10:30    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

لیاقت علی عاصم کا تعارف

( 2019 )

28 Jun 2019
لیاقت علی عاصم پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے ممتاز شاعر اور ماہر لسانیات تھے۔ اردو لغت بورڈ میں 1980ء سے 2011ء تک خدمات انجام دیں، بحیثیت ایڈیٹر سبکدوش ہوئے۔ لیاقت علی عاصم کے کل آٹھ شعری مجموعے اردو دنیا میں مقبول ہوئے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ 1977ء میں سبدِ گل کے نام سے شائع ہوا اور آخری مجموعہ انتقال سے ایک ہفتے قبل شائع ہونے والا شعری مجموعہ میرے کَتبے پہ اُس کا نام لِکھو تھا۔
ااُن کے اجداد کا تعلق ہندوستان کے ساحلی علاقے، کوکن سے ہے۔ مادری زبان (کوکنی) مراٹھی کی ایک بولی ہے۔ والد، حاجی علی شرگائوں کر نے قرارداد پاکستان منظور ہونے کے فوراً بعد مغرب کا رخ کیا۔ کراچی کے ساحلی علاقے، منوڑا میں ڈیرا ڈالا اور کے پی ٹی میں ملازم ہو گئے۔ کوکنی برادری کے کئی افراد نے آنے والے برسوں میں اس علاقے میں سکونت اختیار کی۔ یہیں لیاقت علی عاصم نے 14 اگست 1951ء کو آنکھ کھولی۔ ایک بہن، آٹھ بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے ہیں۔ گھر بھر کے لاڈلے تھے۔ پرورش میں والدہ کے ساتھ بڑی بہن اور بڑی بھابی کا کلیدی کردار رہا۔ آٹھویں تک تعلیم منوڑا سے حاصل کی۔ کھارادر کے ایک اسکول سے 1968ء میں سائنس سے میٹرک کیا۔ پھر ایس ایم سائنس کالج میں داخلہ لے لیا۔ ایک سال آوارہ گردی کی نذر ہوا۔ پھر اسلامیہ کالج کا حصہ بن گئے۔ انٹر کے بعد اپنا بوجھ خود ڈھونے کی خواہش پر 320 روپے ماہ وار پر کے پی ٹی میں ملازم ہو گئے اور سگنل ٹاور پر ذمے داری سنبھال لی۔ روشنی کو پیغامات کے قالب میں ڈھالنے کا فن سیکھنے کے لیے چھ ماہ کا کورس ہوتا تھا، جو اُنھوں نے ڈیڑھ ماہ میں پاس کر لیا۔ دو برس وہاں ملازمت کی۔ اُسی زمانے میں پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے بی اے کیا۔ خواہش تھی کہ یونیورسٹی میں پڑھا جائے۔ شعبۂ صحافت میں داخلہ نہیں ہوا، تو عارضی طور پر شعبۂ اردو کا حصہ بن گئے۔ پھر وہیں دل لگ گیا۔ اُسی مضمون میں ماسٹرز کیا۔ بڑے بھائی کی مالی معاونت کے طفیل اُن برسوں میں ملازمت کے جھمیلوں سے دہیں بنے۔ منوڑا کے ایک فوٹو گرافر نے اُنہیں پورٹریٹ بنانے کی تجویز پیش کی۔ بتاتے ہیں، رنگ بچپن سے اُن کے دوست ہیں کہ گھر میں سب ہی آرٹسٹ تھے۔ برش کو برتنا وہ خوب جانتے تھے۔ سیاحت کی غرض سے اندرون و بیرون ملک سے نیول کیڈٹ منوڑا آیا کرتے تھے اور اِس نقطۂ نگاہ سے آرٹسٹ کے لیے خاصے امکانات تھے۔ انھوں نے پیش کش قبول کرلی۔ آرڈرز ان تک پہنچ جاتے اور وہ پورٹریٹ تیار کرکے ان صاحب کے حوالے کر دیتے۔ اِس کام سے اچھی یافت ہوجاتی۔ خاصی بھاگ دوڑ کے بعد بالآخر 1980ء میں وہ اردو ڈکشنری بورڈ سے نتھی ہو گئے۔ یہ قصّہ خاصا دل چسپ ہے۔ کہتے ہیں، پریشانی کے اس زمانے میں ایک دوست نے اُنہیں ڈاکٹر ابو الخیرکشفی سے بات کرنے کا مشورہ دیا۔ براہ راست تقاضا کرنے کے وہ قائل نہیں تھے، سو ایک غزل لکھ کر بھیج دی، جس کے دو اشعار کچھ یوں تھے:
غزل

فکرِ معاش دن یہ دکھائے تو کیا کروں ماں کی دعا بھی کام نہ آئے تو کیا کروں
فاریکی سارے گھر کی مسلط ہو ذہن پر اور چاند مجھ کو چھت پر بلائے تو کیا کروں

کشفی صاحب نے دوسرے ہی روز اردو ڈکشنری بورڈ پہنچنے کی ہدایت کر دی۔ پہلے کارڈ نویسی کرتے رہے۔ پھر پرانے مسودوں کی ایڈیٹنگ شروع کی۔ 1990ء میں ایڈیٹر کا منصب سنبھالا اور 2011ء میں اسی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ جس زمانے میں ادارے سے منسلک ہوئے تھے، ’’تاریخی اردو لغت‘‘ کی تیسری جلد پر کام ہورہا تھا۔ بائیسویں اور آخری جلد بھی اُن کی موجودگی میں شایع ہوئی۔ الغرض اپنے کیریر میں وہ اس لغت کی بیس جلدوں کی تیاری میں شامل رہے۔ خدمات کے اعتراف میں ادارے کی جانب سے تعریفی سند اور ایوارڈ سے نوازا گیا۔پ

پیشہ ورانہ سفر کے بعد شعری سفر پر بات شروع ہوئی۔ ان کے بہ قول، گھر کے ماحول اور موسیقی سے شغف نے اُنہیں شعر کہنے کی راہ سُجھائی۔ 1965ء کی جنگ میں خندق کھودنے کے تجربے سے گزرے، جس نے اندر کے شاعر کو اظہار کی دہلیز پر پہنچا دیا۔ پہلی غزل تب ہی کہی۔ اِس ضمن میں اسکول کے استاد، عبدالجبار ہاشمی کی حوصلہ افزائی خوب کام آئی۔ استاد نے اُنہیں داغ کو پڑھنے کا مشورہ دیا کہ داغ زبان کا شاعر ہے۔ نویں کے استاد، عبدالماجد نے بھی راہ نمائی کی۔ آنے والے برسوں میں سر نہوڑاے شعر کہتے رہے۔ کسی سے اصلاح نہیں لی۔ اپنا کلام کسی کو دکھاتے ہوئے گھبراتے تھے۔ ابتدا میں نظمیں کہیں، رباعیات کا بھی تجربہ کیا، پھر اظہار کی خواہش نے غزل کے قالب میں ڈھلنا شروع کر دیا۔ تخلص تو عاصم ہی تھا، مگر عندلیب شادانی سے متاثر ہو کر عاصم شادانی کے نام سے بھی لکھا۔ پھر لیاقت علی عاصم ہو گئے۔

1970ء میں اُن کی غزل ایک مؤقر اخبار کے ادبی صفحے پر شایع ہوئی۔ پھر ’’اوراق‘‘ میں اُن کی شاعری نے جگہ پائی۔ اب وہ جراید میں تخلیقات بھیجنے لگے۔ پنڈی سے شایع ہونے والے غزلوں کے ایک انتخاب میں بھی اُن کی تخلیق جگہ پانے میں کام یاب رہی۔ سینیرز کا جو حلقہ میسر آیا، وہ سحر انصاری، نصیرترابی، جون ایلیا، انور شعور، عبید اللہ علیم، سلیم کوثر، جمال احسانی اور صابر ظفر جیسے کہنہ مشق شعرا پر مشتمل تھا۔

پڑھنے کا باقاعدہ آغاز تو 1974ء میں ہوا، مگر پہلا مشاعرہ اُنھوں نے ایس ایم کالج کی طرف سے پڑھا تھا۔ دراصل بھٹو صاحب کے زمانے میں ’’دور اصطلاحات‘‘ کے زیر عنوان این ای ڈی کالج میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا تھا۔ راغب مراد آبادی اس کے میزبان تھے۔ پروین شاکر کا بھی، اُن کے مطابق، وہ پہلا مشاعرہ تھا۔

مشاعرے تو وہ پڑھتے رہے، مگر اِس عمل میں تسلسل کا فقدان رہا۔ سبب یہ تھا کہ محفل رات گئے تک جاری رہتی، مگر منوڑا جانے والی آخری لانچ اپنے مخصوص وقت پر روانہ ہوجاتی تھی۔ 1982ء میں وہ کیماڑی منتقل ہو گئے۔ پھر ناگن چورنگی کے علاقے میں رہایش اختیار کی۔ اِس وقت بھی وہیں مقیم ہیں۔ شہری علاقے کا حصہ بننے کے بعد مشاعرے پڑھنے کے عمل میں تیزی آگئی اور انہوں نے کراچی کے ممتاز شعرا صف میں جگہ پائی۔ مشق سخن کا سلسلہ کل کی طرح آج بھی جاری ہے۔

لیاقت عاصم 28 جون 2019ء (بروز جمعہ) کو دل کا دورہ پڑنے سے کراچی میں انتقال کر گئے، وہ ایک عرصے سے سرطان کے مرض میں مبتلا تھے۔[1] ان کی نمازِ جنازہ، مسجدِ طوبیٰ نارتھ کراچی میں ادا کی گئی، جب کہ تدفین محمد شاہ قبرستان نارتھ کراچی میں ہوئی۔

لیاقت علی عاصم کی شاعری

لیاقت علی عاصم کا مجموعہ کلام

ہم معذرت خواہ ہیں کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔