یہ آنکھیں دیکھ کر ہم ساری دنیا بھول جاتے ہیں
انہیں پانے کی دھن میں ہرتمنا بھول جاتے ہیں
تم اپنی مہکی مہکی زلف کے پیچوں کو کم کرلو
مسافر ان میں گِھر کر اپنا رستہ بھول جاتے ہیں
یہ آنکھیں جب ہمیں اپنی پناہوں میں بلاتی ہیں
ہمیں اپنی قسم ہم ہر سہارا بھول جاتے ہیں
تمہارے نرم و نازک ہونٹ جس دم مسکراتے ہیں
بہاریں جھینپتی ہیں، پھول کِھلنا بھول جاتے ہیں
بہت کچھ تم سے کہنے کی تمنا دل میں رکھتے ہیں
مگر جب سامنے آتے ہو، کہنا بھول جاتے ہیں
محبت میں زباں چپ ہو تو آنکھیں بات کرتی ہیں
یہ کہہ دیتی ہیں وہ باتیں، جو کہنا بھول جاتے ہیں