12:37    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

سفرنامے

2501 0 0 10

اللہ میاں کے مہمان - اعجاز عبید

پہلی بات

مشتاق یوسفی کا کون مدّاح نہیں۔ ہم بھی ان کے خوشہ چینوں میں سے رہے ہیں۔ لیکن کچھ اس خوش فہمی کے ساتھ کہ در اصل ہماری ذہنی بُناوٹ (مائنڈ سیٹ) ان کا سا ہے۔ اگر چہ ہم نے شعوری کوشش کبھی نہیں کی کہ ان کی نقل کی جاۓ۔ اگر ہم جھوٹ نہیں بول رہے ہوں تو ہم نے اپنے پیسوں سے جو پہلی کتاب خریدی وہ "چراغ تلے" تھی۔ اس کے بعد "خاکم بدہن" بھی ہم نے اپنی ہی رقم سے خریدی، نہ کسی سے عاریتاً لی اور نہ چُرائی۔ تیسری کتاب جب سامنے آئی تو ہمارے گھر میں ہمارے، بلکہ ہماری نصف بہتر کے بھانجے افتخار بھی تھے۔ وہ خود بھی یہ کتاب خریدنا چاہتے تھے اور سوچا کہ ٹھیک ہے، گھر میں ایک کتاب تو رہے گی ہی۔ چنانچہ اس طرح ہم یہ کتاب "آبِ گُم" پڑھ کر بھول گۓ۔ افتخار بھی دوسرے گھر میں شفٹ ہو گۓ اور ہمیں بھی غمِ روزگار میں یہ یاد نہیں رہا کہ ایک کتاب اور بھی ہماری ذاتی ملکیت نہیں ہے۔ اس کے بعد ہم جب 1997 میں حج کے لۓ گۓ تو یہ حج کا دلچسپ (بزعمِ خود) سفر نامہ تخلیق کیا۔ اور اس کے پیشِ لفظ  کو وہی نام دے دیا "پس و پیشِ لفظ"۔ اور عرصے تک خیال بھی نہیں رہا۔ جب اپنی ہی کتاب پڑھتے تو اس لفظ سے لطف اندوز ہوتے۔

خدا کی کرنی یہ ہوئی کہ 2005 کے آخر میں ایک دوسرا سفر در پیش ہوا، امریکہ کا۔ ہیوسٹن میں تو ہمارا بیٹا کامران ہی رہائش پذیر ہے، قریب ہی ڈیلاس میں افتخار کے پاس بھی جانا ہوا بلکہ دو دن وہاں رہائش کے دوران افتخار میاں نے وہی کتاب ہم کو پیش کی کہ دو پہر میں جب تک باقی عوام محوِ خواب ہوں تو ہم اس سے لطف اٹھا لیں کہ ہم دن میں سوتے نہیں۔ عرصے بعد جب یہ کتاب دوبارہ پڑھی تو شروع کے صفحات نے ہی چونکا دیا۔ اور تب احساس ہوا کہ کہیں لا شعور میں اس کتاب کا "پس و پیشِ لفظ" محفوظ رہ گیا تھا جو "اللہ میاں کے مہمان" لکھتے وقت اس طرح سامنے آیا کہ ہم خود اب تک اسے اپنی ترکیب سمجھ کر خوش ہوتے رہے۔ یہ چند سطریں محض اس پس و پیشِ لفظ کا پیشِ لفظ ہے کہ اگرچہ ہمیں اب اس دیباچے کو استعمال کرنے میں پس و پیش  ہے، لیکن اس عرصے میں ہم نے اس قدر اسے اپنا سمجھ لیا ہے کہ اب خود سے جُدا کرنے کو جی نہیں چاہتا۔

اب اس اردو ویب ایڈیشن میں اس حلف نامے کے ساتھ مکمل کتاب پھر حاضر ہے۔ یہ کتاب اب تک اردوستان ڈاٹ کام سے قسط وار شائع ہوتی رہی ہے۔ لیکن تصویروں کی صورت میں۔ اب تحریری شکل کے لۓ ہم اپنے ہی شکر گزار ہیں۔

اعجاز عبید

8 اپریل 2006

پس و پیش (لفظ)

ہم عرصے سے اس پس و پیش میں تھے کہ اس سفر نامے یا روزنامچے میں ، اگر کبھی شائع کرانے کی نوبت آئے تو، پیشِ لفظ لکھ کر پہلے ہی قارئین کو خبردار کر دیں یا پس لفظ لکھ کر ان سے معذرت کر لیں کہ انھوں نے نہ جانے کیا کیا توقعات رکھی ہوں گی ہم سے۔ پس و پیش یہ بھی تھا کہ اسے شائع بھی کروائیں یا نہیں بلکہ لکھیں بھی یا نہیں۔ بہرحال جب پس و پیش جاری رہا تو ہم نے عارضی طور پر اوپر والا عنوان دے کر انگریزی محاورے کے مطابق گیند کاتب صاحب کے پالے میں ڈال دی ہے کہ وہ کتاب کے شروع میں اس تحریر کو رکھیں یا آخر میں ۔ یہ تو امید رکھتے ہیں کہ کاتب صاحب کو اس میں تو پس و پیش نہ ہوگا کہ اس تحریر کا عنوان ـ" پیش لفظ ـ" کب کتابت کریں ا ور "پس لفظ " کہاں۔ یہ جملہ لکھتے وقت ابھی خیال آیا کہ آج کل تو ہم اردو والے بھی خدا کے فضل اور امریکہ کے کرم سے کمپیوٹر کے دور میں داخل ہو گئے ہیں اور کاتب دور ماضی کی یادگار ہوتے جا رہے ہیں ۔ ـــ " کلیدی تختے" (Keyboard) پر انگریزی حروف پر انگلیاں رکھ کر اردو حروف پیدا کرنے والے جادوگر کو کیا کہنا چاہیے قارئین اس پر ضرور غور کریں ۔

گذارش احوال واقعی کے طور پر کچھ باتیں گوش گذار کرنی تھیں ، اب آپ اس کو جو بھی نام دیں۔ اصل میں تو یہ ہمارا حلفیہ بیان ہے۔

شروع وہاں سے ہی کریں جہاں سے بات شروع ہونی چاہئے ۔

جانے ہماری کون سی نیکی کام آ گئی کہ 1997 کا حج نصیب ہو گیا۔ واقعہ سنا تھا کہ کو ئی بزرگ تھے جو تلبیہ پکارتے تھے "لَبَّیک اَلّٰہُمَّ لَبَّیک" ۔ "میں حاضر ہوں میرے اللہ ، میں حاضر ہوں" ، تو ا ن کو غیب سے صدا آتی تھی " لَاَلَبَّیک" ۔ ان کی حاضری ہی قبول نہ تھی۔ مرحبا کہ نہ صرف ہمارا سفر ممکن ہو سکا بلکہ اس الرّحمٰن و رحیم کا رحم ہے کہ ہمارا لبّیک بھی قبول کیا گیا، حج کے ارکان بھی اللہ نے بخوبی ادا کروائے اور ہم کو ہر ہر بلا سے محفوظ بھی رکھا۔ جب اللہ میاں نے ہم کو مہمان بنانا قبول کر ہی لیا تو پھر خاطر تواضع بھی خاطر خواہ کرنی ہی تھی۔ لوگ کیا کہتے کہ پہلی بار کے مہمان کے ساتھ بھی کیسا سلوک کیا۔ اب یہ ہم خود ہی گواہی دیتے ہیں کہ ہم محض سوکھے ہی نہیں ٹرخائے گئے ہیں، رحمتوں کی بارش سے شرابور بھیگے ہوئے آئے ہیں۔

یہ بھی بتا دیں کہ ہم مان نہ مان میں تیرا مہمان قسم کے خود ساختہ مہمان نہیں تھے۔ ہمارا اشارہ اس حدیث کی طرف ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ عازمینِ حج اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ "ضیوف الرحمٰن ّ۔ مکّے میں ہماری عمارت نمبر 468 کے قریب شعبِ عامر میں ہی غذائی سامان کی ایک دوکان تھی، اس کا نام ہی تھا ـ ـ ""بقالہ ضیوف الرحمٰن "")۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، ہم تو خود کو اللہ میاں کے مہمان ہی سمجھتے رہے بلکہ بہت بے تکلّف قسم کے۔ کہ تکلّف میں ذوقؔ صاحب کو ہی نہیں ہم کو بھی سراسر تکلیف ہی ہوتی۔ اس پروردگار کی طرف سے ہم نوازشوں کے امیدوار بھی رہے ا ور قطعی ناکام نہیں لوٹے۔ مراد یہ نہیں ہے کہ ہماری ساری مرادیں بر آئیں، ساری تکلیفات دور ہو گئیں یا ہماری کھانسی دمے کی تکلیف میں افاقہ ہو گیا۔ یہ بھی ہو جاتا تو مزید رحم و کرم ہی ہوتا، مگر یہی کیا کم ہے کہ ہم کو نہ جانے کیوں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم خالی ہاتھ نہیں لوٹے ہیں۔ کیا خدا کا یہ کرم بھی کم ہے کہ اس نے یہ سعادت ہمارے لئے لکھ دی۔

دوسری ایک اہم بات یہ عرض کرنی ہے کہ اللہ میاں کی مہمانی قبول کرنے والے کو ، بلکہ یوں کہیے کہ جسے اللہ میاں مہمان بنانا قبول کریں ، اسے تو بہت منکسر المزاج ہونا چاہیے تھا۔ اور یہاں ہم ہیں کہ ـ"ما بدولتوں" کی طرح خود کو صیغۂ جمع میں لکھ رہے ہیں۔ حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ ہم ما بدولت قطعی نہیں ہیں ، بس ایک روایت کا احترام کر رہے ہیں جو غالباً پطرس مرحوم سے شروع ہوئی تھی۔ پطرس نے واحد متتکلمّ کے لئے جمع کا صیغہ کیا استعمال کیا کہ یہ اب ہر طنز و مزاح نگار کی پہچان بن گیا ہے۔ شوکت تھانوی ہوں یا وجاہت سندیلوی، مشتاق احمد یوسفی ہوں کہ یوسف ناظم اور مجتبیٰ حسین ، سبھی یہ صیغہ اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ نثر کے طنز و مزاح میں ہم کو خود یہ ضروری محسوس ہونے لگا ہے۔ نہ لکھیں تو کچھ کمی سی محسوس ہو گی، چنانچہ عام بو ل چال میں چاہے ہم اپنے کو "ہم" نہ کہیں مگر جب قلم اٹھا کر اس کشتِ زعفران میں (جو میدانِ خاردار زیادہ ہے) قدم رکھتے ہیں تو بے ساختہ (بحرِعروض کے ماہرین معاف فرمائیں) ؎ ڈبویا ہم کو ("ہم") لکھنے نے، جو لکھتے ـ ہم  تو "ہم " لکھتے۔ قارئین کرام سے بھی معذرت۔

تیسری بات یہ کہ ہم نے اس سفرنامے /روزنامچے کے پہلے دِن ہی جو کچھ تحریر کیا ہے اس میں بھی کچھ "پیش لفظیت" آ گئی ہے۔ مگر کیوں کہ اصل پیش لفظ یہی ہے اس لئے یہاں "پہلا" دیں (یہ تحریر بعد کی ہے . اس لئے "دہرانا" کہنا چاہئے۔ مگر قارئین کرام تو پہلی بار یہ بات جان رہے ہیں؛ "ہم پائے کے ادیب ہیں" اور "کیا ہم سنجیدہ ہو سکیں گے" میں انہیں یہ محسوس ہوگا کہ ہم یہ بات دہرا رہے ہیں) کہ ہمارا ارادہ "حج گائڈ" قسم کی کتاب لکھنے کا تو نہیں تھا۔ اگر کسی قاری نے اسے "حج گائڈ" سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کی تو بقول ابنِ انشا نتائج کا خود ذمّہ دار ہوگا۔ اگر توفیق ہوئی تو "پس پس لفظ" کے طور پر ضمیمہ ضرور شامل کیا جا سکتا ہے جس میں وہ باتیں شامل ہو سکیں جو حج گائڈ میں ہونی چاہئیں۔ ہماری کوشش تو یہی تھی کہ جو ہم پر گزرے گی، رقم کرتے رہیں گے (لوح و قلم کی پرورش ہو نہ ہو) اور ہماری دعا ہے کہ جو ہم پر گزری ہے وہ سب پر گزرے،یعنی سب کو حج نصیب ہو،مگر جو ہم نے نظارۂ بد دیکھا وہ خدا کسی کو نہ دکھائے ۔ یعنی منیٰ کی آگ کا حادثہ۔

اس سلسلے میں بھی کچھ عرض کرنی ہے۔ گرما گرم خبروں کے شوقین حضرات فوراً تلاش کریں گے کہ منیٰ کی آگ کا چشم دید حال ہم نے لکھا ہوگا، رننگ کمنٹری (Running Commentary) بلکہ "بَرننگ کمنٹری"(Burning Commentary) دی ہو گی ، مگر ان کو مایوسی ہی ہوگی؛ ہم کو تو خوشی ہے کہ ہم اس عذاب کو واقعی چشم دید نہیں کر سکے۔ لوگوں کی بھاگ دوڑ اور دھوئیں کے مرغولوں کے مناظر ہی ہماری آنکھوں میں محفوظ ہیں۔ اسی بھیگی بلیّ سے معلوم ہوا تھا کہ باہر بارش ہو رہی ہے۔ لیجئے، ہم اس موقعے پر بھی مزاح کا شکار ہو گئے۔

مختصر یہ کہ ہم نے جو کچھ دیکھا ہے، وہ سفر نامہ ہی کچھ زیادہ ہے۔ نہ حج گائڈ نما کتاب ہے اور نہ اس میں صحافیوں والی "کہانیاں" (جِن کو "اسکوپ" کہا جاتا ہے) ۔ شروع تو ہم نے کیا تھا کہ اسے ہلکے پھلکے انداز میں ہی غیر سنجیدگی سے لکھیں گے، مگر بعد میں اکثر جگہ یہ سفرنامہ محض ہو کر رہ گیا ہے۔ وجہ محض یہی رہی کہ ہم کو روزانہ لکھنے کا نہ وقت ملا اور وقت ملا تو طبیعت راغب نہیں ہوئی۔ اور کافی بعد میں جو پچھلی باتیں لکھتے رہے تو پھر قلم کو اس تیزی سے وقت کے ساتھ دوڑانا پڑا کہ نہ ہنسنے کی مہلت ملی نہ ہنسانے کی۔ حسِ مزاح کو بھی اسی طرح پیچھے چھوڑ دیا جس طرح ملکھا سنگھ کے بارے میں لطیفہ مشہور ہے کہ موصوف چور کو رنگے ہاتھوں پکڑنے گئے، اس کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اس سے دوڑ کا مقابلہ جیتنے کی کوشش کرنے لگے اور جیت کر بہت خوش ہوئے ۔ ہمارا یہی حال کبھی سنجیدگی کے ساتھ ہوتا ہے، کبھی حس مزاح کے ساتھ۔ یہاں تو خیر یہ شرط بھی تھی کہ واقعات بھی سارے لکھے جائیں ؛ اگرچہ کہیں سرسری ہی رہ جائیں۔ بہر حال جو چیز آپ کے سامنے ہے اس میں کہیں جذبۂ شوق کی کارفرمائی بھی ہے جوممکن ہے کہ آپ کو بھی ہماری طرح رلا دے (ہم خود بھی کہیں کہیں لکھتے لکھتے چشمِ پر نم ہو گئے ہیں) تو کبھی کچھ اور بات آپ کو ہنسنے پر مجبور کر دے؛ کبھی محض کچھ معلومات ہی حاصل ہوں۔ کچھ ایسی ہی چیز ہے کہ "ہر مال دو ریال"، جیسے مدینے اور جدہ ایر پورٹ کے اکثر دوکان دار آوازیں لگاتے ہیں۔ یہ کتاب بھی ایسی ہی دوکان بن گئی ہے۔ (جو)قبول افتد زہے عز و شرف۔ اور یہ کہ ؎ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔                   

اعجاز عبید           

    2 جون 1997

ہم پائے کے ادیب ہیں

بنگلور ۔ 27 مارچ 97ء ۔

40 ۔ 1 بجے دو پہر

 

بہت سے قارئین کرام نے شاید ہمارا نام بھی پڑھا یا سنا نہ ہوگا اور اگر یہ کتاب بھی شائع نہ ہوئی تو آئندہ بھی نہ سنیں گے۔ مگر یقین مانئے کہ ہم پائے کے ادیب ہیں۔ "پائے کے ادیب " کا ارتقاء، ہمارا مطلب ہے اس محاورے کا ارتقاء کس طرح ہوا، ہمارا ناقص علم اس سلسلے میں معذور ہے۔ واللہ اعلم یہاں "پائے" سے کیا مراد ہے ؟ ویسے پائے بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ عالمِ حیوانات کے دو پایوں اور چار پایوں کے علاوہ، جن میں ہمارا بھی شمار ہونا چاہئے (مطلب اوّل الذکر میں)۔ بقول مشتاق یوسفی، ایسے بھی پائے ہوتے ہیں جن کو چوڑی دار پاجامہ پہنانے کو جی چاہے۔ ہمارا، بلکہ مشتاق یوسفی کا اشارہ چارپائی کے پایوں کی طرف ہے اور ان ہی کے بقول وہ پائے بھی ہوتے ہیں جن کو انھوں نے سریش سے تشبیہ دی ہے اور جسے ان کے یار غار اور ہمزاد مرزا عبدالودود بیگ دہلی کی تہذیب کی نشانی گردانتے ہوئے نوشِ جان کرتے ہیں۔ یہ نہاری پائے تو ہم کو بھی عزیز ہیں بشرطیکہ اس میں کام و دہن کی آزمائش نہ ہو۔ بہرحال اب ہم نے جب یہ فقرہ لکھ ہی دیا ہے تو امید ہے کہ آپ بھی اس کے معنی وہی سمجھیں گے جو ہم نے مراد لئے ہیں۔ اور اگر نہ سمجھیں تو ہمارے لئے وہی مثال ہو گی کہ نہ پائے ماندن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

معاف کیجئے، جملہ معترضہ کچھ "پیرا معترضہ " ہو گیا۔ خدا نہ کرے کہ یہ کتاب ہی معترضہ ہو جائے۔

ہمارا مطلب دراصل یہ ہے کہ نظم و نثر میں خامہ فرسائی کرتے ہوئے اس حقیر فقیر بندہ پر تقصیر کو کم و بیش 30 سال گزر چکے ہیں۔ جو لکھا اس میں مشتے از چھپا بھی ہے چنیدہ چنیدہ رسائل (یعنی جن رسائل نے ہم کو چنا) میں۔ احباب کو بہر حال علم ہے کہ ہماری تخلیقات چھپیں یا نہ چھپیں، ہمارے ادبی قد و قامت میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ بطور شاعر ہم ضرور زیادہ جانے پہچانے گئے ہیں مگر نثر .....اللہ اکبر۔ افسانہ ناول کے علاوہ ہم چاہے تنقید لکھیں، خاکے لکھیں (یا اڑائیں) ، تاریخ یا سائنس کے موضوع پر قلم اٹھائیں، ہماری حسِ مزاح بری طرح پھڑک جاتی ہے۔ بلکہ در اصل یہ رگِ جان سے قریب ہی کوئی رگ واقع ہوئی ہے جو دھڑکن کے ساتھ دھڑکتی ہے۔

چار پانچ دن پہلے ہی یہ خیال آ یا کہ سفر بیت اللہ کے تاثرات پر مبنی کچھ لکھا جائے۔ رپورتاژ، سفر نامہ، ڈائری۔ جو بھی کہہ لیجیے ۔ جب حرمین میں داخل ہوں گے اس وقت کے تاثرات ممکن ہے کہ سنجیدہ ہوں، لیکن عام حالات میں (ابھی تو احرام سے بھی باہر ہیں۔ ویسے مزاح تو احرام کی حالت میں بھی حرام تو نہیں ہو گا) سنجیدگی کا دامن ـــ..... مگر یہ سنجیدگی کون ہے......؟

کیا ہم سنجیدہ ہو سکیں گے؟

جب قلم ہاتھ میں آتا ہے تو جیسا موڈ ہوگا، وہی زبانِ قلم سے ادا ہونا چاہئے۔ یہی سچّے ادیب کی پہچان ہے (کیا ہم یہ دعویٰ بھی کرنے لگے؟)۔ ہم عام حالات میں بھی طنز و مزاح کے شکار اسی طرح رہتے ہیں جیسا کھانسی اور دمے کے۔ کیسی بھی پریشانی اور تکلیف ہو ، اس کی شدّت کا اثر زائل ہو کر جیسے ہی نارمل ہوتے ہیں، سنجیدگی دامن چھڑا کر بھاگ جاتی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ اس ماڈرن لڑکی کا نام ہے جس کے پیچھے پیچھے یا ساتھ ساتھ بھاگتے بھاگتے ہم اس کا دامن پکڑنے (اور اگر ہاتھ آ جائے تو تھامے رہنے ) کی کوشش کرتے ہیں کہ بس اسٹاپ آ جاتا ہے اور متعلقہ نمبر کی بس آ کر رکتے ہی چل دیتی ہے اور ہم انگریزی محاورے کے مطابق بَس بھی مِس کر دیتے ہیں اور اِس مِس پر بھی بَس نہیں چلتا۔

جب ہم حج کے اجتماع کا حصہ بن جائیں گے تو اُس وقت کے تاثرات میں شاید مزاح دامن چھڑا کر بھاگ جائے (ویسے اس کی امید کم ہی ہے)۔ اپنی طرف سے یہ کوشش تو کر ہی سکتے ہیں کہ جو کچھ اس سفر میں لکھتے جا رہے ہیں، بعد میں فرصت نکال کر کانٹ چھانٹ کریں۔ معلومات والے حصّے حج گائڈ پڑھنے والوں کے لیے علیٰحدہ ، بصیرت افروز (اور بصیرت انگیز) حصّوں کا الگ انتخاب کریں اور رطب و یابس کو الگ چھان پھٹک کر نکال دیں (کنول مگر کیچڑ میں ہی کھلتا ہے)۔ لیکن اگر کوشش نہ کی جا سکے تو بھی قارئین خود سمجھ دار ہیں، یہ خدمت انجام دے سکتے ہیں کہ جس موقعے پر جو چاہیں پڑھیں۔ یہ بات تو بہر حال طے ہو گئی کہ ہم پائے کے ادیب ہیں، جو بھی لکھیں گے، اس کے معیاری ہونے میں چہ شک!!

ہم ہندوستان میں رہتے رہتے حاجی ہو گئے

تقریباً دو ماہ سے ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے پیارے اردو اخبار والے ـ"زائرینِ حج" اور "عازمینِ حج"(جو بلا شک و شبہ ہم ہیں) کے علاوہ ہم جیسے مسافروں کو "حجاجِ کرام" بلکہ بنگلور کے حج کیمپ میں ہی جا بجا لگے پوسٹروں پر "حاجیاں" کے نام سے یاد کئے جانے لگے ہیں جو کہ ہمارا مستقبل ہے دراصل، بلکہ انشاء اللہ۔ مگر حج سے پہلے ہم کو حاجی بنا دیا گیا ہے۔ یہ کچھ غور و فکر کا مقام ہے۔ یہی حال یہاں نظر آنے والی کاروں کا ہے جس پر اردو میں "حجاجِ کرام" لکھا ہے (انگریزی میں Haj Pilgrimsاور ہندی میں محض "حج یاتری")۔ خدا ان کی نیک دعائیں ہمارے حق میں قبول کرے اور ہم واقعی "حجاجِ کرام" بن کر لوٹیں۔ مگر یہ سوال اپنی جگہ باقیست کہ کیا عازمینِ حج کو حجاجِ کرام کہا جا سکتا ہے؟

بنگلور حج کیمپ

آج صبح ہم شمیم ٹریولس کی ہائی ٹیک (High Tech یاHi tech ) ڈی لکس بس جس کی عرفیت "پن ڈْبّی" (Submarine) تھی ، سے حیدرآباد سے بنگلور سیدھے ڈکنسن روڈ پر واقع مسلم یتیم خانے اور الحصنات کالج کیمپس میں سجائے گئے حج کیمپ پہنچ گئے ہیں۔ حیدر آباد سے بنگلور سفر کے لئے بنگلور کے شمیم ٹریولس والوں نے مفت انتظام کیا ہے جو کرناٹک حج کمیٹی کے لئے قابلِ فخر اقدام ہے۔ یہاں ہم اپنے انٹر نیشنل قاریوں کو اطلاع دے دیں کہ شہر بنگلور ہندوستان کی ریاست کرناٹک کی راج دھانی ہے۔ حج کمپ اور بسوں کے انتظام کا سہرا کرناٹک کی حکومت کے وزیر امورِ داخلہ و اوقاف جناب آر.روشن بیگ کے سر ہی ہے۔ یہ جواں سال اور فعّال جنتا دل (سیاسی پارٹی جو یہاں زیر اقتدار ہے) کے لیڈر کرناٹک حج کمیٹی کے چیر مین بھی ہیں۔ ان کی کوششوں سے ہی سال گزشتہ 1996 سے حج کے لئے جدّہ تک بنگلور سے راست پرواز کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ جس نے بھی روشن بیگ صاحب کو "خادم الحجاج" کا خطاب دیا ہے، بجا دیا ہے کہ یہ خطاب دراصل انھوں نے پہلے ہی اپنے لئے پسند کر لیا تھا، کوئ دے یا نہ دے۔ یہاں حج کیمپ کے انتظامات بھی تسلّی بخش ہوں، اس امر کا بھی انہوں نے کافی خیال رکھا ہے۔ آج شام کو روشن بیگ صاحب کے دیدار بھی ممکن ہیں کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے پنڈال میں اعلان کیا گیا ہے کہ حیدرآباد کے کسی صاحب حاجی محمد عمر صاحب کی کتاب، جو سورۂ عصر کی تفسیر ہے، کے اجراء کے لیے روشن صاحب ہی تشریف لا رہے ہیں۔

یہاں کا انتظام واقعی عمدہ ہے۔ اگر کسی کو شکایت ہو تو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ہزاروں کے انتظام میں بد نظمی بلکہ بد امنی تک کا خطرہ ہو سکتا ہے، اور اس حد تک بد انتظامی یہاں قطعی نہیں ہے۔ یہ محض امکان کی بات کر رہے ہیں ہم۔ ویسے اب تک کسی کو شکایت کرتے ہوے نہیں دیکھا ہے۔ مختلف کاؤنٹرس ہیں ، پہلے استقبال، ایک طرف کلوک روم۔ رہائش اور طعام کے کوپنوں کے کاؤنٹرس ، یہ سب باہر کی سمت، اندر پنڈال میں نماز اور اجتماعات کا انتظام، اسی کا ایک حصّہ خواتین کے لئے بھی مخصوص۔ اگرچہ مسجد بھی اسی کیمپس میں ہے، مگر اس "منی حج" کی سمائی اس مسجد میں کہاں ممکن؟ چنانچہ ابھی جمعے کی دو جماعتیں ہوئی ہیں، بلکہ اس وقت، دمِ تحریر، پنڈال میں جمعے کا خطبہ شروع ہو رہا ہے، جب کہ ہم اصل مسجد میں نمازِ جمعہ سے فارغ ہو کر 2 بجے سے کافی قبل آ کر یہ موقع غنیمت جان کر قلم لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ صابرہ، ہماری نصف بہتر، پنڈال کی جماعت میں ہیں۔ لنچ کے کوپن محترمہ کے پرس میں ہیں۔ پہلے سوچا تھا کہ نماز کے بعد اپنے کمرے آ کر کوپن لے جا کر لنچ سے فارغ ہو جائیں، صابرہ کے آنے تک، پھر اطمینان سے یہ ڈائری لکھیں گے۔ مگر اب یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ 3 بجے سے پہلے وہاں نماز کی تکمیل مشکل ہی ہے۔ اس لئے ابھی یہ کام شروع کر دیا ہے۔

پنڈال کے ہی ایک طرف وضو کا انتظام ہے۔ باہر کی طرف "قیمتی" یعنی قیمت ادا کر کے خریدی جانے والی طعامی اشیاء کی دوکانیں ہیں۔ 2 روپئے پیالی چائے مل رہی ہے، وہی ہم صبح سے دو بار پی چکے ہیں۔ "Thums Up" کے اسٹال پر ہی مشروب محض 3 روپئے میں دستیاب، بلکہ "دہن یاب" ہے۔ آئس کریم کے علاوہ با قاعدہ کھانے کی بھی ہوٹلیں ہیں، غالباً عازمینِ حج کے رشتے داروں اور احباب کے لئے، جن کو کیمپ میں جگہ نہ دی جا سکی ہو۔ ویسے کیمپ کے قوانین میں لکھا تو تھا کہ ہر پارٹی میں دو عدد غیر عازمین بھی حج کیمپ میں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ مگر ان کے کھانے کا انتظام نہیں رکھا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کے طعام کے لئے ہوٹلوں کی ضرورت ہوگی ہی۔

رہائشی حصےّ کا الگ احاطہ ہے، اسی میں اسپتال، کچن، ڈائننگ ہال، مردوں اور عورتوں کے لئے علیٰحدہ غسل خانے ا ور بیوت الخلاء( عورتوں کے لئے تین جگہوں پر)، ان کے علاوہ مختلف رہائشی ہال ہیں۔ ذرا ان کے نام بھی سن لیجئے..... منیٰ ہال، صفا ہال، مروہ ہال، عرفات ہال، فردوس ہال، اور ہم جس ہال میں خوش حال ہیں، اس کا نام ہے نِمرہ ہال۔ ویسے ہم ہر حال میں خوش حال ہیں۔

حاجی بنگا

یادش بخیر، 30۔35 سال قبل جب حضرتِ آتش کو تو قبر رسیدہ ہوئے بھی صدیاں گزر چکی تھیں، مگر ہم جوان نہیں، جوان ہونے کے خواب دیکھ رہے تھے، بچّوں کے لئے ایک کتاب چھپی تھی ــ""حاجی بمبا کی ڈائری"" جو دہلی کے ماہنامہ "پیامِ تعلیم" میں قسط وار شائع ہونے کے بعد مکتبہ جامعہ یا شاید مکتبہ پیامِ تعلیم سے ہی کتابی صورت میں شائع ہوئی تھی۔اب مصنّف کا نام بھی ذہن میں نہیں(غالباً یوسف ناظم، مگر صحیح معلومات کے لئے "کتاب نما" دیکھنا پڑے گا، اگر اب بھی یہ کتاب دستیاب ہے تو)۔ موصوف، مطلب مصنّف نہیں، اس کتاب کے واحد متکلم ّ، اس لئے حاجی بمبا کہے جاتے تھے کہ حج کے ارادے سے حضرت بمبئ تک تو پہنچ گئے، مگر اس کے آگے سفر کی زحمتوں سے گھبرا گئے شاید۔ یوں بھی وہ زمانہ ہوائی سفرِ حج کا نہیں تھا۔ موصوف بمبئ میں ہی رک گئے اور اس طرح کئی زحمتوں سے محفوظ اور بے شمار رحمتوں سے محروم رہے، وہ الگ، مگر حاجی کے لقب سے محروم نہ رہے۔ وہ حاجی بمبا کہلائے جانے لگے، مصنّف شاید آج کے زمانے میں یہ داستان لکھتے تو ان کا نام "حاجی مُمبا" ہوتا کہ عروس البلاد بمبئ کا پچھلے 4۔3 سال سے مُمبئ نام ہے۔ اب ہمارا رخشِ تصور دوڑنے لگا ہے۔ اس سال ہماری حج کمیٹی نے پانچ جگہوں سے حجاجِ کرام کو روانہ کرنے کا انتظام کیا ہے۔ دہلی، ممبئ، چینئ (سابق مدراس)، کلکتہ اور بنگلور، جہاں سے جدّہ کے لئے راست پروازیں ہیں۔چنانچہ ان مقامات سے ہی لوٹنے والوں کو بالترتیب حاجی ممْبا، حاجی چّنا (جو آندھرا پردیش کی تیلگو زبان میں "چھوٹے میاں" کا ترجمہ ہو جائے گا)، حاجی کلکا( کل کا، آج کا نہیں؟؟) اور یہاں بنگلور کے لئے حاجی بنگا کہا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ہم لمحۂ موجود تک حاجی بنگا تو ہو ہی چکے ہیں (اور آپ "حاجی بنگا کی ڈائری" پڑھ رہے ہیں) اگر چہ بنگلور سے لوٹنے کی نوبت تو نہیں آئی ہے اور خدا نہ کرے کہ آئے۔ حاجی تو ہم دو ماہ قبل سے ہی پکارے جا رہے ہیں، جیسا کہ لکھ چکے ہیں۔ اور آج صبح 7 بجے سے، یعنی جب سے ہماری "پن ڈبیّ" یہاں اتری ہے، ہم منیٰ اور عرفات میں گھومتے بھی رہے ہیں اور صفا (ہال) اور مروہ (ہال) کے درمیان سعی بھی کرتے رہے ہیں۔

آج صبح رجسٹریشن وغیرہ اور قیام و طعام کے انتظامات اور ضروریات کے بعد پہلا جو ناشتہ کیا ہے وہ نمکین سویاں تھیں جن کے ساتھ آلو کا شوربہ تھا۔ اب رات یا کل جب لکھنے کا موقع ملے گا تو دو پہر اور رات کے کھانے کا احوال بھی لکھ دیں گے۔ مرحوم ابنِ انشاء سے لوگوں کو یہ شکایت تھی کہ موصوف چاہے "ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں " نکلیں یا "دنیا گول ہے"  کو ثابت کرنے، ہر غیر ملک میں ہوٹلوں کے غسل خانے ہی ناپتے رہتے تھے، ہمارے اس سفر نامے میں شاید طعام کا ذکر غسل خانوں سے زیادہ ہی ہوگاکہ ہمارے نزدیک پیٹ کی اہمیت بدن کی ظاہری صفائی کی بہ نسبت زیادہ ہے۔ بازار میں تقویٰ کا لباس کہیں مل نہ سکا ورنہ اسی کو زیبِ تن کئے رہتے۔ در اصل ہم روح اور ضمیر کی صفائی کے قائل ہیں اور اس صفائی کا خیال جب ہی آتا ہے جب آپ کا پیٹ بھرا ہوا ہو۔ اچھّے کھانے کے بعد جو فرحت حاصل ہوتی ہے، اسی حالت میں روح کی بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔ اب کیوں کہ دوپہر کے تین بجنے والے ہیں، اس لئے ممکن ہے کہ یہ سطریں ہم سے بھوک لکھوا رہی ہو۔ اب پیٹ بھرنے کے بعد ہی لکھیں گے کہ قلم سے ندیدہ پن تو نہ ٹپکے!!

رہ شوق کے مسافر، تری آ گئی ہے منزل۔۔۔

مکّہ، یکم اپریل۔ 50۔10 بجے صبح

تین دن سے ہم کچھ نہیں لکھ سکے۔ یہاں مکّہ مکرّمہ پہنچ کر زیادہ تر وقت حرم شریف میں گزر رہا ہے۔ اب تک قلم کاغذ لانا بھول جا رہے تھے، آج لے کر آئے ہیں اور اس وقت باب السلام سے اندر داخل ہو کر مسعیٰ اور مطاف کے درمیان کے دالان میں بیٹھے ہیں۔ مسعٰی صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کا راستہ ہے اور مطاف وہ دائرہ جس میں طواف کیا جاتا ہے اور جو اندرونی صحنِ حرم سے لے کر باہری پہلے دالان تک ہے۔ کعبۃ اللہ سامنے ہے۔ جی نہیں چاہتا کہ اس کے سامنے سے نظریں ہٹائی جائیں۔ حج کے سلسلے میں جو کتابیں ہماری نظر سے گزریں، سبھی میں احادیث درج ہیں کہ محض کعبۃاللہ کو دیکھتے رہنے سے بھی 20 رحمتیں نازل ہوتی ہیں، یہاں نماز پڑھنے والوں پر 40 اور طواف کرنے والوں پر ساٹھ، یعنی کل ایک سو بیس (120) رحمتیں۔ یہ گنتی اللہ میاں ہی جانیں کہ ان رحمتوں کے نزول کا مطلب کیا ہے۔ مگر ہم جو سامنے کعبۃ اللہ کو دیکھے جا رہے ہیں تو اسی گھر کے مالک کی قسم! ہم ان رحمتوں کے طلب گار نہیں ہیں۔ ہماری رو سیاہی کے باوجود خدائے رحیم ہم پر اتنی ہی، یا کچھ کم زیادہ، رحمتیں نازل کرے تو بات دوسری ہے۔ ہم کو اس سے غرض نہیں۔ یک گونہ بے خودی ہمیں دن رات چاہئے۔ یہ تو نگاہِ شوق کا معاملہ ہے۔ آخر اس سیاہ غلاف پوش عمارت میں کیا کشش ہے ؟ غلاف کے نیچے جو پتھّر نظر آتے ہیں، وہ ایسے ہی ہیں جن سے ہر جگہ نہیں تو کم از کم حیدر آباد میں ، مکان کی بنیاد میں گرینائٹ کے بلاکس کی چار دیواری بنائی جاتی ہے۔ سیاہ غلاف اور اس پر سنہری کام، اور جو آیات کشیدہ کی گئی ہیں، وہ خوب صورت ضرور ہیں، مگر پھر بھی ایسی مثالیں نایاب تو نہیں۔ تقریباً دو ٹن وزنی خالص سونے کا دروازہ ہے۔ مگر اس میں تموّل کی نشانی کے علاوہ کون سی ایسی خاصیت ہے، اکثر محلوں کے دروازے سونے کے ہوا کرتے تھے۔ ایک کونے میں ایک چاندی کا حلقہ ہے جس میں کسی سیمنٹ میں ایک پتھّر کے 22 ٹکڑے جڑے ہیں۔ یہ سنگِ اسود ہے۔ ہاں، یہ ضرور کہیں نہیں ملے گا کہ کہا جاتا ہے کہ یہ پتھّر جنّت الفردوس سے لایا گیا تھا۔ ہمارے صدرِ شعبہ، ہماری مراد مادر درس گاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ  ارضیات کے صدر مرحوم پروفیسر فخر الدین احمد سے ہے جو ہماری طالب علمی کے زمانے میں 1975؁ تک صدر رہے،ان کا خیال تھا کہ یہ ضرور کسی شہابِ ثاقب کا ٹکڑا ہوگا۔ کسی طرح اس کا کوئی ٹکڑا مل جائے تو خوردبین سے پرکھا جائے۔ ہمارے فخر الدین احمد تو اسی خواہش کو لئے سال گزشتہ ہی جنّت مکانی ہو گئے۔ مطلب یہ کہ اگر یہ پتھّر واقعی شہابِ ثاقب ہے بھی، تو ایسے لاکھوں ٹکڑے اس کرّہ ارض پر ابھی بھی موجود ہیں، کم از کم ہر ارضیاتی میوزیم میں۔

اچھّا ۔ اب دین کی طرف بھی آئیے۔ مان لیا کہ حج فرض ہے، اور حج میں طوافِ کعبہ بھی فرض ہے۔ حضرت ابراہیم کے زمانے سے جب اس کی تعمیر ہوئ تھی، تب سے لوگ حج کرتے آئے ہیں۔ لیکن حج تو مخصوص دنوں میں ہے، صرف ان دنوں میں حج کی وجہ سے اس کی اہمیت ہونی چاہئے تھی۔ ہاں، نماز کے لئے اس کا استقبال ضروری ہے یعنی اس کی طرف رخ کرنا۔ حالاں کہ ہم میں سے بیش تر لوگ نماز کی نیّت کرتے وقت محض عادتاً کہتے جاتے ہیں " منہ میرا کعبے شریف کی طرف" مگر اس سے تو صرف یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ ؎ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز۔ یعنی ساری دنیا کے مسلمانوں میں یکسانیت بلکہ یک جہتی کے احساس کے لئے کہ آپ کسی بھی نقطۂ ارض پر ہوں، نماز پڑھیں گے تو اسی پتھرّ کی عمارت کی طرف۔

ان ساری حقیقتوں کو ایک ساتھ بھی ملا لیجئے اور محض دماغ سے سوچئے، دل کے دروازے کو مقفلّ کر دیجئے اور سوچئے کہ کیا اس کا جواز ہے کہ لاکھوں کروڑوں لوگ یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔ یہ بات پاسبانِ عقل کو کبھی کبھی ہی نہیں، ہمیشہ تنہا چھوڑ دینے کی ہے۔ اس سیاہ غلاف پوش عمارت میں کیا کشش ہے کہ ہر ملک کے مسلمان...طرح طرح کے لباس...قسم قسم کے چہرے...سینکڑوں زبانیں...اب سامنے ہی دیکھئے، کئے جا رہے ہیں طواف کے بعد طواف ۔ بس اسی کے لئے لوگ چلے آتے ہیں؎ شوق کھینچے لئے آتا ہے، چلا آتا ہوں۔

لوٹ پیچھے کی طرف....

قارئینِ کرام بے صبر نہ ہوں کہ ہم اچانک بنگلور حج کیمپ پہنچ کر 28/مارچ کی دو پہر کے بعد سے اب تک کچھ نہ لکھ سکے اور اب تک خاموش رہے ہیں اور درمیان کا کچھ حال نہیں لکھا ہے۔ دراصل ابھی جب قلم اٹھایا ہے تو بے اختیار سامنے کے نظارے نے ہوش گم کر دئے اور ہم "حال "میں  آ کر حال کی باتیں کرنے لگے۔ لوٹ پیچھے کی طرف...

چنانچہ اب شروع سے شروع کرتے ہیں، یعنی جہاں سے بات ختم کی تھی۔ پہلے ایک ممکنہ غلطی یا غلط فہمی کا ذکر کر دیں۔ ریاست کرناٹک کے وزیرِ امورِ داخلہ اور اوقاف جناب روشن بیگ صاحب کے بارے میں۔ ہم نے ان کے لئے خادم الحجاج کا خطاب بنگلور کے ایک روزنامے میں پڑھا تھا۔ مگر حج کیمپ میں ہی ایک جگہ Bannerلگا دیکھا ""جناب آر. روشن بیگ کو محسن الحجاج کا خطاب مبارک ہو"" پنڈال میں بھی ایک صاحب نے تقریر میں یہی خطاب دیا گیا تھا جو واقعی صحیح بھی ہے۔ ظاہر ہے روشن صاحب خود کو چاہے خادم کہہ لیں مگر ان کی تکریم کے لئے تو یہ خطاب غلط ہے۔ اخبار میں چھپی بات کو ہم مستند سمجھے۔ اسی لئے اس اخبار کا نام بھی نہیں لکھ رہے ہیں جو کہ حج کیمپ میں مفت تقسیم ہوا تھا۔ اگر روشن بیگ صاحب ہی کبھی یہ تحریر پڑھ سکیں تو ہم بھی اس خطاب پر ان کو مبارک باد دیتے ہیں اور تہہِ دل سے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ واقعی عازمین حج کے لئے جو بنگلور حج کیمپ میں انتظامات کئے گئے تھے، ان میں ان کا بہت ہاتھ تھا اور اس کے لئے یقیناً شکرئیے کے مستحق ہیں۔

بنگلور حج کیمپ ۔پہلے د و د ن

رسالہ "شمع" دہلی میں ، کم از کم جن دنوں میں ہماری نظروں سے یہ پرچہ گزرتا تھا، اس میں ایک دو افسانے ایسے ہوتے تھے جن کے سر نامے پر لکھا ہوتا تھا "مختصر مختصر کہانی ، ایک ہی صفحے میں مکمل"۔ پہلے تو ہم نے بھی یہی سوچا کہ ہم بھی بنگلور کیمپ کا احوال اسی طرح ختم کر دیں۔ اب دیکھئے کتنا طویل ہوتا ہے۔

اس دن دو پہر کو ہمارے تحریر کرنے کے بعد صابرہ رہائشی ہال میں آئیں تو ہم نے کھانے کے کوپن لئے اور کھانے کے لئے گئے۔ اب ڈائننگ ہال دیکھئے۔ اس میں چھ طویل میزیں تھیں ، سامنے مردوں کے لئے اور اندرونی حصے میں عورتوں کے لئے۔ ہم نے گنیں تو نہیں، مگر ہر میز پر تقریباً 25 کرسیاں ضرور ہوں گی یعنی تقریباً 300 لوگوں کے لئے بیک وقت بیٹھنے کا انتظام۔ بنگلور سے روانہ ہونے والے 2 ہزار عازمین کے لحاظ سے چھ نشستوں میں ہی کھانا  ممکن تھا۔ یہی وجہ تھی قطار لگنے کی۔ ایک طرف ڈرم میں پینے کے پانی کے پاؤچ یا سیشٹ( Sachet ) رکھے تھے۔ صاف شدہ پانی (منرل واٹر) کے مہر بند پیکٹ۔ میزوں پر بھی ہر پلیٹ کے پاس پانی کے پیکٹ۔ پہلے دن دوپہر کے کھانے میں پلیٹ میں گوشت کی بوٹیاں پہلے سے ہی رکھی تھیں ، محدود مقدار میں اس لئے کہ سب کو مل سکیں، اگرچہ یہ مقدار محدود یعنی کم نہیں تھی۔ اس کے ساتھ سبزی کی بریانی اور رائتہ ، جسے دکن میں دہی کی چٹنی کہا جاتا ہے، ذائقہ بھی اچھّا تھا ۔ والنٹئرس بھی اچھی مدد کر رہے تھے۔ صابرہ تو کھا چکی تھیں، ہم اکیلے تھے۔ یوں بھی خواتین کا انتظام الگ تھا اس لئے ایک ہی میز پر ساتھ ساتھ تو نہ ہوتے۔ بہر حال ہمارے پاس حیدر آباد سے لایا ہوا کھانے کا ٹفن ساتھ تھا جس میں کچھ کباب اور ٹماٹر کا سالن باقی تھا، چنانچہ اس کو بھی ختم کیا گیا۔ ڈبّہ کھلنے میں مشکل ہو رہی تھی تو اس کے لئے بھی ایک والنٹیر نے اپنی خدمات پیش کیں۔ آس پاس کے سات آٹھ حاجیوں (ہم بھی اب سب کو حاجی ہی لکھیں گے کہ یہاں سب کو "حاجی "ہی کہا جا رہا ہے ) کو بھی کباب اور سالن تقسیم کیا۔

کھانا کھا کر کچھ دیر آرام کر کے ہم دونوں باہر نکلے۔ شام کی چائے پی۔ حج کیمپ کے باہر سڑک پر بھی بازار لگا تھا۔ "حاجیوں" کی ضرورت کی اشیاء کا ہی۔ ہم کو بھی ایک بیلٹ لینا تھا جسے احرام کی کمر والی چادر پر لپیٹ سکیں تاکہ اسے بار بار سنبھالنا بھی نہ پڑے اور رقم یا ضروری کاغذات بھی بیلٹ کے خانوں میں محفوظ رہیں۔ چنانچہ ایسا ہی پاؤچ والا بیلٹ ہم نے خریدا۔ پھر اگرچہ ہم نے کچھ سامان پر نام لکھ رکھا تھا مگر مزید محفوظ بنانے کے لئے بھی اور آئندہ جو سامان لیا جائے، اس پر بھی نشانی رکھنے کے لئے کاغذی ٹیپ اور مارکر قلم خرید لیا۔ ہم نے پہلے سوٹ کیسوں پر صرف نام لکھا تھا اب دوسروں کا لکھا دیکھا تو حج کمیٹی کا "کور نمبر " بھی ہر عدد پر لکھ دیا۔ اے پی۔2/331۔

عصر کی نماز پنڈال میں پڑھی جماعت سے ہی۔ وہاں ہی مغرب تک تقریر ہوتی رہی مناسکِ حج کے بارے میں۔ مغرب کے بعد ہم دونوں کچھ دیر باہر احاطے میں ہی رہے، کولڈ ڈرنکس پئے۔ وہاں چائے تو ضرور "بازار کے بھاؤ" یعنی 2 روپئے کی مل رہی تھی، مگر کولڈ ڈرنکس نصف قیمت پر۔ فاؤنٹین ڈرنکس ، یعنی مشین میں لگے نلوں سے جو گلاس بھر کر دئے جاتے ہیں، وہ محض 3 روپئے، اور بوتلیں محض چار روپئے، کوئی سی بھی لیجئے۔ یہاں تک کہ " بِسلیری منرل واٹر" یعنی معدنی پانی کی بوتلیں بھی 10۔12 روپئے کی جگہ صرف 5 روپئے میں۔ عشاء بلکہ اگلے دن کی بھی ساری نمازیں ہم نے جماعت سے پنڈال میں ہی پڑھیں۔ پہلے دن ہی ایک کارروائی اور ہوئی تھی، ہوائی جہاز کے ٹکٹوں کی بکنگ کی۔ اس کے لئے حج کمیٹی کا "کنفرمیشن کارڈ (Confirmation Card) اگر چہ جمعے کی نماز سے پہلے ہی دے دیا گیا تھامگر کہا گیا تھا کہ 3 بجے لے لیں "بورڈنگ پاس"  ۔3 بجے معلوم ہوا کہ کارروائی مکمل نہیں ہوئی۔ 4 بجے، پھر 5 بجے، آخر سات بجے یہ حاصل ہو سکا۔ یعنی کنفرمیشن کارڈ پر ہی ہم دونوں کے لئے دو اعداد تحریر کر دئے گئے۔ 207 اور 208 ۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ جہاز کے سیٹ نمبرس ہیں۔ مگر ہمارے علم کے مطابق جہاز کے سیٹ نمبر بغیر حرفِ تہجّی کے نہیں ہوتے۔ یہ صرف نمبر شمار ہی ہوں گے۔

رات کو کھانے کے لئے قطار میں لگے تو آدھے گھنٹے بعد نمبر لگا۔ کھانے میں پلاؤ ( یا بگھارے چاول) اور محض شوربے کے ساتھ کچھ مرغ کی بوٹیاں جو پلیٹ پر "محدود" مقدار میں پہلے ہی رکھی تھیں ("محدود" کے اُلٹے کاما پر غور کریں، کم کے معنے نہ لئے جائیں)۔

٢٩/ مارچ کی صبح فجر کی اذان سے پہلے آنکھ کھل گئی۔ ضروریات اور فجر کے بعد کچھ کتابوں کا سرسری مطالعہ کیا۔ جو مناسکِ حج کے بارے میں ہمارے ساتھ تھیں، پھر ناشتہ کیا۔ ناشتے میں جو ڈش تھی ، اسے یہاں انگریزی میں "لیمن رائس" (Lemon Rice) کہتے ہیں، اگرچہ تیلگو اور کنّڑ میں الگ الگ نام ہیں۔ "پھلی ہارا" اور "چتراننا" بالترتیب۔ اس کے ساتھ ناریل اور مونگ پھلی کی سفید چٹنی۔ اس جنوبی ہندی ناشتے کے بعد ہم نے باہر آ کر چائے خرید کر پی۔ اس کے بعد کچھ باتیں، کچھ آرام، کچھ مطالعہ، کچھ کیمپ کی سیر۔ کسی ایم ایل اے یا ایم پی نے بھی اس دن کیمپ کا معاینہ کیا۔ روشن بیگ بھی ایک چکّر لگا کر گئے۔ (اب انشاء اللہ بعد میں لکھیں گے۔)

کمزور ہے میری صحّت بھی...

2/ اپریل، 3 بجے سہ پہر۔

 

...(ابھی کچھ وقت ملا ہے تو سوچا کہ رخشِ قلم کو کچھ کسرت کرائی جائے۔ باتیں پرانی ہوتی جا رہی ییں ۔ یادداشت متاثّر ہوتی جا رہی ہے۔ واقعات کی ترتیب صحیح ہے یا نہیں، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔)

29/مارچ کی صبح 11 بجے ہی حج کمیٹی کے دفتر کھلنے کا وقت تھا جب پاسپورٹ وغیرہ مل سکتے تھے۔ حسبِ معمول صبح 8۔7 بجے سے قطار میں لوگ لگنا شروع ہو گئے۔ ہم نے دیکھا کہ عورتوں کی قطار بڑی نہیں ہے۔ ہماری طبیعت ویسے بھی خراب ہی رہتی ہے، صبح کے وقت تو ہمیشہ۔ اس وقت بھی کھانسی اٹھ رہی تھی۔ اب درمیان میں اس موضوع پر بھی آپ کو کچھ بتا دیں۔ ہم دو تین سال سے دمے کے مریض ہیں اور دن میں دو تین بار سے لے کر کبھی کبھی 6۔5 بار تک کھانسی اور کبھی کبھی "سانسی" کے دورے پڑتے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو کسی دورے میں محض گلا خراب ہو جاتا ہے۔ اور پچھلے سال سے ہمارا مشاہدہ رہا ہے کہ ہماری پاؤچ کی سگریٹ رول کر کے پینے سے تقریباً آدھے گھنٹے میں طبیعت معمول پر آ جاتی ہے۔ ورنہ پھر پہلا دورہ ہی دن بھر جاری رہتا ہے۔ جیسا کہ اُن پانچ چھہ ماہ تک چلتا رہا تھا جب ہم نے سگریٹ مکمل طور پر چھوڑ دی تھی۔ اب بھی ہم کوشش کرتے ہیں کہ اسموکنگ سے حتی الامکان گریز بلکہ پرہیز کریں۔ قارئین گھبرائیں نہیں ، ہم روزانہ لکھیں گے بھی تو اس کا ذکر زیادہ نہیں کریں گے کہ فلاں وقت سے فلاں وقت تک ہماری طبیعت خراب رہی اور پھر فلاں وقت تک نارمل رہی۔ بہر حال طبیعت کی وجہ سے ہم نے پاسپورٹ وغیرہ کے حصول وغیرہ کی ذمّہ داری ہماری اہلیہ محترمہ، خدا ان کو نیک توفیق دے اور ان کی جائز خواہشات پوری کرے اور ان کی دنیا کے ساتھ آخرت بھی سنوار دے، صابرہ کے سپرد کر دی۔ 11 بجے اعلان کیا گیا کہ ائر  لائنس نے ٹکٹ بنا کر نہیں بھیجے ہیں۔ پچھلے دِن گُڈ فرائی ڈے کی چھٹی کی وجہ سے دفتر میں کام نہیں ہوا تھا۔ آخر ڈھائی تین بجے پاسپورٹ اور جہاز کے ٹکٹ مل سکے۔ محترمہ بغیر تاخیر کے (اور بغیر کسی قطار کے) لے آئیں اگر چہ اس وقت ہماری طبیعت معمول پر تھی۔ ساتھ ہی ایر انڈیا کی طرف سے تحفتاً ایک ایک چھاتا (خود کار، Automatic) اور ایک ایک مختصر بیگ۔حج کمیٹی کی طرف سے ایک کتاب ــ ""حج گائڈ"" اور ایک کتابچہ ""تلبیہ"" ۔ ایک اور کتابچہ بنگلور کے ایک دینی ادارے کی طرف سے ہدیہ ""مسائلِ حج و عمرہ ""کے نام سے۔ ٹکٹ ملنے پر پتہ چلا ہماری واپسی کا ٹکٹ جدّہ سے بنگلور 10/ مئی کو 50۔15 یعنی شام 3 بج کر 50 منٹ کی اڑان سے ہے، یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ وقت کون سا ہے، جدّے یعنی سعودی عرب کا یا ہندوستان کا معیاری وقت۔ پاسپورٹ بھی مل گئے اور فی کس 2316 ریال کے ڈرافٹ بھی۔

اب یہاں یہ بات بے محل نہ ہوگی کہ آپ کو بتاتے چلیں کہ ہم نے حج کمیٹی کی درخواست کے ساتھ پانچ ہزار روپئے تو بطور پیشگی (سعودی عرب میں رہائش کے انتظامات کے لئے) ہی ادا کئے تھے۔ (اس کے علاوہ ان کے سروِس چارجیز اور مکّہ میں حج ہاؤس کی تعمیر کے لئے چندہ وغیرہ بھی شامل تھا)، اس کے بعد 12 ہزار روپئے فی کس حج کمیٹی کے مرکزی دفتر، ممبئی ڈرافٹ کے ذریعے بھیجے تھے جو ہوائی ٹکٹ کے لئے تھے۔ اس کے بعد تیسری قسط میں 4600 ریال کی متبادل رقم تقریبآ 45 ہزار روپئے ممبئی بھیجی تھی۔ اسی 4600 ریال میں سے ہمارے سعودی عرب میں قیام کے دوران ہماری ضروری آمدورفت کیے لئے بسوں کے کرائے ، معلّم کی فیس اور مکّہ مدینہ عرفات اور منیٰ وغیرہ کے قیام کے اخراجات کے 2284 ریال منہٰی کر کے باقی 2316 ریال ہم کو دے دئے گئے تھے کہ حاجی صاحب! آپ کو اختیار ہے کہ آپ یہ رقم چار دن میں کھا پی کر ختم کر دیں یا ساری رقم کا سونا وغیرہ خرید لائیں، یا کچھ بھی نہ خرچ کریں، ساری رقم واپس ہی بچا لائیں۔ حج کیمپ، بنگلور میں ہی ایک بنک کاؤنٹر اور بھی تھا جہاں آپ 3 ہزار تک کی رقم دے کر متبادل سعودی ریال یا امریکی ڈالر خرید سکتے تھے۔ قانونی طور پر زرِ مبادلہ، خیر، ہم کو اس کی ضرورت نہیں تھی۔

صبح سے پاسپورٹ کے حصول کا چکّر ہی چل رہا تھا۔ اسی لئے ہم اس ذکر میں ان کے حصول کے وقت یعنی ٣ بجے تک کی چھلانگ لگا گئے۔ کھانے کا ذکر ہم نہیں چھوڑنے والے۔ دوپہر کو کھانے میں مرغ کی بوٹیاں تھیں اور سبزی کے پلاؤ کے ساتھ شوربہ۔ اور رات کو پھر آلو قیمہ اور پلاؤ یا بگھارے چاولوں کے ساتھ "دالچہ" یعنی لوکی وغیرہ اور شاید گوشت اور ہڈّیوں کے ساتھ کھٹّی دال یا دال کا شوربہ (حیدرآبادی قارئین تو "بگھارے  چاول "اور" دالچہ" کی اصطلاح سمجھ جائیں گے، شمالی ہند کے قارئین کے لئے "اردو" میں ترجمہ کرنا پڑ رہا ہے)۔ خیر، یہ تو دو پہر کا ذکر کیا تو شام کے کھانے کا بھی کر دیا ورنہ ابھی ڈنر کھانے کی نوبت کہاں آئی ہے جس کے لئے ہم کو حکّام کے ساتھ کی بھی چنداں ضرورت نہیں۔ (ویسے اکبرؔ کی طرح قوم کا غم ہم کو بھی کم نہیں ہے۔)

داستان چپّل کی ، لکھانی سے باٹا تک

ہم اتنے دن سے باٹا کی وہی پرانی چپّل پہنے جا رہے تھے جس کے انگوٹھے کی دو تین بار سلائی کروا چکے تھے۔ سوچا تھا سفر میں اسی کو چلنے دیں گے، مکّہ پہنچ کر اسے رخصت کر دیں گے۔ مگر 29/ کی صبح ہی یہ چپّل پھر ٹوٹ گئی، ہم کسی طرح شام تک گھسیٹتے رہے۔ حرم کے نیک ارادے سے ہم نے "لکھانی" کی سب سے مہنگی والی 58 روپئے کی کم وزن ہوائی چپّل خریدی تھی۔ سوچ رہے تھے کہ اسے ابھی نہ نکالیں، آس پاس گھوم کر دیکھتے رہے کہ کوئی موچی ہو تو وہی چپّل پھر سلوا لیں۔ مگر بنگلور کے ڈکنسن روڈ پر یا تو کوئی موچی بیٹھتا نہیں تھا، یا بیٹھتا بھی تھا تو ہمارا (یا پھر، خدا کرے، کسی اور کا) نام سن کر بھاگ لیا تھا۔ آخر یہ چپّل ہم نے حج کیمپ کے ہمارے نِمرہ ہال کی نذر کر دی۔ پاسپورٹ وغیرہ کے مطالعے کے بعد نہا دھو کر باہر نکلے تو یہی نئی چپّل پہن لی۔ اب کیوں کہ چپّل کی داستان لکھ رہے ہیں (اور کافی مدّت کے بعد جب بہت کچھ مزید واقع ہو چکا ہے) اس لئے یہ لکھ دیں کہ اس چپّل نے بھی ہمارا ساتھ محض 25۔26 گھنٹے ہی دیا کہ مکۃ المکرّمہ آنے کے بعد حرم کے پہلے ہی دورے میں داغِ مفارقت دے گئی۔

ہم نے مولانا عبدالکریم پاریکھ کی کتاب "حج کا ساتھی" میں پڑھا تھا کہ ایسے موقعوں پر مایوس ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے اور نہ ضرورت ہے کہ آپ رقم خرچ کر کے بار بار چپّل خریدتے رہیں۔ حرم میں جب چپّلیں زیادہ جمع ہو جاتی ہیں یا ان کا ڈھیر راستے میں حائل ہو جاتا ہے تو حرم کے صفائی کرنے والے ملازمین دروازوں کے باہر یا کوڑے دانوں میں ڈال دیتے ہیں۔ آپ کو بھی چپّل نہ ملے تو جہاں لا وارث چپّلوں کے ڈھیر نظر آئیں، آپ کوئی بھی چپّل نکال کر پہن لیجئے۔ ہمارے ساتھ جو مظہر صاحب تھے، انھوں نے بھی یہی مشورہ دیا بلکہ ایک ڈھیر کی طرف اشارہ بھی کیا۔ ہم خوش ہوئے کہ چلو اس بہانے ہندوستانی چپّل کے بدلے میں کوئی عمدہ، باہر کی، مطلب " اِمپورٹیڈ" چپّل مل جائے گی چین، جاپان یا سنگاپور وغیرہ کی۔ مگر اس ڈھیر میں دیکھا تو کوئی جوڑا مکمل نہ تھا جو ہمارے پیروں میں آتا۔ لے دے کر ایک جوڑ چپّل ایسی تھی جسے "زوجین" کہا جا سکتا تھا۔ بلکہ زوجین ہی تھیں یہ چپّلیں۔ اس وقت تو ہم نے اندھیرے میں بغیر دیکھے ہی پہن لیں، بعد میں قیام گاہ میں آ کر دیکھا تو یہ چپلیں باٹا کی تھیں۔

(پس تحریر:لکھتے وقت ہم کو غلط فہمی تھی کہ باٹا کی چپّلیں صرف ہندوستانی ہوتی ہیں۔ لیکن بعد میں پاکستانیوں کو بھی باٹا کی چپّلیں پہنے دیکھا اور جدّہ میں باٹا کی کچھ چپّلوں کے ڈبّوں پر "میڈ ان سایپرس" Made in Cyprus))بھی لکھا دیکھا۔ چنانچہ پتہ چلا کہ باٹا کی چپّلوں پر ہندوستان کا ہی ٹھیکہ (حیدرآبادی زبان میں "گتّہ")نہیں ہے۔ اس وقت چپّل پاکر ہم کو مایوسی ہوئی تھی ۔ بعد میں خوش بھی ہو لئے کہ ممکن ہے کہ یہ چپّل قبرص یا کہیں اور کی ہو۔بہر حال یہ چپّل بھی، اگرچہ سلامت تھی اور پورے قیام کے دوران ہمارا ساتھ نبھاتی رہی ، مگر ہم وطن واپس آتے وقت مکّے کی عمارت میں چھوڑ آئے، جان بوجھ کر۔)

ہم محرم ہو گئے

ہاں، یہ لکھنا بھول گئے کہ پاسپورٹ وغیرہ کے حصول ا ور ساڑھے چار پانچ بجے نہانے کے دوران ہی کلوک روم سے ہمارے سوٹ کیس وغیرہ بھی نکال کر کسٹم اور امیگریشن اور سامان کے ناپ تول وغیرہ کے جھگڑوں سے بھی فارغ ہو چکے تھے۔ غسل بھی عصر سے قبل ہی کر لیا تھا مگر احرام نہیں باندھا تھا۔ یوں ہی وقت ضائع کرتے رہے۔ مغرب سے پہلے ہی پنڈال میں میں اعلان ہوا کہ رات کی فلائٹ سے جانے والے عشاء سے قبل ہی کھانے سے فارغ ہو لیں کہ عشاء کے فوراٌ بعد ایر پورٹ کے لئے روانگی ممکن ہو سکے۔ یوں ٹکٹ کے حساب سے ہماری فلائٹ کی تاریخ 30 مارچ مگر وقت 05۔00 تھا یعنی 30 مارچ شروع ہوتے ہی۔ اس لئے اسے 29/مارچ کی رات کہا جا رہا تھا۔ ہم نے بھی یہی کیا کہ عشاء سے قبل ہی کھانا کھا لیا۔ اس کا ذکر پہلے ہی کر چکے ہیں۔ پھر عشاء پڑھ کر آئے اور ضروریات سے فارغ ہو کر وضو کر کے احرام باندھا۔ حیدرآباد سے ہی خریدی ہوئی "ہرک" اور بنگلور سے خریدے بیلٹ کے ساتھ۔ یہ ڈھائی میٹر اوپر اوڑھنے اور پونے تین میٹر نیچے لپیٹنے کی بغیر سلی چادریں ہوتی ہیں احرام میں جس میں گرہ لگانا یا پن ٹانکنا نا جائز ہے۔ البتّہ بیلٹ لگایا جا سکتا ہے۔ احرام کا یہ کپڑا حیدرآباد میں دھو کر بھی چلے تھے کہ کسی کتاب میں لکھا تھا کہ بغیر دھلا اور کلف لگا احرام بار بار پھسلتا ہے۔ ہمارا تجربہ تو یہ ہوا کہ ہمارا دھلا ہوا احرام بھی رکوع اور سجود میں ضرور ڈھلک جاتا تھا۔ احرام باندھ کر دو رکعتیں واجب الاحرام نماز بھی پڑھیں۔ ادھر ہماری محترمہ نماز سے فارغ ہو کر ہال بھر کی عورتوں کے سروں پر "احرام" باندھ رہی تھیں۔ ویسے عورت کا احرام صرف یہ ہے کہ چہرے پر کپڑا نہ لگے جو کہ مردوں کے احرام میں بھی شرط ہے۔ عام طور پر ایک تکونا کپڑا عورتوں کے "احرام" کے غلط نام (Misnomer)سے مشہور ہے جو سر کو باندھنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ عورت کا سر اور بال تو در اصل اس کے ستر میں شامل ہیں چنانچہ یہ کپڑا احرام نہیں بلکہ لباس اور حجاب یعنی پردے کی پابندی ہے۔ عام طور پر برِصغیر کی عورتیں سر کے ڈھکنے کا خیال نہیں رکھتیں، اس کا خیال رکھنے کے لئے لوگوں نے اسے احرام کا نام دے دیا ہے کہ کم از کم حج کے دوران اس کی پابندی ہو سکے۔ احرام کی حد تک یہ کہہ سکتے ہیں کہ احرام کی حالت میں کنگھا کرنا جائز نہیں ہے اور اس بات کا بھی خیال رکھنا ہے کہ بال (سر کے اور مردوں کے چہرے کے بھی) نہ ٹوٹیں۔ تو اس "احرام" سے عورتوں کے بالوں کی حفاظت ضرور ہو جاتی ہے۔ احتیاط یہ ضروری ہے کہ سر پر یہ کپڑا اس طرح باندھیں کہ نہ بال ہی نظر آئیں، نہ چہرے یا پیشانی کے کسی حصے کو کپڑا لگے کہ اس کی بھی مردوں اور عورتوں دونوں کے لئے ممانعت ہے۔ یہ کپڑا بالکل بالوں کی لکیر(Hair Line)کے ساتھ ساتھ باندھا جائے۔ دوسروں کے "احرام " تو ہماری محترمہ باندھتی رہیں مگر خود ان کے احرام میں چہرے پر کپڑا لگنے پر ہم ہی ان کے سر کا کپڑا پیچھے سرکاتے رہے اور یہ جھنجھلاتی رہیں۔ خیر، خدا ان کا احرام قبول کرے مگر ہم سے بھی بھولے سے دو چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہو گئیں احرام کی حالت میں۔ بے خیالی میں ہوائی جہاز میں سامنے کی سیٹ کی پشت پر پیشانی ٹیک دی جس پر کپڑے کا غلاف لگا تھا۔ اگرچہ جلد ہی غلطی کا احساس ہو گیا۔ اسی طرح صبح ہوتے ہوتے یعنی جدّے کے قریب ہم نے گردن کے پاس کھجانے کی کوشش کی تو میل نکلنے لگا۔ یہ بھی کارِ غلط یعنی احرام کے منافی تھا۔ یوں بے خیالی میں یہ غلطیاں ہوئیں پھر بھی احتیاط کے طور پر "دم" دے دیں گے یعنی جزا کے طور پر ایک ایک مٹھّی اناج، جو اب تک تو دے سکے ہیں۔

بہر حال احرام باندھ کر اور اپنا سامان لے کر ہم لوگ چلے۔ کلوک روم میں رکھے سوٹ کیس اور ایک بڑا بیگ تو سہ پہر کو ہی ایر انڈیا کے لگیج کاؤنٹر پر دے دئے تھے اور یہ شاید پانچ بجے تک ایر پورٹ پر چلے بھی گئے تھے۔ یہ ایسے پتہ چلا کہ ساری شام پنڈال کے مائک پر اس قسم کے اعلانات ہوتے رہے کہ فلاں صاحب کے سامان میں کچھ قابلِ اعتراض اشیاء کا پتہ چلا ہے اور وہ لوگ پہلے ہی ایرپورٹ پہنچ کر اس کا تدارک کریں۔ یعنی سب کے سامان کی جانچ بھی ہو چکی تھی۔ ہم اس پکار سے بچے رہے کہ خود ہمارے علاوہ قابلِ اعتراض کوئی شے ہمارے پاس تھی ہی نہیں۔

احرام باندھ کر پنڈال کی طرف آئے تو ہم کو کلوک روم کے سامنے دو رویہ کرسیوں پر بٹھایا گیا۔  اس راستے کے دونوں طرف ہم کو رخصت کرنے والے والنٹیرس اور بنگلور کے مقامی لوگ تھے جن میں سے بیشتر تو اپنے کسی رشتے دار کو رخصت کرنے ہی آئے ہوں گے، دوسرے عازمین کو بھی رخصت کرنے کھڑے ہو گئے تھے۔ ایک صاحب نے سب کو ایک ایک پیکٹ بھی تحفتاّ دیا۔ بعد میں کھول کر دیکھا تو اس میں پھل تھے..کیلے، سنترے اور سیب۔ اتفاق سے اُ س وقت کوئی اہم شخصیت ہم کو رخصت کرنے کے لئے موجود نہیں تھی۔ روشن بیگ صاحب پہلے ہی جا چکے تھے شاید ابتدا میں ہی کچھ لوگوں کو رخصت کر کے۔ تین بسوں کے روانہ ہونے کے بعد ہمارا نمبر لگا۔ ایک مقامی مولانا (ان کا نام پوچھنا چاہئے تھا کہ آپ کو بتا سکتے) تلبیہ پڑھاتے رہے اور سفر کی دعائیں بھی۔ تلبیہ تو آپ کو معلوم ہی ہو گا۔ چلئے یہ بھی آپ کو بتا دیں۔

" لَبّیک اَلَلٰھُمَّ لَبَّیک۔ لَبَّیک لاَ شَرِیکَ لَکَ لَبَّیک۔ اِنَّ اْلحَمْدَ وَ الْنِعمَتَہْ لَکَ وَالْمُلْکْ۔ لاَ شَرِیکَ لَک۔"

بس کے باہر بھی مقامی مسلمانوں کا جمِّ غفیر رخصت کرنے کے لئے موجود تھا۔ نہ جانے کتنے لوگوں نے دکنی آداب کے مطابق کہا کہ دعاؤں میں انھیں یاد رکھیں۔ ہم نے انشاء اللہ کہا اور واقعی یہاں آ کر ہم کسی کو بھولے نہیں ہیں۔ حج کمیٹی، حج کیمپ بنگلور کے کارکنان، روشن بیگ اور جن جن لوگوں نے بنگلور میں دعائیں مانگنے کا کہا، ان سب کی جائز دعائیں قبول کرنے کے لئے ہم نے ضرور دعائیں کی ہیں، حطیم میں بھی۔

بنگلور۔جدّہ پرواز نمبر 7111

آخر سوا گیارہ بجے ایر پورٹ پہنچے۔5۔12 پر فلائٹ تھی مگر 35۔11 پر ہی جہاز کے اندر لے جایا  ۔ حالاں کہ اعلان کیا گیا تھا کہ اب فلائٹ کا وقت 35۔12 کر دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے بنگلور ایرپورٹ کے قوی ہیکل مچھّروں سے محفوظ رہے کہ تاخیر سے ایر پورٹ پہنچے اور جلد ہی جہاز کے اندر۔ مگر یہ مچھّر یہاں بھی داخل ہو چکے تھے۔ فلائٹ کی روانگی سے کچھ قبل جہاز میں مچھّر مار دوا چھڑکی گئی۔ اگرچہ بعد میں بھی کچھ مچھّر نظر آتے رہے مگر ان کی تکلیف زیادہ محسوس نہیں ہوئی، شاید اس دوران ان کے ڈنک کی تیزی غائب ہو چکی تھی۔ ایسی کوئی دوا انسانوں کے لئے بھی ہوتی تو کتنا اچھّا ہوتا۔

جہاز بوئنگ 747 تھا اور اس کا نام "سمُدر  سمراٹ" تھا۔ معلوم نہیں ہوائی جہاز کا نام سمندر سے موسوم کیوں؟ دونوں طرف 3۔3 سیٹیں تھیں اور درمیان میں 4۔4، یعنی ایک قطار میں 10 نشستیں اور شائد پورے جہاز میں ایسی 46 قطاریں۔ خود ہماری قطار کا نمبر 37 تھا۔

اس احوال کے مطابق اب 29/مارچ ختم ہو رہی ہے اور جہاز میں داخلے اور روانگی کے بعد 30/مارچ شروع ہو چکی ہے مگر حال کی بات یہ ہے کہ مدینے کے لئے چل چلاؤ لگ رہا ہے۔اِ س لئے اب ساڑھے چھ بجے شام ختم کرتے ہیں، بعد میں ہی لکھیں گے۔

تحذ یر ۔ توقّف متکرّر

مکّہ۔ 3/اپریل، صبح 20۔6 بجے

 

یہاں مکّے کی بسوں کی پشت پر لکھا ہوتا ہے "تحذیر۔ توقّف متکرّر۔ (عربی میں ) اور اس کا ترجمہ انگریزی میں لکھتے ہیں (Warning, Frequent stoppages)یہی حال ہمارا بلکہ ہمارے رخشِ قلم کا ہے۔ حال کی اتنی بات لکھ دیں کہ ہنوز مکّے میں ہیں۔ ایک بات ابھی اس لفظ پر یاد آئی ہے تو لکھ ہی دیں کہ تحریراً محفوظ ہو جائے۔ ہمارے وطنِ مالوف (اندور، مدھیہ پردیش ، ویسے ہماری پیدایش اور خاص وطن ریاست جاؤرہ، ضلع رتلام،مدھیہ پردیش ہے)میں ، جہاں ہم نے ہائر  سیکنڈری کا امتحان 1966.ء میں پاس کیا تھا، وہاں اسلامیہ کریمیہ اسکول میں (جو بعد میں ڈگری کالج ہو گیا تھا جب ہم دوبارہ اس ادارے میں آٹھویں جماعت میں داخل ہوئے تھے) ، جب ہم چوتھی پانچویں کلاس کے طالبِ علم تھے تو ہمارے اردو کے استاد کامِل صاحب تھے۔ بعد میں یہ بزرگ مرحوم ہو گئے، والدِ مرحوم کے دوست بھی تھے، اگلے وقتوں کے سخن فہم حضرات میں سے تھے، بہر حال چوتھی کلاس میں ہنوز ہم اس لفظ "ہنوز" سے واقف نہیں تھے جب تک کہ خدا بخشے کامِل صاحب نے کسی سبق کے معانی میں "اب تک" کے معنی نہ لکھا دئے۔ مزدوری کے معنی "اجرت" اور نوکر کے معنی "خادِم "بھی ان سے ہی سیکھے۔ اس پر ہم کو فخر ہونے لگا تھا کہ ہم "اب تک" اور "مزدوری" جیسے "مشکل " الفاظ عام بات چیت میں استعمال کرنے کی حد تک عالمِ فاضل بن گئے تھے۔ بہر حال اب تک بھی ہم "اب تک" یا "ہنوز" الفاظ کا استعمال کرتے ہیں ، مرحوم کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

ہم ابھی حرم میں فجر پڑھ کر لوٹے ہیں اور حوائجِ ضروریہ سے فارغ ہو کر بیٹھے ہیں، مگر اب پھر ماضی کی طرف لوٹتے ہیں کہ ابھی تو ہم جہاز سے اترے ہی نہیں ہیں، قارئین کو یہی تو معلوم ہے!۔ بار بار توقُّف ہوتا جا رہا ہے اسی لئے قارئین کو تحذیر دیتے جا رہے ہیں۔

پرواز جاری

جہاز ہندوستانی وقت کے مطابق سوا بارہ بجے (اور نہ جانے کہاں کے وقت کے مطابق 20 منٹ قبل ہی۔ کہ وقت 30/مارچ کے ابتدائی اوقات میں 35۔12 بجے مقرّر کر دیا گیا تھا ، اور ہندوستانی معیاری وقت تو ہمیشہ وقت کے بعد ہوتا ہے) اڑا۔ سامنے ہی اسکرین پر پہلے ایمرجینسی کی ہدایات دکھائی گئیں، انگریزی اور ہندی میں۔ جہاز اٹھتے وقت یعنی Take offکے وقت اور اترتے وقت، یعنی landing کے وقت کیا کچھ کیا جائے، سیٹ بیلٹ باندھنے کی ترکیب، استفراق کا خدشہ ہو تو اس کے لئے تھیلیاں سامنے رکھی ہیں، آکسیجن کی کمی ہونے پر آکسیجن ماسک (Oxygen Mask)کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ خدا نخواستہ اگر جہاز سمندر میں گِر جائے تو سیٹ کے نیچے کہاں "لائف جیکٹ" رکھی ہے اور اسے کس طرح استعمال کیا جائے، سیٹ پر لگے بٹنوں کی تفصیل تو چھوڑئیے، ٹائلیٹ کی ترکیبِ استعمال بھی دکھائی گئی۔ ٹافیاں دی گئیں، ٹھنڈا پانی اور مشروب دئے گئے۔

بنگلور کو پہلی بار آسمان سے دیکھا۔ بلکہ کسی بھی شہر کو رات کے وقت (فیضؔ کی یاد آ گئی؎ یہاں سے شہر کو دیکھو...)اس سے پہلے جب پروازوں کا موقعہ ملا تھا تو دن میں ہی سفر کیا تھا۔ راتوں کو ہر شہر عجیب منظر پیش کرتا ہے، سڑکوں پر قطار اندر قطار ایک سیدھ میں لگی ہوئی سٹریٹ لائٹیں۔ نیان لائٹیں۔ سارا شہر جگ مگ جگ مگ۔

ایر ہوسٹس نے ناشتہ" سرو"(serve)کیا، نہ جانے اسے کس وقت کا کھانا کہا جائے۔ ناشتہ کیا، باقاعدہ کھانا ہی تھا۔ اعلان بھی کیا گیا کہ یہ کھانا حج کمیٹی کا منظور شدہ ہے اس لئے حجاجِ کرام ہچکچائیں نہیں کہ اس میں بریانی بھی تھی۔ پوریاں تھیں، اچار تھا،دہی بھی تھی۔ رات کا کھانا، ڈنر، تو ہم کھا ہی چکے تھے اور پیٹ بھرا تھا، پھر بھی بریانی کی کچھ بوٹیاں چن کر چُگ ہی لیں۔ دہی میں شکر ڈال کر کھا لی۔ باقی یوں ہی بعد کے لئے بچا کر رکھ لیا ۔

ٹیک آف کے تھوڑی دیر بعد ہی مائک سے آواز آئی " میں روشن بیگ آپ سے مخاطب ہوں..." یہ ریکارڈ کیا ہوا پیغام تھا۔ تمام حجاجِ کرام کو مبارک باد کے ساتھ اور کرناٹک حج کمیٹی کے چیرمین کی حیثیت سے بنگلور حج کیمپ میں اگر کچھ کوتاہی ہو گئی ہو تو اس کی معذرت کے لئے۔ اور یہ کہ ان کو اور حج کمیٹی کے دوسرے ممبران کو دعاؤں میں یاد رکھا جائے۔ خدا روشن بیگ کو اجر عطا کرے، انھوں نے جہاز کی روانگی کے بعد بھی حاجیوں کو یاد رکھا۔

ہم کو بسوں کی یا جہاز کی سیٹوں پر مشکل ہی سے نیند آتی ہے، پھر بھی کوئی آدھے گھنٹے کے لئے آنکھ لگ ہی گئی جس میں وہ ممکنہ مانعِ احرام حرکت ہو گئی جس کا ذکر کر ہی چکے ہیں۔

رات کے اندھیرے میں جہاز کی کھڑکیوں سے سمندر تو نظر نہیں آیا البتّہ تھوڑی تھوڑی دور تاریکی میں روشنیوں کے جزیرے ضرور دکھائی دئے جو بحرِ عرب کے جزیرے ہی ہوں گے۔ رات ساڑھے تین بجے (ہندوستانی وقت) ہم طوفان سے بھی گزرے۔ ہر طرف بجلیاں چمک رہی تھیں۔ اعلان کیا گیا کہ سیٹ بیلٹس باندھ لیں خطرے کے پیش نظر۔ عام طور پر ہم اس ہدایت پر ہر وقت ہی عمل کئے رہتے ہیں کہ سیٹ بیلٹ ٹیک آف کے بعد بھی کھولتے ہی نہیں۔ ضروریات کے لئے اٹھتے بھی ہیں تو واپس آ کر احتیاطاً فوراً پھر باندھ لیتے ہیں کہ بوقتِ ضرورت کام آئے۔

صبح 6 بجے، مگر باہر تاریکی ہی تھی، ہماری گھڑیوں میں چھہ بجے تھے ہندوستانی وقت کے مطابق، باہر ایک بڑے شہر کی روشنیاں نظر آئیں۔ یہی جدّہ تھا۔ وہی جگمگاتا ہوا منظر جو کبھی دائیں طرف ہو جاتا کبھی بائیں طرف۔ اسی وقت ائر لائنس کی طرف سے ایک اور پالی تھین بیگ دیا گیا جس پر اردو میں بھی لکھا تھا "جدّہ ایر پورٹ پر استعمال کے لئے"۔ اس میں منرل واٹر (Mineral Water) کی بوتل کے علاوہ دو کھانے کے پیکٹ تھے۔ دونوں میں کھیرے اور ٹماٹر کے سینڈوچ، کباب، نمکین کاجو کے پیکٹ، مٹھائی کے دو ٹکڑے اور ایک پنیر سینڈوچ بھی۔ کھانا اتنا تھا (اس وقت دئے گئے ناشتے کے علاوہ رات کا بھی کھانا ساتھ تھا) کہ جدّہ ایرپورٹ پر دو بار تھوڑا تھوڑا ناشتہ کرنے کے بعد دو پہر تک کام آیا۔ پھر وہ بنگلور میں کسی صاحبِ خیر کے دئے پھل بھی تھے۔ بہر حال۔

35۔6 پر اعلان کیا گیا کہ ہم جدّہ ایر پورٹ پر اتر رہے ہیں۔ مقامی وقت کے مطابق صبح کے چار بج کر پانچ منٹ ہوئے ہیں اور باہر کا درجۂ حرارت 20 ڈگری سیلسیس ہے۔

حج ٹرمنل پر جہاز رکا۔ یہاں دوسرے جہازوں کے اترنے کی اجازت نہیں ہے۔ صرف حج کے موقعہ پر ہی ٹرمنل تین ماہ کے لئے کام کرتا ہے۔ جہاز کی کھڑکیوں سے ہی کئی دوسرے جہاز نظر آئے۔ پی۔آئی۔اے۔ اور سیرین ایر لائنس کے نام تو ہم نے سن رکھے تھے، مگر دوسرے کئی جہازوں پر لکھے نام ہمارے لئے انجانے ہی تھے۔

جہاز پر سیڑھیاں لگانے کی بجائے کچھ ایسا انتظام کیا گیا تھا کہ ہم سیدھے ہوائی جہاز کے دروازے سے نکل کر ایر پورٹ کی عمارت میں اس طرح داخل ہو گئے کہ جہاز نا شناس کو یہ بھی نہ معلوم ہوتا کہ جہاز کب ختم ہو گیا اور عمارت کہاں شروع۔ عمارت سے ملانے والا یہ ائر کنڈیشنڈ کاریڈور غالباْ خود کار تھا جسے کسی سوئچ سے سرکا کر جہاز کے دروازے سے بالکل ملا دیا گیا تھا۔

صبح 5 بجے کے قریب (اور یہ سعودی وقت ہے ، اب ظاہر ہے ہم نے گھڑیاں اترتے وقت ہی ڈھائی گھنٹے پیچھے کر لی تھیں جب جہاز میں اعلان کیا گیا تھا کہ جدّہ میں یہ وقت ہے۔ اب آئندہ سعودی وقت ہی لکھیں گے)۔ ایر پورٹ میں داخل ہوئے۔ پہلے ہال میں پاسپورٹ چیک کئے گئے۔ اسی ہال میں ضروریات کے کمرے بھی تھے۔ یہاں ہی کافی دیر ہو گئی۔ اس ہال میں 11 زبانوں میں حاجیوں کو خوش آمدید کہا گیا تھا۔ عربی میں اہلاً و سہلاً کے علاوہ بنگلہ میں بھی کہ یہ ہندوستان کے علاوہ بنگلا دیش کی بھی زبان ہے۔ "خوش آمدید" تو اردو اور فارسی دونوں میں مشترک ہو گیا۔ ہندی میں البتّہ نہیں تھا۔ انگریزی کے علاوہ اور بھی کئی زبانوں مگر رومن رسم الخط میں، غالباً  انڈونیشی اور ملیشین۔

پھر درمیانے ہال میں لے جائے گئے۔ وہاں کسٹم کی ابتدائی چیکنگ ہوئی۔ پاسپورٹ پر کچھ مہریں ثبت کی گئیں، اس کے بعد اس سے ملحق تیسرے ہال میں آئے۔ یہاں جہاز سے اتارا گیا ہمارا سارا سامان موجود تھا۔یہی در اصل کسٹم کی چیکنگ تھی کہ ہم ساتھ میں۔ سیاسی کتابچے، غیر اسلامی یا فحش لٹریچر اور تصاویر، خشخاش یا اچار قسم کی اشیاء تو نہیں لائے ہیں۔ کسٹم کے ملازمین ہر سامان کھول کھول کر دیکھ رہے تھے۔ ہمارے سوٹ کیس وغیرہ اوپر کے کپڑے وغیرہ ہٹا کر نیچے بھی اور ادھر ادھر کی چھوٹی موٹی اشیاء بھی چھو کر یا اٹھا کر دیکھی گئیں۔

(توقّف متکرّر۔ ساڑھے نو بجے صبح) ایک چُھری خاص طور پر دیکھی گئی کہ قانونی سائز سے زیادہ بڑی تو نہیں ، پھر منظوری دے دی گئی۔ اس سارے کام میں نو بج گئے۔ ہم سامان لے کر باہر آئے تو فوراً سامان ٹرالیوں میں رکھ کر جانے کہاں لے جایا گیا، یہ ہم کو فوراً معلوم نہ ہو سکا۔ باہر کی مزید قطاروں میں ہم کو لگنا پڑا۔ پاسپورٹ پر مختلف مہریں لگیں، اسٹکرس لگائے گئے، بس کے ٹکٹوں کی ایک کتاب پِن کی گئی.. یہ 405 ریال کی قیمت کے ٹکٹ تھے.. جدّہ سے مکّہ ، مکّہ سے مدینہ، واپس مکّہ اور مکّے سے جدّہ واپسی کے۔ اور حج کے دوران مکّے سے ،منیٰ، عرفات اور مزدلفہ وغیرہ کی آمدورفت کے بھی۔اُس کے بعد ہم کو باہرہندوستان کے حصّے میں لایا گیا جہاں قونصل کا کاؤنٹرتھا اور جگہ جگہ ترنگے لگے تھے۔ یہاں ہی ہمارا سامان موجود تھا۔

اب جا کر مہلت ملی کہ ایرپورٹ کی عمارت دیکھی جائے۔ بے شمار خیموں کے نمونے کی چھت ہے جو محض ستونوں پر قایم ہے۔ دیواریں نہیں ہیں، سِوائے اُس حِصّے کے جہاں باقاعدہ عمارت کی ضرورت تھی، یعنی ایرپورٹ ، کسٹم یا ایر لائنس کے آفس، بنک وغیرہ، وہاں ایک منزلہ عمارتیں اس اونچی چھت کے تلے تعمیر کی گئی تھیں یا اس سے باہر۔

ہم باہر کی طرف آئے تو مظہر بھائی مل گئے۔ ان سے بنگلور میں ہمارا تعارف ہوا تھا اور معلوم ہوا تھا کہ محبوب نگر (آندھراپردیش، حیدرآباد سے 100 کلو میٹر دور ایک ضلع اور شہر) کے ہی ہیں اور ہمارے سسر مرحوم مولوی سیّد شمس الدّین کے شاگرد تھے اور صابرہ سے اچھّی طرح واقف تھے کہ اُن کے پڑوسی رہ چکے تھے(یہاں یہ بات بے محل نہ ہوگی کہ ہماری محترمہ کا کچھ پس منظر بھی دے دیا جائے۔ ان کا خاندان ویسے یو.پی. کا ہے اور ان کے والد ہی نظام کے زمانے میں الہ آباد ضلعے سے ہجرت کر کے دکن آئے تھے اور محبوب نگر کے ملٹی پرپز ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر کے طور پر رِٹائر ہوئے، یا جیسے حیدرآباد میں کہتے ہیں کہ وظیفہ یاب ہوئے)۔ چنانچہ وہاں صابرہ کی ان سے اور بھابھی سے ملاقات ہوئی اور تب سے ہم لوگ ساتھ ساتھ ہی ہیں۔

ہندوستانی قونصل کے حصّے میں پاسپورٹس پر مزید اسٹکرس لگائے گئے تو معلوم ہوا کہ ہمارے معلّم کا نمبر 53 ہے جسے مکتب نمبر کہتے ہیں اور مکّہ میں ہماری رہایشی عمارت کا نمبر 468 (عربی کے حساب سے عمارت رقم 468) یہ تو ہم کو معلوم تھا کہ عربی میں "4" کو "٤" اور "7" کو "٧" لکھا جاتا ہے مگر "2" اور "6" کو بالترتیب "٢" اور "٦" پہلی بار دیکھا۔ کمرہ نمبر بھی لکھا تھا۔ 201 (عرفہ رقم۲۰۱)۔

پہلے بنک جا کر ڈرافٹ ان کیش کرایا اور سعودی ریال حاصل کئے۔ پھر وہاں ہی فرش بلکہ قالین پر بیٹھ کر ناشتہ کیا۔ پھر ہم چائے خرید کر لائے، پہلی بار سعودی رقم کا استعمال کر کے، اور چاروں نے پی، پھر بس کے لئے قطار میں بٹھا دئے گئے۔ معلّم کے آدمیوں نے وہاں سے حرکت کرنے نہ دی حالاں کہ اب دم لینے کے بعد صابرہ کا ارادہ تھا کہ جدّہ میں ہی ان کے بہنوئی کے چھوٹے بھائی باقر رہتے ہیں، اُن کو فون کیا جائے۔ سامنے ہی فون بوتھ نظر آ رہے تھے مگر ان لوگوں نے اجازت نہ دی کہ ابھی بس آنے والی ہے۔ حالانکہ اس کے لئے تقریباً 10 بجے تک انتظار کرنا پڑا۔ اور مسافروں کے بیٹھنے اور بس کی چھت پر سامان رکھنے تک پونے گیارہ بج گئے تب ہی مکّے کے لئے روانگی ممکن ہو سکی۔

ہم "نقل" کئے گئے

یہ بس نمبر 768 تھی جس پر لکھا تھا "شرکۃ امّ القریٰ بنقل الحجاج"۔ امّ القریٰ.. شہروں کی ماں..یہ تو مکّے کی عرفیت ہے ۔ شرکۃ (جسے بول چال میں شِرکہ کہتے ہیں، یہ بعد میں معلوم ہوا) کا مطلب کارپوریشن یا کمپنی ہوگا اور حجاج کی نقل مطلب حمل و نقل۔ چنانچہ ان بسوں میں جدّہ ایرپورٹ سے ہمارا نقل (مکانی) ہوا۔اب ہم بھی فخر سے کہ سکتے ہیں کہ ہم نقل کئے گئے۔ ورنہ کس مصنف نے ہماری تحریر کو نقل (Quote) کرنے کا خطرہ مول لیا ہے۔ ویسے ہم کو یاد ہے کہ دو چار نقّاد حضرات نے، جن سے ہمارے تعلّقات بھی تھے ..جیسے برادرم عمیق حنفی مرحوم، ہمارے اشعار کی ضرور مثالیں دی ہیں۔ بشیر بدر نے بھی جدید غزل پر اپنی تھیسس میں ہمیں یاد رکھا۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر عنوان چشتی نے ہماری دوہے والی غزل کے اشعار ضرور اپنے مضمون (اور اپنی ڈاکٹریٹ کی تھیسس) میں نقل کئے تھے، وہی غزل جو آپ نے تو نہ سنی ہوگی ؎

ڈھونڈھیں گے پھر ہم کہاں، ساگر ساگر پھول : اگلے برس جانے کہاں جائے گا بہہ کر پھول

اور ؎

پھینکے بھی تو اٹھائے کون۔ بانٹے بھی تو کسے : دھن شاعر کے پاس کیا، ہوا، سمندر، پھول

آپ بھی سوچیں گے کہ شاعر اپنے شعر سنانے سے باز نہیں آیا۔ مگر سچ مانئے، ہم اپنے اشعار بہت کم سناتے ہیں، یاد بھی نہیں رہتے۔ تحریر کی بات البتّہ اور ہے۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ در اصل لفظ "نقل" ہمارے ذہن میں دو ہی مطلب پیدا کرتا ہے۔ امتحان کے پرچے میں کی جانے والی نقل۔ جس سے خدا کا شکر کہ ہم ہمیشہ محفوظ رہے، یا پھر جیسے ہمارے یہاں کے اکثر تنقیدی مضامین ہوتے ہیں.. انگریزی ادیبوں اور اردو کے مُستند نقّادوں کے مقولے (اور شاعری پر مضمون ہو تو شاعر مذکور کے اشعار کی مثالیں) جنہیں اگر خارج کر دیا جائے تو مضمون میں کچھ باقی ہی نہیں بچتا۔ یہ دوسری نقل ہوئی۔ جسے انگریزی میں Quoteکرنا کہتے ہیں۔ حالاں کہ حمل و نقل بھی سامنے کے الفاظ ہیں مگر ان کا یہ استعمال...! روزانہ ہم حیدرآباد میں گھر سے 26 کلو میٹر دور 4۔3 بسیں تبدیل کرتے ہوئے دفتر آتے جاتے ہیں مگر ہم کو کبھی احساس ہی نہ ہوا کہ ہم نقل ہو رہے ہیں..!!

خدا خدا کر کے ہماری نقل شروع ہوئی مگر تھوڑی تھوڑی دور پر اتنے چِک پائنٹس (عربی میں ہر جگہ لکھا تھا "نقطۂ تفتیش") تھے کہ ایک گھنٹے بعد بھی ہماری بس جہاں کھڑی تھی وہاں سے ایر پورٹ کے "خیمے" نظر آ رہے تھے۔ بس کے بارے میں لکھتے چلیں کہ ائر کنڈیشنڈ تھی۔

اب ہم نے سعودی عرب کی اس شاہراہ کے مشاہدات شروع کئے۔ تلبیہ بھی جاری ہی رہا ساتھ ساتھ۔بلکہ ہم نے ہی دوسرے مسافروں کو پڑھوایا بھی کہ پہلے دو حضرات نے بآوازِ بلند خود پڑھ کر دوسروں کو دہرانے کی دعوت دی تو وہ خود غلط پڑھ رہے تھے۔ لوگوں کو اب تک بھی یاد نہ تھا۔ہم کو اتّفاق سے یہ بچپن سے ہی یاد تھا کہ ہماری والدہ حج کے ایام میں سعودی عرب ریڈیو لگا دیتی تھیں جہاں مستقل تلبیہ چلتا رہتا تھا۔بہر حال۔

سڑک کے دونوں طرف 3۔3 گلیاں (lanes) تھیں۔ تین آنے کے لئے، تین جانے کے لئے۔ اسے ایکسپریس ہائی وے (Express High way) کہا جاتا ہے۔ سڑک کے دونوں طرف اکثر پہاڑ تھے ، شروع میں لاوے کے پہاڑ نظر آئے، اس کے بعد محض گرینائٹ اور نائس چٹانوں کے۔ یہ ہم بطور ارضیات داں لکھ رہے ہیں، بلکہ لاوے کی بجائے بھی بیسالٹ کے بہاؤ (Basalt Flows) اور نائس (Gneiss)کو بھی در اصل مِگمیٹائٹ (Migmatite)لکھنا چاہئے تھا۔راستے میں جگہ جگہ "سُبْحٰنَ الْلّہ"،" اَلْحَمْدُ لِللّٰہ"، " اَلْلّٰہُ اَکْبَرْ" اور" صَلّوُ عَلیَ النَّبِی" لکھا تھا اور ہم بھی اس پر عمل کرتے جا رہے تھے۔ کہیں کہیں عربی، انگریزی اور اردو میں بھی بالترتیب لکھا تھا۔" خدمۃ الحُجّاج شَرَفٌ لَنا"Service to Haj pilgrims is our privilege ۔ اور "حاجیوں کی خدمت ہمارا شرف ہے"۔

پھر حرم کی حدود شروع ہوئیں جہاں کے نقطۂ تفتیش کے آگے غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔ بلکہ ان کے لئے راستہ دوسری طرف ہے جو دوسرے شہروں کی طرف جاتا ہے۔ جدّہ ایرپورٹ سے مکّہ کا فاصلہ 92 ۔ 91کلو میٹر ہے (اگرچہ جدّہ شہر سے 77 کلو میٹر) جدہ شہر کا وہ علاقہ اس شاہراہ پر ضرور واقع ہے جو نسبتاً کم آباد ہے اور جسے انگریزی میں Suburban کہہ سکتے ہیں۔ غالباً یہ بائی پاس ہو گا۔

راستے میں تھوڑی تھوڑی دور پر خوب صورت مسجدیں نظر آئیں۔ اکثر ایک مینار کی ۔ اور یہ واحد مینار مسجد کے اندر ہی واقع۔ دراصل تھوڑی تھوڑی دور پر ایسے کامپلیکس تھے جہاں پٹرول پمپ، غذائی اشیاء کی دوکانیں، ہوٹل یا کم از کم چائے اور کولڈ ڈرنکس کے اسٹال، اور ہر کامپلیکس میں مسجد بھی۔ تاکہ راہ گیروں کو ہر سہولت مل سکے۔

راستوں میں اشتہاری بورڈ بھی تھے اور اسی وقت یہ مشاہدہ ہو گیا کہ کسی اشتہار میں صنفِ نازک کا چہرہ نظر نہیں آیا، بلکہ مزید غور کرنے پر معلوم ہوا کہ کسی جان دار کی تصویر بھی نہیں ہے۔

ایک بجے کے قریب ہم لوگ "مرکز استقبالیہ حُجّاج" میں پہنچے جو در اصل "زم زم کولنگ کامپلیکس"تھا۔اس سرکاری (غالباً) کمپنی یا شرکۃ کا نام "زم زم یونائٹیڈ آفِس" یا عربی میں مکتب زمازمۃ الموحد تھا۔ یہاں ہی نماز کے لئے احاطہ تھا اگرچہ باقاعدہ مسجد نہیں تھی۔ صاف ستھرے غسل خانے اور پاخانے تھے۔ ہر حاجی کو ڈیڑھ لِٹر کی زم زم کی مہر بند بوتل تحفتاً دی گئی، ویسے وہاں ہی ٹھنڈے زمزم کے بے شمار نل لگے تھے۔ جتنا چاہیں پئیں اور رکھنا چاہیں تو ساتھ رکھ لیں۔یہاں بس پون گھنٹہ کھڑی رہی، ظہر کی نماز بھی پڑھی گئی۔ اس کے بعد روانہ ہوئے تو مکّے پہنچے۔

ہماری بس میں ہماری عمارت کے علاوہ بھی دوسری عمارت کے مسافر تھے جو ہمارے ہی معلّم (مکتب) کے علاوہ ایک اور مکتب نمبر 54 سے بھی متعلق تھے۔ دونوں مکتبوں کے دفتروں پر بھی بس رکتی رہی اور دوسری عمارتوں میں دوسرے حاجیوں کو اتارتی ہوئی آخر میں ہماری عمارت پر پہنچی۔ اور جب ہم منزل پر پہنچے تو ساڑھے تین بج گئے تھے۔ ان مکتبوں پر ہم کو ہمارے شناختی کارڈ بھی دئے گئے۔اور شناختی پٹّے بھی جو عام طور پر لوگوں نے کنگن کی طرح پہن لئے۔ جیسا ان سے کہا گیا تھا، مگر ہماری نازک کلائی کی وجہ سے ہم نے اسے بازو بند بنا لیا۔

ہماری عمارت رقم 468، "شعبِ عامر۔شمال۔1شمال۔2۔48" پر واقع ہے۔شعبِ عامر تو پورے علاقے کا نام ہو گا، ان سمتوں اور اعداد کا کیا مطلب ہے، یہ اہلیانِ مکّہ جانیں۔ ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ یہ عمارت سڑک سے اندر کی طرف ہے۔تیسری منزل پر ہمارا کمرہ ہے، یعنی سیکنڈ فلور پر۔ اس میں لگی فہرست کے حساب سے یہاں 14 حاجیوں کا انتظام ہے مگر ہم ہیں یہاں نو ہی۔ 5 افراد کا ایک گروپ ہے، ایک بزرگ میاں بیوی ہیں اور ایک ہم بزرگ میاں بیوی۔

سامان ٹھیک ٹھاک کر کے ضروریات سے فراغت کے بعد کچھ کھانا کھایا، جو ساتھ تھا اسے ختم کیا۔ اگرچہ معلوم ہوا کہ اس وقت معلِّم کی طرف سے کھانا آنے والا ہے۔ یہ کھانا 5 بجے آیا جب ہم حرم کے لئے نکلنے کی تیاری کر رہے تھے۔ چنانچہ اسے یوں ہی رات کے لئے رکھ لیا۔

تابِ نظر چاہئے

حرم کی طرف چلے تو مظہر بھائی اور ان کی اہلیہ ساتھ تھیں۔ محبوب نگر کے ہی دو جوڑے اور بھی تھے۔ جبّار صاحب اور ستّار صاحب اور دونوں کی بیویاں۔ مظہر بھائی پہلے بھی نہ صرف حج کر چکے تھے بلکہ یہاں یہ سات آٹھ سال رہ چکے تھے، اس لئے ہم نے ان کو اپنا قائد یا گائڈ بنا لیا ( یہ گائڈ کہیں قائد لفظ سے ہی برامدہ تو نہیں ہے؟۔ "ق" کو یہاں بول چال میں اکثر "گ" سے بدل دیتے ہیں جیسے حیدرآبادی اسے "خ" سے)۔

جِس طرف سے ہم گئے، اُس طرف حرم کے احاطے کے باہر ہی غسل خانوں کا کامپلیکس ہے۔ سینکڑوں غسل خانے اور پاخانے (مشترکہ) اور وضو خانے بھی۔ مردوں کے الگ، عورتوں کے الگ۔ مردوں کے غسل خانوں پر عربی میں لکھا تھا "دورات میاہ للرجال" ۔ انگریزی میں بھی۔ مگر ہمارے عبدالکریم پاریکھ صاحب نے "حج کا ساتھی " میں لکھا ہے کہ انگریزی میں "LAKI-LAK"لکھا گیا ہے، یہ تو وہاں نظر نہیں آیا، ممکن ہے کہیں اور کے غسل خانوں میں یہ لکھا ہو، مگر یہ انگریزی نہیں، رومن رسم الخط میں کسی اور زبان میں لکھا ہوگا (شاید انڈونیشی میں، یہ ہم کو بعد میں معلوم ہوا)۔ ہمارا داخلہ تو ایک طرف سے ہی ہوا تھا۔ حرم کے چاروں طرف ہی ایسے ہی غسل خانے ضرور ہوں گے۔ ہماری طرف کا احاطہ بہت وسیع تھا۔ سڑک کی طرف پہلے سلاخوں کی دیوار جس میں کئی دروازے، ان دروازوں سے اندر باہر صحن ہے، سفید سنگِ مرمر کا۔ یہاں اگرچہ جوتوں چپّلوں کی اجازت ہے لیکن صفوں اور قبلے کی نشان دہی کے لئے پتھّر کی دائرے وار لکیریں نصب ہیں۔ یوں کہئے کہ پتھّر کی جا نمازیں بچھا دی گئی ہیں۔ یہ حصّہ در اصل صفا اور مروہ کے درمیان کا ہے، اس لئے حرم کی دیوار ایک سیدھ میں چلی گئی ہے۔ اس میں کئی دروازے ہیں۔ آپ کو یہ تو معلوم ہوگا کہ صفا اور مروہ وہ پہاڑیاں تھیں جن کے درمیان حضرت ہاجرہ حضرت اسمٰعیل کو چھوڑ کر پانی کی تلاش میں نکلی تھیں بلکہ شیر خوار بچّے کو اکیلا چھوڑ کر گئی تھیں اس لئے دوڑی تھیں۔ اس وقوعے کے بعد ہی حضرت اسمٰعیل کے پیر مارنے سے زم زم کا چشمہ خدا کے کرنے سے پھوٹ نکلا تھا۔ ان پہاڑیوں کے درمیان ہی سعی کی جاتی ہے۔ اب یہ پہاڑیاں تو مٹا دی گئی ہیں کہ حاجیوں کے لئے حرم کا رقبہ بڑھایا جا سکے، جو کئی بار بڑھ چکا۔ آخری تعمیر ابھی حال ہی میں شاہ فہد نے کروائی ہے۔ اور اب سعی کا یہ علاقہ حرم کے احاطے کے اندر ہی شامل ہو گیا ہے۔ خیر۔

پہنچنے کو تو ہم لوگ اس صحن میں ساڑھے پانچ بجے پہنچ گئے تھے۔ عصر کی نماز بھی عمارت سے پڑھ کر نکلے تھے اور مغرب میں سوا گھنٹے سے زیادہ وقت باقی تھا، مگر یہ وقت عمرے کے طواف اور سعی کے لئے کافی نہیں تھا۔ اس لئے مظہر بھائی نے مشورہ دیا کہ آرام سے مغرِب باہر ہی پڑھ کر اندر چلیں گے، اس وقت اندر جگہ ملنی مشکل ہوگی کہ بیشتر لوگ عصر کی نماز پڑھ کر مغرب تک جگہ پر قبضہ کئے رہتے ہیں۔ دوسری نمازوں کے لئے بھی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پہلے سے صفیں بن جاتی ہیں۔ ہم کو بھی باہر ہی کچھ دیر رکنا نہ صرف گوارا بلکہ قبول ہوا۔ یہ احساس کہ پہلے اس احاطے کے پر نور نظارے سے تو مسحور ہو لیں۔ کچھ دیرہمّت ٹھکانے کر لیں، ابھی بیت اللہ دیکھنے کے لئے تابِ نظر کہاں!

36۔6 پر مغرب کی اذان ہوئی اور لگا کہ سارا مکّہ گونجنے لگا۔ اللہ اکبر کی پہلی صدا نے ہی بدن کو جھنجھوڑ دیا۔ بیت اللہ کی پہلی اذان جو ہمارے کانوں میں پڑی ہے (ویسے عصر کی اذان کے وقت بھی ہم ہماری عمارت میں ہی تھے اور وہاں بھی اذان کی آواز پہنچی ضرور ہو گی، مگر اُس وقت ہم نے دھیان نہیں دیا تھا کہ سیٹل (settle)ہونے میں لگے تھے یا شاید یہ سمجھے ہوں کہ کہیں اذان ہو رہی ہے۔ یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ ہماری عمارت میں بھی، جو اگرچہ ایک کلو میٹر سے زیادہ ہی دور ہوگی حرم سے، اذانوں کی آواز صاف آتی ہے۔ مسجدِ جِن کی بھی اور حرمِ مکہ کی بھی)۔

اذان ختم ہوتے ہی ہم نے دیکھا کہ لوگ فوراً نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے۔ ہم کو عجیب شک ہوا کہ شاید یہاں حرم کے باہری احاطے تک جماعت نہیں ہوتی اور ہم کیسے بد قسمت ہیں کہ حرم میں موجود ہیں اور وہاں کی با جماعت نماز سے محروم۔ کچھ لحظہ رُک کر آخر ہم بھی انفرادی طور پر مغرِب کی نماز کے لئے کھڑے ہو گئے، ابھی نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ مائک پر اقامت کی آواز آئی۔ یہ بھید اب تک تو نہیں کھلا ہے کہ عموماً اذان ہوتے ہی لوگ مغرِب کی جماعت سے پہلے کون سی نماز پڑھتے ہیں، ہم نے تو یہی سنا تھا کہ عصر اور مغرب کے درمیان سوائے قضا نمازوں کے اور کوئی نماز نہیں پڑھی جاتی۔ بہر حال ہم نے بھی جلدی جلدی اپنی نماز ختم کر کے جماعت کا ساتھ دیا۔ نماز سے فارغ ہو کر اندر چلنے کی ہمّت کی۔

اِس رُخ پر باب السلام کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اکثر جنازوں کو بھی ادھر سے لے جایا جاتا ہے۔ پہلی بار آنے والوں کے لئے بھی یہی افضل ہے کہ باب السّلام سے داخل ہوں، چنانچہ اسی دروازے سے ہم بھی داخل ہوئے ۔یہاں یہ باہر "کبوتر خانوں" (Pigeon holes)کے ایک خانے میں ہم نے اپنی چپّلیں رکھ دیں اور اندر داخل ہوئے۔جیسا کہ لکھ چکے ہیں کہ اسی رُخ پر مسعٰی ہے، یعنی سعی کرنے کا راستہ یا انگریزی میں (Corridor)کہہ لیجئے۔ دائیں طرف مروہ ہے اور بائیں جانب صفا۔یہاں بھی سعی کرنے والوں کی بھیڑ تھی جو ہماری طرح عمرہ کرنے والے ہوں گے۔ ان کے درمیان سے جگہ بناتے ہوئے پہلے اندرونی دالان میں آئے۔ اور اس کے بعد ایک اور دالان میں۔ اور تب کعبۃاللہ پر ہماری پہلی نظر پڑی...

اب تک تصویریں دیکھتے آئے تھے، مگر حرمِ کعبہ کی شان و شوکت، جاہ و جلال جو دیکھ کر محسوس کیا جا سکتا ہے وہ تصویروں میں کہاں ممکن؟ احادیث میں ہے کہ کعبے پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا مانگی جائے، قبول ہوتی ہے۔ اور سب سے کارآمد دعا تو یہی ہے کہ یا اللہ ۔ آئندہ ہم جو بھی دعا مانگیں۔ جائز ہو تو اسے قبولیت کا درجہ بخش۔ یہ دعا قبول ہو گئی تو سمجھئے کہ پارس ہاتھ آ گیا۔ ویسے اب تک تو اس کے آثار نظر نہیں آتے ہیں۔ ہماری بیماری ابھی بھی جاری ہے۔ وہی معمول کے مطابق دن بھر میں کھانسی کے تین چار دورے، جس کا علاج سگریٹ سے ہی ممکن ہے۔ بعد میں ہم نے زمزم سے بڑے شوق اور عقیدت سے اپنے چہرے اور ہاتھ کے علاوہ سینے بلکہ پھیپھڑوں پر بھی ملا ہے۔ ممکن ہے کہ ؎ دوا یہ کرے گی اثر دھیرے دھیرے ، یا ، دعا یہ کرے گی اثر دھیرے دھیرے ۔

عمر ے کا طواف ا و ر سعی

اندر کی طرف دوسرے دالان کی سیڑھیاں اتر کر پھر اندرونی صحنِ کعبہ میں داخل ہوئے۔ یہاں بھی وہی سفید سنگِ مرمر کا فرش ہے، عمرے کے طواف کے لئے چلے کعبے کی طرف۔ مظہر بھائی کے علاوہ جبّار بھائی اور ستّار بھائی بھی ساتھ تھے اور ان تینوں کی بیویاں بھی۔ مظہر بھائی کی بیوی بے حد کمزور اور کم ہمّت خاتون ہیں اس لئے ہماری محترمہ نے ان کا ہاتھ تھام لیا اور سب لوگ ساتھ ہی چلے ۔ حجرِ اسود کی لکیر کی طرف آئے۔ یہ ایک بھورے پتھّر سے بنائی گئی لکیر ہے جو حجر اسود کی سیدھ میں ہے۔ کیوں کہ طواف حجر اسود سے شروع کیا جاتا ہے اور مطاف (یعنی طواف کے دائرے) میں اس کی سیدھ میں کہیں سے بھی طواف شروع کیا جا سکتا ہے اور یہاں سے ہی طواف "استلام" کے ساتھ شروع اور ختم کیا جاتا ہے، اس کی پہچان کے لئے یہ لکیر بنا دی گئی ہے۔ یہاں سے ہی طواف کے سات (7) چکّر (شوط) گِنے جاتے ہیں۔ استلام حجر اسود کا "سلام" ہوتا ہے۔ اگر بوسہ نصیب ہو تو کیا کہنے! ورنہ دور سے ہی اس کی طرف ہاتھ بڑھا کر ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو چوم لیا جاتا ہے۔ حجر اسود سینے کی اونچائی تک ہی ہے اور اسی لحاظ سے ہاتھ پھیلانا چاہئے اس کی طرف دیکھ کر۔ اس کا حلقہ تو دور سے بھی نظر آتا ہے، آپ نے بھی تصویروں میں دیکھا ہی ہوگا۔ چمک دار چاندی کا پان یا دل کی شکل کا حلقہ ہے جس میں سیاہ سیمنٹ میں حجر اسود کے شاید 22 ٹکڑے نصب کر دئے گئے ہیں۔ خیر۔

حج کمیٹی والوں نے سات دانوں کی تسبیح دے رکھی تھی، اس پر اپنے شوط گنتے رہے۔ 4۔3 اشواط تک تو ہم سب ساتھ ہی رہے۔ صابرہ کا سبز دوپٹّہ اس وقت طواف کرنے والوں میں نمایاں نظر آ رہا تھا کہ ہم الگ الگ رہتے ہوئے بھی ان کو پہچان سکتے تھے۔ مگر آخر آخر وہ نہ جانے کہاں بچھڑ گئیں۔ بلکہ کہنا چاہیئے کہ ہم کہاں گْم ہو گئے کہ باقی لوگ تو ساتھ ہی رہے جو ہمیں بعد میں معلوم ہوا۔ یہ البتہ پہلے سے ہی طے تھا کہ کبھی کبھی بچھڑ جانے کی صورت میں باب السلام کے باہر انتظار کیا جائے۔اس لئے فکر تو نہیں تھی۔ البتہ یہ خیال ضرور تھا کہ یہ لوگ شاید ہمارے لئے فکرمند ہوں۔ ابھی ارکان بھی ادا کرنے تھے۔

آخری چکر پر حجرِ اسود کا استلام کر کے طواف مکمل کیا۔بابِ کعبہ کی ہی طرف مقامِ ابراہیم ہے۔ حضرت ابراہیم ؑکے کھڑے ہونے کی جگہ۔ کہا جاتا ہے کہ آپؑ نے وہیں کھڑے ہو کر کعبے کی تعمیر کی تھی اور ان کے دونوں پیروں کے نشان محفوظ ہیں۔ آج کل یہ پتھّر ایک شیشے اور سنہری دھات (ممکن ہے سونا ہو، ہمیں ٹھیک سے معلوم نہیں، کیوں آپ کو بہکائیں) کی گنبد نما عمارت (یا انگریزی میں Structure کہئے) میں رکھا ہے۔ یہ قرآن کا حکم ہے کہ وَالتَّخِذُوْ مِنْ مُقَامِ اِبْراٰہیِمَ مُصَلّْیٰ۔ تو وہاں نماز ادا کرنی تھی۔ دو رکعت واجبُ الطواف۔ وہ ہم نے پڑھی۔ نظریں مگر سامنے سے ہٹتی نہیں تھیں۔ الفاظ زبان نے ادا کر دئے مگر ذہن میں نہ جانے کیا کیا آ رہا تھا۔ کبھی اقبالؔ ؎ دنیا کے بت کدے میں پہلا یہ گھر خدا کا۔ وغیرہ وغیرہ۔

(3/ اپریل، 10۔3 بجے دو پہر۔ توقّف جاری ہے، مگر تحریر میں توقّف کئے بغیر چلئے آگے بڑھیں۔ حالات ابھی 30 مارچ کے ہی جار ی ہیں)

پہلے تین چکروں میں اصطباغ اور رمل کیا جاتا ہے۔ اصطباغ یعنی احرام کی چادر کو دائیں بغل سے نکال کر بائیں شانے پر ڈالنا اس طرح کہ دایاں کندھا عریاں ہو جائے۔ رمل سے مراد ہے کہ پہلوانوں کی طرح مونڈھے ہلا ہلا کر اکڑ کر اور تیز تیز اور بھاری قدموں سے چلیں۔ یہ دونوں مردوں کے لئے افضل ہیں مگر صرف پہلے تین شوطوں میں۔ عورتوں کا تو احرام بھی نہیں ہے یعنی چادروں والا لباس کہ اصطباغ کریں، اور نہ رمل ہے ان کے لئے، بہت سے لوگوں کو وہاں دیکھا کہ مستقل اصطباغ کئے رہتے ہیں یہاں تک کہ احرام کی حالت میں نماز بھی پڑھتے ہیں تو دایاں کندھا کھلا رہتا ہے جو کہ غلط ہے۔ ہم نے بھی مغرب کی نماز کی جماعت کے فوراً بعد باب السلام سے داخل ہوتے ہی اصطباغ شروع کر دیا تھااور طواف کے فوراً بعد کاندھا ڈھک لیا کہ بھول نہ جائیں۔ بھیڑ میں البتّہ رمل کرنا ممکن نہ ہو سکا۔

یوں کتابوں میں طواف کے ہر چکر کی الگ دعا دی گئی ہے مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ یہی دعائیں پڑھی جائیں۔ استلام کے بعد پہلے یہ کلمہ پڑھنا ہی کافی ہے..سُبحٰنَ اْللّٰہِ وَاْلحَمْدُ لِللّٰہِ وَ لاَ اِلٰہَ اِلْلّٰہُ وَالْلّٰہُ اَکْبَرْ، وَ لاَحَوْلَ وَ لاَ قُوّۃَ اِلاَّ بِالْلّٰہِ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمَ۔ اس کے بعد اَلْصّلاَ ۃُ وَالْسَلاَمُ عَلیٰ نَبِیِّ الْکَرِیْم اور پھر درود پڑھ لیں۔ وہ تسبیح بھی پڑھی جا سکتی ہے جو عیدین میں پڑھتے ہیں یعنی اَلْلّٰہُ اَکْبَرْ اَلْلّٰہُ اَکْبَرْ . لاَ اِلٰہَ اِلْلَّہُ وَالْلّٰہُ اَکْبَرْ اَلْلّٰہُ اَکْبَرْ وَ لِللّٰہِ الْحَمْد ـ ـ ورنہ جو دعا آپ کرنا چاہیں، جو بھی پڑھنا چاہیں، سب صحیح ہے۔ اگر اذان ہو رہی ہو تو اس کا جواب دینا افضل ہے۔ بہر حال یہ دونوں کلمات بیت اللہ کے دو کونوں تک، اس کے بعد جب آپ تیسرے کونے پر آئیں جسے "رکنِ یمانی" کہتے ہیں (چوتھا کونا حجر اسود کا ہی ہے) تو اس کونے پر ایک بار اَلْلّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر اس کے بعد حجر اسود تک رَبَّنَا اٰتِنَا پڑھتے ہیں۔ یہ تو آپ کو یاد ہی ہوگی، البتّہ اس کے بعد اس کا اضافہ ہے کہ "وَادْخِلْنَا الْجَنَّۃَ مَعَ اْلاَبْرَاْرـ یَاْ عَزِیْزُ یَاْ غَفَّارُ۔ یَاْ رَبُّ الْعَاْلَمِیْن۔"

واجب الطواف نماز کے بعد صابرہ کی طرف نظر دوڑائی کہ ساتھ ساتھ ہی طواف شروع کیا تھا تو تقریباً ساتھ ساتھ ہی اس سے عہدہ برآ ہوئے ہوں گے اور اس وقت مقامِ ابراہیم کے آس پاس ہی کہیں یہ لوگ بھی نماز پڑھ رہے ہوں گے، مگر مایوسی ہوئ۔ خیر۔ اس کے بعد زم زم کی طرف آنا تھا جو سامنے ہی نظر آ گیا تھا۔ ایک گول دائرے نما دیوار کے اوپر بورڈ لگا تھا "بئر زمزم" اردو میں بھی "زم زم کا کنواں"۔ بس یہی دو زبانیں وہاں تھیں۔ یہ تو پڑھ رکھا تھا کہ اصل کنواں نیچے ہے ۔ اس لئے سوچا کہ یہ پانی کی ٹنکی ہے اور اس کی گول دیوار کے ساتھ جو قطار سے کئی بڑے بڑے تھرمِک جگ (Thermic jugs) رکھے ہیں جن پر "سقیاء زم زم" لکھا لکھا ہے، وہاں سے ہی زم زم پیا جاتا ہو گا۔ ہم اسی طرح مشرّف بہ زم زم ہوئے (حالاں کہ بعد میں معلوم ہوا کہ زم زم کے لیے دوسری طرف سیڑھیوں سے نیچے اتر کر جاتے ہیں اور زم زم پیا جاتا ہے۔) مگر صابرہ کی پریشانی میں ، مطلب ہمارے بچھڑ جانے کی فکر میں زم زم پینے کی دعا بھول گئے۔ اب یاد آ گئی ہے تو آپ کو بھی بتاتے چلیں۔ اَلْلّٰھُمّ َاِنّیِ اَسْئَلُکَ عِلْمُ الْنَاْفِعَۃْ وَ رِزْقٌوَاْسِعَہ وَ شِفَاءِ مِن کُلِّ دَاْء ۔یعنی اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، نفع دینے والے علم ، وسیع رزق اور ہر بیماری سے شفا کا۔

زم زم کے لئے بھی بمشکل جگہ بنا کر گئے تھے اور اسی اثناء میں عشاء کی اذان ہو گئی اور ہم صف بندی میں حصہ ہی نہ لے سکے۔ زمزم والے حصّے میں ہی قید ہو گئے تھے۔ اس طرف عورتوں کی صفیں تھیں، مردوں کی آگے تھیں اور سب پُر ہو چکی تھیں۔نماز شروع ہو گئی اور ہم کو کہیں صف میں جگہ نہیں مل سکی، بلکہ عورتوں کے حصّے میں ہی کھڑے رہ گئے اور نماز ہی ادا نہ کر سکے۔ سجدہ ہوتا تو ہم دو عورتوں کے درمیان کی جگہ میں کھڑے ہو جاتے اور جب وہ کھڑی ہو جاتیں تو زم زم کی دیوار سے لگ کر کھڑے ہو جاتے۔ آس پاس نظریں بھی دوڑاتے رہے ۔ ہم جہاں کھڑے تھے وہاں سے کچھ ہی دور پر "باب الفتح " لکھا تھا۔ صحنِ حرم کی سیڑھیوں کے پیچھے اس دالان کی صف میں صابرہ کا ہرا دوپٹّہ نظر بھی آگیا اور یقین ہو گیا کہ محترمہ وہاں ہیں مگر جیسے ہی عشاء کی نماز ختم ہوئی اور پھر نمازِ جنازہ بھی، ہم اس طرف جگہ بناتے ہوئے دوڑ کر پہنچے، مگر وہ پھر غائب تھیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مقامِ ابراہیم پر نماز کے فوراً بعد وہ لوگ عشاء کی جماعت کے لئے صف میں آ گئے تھے کہ بعد میں جگہ نہیں ملتی ہے اور نماز تک انھوں نے کچھ نہیں کیا۔ زم زم کے لئے بھی نماز کے بعد گئے۔ وہ لوگ زم زم کے کنوئیں کے اندر بھی گئے اور وہاں نفل نماز بھی پڑھی اور خوب سیر ہو کر زم زم پیا بھی، اور جسم پر ملا بھی۔ مظہر بھائی کا حج کا پچھلا تجربہ جو ان کے ساتھ تھا۔ وہاں انھوں نے کافی وقت گزارا تھا۔ اتنا کہ ہم ان کی تلاش کے بعد اور عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد سعی میں صفا مروہ کے چھہ چکر لگا چکے تھے، تب ان سے ملاقات ہوئی۔ بہر حال ہم جماعت کی نمازوں کے بعد بمشکل باہر آئے۔ باہر کی طرف نماز کے لئے جگہ مل گئی تو ہم نے بے جماعت عشاء کی نماز پڑھی اور صفا کی طرف آئے، نہ جانے کس طرف سے۔ بچھڑ جانے کی فکر میں ساری کتابی معلومات ذہن سے نکل گئیں کہ باب الصفا سے داخل ہونا افضل ہے سعی کے لئے۔ ہم پہنچ تو گئے صفا پر مگر سوچا کہ سعی کرنے سے قبل ذرا ان لوگوں کو پھر ایک بار دیکھ لیا جائے کہ یہ لوگ بھی سعی کر رہے ہوں گے (حالاں کہ یہ لوگ کافی بعد میں پہنچے تھے)۔ جس طرح بی بی ہاجرہ پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑی تھیں، ہم ہماری بی بی ہاجرہ، مطلب بی بی صابرہ کی تلاش میں ہی دوڑتے رہے۔ یہ راستہ "ون وے" (One way) ہے، صفا سے مروہ آنے والوں کا ایک طرف اور مروہ سے صفا آنے والوں کا دوسری طرف۔ ہم نے یہ ترکیب کی کہ اُلٹے چکّر لگائے کہ یہ لوگ آسانی سے نظر آ جائیں۔ ڈرتے ڈرتے کہ کہیں پولس چالان نہ کر دے۔ ہمارے ملک میں تو لوگ پھر بھی رشوت دے کر چھوٹ جاتے ہیں۔ یوں بھی ہم کبھی رشوت نہیں دیتے ہیں اور پھر اللہ کے گھر میں!! ان دونوں راستوں کے درمیان دو پتلے گلیارے اور بھی ہیں، وھیل چئرس کے لئے۔ ہم نے ٹریفک کے قانون کو محض اس لئے توڑا کہ اس طرح شاید صابرہ کے دیدار ہو جائیں۔ دو چکر کر بھی لئے اور بی بی صابرہ نہیں ملیں تو ہم نے پھر باقاعدہ سعی کر نے کا ارادہ کیا اور پھر صفا پر پہنچے کہ اب سیدھے راستے سے سعی ہی کر لیں۔ ہاں، اس درمیان باب السلام کے دو چکر بھی لگا چکے تھے کہ شاید ہماری بی بی صابرہ ہمارے فراق میں اپنی سعی بھول کر اس سعی میں وہاں چلی آئی ہوں کہ ہم وہاں مل جائیں تو ہم پھر ساتھ ہی سعی کر کے عمرہ مکمل کر لیں۔ مگر لگتا ہے کہ محترمہ ہمیں بھولی ہی رہیں۔

اس پریشانی میں یہ بھی بھول گئے کہ سعی میں کیا پڑھا جاتا ہے، اور کوئی مخصوص دعا ہے یا نہیں۔ بس یہ آیت یاد تھی، اسی کو دہراتے ہوئے چلے۔ اِنَّ اْلصِّفَاْ وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَاْئِرِاْللّٰہ۔ مسعیٰ میں دو سبز ستون ہیں اور دونوں جگہ چھت پر بھی نشانی کے لئے سبز پٹی بنا دی گئی ہے اور اس پر سبز ہی ٹیوب لائٹیں روشن ہیں۔ یہ "میلین اخضرین" کہلاتے ہیں اور ان کے درمیان مردوں کو تیز دوڑنا چاہئے۔ در اصل یہ حصہ نشیب میں تھا اور جہاں بی بی ہاجرہ صفا پر حضرت اسمٰعیلؑ کو چھوڑ کر آئی تھیں، نشیب کی وجہ سے وہ نظر نہیں آتے تھے تو دوڑ کر مروہ پر چڑھتی تھیں، یہی نشیب وہ جگہ ہے جسے میلین اخضرین کہتے ہیں۔ ہم حضرت ہاجرہ کی یہ سنّت پوری کرتے رہے اور جب ہمارے چار چکر ہو گئے تو صابرہ مع دوسرے ساتھیوں کے مل گئیں۔ یہ لوگ اسی وقت سعی کے لئے پہنچے تھے اور جیسا کہ پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ زم زم پر انھوں نے کافی وقت صرف کیا تھا۔ ہم نے پھر ساتھ ہی سعی شروع کی۔ تب معلوم ہوا کہ اگر چہ اب ان دونوں پہاڑوں، صفا اور مروہ کو ہموار کر دیا گیا ہے اور یہ اب ایر کنڈیشنڈ سڑک بن گئی ہے، مگر چوٹیوں کی نشانیوں کے طور پر صفا اور مروہ دونوں پر کچھ پتھّر ننگے (یہ شائد ہماری Geology بول رہی ہے) چھوڑ دئے گئے ہیں، وہاں چڑھا جائے تو بہتر ہے۔اور صفا پر کعبۃ اللہ کی طرف دیکھ کر ، بلکہ جہاں سے قبلہ نظر آئے، وہاں دعا مانگنا چاہئے۔ مروہ پر محض قبلہ رو ہو کر۔ ہم نے صحیح قاعدے سے سعی نہیں کی تھی، اس لئے ان چار چکروں کو بھی گنتی میں شامل نہیں کیا اور پھر ان لوگوں کے ساتھ شروع سے سات چکر مکمل کئے (اس طرح ہمارے 13 چکر ہو گئے، دو چکروں میں اُلٹی گنگا بہائی تھی، چار چکروں میں سعی کے صحیح نہ ہونے کا شک تھا، اور سات صحیح طریقے سے کئے)۔

ویسے مروہ پر ہی (کیوں کہ سعی کے سات چکر وہاں ہی پورے ہوتے ہیں، صفا سے مروہ تک ایک اور مروہ سے صفا تک دو، یعنی ایک طرفہ فاصلہ طے کرنے کو ہی ایک چکر مانا جاتا ہے) بہت سے حجّام مستعدی سے کھڑے تھے کہ آپ کے بالوں کی ایک لٹ کاٹ لیں (جو کچھ مسلکوں کے لحاظ سے درست ہے)۔ بہت سے لوگ اسی طرح کترواتے بھی ہیں، مگر ہم سعی کے بعد "صالون" یعنی ہیئر کٹنگ سیلون پہنچے ۔ کم از کم چوتھائی سر کے بال اتروانا افضل ہے۔ ہم نے سوچا کہ پہلی بار محض بال چھوٹے کروا لیں گے، پھر ایک آدھ عمرہ اور کریں گے تو سر پر مشین پھروا لیں گے، اور پھر حج کے موقعے پر اُسترا پھروا لیں گے۔ صالون میں ہم نے حجام کو یہی بات سمجھانے کی کوشش کی کہ بھائی چوتھائی بال کاٹ دو مگر وہ اللہ کا بندہ سمجھا نہیں۔ اس نے مشکل سے ڈیڑھ منٹ میں بجلی کی مشین سر پر پھیر دی اور کہا "لائیے تین ریال"۔ چناں چہ سر سے پاؤں تک اس عمرے کی یادگار ہو گئے۔ پاؤں سے اس طرح کہ جب ہم حرم سے باہر آئے تو چپّلیں غائب پائیں، اس کا قصّہ ہم لکھ ہی چکے ہیں۔ غرض احرام سے فراغت ہو گئی، بال کٹوائے تھے اس لئے سر تو ہم نے وہاں غسل خانے میں ہی دھو لیا (عمارت میں آ کر نہائے)۔ ان سب کاموں میں رات کے ساڑھے دس بج گئے تھے۔ باہر آ کر ہوٹلوں کی طرف گئے۔ مظہر بھائی اور جبّار و ستّار صاحبان نے چاول، مرغی کا سالن اور سالم مرغی خریدی۔ ہمارا ارادہ تو معلّم کی طرف کا لایا ہوا کھانا کھا کر سو جانے کا تھا۔

رہائش گاہ پر پہنچے تو ساڑھے گیارہ بج گئے تھے، نہا دھو کر کھانے کا ارادہ کیا تو ساتھیوں نے مدعو کر ہی لیا، چنانچہ ہمارے ساتھ کا کھانا، بنگلور حج کیمپ میں تحفتاً ملے پھل اور ان لوگوں کا لایا کھانا سب مل جل کر کھا کر فارغ ہوئے تو اپنے بستر تک پہنچنے میں ساڑھے بارہ بج گئے تھے۔ تین بجے پھر تہجّد کے لئے اُٹھنا تھا، ہم کو لیٹنے تک مگر دو بج گئے، اس کا قصّہ مگر دوسرا ہے۔

د ا ستا ن ہما ر ی کھانسی کی

یہ تو ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ ہماری تکلیف کا اب تک ایک ہی علاج ہم کو راس آیا ہے کہ اپنے ہاتھ سے وِلس یا کیپسٹن کے تمباکو کا پاؤچ لیں، تمباکو نکالیں، کیپسٹن سگریٹ پیپر کے لیفلیٹ (leaflet)سے ایک لیف (leaf)نکالیں یعنی کاغذ اور تمباکو رول کر کے چپکا کر اپنی سگریٹ بنا لیں اور نوش فرمائیں (پھر بھی فائدہ نہ ہو تو ڈاکٹر سے صلاح لینے کی چنداں ضرورت نہیں)۔ سگریٹ ختم ہونے کے آدھے پون گھنٹے میں ہم نارمل ہو جاتے ہیں۔ یہ جادو کسی ریڈی میڈ سگریٹ میں نہیں ملتا۔

29 مارچ کی شام ساڑھے سات آٹھ بجے سے کھانسی اٹھنا شروع ہوئی تھی جب احرام باندھا تھا۔ علاج کے لئے سوچا کہ سگریٹ بنا کر پی جائے۔ بلکہ پینا شروع بھی کر دی تھی مگر آندھرا پردیش اور کرناٹک کے حجاج نے اعتراض شروع کیا کہ احرام کی حالت میں سگریٹ پینا حرام ہے۔ یہ ہمارے حساب سے غلط بات تھی۔ ہم مانتے ہیں کہ یہ احرام کے آداب کے خلاف ضرور کہی جا سکتی ہے مگر اسے حرام کہنا غلط ہوگا۔ حرام شے ہر حالت میں حرام رہتی ہے اور کسی کو احرام کی حالت کے لئے مخصوص سمجھنا ہمارے نزدیک صحیح نہیں۔ یوں گناہ سے پرہیز ضروری سہی مگر سگریٹ نوشی گناہ!! ہمارا خیال ہے کہ یہ حضرات خود بھی سگریٹ پیتے ہوں گے تو سگریٹ کی لذّت نہیں بلکہ لذتِ گناہ کے باعث۔ اس لئے کہ ایک منع کرنے والے صاحب کو خود ہم نے سگریٹ پیتے دیکھا تھا۔ ہم نے یہ ضرور سوچا کہ بزرگوں اور وہ بھی دینی بھائیوں کو جو حج کے پاکیزہ مقصد سے آئے ہوں، تکلیف دینا ضرور اس سے کہیں بڑا گناہ ہے، محض اس وجہ سے ان کی بات مان کر سگریٹ بجھا دی۔ ایر پورٹ تک بھی اسی طرح آئے۔ جہاز میں اگرچہ سگریٹ نوشی صرف جہاز کے چڑھتے اور اترتے ہوئے ممنوع ہوتی ہے، مگر ہمارے بائیں طرف صابرہ تھیں جن کے قریب ہم یوں بھی سگریٹ نہیں پیتے، اور بائیں طرف وہی معترض حاجی صاحبان۔ جہاز میں اگرچہ کھانسی کی شدّت میں کمی ہو گئی مگر گلا ویسے ہی خراب رہا۔ یہ تکلیف جدّہ ایر پورٹ پر پھر کھانسی میں تبدیل ہو گئی۔ آخر جدّہ ایر پورٹ پر جب سب لوگ بس کی لائن میں لگے تو ہم موقعہ نکال کر بازار کا جائزہ لینے کے بہانے نکلے اور صبح کے ساڑھے نو بجے جا کر سگریٹ پی سکے جس سے 10 بجے کے بعد، یعنی پورے چودہ گھنٹے بعد ہماری حالت نارمل ہو سکی۔ لیکن جب ہم حرم میں آئے ہیں تو تب سے ہی دیکھ رہے ہیں کہ ہندوستانیوں اور پاکستانیوں میں نسبتاً کم مگر دوسرے ممالک کے لوگ احرام کی حالت میں بھی بے جھجھک سگریٹ نوشی کر رہے ہیں۔

مریض اللّہ

یہاں آ کر ایک نئی بیماری ہو گئی ہے۔ یہ تو خیر ایک پرانی بیماری ہی ہے کہ جب کسی بھی باعث چھینکیں آ جائیں یا ناک بہنا شروع ہو جائے تو بلغم کی ایسی پیدائش شروع ہو جاتی ہے کہ کھانسی یا "سانسی" شروع ہو جاتی ہے۔ خانۂ کعبہ میں طواف ہی کیا، نماز بھی پڑھتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ قبلے سے نظریں نہ ہٹیں۔ رِقّت کا عالم اس طرح طاری ہوتا ہے کہ آنسو بہنے لگتے ہیں، پھر ناک بہنے لگتی ہے اور کھانسی شروع!صراحی آئے گی، خم آئے گا، تب جام آئے گا۔ یعنی ؎ بہے آنسو، بہے گی ناک، پھر کھانسی شروع ہوگی۔ اب اس مصرعے پر گرہ لگایئے۔

اگرچہ پڑھا تھا کہ طواف میں زور زور سے کچھ نہ پڑھا جائے، مگر لوگوں کو دیکھا کہ سبھی زور زور سے بلکہ چِلّا چِلّا کر پڑھ رہے ہیں، گروپ میں ایک آواز اُٹھاتا ہے اور سب دہراتے ہیں۔ پہلی شام اور اگلے دو ایک دن ہم کو بھی خیال نہیں آیا، سب کی نقل ہی کرنے لگے۔ کچھ زور سے پڑھنے میں جذبے کی شدت کا بھی احساس ہوتا تھا، کچھ ریلے میں بہنے کی وجہ سے بھی۔ ادھر آنسو بھی بہتے، اُدھر بآوازِ بلند" سُبحٰنَ اْللّٰہِ وَاْلحَمْدُ لِللّٰہ اور رَبَّنَا اٰتِنَا" کی گردان ہوتی اور کھانستے بھی رہتے۔ کل ہی پھر کتابوں میں دوبارہ پڑھا کہ زیر لب پڑھنا افضل ہے تو کل مغرب کے بعد ہم دونوں نے طواف کیا (ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر جیسا کہ ساتھ رہنے پر اگلے دن سے کرتے آ رہے ہیں) تو محسوس کیا کہ دھیرے پڑھنے سے رقّت کم ہوتی ہے اور کھانسی کی شدّت بھی کچھ کم ہوتی ہے۔ اس لئے کہنا چاہئے کہ یہاں آ کر ہم مریضُ اللہ ہو گئے ہیں۔

اُمّ القریٰ میں د و دِ ن

ان دو دِنوں کی تفصیل شاید اب تک (یہ اب 3/اپریل کی شام 5 بجے حرم سے واپس آ کر لکھ رہے ہیں) کچھ گڈ مڈ ہو گئی ہے۔ 31/کی صبح تک تو یاد ہے کہ صابرہ تو تہجد کے لئے صبح 3 بجے ہی حرم چلی گئی تھیں، ہم سوا چھہ بجے اُٹھ سکے اور اُٹھتے ہی ضروریات سے فارغ ہو کر چلے حرم کی طرف۔

صابرہ سے حرم میں ملاقات تو مشکل ہی تھی۔ اس لئے راستے میں ہم نے تنہا فروٹ کیک کا ایک ریال کا پیکٹ خریدا اور حرم کے باہر ہی ہوٹلوں سے ایک ریال کی چائے خریدی اور ناشتہ کیا۔ کھانس رہے تھے اس لئے ناشتے کے بعد پہلے سگریٹ پی، پھر حرم کے غسل خانوں میں وضو کر کے فجر کی قضا اور کچھ اور قضا نمازیں پڑھیں اور پھر طواف کیا۔ ساڑھے دس بجے تک وہاں ہی رہ کر پھر واپس رہائش گاہ آئے تھے تو صابرہ وغیرہ پھر حرم کے لئے نکلنے کو تیار تھیں۔ یہ سات بجے تک واپس آ گئی تھیں اور ساتھیوں کے ساتھ ناشتہ کر کے کچھ دیر آرام کر چکی تھیں۔ مگر ہمارے لئے تو آرام حرام ہے۔ دِن میں ہمیں نیند نہیں آتی، بس یہی آرام ہوتا ہے کہ کوئ رسالہ یا کتاب لے کر بیٹھ جائیں یا لیٹ جائیں یا کچھ لکھتے رہیں۔ اگر اس وقت صابرہ کا آرام کرنے کا ارادہ ہوتا تو شاید جو تحریر ہم اس وقت لکھ رہے ہیں، اسی وقت لکھ چکے ہوتے۔ بہر حال صابرہ نکل ہی رہی تھیں تو ہم پھر ان کے ساتھ ہی دو بارہ حرم کی طرف نکل گئے۔ طواف کیا اور پھر ظہر کی نماز کے لئے انتظار میں کچھ قضا نمازیں پڑھتے رہے، کچھ اللہ کی رحمتیں حاصل کرتے رہے..محض بیٹھے بیٹھے یا کعبۃ اللہ کو دیکھتے دیکھتے۔ ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر باہر نکلے اور باہرکی ہوٹلوں میں ہی چیز پیسٹری (Cheese pastry) اور کیک خرید کر اور چائے پی کر اس ناشتے کو لنچ کا نام دے دیا۔ اور پھر داخلِ حرم۔ عصر کی نماز یہاں 50۔3 پر ہوتی ہے۔ ویسے روزانہ ایک دو منٹ کا فرق ہوتا رہتا ہے ہر نماز کے شروع اوقات میں، آج 48۔3 پر تو کل  49۔3پر) عصر کے بعد کچھ دیر رہائش گاہ پر لوٹے ، چائے پیتے ہوئے اور پھر شام کو چھ بجے نکل گئے مغرب کے لئے۔ پھر عشاء تک طواف کیا۔ ہاں، 31/ کی صبح ہی زم زم کا کنواں ہم نے دریافت کر لیا اور وہاں بھی نفل نماز پڑھنے کا موقع ملا۔ حرم کے صحن میں یہ ایک ٹینک نما دائرہ ہے جو صرف ایک طرف سے کھلا ہے، جہاں سے زیر زمین جانے کے لئے سیڑھیاں اترتی ہیں۔ نیچے کنواں اور پانی کی سپلائی کا انتظام ہے۔ اس کی مشینیں شیشے کی دیوار کے پار نظر آتی ہیں۔ یہی جگہ ہے چاہِ زم زم کی جہاں بی بی ہاجرہ نے چشمہ ابلتے دیکھ کر کہا تھا "زم! زم!" یعنی ٹھہر جا، ٹھہر جا۔ اور وہ اس طرح ٹھہر گیا کہ اب لاکھوں کروڑوں لوگوں کی پیاس بجھا رہا ہے اور شفا عطا کر رہا ہے ڈھائی تین ہزار سال سے۔ ایک مکتبہ زمازمۃ الموحّد ہے یعنی "زم زم یو نائیٹیڈ آفس"۔ مکتب کا یہاں مطلب دفتر ہے، اردو فارسی والا نہیں جو ہند و پاک کے مکتبوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ پھر شاعری میں تو ایک مکتبِ عشق بھی ہوتا ہے جہاں مستقبل کے فرہاد درس لیتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ یہاں بھی کوئی مکتبِ عشق ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر راستہ چلتے ہمیں کوئی مکتب عشق الموحدہ کا بورڈ نظر آ جائے تو آپ کو ضرور اطّلاع دیں گے۔ ہو سکتا ہے نظر آ ہی جائے، دیدۂ بینا چاہئے۔ ہاں تو اس مکتب نے کولنگ پلانٹ (Cooling Plant) لگا رکھا ہے غالباً حرم میں بھی۔ ویسے اس کی باٹلنگ کمپنی تو علیٰحدہ ہے جدّہ کے راستے میں۔ یہاں حرم میں ٹھنڈا پانی فراہم (سپلائی کے معنوں میں، یہاں یہ بات یاد آ گئی کہ ہمارے حیدرآباد میں نہ جانے سپلائی کا ترجمہ "سربراہی" کیوں کیا جاتا ہے جس کے اصل معنی شاید حیدرآباد کے سربراہوں کو معلوم نہ ہوں گے، یا پھر یہ ہماری ہی کم مائیگی ہے کہ ہم نے یہ لفظ ان معنوں میں پہلے کبھی نہ سنا تھا۔ حیدرآبادی قارئین معاف فرمائیں) کیا جاتا ہے بے شمار کولروں کے ذریعے سے۔ حرم کے اندر قطار اندر قطار تھرمِک جگس (Thermic jugs) ہیں جن کا ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ "سُقیا زم زم" کے نام سے موسوم ہیں۔ مکتب زمازمۃالموحدہ کی طرف سے ہی ہر رہائشی عمارت میں پلاسٹک کے بڑے بڑے جری کینوں میں عازمین کے لئے روزانہ صبح زم زم فراہم کیا جاتا ہے۔

وہ اہلِ سیا ست جانیں.......

4/ اپریل، دو پہر ڈھائی بجے (قوسین میں وہی جو لکھتے آئے ہیں کہ اب مدینے میں رہ کر مکّے کی باتیں کر رہے ہیں، اس لئے اس سطر کو پڑھ کر تاریخ بھی بھول جائیں تو بہتر ہوگا)

 

راستوں سے گزرتے ہوئے یہاں کے دو ایک انگریزی اخبار بھی نظر سے گزرے۔ عرب نیوز اور رِیاض ٹائمس۔ جِدّہ میں ایک اردو اخبار بھی دیکھا تھا. اردو نیوز۔ عرب دنیا کا اردو کا پہلا اخبار۔ بہر حال 31 مارچ کے اخبار میں پہلے یہ خبر ملی کہ ہمارے یہاں متحدہ محاذ کی سرکا رکو کانگریس پارٹی نے تعاون دینا بند کر دیا ہے اور صدر کانگریس اور پارلیمانی لیڈر سیتا رام کیسری نے حکومت بنانے کا دعویٰ پیش کیا ہے۔ اگلے دن کی خبر تھی کہ صدر شنکر دیال شرما نے 7/اپریل کو دیوے گوڑا سرکار کو اپنی اکثریت ثابت کرنے کا حکم دیا ہے پارلیمنٹ کے فرش پر ( فلور floor) کا اردو ترجمہ فرش صحیح اور مناسب ہے نا !!)، اب کیا کچھ ہوتا ہے ہمارے وطنِ عزیز میں یہ اہلِ سیاست جانیں، لگتا ہے ہمارے نکلنے کا انتظار ہی تھا کیسری جی کو۔ مبادا کہیں ہم سے اجازت طلب کرنے کی ضرورت پیش آئے اور ہم منع فرما دیں۔

ر و ز کے معمولات

کل تو ہم بھی الحمدُ لللّٰہ صابرہ کے ساتھ ہی تہجّد کے لئے حرم شریف گئے تھے، ورنہ ہمارا معمول وہی ہے کہ فجر کے لئے جاتے ہیں۔ 31/ کو تو فجر بھی نکل گئی تھی۔ یکم اپریل کو تہجد کے بعد حرم میں ہی تھے، 2/ کو حرم کی فجر کی جماعت مل گئی اور 3/ کو غسل خانے ہی ڈھونڈھتے رہ گئے۔ یہاں یعنی رہائشی عمارت میں پانی نہیں تھا، اگرچہ آنکھ کھل گئی تھی ہماری ساڑھے چار بجے ہی۔ مگر ضروریات اور وضو کے لئے حرم جانے کا وقت نہ تھا۔ یہاں ہی اُتار پر (اس ڈھلان پر سڑک بنانے کا پلان ہے، آج کل بُل ڈوزر سے زمین ہموار کی جا رہی ہے) "مسجدِ جِن" ہے۔ وہی جگہ جہاں آں حضرت نے جِنوں کو نماز پڑھائی تھی۔ وہاں پہلی بار ہی گئے تھے تو دیکھا کہ غسل خانے یا وضو خانے ندارد ہیں۔ ہم نے لاکھ عربی، فارسی، اردو، انگریزی اور فرانسیسی آزمائی۔ جن صاحب سے فرانسیسی میں "توالہ" کہا، اُن کو فرانسیسی نہیں آتی تھی۔ "حوائج"، "طہارہ" "بول و براز" سبھی کچھ کہتے رہے۔ انگریزی میں ٹایلیٹ بھی۔ آخر میں ایک صاحب سے پھر انگریزی میں ٹائلیٹ کہا تو انھوں نے الٹا سوال کیا "توالہ ؟" فرانسیسی میں۔ ہم نے محض گردن ہلا دی کہ کہیں Oui, monsieurکہہ کر پچھتانا نہ پڑ جائے۔ تب انھوں نے اشارہ کیا کہ مسجد کے پاس ہی جو کئی منزلہ عمارت ہے۔ اس میں فرسٹ فلور پر کاروں کی پارکنگ سے اوپر ٹائلیٹ ہیں۔ مسجد میں محض وضو کا انتظام تھا۔ وہاں جب تک ضروریات سے فارغ ہوئے، فجر کی جماعت ختم ہو چکی تھی۔ چنانچہ مسجد جن میں پھر وضو بھی نہیں کیا اور سیدھے حرم کی طرف ہی آ گئے کہ وہاں جا کر ہی وضو کر کے فجر پڑھ لیں گے، انفرادی تو پڑھنی ہی تھی۔

نماز کے بعد وہی معمولات، طواف، ناشتہ، پھر کچھ قضا نمازیں۔ دس بجے سے ساڑھے گیارہ بجے تک اپنی عمارت میں ، پھر ظہر کے لئے حرم۔ اس کے بعد دو پہر کا کھانا جو ڈھائی تین بجے تک چلتا تھا۔ درمیان میں آرام۔ پھر عصر، مغرب اور عشاء کے لئے حرم میں ہی۔ درمیان میں چائے وغیرہ کی "ضرورت" کے لئے باہر آتے ہیں۔ روزانہ چار پانچ طواف اور قضا نمازیں حرم کا معمول ہے جماعت کی نمازوں کے علاوہ۔ پھر عشاء کے بعد کچھ روٹی سالن لیتے ہوئے واپس آتے ہیں رات کے کھانے کے لئے اور اسے ساتھیوں کے ساتھ مل بانٹ کر کھاتے ہیں۔

ہم عربی سیکھ رہے ہیں

گنتی تو ہم کو پہلے ہی آتی ہے عربی میں، واحد ریال اور اربع ریال تو خوب بولتے ہیں۔ " کَیف" کہہ کر قیمت بھی پوچھ لیتے ہیں اور جواب میں " ثلاثہ "ریال کی جگہ "تلاتہ " ریال (بولنے میں "ث" کا ایک نقطہ حذف کرنے کی عادت ہے عربوں کی) سن کر بھی سمجھ لیتے ہیں کہ اس کی قیمت تین ریال ہے۔ اگرچہ سبھی لوگ اردو بھی سمجھ لیتے ہیں، کم از کم دوکان دار۔ مگر کل پھر بھی مشکل ہو گئی۔ پوسٹ آفس کو عربی میں کیا کہتے ہیں، یہ معلوم نہیں تھا۔ ڈاک خانہ، لیٹرس، خطوط، مراسلہ، سب کچھ کہہ کر پوچھنے کی کوشش کی۔ یہاں ہماری فرانسیسی بھی جواب دے گئی۔ بعد میں ایک اردو بولنے والے دوکان دار سے پتہ چلا کہ کہ کہاں ہے پوسٹ آفس۔ حرم کے قریب ہی ایک بڑی عمارت ہے، جس پر لکھا ہے "وزارت البرق والہاتف والبرید" برق ٹیلیگراف یا ٹیلی گرام کو، ہاتف ٹیلی فون کو اور ُبرید پوسٹ آفس کو کہتے ہیں۔ ہاتف تو ہم سیکھ چکے تھے کہ ٹیلی فون بوتھس پر یہی لکھا دیکھا تھا اور ہاتفِ غیبی کی صدا سنی تو نہیں مگر اس کا ذکر ضرور سن رکھا تھا۔ یہاں Fax بھی تھا مگر e-mail سے یہ لوگ لا علم ہیں، نہ جانے کیوں، ورنہ خیال تھا کہ صابرہ کے آفس کے پتے پر ای۔ میل ہی بھیج دیں جہاں سے آفس والے گھر فون کر دیتے تو کامران، ہمارے بیٹے، جا کر حاصل کر سکتے تھے۔ ہمارا آفس کیوں کہ شہر سے باہر ہے اس لئے یہ مشکل تھا اور ہمارے گھر کے کمپیوٹر میں یہ سہولت نہیں ہے کہ انٹر نیٹ (Internet)نہیں ہے۔ آخر خط ہی لکھا۔ پوسٹ آفس میں معلوم ہوا کہ لفافے پر لگانے کے لئے ٹکٹ صرف چھوٹے پوسٹ آفسوں میں ملتے ہیں۔ بڑے " بُریدوں" میں لفافہ کاؤنٹر پر دیجئے، ڈاک خرچ کے پیسے ادا کیجئے اور "برید دار" اس قیمت کی مہر لگا کر اپنے پاس رکھ لے گا کہ خط پوسٹ ہو گیا۔ بچوں کو لفافے پر ٹکٹ لگا کر بھیجنے کا ارادہ تھا کہ یہ لوگ ٹکٹ جمع کر لیں، معلوم ہوا کہ اس کا کاؤنٹر علیٰحدہ ہے۔ مہر لگانے والے کاؤنٹر پر تو بھیڑ لگی تھی مگر ٹکٹ والے کاؤنٹر کے شیخ ہی غائب تھے۔ شاید اس کا رواج یہاں نہیں ہے۔ بہر حال 2 ریال کے ٹکٹ لگتے ہیں ہندوستان کے لئے۔ امّی کے لئے سوچا تھا کہ انھیں ایروگرام لکھ دیں گے، وہ بھی وہاں دستیاب نہیں تھا، ان کے لئے بھی ٹکٹ خرید کر رکھ لئے مگر سادہ لفافے کی تلاش میں اب تک سر گرداں ہیں کہ سادہ لفافے مل جائیں تو خط لکھ کر پوسٹ کر دیں، حیدر آباد میں بچّے بھی فکر مند ہوں گے اور علی گڑھ میں امّی بھی۔

یہ وزارت البرید "شارع المسجد الحرام" پر واقع ہے۔ مکّے کا بڑا پوسٹ آفس، بقول حیدرآبادیوں کے "صدر ٹپّہ خانہ" ۔ شارع روڈ کا ترجمہ ہے کہ یہ زیادہ نمایاں شاہراہ ہے۔ ہم جس راستے سے حرم جاتے ہیں، اس کا نام "طریق المسجد الحرام" ہے۔ دونوں متوازی سڑکیں ہیں مگر طریق کچھ پتلی ہے، اسے سٹریٹ کہئے۔ عمارتوں کے نام اکثر " قصر "ہیں، ہمارے راستے میں دو قصر ہیں "قصر الرایان" اور "قصر شاہین" ۔ ہوٹلیں "مطعم " ہیں اور ہیئر کٹنگ سیلون "صالون"۔ ٹیلی فون نمبروں کے لئے "تلفونّ بھی لکھتے ہیں اور " ہاتِف ّ بھی۔ پھر انھوں نے ایک نیا حرف بھی ایجاد کیا ہے، جو انگریزی کے حرف "V" کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس کی آوازجرمنی وغیرہ میں ضرور " ف " کی ہوتی ہے، یہاں "کاروان" (Caravan) اور "سیون " (Seven) کو نہ صرف "کارفن" اور "سفن" بولتے ہیں بلکہ لکھتے بھی اس نئے حرف سے ہیں جو "ف" پر دو مزید نقطے لگا کر لکھا جاتا ہے۔یعنی"ڤ"۔ "سون اپ" ایک مشروب کا نام ہے، اسے لکھتے ہیں اسی نئے حرف سے "سفن اب"۔ یہاں "پ" کی آواز "ب" سے بدل جاتی ہے۔۔ چنانچہ Suntop ایک اور مشروب ہے، اسے " صن توب" لکھتے ہیں۔ جو لباس یہاں مرد پہنتے ہیں یعنی ٹخنوں تک کا لمبا کرتا، اسے "توب" کہتے ہیں، ممکن ہے یہ بھی انگریزی Top کا بگڑا (یا سدھرا ) ہوا روپ ہو۔ یا Vice versa یعنی انگریزی میں عربی سے آیا ہو۔ ویسے محض لباس کے لئے بھی عربی میں یہی لفظ ہے اور نہ صرف یہ مخصوص لباس "توب" ہے بلکہ انگریزی "ٹاپ" بھی اسی سے برامد ہوا ہو۔ پےپسی (Pepsi)نام کا مشہور ڈرنک " بیبسی" ہے۔ جب بے بسی کا عالم ہو تو " بیبسی" ہی پینی پڑتی ہے۔ ٹیکسیوں پر کہیں کہیں "تاکسی " لکھا ہے ورنہ زیادہ تر "اجرت" اور اسے زبر سے بولا جاتا ہے، ہماری طرح ـ "اُجرت " نہیں۔ کہیں کہیں " أجرت عامّہ" بھی لکھتے ہیں۔

آخر ہم ہندوستانی ہیں

5/ اپریل، ساڑھے دس بجے رات

 

ہم اس روزنامچے یا سفر نامے میں چار دن لیٹ چل رہے ہیں۔ یکم اپریل کی تفصیل بھی پوری نہیں لکھ سکے تھے، کچھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے تھے نا! اب یہ سطریں مدینہ منوّرہ سے لکھ رہے ہیں۔ یہاں آج دوسرا دن ہے۔ بس یہاں پہنچنے کی داستان سنا دیں، پھر آج سے تازہ بہ تازہ لکھا کریں گے انشا ء اللہ۔ باسی روٹی کب تک آپ کو کھلائیں۔ یوں بھی بیت اللہ میں جو وقت گزارا جا رہا تھا اور جس طرح شب و روز گزر رہے تھے اور جو مشاہدات ہو رہے تھے، اب ہفتے بھر بعد وہی معمولات پھر ہوں گے۔ اگر تازہ بہ تازہ لکھتے رہے تو مشاہدات کا ذکر ہی زیادہ کریں گے جو کہ اب تک ذہن میں لکھتے آئے تھے۔ ہماری عادت یہی ہے کہ کوئی بات نئی معلوم ہوئی تو خیال آتا ہے کہ اس کا ذکر آپ سے کریں اور الفاظ اور جُملے تک ذہن میں بن جاتے ہیں۔ مگر ہم تو ہندوستانی ٹھہرے، ہمیشہ کے لیٹ لطیف۔ ٹرین پورے چوبیس گھنٹے بھی لیٹ ہو تو صحیح وقت پر کہنے والے۔ یہ دوسری بات ہے کہ عادتاً ہم وقت کی قدر کرنے کے لئے مشہور ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ضائع نہ ہو۔ لیکن یہاں کے معمولات ایسے ہیں کہ وقت واقعی ملتا نہیں ہے۔ بیت اللہ ہو یا مسجدِ نبوی ، نمازوں کے وقت کے آس پاس جب صف میں اچھّی جگہ مل جاتی ہے تو سب کی موجودگی میں اچھّا نہیں لگتا کہ جھولے سے ہم اپنا یہ رجسٹر نکال کر لکھنا شروع کر دیں۔ حالاں کہ ساتھ ضرور رکھتے ہیں۔ دو ایک دن حرمِ کعبہ میں جو لکھ سکے تو وہ اس باعث کہ کافی دور پر دالان میں یا چھت پر تنہائی دیکھ کر بیٹھے تھے۔ مگر وہ جگہیں نماز کے اوقات میں عورتوں کے لئے مخصوص ہو جاتی ہیں۔ اس لئے نماز سے گھنٹہ بھر قبل ہی اُٹھا دئے جاتے تھے۔  بے آبرو، یا با آبرو خود ہی اُٹھ جاتے تھے۔

شعبِ عامر کے قیدی

مکّے میں ہماری رہائش گاہ کے علاقے کا نام ہے " شعبِ عامر" گلی نمبر شمال۔1، شمال۔2/41 جو شائد ہم لکھ چکے ہیں۔ ایک زمانے میں آں حضرتؐ اور ایمان والوں کو کفآرِ قریش نے شعبِ ابی طالب میں قید کر دیا تھا ایمان لانے کے "جرم" میں۔ 2/ اپریل کو ہم اپنی رہائش گاہ واقع شعبِ عامر میں محصور ہو گئے۔ ہوا یوں کہ ہمارے معلّم صاحب انعام عبد الہادی میاں جان نے یکم کی شام کو نوٹس لگا دیا کہ 2/ کو عصر کی نماز کے بعد مدینے کے لئے روانگی ہوگی اور ہم لوگ تیار رہیں اور کہیں باہر نہ جائیں۔ چنانچہ سامان ٹھیک ٹھاک کر کے ظہر کی نماز ضرور حرم میں پڑھ لی اور پھر کھانا وغیرہ کھا کر ہم لوگ تیار ہو گئے۔ عصر کی نماز 4 بجے رہائش گاہ پر ہی قصر کر کے پڑھ لی (جدّے میں ہی پتہ چل گیا تھا کہ دو چار دن میں ہی مدینے جانا ہے، یہ اندراج پاسپورٹ میں ہی تھا کہ "زیارت المدینہ قبل الحج" اس لئے تنہا پڑھنے پر نمازوں میں قصر کرنا تھا) عمارت میں تعینات لڑکے اطّلاع دیتے رہے کہ بس 5 بجے آئے گی، پھر 6 بجے کی خبر ملی۔ پھر یہ کہ مغرب کے بعد آئے گی، عشاء کے بعد آئے گی، ہم نے مسافر ہونے کے ناطے قصر کر کے مغرب کے وقت ہی مغرب اور عشاء کی نمازیں ملا کر پڑھ لیں کہ مبادا عشاء کی نماز سفر میں چھوٹ جائے۔ جو لوگ وہاں کھانا پکا رہے تھے۔ وہ بھی دو پہر کو کھانے کے بعد ہمارے دفتر کی اصطلاح میں "کِچن باکس" بند کر چکے تھے۔ چناں چہ رات کا کھانا سب کو باہر سے خرید کر کھانا پڑا۔ کھانا کھا کر بھی 11 بجے تک انتظار کر کے سوئے، 3/اپریل کی صبح معلوم ہوا کہ بس نہیں مل رہی ہے اور مدینے کے پاس بند ہو گئے ہیں۔ 10/ بجے کے قریب حرم سے واپس آ کر ہم ہمارے علاقے کے ہندوستانی حج آفس بھی گئے، برانچ نمبر 7۔ یہاں کے اسسٹنٹ حج آفیسر ہیں ابراہیم کٹّی ّ۔ اصل میں کیرالا کے مسلمان مگر دہلی میں سکونت رکھتے ہیں۔ ان سے معلومات کی گئی اور انھوں نے ہمارے معلّم سے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ مکّے سے مدینے کی آمدورفت حکومت کی طرف سے بند کر دی گئی ہے اور اب حج کے بعد ہی شاید مدینے جانا ممکن ہو سکے گا۔ معلمّ کوشش تو کر رہے ہیں کہ اجازت مل جائے کیوں کہ وہ پچھلے دن کا وعدہ نہیں نباہ سکے تھے۔ ممکن ہے کہ ان کی کوششوں سے بسوں کا انتظام ہو جائے اور جانے کی اجازت مل جائے اور شاید عصر تک کچھ طے ہو سکتا ہے۔ عصر کے بعد واقعی معلوم ہو گیا کہ معلّم صاحب اپنی کوششوں میں کامیاب ہو گئے ہیں اور عشاء کے بعد بسیں ضرور آ جائیں گی۔ چناں چہ پھر آرام سے عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں حرم میں ہی جماعت سے ادا ہوئیں، مگر احتیاطاً ہم مغرب کے بعد عمارت پر واپس آ گئے۔ ویسے ہماری بیگم یا " بیغم" مغرب کے بعد بھی حرم میں ہی رہیں اور عشاء پڑھ کر ہی لوٹیں ہم واپس آ کر حالات کا جائزہ لے کر پھر عشاء کے لئے گئے۔ یہاں پھر کچھ بات قطع کلامی کی ہو جائے۔ عربی میں یہ لوگ بیغم ہی لکھتے اور بولتے ہیں۔ ان محترمہ کا نام کاغذات میں ہر جگہ صابرہ اعجاز لکھا ہے مگر ایک جگہ اردو میں صرف صابرہ لکھ دیا گیا ہے۔ چناں چہ جدّہ ایر پرٹ پر جو کاغذات اور کارڈس ہم کو ملے، ان میں اندراج عربی میں ہے اور وہاں ان کو صابرہ بیغم کر دیا گیا ہے۔ اس پر ہم کو ابنِ صفی کے قاسم صاحب کی بیوی چپاتی بیغم ضرور یاد آ جاتی ہیں۔ (معلوم نہیں آپ نے ابنِ صفی کے جاسوسی ناول پڑھے ہیں یا نہیں، مگر ہم کو یہ افسوس ہے کہ جب انگریزی فِکشن میں آرتھر کانن ڈائل کا نام مقرّب مصنفین میں شامل ہے تو اردو میں ابنِ صفی کا کیوں نہیں۔ ان کے ساتھ ہم اردو والے کچھ زیادتی ہی کرتے آئے ہیں)۔ بہر حال ہماری بیگم بے غم ضرور رہتی ہیں مگر نہ قاسم کے حساب سے چپاتی بیغم (قاسم کے ڈیل ڈول کے مقابلے میں) ہیں نہ بیگم قاسم کی طرح ہمہ وقت شوہر کی طرف سے شک میں مبتلا۔

بہر حال 3/ کی رات کو ہی تقریباً ساڑھے گیارہ بجے مدینے کے لئے روانہ ہو سکے۔ تب سے غالباً مظفّر وارثی کا یہ شعر ذہن میں گونجتا رہا ہے ؎

    جب مدینے کا مسافر کوئی پا جاتا ہوں : حسرت آتی ہے کہ وہ پہنچا ، میں رہا جاتا ہوں

ہماری حسرت کی اور شعبِ عامر میں محاصرے کی مدّت دو دن رہی اور آخر ہم پہنچ گئے مدینے۔

مدینے کا مسا فر

مکّے سے نکلتے نکلتے 12 بج گئے تھے کہ راستے میں کئی نقاطِ تفتیش تھے جہاں "پاس" چیک کیے گئے۔ یہ پاس عصر کے بعد معلّم نے بھجوا دئے تھے، پاس کیا، باقاعدہ شناختی کارڈ س تھے۔ دو بسوں میں ہم معلّم نمبر 53 کے سارے مسافر نیم خوابی کے عالم میں کاغذات دکھاتے رہے۔ پونے چار بجے تک پھر بس متحرک رہی اور پھر ایک پٹرول پمپ کامپلیکس میں روکی گئی۔ یہ وادئ ستارہ کا علاقہ تھا۔ یہاں ضروریات اور چائے میں پون گھنٹہ کے قریب وقت گزارا گیا۔ ساڑھے چار بجے یہاں سے روانہ ہو کر آدھے گھنٹے بعد ہی پھر ایک اور مقام پر جادہ کیا۔ فجر کا وقت ہو چلا تھا۔ مسجد بھی تھی اور کیوں کہ حرمِ کعبہ میں نماز کے اوقات کا علم تھا، اس لئے ہم سب نے فرض کر لیا کہ اذان ہو چکی ہوگی مگر وہاں مقامی کوئی شخص نظر نہیں آیا۔ آخر ہمارے ہی ایک ساتھی عازمِ حج نے نماز پڑھائی اور ہم نماز سے فارغ ہو کر بس میں بیٹھے تھے کہ اب آگے چلیں گے۔ تب پھر اذان کی آواز آئی۔ اس مسجد کے "ریگولر" مؤذن اور امام اب آئے تھے اور ہم سمجھے کہ یہ راستے کی مسجد ہے تو یہاں ہم جیسے لوگ ہی آتے ہوں گے۔ مسافروں میں بحث ہوئی کہ اب دوبارہ نماز پڑھنے کا کیا جواز ہے۔ کچھ لوگوں نے یہ سوچ کر بس سے نہ اترنے کا فیصلہ کیا مگر ہماری ناقص رائے تھی کہ اگر نماز ہو بھی چکی ہو اور دوبارہ کسی جماعت میں شامل ہونے کا موقع مل جائے تو دوبارہ پڑھنا بہتر ہے۔ ایک نماز نفل بن جائے گی۔ اس میں ثواب ہی ہے۔ اس لئے ہم دوبارہ بھی فجر کی جماعت میں شامل ہوئے۔ پھر بس میں بیٹھے۔ ڈرائیور صاحب بھی نماز میں شامل تھے۔ اس لئے ان کے آنے کے بعد ہی بس چلی۔

مدینے میں ہما را استقبال

لیجئے صبح ہو گئی۔ صبح کیا، اچھّا خاصا ایک پہر بیت گیا یعنی پونے نو بجے ہماری بس ذو الحلیفہ کے پاس ہی ہمارے استقبال کے لئے روکی گئی۔ اگر چہ شاہ فہد ہمارے استقبال کے لئے موجود نہیں تھے مگر ہم نے دل کو تسلّی دے لی کہ یہ سارے انتظامات تو شاہ کے حکم سے ہی ہوئے ہوں گے۔ ہم ابھی خوش ہو ہی رہے تھے کہ معلوم ہوا کہ ہمارے اتراتے پھرنے سے کچھ حاصل نہیں، ہماری اس شہر میں آبرو ہی کیا ہے۔ کہنے کو تو یہ "مرکزِ استقبال " تھا مگر لگتا تھا کہ سب کو باز رکھنے کی کوشش تھی۔ مدینے والے کہتے تھے کہ ہم آپ کو ہمارے شہر میں گھسنے ہی نہ دیں گے جب تک ہم سے پوری طرح مطمئن نہ ہو جائیں۔ خدایا! یہاں کے انصار کہاں گئے؟

البتہ ایک لحاظ سے یہ استقبال بہت اچھّا رہا، وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں Cheap and best کہ یعنی کم خرچ بالا نشیں کہہ لیجئے۔ وہاں ہر چیز مکّے کے مقابلے میں نصف داموں میں دستیاب تھی۔ ہروہ چیز جو مکّہ میں ایک ریال میں تھی، یہاں ایک ریال میں دو عدد۔ چناں چہ ہم نے ناشتے کا بہت سا سامان لے لیا کہ چاہے سند نہ رہے، مگر وقتِ ضرورت کام آئے۔

اہلیانِ مدینہ کی اجازت حاصل کرتے کرتے جب ہمارے ہوٹل پہنچے مدینے میں تو، 12 بج گئے تھے اور جمعے کی نماز کا وقت قریب تھا۔ جمعہ نہ بھی ہوتا تو ظہر کا وقت ہو رہا تھا۔ چناں چہ سامان رکھتے ہی نہانے کے لئے قطار میں لگ گئے اور ہوٹل کا ٹھیک سے جائزہ بھی نہیں لیا اور نہا کر جمعے کے لئے چلے گئے۔

نماز کے بعد واپس آ کر سامان ٹھیک ٹھاک کیا اور عصر تک آرام کیا اور یہ روزنامچہ لکھا۔ ہمارا یہی آرام ہے۔ عصر کی نماز پڑھ کر بڑے شوق سے روضۂ اقدس کی طرف گئے مگر اے بسا آرزو ......

....کہ خاک شد ہ

(اتوار ٦/اپریل، ساڑھے نو بجے صبح۔توقّف متکرّر، بِلا تحذیر)

 

ہاں تو ہم کہہ رہے تھے کہ عصر کے بعد روضے کی طرف گئے۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ بابِ جبرئیل سے داخلہ افضل ہے۔ مگر یہ باب بند تھا۔ داخلے کی اجازت نہیں تھی کہ ادھر سے لوگوں کی واپسی کا انتظام تھا، یہ Exit تھا ۔اس کے دائیں طرف والے دروازے سے داخل کئے گئے۔ اندر متعدد لوگ قرآن پڑھ رہے تھے یا دعائیں اور درود و سلام۔ وہ لوگ کس طرح پہنچ کر بیٹھے تھے ، کب سے بیٹھے تھے، یہ بھید اب تک نہ کھل سکا۔ ہم کو تو  "ٹریفک پولس " نے دھکّے دے دے کر آگے بڑھانا شروع کیا، ادھر لوگ رکنا چاہ رہے تھے چناں چہ افراتفری کا عالم تھا۔ اپنے آپ کو سنبھالتے اور محض دھکّوں کی وجہ سے آگے بڑھتے ہوئے جب ہوش آیا تو ہم بابِ جبرئیل کے باہر کھڑے تھے۔ ہم کو معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ کہاں کیا تھا۔ ایک جالی والی دیوار بھی دیکھی تھی شاید آں حضرت ؐ  کی آرام گاہ اس کے پیچھے ہوگی۔ مگر یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے زیارت بھی کی یا نہیں۔ اور یہ بات یاد ہے کہ جب پولس نے دھکّا دے کر زائرین کو گرانے کی کام یاب کوشش کی تو ہم بھی ان گرنے والے شہ سواروں میں شامل تھے۔ مقابلتاً ایک بات یاد آ گئی ہے اگرچہ احترام کے خلاف ہے، مگر اس رخشِ تصوّر کو کیا کیجیے کہ ہر بحرِ ظلمات یعنی ممنوع مقام میں دوڑتا ہے۔ ہندوستانی نمائشوں جیسے حیدر آباد یا علی گڑھ (اور بطور خاص علی گڑھ نمائش کی " ہائے بیلا کی گلی") میں ٹکٹ لے کر تماشہ دکھایا جاتا ہے جیسے لومڑی کے بدن والی لڑکی جس کا چہرہ انسان کا اور بدن لومڑی کا ہوتا ہے ۔ یا ایک "ہنسی گھر " ہوتا ہے جہاں مختلف قسم کے آئینے لگے ہوتے ہیں، اس آئینہ خانے کے کسی آئینے میں آپ کا عکس لمبوترا ہو جاتا ہے تو کسی میں چپٹا اور آپ خود پر ہنستے رہتے ہیں، یہ تماشے دیکھتے ہوئے آپ ایک طرف سے داخل ہوں اور دوسری طرف سے نکل جائیں، چنانچہ روضۂ اقدس کے اس دورے میں بلکہ اس دورے کے بعد ہم اپنے پر اسی طرح ہنستے رہے بس اتنا ہوش ضرور رہا کہ کم از کم ہر لمحہ درود پڑھتے رہے زیر لب۔ 5 منٹ میں باہر آ گئے اور اپنے کمرے میں۔

.....سفارت بھی ہے قبول

ہم آپ کو بھی اپنے ساتھ مدینہ پہنچتے ہی جمعے کی نماز کے لئے مسجدِ نبوی لے گئے ہیں۔ در اصل اپنی رہائش گاہ کا جائزہ خود ہم نے بعد میں لیا۔ اس لئے یہاں ہی اس کا صحیح موقع ہے کہ بارے اس عمارت کا کچھ بیاں ہو جائے۔

یہ " مرکزِ سفیر" ہے۔ شاید ہم کو ہندوستان کی سفارت کا شرف بخشا گیا ہے جو ہمیں بخوشی قبول ہے۔ یہ رہایش گاہ 468 یعنی مکّے کی عمارت سے کئی گنا بہتر ہے، بلکہ بے حد آرام دہ ہے۔ اس 7 منزلہ عمارت میں ہم تیسری منزل یعنی سیکنڈ فلور ۔ "دور الثانی" میں ہیں۔ اس لحاظ سے کمرہ نمبر 205 ہے جیسا کہ ہوٹلوں کا قاعدہ ہے کہ کمروں کے نمبر فلور نمبر سے شروع کئے جاتے ہیں۔ مکّے میں کمرہ نمبر 201 تھا اور وہی دور الثانی۔ یہ مگر بے حد صاف ستھری اور خوب صورت عمارت ہے۔ سیڑھیاں سنگِ مر مر کی، فرش بھی صاف ستھرا، کہیں پتھّر، کہیں موزیک اور کہیں سیرامک کے ٹائلس۔ کمرے میں سبز دبیز قالین، تقریباً 20 ضرب 15 کے کمرے میں 6 عدد بستر، یعنی 6 لوگوں کے سونے کا انتظام۔ اگر چہ ساتھ رہنے کی کوشش کرنے والوں کی وجہ سے یہاں دو عدد مزید بستر لگ گئے ہیں اور مظہر بھائی کے کمرے (نمبر 206) میں محض 6 لوگ رہ گئے ہیں۔ ائر کنڈیشنر بھی اچھّا کام کر رہا ہے۔ غسل خانے بھی نہ صرف یہ کہ صاف ستھرے ہیں بلکہ ہر منزل پر تین عدد، دو دیسی یعنی ہندوستانی اور ایک مغربی معہ باتھ ٹب یا جاکوزی (Jaccuzzi) کے جب کہ ہر منزل پر چار ہی کمرے ہیں۔ ایک کمرہ کچن کے لئے مخصوص ہے جس میں فرِج اور کولر بھی ہے، اگر چہ کولر کام نہیں کر رہا۔ اس کمرے میں بھی واش بیسن ہیں اور غسل خانوں اور باہر کاریڈور میں بھی ۔ یہ عمارت حرم یعنی مسجدِ نبوی سے کوئی چار سو میٹر دور ہے۔ ہاں، یہ بتا دیں کہ اب تک ہم کعبۃ اللہ کو ہی حرم کہتے آئے ہیں۔ یہاں یہ غلط فہمی دور کر دیں کہ مسجدِ نبوی کو بھی حرم کہتے ہیں اور کعبے اور مدینے کی مسجدِ نبوی کو ملا کر حرمین شریفین کہا جاتا ہے ( جیسے شاہ فہد خود کو خادم الحرمین شریفین کہتے ہیں ) ایک حرمِ مکّہ اور ایک حرمِ مدینہ۔  چناں چہ جب ہم مدینے کے قیام کے دوران حرم لکھیں تو قارئین مسجدِ نبوی مراد لیں ۔ سڑک کے نُکّڑ پر ہی یہ عمارت ہےَ اور اسی سڑک سے بائیں طرف مُڑ کر آگے سیدھے جانے پر مسجدِ نبوی ہے۔ اس سڑک کا نام " طریق المطار النازل " لکھا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ سڑک یہاں کے مطار یعنی ایر پورٹ جاتی ہو۔ ہماری نگاہِ تجسّس یہ بھی تو ڈھونڈھتی رہتی ہے کہ کس سڑک کا کیا نام ہے اور کہیں نہ کہیں یہ اطّلاع بھی مل ہی جاتی ہے۔

دیارِ مدینہ کی پہلی شا م

مسجدِ نبوی کے احاطے کے بالکل سامنے ایک نئی عمارت ہے جس کا انگریزی نام "کمرشل سینٹر " ہے۔ اردو میں اسے "تجارتی مرکز" اور عربی میں " مرکز التجارۃ" لکھا ہے۔ اس کے علاوہ ایک زبان اور بھی ہے رومن رسم الخط میں جو غالباً انڈونیشین یا ملیشین ہو گی۔ ہر اہم سائن بورڈ یہاں یا مکّہ میں کم از کم تین زبانوں میں ضرور ہے۔ انگریزی اور عربی کے بعد تیسری زبان اردو ضرور ہے ( جدّہ ایر پورٹ پر اور کہیں دو ایک جگہ اور چھ چھ زبانوں میں بورڈ لگے ہیں۔ وہاں یہ دو مزید زبانیں ہیں بنگلہ اور فرانسیسی۔ جدّہ ایر پورٹ پر تو خیر ہندی میں بھی "سواگتم"("svaagatam" ) لکھا ہے اور ہندی ہمیں ہندوستانی حج آفس کے علاوہ کہیں نظر نہیں آئی)۔

یہ تجارتی مرکز ہمہ منزلہ نئی عمارت ہے۔ اس کا ثبوت ہی یہ تھا کہ اس کے دو طرف ( ممکن ہے کہ چاروں طرف ، ہم نے دو ہی سمتیں دیکھی تھیں۔اس پر مشتاق یوسفی کی یاد آ گئی کہ انھوں نے ایک صاحب سے ایک محترمہ کے حسن کی اس طرح تعریف کی ہے کہ آپ کا بایاں کان بہت خوب صورت ہے۔ کیوں کہ جہاں وہ بیٹھے تھے وہاں سے انھیں ایک ہی کان نظر آتا تھا۔ اس سے ہم نے یہ سبق سیکھا کہ جھوٹ بولنے میں بھی "لاجِک"(logic) کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے)سائن بورڈ لگے ہیں "تجارتی مرکز اب کھل چکا ہے" اردو میں اور اسی کا ترجمہ انگریزی میں کہ " Commercial Centre now opened".پہلے دن عصر کے بعد ہم کو کھانسی اٹھ رہی تھی۔ ادھر چائے کا وقت بھی تھا۔ سوچا کہ پہلے چائے پی جائے پھر سگریٹ۔ سوچا کہ مدینے کے راستے میں نصف ریال کی طرح شاید یہاں بھی نصف ہی ریال میں چائے مل جائے۔ یہ بھی مرکز تو ہے، استقبال کا نہ سہی۔ چناں چہ اس مرکز کے اندر چائے کی دوکان ڈھونڈھی۔ ایک چائے خانہ تھا جس کا نام انگریزی میں ہی لکھا تھا "ہاؤس آف دونت" ۔ یہاں دو ریال کی چائے ملی۔ بہر حال چائے پی اور کچھ دور جا کر جہاں "تدغین" ممنوع نہیں تھی (یہ سائن بورڈ بھی جگہ جگہ تین زبانوں میں لگا ہے " نو اسموکنگ"۔ "سگریٹ پینا منع ہے" اور "ممنوع التدغین" ) وہاں جا کر اپنی طبیعت کا علاج کیا یعنی سگریٹ نوشِ جان کی۔ پھر مغرب کے لئے حرم میں اور عشاء تک وہاں ہی وقت گزارا۔ قضاءِ عمری پڑھی۔ اب یہاں اور کچھ اقرارِ جرم کر لیں۔ ہم پچھلے آٹھ دس سال سے تو نماز کے پابند ہیں اور روزانہ ہر نماز کے ساتھ روز کی قضا نمازیں پڑھتے رہے ہیں۔ سال میں پانچ چھہ مہینے ضرور اپنے فیلڈ کیمپوں میں نماز پڑھا کرتے تھے ( وہ بھی فجر اور عشاء شاذ ہی) مگر ہیڈ کوارٹر کے قیام میں اللہ اللہ خیر صلّیٰ۔ اس طرح ایک اندازے کے مطابق کم و بیش ١٨ سال کی نمازیں قضا ہوئی ہوں گی۔ ادھر حرمین میں ایک نماز کا ثواب ہزاروں نمازوں کے برابر ہے تو دونوں حرمین میں ہم دن میں کم از کم ہفتے بھر کی قضا نمازیں ضرور پڑھ رہے ہیں بطور قضاءِ عمری.. یعنی سات نمازیں فجر کی، پھر سات نمازیں ظہر کی وغیرہ وغیرہ۔ اب یہاں سے حاجی ہو کر جائیں گے تو اس امید سے کہ اللہ ہماری ساری قضائیں قبول کر لے گا اور باقی کچھ ہوں گی تو معاف کر دے گا۔ شائد ضرورت سے زیادہ ہی ادا ہو جائیں گی اس دوران انشاء اللہ۔ حرمین میں کم از کم لیٹ فیس کے ٹکٹ تو لگ جائیں گے۔

اب کے ہم بچھڑیں تو "ممنوع ا لتدغین" پر ملیں

بیت اللہ میں اگر چہ مرد اور عورتیں ایک ساتھ یا قریب قریب نماز پڑھ سکتے تھے۔ ہم کوشش کرتے تھے کہ صابرہ عورتوں کی صف میں سب سے پیچھے اور ہم مردوں کی صف میں آخر میں رہیں تاکہ نمازوں کے بعد آسانی سے مل سکیں۔ مگر مسجدِ نبوی باقاعدہ مسجد ہے۔ یہاں عورتوں کا انتظام نہ صرف بالکل علیٰحدہ ہے بلکہ دروازے بھی الگ ہیں۔ چناں چہ صابرہ سے ملاقات مشکل تھی ۔ ہم نے ایک کھمبا نشانی کے لئے مقرر کیا ہے جس پر " نو اسموکنگ" اور "ممنوع التدغین" کا بورڈ ہے۔ ہم نے صابرہ کو یہی نشانی بتا دی ہے کہ ہم یہاں ان کے منتظر رہا کریں گے۔ یا وہ پہلے آ جائیں تو وہ۔ مگر پہلی ہی رات کو عشاء کے بعد ہم نے تقریباً 15 منٹ تک ان کا انتظار کیا مگر نہ ملیں تو ہم کو شک ہوا کہ یہ شاید بہت پہلے ہی کسی وجہ سے نکل گئی ہوں یا شاید ان کو وہاں کھڑے رہ کر انتظار کرنا اچّھا نہیں لگا ہو۔ بہر حال ہم دھیرے دھیرے ہوٹل آ گئے مگر یہ ہوٹل میں ہم سے 5۔7منٹ بعد پہنچیں۔ معلوم ہوا کہ مسجدِ نبوی کے کولروں میں بھی زم زم کا ہی پانی آتا ہے ، ٹھنڈا اور وہ بھی زم زم کا، چناں چہ وہ اپنی واٹر باٹل لے کر بھرنے میں لگی تھیں اور وہاں بھیڑ تھی۔ انھیں کافی دیر میں پانی حاصل ہو سکا۔ بہر حال ہم نے اب ممنوع التدغین والی جگہ تبدیل کر دی ہے ، اور اب جو جگہ مقرّر کی ہے وہ عورتوں کے دروازے کے قریب ہی ہے۔ کل سے انشا ء اللہ وہاں ملاقات ہو سکے گی۔

حا جی مفت خو ر

"خدمت الحجاج شرفٌ لنا" یہ عربوں کا موقف ہے۔ کم از کم سرکاری طور پر یا کاغذی حد تک۔ ویسے اہلیانِ خیر کہاں نہیں ہوتے۔ جمعے کے بعد یہ ہم دونوں آ رہے تھے کہ اللہ کے ایک مقامی بندے نے ہم دونوں کو ایک بڑی روٹی اور ایک مہر بند کپ پیش کیا۔ کمرے آ کر دیکھا تو کپ میں بہت نفیس دہی تھی۔ ہم سامنے کے پاکستانی ہوٹل سے جا کر سبزی کی پلیٹ "پارسل" کروا لائے اور سیر ہو کر کھانا کھایا۔ کل صبح صابرہ کو فجر کے بعد ایک لمبا والا بن (بعد میں معلوم ہوا کہ اسے سلومی کہتے ہیں)اور اُبلے ہوئے انڈے کا پیکٹ اسی طرح ملا تھا۔ کل صبح ہم نے ناشتے میں وہی بن اور دہی کھایا۔ اپنی ہندوستانی شکر کے ساتھ جو ساتھ لائے تھے۔ خدا ان خدّام الحجاج کو جزائے خیر دے ۔ ضرورت نہ ہونے پر بھی تحفے کو ٹھکرانا نہیں چاہئے اور سنا ہے کہ منع کرنے پر لوگ ناراض ہوتے ہیں۔

تلاش مکتبۂ نبوی کی

کل سے ہم مسجدِ نبوی میں مکتبۂ نبوی تلاش کر رہے ہیں۔ ہمارے دفتر کے دوست بشیر محمد شاہ کو بیلجیم (Belgium)کے سعودی سفارت خانے سے قرآنِ کریم کا ایک انگریزی ترجمے والا بے حد خوب صورت چھپا نسخہ ملا تھا۔ ان سے ہی معلوم ہوا کہ اسے "شاہ فہد ایڈیشن" کہتے ہیں۔ مگر ہمارے بشیر میاں کا نسخہ ان کے غیر مسلم باس ، مطلب ڈائرکٹر نے زندگی بھر کے لئے قرض لے لیا اور وہ خالی ہاتھ رہ گئے۔ یہ ڈائرکٹر موصوف رِٹائر بھی ہو چکے۔ ہم کو بھی اس نسخے کا دیدار نصیب نہیں ہو سکا تھا۔ان کی فرمایش تھی کہ کسی بھی طرح، مانگ کر، خرید کر (یا چرا کر بھی) یہ نسخہ ان کے لئے لائیں، اور چاہے ان کے لئے کچھ نہ لائیں۔ پھر ہم نے حیدر آباد میں ہی اپنے سالے منظور کے پاس بھی کسی حاجی کے ہی دیئے گئے تحفے کے طور پر شاہ فہد اردو ایڈیشن بھی دیکھا تھا، یعنی معہ ترجمہ و تفسیر۔ یہ نسخے چھپے بھی مکتبہ نبوی کے ہیں۔ مدینے کے بازاروں میں ہم نے دیکھا تو شاہ فہد ایڈیشن تو بہت ہیں مگر معرّیٰ۔ اگر خدا نخواستہ اردو یا انگریزی ترجمے والا نسخہ نہیں ملا تو آخر میں یہی معرّیٰ خرید لیں گے مگر پہلے کم از کم مکتبے میں ترجمے والے نسخوں کی دستیابی کی کوشش تو کر لیں۔ اگر اردو اور انگریزی دونوں زبانوں کے مل جائیں تو کیا کہنے! 4۔3 کاپیاں لے لیں گے۔ گھر میں بھی رکھیں گے کم از کم ایک اردو اور ایک انگریزی۔

صابرہ کے مربّع بہنوئی، یعنی بہنوئی کے بہنوئی، بہنوئی اسکوئیر) اشفاق بھائی نے جو جدّے میں ہی سکونت رکھتے ہیں( اور مدینے کے لئے روانگی والے دن ہی ہم کو ڈھونڈھتے ہوئے آ کر مل گئے تھے) سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ مکتبہ نبوی مدینے میں ہی اور مسجدِ نبوی کے اندر ہی واقع ہے۔ اور ہر ہفتے عازمین حج کو کسی مقرّرہ دن قرآن کے نسخے تقسیم ہوتے ہیں۔ عام طور پر معرّیٰ مگر معلوم کریں اور کوشش کریں تو انگریزی یا اردو ترجمے والا بھی مل سکتا ہے، خریدنے پر نہیں ملیں گے۔ یہ تقسیم کے لئے ہی چھپوائے جاتے ہیں۔ بازار میں جو ملتے بھی ہیں ان پر بیچنے والے ہی فوراً  " وقف اِلی الحرم" کا ٹھپّا لگا دیتے ہیں۔ یعنی خرید کر گھر لے جانا سرکاری طور پر ممنوع ہے، خریدئے بھی تو حرم میں لے جا کر رکھ دیجئے۔

یہاں مدینے میں پہلے ہی دن عصر یا مغرب کی نماز جہاں ہم نے پڑھی تھی، وہاں ہی "مکتبۃالنبوی" کا سائن بورڈ لگا دیکھا تھا اور تیر کا بائیں طرف نشان تھا۔ اس وقت تو ہم نہ جا سکے۔ یوں بھی نمازوں کے بعد ریلے کے ساتھ بہنا پڑتا ہے اور ریلے کا رخ باہر کی جانب ہوتا ہے جب کہ مکتبہ اندر ہی تھا۔ مخالف سمت میں بڑھنا مشکل۔ اس دن کے بعد وہ جگہ ہی بھول گئے جہاں وہ بورڈ دیکھا تھا۔ کئی بار ادھر ادھر گھومے۔ حرم میں صفائی کرنے والے زیادہ تر برّ صغیر کے ہیں اور اردو سے واقف۔ ان سے معلومات کی تو ہر شخص نے الگ الگ خبر دی۔ کسی نے کہا کہ دروازہ نمبر (عربی میں باب رقم)37 ، کسی اور نے بتایا کہ 34، کسی نے 18 تو کسی اور اللہ کے بندے نے دروازہ نمبر 9 کہا۔ مگر ہر دروازے سے یہ سائل خالی ہاتھ ہی لوٹا کہ مکتبہ ہنوز دور است۔ ایک جگہ مکتبۂ صوفیہ دیکھا جو بند بھی تھا۔ اب انشاء اللہ یہ تلاش ہم آج پھر گزشتہ سے پیوستہ کریں گے۔

ا سرا ر میا ں ا لو ر ی/ کرا چو ی / مدنی

پرسوں رات سے ہی ایک صاحب جن کا نام اسرار ہے، اصرار کر رہے تھے کہ مدینے کی زیارتیں ان کے ساتھ دیکھیں۔ فی کس 10 ۔ 10 ریال۔ بس اسی سرائے سے روانہ ہوگی۔ اردو دانی کی وجہ سے ہم نے بھی ان کو ترجیح دی ورنہ معلوم ہوا تھا کہ 10 ۔ 10 ریال میں ہی ٹیکسیاں جاتی ہیں جو زیادہ آرام دہ ہوتی ہیں مگر یہ ٹیکسی والے تقریباً سبھی عرب ہیں، کچھ ہم کو بتا نہیں سکیں گے۔ چنانچہ کل صبح سات بجے نکلنے کا طے ہوا۔ انھوں نے دو دن میں اسی سرائے کے ہماری طرح ہندوستانی پاکستانی "سفیروں" سے رابطہ قائم کر کے، بہلا پھسلا کر بس بھر کے مسافر تو جمع کر لئے تھے مگر ان سب کے جمع ہونے تک، یعنی بس میں بیٹھنے تک 8  بج گئے تھے اور ہم 12 بجے تک واپس آ گئے۔ زیارتوں میں کیا کیا دیکھا، یہ تو ہم بعد میں بتائیں گے، فی الحال اس اسرار پر پردہ ہی رہنے دیں، پہلے ان اسرار میاں کا تعارف کرا دیں۔ راستے میں ان سے کافی گفتگو رہی۔ اور کل شام سے تو باقاعدہ سلام دُعا ہو گئی ہے۔ بلکہ آج صبح تو انھوں نے ہم کو اپنی نمائندگی کا شرف بخشا ہے ۔ یعنی کہا ہے کہ اور بھی دوسرے ساتھی جانا چاہیں تو ہم ان کا کمرہ نمبر وغیرہ نوٹ کر کے رکھیں اور ان کو بتا دیں۔

بہر حال ان سے معلوم ہوا کہ وطنِ مالوف ان صاحب کا راجستھان ملک ہند ہے۔ والد الور کے اور والدہ اجمیر کی تھیں (اجداد تو ہمارے بھی اجمیر کے قریب نصیر آباد کے تھے)، مگر آزادی اور ملک کی تقسیم کے بعد والدین ہجرت کر کے کراچی چلے آئے۔ 4۔5 سال کراچی میں رہ کر مدینہ چلے آئے اور اسرار میاں کی پیدائش مدینے کی ہی ہے۔ اردو اچھّی بول لیتے ہیں مگر تلفّظ پر راجستھان یا کراچی کی بجائے لاہور کا اثر زیادہ ہے کہ علّامہ اقبال کو خود علامہ کی طرح "اکبال" بولتے ہیں اور عربوں کی طرح  "غ" اور "ق" کو بھی "گ" کی طرح بولتے ہیں۔ جب سب سے پہلے ان کی بس مسجدِ غمامہ پہنچی تو انھوں نے مسجدِ گمامہ کا اعلان کیا۔ ہم کو پہلے شک ہوا کہ شائد یہ مسجد جمامہ ہو۔ عربوں میں "ج" اور "گ" میں بھی تلفّظ کا پھیر بدل ہوتا ہے۔ جمال ناصر کو گمال ناصر کہتے ہیں مگر بعد میں اسرار میاں نے خود خالص "غ" کی آواز بمشکل ادا کر کے ثابت کیا کہ یہ مسجدِ غمامہ ہے۔

مدینے کی زیارتیں

یہ مسجد یعنی مسجدِ غمامہ مسجدِ نبوی کے مغرب میں اور قریب ہی ہے۔ اسرار میاں نے بتایا کہ آں حضرتؐ یہاں عیدین کی نمازیں پڑھتے تھے۔اسی کو مسجدِ مصلّیٰ بھی کہتے ہیں۔ اس کے بارے میں دو روایتیں ہیں۔ ایک یہ کہ حضورؐ نے یہاں قحط کے دور میں نمازِ استسقا پڑھائی تھی اور اسی وقت بادل (غمامہ) چھا گئے اور بارش شروع ہو گئی۔ دوسری یہ کہ ایک بار دھوپ کی شدّت میں اسی جگہ آپؐ پر بادلوں نے سایہ کیا تھا۔

مسجدِ غمامہ کے پاس ہی تین اور مسجدیں خلفائے راشدین کے نام پر ہیں۔ مسجدِ ابو بکر صدّیق ؓ، مسجد عمر فاروقؓ اور مسجد علی ؓ۔ یہ محض اس وجہ سے کہ ان بزرگوں نے یہاں کچھ نمازیں ادا کی تھیں۔

اس کے بعد ہماری بس اسرار میاں مدنی (حال) کی رہنمائی میں شعبِ بلال میں داخل ہوئی۔ یہ پوری آبادی حضرت بلالؓ کے نام سے موسوم ہے اور یہاں ہی مسجد بلالؓ بھی ہے۔

پھر اسرار میاں ہم کو مسجدِ جمعہ لے گئے۔ اس مسجد میں آں حضرت ؐ کے دور اسلام میں پہلا جمعہ ادا کیا گیا تھا۔ یہ مسجدِ قُبا کے راستے میں ہے۔ اُس زمانے میں یہ بنو سالم کا علاقہ تھا۔ آپؐ وہاں گئے ہوئے تھے کہ سورۂ جمعہ نازل ہوئی اور آپؐ نے اسی مسجد میں پہلی نماز جمعے کی ادا کی۔ یہ مسجد زیادہ تر بند رہتی ہے۔ صرف جمعے کے دن کھلتی ہے ا ور کبھی کبھی عصر کے وقت۔ کبھی نماز ہوتی ہے اور کبھی نہیں۔ کیوں کہ یہ مسجدِ قبا سے محض دو ایک فرلانگ پر ہی واقع ہے، اس لئے لوگ یہاں کی بجائے قُبا میں ہی نماز پڑھنا بہتر سمجھتے ہیں ۔ حدیث میں ہے کہ مسجدِ قُبا میں دو رکعت نفِل کا ثواب بھی ایک عمرے کے برابر ہے۔

مسجدِ قُبا تک تو اسرار میاں بس روکے بغیر یہ کمنٹری دیتے رہے۔ قبا کے پاس ہی بس پہلی جگہ روکی ۔ ہماری بس کی طرح ہی اور کئی بسیں تھیں، سبھی پیلی شیورلے۔ ہم نے اس بس کا " رقم "(نمبر )بھی حافظے میں رقم کر لیا تھا، اب بھی یاد ہے 9000741۔ مگر اسرار میاں نے پہچان کے لئے اس کے بونٹ پر ایک بڑا جری کین رکھ دیا کہ لوگ اسے دیکھ کر جلد ہی صحیح بس میں واپس آ جائیں۔ ہم بھی اترے اور اور دو نفلوں کے علاوہ چار رکعتیں اور بھی پڑھ لیں یعنی دو رکعت فجر کی مزید قضا نمازوں کی نیت سے۔

یہ مسجد مسلمانوں کی پہلی مسجد کہلاتی ہے۔ ہجرت کے بعد آں حضرتؐ قبیلہ بنو عوف کے پاس ٹھہرے تھے اور اپنے ہاتھ سے ان کے ہی علاقے میں اس مسجد کی تعمیر شروع کی تھی۔ یہاں عبادت کے لئے سنیچر کا دن افضل ہے اور اتّفاق سے کل سنیچر کے دن ہی ہمیں اس مسجد میں عبادت کا موقع ملا۔ پوری مسجِد سفید ہے۔ بلکہ یہ مسجد ہی کیا، ساری مسجدیں ہی عموماً باہر سے سفید ہی ہیں۔ اندر سے بھی کافی خوبصورت ہے۔ خوبصورت پالش کئے ہوئے پتھّر کا فرش، دیواروں پر بھی خوش نما پتھّر۔ یہاں ہم کو منبر کے قریب ہی نماز ادا کرنے کا موقع نصیب ہوا اور بعد میں مسجد قبلتین اور مسجدِ فتح میں بھی۔

یہاں آنے کے لئے مسجدِ نبوی سے بسیں بھی چلتی ہیں۔ کوئی 5 کلو میٹر ہو گی یہ مسجد وہاں سے۔ ایک ایک ریال بس کا کرایہ لگتا ہے، بلکہ معلوم ہوا کہ کہیں بھی جانے کے لئے کرایہ کم سے کم اتنا ہی ہے۔ ہم نے کہیں بھی ایک ریال سے کم کی کوئی چیز دیکھی ہی نہیں ۔ بعد میں ٹیلی فون کرنے کے لئے بمشکل سکّے حاصل کئے تو پہلی بار سکّے دیکھنے کو ملے۔ بہر حال 12۔10 مسجدوں کا دیکھنے کا پلان ہو تو ہمارے اسرار میاں کی 10 ریال کی بس معہ اسرار میاں بطور گائڈ بزبانِ خود کی رہنمائی ہی بہتر ثابت ہو سکتی ہے۔

مسجد قبا سے نکلنے کے بعد تھوڑے ہی فاصلے پر اسرار میاں نے کھجوروں کا ایک باغ دکھایا کہ یہ باغ حضرت سلمان فارسیؓ کا ہے۔ یہاں ہی حضورؐ نے عجوہ قسم کی کھجور کے دو پودے لگائے تھے اور اس کی نسل سے یہ کھجور کئی جگہ پھیل گئی۔ یہ کھجور سب سے مہنگی بھی ہے اور کہتے ہیں کہ ہر مرض کے لئے شفا کا اثربھی رکھتی ہے۔ دوکانوں میں ابھی تک پوچھا تو نہیں مگر لوگ بتاتے ہیں کہ سو ریال یعنی ایک ہزار روپئے کلو ہے۔

پھر بس کو لمحہ بھر کے لئے ٹھہراتے ہوئے ایک کنواں بھی دکھایا گیا ۔ یہاں اسرار میاں کے قول کے مطابق (کہ ہم نے کسی کتاب میں پڑھا تو نہیں) آں حضرتؐ کو غسلِ میت دیا گیا تھا اور غسلِ میت کے بعد یہ کنواں ہی خشک ہو گیا۔

اسی طرح گزرتے ہوئے ایک اور مسجدِ دُہاب بھی دکھائی۔ غزوۂ خندق کے موقع پر آپؐ کا خیمہ یہاں نصب تھا اور آپ نے مشرکینِ قریش سے مورچہ لیا تھا۔

اس کے بعد ہم شہدائے احد کی طرف آئے۔ پہاڑ یعنی جبلِ احد کے دامن میں ایک گول دیوار بنائی گئی ہے اور اس احاطے میں ہی شہدائے احد کے مدفن ہیں بشمول حضرت امیر حمزہؓ کے۔ ان شہداء کو سلام کر کے ہم نے یہاں چائے بھی پی۔ یہاں ایک نبی بوٹی نام کی چیز ملتی ہے۔ حرمِ کعبہ میں بھی ہم نے یہ شے دیکھی تھی ان دوکانوں پر جہاں مسواکیں وغیرہ ملتی ہیں مگر در اصل یہ بوٹی احد پہاڑ کے جنگلوں میں ہی ملتی ہے۔ اس بوٹی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ " جو صاحبِ "انصاف" سے "اولاد" طلب ہو" ، اس کی مراد بر آتی ہے۔

اب مسجدِ قبلتین کی طرف روانہ ہوئے۔ اس کے راستے میں بئرعثمانؓ یعنی حضرت عثمانؓ کا کنواں بھی اسرار میاں نے دکھایا۔ یہ کنواں پہلے ایک یہودی کا تھا جو اس کا پانی فروخت کرتا تھا۔حضرت عثمانؓ کو پتہ چلا تو انھوں نے یہ کنواں ہی خرید لیا اور مفت پانی کی تقسیم کا انتظام فرمایا تھا۔

مسجد قبلتین کے بارے میں ہمارے مقرّب قارئین جانتے ہوں گے کہ آپ ؐ اسی مسجد میں تھے کہ بیت المقدس کی جگہ کعبے کو قبلہ مقرر کرنے کی آیت نازل ہوئی تھی۔ ابتدا میں مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے۔ آپؐ کو معراج بھی وہاں سے ہی ہوئی تھی۔ ہجرت کے بھی 2۔3 ماہ تک وہی قبلہ رہا۔ مگر مدینے میں وہ مہاجرین جو قریش تھے ، ان کا دلی لگاؤ کعبۃ اللہ سے تھا۔ خود آں حضرتؐ کی بھی دلی تمنّا یہی تھی کہ اسی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں۔ یہ علاقہ بنو سلمہ کا تھا اور ایک دن آپؐ یہاں مہمان تھے اور ظہر کا وقت ہو گیا۔ بنو سلمہ کی اسی مسجد میں آپؐ ظہر کی نماز پڑھانے کی غرض سے بیت المقدس کی طرف ہی رخ کر کے کھڑے ہوئے ، یعنی شمال کی جانب۔ دو رکعتیں اسی طرح ادا ہوئی تھیں کہ البقرہ کی 144 ویں آیت نازل ہوئی.." لو ہم تمھارا رخ اسی قبلے کی طرف پھیرے دیتے ہیں جسے تم پسند کرتے ہو" اور آپؐ فوراً یہ حکم بجا لائے۔ اس طرح ظاہر ہے کہ باقی دو رکعتوں کے کئے آپؐ کو صفوں کے پیچھے آنا پڑا ہوگا اور آخری صف پہلی صف بن گئی ہوگی اور سبھی مقتدیوں کو نہ صرف جنوب کی طرف(جس سمت مکّہ ہے مدینے سے) گھومنا پڑا ہوگا بلکہ کافی حرکت بھی کرنی پڑی ہوگی۔ مسجد میں پرانے قبلے کی بھی نشان دہی کی گئی ہے اور وہاں دیوار پر وہی آیت بھی کندہ ہے۔ یہاں نفل نماز پڑھ کر ہم پھر آگے بڑھے۔

آخری پڑاؤ غزوۂ خندق کے علاقے کی طرف تھا۔ اسے سبع مساجد بھی کہتے ہیں کہ یہاں سات مسجدیں ہیں۔ یہاں کی نمایاں ترین مسجد مسجدِ فتح ہے جو سب سے اونچائی پر ہے۔ اسی کو مسجدِ احزاب بھی کہتے ہیں۔ غزوۂ خندق کے موقع پر آپؐ نے یہاں اللہ سے دعا فرمائی تھی اور اللہ نے آپ کو فتح کی خوش خبری دی تھی۔ اس مسجد کے جنوب کی جانب باقی چھ مساجد ہیں مسجد سلمان فارسیؓ، مسجد ابو بکرؓ، مسجد عمر ؓ، مسجد علیؓ، مسجد فاطمہ زہرہؓ اور مسجد ابو سعید خدریؓ۔ ابتدا مسجد فاطمہ سے کی جاتی ہے اور دائیں طرف دوسری مساجد میں نفلیں ادا کرتے ہوئی آخر میں مسجدِ فتح میں آتے ہیں۔ مسجدِ عمرؓ البتہ تھوڑی الگ ہے۔ وہاں واپسی میں نماز پڑھی۔ ساری مسجدوں میں جو نفلیں ہم نے پڑھیں وہ در اصل تحیّۃ المسجد تھیں۔

بس کے سارے ساتھی ہندوستانی پاکستانی تھے اور ہمارے یہاں کی عورتیں بہت slow ہوتی ہیں۔ یہ آپ تو جانتے ہی ہوں گے۔ جہاں اسرار میاں پندرہ منٹ دیتے تھے وہاں عورتیں آدھا گھنٹہ ضرور لگا دیتی تھیں بس تک پہنچنے میں اور خندق کے علاقے میں تو گھنٹہ بھر لگ گیا۔

واپسی ہوئی تو ظہر کا وقت قریب تھا چناں چہ بس نے حرم اور ہمارے "سفارت خانے" (مراد "مرکز سفیر") کے درمیان اتار دیا کہ جو لوگ زیادہ خریداری کر کے آئے ہیں اور پہلے سامان کمروں پر لے جا کر رکھنا چاہیں تو رکھ دیں اور جو نماز کے لئے سیدھے حرم جانا چاہیں، وہ وہاں چلے جائیں۔ حالاں کہ ہم نے بھی مسجد قبا کے پاس ایک کلو کھجوریں خریدی تھیں، مگر اور کچھ سامان نہ تھا۔ اس لئے ہم حرم ہی آ گئے۔

ظہر کے بعد نشان زدہ جگہ پر صابرہ سے ملاقات ہو گئی۔ اور ہم اپنی سرائے کی طرف آئے۔ راستے میں ایک پاکستانی "سمیر ہوٹل" میں کھانا کھایا اور کمرے پر آئے تو صابرہ حسبِ معمول خوابِ خرگوش کے مزے لینے لگیں اور ہم موقع غنیمت جان کر والدہ اور بچّوں کو بالترتیب علی گڑھ اور حیدر آباد خطوط لکھنے بیٹھ گئے۔ تین بجے ہم پھر اٹھے اور عصر کے لئے حرم روانہ ہو گئے۔ صابرہ کا ارادہ عشاء تک وہاں ہی رہنے کا تھا۔

صفّہ یا کچھ اور...!!

6 اپریل۔ دو پہر ڈھائی بجے۔

 

عصر کی نماز پڑھ کر حالاں کہ پھر کھانسی اٹھنی شروع ہو گئی تھی مگر سوچا کہ پہلے مکتبے کی تلاش کی جائے۔ تلاش کرتے کرتے روضۂ اقدس کی طرف گزر ہوا تو وہاں پھر قطار میں لگ گئے۔ کل کی قطار سے اس بار کچھ لمبا دائرہ تھا۔ اس میں ایک جگہ 8۔10 فٹ مربّع کا ایک چبوترہ سا بنا تھا جس کے چاروں طرف قدِّ آدم بڑے ستون تھے، سنگِ مرمر کے۔ خیال ہوا کہ یہ وہ چبوترہ تو نہیں جہاں اصحابِ صفّہ بیٹھا کرتے تھے؟ واپس آ کر ساتھ لائی ہوئی کتابیں دیکھیں تو اصحابِ صفّہ کے چبوترے کا سائز 40 فٹ مربّع  لکھا تھا۔ ہم کو تو یہ لگا کہ جو چبوترہ ہم نے دیکھا اس کی چاروں ساقیں 8۔8 فٹ کی ہوں گی۔ مگر اس کتاب کے 40 فٹ مربّع سے ہم یہ سمجھے ہیں کہ سبھی ساقیں 40 فٹ کی اور آپس میں برابر ہوں گی اور مصنّف کو 40 مربّع فٹ اور 40 فٹ مربّع کا فرق معلوم نہ ہوگا۔ آپ کو بھی اتنا حساب تو آتا ہوگا کہ 5 فٹ ضرب 8 فٹ کا علاقہ بھی 40 مربّع فٹ ہوتا ہے۔ واللہ معلوم ہم نے یہ کون سا چبوترہ دیکھا تھا۔

البتّہ اس بار ہم کو مزارِ اقدس کی سنہری جالی والی دیوار نظر آ گئی جہاں آں حضرتؐ کے ساتھ ان کے دونوں گہرے دوست حضرات ابو بکرؓ اور عمرؓ بھی آرام فرما ہیں۔ اس بار حضور اقدسؐ کے علاوہ ان بزرگوں کی خدمت میں بھی سلام گزارنے کا موقع ملا۔ کچھ دیر رقّت کے ساتھ دعا بھی مانگی۔ جب پولس نے زیادہ دھکّا دیا تو باہر آ گئے۔

باہر آ کر پھر مکتبے کی تلاش شروع کی، مگر مایوسی ہی ہاتھ آئی۔ البتّہ اس بہانے جنّت البقیع کی زیارت ضرور ہو گئی کسی کی رہنمائی کے بغیر۔ ایک احاطے میں تین حصوں میں لا تعداد قبریں ہیں بے نام و نشاں۔ ان سینکڑوں مدفنوں میں کون کون سو رہا ہے، خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ لوگوں کے کہنے کی بات اور ہے۔ نہ جانے کتنے اکابر صحابہ اور صحابیات یہاں ہوں گی۔ ان سب کو ایک "جنرل" (General) سا سلام ہی عرض کرنا پڑا۔ ویسے ضروری نہیں کہ ان مرحومین میں سارے ہی ایمان والے صحابہ ہوں، کچھ مشرکین بھی ضرور ہوں گے۔ بہر حال آں حضرتؐ وہاں اکثر جاتے تھے۔ اس طرح ہم نے یہ سنّت پوری کی۔آپؐ کے زمانے کے مدفون حضرات تو زیادہ تر مشرکین ہی ہوں گے۔ عبرت ضرور حاصل کی ہم نے۔ یہاں عورتوں کا داخلہ ممنوع ہے اسلامی قانون کے مطابق۔وہ محض باہر کی جالی سے دیدار کر سکتی ہیں۔

اس کے باہر بازار میں آئے۔ چائے اور پھر سگریٹ پی کر اپنا "علاج" کیا۔ جہاں سگریٹ پی رہے تھے وہاں ہی ایک "توب" کی دوکان تھی۔ لمبے چُغّے نما کرتے جو یہاں عرب مرد پہنتے ہیں۔ دوکان دار 15۔15 ریال کی آواز لگا رہا تھا کہ یہ آدھی آستین کے تھے، اگرچہ کشیدے والے تھے۔ سارے سفید اور کریم رنگ کے۔ خریداری تو ہم نے کچھ نہیں کی، گھنٹہ بھر وقت گزاری ضرور کی بلکہ "کھڑکی خریداری" (Window Shopping) یا اور صحیح لفظ استعمال کریں تو "فٹ پاتھ شاپنگ" کہ وہاں ہی بازار زیادہ گرم ہوتا ہے۔ 3۔3، 4۔4 ریال کی ہوائی چپّلیں مل رہی تھیں۔ 10۔10 ریال کی سنتھیٹک ہلکی ہلکی چپّلیں، مردانہ بھی اور زنانہ بھی۔ پھر ضروریات سے فراغت کے بعد مغرب اور عشاء مسجد نبوی میں ادا کیں اور ہر دو نمازوں کے درمیان قضائیں پڑھیں۔

تین پاکستانی

کل مغرب کے بعد ہماری ملاقات تیسرے پاکستانی سے ہوئی کہ اس سے پہلے دو اور پاکستانیوں سے ہو چکی ہے۔ اب ذکر نکلا ہے تو بالترتیب تینوں کا ذکر کرتے چلیں۔

پہلا پاکستانی ہم کو مکّے کے قیام کی پہلی ہی صبح ملا۔ ہم طواف اور قضا کے بعد چائے پی کر غسل خانوں کی چھت پر (جو باقاعدہ بالکنی ہے اور ضرورت پڑنے پر یہاں بھی صفیں بن جاتی ہیں۔) سگریٹ پی رہے تھے کہ ایک صاحب نے ہماری سگریٹ کو بیڑی سمجھ کر ہم سے بیڑی مانگی۔ شاید آپ کو بتایا نہیں کہ ہم پاؤچ کی سگریٹ پیتے ہیں کہ یہی سگریٹ ہماری کھانسی دمے کی دوا کا کام کرتی ہے۔ پیکٹ کی ریڈی میڈ سگریٹ سوائے مزید پیسے خرچ کروانے کے اور کچھ کام نہیں کرتی۔ بہرحال ان بیڑی کے خواست گار کو تشریح کرنی پڑی کہ یہ بیڑی نہیں ہے ۔ تمباکو الگ آتا ہے، کاغذ الگ۔ کاغذ میں تمباکو لپیٹ کر سگریٹ بنانی پڑتی ہے صراحی آئے گی، خُم آئے گا، تب جام آئے گا۔ اور یہ سگریٹ بنانا ہم جیسے دیدہ وروں کا ہی کام ہے۔ بہر حال ہمارے پاؤچ میں ایک سگریٹ کا ہی تمباکو اور تھا۔ ہم یوں کرتے ہیں کہ ایک "ماسٹر پاؤچ" رکھتے ہیں۔ اس میں سے دو ایک دن کی ضرورت کا تمباکو نکال کر دوسرے پاؤچ میں استعمال کے لئے رکھ لیتے ہیں اور ماسٹر پاؤچ کو ٹیپ لگا کر سیل کر کے رکھ لیتے ہیں۔ ہمارے پاس تو مہینے بھر سے زیادہ ہی پاؤچ چل جاتا ہے کہ کھانسی کا اوسط دن میں تین چار بار کا ہے اور اتنی ہی سگریٹیں پی جاتی ہیں۔ پورا پاؤچ ساتھ رکھنے پر ، بلکہ کھلا رکھنے پر 8۔10 دن میں ہی تمباکو سوکھنے لگتا ہے۔ اس سے سگریٹ بنانے میں مشکل ہوتی ہے، وہ الگ ، اور پینے میں الگ کہ تمباکو جھڑنے لگتا ہے۔ کسی کو سگریٹ "آفر" (Offer)بھی کرنی ہو تو کاغذ میں تمباکو بھر کر اچھّی طرح "رول" کر کے دیتے ہیں کہ بھیا ! تھوک اپنا استعمال کر لو۔ ہم اپنا لعابِ دہن ادھار نہیں دیتے کسی کو۔ بہر حال ذکر تھا ان پاکستانی صاحب کا اور بات کرنے لگے ہمارے پاؤچ کی، بلکہ اب تک تو ہم یہ بھی آپ کو نہیں بتا پائے تھے کہ یہ صاحب پاکستانی تھے۔ ویسے ماشاء اللہ آپ عقل مند ہیں، انٹلکچوئل بھی ہوں گے (ورنہ ہماری یہ کتاب ہی کیوں پڑھ رہے ہوتے) سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ جب ہم نے پاکستانیوں سے ملاقات کا پیش لفظ باندھا ہے تو یہی پہلے پاکستانی ہوں گے۔ بہر حال ان کو ہم نے سگریٹ بنا کر پیش کی اور گفتگو شروع کی۔ پتہ چلا کہ نام عبد الغفور ۔ وطن فیصل آباد۔ پیشہ مزدوری۔ کبھی قلی گیری کرتے ہیں کبھی عمارتی مزدوری۔ کسی طرح پیسے پس انداز کر کے مکّے آنے کا ایک طرفہ کرایہ جمع کر لیا اور پہنچ گئے۔ ایک جھولے میں ضروریات کا سامان رکھتے ہیں۔ رات ہوئی یا جب بھی نیند آئی، حرم میں ہی جہاں جگہ ملی، سو رہے۔ کھانا پینا اہلیانِ خیر کے ذمّے۔ ہم سے بھی 5 ریال مانگ لئے۔ بیڑی سگریٹ علیٰحدہ۔ ہم نے رقم تو دے دی مگر شک ہوا کہ واللہ اعلم، ان کی باتیں کہاں تک سچ تھیں۔

اس کے دو تین دن بعد ہی تقریباً اسی مقام پر دوسرے پاکستانی ملے۔ یہاں ہم دونوں یعنی ہم اور ہماری "بیغم" چائے پی رہے تھے۔ یہ بزرگ عبدالحمید صاحب تھے۔ موضع چوریاں، ضلع قصور، معلوم ہوا کہ در اصل مہاجر ہیں۔ اصل وطن غازی آباد ہے۔ ہم نے اپنا مسکن علی گڑھ بتایا تو بڑے خوش ہوئے کہ ان کا سسرال بھی علی گڑھ کے قریب ہی اور اسی ضلعے کا اترولی نا م کا قصبہ ہے۔

تیسرے پاکستانی جو ابھی حال ہی میں مدینے میں ملے ہیں مگر ہم ان کا نام بھول گئے ہیں۔ بھر حال ان صاحب کو اپنی مملکتِ خدا داد  پر بڑا ناز تھا۔ نوجوان ہی تھے۔ بتایا کہ اصلاً کاٹھیاواڑ کے ہیں۔ حال مقیم کراچی۔ فرمانے لگے کہ آپ کی تو ہندو حکومت ہے۔ حج میں بڑی مشکل ہوتی ہوگی۔ پاسپورٹ وغیرہ بمشکل ملتا ہوگا۔ سفر بھی بہت مہنگا پڑتا ہوگا۔ "ہمارا تو الحمدُ للہ 75 ہزار میں حج ہو جا رہا ہے۔"

انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں حج کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ غیر ملکی زرِ مبادلہ میں ہی رقم ادا کریں اور سعودی ریال حاصل کریں، بشرطیکہ یہ زرِ مبادلہ آپ کے کوئی غیر ملکی رشتے دار  ادا کریں، خود آپ نہیں، یعنی وہ آپ کو "اسپانسر" (Sponsor)کریں۔ دوسرے یہ کہ حکومتِ پاکستان کو آپ پاکستانی روپئے ہی دیں۔ ان صاحب نے پہلا طریقہ اپنایا تھا۔ کسی رشتے دار نے 1900 ڈالر کا ڈرافٹ بھجوایا تھا جس سے ان کو 6800 ریال مل گئے تھے، یہ صرف یہاں کے اخراجات کے لئے۔ ساڑھے پندرہ ہزار روپئے (پاکستانی) جہاز کا دو طرفہ کرایہ علیٰحدہ ہے۔ان 6800 ریال کا حساب بھی انھوں نے بتایا کہ ایک ہزار ریال معلّم کو دئے ہیں، 500 ریال اس کی فیس اور 500 ریال جدّہ، مکّہ، مدینہ، عرفات اور منیٰ وغیرہ کی آمدورفت کے لئے۔ 1200 ریال ماہانہ ہوٹل کے کمرے کا کرایہ ہے، فی کس یعنی 5 لوگ مل کر 6 ہزار ریال کرایہ دے رہے ہیں مدینے میں رہائش کے لئے ان کو فی کس 350 ریال کا حساب پڑا ہے دس دن کا۔ ہم نے ہماری "غیر مسلم" (سیکولر حکومت کو بھی بہر حال غیر مسلم تو کہا ہی جا سکتا ہے) کی حج کمیٹی کی تفصیل بتائی کہ ہمارا جہاز کا کرایہ دو طرفہ (رعائتی) 6 ہزار روپئے ہے، وہ بھی بنگلور سے (کراچی سے تو اور 3/2 ہی ہونا چاہئے فاصلے کے لحاظ سے)۔ ہمارے جمع شدہ 58 ہزار کی رقم سے جہاز کے کرائے، معّلم، آمد و رفت اور مکّے مدینے میں رہائش کے انتظامات کے اخراجات میں کل 2287 ریال لگے ہیں، باقی رقم، فی کس 2316 ریال ہم کو واپس دے دی گئی ہے ہمارے کھانے پینے اور دوسرے اخراجات کے لئے۔ اس رقم کا ڈرافٹ ہم کو بنگلور میں ہی دے دیا گیا تھا جو ہم نے جدّہ ایرپورٹ پر بھنا لیا ہے۔ ہاں، اس سے پہلے پانچ ہزار روپئے اور بھی رہائش کے لئے ایڈوانس کے طور پر ادا کئے تھے(جو 58 ہزار میں شامل ہیں) اسے بھی شامل کر لیں تو یہ کل خرچ 2800 ریال کا ہی ہے۔ جو رقم ہم کو دی گئی ہے وہ ہمارے اختیار میں ہے کہ چاہے بھوکے رہ کر یا عبدالغفور فیصل آبادی کے طریقے پر عمل کر کے ساری رقم بچا کر لے جائیں ، چاہے دو دن میں اڑا ڈالیں۔ خوب سی شاپنگ کر کے رشتے داروں کو خوش کر دیں یا سب کو ناراض کر کے خود ہی خوش ہوتے رہیں۔ بہر حال ایسے موقعوں پر ہم کو اپنے وطن پر ناز ہی ہوتا ہے۔ ایر انڈیا کمپنی ہی سہی، مگر ہے تو نیم سرکاری۔ جہاز کے کرائے کا ہی مقابلہ کر لیجئے۔ رہائش کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، ممکن ہے کہ ان کی رہایش گاہ بہت نفیس (Posh) ہو۔ یہ صاحب بقول کسے "بزنیس مین آدمی" تھے، خرچ میں ہاتھ خلاصہ تھا۔ حالاں کہ کاٹھیاواڑی تھے مگر بالکل بنئے نہ تھے۔

پاکستانی ہوٹل

یہ بات دوسری ہے کہ ہم نے ابھی ہندوستان پاکستان کی جنگ کرا دی ہے، مطلب مقابلہ۔ اور اس میں ہندوستان کو فتح دلا دی ہے مگر کھانے کے لئے ہم پاکستانی ہوٹل ہی ڈھونڈھتے ہیں۔ پرسوں رات کو ، یعنی مدینے کی پہلی رات کو مرکزِ سفیر کے پاس ہی کے مطعمِ الطیب (اس پر بھی اردو میں پاکستانی ہوٹل کا ہی بورڈ لگا ہے) سے مکسڈ  ویجیٹیبل کری کی پلیٹ "پارسل" کروا کے لے گئے تھے۔ کل دوپہر کو پاکستانی ہوٹل سمیر میں کدّو (مراد گول کدّو۔ ویسے ہمارے حیدرآباد میں لوکی کو بھی کدّو کہتے ہیں)کا سالن اور روٹیاں کھائی تھیں۔ رات کو صابرہ سے ملاقات نہیں ہو سکی ورنہ راستے میں کہیں کھاتے ہوئے آتے، اس لئے الطیب سے وہی مکسڈ ویجی ٹیبل کری پیک کروا کر لے گئے تھے، روٹیوں کے ساتھ۔ اب ایک بات اور یاد آ گئی ہے تو لکھ ہی دیں۔

مکّے کے قیام میں تو ہم خوب مرغیاں کھا رہے تھے، زیادہ تر سینڈوچ یا برگر قسم کی چیزیں۔ مگر اشفاق بھائی نے ہم کو مکّے سے رخصت کرتے ہوئے بتایا کہ مقامی ذبیحہ تو صحیح ہوتا ہے مگر دوسرے غیر ممالک سے جو گوشت برآمد کیا جاتا ہے، وہ بھروسے کے قابِل نہیں ہے۔ اور یہ کچھ سستا بھی ہوتا ہے اس لئے چھوٹے موٹے ہوٹلوں میں، بطور خاص جو چھوٹے چھوٹے کاؤنٹر لگا کر ہوٹلیں سجا لیتے ہیں جہاں برگر اور سینڈوچ قسم کی اشیاء ملتی ہیں، ممکن ہے کہ یہ سستا گوشت استعمال کیا جاتا ہو۔ اگرچہ حکومت مطمئن ہے مگر اشفاق بھائی وغیرہ کو شک ہے۔ اس لئے وہ پرہیز کرتے ہیں۔ ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ جہاں ساری دنیا کے مسلمانوں کی نظریں لگی ہوں، وہاں یہ غیر شرعی حرکت ممکن تو نہیں مگر ہماری صابرہ بیغم کا کہنا ہے کہ اگر ہم لوگ بھی احتیاط کریں تو کیا حرج ہے! مدینے سے روانگی والی شام کو یہ گفتگو ہوئی تھی اس لئے مدینے میں ہم سبزی خور ہو گئے ہیں۔

ان پاکستانی ہوٹلوں میں یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اگر آپ ہوٹل میں ہی کھانا کھائیں تو روٹیاں مفت میں ملتی ہیں، مگر کچھ حد ضرور ہے ان کی تعداد کی۔ پیک کروا کر "پارسل" لے جائیں تو روٹیاں خریدنی پڑتی ہیں۔ مکّے مدینے میں تو گوشت مرغی سب جگہ ٦۔٦ ریال کی پلیٹ ہے، شوربے والے سالن کی۔ گرلڈ اور روسٹ ٨ ریال کا ہے۔ سبزی چار ریال اور دال ٣ ریال کی۔

پاکستانی ہوٹلوں کے بارے میں ایک بات اور لکھ دیں۔ ان میں سے کچھ ہوٹل ہندوستانیوں کے بھی ہیں۔ مگر کیوں کہ جیسے ہندوستانی ہوٹلوں میں اگر ہوٹل کا نام "بسم اللہ" یا "غریب نواز" یا پہلا نام کچھ بھی ہو، اگر اس کے آگے مسلم ہوٹل لکھا ہو تو ہمارے مومن بھائی بلا جھجھک جا کر گوشت کھا لیتے ہیں کہ ضرور حلال ہوگا۔ غیر ممالک میں ہندوستانی ہوٹل سے مراد صرف "کری" ہے اور گوشت مرغی کے سالنوں کے لئے پاکستانی ہوٹل ہی مشہور ہیں چناں چہ یہاں کے ہندوستانی بھی ہوٹل کھولتے ہیں تو "پاکستانی ہوٹل" کا بورڈ لگا دیتے ہیں۔ ایک جگہ ہم نے "ہندوستانی پاکستانی ہوٹل "بھی لکھا دیکھا۔ مکّے اور مدینے میں بنگلہ دیشی ہوٹل بھی ہیں جن پر بنگالی میں بورڈ لگاتے ہیں جو ہم پڑھ سکتے ہیں اور بول سکتے ہیں۔ مگر وہ کلچر تو البتّہ الگ ہی ہے۔ وہاں تو "ماچھ بھات" ہی ملے گا۔

کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر ساڑھے دس بجے رات تک ہم یہ ڈائری یا سفر نامہ لکھتے رہے۔ نیند آنے لگی تو سوا گیارہ بجے سو گئے۔ صابرہ نے بھی بچّوں کے نام خطوط لکھ دئے ہیں اور ہم نے لفافے بند کر کے پوسٹ کرنے کے لئے رکھ لئے ہیں۔

اب ہم وقت پر ہیں

اتوار کا دن ہے اور اس وقت ہم مسجدِ نبوی کے صحن میں عمارت کی جنوبی دیوار سے لگ کر بیٹھے یہ سطریں لکھ رہے ہیں۔ وقت ہو رہا ہے 20۔6 بجے شام۔ صبح سے ہی اب تک کی تفصیل باقی ہے کہ ہم آج دن بھر اسی نیک کام میں مصروف رہے ہیں۔ صبح ناشتے کے بعد سے ظہر تک (کچھ وقفے کے علاوہ) ہم نے "...کہ خاک شدہ" سے "مدینے کی زیارتیں" ، پھر ظہر اور دوپہر کھانے کے بعد ڈھائی بجے سے عصر کے لئے نکلنے(ساڑھے تین بجے) تک اسے ہندوستان پاکستان کے مقابلے تک آگے بڑھایا ہے عصر کے بعد پونے چھہ بجے سے (درمیان میں کچھ وقت گھومنے پھرنے میں برباد کرنے کے علاوہ) اسی نشست میں پاکستانی ہوٹلوں کا احوال لکھا ہے۔ اب کیوں کہ نمازِ مغرب کا وقت قریب ہے ۔ اس لئے صف باندھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ باقی انشاء اللہ رات کو لکھیں گے۔ یہی کیا کم ہے کہ اب ہم وقت پر ہیں۔

کھانسی اور بازار

(وہی دن۔ ١١ بجے رات)

 

یوں تو اتوار کا دن ہمارے لئے خاصی اہمیت رکھتا ہے کہ اس دن چھٹّی ہوتی ہے۔ ہندوستان میں اور دوسرے ممالک میں (مسلم ممالک کو چھوڑ کر، جہاں یہ فضیلت جمعے کو حاصل ہے) بہت سی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ ہمارے لئے تو اکثر سنیچر اور اتوار ( کہ ہمارے دفتر میں دونوں دن چھٹیاّں ہوتی ہیں) کو اتنے کام جمع ہو جاتے ہیں کہ ان کو چھٹّیاں کہنے میں شرم آتی ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ دفتر نہیں جاتے۔ مگر سنیچر کو بازار کے مختلف کام ہوتے ہیں اور اتوار کو گھر کے کہ اس دن بازار بند ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آفس جانے والے دنوں میں ہماری کھانسی کے اوقات مقرّر ہیں مگر چھٹی ّکے دن کا کوئی بھروسہ نہیں۔ وہاں بھی چھٹی ّکے دن طبیعت زیادہ ہی خراب رہتی ہے، یہی حال مدینے میں بھی ہمارا آج رہا ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ دخل اس میں مدینے کے ٹھنڈے موسم کا بھی رہا ہو، صبح سے مستقل ہماری ناک بہہ رہی ہے اور مستقل کھانسی بھی اٹھ رہی ہے۔ سگریٹ پینے سے بھی ایک ڈیڑھ گھنٹے کا آرام ملتا ہے یعنی کھانسی کم ہو جاتی ہے یا ہم بالکل نارمل ہو جاتے ہیں، اور پھر شروع ہو جاتی ہے۔ آپ کہیں گے کہ "کھانسی اور بازار" کا عنوان چہ معنی دارد؟ یہ تو آپ کو شروع میں ہی بتا چکے ہیں کہ "تدغین" (یعنی اسموکنگ، اگر آپ بھول رہے ہوں تو...) سے دوسروں کی نوبت بھلے ہی "تدفین" تک پہنچ جاتی ہوگی مگر ہماری طرفہ طبیعت میں افاقہ ہی ہوتا ہے۔ مسجدِ نبوی میں "ممنوع التدغین" کے نشان سے دور جا کر بھی سگریٹ پیتے ہیں تو لوگ اشارے سے منع کرتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ کہاں تک اس کی حد بندی ہے۔ آج معلوم ہوا کہ مسجدِ نبوی کے مغرب میں ہی ایک بازار ہے۔ یہ دریافت سگریٹ پینے کے لئے جگہ کی تلاش کے دوران ہوئی۔ وہاں گھوم پھر کر سگریٹ پینے کے چکّر میں ہم کو اس علاقے کی شاپنگ کا اچّھا آئڈیا (Idea) ہو گیا ہے کہ انجان لوگوں کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔ اس بازار کا ذکر بعد میں کریں گے، پہلے آج کی مصروفیت کا ذکر اور کر دیں۔ دعویٰ تو کر رہے تھے کہ ہم اب پابندِ وقت ہو گئے ہیں یا ہونے جا رہے ہیں کہ آج کا حال آج ہی لکھنے کی "نوبت آ گئی ہے" مگر محض کھانسی اور سیر بازار کا ذکر کر کے آپ کو شب بخیر کہنے جا رہے ہیں۔ نیند آنے کے آثار ہیں۔ اس لئے بس اتنا اور لکھ دیں کہ الحمدُ لِلّہ آج صبح سوا تین بجے آنکھ کھل گئی تھی اور ہم دونوں میاں بیوی جب تہجّد کے لئے مسجد روانہ ہوئے تو اذان بھی نہیں ہوئی تھی (حرمین میں تہجد کی اذان ضرور پابندی سے ہوتی ہے مگر با جماعت نماز نہیں) راستے میں اذان ہوئی۔ہم نے تہجّد اور پھر کچھ قضا نمازیں پڑھیں۔ 40۔5 پر فجر کی اذان ہوئی اور اس کے فوراً 5۔6 منٹ بعد ہی نماز۔ ساڑھے پانچ بجے ہی ہم گھر، یا ہمارے سفارت خانے واپس آ گئے (آپ کو یاد ہے نا کہ یہاں ہمارا قیام "مرکزِ سفیر" میں ہے) ۔ صابرہ وہاں ہی رک گئیں۔ دراصل روضۂ مبارک میں داخلے کے لئے مردوں اور عورتوں کے اوقات مقرّر ہیں۔ بلکہ کہنا چاہئے کہ صرف عورتوں کے اوقات مقرر ہیں کہ وہ صبح 7 بجے سے 9 بجے اور پھر دوپہر دو بجے سے تین بجے تک زیارت کر سکتی ہیں، باقی سارے اوقات مردوں کے لئے ہی مخصوص ہیں۔ چناں چہ ہم نے واپس آ کر تنہا ہی ناشتہ کیا۔ بریڈ وغیرہ کی نوعیت کی جو چیزیں رکھی تھیں، وہ کھائیں اور چائے کے لئے باہر نکلے۔ پچھلی رات کو دو خطوط پوسٹ کرنے کے لئے تیار رکھے تھے، وہ بھی ساتھ لئے۔ سامنے کے مطعم الطیب میں چائے پی اور وہاں ہی ہوٹل والے پاکستانی صاحب سے پوچھا کہ بھائی لیٹر باکس کہاں ہے، کس طرف ہے اور کدھر ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ بھی صنم کی کمر کی طرح ہی ہے۔ گلی کوچوں میں لیٹر باکس یہاں نہیں ہیں۔ وہی مکتبِ برید (پوسٹ آفس) جانا پڑے گا جو مسجد نبوی کے قریب ہی ہے۔ یہاں لگتا ہے کہ لوگ خطوط لکھتے ہی نہیں، محض فون کر دیتے ہیں۔

 

پیر، 7/ اپریل، صبح 10۔6 بجے

 

ادھوری بات کو اب مکمل کریں۔ جب مکتب البرید کی ضرورت ہوئی تو ہم نے قیاس کیا کہ وہیں ہوگا جہاں سے ہم نے پچھلے دن سادہ لفافے لئے تھے، پھر بھی ان پاکستانی ہوٹل والے سے پوچھا کہ اور کوئی مکتب البرید؟ (آخر ہم عربی بولنے لگے ہیں، جو ہماری شد بد والی دسویں زبان ہے اللہ کے فضل سے)۔ چائے تو ہم نے پی لی تھی کہ کھانسی کا علاج بھی کرنا تھا (چائے کے بعد سگریٹ اور زود اثر ہوتی ہے) جو بازار میں گھومتے پھرتے اور جلدی اچھّی ہوتی ہے۔ مگر سوچا کہ پہلے ضروری کام سے فارغ ہو لیا جائے یعنی خطوط پوسٹ کر دئے جائیں اور اسی تلاش میں بازار گھومتے رہے اور اس کام سے فارغ ہو کر بھی سگریٹ پیتے ہوئے گشت جاری رہا۔ اور حیران رہ گئے کہ ان دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھیں اور جب خریدیں تو کیا کیا خریدیں؟ بقیع کا بھی ایک چکر لگایا اور مکتبے کی تلاش بھی جاری رہی۔ ایک صاحب نے پتہ دیا کہ "باب العثمان" کے پاس دروازہ نمبر 18 یا 19 ہے، وہاں معلوم کریں۔ مسجد نبوی کے چاروں طرف گھوم کر باب عثمان دیکھتے رہے مگر نہیں ملا۔ ممکن ہے کہ یہ تعمیر جدید سے قبل کا ہو جو اب موجودہ باہری دروازوں کے اندر چلا گیا ہے۔ بہر حال مکتبہ نبوی کی تلاش بے سود رہی۔ 10 بجے کے قریب واپس آ گئے اور پھر یہی ڈائری لکھتے رہے بازار کے بارے میں اتنا ضرور لکھ دیں کہ اس بات پر تعجّب اور خوشی دونوں ہوئیں کہ صبح صبح ہی یہاں بازار لگ جاتا ہے اور فجر سے ہی دوکانیں کھل جاتی ہیں اور فٹ پاتھ کا بازار بھی۔ ممکن ہے کہ یہ محض حج کے دوران ہوتا ہو۔ پھر 11 بجے کے بعد پھر حرم گئے یعنی مسجدِ نبوی۔

مکتبہ نبوی د و ر نیست

ظہر کے لئے اگرچہ دیر ہو گئی تھی پھر بھی اندر مسجد میں نہ صرف جگہ مل گئی بلکہ جہاں جگہ ملی، وہاں ہی سامنے مکتبۂ نبوی کا سائن بورڈ نظر آیا۔ خوشی ہوئی کہ دلّی دور ہو تو ہو ، اور یہاں سے تو ہے بھی، مکتبۂ نبوی دور نہیں۔ سائن بورڈ پر بائیں طرف کے تیر کے نشان کی طرف نظریں دوڑائیں تو دیکھا کہ تھوڑی دور پر ہی شجرِ ممنوعہ بھی ہے۔ یہ عورتوں کے حصّے کی دیوار تھی جسے انگریزی میں پارٹیشن (Partition) کہتے ہیں۔ اس دیوار کے ساتھ ہی ایک دروازہ نظر آیا جس پر باب عثمان بن عفّان بھی لکھا تھا۔ ثابت ہو گیا کہ یہ اندرونی دروازہ ہی ہے۔ باہر تو وہی 34 دروازے ہیں۔ رقم 1 تا 34، مگر یہ دیکھ چکے تھے کہ کہ ان محراب دار بڑے دروازوں پر جو نمبر پڑے ہیں وہی نمبر دو بڑے دروازوں کے درمیان کے 4۔3 چھوٹے دروازوں کے بھی ہیں۔ بہر حال ظہر کے بعد صابرہ سے ملنا تھا اور ساتھ کھانے کے لئے جانا تھا اس لئے مکتبے کا ارادہ موقوف کر دیا اور نماز کے بعد سیدھے باہر آ گئے۔

مقرّرہ جگہ پر محترمہ مل گئیں اور ہم آگے بڑھے۔ روزانہ سڑک کے داہنی طرف چلتے ہیں کہ یہاں ٹریفک کا اصول دائیں طرف کا ہی ہے، مگر سڑک کی اس سمت کی ہوٹلوں کا "سروے" کر چکے تھے چناں چہ آج سڑک پار کر کے دوسری طرف آ گئے۔ دو ہوٹلوں میں داخل بھی ہوئے جہاں پاکستانی ہوٹل کا بورڈ لگا تھا، مگر دونوں میں جگہ نہ تھی۔ اور ایک جگہ دیکھا تو اردو میں "پاکستانی بنگلہ دیشی ہوٹل " اور بنگلہ میں "بنگلہ دیشی پاکستانی ہوٹل " لکھا تھا۔ اس میں جگہ مل گئی۔ یہ در اصل بنگلہ دیشی ہوٹل ہی تھی۔ ہر طرف بنگلہ بولی جارہی تھی۔ آخر ہم لسان الملک واقع ہوئے ہیں، شروع ہو گئے بنگالی میں۔ اردو ہندی اور انگریزی تو ہماری مادری زبانیں ہیں تقریباً۔ بنگلہ کا نمبر چوتھا ہے ہماری مہارت کے لحاظ سے۔ اس کے بعد کچھ کچھ سمجھ میں آنے والی زبانوں میں پنجابی، گجراتی تیلگو اور کنّڑ ہندوستانی زبانیں ہیں، فارسی ہماری آبائی زبان ہے اور پھر عربی۔ دس زبانیں تو یہ ہو گئیں۔ لیجئے، ہم فرانسیسی تو بھولے جا رہے ہیں۔ یہ تو ہم نے بی۔ ایس سی۔ میں با قاعدہ ایک سال کے کورس میں پڑھی تھی۔ پھر بھی اہلیت کے حساب سے بنگالی کے بعد فارسی کا ہی نمبر آتا ہے۔ باقی سب زبانوں کا علم تقریباً ایک ہی سطح کا ہے، یعنی سطحی۔

جے بنگلہ دیش

بنگلہ دیشی ہوٹل سے بات ہماری ہمہ دانی یا ہمہ زبانی کی چھڑ گئی اور ہم رعب بگھارنے لگے۔ بہرحال ہم سیکھے ہوئے تھے ہمارے کلکتّہ کی بنگلہ اور یہ لوگ تھے بنگلہ دیشی۔ ان کا لہجہ اور لفظیات ہماری سمجھ میں پوری طرح نہیں آ رہے تھے۔ در اصل ہماری بنگالی یعنی ہندوستانی یا مغربی بنگال کی بنگالی ہی فصیح سمجھی جاتی ہے۔ بنگلہ دیش میں پانی کو پانی ہی کہتے ہیں "جول" نہیں۔ بہر حال ہم نے حسبِ معمول "شوبجی" (سبزی) منگوائی۔ یہ سبزی آلو بینگن کی تھی اور مقدار میں بہت کم تھی۔ عموماً ایک پلیٹ میں ہم دونوں آرام سے کھا لیتے ہیں۔ مگر یہاں "ڈال" (دال) بھی منگوانا پڑی۔ چنے کی دال تھی اور روٹیاں تو ساتھ میں مفت تھیں ہی۔ ہوٹل دیکھ کر خیال آیا کہ یہاں کبھی کبھی مچھلی بھی کھائی جا سکتی ہے، بکری اور مرغ سے تو ہم احتیاط برت رہے ہیں۔

کھانا کھا کر کمرے واپس آ گئے۔ بلکہ صابرہ کو تو ہم نے سفارت خانے کے باہر ہی چھوڑا اور خود کھانسی کے علاج کے لئے باہر ہی رہ گئے۔ اس کے بعد کمرے آ کر ڈیڑھ بجے سے... مگر ہم یہ دوبارہ کیوں لکھیں۔ سرسری طور پر "اب ہم وقت پر ہیں" دیکھ لیجئے۔ تھوڑی دیر یہ سفر نامہ لکھ کر عصر کے لئے حرم چلے گئے اور نماز کے بعد مکتبہ نبوی گئے۔

مکتبے میں نیچے دار المطالعہ تھا مگر صرف عربی کی کتابیں تھیں۔ وہاں ہی لائبریرین نما صاحب سے پوچھا کہ آیا وہ اردو انگریزی سمجھتے ہیں، انھوں نے ایک دوسرے صاحب کی طرف اشارہ کیا۔ ان سے ہم نے ما فی الضمیر بیان کیا کہ ہم کو قرآن معہ ترجمہ اور تفسیر چاہئے دو تین اردو اور انگریزی نسخے۔ انھوں نے اردو میں جواب دیا کہ ترجمے والے نسخے تو شاید ختم ہو چکے ہیں اور بغیر ترجمے کے ہی قرآن تقسیم ہوتے ہیں جس کے اوقات مقرّر ہیں 10 تا 12۔ اور جو ہوں بھی تو میں وہاں ہی پڑھنا پسند کروں گا یا ساتھ لے جانا؟ ہم نے سوچا کہ پہلے انگلی تو پکڑی جائے۔ اس لئے کہہ دیا کہ ساتھ لے جانا پسند کروں گا ۔انھوں نے ایک اور عرب صاحب کو بلوایا اور عربی میں کچھ ہدایت دی۔ یہ صاحب ہاتھ پکڑ کر تیسری منزل پر لے گئے۔ جہاں کچھ مطبوعات مفت تقسیم کے لئے رکھی تھیں۔ اور یہ صاحب واپس چلے گئے۔ مگر وہاں قرآن کے نسخے تو کچھ نہیں تھے، کچھ کتابچے تھے حج کے طریقوں پر۔ اردو اور انگریزی کا ایک ایک لے لیا پھر جو صاحب وہاں تھے ان سے گفتگو کی تو ترسیل و ابلاغ کا مسئلہ ہو گیا ۔ بہرحال وہاں تبرّکات کے طور پر قرآن کے کئی نسخے رکھے تھے بطور نمائش۔ مصحف عثمانی کے، خطِ کوفی کے، اور خطّاطی کے خوبصورت نمونے بھی۔

پھر نیچے واپس آئے تو وہ اردو داں صاحب بھی غائب! دوسری منزل پر البتّہ کچھ کمپیوٹر رکھے دیکھے تھے۔ خیال آیا کہ وہاں لوگ انگریزی سمجھتے ہوں گے۔ معلوم ہوا کہ یہ کمپیوٹر بھی عربی سمجھنے والے تھے۔ عربی "وِنڈوز"95 (Windows"95) ڈیسک ٹاپ پر نظر آ رہی تھی۔  ایک صاحب انگریزی داں نکلے۔ انھوں نے کہا کہ اگلے دن ان کے "شیخ" سے ملوں جو 8 سے 2 بجے کے درمیان ہی ملتے ہیں۔

پھر مغرب تک یہ روزنامچہ لکھا اور مغرب اور عشاء کے درمیان کھانسی کے علاج کے لئے بازار گئے۔

ہر ما ل 2۔2 ریال

اس بازار میں کئی دوکانیں ہیں جن میں ہر مال  2۔2 ریال کا ملتا ہے۔ یہ دوکانیں ہم کو پسند آئیں۔ پوچھئے کیوں؟ ارے صاحب، اتنے عربی داں تو ہم نہیں ہو گئے کہ دوکان دار بولے کہ پندرہ ریال اور ہم 8 ریال سے شروع کر کے 12 ریال میں سودا چکائیں۔ سودے یہاں ایسے ہی ہندوستان کی طرح ہی ہوتے ہیں مول چُکا کر۔ عربی کی طویل گفتگو میں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آیا دوکان دار ہماری مجوّزہ قیمت پر راضی ہے یا نہیں اور اسے بھی یہ کہ ہم کو اس کی یہ قیمت قبول ہے یا نہیں۔ ایک اسکارف کی دوکان پر عورت عشرہ ریال کی آواز لگا رہی تھی ، یعنی 10 ریال۔ صابرہ نے 5 ریال کہا پھر 6 ریال۔ اس نے کچھ گفتگو کی اور پھر خود ہی شاید دو اسکارف باندھ کر دینے لگی۔ ہم 20 ریال دے کر سوچ رہے تھے کہ 8 ریال ہم کو واپس ملیں گے، مگر وہ 5 ریال اور مانگ رہی تھی، یعنی کل 25 ریال۔ آخر صابرہ اسکارف واپس رکھنے لگیں تو پتہ چلا کہ یہ تین اسکارف تھے جس کے وہ 25 ریال مانگ رہی تھی۔ ہم نے لاکھ کہا کہ ہم کو تین نہیں چاہئیں دو ہی رہنے دو اور بہن 5 نہیں تو 4 ریال ہی واپس کر دو۔ مگر اس اللہ کی بندی نے دو اسکارف واپس رکھ لئے اور ایک ہی ہمیں زبردستی پکڑا دیا اور پھر 10 ریال واپس کر دئے۔ مجبوراً لینا پڑا۔ یہ تو پھر عشرہ ریال کی آواز لگانے والی تھی، دوسری دوکانوں پر تو ممکن ہے کہ 20 ریال بولیں اور 6 ریال میں آپ کو وہ شے مل جائے۔ اس وجہ سے ہم سودا چکانے والی بات سے ڈرنے لگے ہیں اور اس لحاظ سے ایسی دوکانیں بہتر ہیں جہاں مال کی ایک ہی قیمت ہے۔ اسی سبب ہم کو یہ  2۔2  ریال والی دوکانیں پسند آئیں۔ کچھ 5۔5 اور کچھ 10۔10 ریال کے سامان کی بھی ہیں۔ سب اشیاء سامنے سجی ہیں۔ دوکان میں گھومئے پھرئیے، کچھ لینا ہو تو اٹھا لیجئے، نہیں تو ایسے ہی واپس نکل آیئے۔ لیا ہو تو باہر کے دروازے کے پاس دوکاندار کھڑا ہوگا، اسے اشیاء گنوا دیجئے اور رقم ادا کر دیجئے 2 کا پہاڑہ پڑھ کر۔مرحبا، اہلاً و سہلاً۔ ان دوکانوں پر گھڑیاں تک تھیں،  2۔2  ریال والی دوکانوں پر معمولی ڈیجیٹل (Digital) تو 10۔15 ریال والی دوکانوں میں کوارٹز گھڑیاں بھی۔ سبھی چینی۔

عشاء پڑھ کر صابرہ کا انتظار کیا مقرّرہ جگہ پر۔ مظہر بھائی کی بیوی اور ایک اور صاحبہ ان کے ساتھ ہی آئی تھیں مگر بچھڑ گئی تھیں، صابرہ ان کو تلاش کرتی ہوئی آئیں۔ پھر ہم دونوں ان عورتوں کو ادھر ادھر دیکھتے رہے۔ دراصل ان خواتین کے بارے میں شک تھا کہ کہیں بھٹک نہ جائیں۔ مظہر بھائی، ستّار اور جبّار صاحبان، سبھی نے اپنی اپنی بیویوں کو صابرہ کی نگرانی میں دے رکھا ہے کہ اس طرح امّید ہے کہ یہ عورتیں ہر لحاظ سے محفوظ رہیں گی۔ 20۔9 تک ان کی تلاش کر کے آخر مایوس لوٹے اور اس پریشانی کی وجہ سے کھانے کے لئے راستے میں رکے بھی نہیں، سیدھے سرائے آئے اور ان کے کمرے میں گئے تو ساری بیویاں اور ان کے شوہران آرام سے کھانا کھانے میں مشغول تھے۔ معلم ہوا کہ نماز کے فوراً بعد ہی مظہر بھائی خود ان کو مل گئے اور ان کے ساتھ ہی یہ لوگ واپس آ گئی تھیں۔ جب یہ فکر دور ہوئی تو پیٹ کی فکر ہوئی۔ صابرہ کہنے لگیں کہ کچھ پیٹ میں درد محسوس ہو رہا ہے اس لئے پھر باہر کھانا کھانے نہیں گئے۔ سامنے ہی مطعم الطیب سے صابرہ کے لئے ایک ریال کی دہی کا پیکنگ اور اپنے لئے وہی "مکسڈ ویجیٹیبل کری" یعنی آلو، مٹر، گاجراور فرنچ بینس کا شوربہ معہ روٹیوں کے۔ ساڑھے دس بجے تک کھانے سے فارغ ہو کر کچھ لوگوں سے باتیں کیں، کچھ دیر یہ ڈائری لکھی اور 12 بجے کے قریب سوئے ہیں تو آج پیر کو صبح ساڑھے پانچ بجے کے بعد ہی آنکھ کھلی ہے۔ فجر کی جماعت تو نہیں مل سکی ہے مگر نماز کے لئے مسجدِ نبوی ہی گئے تھے اور پھر نماز پڑھ کر آئے ہیں تو پچھلے سوا گھنٹے سے آپ سے ہی یہ گفتگو ہو رہی ہے۔ بلکہ اپنے آپ سے بھی۔صابرہ اب تک مسجد سے نہیں لوٹی ہیں، 3 بجے تہجّد کے لئے گئی تھیں۔ ساڑھے سات بج رہے ہیں، اب ناشتہ کریں گے اور پھر مسجدِ نبوی جائیں گے۔ دیکھئے اب ہم وقت پر آ گئے ہیں۔ خدا ہم کو وقت کی ایسی ہی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

کچھ مسجدِ نبوی کے با رے میں

7/ اپریل۔ 10۔10 بجے رات

 

ہم یوں بھی ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ کبھی پاکستانیوں سے آپ کو ملواتے ہیں، کبھی مکتبہ نبوی کے شیخ سے۔ کبھی حرمِ مکّہ کی سیر کراتے ہیں تو کبھی مدینے کے بازاروں کی۔ اور اکثر اس چکّر میں بھی ہمارا روزنامچہ رہ جاتا ہے اور ہم وقت پر نہیں رہ پاتے۔ اب آج صبح ساڑھے سات بجے سے اب تک کے حالات لکھنے سے پہلے کچھ مسجدِ نبوی کی تفصیل لکھ دیں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔

جنوب کی طرف سے ہم جس راستے سے داخل ہوتے ہیں ، وہی خاص دروازہ ہے۔ یہاں درمیان میں دو بڑے دروازے ہیں اور ان کے درمیان چار عدد چھوٹے دروازے بھی۔ دائیں طرف اور بائیں طرف بھی بڑے چھوٹے دروازے ہیں مگر یہ دروازے عورتوں کے لئے مخصوص ہیں۔ یہ مخصوص حصّہ باہری صحن میں سنہری جالی دار دیوار یا اسکرین سے علیٰحدہ کر دیا گیا ہے۔ مگر مسجد کے اندر عورتوں کے حصّے میں سفید پلائی ووڈ کا پارٹیشن ہے جس کا ہم ذکر کر چکے ہیں۔ سامنے کے حصے میں نیلے سفید گنبد ہیں۔ سارے میناروں پر بھی سفید اور خاکستری (گرے) رنگ سے کندہ کاری کی گئی ہے۔ہماری ارضیات کے حساب سے یہ سفید پتھّر سنگِ مر مر ہے اور گرے پتھّر گرینائٹ۔ عورتوں کے حصّے کو باہر سے پار کر کے مغرب کی طرف آئیے تو اسی طرح کئی دروازے ہیں۔ قبلہ شمال کی جانب ہے کہ مدینہ مکّہ کے جنوب میں واقع ہے۔ اس لئے اس طرف بڑے دروازے نہیں ہیں۔ مگر اس کے ہی مغربی گوشے میں روضۂ مبارک ہے جو کہ کچھ سامنے کی طرف نکلا ہوا ہے تاکہ کسی کا سجدہ اس جانب نہ ہو کہ شرک کا دروازہ کھل جائے۔ اس نکلے ہوئے حصّے میں تین دروازے ہیں۔ بابِ جبرئیل، بابِ بقیع (کہ یہ دروازہ جنتّ البقیع کی طرف ہے) اور ایک اور دروازہ جس کا نام ہم ابھی بھول رہے ہیں۔ مغرب کی طرف بھی چھوٹے دروازے ہیں۔ کل ملا کر یہاں 41 عدد۔ ان پر باب رقم 1 سے باب رقم 41 تک نمبر دئے گئے ہیں۔

اندر بھی روضے کے حصّے کو چھوڑ کر وہی رنگ ہیں۔ گرے اور سفید اور سنہری مینا کاری ستونوں پر۔ سطحِ زمین سے 12۔15 فٹ کی اونچائی تک سفید سنگ مرمر ۔ سنہری جالی کے ہی لیمپ شیڈس ہیں۔ ستونوں کے اوپری حصّے میں چھت کے قریب اور کہیں کہیں نیچے بھی۔ روشنیوں پر "اللہ" لکھے ہوئے شیشے کا خول ہے۔ بیچ بیچ میں دائرے کی شکل کے فانوس ہیں، یعنی کئی فانوس دائرے کی شکل کی لڑی کے روپ میں۔ باہری حصّہ مسجدِنبوی کی تازہ ترین شاہ فہد کی تعمیر ی توسیع ہے۔ اس کے بعد پچھلی توسیع کی حد پر پھر اندرونی دروازے ہیں جیسے بابِ عثمان وغیرہ۔ بابِ عثمان کے قریب ہی کچھ حصّے کو خالی چھوڑ دیا گیا ہے، یعنی یہاں چھت نہیں ہے اور دن میں دھوپ ہونے پر یہاں ایک چھتری تان دی جاتی ہے۔ یہ بڑا خوب صورت سفید اور نیلے کسی سنتھیٹک مادّے کا چھاتا ہے جسے ضرورت پڑنے پر کھولا جا سکتا ہے اور رات کو بند کر دیا جاتا ہے۔ ہم تو اسے چھت ہی سمجھے تھے، بعد میں آج شام کو ہی مظہر بھائی نے بتایا ۔ اب کل پھر غور سے دیکھیں گے انشاء اللہ۔

راستوں کو چھوڑ کر سارے فرش پر سرخ قالین بچھے ہیں۔ دونوں کناروں پر وہی بیت اللہ کی طرح "سُقیا زم زم" کے بڑے بڑے تھرمِک جگ رکھے ہیں اور بیچ بیچ میں سنہری کام والے شیلفوں (Shelves) میں قرآن مجید۔ اب قرآن مجید کا ذکر آیا ہے تو ذرا موضوع بدلیں۔

مکتبے کی تلاش بے سود رہی

آج صبح 10 بجے ہم مکتبے کی طرف پھر گئے، جن صاحب نے ہم سے کہا تھا کہ 10 بجے سے 12 بجے تک قرآن تقسیم ہوتے ہیں اور جو واحد شخص انگریزی سمجھتے تھے، وہ آج نہیں ملے۔ معلوم ہوا کہ ان کی عصر کے وقت ڈیوٹی ہوتی ہے۔ بہر حال مدیر صاحب (شیخ) سے ملے تو وہ صرف عربی داں ہی نکلے۔ انھوں نے کسی ہندوستانی یا پاکستانی ملازم کو بلا کر ہمارا مقصد دریافت کیا، جو ہم نے پھر بیان کیا۔ یہ تو شاید ہم لکھ ہی چکے ہیں کہ شاہ فہد ایڈیشن جو ہے وہ شاہ فہد نے چھپوایا ہے مفت تقسیم کے لئے ہی کہ ہر نسخے پر انگریزی میں بھی Not for Saleلکھا ہے۔ محض وقف المساجد۔ اگر ہم کو یا کسی کو کسی مسجد میں رکھنے کے لئے چاہئے تو شاید مل سکتا تھا۔ حرمِ مکہ میں بھی تقسیم ہوتے تھے، پتہ چلا کہ رمضان تک ہوئے تھے، پھر بند کر دئے گئے اور اب شاید حج کے بعد پھر شروع ہوگی ان کی تقسیم۔ کہنا یہ چاہ رہے تھے کہ یہ بازار میں اپنی ضرورت کے لئے بھی دستیاب نہیں ہیں۔ ہمارے دوست بشیر کو بیلجئم کے سفارت خانے سے وہ نسخہ ملا تھا جو اب ان کے پاس نہیں رہا تھا۔ بہرحال ان مدیر صاحب نے کچھ دوسری کتابیں دے کر بہلا دیا۔ یہ انگریزی کے کتابچے تھے، عربی کتابوں کے ترجمے۔ ان کی فہرست بھی دینا موقعے سے خارج تو نہیں ہے اس لئے آپ کو بتا ہی دیں۔ "الکروس المھمۃالعامۃالاُمّہ"تالیف عبدالعزیز عبداللہ بن باز، اس کا انگریزی میں نام دیا گیا ہے "The Important Lessons for Muslim Ummah " دوسری کتاب ہے "والقرآن والحدیث" تالیف ڈاکٹر موریس بوکالے۔ انگریزی میں اس کا نام ہے "The Quran and Modern Science" ۔ تیسری کتاب ہے "رسالہ موجزۃ عن الاسلام" تالیف محمود مراد جسے انگریزی میں "Islam in Brief" لکھا گیا ہے۔ ایک اور کتاب ہے "دلیل الحاجّ والمعمر" جس کا انگریزی ترجمہ بہت مختلف ہے یعنی "A Guide to Hajj, Umrah and Visiting the Prophet"s Mosque "اس ہندوستانی کارکن سے لاکھ کہا کہ بھیا ایک آدھ کاپی قرآن کی بھی ڈھونڈھ کر نکال دو اردو یا انگریزی ترجمے والی مگر اس اللہ کے بندے نے ڈھونڈھ کر نہ دی کہ 18 نمبر گیٹ پر پوچھو۔ ہم پھر 18 نمبر کے دروازے والے دفتر پر گئے مگر وہاں کے شیخ صاحب بھی انگریزی داں نہ تھے۔ ایک اور کارکن ہندوستانی یا پاکستانی تھے، انھوں نے بتایا کہ ترجمے والے تو پچھلے سال ہی ختم ہو چکے تھے ، صرف معرّہ بچے ہیں جو رمضان تک تقسیم ہوئے تھے اور اب حج کے بعد پھر ہوں گے۔ پچھلے سالوں میں ایرپورٹ پر بھی تحفتاً تقسیم کئے گئے تھے، اگر اس سال بھی ہو سکا تو تقسیم کئے جائیں گے۔ اب ہم کو یہ امّید رکھنے میں خطرہ ہی محسوس ہوتا ہے کہ اگر تب نہ ملے تو پھر کہاں سے حاصل کر سکیں گے؟ پریس کا پتہ اور فون نمبر بھی نہ مل سکا جہاں کچھ معلومات کی جا سکے۔ ایک صاحب نے بتایا کہ 10 ریال میں ٹیکسی والا پریس میں چھوڑ دے گا، مگر ہم سوچتے ہیں کہ پہلے یہ تو معلوم ہو جائے کہ ہیں بھی یا نہیں، ورنہ 20 ریال (200 روپئے)خواہ مخواہ خرچ ہو جائیں گے۔ اگر اردو یا انگریزی تفسیر والا قرآن ملنے کی گارنٹی ہو تو ہم 20 کیا 40 ریال بھی خرچ کرنے کے لئے راضی ہیں۔ بہر حال اس سیکشن والوں نے بھی ہم پر یہ کرم کیا کہ ایک اور کتاب "دلیل الحاجّ والمعمر"کا اردو ترجمہ بعنوان "رہنمائے حج و عمرہ و زیارتِ نبوی" ہم کو عنایت کی۔ گر قبول افتد زہے عزّ و شرف۔ اور یقیناً ہم کو ہر شے قبول ہے کہ مدینے کا تبرّک ہے۔

مسجدِ نبوی کی باقی باتیں

ستونوں کی بات تو ہم نے لکھ دی ۔ ہر ستون پر زمین کے قریب جالی دار گول چبوترہ ہے، اس میں در اصل ایر کنڈیشنر کے سوراخ ہیں۔ سارے صحن میں سفید سنگِ مرمر ہے اور درمیان میں بھورے اور سیاہ سنگِ مرمر کے ہی ڈیزائن والے پتھّر ہیں۔ مگر باہری صحن میں گرینائٹ ہے۔ باہری دیواریں بھی گلابی گرینائٹ کی ہیں، کچھ اونچائی تک پالش کئے ہوئے اور اس کے اوپر بغیر پالش کے۔ دروازوں پر بھی سنہری کام کیا ہوا ہے۔

یہاں بھی غسل خانے اور بیت الخلا بیت اللہ کی طرح ہی ہیں، مگر کیوں کہ یہاں جگہ کم تھی اس لئے اس لئے یہ چار منزل تک انڈر گراؤنڈ ہیں(معلوم نہیں تہہ خانے کی منزلوں کو کیا کہنا چاہئے)۔ اکہری منزل پر اترنے کے لئے سیڑھیاں ہیں اور دو دو منزلوں پر اترنے لے لئے اسکیلیٹر (Escalators) ہیں جنھیں عربی میں "سفل کہہ ربائی" لکھا گیا ہے۔ اندر ہی وضو کے علاوہ ہر فلور پر چالیس چالیس ٹائلیٹس ہیں مگر یہ بیت اللہ سے سائز میں کچھ چھوٹے ہیں۔ یہاں بھی شاور ہے اور بیت اللہ کی طرح بیت الخلاؤں میں ٹونٹی والے پائپ ہیں۔ نل کھولئے اور پائپ کو جس طرح چاہے استعمال کیجئے۔

سامنے والے جنوبی دروازے (عام) کے باہر ایک طرف وہی مرکز طیبہ مرکز التجارہ ہے جس کا ہم ذکر کر چکے ہیں۔ دوسری طرف ہوٹل ہے "الاندلس رویال" یعنی انگریزی میں رایل اندلس ہوٹل ( رایل یا Royal کا عربی بلکہ فرانسیسی تلفّظ ہے "رویال")، اس علاقے میں سبھی 3 یا 4 ستارہ ہوٹلیں ہیں۔ کچھ زیر تعمیر ہیں۔جنوب مشرق کی طرف "مدینہ اوبروئ" یعنی مدینہ اوبیرائے ہے ۔ جو زیر تعمیر ہیں وہ ہیں مدینہ ہلٹن اور طیبہ شیرٹن، جسے عربی میں بالترتیب مدینہ ہلتون اور طیبہ شیراتون لکھا گیا ہے۔ مدینہ اوبیرائے کے پاس ہی گرین پیلیس ہوٹل ہے۔ اور بھی کئی ہوٹلیں ہیں جن کو عربی میں "خندق" لکھتے اور بولتے ہیں۔ اکثر کے نام "قصر"سے ہیں مشرق اور جنوب مشرق کی جانب بہت سے "اسواق" یعنی بازار ہیں، جن کے نام میں لفظ سوق ضرور شامل ہے۔ یہاں دوکانیں ہی دوکانیں جن کا احوال ہم لکھ چکے ہیں۔

آج ہم سست ہیں

ہماری کھانسی وغیرہ سے قطعِ نظر ہم کو دو تکلیفیں اور بھی ہیں آج کل۔ ایک تو مستقل چپلّیں پہنے رہنے کے باعث دائیں ایڑی میں قاشیں بن گئی ہیں پھٹ کر۔ دوسرے اسی پیر میں چھوٹی انگلی کے نیچے ایک گٹّہ بن گیا ہے اس لئے چلنے میں تکلیف ہوتی ہے۔ پھر ادھر ویسے بھی تھکن اور کم خوابی چل رہی ہے اور بدن میں درد ہے۔ چناں چہ آج صبح ہماری آنکھ 40۔5 پر کھلی۔ فجر کی جماعت کا وقت کب کا نکل چکا تھا پھر بھی فضیلت تو مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنے کی ہے۔ اس لئے ضروریات سے فارغ ہو کر بھاگے مسجد کی جانب اور آخر 6 بجے نماز ادا کر کے واپس آ گئے۔ اور پھر یہ روزنامچہ لکھتے رہے اور صابرہ کا انتظار کر تے رہے۔ ساڑھے سات بجے تک یہ نہیں آئیں تو ہم نے اکیلے ہی ناشتہ کیا اور باہر جا کر چائے پی کر آئے۔ کھانسی تو اٹھ ہی رہی تھی اس لئے باہر ہی سگریٹ بھی پی۔ تب صابرہ آئیں تو ان کو پھر ناشتہ کرایا۔ کچھ دیر لوگوں سے باتیں کیں۔اس میں ساڑھے نو بج گئے۔ ہم اب پھر باہر گئے۔ پہلے مکتبہ نبوی کی تلاش کی اور پھر مسجدِ نبوی گئے۔ کچھ دیر قضائیں پڑھیں اور پھر روضے کی طرف گئے۔ آج آں حضرتؐ کی خدمت میں سلام کرنے کا اچھّا موقع ملا۔ آج جالیاں اور اور ان کے سوراخوں میں سے جھانک بھی سکے۔ ساڑھے گیارہ بج گئے تو پھر سگریٹ پینے "اسواق"کی طرف گئے۔ پھر 12 بجے واپس مسجد ظہر کے لئے۔ صابرہ مرکز سفیر سے دوسری خواتین کے ساتھ آ گئی ہوں گی۔ یہ سوچ کر نماز کے بعد ان کا انتظار کیا مقرّرہ جگہ پر۔

کل یا پرسوں ہمارے سگریٹ پیتے ہوئے ہمارے سفارت خانے کے آس پاس کے علاقے کا سروے کررہے تھے تو ایک تندور دریافت ہوا تھا۔ آج صبح ہی جب باہر سگریٹ پی رہے تھے کہ اندر سے مظہر بھائی نکلے جو ناشتے کے انتظام کے لئے نکلے تھے۔ وہ کہنے لگے کہ کوئ تندور مل جائے تو گرم گرم روٹیاں مل سکتی ہیں۔ ان کو اپنی دریافت سے آگاہ کیا۔ بلکہ ساتھ ہی ہم بھی گئے۔ معلوم ہوا کہ اس افغانی تندور میں تین طرح کی روٹیاں ملتی ہیں۔ "چپاتی" جو ہمارے یہاں کی تندوری روٹی کی طرح ہوتی ہے، پراٹھا اور "بسکوت" جو گودی ہوئی سوراخ دار تندوری روٹی ہوتی ہے اور زیادہ خستہ۔ یہیں دال اور شوربہ بھی ملتا ہے۔

چنانچہ آج ہم نے یہ نیا تجربہ کیا ہے۔ محض سستا ہونے کی وجہ سے نہیں۔ بلکہ الطیب کے آلو بینس کے شوربے (جسے مکسڈ  ویجی ٹیبل کری کا شاہانہ نام دیا گیا ہے) سے بچنے کے لئے۔ ادھر صابرہ کی طبیعت بھی کچھ گڑبڑ چل رہی ہے، ان کو دہی چاہئے تھی۔ چناں چہ ہم گرما گرم روٹیاں لائے۔ صرف ایک ریال کی مسور کی دال اس افغانی تندور سے اور ہماری پرانی ہوٹل الطیب سے ایک ریال کا ہی 200 گرام (یا غرام) دہی کا پیالہ۔ یوں کھانا ہو گیا۔ دال سبزی اس تندور میں شاید زیتون کے تیل میں بنائی جاتی ہے اس لئے مزے میں کچھ فرق محسوس ہوا مگر برا نہیں لگا۔ دہی ملا کر کھانے سے مزہ ہی آیا۔

کھانا کھا کر آئے تو سوچا کہ کچھ دیر آرام کر لیں پھر اٹھ کر نہائیں گے دھوئیں گے اور عصر کے لئے جائیں گے۔ ڈھائی تو بج گئے تھے۔ مگر بڑے مغربی غسل خانے میں جہاں نہانا اور کپڑے دھونے کی بہتر سہولت ہے ایک صاحبہ نے دھوبی گھاٹ بنا رکھا تھا۔ اسی انتظار میں ہم لیٹ گئے اور یہ وہ نایاب دن نکلا کہ ہم دن میں سو گئے جو ہر گز ہماری عادت نہیں۔ ایک بار آنکھ کھلی بھی مگر بدن ٹوٹ رہا تھا اور حرارت بھی تھی۔ بہر حال اٹھے تو سوا چار بج رہے تھے۔ جیسے ہی ہوش آیا تو مسجدِ نبوی کی جماعت کی مائک کی آواز آ رہی تھی "اسّلام وعلیکم و رحمت اللہ "۔ چنانچہ آج اس بدنصیب کی فجر اور عصر دو نمازوں کی جماعت چھوٹ گئی۔ اٹھ کر ضروریات سے فراغت کے بعد نہائے بھی، کرتا پاجامہ دھویا بھی( یہ ہم میاں بیوی کا بلا تحریری معاہدہ ہے کہ اپنے اپنے کپڑے دھوئیں گے)۔ پھر حرم گئے اور عصر کی نماز پڑھی، چائے پی اور کھانسی کے علاج کے لئے سگریٹ پی۔ پھر مغرب کے لئے اندر گئے اور قضائیں پڑھیں اور عشاء پڑھ کر تندور سے آلو مٹر کی سبزی 4 ریال کی لے کر آئے ہیں۔ روٹیاں تو دو پہر کو دو عدد لائے تھے وہ اب تک ختم نہیں ہوئی تھیں، اور دہی لیا ہے اور کھانے کے بعد یہ گفتگو ہو رہی ہے۔

ایک انل جین(Analgin) تو ہم نے سو کر اٹھتے ہی کھا لی تھی اور پھر نہانے دھونے سے کچھ تازگی آ گئی ہے تو اب ہم کچھ بہتر ہیں جو یہ روزنامچہ لے کر بیٹھے ہیں اور اب ساڑھے گیارہ بجے تک لکھے جا رہے ہیں بلکہ اب ختم کرنے جا رہے ہیں۔ ایک بات اور یاد آ گئی ہے وہ اور لکھ دیں۔گھنٹہ بھر سے گلا پھر خراب ہو رہا ہے اس کا علاج کر کے سوئیں گے۔ اس پر یہ بھی یاد آیا کہ آپ کو بتا دیں کہ یہاں ماچسیں نہیں ملتی ہیں۔ ہماری سگریٹ بھی آج کل پائپ کے موٹے تمباکو سے بن رہی ہے کہ حیدرآباد میں خریدتے وقت باریک "فائن کٹ" تمباکو نہیں ملا تھا نہ کیپسٹن ، جو ہمارا برانڈ ہے، نہ وِلس جو کیپسٹن نہ ملنے پر ہم لے لیتے ہیں۔ اس لئے پائپ والے اس تمباکو سے بنی ایک سگریٹ 10۔8 تیلیوں کی سوختہ قربانی چاہتی ہے اور ہم یہاں صرف 4 عدد ماچسیں لے کر آئے تھے اور کیوں کہ پاؤچ کی سگریٹ کو تیلی سے پیک کرنے کی ضرورت بھی ہوتی ہے اس لئے کچھ تیلیاں تو چاہئیں ہی۔ یہاں تو سب "ڈسپوزیبل"(Disposable) لائٹر لے کر گھومتے ہیں، ایک ریال کا خریدا، استعمال کیا ، گیس ختم ہوئی، پھینک دیا اور دوسرا لیا۔ ہم نے بھی آج لائٹر خرید لیا ہے کہ باقی تیلیوں سے تمباکو پیک کرنے کا کام لیں گے اور سگریٹ لائٹر سے جلائیں گے۔

پاکستانی لنگوٹی

اس خریداری کے ساتھ ہی ہم نے آج  2۔2 ریال ہر مال کی دوکانوں کا بھی ایک چکّر کیا تو ایک انڈروئر بھی خریدا ہے جو پاکستان کا مصنوعہ ہے۔ اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ یہاں آتے وقت زیادہ تر سامان مکّے میں ہی چھوڑا تھا اور تھوڑا سامان لانے کے لئے جب پیکنگ کر رہے تھے تو غلطی سے انڈروئر مکّے میں ہی رہ گئے۔ اب تک جو ہم پہنتے رہے تھے، اسی کو نہا تے تو دھو کر پہن لیتے۔ بہر حال یہ خریداری اس لئے بھی کی کہ ہمارے پاس پاکستان کی بھی کچھ یادگار رہ جائے۔ جیسے کل بنگلہ دیشی ہوٹل کا تبرّک نوشِ جان کیا تھا۔ ہم بّرِ صغیر کی تہذیبی وحدانیت کے قائل ہیں دراصل۔ ان تینوں ملکوں کا کردار، وراثت ایک سی ہیں، پھر یہ اختلافات کیسے؟ عوام کی حد تک تو اختلافات بالکل نہیں ہونے چاہئیں۔ جس طرح ہمارے پاکستانی دوست ہندوستانی فلموں، گیتوں اور ساریوں کے لئے ترستے ہیں، اسی طرح ہم ہندوستانی پاکستانی ادبی رسالوں اور کتابوں کے لئے۔ کسی کے پاس "نقوش" یا " فنون"کا تازہ شمارہ مل جائے، پھر دیکھئے اس کی مانگ کم از کم ادبی حلقوں میں۔ بھاگتے بھوت کی سہی ، سو آج ہم نے پاکستانی لنگوٹی خرید لی ہے۔

وہی دن وہی رات

8/ اپریل، 40۔10 بجے رات

 

آج کا دن بھی روز کی طرح ہی گزرا ہے۔ رات کو سونے تک ڈیڑھ دو بج گئے تھے ۔ صابرہ کا تہجّد کے لئے جانا یاد ہے (حسرت موہانی کی یاد آ گئی اور ساتھ ہی ہمارے ایک اور پاکستانی دوست غلام علی کی "وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے"۔ غلام علی صاحب اگر بفرضِ محال یہ پڑھ رہے ہوں تو پریشان نہ ہوں کہ ان کو دوست ہم مجازی معنوں میں لکھ رہے ہیں، ان محترم سے ہمارے کوئی قریبی تعلقات نہیں ہیں، یاد اللہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ان کے لئے بھی دعائیں کر سکتے ہیں اللہ سے)۔ مگر ہم پھر سو گئے تو پھر 50۔4 پر آنکھ کھلی۔ جلدی جلدی ضروریات سے فارغ ہو کر حرمِ مدینہ بھاگے۔ جماعت تو مل گئی مگر باہر سڑک پر جگہ مل سکی۔ نماز پڑھ کر سیدھے واپس آ گئے اور برش وغیرہ کر کے مکتبۂ نبوی کی کتابیں پڑھتے رہے۔صابرہ سات بجے واپس آئیں اور کہنے لگیں کہ مظہر بھائی، ان کی بیوی اور دوسرے دو اور "جوڑے" (حالت یہ ہو گئی ہے کہ اب انگریزی میں سوچنے لگے ہیں اور پہلے لفظCouple ذہن میں آیا جس کا صحیح اردو ترجمہ افسوس کہ نہیں ہے سوائے اس لفظ "جوڑے" کے)مدینے کی زیارتوں کے لئے جا رہے ہیں، ہم جس دن گئے تھے تو یہ لوگ ساتھ نہیں تھے۔ صابرہ نے بتایا کہ مظہر بھائی بضد ہیں کہ کم از کم صابرہ ان کے ساتھ عورتوں کی لیڈر بن کر جائیں ورنہ ان عورتوں کے گم ہو جانے کا خطرہ ہے، اپنی بس ہی پہچان نہ سکیں گی۔ بہر حال ہم رہ گئے اور صابرہ چلی گئیں، بعد میں صابرہ نے بتایا کہ ہم ہی خوش نصیب تھے کہ اسرار میاں کے ساتھ گئے تھے جنھوں نے اردو میں اچھّی تشریح کی تھی۔ ان لوگوں کا عربی ڈرایؤر تھا جو ظاہر ہے کہ اردو میں کیا تفصیل دیتا، بس جگہ کی نشان دہی کر دیتا۔ خود مظہر بھائی اور صابرہ ہی (اسرار میاں کے حوالے سے) اس وفد کے لئے بہتر گائڈ ثابت ہوئے۔ادھر اسرار میاں کا داخلہ ہمارے سفارت خانے والوں نے بند کر دیا ہے۔ کل باہر ان سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا۔ حالاں کہ انھوں نے ہوٹل والے کو کمیشن بھی دیا تھا ان کے ہی بیان کے مطابق۔ بہر حال صابرہ تو صبح اطّلاع دیتے ہی چلی گئیں کہ باہر ہی ناشتے کا ارادہ ہے۔ ہمارے لئے دہی رکھی تھی، روٹی رکھی تھی اور شکر تو رہتی ہی ہے۔ ہم نے دہی روٹی کھا کر باہر جا کر چائے پی اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر مسجدِ نبوی کی طرف نکل گئے۔ قضا نمازیں وہاں ہی پڑھتے ہیں، قضائے عمری۔ کہ وہاں کی ایک نماز ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ نمازوں اور درود اور روضۂ اقدس پر سلام کے بعد ہم حرم کے پیچھے یعنی جنوب کی طرف گئے جہاں اب تک نہ گئے تھے۔سنا تھا کہ اسی طرف مدینے کی مرکزی کھجور مارکیٹ ہے۔ خیال تھا کہ پہلے خود راستہ وغیرہ دیکھ لیں کہ کہاں ہے، کس طرف ہے اور کدھر ہے، پھر بعد میں صابرہ کے ساتھ جا کر خرید لائیں گے۔ یہ مارکیٹ دیکھی اور پھر "اسواق" کی طرف نکل گئے۔ کچھ شاپنگ کی مگر زیادہ تر "ونڈو شاپنگ"۔ 2۔2  ریال والی چھوٹی چھوٹی چیزیں کچھ اور خرید لیں۔ 11 بجے ادھر ہم واپس آئے، ادھر ۔ صابرہ بھی پہنچیں۔ کچھ دیر ان سے اس ٹرپ کی باتیں کیں (جس کا احوال ہم لکھ چکے ہیں پہلے ہی)، پھر ہم دونوں ظہر کے لئے نکل گئے۔ نماز کے بعد اسی افغانی تندور ( پہلے ہم اسے عربی تندور سمجھتے تھے، مظہر بھائی نے بتایا کہ یہ دوکانیں یا ہوٹلیں افغانی ہیں) سے ایک ریال کی روٹی اور ایک ریال کی دال لی اور ہمارے الطیب پاکستانی ہوٹل سے ایک ریال کی دہی کا پیکنگ لیا۔ ہاں، 11 بجے بازار سے واپسی کے وقت ہم کچھ سبزی بھی خرید لائے تھے۔ کھیرے، ٹماٹر اور پیاز۔ سب ملا کر پانچ ریال کے۔ چناں چہ کچھ سلاد اور کچھ رائتہ بنایا اور خوب مزے سے کھایا۔روٹی پہلے کی بھی رکھی تھی، اس لئے اب بھی روٹی بچ گئی۔

کھانے کے بعد ہم لیٹ کر مکتبہ نبوی والی کتابیں پڑھ رہے تھے کہ آج بھی وہی انہونی بات ہو گئی کہ ہماری آنکھ لگ گئی۔ کوئی آدھے گھنٹے کے لئے۔ آج عصر کے بعد صابرہ کو بھی بازار دکھانے کا ارادہ تھا۔ اس لئے بازار کی سمت ہی ایک جگہ مقرّر کر لی تھی جہاں نماز کے بعد مل سکیں۔ یہ مل گئیں تو پہلے چائے پی پھر بازار گئے۔ آج بھی ونڈو شاپنگ ہی زیادہ کی۔ کچھ سفری بیگ دیکھے، کچھ اسکارف دیکھے، مگر خریدے نہیں۔وہی 2۔2  ریال کے سامان.. کچھ پاکستانی طغرے، کچھ لڑکیوں کی مطلب کی چیزیں، کنگھے، برش کے سیٹس وغیرہ۔ اسی میں چھ  بج گئے۔ پہلے صابرہ مسجد چلی گئیں۔ ہم کو کھانسی اٹھ رہی تھی، اس لئے ہم نے پہلے سگریٹ پی پھر حرم گئے۔ نماز پڑھ کر پھر باہر آئے۔ اس سے پہلے 2۔2  ریال کی دوکانوں میں کچھ چیزیں دیکھی تھیں مگر وہ دوکانیں صابرہ کے ساتھ جانے میں نظر نہیں آئی تھیں، ان کو ڈھونڈھا۔ دو ٹوپیاں اور ایک ٹارچ خریدی اور 8 ریال کی ایک دوکان سے کوریا کی ایک چپّل بھی لی۔ ایک ہوٹل میں فرائڈ مچھلی بھی نظر آئی تو لے لی اور پھر عشاء کے لئے پہنچ گئے۔ نماز کے بعد کمرے میں آنے سے پہلے ایک روٹی اور ایک دال کی پلیٹ اور خرید لائے اسی تندور سے گرما گرم اور کھانا کھا کر اور سگریٹ پی کر اب یہ سب لکھ رہے ہیں۔ چناں چہ آج کا دن بھی روز کی طرح ہی گزرا۔ اب سوچ رہے ہیں کہ دوپہر میں لکھنا زیادہ بہتر ہوگا۔ رات کو دیر تک لکھتے رہیں تو نیند خراب ہوتی ہے اور دو پہر کو سونا ہم کو پسند نہیں ہے کہ اس سے اور بھی تھکن اور سستی بڑھ جاتی ہے۔تازگی نہیں آتی دن کو سو جانے سے۔

...متاعِ کوچۂ و بازار...

9/ اپریل 2/1 10  بجے رات۔

 

سوچا تھا کہ آ ج دو پہر کو لکھیں گے مگر آج دو پہر کو وقت کم ہی رہا تو پھر وہی رات ہو گئی ہے۔ ویسے روز کے معمولات کے علاوہ بس یہی بات اہم ہے کہ ہم نہ نہ کرتے بھی خریداری میں لگے رہے۔ لاکھ کتابوں میں پڑھا کہ بھائی مکّے مدینے جاؤ تو اللہ میاں سے لو لگاؤ۔ خریداری کے چکر میں مت پڑو۔ بس مدینے کے خرمے خریدو اور مکّے سے زمزم مفت حاصل کرو اور وطن لے جاؤ، سامانِ دنیا داری تو سب جگہ ملتا ہے، حرمین اور کہاں ؟۔ صحیح ہے ناصح..  ؎ تری آواز مکّے اور مدینے۔ مگر ان لوگوں کو کیا کہیں جو ہم کو ہار پھول پہنا کر رخصت کر کے اب ہمارے انتظار میں دن گن رہے ہیں!خیر، خدا نخواستہ ہمارے سارے رشتے دار، احباب اور محلّے والے محض ہمارے تحفوں کی امّید پر ہم سے اظہارِ محبّت اور اظہارِ عقیدت کرتے رہے ہوں۔مگر ہمارا فرض بھی تو بنتا ہے کہ ان لوگوں کے لئے چھوٹے موٹے تحفے تو لے ہی لیں۔ سبھی جا نمازیں، تسبیحیں اور سرمہ تو لیتے ہی ہیں بزرگوں کے لئے، کھجوریں اور زم زم سب کے لئے، مگر بچّوں کے لئے؟ ان کے لئے تو ہم محض "فارین" (Foreign) جا کر لوٹیں گے۔ یہ لوگ بھی تو پر امّید ہوں گے اور ہمیں سب کو بھی تو خوش کرنا ہے۔ اور پھر ہم کوئی فرج، ٹیپ ریکارڈر اور ایسی اشیاء تو خرید نہیں رہے ہیں اور نہ عبادتوں میں حرج کر کے خریداری میں وقت گنوا رہے ہیں۔ ہم تو عموماً اپنی طبیعت کے علاج کے لئے سگریٹ ،اور اکثر اس سے پہلے چائے، کے لئے باہر نکلتے ہی ہیں اور اسی سگریٹ نوشی کے دوران ایسی خریداری کر رہے ہیں۔ اس لئے ہمارا ضمیر مطمئن ہے۔ہاں، آج باقاعدہ خریداری کی مہم رہی۔ باقاعدہ اس لئے کہ ہماری صابرہ بیغم بھی اس میں شریک رہیں۔ اس طرح ہمارا صبح 9 بجے حرم جانے کا معمول ضرور بگڑ گیا جس کا کچھ افسوس ضرور ہے، مگر یہ اطمینان بھی ہے کہ الحمدُ لِلّہ آج ہم تہجّد کے لئے بھی جا سکے تھے۔

تہجّد مجبوری تو نہیں؟؟

آج ہم بھی ساڑھے تین بجے اٹھ بیٹھے تھے اور صابرہ کے ساتھ تہجّد کے لئے گئے۔ یہاں بھی بیت اللہ کی طرح تہجّد کی اذان تو ہوتی ہے۔ ماشاء اللہ بیشتر لوگ تہجد گذار ہیں (یا ہو گئے ہیں)، مگر نعوذ باللہ ہم کو کبھی شک گزرتا ہے کہ یہ کہیں لوگوں کی مجبوری تو نہیں؟ یہاں ہو یا بیت اللہ۔ اگر آپ کو حرمین میں اندر نماز کے لئے صف میں جگہ چاہئے جہاں آپ مخملی قالین پر، جو دونوں حرموں میں جانماز کا کام کرتے ہیں، آرام سے بیٹھ سکیں ، تو آپ کو اذان سے بھی کم سے کم ڈیڑھ گھنٹہ قبل پہنچنا ہوگا۔ فجر کی اذان 50۔4 پر ہوتی ہے، اس لئے اندر صف میں جگہ حاصل کرنے کے لئے تقریباً ساڑھے تین بجے پہنچنا ضروری ہے۔ اور یہی وقت ہے تہجّد کا۔ اور اچھّی جگہ کی کوشش میں تہجّد کی نماز مفت میں مل جاتی ہے کہ چچا غالب کا مشورہ ہے۔ جیسے سبزی لینے جائیں تو سبزی والا تھوڑا ہرا دھنیا یا ہری مرچ مفت میں اوپر ڈال دیتا ہے (کہیں کہیں اسے "اول" کہتے ہیں)۔ اسی طرح لوگوں کو تہجّد مفت مل جاتی ہے۔ اور پھر اندر صف میں بلکہ قالین پر جگہ ملنے کا ایک اور فائدہ بھی دیکھا۔ کئی حضرات فجر کے بعد ان قالینوں پر لمبی تان لیتے ہیں اور اپنی نیند پوری کرتے ہیں۔ حرمِ مکّہ میں ایک اور سہولت یہ بھی ہے کہ رہایشی عمارتوں میں ضروریات کے انتظامات تشفّی بخش نہیں ہیں، کم از کم ہماری عمارت رقم 468 کا تو یہی حال تھا۔ لوگ زیادہ اور بیت الخلاء کم۔ اس کا حرمین میں بہت معقول انتظام ہے۔ یہاں مدینے میں ہمارے سفارت خانے میں تو یہ نظم بہت بہتر ہے، مگر حرمِ مکّہ میں تو ہم خود ضروریات کے لئے حرم جانا پسند کرتے ہیں۔ اس کے لئے بھی آپ کو نماز کے اوقات سے کافی پہلے حرم پہنچنا ضروری ہے۔ یہاں بھی غسل خانوں کی 14 اکائیاں (وحدتیں) ہیں، شاید 10 مردانہ اور 4 زنانہ۔ دورات میاہ للرجال اور دورات میاہ للنساء۔ ہر ایک زیر زمین چار منزلہ۔ زنانہ کا واللہ اعلم (صابرہ سو گئی ہیں ورنہ ان سے پوچھ لیتے) مگر مردانہ میں ہر اکائی میں 40۔40 مشترکہ غسل خانے اور بیت الخلاء ہیں۔ آپ نماز کے لئے ایک گھنٹہ قبل بھی جائیں تو ہر منزل پر کسی بھی غسل خانے میں آپ کا قطار میں چوتھا یا پانچواں نمبر ہوگا (دورِ اوّل۔ یعنی پہلی منزل یا فلور پر تو آٹھواں دسواں)۔ وضو کے لئے البتّہ جگہ جلدی مل سکتی ہے۔ ہاں ، اگر آپ نماز سے محض 5 منٹ قبل پہنچیں تو وضو کے لئے بھی آپ کا نمبر لگنے میں اتنی دیر ممکن ہے کہ جب آپ وضو کر کے پہنچیں تو جماعت ختم ہو چکی ہو۔ خوش قسمت رہے تو شاید آخری رکوع نصیب ہو جائے جس سے آپ خود کو جماعت میں شریک سمجھ سکیں۔ پھر نماز کے اوقات بھی ہمارے ہندوستان کی طرح مقرّر نہیں ہیں کہ سال کا کوئی بھی دن ہو، یہ طے ہے کہ ظہر کی اذان ایک بجے اور جماعت ڈیڑھ بجے۔ حرمین ہی نہیں، دوسری مسجدوں میں بھی اذان کے اوقات مقرّر ہیں، وقت کی شروعات کے مطابق۔ مثلاً آج ظہر کا وقت تھا 23۔12 دو پہر۔ اور اذان کے 5۔4 منٹ بعد جماعت ہو جاتی ہے۔ دونوں حرموں میں آئندہ اذان کا وقت گھڑی کی شکل کے کئی سائن بورڈوں میں دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جمعے کا بھی یہی عالم ہے۔ پہلا جمعہ یہاں ہی ادا ہوا ہے اور اس میں اذان کے 3۔4 منٹ بعد ( جس میں ہم 4 سنّتیں بمشکل پڑھ سکے) خطبہ شروع ہو گیا اور اس کے فوراً بعد نماز کی اقامت۔ فجر میں بھی اذان اور جماعت کے درمیان بہت کم وقفہ دیا جاتا ہے۔ ہاں عشاء کے وقت یہ وقفہ تقریباً پندرہ منٹ کا ہوتا ہے۔ یہ بھی آپ کو جان کر تعجّب ہوگا کہ مغرب کی اذان کے بعد بھی 5۔4 منٹ کا وقفہ دیا جاتا ہے کہ لوگ تہیۃ المسجد پڑھ لیں۔ یہ معلوم نہ ہونے ہر ہم حرم میں پہلے دن ہی بے وقوف بن گئے تھے، جس کا لکھ چکے ہیں۔

ہاں، ایک بات اور یاد آ گئی۔ اب تک ہم روضۂ پاک پر 5۔4 بار جا چکے ہیں مگر اس کا جغرافیہ اب بھی سمجھ میں نہیں آیا ہے۔ منبر تو ہم نے دیکھ لیا ہے مگر مصلیٰ نبی اور ریاض الجنّہ (جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ حصّہ قیامت کے بعد سیدھا جنّت میں جائے گا) کہاں ہیں، معلوم نہیں ہوا۔ بے خبری کا عالم وہی ہے۔

آٹے دال کے علاوہ ہر چیز کا بھاؤ

آج دن بھر کی تفصیل لکھیں تو وہی سب کچھ دہرانا ہو جائے گا۔ جو آج فرق ہوا ہے اس کا ذکر کر چکے ہیں کہ صبح ناشتے کے بعد ساڑھے آٹھ بجے ہی جو خریداری کے لئے نکلے تو سوا گیارہ بجے ہی واپسی ہوئی۔ اور سامان پٹک کر ظہر کے لئے چلے گئے۔

جو قارئین اس کتاب کو مکّہ مدینہ گائڈ (حج گائڈ بھی نہیں)کے طور پر پڑھ رہے ہیں، ان کو ایک گر بتا دیں خریداری کا۔ یوں تو بہت سے عربی دوکان دار بھی ہندوستانی پاکستانی حاجیوں کو اردو میں ہی قیمت بتاتے ہیں، مگر پھر بھی کچھ غیر اردو داں ہیں ہی۔ اگر دوکان دار " سبع (7)ریال"بولے اور آپ "خمسہ (5) ریال" بولیں اور وہ لمبی تقریر عربی میں شروع کر دے تو سمجھ لیجئے کہ سودا ممکن نہیں ہے۔ ممکن ہو بھی تو ہم میں آپ میں اتنا صبر اور صلاحیت کہاں کہ اسے آپ اپنی قیمت پر مطمئن کر سکیں (جو ناممکن تو نہیں مگر کارے دارد ہے)۔ اور اگر جواب ملے "خلّاص۔ بسمِ اللہ" تو سمجھئے کہ سودا "پٹ گیا"۔ اور اس سے پہلے کہ وہ اپنا ارادہ بدل لے، آپ جھٹ سے پیسے، مطلب ریال نکال لیجئے اور دوکان دار کو دے دیجئے۔رقم کو روپیوں میں تبدیل کر کے قیمت پر غور کئے بغیر۔ یا اسی مثال میں آپ کو یا دوکان دار کو سودے بازی میں مزہ نہیں آیا تو پھر بھی آپ "سِتّہ (6) ریال" کہہ سکتے ہیں تو ممکن ہے کہ دوکان دار راضی ہو جائے۔مگر آپ اگر اتنا بہت کچھ کہنا چاہیں کہ بھائی ہم ایک درجن لیں گے اور اس صورت میں تو کم سے کم ٹھیک دام لگا دو اور 7 ریال لے لو، تو چاہے آپ لاکھ عربی بولنا چاہیں کہ کہ ہم کو "درجن فی الستّین" دے دو۔ مگر دوکان دار اپنی عربی دانی بھول جائے گا اور کہے گا آگے جاؤ۔ آپ بور ہو کر آگے بڑھ جائیں گے۔ ہم کو تو اس سے بچنے کی ایک ہی ترکیب سمجھ میں آئی ہے۔ ہر مال 2۔2ریال۔ "کُلٌ شےء ریالین" ۔ خیر یہ تو کم سے کم قیمت والی دوکانیں ہیں مگر یہاں ہی ہر مال 5، 10، 15، 20 اور 50 ریال کی بھی دوکانیں ہیں۔ اس میں یہی فائدہ ہے کہ آپ کو قیمت معلوم ہے، اس کی کچھ حجّت کرنے کی ضرورت نہیں۔ خود ہی فیصلہ کر لیجئے کہ اس قیمت پر یہ شے مناسب ہے یا نہیں۔ ویسے ہم اتنا اور اشارہ کر دیں کہ اس قسم کی دوکانوں پر بچّوں کے کام کی چیزوں (کھلونوں، تعلیم کی ضرورت کی اشیاء اور ملبوسات وغیرہ) کے علاوہ مردوں کے شرٹس، عورتوں کے خواب گاہی ملبوسات اور "میکسیاں"، عورتوں کے لئے بغیر سلے 3۔4 میٹر لمبائی کے کپڑے، جن سے آپ کرتے شلواریں بنائیں یا میکسیاں۔ ریڈی میڈ شلواریں جو یہاں مرد عورتیں دونوں پہنتے ہیں۔ مرد "توب" کے نیچے (اور توب بھی اسی طرح دستیاب ہیں۔ اس کے پیکٹوں پر عربی میں ثوب لکھا ہوتا ہے، جیسا کہ ہم شاید پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں۔ اس پر یاد آیا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ایک مقامی صاحب کو ماہ ربیع الثانی کو بھی "ربیع التانی" بولتے سنا ہے ہم نے۔ توب آدھی آستین کے دس اور 15 ریال میں اور پوری آستین کے 15 اور 20 ریال میں ) اور عورتیں کرتوں کے ساتھ۔ یہ زیادہ تر 10۔10 ریال کی دوکانوں میں ہیں۔ 3۔4 میٹر کے کپڑوں کے ٹکڑے 15 اور 20 ریال میں مل سکتے ہیں۔ کم چوڑی "سنگل" جا نمازیں 10 ریال اور بڑی 15 اور 20 ریال کی ہیں۔ گھڑیاں بھی 15 سے 40 ریال تک کی ہیں، ان دوکانوں پر بھی اردو اور عربی میں لکھا ہوتا ہے "کُلٌ ساعات 20 ریال" ۔ 10 کو عشرہ اور 20 کو عشرین بولتے ہیں۔ عجوہ کھجور کا آج پوچھا تو 110 ریال فی کلو ہیں۔ دوسری کھجوریں 8 سے 15 ریال کلو تک ہیں مختلف اقسام کی۔ اب اور کچھ بھاؤ بھی بتا دیں۔ روٹیاں ایک ریال کی تین یاچار (بیکری کی دوکانوں یا کھانے پینے کی اشیاء کے ڈیپارٹمینٹل اسٹورس میں جنھیں "بقالہ "کہا جاتا ہے) سے ایک ریال کی ایک (ہوٹلوں اور تندوروں میں)ہر پھل اور تمام سبزیاں 4 تا 5 ریال فی کلو۔ کیلے البتّہ درجن کے حساب سے ہیں 8۔10 ریال درجن۔ چائے اور اس کے ساتھ کھانے کے لوازمات یعنی مختلف اقسام کے کیک، بسکٹ، بن وغیرہ سبھی ایک ایک ریال۔ کولڈ ڈرنک بھی سب ایک ایک ریال۔ چاہے آپ 200 یا 250 ملی لیٹر کی شیشے کی بوتل لیں یا پلاسٹک کی (پیٹ) بوتلیں، یا 300۔ 330 بلکہ کوئی کوئی 375 ملی لیٹر کے ٹن۔ چاہے کوئی بھی برانڈ ہو۔ پیپسی اور کوک کے علاوہ یہاں سیون اپ بھی عام ہے، ایک لٹر (اور کچھ برانڈس میں سوا لٹر) کی بوتلیں 2 ریال اور 2 لٹر (اس میں بھی کسی برانڈ میں 250 ملی لیٹر مزید مفت۔ یعنی سوا دو لٹر) 3 ریال میں۔

یہ بھاؤ تو معلوم ہو گئے کہ یہی کھاتے پیتے ہیں۔ آٹے دال کا بھاؤ معلوم کرنے کی اب تک ضرورت نہیں پڑی ہے، معلوم ہوئے تو آپ کو ضرور بتائیں گے۔

عارضی جنّت مکانی

10/ اپریل، 2 بجے دوپہر

 

آج ہم جنّت مکانی بننے میں کامیاب ہو گئے اسی دنیا میں۔ ویسے بخدا ہم کو جنّت کی ایسی آرزو نہیں ہے۔ ربِ رحیم و کریم بخش دے اور جنّت عطا کرے تو یہ اس کا کرم ہے۔ ہم کو تو بس اس بات کا خیال تھا کہ ریاض الجنّۃ میں نمازیں اور سلام پڑھنے کی بڑی فضیلت ہے۔ اب تک ہم چار بار تو روضۂ پاک پرجا چکے تھے مگر وہاں کے چوکی دار داخل ہونے نہیں دیتے تھے کہ اندر ہمیشہ بھیڑ تھی اور باہر ہی باہر سے قطار آگے بڑھا دی جاتی تھی۔ اس لئے اب تک ہم جغرافیہ نہیں سمجھ سکے تھے وہاں کا۔ آج آخر معلوم ہوا۔ حالاںکہ ریاض الجنّہ کا کچھ حصہ عورتوں کے لئے بھی مخصوص تھا اور اس وقت ان کا بھی وقت تھا، مگر خاص روضۂ پاک تک نہیں۔ وہاں شاید ان کو اجازت نہیں ہو۔ آج ہم سوا دس یا ساڑھے دس بجے اس طرف گئے۔ خیال تھا کہ 10 بجے تک عورتوں کا وقت ختم ہو گیا ہوگا، مگر تب تک بھی جاری تھا۔ ہم بھی یہی سوچ رہے تھے کہ عورتوں کا قبروں پر جانا منع ہے پھر روضے تک انھیں کیسے اجازت ملتی ہے؟ پھر یہ بھی خیال آیا کہ در اصل یہاں قبر تو اندر ہی ہے، جالیوں تک ان کو بھی اجازت ضرور ہوگی۔ اسی طرح جب ہم جنّت البقیع گئے تھے تو سیڑھیاں چڑھتے میں جو عورتیں جانے کی کوشش کر رہی تھیں، انھیں پولس والے "حاجّہ!حاجّہ!" کہہ کر روک رہے تھے، وہاں بھی انھیں باہری جالیوں تک جانے کی اجازت ہے۔ اس کے بھی اوقات مقرّر ہیں اس لئے کہ ہم بعد میں 10 بجے گئے تو دیکھا کہ عورتیں بلا روک ٹوک جا رہی ہیں۔ ہم کو پہلے تو تعجّب ہوا، پھر بعد میں معلوم ہوا کہ ان کی حد محض باہری جالیوں تک ہے۔عورتیں باہر سے ہی زیارت کر سکتی ہیں اور فاتحہ وغیرہ پڑھ سکتی ہیں اگر چاہیں تو۔ وہاں بھی پولس کا معقول انتظام تھا۔ پہلے سنا تھا کہ وہاں اور روضۂ پاک پر بھی ہندوستانی پاکستانی عورتیں دھاگے وغیرہ باندھ دیتی تھیں منّت کے۔ اب اس بدعت پر روک لگانے کے لئے پولس رہتی ہے۔

کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ محض اتنی اطّلاع دینی تھی کہ ہم آج روضے کے اس حصّے میں کچھ عبادت کر سکے ہیں جسے ریاض الجنّہ کہا جاتا ہے۔

آئے ہیں اس گلی میں تو پتھّر ہی لے چلیں

آپ کو تو کیا معلوم ہوگا جب تک ہم آپ کو بتائیں نہیں کہ ہم تعلیم اور پیشے کے لحاظ سے ماہر ارضیات یعنی جیالوجسٹ واقع ہوئے ہیں ، ویسے ایسے زیادہ ماہر بھی نہیں، من آنم کہ من دانم۔ ویسے ابھی آدھے گھنٹے قبل ہمارے "ہم کمرہ" اسمٰعیل بیگ صاحب کے صاحب زادے بھی جیالوجسٹ بننے کی کوشش کر رہے تھے۔ فرمانے لگے کہ یہاں ہر طرف "سینڈ سٹون" (Sandstone)ہے اسی لئے سینڈ یعنی ریت بہت ہے اور یہ علاقہ ریگستان ہے۔ ان کے "کامن سینس" (Common Sense)کی ضرور داد دینی چاہئے۔ اب ہم کو یہ تکنیکی راز بھی بتا دیں کہ جس پتھّر میں بھی ایک معدن کوارٹز (Quartz)ہوتا ہے( وہی کوارٹز جس کا کرسٹل کوارٹز گھڑیوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور جس کی مختلف شکلیں قیمتی پتھّر اور نگینے بھی ہوتے ہیں) وہ ایسا سخت جان واقع ہوا ہے کہ بارش اور موسم کے گرم و سرد سے دوسرے معدنیات تو سب ٹوٹ بکھر کر اور گھل کر ختم ہو جاتے ہیں اللہ کے نام کے علاوہ بچتا ہے تو یہی معدن کوارٹز۔ اور اسی کے دانے بڑے بڑے ہوں تو اسے ریت کہتے ہیں۔ ہم پہلے بھی یہ لکھ چکے ہیں کہ حرمین میں کیسا کیسا گرینایٹ اور سنگ مرمر استعمال ہوا ہے۔ مکّے سے مدینے کے راستے میں بھی ہم نے ہر طرف گرینائٹ ہی گرینائٹ یا اسی کے دوسرے روپ نائس(Gneiss) اور مگمیٹائٹ (Migmatite) دیکھے ہیں۔ خاکستری (گرے) اور گلابی بھی۔ اس میں بھی کوارٹز بہت ہوتا ہے اور جو موسم کے زیر اثر ریت میں بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ سینڈ اسٹون البتّہ یہاں کہیں نہیں ہے۔

ہم کو خیال تو تھا کہ کسی پتھّر کا اچھّا نمونہ مل جائے تو لیتے چلیں گے۔ اس پتھّر کا چھوٹا سا ٹکڑا ہی سہی (کہ ہماری صابرہ بیگم کو بھی اعتراض نہ ہو کہ خواہ مخواہ ایک آدھ کلو وزن بڑھا لیا) جس سے مسجدِ نبوی بنائی گئی ہے۔ آس پاس دیکھتے ہوئے چلتے تھے۔ آج ہی کھانستے کھانستے صبح ساڑھے نو بجے مسجد کی طرف جا رہے تھے اور اور راستے سے ہٹ کر رایل اندلس ہوٹل کے پیچھے کی طرف بیٹھ کر سگریٹ پی رہے تھے ۔ یہاں آس پاس نئی نئی عمارتیں بن رہی ہیں(جس کا ذکر کر چکے ہیں) یا توسیع ہو رہی ہے۔ اور یہاں سامنے ہی ہماری نظر گلابی گرینائٹ کے ایک پالشڈ ٹکڑے پر پڑی۔ یہ لمبا "x102 کا ٹکڑا تھا۔ ہم نے اس کا بھی نصف لیا ہے اور سگریٹ ختم کر کے مسجد کی طرف گئے تو دربانوں نے اس اس ٹکڑے پر بھی اعتراض کیا۔ معلوم نہیں کیوں اسے بھی ممنوع قرار دیا۔ کھانے پینے کی چیزوں کو اندر لے جانے کی پابندی ہے، وہ تو ٹھیک بھی ہے۔ حالاں کہ یہ بھی محض ہمارا قیاس ہی ہے کہ جس پتھّر سے یہ دوسری عمارتیں بن رہی ہیں۔ وہی یعنی اسی مقام کے پتھّر سے حرمِ مدینہ کی تعمیر ہوئی ہوگی، اگرچہ قسم تو وہی ہے گلابی گرینائٹ کی۔ بہر حال اس وقت اس ٹکڑے کو بیگ سے نکال کر ایک کونے میں دیوار کے پاس رکھ دیا کہ اندر جانے کا بھی جی چاہ رہا تھا۔ بعد میں ہم اگرچہ قضا نمازوں کے بعد روزے کی طرف جا کر دوسرے دروازے سے باہر نکل گئے تھے جنّت کی سیر کرنے کے بعد۔، مگر اس مدینہ گرینائٹ (جی ہاں، ہم جیالوجسٹ پتھّروں کو ان کے مقام کے نام سے یاد کرتے ہیں)کے ٹکڑے کے لئے پھر داخلِ مسجد ہو کر اسی دروازے سے باہر یہ دعا کرتے ہوئے نکلے کہ یہ ٹکڑا محفوظ ہو۔ مگر افسوس کہ وہ ٹکڑا پھنکوا دیا گیا تھا۔ ہم کو اس کا ماخذ تو یاد تھا۔ اس لئے ہم پھر اسی مقام پر پہنچے اور وہی باقی آدھا ٹکڑا لے کر آ گئے ہیں ہمارے استاد ناصر کاظمی مرحوم (انھیں بھی ہم مجازی طور پر اپنا استاد کہہ رہے ہیں جس طرح غلام علی کو اپنا دوست کہا تھا) کا مصرعہ دہراتے ہوئے جسے اس باب کا عنوان بنایا ہے۔

آج کی بقیہ تفصیل یہ ہے کہ آج بھی اس بد نصیب کی فجر کی جماعت نکل گئی۔ اگرچہ 20۔5 پر نکل سکے تھے ۔ بہرحال ہم نے حرم میں ہی اپنی انفرادی نماز پڑھی، پھر سورج نکلنے تک وہیں درود شریف وغیرہ پڑھتے رہے۔ بلکہ اور 20۔25 منٹ بعد تک۔ جب اشراق کا وقت ہوا تو اشراق کی نماز پڑھ کر اور کچھ قضا نمازیں پڑھ کر سات بجے واپس آئے۔ صابرہ نماز پڑھ کر ہی آ گئی تھیں۔ ہم لوٹے تو یہ آ کر سو بھی گئی تھیں۔ ان کے اٹھنے کا انتظار کر کے 8 بجے ناشتے کے لئے باہر نکلے۔ سامنے کے پاکستانی ہوٹل میں ہی۔ پھر کچھ دیر باتیں کرتے رہے، مگر کھانسی تو اٹھ ہی رہی تھی صبح سے ہی۔ اس لئے ساڑھے نو بجے پھر نکل گئے اور مدینہ گرینائٹ کی دستیابی کے سلسلے میں باقی تفصیل لکھ ہی چکے ہیں۔ گیارہ بجے سے پون گھنٹے بازار میں گھومے کہ خریداری کا کچھ پلان بنا سکیں۔ 2۔2 ریال کی دوکانوں سے کچھ "قبلہ نما" خرید لئے کہ دوستوں کو دے سکیں اور پھر ظہر کے لئے مسجد واپس آ کر اسی افغانی تندور سے آلو مٹر کی سبزی لائے ہیں اور دہی۔ ابھی پونے دو بجے تک صابرہ کا انتظار کیا پھر یاد آیا کہ یہ کہہ کر گئی تھیں کہ نماز کے بعد روضے کی طرف جائیں گی کہ 2 سے 3 بجے تک بھی عورتوں کے لئے یہ حصّہ کھلتا ہے اور ہم ان کا انتظار نہ کریں اور کھانا کھا لیں۔ چناں چہ کھانا کھا کر یہ لکھنے بیٹھ گئے ہیں۔

مزید کچھ اِدھر اُدھر کی

ہماری لاج جس علاقے میں ہے اس مین سب آٹو موبایل شاپس ہیں یعنی موٹروں کے سامان کی دوکانیں، ایک چکّر محض اس چکّر میں بھی لگایا کہ شاید یہاں بھی ہمارے پنجاب "دے"سردار جی نظر آ جائیں ۔ ہندوستان میں تو ہر شہر میں اس بازار میں ان کا ہی قبضہ ہے۔مگر اس سڑک پر مایوسی ہوئی۔ کسی "سامان سیارات" کی دوکان میں ہم کسی دار جی کو ست سری آکال کر کے "گل "نہیں کر سکے۔سیارہ یہاں موٹر گاڑیوں کو کہتے ہیں۔ معلوم نہیں کیوں انھیں سیارہ کہتے ہیں۔ کاریں تو یہاں چھلاوہ ہیں اور سیارے تو اپنی رینگتی چال کے لئے مشہور ہیں جب کہ یہاں کی کاریں برق رفتار ہیں یعنی اس تیز رفتاری سے سڑکوں پر دوڑتی ہیں کہ ہم نے ہندوستان میں کہیں نہیں دیکھیں۔ یہاں تک کہ مقامی بسیں اور نجی گاڑیاں (جو غیر ملکی حاجیوں کے علاوہ مقامی لوگوں کی ہوں) مکّہ مدینہ کی 452 کلو میٹر کی دوری 5 گھنٹے میں طے کر لیتی ہیں۔ حاجیوں کے لئے البتّہ سب "پا بہ بریک" رہتے ہیں۔ مکّے میں تو آپ اپنی مرضی کے مطابق سڑک پار کر سکتے ہیں۔ ڈرائیور آپ کو جگہ ضرور دے گا۔ اگر آپ کسی گاڑی کو آتا دیکھ کر رک گئے تو وہ اپنی گاڑی روک کر اشارہ کرے گا کہ آپ پہلے گزر جائیے جناب حاجی صاحب کہ خدمتِ حجّاج شرفٌ لنا۔ مدینے میں البتّہ مسجدِ نبوی اور ہماری لاج کے درمیان ایک چوراہا پڑتا ہے اس پر پولس کھڑی رہتی ہے اور حجّاج کو اپنی مرضی سے سڑک پار کرنے نہیں دیتی۔

جب بات کاروں اور ٹریفک کی ہو رہی ہے تو کچھ جان کاری پڑھنے والوں کو اور دے دی جائے۔ ایک تو یہ کہ یہاں سڑک کے دائیں طرف چلنے کا رواج ہے امریکی نظام کے مطابق۔ اور اسی وجہ سے زیادہ تر گاڑیاں "لیفٹ ہینڈ ڈرائیو" ہیں یعنی اسٹئیرنگ بائیں طرف ہے۔۔ اور یہ کہ یہاں گاڑیوں کے نمبر سات ہندسی ہیں، اس سے پہلے اے،بی،سی،ڈی کچھ نہیں ہوتا جیسے کہ ہندوستان میں نمبروں میں پہلے ریاست اور پھر شہر کا کوڈ ہوتا ہے۔ یہاں اوپر لکھتے ہیں ـالسعودیہ اور اس کے بعد ایک ڈیش کے بعد نجی گاڑی ہونے سے لکھتے ہیں "خصوصی" اور سرکاری گاڑی ہونے سے اس کے محکمے کا نام جیسے "نقل"۔ بسوں کے لئے "حافلہ" لکھتے ہیں۔ ٹیکسیوں (تاکسیوں )کے لئے "أجرت"، ایمبولینس "اسعاف" ہے۔ آک ایک ترجمہ بھی مزے کا دیکھا۔ "Accessories"کے لئے عربی میں لکھا تھا "الاکسسوار"۔ وی (V)کی آواز کے لئے ہم تین نقطوں کی "ف" کا ذکر پہلے بھی کر چکے ہیں مگر یہاں سامنے کی دوکان میں ہی "ویڈیو" کے لئے یہ حرف استعمال نہیں کیا گیا ہے۔ اور نہ ٹیلی ویژن کے لئے۔ اس "الالکترونیات" (الکٹرانکس) کی دوکان میں "فیدیو" اور "تلفزیون" لکھا گیا ہے۔ انگریزی میں اکثر املا کی غلطیاں نظر آتی ہیں۔ ریسٹوراں کے لئے تو مختلف ہجّے ہندوستان میں بھی نظر آتے ہیں خاص کر حیدر آباد کی ایرانی ہوٹلوں میں۔ یہاں "لانڈری" کا بھی یہی حال ہے۔ کہیں Laundery لکھا ہے تو کہیں اور Londry یا Landry ۔عربی میں اسے "مغسلہ" یا "تنظیف المبالس" لکھتے ہیں۔ لفظ ملبوسات شاید صرف ہندوستان کی اردو فارسی میں ہے، یہاں لباس کی جمع مبالس ہے۔

کچھ اور ارضیات

ایک چٹّان ہوتی ہے جسے ارضیات کی اصطلاح میں "کانگلومریٹ" (Conglomerate) کہتے ہیں۔ اس کی بناوٹ اس طرح ہوتی ہے کہ مثلاً ندیوں میں جو مختلف قسم کے گول پتھّر (Pebbles) ہوتے ہیں،وہ کسی بھی جگہ جمع ہو کر مٹی وغیرہ سے ڈھک جائیں یا کسی اور طریقے سے ان پتھّروں کی بستگی ہو جائے تو یہ پتھّر بنتا ہے۔ ارضیات میں ہر پتھّر کی خصوصیات اور جغرافیائی حیثیت کے مطابق اس کا نام دیا جاتا ہے۔ جیسے آندھرہ پردیش میں کڈاپہ ضلعے کے رسوبی پتھّروں کوکڈاپہ گروپ کے پتھّر۔ اسی طرح کانگلومریٹ اور دوسرے پتھّروں کو بھی نام دیا جاتا ہے جیسے بنگنا پلّی کانگلومریٹ (بنگنا پلّی اسی مقام کا نام ہے جہاں کے قلمی آم حیدرآباد میں مشہور ہیں۔ یہ مقام جنوبی ہند کی ارضیات میں اپنے کانگلومریٹ کے لئے مشہور ہے)۔

یہ تمہید ہم نے اس لئے باندھی کہ ارضیات کی ایک انگریزی کتاب کا ایک کارٹون یاد آ گیا تھا جس میں ایک ماہرِ ارضیات ایک پرت کا معائنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ "بئر کین کانگلومریٹ"( Beer can Conglomerate) کہ اس پتھّر میں گول پتھّروں کی جگہ بئیر کے ڈبّے بھرے تھے۔ یہ دراصل آج کے کسی سمندری ساحل کے مستقبل کی طرف اشارہ تھا۔ اب سے لاکھوں سال بعد اگر یہاں کی مٹی اس قسم کے پتھّر میں تبدیل ہوگی تو اسے "پےپسی  کانگلومریٹ" کہا جائے گا کیوں کہ یہاں ہر طرف پےپسی اور دوسرے کولڈ ڈرنکس کے ڈِبّے نظر آتے ہیں۔ ویسے یہ بکھرے تو نہیں رہتے کہ سڑکوں کی صفائی کا بہت عمدہ انتظام ہے۔دن بھر صفائی ہوتی رہتی ہے۔ البتّہ یہ اس لئے یاد آیا کہ جس دن ہم نے مکّے میں قدم رکھا، وہاں اور پھر مدینے میں بھی ہر سڑک پر کچھ "حلقے" لگے ہوئے دیکھے۔ ہم پہلے سوچتے رہے کہ یہ کیا شے ہے جس سے سڑک بنانے میں مدد لی جاتی ہے۔ غور کیا تو معلوم ہوا کہ ان کولڈ ڈرنک کے ڈبّوں میں ڈبّہ کھولنے کے لئے ایک حلقہ بنا ہوتا ہے۔ آپ ڈرنک پینے کے لئے اس حلقے میں انگلی ڈال کر کھینچیں تو ایک تکونا حصّہ کٹ جاتا ہے اور ڈِبّہ کھل جاتا ہے۔ صفائی کرنے والے ایک برش اور ایک بڑا "اسکوپ" لئے گھومتے رہتے ہیں۔ بڑے ڈبّے اور پالی تھین پیکٹ اس میں آسانی سے سما جاتے ہیں مگر یہ حلقے چھوٹ جاتے ہیں، گرمی کی وجہ سے سڑک کا کولتار بہتا ہے تو یہ حلقے سڑک میں پیوست ہو جاتے ہیں۔ آنے جانے والی گاڑیاں مزید روڈ رولر کا کام کرتی ہیں۔ سعودی عرب والے کسی سڑک کو ایکسپریس ہائی وے، کسی کو ایکسپریس وے، اور کسی کو محض ہائی وے کہتے ہیں مگر سچ پوچھئے تو ہر سڑک کو "پےپسی کین وے"کہنا بجا ہوگا۔ ہم نے ارضیات کی سرخی لگائی اور پٹری سے اتر گئے۔ مگر دراصل پٹری سے اتر کر اسی سڑک پر چلنے کے لئے ہی ہم نے یہ سرخی لگائی تھی۔ آپ تو سمجھ ہی گئے ہوں گے۔

اب باقی پھر لکھیں گے سوا تین بج رہے ہیں اب عصر کے لئے نکلیں گے۔

...... شیطان کھڑا دام لگائے

11/ اپریل ۔ساڑھے دس بجے رات

 

ہمارے مولانا عبدالکریم پاریکھ صاحب نے جو بات اپنی کتاب "حج کا ساتھی" میں لکھی ہے اس پر ہم کل ایمان لے آئے، مولانا نے لکھا ہے کہ اکثر نماز کے اوقات میں شیطان کسی دوکان دار کی صورت میں کھڑا ہو جاتا ہے اور عام طور پر کسی شے کے نصف دام لگا کر آوازیں لگاتا ہے اور اپنا دام پھیلاتا ہے۔کل ہم یہ روزنامچہ لکھ کر عصر کے لئے نکلے تھے کہ سڑک پار کرتے ہی ایک دوکان میں کھجوروں کی آواز لگائی جا رہی تھی "10 ریال کے تین کلو"۔ اب یہاں یہ جملۂ معترضہ قسم کی بات لکھ دیں کہ اکثر دوکانیں کھلی ٹویوٹا کاروں یا  وینوں میں ہوتی ہیں، بغیر چھت کی۔ صرف ڈرائیور کے سر پر چھت ہوتی ہے اور پیچھے کے حصّے میں جہاں حمل و نقل کے سامان کی جگہ ہوتی ہے، وہاں دوکان سجائی جاتی ہے، کھجوروں کی یہ ایسی ہی دوکان تھی۔ یہ تو ہم لکھ چکے ہیں کہ حرمین میں کھانے پینے کی چیزیں لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس ۔لئے اسی وقت خریدنا بیکار تھا بہرحال کچھ اور آگے بڑھے تو ایک بچّہ چار ریال کی ایک درجن تسبیحوں کی آواز لگا رہا تھا۔ پھر حرم کے قریب ہی ایک حبشی 10۔10 ریال کے "توب" بیچ رہا تھا، وہ بھی پوری آستین کے۔ ہم نے سوچا کہ نماز کا وقت قریب ہے، بعد میں دیکھیں گے کہ عصر اور مغرب کے درمیان سوا دو ڈھائی گھنٹے کا وقفہ ہوتا ہے۔ عصر کے بعد ہم پھر اسی طرف آئے تو نہ وہ توب والا نظر آیا اور نہ تسبیحوں والا۔ البتّہ سفارت خانے کی طرف آئے تو وہی کھجور والا (یا شاید اسی جگہ پر کوئی دوسرا دوکان دار، ہم نے پہلے دوکان دار کی شکل تو اتنی اچّھی طرح نہیں دیکھی تھی) اب 5 ریال فی کلو کھجور بیچ رہا تھا۔ اس وقت تو ہم پھر مغرب کے لئے چلے گئے۔ بعد میں عشاء کی نماز کے بعد ہم نے اسی دوکان دار سے پوچھا بھی کہ بھائی پہلے تو 10 ریال کے تین کلو بیچ رہے تھے۔ اس اللہ کے بندے نے یہ بات قبول کرنے کی بجائے یہ کہا کہ اب 4 ریال کے بھاؤ سے لے لیں۔ ہم نے یہی کیا اور اس طرح شیطان کے داؤ سے محفوظ رہے۔

کچھ کھجوروں کے بارے میں

ویسے مدینے کی کھجوریں تو مشہور ہیں ہی، ان میں ایک عجوہ کھجور بہت مشہور ہے جس کے بارے میں کئی احادیث ہیں اور کہا جاتا ہے کہ کھجور کی یہ قسم آں حضرتؐ نے اپنے ہاتھ سے مدینے میں لگائی تھی اور اس کی قلم کہیں باہر سے آئی تھی۔ آپ نے دو ہی پودے لگائے تھے اور ان سے ہی مدینے بھر میں اور پھر سارے عرب میں یہ قسم پھیل گئی۔ اس کھجور میں کئی بیماریوں کے لئے شفا ہے۔ شاید اسی لئے یہ کھجور بہت مہنگی ہے۔مدینے میں ایک "مرکزی سوق التمر" ( تمر اب کھجور کو ہی کہتے ہیں، خرمہ نہیں۔ یہ بھی شاید لفظ "ثمر" کا بگڑا ہوا تلفّظ ہے جیسا کہ جدید عربی میں "ث" کو "ت" کر دیا جاتا ہے)۔ اس کے بارے میں ہم لکھ چکے ہیں جب ہم اس کا محلِ وقوع ایک دن دیکھ کر آئے تھے۔ ویسے حرم کے مشرق میں جو بازار ہے، اس میں بھی انواع و اقسام کی کھجوریں ملتی ہیں 8 سے لے کر 25 ریال فی کلو تک۔ اس وقت ہم کو ان قسموں کے نام بھی یاد نہیں آ رہے ہیں۔ہم کو سستی کھجوروں کی تلاش تھی کہ وطن زیادہ سے زیادہ لے جا سکیں۔ عجوہ کھجوروں کے لئے بھی مظہر بھائی سے کہہ دیا ہے کہ وہی پہچان کر ہمارے لئے لے لیں۔یہاں پہنچنے کے اگلے دن ہی جب ہم اسرار میاں کی معیت یا رہنمائی میں مدینے کی زیارتیں دیکھنے گئے تھے تو مسجدِ قبا اور شہدائے احد کے بازاروں سے 5 اور 6 ریال فی کلو سے بڑی تازہ تازہ کھجوریں لے لی تھیں، مگر اس وقت ہم کو بازار کے بھاؤ کا کچھ اندازہ نہیں تھا اور خریداری کی مہم شروع نہیں کی تھی۔ اب پچھتا رہے ہیں کہ صرف تین کلو ہی کیوں خریدیں اس دن، اور زیادہ لے لینی تھیں۔ یہاں 8 اور 10 ریال کلو کی بھی کافی سوکھی کھجوریں نظر آ رہی ہیں بازاروں میں۔ کسی دن کوئی اور احد کی طرف جانے والا ملے ورنہ ہم خود ہی "تاکسی" میں جا سکیں تو وہاں سے ہی لے کر آئیں گے، ورنہ پھر بعد میں جدّے میں دیکھیں گے کہ حج کے بعد وہاں بھی جانے کا ارادہ ہے۔ صابرہ کے بہنوئی کے چھوٹے بھائی باقر اور اور ان کے بہنوئی اشفاق بھائی کافی شدّت سے مدعو کر گئے ہیں۔ مسجدِ قبا میں بھی نماز پڑھنے کا ثواب عمرے کے برابر ہے۔ اگر ہو سکا تو اگلے سنیچر کو (شاید اسی دن یہاں سے روانگی ہوگی 40 نمازیں مکمل ہونے کے بعد) کہ وہاں سنیچر کو نماز زیادہ افضل کہی جاتی ہے۔

شرحِ اموات کم ہو گئی ہے

حج و عمرہ کی کتابوں میں اکثر لکھا ہوا دیکھا ہے کہ حرمین میں ..یعنی بیت اللہ اور مسجد نبوی دونوں جگہ اکثر فرض نمازوں کے بعد کسی نہ کسی کی نمازِ جنازہ ہوتی ہے۔ اب آپ سے جھوٹ کیا بولیں۔ ہم کو پہلے نمازِ جنازہ پڑھنی آتی ہی نہیں تھی، خدا بھلا کرے ان حج گائڈس لکھنے والوں کا کہ ان کتابوں سے ہی ہم نے یہ نماز سیکھی ہے۔مکّے میں جو چار دن تھے اور جتنی نمازیں حرم میں ادا کیں، ہر نماز کے بعد نمازِ جنازہ ضرور ہوئی۔ یہاں بھی 6 دن تک وہی معمول چلا ہے۔ مگر کل یہ انہونی بات ہوئی کہ عصر اور پھر مغرب کے بعد بھی کوئی جنازے کی نماز نہیں ہوئی ہے۔ آج بھی عصر اور عشاء کی نمازوں کے بعد یہی ہوا۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کی نمازِ جنازہ حرم میں پڑھی جاتی ہے۔ نہ جانے ان میں کتنے غیر ملکی حاجی بھی رہے ہوں گے۔ ہم شروع سے ہی یہ دعا کرنے لگے تھے کہ اللہ ان حجاج کرام کو موت سے فی الحال محفوظ رکھے کہ بے چارے کم از کم حج تو مکمّل کر لیں۔ شاید قبولیت کے کسی موقعے پر بھی ہم نے یہ دعا کی تھی جو کل سے قبول ہونی شروع ہوئی ہے کہ شرحِ اموات کم ہو گئی ہے۔

خریداری جاری ہے

کل ہم نے عصر کے بعد اکیلے کچھ خریداری کی ہے اور آج ہماری صابرہ بیغم کو بھی ساتھ لے لیا ہے۔ کل کچھ 5۔5 ریال کے سامان کی ایک دوکان دیکھی تھی، وہاں سے انھیں کے لئے ایک پرس یا لیڈیز ہینڈ بیگ (اسے حیدرآباد کی زبان میں "ہیانڈ بیاگ " لکھیں گے)لیا تھا جو قیمت اور کوالٹی کے حساب سے مناسب ہی لگا۔ مگر رات کو صابرہ نے جو غلطی بتائی۔ اس کی طرف ہمارا دھیان نہیں گیا تھا۔ یہ انگریزی حرف "ڈی" کی شکل کا ہے اور ہماری بیغم کا کہنا تھا کہ اس میں سامان کس طرح رکھا جا سکتا ہے۔ جو رکھیں گے، ڈھلک کر بیچ میں آ جائے گا۔ پانی پانی کر گئی ہم کو قلندر کی یہ بات۔ مصرعہ صحیح فٹ نہیں ہوا شاید۔ اقبال تو اقبال ہی ٹھہرے، ان کا واسطہ قلندروں سے ہی پڑا تھا شاید بیغموں سے نہیں۔ بہر حال ہم نے تلافی کی غرض سے کہا کہ ہم 10 اور 15 ریال کی دوکانوں میں بھی پرس دیکھ کر آئے ہیں۔ آج ان محترمہ کو 10 ریال کا ایک پرس پسند آگیا ہے تو وہ بھی لے لیا ہے۔یہ بھی ہر مال 5 اور 10 ریال والی تھی، یعنی نصف چیزیں 5 اور باقی نصف چیزیں 10 ریال کی۔ کل ہم نے اپنے لئے 20 ریال کی اطالوی سینڈل "چپس" چھاپ (Chips) خریدی جو بہت ہلکی پھلکی اور مضبوط معلوم ہوتی ہے۔ آج صابرہ نے بھی چپّلیں دیکھیں مگر ان کو پسند نہیں آئیں۔ البتّہ تحفوں کے لئے کافی سامان خرید لیا جیسے 5 ریال کا ایک "گفٹ سیٹ"(Gift Set)جس میں ایک قلم (بال پین)، ایک تسبیح ایک انگوٹھی اور ایک کیلکولیٹر (Calculator) تھا۔ انگوٹھی پر اس وقت "اے" اور "بی" حروف نظر آئے تھے تو ہم نے ہمارے دوست بشیر میاں کے لئے  ُبی" حرف والی انگوٹھی والا سیٹ لیا۔ اسی شام یاد آیا کہ ہمارے دوسرے دوست ثناء اللہ کے لئے حرف " ایس" کی انگوٹھی والا بھی ایک سیٹ لے لیں۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سیٹ یا کم سے کم انگوٹھی بنانے والوں نے انگوٹھی بناتے وقت تک صرف "سی" تک انگریزی پڑھی تھی۔ کہ ہر انگوٹھی میں یہ تین ہی حروف تھے۔ایک کیلکولیٹر اور لیا۔ دوکان دار سے پوچھا کہ بھائی "سولار"(Solar) ہو تو دکھاؤ، مگر وہ سمجھا نہیں۔ ایک اور خریدار نے ہماری مدد کی ۔ کہا "شمسی۔ شمسی"۔ واہ۔ اتنی سامنے کی بات تھی۔ مگر ہم کو خیال نہیں آیا کہ "شمسی کالکولیتر" کا دوکان والے سے کہیں۔ یہ بھی 10 ریال کا ہے مگر عام قسم کا ہے۔ سائنسی نہیں جس میں کئی Functions ہوں۔صابرہ کچھ لڑکیوں کا سامان بھی دیکھ رہی تھیں۔ 2۔2 ریال کی دوکانوں سے 3 عدد دست بند بھی الگ الگ طرح کے پسند کر کے خرید لئے۔اس کے علاوہ ایک چیز اور نظر آئی۔ کپڑے کی چپّل۔ جو دراصل بیڈ روم سلیپر کہلاتی ہے۔ 2  ریال کی یہ بھی خرید لی ہے۔ اس کا خیال یوں آیا کہ بیت اللہ میں پتھّر کے فرش پر طواف کرنے اور ویسے بھی کافی چلتے رہنے کی وجہ سے ہمارے دائیں پیر میں چھوٹی انگلی کے نیچے Mount پر ایک گٹّہ ہو گیا ہے۔ یہ اب کافی تکلیف دینے لگا ہے۔ ویسے تو ان فرائض اور واجبات کی ادائیگی میں جتنی زیادہ تکلیف ہو، اتنا ہی زیادہ ثواب ہوتا ہے۔ مگر ہم سوچتے ہیں کہ جب اس ثواب کا وزن اتنا ہو جائے گا کہ اٹھائے نہ بنے تو ہم یہ سلپرس استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

تندوری پراٹھے

کل دوپہر کو ہم ایک بات لکھنا بھول گئے تھے۔ تندور پر سننے میں آیا تھا کہ وہاں "بسکوت"اور چپاتی کے علاوہ پراٹھے بھی بنتے ہیں جو ہم نے اب تک نہیں دیکھے تھے۔ کل سامنے کی ہوٹل میں چائے پیتے ہوئے ہم نے دیکھا کہ کچھ لوگ کاغذ میں لپٹے ہوئے خستہ خستہ پراٹھے لے کر آئے اور چائے کے ساتھ کھا رہے تھے۔ہم نے سوچا کہ شاید افغانی تندور میں بھی یہی پراٹھے ملتے ہوں گے۔ چناں چہ کل ناشتے کے لئے ہم اپنے تندور کی طرف گئے تو پوچھا۔ پراٹھے مل تو گئے مگر یہ کسی اور قسم کے نکلے جو چائے کے ساتھ کھانے کے قابل نہیں تھے، انھیں ہم نے دوپہر کے لئے رکھ لیا اور چائے کے لئے ہوٹل گئے تو پھر وہاں سے ہی کیک کے ساتھ ناشتہ کیا۔ اس پراٹھے کو دوپہر کھانے میں کھایا تو پسند آیا۔ اس میں اندر گھی یا تیل کی وجہ سے پتلی پتلی پرتیں بن جاتی ہیں اور کافی نرم ہو جاتا ہے۔ چناں چہ ہم کل سے یہی پراٹھے لا رہے ہیں اور دعا کر رہے ہیں کہ ایسا ہی تندور مکّے میں بھی دریافت ہو جائے ۔ اب پرسوں وہاں واپس جانا ہے۔وہاں مچھلی بھی نہیں نظر آئی تھی۔ یہ تو ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ مدینہ آ کر ہم نے مرغی گوشت چھوڑ دیا تھا۔ ہاں ،ایک بار مچھلی مل گئی تھی۔ آج بطور خاص ڈھونڈھ کر لائے کہ پھر معلوم نہیں کہ "نان ویجی ٹیرین "کھانا کب نصیب ہوتا ہے۔یہاں 3 ریال کی مسلّم مگر چھوٹی تلی ہوئی مچھلی ملی تھی ایک پاکستانی ہوٹل میں ہی۔

...موہے پی کے نگر آج جانا پڑا...

کل رات ہماری رخصتی ہے۔ اس وقت تک 39 نمازیں یہاں پڑھ چکے ہیں اور الحمدُ لِّلہ شاید دو نمازوں کو چھوڑ کر ساری نمازیں جماعت سے ادا ہوئی ہیں۔ کل فجر کے وقت 40 نمازیں پوری ہو جائیں گی جیسا کہ مدینے کے قیام کا قاعدہ ہے اور کل عشاء کے بعد روانگی کا نوٹس لگا دیا گیا ہے ہمارے معلّم کی طرف سے۔ چناں چہ ہم کل اس وقت مکّے کے راستے میں ہوں گے اور احرام میں ہوں گے۔ ایک اور عمرے کا موقعہ ہے۔ ذو الُحلیفہ کی مسجدِ میقات کی بجائے یہاں سے ہی احرام باندھ کر چلیں تو وقت بچے گا۔اگر چہ احرام کی نیت اور واجب نماز ذو الحُلیفہ میں پڑھیں گے، سنا ہے کہ بس والے وہاں غسل اور نماز کے لئے روکتے ہیں۔ اتوار کی صبح مکّے پہنچتے ہی پہلے عمرہ کر لیں گے۔ چناں چہ کل رسولِ پاک سے رخصت ہونا ہے۔ لیکن ہم کو محسوس ہوتا ہے کہ ہم اللہ والے زیادہ ہو گئے ہیں۔ جو حالت ہماری بیت اللہ میں ہوتی ہے وہ بات یہاں نہیں۔ بلکہ خوشی ہی ہو رہی ہے کہ پھر بیت اللہ دیکھنے کا موقعہ ملے گا اور پھر خوب طواف کریں گے۔

کچھ اختلافات

12/ اپریل، 20۔2 بجے دن

 

کل سے ہی ہماری سرائے میں ہمارے ہندوستانی ساتھیوں کو بہت سی مشکلات پیش آ رہی ہیں ، اختلافات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہم بھی اپنے آپ کو بڑا عالم فاضل سمجھتے آئے تھے مگر دو سوالات ہمارے ذہن میں بھی اٹھ رہے ہیں، ان کا ذکر بعد میں کریں گے، پہلے ایک مسئلے کے بارے میں۔

ایک صاحب کا خیال ہے کہ اگر ہم مدینہ پہلے آئے ہوتے اور ذوالحجّہ شروع پونے سے پہلے واپس مکّے جاتے تو ضرور عمرہ کرتے اور اس کے سارے واجبات معہ حلق (یعنی سر کے بال منڈوانے یا کٹوانے ) مکمّل کرتے۔ مگر آج ہی 3 ذوالحجّہ ہے اور حج یا قربانی کرنے والے کو بال کٹوانا منع ہے اس ماہ میں قربانی کرنے تک۔ اس وجہ سے ہم کو یہ عمرہ کرنا ضروری نہیں ہے کہ اس کی ایک شرط مکمّل نہیں کی جا سکتی۔ ہمارے نزدیک بال نہ کٹوانا یا ناخن نہ کاٹنا در اصل سنّت ہے جب کہ عمرے کے لئے بال کٹوانا واجب ہے اور اسے پورا کرنا سنّت پر عمل کی بہ نسبت زیادہ ضروری ہے۔ کہ اس کی اہمیت واجبات سے کم ہی ہے۔ اس لئے عمرہ کرنا بہتر ہے۔البتّہ اس ضمن میں ایک صاحب کا یہ نکتہ ہے کہ واجب عمرہ تو ہم مکّے پہنچتے ہی ادا کر چکے۔ اب سارے عمرے نفلی ہیں اور کرنے ضروری نہیں۔ (ہمارے خیال میں تو آپ جتنی بار بھی حرم کی حدود میں داخل ہوں گے، عمرہ واجب ہی ہوگا)۔ ان کے خیال میں اب جب اس عمرے کی نوعیت جو مدینے سے واپسی میں پھر میقات میں داخلے کی وجہ سے کیا جائے، نفلی ہے تو اس کی شرائط بھی نفلی ہوں گی۔اس لئے کیا بھی جائے تو بال کٹوانے ضروری نہیں۔ مگر یہ دلیل ہم کو قابلِ قبول نہیں۔ آپ نفل نماز کی نیت کریں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے واجبات اب ضروری نہیں رہے۔اسی طرح نماز میں سجدے رکوع نہ کریں یا سورۂ فاتحہ نہ پڑھیں اور ضد کریں کہ یہ نماز نفلی ہے اور اس کا کوئی جز فرض یا واجب نہیں تو کیا اسے نماز کہا جائے گا؟ہمارے "ہم کمرہ" اسمٰعیل صاحب کا ارادہ نہ احرام باندھنے کا ہے اور نہ عمرہ کرنے کا۔ فرماتے ہیں" ایک عمرہ ہو چکا ہمارا، اب بار بار کیوں کریں؟ اب حج ہی کریں گے"۔ خیر یہ صاحب تو اب تک پہلے عمرے کی ہی تھکن اتار رہے ہیں کہ یہاں آتے ہی بیمار پڑ گئے تھے اور مدینے میں یعنی حرم میں ان بیچارے کی اب تک ایک نماز بھی ادانہیں ہوئی ہے۔ حالاں کہ دو تین دن سے ہم کو تو یہ صاحب ٹھیک ٹھاک نظر آ رہے ہیں، اچّھا کھا پی رہے ہیں، سگریٹیں پی رہے ہیں۔ خیر۔

اب ہمارے ذہن میں پیدا سوالات۔ وہ یہ کہ عمرے کا ارادہ تو ہم کر ہی رہے ہیں۔ آج شام کو احرام باندھیں گے اور کل عمرے کا طواف اور سعی کریں گے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ہمارا ارادہ یہ عمرہ اپنی والدہ کے نام سے کرنے کا تھا۔ہمارا خیال ہے کہ آفاقی کے لئے بھی (یعنی جو میقات کی حدود سے باہر رہتا ہو اور جو ہم آج کل ہو گئے ہیں) میقات میں داخل ہونے پر عمرہ واجب ہوتا ہے۔ تو ہم پر بھی یہ عمرہ واجب ہوگا، عام طور پر آپ دوسرے کے نام کا عمرہ کریں تو یہ عمرہ آپ کے لئے نفلی ہوگا اور جس کے نام کا کیا جائے، ان کا واجب پورا ہوگا۔ اب جب کہ یہ عمرہ ہم پر ہی واجب ہے تو دوسرے کے نام کا کس طرح ادا ہو سکتا ہے؟ علماء کے لئے یہ نکتہ قابلِ غور ہے۔ ہمارا ارادہ تو یہ ہے کہ نیّت اس طرح کریں گے کہ ہم پر وجوب پورا ہونے کے ساتھ ساتھ اگر قبول ہو سکے تو یہ ہماری والدہ کی طرف سے بھی مانا جائے۔ ویسے بعد میں ہم ان کے نام کا احتیاطاً اور عمرہ بھی کر لیں گے۔ ایک عمرہ والد کی طرف سے ادا کرنے کا بھی ارادہ ہے۔ حج کے بعد جدّہ بھی جانا ہے جیسا کہ لکھ چکے ہیں اور وہاں سے واپسی میں بھی ایک عمرہ ہوگا، مگر اس کی نوعیت بھی اسی قسم کی ہوگی کہ ہم پر بھی میقات سے گزرنے کے باعث واجب ہوگا۔ مکّے سے بھی اکثر لوگ بطور خاص وہاں کی ایک میقات مسجدِ عائشہ جا کر احرام باندھتے ہیں اور پھر مکّہ آ کر عمرہ کرتے ہیں تو اس طرح بھی یہ لوگ خود پر عمرہ واجب کر لیتے ہیں۔ پھر نفلی عمرہ ہو ہی کس طرح سکتا ہے؟ بہر حال ہم نے اپنے ارادے کا لکھ ہی دیا ہے۔ خدا قبول کرے، ہمارے لئے بھی اور والدین کے لئے بھی۔ البتّہ ہمارا یہ مسئلہ ضرور ہے کہ اس حکم کی نوعیت کیا ہے کہ مکّے کے جوار میں معہ احرام کے ہی داخل ہوں اور عمرہ کریں۔ قرآن میں تو نہیں ہے، اس سلسلے کی احادیث ہی ہوں گی۔ معلوم نہیں کہ اسے واجب کہیں گے یا سنّت۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ محض ایامِ تشریق ( یعنی 8،9، 10 ذوالحجّہ ) میں ہی بال اور ناخن کاٹنا منع ہے یا عشرے کے تمام دس دنوں میں؟ اور اس حکم کی نوعیت کیا ہے، واجب، سنّت یا محض احسن یا افضل۔اگر واجب نہیں جس کا ہمارا خیال ہے تو اس پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں۔

مسجدِ نبوی سے وداع

اب تھوڑی دیر میں ہم عصر کے لئے جائیں گے تب ارادہ ہے کہ مسجدِ نبوی سے وداع لے لیں گے اس لئے کہ عصر کے بعد نہانا دھونا ہے اور احرام کی تیاری کرنی ہے۔ ویسے آج صبح روضۂ پاک پر جانے کا موقعہ مل گیا تھا اور ریاض الجنّۃ میں زیادہ سکون سے 2 رکعت نماز ادا کر سکے تھے۔ اب یہ سمجھ میں آیا ہے کہ ریاض الجنّۃ میں نہ صرف قالین یا جا نمازیں سفید اور سبز رنگ کی ہیں بلکہ اس کے ستونوں پر سنہری اور سرخی مائل بھوری پتھّروں کی ڈیزائن بھی دوسرے ستونوں سے مختلف ہے۔ روضے کا حصّہ ہی قدیم ترین مسجدِ نبوی ہے اس لئے یہ حصّہ ایر کنڈیشنڈ بھی نہیں ہے۔ یہاں لا تعداد پنکھے لگے ہیں جو چلتے رہتے ہیں۔ روضے اور بعد کی نئی عمارت کے درمیان ہی وہ کھلا حصّہ ہے جہاں وہ چھتری کی چھت ہے۔بلکہ ایسے کھلے حصّے دو عدد ہیں۔ کل شام کو ہی ہم نے مغرب کی نماز اس حصّے میں پڑھی اور پہلی بار ان چھتریوں کو بند دیکھا۔ بند صورت میں یہ بھی میناروں کی شکل کی ہیں اور ان پر بھی ویسی ہی سفید اور نیلی دھاریاں ہیں جیسی گنبدِ خضریٰ کے علاوہ دوسرے ستونوں پر ہیں۔

جنّت البقیع میں بھی جانا ہے۔ صبح ہم روضے سے باہر اس طرف نکلے ضرور تھے مگر وہ وقت عورتوں کے لئے مخصوص تھا اس لئے قبرستان کی جالیاں بند کر دی جاتی ہیں اور اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

کبوتر اور بلّیاں

اس علاقے میں کبوتروں کی بہتات ہے ۔ کبوتر ویسے مسجدِ نبوی میں بھی کافی ہیں، مگر یہاں ان کو دانہ ڈال سکتے ہیں، مسجدِ نبوی میں نہیں۔ اس کے لئے ہر طرف گیہوں بیچنے کے لئے عورتیں اور بچّے کھڑے رہتے ہیں۔ ایک ایک ریال اور 5۔5 ریال کے پیکٹ فروخت کرتے رہتے ہیں، اسی طرح حرمِ مکّہ میں بھی دانہ بیچا جاتا ہے۔

کبوتروں کے ذکر پر ہم کو ایک اور بات یاد آ گئی ہے جس کا ذکر کرتے چلیں۔ بلّیاں یہاں گلیوں گلیوں نظر آتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ عربی بلّیاں ہی ہوں گی، قرّۃ العین حیدر یاد آ گئی ہیں، انھوں نے اپنے ایران کے سفر نامے میں (اس کا عنوان یاد نہیں آ رہا، کچھ فارسی میں ہی تھا اور غالباً "آج کل" رسالے میں قسط وار چھپا تھا۔ اس کا ایک "کردار " ہُد ہُد تھا) لکھا تھا کہ ایران میں کسی نے بلّیاں دیکھ کر کہا تھا کہ "دیکھو ایرانی بلّیاں!" تو فاضل مصنّفہ نے جواباً کہا تھا کہ ایران میں ایرانی بلّیاں نہیں تو کیا ہندوستانی بلّیاں ہوں گی؟۔ اب بلّیاں ہیں تو چوہے بھی ضرور ہوں گے اگر چہ ہمارا ان سے واسطہ نہیں پڑا۔ یا ممکن ہے کہ عربی بلّیوں کی غذا کچھ اور ہو یا عربی چوہے کسی اور قسم کے ہوں۔

یہ بلّیاں سڑکوں سے دور رہتی ہیں اور صرف رہائشی علاقوں میں نظر آتی ہیں۔اس پر یہ بھی لکھ دیں کہ اب تک ہم نے کتّا ایک بھی نہیں دیکھا ہے، نہ مکّے میں نہ مدینے میں۔ جدّہ کے ائر پورٹ پر بھی نہیں تھے، شہر تو ہم نے اب تک دیکھا نہیں ہے۔ فرشِ زمین پر کتّے نہیں اور آسمان میں کوّے بھی نہیں یہاں۔ کبوتروں کے علاوہ اور کوئی پرند ہم نے نہیں دیکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ دوسرے پرندے درختوں میں رہتے ہیں جو یہاں مفقود ہیں۔ شاہین اور مردِ شاہین کی بات اور ہے جو بناتا نہیں آشیانہ۔ کبوتر محض روشن دانوں ، چھتوں کے کویلوؤں اور ٹی.وی کے اینٹینا پر آرام کر لیتے ہیں یا ضرورت پڑنے پر گھونسلہ بنا لیتے ہیں، ان کو درخت کی بنیادی ضرورت نہیں ہوتی۔ شاید ان کی حکومت اور ہاؤسنگ بورڈ مجبور کرتا ہو تو گھونسلہ بناتے ہیں یا پھر ان کی "وزارتِ داخلہ"۔ یہاں درخت نایاب نہ ہوں کمیاب ضرور ہیں۔ سڑکوں پر صرف جھاڑیاں ہیں یا پھولوں کے پودے، بڑے پیڑ ندارد۔ ہاں، جدّے کے راستے میں ہم نے ببول اور سرو کے درخت ضرور دیکھے تھے۔

کچھ آج کی تفصیل

آج ہماری فجر کی جماعت نکل گئی کہ صبح 20۔5 پر آنکھ کھلی۔بغیر جماعت کے پڑھی مگر مسجدِنبوی میں ہی کہ 50 ہزار نمازوں کا ثواب تو ملے۔ چناں چہ اٹھ کر ضروریات سے فارغ ہوتے ہی بھاگے تھے۔ پھر فوراً ہی واپس آ کر کافی دیر کمرے پر ہی رہے۔پھر ناشتے کے بعد سوا آٹھ یا ساڑھے آٹھ پر دوبارہ نکلے اور مسجدِ نبوی میں قضائیں پڑھیں، درود پڑھے اور روضے پر سلام کر کے ریاض الجنۃ میں مزید نوافل پڑھ کر بازار کی طرف گئے۔ ایک چپّل اور خریدی اور کھجوریں بھی۔ بھاؤ تاؤ کر کے 5 ریال کلو سے ایک کلو "صغریٰ" کھجوریں 12 ریال فی کلو سے آدھا کلو "صقعی"کھجوریں اور 25 ریال کلو کی "رومانہ"کھجوریں بھی آدھا کلو خریدیں۔ اور دوسرے قسموں کے نام ہیں"لبانا" جو چھوہارے نما ہوتی ہیں سوکھی سوکھی؛ "مبروم" جو پیلے سر کی ہوتی ہیں اور سبزی مائل "خضریٰ"۔ صغریٰ عام قسم کی ہے جیسی ہندوستان میں بھی ملتی ہے۔۔ صقعی سیاہ رنگ کی نرم نرم ہوتی ہے۔ساڑھے دس بجے تک واپس آ گئے تھے۔اس کے بعد سامان باندھنے میں لگے، پھر وہ اختلافی مسائل کی باتیں چلتی رہیں مختلف کیمپوں میں۔ ظہر کی نماز کے بعد کھانے سے فارغ ہو کر ہم ساتھ کی کتابیں دیکھنے لگے کہ کچھ ان مسائل کا حل ملے اور اب یہ روزنامچہ لکھ رہے ہیں۔ صابرہ اب تک آئی نہیں ہیں ۔ ان کا کھانا ان کا منتظر ہے۔ دال اور لوبیا دونوں لائے تھے۔ ہاں، یہ لکھنا ہم بھول گئے تھے کہ دال اور سبزی (اور گوشت) کے علاوہ ان تندوروں میں لوبئے کے بیجوں کا ایک سالن بھی ملتا ہے جس کی دریافت کچھ بعد میں ہوئی۔ یہ ہمارے راجما جیسا اور کچھ ویسے ہی مزے کا سالن ہوتا ہے۔ آج سبزی ختم ہو گئی تھی تو دال اور لوبیا دونوں لے آئے تھے ورنہ پہلے کبھی دال اور کبھی لوبیا لاتے تھے۔ دال مسور کی تھی۔ کبھی بلکہ اکثر چنے کی ملی تھی۔صابرہ اس وقت روضے کے آخری سلام کے لئے گئی ہیں۔ ویسے تو وقت 3 بجے تک رہتا ہے۔ اب معلوم نہیں کہ جلد ہی آتی ہیں یا پھر عصر پڑھ کر ہی۔ یا پھر عشاء کے بعد۔ ان کو عموماً کھانے کی فکر کم ہی رہتی ہے۔

اب انشاء اللہ مکّے میں لکھیں گے عمرہ کرنے کے بعد۔

نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم...

منیٰ۔سنیچر 19/ اپریل، 12 ذی الحجّہ

ساڑھے نو بجے صبح

 

اب ایک ہفتے بعد کاغذ قلم ہاتھ میں آیا ہے، کیا لکھیں، کہاں سے شروع کریں۔ قلم ہاتھ میں لے کر سوچتے رہ گئے ہیں، ایک ہفتے کی داستان لکھی جانی باقی ہے اور یہ ہفتہ بھی ایسا ویسا نہیں جیسا ہمارے اختر الایمان مرحوم کہہ گئے ہیں ؎ نہ کوئی حادثہ گزرا نہ کوئی کام ہوا۔ یہ ہفتہ پر از ہنگام رہا۔ بہت سر گرم بلکہ گرم گرم بھی کہ منیٰ کی آگ کا حادثہ بھی اسی دوران گزرا۔ اب اتنے ہنگاموں کے بعد سکون ملا ہے تو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کیا لکھیں، پہلے وقوعوں کی فہرست بنا لی جائے تاکہ کچھ ہم "فکرِ پُر شور"( یہ Loud thinking کا ترجمہ کرنے کی کوشش ہے ہم نے)کر سکیں:

1۔ مدینے سے 12/ اپریل کو بعد عشاء روانگی

2۔ ذوالحلیفہ میں ایک بجے سے 3 بجے تک مسجدِ میقات میں قیام۔ ہم نے بھی پھر وہاں ہی احرام باندھا۔ اسے پہلے ہم "خلیفہ" پڑھتے تھے،یعنی "خلی فا " بعد میں معلوم ہوا کہ یہ "حُلَیفہ" (Hulaifa)ہے۔

3۔ مکّے میں اسی عمارت رقم 468 میں آمد، 13 اپریل، صبح 11 بجے۔

4۔ عصر کے بعد عمرہ۔ عشاء تک اس سے فراغت۔

5۔14 اپریل کی رات کو ہی حج کے ارکان کے لئے روانگی کا اعلان مگر تیاری کے باوجود روانگی ممکن نہیں۔

6۔ 15/اپریل، 8 ذو الحجہ کو صبح 7 بجے روانگی، منیٰ میں آمد ساڑھے نو بجے صبح

7۔ آتش زدگی، 4 بجے تک افراط و تفریط کا عالم

8۔ اسی شام عرفات کے لئے روانگی۔

9۔ عرفات میں قیام، 16 اپریل، مغرب کے کافی دیر بعد تک۔

10۔ 16 اپریل کی رات، 17/ اپریل کی فجر کے بعد تک مزدلفہ میں قیام۔

11۔ 17 اپریل مزدلفہ سے صبح 7 بجے منیٰ کے لئے پیدل واپسی۔

12۔ قربانی، رمی جمار۔ رات طوافِ زیارۃ کے لئے مکّہ۔

13۔ 18/ اپریل صبح ٤ بجے پھر منیٰ واپس۔ فون کی تلاش کہ ہمارے محفوظ ہونے کی گھر اطّلاع دے دیں۔

14۔ 18۔ کو بھی رمی جمار، منیٰ میں ہی قیام۔

اور آج 19 اپریل کو منیٰ سے ہی آپ سے مخاطب ہیں۔ اوپر کے 14 نکتوں (Points) میں کس سے کتنا انصاف کر سکیں گے، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ پہلے اہم ترین وقوعے کا ذکر ہی کریں۔

رات ساڑھے نو بجے۔ اُس وقت بھی نہیں لکھ سکے اور نہ اس وقت زیادہ موقعہ ہے۔ اب مکّے پہنچ کر ہی لکھیں گے جہاں کل ظہر کے بعد واپسی ہے۔

دیارِ نبی سے جوار بیت اللّہ تک

پہلے کچھ وہ احوال لکھ دیں جس کا ذکر چھوٹ گیا ہے۔ یعنی مدینے سے واپسی سے شروع کریں۔

12/ اپریل کو مسجد نبوی میں عشاء پڑھ کر "مرکزِ سفیر"، ہماری سرائے یا سفارت خانے پہنچے تو دیکھا کہ کئی لوگ سامان کمروں سے اتار کر نیچے لا چکے ہیں اور بسیں بھر رہی ہیں، ہمارا سامان بھی تقریباً تیار ہی تھا، ہاں، کھانا کھانا تھا۔ جلدی سے تندور سے کھانا لے کر آئے۔ صابرہ نے تو کھایا بھی نہیں۔ کہنے لگیں کہ آپ کھائيے، میں سامان رکھواتی ہوں، پہلے یہ بھی معلوم کرنا تھا کہ ہماری بس کون سی ہے۔ مدینے کے پاس یا شناختی کارڈ پر اس کا اندراج کروانا تھا، اس میں بس نمبر لکھا جاتا تو پھر اس بس میں سامان رکھواتے۔ ہم نے جلدی جلدی کھانا زہر مار کیا اگرچہ اتنی جلدی کی ضرورت نہیں تھی، صابرہ بھی کھانا کھا سکتی تھیں۔ بہر حال سامان رکھوا کر ساڑھے دس بجے سفارت خانے سے نکل سکے۔

سفر میں وہی کئی جگہ نقاطِ تفتیش۔ ہر جگہ بس رکی مگر کسی کو اترنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ پھر اسی "مرکز استقبال حجّاج" پر۔ یہاں کچھ اشیائے خوردنی پیش کی گئیں "مدینے کے عوام کی جانب سے آپ کے لئے رخصتی تحفہ" پیکٹ پر تحریر تھا اردو میں۔ ہر پیکٹ میں ایک دودھ کا پیکٹ، ایک شربت کا پیکٹ۔ 8۔10 کھجوریں اور کچھ کیک۔ ایک بجے کے قریب ذوالحلیفہ پہنچے۔

ہاں، بعد میں ہم کو معلوم ہو گیا کہ ہمارا خیال صحیح تھا کہ حرمِ مکہ میں داخلے کا پروانہ احرام ہی ہے جسے عمرہ کر کے ختم کیا جا سکتا ہے یا حج کر کے(اگر آپ 8/ ذی الحجّہ کے بعد مکّے میں داخل ہوں تو)۔ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ کچھ ساتھیوں کا ارادہ نہیں تھا عمرہ کرنے کا اس لئے احرام مکّے میں چھوڑ کر آ گئے تھے۔ جو لے کر گئے تھے ان کا ارادہ تھا کہ سب باندھیں گے تو ہم بھی باندھیں گے۔ ہمارا ارادہ تو تھا ہی باندھنے کا۔ رات ایک بجے بس مسجدِ میقات پہنچی تو پہلے کہا گیا کہ آدھے گھنٹے میں نہا دھو کر احرام باندھ کر واجب الاحرام نماز پڑھ کر بس میں واپس پہنچ جائیں۔ جن کے پاس احرام نہیں تھے ان کو احرام کے حصول کی فکر ہوئی۔ وہ تو شکر کہ وہاں بھی احرام کی دوکانیں تھیں ان کو 15۔20 ریال خرچ کرنے پڑے۔ ہمارا احرام تو حیدرآباد کا ہی تھا اور پہلے ہی عمرے کے بعد دھو کر تیار کر رکھا تھا۔ اس وجہ سے ہم کو دقّت نہیں ہوئی ، لوگوں کو کافی وقت لگا اور پونے تین بجے وہاں سے پھر نکل سکے۔ پھر دو گھنٹے بعد ہی ایک جگہ فجر کے لئے روکی گئی بس۔ یہ جگہ اچّھی نہیں تھی۔ نہ غسل خانے صاف تھے اور نہ پانی کی سہولت۔ ہوٹل کے واش بیسن سے پانی لے کر وضو کیا۔ کچھ لوگ ضروریات سے بھی فارغ ہوئے۔نماز پڑھ کر چائے پی کر چلے تو ساڑھے سات بجے پھر اسی زم زم یونائیٹیڈ آفس کے کامپلیکس میں رکے۔ یہاں بھی بس کافی دیر رکی رہی۔ ہر حاجی کو ٹھنڈے زم زم کی ایک لٹر کی بوتل پیش کی گئی۔ اس کے بعد کافی وقت مکّے میں ہی ہمارے معلّم کے مکتب پر بھی بس رکی اور جب ہم ہماری عمارت رقم 468 پر پہنچے تو 11 بجنے والے تھے۔اس دیر کی وجہ سے ظہر کی جماعت چھوڑ کر ہم نے سامان ٹھیک ٹھاک کیا اور کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر 2 بجے حرم کے لئے عمرے کے ارادے سے نکلے۔وہاں ہی پہلے ظہر ادا کی، اس کے بعد طواف اور سعی۔ اس وقت تک عصر کا وقت نہیں ہوا تھا اس لئے باہر آ کر چائے پی اور پھر عصر کے لئے گئے۔ نماز کے بعد سر پر مشین پھروا کر باہر آ گئے۔ صابرہ کے بال ہم نے ہی کاٹ لئے۔

دو روز میں ہی "شہر" کا "نقشہ" بدل گیا

ہم مکّے پہنچے تو مکّہ اچانک بدلا ہوا لگا۔ یا تو حرم میں ہی نہیں، سڑکوں پر بھی صفائی کا یہ عالم تھا کہ آپ ایک کونے میں کھڑے ہو کر مشاہدہ کرتے تو معلوم ہوتا کوئی صاحب چلتے چلتے پےپسی کا کین سڑک پر پھینک گئے ہیں اور پھر آپ فوراً ہی دیکھتے کہ اس ڈبّے کو میونسپلٹی کا کوئی آدمی (بعد میں معلوم ہوا کہ یہ کام بھی پرائیویٹ کمپنی کے سپرد ہے۔ بلکہ دو کمپنیاں ہیں مکّہ اور مدینہ میں، بِن لادِن اور دلّہ اور یہ کام وہاں کی میونسپلٹی کا نہیں) اپنے بڑے سے کارٹن میں بھر کر اٹھا لے جاتا۔مگر اس بار مکّہ بدلا ہوا لگا۔ دور کی سڑکوں پر تو پھر صفائی دیکھی مگر حرم کے قرب و جوار میں سڑک پر لاتعداد ٹوٹی ہوئی پانی کی بوتلیں اور کولڈ ڈرنکس ،بوتلیں اور" ٹیٹرا پیک " (Tetrapack، ہندوستان کی ُفروٹی "قسم کے) پیکٹس۔ فٹ پاتھوں پر بھی لوگ چٹائی بچھا کر کیمپ کئے ہوئے نظر آئے۔ غسل خانوں کی راہداریوں میں بھی ہر طرف کیمپ تھے۔ یہ آس پاس کے حاجی تھے غریب غرباء۔ ۔بس ایک ُحاجی چٹائی" جس میں ایک ہوائی تکیہ بھی سلا ہوتا ہے، بچھائی، سرہانے اپنا تام جھام رکھ لیا، اور سو رہے۔ ہم کو اپنا ہی شعر یاد آ گیا ؎

اٹھا اور اٹھ کے ترے کوچے میں ہی جادہ کیا: سفر تو پاؤں میں تھا، اہتمام کیا کرتا

اور ؎

یہی بہت ہے شکم پُر ہے اور تن پہ لباس: ترے بغیر میں کچھ تام جھام کیا کرتا

نماز کی جماعت ہوئی، انھیں چٹائیوں پر صفیں بن گئیں قبلہ رخ۔ ورنہ جس طرح بچھانے کی جگہ ملی، ویسی ہی بچھائی گئیں۔ یہاں وہ امراء بھی تھے جن کو کسی ہوٹل میں جگہ نہ مل سکی تھی۔ کچھ اس قسم کے زایرین کی کاریں بھی تھیں جو سڑک پر پارک تھیں، کاریں نہیں بلکہ جنہیں انگریزی میں کارواں کہا جاتا ہے کہ لوگوں کی انھیں میں رہائش تھی۔

حرم میں بھی ہر طرف بے حد بھیڑ۔ پہلے ہی دن ہم چاہ رہے تھے کہ اس طرح صف میں بیٹھیں (جیسے پہلے کوشش کرتے تھے) کہ صابرہ عورتوں کی صف میں آگے ہوں اور ہم مردوں کی صف میں آخر اور ان سے قریب کہ بعد میں آسانی سے ساتھ ساتھ نکل سکیں۔ مگر ممکن نہ ہوا۔ عورتوں کے لئے جگہ بنانے کی کوشش میں بار بار اٹھا دئے جاتے یہاں تک کہ سیڑھیوں پر بیٹھنے کی نوبت آ گئی تو ہم اوپر ہی چلے گئے۔ نماز پڑھ کر کافی دیر رکے بھی کہ بھیڑ چھٹ جائے اور جب ساڑھے سات بجے نکل سکے تب بھی سڑکوں پر بھیڑ کا وہ عالم تھا جیسے ابھی جماعت ختم ہوئی ہے۔یہاں سے وہاں تک نئی نئی دوکانیں۔ اور مہنگائی بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ اب حجامت کو ہی لیجئے۔ پہلے دن جب ہم نے ہندوستان سے مکّے پہنچ کر پہلا عمرہ کیا تھا تو مشین سے بال کٹوانے کے تین ریال دئے تھے، تب ہی معلوم ہوا تھا کہ استرے سے بال منڈوانے کے 5 ریال اور محض قینچی سے بال کٹوانے کی اجرت ایک ریال ہوتی ہے۔ مگر اس دن، 6 ذی الحجّہ کو مدینے سے واپسی کے بعد کے عمرے کے بعد سر پر مشین پھروائی تو 5 ریال دئے۔ حجامت کی اجرت اب تین اور استرے کی اجرت 10 ریال تھی۔ ہمارا ارادہ استرے سے ہی منڈوانے کا تھا مگر حجّام صاحب کو مہلت نہ تھی، کہنے لگے کہ یہ نیک ارادہ ہو تو 12 بجے کے بعد آئیے۔

عذاب النّار

ویسے تو 8/ ذی الحجہ کو فجر کے بعد منیٰ کے لئے روانہ ہونا چاہئے تھا کہ وہاں اس دن ظہر سے اگلی صبح فجر تک کی پانچ نمازیں پڑھنے کی سنّت ہے مگر کیوں کہ زائد پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اس لئے اکثر معلّم حضرات بعد میں رش سے بچنے کے لئے ایک رات پہلے ہی پہنچ جانے کا اہتمام کر تے ہیں۔ ایسا ہی ہمارے یہاں اعلان کیا گیا، یعنی کہ اب احرام باندھ لو۔ عموماً لوگ کمر کس کر تیار ہوتے ہیں، حج کے لئے احرام کس کر تیار ہونا تھا۔ ہم نے سوچا کہ بس آ جائے گی تب ہی احرام باندھیں گے۔ حرم سے سرِ شام ہی نہا دھو کر آ گئے تھے۔سامان تیار تھا۔ بس احرام باندھ کر 2 رکعت نماز واجب الاحرام ادا کر کے نکل جانا تھا۔ مگر بسیں نہیں آئیں ، یہی ڈر تھا ہمیں ہمیشہ۔ رات کو 3 بجے معلم کے کارکن آئے کہ بسیں آ رہی ہیں۔ اس وقت یہ لوگ منیٰ کے خیموں کے نمبر بھی الاٹ کر گئے۔ مگر بسیں آئیں تو ٹھیک ساڑھے سات بجے۔ ہم لوگ کمروں پر ہی فجر کی نماز پڑھ چکے تھے۔ جلدی جلدی ناشتہ کیا، وضو کیا، احرام باندھا، نماز پڑھی اور گاڑیوں میں بیٹھ گئے۔ٹریفک کا رش بہت تھا راستے میں چناں چہ یہ 9 کلو میٹر کا راستہ ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوا یعنی پونے آٹھ بجے نکلے تو سوا نو بجے منیٰ اپنے کیمپ پہنچ سکے۔

 

20 /اپریل ۔صبح پونے سات بجے

منیٰ میں ایک ایک خیمے میں 25۔30 لوگوں کا انتظام تھا مگر جو لوگ پہلے پہنچ چکے تھے انھوں نے اپنی چوڑی چوڑی چادریں اور چٹائیاں پہلے ہی بچھا کر (15۔20 لوگوں نے ہی) پورے پورے خیمے بھر لئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہاں جگہ نہیں ہے، دوسرے خیمے میں جائیے۔ ہمارا خیمہ نمبر 117 تھا ۔ یہ لوگ کہہ رہے تھے کہ اسی نمبر کا کوئی دوسرا خیمہ بھی ہوگا جس میں ہماری رہائش کا انتظام ہوگا الاٹمنٹ کے مطابق۔ ہمارے مکتب نمبر 53 کے آدمی بھی وہاں تھے اور یہ واقعی ہمارے مکتب کا ہمارا ہی خیمہ تھا۔ بہرحال جگہ بنائی گئی۔

صبح ہم تو ناشتے کے ساتھ چائے پی چکے تھے، صابرہ نے نہیں پی تھی، اس کے لئے پھر باہر نکلے۔ صابرہ نے کہا کہ دوپہر کے لئے بھی کچھ کھانا خرید ہی لاؤں۔ یہ کام کیا۔ ہم نے بھی چائے پی۔ اسی میں 11 بج گئے۔اب ظہر کے لئے وضو کی تیاری کرنے کے لئے خیمے سے باہر نکلے۔ کچھ لوگوں کا مسجدِ نمرہ جانے کا ارادہ تھا۔ ہم بھی اس میں شامل تھے۔اگرچہ صابرہ کے لئے ہم اس کے حق میں نہیں تھے۔ بہر حال غسل خانوں کی طرف نکلے تو جنوب کی جانب دھواں نظر آیا۔ فوراً پتہ چل گیا کہ کہیں آگ لگ گئی ہے۔اس صورتِ حال کی اطّلاع دینے پھر اندر خیمے میں گئے تو پتہ چلا کہ صابرہ بھی عورتوں کے غسل خانوں کی طرف نکل گئی ہیں۔کچھ دیر خیمے میں ان کا انتظار کیا۔ اس اثناء میں باہر انتشار کی آوازیں آنے لگیں۔ ہم بھی پھر باہر نکلے اور حالات کا جائزہ لینے لگے۔ ادھر لاؤڈ سپیکر پر اعلان ہونے لگا کہ آگ ضرور لگ گئی ہے مگر اس پر قابو پایا جا رہا ہے۔ سب لوگ اپنے خیموں سے باہر نہ نکلیں اور پریشان نہ ہوں۔ اور یہ بھی کہ سب لوگ دعا کریں۔ بیچ بیچ میں خیمے میں جا کر صابرہ کو بھی دیکھتے رہے مگر وہ نہ جانے کہاں غائب تھیں۔ جیسے ہی صابرہ ملیں، ہم نے ارادہ ظاہر کیا کہ باہر نکلا جائے۔ مگر اسی وقت پھر اعلان ہوا کہ آگ پر قابو پا لیا گیا ہے، ہم لوگ سکون سے اپنے خیموں میں رہیں۔ چناں چہ ہم نے سامان جو ہاتھوں میں اٹھا لیا تھا، پھر رکھ دیا ۔ چٹائیاں بھی اٹھا لی تھیں وہ پھر بچھا دیں کہ جگہ پر قبضہ نہ ہو جائے۔ اور باہر آ کر حالات پر غور کرتے رہے۔ کبھی واقعی محسوس ہوتا کہ آگ کم ہو گئی ہے مگر پھر فوراً ہی نزدیک ہی کہیں اور دھواں دکھائی دیتا۔ہم کو خیموں کی آگ کا تجربہ تھا۔ ہماری ٹریننگ کے دوران ہم نے رائے پور میں محض 2۔3 منٹ میں پورا بڑا خیمہ راکھ ہوتے دیکھا تھا۔ ہم جیالاجسٹ لوگوں کو خیموں میں رہنے پر کتنی احتیاط کی ضرورت پڑتی ہے، اس کا ہمیں پتہ تھا مگر لوگوں کو اندازہ نہیں تھا۔ بلکہ کل تک اس ہولناک آتش زدگی کے باوجود لوگ خیموں کی دیواروں سے لگ کر بیڑی سگریٹ پیتے ہوئے نظر آئے اور باز نہ آئے۔ بہر حال اس وقت بھی یہی اعلان ہوتا رہا کہ ہراس کی ضرورت نہیں، مگر ہم نے فیصلہ کیا کہ باہر نکل جانے میں ہی عقل مندی ہے۔ چناں چہ ہم نے اب چٹائیاں بھی وہیں چھوڑیں۔ دال روٹی جو لے کر آئے تھے اس کا پیکٹ بھی چھوڑ دیا اور محض اپنے تین عدد بیگ اور پانی کی تھرمک بوتلیں لے کر سکون سے باہر آ گئے۔ اس وقت ہمارے خیمے میں کوئی نہیں تھا۔ سب کا سامان اندر ہی تھا یعنی کسی نے خیمہ خالی نہیں کیا تھا مگر سب حالات کا جائزہ لینے باہر ہی تھے۔ جب ہم باہر آئے تو پتہ چلا کہ افراط و تفریط کا کیا عالم ہے۔ جنوب مشرق کی طرف جہاں آگ لگی تھی، وہاں سے سب شمال مغرب کی طرف بھاگ رہے تھے۔ مکّے کی سمت۔ ہم بھاگے نہیں ہوش مندی اور سکون سے چلتے رہے۔خدا کے فضل سے ہم دونوں عقل مند واقع ہوئے ہیں۔ ابھی منیٰ آئے ہوئے گھنٹہ بھر ہی ہوا تھا اس لئے جغرافیہ اور راستے معلوم نہیں ہوئے تھے۔ اسی وجہ سے ہم باہر نکل کر راستوں کے مخصوص نشانات (Landmarks) دیکھتے ہوئے چلے کہ واپسی میں بھٹکیں نہیں۔ مگر جو لوگ واقعی جان بچا کر بھاگے تھے ان کا عالم دوسرا ہی تھا۔ ساری سڑک پر بھاگنے والوں کے جوتے چپّلیں، چھاتے۔ احرام اور عورتوں کے دوپٹّے تک پڑے ہوئے ملے۔ گرمی کے باعث کچھ عورتیں بے ہوش ہوتی رہیں۔ کوئی ڈیڑھ کلو میٹر آگے جانے پر ایک سایہ دار راستہ نظر آیا( اس وقت تک جغرافیہ معلوم نہ تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ شیطان تھے جہاں کنکریاں مارنے کے لئے دو منزلہ فلائی اوور بنائے گئے ہیں۔ یہ اسی فلائی اوور کی چھت تھی۔ یہیں سے مکّے کے لئے انڈر گراؤنڈ راستہ بھی جاتا ہے جس پر لوگ پیدل منیٰ آتے جاتے ہیں) سوچا یہاں پناہ لی جائے کہ یہاں خیموں کی قطاریں ختم ہو گئی تھیں اور اس طرح آگ کے وہاں تک پہنچنے کا سوال ہی نہ تھا۔ مگر یہاں پولس سائے میں یعنی چھت کے نیچے داخل ہونے نہیں دے رہی تھی۔ اس کی وجہ بھی بعد میں معلوم ہوئی۔ انھیں راستوں سے ایمبولینس اور پولس کی گاڑیاں دوڑ رہی تھیں اور اگر بھاگنے والے یہ راستہ بھی بند کر دیتے تو فلاح کے کاموں میں اور مشکل پیدا ہوتی۔ فائر انجن بھی گزر رہے تھے۔ کچھ دیر یہاں رکے مگر پھر اور آگے چلے کہ کہیں اور سائے دار جگہ ملے تو وہاں رکیں۔ آگے جانے پر معلوم ہوا کہ یہ جمرات کا علاقہ ہے۔ جب تینوں شیطان پار کر لئے تو ایک بورڈ پر نظر پڑی۔"نہایۃ مِنیٰ " انگریزی میں Mina ends here ہم وہیں رک گئے کہ اس سے آگے تو جائیں گے نہیں۔ معلوم نہیں تھا کہ وہاں کب تک رکنا پڑے۔ منیٰ کا قیام ضروری ہے کہ یہ حج کے واجبات میں سے ہے۔ اگرچہ ضرورت ہو تو تھوڑے وقت کے لئے باہر جا سکتے ہیں مگر زیادہ دیر تک نہیں۔کچھ دیر دھوپ میں کھڑے رہے۔ اس عرصے میں غالباً الجزائر کی ایک عورت کو غش آ گیا تو اسے سائے میں لِٹانے کے لئے لوگوں نے منّت سماجت کی۔ پولس تب بھی نہ مانی تو لوگوں نے ایک ریلہ بنایا اور پولس ،جو ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے اور ڈنڈے پکڑے گھیرا ڈال کر کھڑی تھی، کی قطار کو دھکیل کر سائے میں بیٹھ گئی۔ پولس کو ہار ماننی پڑی۔ ہم کو بھی سکون ملا۔ ہم لوگ پونے بارہ بجے اپنے خیمے سے نکلے تھے اور اس ڈیڑھ کلو میٹر کی دوری تک پہنچنے میں 2 بج گئے تھے۔ پانی کی بوتلیں بھی خالی ہو گئی تھیں ۔ 3 بجے سے ہم نے دیکھا کہ لوگوں نے واپسی کے لئے حرکت کرنی شروع کر دی۔ کچھ لوگوں نے وہاں ہی مختصر جگہ میں ظہر کی نماز شروع کر دی۔ ہم لوگ بھی دس منٹ بعد ہی اٹھ گئے اور واپسی کا سفر شروع کیا۔ یہ بھی ایک ریلہ تھا مگر 2 بجے تک آگ سے بچ کر بھاگنے والوں کی بھیڑ ختم ہو گئی تھی۔ اس لئے اب یک طرفہ "ٹریفک" ہی تھا۔ اس ریلے کو بھی پولس نے جگہ جگہ روک کر پو لس اور ایمبولینس کی گاڑیوں، فائر انجنوں اور پانی کے ٹینکروں کی آمد و رفت کے لئے جگہ بنائی۔جب اس علاقے میں پہنچے جہاں سے خیمے شروع ہوتے تھے تو دیکھا کہ اس سڑک (سوق العرب) پر بالکل آخر کی لائن کے ایک آدھ کیمپ کے خیموں کو چھوڑ کر سب راکھ ہو چکے تھے۔ سامان سڑکوں پر بکھرا پڑا تھا، کچھ جلا ہوا ، کچھ ادھ جلا۔ ہر طرف کیچڑ پانی کی وجہ سے۔ غالباً سامان کو بچانے کی نیّت سے باہر پھینکا گیا تھا مگر لوگوں کی آمد و رفت کے باعث یہ اب قابلِ استعمال نہ رہا تھا۔ ہم بھی لوگوں کے جوتے، چپّلیں، کپڑے، احرام، واٹر باٹلس، جا نمازیں، چٹائیاں، بیگ اور سوٹ کیسوں تک کو روندتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ ویسے ہر کیمپ میں آگ کے خطرے کے پیش نظر اونچے اونچے میناروں(Towers) میں بڑے بڑے پانی کے نل لگے تھے۔ سڑکوں کی دونوں جانب بھی فوّارے تھے جو در اصل فضا کو ٹھنڈا رکھنے کے مقصد سے استعمال کئے جا رہے تھے، ان سب کا پانی بھی استعمال کیا گیا ہوگا اور پھر فائر انجنوں اور ٹینکروں سے بھی پانی ہر طرف چھڑکا گیا تھا، کچھ حفاظت کی غرض سے بھی۔ ہر طرف آگ بجھانے والے سلنڈر بھی لگے تھے۔ اپنی پناہ گاہ سے ہم نے ہیلی کوپٹروں کو بھی کچھ کیمیائی شے چھڑکتے ہوئے دیکھا تھا۔غرض انتظام میں کوئی کمی تو نہیں تھی، مگر ہونی کو کون روک سکتا ہے۔جب اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے تو ہو کر ہی رہتا ہے۔ حکومت اور انتظامیہ کو برا بھلا کہنا بھی غلط ہے۔

ہم راستے میں خیموں کی حالت دیکھ کر وہی حالت اپنے خیموں کی بھی تصوّر کر رہے تھے۔ مگر جب ہم ہمارے مکتب نمبر 53 کے کیمپ پہنچے تو عجیب صورتِ حال تھی۔ ہمارے بلاک کے خیموں کو آگ نے چھوا بھی نہیں تھا۔ اس کے دونوں طرف کے خیمے پوری طرح جل چکے تھے۔ درمیان میں غسل خانوں کی ایک پکّی عمارتوں کی قطار تھی، اس کے ایک ہی طرف عذاب نازل ہوا تھا۔ بایئں طرف کے سارے خیمے محفوظ تھے۔ اس بلاک کے 10۔12 خیموں کو صرف یہ نقصان پہنچا تھا کہ آگ بجھانے بلکہ آگ سے حفاظت کے لئے اوپر سے پانی چھڑکا گیا تھا، اس وجہ سے چھتیں بھاری ہو کر یہ خیمے گر گئے تھے یا باقاعدہ گرا دئے گئے تھے۔ ہم کو اپنا خیمہ ڈھونڈنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی (اور نہ اس سے پہلے اپنے کیمپ کا راستہ ڈھونڈنے میں۔ اکثر لوگ اس افراط و تفریط میں بھٹک بھی گئے تھے) اندازے سے خیمے کا کپڑا اٹھا کر دیکھا تو ہماری چٹائیاں بھی محفوظ تھیں۔ ہمارا صرف اتنا نقصان ہوا کہ دال روٹی کا پیکٹ دب کر پھٹ گیا تھا اور کھانا بکھر گیا تھا جس سے چٹائیاں خراب ہو گئی تھیں۔ آتے ہی ہم نے اپنے معلّم کے ایک کارکن سے(جو عرب ہی تھا مگر انگریزی داں) آتش زدگی کا احوال پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ جانی نقصان کچھ نہیں ہوا ہے۔ حالاں کہ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ محض جھوٹی تسلّی تھی کہ لوگ ہراساں نہ ہوں۔

ہمارے خیمے کے لوگوں میں ہم ہی پہلے پہنچے تھے۔ محبوب نگر کے جو تینوں صاحبان تھے یعنی مظہر بھائی، جبّار بھائی اور ستّار بھائی، ان کا اور ان کی بیویوں کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ ہاں، صبح ہی مظہر بھائی کے دو بیٹے اور ان کی بیویاں ریاض سے حج کے لئے وہاں پہنچے تھے مگر ان کا مکتب دوسرا تھا، مگر وہ لوگ صبح اپنے والدین کے ساتھ ہی تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں جبّار بھائی اور ان کی اہلیہ فاطمہ بھی آ گئیں تو ہم لوگوں نے خیمے کی چھت پر ہی ظہر کی قضا اور عصر کی نماز پڑھی۔ ویسے کچھ مسلکوں میں سفر میں ظہر اور عصر کی نمازیں ملانے کی اجازت ہے۔ ایسے ہنگامی حالات میں تو یقیناً اس کی اجازت ہونی چاہئے، اس لئے ظہر کی قضا بھی امید ہے کہ اللہ کے نزدیک وقت پر ہی یعنی ادا مانی جائے گی۔وہ تو یوں بھی نیت ہی پہلے دیکھتا ہے۔

ادھر اعلان ہونے لگا کہ کیوں کہ یہ علاقہ رہائش کے لئے ٹھیک نہیں رہا ہے اس لئے سب لوگوں کو ابھی عرفات لے جایا جائے گا۔ وہاں جو اگلے دن کی رہایش کے انتظامات تھے وہ مکمل کر لئے گئے ہیں۔جو لوگ تیار ہیں اور جن کا سامان مل گیا ہے وہ چاہیں تو مزدلفہ تک پیدل چلے جائیں کہ وہیں بسیں کھڑی ہیں۔ فی الحال منیٰ میں ٹریفک کی وجہ سے بسوں کا آنا ممکن نہیں۔ حالاں کہ ہمارا سامان تو محفوظ تھا اور ہم بھی محفوظ تھے، مگر ہم ساتھیوں کے منتظر رہے۔ ساڑھے پانچ بجے کے قریب مظہر بھائی ، ان کے بیٹے بہو ،اور ستّار بھائی آئے۔ معلوم ہوا کہ انھوں نے بالکل دوسری سمت میں پہاڑ کے اوپر پناہ لی تھی۔ اور وہاں کافی جگہ تھی۔ مظہر بھائی اپنی بیوی اور ستّار بھائی کی بیوی صفیہ کو وہیں چھوڑ کر آئے ہیں اور ان کا ارادہ اپنی طور پر اگلی صبح ہی عرفات جانے کا ہے۔ ہم ان سے کہہ رہے تھے کہ وہ لوگ سب کو یہاں ہی لے آئیں اور یہاں سے ساتھ ہی سب عرفات کے لئے نکلیں، مگر ان کا کہنا تھا کہ ہم بھی ان کے ساتھ ہی جائیں۔ ان کا دراصل خیال تھا کہ ابھی ہی عرفات کے لئے روانہ ہونے میں منیٰ کے قیام کی شرط پوری نہ ہوگی۔ ہمارے معلم کے انھیں کارکن نے ہم کو اور دوسروں کو حدیث سنائی بھی کہ اصل حج عرفات کا قیام ہے، منیٰ کا قیام محض سنّت ہے اور ان حالات میں سنّت کو چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ہمارا بھی یہی خیال تھا۔ مظہر بھائی مگر یہاں پانچ نمازیں پوری کرنے کا ارادہ ہی رکھتے تھے، چاہے کتنی ہی تکلیف کیوں نہ ہو۔ بہر حال پھر دونوں حضرات اپنی بیویوں کو بلانے چلے گئے، مظہر بھائی کی بہو کو ہمارے پاس ہی چھوڑ دیا گیا۔ مگر سات بجے تک ان لوگوں کا پتہ ہی نہیں تھا۔ مغرب سے کیمپ کی طرف ہی بسیں بھی آنی شروع ہو گئی تھیں۔ ہم سب فکر مند تھے کہ مظہر بھائی وغیرہ کیوں نہیں آئے اور ہم ان کا انتظار کریں یا نہیں۔ فکر یہ تھی کہ کہیں مظہر بھائی ہی وہ جگہ تو نہیں بھول گئے ہیں جہاں عورتوں کو بٹھا کر آئے تھے، یا پھر کارکنوں نے عورتوں کو وہاں سے ہٹا دیا ہو اور وہ کہیں اور چلی گئی ہوں۔ آخر وہ دونوں حضرات ہی آئے کہ ان دونوں کے خاندان کو اچھّی جگہ مل گئی ہے اور انھوں نے اپنا کیمپ تو بنا لیا ہے مگر شاید ہم سب بھی وہاں پہنچ جائیں تو جگہ تنگ ہو سکتی ہے۔ اس لئے ہم چاہیں تو بسں میں چلے جائیں۔ وہ لوگ صبح فجر پڑھ کر ٹیکسی سے عرفات پہنچ جائیں گے۔ ہمارے پاس ایک بیگ کچھ وزنی بھی تھا، اس لئے بھی ہم نے وہاں بسوں سے ہی اور اسی وقت عرفات جانے کا طے کر لیا۔ 7 بجے سے ایک کے بعد ایک بسیں آ ہی رہی تھیں۔ 8 بجے کے قریب ہم بھی ایک بس میں بیٹھ گئے، اگرچہ منیٰ کیمپ میں ابھی بھی افراتفری کا عالم تھا، کسی کا شوہر ابھی تک نہیں پہنچا تھا تو کسی کی بیوی۔ بیشتر اپنے کیمپ کا پتہ بھول گئے تھے۔ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی جن کو اپنے کیمپ کا نمبر تک معلوم نہ تھا۔ جو پہنچ گئے تھے، ان کو اپنا سامان نہیں مل رہا تھا۔ مظہر بھائی کے بیٹوں کے کیمپ کا نمبر 54 تھا، ان کو اپنا بیگ ملا ضرور مگر مکمل جلا ہوا۔ ان کا کچھ سامان محفوظ نہیں رہا تھا۔ بہر حال ہم تو رات ساڑھے نو بجے تک عرفات پہنچ گئے تھے، مگر لوگوں کی آمد اگلے دن دوپہر 2۔3 بجے تک بھی جاری تھی جب کہ عرفات فجر کے فوراً بعد پہنچنا چاہئے تھا۔ وہاں ظہر اور عصر کی نمازیں ملا کر پڑھنی ہوتی ہیں اور پھر غروب آفتاب کے بعد اور عشاء سے پہلے مزدلفہ کے لئے نکلنا ہوتا ہے جہاں عشاء پڑھنے کا حکم ہے اور رات بھر جتنی عبادتیں ہو سکیں۔

جس وقت ہم عرفات پہنچے تب تک بہت ہی کم لوگ وہاں پہنچ سکے تھے۔ اس کے علاوہ کیوں کہ وہاں رات کا قیام نہیں ہوتا ہے اس لئے روشنی کا بھی معقول انتظام نہیں تھا۔ ویسے خیموں کے باہر راستوں کی روشنیاں ، جو شاید ہمیشہ ہی رہتی ہوں گی، جل رہی تھیں۔ کیوں کہ یہ خیمے کھلے ہوئے تھے، یعنی چھتیں تھیں مگر چاروں طرف دیواریں نہیں، اس لئے تھوڑی روشنی تو تھی۔ مگر اُس وقت تک پانی کا انتظام صحیح نہیں ہو سکا تھا۔ کم از کم پینے کا۔ ہاں، وضو کے لئے نلوں میں پانی تھا۔ جب سکون ملا تو ہم نے عشاء کی نماز پڑھی اور پھر باہر نکلے۔ اگر چہ امّید تو نہیں تھی کہ وہاں کھانا مل سکے گا۔ باہر آ کر دیکھا تو کچھ لوگ روٹی سالن لے کر آتے ہیں مگر جو لوگ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں تو دو منٹ میں صفایا ہو جاتا ہے۔ کچھ دیر تو ہم نے بھی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ہوئی۔ ہاں، کچھ بنگلہ دیشی خیموں میں ہی چائے لے کر آئے تو وہ ہم نے پی، رات کے 11 بجے، یعنی پورے بارہ گھنٹے بعد کچھ پیٹ میں گیا۔ (11 بجے صبح ہم نے چائے پی تھی، صبح 7 بجے مکّے سے ناشتہ کر کے نکلے تھے)۔ چائے ایک ایک ریال کی ہی تھی مگر عموماً ملنے والی مقدار سے نصف۔ شاید خالی پیٹ رہنے کی وجہ سے ہمارے سر میں بھی درد ہو رہا تھا۔ صابرہ تو فوراً سو گئیں، ہم ہی ٹہلتے رہے کہ سر درد کی حالت میں ہم سے لیٹا ہی نہیں جاتا۔

 

(تحذیر، توقّف متکرّر۔ رات 50۔9، 20 اپریل کی رات ہی۔)

رات کو ایک بجے پانی تو نہیں البتّہ برف کی ایک گاڑی آئی۔ پالی تھین پیکٹس میں یہ " مکعبات الثلج" (Ice Cubes) تھے ہم بھی لے کر آئے اور واٹر باٹلس میں بھر لئے۔ پہلے تو انھیں کو چوس کر پیاس بجھاتے رہے۔ جب کچھ پگھل گئے تو اس کا پانی پیا۔ اسی اثناء میں خیموں کے باہر تھرمک جگس بھی رکھ دئے گئے مگر دیکھا کہ انتظامیہ والے برف کے کیوبس میں وضو والا پانی ملا کر جگ بھر رہے ہیں۔ ہم خواہ مخواہ رات ڈیڑھ بجے تک پیاس برداشت کرتے رہے۔رات ڈھائی بجے پھر ایک بار چائے پی۔آخر کسی طرح نیند آنے لگی تو ہم ساڑھے تین بجے لیٹے۔ 4 بجے کے قریب سوئے ہوں گے کہ سردی کی وجہ سے سوا پانچ بجے آنکھ کھل گئی۔ فجر کے لئے اٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں ہی صابرہ بھی اٹھ گئیں۔ نماز کے بعد ناشتے اور کھانے پینے کے انتظام کے لئے باہر نکلے کہ پچھلی صبح ناشتے کے بعد سے کچھ کھانے کو نہیں ملا تھا۔خریدنے کو تو صرف چائے ہی تھی۔ البتّہ ایک جگہ چھاچھ مفت بنٹ رہی تھی۔ اس کے پیکٹ تھے جس پر لکھا تھا " لبن طازج" انگریزی میں بھی Fresh Laban لکھا تھا۔ یہاں چھاچھ کو ( جسے اپنے یہاں بٹر ملک (Butter Milk) کہتے ہیں، تیلگو میں " مجھّگا " اور کنّڑ میں" مجھّگے ") لبن ہی کہتے ہیں۔ یہ دراصل نمکین چھاچھ ہوتی ہے۔یہی جمع کر کے لائے۔تھوڑی دیر بعد ایک گاڑی بھی آئی جس میں آلو گوشت کا سالن اور روٹی تھی۔ یہ خرید سکے اگرچہ بھیڑ کی وجہ سے پہلے شک تھا کہ شاید یہ بھی ہمیں ملنے سے پہلے ختم ہی ہو جائے۔ہم اگرچہ ناشتے میں سالن وغیرہ نہیں کھاتے ہیں، بس، نخرے ہی ہیں کہ صرف میٹھا کھاتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ آملیٹ۔ اس وقت مجبوراً نہ صرف وہ گوشت کا سالن کھایا بلکہ اب تک جو ذبیحے میں شک کی وجہ سے گوشت مرغی سے پرہیز کر رہے تھے اسے بھی بالائے طاق رکھ دیا۔آخر چوبیس گھنٹے سے چائے کے علاوہ کچھ نہیں کھایا تھا۔ بعد میں ایک بار اور " لبن" ملی۔(یا ملا۔ اس کی تذکیر و تانیث کے بارے میں ہمارا علم خاموش ہے)۔ ٹھنڈے پانی کی بوتلیں بھی تقسیم ہو رہی تھیں۔ ایک بار ہم اور صابرہ نکلے تو پورا کارٹن اٹھا کر لے آئے جس میں آدھے لٹر کی 24 بوتلیں تھیں۔ کچھ لوگوں میں تقسیم کیا اور اپنی دونوں واٹر باٹلس میں بھر کر رکھا۔ ایک برف کے مکعبات (کیوبس) کا پیکٹ بھی لے کر آئے تھے، اس میں باقی بوتلوں کو دبا کر رکھ دیا کہ پانی ٹھنڈا رہے۔ اس کے باعث شام تک نہ صرف ہم کو بلکہ ہمارے خیمے والے کئی لوگوں کو پانی کی آسانی ہو گئی۔ بعد میں عرفات میں جب بھیڑ بڑھنے لگی تو یہ مفت کی چیزیں بھی حاصل کرنا کارے دارد ہو گیا۔ خریدنے والی چیزوں کا بھی یہی حال تھا۔ یہ یوں بھی بیت کم تھیں۔ اہلیانِ خیر کی جانب سے مفت تقسیم کا ہی بازار زیادہ گرم تھا۔ ایک بار بہت دیرتک ہم کولڈ ڈرنک کے لئے کھڑے رہے مگر لوگ ہاتھوں سے جھپٹ لے رہے تھے۔ تقسیم کرنے والا بھی اچھال اچھال کر پھینک رہا تھا۔ کچھ لوگ چھاتے الٹے کر کے پیکٹ " کیچ" کر رہے تھے۔ اس میں کئی کاغذی پیکٹ زمین پر گر رہے تھے اور بھگدڑ میں یہ پھٹ جا رہے تھے۔ اسی طرح ایک جگہ لبن کی تقسیم کے موقعے پر دیکھا کہ زمین پوری سفید ہو گئی ہے لبن کے پیکٹ پھٹنے کی وجہ سے۔ ہم سے نہ دھکّم دھکّا ہوتی ہے نہ چھینا جھپٹی۔ چناں چہ مایوسی ہی ہاتھ لگی۔ دوپہر میں ایک بجے کے قریب جب کہ عرفات میں قیام کا اصل وقت شروع ہوتا ہے،کھانے کے پیکٹ بھی تقسیم ہوئے۔ اس پر لکھا تھا "الموسسۃ الا ہلیۃ البحرییۃ لمطوفی حجاج وول جنوبی آسیا"۔ (معلوم نہیں ہم کہاں تک اسے صحیح پڑھ اور لکھ سکے ہیں کہ یہ تحریر "خطِ شکست" میں تھی اور ابھی ہم عربی کے ماہر تو نہیں ہو گئے۔ پتہ چلا کہ یہ بشمول ہند و پاک جنوب ایشیائی( جنوبی آسیا) ملکوں کی خدمات کرنے والے معلّموں کی تنظیم ہے۔ (یہاں یہ جملہ معترضہ ضرور ہے مگر یاد آ گئی ہے بات تو آپ کو بھی کچھ اپنی عربی کی معلومات میں شریک کر لیں۔ " مؤسسۃ"یہاں کی دوکانوں کے ناموں میں بھی ہے اور اس کا انگریزی ترجمہ Establishment کیا جاتا ہے، اسی وجہ سے ہم نے یہاں اسے تنظیم لکھا ہے جو در اصل ہمارے یہاں Organisationکا ترجمہ ہے۔ اس کے علاوہ کمپنیاں یا کارپوریشن "شرکۃ" ہیں، اسٹورس " بقالۃ" ہیں۔ بنکوں کو حیدر آباد کے تلفّظ میں "بیانک" نہیں " البنک" لکھتے ہیں)۔ بہر حال اس ادارے کی جانب سے جو پیکٹ تقسیم کئے گئے، ان میں ایک نمکین بسکٹ کا چھوٹا پیکٹ (100 گرام)، ایک موٹا کھجور کا ہی بسکٹ (جس میں اندر کھجور بھری ہوتی ہے)، دو عدد کریم بسکٹ، دو توس، ایک جام (Jam) کا چھوٹا سا کپ، خوبانی کے جام کا، ایک موسمبی جو یہاں سنگترے کے رنگ کی ہوتی ہے یہاں۔ فرق یہ ہے کہ اگر اس قسم کا کوئی پھل ہاتھ سے چھل جائے تو بغیر چکھے بھی آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سنگترا ہے، نہ چھل سکے تو یقیناً موسمبی ہوگی۔ اور ایک بڑا سا کیک کا ٹکڑا۔ سب پالیتھین میں سیل کئے ہوئے۔ ہم باہر جا کر کچھ کھانا بھی خرید لائے۔ اس کے بعد ظہر کی نماز خیمے میں ہی جماعت سے پڑھی گئی۔ ویسے خطبہ جبل الرحمۃ پر ہوتا ہے اور مسجدِ نمرہ میں ظہر اور عصر کی نماز ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ملا کر پڑھی جاتی ہے، مگر وہاں جانے کی ہمّت نہیں تھی۔ سنا تھا کہ صبح 9 بجے سے ہی مسجد بھر گئی تھی۔ہماری جماعت محض ظہر کے لئے کھڑی ہوئی تو ہم بھی اس میں شامل تھے۔ حنفی مسلک کے حساب سے جہاں حاکم یا حکومت کا کوئی نمائندہ خود نماز پڑھائے،جیسا کہ مسجد نمرہ میں ہوتا ہے، وہاں سفر میں ظہر اور عصر ملانا جائز ہے ورنہ علیٰحدہ پڑھنا بہتر ہے۔ ہم یوں تو سفر میں قصر کی نمازیں پڑھتے ہیں تو اکثر ظہر عصر ملا ہی لیتے ہیں مگر جب جماعت سے نماز پڑھی جائے تو اس میں یوں بھی پوری نماز پڑھی جاتی ہے کہ امام اکثر مقیم ہوتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی کر نے میں ہمارے نزدیک کوئی حرج تو نہیں تھا مگر جماعت کا ساتھ دینا بھی بہتر سمجھا۔ خیر۔ امام نے بڑی رقّت سے دعائیں مانگیں۔ ہم نے نماز کے بعدپہلے کھانا کھایا اور پھر قضا نمازوں، مختلف وظائف اور دعاؤں میں لگے رہے کہ یہی تو حج کا اصل موقعہ تھا اور قبولیت کا وقت۔ سبھی نے زیادہ تر کھڑے ہو کر دعائیں مانگیں۔ پھر عصر کی جماعت بھی علیٰحدہ ہوئی۔ ہر خیمے میں دو یا زائد جماعتیں ہوئیں۔

ہاں ایک بات اور یاد آ گئی جس کا ہم نے یہاں مشاہدہ کیا۔ وہ یہ کہ یہاں ہمارے ہندوستان کا نیم کا درخت ہر طرف اگا کر ہریالی پیدا کر دی گئی ہے اور اب یہ بے آب و گیاہ میدان نہیں، سر سبز علاقہ ہے۔ ممکن ہے کہ نیم ہندوستان سے ہی آیا ہو کہ یہ ہمارے ملک کا ہی پیڑ ہے۔

ہمارے خیمے میں ہی ظہر کے لئے وضو کرتے ہوئے ایک صاحب کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ یہ صاحب تنہا تھے۔ ایمبولینس کے انتظار میں شام 4 بجے تک میت وہیں پڑی رہی۔ ان کے احرام سے ہی ان کو ڈھک دیا گیا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے لواحقین ہندوستان سے آ رہے ہیں۔ اسی شام 5 بجے کے قریب سامنے کے خیمے سے بھی ایک میّت برامد ہوئی۔ یہ ہماری دیکھی ہوئی دو میّتیں تھیں۔ عذاب النّار میں جو شہید ہوئے وہ الگ۔

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

عرفات میں افضل ہے کہ کھڑے کھڑے دعائیں مانگیں، عبادت کریں، اور بہتر ہو کہ دھوپ میں۔ آں حضرتؐ دھوپ میں اپنی اُ مّت کی بخشش کے لئے اسی طرح دعائیں مانگتے تھے اور خاص کر عصر کے بعد آپ کی رقّت اور بڑھ جاتی تھی۔عصر کی اذان بھی وہاں خیمے میں ہی دی گئی پونے چار بجے اور اور با جماعت نماز اور دعاؤں کے بعد بھی ہماری دعائیں جاری رہیں اور وظیفے بھی، اگرچہ کھانسی اٹھ رہی تھی کافی دیر سے۔ چناں چہ ہم نے ساڑھے چار پونے پانچ بجے ایک "بریک" لیا۔ پانی وغیرہ پی کر باہر گئے کہ چائے پی آئیں پھر چائے اور سگریٹ کے بعد مغرب تک پھر جم کر عبادت کریں گے کہ عرفات کا میدان مغرب کے بعد ہی چھوڑا جا سکتا ہے۔ باہر نکلتے ہی دیکھا کہ خیموں کی آبادی کم ہوتی جا رہی ہے۔دروازے سے باہر آئے تو دیکھا کہ بہت سے لوگ واپسی کے لئے بسوں یں بیٹھ بھی چکے ہیں اگرچہ کوئی بس مغرب سے پہلے جانے والی نہیں تھی مگر بہت سی بسیں وہاں لا کر چھوڑ دی گئی تھیں۔ لوگوں نے سوچا تھا کہ شاید پھر جگہ نہ ملے اور ٹھیک ہی سوچا تھا جیسا کہ ہمیں بعد میں پتہ چلا۔ غرض یہ لوگ وقوفِ عرفات بسوں میں ہی کر رہے تھے اور ساری بسیں پر ہو چکی تھیں۔ پھر بھی ہم چائے کی دوکان دیکھ رہے تھے کہ مظہر بھائی مل گئے معہ جبّار اور ستّار بھائیوں کے اور کہنے لگے کہ جلدی سامان لے کر آؤ ورنہ جگہ نہیں ملے گی۔ چناں چہ سب عبادتیں اور چائے سگریٹ بھول کر ہم واپس خیمے گئے اور سارا سامان سمیٹ کر نکلنے تک سوا پانچ بج گئے اور غروب سے ڈیڑھ گھنٹہ قبل ہی ہم سڑک پر آ گئے اور وہاں ہی وقوفِ عرفات کرتے رہے۔مگر بجائے گڑگڑا کر اللہ سے دعائیں مانگنے کے بس والوں سے یہ گزارش کرتے رہے کہ؎ مہرباں ہو کہ بٹھا لو ہمیں پیارے اسی وقت۔ مگر کسی اللہ کے بندے نے یہ نہ سنی۔ کاش کہ یہ وقت ہم اللہ سے ہی کچھ مانگنے میں صرف کرتے تو وہ شاید ہماری کچھ اور سن لیتا۔ بس میں جگہ کی نہ سہی تو دنیا اور آخرت۔ غرض حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔ سامان لے کر ادھر سے ادھر دوڑ جاری رہی۔ اور مغرب ہی کیا یہی عالم رات ساڑھے دس بجے تک رہا اگر چہ مغرب کے بعد زیادہ دیر تک عرفات میں رکنا منع ہے، مگر کیا کیا جائے، مجبوری تھی۔ مزدلفہ کے لئے جو بسوں کی پہلی کھیپ گئی تھی، وہ آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ادھر ٹیکسی والے 40۔40 ریال مانگ رہے تھے۔ خیر۔ یہ بھاؤ کم ہوتے ہوتے رات ساڑھے دس بجے تک 10۔10 ریال ہو گیا تو ہم ایک ٹیکسی میں مزدلفہ آ گئے۔ رات 11 بجے پہنچ سکے۔ مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ساتھ پڑھنی ہوتی ہیں چاہے کتنی ہی دیر کیوں نہ ہو جائے۔ اور پھر یہ رات کہتے ہیں کہ شبِ قدر سے زیادہ قیمتی رات ہے۔ یہاں پہلے تو مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھی گئیں، پھر کھانا کھایا گیا۔ ان لوگوں نے ہی کھایا ور صابرہ نے ان کا ساتھ دیا۔ ان سے بحث کی بات بعد میں لکھیں گے بہر حال ہم نے کھانا نہیں کھایا۔ محض بیٹھے رہے۔ جہاں چٹائیاں بچھائی گئی تھیں۔ وہاں اتنی جگہ نہیں تھی کہ ہم سو سکتے۔ کھانے کے بعد سب لوگ تو سونے کے لئے لیٹ گئے۔ ہم یوں بھی دن میں دو دو نمازوں کی قضاء ہمیشہ پڑھتے رہے ہیں اور یہاں سات سات نمازوں کی قضاء کا معمول بنایا تھا حرمین میں اور سوچا تھا کہ عرفات اور مزدلفہ میں بھی یہی سلسلہ رکھیں گے۔ مگر یہاں لوگوں نے سونے میں ہمارے لئے نماز کی جگہ بھی نہ چھوڑی تھی۔ اس لئے محض ٹہلتے رہے، صابرہ بیچاری نے کسی کے سامان سے ایک جانماز نکال کر دی کہ کہیں بچھا لو تو ہم نے نمازیں شروع کیں۔

پھر مکرّر ارشاد

کچھ قضاء نمازیں پڑھ کر بریک لیا۔ صابرہ نے ہمارے لئے کچھ بسکٹ اور توس نکال کر رکھے تھے کہ چائے کے ساتھ کھا لیں۔ چائے جو وہاں شروع میں پی تھی۔ وہ دو ریال کی تھی یعنی 20 روپئے کی۔ البتّہ سادہ یا کالی چائے ایک ریال کی تھی۔ ہم کو ایک ریال کی چائے بھی مہنگی ہی لگتی ہے اور ہم اکثر ایک پیالی (یا گلاس) ہی خریدتے رہے ہیں اور اسی کو آدھی آدھی بانٹ کر پیتے آئے ہیں۔ مگر اب کھانے کے بدل کے طور پر دو ریال کی ہی دودھ والی چائے خریدی ا ور کیک بسکٹ توس کھا کر اسے کھانے (یا ڈنر) کا نام دیا۔ 12 بج چکے تھے۔ اس کھانے کے بعد اور نمازیں پڑھیں۔ صلوٰۃ التسبیح بھی پڑھنے کا ارادہ تھا۔ صابرہ شروع میں سو گئی تھیں ، پھر دو بجے اٹھیں اور تہجّد اور صلوٰۃ التسبیح پڑھ کر پھر سو گئی تھیں۔ مگر آخر وقت میں ۔ مزدلفہ میں دعاؤں اور عبادتوں کا افضل وقت آخر آخر وقت ہے فجر کی ابتدا کے آس پاس۔ اس وقت ہم کو پیشاب کی حاجت ہوئی۔ سوچا کہ ضرورت سے فراغت کے بعد وضو کر کے پھر تر و تازہ ہو کر صلوٰۃ التسبیح اور پھر فجر پڑھیں گے۔ ساڑھے تین بج رہے تھے۔ جا نماز کا کونہ پلٹ کر اس مقصد سے عوامی ٹائلیٹس کی طرف گئے اور... وہاں ہی صبح ہو گئی۔جی ہاں، ہر ٹائلیٹ کے باہر اتنی لمبی قطار تھی کہ ہمارا نمبر آنے تک پانچ بج گئے۔ اس ڈیڑھ گھنٹے میں ہم قطار میں کھڑے کھڑے اونگھتے رہے۔ بلکہ تین چار بار نیند کے جھونکے میں گرتے گرتے بھی بچے۔اس دوران پیشاب کی ضرورت ختم بھی ہو گئی تھی مگر اب اجابت محسوس ہو نے لگی تھی۔ بعد میں جب نمبر آیا تو دونوں "پریشر" غائب۔ کچھ دیر بیٹھنا پڑا لوگوں کی دستکوں کے باوجود۔ بہر حال باہر نکل کر وضو کر کے آئے تو یہاں سب لوگ سامان باندھ کر چلنے کے انتظار میں ہمارے منتظر تھے۔ نماز کب کی ہو چکی تھی۔ وقت کم تھا نماز کا اس لئے ہم نے بھی جلدی جلدی فجر کی نماز پڑھی اور چھہ بجے کے قریب ہمارا قافلہ پیدل ہی منیٰ کے لئے روانہ ہو گیا۔ غرض افسوس کہ یہ ایک اور اہم وقت بھی ضائع ہو گیا۔ وہی مصرعہ مکرّر عرض یا ارشاد ہے کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔

عرفات سے منیٰ واپسی

21/ اپریل پونے دو بجے دن

مظہر بھائی کی رہنمائی میں ہمارا قافلہ چل پڑا۔ پہلے تو ہم سوچ رہے تھے کہ اس وقت تو بسیں مل سکیں گی مگر شاید مظہر بھائی کو حقیقت معلوم تھی کہ بسوں کے انتظار میں وقت ہی ضائع ہوگا۔ چناں چہ آگے دیکھتے ہیں کہہ کر انھوں نے پیدل چلنا شروع کیا۔سبھی نے اپنا اپنا سامان ساتھ لیا اور چلنے لگے۔ ویسے سامان بھی ہلکا ہی تھا سب کا۔ قافلے میں دو حضرات اور بھی تھے۔ ان لوگوں میں سے ہی کسی کے رشتے دار۔ اور وہ ایسے اعتماد سے ہمیں لے جا رہے تھے جیسے راستہ انھیں "زبانی" یاد ہے۔ ویسے تو ہم کو بھی کافی اندازہ تھا۔ دراصل مکّے سے ایک مین روڈ جو آتی ہے، وہ منیٰ اور مزدلفہ ہوتے ہوئے سیدھی عرفات جاتی ہے۔ یہ سڑک جمرات تک تو سیدھی جاتی ہے۔ اس کے بعد منیٰ کے علاقے میں کئی متوازی سڑکوں میں بٹ جاتی ہے اور مزدلفہ کی طرف پھر واحد ہو جاتی ہے۔منیٰ میں رہنے والا ہر شخص یہی سمجھتا ہے کہ اس کے کیمپ کی سڑک سیدھی مزدلفہ جاتی ہے حالاں کہ یہ غلط فہمی ہے۔ بس اس سیدھی سڑک کی ہی تلاش تھی جو ہم بغیر رہنمائی کے بھی ڈھونڈھ سکتے تھے مگر کیوں کہ رہنما ساتھ تھے، اس لئے یہ کام ہم نے انھیں کے ذمّے چھوڑ دیا۔ یہاں بھٹکنے کا اس طرح "معقول انتظام" ہے کہ مزدلفہ جاتے وقت تو صرف رخ متعین کرنے کی ضرورت ہے، مگر واپسی میں جب آپ منیٰ داخل ہو جائیں گے تو جس سڑک کو آپ اپنی سمجھیں گے، اس پر آپ کا کیمپ نہیں ہوگا۔ منیٰ پہنچ کر تو ہم اپنے کیمپ پہنچ سکتے تھے کہ کیمپ میں اونچے ستونوں پر نمبر لکھا تھا جو ہمارا "54" تھا۔اور ہم نے اس کا محل وقوع پہلے ہی دن اچھی طرح ذہن میں محفوظ کر لیا تھا۔

بھیڑ تو تھی ہی۔ سڑکوں پر کاروں اور بسوں کا ٹریفک بھی تھا۔سب کے ساتھ چلنے میں دقّت تھی اس کا علاج مظہر بھائی نے یوں کیا کہ وہ تلبیہ پکارتے جا رہے تھے اور ان کے تابعین دہرا رہے تھے، اور یہ آواز بھی گویا سمت نما تھی۔ ادھر ہماری صابرہ بیغم کا سبز لباس بھی دوسری خواتین سے کافی مختلف تھا اور آسانی سے پہچاننے میں آ رہا تھا۔راستے میں ایک کار ٹریفک میں پھنسی رکی ہوئی تھی۔ صابرہ اس کے دائیں طرف سے نکلیں اور ہم بائیں طرف سے۔ ہم نے صابرہ کو مڑتے ہوئے بھی صاف دیکھا۔ مظہر بھائی بھی بائیں طرف تھے۔ اس کار کے آگے ایک اور بس پار کر کے دیکھا تو صابرہ اور مظہر بھائی دونوں غائب! نہ تلبیہ کی آواز تھی نہ صابرہ کا ہرا دوپٹّہ۔ کچھ تیزی سے آگے بڑھ کر دیکھا، مایوسی۔ پھر کچھ رکے کہ ممکن ہے کہ ہم ہی آگے نکل آئے ہوں مگر ہنوز مایوسی۔ کیا ہوا تھا، یہ راز تو اب تک نہ کھلا۔ ان لوگوں کو دیکھنے کی کوشش میں اور بھیڑ کے ریلے میں ہم ایک سڑک پر بائیں مڑ گئے تو اچانک پایا کہ ہمارے سر پر چھت ہے۔ یہ وہی شیڈ والی سڑک تھی جس نے ہمیں آگ سے بچایا تھا (مگر اس کے کافی آگے کے حصّے نے)۔ یہ راستہ سمجھ گئے اور اسی پر چلتے رہے کہ کچھ آگے جا کر اپنا کیمپ دیکھیں گے۔ یہ بھی یاد تھا کہ ہم نے منیٰ میں غسل خانوں کی طرف سے دیکھا تھا کہ ہمارے کیمپ کے ایک طرف پہاڑ ہی تھا یعنی اس لمبی سڑک سے دائیں مڑنے پر ہی ہمارے کیمپ کی سڑک ہونی چاہئے۔ ایک دو لوگوں سے پھر بھی پوچھ لیا کہ سوق العرب کدھر ہے مگر یہ لوگ ہم سے بھی زیادہ ناواقف تھے۔ مڑتے ہی جب ہم ایک متوازی سڑک پر آئے، کیمپ نمبر 55 لکھا نظر آگیا اور یہ ہم کو یاد تھا کہ 51 سے 55 نمبر تک لائن سے کیمپ ہیں۔ کچھ ہی آگے آئے کہ ہمارے کیمپ کا نمبر بھی ستون پر نظر آگیا۔8 بجے جب پہنچے تو یہاں کوئی نہیں پہنچا تھا۔

یا رب ترے عذاب کے آثار کیا ہوئے

یہ کون سا منیٰ کیمپ تھا؟ حیران رہ گئے۔کہیں کوئی آثار نہیں تھے کہ یہاں کبھی آگ لگی تھی۔ اس جگہ کو تباہ و برباد دیکھے ابھی 48 گھنٹے بھی نہیں ہوئے تھے اور سارے خیمے لگے ہوئے تھے۔آگ والے دن رات آٹھ بجے تک تو ہم وہاں ہی تھے، وہاں کچھ نہیں ہوا تھا، ہاں، بھیگے ہوئے اور گرے ہوئے خیمے ہٹائے جا رہے تھے۔ اور ان 46 گھنٹوں میں اب آگ کے کوئی آثار نہیں تھے۔ سارے خیمے لگے تھے۔ البتّہ آگ کا اثر یہ ضرور تھا کہ اس بار یہاں بھی خیمے چھت والے نہیں، کھلے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اب بجلی بھی نہیں تھی اندر۔ صرف باہر روشنیوں کا انتظام تھا۔ یہ عرفات کے خیموں کی طرح تھے، بلکہ وہاں تو پھر قنات کی دیواریں تھیں، منیٰ میں اب خیموں کی دیواریں بھی نہیں تھیں۔ آپ ایک سرے سے دوسرے سرے تک کسی سمت میں بھی جا سکتے تھے اور لوگوں کو پھلانگنے کے جرم میں گالیاں سن سکتے تھے۔ دوکانیں پہلے کی ہی طرح لگ چکی تھیں۔ بس ،سڑک پر اب بھی کونوں میں کہیں ٹوٹی ہوئی چھتری، کسی کی چپّل یا تولیہ نظر آ جاتا تھا۔ہاں، چائے کی مشکل ہو گئی تھی۔ دودھ والی چائے عنقیٰ ہو گئی تھی، تھی تو دو ریال کی، وہ بھی ڈھونڈھنے پر۔ویسے پہلے بھی منیٰ میں مہنگائی زیادہ ہی تھی، اب اور بڑھ گئی تھی۔ ایک ریال والے کولڈ ڈرنک ڈیڑھ ریال کے مل رہے تھے۔

اس بار خیموں کے نمبر بھی نہیں تھے اور قناتوں کی دیوار بنانے کی بجائے ان کا فرش بنا دیا گیا تھا اس لئے چٹائیاں بچھانے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔قناتیں تو آپ نے دیکھیں ہوں گی۔ ان میں کپڑے کے نیفے میں بانس اڑسے ہوئے ہوتے ہیں تھوڑی تھوڑی دور پر۔ یہاں ان قناتوں میں بانس لگے چھوڑ دئے گئے تھے۔ اس وجہ سے دو بانسوں کے درمیان کوئی ڈھائی فٹ کی جگہ ہی باقی تھی جس میں بستر لگایا جا سکتا تھا۔ کہاں 8/ ذی الحج کو لوگوں نے دریوں پر اپنی چوڑی چوڑی چٹائیاں اور چادریں ڈال کر جگہیں گھیر لی تھیں، اب ہر شخص دو بانسوں کی درمیانی جگہ میں اپنا بستر بچھانے کے لئے مجبور تھا چاہے کتنی ہی چوڑی چادر اس کے پاس ہو۔ دامِ شنیدن چاہے جتنا پھیلائیے، اس پر پابندی نہیں، مگر اور کوئی دام پھیلانے کی جگہ ندارد۔

ہم نے بھی ایک جگہ خالی دیکھ کر قبضہ جما لیا، اگر چہ ہمارے پاس ایک بیگ ہی تھا، دوسرا بیگ صابرہ کے پاس تھا، اور وہ لوگ اب تک آئے نہیں تھے۔ ہم انتظار کرتے رہے۔ ایک بار جا کر اکیلے ہی ناشتہ کر کے چائے بھی پی کر آئے۔ یہ لوگ معہ مظہر بھائی وغیرہ کے ساڑھے نو بجے پہنچے۔ معلوم ہوا کہ یہ ہم سے زیادہ ہی بھٹکے۔ ان لوگوں نے دوسری جگہ اپنا سامان رکھ کر جگہ بنا لی تھی، اس لئے پھر ہم نے بھی اپنا سامان وہاں سے ہٹا کر اسی طرف رکھ لیا۔ وہاں بھی کافی جگہ تھی۔ اس لئے بھی کہ بیشتر لوگ 11 بجے تک ہی وہاں پہنچ سکے تھے۔

شیطانوں کو سزا

یہ دن 10/ ذی الحجّہ کا تھا جب دنیا عیدِ قرباں مناتی ہے مگر ہماری اصل عید، یعنی حج کا اصل رکن۔ وقوفِ عرفات تو ہو ہی چکا تھا۔ آج مگر دوسرے ارکان تھے۔ بڑے شیطان یعنی جمرۃ عقبی ٰ کو کنکریاں مارنا (رمئ جمّار کہتے ہیں اس عمل کو یا محض رمی)۔ پھر قربانی پھر حلق یعنی بال کٹوانا۔

بسم اللہ رمی سے کی۔ اس میں مظہر بھائی تو ساتھ نہیں تھے مگر جبّار بھائی، ستّار بھائی اور ان کی بیویاں اور ہم دونوں ساتھ تھے اور ساتھ ہی ستّار بھائی کی بیوی کے رشتے دار جعفر صاحب بھی جو مقامی آدمی ہیں۔ مکّے میں بھی ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ انھوں نے ہی قربانی کا انتظام کیا تھا۔اگرچہ ان کا ارادہ تھا کہ جب رمی کے لئے نکلیں تو جمرات تک کوئی ڈیڑھ کلومیٹر تو پیدل ہی چلیں اور وہاں سے ٹیکسی کر کے مکّہ چلے جائیں اور وہیں قربانی دے لیں اور پھر طواف بھی مکمل کر لیں۔ اس سے قربانی کا گوشت بھی وہاں ان لوگوں کے رشتے داروں اور دوسرے ملاقاتیوں کے کام میں آ جائے۔ قربانی کے بعد حرم میں ہی بال کٹوا کر نہا دھو کر طوافِ زیارۃ کر کے منیٰ واپس آ جائیں۔ اگرچہ حرج تو اس میں بھی نہیں تھا۔ مگر ہر کتاب میں لکھا ہے کہ منیٰ میں ہی قربانی بہتر ہے ۔ یہ تو ثابت نہیں ہو ا تھا کہ منیٰ میں ہی قربانی واجب ہے اور اگر چہ کہیں اور کرائی جائے تو یہ واجب ادانہ ہوگا۔ کیوں کہ اس وقت سب لوگ منیٰ میں ہی قیام پذیر ہوتے ہیں اس لئے بھی وہاں ہی قربانی کرائی جاتی ہے۔ مسجدِ نبوی میں جو حج کا کتابچہ ہم کو ملا تھا، اس میں ہنبلی مسلک (جو سعودی عرب کا سرکاری مسلک ہے) کے مطابق وضاحت تھی کہ قربانی کہیں بھی کرائی جا سکتی ہے۔مگر پھر بھی لوگوں کو شبہ تھا کہ حنفی مسلک کے حساب سے ادا ہوگی یا نہیں۔ چناں چہ پھر سب نے ہی منیٰ میں ہی قربانی کرنے کا پلان بنایا اور جعفر صاحب نے وہاں بھی انتظام کرنا اپنے ذمّے لے لیا، بلکہ خود اپنے لئے بھی وہیں قربانی کرنا طے کر لیا۔ جمرۃ عقبیٰ پر جہاں آج رمی کرنی تھی، ہمیں اس طرح دو دو کر کے بھیڑ میں جگہ بناتے ہوئے ساتھ لے گئے کہ ہم لوگ اس ستون پر محض 5۔6 فٹ کی دوری سے رمی کر سکے۔اور وہ بھی نیچے سے جہاں عام طور پر بہت بھیڑ ہوتی ہے۔کنکریاں مارنے کا انتظام آج کل دو سطحوں پر ہے، شیڈ کے نیچے والی سڑک پرتو ہے ہی جہاں سے ہم نے ماریں، اوپر فلائی اوور پر بھی ہے۔ وہاں بھی ایک گول سوراخ کر کے اوپر تک یہی ستون لے جایا گیا ہے۔ اوپر قیف نما سیمنٹ کا ایک دائرہ یا محیط ہے جس کا ڈھال اندر مرکز کے اندر اس طرح ہے کہ کنکریاں ڈالنے پر نیچے ہی گرتی ہیں۔ ہاں، یہ تو لکھنا ہی بھول گئے کہ اس کام کے لئے مزدلفہ سے ہی کنکریاں چن کر لائے تھے بڑے چنے کے برابر۔ منیٰ میں تو ہر طرف پکّی سڑک یا فرش ہے یا پھر ریت اور مٹی۔ بہر حال یہ واجب بھی بہت آسانی سے ادا ہو گیا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ جہاں اور لوگ "پتھّر پھینک" فاصلے (Stone throw distance) سے کنکریاں مارتے ہیں، ہم نے "ہاتھ ملا" فاصلے (Hand shake distance) سے کنکریاں ماریں۔ یوں کہئے کہ بڑے شیطان سے ہاتھ ملایا۔ وہاں لوگوں کے پاس دیکھا کہ کنکریوں کی بجائے باقاعدہ پتھّر مار رہے تھے۔ رمی جمّار کیا، شیطان موذی کو سنگسار کر رہے تھے۔ بعد میں ہم کو اس کی وجہ معلوم ہوئی کہ بڑے پتھّروں سے "پتھّر پھینک" فاصلہ بڑھ جاتا ہے، یعنی آپ زیادہ دوری سے بھی صحیح نشانے پر پتھّر مار سکتے ہیں، خطا ہونے کی امّید کم ہوتی ہے۔ چھوٹی کنکری دور سے مارنے پر نظر بھی نہیں آتی اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ لگی بھی یا نہیں۔ ستون کو چاہے یہ کنکری نہ لگے، مگر ستون کے آس پاس کے دائرے میں ضرور گرنی چاہئے۔ اس وقت تو ہم نے اتنے قریب سے "سنگساری" کی کہ ساری کنکریوں کو خود ستون پر لگتے دیکھا، لیکن اگلے دو دن کی رمی کا نہیں کہہ سکتے، خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ خیر، جیسا کتابوں میں لکھا تھا، ہم نے ویسی ہی چھوٹے کنکریاں ماریں، اب شیطان کو ان کی چوٹ پہنچی یا نہیں، ہم تو مطمئن ہیں کہ ہماری نیّت تو اس موذی کو زیادہ سے زیادہ ایذا دینے کی تھی، اگر چہ اسلام میں سزا بھی کم سے کم دینا اچھّا ہے، معاف کر دینا بہتر ہے۔ لیکن حکم کی تعمیل بھی ضروری ہے۔ اور یوں بھی کہئے کہ ان کنکریوں یا پتھّروں سے اس موذی کو مارا بھی تو کیا مارا، کہ ؎ بڑے موذی کو مارا، نفسِ عمّارہ کو گر مارا۔

اس کے بعد جعفر صاحب جبّار بھائی کو لے کر منیٰ کے مسلخ گئے جو ہم سب کی نمائندگی کر رہے تھے اور دو اونٹ کاٹ کر آئے۔ سب کے ملا کر 14 حصّے ہو گئے تھے(کچھ لوگ اور بھی شامل ہو گئے تھے)۔ چناں چہ ادھر قربانی کروا کر یہ لوگ لوٹے، ادھر ہم بالوں کی قربانی کے لئے نکلے۔ یہ کام قربانی سے پہلے نہیں کیا جاتا ہے۔

"ایکسپریس" حجامت

22/اپریل، 2 بجے دو پہر

 

وہ لطیفہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ ایک حجّام نے اپنی دوکان میں سائن بورڈ لگا رکھا تھا کہ "یہاں ایکسپریس ٹرین کی طرح حجامت بنائی جاتی  ہے۔  لوگوں کو یہ غلط فہمی تھی کہ وہ نہایت تیز رفتاری سے بال کاٹتا ہوگا اور آپ جلدی ہی فارغ ہو سکتے ہیں۔ ایک صاحب نے اس سے حجامت بنوا کر آئینہ دیکھا تو شکایت کی کہ بھائی تم نے یہاں وہاں بہت سے بال چھوڑ دئے ہیں۔ حجّام نے فوراً جواب دیا۔ـ" آپ نے بورڈ نہیں دیکھا؟۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایکسپریس ٹرین چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں پر نہیں رکتی"۔

دوپہر کو ہم رمی کے لئے گئے تھے تو وہاں دیکھا کہ حجّاموں کی کافی بھیڑ لگی ہے۔سوچا تھا کہ شاید حجامت کے لئے وہیں جانا ہوگا۔ کھانا کھا کر کیمپ سے نکلے تو دیکھا کہ تھوڑی ہی دور پر جہاں پانی کے نل یا واٹر کولر لگا ہے، تین چار حجّام بیٹھے ہیں، بلکہ کھڑے ہیں اور لوگوں کی حجامت بنا رہے ہیں اور پکار رہے ہیں۔ مرحبا الحاج۔ مرحبا الحاج۔ اور لوگ اہلاً و سہلاً چلے جا رہے ہیں۔ ہم بھی ایک اخی کے پاس چلے گئے۔ عرض کی کہ استرا پھروانا ہے۔ اس اخی نے فوراً اپنی ایکسپریس ٹرین اسٹارٹ کر دی۔ آئینہ تو وہاں تھا نہیں۔ ہم کو ان اخی پر ہی کامل اعتماد تھا۔ موصوف نے مشکل سے 2۔3 منٹ میں فارغ ہوکے کہا کہ نل پر سر دھو لو۔ وہ تو دھونا ہی تھا مگر اس سے پہلے سر پر ہاتھ لگایا تو خون محسوس ہوا۔ ہمارے ہندوستانی حجّام تو کہیں کٹ جانے پر پہلے معذرت کرتے ہیں، پھر روئی سے زخم صاف کر کے ٹالکم پاؤڈر لگاتے ہیں، پھٹکری ملتے ہیں۔ کوئی کوئی تو ڈیٹال بھی لگاتے ہیں۔ ان محترم کو اپنا زخم دکھایا تو اخی نے محض ایک جنبشِ گردن سے جواب دے دیا، یا واللہ اعلم ہم ہی یہ مطلب سمجھے کہ کر لو جو چاہے کرنا ہے۔ کرنا تو ہم کو بس یہی تھا کہ نل پر سر دھو لینا تھا اور خمسہ ریال، کہ نصف جس کے ڈھائی ریال ہوتے ہیں، اخی کی خدمتِ عالیہ میں پیش کر دینا تھا۔

"فارغ البال" ہو کر کیمپ پہنچے تو پہلے صابرہ نے ہی نشان دہی کی کہ بال تو کئی جگہ چھوٹ گئے ہیں۔ فوراً آئینے کی تلاش کی۔ آئینہ ملا تو رخِ انور ملاحظہ کرنے کے بعد یہ بات حقیقت سے پر نظر آئی۔ ویسے بھی ہم کو بیغم کی بات پر بے اعتباری تو نہیں تھی۔ اُلٹے پیروں (یہ تو محاورہ ہے، ورنہ حقیقت تو یہ تھی کہ منیٰ کی بھیڑ میں سیدھے پیروں بھی چلنے کی جگہ کہاں تھی جو کوئی الٹے پیروں چل سکتا)پھر اخی کے دربار میں حاضری دی اور بتایا کہ دیکھو کتنے بہت سے بال چھوٹ گئے ہیں، انھیں برابر تو کر دو۔ موصوف نے پہلے تو کہا

"آپ ہمارے پاس بال کٹا کر ہی نہیں گئے، کہیں اور کٹوائے ہوں گے"۔

"تم سے جھوٹ بول کر کیا کریں گے بھائی" ہم نے عرض کی۔"ابھی تو کٹا کر گئے ہیں، جا کر ابھی آئینہ دیکھ کر دوڑے چلے آ رہے ہیں"۔

اخی نے جواباً نیا ہی پینترا بدلا "ہاں، یاد آیا، آپ پیسے دئے بغیر چلے گئے تھے۔ پہلے لایئے خمسہ ریال" غصّہ تو بہت آیا، اس لئے ہم نے بھی کہہ ہی دیا "بال ٹھیک نہیں کرنا ہے تو صاف کہہ دو، جھوٹا الزام تو مت لگاؤ"۔ تو موصوف نے جھٹ ایک طرف استرا پھر چلا دیا اور ایک طرف کے بال تو کم از کم ٹھیک سے صاف ہو گئے۔

خیر سے ہم حاجی ہو گئے

10/ ذی الحجّہ کے باقی پروگرام ہو چکے تھے۔ یعنی مزدلفہ سے واپسی، رمئ جمار بلکہ صرف جمرۃ عقبیٰ کو کنکریاں مارنا، قربانی اور پھر حلق۔ اب ایک رکن بجا تھا جو اگرچہ 12/ ذی الحجّہ تک کر سکتے تھے مگر بتدریج گھٹتی ہوئی افضلیت کے ساتھ، یعنی طوافِ زیارۃ۔ ویسے تو دو دن اور منیٰ کا قیام اور اور تینوں جمرات کی رمی بھی کرنی ہوتی ہے مگر اصل رکن یہی طواف زیارت یا زیارہ یا زیارۃ (اسے طوافِ افاضہ بھی کہتے ہیں)ہے اور جس کے بعد سعی بھی شامل ہے، مگر سعی کے بعد دوبارہ بال کٹوانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس طواف کے لئے حرم جانا اور پھر واپس آنا تھا۔

اُس وقت ساڑھے پانچ یا پونے چھ بج رہے تھے۔پہلے مظہر بھائی کا ہی یہ مشورہ تھا کہ حرم میں ہی چل کر نہایا جائے اور سب کپڑے لے کر چلیں جسے سب نے قبول کر لیا تھا، عورتوں نے بھی۔ مگر عین موقعہ پر خود مظہر بھائی غائب ہو گئے اور پتہ چلا کہ ان کا ارادہ نہا کر چلنے کا ہے، ان کا انتظار کرنا پڑا۔ اور ان کا ساتھ دینے میں جبّار اور ستّار بھائی اور مظہر بھائی کے لڑکے بھی وہیں رک گئے۔ ہم اپنے ارادے پر قایم رہے۔ وہ تو بھلا ہوا کہ عورتوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا ورنہ ہمیں اور بھی دیر ہو جاتی۔ غرض اس میں ساڑھے چھہ بج گئے اور پھر طے ہوا کہ مغرب پڑھ کر ہی سب لوگ نکلیں۔ اس میں سوا سات بج گئے۔ ایک مقامی صاحب اور مظہر بھائی کو مل گئے تھے، ان کو بھی ساتھ لیا کہ وہ رہنمائی کر سکیں کہ بس کہاں سے ملے گی۔ انھوں نے ملک خالد پُل (یا کوہری، یہ پل کے لئے عربی کا لفظ ہے)کے آگے مسجدِ خیف کا پیدل کا راستہ لے لیا۔تھوڑا آگے حاجیوں کے کیمپ شروع ہو گئے۔یہاں جہاں جگہ ملی، حجّاجِ کرام اپنی چٹائیاں بچھائے بیٹھے تھے۔یہی ان کا منیٰ کا قیام تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو بغیر کسی معلم کے تھے اور مکّے کا سفر خرچ برداشت کر کے کسی طرح پہنچ گئے تھے، کئی مقامی لوگ اس ہجوم میں تھے جن میں وہ ہندوستانی پاکستانی بھی رہے ہوں گے جو سعودی عرب میں ہی ملازمت یا کاروبار میں لگے ہوں گے۔رہنے سونے کے کے لئے ساری خدا کی زمین۔ حرمِ مکّہ میں غسل خانے اور ان کی چھتیں، مسجدِ نبوی اور اس کے قریب کی دوکانوں کے چبوترے اور برامدے (حج کے بعد جو لوگ وہاں جاتے ہیں اور یہ ہم سنی سنائی بات لکھ رہے ہیں)۔ ان خود ساختہ کیمپوں کے درمیان پگڈنڈی بھر جگہ تھی چلنے کے لئے اور اسی میں سڑک بھر مجمع نکلنا چاہتا تھا۔ نتیجہ؟ دھکّم پیل۔ خود ہم دو بار "کیمپ زدہ" حاجیوں پر گر پڑے۔ دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ اس چکر میں صرف ستّار بھائی اور ان کی اہلیہ اور ہم دونوں کے علاوہ باقی سارے ساتھی بچھڑ گئے۔ یہ کیمپ شیڈ والے راستے (فلائی اوور)کے قریب ہی تھے اور ہم لوگ، ہمارے مشورے پر ہی عمل کرتے ہوئے، اس ریلے سے کٹ کر ان کیمپوں میں اچھل کود سے بچ کر اس فلائی اوور پر آ گئے۔یہ وہی جمرۃ عقبیٰ کا علاقہ تھا۔قریب ہی کنکریاں ابھی بھی ماری جا رہی تھیں۔ عورتوں کے لئے اجازت ہے کہ مغرب کے بعد مار لیں ورنہ مردوں (بوڑھوں اور بیماروں کو چھوڑ کر) کو مغرب سے قبل ہی یہ رکن ادا کرنا ہوتا ہے۔ ہم چاروں تھوڑی ہی دور اس راستے پر چلے ہوں گے کہ ایک جگہ بس اسٹاپ نظر آگیا اور کئی بسیں کھڑی ہوئی نظر آئیں۔ فوراً جا کر بس پکڑی۔ دس دس ریال ٹکٹ تھا حرم کا۔ اس بس نے کوئی پون گھنٹے میں بابِ ملک فہد کے پاس ہمیں اتارا۔ کیوں کہ اس طرف کے غسل خانوں کا ہمیں پتہ نہیں تھا تب تک اور طوافِ زیارت سے پہلے نہانے کا بھی ارادہ تھا اس لئے اس باب سے باہر ہی باہر گھوم کر مسعیٰ کی طرف آئے کہ یہ علاقہ ہمارا جانا پہچانا تھا۔ شاید آپ کو بتایا ہوگا کہ اس طرف باب السّلام، باب علی،باب النبی وغیرہ تھے۔ جب ادھر کے غسل خانوں کی طرف آئے تو دیکھا کہ ایک جگہ صحن میں مظہر بھائی اور ان کا خاندان اور دوسرے ساتھی (بلکہ واضح الفاظ میں جبّار بھائی کا خاندان ) بیٹھے ہیں جو ہم سے پہلے پہنچ چکے تھے۔ عشاء کی اذان تو اس وقت ہی ہو چکی تھی جب ہم منیٰ کے حاجیوں کو پھلانگ رہے تھے۔ یہاں پہنچے تو سوچا کہ پہلے نہایا جائے، پھر کھانا کھائیں اور آرام سے عشاء اور طواف سے فارغ ہوں۔

اس وقت غسل خانوں کی حالت تباہ تھی۔ کئی غسل خانے "چوک"(choke)ہو چکے تھے۔ ساری راہداریوں میں پالی تھین بیگ اور کپڑوں کے کاغذ کے ڈبّے بکھرے پڑے تھے۔ شاید لوگوں نے نئے ملبوس لئے تھے اور ان کو معہ پیکنگ کے غسل خانوں میں لے گئے تھے اور خود تو نئی پیکنگ میں نکل گئے تھے، کپڑوں کی پیکنگ وہیں چھوڑ گئے تھے۔ کچھ شریف آدمیوں نے تو نہ صرف اپنے نئے کپڑوں کی پیکنگ بلکہ اپنے پرانے کپڑے بھی "وقف الی الحرم" کر دئے تھے۔کئی احرام بھی چھوڑ گئے تھے۔ بہر حال ادھر ہم نہانے بیٹھے اور ادھر صفائی کرنے والے پہنچے اور آوازیں لگانے لگے کہ غسل خانے جلدی خالی کئے جائیں۔بہر حال کسی طرح ہم نہا کر نکلے۔ دس بج رہے ہوں گے اس وقت۔ طے ہوا کہ کھانے کے بعد ہی طواف اور سعی کے لئے نکلیں ہم اور ستّار بھائی کھانا خریدنے نکلے۔ انڈا بھری روٹیاں، دال، سبزی، دہی سب کچھ خرید کر کھانا کھانے اور پھر عشاء کی نماز پڑھنے تک ساڑھے گیارہ بلکہ بارہ بج گئے تھے۔

طواف کے لئے سب ساتھ ہی داخل ہوئے مگر اتنا بڑا گروپ بنا کر تو چلنا مشکل ہی تھا۔اس لئے سب نے اپنی اپنی بیویوں کے ہاتھ پکڑ لئے۔ بس مظہر بھائی اکیلے تھے کہ ان کی بیوی کا ہاتھ ان کے کنوارے لڑکے نے پکڑ رکھا تھا۔پہلے چکر تک تو ہم سب ایک دوسرے کو دیکھتے رہے، مگر دوسرے ہی چکّر میں سب غائب! طے یہی ہوا تھا کہ بچھڑ بھی جائیں تو باب السلام پر ملیں گے۔

 

22/ اپریل، رات ساڑھے نو بجے

حرم میں اس وقت کی کیا کیفیت لکھیں۔ امّید بھی نہیں تھی کہ رات 12 بجے سے 3 بجے کے درمیان بھی جب کہ ہم نے طواف اور سعی کی، بھیڑ بھاڑ اور دھکّم دھکآ کا یہ عالم ہوگا۔ کھوا تو ہم کو خود معلوم نہیں کہ کیا ہوتا ہے ورنہ یہ لکھتے کہ کھوا سے کھوا چھلتا تھا۔مگر اس محاورے سے یہی مطلب نکالتے ہیں کہ بہت بھیڑ تھی اس لئے یہ محاورہ ٹھیک ہی لاگو ہوگا یہاں۔ طواف تو خیر ہم نے گھنٹہ بھر میں کر لیا تھا، مگر سعی میں، جس میں پہلے عمرے کے وقت بھی کوئی پون گھنٹہ لگا ہوگا، مگر اب 10/ کی رات کو (ویسے انگریزی حساب سے بھی تاریخ بدل چکی تھی یعنی 18/ اپریل اور اسلامی حساب سے تو مغرب کے وقت ہی 11/ ذی الحجہ شروع ہو چکی تھی) اس میں تقریباً دو گھنٹے لگ گئے۔اس کے باہر آ کر صحنِ حرم میں صابرہ اور سامان کو چھوڑ کر ساتھیوں کی تلاش شروع کی مگر ان کا پتہ نہیں تھا۔ پونے تین سے پونے چار بجے تک ان لوگوں کا انتظار کیا مگر مایوسی ہی ہوئی۔ آخر ہم نے واپسی کے لئے کمر باندھی۔باب السلام، باب النبی کی طرف سے ہی نکلے کہ شاید وہاں یہ لوگ مل جائیں۔ ویسے یہ ہمارا ہمیشہ کا راستہ ہے کہ اسی طرف سے شعبِ عامر کا علاقہ آتا ہے جہاں ہماری مکّہ کی رہائش گاہ رقم 468 ہے۔ وہاں پوچھا تو پتہ چلا کہ منیٰ کے لئے بسیں وہاں سے بھی جاتی ہیں بلکہ ایک جا ہی رہی تھی۔ حالاں کہ بس والے کبھی کہتے تھے کہ بس کہیں نہیں جائے گی، کبھی یہ کہ جمرات تک جائے گی۔ ہم کو بھی جمرات تک جانا ہی کافی تھا کہ منیٰ کی حدود میں داخل تو ہو سکتے تھے۔ ویسے پہلے سوچا تھا کہ مکّے سے ہی بچّوں کو فون کر لیں گے کہ یہ لوگ بھی آتش زنی کی وجہ سے فکر مند ہوں گے۔ اب سوچا کہ جمرات کے پاس بھی ٹیلیفون بوتھ ہیں، وہیں سے فون کر لیں گے۔صبح ساڑھے چار پانچ بجے فون کریں تو ہندوستان میں سات بج چکے ہوں گے اور اس وقت یقیناً بچّے جاگ چکے ہوں گے۔ یہ بھی خیال تھا کہ اس دن وہاں عید ہو سکتی ہے اور ممکن ہے کہ بچّے محبوب نگر، اپنی نانی کے پاس چلے گئے ہوں۔ اس صورت میں وہاں فون کرتے۔

بہر حال بس میں بیٹھے اور بس میں بیٹھتے ہی آنکھ لگ گئی۔ اس سے پہلے عرفات میں بھی گھنٹہ بھر ہی سوئے تھے اور پھر مزدلفہ میں تو ایک منٹ بھی نہیں، اور تیسری رات میں بھی تین بج گئے تھے، اس وجہ سے اب آنکھ لگ گئی۔ اور جب صابرہ نے اٹھایا تو دیکھا کہ بس اسی شیڈ والے راستے میں چل رہی تھی۔ ہم سمجھے کہ اب جمرات پہنچے ہوں گے اور اب بس رکے گی۔ بس ٹریفک میں رینگتی رہی۔ بہر حال ایک جگہ ڈرائیور نے بس روکی اور کہا کہ سب لوگ اتر جائیں تو ہم کو ہوش آیا ؎  یہ کیا جگہ ہے دوستو، یہ کون سا دیار ہے۔ سمجھے کہ ابھی جمرات آگے ہوں گے، کچھ دور آگے چلے تو خیمے شروع ہو گئے۔ تب پتہ چلا کہ یہ مزدلفہ سے مکّہ کا سایہ دار راستہ ہے۔ وہی راستہ جس پر ہم مزدلفہ سے منیٰ واپسی میں پچھلے ہی دن بھٹکتے ہوئے پہنچے تھے۔ یہ پتہ چلتے ہی ہم اطمینان سے اگلے ہی موڑ پر بائیں طرف مڑ گئے تو سامنے ہی 55 نمبر کا کیمپ تھا، اور اس کے پاس ہی ہمارا 53 نمبر بھی۔ غرض ہم اپنی کم علمی کے باوجود اپنے کیمپ سے بمشکل فرلانگ بھر کے فاصلے پر بس سے اترے جیسے وہی ہمارے کیمپ کے لئے بس کا اسٹاپ ہو۔مگر فون کرنا رہا جا رہا تھا۔ مگر اب کیمپ آ ہی گئے تھے تو پہلے اپنا سامان کیمپ میں رکھا۔ 6 بجے وہاں بھی فون پر دوسرے ممالک میں فون کرنے پر 40 فی صد کی رعایت ختم ہو جاتی تھی۔اگرچہ فجر کا وقت ہو چکا تھا، مگر ہم پہلے بھاگ کر پھر جمرات کی طرف آئے کہ فون کر لیں پہلے۔ مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ وہی کارڈ فون تھا وہاں ہر بوتھ میں(اگر میٹر والے فون کے بوتھ بھی ہوں تو ہم کو ان کا پتہ نہیں چلا)۔ وہاں لوگوں نے بتایا تو یہی کہ منیٰ میں کارڈ والے فون ہی ہیں، میٹر والے فون صرف مکّے میں ہیں۔ پھر واپس بھاگ کر کیمپ پہنچے اور فجر کی نماز پڑھی۔ ناشتہ کیا اور سات بجے کے قریب سوئے تو 11 بجے آنکھ کھلی۔ ہاتھ منہ دھویا، کھانا لے کر آئے اور سوچا کہ ظہر کے بعد کھائیں گے۔ مگر اس دن ہمارے خیمے والوں نے طے کیا کہ حیدر آباد کے وقت کے مطابق ڈیڑھ بجے جماعت پڑھیں گے، اب تک حرمین کے وقت کے مطابق ساڑھے بارہ بجے نماز پڑھی جا رہی تھی۔

منیٰ کا طعام

اب ذکر نکلا ہے تو منیٰ کے کھانے پینے کی بات بھی لکھ ہی دیں۔ وہاں کھانے کی ہم کو سخت مایوسی ہوئی۔ گوشت، مرغی تو ہم احتیاطاً کھا ہی نہیں رہے تھے، دال اور سبزی کے تجربے کچھ ناگوار رہے۔ 10/ کی صبح 5 ریال کی سبزی (معہ دو روٹیوں کے) لائے تھے تو اس میں نہ جانے کیا عجیب سی مہک تھی کہ چکھتے ہی قے ہوتے ہوتے رہ گئی، اور آخر ہاتھ روکنا پڑا۔ اس رات کو مکّے میں کھانا کھایا تھا۔اگلے دن دوپہر کو دال لے کر آئے اور اس بار دوسری دوکان سے، وہی 5 ریال کی معہ دو عدد روٹیوں کے تو اس میں 8 عدد کنکر صرف ہمارے حصّے کی دال میں ہی نکلے(صابرہ کے منہ میں بھی آئے ضرور مگر انھوں نے گنے نہیں، یہ کام ہم ہی کرتے ہیں کہ اس قسم کی بیکار اور غیر اہم معلومات بھی ہم آپ جیسے اہم حضرات کو بھی دینا اہم سمجھتے ہیں)۔ اگلے دن ہم اس سبزی والی دوکان پر گئے کہ وہاں کی دال لے کر دیکھیں، تو وہاں دال نہیں تھی، پھر سوچا کہ جس دوکان کی دال نے ہمارے دندانِ مبارک پر حملے کئے تھے، وہاں سے سبزی لیں تو اس وقت اس بھلے آدمی کے پاس صرف دال تھی۔ ان دونوں کرم فرماؤں کو خدا حافظ کہہ کر ایک اور سڑک پر پہنچے اور وہاں سے 7 ریال کی دال لے کر آئے، مقدار میں اتنی ہی اور روٹیاں وہی دو عدد۔ یہ نسبتاً مزے کی تھی اور کھانا شروع کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ محض دال نہیں، دال گوشت تھا۔ کھانا شروع کر چکے تھے اس لئے کھا ہی لیا، یوں پرہیز ضرور کر رہے تھے، مگر ہر سالن پر شک کرنا بھی نہیں چاہئے تھا۔ اب یہ ذکر نکلا ہے تو ایک گھر کی بات اور لکھ دیں ورنہ پھر رہ جائے گی، اس کا موہوم سا ذکر مزدلفہ کے قیام کے ذکر میں کر چکے ہیں، بلکہ آپ کو متنبّہ کر چکے ہیں کہ جب موقعہ ملا تو آپ کو یہ بات سنائیں گے۔اس کے لئے اجازت ہو تو ایک نیا عنوان لگائیں۔

حرام و حلال ۔ بیغم کا خیال

صابرہ سے دو ایک بار اس بات پر بحث ہو ہی چکی تھی ۔ہم مچھلی بھی لے کر آئے تھے تو طنز کرتی تھیں کہ ہمارا گزر بغیرNonveg کے نہیں ہو سکتا۔اور یہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ جب ہم خرید کر کھاتے ہیں تو دال سبزی کھاتے ہیں اور اور یہ اکثر مظہر بھائی وغیرہ کے کچن میں مرغی گوشت کھا لیتی ہیں۔ یہ کہہ کر کہ کسی صاحب نے گوشت لا کر دیا تھا تو اچھّا ہی ہوگا یعنی حلال کا کہ مقامی لوگوں کو پہچان ہوگی کہ کہاں صحیح حلال گوشت ملتا ہے، مگر مرغی؟۔ مزدلفہ کے واقعے کے بعد انھوں نے مظہر بھائی کے سامنے وضاحت کی تھی کہ جب ذبیحے کا شک ہو تو کم از کم خرید کر تو نہ کھائیں! دوسرے کھلا رہے ہوں تو اُن کا دل رکھنے کے لئے اور حرام ہو تو اس کا عذاب کھلانے والے پر ڈال کر کھا لیں تو کوئی حرج نہیں۔ یہ ہماری بیغم کی دلچسپ دلیل تھی جو اگرچہ ہمارے گلے سے نہیں اتری(ممکن ہے کہ مرغی کے گوشت کے نوالے کے ساتھ اتر جاتی)۔ مچھلی محترمہ کو پسند نہیں ہے شاید۔ مچھلی تو ہم کو بھی مرغی اور بکرے کے (یا "بڑے"کے )گوشت کے مقابلے میں بھی کم ہی پسند ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ دوکانوں پر سبزی کا مطلب ہے وہی آلو مٹر بینس اور ٹماٹر کا سالن جسے ہمہ شمہ انگریزی میں مکسڈ ویجی ٹیبل کری کہہ کر خوش ہوتے ہیں( ہاں، اس دن آلو گوبھی کی سبزی ملی تھی جو ایک انہونی بات تھی)، چناں چہ ایک ہی مزے کی سبزیاں کب تک کھائی جائیں؟ اس لئے مچھلی لے لی تھی ایک دن تو اکیلے کھانی پڑی۔ سوال یہ ہے کہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین دریں مسئلے کے کہ زید کی بیوی ہندہ کا خیال ہے کہ مفت کی کھائی جائے تو مرغی گوشت حلال ہے ورنہ نہیں!!

پھر لا حول ولا اور حرم کو واپسی

کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر 11/ ذی الحجّہ (18 /اپریل) کو دو ڈھائی بجے ہم پھر لاحول پڑھنے نکلے، یعنی شیطان سے نجات پانے کے لئے۔ مگر شاید ادھر تینوں شیطان ہم گناہ گار مسلمانوں سے نجات پانے کے لئے خود بھی لاحول پڑھ رہے تھے۔ ویسے ہم بھی لاحول نہیں، تکبیرِ تشریق پڑھتے جا رہے تھے کنکریاں لے کر۔ اس دن کوئی اور نہیں تھا، صرف ہم دونوں ہی تھے۔ اس لئے پہلے دن کی طرح آسانی تو نہیں ہوئی مگر پھر بھی آرام سے ہی اور نیچے سے ہی کنکریاں مار سکے۔ پہلے چھوٹے، پھر منجھلے اور پھر بڑے شیطان کو بھی۔ اس میں بہت زیادہ مشکل تو نہیں ہوئی مگر کیوں کہ زیادہ قریب سے نہیں مار سکے اس لئے یہ شک ضرور ہوا کہ کنکریاں نظر نہیں آئیں کہ لگیں بھی یا نہیں!(اب نیند آ رہی ہے۔ انشاء اللہ صبح پھر لکھیں گے)

 

23/ اپریل، صبح ساڑھے چھہ بجے۔ گزشتہ سے پیوستہ

 

ہاں تو کہہ رہے تھے کنکریاں مارنے کی بات۔ لوگ اسی وجہ سے کنکریاں نہیں پتھّر مارتے ہیں کہ نشانے پر صحیح لگے۔ رمی جمار نہیں، سنگسار کرتے ہیں، وہ بھی غلط ہے۔ خیر۔ رمی کے بعد واپس آئے، عصر کی نماز پڑھی۔ چائے پی، کچھ باتیں کیں، کچھ طبیعت کی خرابی کا علاج(آپ کو تو معلوم ہی ہے، کیا بار بار لکھیں کہ کس بیماری کا اور کیا علاج!)۔ اس کے علاوہ نمازیں اور کھانا۔

اگلے دن 12/ ذی الحجّہ کی صبح بھی وہی Routineرہا۔صبح 8 بجے ہم اس ڈائری/سفرنامے کو لکھنے بیٹھے تھے تو مظہر بھائی اور اور دوسرے لوگ ہمارے اس مشغلے اور دوسری تحریری سرگرمیوں کے بارے میں دلچسپی کا اظہار کرتے رہے اور سوالات پوچھتے رہے۔ ایک دوسرے سے مذاق کرتے رہے کہ اس کتاب میں جبّار بھائی کی اس حرکت کا بھی ذکر ہے اور ستّار بھائی کے اس وقوعے کا بھی(کچھ متعلّقہ حصّے ہم نے ان لوگوں کو پڑھ کر بھی سنائے تاکہ انھیں یقین آ جائے کہ ہم کس پائے کے ادیب ہیں)۔ ویسے سچ پوچھئے تو نہ جانے کتنا کچھ بھول بھی گئے ہیں اور بیسیوں اہم باتیں چھوٹ بھی گئی ہیںکہ ہم کبھی وقت سے نہیں لکھ پا رہے ہیں۔ اب یہی دیکھئے کہ 12۔13 اپریل تک کچھ وقت پر آئے تھے یعنی آج کی روداد آج ہی لکھنے کی نوبت آ گئی تھی مگر پھر 20 اپریل تک کا طویل وقفہ حائل ہو گیا ہے اور اب 16 سے 19۔20 اپریل تک کا بیان کرتے کرتے آج چار دن ہو گئے ہیں۔ آج 24/اپریل، 16 ذی الحجّہ ہے۔ اس دن کی بات ضرور یاد ہے کہ ہم نے کچھ دیر ڈایری لکھنی شروع کی تھی صبح نو یا ساڑھے نو بجے پھر خیال آیا کہ علی گڑھ اور بچّوں کو حیدر آباد خطوط لکھ دئے جائیں۔ فون پر یا ٹیلیگرام کے ذریعے ہماری خیریت کی اطّلاع دے بھی سکیں تب بھی تفصیل تو نہیں دے پائیں گے۔ لوگوں کو شاید شک ہو کہ ہم زندہ ہونے پر بھی ممکن ہے کہ کچھ زخمی ہو گئے ہوں، سامان وغیرہ جل گیا ہو۔ اس شک کو دور کرنے کے لئے تو خط ہی بہتر ہے کہ یہ مطمئن کر سکیں کہ الحمدُ لِلّہ ہمارا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔خط لکھتے لکھتے 11 بج گئے تھے اور ہم نے خود یہ پلان بنا رکھا تھا کہ 11 بجے کیمپ سے نکلیں گے کہ جمرات تک پہنچتے پہنچتے، اگر زیادہ بھیڑ ہوئی تو بارہ ساڑھے بارہ تک ہی وہاں پہنچ سکیں گے تو زوال کا وقت شروع ہو چکا ہوگا اور رمی کا وقت زوال کے بعد ہی شروع ہوتا ہے، یعنی ظہر کے ساتھ۔ شروع وقت میں ہی رمی کر لیں گے تو حرم کے لئے جلد واپسی ممکن ہو سکے گی۔ 12/ کو مغرب سے پہلے اگر رمی نہ کی جائے تو پھر ایک دن مزید رکنا ہوتا ہے منیٰ میں ہی۔ ویسے کیمپ سے گاڑیاں حرم کے لئے صبح سے ہی جا رہی تھیں۔ بہت سے لوگوں نے عورتوں کو رخصت کر دیا تھا کہ ان کے لئے اجازت ہے (اور بوڑھوں کے لئے بھی) کہ ان کی جگہ کوئی اور کنکریاں مار سکتا ہے۔

راستے میں تو اتنی بھیڑ نہیں تھی اور ہم 50۔11 پر ہی چھوٹے شیطان کے پاس پہنچ گئے جب کہ زوال کا وقت شروع بھی نہیں ہوا تھا۔ ہم اوپر جانے والے راستے کی طرف مڑ گئے کہ آج وہاں سے کریں گے تو شاید کم بھیڑ ہوگی اور زیادہ مشکل نہیں ہوگی۔ وہیں کھڑے ہو کر گھڑی دیکھتے رہے کہ کب زوال کا وقت شروع ہو اور ہم رمی کر سکیں۔وہاں دیکھا کہ ایک جمِّ غفیر بے حس و حرکت کھڑا ہے اور سب کی نظریں گھڑیوں پر ہیں۔اس وقت تک ہمارا پورا گروپ موجود تھا، صرف مظہر بھائی کی اہلیہ اور بہو ساتھ نہیں تھیں۔ ان لوگوں کی طرف سے ان کے بیٹے رمی کرنے والے تھے۔ جیسے ہی 20۔12 ہوئے اور اس سمندر نے موجیں مارنی شروع کیں۔ اور جو حرکت شروع ہوئی تو یوں ہوا کہ ہم چل ضرور رہے تھے مگر ہمارے قدم زمین پر نہیں تھے۔یعنی چلنے کے لئے قدم اٹھاتے تو زمین پر رکھنے کی جگہ نہیں ملتی، اور ہوا ہی ہوا میں کھسکتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ کوئی 5 منٹ یہی عالم رہا۔ جب پہلا گروہ کنکریاں مار چکا تب جا کر پتہ چلا کہ ہاں، کچھ حرکت ہو رہی ہے۔ جمرات کے قریب کا عالم مت پوچھئے۔ آگے بڑھنے کی کوشش کرتے اور ایک کنکری ہاتھ میں لیتے کہ ایک اور ریلہ آ کر پیچھے دھکیل دیتا۔ اس حملے سے کچھ سنبھلتے کہ ایک اور ریلہ پیچھے سے دھکیل دیتا۔ اور جمرات کے قریب پہنچ بھی جاتے تو یہ صورت ممکن نہ ہوتی کہ ہاتھ اونچا کر کے کنکری مار سکیں۔بہر حال پہلے شیطان پر ہی ہم دونوں کے کنکریاں مارنے میں کوئی آدھا گھنٹا لگ گیا۔ کسی نہ کسی طرح رمی ادا ہو گئی، خدا قبول کرے۔ اوپر فلائی اوور پر یہ حالت تھی تو نیچے کیا عالم ہوگا (بعد میں معلوم ہوا کہ اسی وقت 40 حاجی جاں بحق ہو گئے )۔

بہر حال تینوں شیطانوں کو سزا دے کر اور اپنا واجب ادا کر کے لوٹے تو سکون ملا۔ واپسی میں صابرہ راستے کی دوکانیں دیکھتی ہوئی آئیں۔ پانی لے کر جانا بھول گئے تھے اس لئے کولڈ ڈرنک پیا ("بلیک"میں ایک ریال کی جگہ ڈیڑھ ریال میں )پےپسی کا ٹن۔ بڑی بوتلیں اس وقت مارکیٹ میں غائب تھیں جو ہم پہلے 2 ریال کی 125ء1 لٹر اور تین ریال میں 2 بلکہ کبھی 25ء2 لٹر کی بوتلیں لے لیتے تھے۔ اس وقت مجبوراً 330 م ل ( عربی میں ملی لیٹر کو اسی طرح لکھتے ہیں) کا ڈبّہ ہی لیا تھا (اس میں بھی کچھ برانڈس میں اسی قیمت میں 375 م ل کولڈ ڈرنک ملتا ہے)ہاں اس دن اچانک سکّے والے ٹیلی فون بوتھ بھی نظر آ گئے اور جنھوں نے ہمیں بتایا تھا کہ منیٰ میں ایسے بوتھ نہیں ہیں، وہ غلط تھا۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ جس بوتھ پر ہم کو یہ خبر ملی تھی اس سے یہ سکّے والا بوتھ بمشکل 50 میٹر دور تھا۔ وہاں البتّہ صابرہ نے اپنے بہنوئی کے بہنوئی یعنی اشفاق بھائی کو ضرور فون کیا۔اس اطّلاع کے لئے کہ ہم لوگ محفوظ ہیں اور مکہ کے لئے نکل رہے ہیں۔ پتہ چلا کہ وہ لوگ بھی حج کے لئے ہی منیٰ میں ہی ہیں اور اسی دن شام کو وہ لوگ بھی مکّہ واپس جا رہے ہیں۔ ان کے لئے پیغام چھوڑ دیا۔

جمرات پر ہی سب بچھڑ گئے تھے مگر ہم لوگ "فٹ پاتھ شاپنگ" ("وِنڈو شاپنگ" کی طرح) کرتے ہوئے اور فون کرتے ہوئے واپس سب سے پہلے ہی پہنچے۔ پہلے سوچا تھا کہ کھانا خریدتے ہوئے چلیں گے اور کیمپ جا کر پہلے ظہر کی نماز پڑھ لیں گے اور پھر کھانا کھانے کا وقت ہوا تو کھا لیں گے ورنہ ساتھ لے چلیں گے۔ پھر سوچا کہ پہلے حالات کا جائزہ لے لیا جائے کہ کب روانگی ہے۔ کیمپ پہنچے تو وہاں جنوب مشرقی ممالک کے معلموں کی ایسوسی ایشین کی جانب سے کھانے کے پیکٹ تحفتاً تقسیم ہو رہے تھے۔ اس میں کھجور کا بسکٹ، دو اور بسکٹ، دو توس، پنیر، کیک، موسمبی اور کولڈ ڈرنک۔ ایک ہم کو ملا مگر صابرہ کے پاس دو عدد آ گئے۔ ہم نے جلدی سے دو رکعت ظہر کی نماز پڑھی۔ تب تک لوگ آنے لگے تھے، مگر کسی کو بس میں بیٹھنے کی جلدی نہیں تھی۔ کوئی کھانا کھا رہا تھا، کوئی کھانا خریدنے جا رہا تھا۔ ہم نے موقعہ غنیمت جانا اور پہلے اپنا سامان بس میں رکھ دیا جو آ گئی تھی۔ اسی بھاگ دوڑ کے دوران ہی کچھ کیک بسکٹ ہم نے بھی کھا لئے۔ 3 بج گئے تھے۔ بس میں بیٹھ بھی گئے بلکہ ساتھیوں کے لئے سیٹیں بھی محفوظ کر لیں۔ پہلے مرد آ کر بیٹھے اور عورتوں کا انتظار کرتے رہے۔ جب ہمارا "سیارہ" ( یعنی بس) روانہ ہو نے کے لئے ہارن دے رہا تھا تب عورتیں آ کر بیٹھیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ہماری بس کے فوراً بعد ہی جو بس وہاں سے نکلی، وہی آخری بس تھی اور اس کے بعد جو لوگ بچے تھے، وہ چھہ بجے تک انتظار کر کے پیدل ہی روانہ ہوئے کہ سورج ڈوبنے سے پہلے منیٰ کی حدود سے باہر نکلنا ضروری ہے ورنہ پھر ایک دن مزید رکنا ضروری ہو جاتا ہے۔

جن حالات میں بسیں چلتی ہیں، ان حالات میں انتظامیہ کے لئے بھی یہ مشکل ہوتا ہے کہ مکّے کی عمارتوں کے محل وقوع کے حساب سے بسیں چلائی جائیں۔ یا اگر ایسی بسیں چلتی بھی ہیں تو افرا تفری اور اس شک میں کہ دوسری بس ملے گی بھی یا نہیں، لوگ کسی بھی بس میں بیٹھ جاتے ہوں گے۔ وہاں عالم یہ تھا کہ بسیں آتے ہی بھر جا رہی تھیں۔ ورنہ کسی کو کہیں اترنا تھا تو کسی کو اور کہیں۔ یہ ڈرائیور کے لئے بھی ممکن نہیں تھا کہ ہر ایک کو اس کی منزل تک ہی پہنچائے۔ وہ یہی پکارتا رہا تھا کہ بس حرم کے قریب کہیں روکے گا اور پھر معلم کے دفتر پر۔ لوگ اپنے حساب سے اتر جائیں۔ ہم کو حرم سے اپنا راستہ معلوم ہی تھا۔ معلم کا دفتر ہم نے ہر بار بس کے سفر میں دیکھا ضرور تھا مگر راستہ معلوم نہیں تھا۔ حرم میں البتّہ کہیں بھی چھوڑتے تو ہم باہر کی چار دیواری کو پار کر کے اپنے مسعیٰ والے راستے (باب السلام والے)پر آ کر اپنی عمارت رقم 468 پہنچ سکتے تھے۔ اس بس نے ساڑھے چار بجے ہمیں حرم کے باب فہد کے پاس چھوڑا، بلکہ چھوڑا تو ایک سرنگ کے دہانے پر اور تب ہم کو سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ ہم کہاں ہیں۔ سڑک پر ایک تیر کے نشان سے معلوم ہوا کہ ادھر باب فہد ہے۔ یہاں سیڑھیاں تھیں اور Escalatorsبھی تھے ("سلم کہربائی"۔شاید ہم نے لکھا ہے کہ یہاں عربی میں برق سے مراد ٹیلی گراف ہے، بجلی نہیں اور بجلی کے لئے "کہہ ربا " استعمال کیا جاتا ہے) اور نیچے سے کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا کہ اوپر کیا ہے۔ ان برقی زینوں سے کوئی تین منزل اوپر آئے تب باب فہد نظر آیا۔ عصر کا وقت تو کب کا شروع ہو چکا تھا اس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ بجائے باہر ہی باہر اپنا پرانا راستہ تلاش کرنے کے بہتر یہ ہے کہ پہلے اندر ہی چل کر نماز پڑھ لی جائے۔ پھر یہ طے تھا کہ پیدل ہی واپس عمارت تک آئیں گے۔ ٹیکسی کرنے کی کوشش تو بابِ فہد کے قریب سرنگ میں ہی کر لی تھی اور مایوسی ہوئی تھی کہ ساری ٹیکسیاں بھری ہوئی تھیں، کوئی خالی نہیں تھی ورنہ پہلے عمارت میں سامان رکھ کر ہی آنے کا ارادہ تھا۔ ادھر بھیڑ میں سب بچھڑ گئے تھے مگر ملنے کی جگہیں مقرّر تھیں۔ایک تو غسل خانوں کے دروازوں کے پاس اور دوسرے باب السلام کے پاس۔ اس وقت سب کو وضو بھی کرنا تھا، اس لئے ہم نے سوچا کہ اس طرف ہی وضو کیا جائے جہاں ہمیشہ کرتے آئے ہیں۔ وہیں شاید سب سے ملاقات بھی ہو جائے، 10 منٹ تک انتظار کرنے کے بعد جب کسی سے ملاقات نہیں ہوئی تو ہم نے وضو کیا، پہلے خود اور پھر سامان کے پاس رک کر صابرہ کو وضو کے لئے بھیجا۔ جب یہ وضو کر کے آئیں تو ان کے ساتھ جبّار بھائی کی بیوی فاطمہ بھی ساتھ تھیں۔ معلوم ہوا کہ یہ سب لوگ باب السلام کے قریب ہی سامان رکھ کر بیٹھے تھے۔ (صبح 7 بجے پھر ہم اپنے رخشِ قلم کو مہمیز کر رہے ہیں، بعد میں پھر لکھیں گے)۔

 

23/ اپریل، 2 بجے دن

غرض ہم دونوں وضو کر کے سامان لے کر باب السلام کی طرف ہی سب کے پاس پہنچ گئے۔ عصر کی نماز پڑھی تو پھر سب لوگ بکھر گئے۔ جمع ہونے میں وقت لگا۔ اس لئے جتنے لوگ جمع ہوئے، وہی ساتھ ساتھ عمارت کی طرف آئے اور پہلے عمارت میں سامان رکھا۔ یہ دیکھتے ہوئے آئے تھے کہ ہمارے غیاب میں عمارت کے بالکل نیچے ہی ایک چائے کی دوکان لگ گئی ہے۔چناں چہ پھر اتر کر وہیں سے چائے خریدی اور آدھی آدھی پی رہے تھے کہ باقی لوگ بھی پہنچ گئے۔

اس دن حرم میں جانے کی لوگوں میں ہمّت نہیں تھی۔چناں چہ ہم بھی اکیلے نہیں گئے۔ مغرب اور پھر عشاء کی نمازیں عمارت میں ہی پڑھیں۔ اگلی صبح فجر کے لئے حرم گئے اور پہلے محبوب نگر فون کیا جو جلد ہی مل بھی گیا۔ بچّے بھی وہاں ہی تھے۔ ان کو خیریت کی اطلاع دے کر جب حرم پہنچے تو جماعت کھڑی ہو چکی تھی۔ ہمیں وضو بھی کرنا تھا۔ وضو کر کے آئے تو دیکھا کہ غسل خانے کے قریب ہی جماعت کھڑی ہے۔ دوسری رکعت میں شامل ہو گئے۔

تندورِ مکّہ

شام کو، اور اب ہم 12/ ذی الحجّہ مطابق 19 اپریل کی شام کا ذکر کر رہے ہیں لیکن لکھ رہے ہیں 23/ اپریل کو۔ اس لئے تین چار دن کی روداد کو ملا کر لکھ رہے ہیں۔ ہاں تو حرم کے اس دور کے قیام کی پہلی ہی شام کو تو ہم نے وہی کچھ کھا لیا جو ہمارے ساتھ تھا۔ اگلے دن البتّہ ہمارا مشن یہ تھا کہ وہاں بھی افغانی تندور ڈھونڈھا جائے جہاں مدینے کی طرح گرما گرم روٹی اور عمدہ دال ملنے کی امّید تھی۔ وہ بھی صرف ایک ریال میں۔ سبزی وہاں 2 ریال کی تھی۔ اب تک ہم نے صرف حرم کا راستہ دیکھا تھا۔اس کے علاوہ مدینے جانے جانے والے دن ہی ہندوستانی حج آفس کی عمارت دیکھی تھی اور وہ راستہ ہمارے راستے سے تھوڑا ہٹ کر تھا۔ اسی طرف گئے تو ایک تندور مل ہی گیا۔ مدینے میں ہی ہمارے تندور کے علاوہ تین چار اور تندور دیکھے تھے اس لئے ان کی پہچان ازبر تھی۔ اب آپ سے کیا چھپائیں، بلکہ چھپانا ہمارا مقصد بھی نہیں، ہم تو چاہتے ہیں کہ آپ بھی ڈھونڈ کر تجربہ کر کے دیکھیں۔ ان تندوروں کی یہ پہچان ہوتی ہے کہ سامنے ہی ایلومینیم کے بڑے بڑے دو تین دیگ ہوتے ہیں۔ اس میں ایک برتن صراحی کی شکل کا ہوتا ہے۔جو 45 ڈگری کے زاوئے پر جھکا ہوتا ہے۔ اور یہ دیگ بھی ہماری طرف کے دیگوں کی طرح کالے نہیں، چاندی کے رنگ کے ہوتے ہیں۔ صراحی دار برتن میں لوبئے کی مخصوص مزے کی دال بنائی جاتی ہے۔ اسے وہ لوگ "فول" کہتے ہیں۔ مگر یہاں جو تندور دریافت ہوا اس سے مایوسی ہوئی۔ "شیخ التندور" نے پلاسٹک کے ایک پیالے میں بغیر بگھری، محض ابلی ہوئی دال نکالی، اس پر کچھ چاٹ مسالے نما سفوف چھڑکا اور اوپر سے کچّا تیل ڈال کر ڈھکّن لگا کر پیک کیا اور پالیتھین بیگ میں پکڑا دیا۔ روٹی کے لئے کافی دیر قطار میں لگنا پڑا مگر روٹی بھی جلی ہوئی ملی۔ پراٹھے کا پوچھا (جو مدینے میں کھاتے تھے) تو شیخ کا جواب تھا کہ دس پندرہ دن پراٹھے بھول جاؤ۔ شاید ہم لکھ چکے ہیں کہ ان تندوروں میں، کم از کم مدینے میں، تین طرح کی روٹیاں ملتی ہیں۔ پراٹھا، "بسکوت" اور چپاتی۔ چپاتی علی گڑھ کے "ڈنلپ"کی طرح ہوتی ہے، یعنی خمیری تندوری روٹی۔ مگر اس سے زیادہ ضخیم ، وقیع اور وزنی۔ یہاں صرف بسکوت ہی تھا۔ اور دو دن تک وہی کھاتے رہے، مگر یہ ٹھنڈا ہونے پر سخت ہو جاتا ہے۔ اس لئے یہاں مزا نہیں آیا۔ ایک وقت سبزی لی تو مٹر اور بینس کی تھی، آلو بھی نہیں تھے اس میں۔ یہ اگر چہ مزے کی تھی مگر مرچ بہت تیز تھی۔ 21 اپریل کی دوپہر تک تو ہم نے اس تندور کا نمک کھایا بلکہ اس کی پذیرائی کی۔ اس شام کو ہماری دعوت ہو گئی۔اس کا الگ سے لکھیں گے، آخر ہم کو عنوانات بھی تو بنانے ہیں۔22/ کو یعنی کل صبح پھر دال لے کر آئے تھے وہاں سے ہی۔ مگر بور ہو گئے اس تندور سے، تو کل شام کو ہم نے پھر شعبِ عامر میں، اپنے ہندوستانی دوا خانے اور حج آفس برانچ کے آس پاس کے علاقے کا ایک اور دورہ کیا اور آخر ایک اور تندور دریافت ہو گیا۔ کل شام کو ہم وہاں سے دال لے کر آئے۔ 2 ریال کی ہی، مگر یہ بہت بہتر تھی۔ مدینے کے تندور کی طرح ہی۔

طازج فقیہ عرف مکّہ دربار ہوٹل

ہندوستان پاکستان بلکہ لندن تک میں آپ کو دلّی دربار نام کی کوئی نہ کوئی ہوٹل ضرور ملے گی۔مگر یہ بات محض یوں ہی یاد آ گئی کہ پرسوں رات جہاں کھانا کھایا، وہ ہوٹل دلّی دربار تو نہیں تھی، اسے مکّہ دربار ضرور کہ لیجئے، بلکہ اس ایر کنڈیشنڈ ہوٹل، جو بہت Poshتھی، کا نام تھا۔طازج فقیہ بلکہ انگریزی میں اس کا پورا نام ہی بتا دیں جو کہ تھا۔Faqih Chicken- Bar- B- Que۔ ابتدا اس قصّے کی یوں کریں کہ عشاء کی نماز پڑھ کر ہم دونوں واپس آ رہے تھے تو صابرہ نے کہا کہ آج چاول لئے جائیں، بگھارے چاول یا فرائیڈ رائس۔ یہ معاملہ تندوروں کے دائرے سے خارج تھا، چناں چہ دوسری عربی، ہندوستانی، پاکستانی ہوٹلوں میں اس کی تلاش تھی۔ ہر جگہ سادہ (جنوبی ہند کی اصطلاح میں سفید چاول White Rice)چاول تو دستیاب تھا۔ بگھارا چاول بھی کہا، انگریزی میں فرائڈ رائس بھی کہا مگر ہوٹل والے منہ تکتے تھے۔ ایک پاکستانی ہوٹل والے نے تو طنز بھی کر دیا کہ بھائی اردو بولو۔ ہم کو انگریزی نہیں آتی۔بہر حال بدقّت پتہ چلا کہ اسے گھی کا پُلاؤ کہنا پڑے گا۔ مظہر بھائی وغیرہ اکثر لے کر آتے تھے بازار سے اور ان کے خاندان کے ساتھ صابرہ یہ چاول کھا چکی تھیں۔چناں چہ تین ریال کا یہ گھی کا پلاؤ لائے۔ دہی خریدی، کچھ روٹیاں رکھی تھیں(اس کی داستان الگ ہے، بعد میں لکھیں گے)ہم یہی سوچ رہے تھے کہ دال بھی لے لیں گے یا پھر ہمارے ساتھیوں سے کسی سے لے لیں گے۔ اپنی عمارت کی طرف آنے کے لئے سڑک پار کر رہے تھے کہ باقر کا پر نور چہرہ (داڑھی والا) نظر آیا۔ یہ صاحب ہمارے ہم زلف محمود بھائی کے چھوٹے بھائی ہیں اور ان کے ساتھ ہی ان کے بہنوئی اشفاق بھائی بھی تھے جو علی گڑھ کے انجینئر ہیں۔ یہ لوگ کار میں جدّہ سے ہم سے ملنے آئے تھے۔ حالاں کہ حج میں یہ لوگ بھی تھے مگر منیٰ میں ہمارے کیمپ کی طرف گاڑی لے کر نہیں آ سکے تھے۔اس لئے اب ملنے آئے تھے۔البتّہ آتے ہی حج آفس میں یہ معلوم کر لیا تھا کہ ہم لوگوں کا نام مرحومین اور زخمیوں کی فہرست میں تو نہیں تھا۔

سڑک سے ہی کار میں بٹھا لیا انھوں نے اور ہاتھ کا سامان بھی عمارت میں رکھنے نہیں دیا۔ لاکھ کہا کہ ہم کھانا لے کر آ گئے ہیں تو کہنے لگے کہ اس کھانے کو بعد میں کھانے کے لئے رکھ لیں اور اس وقت ان کے ساتھ چلیں۔ چناں چہ چلے مکّے کی سڑکوں کی سیر کرتے ہوئے (اشفاق بھائی ڈرائیو کر رہے تھے۔) اس خوبصورت ہوٹل میں پہنچے اور پھر یہ دونوں ہی چار ٹرے اٹھا کر لائے۔ کھانا واقعی بہت عمدہ تھا۔ مرغی کے ساتھ ایک عدد روٹی تو آتی ہی تھی ، ایک ایک روٹی مزید لے آئے تھے۔ روٹیاں تو جتنی چاہئیں، مل جاتی ہیں نا! ایک پلیٹ چاول بھی تھا۔ ہر ٹرے میں آدھی آدھی مرغی، ایک پیکٹ میں "فرینچ فرائز" یعنی آلو کے لمبے لمبے تلے ہوئے قتلے۔ دو پانی کی بوتلیں۔ ویسے پانی یہاں کی ہوٹلوں میں ملتا نہیں، مانگئے تو ایک بوتل دے دیتے ہیں آدھا لٹر پانی کی اور پھر کہتے ہیں کہ لائیے ایک ریال۔پھر مٹھائی کے دو دو ٹکڑے، ٹماٹر کے "کیچ اپ" ("کشتاب" عربی میں) کے چھوٹے چھوٹے پاؤچ۔ ٹِشو پیپر کے پاؤچ (ویسے عموماً ہر ہوٹل میں ٹِشو پیپر کا پورا ڈِبّہ ہر میز پہ رہتا ہے، جتنا چاہیں استعمال کریں) اور ایک گلاس میں پےپسی، یا "بے بسی"۔ سرو کرنے والی پلیٹ بھی معہ ڈھکّن کے تھی ( جسے ہم ساتھ لے آئے ہیں اور آج کل اسی میں کھانا ہو رہا ہے)۔معلوم ہوا کہ ان فقیہہ صاحب کے خود کے فارمس ہیں مرغی اور بکروں دونوں کے اس لئے دونوں قسم کے گوشت کے حلال ہو نے میں شک کی گنجائش نہیں، اسی لئے وہ لوگ وہاں کھانا کھاتے ہیں۔مرغ میں مرچ مسالہ بہت کم تھا، اس لئے اور بھی اچھّی لگی، خاص کر "کشتاب" کے ساتھ۔ اشفاق بھائی کہنے لگے کہ کولڈ ڈرنک بھی ساتھ چلنے دیں جیسے کہ یہاں کے لوگ کرتے ہیں۔چناں چہ ہم نے بھی یہی کیا۔ ویسے اشفاق بھائی بِل پہلے ہی دے کر آئے تھے مگر بِل پر ہماری نظر پڑ گئی۔ مرغی دس ریال فی پلیٹ تھی، چار پلیٹوں کے 40 ریال، 3 ریال کے فرنچ فرائیز، اور 4 ریال کی مٹھائی، کل 47 ریال کا بل تھا جو بہت مناسب ہی تھا( بشرطیکہ آپ اسے ہندوستانی رقم میں ترجمہ کر کے نہ دیکھیں کہ اس طرح یہ 470 روپئے ہو جاتے ہیں)۔ یہاں سبھی جگہ تلی یا بھونی ہوئی مرغی 10 ریال کی ہی ملتی ہے۔کولڈ ڈرنک مفت۔ روٹی چاول بھی۔ ان کی سروس بھی عمدہ تھی۔ کشتاب کے 12۔15 Sachetہم نے لے لئے تھے جو کافی بچ گئے تھے۔ روٹیاں اور چاول بھی۔ باقی سامان پیک کروا کے ساتھ بھی لے آئے۔کار میں آئے تو باقر نے پان نکالے۔ یہ پان یہ لوگ جدّے سے ہی پیک کرا کے لائے تھے۔ہم کو ہوٹل واپس چھوڑا تو رات کے 11 بج رہے تھے۔ مگر اس دعوت میں خوب مزا آیا۔

لوٹ کا مال

ملک فہد بن عبدالعزیز آلِ مسعود جو اپنے کو خادمِ حرمین شریفین لکھتے ہیں، کی جانب سے حرم کے علاقے میں روزانہ ٹھنڈے پانی کے پیکٹ تقسیم ہوتے ہی ہیں، ہم حرم سے ٹھنڈا زمزم بھی ہمیشہ بھر کر لاتے ہیں۔ راستے میں یہ گاڑیاں کھڑی رہتی ہیں۔ "ہدیۂ من الملک" انگریزی میں لکھا ہوتا ہے۔ Royal Giftتو انھیں بھی تحفۂ شاہ سمجھ کر قبول کرتے رہتے ہیں۔20۔21 کی دوپہر کو لے کر آئے تھے تو کل ہم ظہر کے وقت اپنی پانی کی بوتل ہی نہیں لے کر گئے کہ راستے میں پانی کے پیکٹ لوٹ کر لائیں گے۔ مگر وہ گاڑیاں غائب تھیں۔ سوچا کہ ممکن ہے کہ تحفۂ شاہ کا سلسلہ ختم ہو گیا ہو کہ اب حج مکمّل ہو گیا ہے اور بہت سے لوگ واپس جانے لگے ہیں۔ اپنے وطن تو نہیں مگر مدینے، کہ یہ لوگ پہلے یہاں ہی آ گئے تھے اور اب حج کے بعد مدینے جانے والے تھے۔ مگر آج صبح ہم ١٠ بجے حرم سے واپس آ رہے تھے تو پھر یہ گاڑیاں کھڑی تھیں اور ہم پھر ١٠۔٨ پیکٹ لوٹ کر لائے جب کہ حرم سے پانی کی بوتل بھی بھر کر لائے تھے۔ یہ سارے پیکٹ عمارت میں آ کر بانٹ دئے۔ ظہر کے بعد دیکھا تو ایک گاڑی میں پانی ختم ہو گیا تھا۔ اس سے پہلے والی ایک اور گاڑی میں تقسیم ہو رہا تھا مگر ہم سڑک پار کر چکے تھے اور یہ پانی لینے کے لئے سڑک پار کرنی پڑتی۔ اس لئے ہم نے چھوڑ دیا۔ اس کے علاوہ ٢٠ /کو ہی اسی جگہ ناشتہ بھی تقسیم ہو رہا تھا۔ اس کے تین پیکٹ لائے تھے ہم صبح۔ ہر پیکٹ میں ٢۔٢ لمبی والی ڈبل روٹیاں (بعد میں معلوم ہوا کہ ان کا نام "سلومی" ہے)اور ٤۔٤ چھوٹے چھوٹے پیکٹوں میں جام (٣٠ جرام کے، مراد گرام، جیسا کہ ان پر تحریر تھا)اور ٤۔٤ پیکٹوں میں ہی "کریم چیز"(Cream Cheese) جو تقریباً مکھّن ہی تھا کہ اس میں کریم بھی شامل تھی۔ چناں چہ دو دن سے یہی مفت کا ناشتہ چل رہا ہے۔ بلکہ روٹیاں تو کھانے میں بھی کام میں آ رہی ہیں۔ ٢١/ کو ہی بن جام ہم خرید کر بھی لائے تھے۔ ٢ ریال کے ٨ عدد۔ وہ ناشتے میں چل رہے تھے چیز اور جام کے ساتھ اور سلومیاں کھانے میں استعمال میں آ رہی تھیں۔روٹیاں نہیں خرید رہے تھے۔ ابھی تک بھی جام اور پنیر باقی ہے۔آج دوپہر کو صابرہ نے جبّار بھائی کے خاندان کے ساتھ کھانا کھا لیا توہم بھی وہ چیز لے کر آئے جو یہ نہیں کھاتیں، یعنی مچھلی۔اب شام کو انشاء اللہ دال سبزی اور روٹی لائیں گے۔نیا تندور زندہ باد۔ ناشتے کے لئے بن بھی لانے ہوں گے۔

حرم کے شب و روز

جب سے ہم آئے ہیں، یہ بد قسمتی جاری ہے کہ فجر کی حرم کی نماز نہیں مل رہی ہے۔آنکھ کھلتی ضرور ہے فجر کے لئے مگر پانچ، ساڑھے پانچ بجے کہ بس خود ہی اکیلے فجر کی نماز کا وقت رہتا ہے۔چناں چہ ہمارا وہی معمول ہے کہ ناشتے کے بعد ساڑھے سات آٹھ بجے حرم جا رہے ہیں۔ طواف کرتے ہیں، قضا نمازیں پڑھتے ہیں، نہانا دھونا ہوتا ہے تو وہ کرتے ہیں اور ساڑھے نو، دس بجے واپس آ جاتے ہیں...

(رات ساڑھے دس بجے)

...اس کے بعد گیارہ ساڑھے گیارہ بجے پھر ظہر کے لئے نکلتے ہیں۔ ظہر کی نماز پڑھ کر کھانے کا انتظام کرتے ہوئے آ جاتے ہیں۔ پھر کھانا وغیرہ کھانے تک دو ڈھائی بج جاتے ہیں۔ تین بجے تک یہ "سفر نامہ" تحریر کرتے ہیں۔ کبھی کبھی کچھ اور کام بھی۔جیسے آج ہی ہمارے کمرے کی ایک صاحبہ کو ان کی لڑکی کے نام خط لکھ کر دیا۔ اور پھر عصر کے لئے گئے تو خود ہی پوسٹ بھی کیا۔ عصر کے بعد آتے وقت ہی نیچے کی دوکان سے ہی چائے لیتے ہوئے آتے ہیں جو ہم دونوں آدھی آدھی پی لیتے ہیں۔ اس کے بعد کچھ دیر پڑوسیوں سے بات چیت ہوتی ہے۔یہاں کمرے پر یا پھر مظہر بھائی جبّار بھائی وغیرہ کے کمروں میں۔ پھر چھہ بجے نکل جاتے ہیں۔ مغرب اور عشاء کے درمیان ایک اور طواف کرتے ہیں۔ عشاء کے بعد کھانے کا انتظام اور کھانے تک دس بج جاتے ہیں۔ پھر گھنٹہ بھر یہ لکھنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔

آج کہیں جا کر حرم کی پرانی حالت کچھ حد تک لوٹ آئی ہے جیسی مدینے جانے سے قبل تھی۔ یعنی راستے صاف ہو گئے ہیں۔حرم کا صحن بھی بالکل صاف ہو گیا ہے جو کل تک بھی گندا تھا۔ راستے ضرور پرسوں ہی کافی صاف ہو گئے تھے۔کچھ تبدیلیاں اب بھی باقی ہیں۔ پہلے سائل نظر نہیں آتے تھے۔ جو ہمارا ارادہ تھا کہ احرام کی بے حرمتی کے لئے بطور دم کچھ گیہوں یا اس کی قیمت دے دیں گے تو اس وقت کوئی سائل دکھائی نہیں دیتا تھا۔ آج کل کئی اپاہج لوگ اور افریقی نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر عورتیں اور بچّے۔ ویسے زیادہ تر افریقی عورتیں یا تو کبوتروں کے لئے بطور دانہ گیہوں فروخت کرتی نظر آتی تھیں اور ہیں ۔ ایک ایک ریال کے پیکٹ یا پھر بڑے ٥ ریال کے، یا پھر مہندی کی دوکانیں لگائے ہوئے۔ سنا ہے کہ یہاں کی مہندی کا رنگ بہت گہرا ہوتا ہے۔صابرہ کا بھی لینے کا خیال ہے۔فٹ پاتھوں پر چوڑیوں، ہاروں، تسبیحوں اور اسکارفوں (ان کو "محرمے" کہتے ہیں) کو بیچنے والیاں بھی افریقی ہی ہیں۔ کچھ انڈونیشی ، کچھ عرب اور کچھ بنگلہ دیش ی بھی۔ منیٰ میں البتّہ بیچنے والے زیادہ تر بنگلہ دیشی ہی نظر آئے۔ جو دوکانیں ہمارے مدینے جانے کے بعد لگی تھیں، وہ اب بھی ہیں۔ ان معاملوں میں اطرافِ حرم اب بھی پہلے جیسے نہیں ہیں۔

ایک دو تبدیلیاں اور بھی نظر آتی ہیں۔شارع مسجدِ حرام اور طریقِ مسجدِ حرام کے جنکشن پر فرانسیسی بنیان کا اشتہار لگا ہے جس میں بنیان پہنے ہوئے ایک مرد کی تصویر ہے۔مگر چہرے کی جگہ مختلف رنگوں کے مستطیل بنے ہوئے ہیں جیسے ہمارے یہاں ٹی وی پر کسی کی شناخت چھپانے کے لئے چہرے کو بگاڑ دیا جاتا ہے۔یہاں شاید اس کا مقصد یہ ہے کہ تصویر اصل کے مطابق نظر نہ آئے۔ مگر اس سے پہلے ہم نے کسی قسم کی تصویر کسی اشتہار میں بھی نہیں دیکھی تھی۔ ممکن ہے کہ یہ ہماری غلط فہمی ہو۔ ہاں، اس بنیان کے اشتہار میں تحریر ہے۔ "100 فی صد قطن" یعنی 100 فی صدی کاٹن۔

مدینے سے ایک بات کا اور مشاہدہ کرتے آئے ہیں ہم۔ پہلے جو بھی کاریں ہم نے دیکھی تھیں، ان کے نمبر محض ایک سات حرفی عدد دیکھا تھا۔ اب ہندوستان میں اب سے 8۔10 سال قبل جیسے نمبر بھی نظر آئے ہیں جو شاید نئی کاروں پر ہیں۔ جیسے ABC 769، عربی میں ہی تین حرفی اور 3 ہندسوں کے عدد۔

کچھ بین ا لا قو امی حجّاج کے با ر ے میں

جیسا کہ لکھ چکے ہیں کہ حرمین میں اکثر سائن بورڈوں پر تین زبانیں ضرور لکھی ملتی ہیں۔ عربی، انگریزی اور اردو۔ کبھی چار ہوتی ہیں تو یہ چوتھی زبان بھی رومن رسم الخط میں ہوتی ہے۔ یہ شاید انڈونیشی ہوتی ہے۔ انڈونیشیا کے لوگ سب سے زیادہ تعداد میں ہیں، یہ ہم کو بھی شک ہوا تھا۔ پرسوں باقر نے "کنفرم" بھی کر دیا کہ اخباروں میں بھی آیا ہے کہ انڈونیشیا کے حاجی ہی سب سے زیادہ ہیں۔ یہ لوگ بہت پسند آئے۔ ویسے ان کی عمروں کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے کہ ان لوگوں کے چہرے سدا بہار نظر آتے ہیں۔ پھر بھی لگتا یہی ہے کہ برِّ صغیر کے بوڑھے حاجیوں کی بہ نسبت ان کی اوسط عمر کم ہی ہے۔ مرد بہت دوستانہ مزاج کے یعنی Friendly ہیں (عورتوں کے بارے میں صابرہ کا بھی یہی خیال ہے) آپ کے پاس صف میں بیٹھے ہوں گے یا نماز سے فارغ ہوں گے تو فوراً آگے بڑھ کر دونوں جانب کے نمازیوں سے پہلے ہاتھ ملائیں گے اور ہاتھ سینے پر پھیریں گے۔ اکثر مرد انگریزی لباس میں ہی ہوتے ہیں مگر شرٹس بڑے رنگ برنگے پہنتے ہیں۔ کبھی کالر والے کبھی بغیر کالر کے۔مگر سب کے شرٹس میں عموماً چاک ہوتے ہیں دونوں طرف۔ اور سامنے نیچے کوٹ کی طرح جیبیں ہوتی ہیں۔ کچھ کے شرٹس پر کعبہ بھی بنا ہوتا ہے۔کسی کسی شرٹ پر عربی میں "باب السلام" بھی لکھا دیکھا۔ عورتیں زیادہ تر سفید لباس پہنتی ہیں۔ پتلون نما پاجامے یا شلواریں اور اوپر لمبے کرتے۔ کپڑے چاہے رنگین ہوں مگر اوپر سفید نصف برقعہ ضرور پہنتی ہیں جو دراصل طویل و عریض اسکارف یا محرمہ ہوتا ہے جسے ٹھوڑی پر بھی باندھتی ہیں اور سر کے پیچھے بھی۔ برقعوں پر جالی کا کٹاؤ کا کام یا کشیدہ ہوتا ہے۔ کئی نوجوان لڑکیاں لپ سٹک بھی لگاتی ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ حاجی صاحب عورتوں کا بھی دیدار کرتے رہے ہیں۔ اب آپ سوچئے کہ جب ہر جگہ یہ خواتین نظر آ ہی جائیں گی تو آنکھیں تو نہیں بند کی جا سکتیں۔ مگر ہم تو ان کی تعریف ہی کریں گے کہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہماری ہندوستانی پاکستانی عورتیں نماز کے لئے آئیں گی تو خوب حجاب میں ہوتی ہیں اور جہاں سڑکوں پر نکلتی ہیں، یہاں بھی، تو سر تک کھل جاتے ہیں۔ مگر یہ انڈونیشیائی لڑکیاں ۔ مجال ہے کہ کبھی چہرے کے علاوہ کوئی اور حصّۂ بدن کسی کو نظر آ جائے۔

 

(24/ اپریل، صبح 20۔8 بجے)

انڈونیشیائی عورتوں کے بارے میں کچھ باتیں اور لکھنے سے رہ گئی تھیں۔ یہ ہاتھوں پر سفید ہی دستانے بھی پہنتی ہیں یعنی اس طرح کہ ہاتھ کی پشت ڈھکی ہوتی ہے مگر انگلیاں کھلی ہوتی ہیں۔اکثر عورتوں کے برقعوں یا لباس پر ایک کپڑا لگا ہوتا ہے جس پر لکھا ہوتا ہے جماعۃ حاجی انڈونیشیا، انگریزی میں بھی۔ کبھی عربی میں "الحاج الاندونیسی"۔ ملیشیا کے لوگ بھی بالکل ایسے ہی ہوتے ہیں کہ ان کو پہچاننا اور انڈونیشی افراد سے تفرقہ مشکل ہوتا ہے۔ اس وقت پہچان ممکن ہے جب ان کے لباسوں پر "مالیزیا" لکھا ہوتا ہے۔ یہ بھی شریف النفس لوگ ہوتے ہیں۔ طواف وغیرہ کے موقعوں پر دھکّم دھکّا سے پرہیز کرنے والے۔ اس معاملے میں ایرانی اور سوڈانی بدنام ہیں۔ ہمارے ہندوستانی پاکستانی بھی دھکّم دھکّا میں حصّہ نہیں لیتے مگر ہمارے یہاں ایک عادت بری ہے، عورتیں اور بوڑھے دوسروں کو پکڑ کر ان کا سہارا لینا چاہتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب ان کو دھکّا لگتا ہے تو وہ اس سہارے کی وجہ سے آپ کو بھی دھکّا دینے کے لئے مجبور ہیں۔ یہ اگرچہ غیر ارادی دھکّا ہوتا ہے۔خود عرب کے لوگ بھی دھکّم دھکّا کے فن میں ماہر ہیں۔

سعدی و حافظ

اب آپ سے کیا کہیں کہ فارسی ہم کو اتنی تو آتی نہیں کہ سعدی و حافظ کے اشعار جا بجا ( بلکہ بے جا بے جا ) لکھا کریں۔  عام طور پر ہمارے ہندوستانی ادیب فارسی شعروں کا استعمال محض رعب کے لئے کرتے ہیں (بیشتر تو رعب تک کو " ُرباب" کہتے ہیں) اس لئے اکثر بے محل ہی "کوٹ" کر جاتے ہیں  (آپ کو سنائیں۔ مگر وہ تو آپ نے سنا ہوگا کہ ہندوستان اور پاکستان کا ہر کلاسیکی گلوکار، جسے عرفِ عام میں پکّے گانے گانے والا کہا جاتا ہے، اپنی تان لگانے سے پہلے میاں تان سین کے آگے اپنے کان پکڑتا ہے کہ آخرت میں میاں تان سین اس کے کان نہ پکڑیں۔ یہی حال ہمارا فارسی سے رشتے کا ہے۔ آخر خمیر میں فارسی گندھی ہوئی ہے۔ اب تک سوچتے ہی رہے کہ ہمارے ایرانی حاجیوں سے فارسی میں گفتگو چھیڑی جائے( ویسے زبانِ یار من ترکی بھی ہو سکتی ہے، وٍ من ترکی نمی دانم) لیکن چاروں خانے چت ہو جانے کا خطرہ ہے کہ کہیں پہلے ہی حملے میں چیں بول کر (دل میں)اور "مرحمت شما" (زبان سے) کہہ کر بھاگنا نہ پڑ جائے۔ بلکہ یہ بھی سنا ہے کہ آج کل یہ لوگ بھی مرحمت وغیرہ سے بچتے ہیں اور محض "مرسی"کہہ دیتے ہیں شکرئے کے طور پر۔ مگر کیا بتائیں، ہم ان کو اسی رشک سے دیکھتے ہیں جیسے ان میں کا ہر شخص سعدی یا حافظ ہو۔ان کی عورتوں کے لباسوں کی طرف نظر کیجئے۔ یہ بھی برقعے اور محرمے باندھتی ہیں۔ برقعوں میں بھی اور مردوں کے لباسوں میں بھی اپنے گروپ کے حساب سے یکسانیت پائی جاتی ہے۔ یعنی پورے گروپ کی ایک یونی فارم ہوتی ہے۔عورتوں کے محرموں پر ایک کپڑا سلا ہوتا ہے جس میں ان کے گروپ بلکہ شہر کا نام لکھا ہوتا ہے۔ شیراز اور نیشا پور دیکھ کر تو ہم تڑپ اٹھتے ہیں۔ اصفہان اور طہران سے ہمارا کوئی مطلب نہیں کہ ہمارے سعدی و حافظ کا ان سے کوئی مطلب نہیں۔ یہ تو ماڈرن بلکہ نو دولتئے شہر ہیں۔ معلوم نہیں کہ ان ایرانیوں میں واقعی کتنے ادیب و شاعر ہوں گے۔ ہوں گے بھی تو وہی اللہ" اکبر کو اللہ اچبر کہتے ہوں گے۔ یہ "ک" کا تلفّظ "چ "سے کرتے ہیں۔ شہروں کے نام کے علاوہ ان کے "لیبلوں" پر "کارواں شمار" بھی لکھا ہوتا ہے اور "میر کارواں" کا نام بھی۔

اب آئیے روسی (ہماری مراد قدیم سوویت یونین سے ہے، یہ حاجی نہ جانے کن کن ملکوں کے ہوں گے، روس کے علاوہ تاجکستان، آذر بائیجان وغیرہ، مگر ہم ان کو مجموعی طور پر روسی ہی کہہ رہے ہیں) قوم کی طرف۔ دیکھنے میں تو یہ بھی ایرانی، افغانی اور عرب ہی لگتے ہیں، کم از کم مرد۔ عورتیں البتّہ ضرور کچھ مختلف نظر آتی ہیں کہ نازک اور دبلی پتلی ہوتی ہیں۔ اگر ان لوگوں کی گاڑیاں اور بسیں ہم نہیں دیکھتے تو پہچان نہیں سکتے تھے۔ہماری ہوٹل کے آس پاس اور اتار کے بعد مسجدِ جن کے ارد گرد ان لوگوں کے کئی کیمپس ہیں جو اس دوران ہمارے غیاب میں بن گئے ہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر "کارواں بسوں" میں آتے ہیں۔ ان میں ہی ان کے کھانے پینے اور سونے کا انتظام ہے۔مگر جتنے لوگ ایک گروپ میں نظر آتے ہیں، ان سب کا سونا ایک ہی کاروان بس میں ممکن نظر نہیں آتا۔ شاید اسی لئے اکثر لوگ دن میں باہر زمین پر سوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں باہر ہی اسٹوو جلا کر چائے بناتے اور کھاتے پکاتے ہیں۔ سنا ہے کہ روس نے اس دفعہ پہلی بار اپنے مسلم باشندوں کو حج کی اجازت دی ہے اور یہ بھی 25 ۔20 ہزار کی تعداد میں ہیں۔

حبشی کچھ تو مقامی ہی ہیں اور کچھ افریقی ممالک کے۔ زیادہ تر عرب لباس ہی پہنتے ہیں۔ عورتیں بھی مقامی عربوں کی طرح سیاہ برقعے پہنتی ہیں۔ مگر جو غیر ممالک کے افریقی آتے ہیں وہ رنگ برنگے کپڑے پہنتے ہیں۔مرد اور عورتیں عموماً یکساں لباس پہنتے ہیں۔کچھ عورتیں مغربی لباس بھی پہنتی ہیں ان میں سے کچھ کا ایک کندھا عریاں بھی ہوتا ہے، مگر زیادہ تر مغربی لباس میں بھی ٹخنوں تک کا ملبوس ہوتا ہے۔کچھ افریقی مرد ایک طرح کا جبّہ بھی پہنتے ہیں جو کئی پلیٹس (Pleats)کے ساتھ شانوں سے لٹکتا رہتا ہے۔یہ حضرات شاید سوڈانی ہیں۔ دھکّم دھکّا کے لئے اکثر افریقی بدنام ہیں، مگر ہم کچھ امن پسند واقع ہوئے ہیں، اس لئے ان کو الزام نہیں دیتے۔ طبیعتاً تو یہ بھی ایذا پسند نہیں لگتے۔ البتّہ ان کا فربہی مائل بدن ہی ایسا ہوتا ہے کہ دوسروں کو ذرا سا دھکّا لگنے سے لوگ گر سکتے ہیں، ان کے غیر ارادی طور پر۔ یہ خصوصیت عورتوں میں زیادہ ہے۔ مرد تو پھر کچھ کمزور بھی ہیں۔

اب یہاں اپنی ایک غلط فہمی کا اور ذکر کر دیں۔ اب تک ہم سمجھتے تھے کہ ہماری برِّ صغیر کی عورتیں ہی شلواریں پہنتی ہیں اور کالے برقعے اوڑھتی ہیں۔ اب معلوم ہوا کہ شلواریں تو افریقہ، عرب، ایران اور پرانے سوویت یونین کی کئی عورتیں پہنتی ہیں۔ برقعے بھی کم و بیش ہندوستانی طرز کے ( یہاں بھی تو آج کل کوٹ نما برقعوں  کا رواج چل نکلا ہے)عرب ممالک، مغربی ایشیا کے ممالک ، افریقہ اور سوویت یونین میں بھی پہنے جاتے ہیں۔ عرب عورتوں کے برقعوں میں اکثر ایک لمبا چوڑا دوپٹّہ ہوتا ہے جس میں پورا بدن ڈھک جاتا ہے۔ ہاتھوں میں یہ عورتیں دستانے بھی پہنتی ہیں، بیشتر سیاہ رنگ کے ہی۔ حرم میں جن عورتوں کی ڈیوٹی ہوتی ہے، وہ اسی لباس میں ہوتی ہیں۔

اب اس پر ایک بات اور یاد آ گئی ہے۔وہ جو ہم نے لکھا تھا کہ عورتیں حرم کے نزدیک یا ادھر ادھر راستوں پر کھانے پینے کی چیزیں لے کر بیٹھی ہوتی ہیں، ان کا شجرۂ نسب سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ اب تک ہم انھیں عرب ہی سمجھتے تھے اور سوچتے تھے کہ یہ کھانا عربی ہی قسم کا ہوگا۔ مگر بعد میں لوگوں سے پتہ چلا کہ زیادہ تر انڈونیشی ہی ہیں۔ یہ کھانا بھی انڈونیشی ہوتا ہے۔ خود ہم اب تک 3 بار ان سے سالم مچھلی لے کر کھا چکے تھے۔ ان خوردنی اشیاء میں چاول کے پیکٹس،ابلے انڈے، آملیٹ وغیرہ کے علاوہ پالیتھین بیگس میں کچھ ہرے پیلے لال شوربے یا سوپ بھی ہوتے ہیں۔ کچھ اچار نما چیزیں بھی ہوتی ہیں۔ یہ تو ہم نے چکھنے کی ہمّت نہیں کی۔ ہاں، شام کو عصر کے بعد یہ عورتیں کچھ ہلکی پھلکی چیزیں (Snacks) لے کر آتی ہیں۔ ایک دن مظہر بھائی نے ان ہی دوکانوں سے کچھ گلگلے نما میٹھی چیز خرید کر کھلائی تھی۔ یہ لوگ اسے کیا کہتے ہیں، معلوم نہیں کیا مگر یہ مزے میں گلگلے جیسے اور شکل میں جنوبی ہند کے "بونڈے" کی طرح تھے۔ معلوم نہیں یہ بیچنے والیاں جو چہرے کا بھی پردہ کرتی ہیں، سبھی مقامی انڈونیشی ہیں یا پھر حج کے موقعے پر خود بھی حج کے ساتھ اپنا کاروبار بھی کرتی ہیں۔انڈونیشی حاجی بھی ان سے ہی کھانا لے کر کھانا پسند کرتے ہیں۔ہر چیز ایک ایک ریال میں دیتی ہیں، گلگلوں کی پلیٹ ہو یا مچھلی، چھوٹی مچھلی سالم ہوتی ہے۔ بڑی ہو تو اس کے قتلے تلے اور بھنے ہوئے ہوتے ہیں۔ مرغی کی بوٹیاں بھی ہوتی ہیں۔

بلا عنوان

24/ اپریل۔ رات ساڑھے دس بجے۔

 

آج کل لکھنا مشکل ہو رہا ہے۔ آج صبح کچھ وقت ملا تھا تو لکھتے رہے تھے۔ اوپر کے عنوان تک 8 بجے سے ساڑھے دس بجے تک لکھتے رہے، پھر کچھ باتیں بھی ہوتی رہیں۔ رات کو ہم لکھتے ہیں تو صابرہ کو شکایتیں ہوتی ہیں کہ بجلی جل رہی ہے اور ان کو روشنی میں نیند نہیں آتی۔حالاں کہ مشکل سے گھنٹہ بھر ہی لکھتے تھے۔ ظہر کے بعد 2 بجے سے 3 بجے تک کچھ لکھنے کا موقعہ مل جاتا ہے یا پھر صبح آج کی طرح جب ہم کو اس دورِ قیام میں پہلی بار حرم میں فجر کی نماز مل سکی تھی۔

ہوا یوں کہ رات کو 2 بجے ہی ہماری آنکھ کھل گئی۔ ضرورت کے لئے اٹھے تھے اور بے تحاشا کھانسی شروع ہو گئی۔ کچھ قابو پا کر لیٹے اور تھوڑی نیند بھی آ گئی مگر پھر تین سوا تین بجے اٹھنا پڑااور ساڑھے تین بجے کمرے سے باہر آ کر سگریٹ بنائی اور پی۔ 4 بجے تک طبیعت بحال ہوئی تو پھر حرم ہی چلے گئے ۔ 22۔4 پر اذان ہوتی ہے۔ پونے پانچ بجے نماز بھی ہو گئی۔ فجر کے بعد ہی ہم طواف میں لگ گئے۔اب بھی طواف میں کافی بھیڑ رہتی ہے حالاں کہ سڑکوں پر حالات معمول پر آتے دکھائی دیتے ہیں۔ طواف میں مگر گھنٹہ بھر آج تک بھی لگ رہا ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی۔ آج ساڑھے چھہ بجے فارغ ہوئے۔ پھر اشراق اور قضا نمازیں پڑھیں۔واجب الطواف نماز بھی۔ ساڑھے سات بجے واپسی کے لئے روانہ ہوئے۔ تھرمک باٹل میں زم زم کا ٹھنڈا پانی لیتے ہوئے۔ پچھلی شام ہی بن لے کر آئے تھے،جام اور پنیر بھی چل رہے تھے، خیراتی، جس کا ذکر ہم نے پہلے "لوٹ کا مال"عنوان کے تحت کیا ہے۔ اسی کا ناشتہ کیا۔ صابرہ نے کہا کہ پوری چائے پیئں گی، چناں چہ دو عدد چائے لے کر آئے۔ اس کے بعد کچھ دیر لکھنے پڑھنے کے بعد ظہر کے لئے گئے۔ظہر سے واپسی میں تندور کی دال، چھاچھ (لبن) اور روٹی لیتے ہوئے آ گئے۔مگر اس تندور میں مزا نہیں آ رہا ہے۔ "بسکوت" جو مل رہے ہیں وہ اتنے اچھے نہیں ہوتے جیسا کہ مدینے میں پراٹھے اور چپاتیاں مل رہی تھیں۔ اور گرم بسکوت کے حصول میں دیر الگ ہوتی ہے۔ آج کی دال ویسے غنیمت تھی۔ کمرے آئے تو صابرہ کچھ چاول اور گوشت اور بینس کا سالن لئے بیٹھی تھیں۔ جبّار بھائی اور ستّار بھائی کے کچن کا۔ سب کچھ کھایا اور خدا کا شکر ادا کیا۔ خاص کر چھاچھ کی وجہ سے کھانا اچّھا لگا۔ دوپہر سے سر درد ہونے لگا تھا۔ کچھ شاید گرمی کی وجہ سے اور شاید کچھ اس باعث کہ بھوک 12 بجے سے ہی لگ رہی تھی اور بھوک میں فوراً کھانا کھانے کا انتظام نہ ہو سکے تو ہم کو اکثر سر درد ہو جاتا ہے۔ آج ڈیڑھ بجے کھانا ہو سکا تھا۔ ویسے ایسے موقعوں پر ہم لیٹ نہیں پاتے، مگر کیوں کہ درد اصل میں گردن میں ہوتا ہے، اس وجہ سے تکیوں کو گردن کے نیچے رکھ کر لیٹے تھے کہ نہ جانے کس طرح آنکھ لگ گئی۔ شاید اس وجہ سے کہ 2 بجے سے جاگ رہے تھے۔ایسے سوئے کہ 4 بجے ہی اٹھے۔اور نتیجہ یہ نکلا کہ دوپہر کو کچھ نہ لکھ سکے۔سر درد جاری تھا اور حرم جانے کا وقت بھی نہیں تھا اس لئے عمارت پر ہی عصر کی نماز پڑھی، پھر اسپرو کھائی باہر بلکہ نیچے جا کر چائے لے کر آئے۔ اٹھتے ہی پھر کھانسی بھی زوروں کی اٹھ رہی تھی۔چائے پی کر پھر نکل گئے اور باہر ہی سگریٹ پی کر اپنا علاج کیا۔ پھر پونے چھہ بجے حرم پہنچے۔ وضو کر کے پہلے قضا نمازیں پڑھیں۔ اندرونی صحنِ حرم میں جگہ بنائی تھی تا کہ طواف میں آسانی ہو۔ مغرب پڑھتے ہی طواف کیا۔ واجب الطواف نماز بھی پڑھ لی۔ مگر پھر وہاں جگہ نظر نہ آئی تو عشاء کے لئے باہر کے صحن میں آ گئے، یعنی مسعیٰ کے باہر جہاں سے وہ آٹھوں دروازے اندر جاتے ہیں۔ دیکھئے کتنے دروازوں کے نام یاد ہیں: باب علی، باب بني شیبہ، باب السلام، باب حجونّ، باب صفا، باب مروہ۔ باقی دو دروازوں کے نام کل غور سے دیکھ کر آئیں گے تو لکھیں گے انشاء ﷲ۔

عشاء پڑھ کر پھر گھر واپس آ گئے اور آتے ہوئے صبح ناشتے کے لئے بن بھی لیتے ہوئے آئے۔ 2 ریال کا 6 عدد بن کا پیکٹ۔اور یہ سوچا تھا کہ صابرہ کے ساتھ جا کر (یہ ہمارے ساتھ حرم نہیں گئی تھیں۔ پرسوں سے ان کی آنکھ میں بھی تکلیف تھی اور گلے میں بھی) پاکستانی ہوٹل میں جا کر کھانا کھا لیں گے جہاں تسلّی بخش دال سبزی مل سکتی ہے۔ایک دو ریال زیادہ خرچ ضرور ہوتے ہیں تندور سے سبزی لیجئے تو یہاں مکّے میں 3 ریال کی ہے۔ ایک ریال کی بڑی روٹی لیجئے اور مزید چاہئے تو 2 عدد روٹیاں 2 ریال کی۔ ہوٹل میں 5 ریال کی دال یا سبزی ملتی ہے اور روٹیاں جتنی کھانی ہیں مفت۔ خیر۔ کمرے بن لے کر آئے تو صابرہ نے یاد دلایا کہ اتنے بہت سے بن کیوں لے کر آئے۔ کل ہی صبح ایک دن تو ناشتہ کرنا ہے کہ کل عصر کے بعد جدّہ جانے کا طے ہے۔ چناں چہ پھر ہم نے فیصلہ کیا کہ ابھی سبزی دال خرید ہی لاتے ہیں مگر روٹی نہیں،اور اسے ان بنوں کے ساتھ کھا لیں گے۔چناں چہ 3 ریال کی تندور سے سبزی لائے(وہی جس میں نمک بہت تیز ہوتا ہے (واللہ اعلم کیوں) اور اس کی اصلاح کے لئے ایک ریال کی دہی بھی۔ جب یہ لے کر پہنچے تو پڑوس کے کچن سے بریانی بھی آ گئی تھی۔ ستّار بھائی کے رشتے دار جو مقامی آدمی ہیں اور جن کا نام ہم نے غلطی سے پہلے جعفر لکھ دیا تھا (بعد میں معلوم ہوا کہ رفیق ہے) یہ در اصل ستّار بھائی کی بیوی فاطمہ کے بہنوئی واقع ہوئے ہیں۔ وہ اپنے گھر سے بریانی پکوا کر لائے تھے۔ چناں چہ ہم کو بھی اس کا حصّہ ملا۔ غرض اس طرح کھانا ہو گیا۔

شام کو تو سگریٹ پی کر طبیعت ٹھیک ہو گئی تھی مگر 8 بجے سے پھر گلا خراب ہو رہا ہے۔ اگرچہ ابھی کھانے کے بعد بلکہ مظہر بھائی اور جبّار بھائی کے ساتھ پیپسی پینے کے بعد (آج مظہر بھائی 3 ریال والی بڑی بوتل لائے تھے) ابھی سگریٹ پی کر آئے ہیں مگر گلے کی حالت ابھی بھی تسلّی بخش نہیں ہوئی ہے۔ آج کل یہ "دوا "کبھی اثر کرتی ہے کبھی نہیں۔

ہدایت نامہ حاجی

اب اور کوئی خاص بات ایسی تو نہیں ہوئی ہے کہ ذکر کریں۔ مگر دو ایک دن سے سوچ رہے تھے کہ اس کتاب میں ضمیمے کے طور پر ایک ہدایت نامہ حاجی بھی تحریر کر دیں۔ عمرے اور حج کا طریقہ۔ حرم مکہ اور مسجد نبوی کے بارے میں کچھ معلومات، مگر بہت سی تفصیل یاد نہیں رہتی۔ اس لئے سوچا کہ کچھ Tipsیہاں ہی دے دیں، اس لئے یہ نیا عنوان بنایا ہے۔ہدایت نامہ خاوند اور ہدایت نامہ بیوی نامی کتابیں آپ نے پڑھی نہیں بھی ہوں گی تو ان کا ذکر ضرور سنا ہوگا۔ ہم ہدایت نامہ حاجی یہاں ہی لکھ دیتے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔ اس کی شروعات بھی ہم ہدایت نامہ بیوی سے ہی کرتے ہیں۔

1۔کتابوں میں اگرچہ لکھا ہے کہ عورت کا کوئی احرام نہیں ہے مگر کوئی یہ بات ماننے کوتیار نہیں لگتا۔ کم از کم برِّ صغیر میں ایک کپڑے کو جس سے عورتیں سر کے بال باندھنے کا کام لیتی ہیں، عورتوں کے احرام کا نام دے دیا گیا ہے۔ صابرہ کو بھی یہ بات کئی بار کتابوں میں دکھائی ہے مگر آج ہی یہ خود ہم سے پوچھنے آئیں کہ منیٰ کے حادثے میں ایک صاحبہ کا احرام سر سے اتر گیا تو کیا اس کے لئے دم دینا ضروری ہے؟ ہم پھر بیویوں کو اچّھی طرح سمجھا دیں کہ یہ کپڑا محض احتیاطاً باندھا جاتا ہے کہ سر کے بال نہ کھل جائیں کہ عورت کے بال اس کے ستر میں شامل ہیں۔ احرام کی حالت ہو یا نہ ہو، عورت کے لئے فرض ہے کہ اس کے بال ہر وقت ڈھکے ہوں اور سوائے شوہر کسی کے سامنے نہ کھلیں۔احرام کی حالت میں یہ ضرور خیال رکھنا چاہئے کہ خلاف شرع کوئی بات نہ ہونے پائے، کسی قسم کا گوئی گناہ سر زد نہ ہو۔ محض اسی احتیاط کے طور پے یہ کپڑا باندھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کا ایک مقصد اور ہے جو ضرور احرام کی شرطوں کو پورا کرنے کا مقصد حل کرتا ہے، وہ یہ کہ اس طرح بال ٹوٹنے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے، اور بال ٹوٹ جانے پر ضرور دم دینا ہوگا۔ اسی باعث کنگھا کرنا منع ہے کہ اس میں بال ٹوٹ سکتے ہیں۔ بہر حال عورت اگر ننگے سر ہو بھی جاتی ہے تو اس کے احرام میں کوئی قباحت نہیں پیدا ہوتی۔ گناہ محض بے پردگی بلکہ بے ستری کا ہوگا۔ اس کے علاوہ ناخن نہ ٹوٹنے کا بھی خیا ل رکھنا ضروری ہے اور بدن سے میل نہ اتارنے کا بھی۔

2۔ دوسری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ عورت کے لئے اصل احرام یہ ہے کہ چہرے پر کپڑا نہ لگے۔ اور ہم شروع سے یہ دیکھتے آ رہے ہیں کہ احرام کہے جانے والے سفید کپڑے کو ہماری ہندوستانی پاکستانی عورتیں اس طرح کس کر باندھتی ہیں کہ کپڑا آدھی پیشانی تک ڈھک لیتا ہے۔ اس کی جزا ضرور دینی ہوگی اور اگر مستقل احرام کی یہی حالت رہی تو پوری بکری کی قربانی دینی ہوگی۔ محض تھوڑی دیر کو ایسا ہو جائے تو بھلے ہی بقدر فطرے کے گیہوں صدقہ کرنے سے دم ادا ہو جائے گا۔ عرفات اور منیٰ میں ہم نے دیکھا کہ رات بھر عورتیں اپنے چہرے پر دوپٹّہ ڈھک کر سوتی ہیں۔ دوسروں کو کیا کہیں، خود ہماری صابرہ بیغم کی یہ عادت ہے کہ چہرے پر کہنی رکھ کر سوتی ہیں۔ یوں کوئی قباحت نہیں مگر اس طرح کرتے کی آستین چہرے پر لگنے کا اندیشہ ہے۔ہم کو ہمارے گروپ میں مفتی مان لیا گیا ہے تو ہم نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ اگر اس طرح سونا ضروری ہو تو کرتے کی آستین چڑھا لی جائے اوپر تک کہ چہرے پر ننگا بازو ہی رہے۔ اس طرح بے پردگی بلکہ بے ستری کا ضرور گناہ ہوگا اور اس کی خدا سے معافی مانگ لی جائے۔ اس طرح کم از کم دم سے تو بچا جا سکتا ہے۔ گناہ کا ارتکاب ضرور ہوگا مگر احرام کی بے حرمتی سے بچ جائیں گی۔ خود مردوں کو بھی ہم نے دیکھا کہ رومال سے پسینہ پونچھ رہے ہیں یا ناک صاف کر رہے ہیں، اس کے لئے تیسریTipدے دیں۔

3۔ اگر آپ ہندوستان پاکستان سے ہی لا سکتے ہیں تو ٹھیک ہے (بلکہ بہتر ہے کہ احرام کی حالت تو جہاز سے ہی شروع ہو جاتی ہے) ورنہ آتے ہی ٹِشو پیپر (Tissue Paper)کا ڈِبّہ خرید لیجئے۔ وطن میں یہ سستا ہی ملے گا۔ یہاں 3 ریال کا سو (100) کا ان کاغذی رومالوں کا ڈِبّہ ملتا ہے (FineاورSmile وغیرہ برانڈ کا )۔ اس سے بھلے ہی گیلے ہاتھ نہیں پونچھے جا سکتے ہوں مگر پسینے وغیرہ کے لئے بہترین ہے۔

4۔ حرم میں جوتے چپّلیں رکھنے کے لئے باہر خانے ضرور بنے ہیں، اس کے علاوہ دروازوں کے پاس لوگ جوتے یوں بھی چھوڑ جاتے ہیں، مگر جوتوں کی حفاظت کے پیش نظر اس طرح نہ رکھیں تو بہتر ہے۔وہ اس لئے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ خانے بھر جاتے ہیں تو بعد میں آنے والے ان ہی خانوں میں اپنی چپّلیں جوتے رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں پہلے رکھے جوتے گر جاتے ہیں۔ نیچے پڑے ہوئے جوتے اکثر صفائی کرنے والے جھاڑو دیتے وقت (جو در اصل بڑے بڑے برشوں سے دی جاتی ہے) ان گری ہوئی چپّلوں کو گھسیٹ کر ایک طرف کر دیتے ہیں یا کوڑے میں پھینک دیتے ہیں جس کے لئے تھوڑی تھوڑی دور پر بڑے بڑے ڈرم رکھے ہیں۔ خاص کر جب فرش کی دھلائی ہوتی ہے تو کسی کے کچھ بھی سامان کا لحاظ نہیں کیا جاتا اور جوتے چپّلیں ہی کیا، ہم نے بیگ اور سوٹ کیس تک ان کوڑے کے ڈرموں میں دیکھے ہیں۔ اس طرح آپ کو اپنی چپّلیں واپس ملنے کی امّید کم ہی رکھنا چاہئے۔اگر کبھی ایسا ہو ہی جائے تو آپ شرمائیے نہیں، جہاں کوڑے میں چپّلیں جوتے پڑے ہوں، وہاں جا کر دیکھئے، آپ کی اپنی چپّل نہ بھی ملے تو جو آپ کے پیروں میں آ جائے، بلا تکلّف پہن لیجئے۔ کبھی کبھی بے جوڑ کی چپلیں بھی پہننی پڑتی ہیں۔ آپ کو حرم میں کم از کم 40 فی صد ایسے لوگ نظر آئیں گے جن کی ایک چپّل ہندوستانی ہوگی تو دوسری پاکستانی یا چینی۔ اور دونوں الگ الگ رنگ کی بھی ممکن ہیں۔ اگر آپ کو اپنی چپّل عزیز ہے تو بہتر ہوگا کہ اپنے ساتھ ہی رکھیں۔ اس کے لئے ہماری ترکیب پر عمل کریں۔ ہم تو اپنے جوتے چپّلیں پالی تھین بیگ میں رکھ کر ان بیگوں کو ایک کندھے پر لٹکائے جانے والے جھولے میں رکھ لیتے ہیں۔ اگر پانی کی بوتل بھی ساتھ ہے تو اسی طرح اسی جھولے میں رکھی جا سکتی ہے۔ اس جھولے کو آرام سے اندر لے جا کر اپنے ساتھ رکھیں اور اپنی نظروں کے سامنے حرم کے کسی ستون سے ٹکا کر یا سجدہ گاہ کی طرف رکھ لیں۔ اگر بھول جائیں اور چپّل گم ہو بھی جائے تو دوسری خریدنے کی ضرورت نہیں ہے، کوڑے میں سے نکالنے میں کسی کو وہاں شرم محسوس نہیں ہوتی۔ آخر مسلمان مسلمان بھائی بھائی ہیں اور ایک بھائی دوسرے کے اس طرح بھی کام آ سکتا ہے کہ اپنی چپّل استعمال کرنے دے۔

5۔ اب اس پر ایک اور ہدایت دے سکتے ہیں کہ یہ جھولا ویسے ہر موقعے پر کام آتا ہے، مگر طواف کے وقت جب حجرِ اسود کا استلام کیا جاتا ہے تو دونوں ہاتھ اٹھائے جاتے ہیں اور بھیڑ کی وجہ سے اس حرکت کے دوران یہ جھولا دوسرے طواف کرنے والوں کے بازوؤں میں پھنس سکتا ہے، اس لئے اس موقعے پر اس جھولے کو کندھے سے نکال کر گلے میں لٹکا لیں۔

6۔ ایک پانی کی بوتل (بہتر ہو کہ تھرمِک جگ) ضرور ساتھ رکھیں۔ ہندوستان سے ہی لے کر چلیں تو مناسب ہے کہ وہاں یہ مہنگی ہی ملیں گی۔ ہم تو لے کر چلے تھے، مگر ہمارے ساتھیوں نے 8 اور 10 ریال کی یہاں سے خریدی ہیں۔ اس میں خاص بات محض یہ ہے کہ مکّہ مدینے کی تصویریں ہیں۔ ہر عمارت میں زم زم یونائٹید آفس والے زم زم کے جری کین روزانہ رکھتے ہیں مگر یہ ٹھنڈا تو نہیں ہوتا۔ کچھ عمارتوں میں ٹھنڈے پانی کے کولر بھی ہوتے ہیں (ہماری عمارت میں تھا مگر کام نہیں کرتا تھا) مگر یہ زم زم نہیں ہوتا۔ اس لئے اس تھرمک جگ میں حرم سے ٹھنڈا اور زم زم لے کر عمارت میں استعمال کریں۔ حرم کے قیام کے دوران بھی جب نماز کی جگہ مل جائے اور اگلی نماز تک بھی آپ کو رکنا ہو تو محض پیاس کی وجہ سے جگہ خالی کرنے کی ضرورت بھی اس طرح نہیں ہوگی۔ آتے وقت بھی پانی بھر کر آئیں اور اندر یہی پانی پیئں۔ جب عمارت واپس آئیں تو پھر بھرتے ہوئے لائیں۔فجر کے وقت بھر کر لائیں تو 11 بجے تک تو یہ پانی چل سکتا ہے۔ ظہر کے بعد بھی بھر کر لائیں کہ کھانے کے بعد سے عصر تک کافی ہو جائے۔ پھر اکثر لوگ تو مغرب اور عشاء کے لئے ایک ہی بار جا کر عشاء کے بعد ہی لوٹتے ہیں تو اس وقت پانی لیں تو رات تک ضرورت نہیں پڑے گی۔

7۔ طواف بہتر ہے کہ مقامِ ابراہیم کے قریب سے کریں کہ زیادہ چکّر نہ پڑے، مگر اس حقیقت کا خیال رکھ کر کہ دھکّم پیل والی بھیڑ کا حصّہ نہ بنیں۔ آپ چاہے خود کسی کو دھکّا نہ دیں، مگر بھیڑ کے باعث کسی ایک شخص کے دھکّا دینے سے آٹھ دس آدمی اس دھکّے کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس طرح دھکّا دینے کا باعث بنتے ہیں اور یہ بھی گناہ میں شامل ہوگا اور اس سے بچیں۔ جب دیکھئے کہ ایک دوسرے کی کمر پکڑ کر یا کندھوں پر ہاتھ رکھ کر 6۔5 لوگوں کی قطار دھکیلتی ہوئی آ رہی ہے تو آپ بچ کر ان کو راستہ دے دیں۔ اگر کسی نے آپ کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ دیا ہے تو اسے آگے بڑھا دیجئے۔ اس طرح خود آپ بھی دھکّے سے محفوظ رہیں گے اور دوسروں کو دھکیلنے کے گناہ سے بھی بچ سکیں گے۔ایک عملی ہدایت یہ اور دے دیں کہ ایرانیوں اور عربوں سے اور برِّ صغیر کے بوڑھوں سے دور رہیں جو اپنے کھو جانے کے خطرے سے اس طرح ساتھ طواف کرتے ہیں۔ بہترین اور Disciplinedگروپ انڈونیشیائی لوگوں کا ہوتا ہے، کوشش کر کے ان کے ساتھ رہیں۔

8۔حجرِ اسود کو بوسہ دینے کی زیادہ کوشش نہ کریں۔ دور سے استلام کرنا بہتر ہے کہ نزدیک سے کرنے کی کوشش میں آپ کسی کو دھکّا دینے پر مجبور ہو سکتے ہیں جو گناہ ہے۔ حجر اسود کے علاوہ کعبے کے کسی اور کونے (رکن) کا استلام نہیں کیا جاتا۔ لوگوں کی دیکھا دیکھی آپ بھی اس غلط عمل کا شکار نہ ہوں۔ اکثر لوگوں کو ہم نے دیکھا کہ رکنِ یمانی کا بھی استلام کر رہے ہیں ۔ یہ رکن اسود کی ملحقہ سمت میں ہے۔ دوسرے دو رکن شامی ہیں، جن میں ایک رکن حطیم کی طرف ہے۔ دوسرا اسود کے مخالف سمت میں۔

9۔ حطیم میں داخل ہونے کی کوشش بھی تبھی کریں جب بھیڑ کم ہو۔ ویسے یہاں نماز پڑھنے کا بہت ثواب ہے۔ یہ حصّہ در اصل کعبے کا ہی حصّہ ہے، مگر بعد کی تعمیر میں باہر چھوڑ دیا گیا تھا۔ طواف تو اس کے اندر سے کرنے سے ادا ہی نہیں ہوتا کہ طواف کعبے کے باہر ہی کرنا ضروری ہے۔

10۔ اگر آپ طواف کی نیت سے اس طرح جانے کے لئے مجبور ہوں کہ آپ طواف کی مخالف سمت میں آپ کا گذر ہو، یا طواف ختم کر کے نماز واجب الطواف کے لئے (یا مسعیٰ سعی کی غرض سے) طواف کے ریلے سے باہر آنا چاہ رہے ہوں تو بہتر یہی ہے کہ فوراً باہر آنے کی کوشش نہ کریں۔ طواف ختم ہو چکا ہو تو حجر اسود کے آخری استلام کے بعد، اور شروع کرنے جا رہے ہوں تو پہلے استلام سے پہلے، طواف کرنے والوں کے ریلے میں شامل ہو جایئے اور آدھا پون طواف، جب تک کچھ کھلا راستہ نہ ملے، مزید کر لیجیے اور موقعہ دیکھ کر اس ریلے سے باہر آ جایئے۔یہاں ایک اطّلاع اور دے دیں۔ حجرِ اسود کی سیدھ دکھانے کے لئے ایک پتھّر کی پٹی ہے۔ کتابوں میں اسے کالی پٹی کہا گیا ہے۔ ممکن ہے یہ پہلے کالے پتھّر کی ہو، آج کل تو بھورے پتھّر کی ہے۔ تقریباً آٹھ انچ چوڑے بھورے سنگِ مرمر کی۔

11۔ طواف کے دوران حرم کی طرف نہ دیکھیں۔ یہ نا جائز ہے اگر چہ اتنی اہم بات بیشتر کتابوں میں نہیں لکھی ہے۔ شوق کی بات دوسری ہے۔ اگر شوق کے ہاتھوں مجبور ہوں تو ایک چکّر مزید کر لیجئے مگر اصل ساتوں شوطوں (چکّر کے لئے شرعی اصطلاح "شوط" ہے) میں اس سے پرہیز کریں۔

12۔ طواف میں حجر اسود سے تیسرے کونے یا رکن تک تیسرا کلمہ پڑھا جاتا ہے (سُبحٰنَ اللّہِ وَالحَمدُِ للّٰہِ وَ لاَ اِلٰہَ اِلاَّاللّہِ وَالّلہُ اکبَر وَ لاَ حَولَ وَلاَ قُوّۃَ اِلّا بِا اللّہِ العَلِیُّ العَظِیم۔ َالصَلٰواۃُ وَالّسَلامُ عَلیٰ نَبِیُّ الَکرِیم) اور رکن یمانی سے پھر حجر اسود تک رَبّنَا آتِنا فِی الدُنیَا حَسَنَۃً وَ فِی الاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَ قِنا عَذَابَ النّار۔ وَادخِلنَا الجَنّۃَ مَعَ الاَبرار۔ یا عزیزُ یا غفّار۔ یا رَبُّ العَالَمیِن۔ لیکن رکن کی طرف بغیر دیکھے یہ پہچان مشکل ہوتی ہے کہ کہاں سے ربّنا آتِنا شروع کیا جائے اور رکن کی جانب دیکھنا بھی منع ہے۔ اس کی ترکیب ہم نے یہ لگائی ہے کہ ایک پہچان مقرّر کر لی ہے۔ آج کل کم از کم ہمارے لئے پہچان باب ملک عبدالعزیز کا بورڈ ہے۔ دائیں طرف دیکھتے چلتے ہیں، جب یہ بورڈ اندازاً پار کر لیتے ہیں تو سمجھ لیتے ہیں کہ اب ربّنا آتِنا پڑھنا ہے اور رکن یمانی پار ہو گیا۔ یہ دروازہ مستقبل قریب میں تو ٹوٹنے والا نہیں ہے، اس لئے ہمارے خیال میں برسوں تک تو یہ پہچان صحیح ثابت ہوگی۔

13۔ رکنِ یمانی اور حجر اسود کے درمیان ہی اکثر بھیڑ کعبۃ ﷲ کے نزدیک جمع ہو جاتی ہے کہ ممکن ہو تو حجر اسود کو بوسہ دیں۔اس میں بہت دھکّم پیل ہو جاتی ہے ا ور حجر اسود کا استلام بھی مشکل ہو جاتا ہے۔خود ہم کو کئی بار واپس جا کر استلام کرنا پڑا ہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ رکنِ یمانی سے آپ دائیں طرف یعنی کعبۃ اﷲ سے دور ہٹتے ہوئے طواف کریں۔ جب آرام سے استلام کر لیں تو پھر بائیں طرف ہٹتے ہوئے بیت ﷲ کی طرف آ جائیں کہ طواف کا چکّر بھی زیادہ لمبا نہ ہو۔ لیکن صحیح استلام بے حد ضروری ہے۔

14۔ تیسرے کلمے کے بعد اکثر درود بھی پڑھا جاتا ہے۔ یہ آپ کو کسی کتاب میں نہیں ملے گا کہ کون سا درود پڑھا جائے۔ مگر ہم یہ مشورہ دیتے ہیں کہ مقامِ ابراہیم کے پاس سے گزرتے ہوئے یعنی حجر اسود سے اس پوری دیوار کے علاقے میں درودِ ابراہیمی پڑھیں۔ یہ درود نہ صرف آں حضرتؐ کو پسندیدہ تھا بلکہ مقام ابراہیم کے نزدیک پڑھنے سے حضرت ابراہیم ؑ کو بھی خراجِ عقیدت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

15۔ تلبیہ ہو یا طواف کی دعائیں اور وظیفے، اکثر لوگ ایک شخص کو لیڈر بنا کر زور زور سے پڑھتے ہیں۔ وہ بولتا ہے اور وفد کے ممبر اسے دہراتے ہیں۔ یہ غلط ہے۔ اس سے دوسروں کی عبادت میں خلل بھی پڑتا ہے۔ نہ آپ خود زور سے کچھ پڑھیں اور نہ کسی اور کو پڑھائیں، بکہ ممکن ہو تو ایسے گروہ سے بچ کر ہٹ کر اپنا طواف کریں تاکہ ان کی آوازوں سے آپ کا دھیان نہ بٹ جائے۔

16۔ طواف کے ہر چکر کی دعا کتابوں سے پڑھنا ضروری نہیں ہے، اگر چہ اکثر کتابوں میں مختلف دعائیں اور وظائف درج ہیں اور ہر چکر (شوط)کے الگ الگ۔ وہ دعا پڑھیں جس کے معنی بھی آپ کو معلوم ہوں تو بہتر ہے۔ اردو میں بھی کچھ بھی دعا کر سکتے ہیں۔ جو پڑھیں، دل سے کہیں، ورنہ محض اللہُ اکبر اور لا الہ الا اللہ کہنا بھی کافی ہے۔

17۔ ہر طواف کے بعد سعی نہیں ہوتی۔ ہم کو اس کی امّید نہیں تھی کہ یہ غلط فہمی اتنی عام ہوگی۔ ہمارے کچھ ساتھی اس لئے طواف نہیں کر رہے تھے کہ سعی کی ہمّت نہیں تھی۔ معلوم ہونا چاہئے کہ سعی عمرے کے طواف میں احرام کے ساتھ ہوتی ہے، یا حج کے دوران طواف قدوم میں، طواف الزیارۃ کے بعد سادہ کپڑوں میں ہی سعی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی طواف میں سعی نہیں۔ سعی کے دوران بھی زور زور سے کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔دھیرے دھیرے جو یاد ہو پڑھ لیں۔ ویسے اس موقعے پر اور خاص کر صفا اور مروہ کی پہاڑی پر، جہاں سے اگلا چکر شروع ہوتا ہے، قرآنی آیت پڑھی جاتی ہے۔ اِنَّ الصَفَا وَالمَروَۃَ مِن شَعَائِرِ اللّٰہ ۔

18۔ اکثر یہ بھی ہم نے دیکھا کہ میلین اخضرین کے درمیان عورتیں بھی تیزی سے بھاگتی ہیں۔ یہاں پہلے یہ اطلاع دے دیں کہ یہ دو ستون ہیں جن کو ممیز کرنے کے لئے انھیں سبز (اخضر) رنگ کر دیا گیا ہے اور ان ستونوں پر سبز لائٹیں ہی لگی ہیں۔ ان دونوں ستونوں کے درمیان کوئی سو فٹ کے راستے میں مردوں کے لئے تیزی سے بھاگنا افضل ہے۔ بلکہ واقعی بھاگنا تو مردوں کے لئے بھی صحیح نہیں، کجا عورتوں کے لئے۔ مردوں کو بھی محض تیزی سے اس راستے سے گزرنا چاہئے۔

(لیجئے 12 بج گئے۔ ابھی اتنا ہی کافی ہے۔ ممکن ہے کچھ نکات اور یاد آ جائیں۔ یہ نکات تو محض عبادتوں کے بارے میں ہیں، وہ بھی صرف طواف اور سعی کے سلسلے میں۔ باقی نمازوں کے بارے میں بعد میں لکھیں گے انشاء اللہ۔)

ہدایت نا مہ (گزشتہ سے پیوستہ)

19۔ ہم سائنس داں ہونے کے ناطے (بزعمِ خود) ایک بات پر اور زیادہ زور دینا چاہتے ہیں۔ ویسے کسی کتاب میں بھی لکھا ہے کہ قبلے کے اطراف میں نماز کے لئے کعبے کا بالکل صحیح رخ اختیار کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ نماز کی ضروری شرط ہے۔ عام طور پر مکّے مدینے کی ہر رہائشی عمارت میں کسی نہ کسی دیوار پر "قبلہ اس طرف ہے" کی عبارت (یا ایسے ہی دوسرے الفاظ) کے ساتھ ایک تیر کا نشان ضرور لگا ہوتا ہے رخ کی صحیح نشان دہی کرنے کے لئے۔ مگر ہم نے اکثر مشاہدہ کیا کہ حرم کے ہی صحن میں نماز پڑھنے والے صحیح رخ کی پرواہ نہیں کرتے۔ کعبے میں تو حرم کے اندرونی اور باہری صحن میں سفید سنگ مرمر کی "جا نمازیں " بنائی گئی ہیں جن میں چار چار صفوں کے بعد سرخ سنگ مرمر کی پٹی ّہے۔ یہ دائرے وار ہے کیوں کہ کعبے کو مرکز مان کر یہ دائرے کھینچے گئے ہیں۔ ان کے حساب سے ہی اپنی نمازیں پڑھنے کا خیال رکھیں۔ آج ہی کی بات لیجئے۔ ہم قضا نمازیں پڑھ رہے تھے کہ ایک ہندوستانی یا پاکستانی صاحب نے ہمارے ہی پاس اپنی جانماز بچھائی اور ہم سے، حالاں کہ ہم صحیح رخ پر تھے، کم از کم 20 ڈگری کے زاویے پر اپنی جانماز بچھائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں ہم سجدہ کر رہے تھے، وہاں ان کا سجدہ بھی ہو رہا تھا۔

20۔ طواف کے بارے میں کچھ ہدایت اور دے دیں۔ سب سے زیادہ بھیڑ مغرب کے بعد ہوتی ہے۔ شاید اس لئے کہ مغرب اور عشاء کے درمیان وقفہ کم ہوتا ہے اور بیشتر حضرات مغرب کے بعد واپس نہیں جاتے اور عشاء تک رک جاتے ہیں۔ ہم بھی یہی کرتے ہیں۔ آپ بھی کرنا چاہیں تو ایسا ہی کریں۔ ہم منع نہیں کرتے مگر اس صورت میں دھکم پیل کے لئے تیار رہئے۔ اسی طرح ہر نماز کے فوراً بعد بھی بھیڑ بہت ہوتی ہے۔تہجّد اور فجر کے درمیان بھی بھیڑ بڑھ جاتی ہے۔ اگر سہولت سے طواف کرنا چاہیں تو بہتر ہے کہ کچھ وقفہ دے کر شروع کریں۔ ہم سے مشورہ مانگیں تو ہم تو یہ مشورہ دیں گے کہ طواف کے لئے صبح 6 بجے کا وقت بہت مناسب ہے۔ فجر کے بعد کچھ دیر قضا نمازیں وغیرہ پڑھ لیں اور پھر گھنٹے بھر بعد ایک ہی کیا، دو تین طواف کر لیں۔ پھر اشراق کی نماز پڑھ کر واجب الطواف نمازیں پڑھیں اس لئے کہ فجر کے فوراً بعد کوئی اور نماز نہیں پڑھی جاتی۔ البتّہ اشراق کے بعد پڑھ سکتے ہیں، چاہے دو تین طوافوں کے واجب ایک ساتھ بعد میں پڑھ لیں۔ پھر عمارت واپس آ کر ناشتے وغیرہ کا اہتمام کریں۔ (ہم تو اکثر 9 بجے کے قریب بھی نکل جاتے ہیں، لیکن اس وقت جانے پر پھر ظہر تک کے لئے رکنا پڑے گا۔ ہم تو طواف وغیرہ کر کے اور حرم میں ہی نہا دھو کر واپس آ جاتے ہیں اور پھر ساڑھے گیارہ بجے کے قریب ظہر کے لئے نکلتے ہیں۔اس لئے بہتر ہے کہ آپ ) دس، ساڑھے دس بجے نکلیں۔ پھر طواف وغیرہ کے بعد ظہر کے لئے رک جائیں۔ اس کے علاوہ بھی اور وقت میں طواف کرنا چاہیں تو پھر تین ساڑھے تین بجے نکلیں۔ اس وقت بھی بھیڑ نسبتاً کم ہوتی ہے اور طواف کے بعد عصر کا وقت بھی ہو جائے گا۔ اگر رات کا کھانا حرم کے قریب ہی ہوٹل میں کھانے کا ارادہ ہو تو یوں بھی کر سکتے ہیں کہ رات 10 بجے کے بعد بھی طواف کر لیں۔ کھانے کے بعد ٹہلنے کی عادت ہو تو اور بھی بہتر ہے۔ ٹہلنا بھی ہو جائے گا اور طواف بھی۔

21۔ ایک بات یاد رکھئے کہ بیت اللہ میں ہر مسلک کے لوگ ہوتے ہیں۔ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ہر اُ متّ (بمعنی گروہ) کے لئے مناسک مختلف ہیں اس لئے اس زعم میں نہ رہیں کہ آپ کا مسلک ہی سب سے صحیح ہے۔ زیادہ تر لوگ آپ کو رفع یدین کرتے دکھائی دیں گے کہ یہی شافعی اور ہنبلی مسلک ہے۔ افریقی باشندے اکثر مالکی ہیں اور نماز میں ہاتھ بھی نہیں باندھتے۔ کسی پر اعتراض نہ کریں۔ ان کے مسلک کے علماء کے پاس ان کے طریقے کا جواز ضرور ہوگا۔ خدا کو ان کی عبادت بھی ضرور قبول ہوگی۔ خود آں حضرتؐ نے مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے نماز پڑھی ہے۔ کوئی بھی عالم یہ نہیں کہتا کہ دوسرا ہر طریقہ غلط ہے، بلکہ محض یہی کہ ان کے علماء کے نزدیک ان کے طریقے کی نماز کے لئے احادیث زیادہ معتبر ہیں۔ اس لئے یہ نہ سمجھیں کہ ان کی نماز ہی قبول نہیں۔ ممکن ہے کہ آپ کی ایسی کوئی غلط فہمی بھی گناہوں میں شمار کی جائے اور آپ کی ہی عبادتوں کو قبولیت کا درجہ نہ ملے۔ حرمین میں اذان کے بعد اکہری اقامت ہوتی ہے یعنی محض ایک ایک بار تشہّد (اَشہَدُ اَن لَا اِلٰہَ اِلاَّ الّلہ، اَشہَدُ انَّ مُحمّدَالرَسوُلَ الَلّہ)۔اور ایک بار ہی حیّٰ عَلی الّصلوٰۃ، حیّٰ عَلَی الفَلَاح۔ مگر اس کے بعد دو بار قد قامۃ الّصلوٰۃ۔ نماز میں سورۂ فاتحہ کے بعد جب سب مقتدی اور خود امام بلند آواز سے "آمین" کہتے ہیں تو سب درو دیوار گونج جاتے ہیں اور عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ہندوستان میں یہ بھی متنازعہ فیہ مسئلہ ہے۔ خود ہم اب تک کبھی بلند آواز سے آمین نہیں کہتے آئے تھے۔ مگر یہاں یہ صدا ایسی روح پرور محسوس ہوتی ہے کہ روح سے آواز نکلتی ہے۔ ان باتوں کو اگر آپ غلط سمجھتے ہوئے آئے ہیں تو اتنا سوچیں کہ اگر یہ خلاف مذہب ہوتا تو کیا خدائے تعالیٰ اس مسلک کے ماننے والوں کو حرمین کی نگہبانی دینا پسند کر سکتا تھا؟کیا ان اماموں کو بیت اللہ کی امامت پر مامور کر سکتا تھا؟

اسی طرح عرفات میں مسجدِ نمرہ میں ظہر اور عصر کی نماز ملا کر یعنی قصر کر کے پڑھی جاتی ہے۔ ہنبلی مسلک کے مطابق آدمی محض 2 میل کے فاصلے پر مسافر بن جاتا ہے غالباً۔ اگر آپ اسے پسند نہ کریں تو کوئی حرج نہیں کہ اپنی جماعت علیٰحدہ کر لیں ظہر کی الگ اور عصر کی الگ، بشرطیکہ آپ عرفات (یا منیٰ میں بھی) مسافر نہ ہوں۔ ہم تو مسافر تھے ہی کہ ہم حیدر آباد سے چل کر نہ بنگلور میں، نہ مکّہ میں اور نہ مدینے میں 15 دن سے زیادہ رہے تھے۔ مگر جماعت کا ساتھ بھی دینا بہتر ہے، اس لئے اگر مسجدِ نمرہ میں ہوں تو وہاں دو رکعت ظہر کی جماعت سے پڑھ کر مزید دو رکعت انفرادی پڑھ لیں (اگر اپنے کو مقیم مانیں تو)، اور عصر کی بعد میں پڑھ لیں۔ اگر مسافر ہیں اور مکّے میں بھی قیام 15 دن سے زائد ہو چکا ہے اور مسجد نہ جا سکیں اور دوسرے مقیم حضرات کی ظہر کی اور عصر کی علیٰحدہ جماعت ہو رہی ہو تو کوئی حرج نہیں کہ آپ بھی ان کا ساتھ دیں۔ حرج کیا، یہ تو مزید بہتر ہے۔ مگر مسجد نمرہ کے امام صاحب پر اعتراض نہ کریں۔ عرفات کے بعد مزدلفہ میں تو سبھی کو، مسافر اور مقیم سبھی کو، مغرب اور عشاء ملا کر ہی پڑھنی ہوتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ اگر انفرادی نماز پڑھیں تو عشاء کی دو رکعتیں ہی پڑھیں۔

ہدایت نا مہ حا جی برائے خو رد و نو ش

1۔ پہلی بات تو یہ لکھیں کہ اگر آپ کی آمدنی سعودی ریال کی ہی ہے تو بے شک ریال کو روپئیہ ہی سمجھیں، لیکن اگر آپ نے اپنے ملک کا روپئیہ دے کر سعودی زرِ مبادلہ حاصل کیا ہے تو مبادلہ قیمت کا ہی خیال رکھیں۔ ہمارے لئے یہ قیمت تھی 9 روپئے 55 پیسے فی ریال۔ چناں چہ ہم ہر ریال کو 10 سے ضرب دے کر اس کے مہنگی یا سستی ہونے کا اندازہ کرتے تھے۔ کچھ چیزیں آپ کو مہنگی لگیں گی اور کچھ سستی۔

2۔ اگرچہ ریال میں سو حلالے ہوتے ہیں ہمارے پیسوں کی طرح، مگر غالباً ان کا مصرف کچھ نہیں ہے۔ اس لئے کہ فقیر کو خیرات بھی ایک ریال سے کم نہیں دی جاتی اور نہ ایک ریال سے کم کی کوئی چیز ہم نے دیکھی۔ بلکہ سچ پوچھئے تو ہم نے یہ سکّہ ہی نہیں دیکھا۔ اقل ترین قیمت ایک ریال ہی ہے۔ اس لئے بہت ممکن ہے کہ کسی شے کا بڑا پیکنگ بھی ایک ریال کا ہی ہو۔ جیسے لفافہ لینے جائیں تو ایک سادہ لفافہ بھی ایک ریال کا کہا جائے گا اور آپ پورا پیکنگ مانگیں تو چار لفافوں کا پیکٹ بھی ایک ریال کا ہی ہوگا۔ 180 ملی لٹر کے کولڈ ڈرنک کے ٹن یا شیشیاں بھی ایک ریال کی ہیں اور 375 م ل کا ٹن بھی۔ ہمارے پاس کپڑے دھونے کے لئے بالٹی نہیں تھی اس لئے نل پر صابن سے کپڑے دھونے کی ضرورت تھی جب کہ یہاں زیادہ تر کپڑے دھونے کا پاؤڈر ملتا ہے۔ صابن ہمارے پاس بھی نہیں تھا۔ اس کی تلاش کی تو ایک دوکا ن پر چھوٹا سا ایک صابن (ڈیٹرجنٹ) ایک ریال کا ملا۔ اسی شام کو دیکھا کہ ہمارے کمرے کی ہی ایک صاحبہ اس سے تگنے چوگنے سائز کا صابن بھی ایک ہی ریال میں لائیں۔ چناں چہ آپ کو بھی کوئی سامان لینا ہو تو بڑے پیکنگ کی قیمت بھی پوچھ لیں۔ Economy دیکھ کر خریداری کریں۔

3۔ اس پر یاد آیا کہ یہاں جو پانی کی بوتلیں دستیاب ہیں( اسے یہاں منرل واٹر نہیں، پیور یا ہیلتھ (Pure or Health) واٹر کہتے ہیں، وہ ایک ریال کی 650 م ل کی ہوتی ہیں اور 2 ریال کی سوا لٹر کی بوتل۔ یہی قیمت تقریباً کولڈ ڈرنک کی ہے تو کیوں نہ کولڈ ڈرنک ہی خریدیں کہ مزہ بھی آئے۔ پانی ہی پینا ہے تو حرم میں یا اپنے کمرے میں لا کر زم زم پیجئے۔ اس سے بہتر ہیلتھ واٹر کیا ہوگا۔ مقامی لوگوں کو Economyکا احساس نہیں ہے، یہ لوگ ایک ایک ریال کے درجنوں کولڈ ڈرنک کے ٹن پی جاتے ہیں اور زیادہ لوگ ہونے پر بھی ہر ایک کے لئے علیٰحدہ۔ یہ خیال نہیں آتا کہ بڑا پیکنگ لے لیں۔ یہ Hint اس لئے دے رہے ہیں کہ ہر ڈرنک کی ایک لٹر سے سوا لٹر تک کی بوتل دو ریال کی ملتی ہے اور دو یا سوا دو لٹر کی بوتل 3 ریال کی۔ جس میں ایک ریال کے 175 م ل والے درجن بھر ٹن آ جائیں گے محض دوگنی قیمت میں۔ ایسی ہی بڑی بوتل خریدیں، خود بھی پئیں، کمرے والوں کو بھی پلائیں یا تھرمک جگ میں محفوظ کر کے رکھ لیں اور بعد میں پئیں۔

4۔ اگر آپ چاول کے بغیر نوالہ نہیں توڑ سکتے ہوں تو بات دوسری ہے۔ لیکن اگر آپ چاول کے عادی ہوں بھی تو منہ کا مزہ بدلنے کے لئے حرمین کے قیام کے دوران روٹی کھانا شروع کر دیجئے۔ کہ یہ زیادہ بآسانی دستیاب ہے اور سستی بھی۔ وہ لطیفہ تو آپ نے سنا ہوگا کہ ایک صاحب ایک ہوٹل میں داخل ہوتے ہوتے پلٹ کر جانے لگے۔ ہوٹل والے نے ان کو جا پکڑا کہ حضرت کیوں چلے جا رہے ہیں تو انھوں نے باہر لگے بورڈ کی طرف اشارہ کیا۔ لکھا تھا " گھر کا سا آرام، کھانے میں گھر کا سا مزا" کہنے لگے "پھر آپ کے پاس کیوں آؤں، گھر ہی جا کر نہ کھا لوں" چناں چہ آپ بھی گھر کا ہی مزا تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں۔

روٹیاں کئی طرح کی ملتی ہیں۔مدینے میں تو ہم افغانی تندور کی روٹیوں کی سفارش کریں گے۔ پراٹھے یا چپاتی۔ مگر مکّے میں ایسی روٹیاں آپ کو دستیاب نہ ہوں تو ایسے ہی تندور سے "بسکوت" لے لیں، ممکن ہے کہ آپ کو یہ پسند آ جائیں۔ ورنہ پھر ہر علاقے میں جو بڑے بڑے سٹورس ہیں، جنھیں اکثر "بقالے" کہتے ہیں، وہاں آپ کو کئی طرح کی روٹیاں مل جائیں گی، بن، ڈبل روٹی، مختلف شکلوں کی، جن میں ایک لمبی روٹی کو سلومی کہتے ہیں۔ عام روٹیاں سائز کے مطابق ایک ریال کی ایک سے لے کر ایک ریال کی چار تک ملتی ہیں۔ بدل بدل کر کھائیے۔جو قسم آپ کو پسند آئے یا جس میں بقول انگریزی والوں کے ُبہترین رقم کی وصولی" (Best value for money) ہو، اسے اپنا لیجئے۔ کیک اور بسکٹ بھی طرح طرح کے ملتے ہیں، میٹھے بھی اور نمکین بھی۔ مگر سستا یہی پڑے گا کہ آپ کو بن یا ڈبل روٹی جو زیادہ پسند ہو، وہ خریدئیے، کریم اور پنیر (Cheese) کے ایک ایک ریال کے پیکٹ ملتے ہیں، جام کی آدھا کلو کی شیشی 3 ریال کی ہے، ان سے ناشتہ کر لیا کریں۔

5۔ اگر مکّے میں آپ کے علاقے میں (ہمارے شعبِ عامر کے علاقے نے تو ہمیں مایوس کیا ہے) تندور اچھے ہوں اور وہاں آپ کو اچھی اور گرم روٹی مل رہی ہو تو وہی بہتر ہے اور وہاں کی دال سبزی بھی اچھی ہو تو یہ کم خرچ بالا نشیں ثابت ہوگا۔ مدینے میں تو ضرور آپ کو بھی اسی میں فائدہ محسوس ہوگا۔ اس صورت میں کھیرے ٹماٹر اور پیاز خرید لیا کیجئے، اس کا سلاد بنائیے، کبھی دہی لے لیں، یا چھاچھ(لبن)، اس کا رائتہ بنا لیں۔ نمک آپ وطن سے لے جا سکتے ہیں، نہیں تو اس کی بھی ایک ریال کی بوتل ملتی ہے۔

6۔ مرغی کا مشورہ دینے میں ہم محتاط ہیں کہ ہماری اطلاع کے مطابق چھوٹی دوکانوں میں یوروپی ممالک کا مشین کا کٹا گوشت بھی مل سکتا ہے جس کے ذبیحہ کے غلط ہونے کا احتمال ہے۔ ہاں، بکری کا گوشت بلا جھجک کھا سکتے ہیں ۔مگر یہ آپ کو تندور میں عموماً نہیں ملے گا۔ اس کے لئے آپ ہوٹل جا کر ہی کھائیں تو بہتر رہے گا کہ روٹیاں الگ سے خریدنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ مگر آپ ہندوستان کی مسلم ہوٹلوں کے قاعدے کے مطابق "پارسل" لے جانا چاہیں تو اکثر ہوٹل والے مفت میں روٹیاں نہیں دیتے ہیں، مانگنا پڑتی ہیں یا کبھی انکار بھی کر سکتے ہیں۔ اور ہم کو بھی مانگنے میں تو شرم ہی آتی تھی۔ورنہ پھر گوشت قیمے کا سالن ہوٹل سے لے کر دو ریال کی روٹیاں خرید لیں تو تین لوگ کھا سکتے ہیں۔

کچھ خبریں

یہاں "اردو نیوز" اخبار ملتا ہے جو مقامی اردو اخبار ہے، 2 ریال قیمت کا۔ اب اسے آپ 20 روپئے سمجھ کر مہنگا کہہ سکتے ہیں مگر مقامی لوگوں کے لئے وہی دو روپیوں کے برابر ہے، جو قیمت یہاں اردو اخباروں کی ہوتی ہے۔ یہ اخبار کیوں کہ ہندوستانی پاکستانی مہاجرین کے لئے ہی ہوتا ہے ، اس لئے اس میں یہاں کی مقامی خبریں بھی مل سکتی ہیں گجرال صاحب کے وزیر اعظم بننے کی خبر بھی ہم کو اسی سے ملی ہے۔ بلکہ کل کے اخبار میں ان کا بیان تھا کہ حادثۂ منیٰ میں جن ہندوستانیوں کا حج مکمل نہیں ہو سکا ہے، انھیں حکومت ہند اپنے خرچ پر اگلے سال حج کے لئے بھیجے گی۔ ہندوستانی متاثّرین کی تفصیلیں بھی ہیں۔46 عدد شہداء اور 191 عدد گم شدہ لوگوں کی فہرست کے علاوہ ان کی بھی فہرست ہے جو زخمی ہیں اور جن کا مختلف اسپتالوں میں علاج چل رہا ہے اور ان کی بھی جو اسپتال سے خارج ہو کر واپس جا چکے ہیں۔ دو تین دن پہلے کے اخبار میں کچھ زخمیوں سے لئے گئے انٹرویو بھی تھے۔ کچھ نے بتایا کہ ان کو حج کے ارکان مکمل کرنے کے مواقع فراہم کئے گئے۔ جن کی حالت بہت زیادہ خراب نہیں تھی ، ان کو ایمبولینس کے ذریعے صحیح اوقات میں منیٰ سے عرفات لے جایا گیا اور پھر وہاں سے مزدلفہ بھی۔ اور پھر منیٰ لا کر ان کی قربانی کا انتظام کر کے انھیں پھر منیٰ یا مکّہ کے اسپتالوں میں رکھا گیا ہے۔ان کی طرف سے قربانی کے علاوہ رمی جمار بھی ہو گئی ہے اور حلق و تقصیر (بال منڈوانا یا کٹوانا) بھی۔

صابرہ کی آنکھوں میں تکلیف تھی تو ہم ان کو ہندوستانی کلینک لے گئے تھے۔ وہاں معلوم ہوا کہ ہندوستانی محکمۂ صحت کی دو لاکھ روپئے کی دوائیں نذرِ آتش ہو گئیں۔حکومت ہند کا میڈیکل کیمپ پورا جل گیا۔ نصف سے زیادہ منیٰ جل گیا تھا تو اور بھی کئی میڈکل کیمپ جل گئے ہوں گے۔ 7 لاکھ حاجی بے گھر ہو گئے تھے، کوئی مذاق کی بات ہے؟ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہم کو محفوظ رکھا ہے۔

بات اخبار سے شروع ہوئی تھی تو یہ خبر بھی آپ کو بتا دیں کہ ابھی کل کے ہی اخبار سے معلوم ہوا کہ ہمارے ہندوستانی فلموں کے اداکار ششی کپور اپنے آبائی وطن پشاور گئے تھے ،اپنا آبائی وطن دیکھنے کچھ Home comingکے طور پر۔ اور ان کے شیدائیوں میں ایسی بھگدڑ مچی کہ پولس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا اور اس کے نتیجے میں کئی زخمی ہو گئے۔

اردو نیوز میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ کیوں کہ حیدرآباد کے بہت سے لوگ عرب ممالک میں بسے ہیں ، اور ان لوگوں کو وطن ہی نہیں، اپنے شہر کی خبروں کے لئے ایسی تڑپ ہوتی ہے کہ ان اخباروں کے باقاعدہ نمائندے حیدرآباد میں رہتے ہیں اور تازہ بہ تازہ خبریں اپنے عرب سے نکلنے والے اخباروں (ہمیں تو فی الحال اردو نیوز کا ہی پتہ چلا ہے، ویسے نہ صرف دوسرے اخبار، ہفت روزے اور ادبی ماہنامے بھی عرب دنیا سے نکلنے کی خبریں تو ہم نے حیدرآباد کے اردو اخباروں میں ہی پڑھی ہیں) کو دیتے رہتے ہیں۔کل کے ہی اخبار میں خبر تھی کی حیدرآباد کے لیڈر، مجلس بچاؤ تحریک کے امان اللہ خاں فلاں تاریخ کو جدّہ پہنچ رہے ہیں اور فلاں ہوٹل میں ان کا استقبالیہ مقرر ہے۔ ہندوستان کے ہی دوسرے شہروں کے اردو اخباروں کے قارئین امان اللہ خاں کو کیا جانیں گے۔ بہرحال آج کا اخبار ہم نے دیکھا نہیں ہے اب تک، مگر امّید ہے کہ گجرال صاحب نے پارلیمان کے  ُفرش" (Floor) پر اپنی اکثریت ثابت کر دی ہوگی، اگر کانگریس اپنے تعاون کے وعدے پر قایم رہی تو...یوں اس پارٹی پر بھی اعتماد مشکل ہے۔

یہ تو ہو گئیں اخباروں کی گرما گرم خبریں۔ کوئی تین چار دن پہلے ہم کو ایک صاحب کے منیٰ کے حادثے میں انتقال کی خبر ملی جن سے صابرہ اچھّی طرح واقف تھیں۔ ہم ان صاحب کے لڑکے علیم سے واقف تھے جو خود بھی ہم دونوں کی طرح جیالوجسٹ ہیں مگر انڈین بیورو آف مائنس (Indian Bureau of Mines, IBM) میں، بنگلور میں ہماری علیم سے ملاقات ہوئی تھی اس مغرب کی نماز کے بعد جب کہ ہم عشاء کے بعد اڑنے کے لئے تیار تھے۔ اس وقت علیم نے بتایا تھا کہ ان کے والدین بھی حج کے لئے جا رہے ہیں اور وہ ان کو چھوڑنے آئے تھے۔ بعد میں جدّہ میں ہم نے صابرہ کو علیم کے والدین کے وہیں کہیں ہونے کی بات بتائی تھی مگر وہاں کہاں معلوم کرتے، اور پھر صابرہ بھول بھی گئیں۔ اب انتقال کی خبر ملی تو افسوس ہوا۔ یہ تو ہم کو علیم نے بتایا تھا کہ ان پر فالج کا اثر ہے اور وھیل چیر استعمال کرتے ہیں اور اسی پر حج کریں گے۔ بلکہ صابرہ نے کل ہی بتایا کہ ان پر فالج کا اثر حج کی درخواست دینے کے بعد ہوا تھا۔ واقعہ یوں معلوم ہوا کہ منیٰ کی آگ ان کے کیمپ کے قریب ہی شروع ہوئی اور بھگدڑ میں سڑک کی طرف کا راستہ لوگوں نے ہی بند کر دیا۔ خیمے کے دونوں جانب تو آگ تھی ہی، بعد میں سڑک کے دوسری طرف بھی آگ شروع ہو گئی ، اس لئے لوگ پھر چوتھی سمت یعنی پہاڑ کی طرف بھاگنے لگے۔ مرحوم حکیم صاحب (یہ ان کا نام تھا) بے چارے فالج زدہ پیروں سے چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے مگر گرِ گِر جاتے تھے۔ ڈھال بھی سخت تھا۔ عام لوگ بھی پھسل پھسل کر گر رہے تھے۔ کسی اللہ کے بندے نے ان کی مدد بھی کرنی چاہی مگر وہ بیچارہ خود بھی گر گیا اور مرحوم پھسل کر جلتے ہوئے خیموں میں ہی جا گرے۔ بلکہ وہ تو پہاڑی تلے گرے، ان کے اوپر جلتے ہوئے خیمے گرے۔ صابرہ سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ صابرہ کے پڑوسی تھے محبوب نگر میں۔ حکیم صاحب خود وہاں بی۔ ایڈ کالج کے پرنسپل تھے۔اس معلومات کے بعد چلا کہ مرحوم کی بیوہ ہماری عمارت کے قریب ہی ایک عمارت میں ہیں تب سے صابرہ روز ان سے جا کر مل رہی ہیں۔ اب 20۔3 ہو رہے ہیں، عصر کے لئے نکلنا ہے اور اس کے بعد جدّہ کے لئے۔ اب انشاء اللہ جدّے میں ہی لکھیں گے۔

مکّے سے مکّے تک بر ا ہ جدّ ہ

٣/ مئی، ساڑھے دس بجے رات

 

آج نویں دن لکھ رہے ہیں الحمد للّٰہ ۔ جدّہ میں ذرا بھی نہیں لکھ سکے۔ صرف کچھ نکات نوٹ کر لئے تھے کہ ان کے بارے میں لکھیں گے اگر حیات رہے تو۔ ویسے وہاں وقت کی کمی نہیں تھی۔وافر مقدار میں مل رہا تھا (اگر ہم سونے میں وقت نہ گنواتے تو)۔ مگر ایک تو ہم یہ ضخیم رجسٹر لے کر نہیں گئے تھے۔ تین چار دن کا ہی پلان تھا اس لئے محض ایک ہلکا پھلکا بیگ ساتھ لے لیا تھا اور باقی سارا سامان یہاں ہی چھوڑ گئے تھے۔ یہ رجسٹر یہاں چھوڑ کر کچھ کاغذ ساتھ لے لئے تھے۔ ہم جس رجسٹر میں یہ سب لکھ رہے ہیں، وہ در اصل ہماری اہلیہ محترمہ کے دفتر کے ڈپلی کیٹنگ پیپر سے بنایا گیا ہے جسے ان کے سیکشن والوں نے باقاعدہ موٹے کاغذ کی جلد چڑھا کر زنجیری جلد بندی (سپائرل بائنڈنگ Spiral binding)کر دی ہے۔ یہ کاغذ کچھ شکستہ ہو جاتا ہے اور ہم نے جو کچھ اوراق نکالے بھی تو ان کی حالت خستہ ہو رہی تھی۔خطوط لکھنے کے لئے ہم نے ایک ریال کے کاپی سائز کے آٹھ اوراق خریدے تھے اور اس کام کے لئے دس روپئے کے کاغذ تو ہم مشکل سے دو دن میں لکھ ڈالیں گے اورآپ کی "نظر خراشی" کریں گے۔ پسند کریں نہ کریں جانِ جہاں اختیار ہے۔ غرض ایک وجہ یہ بھی تھی اور اصلی وجہ یہ کہ ہمارے میزبان باقر، ان کی بیوی زرینہ اور ان کے تین بچّوں نے اجازت ہی نہیں دی یعنی مصروف رکھا۔ شاید ہم لکھ چکے ہیں کہ یہ باقر صابرہ کی بڑی بہن صغریٰ کے دیور ہیں، ان کے شوہر محمود بھائی کے چھوٹے بھائی۔ باقر کے بچّے ہیں ارمینہ، نورینہ اور لڑکا مزمّل۔ ان کے علاوہ جدہ میں ہی صغریٰ آپا کی نند نسیم اور ان کے شوہر اشفاق بھائی بھی ہیں۔ ہم یہاں تو اللہ میاں کے مہمان تو تھے ہی، جدہ آ کر باقر میاں کے مہمان بھی ہو گئے ۔ ٹھہرے تو باقر کے گھر ہی تھے، مگر کئی بار اشفاق بھائی کے ساتھ ہی ان کی میزبانی کا لطف اٹھایا۔ در اصل کار ان کے پاس ہی تھی، باقر کے پاس نہیں تھی، اس لئے کہیں جانے کے لئے ان کے ساتھ ہی جاتے تھے۔ صرف کل یہاں واپس آنے کے لئے ان کی کار نہیں مل سکی اس لئے کہ اس جمعرات جمعے کو اشفاق بھائی کی Weekend کی چھٹی تھی اور اس دن وہ اپنا گھر شفٹ کر رہے تھے۔ چناں چہ کل ہم ان کے بڑے بھائی اقبال بھائی کی ایر کنڈیشنڈ کار میں جدّہ سے واپس لوٹے ہیں۔ پچھلے جمعے 28/ اپریل کی رات کو ساڑھے آٹھ بجے مکّے سے نکلے تھے تو کل جمعے کو ہی مغرب کی اذان کے وقت حدود حرم بلکہ میقات میں داخل ہو رہے تھے، جہاں سے غیر مسلموں کا داخلہ ممنوع ہے۔ (اس راستے پر یہاں ایک بڑی سی رحل بنائی گئی ہے)۔ حرم وہاں سے 4۔3 کلو میٹر دور ہی تھا، اس لئے مغرب کی نماز ہم نے مکّے میں ہی مگر حرم سے دور پڑھی۔ پھر اقبال بھائی نے خواتین کو حرم میں چھوڑا، ہمارا سامان عمارت رقم 468 میں رکھوایا، اور پھر ہم کو حرم میں چھوڑا تو رات کے آٹھ بج گئے تھے۔ عمرہ کر کے ہم لوگ 11 بجے ہی عمارت واپس آ سکے۔ خیر وہ روداد بعد میں۔ ابھی تو ہم نے جدّے کے سفر کی تمہید ہی باندھی ہے۔ اب آپ کو تفصیل سے وہاں کے شب و روز سے واقف کرائیں۔

جدّ ے کے شب و ر و ز

"شب و روز کی اصطلاح نہ صرف باقر اور زرینہ اور دوسرے جدّے والوں (یا سعودی عرب کے دوسرے شہریوں )کے لئے بلکہ ا ن آٹھ دنوں میں ہمارے لئے بھی بالکل صحیح ہے۔ یعنی یہ کہ ہمیشہ ان دونوں الفاظ کو مرکّب ہی لکھنا چاہئے کہ کہہ نہیں سکتے کہ آپ کی شب کب ختم ہوئی اور روز کب؟ کیوں کہ ہماری رات بھی تب ہی ختم ہو رہی تھی جب سورج (طلوع ہونے میں)؎ دو چار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا۔ باقر کا کہنا یہ ہے کہ یہاں عورتیں اس لئے زیادہ موٹی ہوتی ہیں کہ دن بھر سوتی رہتی ہیں۔ روزانہ رات کو دو تین بجے ان کا سونا ہوتا ہے۔ مرد بھی اسی وقت سوتے ہیں مگر صبح سات آٹھ بجے اپنے کام سے لگ جانے کے لئے ان کو جلدی اٹھنا ہوتا ہے مگر عورتیں دن میں 11۔12 بجے تک سوتی رہتی ہیں۔ باقر کو ہی صبح ساڑھے سات بجے نکلنا ہوتا ہے اور واپسی میں ساڑھے سات بج جاتے ہیں۔ اس کے بعد عام طور پر ان کی شام کی چائے ہوتی ہے۔ اور پھر عشاء کا وقت ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ دونوں ہی نہیں، بلکہ عموماً سعودی حضرات کہیں کسی سے ملنے چلے جاتے ہیں یا پھر شاپنگ کے لئے۔ رات 12 بجے کے بعد واپسی ہوتی ہے۔ پھر آرام سے کھانا وغیرہ کھاتے ہیں، بلکہ گرم کھانے کی عادت ہو تو اسی وقت پکاتے بھی ہیں اور پھر سونے تک وہی دو تین بج جاتے ہیں۔ مردوں بے چاروں کی نیند محض5 ۔4 گھنٹوں کی ہوتی ہے۔ رات کو جب ہم لوگ کھانا کھانے بیٹھتے تھے تو اکثر باقر دستر خوان پر ہی اونگھنے لگتے تھے۔ ناشتہ ظہر کے بعد ہوتا تھا اور دوپہر کا کھانا عصر کے بعد۔ ہم بھی ایک یا دو دن ہی فجر کی نماز پڑھ سکے، ایک دن تو اس وقت تک سو ہی نہیں سکے تھے۔ ورنہ اکثر 7۔8 بجے آنکھ کھلتی تو قضا فجر پڑھ کر سب کو سوتا دیکھتے تو خود بھی لیٹ جاتے اور خلاف معمول بھی نیند آ جاتی۔اور 11 بجے کی خبر لیتے۔ پرسوں تو اور خراب حالت رہی۔ جمعرات تھی اور اس دن باقر کو آدھے دن کی چھٹی ہوتی ہے( ان لوگوں کی جمعے کو مکمل چھٹی ہوتی ہے۔ کچھ دفتروں میں دونوں دن کی مکمل)۔ اس لئے وہ بھی آ کر سو گئے تو پھر مغرب کے وقت ہی سب لوگ اٹھے۔ ان کے آنے سے پہلے ایک بجے ناشتہ ہوا تھا ہمارا، پھر زرینہ بھی سو گئیں اور ہمارے علاوہ سبھی، بشمول باقر کے۔ اس وقت کچھ مہمان آ گئے تو دوپہر کا کھانا غائب۔ ان کے ساتھ ملک شیک پیا اور چائے بھی۔ البتّہ رات کا کھانا عشاء سے پہلے ہی کھا لیا گیا۔ یعنی عشاء کی اذان ہو رہی تھی اور سب کھانا کھانے بیٹھ چکے تھے۔ باقر کی دونوں لڑکیاں صبح سات بجے اسکول چلی جاتی ہیں اور 2 بجے واپس آتی ہیں اور کچھ اسکول کا کام کر کے یہ بھی سو جاتی ہیں تو آٹھ بجے ہی اٹھتی ہیں۔ مزمّل، ان کا چھوٹا بیٹا پونے آٹھ بجے نکلتا ہے اور وہ بھی اپنی بہنوں کے آس پاس ہی آ جاتا ہے۔زرینہ بچّوں کو رخصت کرنے کے لئے اٹھتی ہیں، محض محبت کی خاطر ورنہ ان کے ناشتے دان بھی پچھلی رات کو ہی رکھ دئے جاتے ہیں۔ پھر یہ سو جاتی ہیں۔ اگرچہ ہمارے لئے ٹرے میں بریڈ، جام اور چیز وغیرہ پہلے ہی رکھ دیتی تھیں کہ ہماری جب خواہش ہو، ہم لوگ ناشتہ کر لیں۔ ایک دن تو ہم نے کر بھی لیا تھا، مگر بعد میں ہماری بھی سونے کی عادت ہو گئی۔

لیجئے اب تک جدّے کے شب و روز کا حال شروع ہی کیا تھا کہ لگتا ہے ہماری شب شروع ہو چکی۔ یعنی نیند آ رہی ہے۔ چلئے معمول معمول کے مطابق ہو جائے تو اچھّا ہے۔ اب کل صبح لکھیں گے ورنہ آج تک تو یہی حال تھا کہ آج ہم نے ناشتہ ہی نہیں کیا۔ ساڑھے بارہ بجے اٹھے تھے۔اس لئے سیدھے لنچ لے لیا۔ صابرہ بھی اپنا معمول ٹھیک کرنے میں لگی ہیں کہ دس ساڑھے دس بجے سے سو رہی ہیں۔

شہر جدّ ہ

4/مئی 97ء، 11 بجے رات

 

اب لکھنے کی مہلت مل رہی ہے۔ ویسے تو آج کا دن بھی خاصا  ُمتحرّک" (Full of activities) رہا۔ مگر اس کی بات بعد میں، پہلے جدّہ چلیں جہاں سے ہم آ رہے ہیں۔

یوں ہم نے دیکھنے کو مکّہ بھی دیکھا اور مدینہ بھی، مگر دونوں مدینے (مدینہ در اصل شہر کو ہی کہتے ہیں) صرف حرمین کے قرب و جوار تک ہی۔ مدینے میں تو پھر کئی  ُاسواق" (بازار) دیکھ ڈالے تھے۔ مکّہ میں تو حرم کے آس پاس کے علاوہ نہ کچھ دیکھا تھا نہ کچھ خریداری کی تھی۔ ویسے ان دونوں شہروں کے دوسرے علاقے سفروں کے دوران ضرور دیکھے، گزرتے ہوئے۔ یعنی جدّے سے مکہّ آتے ہوئے، مکہ اور مدینے کے درمیان کے راستے میں دو بار گزر ے اور پھر جدہ جاتے وقت۔ مگر صحیح معنوں میں دیکھنے کی غرض سے کوئی شہر دیکھا تو جدّہ۔ یوں تو مکہ مدینہ میں بھی کئی فلک بوس عمارتیں ہیں، مگر جو رونق جدّے میں نظر آئی، وہ مکہ مدینہ میں نہیں۔ یہ واضح کر دیں کہ اب ہم خالص ٹورسٹ کے طور پر بات کر رہے ہیں۔ جذبۂ شوق کی نیّت سے تو ان دونوں شہروں کے علاوہ کہیں جانے کو جی نہیں چاہتا۔ مگر جب جدّہ جانا ہی پڑ گیا تو ہم ہمارا جذبۂ شوق حرم کی ہی ایک طاق میں رکھ کر جدّہ چلے گئے تھے۔پھر باقر اور اشفاق بھائی کے مجبور رہے، جذبۂ شوق کے مجبور ہوتے تو اگلے ہی دن بھاگ آتے۔ یعنی جب تک ان لوگوں نے واپسی کے لئے کار کا انتظام نہیں کیا، وہیں ٹھہرنا پڑا۔ آخر ان لوگوں کے مہمان تھے۔یہ دوسری بات ہے کہ جدّے کے بازاروں میں ہمیں اللہ میاں کا مہمان ہی سمجھا گیا اور اس ناطے مکہ مدینہ سے زیادہ ہی احترام نصیب ہوا۔ وہاں تو سبھی حاجی تھے، من ترا حاجی بگوئم، تو مرا حاجی بگو کے علاوہ وہاں یہ احترام کہاں ممکن تھا۔ ویسے ہم اس خاطر کے بھوکے تو نہیں تھے۔ مگر جب احترام مفت میں ملتا رہا تو خوش ہوتے رہے۔

ایک تو ہم کو یہ لگا کہ شہر جدّہ بہت وسیع ہے۔یہاں مکہ کا حال تو معلوم نہیں۔ یہ ضرور جانتے ہیں کہ یہاں علاقوں کو سمتوں میں بانٹ رکھا ہے، جیسے لندن میں پوسٹ آفس کی زون سمتوں کے مطابق ہیں، North-west, South-east وغیرہ۔ یہاں بھی اسی طرح ہے مگر عربی میں۔ مختصر حروف کی عربی میں مشکل ہے کیوں کہ مشرق اور مغرب دونوں  ُم" سے شروع ہوتے ہیں۔ اور اگر مشرق کو شرق بھی لکھا جائے تو وہ بھی ُش" سے ہوتا ہے اور شمال بھی۔ یہاں صرف شمال کو ُش" لکھتے ہیں،( کہیں کہیں شمال پورا بھی لکھا دیکھا تو ُش" پر زیر لکھا دیکھا، یعنی یہاں شِمال کہا جاتا ہے۔) مشرق کے لئے ُق" اور مغرب کے لئے ُغ" ، جنوب کے لئے وہی ُج"۔ البتّہ جدہ میں علاقوں اور بستیوں کو انگریزی میں "ڈسٹرکٹ" کہا جاتا ہے اور اس کا عربی ترجمہ اردو کے حساب سے ضلع نہیں، ُحتی" ہے۔ بلکہ یوں کہئے کہ یہاں حتی کی انگریزی ڈسٹرکٹ ہے۔ ہم، مراد باقر وغیرہ، حتی العزیزیہ میں رہتے تھے۔ راستوں کے دوسرے ضلعے تھے، حتی شرقیہ، بنو مالک، کندرہ وغیرہ۔(ہم کو حتی کی جمع معلوم نہیں اس لئے ہم اس کا انگریزی میں ُڈسٹرکٹ " ترجمہ کر کے پھر اردو میں ترجمہ کر رہے ہیں۔

25 اپریل جمعے کی رات کو جدّے پہنچے تھے۔ 26/ کو کہیں نہیں گئے مگر 27/ اپریل سے 2/ مئی تک روزانہ کسی نہ کسی نئے علاقے میں جاتے رہے۔ پہلے دن جہاں گئے اس کا نام معلوم نہیں (یا یاد نہیں رہا)۔ مگر وہاں ہندوستانی پاکستانی دوکانیں بہت تھیں۔پان کی دوکان، ہندوستانی مٹھائیاں وغیرہ سبھی دستیاب تھیں۔ اس وقت دو علاقوں میں گئے، ایک میں سپورٹس کا سامان تھا۔ وہیں سے ہمارے بیٹے کامران کے لئے ایک جوڑی سپورٹس شوز لئے۔ فرمائش تو ان کی "ریبوک" (Reebok) شوز کی تھی مگر وہ مدینے میں اور جدّے میں بھی 350۔400 ریال کے تھے۔ ہندوستان میں اس سے کم قیمت میں ہی دستیاب ہو سکتے تھے۔ یعنی متبادل رقم کا سوچیں تو یہاں کے ہزار روپیوں میں مل سکتے تھے اور اس حساب سے وہاں 100 ریال کے آس پاس ہوتے تھے تو ہم ضرور خرید لیتے۔ اس لئے باقر نے مشورہ دیا کہ اس فرانسیسی کمپنی "لائن۔7 (Line-7) کے جوتے بھی بہت اچھّے ہوتے ہیں وہ بھی وہی استعمال کرتے ہیں اور اس میں یوں بھی ڈسکاؤنٹ چل رہا تھا اور باقر کی دوستی تھی دوکان دار سے۔ اس لئے 110 ریال کا جوتا 80 ریال میں تو تھا ہی، ہمیں 60 ریال میں ہی دے دیا۔ اس کے علاوہ کامران کے ہی لئے جین بھی خریدی، اور کیا کچھ خریدا، یاد نہیں۔

اگلے دن 28/ کو "ہراج" گئے۔ یہ در اصل نیلام کی جگہ ہے اور یہاں ہول سیل سامان آتا ہے، اس لئے کم قیمت میں اشیاء مل سکتی ہیں۔ ساحل کے قریب ہی یہ علاقہ ہے۔ مگر یہاں اکثر دوکانیں فٹ پاتھ کی ایسی بھی دیکھیں جیسی ممبئي کے چور بازار یا حیدرآباد کا جمعرات بازار (جمعرات کے دن) یا اتوار کے دن پتھّر گھٹی کا علاقہ۔ ایک جگہ 2۔2 ریال میں دھات کے گل دانوں سے لے کر بڑے بڑے گھنٹے تک مل رہے تھے۔ 5۔5 ریال میں ٹی شرٹس، لڑکیوں کے سفید بلاؤز تو ہم نے بھی یہاں سے خریدے۔ یہ اپنی پیکنگ میں سیلڈ تھے اور دس ریال کے تین بھی مل گئے۔ ہر مال 5، 10 اور 20 ریال کی بھی ایسی کئی دوکانیں تھیں بلکہ ایک ایک ریال کی بھی جہاں وہ چیزیں بھی تھیں جو مدینے وغیرہ میں 2۔2 ریال کی مل رہی تھیں۔کپڑے کی دوکانیں بھی بہت تھیں۔ زنانی کپڑا 5۔5 ریال فی میٹر فٹ پاتھ پر اور 6 تا 10 ریال میٹر دوکانوں میں تھا۔ ریڈی میڈ بھی۔ صابرہ نے اس دن اسی بازار سے ایک چپّل خریدی اور کسی کو دینے کے لئے بچّوں کے ریڈی میڈ سوٹ بھی۔ نائٹی اور اسکارف بھی لئے۔ شلوار قمیص سوٹ کے لئے کپڑے بھی خریدے۔ بیشتر دوکانیں بنگلہ دیشیوں کی تھیں اور ان پر ہماری اچھّی خاصی بنگلہ کا یہ اثر ہوا کہ سودا چکانے میں آسانی ہوئی۔ ویسے ہم ان لوگوں کو کہہ دیتے تھے کہ بھائی ہماری بنگالی کلکتوی ہے، بنگلہ دیشی بنگالی کا نہ صرف لہجہ الگ ہوتا ہے بلکہ لفظیات میں بھی فرق ہے۔ وہاں یہ لوگ پانی "پیتے "ہی ہیں، ہندوستانی بنگالیوں کی طرح "کھاتے "نہیں۔

اگلے دن 29/ کو "کندرہ" کے علاقے میں گئے جہاں جا نمازوں کی تھوک منڈی ہے۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا جب ہم آپ کو بتائیں کہ ہم نے اس دن 35 عدد جا نمازیں خریدیں۔ صابرہ کا ارادہ اکثر لوگوں کو تحفتاً جا نمازیں دینے کا ہی تھا۔ یہاں بھی کافی کفایت رہی۔ ایک کوریا کا لحاف بھی خریدا۔نہایت ملائم۔ یہ شے یہاں کے دوسرے بازاروں میں اور مدینے میں بھی 130۔140 ریال کی تھی، کندرہ میں ہمیں 110 ریال میں مل گیا۔ اس دن ایک پاکستانی ہوٹل میں باہر ہی سب نے (باقر اور اشفاق بھائی کا پورا خاندان ساتھ تھا، اشفاق بھائی کی کار میں ہی گئے تھے حسبِ معمول)کھانا کھایا۔کڑھائی گوشت، مرغ کی ایک ڈش (اس کا نام یاد نہیں رہا)، سبزی کی بریانی اور روٹیاں۔ سلاد بھی تھا ہی اور بعد میں کھیر بھی کھائی گئی، اچّھا کھانا تھا۔

تیسرے چوتھے دن یعنی 30 اپریل اور یکم مئي کو سونے کے بازاروں میں گھومتے رہے۔ یہ دو بازار ہیں۔ ایک کا نام "یمامہ " تو یاد رہا، دوسرے کا بھول گئے ہیں۔پہلے دن ہماری صابرہ بیگم نے بریسلیٹ (Bracelet) دیکھنے کی کوشش کی۔ تلاش تھی "اللہ" لکھی ہوئی ہار میں ڈالنے کی "لٹکنوں"  (Pendants) کی، مگر وہ اچھّے نظر نہیں آ رہے تھے۔دوسرے دن دوسری مارکیٹ میں یہ مل گئے۔ اس کے ساتھ انھوں نے چار ٹاپس بھی خریدے۔ سونے کا بھاؤ یہاں بني ہوئی چیز کے حساب سے ہے۔چوڑیاں سستی ہیں۔38 ریال فی گرام اور کان کے ٹاپس سب سے مہنگے 50۔60 ریال فی گرام تک۔ دوسری چیزیں 40۔45 ریال فی گرام۔ اور یہ سب 21 کیرٹ سونا ہے۔ غرض سونے کی کچھ چیزیں وہاں ہندوستان کی بہ نسبت سستی ہیں اور کچھ مہنگی۔ سب ملا کر تقریباً یہاں جیسا ہی حساب پڑتا ہے۔

آخری دن ہم "بابِ مکہ" کے علاقے میں گئے جسے اہلِ جدّہ پیار سے "ببمک" (Babmak)کہتے ہیں۔ یہ دراصل جیسے حیدر آباد کا عثمان گنج اور بیگم بازار (علی گڑھ کا رسل گنج اور دہلی کا دریا گنج بھی سمجھ سکتے ہیں) ہے یعنی ہر چیز، بطور خاص آٹا، دال، چاول اور مصالحوں کی تھوک مارکیٹ۔ یہاں سے مصالحے خریدے یعنی لونگیں، زیتون کا تیل، دارچینی۔ الائچی۔ بادام اور پستے۔ ان کے بھاؤ بھی آپ کو بتاتے چلیں۔ دارچینی 12 ریال، لونگ 10 ریال، الائچی 20 ریال، پستے 28 ریال اور بادام 30 ریال فی کلو۔ زیتون کا تیل آدھا لٹر کا ٹن 13 ریال کا (یہ ویسے ہندوستان میں بھی امپورٹیڈ والا ہی ملتا ہے اور بعد میں معلوم ہوا کہ نسبتاً سستا ہی)۔ اسی دن عطریات بلکہ سینٹس بھی خریدے، کچھ 10۔15 ریال کے، کچھ سستے 4۔5 ریال والے بھی۔ کھجوریں اگرچہ کافی خرید چکے تھے مگر وہاں بھی تازہ نظر آئیں تو مزید ساڑھے تین کلو لے لیں۔ جدّے کی جو چیز یاد رہے گی وہ ہے میدان قصاص۔ حالاں کہ ہم نے کسی کا قصاص ہوتے نہیں دیکھا، محض سنا ہی ہے ہمارے باقر صاحب سے۔ انھوں نے بتایا کہ جب بھی ہوتا ہے تو کافی تماشائی جمع ہو جاتے ہیں اور اس سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔ایک چبوترے پر مجرم کو لایا جاتا ہے اور اس کے ہاتھ کاٹنے، درّے لگانے یا قتل کرنے کی سزا نظارۂ عام کے ساتھ دی جاتی ہے۔

جدّے کا نیا ائر پورٹ (ایر پورٹ کو عربی میں مطار کہتے ہیں)تو شہر سے 30 کلو میٹر دور ہے، پرانے ائر پورٹ کے آس پاس سے تقریباً روز ہی گزرتے رہے۔ اس کے پرانے رن ویز (Runways)پر سڑکیں بن گئی ہیں۔اس کے قریب ہی ایک چار منزلہ عمارت ہے جو جگ مگ کرتی ہے اور دور سے نظر آتی ہے۔ اس عمارت کا نام ہے ـمدینۃ الحجاج۔ پہلے آمد و رفت کے وقت حاجیوں کو یہاں ہی ایک دو دن رکھا جاتا تھا۔بندرگاہ بھی یہاں سے قریب ہے، اس لئے بحری مسافروں (جو عازمین حج ہوں) کو بھی یہاں ہی رکنا پڑتا تھا۔ اب بھی یہاں حاجیوں کا قیام ہوتا ہے اور شاید مفت۔ سنا ہے کہ انڈونیشیا کے حاجی اب بھی یہاں ہی ٹھہرتے ہیں۔ یہ ہم نے قریب سے اس طرح دیکھا کہ اس کے سامنے ہی ایک "فاسٹ فوڈ" ریستوراں ہے "البیک"۔ یہاں سے ہم نے بروسٹ چکن (یا محض بروست) لیا تھا جو یہاں کا مشہور ہے۔ یعنی نصف تلی ہوئی مرغی اور اس کے ساتھ بن، کیچ اپ اور فرینچ فرائز (یعنی آلو کے تلے ہوئے قتلے)۔ اس دن یہ پیک کرا کے گھر لے گئے تھے اور وہاں کھایا تھا۔

آگیا "پیک آور ز" میں بھی اگر وقتِ نما ز

حرمین کے قرب و جوار میں تو ہم نے دیکھا کہ ادھر اذان ہوئی اور دوکان داروں نے اپنی دوکانوں کے سامنے ایک کپڑا لٹکایا اور بے خوف نماز کے لئے چلے گئے۔نماز کے بعد پھر دوکان کھلے گی، یہ کپڑا نشان دہی کرتا ہے کہ نماز کے لئے دوکان بند ہے۔ ٹیلیفون بوتھس پر بھی عربی کے علاوہ انگریزی اور کہیں کہیں اردو میں بھی لکھا ہوتا ہے کہ براہِ کرم نماز کے اوقات میں کسی کو فون نہ کریں۔ مگر ہم اب تک سمجھ رہے تھے کہ یہ محض بیت الحرام یا مسجدِ نبوی میں ہی ہوتا ہوگا کہ دوکان دار (ممکن ہے کہ) شرما شرمی میں نماز پڑھنے چلے جاتے ہوں گے کہ خریداروں پر اچھّا Impression پڑے ورنہ وہ کیا کہیں گے ۔حالاں کہ مغرب اور عشاء کے درمیان کے اوقات غالباً پوری دنیا میں شاپنگ (خریداری) کے لئے " پیک آورس" (Peak hours)ہیں۔ مگر جدّہ میں بھی یہی دیکھا کہ ادھر اذان ہوئی اور دوکان دار آپ کو دوکان سے باہر کرنے کی جلدی مچائے گا۔ حرمین کے علاقے میں تو محض کپڑے سے کام چل جاتا ہے کہ وہاں چوروں کو چوری کرنے میں لاج آتی ہوگی، مگر جدّے میں چور بے شرمی سے چوری کر لیتے ہیں۔ (ہاتھوں کے کٹ جانے کے خطرے کے باوجود) اس لئے دوکان دار محض کپڑا ڈال کر خطرہ مول نہیں لیتے۔ باقاعدہ پوری دوکان بند کر دیتے ہیں۔ نمازوں کے اوقات میں خود ہم مساجد میں رہے مگر یقین ہے کہ عین نمازوں کے اوقات میں سڑکیں سنسان ہو جاتی ہوں گی۔ عورتوں اور بچّوں کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا ہوگا۔ ویسے بیشتر مسجدوں میں عورتوں کے لئے علیٰحدہ انتظام رہتا ہی ہے۔ بطور خاص رہائشی علاقے کی مسجدوں میں، مگر بازاروں کی مسجدوں میں ہر جگہ عورتوں کا انتظام نظر نہیں آیا۔ جیسے ہراج کے علاقے کی مسجدوں میں نہیں تھا۔ ایسی صورت میں خریدار عورتیں نماز سے محروم رہتی ہوں گی۔غرض یہی کہا جا سکتا ہے کہ ؎

آ گیا پیک آورس میں بھی اگر وقتِ نماز : : نہ خریدار رہا اور نہ کوئی دوکاں دار

ہرمحلّے میں ایک نہیں دسیوں مسجدیں ہیں۔ ہر مسجدمیں مائک پر صرف اذان ہی نہیں با قاعدہ جماعت بھی ہوتی ہے۔ باقر کے گھر میں ہی چار مسجدوں کی اذانوں کی آواز آتی ہے۔ ( اس پر یہ معترضہ بات یاد آئی کہ حیدر آباد میں نہ جانے کیوں اذان کو " اذاں" کہتے ہیں۔ کوئی قاری ہماری اس بابت رہنمائی کریں) باقر نے بتایا کہ سعودی حکومت 50 ہزار مسجدوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ اور ان کے علاوہ بھی بے شمار " پرائیویٹ" مساجد ہیں۔ خود باقر کے گھر کے قریب ترین والی مسجد جہاں ہم جاتے تھے، چندے کی ہے۔ اور رہائشی علاقوں کی مسجدوں میں ایسی شاید ہی کوئی مسجد ہو جہاں دوکانوں کے کرائے وغیرہ کے ذریعے آمدنی کے کچھ ذرائع ہوں۔ پھر بھی مسجدوں کی حالت دیکھ کر طبیعت خوش ہو جاتی ہے۔ سب سے پہلے تو صفائی قابل دید ہوتی ہے۔ باہر سے بھی عمدہ سفیدی، اور ہمارے وطن کی طر ح چونا نہیں، آئل پینٹ ہوتا ہے۔ چونا وہاں کی آب و ہوا میں پائدار رہے گا بھی نہیں شاید۔ اکثر ایک مینار جس کی برجیاں ٹیوب لائٹوں سے خوب روشن ۔ غسل خانے اور بیت الخلاء نہایت صاف۔ مسجدوں میں داخلے کی جگہ کے قریب کچھ حصّہ چھوڑ کر 6۔8 انچ اونچی " ریلنگ" تاکہ جوتوں چپلوں کی دھول اندر نہ جائے۔ یا جوتے ہی اندر تک نہ سرک آئیں۔ اس ریلنگ سے لگی ہوئی دبیز قالین کی جا نمازیں۔ بڑے بڑے ایر کنڈیشنر۔ پانی کے بڑے بڑے تھرمک جگس، یا کہیں کہیں و اٹر کولر بھی ۔ جن کے قریب 6۔6 خوب صاف گلاسوں کا سیٹ ٹرے میں سجا ہوا۔ داخلی حصّے کو چھوڑ کر تین طرف کی پوری دیوار کے سہارے شیلف لگے ہوئے۔ ہر ایک میں قرآن کے نسخے سجے ہوئے اور شیلفوں کے اوپر ٹِشو پیپر(Tissue Paper) کے ڈ بّے۔ ان کا استعمال بہت عام ہے۔ ہوٹلوں میں جائیں تو ہر میز پر ایک ڈبّہ رکھا ملے گا۔ ہر گھر میں ڈراینگ روم کی میزوں پر اور ہر کار میں یہی نظر آئیں گے۔ یہاں تک کہ ٹیکسی والے بھی ونڈ شیلڈ کے پاس رکھتے ہیں۔ اور ہم نے دیکھا کہ اس کا استعمال نہایت فضول خرچی سے کیا جاتا ہے۔ یعنی ایک بار استعمال کیا اور فوراً موڑ توڑ کر پھینک دیا۔ کچھ ہی لمحوں بعد پھر ضرورت محسوس ہوئی تو فوراً ایک عدد نیا نکال لیا۔ ہم تو اس معاملے میں کنجوس ثابت ہوئے۔ ایک ٹشو کو دو چار بار استعمال کئے بغیر ہمارا پھینکنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ لیجئے ذکر ہو رہا تھا مسجد کا اور بات پہنچی تری جوانی، ہمارا مطلب ہے ٹشو پیپر تک۔ مسجدیں اندر سے خوب جگ مگ، یعنی روشنیوں کی کثرت۔ ہماری اکثر مغرب اور عشاء کی نمازیں بازاروں کی مسجدوں میں ہوئیں، مگر ایک دن بطور خاص باقر اور اشفاق بھائی ہمیں مسجد الملک سعود لے کر گئے جو جدّے کی مشہور مسجد ہے۔ دیکھ کر طبیعت خوش ہو گئی۔ نہایت خوب صورت جھاڑ فانوس، بیچ بیچ میں کھلے حصے جن پر چھتری نما ڈوم کی چھت۔ بٹن دبائیے، چھت موجود، بٹن دبائیے، چھت غائب۔ جیسا کہ انگریزی میں کہتے ہیں نا : Now you see it, now you don"t ۔

ایک فرق یہ بھی دیکھا کہ یہاں مقتدی امام کے دونوں طرف سلام پھیرنے کے بعد سلام پھیرنا شروع کرتے ہیں، جب کہ حرمین میں امام کی آواز کے ساتھ ہی۔ جدّے میں ہی امام کو دیکھ بھی سکے ورنہ حرمین میں تو اب تک اتنی اگلی صف میں جانے کا موقعہ ہی نہیں ملا کہ امام کے دیدار ممکن ہوں۔ حرمِ مّکہ میں امام کہاں کھڑا ہوتا ہے، یہی اب تک صحیح معلوم نہیں ہوا ہے، کوئی کہتا ہے کہ بابِ کعبہ کے قریب، تو کوئی کہتا ہے کہ حطیم میں۔ کوئی اور صاحب کہتے ہیں کہ جگہ بدلتی رہتی ہے۔ ہاں یہ بھی لوگوں نے بتایا کہ وہاں (حرمین میں) امام اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ مثلاً رکوع میں پوری طرح جھک جانے کے بعد تکبیر بولتے ہیں تاکہ کوئی امام سے پہلے رکوع میں نہ چلا جائے۔ ایسا یہ یہاں بھی دیکھا۔ ایک اور بات یہاں حرمین کے مماثل ہے کہ جماعت سے پہلے امام پیچھے دیکھتا ہے اور عربی میں ایک جملہ کہتا ہے جو شروع ہوتا ہے " سعو" سے اور ختم ہوتا ہے " صفّا "پر۔جس کا مطلب ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ "جلدی کیجئے اور صفیں سیدھی کر لیجئے"۔ جب امام مطمئن ہو جاتا ہے تب ہی اقامت ہوتی ہے اور یہ اکہری ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے کہیں لکھ چکے ہیں۔

ہمارا مطالعہ (اور ہمارا موضوع سے بہکنا)

جدّے میں ہمارے معمول کا ہم لکھ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ جب وقت ملا اور جب باقر کے بچّے اسکول میں ہوتے ( ان کے گھر میں رہنے پر تو تینوں میں سے کوئی نہ کوئی ہم کو کسی نہ کسی کھیل یا ان کے ہوم ورک میں مصروف رکھتا ) تو ہم کچھ نہ کچھ پڑھتے رہتے ہماری عادت کے مطابق۔ باقر روزانہ اپنے آفس سے انگریزی اخبار سعودی گزٹ لے کر آتے ہیں ( اسے عربی میں ُسعودی جازیت " لکھتے ہیں، یہ عربی میں ُگ" کی آواز بھی خوب ہےAFGA کو ُاکفا" لکھتے ہیں مگر .G.Tکو چی۔تی۔اب تلفّظ کی بات نکلی ہے تو اور کچھ مشاہدات کا ذکر بھی کرتے چلیں۔ " پ" کو " ب " لکھا جاتا ہے، یہ پہلے بھی کہیں لکھ چکے ہیں۔اس پر یہ لطیفہ یاد آیا جو اشفاق بھائی نے سنایا تھا کہ کسی صاحب نے کہا کہ یہ " بے بسی" کیا چیز ہے جو ہر دوکان پر ملتی ہے۔ Pepsiکو بیبسی لکھیں گے تو بے بسی ہی تو پڑھا جائے گا نا! مگر " لور پول"(Liverpool) کولور پول ہی لکھتے ہیں۔بات "G"سے شروع ہوئی تھی تو یہ بھی بتا دیں کہ SAMSUNG (جس کی برقی مصنوعات وغیرہ ہیں) کو " سامسونج" لکھا دیکھا۔ اور تو اور ہمارے سری نگر کو " سری ناجار" بھی ایک جگہ لکھا پایا۔ اور Hong Kong کو "ہونج کونج" یعنی انگریزی " جی" کی آواز "ج" بھی ہے، "چ" بھی اور "ک" بھی۔ "چ" لکھا ہوا ضرور دیکھا مگر املا میں تو ٹھیک ہے، اسے بولتے کیا ہیں، معلوم نہیں!۔ تعجّب یہ ہے کہ اس کی آواز تو "گ" کی نہیں ہے مگر بول چال میں "ق" اور کہیں "غ" کے لئے "گ" کا تلفّظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اقامہ کو اگامہ کہتے ہیں اور غمامہ کو بھی گمامہ۔ "جی" کے لئے تو "چ" لکھا دیکھا مگر "کراچی" شہر کی املا بالکل مختلف ہے۔ اسے "کراتشی" لکھتے ہیں۔ کیچ اپ (Ketch Up)کو "کیش تاب"۔ S کو کبھی "س" لکھتے ہیں تو کبھی "ص"۔ اب اس پر غور کیجئے کہ ایک کولڈ ڈرنک ہے Sun Sip اس میں دونوں S کی آواز میں کیا فرق ہے، کوئی عرب دوستوں سے پوچھے کہ اسے " صن سِب" کیوں لکھتے ہیں، Sunکے S میں اور Sip کے S میں کیا فرق ہے جو پہلے S کو " ص " اور دوسرے S کو " س "سے نوازا گیا ہے؟)۔

بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔بریکٹ کی بات پورے پیرا میں بدل گئی ۔در اصل یہ ہمارے پیرائے کی خوبی ہے کہ خود بخود؛ رنگینیوں میں ڈوب گیا پیرہن تمام۔ لیجئے ہم پھر بہک چلے۔ پیرا پر "پیرایہ "یاد آیا اور اس پر پیرہن بلکہ حسن یار کہ شعر یاد آگیا کہ ؎ اللہ رے حسنِ یار کی خوبی....وہی بات کہ ذکر جب چھڑ گیا...، ویسے ذکر چھڑا ہوا تھا سعودی گزٹ اور ہمارے مطالعے کا۔موضوع سے بہک جانے کی ہماری بری عادت ہے۔ قارئین مشورہ دیں اسے چھڑانے کے لئے۔اخبار مدینے میں ہمارے سفارت خانے کے نیچے کی دوکان میں بھی ملتے تھے مگر ہم محض سرخیاں دیکھ لیتے تھے باہر ہی سے۔ قیمت پہلے ہی دن دیکھ لی تھی۔ مبلغ دو ریال اور ہماری معاشی دور اندیشی نے اس کا فوراً اُردو میں ترجمہ کیا "20 روپئے" اور ہم نے طے کیا کہ اخبار خرید کر نہیں پڑھیں گے۔ ویسے ہمارے وطن میں ہی مادری زبان اردو کے اخبار اور رسائل خرید کر کون پڑھتا ہے۔ ہاں، مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے۔ہندوستان کے دو روپیوں کی بجائے اگر پانچ روپئے کے متبادل (یعنی 50 حلالے) کا اخبار ملتا تو شاید ہم خرید لیا کرتے، مگر 20 روپئے کا؟ جدّے میں مفت تھا تو خوب پڑھتے۔ اس میں روزانہ ایک صفحہ ہندوستان کے لئے مخصوص تھا اور اس میں بھی دو کالم روز تھے۔ Hyderabad Bylines اور Kerala Calling۔ سعودی عرب میں ان دونوں علاقوں کے ہی ہندوستانی زیادہ ہیں اس لئے یہاں کی خبریں بطور خاص چھاپی جاتی ہیں، حیدر آباد کے نامہ نگار وہی عمر فاروق ہیں جو بی۔ بی۔ سی۔ لندن کے بھی ہیں۔ ایک اور صفحہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے لئے مشترکہ طور پر مخصوص۔ ایک صفحہ Opinion کے نام سے جس میں ایک کالم ہمارے ہندوستانی کلدیپ نیر کا بھی "بین السطور" کے نام سے۔ (Between the Lines۔ ترجمے دیکھتے دیکھتے ہماری ترجمہ کرنے کی عادت پڑتی جا رہی ہے کہ فوراً اس انگریزی کالم کے عنوان کا ترجمہ بھی کر بیٹھے)روزانہ 4 صفحوں کا ایک رنگین سکشن Panorama کے نام سے۔اس کے چوتھے صفحے پر That"s Life کے نام سے اس دن کی دلچسپ خبریں جمع کر دی جاتی ہیں جو ایک اچھّی جدّت کہی جا سکتی ہے۔ ہر بدھ کو Vanityکے نام سے آٹھ صفحات کا میگزین جس میں کتابوں وغیرہ پر تبصرے بھی شامل ہوتے ہیں اور ہر جمعے کو بچّوں کے لئے Fun Times کے نام سے نصف سائز (Tabloid)کا 15 صفحات کا سیکشن۔

ایک پاکستانی رسالہ بھی وہاں دیکھا۔ "رابطہ" یہ کراچی کا پرچہ تھا، 86 صفحات کا 10 سعودی ریال کا۔ اس رسالے کا پاکستان ایڈیشن 40 روپئے اور انٹر نیشنل ای  چھت موجود، بٹن دبائیے، چھت غایڈیشن 50 پاکستانی روپیوں کا تھا۔ یہ ہندوستان کے حساب سے بہت مہنگا تھا۔ کتابت طباعت میں واقعی بے حد خوش نما تھا اور مواد میں بھی۔ اگرچہ ادب کا حصّہ کمزور تھا جس کی پاکستانی پرچوں میں تلاش ہماری کمزوری ہے۔اچھا فیملی میگزین تھا ہندوستان میں اس کی قیمت درج تھی 5 ڈالر یا 2 پاؤنڈ اور سالانہ قیمت 160 امریکی ڈالر یا 1400 پاکستانی روپئے معہ ڈاک خرچ۔یہ رسالہ کراچی میں ادارت پذیر ہوتا ہے مگر شائع پاتا ہے کوئٹہ سے۔ باقر کا بیان تھا کہ رنگین صفحات سنگا پور میں چھپتے ہیں مگر رسالے میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملا۔ واللہ اعلم۔

اس کے علاوہ باقر کے گھر میں کئی مذہبی کتابیں بھی تھیں۔ تفسیر حقّانی اور معارف القرآن تفسیریں۔ احادیث اور اسلامی زندگی اور طرزِ معاش اور سیرت المصطفیٰ وغیرہ کے موضوعات پر کتابیں جو سبھی سرسری طور پر پڑھ سکے۔

بلا عنوان ۔ متفرّقات

اب کچھ ادھر ادھر کی باتیں مختصر مختصر سی، مثلاً جب ہم عربی تلفّظ اور املا کی باتیں کر رہے تھے، تب ہی یہ بات یاد آئی تھی مگر اس وقت رہ گئی۔ اب بلا عنوان اسے بھی لکھ دیں۔ ویسے یہ مشاہدہ مکّے میں بھی کر چکے تھے، مگر جدّے میں باقر کے بچّوں کی عربی کی نصابی کتاب بھی دیکھی۔ یہ بچّے اگرچہ ہندوستانی سفارت خانے کے اسکول (انٹر نیشنل انڈین سکول) میں پڑھتے ہیں جس کا نصاب ہندوستان کے CBSE بورڈ یعنی یہاں کے سنٹرل اسکولوں (کیندریہ ودّیالیوں) کا ہوتا ہے مگر یہاں انگریزی ہندی کے علاوہ ایک زبان اور سیکھنا ضروری ہے۔ سنسکرت(جو ہندوستان کے سنٹرل اسکولوں میں بھی ہے مگر پانچویں کلاس سے آٹھویں کلاس تک)، ملیالم اور عربی۔ ان لوگوں نے عربی لی ہے تو یہ بات عربی کی نصابی کتاب سے بھی معلوم ہوئی۔ وہ بات یہ ہے کہ اب عربوں نے عربی میں الف کے لئے محض "ا" لکھنا بند کر دیا ہے، اسے ہمیشہ ہمزہ کے ساتھ " أ " لکھتے ہیں۔ زبر اور پیش ہو تو اوپر ہمزہ اور زیر ہو تو نیچے یعنی"ٳ"۔ بعد میں ہم نے غور کیا کہ یہاں کے چھپے ہوئے قرآنوں میں بھی یہی املا استعمال کی گئی ہے۔ ملے ہوئے حروف میں خالی الف لکھتے ہیں البتّہ۔(مقصورہ وغیرہ کی اصطلاح میں ہم خود کنفیوز ہوتے ہیں اس لئے قارئین کو مرعوب نہیں کر رہے ہیں)۔

اس کے علاوہ کچھ یہ معلومات بھی باقر نے بہم کیں کہ حج میں انڈونیشیا کے نوجوانوں کی اور بطور خاص لڑکیوں کی کثرت کیوں ہے۔ یہ سوال ہمارے ذہن میں پہلے بھی اٹھ چکا تھا اور شاید ہم آپ کو اطلاع دے چکے ہیں اس مشاہدے کی۔ معلوم ہوا کہ وہاں شادی میں یہ مانگ کی جاتی ہے کہ لڑکی حاجّہ ہو بلکہ الحاج۔ لڑکی جتنے زیادہ حج کر چکی ہوگی، اتنی ہی اس کی شادی میں آسانی ہوگی۔یہ ہم کو ضرور خیال ہوا کہ اس کوشش میں لڑکی کی عمر زیادہ ہو جاتی ہوگی۔ مگر وہاں اس کی اہمیت شاید نہیں ہے کہ لڑکی کم عمر ہو۔ زیادہ حج کئے ہوئے زیادہ عمر کی لڑکی کی مانگ اور زیادہ ہوگی۔ ہماری طرح نہیں کہ 60 سالہ مرد کی تیسری چوتھی شادی کے لئے بھی دولھا میاں کے ذہن میں 16 سال کی لڑکی سے بیاہ رچانے کا ارمان ہو۔ وہاں 16 سال کی عمر کی بجائے 16 حج کی ہوئی لڑکی کی اہمیت زیادہ ہوگی چاہے اس کی عمر 32 سال ہو یا 48 سال۔

یہ بھی پتہ چلا کہ مکّے میں جو سیاہ برقعہ پوش عورتیں کھانے کی اشیاء کاغذ کے بکسوں (کارٹنوں) میں لے کر بیٹھا کرتی ہیں جن سے ہم بھی ایک ایک ریال کی سالم چھوٹی تلی ہوئی مچھلی کھا چکے ہیں 3۔4 بار، وہ بھی اندونیشیائی ہی ہیں اور جو کھانا ملتا ہے وہ بھی عرب نہیں انڈونیشیائی ہی ہوتا ہے۔ اصل میں عرب کھانا تو ہم نے دیکھا ہی نہیں اب تک۔ مدینے میں تندور دریافت ہوا تو اسے ہم عربی تندور سمجھ رہے تھے، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ افغانی ہے۔باقر سے یہ بھی معلوم ہوا کہ افغانی تندور میں وہ لوگ "چپاتی" صرف بِّر صغیر کے لوگوں کے لئے کہتے ہیں ورنہ اس کا افغانی نام "تمیس" ہے، اور جو صراحی نما ڈرم میں لوبئے  کی قسم کے بیجوں کی دال ہوتی ہے، اسے ُفول" کہتے ہیں۔ یہ شاید ہم لکھ چکے ہیں، ابھی یاد نہیں۔ سارا پچھلا مسودّہ دیکھنا پڑے گا اس کی پڑتال کرنے کے لئے۔ اگر آپ کو معلوم ہو بھی چکا ہے تو ہم آپ کو پھر یاد کرا دیتے ہیں یہاں۔

جدّہ میں ہر ہندوستانی چیز ملتی ہے۔ہمارے قیام کے دوران ہراج کے علاقے میں ہم نے چھولوں کی چاٹ اور چنا جور گرم کھائے تھے۔ایک دن باقر صبح پاکستانی ہوٹل سے ناشتہ بھی لے کر آئے۔ چھولے، پراٹھے اور سوجی کا حلوہ۔ اور آخری دن شام کو حیدرآبادی ہوٹل سے چائے لی تو وہ بالکل حیدر آباد کے ایرانی ہوٹلوں کی چائے کے مزے کی تھی۔جدّے کے اسٹورس (بقالوں) میں ہم نے دیکھا کہ وہاں بیکری کی روٹیاں "ہاٹ کیس" میں لا کر رکھی جاتی ہیں، مکّے کی طرح ایسے ہی میز پر نہیں رکھ دیتے۔ اور پھر جدّے میں آٹے کی روٹیاں بھی ملتی ہیں اور میدے کی بھی۔ مکّے میں عام طور پر میدے کی ہی ہوتی ہیں۔ بعد میں ہم مکّے میں بھی بیکری کی پتلی روٹیاں ہی کھا رہے ہیں تندوری روٹیاں نہیں۔ ایک ریال کی چار عدد روٹیاں۔

ہم ا ب بھی جد ّہ میں ہیں

جی ہاں اس وقت ساڑھے بارہ بج رہے ہیں مگر ہم کو نیند نہیں آ رہی ہے اور ہم لکھے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ لکھ چکے ہیں کہ ہماری رات جدّ ہ میں 2۔3 بجے ہوتی تھی اور ابھی وہی عادت ہے۔ اب ہم یہاں پہنچنے کے بعد کی روداد شروع کر رہے ہیں۔

جدّہ سے یہاں پہنچے تو احرام باندھ کر ہی آئے تھے کہ عمرہ کرنے کا ارادہ تھا ہی۔ اپنے مرحوم والد کے نام کا (والدہ کا مدینے سے آتے وقت کر چکے تھے)۔ مگر حرم پہنچنے تک پونے آٹھ بج گئے تھے اس لئے پھر عشاء کی نماز کے بعد ہی شروع کیا۔ طواف اور سعی کے بعد بال کٹوانے اور حرم میں ہی نہانے کے بعد واپس آنے تک بارہ بج گئے تھے۔ آ کر کھانا کھایا جو زرینہ، باقر کی بیوی نے ساتھ کر دیا تھا۔ مرغ کی بریانی، رائتہ، بگھاری مرچیں اور ٹماٹر کا سالن۔ سامان ٹھیک کر کے لیٹنے تک ایک بج گیا مگر پھر بھی دو بجے تک نیند نہیں آئی۔ ہم کو ہی نہیں صابرہ کو بھی تو انھوں نے تجویز دی کہ حرم ہی چلا جائے کہ تہجّد کا وقت ہونے ہی والا تھا۔ چناں چہ یہی کیا۔ حرم جا کر پہلے 2۔3 طواف کئے۔ پھر تہجّد کی نماز پڑھی۔پھر ایک طواف کیا اور اس کے بعد فجر کی نماز کے بعد پھر طواف کیا۔ اس کے بعد آ کر سوئے۔ حالاں کہ ہم کو شک تھا کہ اب نیند نہیں آئے گی، مگر ایسے سوئے کہ پھر ساڑھے گیارہ بجے ہی آنکھ کھلی۔ جب کہ ظہر کے لئے جانے کا وقت بھی نہیں تھا۔ جاتے بھی تو جگہ نہ ملتی۔ اس لئے عمارت پر ہی نماز پڑھی اور پھر حرم عصر کے لئے گئے۔ پھر مغرب اور عشاء کے درمیان بھی طواف کیا۔ در اصل اتنے دن جدّہ میں طوافوں کی برکت سے محروم رہے تھے تواب دل چاہ رہا تھا کہ خوب طواف کریں۔ اس میں ہم کو بہت اچّھا لگتا ہے کہ جب موقعہ ملے طواف کریں۔کل اگرچہ 10 بجے تک کھانا پینا ہو چکا تھا اور کچھ صفحات لکھ کر 11 بجے لیٹ بھی گئے تھے بلکہ فوراً سو بھی گئے مگر پھر ڈیڑھ بجے ہماری آنکھ کھل گئی، دیکھا کہ صابرہ بھی شروع میں سو گئی تھیں مگر ساڑھے گیارہ بجے سے وہ بھی نیند سے محروم تھیں۔2 بج گئے تو انھوں نے پھر تجویز کیا کہ چلتے ہو تو حرم کو چلئے...اور ہم کو تو بس کسی کے کہنے کی دیر ہوتی ہے۔ بس خود اکیلے جانے کا اس لئے ارادہ نہیں کرتے کہ صابرہ کو شکایت نہ ہو اور خود اس لئے ہی یہ تجویز نہیں رکھتے کہ ان محترمہ کی نیند خراب نہ ہو جائے ہمارے مشورے کی وجہ سے اور یہ ہم کو ہی الزام دیں۔ ہم تو ساری رات حرم میں گزار سکتے ہیں۔

تہجدّ کی اذان تک ہی ہمارے یکے بعد دیگرے دو عدد طواف ہو چکے تھے۔ ۔ نماز کے بعد کچھ دیر حرم کے صحن میں ہی آرام کیا اور پھر فجر کے لئے اٹھے۔ صابرہ نے مشورہ دیا کہ ناشتہ بھی کر ہی لیا جائے اس کے بعد آرام سے سو جائیں گے بے فکر ہو کر۔ چناں چہ ایک ایک کیک کھا کر اور چائے پی کر چلنے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ ہوٹل کے باہر ہی مظہر بھائی، جبّار بھائی اور ستّار بھائی معہ اپنی بیویوں کے وہاں مل گئے۔ ان کا ارادہ آج ایک اور عمرہ کرنے کا تھا۔ان لوگوں کے بھی چائے پینے تک باتیں کیں اور یہ طے ہوا کہ ہم بھی ان کا ساتھ دیں۔ مسجدِ عائشہ یعنی تنعیم جا کر احرام باندھا جائے گا اور پھر وہاں سے حرم آ کر عمرہ کریں گے۔ مکّے والوں کے لئے وہی میقات ہے بلکہ من جملہ دوسری میقاتوں کے۔ ہم نے کہا کہ آپ لوگ نکلئے، ہم بھی پیچھے پیچھے آتے ہیں۔ غرض ہم لوگ جلدی سے اپنی عمارت پہنچے اور احرام ساتھ لئے اور 6 بجے واپس پہنچے حرم۔ وہاں کئی بسیں کھڑی ہوئی تھیں جن پر مسجدِ عمرہ لکھا تھا 16 نمبر کی۔ 2۔2 ریال کا ٹکٹ تھا۔ سامنے ہی بس کمپنی کا اسٹال تھا۔ہم نے سوچا کہ یہاں اسٹال سے ٹکٹ لے کر بس میں بیٹھنا ہو گا چناں چہ کاؤنٹر پر گئے تو اس نے 5 ریال کے 3 ٹکٹ دئے۔ وہاں اسی طرح تھوک (Bulk) میں ٹکٹ ملتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ واپسی میں بھی یہی ٹکٹ کام میں آئیں گے۔ ہم دونوں کے لئے آنے جانے کے چار ٹکٹ درکار تھے، تین تو یہاں مل گئے۔ ایک ٹکٹ ہی واپسی میں اور خریدنا پڑا۔چناں چہ ہم دونوں کا آنا جانا 7 ریال میں ہو گیا۔ جیسے ہی ہم تنعیم پہنچے، مظہر بھائی وغیرہ سے ملاقات ہو گئی۔ یہ لوگ نہا دھو کر احرام باندھ کر واجب الاحرام نماز پڑھ چکے تھے۔ اور روانہ ہونے کے لئے تیار تھے۔ ہم بھی نہائے اور احرام باندھ کر نماز پڑھ کر پھر بس میں حرم واپس پہنچے تو ساڑھے سات بج رہے تھے۔ عمرے کا طواف، پھر سعی کر کے بال کٹوانے اور نہانے سے دس بجے تک ہی فارغ ہو گئے تھے۔ جب ہم طواف کے ساتویں پھیرے (شوط) میں تھے تب ہی مظہر بھائی وغیرہ سے ملاقات ہو گئی۔ وہ لوگ بھی تبھی طواف سے فارغ ہوئے تھے۔ہمارے طواف اور مقامِ ابراہیم پر واجب الطواف نماز پڑھنے تک وہ لوگ زمزم پر ہمارے منتظر تھے۔ زم زم پر ہم لوگ ساتھ ہو گئے اور پھر ساتھ ہی سعی کی۔ ساتھ ہی واپس ہوئے۔پھر سب کے ساتھ روٹی اور پنیر سے ناشتہ کیا۔ دوسرے لوگوں نے دال سالن اور چاول بھی کھایا۔ ہم نے عادت کے مطابق پنیر میں شکر ملا کر کھائی۔ ابھی اتنا وقت نہیں ہوا تھا کہ ہم اسے لنچ کا نام دیتے۔ باقی لوگوں کا یہی ناشتہ تھا جو اب ہو رہا تھا۔ ہم تو پہلا ناشتہ صبح 6 بجے ہی کر چکے تھے۔ بہر حال اب دوسری بار ناشتہ کر کے لیٹے تو پھر سو ہی گئے اور ایسے سوئے کہ ڈھائی بجے اٹھ سکے۔ رات کو بھی نہیں سو سکے تھے نا!۔ ظہر کی نماز اور پھر کھانا کھانے میں ہی چار بج گئے تھے۔ اس وجہ سے عصر کی نماز کے لئے بھی حرم نہیں جا سکے اور عمارت پر ہی نماز پڑھ کر 5 بجے باہر نکلے۔کچھ شاپنگ کی اور پھر مغرب کی نماز، پھر طواف اور عشاء کی نماز۔ اس کے بعد کھانا کھا کر اب رات ایک بج کر 25 منٹ تک یہ روزنامچہ لکھ رہے ہیں۔ اب ان دو دنوں کی تفصیل کی ایسی خاص ضرورت بھی نہیں ہے۔ یوں بھی ہم جدّے سے آنے کے بعد کی تفصیل بے ترتیب لکھ گئے ہیں۔ بس اب پرانی باتیں یہیں ختم۔

دو ر و ز میں ہی (حرم)کا عالم بد ل گیا

اب جو مکّے آئے ہیں تو حرم سونا سونا لگ رہا ہے۔ طواف میں تو ابھی بھی بھےڑ ہے مگر سعی میں بہت آسانی ہو گئی ہے۔ آج ہم نے مغرب اور عشاء بھی باہر صحن میں پڑھی تو دیکھا کہ بہت سے قطعے خالی بھی پڑے ہیں ورنہ یہاں صحن میں ہی کیا، غسل خانوں تک میں صفیں لگ رہی تھیں۔ سڑکوں پر لگی دوکانیں بھی بہت کم ہو گئی ہیں۔ ہماری عمارت کے نیچے ہی جو چائے کی دوکان لگ گئی تھی، وہ بھی اٹھ چکی ہے۔ بلکہ ٣٠/ مارچ کو بھی جب مکّے پہنچے تھے تو جو چائے کی دوکانیں قریب ہی تھیں، وہ بھی اب اٹھ چکی ہیں۔اب چائے کے لئے حرم کے آس پاس ہی جانا پڑتا ہے۔اس لئے فجر کے بعد ہی چائے پی کر ہی آنا پڑتا ہے کہ محض اس ضرورت کے تحت کون دوبارہ وہاں تک جائے۔شام کو بھی وہیں پی سکتے ہیں۔ ویسے آج دوسری بار ناشتے کے بعد اور پھر شام کو بھی چائے جبّار بھائی کے کچن میں ہی پی تھی۔کل دراصل ہم خود ہی آدھا لٹر کا دودھ کا پیکٹ لائے تھے۔ لائے تو تھے دوسرے مصرف کے لئے مگر پھر ان کو ہی دے دیا ہے کہ ان کے ساتھ ہی صبح چائے پی تھی۔اور یوں بھی کبھی کبھی پی رہے تھے۔

جس مصرف کے لئے دودھ لائے تھے، اس کا بھی ذکر کر ہی دیں۔ مدینے میں ہم نے کئی دوکانوں میں بورڈ لگا دیکھا تھا کہ "یہاں اصلی "روغنِ بلسان" ملتا ہے"۔ مگر اس وقت ہمیں معلوم نہیں تھا کہ یہ کیا روغن ہوتا ہے۔ جدّے میں زرینہ سے معلوم ہوا کہ یہ بہت فائدے کا تیل ہوتا ہے۔ کئی بیماریوں کے لئے شفا ہے اس میں۔ باقر کے گھر میں ایک شیشی رکھی تھی اس کی اور بیچاری زرینہ ہمیں روز رات کو کھانے کے دو گھنٹے بعد ایک پیالی میں دودھ گرم کر کے اس میں دو دو قطرے ملا کر ہم دونوں کو دے رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ 40 دن استعمال کر کے دیکھیں۔ اس وجہ سے ہم دودھ لے کر آئے تھے کہ معمول جاری رہے، کچھ تیل انھوں نے ساتھ کر دیا تھا اور مزید منگوا کر دینے کا کہا تھا۔صابرہ نے اب مشورہ دیا کہ 40 دن مستقل استعمال تو نا ممکن ہے۔ یہاں سے آٹھ مئی کو روانگی ہے۔ 8۔9 کی رات جدّے میں گزرے گی، پھر 10 مئی کی رات ہوائی جہاز میں اور 11/ کی رات بنگلور سے حیدر آباد کے راستے میں گزرنی ہے۔ چناں چہ کم از کم چار دن کا وقفہ تو ہونا ہی ہے۔ اس لئے اب حیدر آباد پہنچ کر ہی 40 دن کا کورس پورا کریں گے۔ اس لئے دودھ لا کر بھی روغنِ بلسان استعمال نہیں کیا ہے۔جدّے میں پانچ دن کا استعمال ہی فی الحال کافی ہے۔چناں چہ یہ دودھ جبّار بھائی کے کچن میں کام آ رہا ہے۔

حرم میں ہم سوچ رہے تھے کہ شاید رات کو دو بجے طواف کرنے پر حجرِ اسود کا بوسہ نصیب ہو جائے۔ مگر نہیں صاحب۔ اگر چہ بھیڑ اتنی کم ہے کہ حجر اسود کی سرخ پٹی پر لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں ورنہ یہ طواف کرنے والوں کی بھیڑ میں نظر ہی نہیں آتی تھی۔ حجر اسود سے دور یہ پٹی خالی خالی نظر آتی ہے، مگر حجرِ اسود اور ملتزم میں ... نا ممکن۔حطیم میں البتّہ کل رات کو نماز پڑھ سکے تھے اور بغیر دھکّم پیل کے۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ حجر اسود کو نسبتاً قریب سے دیکھ سکتے ہیں۔ اتنے قریب سے کہ اس کے گرد کا چاندی کا حلقہ اب صاف نظر آنے لگا ہے۔جس کی اب تک تصویریں ہی دیکھی تھیں۔مگر جیسا کہ کتابوں میں لکھا ہے کہ سنگ اسود کے 22 ٹکڑے ہو گئے تھے اور ان کو چاندی کے حلقے میں پیوست کیا گیا ہے تو وہ 22 ٹکڑے تو اب تک الگ الگ نہیں دیکھ سکے ہیں۔

آج کے عمرے کی ایک خاص بات اور لکھ دیں۔ ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ نفلی عمرے کے لئے "بابِ عمرہ" سے داخلہ افضل ہے۔ جس کا محل وقوع ہم کو اب تک صحیح معلوم تو نہیں تھا، اس لئے ہم مروہ سے باہر ہی باہر گھوم کر ہر دروازے کو دیکھتے ہوئے بابِ فتح، باب قرارہ، باب عمر، باب الندوہ، باب القدس اور باب عمر فاروق ہوتے ہوئے باب عمرہ پہنچے اور وہیں سے حرم میں داخل ہوئے۔ اور داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں قالین بچھے ہوئے ہیں مسجدِ نبوی کی طرح مگر وہاں سے کچھ چھوٹے۔ہم اب تک صفا مروہ کی طرف سے داخل ہوتے ہوئے آئے تھے اور وہاں کہیں قالین نہیں تھے۔ یا تو یہاں بھی اب بھیڑ کم ہونے کے بعد بچھا دئے گئے ہیں، یا پھر ہم نے اس طرف کا رخ نہیں کیا تھا پہلے تو ہمیں پتہ نہیں تھا۔ ممکن تو پہلی ہی بات زیادہ لگتی ہے۔ ہاں، پہلے ہم دروازوں کے نام لکھ دیں۔ اس سے پہلے بھی لکھنے کی کوشش کی تھی مگر بھول گئے تھے۔ آج اچھی طرح یاد کر کے آئے ہیں۔ کل 9 دروازے ہیں، ان کی ترتیب ہے۔ صفا کی طرف سے: باب بني ہاشم، باب علی، باب العبّاس، باب السّلام۔ باب بنو شیبہ، باب الحجّون، باب المعلاہ۔ باب الطویٰ اور باب مروہ۔باب السلام۔ باب بنو شیبہ اور باب الحجّون کے پانچ فلائی اوور (غبارہ) ان کے علاوہ ہیں۔

اب 40۔1 پر ہم یہ گفتگو یہیں ختم کرتے ہیں۔ آکاش وانی کے الفاظ میں یہ سبھا یہیں سماپت ہوتی ہے۔ شبھ راتری یا شب بخیر۔ مزید یہ کہ یار زندہ صحبت باقی۔

اُ لٹی گِنتی... تین

5/ مئی  97ء سوا گیارہ بجے شب۔

 

لیجئے ، دیکھتے ہی دیکھتے ہمارا چل چلاؤ لگ گیا ہے۔حرم سے روانگی کے دن نزدیک آ گئے ہیں،اور اُلٹی گنتی شروع ہو گئی ہے۔10/ کو تو جدّہ سے اڑان ہے ہی ہماری۔یہاں سے غالباً  8/ کو ہی عشاء کے بعد روانگی ہوگی ویسے ابھی تک معلّم کی جانب سے کوئی نوٹس تو نہیں آیا ہے مگر یہاں کے چوکی دار (اسے حارث کہتے ہیں)کا یہی کہنا ہے۔ بہر حال اسی حساب سے ہم نے اُلٹی گنتی شروع کر دی ہے۔ کل "دو" گنیں گے اور پرسوں "ایک" اور 8/ کو صفر.. محض 72 گھنٹے اور۔

رات کو تو سونے میں ہی ڈھائی بج گئے تھے۔ بلکہ اس کے بعد سوا تین بجے صابرہ کو اٹھانے کے لئے جبّار بھائی کی بیوی آئیں تب بھی ہم ہوش میں ہی تھے۔ مگر ہمارا اس وقت حرم جانے کا ارادہ نہیں تھا۔ سوچا تھا کہ صبح فجر کے وقت ہی جائیں گے آنکھ کھلی تو۔ مگر وہ صبح سات بجے ہی کھل سکی۔مگر الحمد للّٰہ، آج دن کو ذرا بھی نہیں سوئے ہیں کہ حالات کو معمول پر لانا ہے جو جدّے سے بگڑا ہوا چل رہا ہے۔آج انشاء اللہ جلد ہی نیند آ جائے گی۔

صبح دیر سے آنکھ کھلی تھی۔ ضروریات اور فجر کی قضا کے بعد ہی ساتھیوں نے ناشتے کے لئے پکارا۔ آج اتّفاق سے مظہر بھائی وغیرہم کا ناشتہ بھی جلد ہی آٹھ بجے ہو رہا تھا ورنہ عموماً ساڑھے دس گیارہ بجے ہوتا تھا اور ہم ٹھہرے سات بجے ناشتے کے عادی اس لئے پہلے ہی کھا لیا کرتے تھے۔ آج ان کا ساتھ دے دیا۔حسبِ معمول پنیر (Cheese spread) میں شکر ملا کر روٹی سے کھا لیا اور باقی لوگوں نے سبزی دال چاول بھی کھائے۔ چائے پی اور پھر ہم حرم کی طرف نکل گئے۔ساڑھے نو بجے سے ڈیڑھ بجے تک باہر ہی رہے یعنی ظہر تک حرم میں ہی۔ آج کچھ باقاعدہ حرم کا سروے کر لیا۔ پہلے تو یہ سوچا تھا کہ صفا اور مروہ کے علاوہ جو دوسرے باب ہم نے نہیں دیکھے ہیں، وہ دیکھتے ہوئے حرم کے باہر ہی باہر سے "طواف" کر لیا جائے۔ ان دروازوں کو جو مروہ اور بابِ عمرہ کے درمیان تھے اُنھیں کل سرسری طور سے عمرے کے وقت بابِ عمرہ سے داخل ہوتے وقت دیکھ چکے تھے۔ آج خاص طور پر باب عمرہ اور باب ملک فہد کے درمیان کا حصّہ غور سے دیکھا ۔ اس درمیان میں کوئی بڑا دروازہ نہیں ہے۔ باب ملک فہد سے داخل ہوئے۔ اس کے آس پاس کا علاقہ نیا بنا ہے۔ اس طرف اور مزید آگے باب ملک عبدالعزیز جو کعبة اللہ کا جنوب مغربی کونہ ہے، یہ پورا حصّہ نیا ہے اور مسجدِ نبوی کی طرز کا ہے۔ یعنی ایر کنڈیشنڈ کی ٹھنڈی ہوا ستونوں کے نیچے کی جالیوں سے آتی ہے۔ ویسے ہی قالین بچھے ہیں جن میں سعودی نشان بنا ہے یعنی ایک دوسری کو کاٹتی ہوئی دو تلواریں اور درمیان میں کھجور کا درخت۔سرخ رنگ کی جا نمازیں۔ ہم نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ کم از کم باب ملک عبدالعزیز سے لے کر باب الفتح (یعنی باب السلام سے تھوڑے ہی فاصلے پر بائیں طرف جانے پر) قالین والی جا نمازوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ معلوم نہیں کہ یہاں ہمیشہ قالین بچھے تھے یا اب حج کے بعد بھیڑ کم ہو نے پر بچھا دئے گئے ہیں۔ مسعیٰ اور اس کے آس پاس کے دالان کچھ چھوٹے بھی ہیں، شاید اس لئے وہاں قالین نہیں بچھائے جاتے ہیں یا کم از کم ابھی تک نہیں بچھائے گئے ہیں۔

دھوپ میں طواف میں تھوڑی مشکل تو ہوتی ہے اس لئے عموماً پہلے طواف کر لیتے ہیں۔ مگر آج تو فجر کی قضا بھی پڑھنی تھی اور قضائے عمری بھی پڑھتے ہی ہیں۔ سوچا کہ 20۔25 منٹ میں اتنی گرمی تو نہیں بڑھ جائے گی، پہلے نمازوں سے فارغ ہو لیا جائے۔ چناں چہ پہلے معمول کے مطابق پانچوں نمازوں کی دو دو قضائیں پڑھیں، پھر طواف کے لئے اٹھے۔ بھیڑ کم ہی تھی۔ واجب الطواف نماز بالکل مقامِ ابراہیم کے نزدیک پڑھی۔ پھر زم زم کی طرف گئے اور پانی پیا، پھر حجر اسود کا استلام کر کے صفا کی طرف آئے اور اپنا سروے جاری رکھا۔اپنے قدموں سے صفا اور مروہ کے درمیان کی دوری ناپنے کی کوشش کی۔ عام طور ہر ہمارے 122 قدموں کے 100 میٹر ہوتے ہیں، بلکہ اُلٹا لکھ گئے ہیں۔ یہ کہنا بہتر ہے کہ سو میٹر میں ہمارے اوسطاً ً 122 قدم ہوتے ہیں۔ اور صفا اور مروہ کا فاصلہ 548 قدم نکلا، یعنی تقریباً 450 میٹر۔ کل ہی جبّار بھائی سے بات ہو رہی تھی تو ہم نے ایک محتاط اندازے سے کہا تھا کہ یہ دوری 400 میٹر تو ہوگی۔ اب اپنے اندازے پر فخر کر رہے ہیں۔

اس سروے کے بعد ہم کو اچانک خیال آیا کہ اشفاق بھائی کی بھابھی نے صابرہ کو بتایا تھا کہ قرآنِ کریم کا مکتبہ چاہے مدینے میں ہو مگر قرآنوں کی تقسیم یہاں بھی ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ انگریزی ترجمے اور تفسیر کا ملک فہد ایڈیشن جس کی ہم کو تلاش ہے،ہم کو مل جائے۔ اور اس مکتبے کا معلوم ہوا کہ باب السلام کے پاس ہے۔ چناں چہ پھر باب السّلام کی طرف گئے۔ وہاں شیخ سے بات کی تو اس نے ہماری ہر بات کے جواب میں ایک ہی لفظ کہا " باب عمرہ" ۔ اس دفتر کا نام "ادارہ سنون المصاحف" تھا۔ ہم نے سوچا کہ مصاحف کا مطلب مصحف قرآن سے ہو گا۔ سنون کا مطلب ہم کو معلوم نہیں، لغت میں دیکھنا پڑے گا جو اس وقت ہمارے پاس نہیں۔ ممکن ہے کہ اشاعت یا تقسیم ہو۔ شاید اس کا ہی کوئی دفتر باب عمرہ پر بھی ہوگا۔ اندر ہی اندر سے باب عمرہ کی طرف گئے۔ تو اس پورے حصّے کو بھی قالینوں سے مزین دیکھا۔ پہلے ہمارے خیال میں اس طرف بھی قالین نہیں تھا۔ بابِ عمرہ میں کئی مکتب اور دفتر نظر آئے مگر کسی میں سنون المصاحف کا بورڈ تو نہیں تھا۔ سقیا زم زم کا ادارہ ملا، صفائی کا ادارہ ملا۔ ہاں اس پر یاد آیا کہ حرم کے مغربی حصّے کی صفائی کا ذمّہ "بن لادن" نامی کمپنی کا ہے، جب کہ دوسری طرف کے حصّے کی صفائی ایک دوسری کمپنی "دلّہ" کے سپرد ہے جس کے کارکن ہم ہمیشہ دیکھتے آئے تھے کہ زیادہ تر اسی طرف سے ہماری آمد و رفت رہی تھی حرم میں۔ باقر سے معلوم ہوا تھا کہ یہ دونوں کمپنیاں دو شیوخ کے نام پر ہی ہیں جو یہاں کے کافی امیر حضرات ہیں۔ ہمارے ٹاٹا ،برلا اور بجاج کی نوعیت کے۔ ہم نے دلّہ نام دیکھ کر پہلے سوچا تھا کہ یہ حیدر آباد کے "بلدیہ" قسم کا کوئی لفظ ہوگا اور اس سے مراد مکّہ میونسپلٹی ہوگا۔ یہ شان ہمارے حیدر آباد کی ہی ہے کہ یہاں میونسپلٹی کا بھی ترجمہ کیا جاتا ہے۔ حرم کے آس پاس اور بطور خاص صفا اور مروہ کی طرف کی سڑکوں کی صفائی بھی دلّہ کے ہی ذمّے ہے۔ یہی نہیں، حرم کے صحن کی مشینوں کے ذریعے صفائی، ویکیوم کلیننگ اور نجی عمارتوں اور سرکاری سڑکوں وغیرہ میں کرین بھی انھیں کمپنیوں کے نظر آتے ہیں۔ سنا ہے کہ حج کے سیزن میں یہ دونوں کمپنی والے بنگلہ دیش سے مزدوروں کو جہازوں میں بھر بھر کر لاتے ہیں۔ ان کی بسیں ہماری عمارت کے سامنے صبح 6 بجے اور پھر 2 بجے رکتی ہیں اور اگلی شفٹ والے اترتے ہیں اور پچھلی شفٹ والے چلے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اسی کمپنی دلّہ کا ایک "محکمہ نقل " یعنی ٹرانسپورٹ بھی ہے جن کی بسیں مکّے سے مدینے تک بھی چلتی ہیں۔ اسی کمپنی کا واشنگ پاؤڈر بھی ہم لوگوں نے خریدا ہے کپڑے دھونے کے لئے۔خیر، یہ جملہ معترضہ پھر پیرا معترضہ ہو گیا۔ رکھیو غالب مجھے اس "معترضہ نویسی "سے معاف ۔ اور ماہرین عروض سے بھی کہ مصرعہ خارج از بحر ہو گیا۔ بہر حال بات ہو رہی تھی مفت میں قرآنی نسخوں کی دستیابی کی۔ ایک بن لادن کے کارکن سے پوچھا تو اس نے دروازے سے باہر اشارہ کیا۔ باہر آئے تو ایک جگہ "ادارہ سنون الکتب" لکھا تھا۔ معلوم ہوا کہ اسی ادارے کے دفتر سے قرآنوں کی تقسیم ہوتی ہے محض 8 بجے سے 9 بجے کے درمیان۔ کل انشاء اللہ صبح وہاں ضرور جائیں گے۔

ان سب کاموں کے بعد ہم نے وقت دیکھا تو سوا گیارہ بج گئے تھے۔ سوچا کہ اب کمرے کیا جائیں، وہیں اندر چلے آئے اور پہلے قالین کی جانماز پر بیٹھ کر 2۔2 قضا نمازیں پڑھیں۔ پھر درود پڑھتے رہے اور بیٹھے کعبة اللہ کو نہارتے رہے۔ اب یہ احساس ہو چلا ہے نا کہ میاں بس دو دن اور اس کا نظارہ کر لو۔ پھر ؎ ہم کہاں اور یہ "مکان " کہاں!۔ ویسے ہندی میں لفظ نہارنا کا مطلب محض دیکھنا ہی ہوتا ہے مگر اردو اور ہندوستانی گیتوں میں اس دیکھنے میں کافی کچھ جذبات بھی شامل ہوتے ہیں اور پھر کعبة اللہ کو دیکھنے میں کیا بتائیں، کیسی تڑپ ہوتی ہے، کیسے کیسے جذبے مچلتے ہیں۔

بہر حال ظہر پڑھ کر نکلے۔ سوچا کہ تندور سے دال یا سبزی لیتے جائیں گے۔ مگر یہ اشیاء نہیں ملیں، ختم ہو گئی تھیں تو صرف دہی اور روٹی  لے کر چلے گئے اور پھر مظہر بھائی وغیرہ کے ساتھ ہی کھانا کھایا۔ تھوڑی دیر ان سب لوگوں سے باتیں کیں۔ آج کا بقیہ پروگرام بنایا۔ اور پھر سوا تین بجے عصر کے لئے نکل گئے۔ پلان کے مطابق عصر کے بعد بازار گئے۔ کچھ کیسٹوں کی دوکانوں کا سروے کیا۔ یہاں حرم میں مغرب اور عشاء کی نمازیں شیخ عبد الرحمٰن سُدیس پڑھاتے ہیں۔ ان کی قرأت ہم کو پسند ہے۔ ویسے قرأت کے لئے مصری قاری مشہور ہیں مگر سُدیس صاحب کی قرأت میں بلکہ اس کی پسندیدگی میں پھر کچھ ہمارے جذبے کا دخل ہے کہ ہمارے اللہ میاں کے گھر میں جو قرأت سنتے آئے ہیں، جی چاہتا ہے کہ یہاں سے جانے کے بعد بھی وہی قرأت سنتے رہیں۔ فجر میں کبھی سُدیس صاحب اور کبھی کوئی دوسرے امام پڑھاتے ہیں۔ مدینے میں جن امام کی قرأت ہم نے سنی اور زیادہ پسند کی تھی، کم از کم قرأت کے فن کے حساب سے، ان کا نام معلوم نہیں۔ ویسے مدینے کے ایک امام شیخ اُذیفی کی قرأت بھی مشہور ہے اور ہم نے اس کے کیسٹ بھی سنے ہیں مگر سُدیس صاحب کی قرأت والی وہ بات کہاں۔ آخر سدیس صاحب کی قرأت لینے کا ہی ارادہ کیا۔ لیکن جس دوکان پر ان کی آواز میں مکمل قرآن کا کیسٹ تھا، اس کی ریکارڈنگ اچھّی نہیں لگی۔ دوکان دار نے ایک دوسرا کیسٹ دکھایا جس میں دو آوازیں تھیں ۔ ایک سُدیس صاحب کی اور دوسری سعود شُریم صاحب کی(بعد میں معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں تراویح یہ دونوں حضرات نصف نصف پڑھاتے ہیں اور اسی طرح ایک رمضان کی تراویح میں مکمل قرآن کا کیسٹ بن جاتا ہے۔)۔ اس کیسٹ کی کوالٹی بہتر تھی۔ان دوکانوں کے سروے کے وقت تو صابرہ ساتھ تھیں، مگر جب وہ خریداری ہمارے سپرد کر کے حرم میں چلی گئیں تو ہم نے یہی کیسٹ لینا پسند کیا۔ 45 ریال میں یہ سیٹ ہم نے خوشی سے لے لیا۔ در اصل اس کی فرمائش ہمارے بیٹے کامران کی تھی۔ اور ہم نے یہ بھی سوچا کہ ان کو ضروری نہیں کہ سُدیس صاحب کی قرأت پسند آئے۔ اس وقت اس دوکان میں اردو سمجھنے والے لوگ بھی تھے اس لئے ترسیل و ابلاغ کا مسئلہ بھی نہیں تھا۔ مگر جب عشاء کے بعد ہم نے صابرہ کو بتایا تو یہ بڑی جز بز ہوئیں۔کہنے لگیں کہ دو قاریوں کی آوازوں کا سیٹ "سیٹ " تھوڑی کہا جا سکتا ہے۔ سیٹ ہو تو ایک ہی قاری کا۔ محض شریم صاحب کا لیں یا محض سدیس صاحب کا۔ "دس قاریوں کا بھی آپ سیٹ ہی کہیں گے کیا؟۔ آپ کو جو کرنا ہے اس سیٹ کا کیجئے، میں ابھی ایک اور سیٹ خرید کر لاتی ہوں۔" اب بھی ہم کو بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اس میں اس قدر اعتراض کی کیا بات تھی۔ بہر حال ان کی مرضی کی خاطر ہم پھر واپس گئے۔ اور اسے واپس کرنے کی کوشش کی کہ رقم ہی واپس مل جائے تو دوسری دوکان سے السدیس صاحب کی آواز کا دوسرا اچھی ریکارڈنگ والا سیٹ 50 ریال میں لے لیں جو پہلے دیکھ کر آئے تھے مگر شیخ العرب کو ہماری بات سمجھ میں نہیں آئی تھی اس لئے اُلٹے پھر آئے تھے اگرچہ در دوکان وا تھا۔ وہ اللہ کا بندہ کچھ کہتا تھا تو ہم نہیں سمجھ پا رہے تھے، اور ہماری بات ، ہمیں شک تھا کہ جان بوجھ کر، وہ سمجھ نہیں رہا تھا اس وقت۔ آخر اسی دوکان سے جہاں دوہری آوازوں کا سیٹ لیا تھا، سدیس صاحب کے ہی کیسٹوں کا دوسرا ایک سیٹ نکلوایا۔ دوکان دار سے کہا کہ سنوائے کہ ہم پسند کر لیں کہ کس سیٹ میں (یا اسے بھی نسخہ کہہ سکتے ہیں؟) ریکارڈنگ بہتر ہے۔ غرض ایک نسخہ ہم لے آئے ہیں۔ بہر حال۔

یہ سب دیکھتے ہوئے ہم نے گھڑیاں بھی دیکھیں بازار میں اور 2۔2 ریال کی ایک دوکان یہاں بھی مل گئی تو بچّوں کے کھلونوں کی دو ایک چیزیں اور خرید لیں۔ ایک کان کے بندے بھی خریدے، ایک لائٹر اور سگریٹ فلٹرس کا سیٹ بھی جس میں 16 فلٹرس ہیں جب کہ ہندوستان میں 4 فلٹرس کا سیٹ 10 روپئے میں ملتا ہے۔سامان لے کر عمارت پہنچے تو صابرہ بھی بازار اور پھر حرم جا چکی تھیں۔ سامان رکھ کر اور وضو کر کے ہم پھر نکلے۔ اسی بازار سے ہوتے ہوئے کہ ممکن ہے کہ ان محترمہ سے ملاقات ہو جائے۔ مگر نہیں ہو سکی ۔ ہم نے جاتے جاتے ایک ٹوپی بلکہ اسے سپورٹس کیپ کہنا چاہئے، وہ بھی خرید لی۔ اب ہر وقت تو حرم میں رہنا نہیں ہے۔ جہاز کا سفر بھی ہے، بنگلور اور پھر حیدر آباد بھی جانا ہے۔ یہاں کا کیا ہے، یہاں تو اس "حرم میں سب گنجے ہیں" (حمام میں ننگے محاورے کی پیروڈی بنانے کی کوشش کی ہے ہم نے)۔ اس لئے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ یا پھر گول ٹوپی لگا لیتے ہیں جو حیدرآباد میں دفتر میں تو نہیں پہن سکتے۔ یہاں تو یہ ٹوپیاں اکثر لوگ پہنتے ہیں، ہندوستانی پاکستانی ہوں یا عرب۔ اس لئے ایک ُانٹر نیشنل " ٹوپی کی ضرورت تھی ہمیں۔

اس سے پہلے ہی بات ہوئی تھی کہ جہاز کے ٹکٹوں کا کنفرمیشن (Confirmation)کرنا ہے ہمارے ہندوستانی حج آفس میں۔ مغرب کے بعد مظہر بھائی وغیرہم حرم میں ہی مل گئے تو ہم اور ستّار بھائی اس کام سے گئے۔ ہم کو کھانسی بھی اٹھ رہی تھی (بہت دن بعد ہم اس کا ذکر کر رہے ہیں کہ قارئین ہمارے اس ذکر سے بور ہو گئے ہوں گے )چناں چہ یہ کام کر کے (ہمارے ٹکٹ ُاو۔کے۔ "تھے اور اس کی ضرورت نہیں تھی مگر ایر انڈیا والوں کو ضرورت تھی کہ ہم لوگوں نے اپنا پلان تو نہیں بدل دیا ہے کہ اکثر لوگ اس فرمایش کے ساتھ جہاز والوں سے ملتے ہیں کہ وہ کسی اور دن کی فلائٹ سے جانا پسند کریں گے۔ کچھ کا ارادہ کچھ اور دن عرب میں رکنے کا ہوتا ہے،اپنے رشتے داروں کے پاس جدہ یا ریاض وغیرہ جانا چاہتے ہیں)چائے پی اور سگریٹ پی کر 8 بجے پھر حرم پہنچے۔ اس عرصے میں سب پھر بکھر گئے تھے۔ پہلے عورتیں بھی ساتھ تھیں۔ عشاء کی نماز کے بعد سب کو جمع کرنے میں مزید آدھا گھنٹہ لگ گیا۔ عمارت آتے ہوئے روٹی سبزی اور ناشتے کے لئے جام لے کر آئے۔ شاید دس ساڑھے دس بج رہے ہوں گے۔ ہاں ہم یہ لکھنا بھول گئے کہ ہماری گھڑی کا سیل ختم ہو گیا ہے۔ معلوم کیا تو یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ سیل کی تبدیلی میں یہاں 10 ریال لگیں گے، 5 ریال کا سیل اور 5 ریال ڈالنے کا محنتانہ۔ ہم حیدر آباد میں 25 روپئے میں ڈلواتے ہیں۔ اب کچھ مہنگا ہوگا تو 30۔35 روپئے لگیں گے، یہ سو روپئے تو ہم نہیں خرچ کرنے والے۔ چناں چہ آج کل بے گھڑی گھوم رہے ہیں۔ جب لکھنے بیٹھے تھے تو صابرہ کی گھڑی میں وقت دیکھا تھا اور 11 بج رہے تھے، اب دیکھا ہے کہ 20۔12 ہو رہے ہیں جب کہ ہم آج کی روداد پر "دی اینڈ" کا بورڈ لگانے جا رہے ہیں۔ اب سو کر اٹھیں گے تو ہماری الٹی گنتی ہو گی....دو۔

الٹی گنتی .... .د و

6 مئی ساڑھے نو بجے رات

 

آج بھی تہجّد اور فجر نہیں ہو سکی۔ خدا معاف کرے کہ قضا کرنی پڑی۔ رات سونے تک ایک بج گیا تھا۔ اگرچہ سوا دو بجے صابرہ جا رہی تھیں شائد جبّار بھائی کی بیوی کے ساتھ تو ہماری آنکھ ضرور کھلی تھی مگر ہم نے سوچا کہ انشاء اللہ صبح 4 بجے اٹھیں گے فجر کے لئے، مگر اٹھے... اور صابرہ کو موجود پایا اور وقت پوچھا تو سوا آٹھ بج رہے تھے۔اس لئے صبح نہیں لکھ سکے۔ سوچا ہے کہ ابھی لکھنا شروع کر دیں۔کھانے میں بھی ابھی دیر ہے کہ دوسرے ساتھی جن کے ساتھ آج کل ہمارا کھانا بھی چل رہا ہے، عشاء کے بعد طواف کے لئے گئے ہیں۔ ہمارے آج تین طواف ہوئے اور ہم مطمئن ہیں، ویسے ہم نے ایک دن آٹھ طواف بھی کئے ہیں اور یہاں لوگ ہیں کہ دن میں ایک طواف کر کے بھی تھک جاتے ہیں تو دو چار دن کا وقفہ دے دیتے ہیں۔ ہم عشاء کے بعد گھر ہی آ گئے ہیں۔ صابرہ سے کہہ دیا ہے کہ کھانے میں دیر ہوئی تو ہم کھانا ہی نہیں کھائیں گے کہ جلدی سو سکیں ۔ 10۔11 بجے سو سکیں تو ضرور 2۔3 بجے آنکھ کھل سکتی ہے۔مگر ان سب لوگوں کے ساتھ کھانا کھانے میں ہی گیارہ ساڑھے گیارہ بج رہے ہیں آج کل۔آج تو اور بھی دیر ہو شاید۔ خواتین اب آ کر پکائیں گی۔ بھوک تو پہلے ہی لگ رہی تھی اور صابرہ مشورہ دے رہی تھیں کہ ہم کم از کم باہر ہی کھاتے ہوئے آئیں۔ ہم نے سوچا بھی تھا مگر ہوا یوں کہ حرم سے نکل رہے تھے تو ہمارے سامنے کے کمرے کے راج محمّد صاحب (معلوم نہیں ان کا یہ نام کیوں ہے۔ راج کمار اور راج کپور نام تو سنے تھے مگر مسلمانوں میں یہ نام عجیب ضرور ہے) کو دیکھا کہ حرم سے زم زم ایک 15 لٹر کے جری کین میں بھر کر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ صاحب حیدر آباد کے ہی ہیں۔ پی۔ ڈبلیو۔ڈی کے ریٹائرڈ سپرنٹنڈنٹ ہیں، 85ء میں ریٹائر ہو چکے تھے اس طرح عمر ہوگی تقریباً 70 سال۔ غرض ہم نے ان کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھا۔ اور یہ جری کین ڈھو کر کمرے تک لائے۔ اس لئے سیدھے ہی اپنے کمرے تک آنا پڑا اور کھانا ٹال گئے۔یہاں تک کہ روٹی بھی نہیں خریدی۔ اس وقت ضرورت نہیں بھی ہوتی تو صبح ناشتے میں کام آتی۔بہر کیف۔

آج جو ہم سوچ رہے تھے کہ ادارۂ سنون الکتب جائیں کہ بابِ عمرہ پر جہاں قرآن تقسیم ہوتے ہیں، انگریزی اور اردو ترجمے کے فہد ایڈیشن مل گئے تو سبحان اللہ۔ ہمارے دوست بشیر کو تو زم زم اور کھجور کے تحفے سے بھی اتنی خوشی نہیں ہوگی جتنی قرآن مجید کے اس خوب صورت نسخے سے۔

اٹھتے ہی صبح ضروریات کے بعد ناشتے کے لئے بیٹھ گئے۔ سب ہمارے منتظر ہی تھے۔ ہم نے وہی روٹی پنیر اور جام کھایا جو کل ہی 4 ریال کی شیشی خرید کر لائے تھے۔ اس سے فارغ ہوتے ہی ہم سوئے حرم چلے کہ وہی ہمارا کوئے یا رہے اور سوئے دار بھی( بات چاہے جمی نہیں مگر کیا کریں ، ہمارے فیض صاحب سے بھی کچھ غائبانہ یاد اللہ ہے۔ کم از کم اس رشتے سے کہ ہم بھی حکایات خوں چکاں اپنی فگار انگلیوں سے لکھتے رہتے ہیں)۔حرم میں طواف کی تیاری کر رہے تھے کہ یاد آیا تو خود سے کہا کہ میاں فجر کی نماز ابھی تک تم نے کہاں پڑھی ہے۔ قضا زیادہ ضروری ہے۔عام طور پر نماز قضا ہونے پر صبح ضروریات کے بعد ہی وضو کر کے پہلے پڑھ لیتے تھے۔ آج دوسرے لوگوں کو دسترخوان پر منتظر دیکھ کر یہ عمل چھوڑ دیا تھا تو بھولے جا رہے تھے۔یوں بھی حکم ہے نا کہ اگر نماز کھڑی ہو رہی ہو اور دسترخوان بچھ بھی گیا ہو تو نماز کی جماعت چھوڑ دینا بہتر ہے۔ پہلے دسترخوان کی جماعت میں شریک ہونا اور کھانا کھا لینا چاہئے۔چناں چہ پہلے فجر کی قضا نمازیں پڑھیں (ہم محض تازہ ترین قضا ہی نہیں پڑھتے نا، قضائے عمری بھی جاری ہے اور ہر نماز کے ساتھ کم از کم ایک اسی نماز کی قضا ضرور پڑھ رہے ہیں اور جب محض قضا نمازیں پڑھنے کا ارادہ ہو تو پانچوں نماز وں کی ایک لائن سے قضائیں پڑھتے ہیں۔ یہ معمول دن میں ٦۔٧ بار کا ہوتا ہے)۔اس کے بعد طواف کیا۔ واجب الطواف نماز پڑھ کر ایک اور طواف کر لیا اس کے بعد قضا نمازوں کے دو ُراؤنڈ" بھی پڑھ لئے۔اسی میں 12 بج گئے تھے۔ آج 18۔12 پر ظہر کی اذان تھی۔ تو ظہر کے بعد دو  ُراؤنڈ" اور پڑھ کر واٹر باٹلوں میں زم زم بھرتے ہوئے واپس آ گئے۔

جدّے سے آتے وقت باقر نے دو بڑے بڑے کارٹن نہ صرف دئے تھے بلکہ ایک میں خریدی ہوئی جانمازیں پیک بھی کر دیں تھیں۔ اور دوسرے میں دوسرا سامان رکھ دیا تھا۔ یہاں جو ایک بڑے بیگ میں سامان رکھا تھا، پہلے اسے بھی اس دوسرے کارٹن میں منتقل کر دیا تھا، مگر خیال ہوا کہ یہ اتنا وزنی ہو گیا ہے کہ اٹھا نا مشکل ہوگا۔ چناں چہ آج حرم سے واپس آنے اور کھانا کھانے کے بعد اس کی دوبارہ پیکنگ میں لگ گئے، یعنی کارٹن کا سامان پھر بیگ میں رکھا اور اس عمل میں کچھ اتنی طاقت کا استعمال کر ڈالا ( اپنی ہی ایک چپّل رکھنے میں) کہ بیگ کی سلائی کھل گئی۔ چناں چہ پھر اسے خالی کر کے ہم نے ہی پہلے اس بیگ کو سیا اور پھر سامان بھرا ہم دونوں نے۔ اسی میں عصر کی اذان کا وقت ہو گیا۔ ہمارا نہانے کا ارادہ بھی تھا۔ یہاں کا غسل خانہ ہمیشہ گندا ہی رہتا ہے۔ اس لئے ہم نے یوں کیا کہ عصر کی نماز یہاں ہی پڑھ لی اور پھر حرم چلے گئے۔ نہانے کے علاوہ یہ کام بھی کیا کہ زم زم بھرتے ہوئے لائے۔باقر نے 18۔ 18 لٹر کے بڑے جری کین دئے تھے، ان میں زم زم بھر رہے ہیں ساتھ لے جانے کے لئے۔ ایک پہلے ہی بھر چکے تھے تھوڑا تھوڑا کر کے یعنی بوتلوں میں لے جا کر ایک جری کین میں خالی کر دیتے تھے۔ پڑوس سے آج بھی ایک 5 لٹر کا کین لے گئے تھے،  اس میں اور اپنی ڈیڑھ لٹر کی دو بوتلوں اور کولڈ ڈرنکس کی خالی بوتلوں میں بھر لائے۔ ایک بار اور اسی طرح کرنے میں دوسری جری کین بھی بھر جائے گی۔ کون اتنا پانی ایک ساتھ اٹھا کر لائے۔ پھر یہاں آ کر چائے پی، اور پھر ہم سب یعنی چاروں جوڑے ساتھ ساتھ نکلے ( چار مرد ہمارے علاوہ مظہر بھائی، جبّار بھائی اور ستّار بھائی اور سب کی بیویاں)۔ جری کین، واٹر باٹلس اور کولڈ ڈرنکس کی خالی بوتلیں پھر ساتھ لے لیں۔ پہلے ایک کپڑے کا تھان مظہر بھائی نے دلوایا۔145 ریال کا 27  گز (جی ہاں میٹر نہیں، یہاں گز ہی چلتا ہے) جاپانی کپڑا کے۔ٹی(K.T. 2000)۔ سنا ہے کہ بہت اچھّا ہوتا ہے۔سفید رنگ کا لیا کہ مردوں کے کرتے پاجامے کے کام بھی آئے اور عورتوں کی شلواروں کے بھی۔ سفید رنگ میں زنانہ مردانہ کی کیا تخصیص؟۔ پھر مزید زم زم بھر کر لا کر کمرے میں رکھا۔ صابرہ اس عرصے میں ضرورت کے لئے گئیں اور پھر وضو کر کے پھر حرم کی طرف نکلے۔ مغرب میں اگرچہ ابھی وقت تھا مگر اتنا نہیں کہ جا کر طواف کر لیا جاتا۔ادھر صابرہ اپنے بڑے بھائی کے لئے (جو سب سے بڑے مرحوم بھائی سے چھوٹے ہیں اس لئے چھوٹے بھائی کہلاتے ہیں)چپّل یا سینڈل خریدنے کا کہہ رہی تھیں تو سوچا کہ ابھی نماز میں وقت ہے تو تھوڑی دیر راستے میں یہی دیکھتے ہوئے چلیں۔مگر انھوں نے دوکانوں میں اپنے لئے ہی چپّلیں زیادہ دیکھیں۔ بہر حال پھر ساڑھے چھ بجے حرم پہنچے بغیر کچھ خریدے۔ وہاں سب لوگ ایک مقرّرہ مقام، یعنی باب السّلام کے پاس ہی ایک روشنی کے مینار کے پاس مل گئے۔سب نے مغرب پڑھی۔ امام سدیس صاحب ہی تھے اور اب ہم کو ان کی قرأت اتنی پسند آنے لگی ہے کہ رقّت طاری ہو جاتی ہے سننے پر۔ خدا کا شکر ہے کہ انھیں کی قرأت کا کیسٹ ہم نے لیا ہے۔۔ جب بھی سنیں گے، حرم کی نمازوں کی یاد تازہ ہو جائے گی۔ مغرب کے بعد پھر قضا نمازیں پڑھیں۔ حالاں کہ آج سات راؤنڈ قضائیں ہو چکی تھیں۔مگر اس وقت اس انتظار میں کہ کچھ بھیڑ کم ہو جائے تو پھر طواف کریں جیسا کہ سب نے پلان بنایا تھا۔ شاید ہم لکھ چکے ہیں کہ مغرب کے فوراً بعد طواف میں سب سے زیادہ بھیڑ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ مظہر بھائی اور جبّار بھائی کی بیویاں ضروریات اور وضو کے لئے چلی گئی تھیں، ان کا بھی انتظار تھا۔ ہماری قضا نمازیں پڑھنے تک بھی یہ خواتین نہیں آئی تھیں۔صابرہ نے ہم سے کہا کہ ہم تو طواف کر ہی لیں۔ وہ سب عورتوں کے ساتھ عشاء کے بعد ہی طواف کریں گی۔ بھائی صاحبان کا ارادہ پہلے ہی سے عشاء کے بعد طواف کرنے کا تھا کہ مظہر بھائی کو عشاء سے پہلے کسی کی عیادت کے لئے جانا تھا اور جبّار بھائی کو کسی سے ملنے۔ چناں چہ ہم نے سب کو چھوڑ کر طواف کیا۔ عورتوں کو وہیں چھوڑ کر۔ طواف کے بعد ہی فوراً اذان ہو گئی تو ہم عشاء پڑھ کر واپس آ گئے ہیں۔ آج کی بات ہم نے شروع ہی یہاں سے کی تھی کہ صابرہ وغیرہ طواف کے لئے گئی ہیں۔ اب واپس آئیں گی تو کھانا وانا ہوگا۔ اب انشا ء اللہ تہجّد کے لئے نہیں تو فجر کے لئے ضرور اٹھیں گے۔ اگرچہ عشاء کے بعد ہم نے وتر نہیں پڑھے ہیں اس ارادے کے تحت کہ حرم میں تہجّد کے بعد پڑھیں گے۔

اُلٹی گنتی... ایک

7/ مئی  20۔10 بجے رات۔

 

واللہ اعلم ہماری گنتی صحیح ہے یا نہیں، کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم لوگ کل نہیں پرسوں جمعے کی نماز یہاں ادا کر کے جدّہ روانہ ہوں گے۔ دیکھئے اب حرم میں پانچ نمازیں اور ملتی ہیں کہ چھ۔السدیس صاحب کی قرأت میں شاید دو یا تین نمازیں ہی اور مل سکیں گی۔ وہ جہری نمازیں پڑھاتے ہیں نا۔ آج مغرب اور عشاء میں ان کی قرأت سن کر اور بھی رقّت طاری ہو رہی تھی۔بعد میں چاہے ٹیپ ریکارڈر پر ان کی آواز سن لی جائے، مگر جو بات  "زندہ" (Live کا ترجمہ۔ ہائے رے ترجمے کی مجبوریاں!) سننے بلکہ ان کی اقتدا میں نماز پڑھنے میں ہے ، وہ بات کہاں؟

حرم اب سونا سونا سا لگنے لگا ہے۔ نمازوں میں صفیں خالی خالی رہ جاتی ہیں۔ بلکہ اب ہندوستانی اور پاکستانی حجّاج ہی رہ گئے ہیں۔ کچھ انڈونیشی بھی، مگر 75 فی صد برّ صغیر کے ہی لوگ باقی بچے ہیں۔ اس پر ہم کو کل کے طواف کی ایک دو باتیں یاد آ گئی ہیں، پہلے وہ کر لیں ورنہ بھول جائیں گے۔کل صبح کے پہلے طواف میں ایک پاکستانی صاحب طواف میں بآوازِ بلند ایک ہی دعا کرتے جا رہے تھے کہ "یا اللہ ہمارے ملک پاکستان میں مکمل اسلامی قانون نافذ کروا دے.. یا اللہ ہمارے...."یہی ان کی تسبیح تھی۔ کم از کم ایک شوط (پھیرے) میں ہم ان کے ساتھ ہی رہے تھے تو مستقل یہی تسبیح سنتے رہے ان کے مونہہ سے۔دوسری بات کل مغرب کے بعد طواف میں دیکھی۔ اس وقت وہاں صفائی ہو رہی تھی اور صفائی کرنے والا  وہی گروپ تھا جو اس سے پچھلے دن دیکھا تھا۔ کم ازکم ایک آدمی کو تو ہم پہچاننے لگے تھے۔ انھیں صاحب کو دیکھا کہ حرم کے مطاف والے صحن کے حصّے میں پونچھا بھی لگاتے جا رہے ہیں اور ہم جب ان کے قریب سے گزرے تو معلوم ہوا کہ ان کے ہونٹوں پر تسبیح رواں ہے" سُبحٰنَ اللّٰہِ وَالحَمدُ لِللّٰہ... یعنی کام کے ساتھ ان کا بھی طواف جاری تھا۔ یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی۔ یہ کوئی بنگلہ دیشی تھے شاید۔ اب ان دو مثبت پہلوؤں کے بعد ایک منفی پہلو کی بات بھی۔ یہ ایک ہندوستانی بھائی سے متعلّق ہے۔موصوف طواف کرتے جا رہے تھے اور ناک میں نسوار لگاتے جا رہے تھے۔ سگریٹ بیڑی کی تو ممانعت ہے حرم میں مگر اس عادت سے ان کو کون روک سکتا تھا، اس لئے اس اجازت کا فائدہ اٹھاتے جا رہے تھے۔ خیر اجازت سہی، مگر عین طواف کے دوران!۔ اس کا جواز ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ غرض یہ مشاہدات اتّفاق سے سبھی برّ صغیر کے لوگوں سے متعلّق تھے ۔

دوسری اہم بات یہ کہ آج ہم دونوں نے، یعنی ہم نے اور ہماری صابرہ بیغم نے چار عدد قرآن کریم کے نسخے جمع کر لئے ہیں۔ ہدیۂ حرم۔ یعنی باب عمرہ کی تقسیم سے۔ مگر ان میں سے شاہ فہد ایڈیشن ایک ہی ہے اور وہ بھی معرّیٰ۔ اب تک کسی نے صحیح رہنمائی نہیں کی ہے کہ اردو اور انگریزی ترجمے کے نسخے مل سکتے ہیں تو کہاں؟ ۔شاید ہم لکھ چکے ہیں کہ حرم میں جہاں یہ نسخے نظر آتے ہیں ان پر صاف لکھا ہے Not for Sale۔ بلکہ صابرہ کو تو (بعد میں)جو اُردو والا نسخہ ملا ہے (یعنی ترجمہ نہیں، اردو میں محض رموز و اوقاف کا بیان ہے) اس کے سر نامے پر اردو میں ہی مہر لگی ہے جس کی عبارت ہے "" یہ قرآن کریم خادمِ حرمین شریفین شاہ فہد بن عبد العزیز آل سعود کی جانب سے ہدیہ ہے، اسے بیچنا جائز نہیں""۔ کل تو ہم اس مہم پر نہیں جا سکے تھے کہ دیر سے پہنچے تھے حرم۔ آج صبح سات بجے سے ہی لائن میں لگ گئے تھے۔ صابرہ بھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ بعد میں قطار میں لگ گئی تھیں۔ مگر معلوم ہوا کہ تقسیم کے موقعے پر حاجی کا شناختی کارڈ ضروری ہے، اس پر مہر لگائی جاتی ہے تا کہ ہر شخص روزانہ ہی یہ نسخے نہ لے سکے۔ جبّار بھائی کی بیوی فاطمہ کے پاس کارڈ تھا، وہ قطار میں لگی رہیں اور صابرہ اور دوسری خواتین کارڈ لینے پھر کمرے چلی گئیں۔ہمارے پاس بھی یہ کارڈ موجود تھا۔ ساڑھے آٹھ بجے یہ دفتر کھلا اور تقسیم شروع ہوئی۔ یہ لوگ اندر سے ایک وقت میں 12۔10 نسخے لے کر آتے ہیں اور اوپر سے ایک ایک اٹھا کر دیتے جاتے ہیں، آپ کی پسند کا سوال نہیں ہے۔ ہم نے کہا بھی کہ ترجمے والا چاہئے، مگر کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مطلب لینا ہو تو یہی لو ورنہ آگے بڑھو۔ اس میں حرم میں استعمال شدہ پرانے نسخے بھی ہیں اور نئے۔ صابرہ کے ساتھ کی ایک صاحبہ کو دہلی میں ہی چھپا ہوا ایک پرانا نسخہ ملا۔ ہم کو نسبتاً نئے نسخے ملے۔ ہم کو مصر کی طباعت کا نیا نسخہ ملا اور صابرہ کو کسی عرب ملک کا ہی، مگر اس پر مقام اشاعت درج نہیں۔ دو نسخے اس طرح مل گئے۔ پھر ہم عصر کے لئے حرم گئے تو دیکھا کہ اندر "ادارہ سنون المصاحف" پر بھی بھیڑ لگی ہے۔ معلوم ہوا کہ وہاں بھی قرآن تقسیم ہو رہے تھے مگر ابھی بند کر دئے گئے ہیں۔ ترجمے کا معلوم کرنے پر ان لوگوں کا ایک ہی جواب تھا ، بلکہ دو جواب۔ یا تو" باب العمرہ" یا پھر "مطار"(یعنی ایر پورٹ۔ سنا ہے کہ پچھلے دو ایک سالوں سے حاجیوں کو واپسی کے وقت ایر پورٹ پر شاہ فہد ایڈیشن کے نسخے تحفتاً دئے جاتے ہیں۔ مگر اس سال بھی یہ معمول رہے گا اس کی کیا گارنٹی؟)۔جب اسی امّید پر کافی دیر کئی لوگ کھڑے رہے تو ایک اور نیا جواب سنا۔ اس بار انگریزی میں " انڈیا پاکستان ٹو مارو (Tomorrow)"دو تین بار ہم اس دفتر پر گئے اور حالات کا جائزہ لیتے رہے مگر مایوسی ہوئی۔ عصر کے بعد ہم سب شاپنگ کے لئے چلے گئے۔ بعد میں مغرب کے لئے پھر داخلِ حرم ہوئے۔ ہم دونوں نے الگ الگ نماز پڑھی اور نماز کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ ان کو ایک اور نسخہ مل گیا ہے۔ ہم بھی فوراً گئے۔ کچھ دیر تک باہر جو شیخ تھے ان کا انکار ہی سنتے رہے۔ پھر کسی کام سے وہ صاحب ہٹے تو ہم اندر دفتر میں ہی گھس گئے کہ ان کے افسر سے ہی بات کی جائے۔ انگریزی میں بھی بات کی اور اردو میں بھی۔ معلوم نہیں وہ کہ وہ کون سی زبان سمجھے مگر اتنا کہا  "لا ترجمہ۔ باب العمرہ"۔ ایک دوسرے صاحب کو شاید ہم پر رحم آگیا۔ فوراً اندر سے ایک نیا نسخہ لے کر آئے اور فرمایا ـ "معافی.. معافی، بسم اللہ۔ جاؤ۔ فی امان اللہ"  اور ہم وہ نسخہ لے کر آ گئے۔ یہ بھی مصری ہے۔۔ کھولنے پر معلوم ہوا۔اس کی پہچان آپ کو بتا دیں کہ مصری نسخوں میں رکوع اور پاروں کا حساب نہیں ہوتا۔ محض سورتوں کا شمار دیا جاتا ہے۔صحیح صورت تو یہی ہے کہ قرآن کا حوالہ بھی سورتوں اور آیت نمبر سے ہی دیا جاتا ہے۔ یہ تو ہندوستان پاکستان میں ہی زیادہ چلتا ہے کہ لوگ پاروں اور رکوعوں کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ خود ہم کو یہ یاد نہیں رہتا۔ کوئی آیت یاد آئے گی بھی تو یہی کہتے ہیں کہ سورۂ اعراف کی آیت نمبر فلاں۔ اور نہ ہم کو یہ کبھی یاد ہوا ہے کہ یہ سورت کس پارے میں ہے اور نہ یہ کہ مذکورہ آیت کس رکوع میں۔ (ہم کو تو سورت کا نمبر بھی یاد نہیں رہتا کہ مائدہ چوتھی سورت ہے یا پانچویں۔ (جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ پانچویں ہے۔ اگر ہم بالمشافہ گفتگو کر رہے ہوتے تو آپ ہی فوراً ہماری معلومات میں اضافہ فرماتے)۔

آج کی دوسری اہم بات یہ ہے کہ مختلف مصروفیات میں وقت ضائع کرنے کے باوجود ہم نے پانچ عدد طواف تو کر لئے ہیں۔دو تو فجر کے بعد ہی کر لئے تھے، اس کے بعد ناشتے کے بعد قرآن کے حصول میں لگے تھے۔ دو عصر اور مغرب کے درمیان کر لئے جن کی مشترکہ واجب الطواف نمازیں نماز مغرب کے بعد اندر دالان میں ہی پڑھیں۔ (آپ کو یاد ہوگا نا کہ عصر کے بعد کوئی نفل یا سنّت نماز نہیں پڑھی جاتی)۔ پھر مغرب اور عشاء کے درمیان ایک اور طواف کر لیا، 45۔7 تک قرآن کے حصول میں لگے تھے۔ 10۔8 پر طواف اور واجب الطواف نمازوں کے بعد دالان میں جا نمازوں پر بیٹھے (ہاں۔ آج سے حرم میں ہر دالان میں قالین کی جا نمازیں بچھ گئی ہیں، راستوں کو چھوڑ کر۔)

رات کو پھر کھانا کھانے کے بعد ساڑھے بارہ بجے تک تو لکھتے ہی رہے تھے۔ ایک بج گیا تھا اس کے بعد کبھی نیند آئی اور 20۔2 پر ہی پھر آنکھ کھل گئی۔ 3 بجے تک سونے کی کوشش کی اور پھر اٹھ کر بیٹھ ہی گئے۔ چناں چہ حرم میں تہجّد اور فجر بھی ہو گئی ہے۔

اب سوا گیارہ بج رہے ہیں رات کے۔ اب آخری وقت میں کیا لکھیں کہ کیا کیا کھایا پیا۔ پاکستانی ہوٹل کی سبزی روٹی ہی رات کو لے آئے تھے۔ با جماعت ہی کھانا ہو رہا ہے کئی دن سے۔ ہم خریدا ہوا کھانا لے جا کر شامل ہو جاتے ہیں۔ دو پہر کو تو ہماری طرف سے صرف روٹیاں ہی تھیں۔ ناشتہ تو ہم نے باہر ہی کیا تھا۔ اب اور کو ئی بات ( جیسا کہ ہم بچپن میں غیر سنجیدگی سے کہتے تھے اور اب بھی کہاں سنجیدہ ہیں)" قابلِ لکھ" نہیں ہے۔ اس لئے خدا حافظ۔ اسّلام وعلیکم۔ شب بخیر....

اُ لٹی گنتی.... صفر

8/مئی

55۔2 بجے۔ دو پہر

 

جی ہاں آج رات کو عشاء کے بعد جدہ روانگی ہے۔ جہاں سے پرسوں 50۔3 بجے سہ پہر کو ہماری بنگلور کے لئے فلائٹ ہے۔چناں چہ رات کو لکھنے کا وقت نہیں مل سکے گا۔ ابھی رخصت ہو لیں آپ سے بھی اور اس سفرنامے سے بھی۔ ویسے انشاء اللہ کچھ اور باقی روداد ہوگی، وہ حیدر آباد پہنچ کر ہی لکھیں گے۔

غرض اللہ میاں نے اپنی میزبانی ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور اپنے مہمان کو بھگانے کا انتظام کر دیا ہے۔ اب تو مثلاً بسوں کی دیواروں سے بھی وہ بینر نکال دئے گئے ہیں کہ Welcome to the Guests of Allah اور "مرحبا ضیوف الرّحمٰن" یہ سٹی زن (یا سی تی زن) گھڑیوں کی جانب سے جگہ جگہ بورڈ لگے تھے۔

رات کو بھی نیند نہیں آئی۔ سر درد جو ہو گیا تھا جو صبح تک جاری رہا۔دو بجے کے بعد کبھی نیند آئی۔ پھر صبح تہجّد کی اذان بھی یاد ہے اور فجر کی اذان بھی، مگر بقول پطرس سویرے جو پھر آنکھ میری کھلی تو حرم کی جماعت کی آواز کمرے تک آ رہی تھی۔ بہر حال ضروریات کے بعد حرم میں جا کر بلا جماعت ہی نماز پڑھی اور دو عدد طواف کئے ہیں۔ اس کے بعد ناشتے سے فارغ ہو کر کچھ دیر ساتھیوں سے باتیں کیں، سامان کی پیکنگ کی اور وزن بھی کیا کہ ایک اسپرنگ بیلینس (Spring Balance)بھی حاصل ہو گیا تھا۔ پتہ چلا کہ ہمارا وزن، ہمارا مطلب ہے کہ ہمارے سامان کا وزن قابل اجازت 70 کلو سے ٤ کلو زیادہ ہی ہو گیا ہے (ہمارے وزن کے بارے میں تو ہماری خواہش ہی رہی کہ 70 کیا، کبھی 60 کلو ہی ہو جائے۔ مگر یہ کبھی 50 کلو سے زیادہ بڑھتا ہے اور خدا کا شکر ہے کہ نہ کم ہوتا ہے۔)۔ اس وجہ سے کچھ سامان بڑے بیگ سے نکال کر چھوٹے بیگ میں کر لیا ہے جسے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔

لیجئے عصر کے لئے سب لوگ چل رہے ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ کب وقت ملتا ہے آخری باتیں تحریر کرنے کے لئے۔

لوٹ کے حا جی گھر کو آئے

اب تاریخ لکھنا بیکار ہے۔ ویسے یہ اب ہم کئی روز بعد لکھ رہے ہیں اپنے وطن میں ہی۔ اور حیدر آباد کی بجائے اپنے فیلڈ کمپ کڈاپا ضلعے کے راجم پیٹ قصبے میں ہیں اس لمحۂ موجود میں۔ بہت سی باتیں یادداشت سے نکل بھاگی ہیں۔ اب ہم پھر کچھ ان بھاگتی تتلیوں کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ Loud Thinking کی طرح فکر بہ قلم۔

الٹی گنتی ہماری صحیح ہی نکلی۔ یعنی 8 مئ کو ہی عشاء کے بعد ہم لوگ روانہ ہو گئے تھے مکّے سے۔ اس دن کی اہم بات یہ تو نہیں بھول سکتے کہ طواف وداع کیا تھا۔ یہ بھی یاد ہے کہ اس دن ہمارے 7 عدد طواف ہو گئے تھے۔ اور اس وجہ سے طبیعت پر سکون تھی۔ مگر طواف وداع میں بہت رقّت طاری تھی۔خوب آنسو بہے۔ بلکہ اسی طواف میں ہی نہیں، دن بھر دوسرے طوافوں میں بھی آنسوؤں پر قابو نہیں رہا تھا۔ یا اللہ! یہ تو نے ایسا کیسا نظم رکھا ہے۔ مہمان اپنے گھر جاتا ہے تو ہنسی خوشی جاتا ہے کہ اب اپنے بچّوں سے ملاقات ہوگی۔ اپنے گھر میں سکون سے رہیں گے۔ مگر تو اپنے گھر مہمان کو رخصت کرتا ہے تو رلاتا ہے۔تو نے اپنے گھر میں یہ کیا طلسم رکھ دیا ہے خدایا۔ گناہوں سے توبہ اور معافی کے خیال سے زیادہ یہی دعا ہونٹوں پر آ رہی تھی کہ اپنے گھر پھر مہمان بنانا اللہ میاں۔ ہم تیری مہ اللہ اعلم ہمار دہ دیکھیں۔ بہر ھمانی سے ابھی تشنہ ہی چلے جا رہے ہیں۔ تری رحمتوں کے صدقے، بس یہ کرم اور کر دے کہ پھر اپنے گھر جلد ہی بلا لے۔

اس دن کی اہم بات یہ بھی ہوئی کہ اس شام ہم نے عصر کے بعد جو طواف کیا تو بالکل آخر وقت میں کیا۔یعنی ادھر فارغ ہوئے ادھر مغرب کی اذان ہو رہی تھی۔ اور ہم اس وقت کعبۃ اللہ کے قریب ہی تھے۔ اس لئے چوتھی صف میں ہی جگہ مل گئی۔ اگرچہ اس وقت سنگ اسود کو بوسہ دینے کا موقعہ تو نہیں ملا(لوگوں کو دیکھا ہے کہ قریب ہونے پر نماز کا سلام پھیرتے ہی اس طرف دوڑتے ہیں) مگر امام السدیس صاحب کے دیدار ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ ملتزم کے قریب یا کعبے کے دروازے کے قریب ہی امام کھڑا ہوتا ہے۔ سدیس صاحب کو دیکھا تو احساس ہوا کہ کوئی بہت زیادہ عمر تو نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ 50 سال کے ہوں گے۔ Typical عرب، اور اس وجہ سے عمر کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہوتا ہے دوسرے عربوں کی طرح ۔ اس پر یوسفی یاد آ گئے۔ موصوف نے ایک دوسری ہی بات لکھی ہے کہ دور سے جو نوجوان 25 سال کا لڑکا لگتا ہے، قریب جانے سے وہ 25 سال کی ہی لڑکی نکلتی ہے۔یہاں یہ حالت ہے کہ جو عرب دور سے 25 سال کا لگتا ہے، قریب سے 52 سال کا نکلتا ہے۔اس کا اُلٹا بھی ممکن ہے۔

مغرب کے بعد ہم سب جمع ہو گئے اور سب نے ساتھ ہی طواف وداع کیا، اس کے بعد عشاء کی نماز باہر کے صحن میں پڑھی۔ ہاں اس وقت کی یہ بات بھی یاد ہے کہ ہمارے قیام کے دوران عشاء کی نماز کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا کہ کوئی نمازِ جنازہ نہیں ہوئی۔ لیکن جب ہم واپس آ رہے تھے تو ایک جنازہ سوئے حرم جا رہا تھا ۔ یعنی یہ جنازہ اگر تھوڑی دیر قبل پہنچتا تو ہم اس انہونی بات کا ذکر نہیں کرتے۔ بلکہ اس انھونی بات کا ذکر کرتے کہ ہمارے قیام کے دوران ایک نماز بھی ایسی ہم نے نہیں پڑھی (جن نمازوں میں ہمیں شریک ہونے کی سعادت نہیں ملی، ان کا نہیں کہہ سکتے) جس کے بعد نمازِ جنازہ نہ ہوئی ہو۔ مسجدِ نبوی میں ضرور 2۔3 موقعے ایسے آئے تھے کہ نماز جنازہ نہ ہوئی ہو کسی جماعت کے بعد مگر حرم مکّہ میں یہ پہلا اتّفاق تھا۔

واپس آئے تو کھانے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ اِدھر بسیں آ گئیں۔ اور اُدھر باقر اور زرینہ بھی۔ سامان پیک کرنے میں انھوں نے بھی مدد کی، جلدی جلدی کھانا کھایا اور پھر بسوں میں بیٹھ کر ان سے رخصت لی۔

عمارت سے نکلتے نکلتے 11 بج گئے تھے۔ اور معلّم کے مکتب سے نکلنے تک ساڑھے بارہ۔ پھر مختلف تفتیشی نقاط پر بس رکی۔ زم زم کے آفس پر بھی۔ یہاں ہر حاجی کو ایک مہر بند زم زم کی بوتل بھی تحفتاً دی گئی۔ جدّہ پہنچے تو ساڑھے تین بج رہے تھے۔ لوگ بسوں میں سوتے ہوئے آ رہے تھے۔ ہماری تو ایک لحظے کے لئے بھی آنکھ بند نہیں ہوئی۔جب تک بسوں سے سامان اترا اور ہم نے اپنا سامان جمع کر کے ڈیڑھ دن جدّہ میں رہنے کا انتظام کیا، فجر کا وقت ہو رہا تھا۔ (ہندوستان کے لئے ایک علاقہ محفوظ تھا اور وہیں کہیں بھی ہم لوگ زمین کے فرش پر اپنا ڈیرہ ڈال سکتے تھے)۔ پتہ چلا کہ ایر پورٹ پر ہی ہمارے رہنے کی جگہ کے قریب ہی ایک باقاعدہ مسجد ہے۔ عمارت تو نہیں مگر کٹہرا ضرور تھا۔ باقاعدہ امام اور مائک کا انتظام تھا۔ کافی بڑی جماعت ہوئی۔ فجر کی نماز پڑھ کر سونے کے لئے لیٹے تو شدّت کی سردی ہو رہی تھی۔ شدّت کی اس لئے کہ ہمارے پاس کوئی گرم کپڑا نہیں تھا کہ اس کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ اتنی سردی تھی، شاید اس لئے کہ یہ کھلا علاقہ ہے اور پھر زمین کا فرش اور فجر کا وقت۔نماز کے بعد مظہر بھائی کے ساتھ ایک چائے پی کر سونے کے لئے لیٹے۔ بڑی مشکل سے چھہ بجے کے قریب نیند آئی اور ساڑھے سات بجے پھر اٹھ بیٹھے۔

اس دن 9 مئ کو، ویسے تو جب ہم جدہ پہنچے تھے، بلکہ مکّے سے نکلے تھے، 9 تاریخ شروع ہو چکی تھی، جمعہ تھا۔ ایر پورٹ میں ہی ایک باقاعدہ مسجد بھی ہے۔ وہیں جمعے کی نماز ہوئی۔ جہاں فجر پڑھی تھی، ایسی مسجدیں مزید 2۔3 ہیں ایر پورٹ پر ہی۔ اسی بغیر دیوار کی مسجد میں ہماری عصر، مغرب، عشاء اور پھر اگلے دن 10/ مئ کی فجر اور ظہر بھی ادا ہوئیں۔ 9/ کی صبح پہلے ایر انڈیا کے کاؤنٹر پر پاسپورٹ جمع کرنے پڑے جن پر کچھ اندراج کے بعد ہم کو شام 5 بجے واپس دے دیا گیا۔ اسی کے ساتھ جہاز کے ٹکٹ کی بکنگ بھی ہو گئی اور "او ۔کے" ٹکٹ مل گئے۔باقی وقت وہیں ایر پورٹ کے بازاروں میں گھومتے رہے۔ وہاں بھی بہت دوکانیں ہیں بلکہ کچھ سستی ہی۔ اب حج سیزن کے اختتام کے وقت دو دو ریال کی جگہ 5 ریال میں تین اشیاء کی آوازیں لگ رہی تھیں وہاں۔ 5۔5 ریال والا سامان 4۔4 ریال میں تھا۔ 10 ریال والی چیزیں 8 ریال بلکہ ایک دوکان پر 15 ریال میں دو عدد مل رہی تھیں۔بہت کچھ خریداری وہاں سے بھی کر لی۔ 5۔5 ریال کا سامان زیادہ لیا دوسروں کو دینے کے لئے،چار عدد کیلکولیٹرس خریدے،، اس کے علاوہ موتیوں کا ایک پرس، لائٹر کا ایک سیٹ، شمیص، صابرہ نے ایک سنگاپوری چپّل بھی اور خریدی ۔ صابرہ کے بھائی کے لئے بھی سینڈل دیکھ رہے تھے مگر پسند نہیں آئی، ہاں، مکّے کے آخری دن ہم نے ایک چپّل اور خریدی تھی سوچا کہ وہی چھوٹے بھائی کو دے دیں گے۔ اگر چھوٹے بھائی کو وہ اطالوی "چِپ" سینڈل پسند آتی ہے جو ہم نے مدینے سے اپنے لئے 25 ریال کی لی تھی، تو وہ ان کو دے دیں گے اور یہ خود استعمال کریں گے۔

جدّہ ایرپورٹ پر طازج فقیہہ کی بھی ایک دوکان تھی جس کے بارے میں ہم پہلے لکھ چکے ہیں اور جن کی مکّہ کی دوکان میں ہم نے باقر اور اشفاق بھائی کے ساتھ کھانا کھایا تھا ایک دن۔ مگر وہاں ایر پورٹ پر اس دوکان سے مرغ کھانے کا موقعہ نہیں ملا۔ مظہر بھائی اور دوسرے ساتھی دوسری دوکان سے ہی کھانا خرید رہے تھے تو ہم نے بھی سب لوگوں کے ساتھ ہی کھانا کھایا مگر سبزی کھائی۔ 10/ کو دوپہر کا کھانا ہی نہیں ممکن ہو سکا کہ 11 بجے سے ہی چل چلاؤ لگ رہا تھا۔ظہر کی نماز جماعت سے پڑھ کر ہی ایر پورٹ کی عمارت کے اندر داخل ہو گئے۔ سامان کی چیکنگ اور وزن وغیرہ ہوا، پھر 3 بجے جہاز میں لے جائے گئے۔ یعنی وہی ایر پورٹ سے سیدھے ہی جہاز میں لے جائے گئے عمارت کی سیڑھیوں سے ہی۔ سیڑھیوں کے سرے پر ہی ادارہ سنون الکتب کے کارکن کھڑے تھے اور ہر حاجی کو ایک ایک معرّہ قرآن دے رہے تھے۔ یہاں بھی ہم نے انگریزی ترجمے کی اپنی فرمائش جاری رکھی، مگر جواب ملا "ہٰذا اُردو"۔ خیر ہم دونوں کو ایک ایک قرآن مزید مل گیا ہے جس میں اردو اتنی ہے کہ رمور و اوقاف کا ذکر اردو میں ہے۔ اور کیوں کہ یہ پریس سے ابھی باہر نکلے ہیں اس لئے ان کا گیٹ اپ سب سے بہتر ہے۔ انھیں میں سے ایک ہم بشیر میاں کو دے دیں گے۔

جہاز کا وقت اگرچہ سعودی وقت کے مطابق 50۔3 دیا گیا تھا مگر 20۔3 پر ہی اندر لے جائے گئے اور 25۔3 پر ہی جہاز نے ٹیک آف کر دیا۔ہم نے گھڑیاں فوراً ڈھائی گھنٹے بڑھا لیں ہندوستانی وقت کے مطابق۔جہاز میں اسی دن کا ممبئ کا "انقلاب" اخبار مل رہا تھا۔ اس میں بھی منیٰ کے حادثے کی ایک چشم دید رپورٹ تھی مگر اس میں کافی تلخی تھی۔اس کا احساس ہم کو وہاں نہیں ہوا تھا۔ مگر انقلاب کے صحافی صاحب کا مشاہدہ تھا کہ ہندوستانی حج کمیٹی اور سفارت خانے کے لوگ اور یہاں کے وفد کے لوگوں کو بجائے متاثّرین کو امداد بہم پہنچانے کے اپنے رشتے داروں کی "سائٹ سینگ"(Sight seeing) کے لئے گاڑیوں کے انتظام کی زیادہ فکر تھی۔ واللہ اعلم۔ بلکہ اب یہاں وطن واپس آ کر معلوم ہوا ہے کہ یہاں کے اخباروں میں اور ٹی وی پر بھی یہ تک آیا ہے کہ جب منیٰ میں آگ لگی تو خیموں کے دروازے بند کر دئے گئے تھے اور وہاں کے حجّاج کو اپنی جان بچانے کے لئے نکلنے نہیں دیا گیا۔ ہندوستانی سفارت خانے کو یہ شکایت ہے کہ حج مکمل ہونے یعنی 12/ ذی الحجہ تک نہ ان کو سعودی حکومت نے کوئی اطّلاع ہی دی اور نہ حالات کا جائزہ لینے کے لئے ان کو مقامِ حادثہ تک جانے دیا۔ ہم کو اتنا تو معلوم ہے اور ہم لکھ بھی چکے ہیں کہ ہمارے خیمے میں یہی اعلان کیا جا رہا تھا کہ باہر نہیں جائیں اور اپنے مقام پر ہی رہیں۔ انشاء اللہ آگ پر قابو پا لیا جائے گا۔ اگرچہ ہم نے اس پر اس لئے عمل نہیں کیا کہ ہم کو شک تھا کہ یہ ممکن نہ ہو سکے گا مگر اس سلسلے میں ہم یہی سمجھتے ہیں کہ واقعی عملے کو یہ امّید ہوگی اور وہ یہ چاہتے ہوں گے کہ لوگوں میں ہراس نہ پھیل جائے۔ اس میں کسی سازش کا سمجھنا غلط ہی لگتا ہے ہم کو تو۔ یہاں آ کر معلوم ہوا کہ دہلی میں ہی نہیں یہاں حیدر آباد میں بھی سیکریٹیرئٹ میں ایک سپیشل سیل کھولا گیا تھا کہ متاثّرین کے رشتے داروں کو ان کے بارے میں اطّلاع دی جا سکے۔ یہاں کیا پورے ملک میں لوگ اپنے رشتے داروں کے لئے پریشان تھے۔ عرب نیوز میں ہم نے 96 ہندوستانی شہیدوں اور 87 پاکستانی شہیدوں کی فہرست دیکھی تھی ۔ یہ خبر بھی تھی کہ دوسرے ملکوں۔ سوڈان، انڈونیشیا، چین اور مصر وغیرہ کے بھی دو دو چار چار حاجی شہید ہوئے تھے۔ بنگلہ دیش کے کچھ زیادہ اور 370 کی جو سعودی حکومت کی فہرست ہے اس میں شک کی گنجایش بہت زیادہ تو نہیں ہے۔ مگر یہ فہرستیں کافی بعد میں جاری کی گئیں اور یہ واقعی سعودی حکومت کے لئے ممکن نہیں تھا کہ عین حج کے دوران ہر حاجی کے بارے میں اس کی خیریت کی اطلاع حاصل کریں۔

ہم بھی منیٰ کے حادثے کے چشم دید گواہ ضرور ہیں مگر اس حد تک کہ ہم نے محض دھوئیں کے بادل دیکھے ہیں اور بھگدڑ کا نظارہ کیا ہے بلکہ اس میں حصّہ لیا ہے (ہندی میں "بھاگ" لیا ہے زیادہ موزوں ہے کہ ہم بھی بھاگے ہیں)۔ ہاں یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے خیموں کی طرف کوئی ہندوستانی کارکن خیریت معلوم کرنے نہیں آیا۔ خدّام الحجّاج معلوم نہیں کہاں تھے جو سرکاری خرچ پر وطن کے حاجیوں کی امداد کے لئے بھیجے جاتے ہیں۔ شاید وہ بھی اپنے حج کے ارکان میں لگے ہوں گے۔ معلوم نہیں کہ جب کوئی حادثہ نہیں ہوتا ہے تو ان کی ذمّہ داری کیا ہے کیوں کہ جو لوگ پہلے حج کر چکے تھے ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ ان کو معلوم ہی نہیں کہ کچھ حضرات سرکار کی طرف سے اس غرض سے بھیجے جاتے ہیں۔ جب ضرورت ہوتی ہے تو لوگوں کو بھی ان کی یاد آتی ہے۔ حج آفس کے ہیلتھ سینٹر کا تو ہمارا تجربہ ایسا تلخ نہیں تھا، ہاں حج کے بعد جب گئے تو معلوم ہوا کہ کئی لاکھ کی دوائیں ہندوستانی ہیلتھ سینٹر کی نذرِ آتش ہو گئیں اور اس باعث بعد میں یہ سینٹر کار آمد ثابت نہیں ہو سکا۔ سعودی حکومت کو بھی یہاں بد نام کیا جا رہا ہے کہ آگ پر قابو پانے کی خاطر خواہ کوشش نہیں کی گئی۔ ہم ان سب حالات میں خاموش رہنا بہتر سمجھتے ہیں۔ آگ پر قابو پانے کے انتظامات جو ہم نے دیکھے تھے (راستوں میں پانی کا چھڑکاؤ محض گرمی کم کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ بعد میں اس سے ضرورت کا کام بھی لیا گیا۔ ہر کیمپ میں اونچائی پر بڑے بڑے ہوز پائپ بھی لگے تھے جن سے پانی کھول کر خیموں کو بھگویا گیا تھا، وہ بھی ہم نے دیکھا۔ اب معلوم نہیں کہ اور مزید کیا کیا انتظامات کئے گئے تھے اور کئے جا سکتے تھے جس میں سعودی حکومت کو نا کارہ قرار دیا جا سکے۔

بہر حال ہم جہاز کی بات کرتے کرتے منیٰ کی آگ کی بات کرنے لگے۔

جہاز کافی عرصے تک، یعنی سورج ڈوبنے تک سعودی سر زمین پر ہی اڑتا رہا اور پہاڑ اور ریگستان نظر آتے رہے۔ وقت کے فرق کا یہ اثر بھی ہوا کہ مغرب کے تھوڑی ہی دیر بعد عشاء کا وقت بھی ہو گیا۔ ہم نے ساری نمازیں بھی پڑھیں اور اپنے اندازے کے مطابق قبلہ رخ کر کے، یعنی اڑان کی سمت سے الٹی سمت میں۔ حالاں کہ سورج ڈوبتے وقت سمت کچھ زاوئیے پر تھی اور کچھ لوگوں نے اس سمت میں رخ کرنا بہتر سمجھا۔ ہمارے اکثر ہندوستانی لوگوں کے ذہن میں یہی رہتا ہے نا کہ قبلہ مغرب میں ہے اور اس باعث مدینے میں اور عرفات منیٰ میں بھی دیکھا کہ اگرچہ قبلے کی سمتوں کی کئی جگہ نشان دہی کی گئی تھی، مگر لوگ پہلے سورج دیکھ کر قبلے کی سمت مقرّر کرنے کی کوشش کرتے دیکھے گئے تھے۔ کئی بار ہم کو ہی اس سلسلے میں مدد کرنی پڑی۔

ہندوستانی وقت کے مطابق رات ساڑھے گیارہ بجے بنگلور ایر پورٹ پر اترے۔ اور اب سیڑھیوں پر سے اتر کر زمین پر کافی پیدل چل کر ایر پورٹ کی عمارت تک آنا پڑا۔ وہاں استقبال کرنے والوں میں روشن بیگ بھی موجود تھے اور ہماری آندھرہ پردیش حج کمیٹی کے چئر مین بھی۔ اور بھی کئی لوگ تھے۔ ہم کو پہلے باہری لاؤنج میں ہی بٹھایا گیا۔سب کی چائے سے تواضع کی گئی۔اجتماعی دعا کی گئی۔ حج کمیٹی کے والنٹئر بھی موجود تھے ہی اور سامان اتارنے میں انھوں نے بہت مدد کی۔ اس میں ہی کافی دیر لگ گئی۔ ٹرالیاں ضرور کم تھیں اس لئے کافی انتظار بلکہ افرا تفری رہی۔ خیر۔ سامان اتر گیا تو قطار در قطار سب کو لاؤنج سے سیدھے ہی باہر لے جایا گیا، اندر ایر پورٹ پر نہ سامان کی چیکنگ کی گئی نہ کسٹم کی جانچ پڑتال۔ یہ سب حج کمیٹی اور بطور خاص روشن بیگ صاحب کی کوششوں سے شاید۔ ہمارے پاس تو خیر کسٹم سے چھپانے والی کوئی چیز نہیں تھی، مگر جن کے پاس تھی بھی، وہ رشوت کے ایک مزید گناہ سے بچ گئے۔ ویسے تو غیر قانونی حرکت بھی گناہ تو ہے ہی اس میں کس کو شک ہے! بہر حال سامان جمع کرنے میں دیر لگی اور آخر 2 بجے ہم ٹرالیوں میں سامان لے کر باہر آ سکے۔ باہر بھی حج کمیٹی کا کمپ لگا تھا اور حاجیوں کے باہر آتے ہی ان سے نام پوچھ کر اناؤنس منٹ کیا جا رہا تھا کہ فلاں صاحب باہر آ چکے ہیں کہ ان کے کوئی رشتے دار انھیں لینے آئے ہوں تو انھیں اطّلاع مل جائے۔ ہم نے تو سب کو منع کر دیا تھا اور ہمارے مشورے پر سب نے عمل بھی کیا تھا۔ حج کمیٹی والوں نے معلوم کیا کہ ہمارا ارادہ کیا ہے۔ حج کمپ اب بھی آباد تھا اور وہاں جانے کی خواہش کرنے والوں کے لئے مفت بسوں کا انتظام تھا، مگر جو لوگ کہیں اور جانا چاہ رہے تھے ان کی اتنی مدد کی گئی کہ ٹیکسیوں کے ٹوکن دلوا دئے گئے۔ ہم نے پہلے تو ساتھیوں کو رخصت کیا۔ مظہر بھائی اور جبّار بھائی کے لئے محبوب نگر سے جیپیں آ گئی تھیں تو وہاں کے سبھی ساتھی اس میں چلے گئے۔اس کے بعد ہم نے بنگلور سٹی سٹیشن کی ٹیکسی کا ٹوکن لیا اور سٹیشن آ گئے۔150 روپئے ٹیکسی میں لگے۔ صبح ساڑھے تین بجے کے قریب سٹیشن پہنچے اور پھر 11/ مئ کو ہی شام کو 5 بجے کی ٹرین سے حیدر آباد کے لئے واپسی۔

خیر سے حاجی گھر کو آئے۔ یہاں یہ یاد آ گیا کہ اگرچہ معروف یہی جملہ ہے مگر در اصل یہ حیدر آبادی استعمال ہے۔ یہاں لوگ گھر یا دفتر جاتے نہیں ہیں، گھر "کو" یا دفتر "کو" جاتے ہیں۔ اب ہم بھی حیدر آباد ہی آ گئے ہیں اور محاورہ بھی یہی ہے اس لئے ہم پھر یہی کہیں گے کہ لوٹ کے حاجی گھر کو آئے۔ رہے نام اللہ کا۔

        2/جون 97ء

        راجم پیٹ، ضلع کڈا پا، آندھرا پردیش

 

٭٭٭

پروف ریڈنگ اور ای بک: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 1 تبصرہ

ریحان
سبحان اللہ۔دل خوش ہو گیا۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔