تھا اور میری ماں کو اس کی باتیں سن سن کر بہت غصہ آتا تھا۔ لیکن ہم لوگ اس کا کچھ بگاڑ نہ سکتے تھے کیونکہ لوگوں کو اس پر اعتقاد سا ہو گیا تھا اور اب اس کی جیب میں روپے بھی تھے۔ اس نے گاؤں سےباہر ندی کے اس پار مٹی کا ایک کچا سا گھر بھی بنا لیا تھا جہاں وہ فرصت کے وقت اپنا چھوٹا سا باغیچہ بنانے میں مصروف ہوتا۔ مجھے بھگت رام سے بڑی نفرت تھی اور میں کبھی اس کے گھر نہ جاتا تھا لیکن اب وہ اس خوب صورت مینا کو جو دوکان کے باہر لٹکے ہوئے پنجرے میں گاتی رہتی تھی۔ اپنے گھر لے گیا تھا اس لئے میں کبھی کبھی اس کے گھر محض اپنی مینا کو دیکھنے کے لئے چلا جایا کرتا، خیریت ہوئی، اس نے مجھے ٹوکا نہیں ورنہ میرا ارادہ تو یہ تھا کہ اگر اس نے مجھےٹوکا تو گوئپے میں ڈھیلا رکھ کر بھگت رام کا سر پھوڑ دوں گا۔

 

بھگت رام کا کام اب ترقی پر تھا لیکن انہی دنوں اس نے ایک ایسی حرکت کی کہ گاؤں کے لوگ پھر اس سے بدظن ہوگئے اور اس واقعے کے بعد گاؤں میں اور قرب وجوار کے گاؤں میں کبھی اس کی ساکھ نہیں بندھی۔ واقعہ دراصل یہ تھا کہ رام دئی جو کہ مولو چمار کی بیوہ بہن تھی۔ لالہ بانشی رام نے در پردہ بھگت رام کو کہلا بھیجا تھا کہ وہ کوئی ایسی دوائی دے جس سے رام دئی کا حمل اسقاط ہوجائے لیکن بھگت رام تو ایک چھٹا ہوا تھا ۔ وہ بھلا ایسے موقعے پرکسی شریف آدمی کی کیونکر مدد کرتا چنانچہ اس نے صاف انکار کر دیا ۔ الٹا اس نے اس معاملہ کی یہاں تک تشہیر کی کہ لالہ بانشی رام کو چند ماہ کے لئے گاؤں چھوڑ کر نئے شہر جانا پڑا اور رام دئی کے لئے منھ چھپانا مشکل ہو گیا۔ یہ واقعہ اب اس قدرمشہور ہو چکا تھاکہ جب لالہ بانشی رام کے بڑے بھائی کانشی رام نے میری ماں کو جو ان کی خاندانی دایہ تھی اس نازک معاملے کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لئے کہا تو انہوں نے بھی صاف انکار کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بے چاری رام دئی نو مہینے اس حرامی بیٹے کو اپنے پیٹ میں لئے لئے پھری اور گاؤں بھر میں اس کی بے عزتی ہوئی اور حرامی بچہ اس نے الگ جنا۔ اس پر اس کی برادری نے اسے ’جات باہر‘ کردیا۔ اور اس کے بھائی نے اور اس کی بیوی نے اسے گھر سے باہر نکال دیا ۔ اس حالت میں جب اس کا کوئی یارومددگار نہ تھا اور جب وہ کئی دن اس کی دربدر کی ٹھوکریں کھاتی رہی تھی اور اپنے بچے کو دودھ دینے کے لئے خود اس کی چھاتیوں میں دودھ نہ رہاتھا۔ وہ بھگت رام کے گھر پہنچی وہ بدمعاش تو جیسے اس کے انتظار میں ہی تھا ، اس نے جھٹ اسے اپنے گھر میں رکھ لیا اور بغیر شادی بیاہ کئے یونہی وہ لوگ ہنسی خوشی رہنے لگے۔ گاؤں میں اس سے پہلے کبھی ایسا نہ ہوا تھایہ اندھیرگردی، یہ بے راہ روی۔۔۔ بے شرمی، بے حیائی اپنی آنکھوں سے تو دیکھی نہ جا سکتی تھی نتیجہ یہ ہوا کہ بھگت رام کی دوکان اٹھوادی گئی اور اسے اچھی طرح جتا دیا کہ اس واقعے کے بعد اگر وہ کبھی گاؤں کا رخ کرے گا تواپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹے گا۔

 

بھگت رام اب اپنے گھر ہی میں رہتا تھا اور باغیچے اور گھر کے آس پاس جو اس نے تھوڑی سی زمین مول لی تھی، اس میں کاشت کر کے اپنا اور رام دئی اور اس کےحرامی بچے کا پیٹ پالتا تھا۔

 

بعض لوگوں کا خیال ہےکہ وہ بڑی اداس زندگی بسر کرتا ہوگایہ خیال بالکل غلط ہے جیسے پکے گھڑے پر پانی کا کوئی اثرنہیں ہوتا اسی طرح ان تمام واقعات نے بھگت رام کی فطرت پر کوئی اثر نہیں کیا اس کی سرشت میں کوئی بھی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اسے یہ احساس ہی نہیں تھا کہ اس نے اپنے طرزعمل سے اپنے ماں باپ، اپنے خاندان، اپنے گاؤں کی عزت کو پٹہ لگایا ہے وہ اسی طرح خوش وخرم اور شاداں وفرحاں نظر آتا تھا کہ جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ جیسے وہ اب بھی گاؤں کے اندر اپنے بھائی کے خوب صورت گھر میں رہتا ہو جس کی چھت ٹین کی تھی۔ میں نے ایک دن اسے اس کے گھر میں دوپہر کے وقت دیکھتاتھا۔ وہ آنگن میں ایک چارپائی پر لیٹا ہوا تھا۔ اور رام دئی کو چوم رہا تھا میں نے اس سے پہلے کسی مرد اور عورت کو چومتے ہوئے نہیں دیکھا تھا اس لئے یہ منظر دیکھ کر میں تو ایک دم بھونچکا رہ گیا اور میرے کانوں میں ایک دم میری ماں کے الفاظ گونج گئے۔

 

’’کبھی بھی بھول کر بھگت رام کے گھر کا رخ نہ کرنا وہ بڑا ہی بدمعاش ہے‘‘ میری ماں نے سچ کہا تھا بھلا شریف لوگ کہیں ایسے ہوتے ہیں۔ غم وغصہ سے میری آنکھوں میں آنسوں بھر آئے ۔میں واپس جانے کو تھا کہ مینا نے مجھے دیکھ لیا اور جلدی سے چلانے لگی۔ ’’آؤ ننھے منے بالک مٹھائی دونگی۔ آؤ آؤ ننھے منے بالک مٹھائی دونگی۔‘‘ مینا کی آواز سن کر بھگت رام جلدی سے اٹھا اور میری طرف بڑھا شاید وہ مجھے پکڑنا چاہتا تھا۔ بدمعاش میں تیرے قابو میں آسانی سے نہیں آؤں گا ۔ خونی، ڈاکو، میں روتا ہوا آگے بھاگا پیچھے پیچھے بھگت رام دوڑتا ہوا آرہاتھا۔ ’’بات سن، بیٹے، بات سن بیٹے۔‘‘ پر میں ایسا بے وقوف نہ تھا کہ رک جاتا میں بھاگتا گیا۔ یکایک اس نے مجھے گردن سے پکڑ لیا اور میں نے کٹکٹاکر اس کے انگوٹھے کو اپنے دانتوں تلے دبا لیااور اتنے زور سے کاٹا کہ وہ درد کی شدت سے چیخ اٹھا مگر اس نے مجھے طمانچے نہیں مارے، کچھ نہیں کیا لیکن مجھے چھوڑا بھی نہیں۔ وہ مجھے اپنے گھر کے اندر آنگن میں لے گیا مجھے گردن سے پکڑے ہوئے تھا کمبخت۔ میں اب بھاگ بھی نہ سکتا تھا۔ اس نے رام دئی کی طرف اشارہ کرکے کہا،

 

’’یہ تمہاری موسی ہیں انہیں رام رام کہو۔‘‘

 

میں نے کہا، ’’موسی تمہاری ہوگی، میں انہیں رام رام نہیں کہو ں گا۔‘‘

 

اس نے ہنس کر کہا۔’’ دیکھو یہ تمہارا چھوٹا بھائی ہے منو، اس کے ساتھ کھیلو۔‘‘

 

میں نے کہا، ’’میں اس کے ساتھ نہیں کھیلوں گا، میری ماں کہتی ہیں، رام دئی کا بچہ حرامی ہے۔ حرامی ہے یہ بچہ۔‘‘

 

معاًرام دئی نے بچے کو اپنی چھاتی سے چمٹا لیا ۔ بھگت رام کھل کھلا کر ہنس پڑا اور اس کے بد صورت کریہہ دانت اور مسوڑھے ہونٹوں کے باہر نکل آئےکہنے لگا۔’’سیب کھاؤگے؟ سیب کھاؤگے؟ آلوچے؟ ہاہا ہا۔۔ہاہا۔ میں نے سر ہلا کر انکار کر دیا۔‘‘

 

اس نے زبردستی بہت سے سیب اور آلوچے میری جیبوں میں ٹھونس دئیے پھر مسکرا کر بولا۔’’یہ مینا تمہیں اچھی لگتی ہے نا، لے جاؤ اسے ۔‘‘

 

وہ پنجرا اتار کر میرے حوالے کرنے لگا۔

 

میں نے کہا، ’’کوئی تھوکتا بھی ہے اس تمہاری مینا پر، میری ماں کہتی ہے کہ بھگت رام آدمی نہیں حیوان ہے، وہ تو چمار سے بھی بدتر ہے، چھوڑو مجھے، مجھے نہیں چاہیے تمہاری میناوینا۔‘‘

 

اس نے ہنس کر مجھے چھوڑ دیا، کہنے لگا، ’’تو اب بھاگ جاؤ۔‘‘

 

اس بدمعاش کے نیچے سے نکل کر جو میں بھگا ہوں تو سیدھا گھر آکر دم لیا۔ گھر آکر ماں کو جو میں نے سارا قصہ سنایا تو پہلے تو مجھ پر بہت بگڑیں پھر بھگت رام کو انہوں نے خوب خوب کوسا اور سارے سیب اور آلوچے اٹھا کر گلی میں پھینک دیئے۔

 

اس کے بعد میں کبھی بھگت رام کے گھر نہیں گیا۔ چند مہینوں کے بعد جب لالہ بانشی رام نئے شہر سے لوٹا تو اس نے مولو چمار سےکہہ کر بھگت رام پر بدچلنی اور اغوا کا مقدمہ دائر کرا دیا۔ چھ سات مہینے بھگت رام جیل میں رہا۔ آخر کار وہ بری ہو گیا لیکن جیل میں رہ کر اس کی صحت کافی کمزور ہوگئی تھی اور اب وہ جیل سے چھوٹ کر آیا تو لوگ کہتے تھے کہ اس کے چہرے پر وہ پہلی سی بشاشت نہ تھی۔ نہ وہ اب پہلے کی طرح سینہ تان کر چلتا تھا ۔ کچھ جھکا جھکا سا تھا، کچھ اداس لیکن یہ کیفیت بھی چند روز تک رہی پھر وہ اسی طرح بے شرم ،بے حیا اور ڈھیٹ بن کر اِدھر ادھر گھومنے لگا اور گاؤں گاؤں جا کر اپنی جڑی بوٹیوں کی تجارت کرنے لگا۔ لیکن شریف لوگ اسے منھ نہیں لگاتے تھے اور اس کے سائے سے پرہیز کرتے تھے۔ ہندو، مسلمان، کمیرے ہر مذہب اور ہر جات کے لوگ اسے آوارہ اور شہدا سمجھتے تھے اور ہمارے گاؤں میں تو اس کی برائی ضرب المثل بن چکی تھی اور مائیں ہمیں درسِ اخلاق دیتے وقت کہاکرتی تھیں، ’’دیکھو جی کوئی برا کام کروگے تو تمھارا بھی وہی حال ہوگا، جو بھگت رام کا ہوا۔‘‘

 

جیسی بے معنی، بے مطلب اس کی زندگی تھی، ویسی ہی اس کی موت تھی، بالکل مہمل، لا یعنی۔۔۔

 

میں نے اسے مرتے ہوئے نہیں دیکھا لیکن جن لوگوں نے اسے مرتے ہوئے دیکھا ہے وہ بھی اس کے پاگل پن پر آج تک ہنستے ہیں۔ کہتے ہیں مرنے سے پہلے وہ ہشاش بشاش تھا، ندی کے کنارے رام دئی کے ساتھ کھڑا تھا، اور ان طوفانی لہروں کا تماشہ دیکھ رہا رتھا جو برساتی بارش کی وجہ سے ندی کی سطح کو’گردابِ فنا‘ بنائےہوئے تھیں۔ یکایک اس نے اس نے اپنے کنارے کے قریب بھیڑ کے تین چار بچوں کو دیکھا جو ان ہلاکت آفریں لہروں کی گود میں خوفزدہ آواز میں با آ با آ کہتے ہوئے بہتے چلے آرہے تھے۔ ایک لمحے کے لئےبھگت رام نے ان کی طرف دیکھادوسرے لمحے میں وہ ندی کی طوفانی لہروں کی آغوش میں تھا اور بھیڑ کے بچوں کوبچانے کی سعی کر رہا تھا اسی کوشش میں اس نے اپنی جان دیدی۔ دوسرے دن جب طوفان تھم گیا تو اس کی لاش ندی کے غربی موڑ پر تُنگ کے ایک تنے سے لپٹی ہوئی پائی گئی جس کا آدھا حصہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ کیسی جاہلانہ، احمقانہ، بیوقوفانہ موت تھی۔ یہ حیوانی زندگی کی حیوانی موت، حسنِ ترتیب اور حسنِ توازن سے عاری، بھلا ایسی موت میں بھی کوئی تک ہے۔۔۔ لیکن اس کے اچھے بھائیوں نے اچھا کیا، اسے معاف کردیا، اور گو وہ برادری سے خارج ہو چکا تھا۔ اور اب وہ نہ ہندو رہا تھا نہ مسلمان نہ اچھوت پھر بھی انہوں نے اپنے دھرم کے مطابق اس سے اچھا سلوک کیا وہ اس کی لاش کو گھر لے گئے، اسے نہلایا دھلایا اور اپنے رسم و رواج کے مطابق اسے شمشان گھاٹ لے جا کر آگ لگا دی میں اس وقت وہیں موجود تھا۔۔۔

 

لیکن یہ ۱۹۲۰ کی بات ہے۔ آج ۱۹۲۴ ہے اور میرے ننھے بیٹے نے میری چھنگلیا کو زور سے کاٹ کھایا ہےاور میں نے غصہ میں آکر اسے دو تین طمانچے جڑ دئیے ہیں اور معصوم بچہ صوفے میں منھ چھپائے رو رہا ہے اور میں سوچتا ہوں، آج میں یہ سوچتا ہوں کہ بھگت رام تم جو دس نمبر کے بدمعاش تھے اور تمہارا کوئی مذہب نہ تھا، تم جو ایک گنوار، اجڈ، جھوٹے پنساری تھے اور جڑی بوٹیاں بیچتے تھےاور لوگوں کو ٹھگتے تھے اور ان سے روپیہ بٹورتے تھے اور ایک مسلمان فقیرنی سے نکاح کیئے ہوئے تھے اور ایک اچھوت بیوہ سے جھوٹ موٹ کا بیاہ رچائے ہوئے تھے۔ بھگت رام تم تو جیل کی ہوا کھا چکے تھے اور گاؤں بھر کے مانے ہوئے لفنگے اور غنڈے تھے۔۔۔ تم جس سے لوگ نفرت کرتے تھے اور شاید آج میں یہ سوچتا ہوں بھگت رام شاید میں نے تمہیں پہچانا نہیں، شاید میں نے تمہیں پہچاننے میں غلطی کی، شاید ان تمام بڑے آدمیوں سے بڑے ہو، اچھے ہو، بہتر ہو، جو ریلیں بناتے ہیں، اور لوگوں کو بھوکا مرجانے دیتے ہیں، جو اونچی اونچی عمارتیں بناتے اور خدا کی مخلوق کو گلیوں میں ننگا پھرنے پر مجبور کرتے ہیں، جو نادار عورتوں سے ان کی عصمت چھین کر عصمت پرست بنتے ہیں۔ جو اپنی وقتی بیویوں کے لئے قحبہ خانے اور اپنی اولاد کے لئے یتیم خانے تعمیر کرتے ہیں اور سماج کے سمندر میں بیٹھ کر ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔ ہاں تم ان سب آدمیوں سے بڑے ہو جو ٹریکٹر، ہوائی جہاز، اسکول، مشین گن، تھیٹر، سنیما، ایمپائر بلڈنگ، ناچ گھر، نبک، یونیورسٹی، سلطنت تحتِ طاؤس، کتبے، اُپنیشد، فلسفہ، زبان، اور ادب کی تخلیق کرتے ہیں اور آدمی کی نسل کو کائنات کی تاریکی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حیران و پریشان چھوڑ دیتے ہیں تم ان سب آدمیوں سے بڑے ہو، اچھے ہو ۔ بھگت رام کیونکہ تم پنساری ہو، جڑی بوٹی فروخت کرتے ہو، آوارہ مزاج ہو، نہیں نہیں تم سچ مچ شاعر ہو، بھگت رام ، تم وہ شاعر ہوجو ہرصدی میں، ہر برس میں، ہر جگہ ہر گاؤں میں پیدا ہوتا ہے لیکن لوگ اچھے لوگ، نیک لوگ، بڑے لوگ اسے سمجھنے سے انکار کر دیتے ہیں تم وہ شاعر ہو دوست، آو، ہاتھ ملاؤ۔

 

لیکن بھگت رام اب مجھ سے ہاتھ نہیں ملا سکتا کیونکہ وہ مردہ ہو چکا ہے۔۱۹۲۰ء کی طغیانی میں بھیڑ کے بچوں کو بچاتے ہوئے مرگیاتھا۔ اور وہیں ندی کے کنارے اس کی چتا جلائی گئی تھی اور کوئی اس کی موت پر رویا نہ تھا اور اس کی چتا سے شعلے بلند ہو کر آسمان کی طرف بڑھ رہے تھے۔ لال لال شعلے، شعلوں کے پتے ، شعلوں کی کلیاں، شعلوں کے پھول سے کھل رہے تھے۔ اور چتا جل رہی تھی اور کسی کی آنکھ میں آنسو نہ تھے اور قدرت بھی اداس نہ تھی، آسمان صاف تھا، نیلا گہرا، خوب صورت دھوپ تھی، صاف تھی، کھلی ہوئی چمکدار، نرم گرم اور کہیں کہیں بادلوں کے سپید سپید سبک اندام، راج ہنس تیر رہے تھے، اور ندی کا پانی گیت گاتا ہوا، بھنور بناتا ہوا، لہروں کے جال بنتا ہوا اس کی چتا کے قریب سے گزررہا تھا ۔ اور چتا کے پاس ہی کھٹے اناروں کے جھنڈ میں شعلہ بداماں پھول دمک رہے،۔ کائنات خوش تھی، خدا خوش تھا، خود شاعر خوش تھا، کیونکہ آج اس کا دل شعلہ بن گیا تھا اور اس کی روح پھول۔ یہ شعلے جو تمہارے دل میں ہیں، یہ پھول جو ہر جگہ ہیں، جو تمہارے اندر ہیں اور میرے اندر ہیں اور پھر اندر ، اور باہر، سب جگہ، ہر جگہ اور کائنات اور شاعر اور آدمی ایک ہو گئے تھے۔ ایسی موت کسے نصیب ہوتی ہے، بھگت رام۔۔۔

5.0 "2"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔