02:33    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

اسد اللہ خان غالب کی شاعری

1753 2 0 15

میں ہوں مشتاقِ جفا، مجھ پہ جفا اور سہی

تم ہو بیداد سے خوش، اس سے سوا اور سہی​

غیر کی مرگ کا غم کس لئے، اے غیرتِ ماہ!

ہیں ہوس پیشہ بہت، وہ نہ ہُوا، اور سہی​

تم ہو بت، پھر تمہیں پندارِ خُدائی کیوں ہے؟

تم خداوند ہی کہلاؤ، خدا اور سہی​

حُسن میں حُور سے بڑھ کر نہیں ہونے کی کبھی

آپ کا شیوہ و انداز و ادا اور سہی​

تیرے کوچے کا ہے مائل دلِ مضطر میرا

کعبہ اک اور سہی، قبلہ نما اور سہی​

کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے، واعظ!

خلد بھی باغ ہے، خیر آب و ہوا اور سہی​

کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں، یا رب

سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی​

مجھ کو وہ دو۔ کہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں

زہر کچھ اور سہی، آبِ بقا اور سہی​

مجھ سے غالب یہ علائی نے غزل لکھوائی

ایک بیداد گرِ رنج فزا اور سہی​

5.0 "2"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 1 تبصرہ

پیر آزاد خان
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یا رب سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔