03:03    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ناول / افسانے

2097 1 0 00

قبض - سعادت حسن منٹو

قبض

نئے لکھے ہوئے مکالمے کا کاغذ میرے ہاتھ میں تھا۔ ایکٹر اور ڈائریکٹر کیمرے کے پاس سامنے کھڑے تھے، شوٹنگ میں بھی کچھ دیر تھی۔ اس لئے کہ اسٹوڈیو کے ساتھ والا صابن کا کار خانہ چل رہا تھا۔ ہر روز اس کار خانے کی شور کی بدولت ہمارے سیٹھ صاحب کا کافی نقصان ہوتا تھا۔  کیونکہ شوٹنگ کے دوران میں ایکا ایکی جب اس کار خانے کی کوئی مشین چلنا شروع ہو جاتی تو کئی کئی ہزار فٹ فلم کا ٹکڑا بیکار ہو جاتا۔ اور ہمیں نئے سرے سے کئی سینوں کی دوبارہ شوٹنگ کرنا پڑتی۔

ڈائریکٹر صاحب ہیرو اور ہیروئن کے درمیان کیمرے کے پاس کھڑے سگریٹ پی رہے تھے۔ اور میں سستانے کی خاطر کرسی پر ٹانگوں سمیت بیٹھا تھا۔ وہ یوں کہ میری دونوں ٹانگیں کرسی کی نشست پر تھیں۔ اور میرا بوجھ نشست کے بجائے ان پر تھا۔ میری اس عادت پر بہت سے لوگوں کا اعتراض ہے۔ مگر یہ واقعہ ہے کہ مجھے اصلی آرام صرف اسی طریقے پر بیٹھنے سے ملتا ہے۔

نینا جس کی دونوں آنکھیں بھینگی تھیں۔ ڈائریکٹر صاحب کے پاس آیا اور کہنے لگا۔’’ صاحب‘ بولتا ہے کہ تھوڑا کام باقی رہ گیا ہے پھر شور بند ہو جائے گا۔‘‘

یہ روز مرہ کی بات تھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ ابھی آدھ گھنٹے تک کار خانے میں صابن کٹتے اور ان پر ٹھپے،لگتے رہیں گے۔ چنانچہ ڈائریکٹر صاحب ہیرو اور ہیروئن سمیت اسٹوڈیو سے باہر چلے گئے۔ میں وہیں کرسی پر بیٹھا رہا۔

سقفی لیمپ کی ناکافی روشنی میں سیٹ پر جو چیزیں پڑی تھیں ان کا درمیانی فاصلہ اصلی فاصلے پر کچھ زیادہ دکھائی دے رہا تھا۔ اور گیروے رنگ کے تھری پلائی وڈ کے تختے جو دیواروں کی صورت میں کھڑے تھے۔  پست قد دکھائی دیتے تھے۔ میں اس تبدیلی پر غور کر رہا تھا کہ پاس ہی سے آواز آئی۔ ’’السلام علیکم‘‘۔ میں نے جواب دیا۔’’ وعلیکم السلام۔‘‘اور مڑ کر دیکھا تو مجھے ایک نئی صورت نظر آئی۔  میری آنکھوں میں۔’’ تم کون ہو؟‘‘ کا سوال تیر نے لگا آدمی ہوشیار تھا، فوراً کہنے لگا۔جناب میں آج ہی آپ کی کمپنی میں داخل ہوا ہوں ،.... میرا نام عبد الرحمن ہے۔ خاص دہلی شہر کارہنے والا ہوں .... آپ کا وطن بھی تو شاید دہلی ہی ہے۔!

’’ میں نے کہا جی نہیں .... میں پنجاب کا باشندہ ہوں۔‘‘

عبد الرحمن نے جیب سے عینک نکالی۔’’ معاف فرمائیے گا۔‘‘ چونکہ ڈائریکٹر صاحب نے عینک اتار دینے کا حکم دیا تھا اس لئے....

اس دور ان میں اس نے عینک بڑی صفائی سے کانوں میں اٹکا لی اور میری طرف پسندیدہ نگاہوں سے دیکھنا شروع کر دیا۔’’ واللہ میں تو یہی سمجھا تھا کہ آپ دہلی کے ہیں ، یعنی آپ کی زبان میں قطعاً پنجابیت نہیں .... ماشاءاللہ کیا مکالمہ لکھا ہے.... قلم توڑ دیا ہے واللہ.... یہ اسٹوری بھی تو آپ ہی نے لکھی ہے؟‘‘

’ عبد الرحمن نے جب یہ باتیں کیں تو اس کا قد بھی میری نظر میں تھری پلائی وڈ کے تختوں کی طرح پست ہو گیا۔ روکھے پن سے کہا۔’’جی نہیں ‘‘

وہ اور زیادہ لچکیلا ہو گیا۔’’ عجب زمانہ ہے صاحب، جو اہلیتوں کے مالک ہیں ان کو کوئی پوچھتا ہی نہیں .... یہ بمبئی شہر بھی تو میری سمجھ میں بالکل نہیں آیا، عجب اوٹ پٹانگ زبان بولتے ہیں یہاں کے لوگ، پندرہ دن مجھے یہاں آئے ہو گئے ہیں ، مگر کیا عرض کروں سخت پریشان ہو گیا ہوں ، آج آپ سے ملاقات ہو گئی .... اس کے بعد اس نے اپنے ہاتھ مل کر اس روغن کی مروڑیاں بنانا شروع کر دیں جو چہرے پر، لگاتے وقت اس کے ہاتھوں پر رہ گیا تھا۔

میں نے جواب میں صرف’’ جی ہاں۔‘‘ کر دیا اور خاموش ہو گیا۔

تھوڑی دیر کے بعد میں نے کاغذ کھولا اور روا داری میں لکھے ہوئے مکالموں پر نظر ثانی شروع کر دی۔ چند غلطیاں جن کو درست کرنے کے لئے میں نے اپنا قلم نکالا۔ عبد الرحمن ابھی تک میرے پاس کھڑا تھا، مجھے اس کے کھڑے ہوئے نے کے انداز سے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔ چنانچہ ، میں نے پوچھا۔’’ فرمائیے۔‘‘

اس نے بڑی لجاجت کے ساتھ کہا۔’’ میں ایک بات عرض کروں۔‘‘

’’ بڑے شوق سے۔‘‘

’’ آپ اس طرح ٹانگیں اوپر کر کے نہ بیٹھا کریں۔‘‘

’’ کیوں ؟‘‘

اس نے جھک کر کہا۔’’ بات یہ ہے کہ اس طرح بیٹھنے سے قبض ہو جایا کرتا ہے۔‘‘

’’قبض؟‘‘ میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ قبض کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ کہہ کر میرے جی میں آئی کہ اس سے کہوں ’’ میاں ہوش کی دوا کرو۔ گھاس تو نہیں کھا گئے۔

مجھے اس طرح بیٹھتے بیس برس ہو گئے۔ آج کیا تمہارے کہنے سے مجھے قبض ہو جائے گا۔‘‘ مگر یہ سوچ کر چپ ہو گیا۔ کہ بات بڑھ جائے گی۔ اور مجھے بے کار کی مغز دردی کرنا پڑے گی!

وہ مسکرایا۔ عینک کے شیشوں کے پیچھے اس کی آنکھوں کے آس پاس کا گوشت سکڑ گیا۔’’ آپ نے مذاق سمجھا ہے، حالانکہ صحیح بات یہی ہے کہ ٹانگیں جوڑ کر پیٹ کے ساتھ لگا کر بیٹھنے سے معدے کی حالت خراب ہو جاتی ہے، میں نے اپنی نا چیز رائے پیش کی ہے۔ مانیں نہ مانیں یہ آپ کو اختیار ہے۔‘‘

میں عجب مشکل میں پھنس گیا۔ اس کو اب میں کیا جواب دیتا قبض.... یعنی قبض ہو جائے گا۔ بیس برس کے، دوران میں مجھے قبض نہ ہوا۔ لیکن آج اس مسخرے کے کہنے سے مجھے قبض ہو جائے گا۔ قبض کھانے پینے سے ہوتا ہے نہ کہ کرسی یا کونچ پر بیٹھنے سے۔ جس طرح میں کرسی پر بیٹھتا ہوں ، اس سے تو آدمی کو راحت ہوتی ہے۔ دوسروں کو نہ سہی لیکن مجھے تواس سے آرام ملتا ہے اور یہ سچی بات ہے کہ مجھے ٹانگیں جوڑ کر سینے کے ساتھ لگا دینے سے ایک خاص قسم کی فرحت حاصل ہوتی ہے۔ اسٹوڈیو میں عام طور پر شوٹنگ کے دوران میں کھڑے رہنا پڑتا ہے۔ جس سے آدمی تھک جاتا ہے۔ دوسرے نا معلوم کس طرح سے اپنی تھکن دور کرتے ہیں۔ مگر میں تو اسی طریقے سے دور کرتا ہوں۔کسی کے کہنے پر میں اپنی یہ عادت کبھی نہیں چھوڑ سکتا، خواہ قبض کے بجائے مجھے سرسام ہو جائے۔ یہ ضد نہیں ، دراصل بات یہ ہے کہ کرسی پر اس طرح بیٹھنے کا انداز میری عادت نہیں بلکہ میرے جسم کا ایک جائز مطالبہ ہے۔

جیسا کہ اس سے پہلے میں عرض کر چکا ہوں۔ اکثر لوگوں کو میرے اس طرح بیٹھنے کے انداز پر اعتراض ہو رہا ہے، اس اعتراض کی وجہ میں نے ان لوگوں سے نہ کبھی پوچھی ہے اور نہ انہوں نے کبھی بتائی ہے۔ اعتراض کی وجہ خواہ کچھ بھی ہو، میں اس معاملے میں دلیل سننے کے لئے بھی تیار نہیں۔ کوئی آدمی بھی مجھے قائل نہیں کر سکتا۔

جب عبد الرحمن نے مجھ پر نکتہ چینی کی تو میں بھنا گیا۔ اور اس کا یوں شکریہ ادا کیا، جیسے کوئی یہ کہے۔’’ لعنت ہو تم پر۔‘‘

اس شکریہ کی رسید کے طور پر اس نے اپنے موٹے ہونٹوں پر میلی سی مسکراہٹ پیدا کی اور خاموش ہو گیا۔ اتنے میں ، ڈائریکٹر ، ہیرو اور ہیروئن آ گئے اور شوٹنگ شروع ہو گئی، میں ، نے خدا کا شکر ادا کیا کہ چلو اسی بہانے عبد الرحمن کے قبض سے نجات حاصل ہو ئی۔

اس کی پہلی ملاقات پر ذیل کی باتیں میرے دماغ میں آئیں :

(1) یہ ایکسٹرا جو کمپنی میں نیا بھرتی ہوا ہے بہت بڑا چغد ہے

(2) یہ ایکسٹرا جو کمپنی میں نیا بھرتی ہوا ہے سخت بد تمیز ہے۔

(3) یہ ایکسٹرا جو کمپنی نے نیا بھرتی کیا ہے پرلے درجے کا مغز چاٹ ہے۔

(4) یہ ایکسٹرا جو کمپنی میں نیا داخل ہوا ہے مجھے اس سے بیحد نفرت پیدا ہو گئی ہے۔

اگر مجھے کسی شخص سے نفرت پیدا ہو جائے تو اس کا مطلب یہ کہ اس کی زندگی کچھ عرصہ کے لئے زیادہ متحرک ہو جائے گی۔ میں نفرت کرنے کے معاملے میں کافی مہارت رکھتا ہوں۔ آپ پوچھیں گے کہ نفرت کرنے میں مہارت کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن میں آپ سے کہوں گا کہ ہر کام کرنے کے لئے خاص سلیقے کی ضرورت ہوتی ہے اور نفرت میں چونکہ شدت زیادہ ہے۔ اس لئے اس کے عامل کا ماہر ہونا اشد ضروری ہے، محبت ایک عام چیز ہے۔ حضرت آدم سے لے کر ماسٹر نثار تک سب محبت کرتے آئے ہیں۔ مگر نفرت بہت کم لوگوں نے کی ہے، اور جنہوں نے کی ہے ان میں سے اکثر کو اس کا سلیقہ نہیں آیا۔ نفرت محبت کے مقابلے میں بہت زیادہ لطیف اور شفاف ہے محبت میں مٹھاس ہے جو اگر زیادہ دیر تک قائم رہے تو دل کاذائقہ خراب ہو جاتا ہے، مگر نفرت میں ایک ایسی ترشی ہے جو دل کا قوام درست رکھتی ہے۔

میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ نفرت اس طریقے سے کرناچاہئے کہ اس میں محبت کا مزہ ملے۔ شیطان سے نفرت کرنے کا جو سبق ہمیں مذہب نے سکھایا ہے مجھے اس سے سو فیصدی اتفاق ہے۔ یہ ایک ایسی نفرت ہے جو شیطان کی شان کے خلاف نہیں اگر دنیا میں شیطان نام کی کوئی ہستی موجود ہے تو وہ یقیناً اس نفرت سے جو کہ اس کے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے خوش ہوتی ہو گی اور سچ پوچھئے تو یہ عالمگیر نفرت ہی شیطان کی زندگی کا ثبوت ہے۔ اگر ہمیں اس سے نہایت ہی بھونڈے طریقے پر نفرت کرنا سکھایا جاتا تو دنیا ایک بڑی ہستی کے تصور سے خالی ہوتی۔

میں نے عبد الرحمن سے نفرت کرنا شروع کر دی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میری اور اس کی دونوں کی زندگی میں حرکت پیدا ہو گئی۔ اسٹوڈیو میں اور اسٹوڈیو کے باہر جہاں کہیں اس سے میری ملاقات ہوتی، میں اس کی خیریت دریافت کرتا اور دیر تک باتیں کرتا رہتا۔

عبد الرحمن کا قد متوسط ہے اور بدن گٹھا ہوا۔ جب وہ نیکر پہن کر آتا تو اس کی بے بال پنڈلیوں کا گوشت فٹ بال کے نئے کورے چمڑے کی طرح چمکتا ہے۔ ناک موٹی جس کی کوٹھڑی ابھری ہوئی ہے، چہرے کے خطوط منگولی ہیں۔ ما تھا چوڑا جس پر گہرے زخم کا نشان ہے۔ اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی شیطان لڑکے نے اپنے ڈیسک کی لکڑی میں چاقو سے چھوٹا سا گڑھا بنا دیا ہے۔ پیٹ سخت اور ابھرا ہوا ،حافظ قرآن ہے چنانچہ بات بات میں آیتوں کے حوالے دیتا ہے کمپنی کے دوسرے ایکٹر اس کی اس عادت کو پسند نہیں کرتے اس لئے کہ انہیں احترام کے باعث چپ ہو جانا پڑتا ہے۔

ڈائریکٹر صاحب کو جب میری زبانی معلوم ہوا کہ عبد الرحمن صاف زبان بولتا ہے اور غلطی نہیں کرتا تو انہوں نے اسے ضرورت سے زیادہ استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ایک ہی فلم میں اسے دس مختلف آدمیوں کے بھیس میں لایا گیا۔ سفید پوشاک پہنا کر اسے ہوٹل میں بیرا بنا کر کھڑا کر دیا گیا۔ سر پر لمبے لمبے بال لگا کر اور چمٹا ہاتھ میں دے کر ایک جگہ اس کو سادھو بنا دیا گیا۔ چپڑاسی کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس کے چہرے پر گوند سے لمبی ڈاڑھی چپکا دی گئی۔ ریلوےپلیٹ فارم پر بڑی مونچھیں لگا کر اس کو ٹکٹ چیکر بنا دیا گیا.... یہ سب میری بدولت ہوا۔ اس لئے کہ مجھے اس سے نفرت پیدا ہو گئی تھی۔

عبد الرحمن خوش تھا کہ چند ہی دنوں میں وہ اتنا مقبول ہو گیا اور میں خوش تھا کہ دوسرے ایکسٹرا اس سے حسد کرنے لگے ہیں۔ میں نے موقع دیکھ کر سیٹھ سے سفارش کی، چنانچہ تیسرے مہینے، اس کی تنخواہ میں دس روپے کا اضافہ بھی ہو گیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کمپنی کے پچیس ایکسٹراؤں کی آنکھوں میں وہ خار بن کے کھٹکنے لگا.... لطف یہ ہے کہ عبد الرحمن کو اس بات کے متعلق خبر نہ تھی کہ میری وجہ سے اس کی تنخواہ میں اضافہ ہوا ہے۔ اور میری سفارشوں کے باعث کمپنی کے دوسرے ڈائریکٹر اس سے کام لینے لگے ہیں۔

فلم کمپنی میں کام کرنے کے علاوہ میں وہاں ایک مقامی ہفتہ وار اخبار کو ایڈٹ کرتا ہوں۔ ایک روز میں نے اپنا اخبار عبد الرحمن کے ہاتھ میں دیکھا۔ جب وہ میرے قریب آیا تو مسکرا کر اس نے پرچے کی ورق گردانی شروع کر دی۔’’ منشی صاحب.... یہ رسالہ آپ ہی....‘‘

میں نے فوراً جواب دیا۔’’ جی ہاں۔‘‘

ماشاءاللہ، کتنا خوبصورت پرچہ نکالتے ہیں آپ

کل رات اتفاق سے یہ میرے ہاتھ آگیا.... بہت دلچسپ ہے، اب میں ہر ہفتے خریدا کروں گا۔‘‘

یہ اس نے اس انداز میں کہا جیسے مجھ پر احسان کر رہا ہے، میں نے اس کا شکریہ ادا کیا ، چنانچہ بات ختم ہو گئی۔

کچھ دنوں کے بعد جبکہ میں اسٹوڈیو کے باہر نیم کے پیڑ تلے ایک ٹوٹی ہوئی کرسی پر بیٹھا.... اپنے اخبار کے لئے ایک کالم لکھ رہا تھا۔ عبد الرحمن آیا اور بڑے ادب کے ساتھ کھڑا ہو گیا میں نے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا۔’’ فرمائیے۔‘‘

’’ آپ فارغ ہو جائیں تو میں ....‘‘

’’ میں فارغ ہوں .... فرمائیے آپ کو کیا کہنا ہے۔‘‘

اس نے جواب میں ایک رنگین لفافہ کھولا اور اپنی تصویر میری طرف بڑھا دی۔ تصویر ہاتھ میں لیتے ہی جب میری نظر اس پر پڑی تو مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی، یہ ہنسی چونکہ بے اختیار آئی تھی۔ اس لئے میں اسے روک نہ سکا۔ بعد میں جب مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ عبد الرحمن کو یہ ناگوار معلوم ہوئی ہو گی تو میں نے کہا۔ ’’عبد الرحمن صاحب، اتفاق دیکھئےمیں صبح سے پریشان تھا کہ ٹائٹل پیج کے بعد کا صفحہ کیسے پُر ہو گا، دو تصویروں کے بلاک مل گئے تھے۔ مگر ایک کی کمی تھی.... اس وقت بھی میں یہی سوچ رہا تھا کہ آپ نے اپنا فوٹو میری طرف بڑھا دیا.... بہت اچھا فوٹو ہے.... بلاک بھی اس کا خوب بنے گا۔‘‘

عبد الرحمن نے اپنے موٹے ہونٹ اندر کی طرف سکیڑ لئے۔’’ آپ کی بڑی عنایت ہے .... تو .... کیا یہ تصویر چھپ جائے گی؟‘‘

میں نے تصویر کو ایک نظر دیکھا اور مسکرا کر کہا، کیوں نہیں اس ہفتے ہی کے لئے تو میں یہ کہہ رہا تھا۔‘‘

اس پر عبد الرحمن نے دوبارہ شکریہ ادا کیا۔’’ پرچہ میں تصویر کے ساتھ ایک چھوٹا سا نوٹ بھی نکل جائے تو میں اور بھی ممنون ہوں گا.... جیسا آپ مناسب خیال فرما دیں .... تو.... معاف کیجئے، میں آپ کے کام میں مخل ہو رہا ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر وہ اپنے ہاتھ آہستہ آہستہ ملتا ہوا چلا گیا۔

میں نے اب تصویر کو غور سے دیکھا۔ آڑی مانگ نکلی ہوئی تھی، ایک ہاتھ میں بھاری بھر کم ڈائریکٹری تھی جس پر چھپے ہوے حروف بتا رہے تھے کہ سن سولہ کی یہ کتاب فوٹو گرافر نے اپنے گاہکوں کو تعلیم یافتہ دکھانے کے لئے ایک یا دو آنے میں خریدی ہو گی۔ دوسرے ہاتھ میں جو اوپر کو اٹھا ہوا تھا ایک بہت بڑا پائپ تھا۔ اس پائپ کی ٹونٹی عبد الرحمن نے اس انداز سے اپنے منہ کی طرف بڑھائی تھی معلوم ہوتا تھا کہ چائے کا پیالہ پکڑے ہے، لبوں پرچائے کا گھونٹ پیتے وقت جو ایک خفیف سا ارتعاش پیدا ہوا کرتا ہے وہ تصور میں اس کے ہونٹوں پر جما ہوا دکھائی دیتا تھا۔ آنکھیں کیمرے کی طرف دیکھنے کےباعث کھل گئی تھیں۔ ناک کے نتھنے تھوڑے پھول گئے تھے،سینے میں ابھار پیدا کرنے کی کوشش رائیگاں نہیں گئی تھی، کیونکہ وہ اچھا خاصا کار ٹون بن گیا تھا۔ یاد رہے کہ عبد الرحمن انگریزی پڑھنا لکھنا بالکل نہیں جانتا اور تمبا کو سے پرہیز کرتا ہے۔

میں نے اپنی گرہ سے دام خرچ کر کے اس کے فوٹو کا بلاک بنوایا اور وعدے کے مطابق تعریفی نوٹ کے ساتھ پرچےمیں چھپوایا۔

دوسرے روز دس بجے کے قریب میں کمپنی کے غلیظ ریسٹوران میں بیٹھا کڑوی چائے پی رہا تھا کہ عبد الرحمن تازہ پرچہ جس میں اس کی تصویر چھپی تھی۔ ہاتھ میں لئے داخل ہوا اور آداب عرض کر کے میرے پاس کھڑا ہو گیا۔ اس کے ہونٹ اندر کی طرف سمٹ رہے تھے۔ آنکھوں کے آس پاس کا گوشت سکڑ رہا تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ ممنون ہو رہا ہے، بغل میں پرچہ دبا کر اس نے ہاتھ بھی ملنے شروع کر دیئے، شکرئیے کے کئی فقرے اس نے دل ہی دل میں بنائے ہوں گے۔ مگر ناموزوں سمجھ کر انہیں منسوخ کر دیا ہو گا۔ جب میں نے اسے اس ادھیڑ بن میں دیکھا تو ماتم پرسی کے انداز میں اس سے کہا’’ تصویر چھپ گئی آپ کی.... نوٹ بھی پڑھ لیا، آپ نے؟‘‘

’’ جی ہاں .... آپ.... کی بڑی نوازش ہے۔‘‘

ایک دم میرے سینے میں درد کی ٹیس اٹھی۔ میرا رنگ پیلا پڑ گیا۔  یہ درد بہت پرانا ہے۔ جس کے دورے اکثر مجھے پڑتے رہتے ہیں۔ میں اس کے دفیعے کے لئے سینکڑوں علاج کر چکا ہوں مگر لاحاصل ،چائے پیتے پیتے یہ درد ایک دم اٹھا۔ اور سارے سینے میں پھیل گیا۔  عبد الرحمن نے میری طرف غور سے دیکھا اور گھبرائے ہوئے لہجہ میں کہا۔’’ آپ کے دشمنوں کی طبیعت ناساز ہے۔‘‘

میں اس وقت ایسے موڈ میں تھا۔  کہ دشمنوں کو بھی اس موذی مرض کا شکار ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ چنانچہ میں نے بڑے روکھے پن سے کہا، کچھ نہیں ، میں بالکل۔ ٹھیک ہوں۔

’’ جی نہیں ، آپ کی طبیعت نا ساز ہے....‘‘وہ سخت گھبرا گیا۔’’ میں آپ کی خدمت کر سکتا ہوں۔‘‘

’’ میں بالکل ٹھیک ہوں ، آپ مطلق فکر نہ کریں ، سینے میں معمولی سا درد ہے۔ ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

’’ سینے میں درد ہے‘‘.... یہ کہہ کر وہ تھوڑی دیر کے لئے سوچ میں پڑ گیا۔’’ سینے میں درد ہے تو.... اس کا مطلب ہے کہ آپ کو قبض ہے اور قبض....‘‘

قریب تھا کہ میں بھنا کر اس کو دو تین گالیاں سنا دوں مگر میں نے ضبط سے کام لیا۔’’آپ .... حد کرتے ہیں۔ آپ....سینے کے درد سے قبض کو کیا تعلق ؟‘‘

’’ جی نہیں .... قبض ہو تو ایک سو ایک بیماری پیدا ہو جاتی ہے اور سینے کا درد تو یقیناً قبض ہی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ آپ کی آنکھوں کی زردی صاف ظاہر کرتی ہے کہ آپ کو پرانا قبض ہے اور جناب، قبض کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کو ایک دو روز تک اجابت نہ ہو۔ جی نہیں۔ آپ جس کو با فراغت سمجھتے ہیں ممکن ہے یہ قبض ہو.... سینہ اور پیٹ تو پھر بالکل پاس پاس ہیں۔ قبض سے تو سر میں درد شروع ہو جاتا ہے.... میرا خیال ہے کہ آپ.... دراصل آپ کی کمزوری کاباعث بھی یہی قبض ہے۔‘‘

عبد الرحمن چند لمحات کے لئے بالکل خاموش ہو گیا۔ لیکن فوراً ہی اس نے اپنے لہجہ میں زیادہ چکناہٹ پیدا کر کے کہا۔’’آپ نے کئی ڈاکٹروں کا علاج کیا ہو گا.... ایک معمولی سا علاج میرا بھی کر دیکھئے.... خدا کے حکم سے یہ مرض بالکل دور ہو جائے گا۔‘‘

میں نے پوچھا۔’’ کون سا مرض؟‘‘

عبد الرحمن نے زور زور سے ہاتھ ملے۔’’ یہی....یہی، قبض!‘‘

لا حول ولا، اس بیوقوف سے کس نے کہہ دیا کہ مجھے قبض ہے۔ صرف میرے سینے میں درد ہے جو کہ بہت پرانا ہے اور سب ڈاکٹروں کی متفقہ رائے ہے کہ اس کا باعث اعصاب کی کمزوری ہے۔ مگر یہ نیم حکیم خطرہ جان برابر کہے جا رہا ہے۔ کہ مجھے قبض ہے۔ قبض ہے، قبض ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ میں غصے میں آ کر اس کے سر پر چائے کا پیالہ دے ماروں ، عجب نا معقول آدمی ہے، اپنی طبابت کا پٹارہ کھول بیٹھا ہے اور سنتا ہی نہیں۔

غصے کے باعث میں بالکل خاموش ہو گیا۔ اس خاموشی کا، عبد الرحمن نے فائدہ اٹھایا اور قبض کا علاج بتانا شروع کر دیا، خدا معلوم اس نے کیا کچھ کہا....

’’ بات یہ ہے کہ پیٹ میں آپ کے سدے پڑ گئے ہیں۔ آپ کو ہر روز اجابت تو ہو جاتی ہے۔ مگر یہ سدے باہر نہیں نکلتے معدے کا فعل چونکہ درست نہیں رہا۔ اس لئے انتڑیوں میں خشکی، پیدا ہو گئی ہے۔ رطوبت یعنی لیس دار مادہ جو فضلے کے نیچے پھیلنےمیں مدد دیتا ہے آپ کے اندر بہت کم ہو گیا ہے۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ رفع حاجت کے وقت آپ کو ضرورت سے زیادہ زور لگانا پڑتا ہو گا۔ قبض کھولنے کے لئے عام طور پر جو انگریزی مسہل دوائیں بازار میں بکتی ہیں بجائے فائدے کے نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس لئے کہ ا ن سے عادت پڑ جاتی ہے اور جب عادت پڑ جائے تو آپ خیال فرمائیے کہ ہر روز پاخانہ لانے کے لئے آپ کو دو تین آنے خرچ کرنے پڑیں گے.... یونانی دوائیں اوّل تو ہم لوگوں کے مزاج کے موافق ہوتی ہیں دوسرے....‘‘

میں نے تنگ آ کر اس سے کہا۔’’ آپ چائے پئیں گے؟ اور اس کا جواب سنے بغیر ہوٹل والے کو آرڈر دیا۔’’ گلاب، ان کے لئے ایک ڈبل چائے لاؤ۔‘‘

چائے فوراً ہی آ گئی۔ عبدالرحمن کرسی گھسیٹ کر بیٹھا تو میں اٹھ کھڑا ہوا۔‘‘ معاف کیجئے گا، مجھے ڈائریکٹر صاحب کے سین کے متعلق بات چیت کرنا ہے، پھر گفتگو ہو گی۔‘‘

یہ سب کچھ اس قدر جلدی میں ہوا کہ قبض کی باقی داستان عبد الرحمن کی زبان پر منجمد ہو گئی اور ریسٹوران سے باہر نکل گیا۔ درد شروع ہونے کے باعث میری طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ اس کی باتوں نے اس مکدر میں اور بھی اضافہ کر دیا۔  میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کیونکر اس بات پر مصر ہے کہ مجھے قبض ہے۔ میری صحت دیکھ کر وہ کہہ سکتا تھا کہ مد قوق ہوں جیسا کہ عام لوگ میرے متعلق کہتے آئے ہیں۔ وہ یہ کہہ سکتا تھا کہ مجھے سل ہے میر ی انتڑیوں میں ورم ہے۔ میرے معدے میں رسولی ہے میرے دانت خراب ہیں مجھے گٹھیا ہے۔ مگر بار بار اس کا اس بات پر زور دینا کیا معنی رکھتا تھا کہ مجھے قبض ہو رہا ہے یعنی اگر واقعی مجھے قبض تھا تو اس کا احساس مجھے.... پہلے ہونا چاہیے تھا نہ کہ حافظ عبد الرحمن کو.... کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ خواہ مخواہ مجھے قبض کا بیمار کیوں بنا رہا تھا۔

ہوٹل سے نکل کر میں ڈائریکٹر صاحب کے کمرے میں چلا گیا وہ کرسی پر بیٹھے ہیرو، ہیروئن اور تین چار ایکٹرسوں کے ساتھ گپیں ہانک رہے تھے۔ آؤٹ ڈور شوٹنگ چونکہ بادلوں کے باعث ملتوی کر دی گئی تھی۔ اس لئے سب کو چھٹی تھی۔ جب مجھے ہیرو کے پاس بیٹھے تین چار منٹ گذر گئے۔  تو معلوم ہوا کہ حافظ عبد الرحمن کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ہمہ تن گوش ہو گیا۔ ایک ایکسٹرا نے اس کے خلاف کافی زہر اگلا۔ دوسرے نے اس کی مختلف عادات کا مضحکہ اڑایا۔ تیسرے نے اس کے مکالمے ادا کرنے کی نقل اتاری۔ ہیرو کو حافظ عبدالرحمن کے خلاف یہ شکایت تھی کہ وہ اس کی بول چال میں زبان کی غلطیاں نکالتا رہتا ہے۔ دلن نے ڈائریکٹر صاحب سے کہا۔’’ بڑا واہیات آدمی ہے صاحب، کل ایک آدمی سے کہہ رہا تھا کہ میرا ایکٹنگ بالکل فضول ہے۔آپ اس کو ایک بار ذرا ڈانٹ کر بنا دیجئے۔

ڈائریکٹر صاحب ان سے مسکرا کر کہنے لگے۔’’ تم سب کو اس کے خلاف شکایت۔  مگر اسے میرے خلاف ایک زبردست شکایت ہے۔‘‘

تین چار آدمیوں نے اکٹھے پوچھا۔’’ وہ کیا۔‘‘

ڈائریکٹر صاحب نے پہلی مسکراہٹ کو طویل بنا کر کہا۔’’ وہ کہتا ہے کہ مجھے دائمی قبض ہے۔ جس کے علاج کی طرف میں نے کبھی غور نہیں کیا میں اس کو کئی بار یقین دلا چکا ہوں کہ مجھے قبض و بض نہیں ہے۔ لیکن وہ مانتا ہی نہیں۔ابھی تک اس بات پر اڑا ہوا ہے کہ مجھے قبض ہے، کئی علاج بھی مجھے بتا چکا ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ، مجھے اس طرح ممنون کرنا چاہتا ہے۔‘‘

میں نے پوچھا۔ ’’ وہ کیسے؟‘‘

یہ کہنے سے کہ مجھے قبض ہے اور اس کا علاج بتانے سے.... وہ مجھے ممنون کرنا چاہتا ہے۔ ورنہ پھر اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ بات دراصل یہ ہے کہ اسے صرف اسی مرض کا علاج معلوم ہے۔یعنی اس کے پاس چند ایسی دوائیں موجود ہیں۔ جس سے قبض دور ہو سکتا ہے۔ چونکہ مجھے وہ خاص طور پر ممنون کرنا چاہتا ہے اس لئے ہر وقت اس تاک میں رہتا ہے کہ جونہی مجھے قبض ہو وہ فوراً علاج شروع کر کے مجھے ٹھیک کر دے۔ آدمی، دلچسپ ہے۔‘‘

ساری بات میری سمجھ میں آ گئی اور میں نے زور زور سے ہنسنا شروع کر دیا۔’’ ڈائریکٹر صاحب.... آپ کے علاوہ حافظ صاحب کی نظر عنایت خاکسار پر بھی ہے.... میں نے کل ان کا فوٹو اپنے پرچے میں چھپوایا ہے۔ اس احسان کا بدلہ اتارنے کے لئے ابھی ابھی ہوٹل میں انہوں نے مجھے یقین دلانے کی کوشش کی کہ مجھے زبردست قبض ہو رہا ہے.... خدا کا شکر ہے کہ میں ان کے اس حملے سے بچ گیا۔ اس لئے کہ مجھے قبض نہیں ہے۔‘‘

اس گفتگو کے چوتھے زور مجھے قبض ہو گیا۔ یہ قبض ابھی تک جاری ہے،یعنی اس کو پورے دو مہینے ہو گئے ہیں۔ میں کئی پیٹنٹ دوائیں استعمال کر چکا ہوں۔ مگر ابھی تک اس سے نجات حاصل نہیں ہوئی، اب میں سوچتا ہوں کہ حافظ عبد الرحمن کو اپنی خواہش پوری کرنے کا ایک موقعہ دے ہی دوں کیا حرج ہے؟.... مجھے اس سے محبت تو ہے ہی نہیں۔‘‘

٭٭٭

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔