12:24    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

قتیل شفائی کی شاعری

769 0 0 00

حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا

ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا

گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا

لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا

سمجھو وہاں پھلدار شجر کوئی نہیں ہے

وہ صحن کہ جِس میں کوئی پتھر نہیں گرتا

اِتنا تو ہوا فائدہ بارش کی کمی سے

اِس شہر میں اب کوئی پھسل کر نہیں گرتا

انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی

اتنا تو کبھی کوئی سخنور نہیں گرتا

حیراں ہے کوئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی

تالاب میں اب کیوں کوئی کنکر نہیں گرتا

اس بندہء خوددار پہ نبیوں کا ہے سایا

جو بھوک میں بھی لقمہء تر پر نہیں گرتا

کرنا ہے جو سر معرکہِ زیست تو سُن لے

بے بازوئے حیدر، درِ خیبر نہیں گرتا

قائم ہے قتیل اب یہ میرے سر کے ستوں پر

بھونچال بھی آئے تو مرا گھر نہیں گرتا

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

قتیل شفائی کی شاعری

مزید شاعری

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔