سفرنامہ محض خوش گوار حیرتوں کا دلچسپ بیان نہیں ہوتا بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم سفرنامہ نگار کا وہ ویژن ہوتا ہے کہ جو حیرتوں کے ساتھ ساتھ بصیرت کے پہلوؤں کو بھی منظر نامے کا حصہ بنا دیتا ہے۔ ایک کاروباری یا مصروف آدمی اگر کسی سفر کی روداد بیان کرے گا تو کہیں نہ کہیں سے باتوں ہی باتوں میں ڈالر اور پاؤنڈ بند مٹھیوں کو گرم کرنا شروع کر دیں گے۔ سفر مستنصر حسین تارڑ کریں یا ممتاز مفتی، ایک بات بہرحال بہت واضح ہے کہ سفرنامہ نگار کی اپنی طبع، نظریات، ذ ہنی مخمصے اور مسائل خود بخود تحریر میں شامل ہو کر کسی ملک، شہر یا گاؤں کے ساتھ ساتھ اپنی نگریا بھی آباد کر لیتے ہیں۔ یوں ایک ملک وہ ہوتا ہے کہ جس کے باشندے، گلیاں، گھر اور بازار اپنے اپنے ٹھکانوں پر آباد ہوتے ہیں اور ایک ملک، ملک معنیٰ ہوتا ہے کہ جسے سفر نامہ نگار اپنی تحریر میں آباد کر دیتا ہے۔اگر رودادِ سفر بیان کرتے ہوئے ملک معنیٰ کی سیر قاری نہیں کر پاتا تو اس سفر کی روداد ادھوری اور خام رہ جائے گی اور اگر قاری سفر نامہ نگار کے بسائے ملک کی بھی سیر کر لیتا ہے تو یقیناً ایسا سفرنامہ کامیاب سفرنامہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
انگلستان کی سنی سنائی باتیں اور دیکھی اٹھائی دلچسپیوں کا احوال بھلا کس سفرنامہ نگار نے بیان نہیں کیا۔ ہر پاکستانی کے ذہن میں ایک دھڑکتا، سانس لیتا لیکن ان چھوا انگلستان ضرور بستا ہے۔ بیشتر سفرنامہ نگاروں نے اسی ذ ہنی انگلستان کو مزے لے لے کر اور چٹخار چٹخار کر بیان کیا ہے۔ ایسی ایک طویل فہرست سفرناموں کی موجود ہے لیکن پروفیسر محمد اعظم خالدؔ کے لیے انگلستان میں دلچسپی انگلستان کی وجہ سے نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کے تمدن کے لیے کھٹی میٹھی یادوں کا کوئی رومان پرور حوالہ ہے بلکہ انھیں اپنے تہذیبی، فکری اور تمدنی زوال سے کہیں گلہ ہے کہیں ناراضگی اور کہیں برہمی۔’’فرصت نگاہ‘‘ سے قبل ستائیس سال پہلے اور پھر اس سے بھی کچھ پہلے کا ہندوستانی سماج، اس کی روایات و اقدار سب یاد آ جاتے ہیں۔ ستائیس سال قبل جب وہ انگلستان سدھارنے کے لیے جہاز میں سوار ہوئے تھے تو اس دن برصغیر پاک و ہند کے عظیم گائیک محمد رفیع کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی تھی، آج جب وہ دوبارہ عازم انگلستان ہوئے تو انھیں ماضی کے وہ لمحات یاد آ گئے جب ایک ہندو لیڈر نے رفیع کو محمد رفیع پکارے جانے کو سوئیکار کر لیا تھا۔ یہ اُس لیڈر کی محبت محمد رفیع سے تھی اور محمد رفیع کی محبت نبی اکرمؐ سے تھی۔ اس حوالے سے محمد اعظم خالدؔ نے ایک حسین نسبت کو دریافت کر لیا کیونکہ دونوں صاحب دل تھے اور دونوں درد کی لذت سے آشنا اور کرب میں رو دینے والے تھے۔لیڈر ایک ہندو برہمن اور محمد رفیع ایک مسلمان اور دونوں کے درمیان ایک نسبت قائم ہوتی تھی اور دونوں روتے تھے۔یہ نسبتیں بھی عجیب ہوتی ہیں۔من کی سچائیوں کو آشکار کر دیتی ہیں۔
اعظم خالدؔ کی دردمندی، مٹی سے محبت اور اپنے مذہب کے ساتھ ایک صوفی کے اخلاص کا تعلق’’ فرصت نگاہ‘‘ کو پہلی ہی نظر میں اپنا مداح بنا لیتا ہے۔ایک صوفی کی رواداری اور کسی ملا کے اخلاص میں کیا فرق پایا جاتا ہے ؟ یقیناً اس سفرنامے کا مطالعہ آگہی کے نئے در وا کرتا ہے۔ جہاز میں دورانِ سفر اعظم خالدؔ کو ایک مدرسے کے ملا کی ہم نشینی کا عذاب سہنا پڑا، جو چندہ اکٹھا کرنے کے لیے ملکوں ملکوں گھومتے تھے تاکہ دین کی نشر و اشاعت ہو سکے۔وہ اپنے مرحوم باپ سے مایوس اس لیے تھا کہ وہ بوریا نشین عمر بھر ایک ٹوٹی پھوٹی مسجد میں خدمتِ دین سرانجام دیتا رہا اور وقت کے تقاضوں کو نہ سمجھ پایا۔ ان تقاضوں کو عہد حاضر کا ملا سمجھتا تھا کہ جس نے مسجد کی جگہ ایک بہت بڑا مدرسہ کھول لیا تھا۔ فضائی میزبان خاتون جب پاس آئیں تو غیرتِ دینی کو جمع کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا کہ یہ خاتون انگریز لگتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس کی قربت میں مسلمان کی خوشبو نہیں بلکہ ناگوار بُو اٹھ رہی ہے۔ پوچھنے پر معلوم پڑا کہ وہ ملائیشیا کی ہے، مسلمان ہے اور اس نے حج بھی کر رکھا ہے۔وہ تو شکر ہے کہ اس کے شادی شدہ ہونے یا نہ ہونے کا علم نہ ہوا ورنہ محترم ملا صاحب شاید اسے حلقہ بگوش کرنے کی دعوت دے ڈالتے۔ پھر موصوف نے دو کتب عنایت کرنے کی ٹھانی اور اپنی مطبوعات کو یورپ میں بیچ کر ڈالر کمانے کا مشورہ دیا اور پرسنٹیج بھی طے کر لی۔ مگر افسوس اعظم خالدؔ نے دین و دنیا کمانے کا یہ موقع ہاتھ نہ آنے دیا۔ ملا کی ظاہر داری کو جس طرح اعظم خالدؔ نے عیاں کیا ہے اس کا مقصد توہینِ مُلّا نہیں ہے بلکہ یہ بتانا ہے کہ ٹوٹی پھوٹی مسجد کا فقر جب عالی شان مدرسے کی امارت کا روپ اختیار کر گیا تو مُلّا کا روحانی و جسمانی مقام بھی بدل گیا۔ یہ دراصل اعظم خالدؔ کے اندر چھپے ایک صوفی کا بھید کھولتا ہے۔
ایشیا اور یورپ میں ’’صفائی‘‘ کے حوالے سے سفرنامہ نگاروں کا موازنہ بڑی دلچسپی کا حامل رہا ہے۔ایشین اور پاکستانیوں کی بستیاں خواہ انگلستان ہی میں کیوں نہ آیا ہوں غلاظت اور حسن و نزاکت کا فرق بہت جلد سامنے آ جاتا ہے یعنی ایشیائی غلاظت پھیلانے میں کسر نہیں چھوڑتے اور انگریز صفائی کرنے میں سستی نہیں برتتے۔
حیرت انگیز طور پر اس تمدنی فرق کو اعظم خالدؔ نے ایک اور جگہ پر دریافت کیا ہے کہ یہ غلاظت پاکستانی معاشرت اور اس کے تہذیبی سانچے میں بھری پڑی ہے۔ بظاہر پوری دنیا میں پاکستانی مسلمان اپنے قومی ترانوں میں اپنی عظمت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس معاشرت کا عمومی مزاج انتہائی سنگدل اور بے حس ہے۔اعظم خالدؔ کے خیال میں پاکستان کے لوگ اولڈ پیپلز ہوم کے حوالے سے یورپ کی انتہائی مکروہ تصویر پیش کرتے ہیں جب کہ یہ گھر بزرگوں کے لیے نعمت سے کم نہیں ہیں، یہ مغربی تمدن کی خوبی ہے کہ اس نے اپنے بزرگوں کو بے یارو مدد گار نہیں چھوڑا بلکہ پوری قوم کے بیٹے اور بیٹیاں اپنے اجتماعی ٹیکسوں اور اعانت سے ریاستی سطح پر ان گھروں کو چلاتی ہیں۔ یہ وہ قوم ہے کہ جو معذور کو مکان، علاج، گاڑی غرض ہر سہولت سے سرشار کر دیتی ہے، ایسی قوم نے اپنے بزرگوں کے لیے بھی اجتماعی سوچ کو اہمیت دی اور اولڈ ہومز بنا دیے اور ادھر بزرگوں کی حالت بعض صورتوں میں یہ ہے :
’’گھر میں اگر بیوی بیٹی کا سہارا ہے تو دن، برے بھلے گزرتے رہتے ہیں۔ اگر بیٹے ہیں تو باہر کی مخلوق ہیں۔ ایسے حالات میں بوڑھی بوڑھا بہوؤں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جن کے ساتھ ان کا کوئی خونی رشتہ نہیں ہوتا اگر کوئی رشتہ ہے بھی تو غیر شعوری رقیبانہ۔ بس تو پھر بوڑھی بوڑھے کو سر کا بوجھ سمجھ کر جلد سبک دوشی کی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ من چاہا تو انھیں کھانا پینا، دوا دارو دیا، چڑچڑے پن کو برداشت کیا۔وگرنہ کسی کال کوٹھڑی میں رکھ دیا۔‘‘
اولڈ ہوم کے بزرگوں کی ایک ایسی تقریب کا احوال اعظم خالدؔ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے اپنے سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔
’’تقریب میں درجنوں انگریز بوڑھے بوڑھیاں بہ کمال نفاست سجائے گئے شامیانوں تلے بار بی کیو بناتے تھے۔ چیزیں بیچتے تھے۔ چیرٹی اکٹھا کرتے تھے۔گاتے بجاتے یا ہنستے مسکراتے، پیتے پلاتے تھے۔ کوئی دل پر ہاتھ رکھ کر گواہی دے اپنے ہاں کبھی بوڑھے بزرگوں کو ایسی اجتماعی خوشی مہیا کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ نہیں کیا گیا ناں ! اور ہم کریں گے بھی نہیں کیونکہ ہمیں دوسروں پر تنقید سے فرصت ملے تب نا۔‘‘
یہ دراصل اعظم خالدؔ کی اپنی دردمندی کا معاملہ اور اپنی معاشرت سے تقاضا ہے کہ جن مشرقی تہذیبی اقدار کو ہم بہت مقدس جانتے ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ معاشرتی زندگی سے بھی ہم آہنگ ہوں۔ مغربی معاشرت نے کبھی نہیں کہا کہ ہماری یہ اور وہ تہذیبی اقدار ہیں بلکہ وہ تو پورے ہزار سالہ عہد کو قرونِ مظلمہ کہتے ہیں اور پھر احیائے علوم کی تحریک کے بعد کا زمانہ یورپ کی جدوجہد کا زمانہ ہے کہ جو تہذیبی حوالے سے ہنوز جاری ہے، انھوں نے بہت کچھ سیکھا ہے لیکن ابھی طے نہیں کیا۔جب تک معاشرتی زندگی کے پھیلاؤ میں اپنی قدری حیثیت کی بنا پر کوئی بات ’’طے ‘‘ نہیں ہو جاتی وہ روایت یا تہذیبی قدر بھی نہیں بن پاتی۔ افسوس! مشرقی اقوام نے جو کچھ ’’طے ‘‘ کر رکھا تھا۔ اس کے برتنے کا زمانہ بیت گیا اور اب جو ہے وہ مغرب کی جدوجہد سے کچھ ’’سیکھنا‘‘ ہے۔اعظم خالدؔ بین السطور بار بار اسی جانب اشارے کرتے ہیں۔ اعظم خالد ؔ جب تارکین وطن کی شب و روز محنت، لگن، تکان، بے وطنی اور تنہائی کے عذاب جھیل کر حاصل ہونے والی حلال کی کمائی پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو ان کا دل غم کی شدت سے معمور ہو جاتا ہے کہ اس کمائی کو لوٹنے والے کس کس روپ میں جھولی پھیلائے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔یہاں مسئلہ اعظم خالدؔ کے عقیدے کا نہیں ہے بلکہ سماجی شعور کے نتیجے میں اُبھرنے والے درد و سوز کا ہے۔
’’اول قسم ان مشائخِ عظام کی ہے جنھیں بالعموم موسمِ گرما میں سالانہ تبلیغی دورہ پڑتا ہے۔ یہ لوگ تزئینِ قبور اور آرائشِ مزار کے نام پر جھولی پھیلاتے ہیں اور خون پسینہ ایک کرنے والے محنت کشوں کی حلال کی کمائی بہ کمال خوبی اپنی شیریں زبانی کے طفیل ہتھیانے کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔بلکہ ہتھیا لیتے ہیں دوسرا طبقہ وطنِ عزیز میں زیرِ تعمیر(مبینہ) مساجد اور (مبینہ)جاری مدارس کے نام پر دستِ سوال دراز کرتا ہے۔‘‘
سفرنامہ نگار کو اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ان خادمانِ دین پر حیرت ہوتی ہے جو خود فاقہ کش رہے اور محلے کی کچی مسجد میں بیٹھ کر ہزارہا کو حفاظ بنایا۔ چنانچہ اعظم خالدؔ کے لیے ایسے غریب اور غریب پرور دین دار لوگوں اور بریڈ فورڈ کے کروڑ پتی مسٹر لسٹر جیسے لوگوں میں کوئی فرق نہیں جو دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے زندگی بھر کی دولت، کمائی اور اثاثوں کو وطن اور اہلیان وطن کی نذر کر جاتے ہیں۔ اعظم خالدؔ کو افسوس ہے کہ ادھر وطن عزیز میں دمِ نزع پر بھی یتیموں اور لاوارثوں کی دولت اور املاک ہتھیانے کی فکر لاحق ہوتی ہے۔یہ سوال بہت اہم ہے کہ اعظم خالدؔ بوڑھے سکاٹ کاشت کار جیسے زندہ کر داروں کو سفرنامے میں کیوں پیش کرتے ہیں۔ ’’ڈیلی مرر‘‘ میں اس کی تصویر اس سٹوری کے ساتھ چھپی تھی کہ اس نے پاکستانی روپوں کے حساب سے ایک ارب چونتیس کروڑ روپیہ عمر کے آخری حصے میں جب شاید اس کی زیادہ ضرورت ہو گی فی سبیل اللہ چیرٹی میں دے دیا اور خود کونسل کے مکان میں اٹھ گیا کہ جہاں دو وقت کی روٹی کی فراہمی حکومتی ذمہ داری تھی، اس کے خیال میں اس نے بروقت فیصلہ کیا تھا اور یہ کہ اس کے اپنے بچوں کو اس کی ضرورت اس لیے نہ تھی کیونکہ ان کا رازق بھی اللہ ہے۔ اس بابے کی قلندری اور فقر کو دیکھ کر کبھی سفرنامہ نگار کو حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی یاد آ جاتی ہے اور کبھی حضرت عمرِ فاروق ؓ اور ان کے بیٹے کی۔ اعظم خالدؔ کا شاید خیال یہ ہے کہ ’’اپنے آبا کی کتابیں ‘‘ ادھر مغرب میں کام دکھا گئی ہیں۔
’’فرصت نگاہ‘‘ شاہراہِ مغرب سے ہوتی ہوئی تاریخ کے اس چورا ہے تک خودبخود پہنچ جاتی ہے کہ جہاں مسلمانوں کا دل آویز ماضی اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ آرا ہے۔ اعظم خالدؔ کے نزدیک اس ماضی کی سب سے اہم ترین بات ’’انصاف‘‘ ہے۔ یہ وہ بات ہے کہ جو رسول عربی ؐ کا پیام اور خلفائے راشدین کی آرزو رہی ہے۔ اس عہد کی طرف مراجعت کا بنیادی سبب محض یادِ ماضی کا ناسٹیلجک حوالہ نہیں ہے بلکہ وہ انصاف ہے کہ جس کا مشاہدہ اعظم خالدؔ شاہراہِ فرنگ کے ہر موڑ پر کرتے ہیں۔ پھر انصاف بھی وہ انصاف نہیں کہ جس کی چشمِ بصیرت پر کٹھور پن کی سیاہ پٹی بندھی ہوئی ہے بلکہ انصاف ایسا ہے کہ جس میں ریاست اور ریاستی قانون کے ذریعے ہمدردی، محبت اور انسان دوستی کا پہلو بھی شامل ہے۔ انصاف کے اس لطف و کرم سے بہ غرض اصلاح گناہ گار اور گمراہ لوگ بھی محروم نہیں ہیں۔ انصاف کے یہ وہ پہلو ہے کہ جس پر نگاہ نہ کبھی کٹھ ملا کی پڑتی ہے اور نہ ہی انصاف کے زعم میں ڈوبے کسی ظلِ الٰہی کی کہ جس کے لیے باپ، بھائی، دوست، عزیز اور رشتہ دار محض بادشاہ کی انصاف پسندی کی خونی بھینٹ ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ بھی ان بادشاہوں سے بھری پڑی ہے۔ایسے انصاف پسند بادشاہ کی نگاہ میں غریبوں اور مجبوروں کے ساتھ ہمدردی کے جذبات بھلا کیسے پیدا ہو سکتے ہیں ؟ادھر فرنگ ہے کہ کارِ مسلمانی میں سرتاپا ڈوبا ہوا ہے :
’’قوانینِ انگلیسیہ میں آج طے ہے کہ جوں ہی ڈاکٹر کسی عورت کے پیٹ میں بچے کی تصدیق کرے گا۔ اس کا وظیفہ بندھ جائے گا۔ ماں باپ کفالت سے بے نیاز ہو جائیں گے۔ اے کاش رب کائنات ملت مرحومہ میں ایک عمرؓ پیدا کر دے۔‘‘
ذہن میں یہ بھی سوال کلبلاتا ہے کہ اگر اعظم خالدؔ کے پاس مورخ کا شعور نہ ہوتا تو کیا انگلستان کے حوالے سے کوئی اچھوتا خیال افروز سفرنامہ معرض وجود میں آتا؟ جواب یہ ہے کہ اعظم خالدؔ کی اسی خوبی نے اس سفرنامہ کو انگلستان کے تمام سفرناموں میں ممتاز بنا دیا ہے۔ لگتا ہے کہ اعظم خالدؔ کو اپنے کسی "Stone of Destiny"کی تلاش ہے۔ یہ سوال خود اعظم خالدؔ کے بھی سامنے آیا تھا:
’’بجا کہ رودادِ سفر کو تقابلی دستاویز نہ بننا چاہیے، مگر کیا کیجیے قلبِ حساس کا کہ قدم قدم پر وہی کہانیاں، وہی کر دار، فقط نام اور رویے بدلے ہوئے۔‘‘
’’فرصت نگاہ‘‘ ایک ایسا سفرنامہ ہے کہ جس میں اعظم خالدؔ کا اہلِ وطن کی بے حسی سے گلہ رائیگاں نہیں گیا۔ یہ سفرنامہ خود ایک حساس اور درد مند پاکستانی کے وجود کا اثبات ہے۔ یہ بات درست ہے کہ سرمایہ دار مغربی ہو یا ایشیائی، مسلمان ہو یا یہودی اسے صرف اپنے منافع سے غرض ہوتی ہے لیکن ایک فرق ہے کہ جسے اعظم خالدؔ نے ڈھونڈ نکالا ہے کہ ادھر پاکستان میں اچانک پچپن روپے میں کل خرچ پر بننے والا سیمنٹ کا تھیلا ساڑھے تین سو روپے میں بیچنے کا اعلان کر دیا جاتا ہے اور ادھر فرنگ میں سامان تعیش عیاشوں کی پہنچ سے بھی باہر ہے جب کہ اشیائے ضروریہ ہر کس و ناکس کی دسترس میں ہیں۔ یہاں سرمایہ دار کا منافع مزدور کی محنت سے قریب تر ہے۔ لوٹ کھسوٹ کا اندھا کاروبار نہیں ہے کہ پاکستان جیسے ممالک جس کی بہترین مثال ہیں۔
اعظم خالدؔ نے اپنے سفرنامے میں ولیم شیکسپیئر کی جنم بھومی سٹراٹ فورڈ کا بھی ذکر کیا ہے۔باتوں باتوں میں وہ ایک اور طرف نکل جاتے ہیں اور شیکسپیئر کے کر داروں کو پاکستانی معاشرت میں جس انداز میں لے جاتے ہیں، قاری داد دیے بغیر نہیں رہ پاتا:
’’آج وطنِ عزیز میں کتنے بروٹس چہروں پر تقدس و تقویٰ سجائے زبان کی شیرینیوں سے سیزروں کو دامِ فریب میں گرفتار رکھے، خنجر بدست موقع کی تلاش میں ہیں۔ کتنے فریب خوردہ سیزر تاریک راہوں میں مارے جاتے ہیں مگر کوئی انٹونیو دُور دُور تک نظر نہیں آتا جو نعرہ لاتذر کا نقیب ہو۔‘‘
اعظم خالدؔنے چلتے چلتے ایک جگہ سرزمینِ فرنگ کی ’’کنواری ماں کی کنواری بیٹی‘‘ کا بھی ذکر تاریخ اور روایت کے سلسلوں کو جوڑتے ہوئے چھیڑا ہے۔ یہ اس ماں کا ذکر ہے کہ جس کے ضعفِ نسوانیت سے قوت مردانگی نے ناجائز فائدہ اٹھایا تھا۔ ایک حیات کیا مٹی کہ دوسری کا آغاز ہوا۔ کلیسا کی طاقت سے کنواری پر حد لگی اور وہ بستی بدر ہوئی۔ قصّہ کوتاہ جس غار میں اس نے بچی کو جنم دیا ج وہی غار زیارت گاہ ہے ، ان کے لیے جو لاہور کے گھوڑے شاہ کے مزار کی طرح
اولاد کے حصول کے لیے مزار پر ننھے منے گھوڑوں کے چڑھاوے چڑھاتے ہیں، ان میں اچھے مستقبل کی نوید کی آرزو مند کنواریاں بھی ہیں اور سہاگنیں بھی۔ عالمی سطح پر معاشروں میں موجود انسانی تعلقات کی یہ کھوج اور یکسانیت کا یہ امتزاج ڈھونڈ نکالنا علی عباس جلالپوری کی کتاب ’’ انسان اور کائنات‘‘ کی یاد تازہ کر دیتا ہے ، لیکن منٹو جیسا سماج کا جارح نقاد اور علی عباس جلالپوری جیسا بالغ وبینا مورخ اس امتزاج سے وہ نتائج اخذ کرنے کی جرات نہ کر سکا کہ جن کو اعظم خالدؔ نے اپنے سفرنامے میں پوری شدت اور ٹھیک ٹھیک سفاکی اور ہنر مندی کے ساتھ پیش کر دیا:
’’آج کلیسا کا منافقانہ انصاف پسپا ہو چکا ہے۔آج کسی بھی کنواری ماں کا بچہ بے یار و مدد گار نہیں۔ حکومت خود کفالت کرتی ہے۔گناہ کار کے کرتوتوں کی سزا بے گناہ نو مولودوں کو نہیں ملتی۔ جب کہ وطنِ عزیز میں گناہ گار صاف بچ جاتے ہیں اور بے گناہ معصوم نو مولودوں کا مقدر کوڑے کے ڈھیروں پر کتوں سے نُچتے بدن ہوتے ہیں۔ثنا خوانِ تقدسِ مشرق خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ عزتِ سادات بچی اور خس کم جہاں پاک بلکہ یہاں تو زمانے میں وہ منظر بھی دیکھے کہ کنواریاں معصوموں کو گود میں لیے پسِ دیوار زنداں تھیں اور ان کے دامنِ عصمت کو تار تار کرنے والے سورمے معاشرے میں تلاشِ مزید میں سرگرداں۔سنگ مقید و سگ آزاد۔
اعظم خالدؔ کی نگاہ شاید اس جانب مبذول نہیں ہوئی کہ ہمارے پاکستانی معاشرے کا ایک فرد عبدالستار ایدھی منظر عام پر آ چکا ہے کہ جس نے ایسے بچوں کے لیے اپنے سینٹروں سے باہر ’’جھولے ‘‘ رکھوا دیے ہیں۔ تاہم اسے بھی یکسر طور پر ازالۂ حیثیت عرفی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اعظم خالدؔ کی انسانیت اور وطن کے ساتھ محبت اور عقیدت جوالہ بن کر ان کے خون میں رقص کرتی دکھائی دیتی ہے۔ انھیں اس بات پر بجا طور پر فخر ہے کہ بربریت کے ہر سانحے اور قدرت کی ہر ستم
ظریفی کے موقعے پر نوجوان مرد و زن کی قطاریں اپنے خون کا آخری قطرہ تک دان کرنے کے لیے ہسپتالوں کے باہر لگ جاتی ہیں لیکن نظام کے اندھے اور منہ زور اژدہے کے سامنے وہ اپنے آپ کو مجبور اور بے دست و پا محسوس کرتے ہیں۔ دوسروں کی جنگ ان پر حکمران مسلط کرتے ہیں اور وہ خود ہر عہد میں اپنی ’’جنگ‘‘ ہار جاتے ہیں۔ اعظم خالدؔ نے درست کہا ہے کہ بحیثیت قوم اپنی جنگ خود ہارنے کے وسائل بھی ہم خود مہیا کرتے ہیں اور اس شکست کا نتیجہ یہ ہے کہ:
’’مذہبی رواداری عنقا ہوئی، فرقہ واریت کو مہمیز ملی تو مساجد اور امام بارگاہیں لہو میں نہا گئیں۔ قوم کے نوجوانوں کی رگوں میں ہیروئن کا زہر سرایت کر گیا۔کتاب سے مزین ہاتھ بندوق آشنا ہوئے۔ جنتوں کی بشارتیں عام ہوئیں۔شہادتوں کی بولیاں لگنے لگیں۔ بالآخر سرمایہ دارانہ نظام کی جیت ہوئی۔ریچھ کے پنجے گاڑ دیے گئے۔ اب ہاتھی کھیل کھیلے گا۔‘‘
اعظم خالدؔ نے انگلستان کی سیاحت میں ایک کیسینو(جوا خانہ) کا حال بھی بیان کیا ہے کہ جہاں کے تمام جواری اور تماش بین اپنے اپنے دھندوں میں ایسے غرق ہیں کہ اس کی حدود سے باہر کی دنیا سے بالکل آزاد ہیں حالانکہ اسی دنیا میں اسلام آباد کی لال مسجد بھی ہے، افغانستان اور عراق بھی۔ سفرنامہ نگار اس کی وجوہات بیان نہیں کر پائے۔ یہ ایک ایسا مقام ہے کہ جہاں سفر نامہ میں ’’ٹُک دیکھ لیا، دل شاد کیا‘‘ سے کام نہیں چلنا چاہیے تھا۔انگلستان کے عام شہری زندگی کے جس ڈھرے پر شب وروز بسر کرتے ہیں ، وہ ایسا کیوں ہے کہ غفلت کو شعار بنا لیں۔ سفرنامہ کے آخر میں کیسرین کا ذکر ہے۔ اعظم خالدؔ اگر ایسی کسی لڑکی کی تصویر نہ بھی دیتے تو بھی قاری اپنے تخیل میں کوئی تصویر بسا لیتا۔ کیسرین کی تصویر ہر قاری کو اس جانب راغب کرتی ہے کہ وہ پورے سفرنامے کو چھوڑے، پہلے اسی کا تذکرۂ خیر یا تذکرۂ شر پڑھے۔ کیسرین کے گھر کی پانچ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اعظم خالدؔ نے اپنے ماضی کی جن یادوں کو تازہ کیا ہے، وہ بہت خوب ہے۔لیکن کیسرین کے تذکرے کو انھوں نے نیم رومانوی بنانے کی بھی کوشش نہیں کی حالانکہ آرزو اِدھر ادھر پھدکتی اور دندناتی صاف نظر آ جاتی ہے۔کیسرین سے اپنا آپ بچانا قاری ہضم نہیں کر پاتا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ فلسفے کی طالبہ تھی۔تاہم تصویر بتاتی ہے کہ کیسرین کا فلسفے کی طالبہ ہونا بالکل بے معنی ہے۔ کیسرین کے کر دار کی ایک خوبی ضرور تھی کہ جسے سفرنامہ نگار نے بڑی عمدگی سے پیش کیا اور وہ ہے کیسرین کا بلا تفریق رنگ، نسل، زبان، مذہب اور کلاس کے انسانیت پر پختہ اور محکم یقین۔ یہ دراصل خود اعظم خالدؔ کا آئیڈیل ہے۔ اپنے اس آئیڈیل کو انھوں نے آئیڈیل ہی رہنے دیا ہے۔ رئیلٹی میں نہیں بدلنے دیا کیونکہ پورا سفر نامہ بناتا ہے کہ رئیلٹی بڑی تلخ اور کٹھور ہے۔ مضمون کے آغاز میں جس ملکِ معنیٰ کا ذکر کیا گیا تھا وہ اعظم خالدؔ کا آئیڈیل ہے۔
سفرنامے کے اسلوب کی صورتِ حال یہ ہے کہ نہ یہ سادہ ہے نہ بیانیہ۔ جملوں کی ساخت ادیبانہ رنگ کے ساتھ ساتھ دانشورانہ آہنگ رکھتی ہے۔قاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ اقوامِ عالم بالخصوص مسلمانوں کی تاریخ سے بخوبی آگاہ ہو اور اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ قاری مطالعہ تاریخ کا ذوق سلیم بھی رکھتا ہو۔اسلوب میں افسردگی اور ملال کا پہلو موجود ہے لیکن قاری کی خود اپنی طبعِ فکر کی گتھیوں کو سلجھانے میں کچھ ایسی محو ہو جاتی ہے کہ افسردگی اور ملال کا پہلو تحریر کی حد تک ہی موجود رہتا ہے۔ اسے کلام کا معجزہ سمجھنا چاہیے۔طنز ہر جگہ موجود ہے لیکن شرارت سے قطعاً عاری، دل سوزی کی پوری فضا دُکھ اور کرب کو شعور کی پناہ گاہ بنا دیتی ہے۔یہ سفر نامہ حقیقت اور افسانے کا تال میل نہیں ہے بلکہ حقیقت اور تدبر سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔یہی اس کا امتیاز ہے۔’’فرصتِ نگاہ‘‘ کو سرمد اکادمی، اٹک نے ۲۰۰۸ء میں شائع کیا۔
٭٭٭
سفرنامہ اردو ادب کی خوب صورت اور دل چسپ صنفِ اظہار ہے۔ اس کا دوہرا پن نہ صرف دائرہ در دائرہ پھیلے ہوئے اسفار کے اسرار منکشف کرتا ہے بل کہ مصنف کی ذات، محسوسات، خیالات، مشاہدات اور تجربات کا آئینہ ہونے کا ثبوت بھی فراہم کرتا ہے۔ اگر سفرنامہ نگار قادر البیان اور جزئیات کو یک جا کر کے کل کی بہترین تصویر کشی پر کمال رکھتا ہو تو رشحاتِ قلم ایک گراں قدر فن پارے ایک صورت میں ڈھل کر نہ صرف امر ہو جاتے ہیں بل کہ وقت خود ان لفظوں کا مول لگاتا اور انھیں ابلاغ عطا کرتا ہے۔
ایک اچھا کہانی کار ہمیشہ کام یاب سفر نامہ نگار یا روداد نویس ہو سکتا ہے کیوں کہ اسے عام سی بات کو بھی دل کش پیرائے میں بیان کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔ کہانی کاری کو سفرنامہ نگاری میں منتقل کرنے کا خوب صوت تجربہ ہمیں پروفیسر اعظم خالدؔ کی رودادِ سفر ’’فرصت نگاہ‘‘ میں دکھائی دیتا ہے۔
سرمد اکادمی اٹک سے ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کے وقیع مقدمے کے ساتھ شائع ہونے والے اس سفرنامے میں دیسی و بدیسی زندگی کے سب ہی شوخ و مدھم رنگ دکھائی دیتے ہیں۔
سفرنامے کی پہلی اہم خاصیت اس کا اسلوبِ نگارش ہے۔ پیش لفظ کی پہلی سطر وہ کلید اوّل ہے جو پنجاب کے ایک دور افتادہ علاقے کے مخصوص کلچر کا دروازہ کھولتی ہے۔ خود داری، مہمان نوازی، کشادہ دلی اور وفا جیسی عظیم اقدار کے رنگوں سے سجے مقامی حجرے نہ صرف تہذیبی مراکز کی حیثیت رکھتے ہیں بل کہ قصہ گوئی کے ضمن میں جس تاریخ کے حامل ہیں ، ’’فرصت نگاہ‘‘ اس کا معتبر حوالہ ہے۔ مصنف نے اپنے پختہ کار قلم میں وہی جادو اور وہی کمال رکھا ہے جو حجروں، چوپالوں کے قصہ گوؤں یا عیش باغ لکھنو کے داستان طرازوں کا شعار تھا۔
پہلی پرواز سے واپسی کی اڑان تک قاری ’’مسافر‘‘ کے ہم راہ مسلسل محوِ سفر رہتا ہے لیکن کہیں بھی تھکن کا احساس نہیں ہوتا۔ ’’مسافر‘‘ (مصنف نے اپنے لیے یہی لفظ استعمال کیا ہے ) حسبِ منشا قاری کو دعوت سفر دیتا ہے۔ دیارِ غیر کی سیر کراتے ہوئے یورپ کے چمکتے سونے کی حقیقت سے آشنا کراتا ہے۔ فرنگیوں کے دیس میں بابوں کے مزارات پر لے جاتا ہے، جامعات کی اندرونی دنیا دکھاتا ہے، وداع و وصل کی جداگانہ لذتوں کے ذائقے چکھاتا ہے اور پھر شام الم مطربہ کے نام کر کے کسی اگلے سفر کے لیے تازہ دم ہونے کی خاطر پڑاؤ ڈال دیتا ہے۔
بہت خوب! جس سفر کا آغاز محمد رفیع کی لے سے ہوا اس کا اختتام کسی رقاصہ کے رقص دل فریب پہ ہو تو تعجب کی بات نہیں کہ مصنف نے روداد سفر کا انتساب ہی طلسمِ جمال کے نام کیا ہے جو عکس و آہنگ سے بھی ہویدا ہے۔
’’فرصتِ نگاہ‘‘ کے مصنف کے ہاں عہدِ گزشتہ، عہد موجود ہم آویز نظر آتے ہیں۔ ہر خیال کسی دوسرے احساس کی ڈور سے بندھا ہے۔ واقعات اور مشاہدات مربوط دکھائی دیتے ہیں۔ شخصیات کے تقابلی جائزے ماضی اور حال کو روبرو کھڑا کر دیتے ہیں۔ ہم سفر دنیا دار مولوی صاحب کی گفتگو مصنف کے علاقے کے ایک درویش امام مسجد سے تعارف کا سبب بنتی ہے۔ شیخ مقصود سے ملاقات تصور کی ایک ایسی وادی میں لے جاتی ہے جہاں اکتوبر ۲۰۰۵ء کے زلزلے میں جنم لینے والا ایک انسانی المیہ سامنے آ جاتا ہے، کہیں ماضی و حال کا یہ سنگم ہمیں گار لنگٹن سٹریٹ سے واپس اس خیمے میں لے آتا ہے جہاں گلنار مقیم ہے۔ بازدید و بازگشت کی یہ کیفیت سفرنامے کا نمایاں حسن بن کر ابھری ہے۔ زبان و بیان کی صحت کا خاص خیال رکھا گیا ہے جو مصنف کے اردو ادب کا استاد ہونے کی دلیل ہے اور حرمت لفظ سے آگہی کا حوالہ بھی ہے۔
٭٭٭
اردو سفر نامے کی روایت اپنی ہیئت اور اسلوب کے اعتبار سے ڈیڑھ سو برس سے قائم ہے مگر چند نام ہی فنی پختگی اور تازہ کاری کی بدولت اپنی پہچان قائم رکھ سکے۔ یوسف خان کمبل پوش کا عجائبات فرنگ، بیگم اختر ریاض الدین کے سفر نامے : دھنک پر قدم، سات سمندر پار، ابن انشا کے سفر ناموں کے علاوہ مستنصر حسین تارڑ، عطا الحق قاسمی، پروین عاطف، رضا علی عابدی اور نیلم احمد بشیر معتبر نام سمجھے جاتے ہیں۔
پروفیسر اعظم خالد کا سفر نامہ فرصتِ نگاہ اپنے منفرد اسلوب، اچھوتے تخیل، ژرف نگاہی اور جودتِ طبع کے اعتبار سے انفرادیت کا حامل ہے۔ فاضل مصنف کے ہاں کہیں داستانوں جیسی رومان انگیز تحیر کی فضا، کہیں تصوف کی جھلک ما بعد الطبعیاتی کیفیت سے مزین ہے، کہیں مصنف نے فلیش بیک تکنیک اور شعور کی رو استعمال کر کے امتِ مسلمہ کے شاندار ماضی اور عظمتِ رفتہ کی روایات کو زندہ کیا ہے۔ اسلوب کی رنگینی اور غنائیت کے ساتھ ساتھ رمز و کنایہ، بذلہ سنجی اور شگفتگی نے سفر نامے کی دل کشی و رعنائی کو دو چند کر دیا ہے۔
پیش لفظ میں فاضل مصنف نے جس باریک بینی اور ذکاوت سے اپنے گاؤں کے چوپال کی منظر کشی کی ہے وہ قاری کو بھرپور انداز سے اپنے سحر میں لے لیتی ہے۔ صفحہ 9 پر لکھتے ہیں :
’’بچے باپوں کی گود میں ان کی چادر کی بکل میں بیٹھے کانگرو بچوں کی طرح منہ باہر نکالے جماہیاں لیتے رہتے۔‘‘
فاضل مصنف نے حسنِ ازل کے موضوع پر فلسفے اور تصوف کی آمیزش سے جو مابعد الطبیعیاتی فضا قائم کی ہے اس کی ایک جھلک صفحہ 29 پر مشاہدہ ہو۔
ٖ’’حسن جو اکائی میں مستور مگر علامتوں میں ظاہر ہے علامتیں جو بدلتی رہتی ہیں مگر حسن کو ابدیت کے چہرے مرجھا جاتے ہیں۔ مناظر دھندلا جاتے ہیں مگر حسن قائم رہتا ہے۔ یہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔‘‘
مصنف نے اپنے گہرے سماجی شعور اور عمیق مشاہدے کی بدولت انگلینڈ یا ترا کے دوران ہر جاکو سرسری دیکھنے کی بجائے جہانِ دیگر کے طور پر دیکھا ہے۔ صفحہ 41 میں لکھتے ہیں :
’’پاکستانیوں کی مکانیت دور ہی سے پہنچائی جا سکتی ہے گھروں کے باہر بے ربط گھاس غلاظت کے تھیلے ڈسٹ بن کے گرد و نواح میں موجود اور ڈسٹ بن صاف ستھرے۔ بیرونی دروازوں کے گرد کاغذ کے ٹکڑے، سگریٹ کے ٹوٹے، گویا پتا دیتی ہے شوخی نقشِ پاکی، آگے لکتے ہیں ایشیائی غلاظت پھیلانے میں کسر نہیں چھوڑتے اور انگریز صفائی کرنے میں سستی نہیں برتتے۔‘‘
فاضل مصنف نے برطانوی سماجی میں بدلتے رشتوں اور معاشرتی تبدیلیوں کے نتیجہ میں رویوں میں بے حس اؤ ر اپنے ہم وطنوں کے مابین اخلاص اور اپنائیت کے فقدان کو شدت سے محسوس کیا ہے۔ صفحہ 42 میں لکھتے ہیں :
’’بستی کے شمال میں اگر کسی ہم وطن کو چھینک بھی آتی تو انتہائی جنوب کے باسی پرسشِ احوال کو جانا عبادت سمجھتے۔ آج ان ہی لوگوں کی نسلیں ایک دوسرے کے قریب سے گزر جاتی ہیں اور سلام دعا کے مکلف بھی نہیں ہوتے۔‘‘
فاضل مصنف نے اولڈ پیپلز ہوم میں بزرگ شہریوں کے ساتھ حکومتی سطح پر ان کی نگہداشت اور سہولیات کا جس خوش اسلوبی سے ذکر کیا ہے وہ پاکستانی معاشرے میں خاندانی بکھراؤ کے نتیجہ میں ضعیف العمر لوگوں سے نازیبا سلوک کرنے والوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اسی طرح دیار غیر میں بسنے والے پاکستانیوں کے دلوں میں مادرِ وطن کے لیے والہانہ محبت اور وارفتگی کے اظہار کو مصنف نے جس خوبصورت پیرائے میں سمویا ہے اس کی ایک جھلک صفحہ 52 پر ملاحظہ ہو۔
’’جب بھی کوئی مسافر وطن عزیز سے یہاں وارد ہوتا ہے تو لوگ ملنے کو یوں لپکتے ہیں جیسے پیاسا کنوئیں کی جانب دوڑتا ہے۔ پاکستان سے کسی بھی شخص کی آمد کی خبر جنگل کی آگ کی طرح آناً فاناً پھیل جاتی ہے۔‘‘
دریار غیر میں غربت و حمیت سے نا بلد ادر نا عاقبت اندیش لوگ اپنے وطن کے لیے کس طرح ہزیمت کا باعث بنتے ہیں۔ اس کی ایک جھلک صفحہ 53 پر مشاہدہ ہو:
’’ایک بہت بڑے قومی سطح کے سیاسی رہنما تشریف لائے راوی نے از راہِ مروت پوچھا کہ حضور کے پاؤں کا ناپ کیا ہے فرمانے لگے ’’پاؤں کا ناپ چھوڑو، جیب کے ناپ کی بات کرو۔‘‘
جناب صدر! محمد حسین آزادؔ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کی نثر میں صبح بہار کی دلاآویزی اور شام افق کی رنگینی شامل ہے مگر فاضل مصنف کے ہاں فکر و تعمق کے ساتھ ساتھ جذباتی آہنگ اور نغمگی، رنگینی و رعنائی سمیت جو دلکش انداز بیا ان اختیار کیا گیا ہے اس کی ایک جھلک صفحہ 67 پر ملاحظہ کریں :
’’رودِ دجلہ بھی پانی، بے فیض فرات بھی پانی، اباسین کی روانی بھی پانی، گنگا کا پوتر پانی بھی پانی، شب فراق عاشق کے دامن کو تر کرے تو علامت کرب، روزِ وصل آنکھ کے جزیروں میں جھلملائے تو اظہار تشکر و سر خوشی، رات کی تاریکیوں میں گنہگار کی آنکھ سے ٹپکے تو شانِ کریمی کے لیے بے بدل موتی بن جائے۔‘‘
تصوف اور فلسفے کی آمیزش کا ایک نمونہ دیکھئے صفحہ 67پر:
’’مغربی تصوف کی اساس ہی اس پر ہے کہ انسان قطرے کی حیثیت سے حقیقت کے سمندر سے جدا ہوتا ہے۔ ایک لمحہ کی زندگی میں مختلف روپ بھرتا ہے پھر سفر زیست پورا کرتے ہوئے حقیقت کے سمندر سے ہم آغوش ہو جاتا ہے۔‘‘
صدر گرامی! مصنف کے گہرے سماجی شعور اور تاریخ سے ادراک کے اظہار کے ساتھ ساتھ فلیش بیک تکنیک اور شعور کی رو کا استعمال قاری کو سحر انگیز اسلوب بیان سے مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ میڈیم ٹساڈ کے مومی عجائب گھر کا ذکر کرتے وقت وہ ایک طرف ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے جہاں ایک طرف یو این اؤ اور ہٹلر کی ہلاکت گری اور سفاکیوں کے بارے میں تاریخی حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے وہاں حضرت عمر کے شاندار نظم و نسق اور عمل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے۔ صفحہ 180
’’آج اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو خدا مجھ سے جواب طلب کرے گا۔‘‘
صدر گرامی! دیارِ غیر میں بعض پیرانِ حرم سے حصول زر اور دنیاوی منفعت کی خاطر جس طرح فرقہ پرستی کو فروغ دے کر نفرتوں کی فصل بوئی ہے اس کرب کو مصنف نے شدت سے محسوس کیا ہے۔ صفحہ 59 پر لکھتے ہیں :
’’تشویش ناک امر یہ ہے کہ پیران کلیسا نے خالق و مخلوق کے درمیان پردے حائل کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کیا ہے۔ اللہ اللہ مساجد کی تالہ بندی ا ور دینِ رسول عربیؐ کی جگ ہنسائی یہ کار عظیم عام مسلمانوں کے بس کا نہیں۔ وارثانِ منبر و محراب ہی کا اعجاز ہے۔‘‘
صدرِ ذی وقار!
فاضل مصنف اہلِ مغرب کی فلاحی ریاست کے تصور اور عوام الناس کی بھلائی کے جذبے سے سرشار انفرادی مثالوں سے متاثر بھی ہوتا ہے مگر وہ جلوۂ دانشِ فرنگ سے نگاہیں خیرہ کرنے کی بجائے خاکِ مدینہ و نجف کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنا لیتا ہے۔ چنانچہ جب بوڑھا سکاٹ کا شکار ایک کروڑ پاونڈ پر مشتمل اپنی جمع شدہ پونجی خیرات کر دیتا ہے تو مصنف کو حضرت ابوبکر صدیق کی یاد آ جاتی ہے جو گھر کا تمام اثاثہ مسجد نبوی میں لے آتے ہیں۔
فرصتِ نگاہ کا مصنف اپنی وسیع تر معلومات، عمیق مشاہدے، جزئیات نگاری اور تاریخ کے گہرے ادراک کے ساتھ ساتھ ظاہر سے باطن کا سفر کرتے ہوئے خوابوں جیسی سحر انگیز کیفیت پیدا کر دیتا ہے جو قاری کو بھرپور طریقے سے اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔
صفحہ 121 پر شیکسپیئر کی جنم بھوری کے باپ میں لکھتے ہیں :
’’قبرستان کے داخلی دروازوں پر ایک بلند مینار جس پر ایک دائمی شمع روشن ہے جو وقت کی قید سے آزاد ان زمانوں سے جل رہی ہے جب ایک ڈکٹیڑ کی وحشیانہ خواہشات نے پورے کرۂ ارض کو جنگ میں جھونک دیا۔‘‘
اسی باب میں شیکسپیئر کے بارے میں مکمل معلومات کا جس انداز میں احاطہ کیا ہے وہ صاحبِ قلم کی محنت اور ریاضت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ صفحہ 125 پر لکھتے ہیں :
’’یہ ایک وسیع گھر ہے جس کے باہر رنگا رنگ پھولوں کی بہار ہے۔ اندر شیکسپیئر کے مختلف ادوار حیات میں زیرِ استعمال کمروں کو تقریباً اصلی حالت میں قائم رکھا گیا ہے۔ حتی کہ ان کے والد کے ہاتھوں بنائے جانے والے دستانوں کی دستی فیکٹری بھی جوں کی توں موجود ہے۔‘‘
جناب صدر!
آکسنافورڈا کے باب میں مصنف نے ماضی کے دھندلکوں میں جھانک کر صدیوں پر پھیلی تاریخ کو جس طرح چشم تصور میں محسوس کیا اور تاریخ کے اہم واقعات کو علامتی انداز میں بیان کیا ہے وہ صاحبِ قلم کے وسیع مطالعے، مصدقہ معلومات اور گہرے تاریخی شعور کا مظہر ہیں۔
حمورابی کا دور، اصول تمدن، حمورابی کے پڑوسی شداد کی حیثیت، ٹیکسلا یونیورسٹی، افلاطون کی اکیڈمی اور خالکیدا کے ٹیلوں پر دیو جانس کلبی کا ذکر تاریخی معلومات کے ساتھ ساتھ خوشگوار حیرت کا باعث ہے۔
صدر گرامی!اب میں فاضل مصنف کے چند ایسے پہلوؤں کی جانب اشارہ کرتا ہوں جو میری نگاہ میں فنی کمزوریوں اور حقائق سے روگردانی کا مظہر ہیں اور جن سے اجتناب اختیار کر کے تخلیقی کاوش کو مزید خوبصورت کیا جا سکتا تھا۔
فرصت نگاہ کے مصنف نے آبِ حیات کے آزادؔ کی طرح رنگ آمیزی اور مبالغہ آرائی کر کے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے صفحہ 31 پر لکھتے ہیں :
’’مہاتما گاندھی صدرِ محفل تھے۔ سر بہ زانو سنتے تھے اور محمد رفیع کی آواز جادو جگاتی تھی ’’او دنیا کے رکھوالے … سن درد بھرے میرے نالے ‘‘گیت ختم ہوتا ہے۔ گاندھی جی سر اٹھاتے ہیں بہ چشمِ نم رفیع کو بلاتے ہیں سر پر ہاتھ رکھ کر آشیرباد دیتے ہوئے کہتے ہیں بیٹا! مانگو کیا چاہتے ہو، آج جو کہو گے پاؤ گے۔ رفیع کہنے لگا۔ باپو صرف ایک درخواست ہے حکومت ہند کو ہدایت فرمائیں کہ مجھے رفیع نہیں محمد رفیع لکھا اور بولا جائے۔‘‘
سامعین کرام!
’’او دنیا کے رکھوالے ‘‘ فلم بیجوباورہ کا گیت ہے یہ فلم 1952ء میں ریلیز ہوئی اس کے مرکزی کر دار بھارت بھوشن اور مینا کماری ہیں۔ موسیقار نوشاد، گیت نگار شکیل بدایونی اور فلم کے ڈائریکٹر وجے بھٹ ہیں۔ گاندھی جی 31 جنوری 1948ء کو ناتھورام گودشے کے ہاتھوں قتل ہوئے موت کے بعد گاندھی کی روح محض گانا سننے محمد رفیع کے پاس کیے آئی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ یقیناً یہ واقعہ زمانی اور واقعاتی اعتبار سے حقائق سے منافی ہے۔
اسی طرح صفحہ 34 پر فاضل مصنف اپنے بھائی سکندر کے حوالے سے قیام انگلستان کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ساتھ والے کمرے میں سجدہ ریز رفیع بچوں کی طرح روتا اور رب سے کہتا ’’مجھ سے میرا فن چھین لے مگر اسمِ محمد میرے پاس رہنے دے۔ یہ میرا سب سے بڑا سرمایا ہے۔‘‘
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محمد رفیع کیا انگلستان میں چاچو ہوٹل میں مقیم تھا کہ جہاں کی چھتیں کمرے اور اشیا شاملات دیہہ کی مانند عوام الناس کے لیے مشترکہ ملکیت ہوتی ہیں یقیناً مصنف کے بیان میں حقائق سے روگردانی کرتے ہوئے مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے۔
اسی طرح صفحہ 73 میں مصنف نے انگلستان میں مقیم پاکستانیوں کے رویوں کا ذکر اس انداز میں کیا ہے :
’’مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب بچی کی مرضی کے بغیر یا اسے بتائے بنا پاکستان میں موجود کسی بھیجتے بھانجے سے بیاہ دیتے ہیں تو صاحبزادے تعلیمی مشقت سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں آخر انگلینڈ ہی تو جانا ہے۔
آگے لکھتے ہیں مگر اس کا کیا، کیا جائے کہ ابھی تک پرانا ہندوانہ کلچر اپنی تمام تر سفاکیوں کے ساتھ ہم نے اپنے اوپر مسلط کر رکھا ہے۔‘‘ فاضل مصنف اس بات کو نظر انداز کر گئے کہ ہندوؤں میں بھائیوں اور بھتیجوں کے ساتھ شادی مذہبی معاشرتی اور سماجی حوالے سے ممکن نہیں ہے۔
اس کے علاوہ فرصت نگاہ کے چند جملوں میں جھول محسوس ہوتا ہے، صفحہ 64 میں لکھتے ہیں :
’’پرندے کی آنکھ مافک ابو ظہبی دیکھنے کا موقع ملا۔‘‘
صفحہ 114 پر درج ہے :
’’عزیزم شہباز کو ساتھ لانے کا مقصد اس کے بال ترشوانا مقصود تھا۔‘‘
جناب ڈاکٹر ارشد محمود ناشادؔ کا دیباچہ علمیت کے اعتبار سے وقیع اور پر مغز ہونے کے علاوہ خوبصورت اسلوب کی بنا پر فرصتِ نگاہ کے حسن کو دوچند کر گیا ہے۔’’فرصتِ نگاہ‘‘ کے مصنف اعظم خالد اتنی کامیاب کاوش پر مبارک باد کے مستحق ہیں اور یہ بات ہمارے لیے باعثِ افتخار ہے کہ اٹک کے ایک سپوت نے سفرنامہ کی روایت میں ایک خوبصورت اضافہ کیا ہے۔
[’’فرصتِ نگاہ‘‘ کی تعارفی تقریب منعقدہ اٹک میں پڑھا گیا۔]
٭٭٭
ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے ’’فرصتِ نگاہ‘‘ کا دیباچہ لکھ کراس کتاب پر بات کرنی مشکل کر دی ہے۔انھوں نے سفرنامے کی تفہیم اس انداز سے بیان کی ہے جسے پڑھ کر کئی سوالات اُٹھائے جا سکتے ہیں۔ تاہم کچھ باتوں سے اختلاف رکھنے کے باوجود زیادہ باتوں سے اتفاق کرنا ہی پڑتا ہے۔ جس سلیقے، خوبی اور توجہ سے ڈاکٹر موصوف نے لکھا ہے شاید ہی کوئی اور لکھتا۔اس حوالے سے خود مصنف نے کئی ایک بار یہ کہا ’’ دیباچہ پڑھنے کے بعد اپنا سفر نامہ پھیکا لگتا ہے۔‘‘ ایک دفعہ تو یہ بھی کہا ’’ڈاکٹر ناشاد دیباچے پر میرا نام لکھ دیں اور کتاب پر کسی اور کا۔‘‘ یہ بات ایک طرح سے ثابت کرتی ہے کہ ناشاد ؔ نے وہ گرہیں بھی کھول رکھی ہیں جو مصنف کے حیطۂ خیال سے کچھ پرے تھیں یا پھر حرف شناسی پر تحسین ہے۔بلاشبہ ناشادؔ نے اس کتاب کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا ہے۔بالائی سطح پر بھی اور زیریں سطح پربھی۔
کتاب کے مصنف جب سفرِ انگلستان سے پلٹے تو نجی محفلوں میں وہاں کا تذکرہ اس خوبی سے کرتے کہ ہم دوستوں کو اس سفر کی روداد لکھنے کا تقاضا کرنا پڑتا۔ پھر جب مصنف نے لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو میرا خیال یہ ہے کہ اس سفرنامے کے بڑے حصے کا پہلا قاری بھی میں ہی تھا۔ہر ہر باب لکھنے کے بعد مجھے پڑھنے کے لیے عنایت کرتے اور میں پڑھتے ہوئے کئی اعتبار سے نئے سوالات کا سامنا کرتا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے، میں نے اس کتاب کی اشاعت سے قبل پروفیسر صاحب سے کہا تھا ’’آپ نے یہاں تین رنگ یک جا کر دیے ہیں، جو اس سے پہلے سفرناموں کی تاریخ میں کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔‘‘ کہنا یہ چاہتا ہوں جس بات کو میں نے محسوس کیا تھا اُسے ڈاکٹر ناشادؔ نے تفصیل اور جزئیات کے ساتھ بیان کیا ہے اور اس انداز سے کہ کسی اور کے لیے کوئی موقع نہیں بچتا۔ بہ ہر حال مجھے بات تو کرنی ہی ہے۔
میں سمجھتا ہوں پروفیسر اعظم خالد بنیادی طور پر کہانی کار ہیں، پھر شاعر۔ جب کہانی کار اور شاعر مل کر کسی سفر کی روداد لکھتا ہے تو وہ بہ یک وقت دونوں میدانوں کا احاطہ کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔پروفیسر صاحب کہانی سنانے اور گھڑنے کے فن میں اتنے مشاق ہیں کہ کوئی اور کیا ہو گا۔ عام سیاسی خبروں کو بھی اس سلیقے سے سناتے ہیں کہ سننے والوں کے کانوں میں رس گھل جاتا ہے۔ بات کو ہر زاویے سے کھول کر سامنے رکھ دیتے ہیں۔ان کی گفتگو میں خبریت، داستان اور شعریت کے ساتھ ساتھ تجزیہ، امکان اور سوالات کی لہریں ہمہ وقت سفر کرتی رہتی ہیں۔ سامنے کی بات کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں کہ سننے والا ہمہ وقت ان سارے عناصر کو اپنے دماغ میں موجود پاتا ہے۔بات سے بات نکالنا اور گرہ سے گرہ لگانا کوئی ان سے سیکھے۔ فرصتِ نگاہ ایسے ہی عناصر کا مرکب اور پروفیسر موصوف کے قصہ گوئی کے مخصوص فن کا عکس ہے۔
یہ کتاب اپنے مندرجات کے حوالے سے حیرت آمیز ہے ہی، اپنے عنوانات کے اعتبار سے بھی تجسس کا ذریعہ بنتی ہے۔ابواب کی سرخیاں پڑھنے سے پہلا خیال کچھ اور نکلتا ہے مگر تفصیل پڑھنے کے بعد ہم کسی اور نظارے میں محو ہو جاتے ہیں، کسی اور جہان کا سفر ہمارے سامنے ہوتا ہے۔ یوں جیسے کسی حسین پری کی رفاقت میں چلتے ہوئے اچانک دیو کا سامنا ہو جائے یا پھر کوئی ڈراونا خواب دیکھ کر بیدار ہوں تو سامنے خوب صورتیاں موجود ہوں۔ مطالعے کے دوران کئی ایک مناظر ایسے آتے ہیں کہ پڑھنے والا چونک اُٹھتا ہے۔ یہ کتاب عام سفر ناموں سے مختلف ہی نہیں بہت مختلف ہے۔ مناظر کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا گیا بلکہ مناظر کی داخلیت کو پوری جزئیات سمیت گرفت کیا گیا ہے۔نظر کے ساتھ ساتھ دل و دماغ کو روشن رکھنے اور تحیر کی دنیا میں سیاحت کرنے کا موقع ہر ہر باب میں ملتا ہے۔
اس کتاب کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ یہ صرف ایک سفر کی کتھا نہیں ہے بلکہ اس میں مذاہب، نظریوں، رویوں پر بھی بحث کی گئی ہے۔اس بحث نے اسے سفرنامے کے مقام سے جڑا رکھنے کے باوجود بلند بھی کر دیا ہے۔ زندگی کے بارے میں مصنف کے جو نظریات ہیں وہ اس کتاب میں ہمیں آسانی سے نظر آتے ہیں۔معاشروں کی بنت کاری اور تقسیم کے ظاہری اسباب پر گفتگو جہاں نظر آتی ہے وہاں ان کی تخلیق اور فرق کی باطنی لہروں پر بھی بحث ملتی ہے۔ یہ بحث اس انداز سے کی گئی ہے کہ الگ ہوتے ہوئے بھی الگ نہیں دکھائی دیتی۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے ظاہری سفر سے کہیں زیادہ ذا ت کے سفر پر توجہ دی ہے۔ اپنے بچپن کی یادوں اور ماحول کو ڈرامائی انداز سے بیان کرنا، لڑکپن کی محبتوں کو کہیں بین السطور اور کہیں واضح انداز سے ظاہر کرنا، حسن و عشق کی قصوں میں اپنی موج کو جاری رہنے دینا، پیش آمدہ بدصورتیوں اور خوب صورتیوں کو دستِ صبا پر رکھ چھوڑنا۔یہ سب ذات کا اظہار ہی تو ہیں۔ پھر حسیات کو تحریک دینے کے لیے لفظوں اور منظروں سے نشتر کا کام لینا ایسا ہی ہے جیسے انسان اپنی ذات کی غواصی کر آئے اور پھر اس سے لطف کوش ہو۔’’فرصتِ نگاہ‘‘ میں اس کیفیت کا بار ہا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مصنف اُس انگریز بوڑھے کو اچھا جانتا ہے جو اپنے مرنے سے پہلے اپنا سب کچھ کسی خیراتی ادارے کو دے جاتا ہے، اُس ملمع کار عابد سے جس کی زبان پر ہمہ وقت درسِ انسانیت رہتا ہے۔وہ قول و فعل کے تضاد میں گھرے ہوئے لوگوں پر حرفِ حق سنگ زن کرتے ہوئے انھیں جھنجھوڑتا اور یاد دلاتا ہے کہ اُن کے آباؤ اجداد ایسے نہیں تھے۔وہ تو قول پر جان دینے والے تھے۔محض خوب صورت اقوال سے خوش ہونے کی بہ جائے خوفِ خدا میں مبتلا رہتے اور اُس کی خوش نودی کے لیے مخلوقِ خدا سے محبت کرتے۔سفرنامہ انگلستان کے کسی منظر کو قلم بند کرتے ہوئے مصنف محض فوٹو گرافر کا کام نہیں کرتا بلکہ وہ مشرق اور مغرب کا موازنہ بھی پیش کرتا ہے۔داخلی سطح پر بھی اور خارجی سطح پر بھی۔اس موازنے کے بعد ایک سوال پڑھنے والے کے لیے بھی چھوڑ دیتا ہے تاکہ وہ خود بھی اس تفریق کا جواب تلاش کرے۔مصنف کو وہ لوگ بھی زہر لگتے ہیں جو مذہب کے نام پر مذہب کے خلاف کام کرتے ہیں۔اپنے دن ہرے کرنے کے لیے مساجد و مدارس کی شناخت کو خشک کرتے ہیں۔اخلاص کے نام پر خلوص کو ذبح کرتے ہیں۔امن کے نام پر انسانوں کو قتل کرتے ہیں۔اس طرفہ تماشا کو بیان کرتے ہوئے سفرنامہ کی فضا کہیں اور رہ جاتی ہے اور انسان کسی اور دُنیا میں محو سفر ہو جاتا ہے۔انگلستان کی گلیوں، بازاروں کا نظارہ کرتے ہوئے اچانک تصوف کی دنیا میں جا نکلتا ہے یا پھر سائنس کے جہان اُس کے سامنے ہوتے ہیں۔گویا سفر در سفر کی بوقلمونیاں احساس اور نظر کو نو بہ نو مناظر سے ہم کنار کرتی رہتی ہیں۔
اس کتاب میں نثر لطیف کی شاہکار ملتے ہیں، قصوں سے قصے جنم لیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، رویوں کا تقابل نظر آتا ہے، خوب صورتیوں اور بدصورتیوں کے اظہاریے چمکتے بجھتے ہیں مگر اس سب کے باوجود سفرنامے کا اصل حسن بھی دکھائی دیتا ہے۔قاری کے لیے وہ تمام چیزیں بھی موجود ہیں جو سفرنامے کا خاصہ ہوتی ہیں۔رودادِ سفر کی خوش رنگیاں، اعداد و شمار، تجربوں اور مشاہدوں کو بھی اخلاص کی عینک سے دیکھا گیا اور ایمان داری کے قلم سے لکھا گیا ہے۔مصنف نے جو محسوس کیا اُسے کاغذ کے سینے پر اُتار دیا۔میں سمجھتا ہوں ’’فرصتِ نگاہ‘‘ عرفان ذات تک رسائی کی ایک کڑی ہے۔جس میں ہمیں بھی شریک ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔
میں اس کتاب کو سفرناموں کے باب میں خوش گوار اور قابل توجہ اضافہ سمجھتا ہوں اور خیال کرتا ہوں جہاں نقادانِ فن اس کی پذیرائی کریں گے وہاں پڑھنے والے اپنی سمتیں متعین کرنے کے لیے اس سے مدد لے سکیں گے۔زندگی کے سفر کو خوش اسلوبی سے بیان کرنے پر میں پروفیسر صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
٭٭٭
’’فرصت نگاہ‘‘ … نگاہ ڈالی… پڑھنے کا سوچا تک نہیں۔ چلیں اور بہت ساری ’’بن پڑھی‘‘ کتابوں کی طرح گھریلو لائبریری کے حسن میں اضافہ کا باعث بنے گی۔ ہم لوگ تو ویسے ہی ’’لندن کی تصویروں ‘‘ کے پجاری ہیں۔… اور پھر پڑھنے کی ضرورت ہی کیا ہے … اعظم نے ہی تو لکھی ہے … اعظم مراڑیا والا… اس کی کتاب بھلا کیا ہو گی۔ اونہہ … شہرت کمانے کا سستا طریقہ…
فراغت… وقت کا نہ گزرنا… ہم بھی عجیب لوگ ہیں باقی دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہی قلتِ وقت ہے اور ہمارا کثرتِ وقت… گزرتا ہی نہیں … چلو اعظم کی کتاب ہی کھول کر دیکھ لیتے ہیں … سفر وسیلۂ ظفر…ڈاکٹر ناشادؔ …بہت خوب صورت تحریر… جیسے پہاڑی جھرنا… نثر ایسی کہ نغمے کو شرمائے … بڑا چالاک نکلا اعظم… سمجھتا ہے خوب صورت ابتدائیہ لکھوا کر قارئین کو مجبور کر دے گا کہ ساری کتاب میں اسی کی حلاوت و شیرینی سے لطف اندوز ہوں …بھولا کہیں کا… اس بہلاوے میں تو انسان صرف زندگی میں ایک ہی بار آتا ہے اور ساری زندگی پچھتاتا ہے … اب قارئین بھی اتنے بھولے نہیں رہے۔
صفحہ صفحہ سطر سطر پھروہی صفحہ وہی سطر پھر وہی… یہ نہیں ہو سکتا !!اعظم یہ سب کچھ نہیں لکھ سکتا… اس نے ضرور کسی سے لکھوائی ہو گی… آخر بانو قدسیہ نے بھی تو راجہ گدھ کے ذریعہ اردو ادب میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ پر یار لوگ بڑی دور کی کوڑی لائے … ڈھونڈ لیا کہ یہ سب کچھ اشفاق نے کیا ہے، محبتوں میں یہ سب کچھ ہوتا ہے ، کبھی کوئی کسی کی عمر بسر کرتا ہے تو کبھی کوئی اپنی تحریر دوسروں پر وار دیتا ہے۔ پر بانو کے پاس تو اشفاق تھا اعظم کے پاس تو کوئی ’’بانو‘‘ نہیں۔ پھر ضرور کسی دوست سے لکھوائی ہو گی۔ مگر اعظم کے دوستوں میں میں کون مشتاق عاجز… ہمہ وقت تنگی وقت سے عاجز، احسان، جیسے احسان نا شناس اور فخری جیسے فخرِ ابلیس… ان میں تو کوئی نہیں لکھ سکتا۔پھر … تو پھر یقیناً اعظم ہی لکھی ہے۔
پر یہ اعظم تو بڑا چور نکلا۔ پہلے بھی چور تو بہت دیکھے اور سنے تھے ،دل چرانے والے، جسم چرانے والیاں، وغیرہ وغیرہ مگر ایسا چور دیکھا نہ سنا… جو ۳۰ سال تک دوسروں کے درمیان ’’مراڑیا والا کھلنڈرا‘‘ اعظم بن کے رہا۔ مزاح، مذاق، گپ شپ…اور اتنا طویل عرصہ دوسروں سے اپنی ’’چوری‘‘ کرتا رہا۔ کسی کو نہ سمجھنے دیا کہ وہ ادیب بھی ہے، تاریخ داں بھی ہے، صوفی بھی ہے، ایک سسکتا ہوا دل بھی رکھتا ہے، اسلاف کا قدر دان بھی ہے، بیان کا سلیقہ بھی جانتا ہے، خالق کا ترجمان بھی ہے، اسلام کا داعی بھی ہے اور طے نہیں کیا کیا ہے … بھلا چور اور کِسے کہتے ہیں …
صفحہ در صفحہ … پلے کچھ نہیں پڑ رہا۔ بس پڑھ رہاہوں … بالکل PECکے اس 8thپاس طالب علم کی طرح جس کے ہاتھ میں شیکسپیئر دے دیا جائے …پھر صفحہ ۱۰۰ آ جاتا ہے۔
شام کے تجار کا قافلہ… حضرت عمرؓ … روتا ہوا بچہ… مجبور ماں … حضرت عمر ؓکی پشیمانی …
جوں جوں لفظ آگے بڑھتے ہیں میری حالت بدلتی جا رہی ہے۔پہلے رشک پھر حسد… پھر غصہ … بے پناہ غصہ اعظم کے لیے …منہ سے اعظم کے لیے ناشائستہ کلمہ نکل جاتا ہے (جس کے لیے معذرت) اب غصے کا اظہار ضروری ہو گیا ہے۔ورنہ …کمرے میں ٹی۔وی دیکھتی ۸ سالہ طاہرہ کو آواز دیتا ہوں کہ اسے اس کے ’’چاچا‘‘ کے کرتوت بتاؤں … وہ اپنے ڈرامے میں منہمک ہے … میری بات نہیں سنتی ہے … ہم سب اپنے اپنے ڈراموں میں منہمک ہیں کسی کی بات نہیں سنتے ہیں … مجبوراً ’’طاہرہ‘‘ کو آواز دیتا ہوں۔ جلدی آؤ! وہ آتی ہے۔ہاتھ میں جھاڑو، شلوار اور قمیص کے رنگ مختلف…ایک پائنچہ ٹخنوں سے ً۵ اونچا تودوسرا ۸ً… جلدی کرو کیا بات ہے ہو گا تمہارا کوئی جھلپ‘‘ بتانے کی کوشش کرتا ہوں۔کوئی دھیان نہیں۔ اسے بھاتا ان باتوں سے کیا ’’بھولیے مجھے ! تو کیہ جانے نار کلی دیاں شاناں ‘‘
دیکھو نا طاہرہ… اس اعظم کو… ہم ساری زندگی ملا اور مسجد کے درمیان سعی لاحاصل کرتے رہے اور اس کا مُلّا سے کوئی رشتہ رہا بھی تو بس ’’مّلا منصور‘‘ کی حد تک ساری زندگی، زندگی کی تمام تر رعنائیوں سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ گناہ ثو اب کے چکر سے بالا تر… اور ایک ہی جست میں بازی لے گیا… اسی انتظار کر دے رہ گئے۔ ایک ہی چھلانگ میں، ایک ہی جست میں، دل میں ایک ہی درد جگا کر وہ قبول ہو گیا۔۔۔ وہ واقعی ’’اعظم ہو گیا‘‘____ شاید وہ شروع سے جانتا تھا کہ اسے قبولیت کا لمحہ ملے گا۔ وہ قبول ہو گا۔ وہ رحمت کا مطلب سمجھتا تھا۔
میں نے اس سے آگے یہ کتاب نہیں پڑھی۔شاید کافی عرصے تک پڑھ بھی نہ سکوں۔ اس لیے کہ میں پڑھنا نہیں چاہتا۔ پڑھنے کی شدید خواہش ہے پر پڑھ نہیں سکتا۔ بالکل کچھ ان لوگوں کی طرح جنھیں بیت اللہ کی زیارت کی شدید خواہشیں ہوتی ہے پر وہ زندگی بھر یہ زیارت کر نہیں پاتے چونکہ کعبۃ اللہ کی عظمت کے مقابلہ میں وہ اپنے ظرف کو بہت چھوٹا پاتے ہیں۔مگر کعبۃ اللہ کے ساتھ ان کا رشتہ بہت مضبوط ہوتا ہے چونکہ اس گھر کے مالک کے وہ ادنیٰ سے غلام ہوتے ہیں۔۔۔بہت ادنیٰ مگر اس صف کے ایک کنارے پر ضرور کھڑے ہوتے ہیں۔اس کتاب ’’فرصت نگاہ‘‘ کے ساتھ میرا کچھ ایسا ہی رشتہ استوار ہو چلا ہے۔
مجھے اس کتاب کے بارے میں اور کچھ نہیں کہنا۔میرا ظرف بھی نہیں … پر مجھے ایک بات ضرور کہنی ہے کہ یہ کتاب لکھ کر اعظم نے بہت نقصان کیا ہے اپنا بھی اور دوستوں کا بھی۔
اچھا بھلا دوستوں میں رہ رہا تھا۔ یہ کتاب لکھ کر اس نے خود کو ایک ایسے مقام پر بٹھا لیا ہے کہ اگر ہم اس کی طرف دیکھنا چاہیں تو ہماری ٹوپیاں گر جائیں گی اور پھر… یہ زندگی تو ہنستے مسکراتے لوگوں کی زندگی ہے۔اب بھلا۱۰۰ سالہ سفید ریش، ہاتھوں میں بڑی تسبیح لیے، سبز چغہ پہنے اعظم سے کون بات کرے۔اس نے خود کو بالکل تنہا کر لیا ہے۔ الگ تھلگ اور میں تو یہی کہوں گا۔
تجھ کو تنہا کر گیا ہے منفرد رہنے کا شوق
اب اکیلے بیٹھ کر یادوں کے منظر دیکھنا
اور اگر کبھی اعظم کو ہم پر غصہ آئے تو پھر یہ کہ: ’’اے قامت فن اپنی بلندی کا گلہ کر‘‘
٭٭٭
اعظم خالد کے تشکر کے ساتھ، ’فرصت نگاہ‘ کے دوسرے اڈیشن میں شامل آراء پر مبنی ای بک
تدوین اور ای بک کی تشکیل۔ اعجاز عبید