تعارف لکھنے کی فرمائش ہوئی تو جی چاہا کہ فوراً کہہ دیں ’’ کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے ‘‘ لیکن پھر قبل اس کے کہ کوئی اور ہم پر ہنستا، ہمیں خود اپنے آپ پر ہنسی آ گئی۔ مشتاق احمد یوسفی صاحب بہت بڑے آدمی ہیں، بہت بڑے لکھاری ہیں، لیکن ان سے ایک غلطی سرزد ہوہی گئی۔ تزکِ یوسفی میں اپنے بجائے ہمارا تعارف لکھ مارا۔ لکھتے ہیں ’’ یہ سرگزشت ایک عام آدمی کی کہانی ہے، جس پر بحمد اللہ کسی بڑے آدمی کی پرچھائیں تک نہیں پڑی۔ ۔ ایک ایسے آدمی کے شب و روز کا احوال جو ہیرو تو کجا اینٹی۔ ہیرو ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کر سکتا۔ عام آدمی تو بیچارہ اتنی سکت اور استطاعت نہیں رکھتا کہ اپنی زندگی کو مردم آزاری کے تین مسلمہ ادوار میں تقسیم کر سکے۔ یعنی جوانی میں فضیحت، ڈھلتی عمر میں نصیحت اور بڑھاپے میں وصیت۔ یہ طغیانِ شباب، لاف ہائے شادکامی، معاصرانہ چشمکوں اور سیاست کی شورا شوری کی داستان نہیں۔ نہ کسی کی مہم جوئی اور کشور کشائی کا ’’ساگا‘‘ ہے۔
حلیہ بیان کرتے وقت بھی یہی غلطی دہرائی، سوائے ناک کے، کہ یوسفی صاحب، صاحبِ ناک ہیں اور اِدھر ہمارے مدعا کی طرح ناک بھی عنقا ہے۔ لکھتے ہیں۔ ’’ نہاں خانہ دل کی ہیرو گیلری پر نگاہ کی تو کسی کی رمق تک اپنی ذات میں نظر نہ آئی۰۰۰ ہنری ہشتم، سیموئل جانسن، گوتم بدھ، فالسٹاف، بابر، غالب، پک وک، بچے، امیر خسرو۔ ۔ ہاں ذہن پر ذرا زور ڈالا تو بعض مشاہیر کے جن چیدہ چیدہ اوصاف اور شباہتوں کا اپنی ذات میں جمگھٹا نظر آیا، کاش وہ نہ ہوتیں تو زندگی سنور جاتی۔ مثلاً نپولین کا قد، جولیس سیزر کا چٹیل سر، جینا لولو برجیدا کا وزن، سیموئل جانسن کی بینائی، ناک بالکل قلوپطرہ کی مانند کہ اگر ۱یک بٹا بارہ انچ بھی چھوٹی ہوتی تو اس دکھیا کا شمار بد صورتوں میں اور اپنا خوبصورتوں میں ہوتا۔ ‘‘ وغیرہ وغیرہ
ہاتھی اور چوہے کی کہانی تو آپ نے سن رکھی ہو گی جنھوں نے ایک دوسرے سے اس کی عمر دریافت کی تھی۔ چوہے کا جواب کہ عمر تو میری بھی اتنی ہی ہے پر میں بچپن میں ذرا بیمار رہتا تھا، دراصل ہمارا بھی جواب ہے۔ بچپن میں ایک مرتبہ ٹائیفائڈ نے آ گھیرا تو جان کے لالے پڑ گئے۔ ماں پیاری نے، روتے ہوئے بچے کو گود میں اٹھا کر کئی کئی راتیں جاگ کر گزاریں۔ باپ فقیر منش آدمی تھے ( جن کی سادہ زندگی اور محیر العقل کارناموں پر کتاب لکھ ماری ہے، جو تقریباً مکمل ہے۔ یعنی لکھ چکے ہیں، بس ایک عدد پبلشر کا ملنا باقی ہے )۱،ایک خیراتی شفا خانے سے دوا لینے کے لیے گئے اور لائن میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کیا۔ باری آنے پر کاونٹر کلرک نے دوا دیتے وقت کہا کہ یہ دوا فلاں جماعت کی جانب سے ہے تو اسی وقت دوا زمین پر انڈیل دی اور گھر چلے آئے۔
ہمیں شاعری اور لکھنے لکھانے کا شوق بھی بچپن ہی سے تھا۔ ایک مرتبہ سوتے سے اٹھے اور کچی نیند میں بڑبڑائے
لنگڑ دین بھائی لنگڑ دین
سالن تھوڑا روٹی تین
بجاؤ بین۔
اور پھر سو گئے۔ ابا جان جو مطالعے کا بیحد شوق رکھتے تھے، جاگ رہے تھے۔ انھوں نے یہ ساری کارروائی دیکھی۔ بعد میں اکثر سنایا کرتے اور خوب ہنستے۔
جب ذرا اور بڑے ہوئے تو ’’ بہتا تکیہ ‘‘ کے نام سے ایک کہانی لکھی، جس میں ایک بچے کو پانی پر بہتا ہوا ایک تکیہ ملتا ہے جس پر سونے کا ایک تاج محل بنا ہوتا ہے۔ اسی طرح ترنگ میں آئے تو اس وقت کے ڈکٹیٹر کی تعریف میں ایک نظم لکھ ماری اور ابا جان کو دکھائی۔ ابا جان جو اس ڈکٹیٹر کے سخت خلاف تھے، انھوں نے شفقتِ پدری سے اس نظم کو دیکھا، نظرِ ثانی اور تصحیح فرمائی۔ پھر ہم نے وہ نظم ریڈیو پاکستان پر بچوں کے پروگرام میں پڑھی اور داد سمیٹی۔
ایک رات ابا جان کو مطالعہ کرتے دیکھا تو خود بھی ان کے شیلف سے ایک کتاب ’’ الفاروق‘‘ نکال کر بیٹھ گئے اور کاغذ پینسل سنبھال کر کئی صفحوں پر مشتمل ایک ضخیم مضمون لکھ مارا۔ ماہنامہ تعلیم و تربیت کو یہ مضمون بھیجا تو انھوں نے ہماری اس مساعی کی لاج رکھتے ہوئے ایک صفحے کا مضمون بعنوان’’ بھوکے بچے خالی ہنڈیا‘‘ شایع کیا۔
‘غالبیات‘ پر کام کا شوق چرایا تو دیوانِ غالب نکال لی اور غالب سے ایک انٹرویو لے ڈالا جسے بعد میں ماہنامہ غنچہ کراچی کی ادبی نشست میں پڑھنے کا موقع ملا۔ اسی رسالے کے لیے ایک یتیم بچے کی دکھ بھری داستان ایک خط کی صورت میں لکھی جو شایع ہوئی۔ ایک دن اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ بیٹھے اور بہت سی پاکستانی فلموں کے نام ایک کاغذ پر لکھ لیے، پھر اس فہرست سے ریڈیو پاکستان کے ایک کمرشیل پروگرام کے ماڈریٹر کے نام ایک خط لکھا، جس کے ہر ہر جملے میں کئی ایک فلموں کے نام آتے تھے۔ ماڈریٹر صاحب کو وہ خط اتنا بھایا کہ انھوں نے وہ خط نشر کرتے ہوئے سامعین سے سوال کیا کہ دو دوستوں کے اس خط میں کتنی فلموں کے نام آئے ہیں۔
اور پھر یوں ہوا کہ ہم انجینیرنگ کالج کے ادبی مجلے کے منظوم حصے کے ایڈیٹر بنا دیے گئے۔ خوش خوش گھر آئے اور چھ ماہ تک سوتے رہے۔ اس دوران صرف اتنا کیا کہ ہر ایرے غیرے سے ایک عدد نظم یا غزل لکھوا لی۔ چھ ماہ اور مسلسل کئی یاد دہانیوں کے بعد جب عمیر بھائی نے الٹی میٹم دیدیا کہ کل نظم سیکشن مکمل چاہیے تو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا، ساری رات جاگے اور دوستوں کی لکھی ہوئی ان ‘نظموں ‘ اور ‘غزلوں ‘ کا ڈائی سیکشن کیا۔ اگلے روز اپنی ‘چھ ماہ ‘کی عرق ریزیوں کا نچوڑ عمیر بھائی کے حوالے کیا تو وہ پھولے نہ سمائے۔ البتہ ہمارے ایک کلاس فیلو کئی دنوں تک ہم سے ناراض رہے کہ ہم نے ان کی نظم کو کیوں ’بدل‘ دیا۔
لگے ہاتھوں اب یہ بھی بیان ہو جائے کہ ہمارا ذریعہ معاش کیا ہے۔
آٹھویں جماعت میں پہنچے تو یہ سوال ہمارے سامنے آیا کہ ہم بیالوجی پڑھیں یا ریاضی۔ گویا یہ شعبے کے انتخاب کا پہلا مرحلہ تھا۔ ہم نے ابا جان سے پوچھا کہنے لگے ’’ اسکول میں طیب صاحب سے پوچھ لو‘‘۔ طیب صاحب ہمارے استاد تھے اور ابا جان سے ان کی دوستی ہو چکی تھی۔ اسکول پہنچے تو طیب صاحب کا یہ فرمان سننے کو ملا ’’ خبردار! کوئی بچہ بیالوجی نہ لے۔ ‘‘ اللہ جانے اس میں کیا رمز تھا، لیکن ہم نے میٹرک پری انجینئرنگ میں پاس کر لیا۔
ہمارے لیے اسکول والوں نے ایک عدد فیر ویل پارٹی کا بندوبست کیا۔ اپنے تمام نالائق ہم جماعتوں کے لیے ہم نے خود ہی ٹائیٹل قطعات لکھے اور نویں جماعت والوں کو پیش کرنے کے لیے دیئے۔ چھوٹے بھائی محمد حفیظ الرحمٰن نے ہم سے ہمارے اپنے ٹائیٹل کے بارے میں پوچھا تو ہم نے خاموشی اختیار کی۔ خود اپنے منہ میاں مٹھو کیسے بنتے، یا سُبک سر بن کے کیسے کہہ دیتے کہ کوئی اور لکھ دے۔ تب ہی بھائی نے ہمارے لیے فی البدیہہ یہ قطعہ کہا۔
شاعرِ اسکول ہیں یہ، نام ان کا ہے خلیل
سوتے سوتے میں بھی اکثر شعر کہہ جاتے ہیں یہ
شاعری کا بھوت ان پر جب بھی ہوتا ہے سوار
اچھے اچھے شاعروں کو مات کر جاتے ہیں یہ
انٹر میڈیٹ میں داخلے کا مرحلہ آیا تو بڑے بھائی( مرحوم) نے صاف صاف کہہ دیا۔ جاؤ اور پولی ٹیکنیک میں داخلہ لے کر تکنیکی مہارت بہم پہنچاؤ۔ انٹر، بی اے وغیرہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
ہم پولی ٹیکنیک اداروں کے چکر کاٹتے رہے اور اِدھر ڈی جے اور آدم جی کالج سمیت تمام اچھے کالجوں میں داخلہ بند ہو گیا۔ اب پچھتاوے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا۔ آدم جی کالج کے پرنسپل صاحب نے ہماری رہنمائی نوٹس بورڈ تک کی جہاں پر داخلے بند ہو جانے کا نوٹس جلی حروف میں آویزاں تھا۔ عائشہ باوانی کالج پہنچے۔ پرنسپل صاحب نے ہماری مارکس شیٹ دیکھی تو ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔ فوراً ہمارے فارم پر اپنے دستخط کیے اور ہمیں داخلہ کلرک کے پاس بھجوا دیا۔ جمعے کا دن تھا۔ وہ اپنا کھاتا بند کر چکا تھا۔ اس نے معذرت کی اور ہمیں ہفتے کے روز آنے کا کہہ کر کھڑکی بند کر دی۔
ہم روتے روتے نیشنل کالج پہنچے اور ابھی کالج کی خوبصورت عمارت کو دیکھ کر عش عش کر ہی رہے تھے کہ یارِ جانی شیخ صاحب نے ہمیں دیکھ لیا۔ پہلے تو ہمیں کئی موٹی موٹی گالیوں سے نوازا، پھر ہمیں لیے ہوئے کشاں کشاں پرنسپل صاحب کے کمرے میں پہنچے اور ان سے استدعا کی کہ مانا کہ داخلے بند ہو چکے ہیں، لیکن اگر وہ ہمارے جیسے اچھے رزلٹ والے لڑکے کو کھو دیں گے تو کیا کریں گے۔ آخر کار انھیں منا لیا اور یوں ہم نے انٹر کالج میں داخلہ لیا اور اُڑتے ہوئے رنگوں ( فلائینگ کلرز) میں انٹر پاس کیا۔
اب گویا ایک ہی چوائس باقی رہ گئی تھی۔ شیخ صاحب کی دم سے بندھے ہوئے داؤد کالج پہنچے اور الیکٹرانکس میں سند یافتہ انجینئر بن کر نکلے۔ دو سال اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بعد ابا جان کی کوششوں سے ایک اچھی کمپنی میں ہمارا داخلہ ہوا اور اگلے کچھ سالوں میں ان چند بین الاقوامی کمپنیوں اور ان کے ترتیب دیے ہوئے تربیتی کورسوں نے ہمیں بائیو میڈیکل انجینئر بنا دیا۔
تو صاحبو! گویا یوں ہم نے اپنی مرضی کے بغیر اپنے آپ کو تلاشِ معاش میں کھو دیا۔ اگر آج الہ دین کا چراغ ہمارے پاس ہوتا اور ہمیں تلاشِ معاش میں یوں در بدر کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑتیں تو آج ہم بھی لکھاری ہوتے۔ اب تو ہم ہیں اور ہماری عزیز ترین سہیلی ردی کی ٹوکری ہے۔ جو کچھ لکھتے ہیں، اس کی نذر کر دیتے ہیں۔
ابنِ صفی بقلم خود کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں۔ ’’ بقلم خود، اتنا کچھ لکھ دینے کے بعد سوچ رہا ہوں کہ اپنے بارے میں کچھ لکھنا بڑا جان جوکھم کا کام ہے۔ کہاں تک انانیت کو دبایا جا سکتا ہے۔ تھوڑی بہت لاف گزاف بھی ہو جاتی ہے۔ اسی لیے میرا اپنا ہی خیال ہے کہ اپنے بارے میں گفتگو کرنے والے اوّل درجے کے بے وقوف ہوتے ہیں۔ لیکن مجھ سے یہ بے وقوفی سرزد کرائی گئی۔ میں خود اس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ اللہ بڑا رحم کرنے والا ہے۔ ‘‘
ہم سے یہ بے وقوفی سرزد کرانے والے حضرات میں شمشاد بھائی، استادِ محترم جناب اعجاز عبید صاحب، حافظ سمیع اللہ فاروقی بھائی اور اردو محفل کے وہ دیگر تمام کرم فرما شامل ہیں جنھوں نے ہماری تحریروں کی حوصلہ افزائی کی۔
اپنی تعلیمی و تربیتی اسناد کی فائل کے سر نامے پر ہم نے فیض صاحب کا یہ قطعہ چسپاں کر رکھا ہے، سو وہ آپ کی بھی نذر ہے، جو مزاجِ یار میں آئے۔ ہم تہی دامنوں کے پاس تو کچھ بھی نہیں۔
ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو
جو عمر سے ہم نے بھر پایا، سب سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشتِ خاکِ جگر، ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مئے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام الٹائے دیتے ہیں
نوٹ ۱۔ یہ کتاب اب ماشاء اللہ، ماہنامہ تعمیرِ افکار کراچی کے مولانا محمد اسمٰعیل آزاد نمبر فروری ۲۰۱۱ ء کا حصہ ہے۔
محمد خلیل الرحمٰن
٭٭٭
ہمیں کالے پانی کی سزا ہو گئی۔ یہ وہی سزا ہے جسے منچلے پردیس کاٹنا کہتے ہیں۔ سنتے ہیں کہ قسمت والوں ہی کے مقدر میں یہ سزا ہوتی ہے۔ عرصہ ایک سال ہم نے بڑی کٹھنائیاں برداشت کیں اور یہ وقت کاٹا۔ پھر یوں ہوا کہ ہمارے لیے اس علاقے ہی کو جنت نظیر بنا دیا گیا۔ پھر تو پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اور سر کڑھائی میں۔ پھر ہمیں یہ مژدہ جاں فزا سننے کو ملا کہ ہمیں جرمنی میں پانچ ہفتے کی تربیت یا جبری مشقت کے لیے چن لیا گیا ہے۔ ہم خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ اپنا سفری بیگ اٹھایا اور کراچی کے لیے روانہ ہو گئے۔ گھر پہنچ کر گھر والوں کو بھی یہ خوشخبری سنائی۔ وہ بھی بہت خوش ہوئے اور جواب مضمون کے طور پر ہمیں ایک اور خوشخبری سنا دی۔
’’ تمہارے چھوٹے بھائی کا تبادلہ بھی اسلام آباد کر دیا گیا ہے اور اب وہ بھی تمہارے ساتھ ہی رہے گا۔ ‘‘
ابھی یہ بم ہمارے سر پر اچھی طرح پھٹنے بھی نہیں پایا تھا کہ بھائی نے گرینیڈ سے ایک اور حملہ کر دیا۔
’’ بھائی! یہ بتاؤ کہ کراچی سے اسلام آباد جاتے ہوئے اسلام آباد ائر پورٹ پر کسٹم پہلے ہوتا ہے یا پھر امیگریشن؟‘‘
ہم نے خون کے گھونٹ پی کر اس حملے کو بھی برداشت کیا اور سفر کی تیاریوں میں لگ گئے۔ اگلے روز کمپنی کے صدر دفتر پہنچے تو پرِ پروانہ اور دیگر ضروری دستاویزات کے ساتھ ایک عدد لمبی چوڑی فہرستِ اشیائے ضروریہ ہمارے حوالے کی گئی جن کا بہم پہنچایا جانا ہماری ہی صحت کے لیے بہت ضروری تھا۔
بڑے بھائی ( مرحوم ) کو ساتھ لیا اور بھاگے بھاگے لنڈا بازار پہنچے اور وہیں سے یہ تمام اشیاء بصد شوق خریدیں جن میں ایک عدد گرم سوئٹر، گرم واٹر پروف دستانے، ایک جوڑی لمبے جوتے، اندر پہننے کے لیے گرم پائجامے اور ایک عدد لانگ اوور کوٹ شامل تھے۔
اس اوور کوٹ کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ جب ہم فخر سے اسے پہن کر باہر نکلتے تو گورے اور گوریاں ہمیں حیرت سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے تھے۔ بقول جناب مختار مسعود:۔
’’ چلتے چلتے کسی نے نگاہِ غلط انداز ڈالی اور کسی نے نظر انداز کیا۔ نظر بھر کر دیکھنے والے بھی گو دوچار سہی، اس بھیڑ میں شامل تھے۔ ( برف کدہ۔ سفر نصیب)
واپسی پر اندازہ ہوا کہ ہم نے غلطی سے زنانہ اوور کوٹ مول لے لیا تھا۔ جس کے بٹن الٹی جانب تھے۔ ہم نے چونکہ زرِ کثیر صرف کر کے یہ قیمتی اوور کوٹ مول لیا تھا، لہٰذا اب اس کا استعمال ترک نہیں کر سکتے تھے۔ ہم نے اسے عرصہ کئی سال تک یورپ کے اکثر سفروں میں استعمال کیا یہاں تک کہ بیگم نے اسے سیلاب فنڈ میں دے دینے کا اعلان کر دیا اور ہم اس قیمتی اوور کوٹ سے جبراً محروم کر دئیے گئے۔
ہماری پہلی منزل فرینکفرٹ ائر پورٹ تھی، جہاں سے ہمیں جہاز تبدیل کر کے نورمبرگ کی فلائٹ لینی تھی۔ ہمیں تجربہ کار دوستوں نے اس ائر پورٹ سے متعلق پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ یہ ائر پورٹ بہت بڑا ہے اور کئی طویل راستے اس میں طے کرنے پڑیں گے لہٰذا دیکھ بھال کر چلنا۔ مزید یہ کہ اس ائر پورٹ پر تمہیں چہرے جتنی چوڑائی والی بند کھڑکیاں بھی نظر آئیں گی۔ یہ وہاں کا مشہور تانک جھانک شو ( پیپ شو) ہے۔ سکہ ڈالتے ہی شیشے کی کھڑکی پر سے پردا چند منٹ کے لیے سرک جائے گا۔ مزے سے نظارہ کرو۔ اور دیکھو‘‘ انھوں نے تاکیداً کہا۔ ’’ اس چند منٹ کے عرصے کو پلکیں جھپکانے میں نہ گزار دینا۔ غور سے دیکھنا اور ایک ایک تفصیل کا دھیان رکھنا۔ ‘‘ گویا ہمیں واپسی پر اس تانک جھانک ہی کا تو تجزیہ لکھ کر کمپنی میں پیش کرنا تھا۔
فرینکفرٹ ائر پورٹ ٹرمنل کی عمارت واقعتاً ہمارے قیاس سے بھی بڑی تھی، لہٰذا ہم ہیبت کے مارے بھاگتے ہی چلے گئے اور نورمبرگ کی فلائٹ کی روانگی کے ہال پر جا کر ہی دم لیا اور وہاں پر اطمینان کے ساتھ بیٹھ کر گورے گورے چہروں والی حسیناؤں کے سردی سے تمتمائے حسین چہروں کو تکتے رہے۔ ہمارے لیے یہی تانک جھانک بہت تھی۔
نورمبرگ ائر پورٹ سے ٹیکسی لی اور ڈرائیور کو چھپا ہوا کاغذ دکھایا جس پر ہماری منزل کا پتا لکھا ہوا تھا۔ اس نے کچھ آئیں بائیں شائیں کی اور ایک نقشہ نکال کر اس پر جھک گیا۔ پھر اس نے وائر لیس ریڈیو پر کسی سے پشتو یا اس قبیل کی کچھ آوازیں نکال کر کچھ گپ شپ کی، دو منٹ بعد اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور ہمیں منزل مقصود تک پہنچا کر ہی دم لیا۔
ارلانگن ہمارا مستقر دراصل ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جس کا اپنا کوئی ائر پورٹ نہیں ہے۔ نورمبرگ ائر پورٹ جو تاریخی شہر نورمبرگ اور ارلانگن کے درمیان واقع ہے، دونوں شہروں کے لیے ائر پورٹ کا کام دیتا ہے۔ قارئین کو علم ہو گا کہ نورمبرگ جرمنی کے جنوبی صوبے بویریا کا ایک تاریخی شہر ہے۔ ہٹلر کے زمانے میں اس شہر کے قلعے میں اس نے گسٹاپو کا عقوبت خانہ بھی بنوایا تھا۔
اس صوبے کا سب سے بڑا اور مشہور شہر میونخ ہے جسے جرمن میونچن کہتے ہیں۔
گھر پہنچے تو صرف ایک بزرگ جوڑا ہی گھر پر ملا۔ دونوں ہمیں دیکھ کر نہال ہو گئے اور مسلسل جرمن زبان میں استقبالیہ کلمات کہتے رہے جو ہمارے لیے آواز کی کرختگی کے لحاظ سے پشتو ہی تھے۔ انھوں نے گھر کے پچھواڑے ہمیں ایک کمرے تک پہنچا دیا جس کا دروازہ اور ایک کھڑکی صحن میں کھلتے تھے۔ کمرے کے اندر داخل ہوتے ہی ایک جانب ایک گوشے میں چھوٹے سے کچن کا بندو بست تھا اور دوسری جانب ایک باتھ روم تھا۔
ہم بھی ان بڑے میاں اور بڑی بی سے مل کر بہت خوش ہوئے اور اگلے پانچ ہفتوں تک مہ وشوں کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہے، فارسی کا یہ شعر پڑھتے رہے اور جرمن زبان کا مزہ اپنے منہ میں محسوس کرتے رہے۔
زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم
چہ خوش بودی اگر بودی زبانِ خوش دہانِ من
اب ہم نے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ آرام اور حوائجِ ضروریہ سے فارغ ہونے کے بعد باہر نکلنے کا ارادہ کیا تاکہ ابھی سے بس میں جا کر تربیتی مرکز دیکھ آئیں اور اگلے روز وقتِ مقررہ پر تربیت گاہ پہنچ سکیں۔
باہر سردی مزاج پوچھ رہی تھی۔ ہم نے دستانے چڑھائے، اوور کوٹ کو اچھی طرح اپنے جسم کے ارد گرد لپیٹ لیا اور بس اسٹاپ پر آ کر کھڑے ہوئے اور اِدھر اُدھر نظر دوڑائی تاکہ اس جگہ کو پہچان کر واپسی کا راستہ متعین کر سکیں۔ پہلے تو ارد گرد کے ماحول کی تفصیلات کو ذہن میں بٹھایا، پھر اس بس اسٹاپ اور اس محلے کا نام معلوم کرنے کی دھن ہمارے دل میں سما گئی۔ یہ ایک چھوٹا سا بس اسٹینڈ تھا جہاں پر بس کا انتظار کرنے کے لیے ایک لکڑی کی بنچ لگائی گئی تھی۔ اسی طرح ایک کونے میں دو تین نوٹس بھی نظر آئے، دیکھنے پر پتہ چلا کہ یہاں پر آنے والی بسوں کے روٹس اور اوقات ہیں۔ ساتھ ہی اوپر کی جانب ایک چھوٹے سے بورڈ پر ایک نام لکھا ہوا تھا جسے ہم نے ذہن میں بٹھا لیا۔
اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک گول مٹول، خوبصورت سی، مائل بہ فربہی، پیاری سے حسینہ ہمارے برابر آ کر کھڑی ہو گئی اور سامنے لگے ہوئے نوٹس کو غور سے پڑھنے لگی۔
ہم نے سوچا کہ اب ہمیں اس مظہرِ حسن کے ساتھ بات چیت کا آغاز کر دینا چاہیے، تاکہ اپنی معلومات میں خاطر خواہ اضافہ کر سکیں۔ یہ سوچتے ہی پہلے تو پانچ منٹ تک اپنے حواس مجتمع کرتے رہے، پھر ہمت کر کے کھنکارے اور بھرائی ہوئی آواز میں یوں گویا ہوئے۔
’’ معاف کیجیے گا؟‘‘
اللہ جانے یہ سردی کا اثر تھا یا رعبِ حسن کا دبدبہ کہ ہمیں اپنی کپکپاتی ہوئی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی معلوم ہوئی۔
’’ جی فرمایئے ؟‘‘ وہ حسینہ فوراً ہماری جانب متوجہ ہو گئی اور اپنی کوئل جیسی آواز میں انگریزی میں گنگنائی۔
’’ کیا اس جگہ کا نام نیو مالے ہے ؟‘‘ ہم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’جی؟‘‘ اس نے غور سے سننے کی کوشش کی اور پھر ایک خوبصورت اندازِ پریشانی میں کندھے اچکائے۔ جرمنوں کا یوں کندھے اچکانے کا یہ انداز بھی ہمیں بہت پیارا لگا۔ جرمنوں کو جب بھی کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی، وہ اسی طرح اپنے کندھے اچکا دیتے ہیں۔
ہم نے کچھ دیر سوچا، اس صورتحال کا ادراک کیا اور پھر فوراً اپنی جیب سے ٹشو پیپر نکال کر اس پر اس جگہ کا نام لکھ دیا۔ جیسے اُس بورڈ پر لکھا ہوا تھا۔
’’ اوہ! نائے میوہلے۔ نائے میوہلے۔ ‘‘ وہ بیچاری کھل اٹھی۔
پھر ہم نے اس کی آواز کی نغمگی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنا تعارف کروایا اور اسے بتایا کہ ہم ابھی ابھی اس کے ملک میں وارد ہوئے ہیں اور یہ ہمارا اپنے ملک سے باہر کوئی پہلا سفر ہے۔
’’ میرا نام فاطمہ ہے۔ فاطمہ کیتی سی اوغلو!‘‘ اس نے بتایا۔
وہ ایک ترک مسلمان لڑکی تھی اور اپنی پیدائش سے ہی یہاں رہتی تھی۔ یعنی پیدایشی طور پر جرمن تھی۔ پھر کیا تھا۔ ہم نے اس کے ساتھ گپ شپ شروع کر دی۔ اسے اس جگہ کا پتہ بتلایا جہاں ہمیں جانا تھا۔ ورنافان سیمنز اسٹراسے کا نام سنتے ہی وہ دوبارہ کھل اٹھی اور اس نے بتایا کہ وہ بھی اسی جانب جائے گی، لہٰذا ہم دونوں کی بس ایک ہی ہے۔
بس آئی تو ہم دونوں اس میں سوار ہو گئے اور ایک ہی سیٹ پر بیٹھ کر ایک دوسرے سے متعلق معلومات بہم پہنچاتے رہے۔ سنٹرم پہنچ کر وہ بس سے اتر گئی اور ہمیں بتلا دیا ہمیں اب سے کوئی تین چار اسٹاپ بعد میں ورنافان سیمنز اسڑاسے پر اترنا ہے اور بس ڈرائیور کو بھی اس بارے میں واضح ہدایات دیتی ہوئی وہ ہم سے رخصت ہوئی۔ ہم نے بھی اس کا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔
ایک جگہ بس ڈرائیور نے ہمیں تار دیا جہاں سے ورنافان سیمنز اسٹراسے شروع ہو رہی تھی۔ سڑک کے گرد ڈھیروں برف پڑی ہوئی تھی۔ ہم نے اس برف میں چلنا شروع کر دیا۔ کافی دور تک اور دو ایک چوراہوں کو عبور کرنے کے بعد ہم اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ گئے۔ ہمارا ٹریننگ سنٹر ایک چھوٹی سی عمارت تھی۔ اس عمارت کو اچھی طرح دیکھنے کے بعد ہم واپس مڑے۔ راستے میں سنٹرم پر اترے میکڈانلڈ سے فش فلے اور گرم گرم کافی کا لنچ کیا اور گھر واپس آ گئے۔
شام تک بوڑھے میزبانوں کے بیٹی اور داماد بھی آ گئے جو ہفتے کا اختتامیہ ( ویک اینڈ) گزارنے کے لیے کہیں گئے ہوئے تھے۔ دونوں انگریزی جانتے تھے اور ہم سے بہت گرم جوشی کس ساتھ ملے۔ ان دونوں سے مل کر ہم نے کافی معلومات بہم پہنچائیں۔
دراصل جرمن بزرگ حضرات انگریزی بالکل نہیں جانتے، جبکہ نوجوان نسل انگریزی سیکھتی ہے۔ جہاں تک بولنے کا معاملہ ہے، اکثر نوجوان واجبی ہی بولنا جانتے ہیں، جبکہ کچھ بہت اچھی طرح بول سکتے ہیں۔ انگریزی بولنے کا رواج بالکل نہیں ہے۔ صرف غیر ملکیوں کے ساتھ انگریزی بولی جاتی ہے۔ چونکہ مشکل سے بولتے ہیں، لہٰذا ہر لفظ صاف صاف ادا کرتے ہیں اور ہمارے لیے ان کی کہی ہوئی بات کا سمجھنا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔
جرمن لوگوں کو بات کرتے ہوئے سنیں تو وہ مزاج کے بہت اکھڑ لگتے ہیں۔ لیکن ان سے بات کیجیے تو وہ بہت خوش مزاج، مہربان اور مدد کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ ہمارے ساتھ اکثر یہ ہوا کہ جب بھی ہم کسی لائن میں لگ کر کاؤنٹر تک پہنچے اور کاؤنٹر والی خاتون کے ساتھ بات چیت شروع کی اور مشکل میں پھنسے، پیچھے کوئی لڑکی فوراً نکل کر آئی اور ہماری مشکل آسان کر دی۔ اسی طرح جہاں پر کسی کو روک کر کوئی سوال پوچھا، انھوں نے بہت خوش مزاجی کے ساتھ جواب دیا اور صحیح رہنمائی کی۔
سفر کی تھکن بہت زیادہ تھی اس لیے ہم سرِ شام ہی سو گئے اور اگلے دن صبح کی خبر لائے۔
یورپ کے عین درمیان میں واقع، نارتھ اور بالٹک سمندروں اور سلسلہ کوہ آلپس کے درمیان موجود اس ملک کا سرکاری نام فیڈرل ریپبلک آف جرمنی ہے اور اس کا رقبہ لگ بھگ تین لاکھ ساٹھ ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ اس کے مشرق میں پولینڈ اور چیک ریپبلک واقع ہیں تو جنوب میں آسٹریا اور سوئٹزر لینڈ ہیں، مغرب میں فرانس، بیلجئیم لکسمبرگ اور ہالینڈ واقع ہیں اور شمال میں ڈنمارک۔ اس کا صدر مقام برلن ہے اور آبادی تقریباً اکیاسی ملین ہے۔ جس زمانے کا یہ قصہ ہے، یہ ملک دو حصوں میں بٹا ہوا تھا، مشرقی اور مغربی جرمنی۔ مغربی جرمنی فیڈرل ریپبلک آف جرمنی کہلاتا تھا اور مشرقی جرمنی پیپلز ریپبلک آف جرمنی۔ ایک ملک آہنی پردے کی اس جانب واقع تھا اور نیٹو کا حصہ تھا تو دوسرا دوسری جانب تھا اور وارسا پیکٹ میں شامل۔ ایک امریکن بلاک میں تھا تو دوسرا روسی بلاک میں۔ یورپین یونین ابھی وجود میں نہیں آیا تھا اور سوویت یونین اپنے تمامتر اتحادیوں سمیت موجود تھا۔ اور تو اور، شہر برلن بھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا، مشرقی اور مغربی برلن۔ مغربی برلن جو مشرقی جرمنی کے عین درمیان میں واقع تھا، مغربی جرمنی کا شہر تھا اور مشرقی جرمنی والوں نے اس شہر کے گرد ایک دیوار کھینچ دی تھی جو دیوارِ برلن کہلاتی تھی۔ اِس جغرافیے کے پس منظر میں، ہم مغربی جرمنی کے مہمان تھے۔
اگلے دن کی سرمئی صبح برفباری کے ساتھ طلوع ہوئی۔ ہم بمشکل اٹھے اور تیاری وغیرہ کر کے بس اسٹاپ پر جا کھڑے ہوئے۔ بس اسٹاپ کے شیڈ میں پہنچے تو اپنے مشہورِ زمانہ اوور کوٹ سے برف کو جھٹکا، سردی سے تمتمائی ہوئی اپنی ناک کو اپنے ہاتھ سے چھو کر محسوس کیا تو اللہ کا شکر بجا لائے کہ ابھی اپنی جگہ پرہی موجود ہے اور بس کا انتظار شروع کر دیا۔ مسلسل برفباری کا یہ انوکھا منظر ہم نے پہلے کب دیکھا تھا، مبہوت ہو کر ہر طرف دیکھا کیے۔ سبحان تیری قدرت۔
بس آئی تو ایک انوکھا نظارہ دیکھا۔ نہ بس ڈرائیور نے بس کو اسٹاپ سے دور لے جا کر روکا، نہ لوگوں کا ہجوم اس کی طرف دوڑا بلکہ جو کچھ لوگ بشمول رنگا رنگ کپڑوں میں ملبوس طلبا و طالبات وہاں موجود تھے ایک باقاعدہ لائن بنا کر بس کے اگلے دروازے سے داخل ہونا شروع ہوئے اور ساتھ ہی ڈرائیور کو ٹکٹ کے پیسے دیکر، اس سے ٹکٹ حاصل کرتے ہوئے، اندر داخل ہوتے رہے۔ پچھلا دروازہ مسافروں کے بس سے اترنے کے لیے تھا، لہٰذا اُدھر سے کوئی بھی شخص داخل نہیں ہوا۔ بس چل پڑی۔ اتوار کی بہ نسبت زیادہ رش تھا، اس لیے ہم بھی ایک کونے میں ڈنڈا پکڑ کر کھڑے ہو گئے اور اپنے اسٹاپ کا انتظار کر نے لگے۔
گو بس میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، لیکن سفر مزیدار گزر رہا تھا۔ جہاں برفباری کا حسین منظر بصارتوں کے لیے ایک حسین تحفہ ثابت ہو رہا تھا تو وہیں جرمن خواتین کی گفتگو کے آواز و انداز سماعتوں میں شیرینی گھول رہے تھے۔ ہم خوش ہوئے اور خوش خوش اپنے اسٹاپ پر اترے اور پھر وہیں سے اپنے تربیتی مرکز تک گرتی ہوئی برف کے مزے لیتے ہوئے ہم نے ایک طویل واک کا آغاز کر دیا۔ ہر قدم ایک نئی جد و جہد تھا۔ بمشکل زور لگا کر اپنا پاؤں برف میں سے نکالتے اور ایک فٹ دور اسے دوبارہ نرم سی برف میں دھنسا دیتے۔ برف میں چلتے چلتے، گرتے پڑتے آخر کار ہم اپنی منزل مقصود تک پہنچ ہی گئے۔ استقبالیہ پر پہنچ کر اپنے نام کا اعلان کیا اور ضروری کاروائیوں کے بعد اپنی کلاس میں پہنچا دئیے گئے۔ نئے دوستوں سے ملے۔ جو لوگ پچھلی مرتبہ کے تجربہ کار تھے، فوراً کچن سے چائے اور کافی کے تھر ماس اٹھا لائے جو فری تھے۔ ہم نے پہلی مرتبہ اسٹرانگ جرمن کافی نوش جان کی اور پسند کی۔ استاد کے آنے سے پہلے پہلے ہم کافی پی کر سردی سے بچاؤ کی تدابیر اور اپنی کلاس کے دوستوں کے ساتھ اچھی خاصی گپ شپ کر چکے تھے۔ استاد صاحب تشریف لائے اور ایک عدد بور قسم کی تربیت کا آغاز ہوا۔ دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہوا تو دوستوں کے ہمراہ کمپنی کی ایک دوسری عمارت میں پہنچ گئے۔ کینٹین میں پہنچے تو وہاں پر بھی ایک عجیب و غریب منظر دیکھا۔ کیا چھوٹا، کیا بڑا ہر افسر و کلرک ایک ہی لائن میں کھڑے ہوئے تھے۔
ایک ہی صف میں کھڑے تھے گویا محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
کینٹین میں پہنچ کر حلال غذا کی تلاش شروع کی اور آخر کار تھک ہار کر سلاد، ڈبل روٹی اور مکھن قسم کی اشیا پر ہی گزارا کیا۔
شام سے پہلے پہلے ہم ریشارد شغم ( رچرڈ شرم) ایک جرمن ساتھی اور ایک کینیڈین ساتھی سے گہری دوستی گانٹھ چکے تھے۔ شرم کو اپنے پروگرام کے بارے میں بتایا کہ ہم ایک عدد کموڈور ۶۴ کمپیوٹر خریدنا چاہتے ہیں تو اس نے جی جان سے مدد کا وعدہ کر لیا۔ کینیڈین ساتھی نے بتایا کہ وہ سنٹرم کے قریب ہی ہوٹل پیئر میں قیام پذیر ہے تو روزانہ اس کے ساتھ پیدل ہی سنٹرم تک جانے لگے۔ سنٹرم تک پہنچ کر پہلے تو کسی ریسٹورینٹ میں بیٹھ کر کافی کا ایک اور کپ نوشِ جان فرماتے اور اپنے کینیڈین ساتھی کو جامِ شراب لنڈھاتے ہوئے یعنی بئیر کا ایک بڑا گلاس اس کے حلق سے اتارتے ہوئے دیکھتے، ڈھیروں باتیں کرتے اور پھر اسے اس کے ہوٹل چھوڑتے ہوئے اپنی بس پکڑتے۔ کبھی کبھی رات ہو جانے پر میکڈانلڈ سے فش فلے اور کافی یا ہاٹ چاکلیٹ کا ایک بڑا گلاس لیتے اور اس طرح رات کے کھانے سے فارغ ہو کر ہی اپنے کمرے میں واپس پہنچتے۔ ادھر یہ بات بھی پتہ چلی کہ ہم پہلے دن سے جس بس اسٹاپ پر اترتے آرہے تھے وہ ٹریننگ سنٹر سے کافی دور تھا، اگر ہم ایک دو اسٹاپ بس کو اور برداشت کرتے تو قریبی اسٹاپ پر اتر سکتے تھے۔ خیر آئندہ کے لیے ہم نے اپنے راستے میں تبدیلی کر لی اور دو اسٹاپ کے بعد اترنے لگے۔
کینیڈین ساتھی ہی کی بدولت ایک اور یوروپین سے دوستی ہوئی جو کسی اور کلاس میں تھا اور وقفوں میں کافی پینے کے لیے ہمارے کمرے میں آجاتا تھا۔ اس کا نام اب بھی یاد ہے، وہ سوین گنار اولسن تھا۔ بلا کا باتونی۔ ہر موضوع پر بولتا اور اچھا بولتا تھا۔ ادھر شرم کے ساتھ دوستی بھی اچھی نبھ رہی تھی، یعنی اس نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا تھا۔ پہلے تو وہ ہمیں شہر کے مختلف اسٹورز پر لے گیا اور وہاں ہماری فرمائش پر کموڈور کی قیمت دریافت کی، پھر ہمیں لے کر شہر سے تقریباً باہر ایک بڑے اسٹور پر جا کر ان کے کاؤنٹر پر ہمیں پیش کر دیا۔ ہم نے کمپیوٹر کی قیمت دریافت کی تو پتہ چلا کہ قیمت میں کہیں بھی فرق نہیں ہے، لہٰذا ہم نے اپنے پیارے دوست شرم کے مشورے کے ساتھ، وہیں سے اپنی زندگی کا سب سے پہلا کمپیوٹر مع ایک عدد فلاپی ڈرائیو کے خریدا۔ ہم نے ان دونوں چیزوں کے نام لیے اور کلرک نے قریب ہی کسی شیلف سے نکال کر ان چیزوں کو ہمارے حوالے کر دیا۔ نہ چیکنگ کی دِقت اور نہ ڈبے کھولنے کی ضرورت، ہم نے قیمت ادا کی اور شرم کے ساتھ آ کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ اب ایک مشکل اور تھی۔ اس کمپیوٹر کو ہم کون مانیٹر پر دیکھیں گے ؟ ہم نے شرم کو اس مشکل سے آگاہ کیا تو اس نے فوراً گاڑی موڑ لی اور سنٹرم میں واقع واحد ڈیپارٹمنٹل اسٹور پہنچ کر ہمیں ایک عدد چھوٹا، چھ انچ اسکرین کا بلیک اینڈ وہائٹ ٹی وی بھی مول لے دیا۔ ہماری ساری مشکلیں آسان ہو چکی تھیں۔ کشاں کشاں گھر پہنچے۔ گھر پہنچ کر ٹی وی کو ٹیون کیا اور جرمن نشریات دیکھتے ہوئے کمپئیوٹر کو اس کے ڈبوں سے نکال کر سیٹ کیا۔ پھر کیا تھا، ہماری تو پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اور سر کڑھائی میں۔ رات کو باری باری، دیر تک، کبھی ٹی وی دیکھتے اور کبھی کمپیوٹر سے کھیلتے۔ چند ایک جملوں کے علاوہ،( مثلاً ڈانکے شون یا ڈانکے، بیٹے شون، آف ویڈے زین، اش بین آئنے ٹیکنیکار وغیرہ) جو ہم اب تک سیکھ چکے تھے، جرمن زبان گو ہماری سمجھ سے بالاتر تھی، پھر بھی کبھی کبھی تو اتنے ‘اچھے ‘ اور ‘دلچسپ‘ پروگرام دیکھنے کو ملتے تھے کہ طبیعت باغ باغ ہو جاتی اور ہم عش عش کر اٹھتے۔ یہی لن ترانیاں تھیں اور ہم تھے۔ پورا ہفتہ اسی طرح مصروف گزر گیا۔
ایک ایسے ہی جمعے کی شام کا ذکر ہے، ہم ٹریننگ سنٹر کی مصروفیات سے فارغ ہو کر اپنے کینیڈین دوست کے ساتھ ایک قریبی ریستوران میں بیٹھے موسم کا لطف اٹھا رہے تھے اور ساتھ ہی اسی طرح کافی کی چسکیاں لے رہے تھے، جس طرح ہمارا دوست بیئر کے مزے لے رہا تھا۔ کتنی شیریں تھی زندگی اُس پل۔ پاکستان سے باہر جا کر جمعہ کی شام کا تو لطف ہی دوبالا ہو جاتا ہے۔ ڈھائی دن کی پُر لطف چھٹی ہمارے سامنے تھی۔ چاہیں سوئیں، چاہیں اپنے نئے کمپیوٹر پر گیم کھیلیں، چاہیں لیٹے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے۔
اچانک ہمارے کینیڈین دوست نے اپنی خمار آلود نگاہیں اوپر اٹھائیں اور ہم سے مخاطب ہوا۔
’’ خلیل! کیا خیال ہے ؟ کیوں نہ برلن چلیں ؟‘‘
’’برلن؟ ابھی؟‘‘ ہم حیران رہ گئے۔ ’’ گورا نشے میں ہے۔ ‘‘ ہم نے سوچا۔
’’ہاں۔ کیوں نہیں ؟‘‘ وہ ترنگ میں آ کر بولا۔
اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ دو دن کی پہاڑ جیسی چھٹی ہمارے سامنے تھی۔ ہم نے فوراً حامی بھر لی۔
ہم دونوں نے جلد جلد اپنے مشروبات ختم کیے اور وہاں سے نکل کر ریلوے اسٹیشن پہنچے جو سنٹرم سے زیادہ دور نہ تھا۔ معلومات کی کھڑکی سے معلوم ہوا کہ برلن جانے والی انٹر سٹی ریل گاڑی رات بارہ بجے یہاں سے روانہ ہو گی۔ ہم نے بکنگ کروا لی اور اپنے اپنے مستقر کی طرف روانہ ہو گئے۔ رات بارہ بجے دوبارہ ایک ایک تھیلا لیے اسٹیشن پر ملے اور ٹرین کے آنے پر اطمینان کے ساتھ اس کی آرام دہ سیٹوں پر براجمان ہو گئے۔ ٹرین ساری رات کئی گھنٹے چل کر صبح سویرے برلن زو اسٹیشن پہنچے گی۔ ریل گاڑی چھکا چھک چلی اور ایرلانگن سے روانہ ہوئی اور رات کے کسی پہر سرحد پار کر گئی۔ کچھ سرحدی گارڈ ریل گاڑی پر چڑھ آئے اور لگے پاسپورٹ چیک کرنے۔ ہم دونوں نے اپنے پاسپورٹ ان کے حوالے کیے تو انھوں نے کاغذی کارروائی کے بعد ایک علیحدہ کاغذ پر مشرقی جرمنی کا ٹرانزٹ ویزا ہمارے حوالے کر دیا اور یوں ہم مغربی جرمنی سے مشرقی جرمنی میں داخل ہو گئے۔
ہم نے آرام دہ برتھ پر لیٹ کر آنکھیں بند کر لیں اور ایک دوسری دنیا میں پہنچ گئے۔ صبح سویرے تازہ دم ہو کر اٹھے تو اجالا پھیل چکا تھا اور ریل گاڑی مشرقی جرمنی کے میدانوں، کھیتوں اور کھلیا نوں، بستیوں اور ویرانوں سے دوڑتی ہوئی گزرتی جا رہی تھی۔ پہلی چیز جو ہم نے محسوس کی وہ مغربی جرمنی اور مشرقی جرمنی کے ماحول کا واضح فرق تھا۔ جہاں مغربی جرمنی کے ماحول سے امارت ٹپکتی تھی وہیں مشرقی جرمنی کا ماحول نسبتاً غربت کی عکاسی کرتا تھا۔ تھوڑی دیر میں ہم مشرقی جرمنی کو عبور کر کے مغربی برلن میں داخل ہو گئے اور صبح سات بجے کے قریب برلن زو نامی ریلوے اسٹیشن پر اتر گئے۔
ریلوے اسٹیشن سے خراماں خراماں چلتے ہوئے باہر نکلے تو برلن کی خوبصورت صبح اپنے حسین جلوے بکھیرے ہماری منتظر تھی۔ ہم نے سڑک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ٹہلتے ہوئے ایک چکر لگا یا اور برلن کا مشہور ناشتہ کرنے کے لیے ریستوران کے باہر لگی ہوئی ایک میز پر براجمان ہو گئے۔ مزے لے لے کر ناشتہ کیا اور اس دوران موسم اور دیگر نظاروں کا خوب لطف اٹھایا۔ ناشتے سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ قریب ہی کئی ٹوور بسیں مسافروں کے انتظار میں کھڑی تھیں۔ ہم نے بھی مشرقی برلن کے ٹوور کا بس ٹکٹ خرید لیا۔ یہ سفر چار گھنٹے دورانیئے کا تھا۔ بس کچھ دیر مسافروں کے انتظار کے بعد ہمیں لے کر چلی تو آن کی آن میں دیوار برلن کی مشہور گزرگاہ چیک پوائنٹ چارلی پہنچ گئی۔ یہاں ہم قارئین کو اس بدنامِ زمانہ دیوار کی تاریخ سے آگاہ کرتے چلیں۔
جنگِ عظیم دوم کے اختتام پر شکست خوردہ جرمنی کو اتحادیوں کے چار فاتح ملکوں یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس اور روس نے پوٹسڈیم ایگریمنٹ کے ذریعے چار حصوں میں بانٹ لیا۔ برلن جو جرمنی کا دارالخلافہ تھا، اسے بھی اسی طرح چار سیکٹرز یعنی حصوں میں بانٹ دیا گیا۔ اس بندر بانٹ کے دو سال کے اندر اندر ہی اتحادی قوتوں کا فاتح اتحاد پارہ پارہ ہو گیا اور روس اپنے حصے کو لیکر علیحدہ ہو گیا۔ اِدھر امریکہ برطانیہ فرانس اور قریبی ہالینڈ، بیلجئیم اور لکسمبرگ نے مارشل پلان کے ذریعے باقی تین حصوں کو ملا کر مغربی جرمنی کی تشکیل کی راہ ہموار کر دی۔ مغربی برلن بھی اسی منصوبے کے تحت مغربی جرمنی کی حدود میں آ گیا۔
مشرقی جرمنی کے تسلط سے آزادی پانے کے خواہش مند سینکڑوں باشندوں نے موقع غنیمت جانا اور اور سرحد پار کر کے مغربی برلن پہنچنا شروع ہو گئے، جہاں سے وہ آزاد ی کے ساتھ مغربی جرمنی جا سکتے تھے۔
اس صورتحال کے پیشِ نظر ۱۹۴۸ میں روسی ڈکٹیٹر جوزف اسٹالن نے مغربی برلن کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اور اسے چاروں طرف سے گھیر کر ہر قسم کی آمد و رفت اور سپلائیز کو روک دیا گیا۔ مغربی طاقتوں نے اس مشکل صورتحال سے اہلِ شہر کو نکالنے اور ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کے لیے برلن ائر لفٹ کا پروگرام بنایا اور اس طرح تمام نجی ائر لائینز کو اس پروگرام میں شرکت کی دعوت دی۔ برلن ائر لفٹ نے اس بائیکاٹ کو بے معنی بنا دیا تو ۱۹۴۹ میں یہ بائیکاٹ ختم کر دیا گیا۔ ۱۳ اگست ۱۹۶۱ کو مشرقی جرمنی نے دیوار برلن کی تعمیر شروع کی اور اس طرح مغربی برلن کو گھیر کر ہر قسم کی آمد و رفت کو ناممکن بنا دیا۔
بالآخر ۱۹۸۹ میں جرمنی متحد ہوا، اور اس دیوار کو گرا دیا گیا لیکن اس عرصے میں تقریباً ۵۰۰۰ لوگوں نے دیوار پھلانگنے کی کوشش کی جن میں سے تقریباً دوسو افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ۱۹۸۶ میں جب ہم مغربی جرمنی پہنچے، تو جرمنی دو حصوں میں منقسم تھا اور دیوارِ برلن اپنی تمام تر حشر سامانیوں سمیت موجود تھی، جسے ہم چار گھنٹے کے لیے عبور کیا چاہتے تھے۔
ہماری بس چیک پوائینٹ چارلی پہنچی تو مغربی جرمنی کی سرحد پر متعین گارڈز نے ہمارے پاسپورٹ کا جائزہ لیا اور ہمیں آگے بڑھنے کا اشارہ کر دیا۔ بس رینگتی ہوئی آگے بڑھی اور نو مینز لینڈ سے ہوتی ہوئی مشرقی جرمنی کی سرحد پر پہنچ گئی۔ دیوارِ برلن کو دیکھ کر جو ہیبت ہم پر طاری ہو گئی تھی وہ اور زیادہ گہری ہو گئی۔ مشرقی جرمن فوجیوں نے انتہائی سرعت کے ساتھ بس کو گھیرے میں لے لیا اور اس کی جامع تلاشی شروع کر دی۔ تمام مسافروں کے پاسپورٹ چیک کر کے اپنے قبضے میں کر لیے گئے اور بس کی نچلی منزل پر واقع سامان کے کمپارٹمنٹ کو کھول کر اس کی بھی تلاشی لی گئی۔ تقریباً آدھے گھنٹے کی چیکنگ کے بعد آخر کار ہمیں آگے بڑھنے کا اشارہ کیا گیا۔ اب ہم اگلے چار گھنٹے تک اس بس سے چمٹے رہنے پر مجبور تھے اس لیے کہ ہمارے پاسپورٹ فوجیوں نے اپنے قبضے میں لے لیے تھے جو بشرط واپسی ہی ہمیں لوٹائے جانے تھے۔ ہمارے دل میں یہ احساس جاگزیں ہو چکا تھا کہ ہم ایک آزاد دنیا سے ایک قید خانے میں جا رہے تھے۔ ایک عجیب اداسی کی کیفیت ہمارے حواس پر طاری ہو رہی تھی۔ اے اداسی تجھے سلام۔ ہم جو صرف چار گھنٹے کے لیے اس دنیا میں داخل ہوا چاہتے تھے، پریشان تھے، اداس تھے، اپنی آزادی کے چھن جانے پر خوفزدہ تھے۔ ہمیں ان لوگوں کا بھی خیال تھا جو اپنی ساری زندگی اس قید خانے میں گزارنے پر مجبور تھے۔ جن کے ارد گرد ایک لوہے کا پردہ ڈال دیا گیا تھا۔ جو اس وسیع و عریض قید خانے میں ضمیر کے قیدی تھے۔ بھاری دل کے ساتھ ہم نے اس نئی دنیا میں قدم رکھا اور ہماری بس نے چیک پوایئنٹ چارلی سے مشرقی برلن ( مشرقی جرمنی) میں سفر شروع کیا۔
بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اس مقام پر ہمارے پیارے قارئین کو چیک پوائینٹ چارلی سے متعلق کچھ معلومات فراہم کر دی جائیں۔ یہ معلومات ہم نے مندرجہ ذیل ویب سائیٹ سے لی ہیں۔ قارئین اس ویب سائیٹ پر جا کر دیوارِ برلن کی پوری تاریخ جان سکتے ہیں۔
http://www.dailysoft.com/berlinwall/history/
’’ ۱۳ اگست ۱۹۶۱ کو سرحد بند کرنے کے دس دن بعد، سیاحوں، دوسرے ممالک کے افسروں ( ڈپلو میٹس ) اور مغربی طاقتوں کے فوجیوں کو مشرقی برلن میں داخلے کے لیے صرف فریڈریش اسٹراسے پر واقع گیٹ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی۔ کچھ دن بعد، اس کے علاوہ دو اور چیک پوائینٹس کھولے گئے جن میں سے ایک مغربی جرمنی کی سرحد پر واقع تھا اور ہیلم اشٹاڈ میں تھا اور دوسرا مغربی برلن اور مشرقی جرمنی کی سرحد پر،ڈرائی لنڈن میں تھا۔ ان تین چیک پوائینٹس کو بالترتیب چیک پوائینٹ الفا ( ڈرائی لنڈن)، چیک پوائینٹ براوو ( ہیلم اشٹاڈ) اور چیک پوائینٹ چارلی ( فریڈریش اسٹراسے ) کے نام سے پکارا گیا۔ ‘‘
چیک پوائینٹ چارلی سے آگے بڑھے تو ہماری حسین گائڈ نے بس کے انٹر کام پر ہمیں خوش آمدید کہا اور ارد گرد کی عمارات سے متعلق معلومات بہم پہنچانا شروع کر دیں۔ ہم ایک کشادہ سڑک پر پہنچے تو گائڈ نے بتایا کہ اس سڑک کا نام اُنٹر ڈی لنٹن یعنی ’’لیموں کے درختوں کی چھاؤں میں ‘‘ ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اس سڑک پر دو رویہ لیموں کے درخت لگائے گئے تھے جس کی وجہ سے اس اسٹراسے کا نام ہی اُنٹر ڈی لنٹن پڑ گیا تھا۔ اس وسیع و عریض شاہراہ کے دونوں جانب انتہائی عالیشان عمارتیں اس شہر کے عظیم ماضی کے قصے سنا رہی تھیں۔ ایک ایک عمارت دیکھنے کے لائق تھی۔ خوبصورت، عالیشان اور فن تعمیر کا ایک اعلیٰ نمونہ۔ یکے بعد دیگرے ان عمارتوں کا ایک سلسلہ تھا جو دور تک پھیلا ہوا تھا۔ پتھر کی بنی ہوئی یہ بلند و بالا عمارتیں اس پارینہ عظمت کے گن گا رہی تھیں جو اس شہر اور اس عظیم ملک کا خاصہ تھی۔ ہم دیکھتے ہی چلے گئے۔ کبھی بس کے سامنے کے شیشے سے آنے والی عمارت کو دیکھتے، کبھی دائیں دیکھتے اور کبھی بائیں۔ ادھر ہماری گائڈ ایک خوبصورت جرمن خاتون تھی جس کے گلے کی حلاوت پر ہم کئی کئی مرتبہ قربان ہو ہو سے گئے۔ اس کا بیان پہلے جرمن اور پھر انگلش زبان میں ہوتا۔ پہلے ہم اس کے حسین چہرے کی بناوٹ کو دیکھتے ہوئے اس کے خوبصورت منہ سے جرمن زبان کی شیرینی کے مزے لوٹتے اور پھر انگلش میں اس کا مدعا جانتے۔ پہلے جرمن زبان میں وہ جب بھی شہر برلن کا تذکرہ کرتی، اس کے بیان میں لفظ ‘برلن‘ ہمیں بلین سنائی دیتا، پھر اس کے ترجمے میں وہ اسے انگلش لہجے میں بورلن ( رے کو پر کر کے ) ادا کرتی۔ ہم جو اس کے الفاظ کی ادائیگی اور تلفظ پر پہلے ہی فدا ہو رہے تھے، اس لفظ کو دو مختلف زبانوں میں سن کر تو جھوم جھوم اٹھتے۔ اگلے تین گھنٹے کچھ اس تیزی کے ساتھ گزرے کہ ہم حیران رہ گئے۔ کاش کچھ اور وقت ملا ہوتا تاکہ ہم اس کی زبان کی شیرینی سے صحیح طور پر لطف اندوز ہو سکتے۔ کاش کچھ اور وقت ملا ہوتا اور ہم پیدل گھوم کر ان عمارتوں کو دیکھ پاتے۔ یہی سوچتے ہوئے ہم ایک ایک گزرے ہوئے لمحے کو اپنی یادداشت میں محفوظ کرتے رہے۔
ایک جگہ، پتھر کی خوبصورت عمارت کے صحن میں ہمیں بس سے تارا گیا۔ ہم نے ٹانگیں سیدھی کیں اور گائڈ کی جانب دیکھا تو پتا چلا کہ ہمیں ایک عدد میوزیم کو دیکھنے کے لیے یہاں روکا گیا ہے۔ میوزیم بھی خاصا دلچسپ تھا۔ فارغ ہوئے تو پھر بس میں اپنی اپنی سیٹ سنبھالی اور اپنی حسین ٹوور گائڈ اور مشرقی برلن کے خوبصورت نظاروں میں کھو گئے۔
بس میں سے چلتے چلتے ہم نے ایک عدد عالیشان اور خوبصورت گیٹ کو بھی دیکھا جس کے اوپر ایک لائف سائز رتھ کو چار تنومند گھوڑے کھینچ رہے تھے۔ اس ’’کواڈریگا ‘‘ یعنی رتھ کو جرمن دیومالائی کہانیوں کی فتح کی دیوی ’’ وکٹوریہ‘‘ چلا رہی ہے۔ پتھر کا بنا ہوا یہ مجسمہ اتنا دل لبھانے والا تھا کہ ہم مبہوت ہو کر اسے دیکھتے رہے جب تک کہ وہ ہماری نظروں سے اوجھل نہ ہو گیا۔ یہ عمارت جس کا نام برنڈن برگ گیٹ ہے، برلن کا لینڈمارک یا علامتی عمارت کہلائی جانے کی بجا طور پر مستحق ہے
کبھی کبھی دیوار برلن کی بھی ہمیں ایک آدھ جھلک نظر آ جاتی تھی لیکن دور دور سے، ا دھر ہماری گائڈ اس بارے میں خاموش تھی۔ وہ ہمیں سامنے سے گزرنے والی عمارتوں کے ماضی بعید کے بارے میں فر فر بتاتی رہی، لیکن پچھلے پچاس ساٹھ سالہ تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
خیر صاحب، یہ چار گھنٹے کہاں گئے، ہمیں آج تک نہیں پتا چلا۔ ہم ایک خوابناک انداز میں اس عظیم الشان شہر کو دیکھتے رہے یہاں تک کہ بس دوبارہ چیک پوائینٹ چارلی پر پہنچ کر رک گئی۔ اب جو تلاشی شروع ہوئی ہے تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ بس کے ہر کونے کھدرے کی تلاشی لی گئی۔ سامان کے کمپارٹمنٹ کو دوبارہ کھلوا کر ایک ایک سوٹ کیس اور بیگ کو نکال کر دیکھا گیا۔ دراصل مشرقی جرمنی والے یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا کوئی بھی شہری ان کے چنگل سے آزاد ہو کر آزاد دنیا میں جا سکے اور سکھ اور چین کا سانس لے سکے۔ ہمیں ہر لمحہ یہ خوف دامن گیر تھا کہ کہیں ہمیں کسی نا کر دہ گناہ کی پاداش میں روک ہی نہ لیا جائے۔ خیر خدا خدا کر کے اس تکلیف دہ صورت حال کا خاتمہ ہوا اور فوجیوں نے بس کو آگے بڑھانے کا اشارہ کر دیا۔ ہمیں اپنے پاسپورٹ کی بھی فکر دامن گیر تھی لیکن گائڈ کے ہاتھوں میں پاسپورٹوں کی گڈی میں جھانکتا ہوا ہرا رنگ دیکھ کر جان میں جان آئی۔ بس نے ہمیں اسی چوک میں اتار دیا جہاں سے ہم اس سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہم مشرقی جرمنی کے شہر مشرقی برلن ہو آئے ہیں۔ ہم نے اور ہمارے کینیڈین دوست نے اپنے اپنے پاسپورٹ سنبھالے اور دوسری بس کی جانب بڑھے جو مغربی برلن کی سیر کے لیے تیار تھی۔
اگلے آدھے گھنٹے کے اندر اندر ہم مغربی برلن کی سیر کی غرض سے ایک دوسری بس میں آرام سے بیٹھے تھے، ہماری ہمسفر گائڈ ایک اور جرمن شگفتہ چہرے والی خاتون تھی اور بس اپنے سفر پر روانہ ہونے کو تھی۔ ہم نے اپنی نگاہیں گائڈ کے چاند سے چہرے پر گاڑ دیں اور مغربی برلن کی بہاریں دیکھنے کے لیے تیار ہو گئے۔
بس چلی تو سب سے پہلا نظارہ قیصر ویلہلم کا گرجا تھا جو جنگ عظیم دوم میں تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا، اس کا تباہ شدہ مینار اب بھی اسی حالت میں کھڑا عظمت رفتہ کی کہانی سنا رہا ہے جس کے برابر ۱۹۶۳ میں ایک نئی عمارت بنا دی گئی ہے۔ بس گھومتی رہی اور ہم مغربی جرمنی کی خوبصورت اور نسبتاً نئی عمارات کو دیکھتے رہے۔ ہمارا خیال ہے کہ زیادہ تاریخی اور عالیشان عمارات شہر کے مشرقی حصے میں تھیں۔ بس نے ہمیں دیوارِ برلن کے قریب ایک عمارت میں اتارا اور ہم اس میوزیم کو دیکھتے ہوئے دیوارِ برلن کی اصل کہانی سنتے رہے۔ یہاں سے ہم دیوار کے قریب گئے اور اس پر مغربی جانب بنے ہوئے مصوری کے نمونے دیکھا کیے۔ قریب ہی کچھ قبریں بھی تھیں جو دیوار پار کرنے والوں پر مشرقی گارڈز کے ظلم کی داستان سنا رہی تھیں۔
ہم نے میوزیم کی عمارت کے چبوترے پر چڑھ کر دوسری طرف جھانکا تو قریب ہی برنڈن برگ گیٹ کی عالیشان عمارت نظر آ رہی تھی۔ دیوار کی دوسری جانب ایک ہیبت ناک سناٹا چھایا ہوا تھا اور کوئی آدم یا آدم زاد نظر نہیں آتا تھا، گو یا کسی انسان کو بھی اُدھر دم مارنے کی اجازت نہ تھی، اِدھر مغربی جانب اسے ایک مصور دیوار کی حیثیت حاصل تھی جس پر ہزاروں مصوروں نے اپنے نقش و نگار چھوڑے تھے۔
بحیثیت مجموعی برلن ہمیں اچھا لگا تھا۔ آج تقریباً پچیس سال بعد ہم اس شہر کو دوبارہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ متحدہ برلن کتنا عظیم الشان شہر ہو گا۔ اس کریہہ المنظر دیوار کا کیا ہوا ہو گا۔ ٹی وی پر کئی مرتبہ اس دیوار کو گرتے ہوئے دیکھا ہے، جو ہمیں بہت اچھا لگا۔ اس وقت لوگوں کے بپھرے ہوئے جذبات کا کیا عالم ہو گا جب انھوں نے ہر زنجیر کو توڑ دیا اور اس قبیح دیوار کو آخر کار گرا دیا جس نے انھیں پچاس سال ایک دوسرے سے جدا رکھا تھا۔ اس دنیا میں ہم نے ایک ملک کے اتحاد کو پارہ پارہ ہوتے ہوئے تو اکثر دیکھا ہے لیکن یونیفیکیشن یعنی ایک ملک کے دو حصوں کو متحد ہوتے ہوئے پہلی بار دیکھا۔ People have spoken عوام کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا۔
اپنے دن کی اس مصروفیت میں ہم دوپہر کا کھانا بھول چکے تھے، لہٰذا ان دونوں سفروں سے فارغ ہو کر ہم نے ایک ریستوران میں جا کر رات کا کھانا کھایا، اور اسٹیشن پہنچ کر میونخ کی ٹرین پر سوار ہو گئے۔ ابھی اتوار کا دن باقی تھا جسے ہم میونخ کی سیر میں گزارنا چاہتے تھے۔ آج ساری رات سفر میں سوتے ہوئے گزار کر کل صبح سویرے ہم میونخ پہنچ جائیں گے جسے اہلِ جرمنی میونچن کہتے ہیں۔
رات آئی تو پھر گارڈز نے ہمارے پاسپورٹ چیک کیے اور ہمیں مشرقی جرمنی کا ٹرازٹ ویزا تھما دیا۔ یہ دونوں کاغذات اب بھی ہمارے خزانے میں موجود ہیں۔ جب کبھی ہم اپنے اس خزانے کو نکال کر دیکھنا شروع کرتے ہیں میموری لین میں پہنچ جاتے ہیں، اپنی پیاری یادوں کے درمیان، جب ہم نے یہ سفر کیے تھے۔ جب ہم نے اس انوکھی سرزمین کی سیر کی تھی۔
اس سفر سے واپسی کے بعد برلن ہمارے لیے اجنبی شہر نہ تھا۔ جب کبھی کسی ناول میں اس کا تذکرہ آتا، ہم بہت شوق سے اسے پڑھتے۔ برلن جسے ہم دیکھ چکے۔ دیوارِ برلن جو اب قصہ پارینا بن چکی، ہم نے اسے دیکھا ہے۔ جان لی کار کا جاسوسی ناول ’’دی اسپائی ہو کیم ان فرام دی کولڈ‘‘ ہمارے پسندیدہ ناولوں میں سے ہے۔ یہ اسی دور کی کہا نی ہے جب دنیا دو حصوں میں بٹی ہوئی تھی۔ دیوار برلن کے اُس طرف اور دیوارِ برلن کے اِس طرف۔ آہنی پردے کر اُس طرف اور آہنی پردے کے اِس طرف۔ یہ ٹھنڈی جنگ یعنی ‘کولڈ وار‘ کا قصہ ہے۔ اسی ناول میں چک پوائینٹ چارلی کا تذکرہ بھی موجود ہے جسے عبور کرتے ہوئے ایک کر دار مشرقی جرمن فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بن جاتا ہے۔ یہ وہی چیک پوائینٹ چارلی ہے جسے عبور کر کے ہم مشرقی برلن گئے تھے۔
اگلی صبح ہم میونچن پہنچ گئے اور سارا دن اسی طرح اس عظیم شہر کی سیر کی اور شام ڈھلے ایرلانگن کو سدھارے۔ میونچن، نورمبرگ اور ایرلانگن، جرمن صوبے بویریا کا حصہ ہیں۔ بویریا کے رہنے والے بائر کہلاتے ہیں۔ ریشارڈ شرم بھی ایک بائر تھا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا۔
It‘s nice to be a price but it‘s higher to be a Bayar
’’پرائس ہونا اچھا ہے لیکن بائر ہونا زیادہ بہتر ہے۔ ‘‘
کہتے ہیں پرانے زمانے میں بویریا میں گھڑیاں الٹی چلتی تھیں۔ آج بھی بویریا کی گھڑیوں کی دکانوں پر آپ کو ایسی گھڑیاں مل جاتی ہیں جو کاؤنٹر کلاک وائز چلتی ہیں۔ ہم نے بھی میونچن سے ایک ایسی ہی دیوار گھڑی ( وال کلاک) مول لی جو الٹی چلتی تھی۔ گھر لا کر اکثر ہم اپنے مہمانوں کو یہ عجیب و غریب گھڑی دِکھا کر حیران کر دیا کرتے تھے۔
ہمارا ویک اینڈ ختم ہو رہا تھا۔ کل سے پھر وہی ٹریننگ ہو گی اور وہی مصروفیات۔ اِس کورس میں ابھی ایک ہفتہ باقی ہے۔ اگلے ہفتے بابو بھی کراچی سے آرہے ہیں جن کے ساتھ مل کر ہم ایک دوسری ٹریننگ حاصل کریں گے، ایک دوسری جماعت کا حصہ بنیں گے۔ ہمارا کینیڈین دوست، ہمارا جرمن دوست ریشادڑ شرم اور سوین گنار اولسن سب اپنے اپنے گھروں کو سدھاریں گے، شاید پھر کبھی نہ ملنے کے لیے۔ ٹرین جوں جوں ایرلانگن سے قریب ہوتی جاتی تھی، ہماری اداسی بڑھتی جاتی تھی۔ اے اداسی تجھے سلام۔
اسی کشمکش میں گزریں مری جرمنی کی راتیں
کبھی کچھ حسین چہرے، کبھی ان کی شوخ باتیں
خبردار ! بلکہ ایک مرتبہ پھر خبردار!۔ کہیں شاعرِ مشرق کے ساتھ ہماری اس برجستہ گستاخی سے کوئی اور مطلب نہ نکال لیجیے گا۔ ہم تو ( غالب کی روح سے معذرت کے ساتھ) صرف اس بات کے قائل ہیں کہ
نیند اس کی ہے ! دماغ اس کا ہے ! راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے خوابوں میں پریشاں ہو گئیں
جمعہ کی صبح ہمارے لیے، خوشی و غم کے ملے جلے جذبات لے کر آئی۔ آج جرمنی میں ہمارے پہلے کورس کا اختتام تھا اور اس حوالے سے جہاں ہمیں اپنے پرانے دوستوں کے بچھڑنے کا غم تھا وہیں بابو کی آمد اور نئے دوستوں سے ملاقات کی خوشی اور اشتیاق تھا۔ تربیت گاہ پہنچے تو ایک عجیب منظر دیکھا۔ کسی منچلے نے تختۂ سیاہ پر جلی حروف میں ٹی۔ جی۔ آئی ایف لکھ دیا تھا۔ ہماری کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ اس شوخیِ تحریر کا آخر مدعا کیا ہے۔ ہمارے کینیڈین دوست نے فوراً ہماری مشکل آسان کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ اس کا مطلب ہے، ’’تھینک گاڈ اِٹس فرائیڈے‘‘ یعنی اللہ کا شکر ہے آج جمعہ ہے۔
تب تو ہم فوراً سمجھ گئے۔ دراصل مغرب میں ہفتے کا اختتامیہ دو دن یعنی ہفتے اور اتوار پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان دو دنوں میں اہل مرکب مکمل تفریح کرتے ہیں، لہٰذا جمعے کا مبارک دن انہیں اس ڈھائی دن کی چھٹی کا مژدہ سناتا ہے۔ ہم نے وہاں برف باری کے دوران منچلے لوگوں کو اپنی فور وہیل ڈرائیو جیپ پر اپنی کھڑی سائیکلیں کسے گھر سے دور پکنک پر جاتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
کچھ دوست جو یورپ یا جرمنی ہی کے دوسرے شہروں سے آئے تھے، صبح ہی اپنے ہوٹلوں سے چھٹکارا حاصل کر چکے تھے اور اپنا سارا سامان اپنی موٹر گاڑیوں میں ڈال لائے تھے تاکہ دوپہر کو لنچ کرتے ہی اپنے اپنے ٹھکانوں کو لوٹ جائیں۔ ہم پچھلے ہفتے کھائی ہوئی دو دعوتوں کے خمار میں تھے۔ پہلی دعوت ہمارے پیارے دوست ریشارڈ شغم نے صرف ہمیں دی تھی اور دوسری دعوت ہمارے ریجن کے منتظم نے اپنے تمام مہمان طالب علموں کو دی تھی۔ ان دونوں حسین شاموں کا تذکرہ بھی اب ہمارے لیے ایک میٹھی میٹھی، لذت انگیز، درد بھری کسک کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ یہ دنیا اچھے، ملنسار اور دوست لوگوں سے بھری ہوئی ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ جب بھی دو انسان کچھ دنوں کے لیے ایک دوسرے کے قریب وقت گزارتے ہیں، لازمی طور پر ایک دوسرے کے دوست بن جاتے ہیں۔ وہ لوگ ایک دن ہمیں ضرور یاد آتے ہیں اور بے طرح یاد آتے ہیں۔ ہمیں آج یہ واقعات لکھتے ہوئے نہ صرف اپنے وہ دوست یاد آرہے ہیں بلکہ اپنے سنڈک ری اسکول کے ایک استاد کا ہماری آٹو گراف بک پر لکھا ہوا یہ شعر بھی یاد آ رہا ہے۔
فرصت نہ دیں گے یوں تو غمِ زیست ایک پل
کچھ دن تمہاری یاد مگر، آئے گی ضرور
ایک دن صبح ہی ریشادڈ نے ہمیں اپنے گھر پر رات کے کھانے کے لیے دعوت دے ڈالی اور ہم نے لگے ہاتھوں، بصد شکریہ اس دعوت کو قبول بھی کر لیا۔ سہ پہر پانچ بجے جب اسکول کی چھٹی ہوئی تو ہم بھی اس کے ساتھ اس کی موٹر گاڑی میں بیٹھ گئے اور وہ ہمیں لے کر کشاں کشاں حلال گوشت کی تلاش میں نکلا۔ ایک جگہ حلال گوشت مل گیا تو وہ ہمیں اپنے جلو میں لیے ہوئے اپنے فلیٹ پر پہنچا اور فوراً ہی باورچی خانے میں جا کر ایک عدد پیتزا بنانے کا اہتمام شروع کر دیا۔ بز ار دقت پیتزا بن کر تیار ہوا، اس نے دو عدد موم بتیاں روشن کیں اور انھیں میز پر سجا کر ہم دونوں نے مزے لے لے کر مزیدار پیتزا کھانا شروع کیا۔ یورپ میں رات کے کھانے کے وقت موم بتیوں کا استعمال بھی خوب ہے۔ اسے کھانا کھاتے وقت ماحول کی ایک خوشگوار تبدیلی سمجھا جاتا ہے۔ آپ جیسے ہی کسی ریستوران میں اپنی میز پر پہنچتے ہیں، ایک خوبصورت سی میزبان آگے بڑھ کر آپ کی میز پر رکھی ہوئی موم بتیوں کو روشن کر دیتی ہے اور فورا ً آپ کا آرڈر لینے کے لیے ہمہ تن گوش ہو جاتی ہے۔ اگر کسی نے آپ کو اپنے گھر پر دعوت دی ہے تو وہاں پر بھی کھانا شروع کرنے سے پہلے کھانے کی میز پر موم بتیاں روشن کر دی جاتی ہیں۔ چاہنے والوں کے لیے تو کینڈل لائٹ ڈنر ایک خوبصورت اور معنی خیز دعوت ہوتی ہے۔
ہم دونوں اس لذیذ پیتزا کا مزا بھی لے رہے تھے اور دنیا جہان کے موضوعات پر باتیں بھی کر رہے تھے۔ دورانِ گفتگو ہم نے اس سے ایک انتہائی ذاتی قسم کا سوال کر ڈالا۔ ہم نے اس سے بے تکلفانہ انداز میں اس سے اس کے سنگل ہونے کا راز پوچھا۔
بغیر شرمائے اس نے بتایا کہ حال ہی میں اس کی اپنی گرل فرینڈ سے علیحدگی ہو چکی ہے۔
ہم نے اس کے اس جواب سے ہمت پکڑی اور فوراً حملہ کر دیا’’ اس کی وجہ؟‘‘
ریشارڈ نے اس بات کا بھی برا نہ منایا اور بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یوں گویا ہوا۔
’’دراصل ہمارے تعلقات اس حد تک آگے بڑھ چکے تھے کہ ہم اپنی شادی کے ممکنات پر بھی غور شروع کر چکے تھے۔
’’واقعی؟ پھر کیا ہوا؟‘‘ ہم نے خوش ہوتے اور اس نازک صورتحال میں مزید دلچسپی لیتے ہوئے سوال کیا۔ ’’
’’ پھر یوں ہوا کہ اس نے میرے سامنے اپنے ماں باپ کی مرضی کے مطابق یہ مطالبہ رکھ دیا کہ شادی کے بعد ہم دونوں اس کے ماں باپ کے گھر پر رہیں گے۔ ‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’ مجھے یہ بات منظور نہیں تھی۔ میں چاہتا تھا کہ شادی کے بعد ہم دونوں یہاں اس فلیٹ میں رہیں۔ ‘‘
’’تو کیا اس نے تمہاری تجویز سے اتفاق نہیں کیا؟‘‘
’’نہیں۔ ہم دونوں میں اس بات پر اتفاقِ رائے نہ ہو سکا اور ہم علیحدہ ہو گئے۔ ‘‘
’’بہت افسوس ہوا یہ سن کر۔ ‘‘ ہم نے اس کے ساتھ ہمدردی جتائی۔ آخر کو وہ ہمارا گہرا دوست تھا۔
’’افسوس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اب میں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اگلی مرتبہ اپنی کسی گرل فرینڈ سے شادی کے بارے میں سوچنے سے پہلے میں اس کے ساتھ سال چھ مہینے زندگی گزاروں گا تاکہ اسے اچھی طرح سمجھنے کے بعد ہی اس قسم کا کوئی فیصلہ کروں۔ ‘‘
’’ارے ؟‘‘ ہم حیران رہ گئے۔
وہ شام یونہی اوٹ پٹانگ باتوں میں گزر گئی۔ اگلے دن دورانِ کلاس ہمارے ریجنل منتظم نے ہمیں پیغام پہنچایا کہ شام کو وہ ہمارے اعزاز میں ایک دعوت دے رہے ہیں جو سنٹرم کے قریب ایک ریستوران میں ہو گی اور ہمیں چاہیے کہ ہم شام سات بجے وہاں پہنچ جائیں۔
اپنے تئیں ہم ٹھیک وقت پر گھر سے نکلے اور بس اسٹاپ پر پہنچ کر بس کا انتظار شروع کیا۔ اللہ جانے اس دن کیا ہوا کہ ہمیں وہ بس نہیں ملی اور ہم آدھ گھنٹے بعد آنے والی بس پکڑ کر ریستوران پہنچے۔ لیٹ ہو چکے تھے اس لیے وہاں پر مہتمم صاحب اپنی بیگم صاحبہ و دیگر مہمانوں سمیت نہایت بے چینی کے ساتھ ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ سلام و تعارف اور دیگر رسمی خوشگوار جملوں کے تبادلے کے بعد ہم نے پیش کی گئی کرسی سنبھالی جو مہتمم صاحب کی بیگم صاحبہ کے برابر تھی، اپنے حواس درست کیے اور اپنے دیر سے آنے کی وجہ بیان کرنے کی کوشش کر ڈالی۔ خیر جرمنی میں بس کے نہ آنے یا دیر سے آنے کا خیال ہی بے معنی ہے، لذٰکا ہماری ساری کوششیں یونہی ٹائیں ٹائیں فش ہو کر رہ گئیں اور بات آئی گئی ہو گئی۔
ہمارے ریجن کے جتنے بھی طالب علم اس وقت شہر میں موجود تھے، انھیں بھی مہتمم صاحب نے دعوت دی تھی، لہٰذا ہمیں ملا کر دعوت میں کل چھ اشخاص تھے۔ ہم چونکہ میزبان خاتون کے پہلو میں بیٹھے تھے، لہٰذا انھوں نے فوراً ہم سے پوچھا کہ ہم کون سا مشروب پینا پسند کریں گے ؟ ہم نے اِدھر اُدھر دیکھا، ہماری میز پر ہر طرف بئیر کے گلاس نظر آرہے تھے۔ ہم نے محفوظ ترین مشروب یعنی کافی کا نام لے ڈالا۔ خاتون پریشان سی ہو گئیں اور ہم سے پوچھا کہ کیا واقعی ہم بئیر نہیں پئیں گے ؟
ہائے رے مجبوری۔
اول شب وہ بزم کی رونق،شمع بھی تھی، پروانہ بھی
یعنی موسم تو عاشقانہ تھاہی، میخانہ بھی گرم تھا، ساقی بھی ساقی گری کی لاج رکھنے کے لیے تیار تھا، ایک ہم ہی پینے والے نہ تھے۔
ہم نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم شراب نہیں پیتے اس پر ان خاتون کی پریشانی میں اور اضافہ ہو گیا اور انھوں نے ہمیں وائن کی پیشکش کر دی۔ ہم نے دل ہی دل میں مسکراتے ہوئے، ان سے کہا کہ اے نیک دل خاتون، وائن بھی شراب ہی ہے لہٰذا ہم الکوحل سے پاک کوئی مشروب ہی پی سکتے ہیں۔ تب اس نیک دل خاتون نے ہماری توجہ آرنج جوس کی طرف دلائی تو ہم نے فوراً حامی بھر لی۔ ان کی جان میں جان آئی کہ مہمان خوش ہوا اور انھوں نے ایک گلاس آرنج جوس کا آرڈر کر دیا۔ ادھر مہمان کی بھی جان میں جان آئی کہ یہ معاملہ بحسن و خوبی حل ہوا۔ چونکہ محفل کے دیگر تمام شرکا بے چینی کے ساتھ ہمارا انتظار کر رہے تھے، لہٰذا ہماری آمد آمد کے ساتھ ہی کھانے کا آرڈر دیا گیا۔ اِدھر ایک مرتبہ پھر ہمیں دخل در معقولات کرنی پڑی اور ہم نے انھیں بتایا کہ ہم مذہبی طور پر چونکہ خنزیر کے گوشت یا گائے کے بغیر حلال کیے ہوئے گوشت سے پرہیز کرتے ہیں لہٰذا ہم صرف سمندری غذا یا سبزی پرہی گزارا کریں گے۔ اب تو تمام دوستوں نے نہایت دلچسپی کے ساتھ اس کوشش میں حصہ لیا اور ہمارے لیے کھانے کی ڈش کا انتخاب کیا۔ یہ مشق بھی خوب تھی اور یاروں نے اس سے خوب ہی لطف اٹھایا۔ مینو کارڈ منگوا کر ہر ہر آئیٹم کا بغور جائزہ لیا گیا، اس کی جزئیات کو دیکھا گیا اور مآلِ کار کچھ ایسی ڈشز مل ہی گئیں جو ہمارے معیارِ انتخاب پر پوری اترتی تھیں۔ ڈنر کا آرڈر دیا گیا اور اس مشکل صورتحال سے بھی بخیر و خوبی نکلے تو ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنی میزبان خاتون سے باتیں شروع کیں، کچھ اپنی کہی اور کچھ ان کی سنی، اور اس طرح اس حسین شام کے طویل گھنٹے ہمارے لیے مختصر ہو گئے۔ ہم نے باتوں باتوں میں ان خوبصورت جرمن خاتون سے جرمن تہذیب و تمدن اور ثقافت کو سمجھنے کی کوششیں شروع کیں اور انہیں اپنی مشرقی روایات سے آگاہ کرنا شروع کیا تو ہم خود کھوئے سے گئے۔ ہم ان باتوں میں یوں کھوئے کہ اپنا آپ بھولے اور رات گئے ہوش آیا۔ دونوں میزبانوں نے ہم چاروں مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ ادھر ہم نے بھی اپنے دونوں میزبانوں اور خاص طور پر اپنی حسین میزبان کا شکریہ ادا کیا کہ جن کی بدولت اس قدر حسین شام ہمارے حصے میں آئی اور رات بارہ بجے کی بس پکڑ کر اپنے کمرے کو سدھارے۔
خیر صاحب اس طرح جمعہ یعنی ہمارے اس کورس کا یومِ آخر بھی آ گیا۔ اپنی کلاس میں پہنچ کر اسامد صاحب کے آنے تک ہم نے خوب جی بھر کر اپنے دوستوں کے ساتھ گپ شپ کی۔ دوپہر بارہ بجے تک ہم سب تجربہ گاہ کو سمیٹ کر اور اپنے اساتذہ سے اپنی اپنی اسناد لے کر فارغ ہو چکے تھے۔ ہم آخری مرتبہ اپنے تمام دوستوں سے ملے اور دل پر ایک بھاری بوجھ لیے ان سب سے رخصت ہو گئے۔
اب ہم تھے اور ہماری تنہائی۔ اب ہمیں ڈھائی پہاڑ سے دن اس غیر ملک میں تنِ تنہا گزارنے تھے۔ اس پر طرہ یہ کہ بابو کا انتظار کرنا تھا۔ اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ اپنے وطن سے نکلے اور اس غیر ملک میں پورے تین ہفتے، اپنی مادری زبان بولے بغیر، اپنے گھر والوں اور اپنے ہم وطنوں کو دیکھے بغیر گزار چکے تھے اور اب انگریزی بولتے بولتے اور پشتو نما جرمن سنتے سنتے تھک چکے تھے۔ اِدھر ہمیں یہ مژدہ جاں فزا بھی سننے کو مل چکا تھا کہ اگلے دو ہفتے یعنی اگلی کلاس میں ہمارے یارِ جانی عرف بابو بھی ہمارے ساتھ ہوں گے۔ یوں یہ دو دن کا انتظار بھی کافی جان لیوا ثابت ہو رہا تھا۔
وہ سہہ پہر ہم نے بازار میں گزاری اور بابو کے شایانِ شان کوئی کھانے کی شے کھوجتے رہے۔ بالآخر طے کیا کہ ایک اچھے دوست کے لیے چاکلیٹ سے بہتر اور کوئی تحفہ تو ہو ہی نہیں سکتا اور ایک دکان سے باؤنٹی چاکلیٹ کے پانچ عدد چھوٹے پیکٹ مول لے لیے۔ بازار ہم گئے تھے، اک چوٹ مول لائے۔ ہفتے کے اختتامیے کے بعد بروزِ پیر جب بابو سے ملاقات ہو گی تو ہم انھیں کھانے کے یہ میٹھے اور ذائقے دار چاکلیٹ پیش کریں گے تو وہ ہماری دوستی اور خلوص سے کس قدر متاثر ہوں گے۔ ہم سا دوست کوئی کہاں سے پائے گا۔
ہفتے کے دن ہم دیر تک سوتے رہے۔ تقریباً دوپہر کو نہایت کسلمندی کے ساتھ اٹھے، ناشتہ کیا اور پھر سو گئے۔ اُٹھے تو خیال آیا کہ پانچ چاکلیٹ بہت ہوتے ہیں اور پھر بابو اتنے چاکلیٹ بھلا کب کھاتے ہوں گے، لہٰذا ایک چاکلیٹ نکال کر ہضم کر گئے۔ اسی طرح باقی وقت اور اتوار کا پورا دن بابو کا انتظار کرتے رہے اور چاکلیٹ کھاتے رہے، یہاں تک کہ انتظار کی گھڑیاں بھی کٹ گئیں اور چاکلیٹ بھی ختم ہو گئے اور ہم اگلے خوشگوار دن کا تصور اپنے ذہن میں لاتے ہوئے نیند کی وادی میں پہنچ گئے۔
ہمارے اس سفر نامے کی پہلی قسط پڑھ کر ارلانگن ہی سے اردو محفل کے نبیل بھائی نے اچانک ہم سے پوچھ لیا ’’ خلیل بھائی ! آپ ارلانگن کب تشریف لائے تھے۔ ‘‘
اس بے ساختہ سوال کو پڑھ کر ہم حواس باختہ رہ گئے۔ یہ سوال کچھ اتنا اچانک تھا گویا کوئی وقت کا راہی (ٹائم ٹریولر ) ہمارے ماضی سے نکل کر اچانک ہمارے سامنے آ بیٹھا ہو اور ہم سے پوچھ رہا ہو، ’’خلیل بھائی ! آپ ارلانگن کب تشریف لائے تھے۔ ‘‘ اور ہم سوچنے لگے کہ ان سے ہماری ملاقات اُس شہرِ غدار میں کہاں کہاں اور کس کس موڑ پر ہوئی تھی۔
دوسری مرتبہ ہمیں گڑبڑانے کا سہرا بھی نبیل بھائی ہی کے سر گیا۔ ہم نے حسینانِ ملکِ ختن کے لانبے بالوں پر اردو محفل ہی کے شمشاد بھائی کے مزیدار تبصرے پر کہا کہ لانبی گھنی زلفوں والی دلرباؤں کا غولِ بیابانی تو ہمارے ماضی میں رہتا ہے، حال کی خبر تو نبیل بھائی ہی دے سکیں گے۔ اس پر فوراً نبیل بھائی نے تڑکا لگایا، ’’جناب یہاں کیا خبر دیں، بس سرد شاموں میں نوئے میوہلے کے بس سٹاپ پر ایک خاتون بیٹھ کر ایک چوتھائی صدی پہلے کا وقت یاد کر کے آہیں بھرتی رہتی ہیں۔ ‘‘
اس پچھل پائی کے بارے میں سن کر ہماری تو سٹی گم ہو گئی، کیا واقعی نبیل بھائی کوئی وقت کے راہی ہیں جنہوں نے ہمیں نوئے میوہلے میں ایک عدد زنانہ اوور کوٹ پہنے انتہائی سرد شاموں میں سڑکیں ناپتے اور اپنے ناک اور منہ سے سگریٹ کی گرم گرم بھاپ نکالتے ہوئے دیکھا تھا اور اب وہاں سے واپسی پر ہمیں جتا رہے ہیں۔ یا پھر ہم خود ہی وقت کے راہی بن چکے ہیں۔ یہی آنا جانا رہا تو ہمارا تو خدا ہی حافظ ہے۔
جرمن وہ نہ تھے کوچے، اوراقِ مصور تھے
جو شکل نظر آئی، تصویر نظر آئی
ہم ڈیفنی ڈی موریا کے ناول’’ دی ہاوس آن دی سٹرانڈ‘‘ سمیت دو تین ناولوں میں وقت کے مسافروں کی ذہنی اذیت کے بارے میں پڑھ چکے ہیں جو ماضی کی پر اسرار گلیوں میں اس حد تک کھو جاتے ہیں کہ حال میں وہ اجنبیوں کی طرح وقت گزارتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ کیا رئیل ہے اور کیا سرئیل۔ کون سی صورتحال حقیقت ہے اور کون سی خواب۔ انھیں یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ کہیں وہ ان تانوں بانوں اور اس بھول بھلیاں میں اپنا آپ ہی گم نہ کر بیٹھیں۔ شاید یہی وہ کیفیت ہو، یہی وہ ناسٹالجیا کا عذاب ہو جسے شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
یارو ہم اس وقت جرمنی کے شہر ارلانگن میں اپنے سفر کی اس منزل پر تھے جہاں ہمیں اچانک اپنے ہم وطن سے ملاقات کی خوشخبری دی گئی تھی، اور ہم خوشی سے بے قابو ہوئے جاتے تھے۔
کسی غیر ملک میں تربیت کے دوران یہ شاید ہمارا خوشگوار ترین پیر کا دن تھا، اس لیے نہیں کہ آج سے ہمارا نیا کورس شروع ہونے کو تھا، بلکہ اس لیے کہ آج ہماری ملاقات بابو سے ہونی طے تھی۔ ایسے خوشی کے موقعوں پر بقول پطرس جو ہنسی ہم ہنستے ہیں، اس میں معصوم بچے کی مسرت، جوانی کی خوش دلی، ابلتے ہوئے فواروں کی موسیقی اور بلبلوں کا نغمہ سب ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہوتے ہیں، چنانچہ ہم اٹھتے ہی یہ ہنسی ہنسے اور ہنستے ہی رہے۔ یہاں تک کہ ہم تیار ہو کر گھر سے نکلے اور چشمِ زدن میں بس کا سفر طے کر کے سنٹرم بس اسٹاپ پر پہنچ گئے۔ اس مرتبہ ہمارا کورس سیمنز کے کارخانے میں ترتیب دیا گیا تھا، لہٰذا ہم نے میکڈانلڈ سے پیدل ہی سفر کرنے کی ٹھانی اور منزلوں پر منزلیں مارتے ہوئے اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ ہی گئے۔
کلاس روم میں میں پہنچے تو گوہرِ مقصود ہاتھ آیا۔ افروز بابو اپنی تمام تر حشر سامانیوں سمیت کلاس روم میں جلوہ افروز تھے۔ ہم خوشی سے پھولے نہ سمائے اور اس خوشی میں انگریزی ہی میں ان سے مخاطب ہو گئے اور ان کی خیریت پوچھی۔ بابو نے بھی انگریزی ہی میں جواب دیا اور اس طرح جرمنی میں ہمارے دو ہفتوں کے کورس کا آغاز ہوا۔ اس سارے کورس کے دوران ہم اور بابو کلاس میں انگریزی ہی میں بات کرتے اور کلاس سے باہر نکل کر اردو میں بات چیت شروع کرتے۔ دراصل ہم دونوں نہیں چاہتے تھے کہ کسی غیر پاکستانی کی موجودگی میں ایک ایسی زبان بولیں جو وہ نہ سمجھ سکے۔ ہم اپنے تئیں اسے ایک غیر اخلاقی حرکت گردانتے تھے۔
ہمارے دیگر کلاس فیلوز یعنی ہم جماعتوں نے ہمیں آپس میں بات کرتے ہوئے سنا تو حیرت ظاہر کی کہ کیا انگریزی ہی ہماری مقامی زبان ہے اور کیا اپنے ملک میں بھی ہم ایک دوسرے کے ساتھ اپنا ما فی الضمیر ادا کرنے کے لیے انگریزی زبان ہی استعمال کرتے ہیں ؟ ہم نے نفی میں جواب دیا تو وہ اور زیادہ حیرت کا اظہار کرنے لگے۔ بالآخر انہیں سمجھانا پڑا کہ ہماری اس انگریزی دانی کا راز کیا ہے۔ دراصل یورپ کے غیر انگریزی داں علاقوں سے آئے ہوئے گورے، اگرچہ انگریزی جانتے ہیں، لیکن ان کی انگریزی بول چال کچھ واجبی ہی سی ہوتی ہے۔ ان کے سامنے ہم دونوں اپنی انگریزی دانی کی وجہ سے اندھوں میں کانے راجے سمجھے جاتے تھے۔
کلاس سے فارغ ہوتے تو ہم دونوں بھاگم بھاگ بازار کا رُخ کرتے، کچھ رات کی ہانڈی کا انتظام کرتے اور پھر نوئے میوہلے میں ہمارے کمرے میں پہنچ کر کھانا بنانے کا اہتمام کرتے۔ رات کے کھانے سے فارغ ہوتے تب ہی بابو اپنے ہوٹل روانہ ہوتے اور ہم اپنا بستر سنبھالتے۔ ہمارا نیا کمپیوٹر اور ٹی وی بھی اپنے منحنی اسکرین سمیت بابو کو بہت پسند آیا تھا جس پر ہم دونوں جرمن زبان کے مختلف پرو گرام دیکھا کرتے اور لطف اندوز ہوتے۔
یارو ! عجیب دور تھا وہ بھی۔ ابھی کچھ ہی سال پہلے اپنے تعلیمی سفر کے دوران ہم نے حساب دانی میں سلائیڈ رول کو دیس نکالا دیتے ہوئے ایک انتہائی عجیب و غریب ایجاد یعنی کیلکو لیٹر کا استعمال شروع کیا تھا، اور اب نوئے میوہلے کے ایک گرم کمرے میں بیٹھے دنیائے سائنس کی حیرت انگیز ترین ایجاد کمپیوٹر سے کھیل رہے تھے۔ ڈیجیٹل الیکٹرانکس پڑھ چکے تھے، لیکن اس سائنسی شیطانی چرخے مائیکرو پروسیسر سے اب متعارف ہو رہے تھے۔ ایک دن ٹریننگ سنٹر میں چائے کے وقفے کے دوران دھیرے دھیرے گرم گرم کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے ہمارے کانوں میں کچھ آوازیں آئیں تو ہم چونک کر مڑے، ایک عدد ہیتھ کٹ بکاؤ تھی اور بابو ایک گورے کے ساتھ اس کا سودا کر رہے تھے۔ ہم بھی شریکِ گفتگو ہوئے تو پتہ چلا کہ سودا تقریباً ہو چکا ہے، بعوض ایک سو ڈوئچ مارک۔ ہم نے دلچسپی ظاہر کی اور ان صاحب سے پوچھا کہ اگر کوئی اور کٹ بکاؤ ہو تو ہم بھی خریدنا چاہتے ہیں۔ ان گورے صاحب کے ایک اور دوست جو قریب ہی کھڑے تھے، آگے بڑھے اور کہنے لگے کہ ان کے پاس ایک کٹ موجود ہے اور وہ بھی اسے بیچنا چاہتے ہیں۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔ ہم نے قیمت دریافت کی۔
اسی اثنا میں، مارکیٹ میں مانگ بڑھ جانے کے باعث، اس کٹ کی قیمت میں اضافہ ہو چکا تھا۔ ان صاحب نے ہمیں اپنی کٹ کی قیمت ایک سو جرمن مارک اور ایک گلاس بیئر بتلائی۔ ہم نے بھاؤ تاؤ کرتے ہوئے انھیں بتایا کہ چونکہ ہم شراب نہیں پیتے لہٰذا انھیں بیئر نہیں پیش کر سکتے، اگر وہ اپنی کٹ ہمارے ہاتھ بیچنا چاہتے ہیں تو سودا ایک سو جرمن مارک میں طے ہو سکتا ہے۔ ہماری بات ان کے دل کو لگی اور انھوں نے ہماری پیشکش کو قبول کرتے ہوئے ڈلیوری کے لیے کل صبح تک کا وقت مانگ لیا۔ ادھر ہم نے ایک اور شرط عائد کر دی کہ اس کٹ کے ساتھ کتابیں انگریزی زبان میں ہونی چاہئیں، جسے انھوں نے خوش دلی کے ساتھ قبول کیا۔ یوں اگلے روز ہم ایک سو مارک سے محروم تو ہوئے لیکن اس کے بد لے ایک عدد ٹریننگ کٹ اور تین عدد موٹی موٹی فائلوں کے مالک بن گئے۔ ۶۸۰۰ مائیکرو پروسیسر کی یہ کٹ آج بھی ہمارے خزانے میں موجود ہے۔
اسی طرح تربیت کے یہ دن گزرتے چلے گئے یہاں تک کہ پورا ہفتہ ختم ہو گیا۔ اب ہمارے پاس جرمنی کے اس سفر میں صرف آخری ویک اینڈ یعنی اختتامِ ہفتہ بچا تھا جسے ہم دیکھ بھال کر خرچ کرنا چاہتے تھے۔ ہفتے کے روز دوپہر ایک بجے تک بازار کھلا ہوتا تھا لہٰذا ہم نے وہ ہفتہ شاپنگ کے مخصوص کر دیا اور اتوار کا دن جرمنی میں اپنی آخری سیر بمعنی سائیٹ سیینگ کے لیے مختص کیا۔ ہفتے کے روز ہم صبح ہی اٹھ گئے۔ ناشتے سے فارغ ہو کر بس پکڑی، بابو کے ہوٹل پہنچ کر انھیں لیا اور دوپہر، دکانوں کے بند ہونے تک بازار کا چکر لگایا کیے۔
بازار سے فارغ ہوئے تو نوئے میوہلے کا رخ کیا تاکہ کچھ لنچ وغیرہ کا بندو بست کریں۔ نائے میوہلے کا بس اسٹاپ آیا تو ہم دونوں دوست بس سے اترے اور خراماں خراماں اپنے کمرے کی جانب چل دئیے۔ گو اب اتنے سالوں بعد موضوع تو یاد نہیں البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ اس سمے ہم دونوں کسی خاص موضوع پر باتوں میں مصروف تھے اور دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے کمرے کی طرف خراماں خراماں چلے جاتے تھے۔ اچانک ہماری نظر ایک طرف کو اٹھی اور اٹھی ہی رہ گئی۔ ہم ٹھٹک گئے اور فورا ہی بابو کو ٹھہوکا دیا۔ سامنے ہی فاطمہ کیتی سی اوغلو جو شاید اسی بس سے اتری تھی جس سے ابھی ہم اترے تھے ,تیز تیز قدموں سے اپنے گھر کی جانب چلی جاتی تھی۔ اللہ جانے وہ سردی کا اثر تھا یا پھر شادی مرگ کی سی کیفیت ہم پر طاری تھی، ہم سے بولا نہ جاتا تھا۔ بڑی مشکل سے ہم نے اپنی آواز ڈھونڈی اور جلدی جلدی بابو کو فاطمہ کے بارے میں بتایا۔ پھر کیا تھا ہم دونوں نے اپنی رفتار تیز کی اور آناً فاناً فاطمہ کو جالیا۔ وہ ہمیں دیکھ کر خوش ہو گئی اور وہیں کھڑے کھڑے ہم دونوں نے ایک دوسرے سے نہایت گرمجوشی کے ساتھ ہاتھ ملائے، ایک دوسرے کی خیریت دریافت کی اور ایک دوسرے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
خیریت معلوم ہوئی تو ہم نے اگلا معرکہ طے کیا اور لگے ہاتھوں یارِ جانی بابو کا تعارف بھی اس سے کروا دیا۔ وہ بابو سے مل کر بہت خوش ہوئی، ادھر بابو کی بھی باچھیں کھلی ہوئی تھیں، گویا ریشہ ختمی ہوئے جاتے تھے۔ انھوں نے لگے ہاتھوں فاطمہ کو کافی کی دعوت دے ڈالی۔ ہم نے بھی ان کی ہاں میں ملائی اور یوں
خاطر سے یا لحاظ سے، وہ مان تو گئے
اور ہم تینوں اپنے کمرے کی جانب چل دئیے۔ اب جو ہم چلے ہیں تو دل کی ایک عجیب کیفیت تھی۔ ہم پاؤ ں کہیں رکھتے تھے، پڑتے کہیں اور تھے، گویا اڑے اڑے جاتے تھے۔ کمرہ قریب آیا تو جذب کی ایک کیفیت میں آگے بڑھ کر قفل کھولا اور کمرے میں داخل ہو کر ادھر اُدھر نظریں دوڑائیں۔ آج خوش قسمتی سے کمرہ اس قدر پھیلا ہوا نہیں تھا۔ ہم نے اپنا تولیا بستر سے اٹھا کر ایک طرف رکھا اور دونوں ہاتھ پھیلائے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہو گئے۔
وہ کافر ادا حسینہ ہمارے کمرے میں جلوہ افروز ہوئی تو ہم نے بابو کو اس کی دل بستگی کے لیے اس کے ساتھ بٹھا یا اور خود چولھا جلا کر چائے بنانے کا سامان کیا، ساتھ ہی ان کی باتوں میں شامل بھی رہے اور یوں
چائے بنائی جتن سے، دل کو دیا جلا
اور چائے سے مہمان کی خاطرداری کرنے کے بعد ہی اس کے سامنے بیٹھے۔ اب جو باتیں شروع ہوئی ہیں تو مت پوچھیے کیا حال رہا۔ ہم دونوں پاکستانیوں نے اپنے ملک کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دئیے اور وہ اللہ کی بندی حیرت سے آنکھیں پھاڑے ہماری باتیں سنتی رہی۔ پھر جب وہ بولتی تو ہم دونوں دنیا و مافیہا سے بے خبر اس کے حسین چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے اس کی شیریں زبانی کے مزے لوٹتے۔ وقت پر لگا کر اڑا اور ہم دونوں اس حسین مہمان کی خاطر داری میں اپنا آپ بھولے۔ چونکے تو شام ہو چکی تھی۔ اب اس مہمانِ دلنواز نے ہم سے اجازت چاہی اور ہم نے دل پر ہاتھ رکھ کر با دلِ ناخواستہ اسے جانے کی اجازت مرحمت فرمائی ورنہ دل تو چاہتا تھا کہ وہ بولتی رہے اور ہم اس کے حسین چہرے کو تکتے رہیں اور یونہی منٹ گھنٹوں میں، گھنٹے دنوں میں دن سالوں میں اور سال صدیوں میں بدلتے رہیں۔
پاکستان پہنچے تو یہی ملاقات ہم دونوں دوستوں کی‘ بدنامی‘ کا باعث بن گئی۔ ہوا یوں کہ جب ہم نے اپنی کتھا حلقہ یاراں میں سنائی کہ کس طرح ایک قاتل حسینہ ہمارے کمرے میں آئی اور ہم دونوں نے گھنٹوں اس سے مزے مزے کی باتیں کیں تو یاروں نے خوب ہی ہماری بھَد اُڑائی۔ ہم دونوں کے لیے یہ ملاقات بے حد حسین تھی لیکن یاروں کو اس میں چاشنی کی کمی محسوس ہوئی اور وہ بے حد مایوس ہوئے۔ اف فوہ!!
ہم بات بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
اگلے دن اتوار تھا۔ ہم دونوں دوستوں نے سیر کے لیے قریبی قصبے نیورمبرگ کو چنا۔ ٹرین پکڑ کر وہاں پہنچے، سارا دن اس قصبے میں واقع قلعے کی سیر کی جس میں ہٹلر کا بنایا ہوا عقوبت خانہ بھی موجود تھا اور سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز تھا۔
اگلا پورا ہفتہ ٹریننگ میں مصروف رہ کر جب ہم اتوار کی صبح جرمنی سے اپنے ملک روانہ ہوئے تو ملے جلے جذبات لیے ہوئے تھے۔ جہاں اپنے گھر جانے اور گھر والوں سے ملنے کی خوشی تھی وہیں ان دوستوں سے بچھڑنے کا غم بھی تھا جو ہم نے اپنے اس سفر میں اپنے اس اجنبی ملک میں بنائے تھے۔ اتنا ضرور تھا کہ اب ہم پہلے کی طرح کنویں کے مینڈک نہیں رہے تھے۔ اب ہم نے دنیا دیکھ لی تھی اور کئی ممالک کے لوگوں سے ملاقات اور دوستی کر لی تھی۔ یادش بخیر! یہ زمانہ بیسویں صدی کا اواخر تھا، کمپیوٹر کو ایجاد ہوئے ابھی کچھ ہی سال ہوئے تھے۔ انٹر نیٹ اور ای میل کا دور دور تک پتہ نہیں تھا اور خط لکھنے کا یارا، نہ ہم میں تھا اور نہ ہی ہمارے کسی دوست نے اس کی ہمت کی، البتہ ہم ہر ایک سے اس امید پر جدا ہوئے کہ ’’ یہ دنیا ایک بہت چھوٹی دنیا ہے اور ہم مستقبل میں کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی موڑ پر ضرور ملیں گے۔ ‘‘
فرصت نہ دیں گے یوں تو غمِ زیست ایک پل
کچھ دن تمہاری یاد مگر آئے گی ضرور
٭٭٭