04:18    , ہفتہ   ,   18    مئی   ,   2024

احمد مشتاق کی شاعری

672 1 0 04

اشک دامن میں بھرے خواب کمر پر رکھا

پھر قدم ہم نے تری راہ گزر پر رکھا

 

ہم نے ایک ہاتھ سے تھاما شبِ غم کا آنچل

اور اک ہاتھ کو دامانِ سحر پر رکھا

 

چلتے چلتے جو تھکے پاؤں تو ہم بیٹھ گئے

نیند گٹھری پہ دھری خواب شجر پر رکھا

 

جانے کس دم نکل آئے ترے رخسار کی دھوپ

مدتوں دھیان ترے سایۂ در پر رکھا

 

جاتے موسم نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا مشتاقؔ

رہ گیا ساغرِ گل سبزۂ تر پر رکھا

4.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔