12:44    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ولی دکنی کا تعارف

( 1667-1707 )

یہ ولی ہیں۔اردو غزل کے باوا آدم! اردو میں شاعری کا سلسلہ اگرچہ بہت پہلےامیر خسرو کے عہد سے ہی شروع ہو گیا تھا ۔ لیکن شعراء میں ہندی،ہندوی یا ریختہ کوجو اردو کے ہی دوسرے نام ہیں، وہ عزت و مرتبہ حاصل نہیں تھا جو فارسی کو حاصل تھا۔ شاعری فارسی میں کی جاتی تھی اور شعراء تفریحا ً اردو میں بھی شعر کہہ لیتے تھے ۔یعنی شاعر رہتے تو ہندوستان میں تھے لیکن تقلید ایرانی شاعروں کی کرتے تھے۔اس صورت حال نے احساس اور اس کے بیان کے بیچ ایک خلاء سا پیدا کر دیا تھا جسے پر کرنے کی ضرورت لازماً محسوس کی جاتی رہی ہو گی۔ایسے میں 1720ء میں جب ولی کا دیوان دہلی پہنچا تو وہاں کے لوگ ایک حیران کن مسرت سے دوچار ہوئے اور ان کی شاعری خاص و عام میں مقبول ہوئی ان کے دیوان کی نقلیں تیار کی گئیں،ان کی غزلوں کی طرح پر غزلیں کہی گئیں اور ان کے سر پر ریختہ کی بادشاہت کا تاج رکھ دیا گیا۔بعد کے نقادوں نے ان کو اردو کا "چاسر" قرار دیا۔ولی کومیر تقی میر سے پہلے اردو غزل میں وہی مرتبہ حاصل تھا جو بعد میں اور آج تک میر صاحب کو حاصل ہے۔ ولی نے شعری اظہار کو نہ صرف یہ کہ ایک نئی زبان دی بلکہ اردو زبان کو ایک نیا شعری اظہار بھی دیا جو ہر طرح کے تصنع سے آزاد تھا۔ ولی فارسی شعراء کے برعکس، خیالی نہیں بلکہ جیتے جاگتے حسن کے پرستار تھے، انہوں نے اردو غزل میں اظہار کے نئے سانچے مرتب کئے،زبان کی سطح پر دلچسپ تجربات کئےجو رد و قبول کی منازل سے گزر کر اردو غزل کی زبان کی تعمیر وترقی میں مددگار ثابت ہوئے اور اردو غزل کی ایسی جاندار روایت قائم ہوئی کہ کچھ عرصہ تک ان کے بعد کے شعراء، ریختہ میں فارسی شعری روایت کو معیوب سمجھنے لگے۔انہیں اردو میں جدید شاعری کی اولین تحریک کا بانی قرار دینا غلط نہ ہو گا۔یہ ان کی شاعری کا تاریخی پہلو ہے ۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔