02:33    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

اسد اللہ خان غالب کی شاعری

1965 0 0 00

کی وفا ہم سے تو غیر اُس کو جفا کہتے ہیں

ہوتی آئی ہے کہ اچّھوں کو بُرا کہتے ہیں​

آج ہم اپنی پریشانیِ خاطر اُن سے

کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھیے کیا کہتے ہیں​

اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، اِنھیں کچھ نہ کہو

جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں​

دل میں آ جائے ہے، ہوتی ہے جو فرصت غش سے

اور پھر کون سے نالے کو رسَا کہتے ہیں؟​

ہے پرے سرحدِ ادراک سے، اپنا مسجود

قبلے کو، اہلِ نظر، قبلہ نُما کہتے ہیں​

پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے

خارِ رہ کو تِرے ہم مِہرِ گیا کہتے ہیں​

اِک شرر دل میں ہے اُس سے کوئی گھبرائیگا کیا

آگ مطلوب ہے ہم کو ،جو ہَوا کہتے ہیں​

دیکھیے، لاتی ہے اُس شوخ کی نخوت کیا رنگ

اُس کی ہر بات پہ ہم نامِ خُدا کہتے ہیں​

وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید

مر گیا غالبِ آشفتہ نوا، کہتے ہیں​

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔