02:52    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ایاز صدیقی کی شاعری

817 1 0 05

فلک نے سانس لینے کا بھی اس میں دَم نہیں رکھا​

خوشی کے دور میں جس نے خیالِ غم نہیں رکھا​​

 

تمہارے شہر میں کوئی نہیں پُرسانِ حال اپنا​

کسی نے زخمِ دل پر پیار کا مرہم نہیں رکھا​

 

مِرے صبر و تحمل پر زمانہ رشک کرتا ہے​

مصائب میں بھی میں نے آنکھ کو پُر نم نہیں رکھا​

 

زمیں بھی ہم عِناں میری، فلک بھی ہم سفر میرا​

مِرے اللہ نے مجھ کو کسی سے کم نہیں رکھا​

 

ابھی شاید مِرے لفظوں میں سچائی نہیں اتری​

ابھی میرے پیالے میں کسی نے سم نہیں رکھا​

 

تِری جمیعتِ خاطر کا ہر دَم پاس رکھا ہے​

مزاجِ زیست کو میں نے کبھی برہم نہیں رکھا​

 

لبِ خاموش سے گویا ہوئے یا چشمِ گریاں سے​

سوالِ آرزو ہم نے کبھی مبہم نہیں رکھا​

 

عدم آباد کی جانب چلے تو ہیں مگر ہم نے​

نظر میں جادہء ہستی کا پیچ و خم نہیں رکھا​

 

خوشی ہو یا الم ہو ہم نے اپنے آپ کو یارب​

کسی عاَلم میں بھی بیگانہء عالَم نہیں رکھا​

 

قیامت تک نہ ہونگے منزلِ مقصود سے واصل​

اگر ہم نے یقیں محکم عمل پیہم نہیں رکھا​

 

ایاز اللہ کی مجھ پر یہ کتنی مہربانی ہے​

کہ رازِ زندگی سے مجھ کو نا محرم نہیں رکھا​

5.0 "1"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

ایاز صدیقی کی شاعری

مزید شاعری

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔