02:31    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

حسن رضا کی شاعری

992 0 0 00

مریض ہجر اُمید سحر نہیں رکھتا​

غضب ہے پھر بھی وہ غافل خبر نہیں رکھتا​

 

یہ پھنک رہا ہوں تپِ عشق و سوزِ فرقت میں​

کہ مجھ پہ ہاتھ کوئی چارہ گر نہیں رکھتا

 

گلہ ہے اُس سے تغافل کا حضرتِ دل کو​

جو مستِ ناز ہے اپنی خبر نہیں رکھتا

 

تجھے رقیب کی کرنی پڑے گی چارہ گری​

سمجھ تو کیا مرا نالہ اَثر نہیں رکھتا

 

تلاشِ مست تغافل میں میرا گم ہونا​

وہ مبتدا ہے جو کوئی خبر نہیں رکھتا

 

ہم اُن سے پوچھیں سبب رنج بے سبب کا کیوں​

رقیب ہم سے عداوت مگر نہیں رکھتا

 

غضب ہے آہ مری حالت تباہ مری​

وہ اس لیے مجھے پیشِ نظر نہیں رکھتا

 

مگر قریب ہے اب کوئے قاتلِ عالم​

کہ مجھ سے آگے قدم راہبر نہیں رکھتا

 

سوائے ڈیوڑھے ہیں بازارِ عشق میں اُس کے​

جو فکرِ نفع و خیالِ ضرر نہیں رکھتا

 

کہو تو بزمِ عدو کا کہوں مفصل حال​

تمہیں خبر ہے کہ میں کچھ خبر نہیں رکھتا

 

نگاہِ ناز سے اب کس لیے مجھے دیکھیں​

حسنؔ میں دل نہیں رکھتا جگر نہیں رکھتا

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

حسن رضا کی شاعری

مزید شاعری

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔