فلک نے سانس لینے کا بھی اس میں دَم نہیں رکھا
خوشی کے دور میں جس نے خیالِ غم نہیں رکھا
تمہارے شہر میں کوئی نہیں پُرسانِ حال اپنا
کسی نے زخمِ دل پر پیار کا مرہم نہیں رکھا
مِرے صبر و تحمل پر زمانہ رشک کرتا ہے
مصائب میں بھی میں نے آنکھ کو پُر نم نہیں رکھا
زمیں بھی ہم عِناں میری، فلک بھی ہم سفر میرا
مِرے اللہ نے مجھ کو کسی سے کم نہیں رکھا
ابھی شاید مِرے لفظوں میں سچائی نہیں اتری
ابھی میرے پیالے میں کسی نے سم نہیں رکھا
تِری جمیعتِ خاطر کا ہر دَم پاس رکھا ہے
مزاجِ زیست کو میں نے کبھی برہم نہیں رکھا
لبِ خاموش سے گویا ہوئے یا چشمِ گریاں سے
سوالِ آرزو ہم نے کبھی مبہم نہیں رکھا
عدم آباد کی جانب چلے تو ہیں مگر ہم نے
نظر میں جادہء ہستی کا پیچ و خم نہیں رکھا
خوشی ہو یا الم ہو ہم نے اپنے آپ کو یارب
کسی عاَلم میں بھی بیگانہء عالَم نہیں رکھا
قیامت تک نہ ہونگے منزلِ مقصود سے واصل
اگر ہم نے یقیں محکم عمل پیہم نہیں رکھا
ایاز اللہ کی مجھ پر یہ کتنی مہربانی ہے
کہ رازِ زندگی سے مجھ کو نا محرم نہیں رکھا