03:27    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

1474 0 0 00

ڈاکٹر سیّد محمد یحیٰی صبا

آغا شاعر دہلوی اور ان کا عہد

آغا شاعر قزلباش دہلوی کا اصل نام آغا ظفر علی بیگ تھا۔ وہ اصلاً ایرانی النسل کے تھے۔ محمد شاہ رنگیلا کے دور حکومت میں نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا اور جون 1739ء میں دہلی کو لوٹ کر مال غنیمت کے ساتھ ایران و اپس ہو گیا مگر اس کے لشکر میں سے چند لوگ دہلی میں ہی رہ گئے اور ہندوستان کو اپنا وطن بنا لیا۔ انہیں لوگوں میں سے آغا شاعر قزلباش دہلوی کے بزرگ بھی تھے۔ شاعر ان کا تخلص تھا اور ایرانی ہونے کی حیثیت سے قزلباش دہلوی کہلاتے تھے۔ ترکی میں قزل کے معنی سرخ کے ہوتے ہیں اور باش سر کو کہتے ہیں چونکہ ان کے بزرگ سپاہی تھے اور روایت کے مطابق سپاہی سر پر لال ٹوپی پہنتے ہیں اسی لحاظ سے وہ قزلباش کہلاتے تھے۔ رفتہ رفتہ قزلباش کا ایک قبیلہ ہو گیا آغا شاعر قزلباش دہلوی اسی قبیلہ کے ایک فرد آغا عبد علی بیگ قزلباش کے فرزند تھے۔

          آغا شاعر کے آبا و  اجداد کا پیشہ سپہ گہری تھا شروع میں ان کے بزرگ مغلیہ حکومت کے دربار سے وابستہ رہے اور فوجی خدمات انجام دیتے تھے جب زمانے نے کروٹ لی اور مغلیہ حکومت کا زوال ہو گیا تو انگریز بر سر اقتدار ہو گئے نتیجتاً ان کے بزرگوں نے انگریزی فوج ملازمت کر لی یہ سلسلہ ان کے دادا کے زمانے تک چلا مگر ان کے والد آغا عبد علی بیگ نے ’’تیر شکستہ نیاں گاں کو قلم میں بدلا۔ انہوں نے رڑکی اسکول سے اور سیری پاس کر کے مستحکم طور پر سرکاری ملازمت کر لی اور دہلی میں کشمیری دروازہ موجودہ کشمیری گیت کھڑکی ابراہیم خاں میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ آغا شاعر قزلباش کے والد ایک نوکر پیشہ ہونے کی حیثیت سے اس دور کے حالات سے متاثر  ہو کر شعرو شاعری بھی کرتے تھے مگر ان کا کوئی بھی کلام دستیاب نہیں ہے وہ بنیادی طور پر صوفی منش تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے صاحب زادے شعر و سخن کی طرف مائل ہوئے۔

          آغا شاعر کی پیدائش بروز یکشنبہ 5مارچ 1871 ء میں ان کے آبائی گھر کشمیری دروازہ کھڑکی ابراہیم میں ہوئی۔ باپ کے اکلوتے بیٹے ہونے کی حیثیت سے ان کی پرورش و پرداخت یوں کہئیے کہ مثنوی سحر البیان کے ہیرو بے نظیر کی طرح ہوئی اور ہوتی بھی کیوں نہیں گھر میں خد ا کا دیا ہوا بے شمار مال و اسباب تھا ساتھ ہی ان کے والد آغا عبد علی بیگ قزلباش اعلی عہدے پر فائز تھے۔ ان کی ماں نہایت ہی نیک خدا ترس، صوم صلوۃ کی پابند پسند اور خوددار خاتون تھیں۔ قدامت پسندی ورثے میں ملی تھی البتہ اس طرح آغا شاعر قزلباش دہلوی بڑے ہی لاڈ و پیار سے پرورش پا کر جب سن شعور میں داخل ہوئے تو ان کے والد نے انہیں اس وقت کے مشہور و ممتاز درسگاہ اینگلو عربک اسکول اجمیری گیٹ دہلی میں داخل کر ادیا اس وقت کی روایت کے مطابق انہوں نے اردو ، فارسی، عربی، انگریزی وغیرہ علوم حاصل کئے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے انگریزی با ضابطہ اسکول یا درسگاہ میں نہیں پڑھی بلکہ لگن، مطالعہ، مشاہدہ، کے ذریعہ انگریزی زبان پر عبور حاصل کیا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے شیکسپئر کے بعض ڈراموں کا ترجمہ انگریزی  سے اردو میں کیا ہے۔ جواب تک غیر مطبوعہ ہیں اینگلو عربک اسکول کی تعلیم کے بعد آغا شاعر قزلباش دہلوی کی باقاعدہ تعلیمی زندگی کا سلسلہ مکمل طور پر ختم ہو گیا۔آغا شاعر قزلباش کا مطالعہ وسیع تھا ساتھ ہی ترجموں اور انگریزی زبان کے مطالعہ کے ذریعہ اپنی استعداد میں اضافہ کرتے رہے۔

          ابھی موصوف نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہی تھا کہ ماں کی ممتا سے محروم ہو گئے والدہ کا سایہ سر سے اٹھنا تھا کہ دن بہ دن ماں کی فرقت میں افسردہ رہنے لگے۔ ادھر حالات کے پیش نظر ان کے والد نے دوسری شادی کر لی روایت کے مطابق سوتیلی ماں کا نام سن کر آغا شاعر قزلباش دہلوی کا دل کانپ اٹھا ان کے لئے سکون آرام راحت چین اور اطمینان کو سوں دور ہو گیا۔ گھرکی زندگی ان کے لئے زنداں ہو گئی تھی سوتیلی ماں پھر سوتیلی ہوتی ہے  یہ اپنی ماں کے آنکھوں کے تارے تھے سوتیلی ماں سے نہیں بنی مہربان باپ کی ایک نہ چلی چنانچہ ظلم و ستم سے تنگ آ کر آغا شاعر ایک دن گھر سے نکل گئے یا یوں کہئے کہ نکال دئے گئے کئی دن تک بے یار و مدد گار بھوکے پیاسے فاقے کی حالت میں شہر کے فٹ پاتھ کا طواف کر تے رہے تین دن حیران و پریشان بھوک سے بے حال نیند سے نڈھال جامع مسجد کے سامنے والے میدان میں حضرت شاہ کلیم اللہ رحمۃ اللہ جہاں آبادی کے مزار پر آرام اور خدا کی مدد کے طلبگار و امیدوار بن کر بیٹھ گئے زمانے کے بیچ و خم سے گھبرا کر  زار و قطار رونے لگے تھکے ماندے تو تھے ہی آنکھ لگ گئی سونے کی حالت میں ان کو تازہ کھانے کی خوشبو آئی اور اس کے ساتھ بیدار ہو گئے جاگنے کی حالت میں دیکھا کہ سامنے زردے کی رکابی رکھی  ہے چہار طرف سناٹا دور دور تک انسان کا کوئی نام و نشان نہیں تین دن کے فاقے سے تو تھے ہی کھانا دیکھنے کے بعد بھوک کی شدت بڑھنے لگی۔ بسم اللہ کر کے کھانے لگے رکابی کے سارے چاول کھا گئے اور پانی پیا بعد اس کے موزوں شعر کی شکل میں خدا کا شکر ادا کیا گویا کہ آج سے آغا شاعر قزلباش دہلوی کا دل شاعری کی طرف مائل ہوا جس کو علم خدا داد کہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ح۔1

          تعلیم حاصل کرنے کا سلسلہ تو ختم ہو چکا تھا اس کے بعد وہ حضرت کلیم اللہ کے پیروکار ہو گئے۔ دن بھر گھومتے پھرتے تھے مگر رات کو حضرت شاہ کلیم اللہ ؒ کے مزار پر عبادت و ریاضت میں رات گزارتے تھے اور اس طرح آغا شاعر قزلباش دہلوی زندگی بھر شاہ کلیم اللہ کے عقیدت مندر ہے ان کی حیات میں کبھی ان کی پایۂ استقامت کو لغزش نہ نہیں ہوئی۔

          جس عہد میں آغا شاعر نے مشق سخن کی ابتدا کی اس وقت ادب میں دو دھارے خاص طور سے نمایاں تھے ایک طرف تو ہندوستان میں داغ کا طوطی بول رہا تھا دوسری طرف حالی ، اکبر، چکبست، آتش، ناسخ، مولانا ابوالکلام آزاد، خواجہ حسن نظامی جوش ملیح آبادی، جگر مراد آبادی اور امیر مینائی وغیرہ کی نئی نظموں نے دھوم مچا رکھی تھی یہ  بیسویں صدی کا زمانہ تھا اس زمانہ کے اکثر شاعر و ادیب ان رجحانات سے اثر قبول کر تے تھے اس زمانے میں ’’مخزن‘‘ کا اجرا ہوا اس سے نئے رجحانات کو اور تقویت پہنچی۔

          آغا صاحب کی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز 1890ء یعنی انیسویں صدی کے آخری دہائی سے ہوتا ہے۔ آغا شاعر ماہر فن تھے وہ شاعر ،محقق، صحافی، انشا پرداز ناول نگار،  ڈرامہ نگار ، قصیدہ نگار، مثنوی نگار، غزل گو، رباعی گو اور مضمون نگار تھے ان کا ایک اہم کام قرآن پاک کا منظوم ترجمہ بھی ہے۔ انہوں نے رباعیات عمر خیام کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے وہ بزرگ کا مل تھے وہ ہند و مسلم اتحاد کے حامی تھے ان کی شاعری ہویا ڈرامہ نگاری، ناول نگاری ہندوستان کے سماجی ، سیاسی ، اقتصادی مسائل کی تصویر پیش کرتی ہے۔ ان کی شاعری اتحاد باہمی بھائی چارگی، اخوت ، محبت، شجاعت اور قومی یکجہتی کا ضامن ہے۔

           اس طرح آغا شاعر کی شاعری چاہے وہ نظم ہو یا نثر انیسویں صدی کے اواخر دس سال کی اور بیسویں صدی کی چار دہائی پر محیط ہے۔ آغا شاعر قدامت پسند تھے مگر انہوں نے نئے رجحانات کو بھی قبول کیا اور جب انہوں نے شاعری شروع کی تو بلا شبہ اپنے استاد فصیح الملک بلبل ہند حضرت داغ کی قائم کی ہوئی روایات پر چلنے لگے مگر ان کے دوش بدوش ان کے یہاں بعض ایسے  نئے پہلو بھی نمایاں دکھائی دیتے ہیں جن کو نئے عہد کے بدلتے ہوئے حالات اور ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے ایک نئے احساس و شعور تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

          چنانچہ ان دنوں آغا شاعر کو  رہبری کی ضرورت محسوس ہوئی جیسا کہ اوپر ذکر آ چکا ہے  ان کی عمر بارہ سال کی تھی کہ وہ سوتیلی ما کی وجہ سے گھر سے نکل گئے تھے اور شاہ کلیم اللہ کے مزار میں پناہ گزیں تھے اب ان کا دل شعرو شاعری کی طرف مائل ہوا اور استاد ڈھونڈ نے لگے البتہ اس وقت خاندان لوہا رو علم و ادب کا گہوارہ تھا اور اس کے بانی نواب الہٰی خاں معروف تھے انہیں کوئی اولاد نہیں تھی مگر ان کے بھائی نواب احمد بخش خاں کے چھوٹے بیٹے نواب ضیاء الدین احمد خاں نیر رخشاں تھے وہ نواب الہی خاں سے استفادہ کر کے فن شاعری پر کامل دستگاہ حاصل کر چکے تھے ان کے دو بیٹے شہاب الدین احمد خاں ثاقب اور سعید الدین احمد خاں طالب دونوں شاعر تھے ثاقب کے چار بیٹوں میں سے چاروں شاعر ہوئے اور طالب لا ولد تھے ہی ثاقب کے بڑے بیٹے شجاع الدین احمد خاں تاباں اور ان کے چچا طالب اس زمانے کے مشہور و معروف شاعروں اور ادیبوں میں شمار ہوتے تھے۔

          خدا کی مدد شامل حال ہوئی آغا شاعر دہلوی کی ان دونوں کے یہاں رسائی ہو گئی تاباں شعر کے فن میں کا مل تھے انہوں نے آغا شاعر کی مکمل حمایت اور رہنمائی کی اور رموز شاعری سے آگاہ کرنے کی کوشش میں آغا شاعر نے ایک ہفتہ وار اخبار’’آصف الاخبار‘‘ جاری کیا جس کا دفتر ان کے آبائی مکان کشمیری دروازہ کھڑکی ابراہیم خاں میں تھا۔ اس کے ذریعہ وہ ادبی مضامین نظم و نثر لکھتے رہے ان کے رنگین شاعرانہ اور پر کیف مضامین کا ایک مجموعہ ’’خمارستان‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے اس میں 37مضامین ہیں جو مختلف موضوعات سے متعلق ہیں اس لئے  ان سارے مضامین کا مزاج ایک سا نہیں ہے لیکن ایک چیز ضروری ہے جو ہر مضمون میں بے حد نمایاں ہے اور وہ ہے آغا شاعر کی شاعرانہ فطرت جو ان کی نثر میں بھی نمایاں ہے جن میں سے اکثر شائع نہیں ہوئے ہیں۔ آغا صاحب اپنے ڈراموں  میں کبھی کبھی خود ہیرو کا رول ادا کرتے ہوئے نظر  آتے ہیں۔ وہ ایک کامیاب ڈرامہ نگار اور ناول نویس تھے ان کے بعض ناول اور ڈرامے ان کی زندگی میں شائع ہو چکے تھے انہوں نے قرآن کریم کا منظوم ترجمہ کر کے کار نمایاں انجام دیا ان کے اس غیر معمولی کام کو اس وقت کے ادیب اور سیاسی رہنا مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا اشرف علی تھانوی، خواجہ حسن نظامی بابائے اردو مولوی عبدالحق، شمس العلماء مولوی عبد الرحمن، مفتی عبد القدیر قادری بدایونی مفتی اعظم حیدر آباد دکن ، مفتی کفایت اللہ مفتی اعظم ہند وغیرہ جیسے لوگوں نے سراہا ہے۔

           حقیقت یہ ہے کہ مدتوں کی محنت کے بعد 1922 ء میں پہلا پارہ انہوں نے  اپنی زندگی میں دہلی سے شائع کیا اس پر اکبر الہ آبادی نے ایک خط میں لکھا تھا۔

          حضرت آغا تسلیم!

          ’’اللہ آپ کو جزائے خیر دے آپ نے کلام اللہ کو نظم کر دیا کوئی اللہ کا بندہ اسے طبلہ اور سارنگی پر گا دے تو مزہ آ جائے گا۔‘‘  ح۔ 2

منظوم ترجمہ کا نمونہ ملاحظہ کئے جسے اس میں آغا شاعر نے بسم اللہ اور سورہ فاتحہ کا ترجمہ یوں کیا ہے۔

’’ہے نام سے خدا کے آغاز کا(اجالا)

جو مہر بان بڑا ہے بے حد جو رحم والا

تعریف اس خدا کی جو رب ہے عالموں کا 

محشر کے دن کا مالک روز جز ا کا والی

تجھ کو ہی پوجتے  ہیں ہم تیرے ہیں سوالی

سیدھی ڈگر پہ لے چل ثابت قدم بنا دے

نعمت جنہیں عطا کی ان کی روش سجھا دے

ہاں (ان کی راہ) جن پر قہر و غضب ہوئے ہیں

 (نے وہ) کہ جو بھٹک کر گمراہ ہو گئے ہیں۔‘‘

          انہوں نے قرآن کریم کا منظوم ترجمہ کے علاوہ عمر خیام کی رباعی کا مکمل ترجمہ کیا جس میں دو سو ان کی زندگی میں ’’خمکدۂ خیام‘‘ کے نام سے شائع ہوا بقیہ ساڑھے چار سو رباعیوں کا ترجمہ غیر مطبوعہ ہے یہ ترجمہ اردو زبان کے مقتدر ترجموں میں سب سے زیادہ مقبول ترجمہ ہے ان کی اس خد مت کو سراہتے ہوئے عطا اللہ بالوی صاحب نے 1837ء میں لکھا تھا۔

’’میں بیا نگ دہل یہ کہنے کے لئے تیار ہوں عمر خیام کا سب سے بڑا  سب سے بہتر اور اعلی متر جم دہلی کا مایۂ ناز شاعر آغا شاعر ہے ‘‘۔ح۔ 3

          آغا شاعر کی اس خدمت کو سراہتے ہوئے مالک رام نے لکھا ہے کہ! ’’آغا شاعر دہلوی نواز خاں ناز تالپور کی فرمائشوں پر رباعیات خیام کا منظوم ترجمہ اردو میں کیا جو خمکدہ خیام کے نام سے شائع ہوا۔ ح۔ 4

          بیشتر نقادوں کی رائے ہے کہ اردو میں خیام کا اس سے بہتر اور عمدہ ترجمہ کوئی نہیں یہاں نمونہ کے طور پر خیام اور آغا شاعر کے اشعار کو قلم بند کیا جاتا ہے۔

 

 

     خیام

 آمد  سحری  نداز  میخانۂ ما

کای  رند  خراباتی دیوانۂ ما

برخیز کے  پر کنیم پیمانہ زمی

زان پیش کہ پر کندپیمانۂ ما    

 

آغا شاعر

آئی یہ ندا صبح کو میخانے سے

اے رند شراب خوار، دیوانے سے

          اٹھ جلد ،شراب سے  ساغر بھر لیں

کمبخت!چھلک جائے نہ پیمانے سے

 

خیام

 گرمے نخوری ، طنغہ مزن مستاں را      

 گر دست دہد، توبہ کنم یذداں را

    توفحر بدیدین کنی کہ من مے نخوارم

صد کا رکنی کہ مے غلام است آن را   

 

آغا شاعر

طعنہ نہ دے مستوں کو ، جو ہے مئے سے حذر

ہم توبہ ہی کر لیں گے مصیبت ہے اگر

ہے فخر یہی نا۔ کہ تو میخوار نہیں

سو عیب ہے اور مے سے بد تر بدتر

 

عمر خیام

 

ہرچند کہ رنگ دبوی زیباست مرا

چون لالہ رخ وچو سروبالاست مر ا

معلوم نشد کہ درطر  بخانۂ  خاک

نقاش من از بہرچہ آراستہ مرا؟

 

افسر الشعرا آغا شاعر

قدرت نے مجھے حسن دیا تھا کیسا؟

رخ پھول سا،قد سرو سے پیارا بخشا

پریہ نہ کھلا کہ خاک کر نے کے لئے

نقاش نے پھر مجھ کو سنوارا کیوں تھا؟

 

عمر خیام

درہر وشتی کہ لالہ زاری بودہ است

آن لالہ زخون شہر یار بودہ است

ہر برگ بنفشہ کز زمین  می  روید

خالیست کہ پر رخ نگا ری بودہ است

 

افسر الشعرا آغا شاعر

صحرا میں جہاں لالۂ رنگین ہے کھلا

سلطان کا خون ہے کسی قیصر کا

جو پتی بنفشہ کی زمیں سے پھوٹی

تل ہے ، جو کسی چاند سے رخسار پہ تھا

 

عمر خیام

نا کر دہ گناہ در جہان کیست بگو؟

آنکس کہ گنہہ نکر و چون زیست بگو؟

من  بد کتم  و تو  بد مکافات کنی

پس فرق میاٰن من و تو چیست بگو؟

 

افسر الشعرا آغا شاعر

نا گردہ گناہ کون دینا میں ہوا

جس نے نہ کیا پاپ وہ کس طرح جیا

مجھے ہو بدی، تو اس کا بدلہ دے برا

مجھ تجھ میں بتا تو سہی پھر فرق ہے کیا؟

 

عمر خیام

من بندۂ عاصیم رضای تو کجاست

تاریک و لم نور ضیاوی تو کجاست

ماراتوبہشت اگر بطا عت بخش

ایں ضردبود لطف عطائی تو کجاست

 

افسر  الشعرا آغا شاعر

پاپی سہی پر تیری رضا ہے وہ کہاں

تاریک ہے دل نور ضیا ہے وہ کہاں

گر مجھ کو بہشت بندگی سے بخشا

اجرت ہوئی یہ لطف و عطا ہے کہاں

 

          جیسا کہ اوپر ذکر آ چکا ہے کہ آغا شاعر فن ترجمہ پر عبور رکھتے تھے۔ انہوں نے ایک انگریزی ناول کا ترجمہ اردو میں ’’طلسم بدلہ‘‘ کے نام سے کیا جو بالاقساط ان کے  اخبار ’’آصف الاخبار‘‘ میں چھپتا رہا انہیں دنوں آغا شاعر نے ایک ماہنامہ ’’گلدستہ’’پنجہ نگاریں ‘‘ کے نام سے اپنی سر پرستی میں نکالا اس ماہنامہ میں اس وقت کے شاعروں اور ادیبوں کا کلام چھپتا تھا۔ آغا شاعر کے یہ دونوں خریدے ایک عرصہ تک شائع ہوتے رہے جس کے ذریعہ سے اردو زبان و ادب کو حد درجہ فروغ ملا اور ساتھ ہی آغا شاعر کو میدان صحافت میں شہرت حاصل ہوئی۔ اس کے علاوہ آغا شاعر نے متر جم کی حیثیت سے شکسپئر کے انگریزی ڈراموں کا اردو میں تر جمہ کیا جو غیر مطبوعہ ہے۔

          آغا شاعر قزلباش دہلوی1940-1871 اپنے عہد کے ادبی منظر نامے میں نامور نثار اور شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ وہ بیک وقت شاعر، ناول نگار ، ڈرامہ نگار، مترجم اور کئی رسالوں کے مدیر و صحافی تھے۔ داغ دہلوی کے مشہور شاگرد جہاں نواب سراج الدین احمد خاں سائل دہلوی اور منشی وحید الدین بیخود، دہلوی تھے۔ وہیں آغا شاعر نے اپنے استاد داغ دہلوی کی شاعری کو اس درجہ پھیلایا کہ ان کی شہرت کا آفتاب نصف النہار تک جا پہنچا۔یہی وجہ ہے کہ وہ جانشین داغ افسر الشعراء جہاں استاد جیسے القاب و خطابات سے نوازے گئے۔ انکے انداز بیان کی تشکیل مشاہدے کی قوت احساس کی شدت، جذبے کی جدت اور تخیل کی رفعت کو ان کی شاعری میں بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔’’تیر و نشتر‘‘ ان کا واحد دستیاب مجموعہ ہے انہوں نے افسانے بھی لکھے ہیں۔چند افسانے ان کے مجموعے خمارستان میں ملتے ہیں۔جسے مضامین کا مجموعہ بھی قرار دیا گیا ہے اس میں شامل مندرجہ ذیل افسانے ہیں۔ یاد وطن، نیا سال، دامان بہار، جوئی اور بارش کا ننھا قطرہ، ہندوستانی، بڑھو ورنہ کچل دئے جاؤ گے، پوشیدہ، ایک قطرہ خون کی سر گذشت، باغ بہشت، حسن اردو کا حجاب، پھول والوں کی سیر، چھوئی موئی، وفائے عہد، کھلتا ہوا پتہ، بجھتا ہو ا چراغ، ٹوٹا ہوا ہاتھ، انیس و دبیر، خانہ بدوش، جل ترنگ، چاندنی رات دریائے فرات، رنگیلا جوگی، آہ پنڈت رتن ناتھ سرشار، حضرت داغ کی ایک صحبت، اپنے خالق کو پہچان، میری بادشاہت کا زمانہ، غلام ہندوستان، پہلے کی دلی، جمنا کے کنارے، عبرت ناک مشاہدہ، فیروز شاہ کی لاٹ، ایک البیلی شام، برسات کی بہار، تاجدار دکن کی سوانح عمری، استاد داغ کی اصلاح ، ادبی صحبت، میرا گناہ، آغا شاعر کا پیغام۔ انہوں ڈرامے بھی لکھے ہیں اور ناول بھی  ارمان، ناہید، ہیرے کی کنی، اور نقلی تاجدار، انکے مشہور ناول ہیں ان کے ناول کے بارے میں بھی  یقین کے ساتھ یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے صر ف چار ہی ناول لکھے ہو نگے اس لئے کہ ’’لیلی دمشق ‘‘ کو بھی ناول کہا جاتا ہے ’’شعلہ جوالہ‘‘ ایک ناولٹ اور ’’دامن مریم‘‘ موصوف کے انشائیوں کا مجموعہ ہے جو ان سے منسوب ہے۔

          موصوف اپنے عہد کی ایسی اہم شخصیت تھے جس کے متعلق مولا نا شبلی نعمانی، سیماب اکبر آبادی، سر شیخ عبد القادر ، صفی لکھنوی ، جگر مرادآبادی ، جوش ملیح آبادی، حامد حسن قادری، سید عابد علی عابد، خواجہ حسن نظامی،عبادت بریلوی، امیر حسن عابدی، مالک رام، مہیشور دیال، وجاہت حبیب اللہ، ومل جین ، عمار رضوی، مہاتما گاندھی ، فرمان فتح پوری وغیرہ نے اپنے مضامین میں اپنی قیمتی رائے کا اظہار کیا ہے اور آغا شاعر کے ادبی حیثیت کو متعین کر نے کسی کو شش کی ہے حیرت انگیز بات  یہ ہے کہ ان کی شخصیت اور انکے ادبی کام پر اب تک کسی بھی یو نی ور سٹی میں کوئی تحقیقی اور تنقیدی کام نہ ہو سکا ہے۔ آغا شاعر دہلوی کی شاعری میں روایت اور تجربے کا نہایت ہی حسین امتزاج  ہے  جو نواب مر زا داغ کی شاعری کا سرچشمہ اور پیش خیمہ ہے۔ نوح ناروی ، سائل دہلوی، بیخود دہلوی کے ساتھ ساتھ اردو شعر گوئی میں موصوف کا اپنا علیحدہ مقام ہے۔

          آغا شاعر نے ڈرامے بھی لکھے ہیں موصوف مشہور ڈرامہ نگار آغا حشر کاشمیری کے استاد تھے۔آغا حشر کاشمیری صحافی بھی تھے وہ ’’آصف الا خبار‘‘ اور’’پنجۂ نگاریں ‘‘ رسالے کے مدیر تھے انہوں اس وقت کے سماجی، سیاسی ،تاریخی، معاشی، اور ادبی مسائل پر بڑی بے باکی کے ساتھ اداریے لکھے اور اس وقت کے مسائل پر محیط و مبنی بے شمار مضامین قلم بند کئے ان کی نظر سماج اور سیاست کے ساتھ ادب پر بھی گہری تھی۔ آغا شاعر کی ایک حیثیت متر جم کی بھی ہے انہوں نے قرآن پاک ، رباعیات، عمر خیام اور ایک انگریزی ناول کا تر جمہ اردو میں  ’’طلسم بدلہ‘‘ کے نام سے کیا ہے جو اس عہد میں معیاری اور ادبی تر جمہ ہونے کا سند حاصل کر چکے ہیں اور اس وقت بھی مقبول عام ہیں۔

          آغا شاعر قزلباش دہلوی آغا حشر کاشمیری کے استاد تھے ڈرامے کا فن آغا حشر نے خاص طور سے آغا شاعر دہلی سے ہی سیکھا ہے  اس سے آغا شاعر دہلوی کی ادبی شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ آغا حشر کاشمیری جیسے ادیب نے ان کے سامنے زانوئے ادب تہ کیا۔ ‘‘ ح۔ 5

          یوں آغا شاعر دہلوی کی ادبی زندگی کا کارواں اپنی منزل طے کرتا رہا اس زمانے میں شیخ عبد القادر نے 1901ء میں  اردو کا مشہور ماہنامہ ’’مخزن‘‘ لاہور سے جاری کیا اور آغا شاعر کو لکھنے کے لئے مدعو کیا اس طرح ان کا کلام ’’مخزن‘‘ کے اس ابتدائی دور میں  باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا اس سے بھی آغا شاعر کو شہرت ملی۔1901ء میں بھی ان کے کلام کا مختصر مجموعہ ’’تیر و نشتر‘‘ کے نام سے  مخزن پریس لاہور سے شائع ہوا۔ اس زمانے میں منشی غلام محمد نے امرت سر سے ایک ہفتہ وار پر چہ ’’وکیل‘‘ کے نام سے 1901ء میں جاری کیا۔  ح۔ 6

          اس کے پہلے ایڈیٹر لاہور کے مولوی انشا اللہ خاں تھے دو تین سال کے بعد انشاء اللہ خاں نے ملازمت تر ک کر کے اپنا ذاتی پرچہ ’’وطن‘‘ ہفتہ وار 1903ء  میں لاہور سے جاری کیا۔ح  6

           اس کے بعد کچھ دنوں تک ’’وکیل‘‘ کی ادارت خود غلام محمد کرتے رہے پھر انہوں نے 1904 ء میں مولانا ابو الکلام آزاد کو مدیر کی حیثیت سے کام کرنے کی دعوت دی مولانا آزاد نے اسے منظور کر لیا ادھر غلام محمد نے آغا شاعر کو پر چے کے حصہ نظم کی خدمت سپر د کی مگر یہ کام زیادہ دن تک نہ چل سکا اس لئے کہ مولانا آزاد آزادی کے علمبردار تھے وہ آزادی کا خواب دیکھ رہے تھے اور آغا شاعر داغ کے شاگرد ہونے کی حیثیت سے رومانیت کے شکار تھے وہ شوخی اور بانکپن کے سراپا مجسمہ تھے غرض جلد ہی یہ  دونوں وکیل سے الگ ہو گئے مولانا ابوالکلام آزاد نے کلکتہ کی راہ لی اور آغا شاعر دہلوی نے لاہور کا راستہ اختیار کیا۔

          لاہور پہنچ کر ان کی ملاقات فتح علی خاں قزلباش سے ہوئی جو بہت ادب نواز تھے مگر ساتھ ہی حاسد بھی تھے کچھ دنوں تک تو آغا شاعر کی انھوں نے بہت ہی خلوص اور محبت سے خدمت کی مگر جب دیکھا کہ ان کی شہرت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے تو فتح علی خاں آغا شاعر سے نا روا سلوک کرنے لگے اس لئے آغا شاعر چند دن بعد شیخ محمد رفیع دہلوی کے ساتھ رہنے لگے محمد رفیع سرکاری ملازمت میں اعلی عہدے پر فائز تھے۔

          آغا شاعر نے قیام لاہور کے زمانے میں اپنے بیٹے آفتاب علی قزلباش  کے نام پر ماہنامہ ’’آفتاب‘‘ بھی جاری کیا اس زمانے میں ماہنامہ ’’آفتاب‘‘ کا لاہور میں کافی شہرہ ہوا۔ تقریباً دو تین سال کی مدت میں ہی اس کے بے شمار خرید ار ہو گئے تھے۔ انہیں دنوں انجمن حمایت اسلام لاہور کے اجلاس بڑی دھوم دھام سے ہوا کرتے تھے ایک جلسے کے لئے انہوں نے ایک طویل نظم’’یتیموں کی فریاد‘‘ لکھی جو انہیں دنوں ایک کتابچے کی شکل میں مرغوب بک ایجنسی لاہور سے شائع ہوئی۔

          آغا شاعر دہلوی کی قادر الکلامی کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ جب لاہور میں تھے انجمن کا جلسہ برکت علی میموریل ہال میں ہو رہا تھا شام کا وقت تھا حسب معمول حاضرین میں نا مور ادبا و شعراء تشریف فرما تھے ڈپٹی نذیر احمد دہلوی صدارت کا کام انجام دے رہے تھے آغا شاعر اپنی نظم پڑھ رہے تھے اور مجمع دم بخود ہمہ تن گوش تھا یکا یک بجلی چلی گئی اور ہال تاریک ہو گیا فوراً سر عبد القادر دیا سلائی روشن کر کے آغا شاعر کے دوش بدوش کھڑے ہو گئے تا کہ پڑھنے میں دشواری نہ ہو سر عبد القادر صاحب نے یکے بعد دو تین بار سلائیاں روشن کیں اتنے میں بجلی آ گئی اور سر عبد القادر  اپنی جگہ بیٹھ گئے۔ بجلی گئی اور آئی اس موقع پر نہ تو آغا شاعر نے پڑھنا بند کیا اور نہ ہی سامعین میں سے کسی نے اپنی جگہ سے جنبش کی اس طرح لاہور کے قیام کے زمانے میں آغا شاعر نے بہت بڑے بڑے کار نمایاں انجام دئے مگر تھوڑے ہی دن میں آغا شاعر کا دل لاہور سے اچاٹ ہو گیا اور انہوں نے لاہور کی سکونت ترک کر دی۔

          آغا شاعر دہلوی نے لاہور کو خیر باد کہا اور کلکتہ تشریف لے گئے وہاں ان کی ملاقات نصیر الملک شجاعت علی خاں قونصل جنرل ایران سے ہوئی اور آغا شاعر کو ان کی مصاحبت میں رہنے کا موقع ملا اس مدت میں انہوں نے نصیر الملک کے ایماء پر ایک قصیدہ فارسی میں والی ایران مظفرالدین شاہ کی مدح میں لکھا اس پر شاہ موصوف نے خوش ہو کر آغا شاعر کو اختر الشعراء کا خطاب فرمایا اس لئے ان کے احباب ان کے نام کے ساتھ اختر الشعراء لکھتے ہیں۔

          انہیں دنوں آغا شاعر کی ملاقات آغا حشر کاشمیری سے ہوئی جو تھیٹریکل کمپنی چلاتے تھے انہوں نے آغا شاعر کو ڈرامہ لکھنے کی دعوت دی قیام کلکتہ میں انہوں نے بے شمار ڈرامے لکھے جب ڈرامے کے فن پر دستگاہ حاصل کر لی تو آغا شاعر کاشمیری کے کہنے پر وہ بمبئی منتقل ہو گئے۔ وہاں پارسی حضرات نے تھیٹریکل کمپنیاں قائم کر رکھی تھیں ان کمپنیوں کو آئے دن اسٹیج کر نے کے لئے نئے نئے ڈراموں کی ضرورت ہوتی تھی اس ضرورت کو آغا شاعر نے پورا کیا۔

          آغا شاعر کی اس کامیابی پر آغا حشر کاشمیری کو ڈرامہ لکھنے کا خیال پیدا ہوا۔ چنانچہ انہوں نے آغا شاعر سے اصلاح لی اور ڈرامہ نویسی کرنے لگے نتیجہ یہ ہوا کہ جو کام آغا شاعر نے شروع کیا تھا آغا حشر نے اسے تکمیل کی منزل تک پہنچا دیا اس طر ح انہوں نے آغا شاعر کی عقیدت میں اپنے نام کے آگے ’’آغا‘‘ لگا لیا اور آغا حشر کاشمیری کہلانے لگے حالانکہ اس سے پیشتر وہ محمد شاہ لکھا کرتے تھے۔

          آغا شاعر کی ادبی شخصیت اپنے زمانے میں مقبول تھی اس کا پتہ اس زمانے کی تحریروں سے چلتا ہے ان کی شخصیت  پر ان کے بعد آنے والے ادباء اور شعراء نے بھی۔ تحریری خراج عقیدت پیش کی ہیں۔ان میں چند ادبیوں کے خیالات ملاحظہ ہوں۔ جن سے آغا شاعر کی ادبی شخصیت زیادہ واضح شکل میں سامنے آ سکے گی۔

          حامد حسن قادری کا خیال ہے کہ:

          ’’آپ پلنگڑی پر لیٹے یوں گاؤ تکیہ سے لگے بیٹھے ہیں چاروں طرف۔ تلامذہ کا جھرمٹ ہے اور ایک صاحب غزلوں کا تبہ سامنے مسودہ رکھے قلم ہاتھ میں لئے ایک ایک غزل پڑھتے جاتے ہیں۔ حاضرین ہر شعر کو غور سے سماعت فرماتے ہیں اور مناسب موقع پر اپنی اپنی رائے کے لقمے بھی دیئے جاتے ہیں اگر اس مشورے سے استاد کی رائے کو بھی اتفاق ہو گیا تو وہی الفاظ غزل میں بنا دیئے گئے ورنہ جو استاد نے  بطور خود املا فر مایا بے ہچک وہ اس مقام پر جڑ دیا گیا اس طرح اصلاح کی اصلاح ہو جاتی تھی اور آپس کے تبادلہ خیالات سے معلومات کا دائرہ بھی وسیع تر ہوتا جا تا      تھا۔ ح۔6          

          خواجہ حسن نظامی فرماتے ہیں :

          ’’آغا شاعر قزلباش کا قد درمیانہ تھا جسم دوہرا گداز تھا چہرہ پر گول آنکھیں بڑی بڑی چمکدار اور رسیلی تھیں آواز پاٹ دار تھی جب شعر پڑھتے تھے  تو شعر کی تصویر بن جاتے تھے۔ ح۔7

          سیماب اکبر آبادی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ :

          ’’برادر مرحوم حضرت آغا شاعر قزلباش دہلوی صرف تخلص کے شاعر نہ تھے بلکہ حقیقی شاعر تھے ان کی شاعری میں زندگی تھی اور وہ شاعری میں زندگی کی ترجمانی کرتے تھے دلی اسکول اور اسالیب داغ کی تبلیغ و نمائندگی آغا صاحب کا حصہ مخصوص تھا ان کی تمام زندگی خدمت ادب میں گزری میں نے انہیں اس وقت دیکھا جب وہ منزل شباب سے گزر چکے تھے لیکن جن لوگوں نے ان کی جوانی دیکھی ہے کہتے ہیں کہ ان کی غزل گوئی اور غزل سرائی دونوں قیامت تھی وہ جب اپنی بلند آواز سے غزل پڑھتے تھے تو مشاعرے کے دور دیوار لرز جاتے تھے اور  وہ بقول شخصے لوگوں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال ڈال کر داد لیتے تھے بلند قامت بھر ا ہوا بدن رعب دار چہرہ، بڑی بڑی موچھیں کشادہ دامن اور اپنے قد سے لمبا عصا لے کر جب وہ کسی مشاعرے میں داخل ہوتے تھے تو مشاعرے میں موجود یا معین کی نگاہوں کا مرکز بن جاتے تھے اور آغا صاحب آ گئے آغا صاحب آ گئے کی آوازیں ہر طرف سے بلند ہو جاتی تھیں۔ حیدرآباد دکن کے مشاعروں میں ان کی غزل سرائی آج تک ایک حدیث یادگار ہے۔ ح۔7

          علامہ شبلی نعمانی کا خیال ہے :

          ’’آغا شاعر صاحب دلی کے نادر روزگار شاعر ہیں۔ اردو زبان داں ان سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے۔ اس خصوصیت کے علاوہ کہ اردوئے معلیٰ ان کی مادری زبان ہے ان کو لٹریچر اور انشا پرداری کا خاص مذاق ہے۔ان کی نثر نہایت صاف شتہ اور بے تکلف ہوتی ہے شاعری میں بھی کمال حاصل ہے۔ خیال بندی کے ساتھ بندش کی صفائی اور برجستگی اور روز مرہ محاورات کا نہایت عمدگی سے استعمال ان کے کلام کا خاص جوہر ہے۔ ح۔8

          پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی رقم طراز ہیں :

          شاعر مرحوم تخیل کی تہذیب ، الفاظ کی دلاویزی، اسلوب کے اور محاوروں کی صحت میں اپنے استاد کے سچے پیر و تھے۔ شاعر شاعر کا تخیل اونچا تھا ان کی فکر گہری تھی مگر ایسی نہیں کہ انسان کی فہم کو چراغ پا کر دے ان کے بیان میں مٹھاس تھی لیکن گلو سوز نہیں۔ کلا سیکل غزل کی تقریباً تمام ضروریات ان کے اشعار میں موجود تھی انہوں نے نظمیں بھی کہیں ہیں اور اچھی کہی ہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس صنف کو انہوں  نے اپنے شاگرد رشید مہاراج بہادر برق دہلوی کے سپر د کر دیا تھا  اور خود غزل کے احیاء میں مصروف رہے۔مشاعروں میں پڑھنے کا طور اگر چہ محض تحت اللفظ تھا مگر نہایت  موثر لہجہ بہت دلاویز تھا ہاتھ اور تیور سے بھی کام لیتے تھے لیکن صرف اتنا کہ  شعر کے موضوع کی رسائی قاری تک ہو جائے اور کتھک کے ہاؤ بھاؤ سے دور رہے میں نے ان کے استاد حضرت  داغ کے پڑھنے کا انداز سب سے نرالا اور موثر تھا ان سے بہتر پڑھنے ولا میں نے نہیں دیکھا بعد کے شعراء میں یہی فیصلہ شاعر مرحوم کے حق میں ہے۔‘‘ح۔9

          نیاز فتح پوری نے ان الفاظ میں یاد کیا ہے:

          وہ نہ صرف دبستان داغ کے بڑے خوش گو و پر گو شاعر تھے بلکہ اس تہذیب و روایتی زندگی کے بھی بہترین نمائندے تھے جو دلی کی اجڑی ہوئی ثقافت دلی کے مشاعروں دلی کے چاندنی چوک، دلی کی جامع مسجد اور دلی کے اکابر علم و ادب سے مخصوص تھی وہ ایک شاعر تھے اور ان کی زندگی کا وہ حسن تھا جس نے ان کی شاعری کو شہرت دوام عطا کی۔‘‘ح۔10

          مجتبیٰ حسین کا خیال ہے :

          ’’آغا شاعر کی پوری شاعری میں خواہ وہ غزل کہہ رہے ہوں یا نظم دو چیزیں بڑی نمایاں ہیں ایک تو یہی سامنے کی چیز ہے جسے ہم زبان کی صفائی کہہ سکتے ہیں۔ دوسرے ان کی وسیع النظری، زبان کی پختگی اور قادر الکلامی ان کی غزلوں اور نظموں دونوں میں یکساں طور پر پائی جاتی ہے۔ غزل میں جو زبان شوخ، صاف اور چٹپٹی ہے وہ نظموں میں پہنچ کر ایک نئے انداز سے ابھرتی ہے۔ ان کی غزلوں میں بول چال کا اندازہ جا بجا ملتا ہے وہ مصرعوں میں پختگی اور برجستگی پیدا کرنے کے علاوہ ایک ہی شعر کے کئی رخوں کو وضاحت سے پیش کرتا ہے۔میں نے اپنی زندگی میں ایسا پڑھنے والا نہیں دیکھا ایک طوفان کا منظر ایک زلزلے کا عالم ایک بم پھٹنے کی کیفیت مگر بلا کا اثر سن بھی لیں اور سہم بھی جائیں۔ شعر پر جھومنے کو دل چاہے تو بھی دم سادھے بیٹھے رہیں۔ ح۔ 11

          شیش چند طالب دہلوی:

          آغا شاعر کی وفات سے گویا ایک نہیں کئی ہستیاں ایک ساتھ اٹھ گئیں قوم کا محترم، قدامت کا مجسمہ دلی کا زبان داں شاعری کا استاد داغ کا جانشین۔ ح۔ 12

          ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا خیال ہے کہ:

          ’’آغا شاعر دہلوی کا بڑا کمال یہ ہے کہ وہ ترجمہ کو بے کیف اور بے جس نہیں ہونے دیتے چنانچہ ان کی اکثر رباعیوں میں کچھ ایسی غزلیت حیات خیزی رومانیت اسلوب کی دلکشی اور فنی پختگی نظر آتی ہے جو عمر خیام کی رباعیوں کی چغلی نہیں کھاتیں ‘‘۔ ح۔13

          سید وقار عظیم نے لکھا ہے:

          ’’آغا شاعر قزلباش کو اردو والے ایک غزل گو کی حیثیت سے جانتے ہیں جن کی غزلیں رنگین محفلوں کو رنگین بناتی ہیں اور جن کے شعر پڑھ کر اب بھی لوگ سر دھنتے ہیں۔‘‘ ح۔ 14

          اسی طرح ڈپٹی نذیر احمد دہلوی جو اردو ناول نگاری کے موجد ہیں انہوں نے اپنے عہد میں آصف الاخبار کے حوالے سے آغا شاعر کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ:

          ’’میں بلا خوف تردد کہہ سکتا ہوں کہ اردو کے جتنے اخبار میری نظر سے گزرے اور شاید ہی کوئی ایسا ہو جو میری نظر سے نہ گذر ا ہو اس کی سی زبان کے اعتبار سے دہلی اس کو شایان ہے اور یہ تعرض اگر ہے تو اتنا کہ بیان واقعات میں جو شاعری کی جھلک مارتی ہے۔‘‘۔ح۔15

          مذکورہ بالا بیانات اور خیالات سے آغا صاحب کی شخصیت کے جو جوہر سامنے آتے ہیں وہ داغ اسکول کے ممتاز شاعر تھے ان کے کلام کی پہلی اہمیت یہ ہے کہ خود اپنی جگہ مستند اور تیکھا ہے۔ دوسری اہمیت یہ ہے کہ شعری کمالات کی نشاندہی کرتا ہے۔ تیسری اہمیت یہ ہے کہ آغا شاعر کے بعد اور خود ان کے زمانے میں نئے کہنے والوں کے لئے جو زمین ہموار ہو رہی تھی اس کے  ہموار کر نے میں آغا شاعر کی محنتوں کو دخل ہے۔ زبان پر ان کی قدرت کسی سے مخفی نہیں بلکہ جتنی ڈرامائیت اور مکالمے کا عنصر ان کے کلام میں ملتا ہے اتنا شاید ہی کسی اور شاعر کے یہاں موجود ہو۔ یہی طرز نگارش ان کے ڈرامے میں ملتا ہے۔

          آغا شاعر کے متعلق جیسا کہ مشہور ہے کہ وہ قلندرانہ صفت رکھتے تھے ایک جگہ قید ہو کر نہیں رہنا چاہتے تھے وہ آزاد تھے  اور آزادی پسند کرتے تھے اس بات کی تجدید ان کی تخلیقات سے ہوتی ہے خاص طور سے ان کی نظموں نے جو جنگ آزادی کی فضاء پیدا کی ہے مثلاً ’’بہار ہندوستان‘‘ بھارت دیوی کو پرنام‘‘ ’’سرزمین ہند‘‘ ’’بھارت ماتا کی فریاد‘‘ جیسی نظمیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک طویل نظم ’’بندے ماترم‘‘ کے عنوان سے لکھی تھی جس میں ہندوستانیت کی خوشبو رچی بسی ہیں یا یو کہئے کہ قومی یکجہتی کا اعلی شاہکار ہے۔

          آغا شاعر دہلوی آغا حشر کاشمیری سے جدا ہو کر بمبئی سے حیدر آباد اپنے استاد داغ سے ملنے گئے۔ داغ کا  انتقال ہو گیا تھا شاعر کو اس کا بہت صدمہ ہوا  ابھی حیدرآباد میں قیام کرتے ہوئے چند روز ہوئے تھے کہ مہاراجا سر کشن پرشاد جو اچھے شاعر تھے انہوں نے اپنی مصاحبت میں جگہ دے دی اور آغا شاعر ان کے دربار سے منسلک ہو گئے۔1911ء میں دلی میں شہنشاہ جارج پنجم کی تاجپوشی کا دربار میں بڑے تزک و احتشام اور اہتمام سے ہوا۔ ایسے موقع سے ملک بھر سے والیان ریاست حاضری دینے کے لئے آئے مہاراجا سر کشن پرشاد بھی ان کے ہمر کاب تھے آغا صاحب مہاراجا کے ساتھ دہلی آئے اور اپنے والد مرحوم کے ترکے کا تصفیہ کرنے کے لئے چند دن ٹھہرنے کے لئے مہاراجا سر کشن پرشاد سے اجازت لے لی۔ آغا شاعر دہلی میں رک گئے اور اس کے بعد نہیں گئے۔ انہیں دنوں جھالاوار کے مہاراجا سر بھوانی سنگھ دلی تشریف لائے انہوں نے اصرار کر کے ناز برداری کے ساتھ 1919ء میں اپنے ساتھ جھالاوار لے گئے۔

          جھالاوار میں ان کی بڑی آؤ بھگت ہوئی یہاں پھر آغا شاعر دہلوی نے مہاراجا سر بھوانی سنگھ کی سرپرستی میں آفتاب دو بارہ جاری کیا یہ پرچہ سات برس تک بڑی آن بان اور کامیابی کے ساتھ جاری رہا۔ 1926ء میں مہاراجا سر بھوانی سنگھ کا انتقال ہو گیا حکومت کی بساط الٹ گئی لامحالہ پھر آغا شاعر لاہور پہنچے وہاں پر علمی ادبی حلقے میں لوگ انہیں پہلے ہی سے جانتے تھے اور ان کے شاگردوں کی بھی کمی نہیں تھی ان میں آنند شرر بھی تھے۔ انہوں نے آغا شاعر دہلوی کا تلمذ اختیار کیا  اور آغا شاعر نے 1927ء کے شروع میں پھر سے ’’آفتاب‘‘ کا احیا کیا اور اس تیسرے دور میں یہ پر چہ’’آفتاب‘‘ کافی دن تک شائع ہوتا رہا اس قیام کے دوران آغا شاعر نے ہمارا آسمان ’’بلبلان فارسی‘‘ روح نغمہ (غزلیات) ’’گل برگ‘‘ وغیرہ کتابیں مولانا  احسان اللہ خان تاجور نجیب آبادی کے اردو مرکز اور ناشر کتب فیروز سنز کے لئے لکھیں اس کے علاوہ ’’آویزۂ گوش‘‘ اور ’’دامن مریم‘‘ بھی آغا صاحب کی اہم تصانیف ہیں۔ دونوں دلچسپ کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ یہ ساری کہانیاں انھوں نے میاں عبد العزیز صاحب تاجر کتب لاہور کی بے حد فر مئش پر وقتاً فوقتاً طالبات کے اخلاق کی درستی کے لئے لکھی تھیں۔ اس عہد میں یہ ساری کہانیاں اردوئے معلیٰ میں چھپتی رہیں اور پھر بعد میں انہوں نے ترتیب دے کر لاہور سے شائع کیا۔

           آغا شاعر قزلباش دہلوی کی ادبی زندگی دو ادوار پر مبنی ہے ان کا ابتدائی دور 1880ء سے 1901ء تک کا ہے اور دوسرا  1901ء سے 1935ء پر محیط ہے  اس مدت میں آغا شاعر نے بے شمار کتابیں لکھیں ہیں۔ ان کی بہت ساری مطبوعہ کتابیں نایاب اور غیر مطبوعہ ہیں۔ ’’لگونہ ‘‘ شہادت‘‘ (واقعہ کر بلا پر ایک نثری تالیف مطبوعہ یوسفی پریس دہلی 1915ء  ’’لیلی دمشق‘‘ شائع کر دہ آزاد بک ڈپو لاہور  ’’انور و رضیہ‘‘ ناول شائع کر دہ مطبوعہ خادم الا اسلام دہلی ’’حور جنت‘‘        ’’ڈرامہ ‘‘ ’’پہلی کرن‘‘ ’’یاد وطن ‘‘ ’’دربار ہولی‘‘ ’’سکہ روز‘‘ نصف النہار‘‘ (لارڈ تاتھ کلف) ’’جلترنگ‘‘  ’’سب میر بن‘‘ خدا کے فضل سے دوبارہ زندگی پائی۔ جیسی تحریریں آغا شاعر قزلباش دہلوی کی ادبی شخصیت کو چار چاند لگا تی ہیں۔

          تیسری بار بھی آغا شاعر قزلباش دہلوی کو لاہور راس نہیں آیا تو وہ لاہور سے دہلی اپنے آبائی وطن آ گئے اور آخری ایام میں میر علی نواز خاں نازتالپور والی خیر پور سے رسائی ہو گئی میر صاحب علم دوست اور علم نواز بھی تھے باوجود اس کے کہ ان کی ریاست میں اردو کا چلن برائے نام تھا پھر بھی لکھنؤ، حیدر آباد وغیرہ سے شاعروں اور ادبیوں کو بلا کر اپنا مہمان رکھتے تھے اور شعر و شاعری کی رنگا رنگ محفل کا اہتمام کرتے تھے اس بہانے آغا شاعر بھی بلائے گئے اور میر علی نواز ناز کا دیوان مرتب ہوا جس کی اصلاح آغا شاعر کے ہاتھوں ہوئی حقیقت یہ ہے کہ میر علی خاں نواز نا ز نے اپنا دیوان مرتب کر نے لئے آغا شاعر کو اپنا مہمان رکھا۔

          آغا شاعر بنیادی طور پر شاعر تھے مگر انہوں نے اردو ادب کی ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ دنیائے شاعری میں ان کا مرتبہ اظہر من الشمس ہے۔ ان کی غزلوں میں روایت رچی ہوئی صورت ملتی ہے اس روایت میں داغ کے اثرات نمایاں ہیں لیکن انہوں نے داغ کی اس روایت کے ساتھ جرات مومن ناسخ’’ذوق اور میر مینائی کی قائم کی ہوئی روایت کو کچھ اس طرح سے شیر وشکر کیا ہے کہ ان کی غزلوں میں ان کے مختلف رنگوں سے ایک قوس قزح کی سی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔

          آغا شاعر نے اپنی غزلوں میں حسن کا بیان بڑے سلیقے سے کیا ہے۔ عشق کی مختلف منزلوں کی تفصیل و جزئیات بڑے ہی دلکش انداز میں پیش کی ہے اور ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے غزل کے ان دونوں بنیادی موضوعات یعنی حسن و عشق کو انسانی زندگی کی بنیادی سچائی بنا کر پیش کیا ہے اس لئے ان کے معمولی خیالات میں بھی زیادہ گہرائی نظر آتی ہے اور وہ انسانی زندگی کے بنیادی مسائل معلوم ہوتے ہیں۔پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان تمام مسائل کا بیان انہوں نے اپنی تہذیبی روایات کے پس منظر میں کیا ہے اس لئے ان کے خد و خال نہ صر ف نمایاں  نظر آتے ہیں بلکہ اس میں نسبتاً زیادہ دلکشی کا احساس ہوتا ہے۔ ایک مخصوص معاشرتی فضا اور مخصوص تہذیبی ماحول کے اثرات ان کی غزل میں سب سے زیادہ نمایاں ہیں ان کی میٹھی اور رسیلی زبان نے بھی ان اثرات کو نمایاں کرنے میں بڑا کام کیا ہے۔ آغا شاعر کی غزلوں کی غالباً سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ جو زبان اس میں استعمال ہوئی ہے وہ صرف زبان ہی نہیں ہے ایک رچی ہوئی تہذیبی روایت کا عکس ہے اور ان کی غزلوں کی ہی خصوصیت انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گی۔ چند اشعار ملاحظہ ہو۔

یہ کیسے بال بکھرے ہیں یہ کیوں  صورت بنی غم کی    

تمہارے  دشمنوں  کو  کیا  پڑی  تھی  میرے ما تم کی      

 

مجھے  یاد  ہے  میں  نہ  بھو لوں گا   شاعر                  

وہ ہنر نہیں کے منہ پھیر لینا کسی کا

 

انہیں یہ ضد کے پلک پر سے گر پڑے آنسو

مجھے یہ دھیان کہ محنت ہے رائیگاں کیوں ہو

 

تم کہاں وصل کہاں ، وصل کی امید کہاں

دل کے بہلانے کو اک بات بنا رکھی ہے

 

ہے تیری ہی سی شکل مگر شوخیاں نہیں

چپ چپ جب ہی تو ہے تری تصویر کیا کرے

 

انگار گر یہ پر مرے کس ناز سے کہا

آنسو نہیں تو پوچھتے ہو آستین سے

 

یہی دن ہیں دعا لے لو کسی کے قلب مضطر سے

جوانی آ نہیں سکتی میری جاں پھر نئے سر سے

 

میں نے تنہا پا کے جب اس سے کیا اظہار حال

پہلے تو سنتا رہا پھر مسکرا کر رہ گیا

 

ذرا نیچے اتر کر بات سن لو

یہ کیا تم آسماں پر میں زمین پر

 

اک دن برس پڑو گے ، ہمیں پر ، یہ کھل گیا

کب تک پھرو گے روز میری جان بھرے ہوئے

 

اے شمع ہم سے سوز محبت کے ضبط سیکھ

کمبخت ایک رات میں ساری پگھل گئی

 

منتیں کرتی ہے چتون کہ منالوں تجھ کو

جب مرے سامنے روٹھا ہو ا تو آتا ہے

 

کس کے روکنے سے کب ترا دیوانہ رکتا ہے

بہار آئی چلا میں یہ دھری ہیں پیٹیاں میری

 

مجھکو آتا ہے تیمم نہ وضو آتا ہے

سجدہ کر لیتا ہوں جب سامنے تو آتا ہے

 

          ان اشعار کے علاوہ آغا شاعر کے کلام میں ہر جگہ کم و بیش ہیتی خصوصیت نظر آتی ہیں اور یہی سبب ہے کہ ان کی غزلیں اردو شاعری میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ آغا شاعر نے غزل گوئی کے ساتھ ساتھ نظمیں بھی لکھیں۔انھوں نے مختلف موضوعات پر خاصی تعداد میں ایسی نظمیں لکھیں جن میں جدید شاعری کی اس تحریک کے اثرات نمایاں ہیں جو آغا شاعر کے زمانے میں شباب کی منزلیں طے کر رہی تھی ان نظموں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر خود اس تحریک سے متاثر تھے اور یہ نظمیں ان کے مشاہدات اور احساسات کی صحیح ترجمان اور عکاس ہیں موضوعات کے اعتبار سے ان کی نظموں کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اس میں خاصہ تنوع پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ اس سے پہلے بھی ان کی نظموں کی خصوصیت کے بارے میں ایک موہوم سا اشارہ کیا گیا ہے انہوں نے مختلف موضوعات پر نظمیں لکھی ہیں تبرکاً ان کی نظموں کے چند اشعار ملاحظہ ہو۔

کالی گھٹائیں اٹھیں ، وہ بر سا ابر رحمت

ہر شاخ میں شگوفہ کونپل ہری بھر ی ہے

 

سبزہ مہک چلا ہے کوئل کی کوک سن کر

قمری کا ہر ترنم پر لطف بانسری ہے

 

چھم چھم برس رہا ہے شملے میں آج پانی

کشمیر گل فشاں ہے، گل بیز قرمزی ہے

 

دیکھو سنہری کرنیں اور برف کے نظارے

کس حسن پر ہمالیہ قدرت کا سنتری ہے

 

مہکے ہوئے خیاباں ، نکہت سے یا سمن کی

نرگس کی آنکھ میں بھی شوخی نئی بھری ہے

 

سورج کسے غوطے کھانا وہ قبلہ رخ شفتہ

دامن میں آسماں کے  یہ پھل جھڑی چھٹی ہے

 

متھرا  جی  گردارے  آ        

شام کی نگری میں رم جا

برکھا رت میں  گوکل  دیکھ

بند رابن کے جنگل دیکھ

یہ  وہ  دھرتی  ہے   داتا

جس پر آئے ہیں کنہیا

بہائے وہ صورت وہ تصویر

دل پر مارے سو سو تیر

وہ صندل صندل سی  کایا

آنکھوں نے سکھ درشن پایا

ہاتھ میں مرلی دل میں چین

مگن مگن رہنا، دن ، رین

          آغا شاعر قزلباش نظم کے ساتھ ساتھ اپنی ادبی زندگی میں نثر کی طرف پر متوجہ ہوئے اور انہوں نے افسانے ، کہانیاں ، مضامین ،ڈرامے، انشائیے اور ناول بھی جانے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آغا شاعر صرف شاعر ہی نہیں تھے بلکہ ایک انشا پرداز، صحافی ،ناول، نگار، ڈرامہ نویس، قصیدہ نگار اور مثنوی نگار وغیرہ تھے۔

          آغا شاعر مرثیہ نگار بھی تھے وہ اپنے مرثیوں میں اظہار مطالب کی ایسی تلمیحات    سے کام لیتے ہیں اور ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ ان کے اشعار خود بخود دل کی گہرائیوں میں پیوست ہوتے چلے جاتے ہیں۔ آغا شاعر نے یوں تو بہت سے قصیدے لکھے مگر تمام قصیدوں میں ان کا ممتاز قصیدہ ’’دربار اعظم‘‘ ہے جو اس زمانے میں نہایت اہتمام سے یوسفی پریس دہلی سے شائع ہو ا اس میں تقریباً دو سو اشعار ہیں اس کی زمین بہت مشکل ہے زبان کی خوبیاں ویسے ہی اہل دہلی کا حصہ ہیں آغا شاعر اس بارے میں امتیاز خاص رکھتے ہیں  پورا قصیدہ تو بہت طویل ہے یہاں گریز کے چند اشعار نمونتاً قلم بند کرتا ہوں  ملاحظہ ہو۔

وہ کیا کہنا ترا جان جہاں اندریت

تیری ہی خاک سے چمکے ہیں ہزاروں اختر

آسماں ، تیری زمیں کو جو کہیں زیبا ہے

ذرہ ذرہ ہے تری خاک کا مہر انور

تجھ میں وہ لعل چھپے ہیں کہ نہ تھا جن کا نظیر

تجھ میں وہ گہر نایاب کہ قدرت ششدر

دھرم اوتار، مہا بیر رشی اور منی

وہ جواں مرد ، کہہ ، میدان نہ چھوڑیں مر کر

وہ شہنشاہ اولوالعزم، وہ خدام قریش

وہ شجاعان عرب میر عجم ، گردوں فر

جاں نثار ازلی ، پشت و پناہ اسلام

سر فروشان سر انداز و جلالت پیکر

وہ بہادر کہ بگڑ جائیں تو لے لیں اقلیم

بات پر آئیں تو دم بھر میں الٹ دیں لشکر

وہ حسینان جہاں جن کا نہ پر تو دیکھا

مہر گردوں کی نہ پرتی تھیں نگاہیں جن پر

انتخابات زمانہ حکمائے کامل

فضلائے ادب آموزو طریقت گستر

پاک بازاں حقیقت، سخن آرائے مجاز

معدن علم و عمل ، مخزن تفہیم و نظر

تو وہ ہے جس سے ہو ہر اک شہر نے رونق پائی

تو وہی لفظ و معانی کا ہے تو ہی مصدر

تیرے ہی در سے تولے آئے ہیں اردو والے

بات کرنے کی روشن، لطف زباں کے تیور

تو وہ ہے ، تو نے لٹایا ہے چمن کو اپنے

ہند میں چار طرف ہی تری بخشش کے ثمر

برسوں آداب تلفظ کو کیا ہے تعلیم

درس و  تدریس سے  ہر شخص ہوا بہرہ ور

پھر خدا جانے یہ کیا ہے کہ زمانہ دشمن

افس احسان فراموشی ارباب ہنر

تجھ کو دل بھی کہیں ، تو بھی ہے ام بلاد

ریش با باپئہ بازی ہے تہ زلف مادر

اب کے بھی دور میں تین ہی رہا سر سہرا

تاج پوشی شہ حم جاہ کی ہے پیش نظر

یہ وہ عالم ہے کہ برسوں نہ کوئی بھولے گا

یہ وہ چرچے ہیں ، زبانوں پہ رہیں گے اکثر

گہما گہمی ہے وہ ہر چار طرف نا خدا

لفظ بھی صاف سنائی نہیں دیتے دب کر

 

          اس طر ح آغا شاعر نے اپنی زندگی میں لاکھوں شعر کہے مگر افسوس ہے کہ انہوں نے اپنا کوئی دیوان خاص اہتمام سے شائع نہیں کیا۔ آغا شاعر دہلوی فن شعر گوئی میں داغ دہلوی کے شاگرد خاص اور بہت جدت پسند شاعر تھے۔ ساتھ ہی وہ نثر لکھ کر ناول نگاری کے میدان میں اپنے جوہر دکھائے انہوں نے اپنی زندگی میں بہت سے ناول لکھے۔ مثلاً طلسم بدلہ ’’شعلہ جوالا‘‘ (ناول) ’’قتل نظر‘‘ (ڈرامہ) ’’نفلی تاجدار‘‘ وغیرہ مگر خاص طور سے  اردو ادب میں وہ اپنے چار ناولوں کے ذریعہ بحیثیت ناول نگار جانے جاتے ہیں وہ ہے ’’ہیرے کی کنی‘‘ ’’ناہید‘‘ ’’ارمان‘‘ نقلی تاجدار‘‘ یہ  چاروں ناول ان کے طبع زاد ناول ہیں جس میں ہندوستان کے متوسط طبقے کی خانگی معاشرت کا نقشہ کھینچا ہے ان کی تہذیب و تمدن ،معاشی، اقتصادی و سیاسی زندگی کی دکھتی رگ کو قلم بند کر کے آپسی اختلاف بغض، کینہ، حسد، نا برابری دور کرنے اور اخوت مروت، مساوات ، بھائی چارگی پیدا کرنے کی ترغیب دی ہے۔

          جس وقت آغا شاعر دہلوی نے ادبی دنیا میں قدم رکھا ہندوستان میں انگریزوں کی حکومت تھی۔ ہندوستان کے عام لوگوں کی زندگی دگرگوں تھی انگریزی حاکم ہندوستانیوں کے ساتھ ناشائستہ اور ناروا سلوک کرتے تھے ہندو مسلم کے درمیان نفاق اور اختلاف پیدا کر کے آرام اور سکون سے زندگی بسر کرتے رہتے عام عوام انگریزوں کے شکنجے میں پھنسے ہوئے تھے اور نفرت کی آگ میں جل رہے تھے اس وقت ہندوستان میں سماج کے تین طبقے تھے ایک تو امرا ’’و شرفا‘‘ یعنی نواب لوگ جو انگریزوں کے فرمانروا تھے دوسرا متوسط طبقہ تھا جس کو خوشی میسر نہیں تھی اور تیسرا طبقہ  مزدوروں کا تھا جن کی زندگی دوزخ جیسی تھی ایسے ہی برے وقت میں آغا شاعر نے ناول لکھنا شروع کیا اور اپنے ناولوں کے ذریعہ ہندوستانیوں کے اندر محبت اور انسانیت پیدا کرنے کی کوشش کی اس لئے ان کا ناول رومانی ہوتے ہوئے بھی اصلاحی فلاحی اور قومی یکجہتی کا ضامن ہے۔

          بہر کیف اس وقت کے مشہور شعراء مثلاً ،حالی ،اقبال ، آزاد،  چکبست، مجروح، طالب، ثاقب، راسخ، برتر، ذوق، مومن، غالب، امیر مینائی اور جوش وغیرہ نے ان کی قابلیت کا اعتراف کیا ہے۔ آغا شاعر حیات و شاعری مرتبہ مجتبیٰ حسین خاں بہت ہی اہم تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جس میں ان کی شخصیت اور فن پر متعدد مضامین شامل ہیں۔ یہ مضامین ان کے رفقا اور ناقدین نے ان کی زندگی ہی میں اور بعض نے بعد از مرگ تحریر کئے جس میں آغا شاعر اردو ادب میں ایک ہفت شخصیت نظر آتے ہیں۔

          آغا شاعر بہت ہی سادہ زندگی بسر کرتے تھے انہوں نے اپنی زندگی میں دو شادیاں کیں۔ پہلی شادی انہوں نے آغا یعقوب دواشی (سابق مدیر ماہنامہ آجکل) کی بہن سے کی تھی ان کے شاگرد جناب دگمبر پرشاد گوہر دہلوی کے مطابق ان سے کوئی اولاد نہ ہوئی کچھ دنوں بعد ان کی پہلی بیگم عارضہ قلب کی وجہ سے ملک عدم سفر کر گئیں حالانکہ مرحومہ کی زندگی ہی میں آغا شاعر نے دوسری شادی سیتا پور میں سید امیر حیدر کی صاحب زادی سے کر لی تھی۔

          ان کے دادا آصف مشہدی اپنے زمانے کے بہت بڑے اور اچھے شعرا میں سے تھے ان کا ذکر ’’صبح گلشن‘‘ میں آیا ہے۔ح۔ 17

          بہر حال اس بیگم سے آغا شاعر کو چار اولادیں ہوئیں۔ تین بیٹے اور ایک بیٹی۔ آغا شاعر کے سب سے بڑے لڑکے کا نام آغا آفتاب علی قزلباش ، آغا شیر علی قزلباش اور آغا اقبال علی قزلباش تھا سبھی نے ادبی حلقوں میں اپنا نام پیدا کیا یہ لوگ تقسیم ملک کے بعد دہلی سے پاکستان رخصت ہو گئے۔ آغا شاعر کی سب سے چھوٹی صاحبزادی خدا جانے کیا نام تھا مگر وہ سیماب تخلص کرتی تھیں۔ شاید کہ اب بھی پاکستان میں حیات ہوں۔ انہیں شعر گوئی ورثے میں ملی تھی۔ آغا شاعر دہلوی نے اپنی ستر سالہ عمر میں اردو کی جو خد مت کی وہ بہت کم لوگوں کو میسر ہوتی ہے۔ حضرت آغا شاعر قزلباش دہلوی کا انتقال 12مارچ1940ء کو ہوا۔ موصوف کے آخری ایام بہت عسرت اور طویل علالت میں گزرا۔ آغا شاعر دہلوی کا انتقال ظہر اور عصر کے درمیان ان کے آبائی مکان کشمیری دروازہ کھڑ کی ابراہیم میں ہوا اور آخری رسوم کی ادائیگی قبرستان علی گنج شاہ مرداں ’’صفدر جنگ‘‘ میں کی گئی۔ ان کے پختہ مزار پر علامہ اقبال کا یہ مصرع کندہ تھا۔

                   ’’آخری شاعر جہان آباد کا خاموش ہے ‘‘

اور مرحوم کا یہ شعر بھی کندہ تھا    ؎

مسکن ہی کوئی قبر سے بہتر نہیں ملتا

آرام کہیں گھر کے برابر نہیں ملتا

          مگر تقسیم ہند کے طوفان میں پناہ گزینوں کی آبادی کاری کی وجہ سے مزار شریف کا نام و نشان مٹ گیا۔ آغا صاحب مرحوم نے اپنے ایک شعر میں بے نام و نشان ہونے کی پیشن گوئی بھی اس طرح فرما دی تھی۔

                   آخر نہ ہوا درجہ شاعر موئی مٹی کا ،

                   ٹکرا کے ستمگر نے بے نام و نشان کر دی۔ح18           

          آغا شاعر کے انتقال پر ملال پر کئی حضرات نے قطعات تاریخ وفات لکھے۔ رضا علی وحشت نے ہجری میں یوں کہا:

جب کہ آغا محترم شاعر

سوئے دار الفنا ہوئے راہی

شعر ا میں بپا ہو ا ماتم

عام شغل نالہ و زاری

آج دہلی کی اٹھ گئی رونق

محفل شعر ہوئی خالی

فکر تاریخ جب ہوئی وحشت

شاعر ’’محتشم‘‘ صدا آئی

                                                 ح۔19

تلو ک چند مرحوم نے لکھا:

بعد ان کے ہوئے بہت سے پیدا شاعر

لیکن نکلا نہ کوئی ان سا شاعر

دہلی میں یاد آئے ہر کو اکثر

فخر دہلی! جناب آغا شاعر

نظم اور غزل میں بھی جو یکتا شاعر

پیدا ہوتا ہے کوئی ایسا شاعر

قادر تھے نظم اور غزل دونوں پر

دہلی کے شاعروں میں آغا شاعر

انوار ازل کا ہو جو شیدا شاعر

اک معنی روشن ہے سراپا شاعر

ایسے ہی شاعروں میں ہے نام ان کا

دہلی میں ہوئے ہیں وہ جو آغا شاعر

                                                ۔ح۔20

          آغا شاعر کی ادبی شخصیت پر محاسبے اور مکالمے کا کام ایسا نہیں کہ ان کی زندگی کے ساتھ ختم ہو گیا بلکہ ان کے انتقال کے بعد بھی جہان شعرو ادب میں دلچسپی رکھنے والے حضرات ان کی شعری اور ادبی خدمات کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہے ہیں اس کی نمائندہ مثال مجتبیٰ حسین کی مرتب کر دہ کتاب بھی ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اس لئے کہ 27اگست 1983ء کو  بمل جین نے آغا شاعر دہلوی کی 43ویں برسی منانے کے لئے ایک سیمنار کا انعقاد کیا تھا اس موقع سے اردو کے مشہور ناقد گیان چند جین، عارف محمد خاں ،بابائے ڈاکٹر عمار رضوی ، راؤ برندرا سنگھ، مہیشور  دیال وغیرہ لوگوں نے اپنے پیغامات بھیجے تھے۔ یہاں صرف گیان چند جین ، بابائے  قوم مہاتما گاندھی جی ،عمار رضوی اور مہیشور  دیال کے خیالات پیش ہیں۔

’’یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ آغا شاعر قزلباش پر ایک سمینار منعقد کر رہے ہیں۔ میرا ہمیشہ سے عقیدہ رہا ہے کہ بڑے شعرا کے اہم تلامذہ کے کاموں کو ضروری روشنی میں  دیکھنا چاہئے۔ آتش، ناسخ، غالب، میر و داغ کے اہم شاگردوں میں سے محض معدودے چند ہی پر کچھ لکھا گیا ہے۔

میں سمینار کے لئے مضمون نہیں لکھ سکتا۔ پیغام لکھتے وقت بھی قلم لڑکھڑاتا ہے کیونکہ آغا شاعر کے بارے میں میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ وہ داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا آپ کے تفصیلی مکتوب سے کچھ معلوم ہوا مثلاً یہ کہ آغا حشر ان کے شاگرد تھے اور انہیں کی تقلید میں انہوں نے اپنے نام کے ساتھ آغا کا طرہ لگایا تھا۔ مجھے یہ بھی علم نہ تھا کہ آغا شاعر نے رباعیات عمر خیام یا کلام مجید کا منظوم تر جمہ کیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اس سمینار کے طفیل مجھ جیسے ناواقفوں کے علم میں اضافہ ہو گا۔

ح۔21

          سیگاؤں وردھا۔۱۱  ستمبر ۳۹ ؁

                             پیارے اقبال

          مجھے یہ سن کر افسوس ہوا کہ آپ کے والد عارضۂ قلب میں مبتلا ہو کر شدید بیمار ہو گئے ہیں

                   میری دعا ہے کہ خدا انھیں جلد صحت یاب کر دے

                                                ایم۔کے۔ گاندھی

                                                      (ایک خط)

                                                خیریت طلبی

 

                                                اظہارتعزیت

          سیگاؤں وردھا۔۹ مئی ۴۰ ؁                

                             پیارے اقبال

                   مجھے آپ کے محترم والد آغا شاعر دہلوی کی وفات کی رنجیدہ اطلاع مل گئی تھی مگر تمہارا پتہ نہیں معلوم تھا۔

          میں سوچتا رہا کہ تم لوگوں کو اپنی تعزیت کس طر ح بھیجوں ، اس کا موقع مجھے اب مل گیا اور میں پورے خاندان کو تعزیت بھیج رہا ہوں۔

                                                تمہارا مخلص

                                                ایم۔ کے۔ گاندھی

  ح 22- 

 

ڈاکٹر عمار رضوی

وزیر تعمیرات عامہ۔ قومی یکجہتی و  پارلیمانی امور

پیغام

          مجھے یہ جان کر بے حد مسرت ہوئی کہ نامور شاعر آغا شاعر قزلباش دہلوی مرحوم کی یاد میں ان کی ۴۳ ویں برسی کے موقع پر غالب اکادمی نئی دہلی کے زیر اہتمام ایک سمینار منعقد کیا جا رہا ہے اور اس موقع پر ایک سووینر بھی شائع کیا جا رہا ہے۔

          قزلباش دہلوی مرحوم داغ کے ایک ممتاز شاگرد اور قادر الکلام شاعر تھے۔ ان کی شاعرانہ عظمت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ڈرامہ نویس آغا حشر کاشمیری کے استاد تھے۔

          میں اس موقع پر شائع ہو نے والے سوینر کی کامیابی کے لئے اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

         

                                                          (عمار رضوی)

                                                          ودھان بھون لکھنؤ                                                  مورخہ ۲اگست ۱۹۸۳ء۔ح۔23

 

          جناب بمل جین صاحب تسلیم

آپ کا خط ملا ، آغا شاعر قزلباش دہلوی کی شان میں جتنا بھی کہا جائے کم ہے۔سوینر کے لئے پیغام بھیج رہا ہوں۔

                                                          نیاز مند

                                                         مہیشور  دیال 

پیغام

مجھے یہ جان کر مسرت ہوئی کہ جناب آغا شاعر قزلباش کی یاد میں ۲۷ اگست ۱۹۸۳ء کو غالب اکیڈمی بستی حضرت نظام الدین میں ایک سمینار کا انعقاد ہو رہا ہے۔

          آغا ظفر علی بیگ قزلباش شاعر ایک کامل فن استاد اور مشاق سخنور تھے ، ایک تو دہلوی ہونا ہی زبان کے معاملے میں کافی سے زیادہ سند رکھتا ہے۔ اس پر انھیں جناب داغ سا فصیح البیان استاد ملا ، یہی وجہ ہے کہ شاعر صاحب کا کلام زبان و بیان کی خصوصیات سے مالا مال ہے ، آغا صاحب دیوان ’’تیر و نشتر ‘‘ کے علاوہ بھی کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ آپ کے لکھے ہوئے ڈرامے بھی بہت مقبول ہیں۔

          میں منتظمین سمینار ، اس میں شرکت کرنے والے ادیبوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور سمینار کی کامیابی کی دعا کرتا ہوں۔

                                                مہیشور دیال۔ح24

 

          پچھلے دنوں دہلی اردو اکادمی نے بھی آغا شاعر کے حوالے سے ایک سمینار کا اہتمام کیا تھا جو آغا شاعر قزلباش کی تفہیم کے سلسلے کی ایک کڑی کہا جا سکتا ہے۔ جوش ملیح آبادی کے اس اقتباس کے ساتھ اپنی گفتگو ختم کر نے کی اجازت چاہوں گا۔

’’آغا صاحب کے زبان میں وہ شیرینی ہے  جیسے لعل و نگار وہ لوچ ہے جیسے شاخ  گل اور وہ روانی ہے جیسے آب رکنا باد۔ ‘‘ ح۔25

          جس شاعر کو جوش نے ان الفاظ میں یاد کیا ہو یا جس شاعر و ادیب کی تخلیقات میں شیرینی لوچ اور روانی ہو بھلا جہاں ادب میں اس کی شہرت عام اور بقائے دوام سے کون انکار کر سکتا ہے۔

 

حوالے

1.سونیر1983ء صفحہ 14آغا شاعر میموریل سوسائٹی دہلی

.2خمکدہ خیام صفحہ 8/9کتب پرنٹر ز اینڈ پبلیشرز لمیٹیڈ کراچی1976ء

.3سونیر1983ء صفحہ 12آغا شاعر میموریل سوسائٹی دہلی

.4سونیر1983ء صفحہ 10آغا شاعر میموریل سوسائٹی دہلی

.5سونیر1983ء صفحہ 10آغا شاعر میموریل سوسائٹی دہلی

.6منقول از رسالہ ’’نقد و نظر‘‘ آگرہ 1942ئی

.7منقول از رسالہ ’’منادی ‘‘ دہلی 1942ء

.8منقول از رسالہ ’’چمنستان‘‘ دہلی 1941ء

.9آغا شاعر حیات و شاعری۔ مرتبہ مجتبیٰ حسین خاں صفحہ 151ء

.10منقول از رسالہ ’’چمنستان‘‘ دہلی 1940ء

.11آغا شاعر حیات و شاعری صفحہ 295

.12منقول از رسالہ ’’سیب‘‘ کراچی مئی 1964ء

.13آغا شاعر حیات و شاعری صفحہ152

.14آغا شاعر حیات و شاعری صفحہ155

.15حیات و شاعری مرتبہ مجتبیٰ حسین خان صفحہ 240

.16منقول از رسالہ آج کل مارچ 1947ء

.17حیات و شاعری مجتبیٰ حسین خاں صفحہ293

.18صبح گلشن صفحہ 419مطبوعہ شاہجہانی بھوپال 12-15ہجری

.19از رسالہ انجام کراچی 13 مارچ 1964ء

.20منقول از رسالہ چمنستان دہلی 1941ء

.21منقول از رسالہ ’’شعلہ و شبنم‘‘ دہلی 1952ء

.22سونیر 1983ء صفجہ 16آغا شاعر میموریل سوسائٹی دہلی

.23انگریزی خط سے ترجمہ (منقول از شعلہ و شبنم 1953ء

.24سونیر 27اگست 1983ء گوہر دہلوی

.25سونیر 27اگست 1983ء گوہر دہلوی

.26منقول از رسالہ چمنستان دہلی مارچ1946ء

آغا شاعر دہلوی کی ناول نگاری

ادب ایک ایسا ساگر ہے جس میں دنیا جہا ن کے خیالات کے دریا آ کر گرتے ہیں۔ ان کا سوتا کہیں پھوٹتا ہے۔ چادر آب کہیں بنتی ہے اور چشمہ کہیں اور جاری ہوتا ہے۔ اردو ادب ہر دور میں نشیب و فراز سے گزرتا رہا ہے۔ لیکن ہر دور میں شاعروں اور ادیبوں نے اس کے لیے نت نئی راہیں ہموار کی ہیں اور ترقی کے راستے پر اسے گامزن کرتے رہے ہیں۔ اس طرح شاعروں اور  افسانے کے ناول کی صنف بھی ان ہی کا وشوں کا نتیجہ ہے ناول کے لغوی معنی  Novella کے ہیں جو کہ اطالوی زبان کا لفظ ہے جس طرح افسانے کے بارے میں مختلف ناقدین نے اپنی آرا پیش کی ہیں۔ اسی طرح اردو ناول میں بھی مختلف ناقدین کی تعریفیں مختلف اندازمیں ملتی ہیں۔ چنانچہ رابن سن کروسو کے غیر فانی مصنف ڈینیل ڈفو نے اس فن کی بنیاد ڈالتے ہوئے دو چیزوں کا خاص طور سے لحاظ کیا ہے ایک تو یہ کہ قصہ حقیقت پر مبنی ہونا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ اسے کوئی نہ کوئی اخلاقی سبق دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اگر قصہ حقیقت پر مبنی نہیں ہو گا تو جھوٹا ہو گا اور اس کی تصنیف کے ذریعے مصنف جھوٹ بولنے کا عادی ہو جائے گا۔ وہ کہتا ہے کہ

’’قصہ بنا کر پیش کرنا بہت بڑا جرم ہے یہ اس طرح کی دروغ بینی ہے جو سینے میں ایک بہت بڑا سوراخ کر دیتی ہے جس کے ذریعے چھوٹ آہستہ آہستہ داخل ہو کر ایک عادت کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔‘‘

فیلڈ نگ جو انگریزی ناول کے عناصر اربعہ میں سے ہیں یوں رقم طراز ہیں

’’ناول نثر میں ایک طربیہ کہانی ہے۔‘‘

یعنی اس کے نزدیک المیہ کہانی ناول کے موضوع سے باہر ہے۔ اس طرح رچرڈسن کے اس نقطۂ نظر کو رد کرتا ہے کہ کہانی کی غرض نیکی اور اخلاق کا سدھارنا ہے۔ فیلڈنگ اسے ہنسنے اور ہنسانے  کا ذریعہ سمجھتا ہے اس لئے وہ اس  میں طربیہ کی شرط لگا دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تعریف بھی تا مکمل ہے۔اس کا ایک ہم عصر اسمولٹ اس نئے فن کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔

’’ناول ایک پھیلی ہوئی بڑی تصویر ہے جس میں ایک مقررہ پلاٹ کو واضح کر نے کے لیے زندگی کے کر دار مختلف جماعتوں کے ساتھ رکھ کر مختلف پہلوؤں سے دکھائے جاتے ہیں۔‘‘

یہ تعریف بھی نا کافی ہے اس لیے کہ اس میں سارا زور پلاٹ پر ہے۔ چنانچہ انگلستان کی ایک مشہور ادیبہ کلار ا ایوز اس فن کی تعریف یوں کرتی ہیں۔

’’ناول اس زمانے کی زندگی اور معاشرے کی سچی تصویر ہے جس زمانے میں لکھی جائے۔‘‘

          پروفیسر بیکر نے ناول کے لیے چار شرطیں لازم کر دیں۔ قصہ ہو ، نثر میں ہو ، زندگی کی تصویر ہو اور اس میں ربط و یک رنگی ہو یعنی یہ قصہ نہ صرف نثر میں لکھا گیا ہو بلکہ حقیقت پر مبنی ہو اور کسی خاص نقطۂ نظر یا مقصد کو بھی پیش کرتا ہو۔حقیقت میں ناول وہ صنف ہے جو حقیقت کی عکاسی کرتا ہو۔ زندگی کی سچائی کو بیان کرتا ہو۔ صنف ناول نے کئی رنگ بدلے ہیں۔ کبھی اس نے رومانی شکل اختیار کی تو کبھی تاریخی ناول کی ، کبھی عصری ناول کی تو کبھی رزمیہ و سیاحتی، کبھی اسراری اور کبھی نفسیاتی ناول کی۔ غرض یہ مختلف رنگ اختیار کرتا رہا اور دور حاضر تک اردو ناول کے ذخیرے کو مالامال کرتا رہا۔

          ناول کے فن کو مکمل کر نے کے لیے جن اجزاء کا ہونا ضروری ہے ان میں قصہ ، پلاٹ، کر دار، مکالمہ، مناظر فطرت، زمان و مکاں ، نظریہ حیات اور اسلوب بیان کو اہمیت حاصل ہے۔ اگر ان میں سے ایک بھی جز کم ہو توایسا ناول مکمل ناول نہیں کہلائے گا۔

اردو میں ناول کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ یہ صنف ادب برائے زندگی کی ترجمانی کرتی ہے۔ جب بھی کوئی ناول نویس لکھتا ہے تو وہ کوئی نئی دنیا اپنی خواہش کے مطابق نہیں بنا تا بلکہ وہ ہماری ہی دنیا سے بحث کرتا ہے وہ وہی چیزیں پیش کرتا ہے جن کا ہماری زندگی سے تعلق ہوتا ہے۔ یعنی کہ جس میں دکھ ہو سکھ بھی ہو جنگ بھی ہو صلح بھی ہو موت بھی پیدائش بھی۔ ناول نگار نہ صرف تخلیل میں پرواز کرتا ہے بلکہ اس کے قصے کی بنیاد روز مزہ کی زندگی پر استوار ہوتی ہے۔ کر دار بھی ہمارے جیسے گوشت پوست کے انسان ہوتے ہیں۔     

          ناول ادب کی اہم صنف ہے جو بقول ڈاکٹر سلام سندیلوی ہماری زندگی کی مختلف گتھیوں کو سلجھانے میں مدد دیتی ہے۔ 1 ناول انگریزی لفظ ہے انگریزی ادب کے ساتھ ہمارے یہاں آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے ادب پر  چھا گیا ہے۔2 ناول میں پرانے قصوں ، افسانوں اور داستانوں کے برعکس انسانی زندگی کا قصہ ہوتا ہے اس لئے اسے موجودہ عہد کا رزمیہ بھی کہا جاتا ہے۔3 انگریزی زبان میں ناول کا آغاز اٹھارہویں صدی میں ہو چکا تھا مگر اردو میں اس کا وجود انیسویں صدی کے نصف آخر میں ہی ممکن ہو سکا۔ مولوی نذیر احمد کی ناول ’’مراۃ العروس‘‘ کو اردو کا پہلا ناول مانا جاتا ہے جس کی تصنیف 1860ء میں ہوئی تھی اردو ناول نگاری کا فن آج اپنے بام عروج پر پہنچ چکا ہے۔ اردو میں کئی ایسے ناول عالم وجود میں آ چکے ہیں جنہیں بقائے دوام حاصل ہو چکا ہے اور انہیں دنیا کے بہترین ناولوں کی صف میں فخر سے رکھا جا سکتا ہے۔ اردو ناول کے فن کو جہاں شرر، سرشار، نذیر احمد اور پریم چند نے پروان چڑھا یا وہیں آغا شاعر دہلوی نے بھی اس صنف میں اپنا خون جگر صرف کیا۔ اگر چہ آغا شاعر نے اور لوگوں کے مقابلے بہت بعد میں اس میدا ن میں قدم رکھا پھر بھی ناول کے ارتقاء میں ان کا تعاون فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ تعاون قابل ستائش ہی نہیں بلکہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔

          آغا شاعر نے بیسویں صدی کے آغا ز میں ناول نگاری شروع کی۔ انہوں نے فن اور موضوع دونوں اعتبار سے اس صنف کو مالامال کیا ہے۔ ان کے ناولوں  میں فنی دسترس کا احساس بھی ہوتا ہے اور مقصدیت بھی نظر آتی ہے۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں خاندانی نزاع کے بنیادی مسائل کو پیش کیا ہے وہ اپنے ناولوں کے ذریعہ تعلیم و تربیت نیز سماجی اخلاقی اور معاشرتی خامیوں کو دور کر نے کی بھر پور کوشش کی ہے ان کے یہاں میں سماج کا جاہل ہونا ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اگر سماج تعلیم یافتہ ہو گا تو عام لوگ کامیاب زندگی گذار سکین گے اس کے علاوہ انہوں نے سماج کی کہنہ فرسودہ رسم و رواج کی طرف بھی ذہن کو مبذول کرایا ہے کہ اکثر اس کا انجام پریشان کن اور جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ اس طرح انہوں نے اپنے ناول کے ذریعہ سماج کے اندر خانگی ذمہ داریوں کے احساس کو جگانے کی کوشش کی ہے اور زبر دستی شادی کے خطرناک نتائج کو اجاگر کرتے ہوئے تعلیم و تربیت پر کافی زور دیا ہے۔ ان کے خیال کے مطابق تعلیم یافتہ سماج اپنے معاشرہ کی گندگی کو اپنے عقل و شعور کے ذریعہ حتم کر سکتا ہے  اور اپنی زندگی کو خوشگوار بھی بنا سکتا ہے۔

          آغا شاعر دہلوی کے ناولوں میں نئے زمانے اور نئے تقاضے کی پکار سنائی دیتی ہے۔ ساتھ ہی حقیقت پسندی اور فنکارانہ روش کا آغاز بھی ان کے ناولوں میں ماحول کا صحیح مشاہدہ اور اس مشاہدہ کا منطقی تجزیہ اور پھر ان دونوں کے ساتھ غور و فکر بھی پایا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں گھریلو زندگی اور اس کے مسائل اور گھر کی چہار دیواری سے باہر گلی کوچوں،  بازاروں ، شاہراہوں میں گونجنے والے نعروں کو بھی پیش کیا ہے۔اس صنف میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے ان کے یہاں خالی خولی جذبات نگاری نہیں ملتی بلکہ ان کے خیالات فکر کے تابع نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں اپنے رجحانات و میلانات اور فلسفہ حیات کا عکس پیش کیا ہے۔ آغا شاعر کے کر دار میں جو نفسیات اور تجزیاتی جھلک ملتی ہے وہ اپنے آپ میں مثال ہے۔ ماحول کا اثر انسان کی زندگی پر کیسے پڑتا ہے اسے انہوں نے اپنے ناولوں میں بڑی چابک دستی سے پیش کیا ہے۔ اس لئے آغا شاعر کے ناولوں کو اردو میں جس حد تک نظر انداز کیا گیا ہے غالباً اس حد تک نہیں کر نا چاہئے تھا۔

          آغا شاعر اپنے دور کے نمایاں ناول نگار رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں متوسط طبقہ میں پروان چڑھنے والے لڑکے اور لڑکی کی محبت ، نفسیاتی جذباتی زندگی اور وہ ماحول جس میں کہ وہ پروان چڑھتے ہیں۔ اس قدر تکمیل کے ساتھ اور فنکارانہ چابکدستی کے ساتھ پیش کیا ہے کہ ان کی ناول نگاری اردو ناول نگاری کی تاریخ میں ایک خاص مقام حاصل کر لیتی ہے۔ ان کے یہاں اخلاقی تقاضے  اور قد امت پسندی کا سراغ  ملتا ہے۔ اس طرح مشرق پسندی کے اعتبار سے آغا شاعر کو اردو ناول نگاری میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔

          آغا شاعر کے ناولوں میں ہندستانی رنگ نمایاں ہے وہ انگریزی ادب سے بخوبی واقف تھے اس لئے ان کے ناولوں میں مغربی تکنیک اور انداز فکر کا بھی اشارہ ملتا ہے۔ ان کے ناول مشرقی حسن کے رنگ میں ڈوبے ہوئے ہیں انہوں نے فرد کی زندگی اس کی ذہنی اور جذباتی کیفیتوں کو موضوع بنا یا ہے۔ آغا شاعر نے اردو ناول نگاری کے کینوس کو وسیع کیا اور اس سلسلے میں ان کی اہمیت مسلم ہے۔ موصوف اردو ناول کی دنیا میں ایک بے باک اور باغی ناول نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ان کے ناول خاندانی ٹکراؤ، بغض، کینہ، کشیدگی اور سماجی روایت سے بغاوت کے حامل ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ دہلی کے روایتی ماحول اور متوسط طبقہ کے معاشرہ میں ایسے اختلافات کے موضوعات پر انہوں نے کھل کر نشتر زنی کی ہے کہ کبھی کبھی ان کی بے باکی حد کو پار کر جاتی ہے۔ لیکن اکثر و بیشتر وہ حق گوئی سے بھی کام لیتے ہیں۔ ان کے ناولوں میں زیادہ تر اخلاقی اصلاح بھائی چارگی، اخوت و مروت کے پہلو نمایاں ہیں مگر ان کے ناولوں میں جنس کا پہلو بھی کچھ کم نہیں ہے۔ اس کی مثال ان کے ناول ’’ہیرے کی کنی‘‘ ہے اور ہو بھی کیوں نہیں کیا عورت اور مرد کے درمیان جنس ایک فطری جذبہ نہیں۔ روٹی ، کپڑا اور مکان کہ بعد انسان شادی کرتا ہے یہ انسان کی چوتھی اور اہم ضرورت ہے۔ پھر اتنے اہم موضوع کو کیوں نظر انداز کر دیا جائے اس طرح آغا شاعر صاحب بیسویں صدی کے مقبول ترین ناول نگاروں کی صف میں کھڑے ہیں۔ انہوں نے اپنے ناولوں کے ذریعہ بیسویں صدی کے سماج کے بیشتر مسائل پر بڑی چابک دستی سے قلم اٹھایا ہے۔ ان کے ناولوں میں موضوع اور فن دونوں کا تنوع ملتا ہے انہیں کر داری نگاری کا بھی بڑا سلیقہ آتا ہے۔ ان کے ناولوں میں انسان کے نازک احساسات و جذبات پیچیدگی اور الجھاؤ کی زد میں ہے ان کے علاوہ موجودہ  دور میں آغا شاعر کہ بعد بہت سے نام ہیں  جو اردو ناول نگاری کے افق پرستاروں کی مانند اپنی بھر پور چمک دمک کے ساتھ موجود ہیں۔ غرض یہ کہ ناول نگاری اور ناول نگاروں کا ایک کارواں سا نظر آتا ہے جو اپنی منزل کی جانب بڑی تیزی سے رواں دواں ہے ان ناولوں میں عہد حاضر کی منتشر اور مضطرب زندگی کے احوال کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار زندگی کا خواب بھی پنہاں ہے۔ اس میں حسن اخلاق اور حسن عمل پر بھی زور دیا گیا ہے اور بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ ہم آہنگی کا درس بھی ملتا ہے جو موجودہ دور کے ناول کا سب سے بڑا امتیاز ہے۔ ان ناول نگاروں نے موضوعات کی رنگارنگی اور وسعت کے ساتھ ساتھ اردو ناول کو دلچسپی اور دلنشینی سے بھی ہم کنار کیا ہے۔ اردو ادب کے مشہور ناقد وقار عظیم نے  بھی اس کی حمایت کی ہے۔

          آغا شاعر دہلوی کی ناول نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر دھرمیندر ناتھ ایوان اردو شمارہ 5ستمبر 2002صفحہ 32پر یوں رقم طراز ہیں۔

’’آغا صاحب کے ناولوں میں نثر نگاری دلکش اور معتدل ہے موسم کی مرقع کشی فردوس گوش و نظر ہے۔ بیانات ضروری اور مختصر ہیں ، مکالمے فطری ، دلچسپ، بر محل اور برجستہ ہیں۔ ناول میں ڈرامائی انداز کافی ہے۔ عشق وہی رسمی ہے لیکن قصے میں واقعیت کم تخلیقیت زیادہ ہے۔

 ڈاکٹر سہیل بخاری آغا شاعر کی ناول نگاری پر تبصرہ کر تے ہیں کہ:

 ’’ان کی زبان ٹکسالی ، پاکیزہ، شستہ اور رنگین ہے۔ اس پر روز مرہ محاورے خصوصاً بیگماتی زبان پر بڑی قدرت ہے ‘‘۔ شاعر صاحب نے ڈرامہ نگار کی حیثیت سے بھی اپنا سکہ جما لیا۔ تمثیل نگاری اور ڈرامہ نگاری میں مقبول زمانہ کہلائے ‘‘

          غرضیکہ فن ،مواد، موضوع، اور اسلوب ہر اعتبار سے آغا شاعر کی ناول نگاری نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ ناقابل فراموش بھی ہے جسے ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔

          انہوں نے مسلمانوں کی نا اتفاقی اور نزاع،خستہ حالت، غفلت پر مبنی’’ارمان‘‘ اور ناہید جیسے عمدہ ناول لکھے اور ’’ہیرے کی کنی ‘‘ شعور کی رو پر مبنی تخلیق کی ہے۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں اسلامی سوسائٹی ، خاندان کی اندرونی معاشرت کا نقشہ کھینچا ہے۔ ان کے ناولوں میں کر دار صفات کے مطابق ہوتے ہیں۔ آغا شاعر یوں تو اردو ادب کی مختلف اصناف میں مہارت رکھتے ہیں مگر سب سے پہلے وہ ناول نگار ہیں۔ اخلاقی اصلاح تعلیم اخوت و مروت ان کے ناول کی بنیاد ہیں۔ ان کے یہاں کر دار نگاری اور پلاٹ کی بہتات ہے۔ مکالمے دلچسپ دل کش اور موزوں ہیں۔ آغا شاعر قومی اصلاح کے بہت بڑے حامی تھے۔ ان کے ناول بیسویں صدی عیسوی میں عورت اور مرد دونوں طبقوں میں بے حد مقبول ہوئے جن کا اچھا اخلاقی اثر پڑا۔ آغا شاعر کی تحریروں میں روزمرہ محاورے کی صفائی اور زبان کے دلکشی ملتی ہے۔ آغا شاعر کی زبان دلفریب اور پر کشش ہے ان کا اپنا الگ رنگ ہے اور وہ اسی رنگ میں نمایاں نظر آتے ہیں۔بیسویں صدی کے ناول نگاروں میں آغا شاعر منفرد مقام رکھتے ہیں۔ ویسے ناقدین نے موصوف کو سرے سے نظر انداز کر کے نا انصافی کی ہے۔اگر کوئی چاہے کہ اردو ادب میں نفسیاتی ناول کے ارتقاء کو سمجھے تو بغیر اس ایک قدم     ا بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ یوں تو انہوں نے کل پانچ ناول لکھے ہیں۔ ایک ’’طلسمی بدلہ‘‘ انگریزی سے اردو میں ترجمہ ہے۔ ’’نقلی تاجدار‘‘ ہیرے کی کنی ’’ارمان‘‘ اور ناہید طبع زاد ناول ہیں۔ جو ناول کے فن پر مکمل اترتے ہیں اور اردو ناول میں مقبول بھی ہیں۔ اس بات کی صراحت یوسف سرمست نے بھی اپنی تصنیف بیسویں صدی میں اردو ناول صفحہ98کے چوتھے سطر میں کی ہے یہاں یکے بعد دیگرے  ان کے ناولوں کا تنقیدی مطالعہ پیش کیا جاتا ہے۔

                                ’’ارمان‘‘

          آغا شاعر دہلوی کا ناول ’’ارمان‘‘ اردو ناول کی تاریخ میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس ناول میں دو کر دار ’’جولی ‘‘ اور ناصر کی سچی محبت کو آغا شاعر نے پیش کیا ہے۔ گرچہ ’’ارمان‘‘ دوسرے دور کا ناول ہے مگر فنی لوازمات کے اعتبار سے اپنے آپ میں مکمل ہے۔ آغا شاعر کے ناولوں کی خشت اول ہے جسے آغا شاعر نے اپنی باریک بینی نکتہ رسی اور جامعیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ جس کے سبب ’’ارمان‘‘ اپنے اصل سے کئی گنا پر لطف اور پر تاثیر ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ناول کو اردو میں نفسیاتی ناول کے اعتبار سے اولین درجہ حاصل ہے۔’’ارمان‘‘ آغا شاعر کا پہلا ناول ہے جو 1900ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوا۔ اس کا رنگ حد درجہ رومانی ہے جیسا کہ پہلے بھی ذکر آ چکا ہے کہ یہ ناول نفسیات بشری پر مبنی ہے۔ پلاٹ کر دار نگاری، مکالمے ، زبان و ادب ہر لحاظ سے دلچسپ اور مقصدی ناول ہے جس کا موضوع ایک خاندانی نزاع کا غمناک اور درد ناک نتیجہ ہے۔ ناول ’’ارمان‘‘ میں آغا شاعر نے یہ ذہن نشین کرانے  کی کامیاب کو شش کی ہے کہ خاندان کے ہر فرد کو متحد ہونا چاہئے۔ ایک دوسرے کے جذبات کی قدر کی جائے۔ والدین اپنی اولاد کی مجبوریوں کو سمجھیں۔ اس کے لیے والدین کو بغض،کینہ، حسد سے دور رہ کر اپنا کر دار مثالی بنانا چاہئے۔

          ناول’’ارمان‘‘ بائیس مختلف ابواب پر منقسم ہے ہر باب کا تسلسل دوسرے باب سے ہے۔ ہر باب کا اختتام کسی نہ کسی نتیجہ اور انجام پر ہوتا ہے۔ اس ناول میں آغا شاعر نے انیسویں صدی کے آخر اور  بیسویں صدی کے اوائل کی ہندوستانی مسلم گھرانوں کی روایت کو ملحوظ رکھا ہے۔ اس زبانہ میں مسلم سماج میں جو رسم رواج عقیدت، مذہبی، سیاسی، اقتصادی، معاشی عیش و عشرت۔ خاندانی نزاع انانیت غیروں سے دوستی۔ اپنوں سے بیر اور خصوصاً مخلوط خاندان کے اندرونی انتشار اور آپسی رنجشوں کو بڑی چابک دستی اور فنکاری کے ساتھ پیش کیا ہے جس میں خاندانی نزاع پر بڑی اچھی کشمکش ملتی ہے۔ پہلے باب کا خلاصہ اس طرح ہے۔

          ڈپٹی کمشنر بہادر جنگ نواب بہت بڑے شرفا میں ہیں۔ خدا کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔ اپنی پر مسرت زندگی مع اہل و عیال کے گذارتے ہیں ان کی دو اولاد میں پروفیسر مظہر اور خورشید عالم ہیں۔ مظہر اعلی تعلیم حاصل کر کے پروفیسر ہوئے اور خورشید پرانی دلی کی روایت کے متعلق علم سے نا آشنا رہ جاتے ہیں۔ دونوں بھائی شادی شدہ ہیں۔ پروفیسر مظہر کی بیوی کا نا حیدری خانم ہے بیٹے کا نام ناصر احمد ، محسن وغیرہ ہے۔اس کے بر عکس خورشید کی بیوی کا نام امراؤ بیگم اور ایک حور چہرہ بیٹی جوئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر اور اس کی بیگم اپنے وارثوں کے ساتھ کافی خوش ہیں مگر یہی دار السرور جہاں خورشید کشمکش حیات میں مبتلا ہے۔کچھ دنوں بعد کمشنر کا انتقال ہو جاتا ہے اور خورشید کس وجہ سے قید و بند کی زندگی گذارنے لگتا ہے اس کی بیوی مغموم رہا کرتی ہے۔ جوئی اپنے تمام رشتہ داروں کے درمیان باپ کی غیر موجودگی میں مفلوک الحال رہا کرتی ہے اس برعکس پروفیسر اپنے اہل عیال کے ساتھ پر مسرت زندگی گذارتا ہے۔

          اس طرح آغا شاعر نے پہلے باب میں پرانی دہلی گھریلو مسائل کو بے باکی سے بیان کیا ہے جس میں کمشنر اور ان کی بیگم کے حالات اور دونوں بیٹوں کا احوال بیان کیا ہے جیسا کہ ناول کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک بیٹا تو کافی خوش ہے۔ دوسرا قید و بند میں اور ان کی بیگم اور بچے مصیبت میں دن گذارتے ہیں۔ پھر یہ نیک صالح عورت امراؤ بیگم خدا پر بھروسہ کرتی ہے اور اپنے خاوند کو یاد کر کے خدا کا شکر ادا کرتی ہے جس کی تصدیق مندرجہ ذیل شعر سے ہوتی ہے۔

ہائے جس طرح گذاری  ہے ہمیں جانتے  ہیں

کہاں ڈھونڈوں تجھے اے ناز اٹھانے والے

          بحر حال یہ شعر امراؤ بیگم کی مصیبت پر صادق آتا ہے۔البتہ اس کشمکش اور آشوب زدہ ماحول میں مظہر کا لڑکا ناصر اور خورشید کی بیٹی’’جوئی ‘‘ رشتہ کے چچازاد بھائی بہن ہونے کی حیثیت سے بہت میل جول کے ساتھ کھیلتے ہیں دوسرے باب میں صبح کی منظر کشی کی گئی ہے۔ کوئل کوکتی ہے باد صبا جھوم جھوم کر چلتی ہے دل و دماغ کو فرحت بخشتی ہے۔پھولوں کے مسکان اور کلیوں کے چٹخنے کی آوازیں آ رہی ہیں۔ نمازی صبح کے فرائض سے فارغ ہو کر چہل قدمی کر رہے ہیں۔ سبھی کی زبان خدا کے ورد میں رطب اللسان ہے اور ایک گلشن ہے جو سر سبز اور شاداب ہے اس کے درمیان لوگوں کو سکون حاصل کر نے کے لئے چوکی دراز ہے  اس موسم میں ناصر اور جوئی بھی ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جوئی کی عمر گیارہ اور ناصر کی تیرہ سال ہے اس دل گدگدانے والے  موسم میں دونوں  کے محبت کی ابتدا ہوتی ہے سبھی باتوں باتوں میں ایک دوسرے سے ہم آغوش ہوتے ہیں  پھر گھومنے لگتے ہیں تو کبھی تخت پر جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر باتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جیسا کہ آغا شاعر نے دونوں کی محبت کے بارے میں مندرجہ ذیل شعر کہا ہے   ؎

وہ تاڑ گئے اب تو خبر چھپ نہیں سکتی

کمبخت محبت کی نظر  چھپ نہیں سکتی

          غرضیکہ دونوں باغ میں ٹہلتے اور پھول توڑ تے ہیں اور پھر جوئی ناصر سے واپس کے لئے اجازت چاہتی ہے اور کہتی ہے ’’میں گھر جا رہی ہوں ورنہ پریشانی ہو گی ‘‘ ناصر روکتا ہے اور کہتا ہے ’’کیا بے رخی ہے تم جا رہی ہوں ‘‘ جوئی جواب دیتی ہے۔

          مجھے اب گھر جانے دو دیر ہو جاتی ہے تو ماں مارتی ہے اور وہ رونے لگتی ہے ناصر اس کی کلائی پکڑ کر کپڑا اٹھا کر مار کا نشان دیکھتا ہے اور نشان کو اپنے ہونٹوں سے چومتا ہے اس موقع پر آغا شاعر کا مندرجہ ذیل شعر ملاحظہ کریں   ؎

آستین ہٹ کے برق چمکی ہے

کیا کلائی ہے کیا کلائی ہے

          ان نشانوں کو دیکھ کر ناصر آہ و زاری کر نے لگتا ہے اور کہتا ہے تمہاری ماں تم پر ظلم و ستم کر رہی ہے آخر کیوں۔  میرے بھی تو ماں باپ ہیں۔ جوئی کہتی ہے تم امیر ہو میں غریب ہوں تم پر سب کا سایہ ہے اور میں لا وارث ہوں۔ یہ سن کر ناصر کانپ جاتا ہے اور جوئی کے لئے اس کے دل میں محبت کا جذبہ بھڑک اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ جوئی اس طرح دل دکھانے والی بات نہ کرو۔ تمہاری بات سن کو میں کانپ سا جاتا ہوں اور جوئی وہی پرانی بات دہراتی ہے۔ تم میرے ساتھ کیوں کھیلتے ہو میں تو ایک لا وارث لڑکی ہوں تم امیر باپ کے بیٹے ہو تمہارا ہمارا کیا ساتھ اور جوئی رونے لگتی ہے اور گھر کی طرف چل دیتی ہے۔ ناصر اس کا پیچھا کرتا ہے اور خوش آمدانہ لہجہ میں کہتا ہے کہ جوئی تم ناراض مت ہو چچا کوئی چھ ماہ میں آنے والے ہیں تمہارے لئے اچھے کپڑے  اور سامان لائیں گے اس جگہ آغا شاعر نے دونوں کی طفلانہ محبت کو بڑی چابک دستی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ جب جوئی ناصر سے خوب متاثر ہوتی ہے  تو وہ خوش ہو کر ناصر سے لپٹ جاتی ہے اور پھر دونوں پھول توڑنے میں محو ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ایک بھونرا جوئی کو ستا نے لگتا ہے اور ناصر کہیں چھپ کر سب کچھ دیکھتا رہتا ہے جب جوئی پریشان ہو جاتی ہے تو ناصر کو آواز دیتی ہے۔ ناصر جوئی کو اپنے بازو میں بھر لیتا ہے اور بھونرے سے کہتا ہے ’’مان جا بھونرے مان جا ‘‘۔جوئی پھولوں کی مالا بنا کر ناصر کے گلے میں ڈال دیتی ہے اور دونوں اپنے گھر کی طرف چلے جاتے ہیں۔ پھر تیسرے باب میں آغا شاعر نے کمشنر کی پر مسرت زندگی کو پیش کیا ہے۔ برسات کا موسم ہے عالی شان محل رؤسا لوگ ہیں۔ ساون کا مہینہ ہے لوگ رنگ رلیاں منا رہے ہیں عیش و مستی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ یہاں ناول نگار نے گلی قاسم جان کی رنگا رنگی کو دلکش پیرائے میں بیان کیا ہے۔ بوڑھے جوان، عورت مرد سب مستیاں لے رہے ہیں وہیں ناصر اور جوئی اور ان کے والدین اپنے آبائی گھر میں نمایاں نظر آ رہے ہیں۔بیگم کمشنر گا ؤ تکیہ لگائے پلنگ پر دراز ہیں چند بیبیاں۔۔۔۔۔ ان کی خدمت میں یک ساعت غفلت نہیں برتنی اور چند قصہ کہانیاں کہتی ہیں۔  موسمی ہوائیں چل رہی ہیں غضب کی چہل پہل ہے۔ یہاں ہر طرح کی بیبیاں گور نمکین جوان لڑکی دوشیزہ، لال گلابی، سرمئی کلک ریزی رنگ برنگ کے دوپٹے اوڑھے ہوئے ملبوس گل اندام نمایاں نظر آ رہی ہیں۔ کچھ ضعیفہ عورتیں سفید پوش مختلف قسم کی ترکاریاں چھیل رہی ہیں۔ دوسری طرف میٹھی ٹکیاں سموسے گلگلے تلے جا رہے ہیں۔ دستر خوان میں لوازمات قرینے سے سجے ہوئے ہیں۔ مہمانوں کو رسوم کے مطابق ہاتھ دھلائے جا رہے ہیں لوگ کھانا تناول فرما کر کمشنر کے ممنون  ہو رہے ہیں۔ کمشنر کا گھر ہر دن عید اور رات شب برات ہے۔ اس جگہ ہی ناصر اور جوئی اپنے والدین ساتھ نمایاں نظر آتے ہیں جیسا کہ اس سے قبل بیان کیا جا چکا ہے۔ اس ہماہمی میں ناصر جلوہ افروز ہوتا ہے اور اپنی ماں کو آڑو پیش کرتا ہے ماں ناصر کو کوستی ہے کہ تم نے اپنے کپڑے گندے کر لئے۔ ناصر کی بہن ذکیہ بھی کو ستی ہے اور کپڑے دھونے کی تلقین کر تی ہے۔ ناصر اپنے کپڑے دھو لیتا ہے اور آڑو تقسیم ہو نے لگتے ہیں۔ حیدری خانم اپنے حصہ کے آڑو جوئی کو دے دیتی ہے اس پر ذکیہ الجھ جاتی ہے اور کہتی ہے کہ جوئی کو ایک زیادہ ملا ہے۔ ناصر جوئی کی حمایت کر تے ہیں۔ جوئی ایک آڑو ذکیہ کو دیتی ہے اس پر ذکیہ جھلا تی ہے اور امراو بیگم جوئی کو ڈانٹتی ہے۔ جوئی شرمندہ ہوتی ہے ناصر جوئی کی حمایت کرتا ہے تو امراو بیگم ناصر کو ڈانٹتی ہے اور کہتی ہے کہ تم کون ہوتے ہو جوئی کی حمایت کر نے والے ادھر حیدری خانم ناصر کو ڈانٹتی ہے اور ناصر ماں کے ڈر سے باہر چلا جاتا ہے اور جوئی بے زبان گھٹ گھٹ کر خون کے آنسو پیتی ہے۔ ذکیہ مزے سے آڑو چھیل کر کھاتی ہے۔ جوئی اور ناصر ایک دوسرے کے درد میں غرق ہیں اس موقع پر آغا شاعر نے ایک شعر میں دونوں کی ہمدردی ظاہر کی ہے   ؎

درد مندوں کو فقط اشارہ ہی کافی ہے

آہ کی ٹھیس لگی آبلہ دل ٹوٹا

          جوئی ماں کے ڈر سے دور سے جنگل میں گھومتی ہے جہاں ناصر سے ملاقات ہوتی ہے دونوں ایک دوسرے سے لپٹ کر محبت کا دم بھرتے ہیں ناصر کہتا ہے کہ تم یہاں گھوم رہی ہو میں تیری فرقت میں گھٹا جا رہا ہوں۔ دونوں کوئل کی میٹھی آواز کو یکسوئی سے سنتے ہیں اور اس میں محو ہو جاتے ہیں چوتھے باب میں خورشید قید سے رہا ہو کر پرائیوٹ نوکری کرتا ہے اور خوشیوں اور شاد مانیوں کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے اس کی عکاسی مندرجہ ذیل شعر سے ہوتی ہے   ؎

دنبالہ ان کی تند نگاہی میں آگیا

کھنچ کر کماں سے تیر گواہی میں آگیا

دیکھتے ہی دیکھتے بیگم کمشنر کا انتقال ہو جاتا ہے۔ اس کے اقرباء ماتم کر تے ہیں۔ حیدری بیگم اور مظہر دکھاوے کا واویلا مچاتے ہیں  بہ نسبت خورشید اور امراؤ بیگم کے۔ دونوں فریق میں نفرت کا جذبہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ پانچویں باب میں ناصر اور جوئی کی محبت بام عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے بیقرار اور بیتاب رہتے ہیں۔ دونوں کی بیباکی دیکھ کر  دونوں پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے  اور دونوں چہار دیواری کے اندر ایک دوسرے سے الگ قید و بند کی زندگی گذارتے ہیں۔ ایک دن جوئی سیر کو جاتی ہے  وہاں ناصر بھی آ جاتا ہے۔ دونوں کی ملاقات تنہائی میں ہوتی ہے دونوں آپس میں خوب باتیں کر تے ہیں۔ جوئی بھائی کے خوف سے درخت کی اوٹ میں چھپ جاتی ہے۔ ناصر اس کا آنچل پکڑ کر کھینچتا ہے کہ اس وقت احمد اور مقبول آ جاتے ہیں  اور ناصر واپس بھاگ جاتا ہے۔ چھٹے باب میں احمد ناصر اور جوئی کے متعلق سب کچھ ماں سے بتلا دیتا ہے۔ امراو بیگم اسے کوستی ہے اور سخت پابندی لگا دیتی ہے۔

          دونوں ایک دوسرے کے لئے پریشان ہوتے ہیں اس طرح ان کے عشق کا پردہ فاش ہو جاتا ہے اور ساتواں باب شروع ہو جاتا ہے:

کیا تصور ہے واہ رے تصویر

اتر آئی ہیں دل میں یار کی آنکھیں

یاں پہ لب لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں

واں ایک خاموشی تیری سب کے جواب میں

 آٹھویں باب کی شروعات کچھ اس طرح کی ہے۔ دونوں قید و بند میں پریشان ہیں اس کی نشاندہی جوئی کی اس گنگناہٹ سے ہوتی ہے۔

’’چپ رہ دل ناصر ناصر نہ کیا کر ‘‘

          نویں باب میں کشمیری دروازہ کا منظر ہے ناصر کالج میں پڑھتا ہے جہاں اس کے جگری دوست محسن سے ملاقات ہو تی ہے اور محسن ناصر سے ہم کلام ہوتے ہوئے یہ شعر پڑھتا ہے   ؎

شباب آنے نہ پایا کہ عشق نے مارا

ہمیں بہار کے لالے پڑے خزاں کیسی

          دسویں باب میں مظہر اور حیدری بیگم اپنے فرزند ارجمند کے بارے میں سوچتے ہیں کہ کس طرح اس کو اس راہ سے ہٹایا جائے تاکہ انٹر نس پاس کر لے آخر یہ بات طے پاتی ہے کہ والدین نے مکان میرے نام کر دیا ہے اس میں خورشید کا کوئی حق نہیں اس طرح خورشید کو اس مکان سے بے دخل کر دیتا ہے۔ گیارہویں باب میں مظہر اپنے بیٹے کو جادو ٹونے سے بچانے کے لئے ایک پیر صاحب کے پاس لے جاتا ہے اس کے ساتھ اس کی اہلیہ بھی ہوتی ہے وہاں پیر صاحب ان کے ملازم اور دیگر مدعا خواں سے بات ہوتی ہے اور حیدری خانم تعویذ لے کر لوٹتی ہے۔ بارہویں باب میں مظہر کسی عشق کا ذکر ہے اور پھر ناصر جوئی کو خط لکھتا ہے  اور جوئی رو رو کر آخری سلام کے ساتھ معذرت خواہ ہوتی ہے۔تیرہویں باب میں ناصر اور جوئی کی شادی کی بات ہوتی ہے مگر ناصر اس شادی سے انکار کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جب میں خود کفیل ہو جاؤں گا پھر شادی کروں گا۔

          یہاں آغا شاعر سے بھول ہو گئی ہے کہ جو لڑکا اپنی معشوق کی جدائی میں اپنی جان دے دیتا ہے اس کو قبل اس کے شادی سے انکار کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ اس سے ناصر کے کر دار میں فتور پیدا ہو گیا ہے۔ جو عاشق اپنی معشوق کے بچھڑ جانے سے خودکشی کر سکتا ہے وہ اپنی معشوق سے شادی سے کیسے انکار کر سکتا ہے۔ صرف اس بنیاد پر کہ خود کفیل بن جاؤں جبکہ لڑکی کے کر دار کو آغا شاعر نے بڑی دلکشی سے پیش کیا ہے جب ناصر خود کشی کر لیتا ہے تو جوئی اپنا گلا کاٹ کر اس سے ہم آغوش ہو جاتی ہے جس پر تھوڑی دیر کے لیے یقین کر نا ممکن نہیں مگر یہاں معاشقہ کا بیان ہے جوئی کے دل میں سچی محبت رہی ہو ممکن ہے والدین کی وجہ سے چھپا رکھی ہو مگر جس سے تجاوز کر نے پر وہ بیباکی کے ساتھ اس محبت کا اعلان کرتی ہے اور نتیجتاً خود کشی کر لیتی ہے۔

          اس طرح جوئی بے وفائی کے باوجود با وفا ثابت ہوتی ہے مگر ناصر پیہم وفا کے راستے پر گامزن رہ کر بھی شادی سے انکار کر نے پر بے وفا ثابت ہوتا ہے۔ یہاں آغا شاعر نے فن اور تکنیک کو بالائے طاق رکھکر جذبات سے کام لیا ہے۔

          بہر کیف ناصر شادی سے انکار کرتا ہے۔امراؤ بیگم اور حیدری خانم میں جھڑپ ہو تی ہے اور اختلاف زور پکڑتا جاتا ہے چودھویں باب میں خورشید مقدمہ ہار کر اپنے اہل و عیال کے ساتھ دوسری جگہ منتقل ہو جاتا ہے۔ ناصر کی عمر اٹھارہ اور جوئی کی سولہ ہے اس بات میں آغا شاعر نے پرانی دلی کے پر فضا ماحول رنگینی کے ساتھ پیش کیا ہے جس میں رسم و رواج کے طور طریقہ غرضیکہ زندگی کے تمام شعبہ کی عکاسی کی ہے۔ مظہر اور حیدری خانم نے اطمینان کا سانس لیا مگر کہاں بلا تو اب آ رہی ہے۔ ناصر عاشق نا مراد جو جوئی سے ملنے کی تاک میں تھا۔ ناصر اپنے دوست محسن کے گھر جاتا ہے جو لالہ پیارے لال کا کرایہ دار تھا اس کے گھر کی چھت کے ذریعہ  جوئی تک پہونچتا ہے جوئی اپنے بام پر انگڑائیاں لے رہی تھی۔ دونوں کی ملاقات ہوتی ہے۔ پندرہویں باب میں مظہر ناصر کو اعلی تعلیم کی ترغیب دیتا ہے۔ سولہو یں باب میں ناصر کے اوپر ظلم و تشدد کا ذکر ہے اس کی ذہنی کیفیت کی عکاسی آغا شاعر کے اس شعر سے ہوتی ہے   ؎

گرے پڑتے ہیں پہلے سایہ سے

کچھ عجب اپنا حال ہے اب تو

          ناصر کی والدین تین دن کے سفر سے واپس آتے ہیں اور بیٹے کے احوال سن کر ماں باپ کی محبت عود کر آتی ہے۔ دروازہ کھلتا ہے پھر سبھی لوگ ناصر سے لپٹ جاتے ہیں۔ادھر خورشید اور جوئی کی منگنی بلی ماران کے ڈاکٹر اولاد علی کے صاحب زادے محمود علی سے ہو جاتی ہے۔یہاں آغا شاعر نے فتح پوری ، بلی ماران، چاندنی چوک ساتھ ہی دریبہ کلاں ، کوچہ بلاقی بیگم کا بہت دل کش منظر کھینچتا ہے اس طرح اس باب میں شادی کی بات پکی ہو جاتی ہے۔ مگر جوئی بہت پژ مردہ ہے اس کے بر عکس ناصر اٹھارہویں باب میں اپنے والدین سے نالاں ہے۔ وہ جوئی سے شادی کے لیے باپ کو خط لکھ کر ماں کے ذریعہ بھجواتا ہے۔ مظہر کالج سے واپس آتے ہیں تو سارا ماجرا حیدری خانم سناتی ہے۔ مظہر صاحب کہتے ہیں جوئی کی شادی طے پا گئی ہے جو کم ذات ہے گھر میں ڈومنیاں اور ہجڑے ناچتے ہیں۔ اچھا ہوا میرا لڑکا بچ گیا۔ ناصر کا خط پڑھ کر بہت آبدیدہ ہوتا ہے۔ اپنی اہلیہ سے منشی گل باز گی بیٹی کے متعلق بات کر نا ہے حیدری خانم کہتی ہے کہ لڑکا کسی حال میں تیار نہیں ہے۔ ناصر صرف جوئی سے شادی کرے گا۔ورنہ اس نے اپنی رائے لکھ دی ہے۔مظہر چارو نا چار اپنے بھائی خورشید کو منسوب کے بارے میں خط لکھتا ہے۔ انیسویں باب میں خورشید اس رشتہ کو منظور کر لیتا ہے اور ایک مقرر تاریخ کے بارے میں کہہ دیتا ہے کہ اس تاریخ تک میں انتظار کروں گا۔ اتنے میں خورشید کو تار ملتا ہے کہ مہاراجہ بیکانیر نے یاد کیا ہے وہ وہاں کے لئے روانہ ہوتا ہے۔ بیسویں باب میں جوئی کی حرماں نصیبی مجبوری، اضطرابی بے چینی کو بڑے درد بھرے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ وہ صرف ناصر کی یاد میں بے ہوش پڑی رہتی ہے۔ اکیسویں باب میں مظہر کو خورشید کا خط ملتا ہے کہ تو اپنی بیوی سے کہتا ہے کہ دیکھو اچھا ہوا اب لڑکے پر پابندی لگا دو کہ کہیں جانے نہ پائے۔ جوئی کی شادی فلاں تاریخ کو ہو جائے گی پھر سب کچھ بھول جائیگا۔ ناصر پر پابندی لگ جاتی ہے مقررہ تاریخ ٹل جانے سے جوئی کی شادی محمود علی مڈل فیل سے ہو گئی۔ اس بات ناصر کو صدمہ پہنچتا ہے اور وہ اپنے والدین سے شکایت کرتا ہے کہ آپ وعدہ کر رکھا تھا کہ تیری شادی صرف جوئی سے ہو گی مگر ناصر کے والد کی مکاری دیکھئے کہ اس نے اس سے لا علمی ظاہر کی۔ آخر کچھ دن تو ناصر نے خوب رو رو کر جی ہلکان کیا اور گھر کے سارے افراد کو خوب بہ دعائیں دیں کہ تم لوگوں نے میرے ساتھ دھوکہ کیا پھر ایک دن وہ عاشق انتقال کر گیا۔ جب ناصر کے انتقال پر ملال کی خبر جوئی کو ملی تو جوئی نے بیباکی کے ساتھ سسرال اور دنیا والوں کو ٹھکرا  کر اپنی سچی محبت کی گواہی دینے ناصر کی میت تک پہنچتی ہے اور  خنجر سے اپنے حلقوم کاٹ کر ناصر سے ہمیشہ کے لئے مل جاتی ہے۔

          اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ ناصر اور جوئی کی محبت سچی تھی اگر اس دنیا میں نہیں تو عالم برزخ میں دونوں ایک دوسرے کے ہو گئے۔ آغا شاعر کے اس ناول کے انجام سے ذہن شوق لکھنؤی کی مثنوی زہر عشق اور میر کی مثنوی شعلہ عشق کی طرف جاتا ہے کہ دونوں مثنویوں کا انجام بھی اس طرح کا ہے۔

          ناصر جوئی ، امراؤ بیگم، حیدر ی خانم، مظہر ناول’’ارمان‘‘ کے مرکزی کر دار ہیں جن کے گرد ساری کہانی گھومتی ہے اس کے علاوہ خورشید احمد ، محسن منیر ذکیہ وغیرہ معاون کر دار ہیں جو وقتاً فوقتاً بہ قدر ضرورت نمودار ہوتے ہیں۔اس ناول میں ایک پورے خاندان کو جگہ دی گئی ہے۔ جتنا اثر ناصر اور جوئی کے کر دار پڑتا ہے اتنا کسی پر نہیں اس صورت میں ہم ناصر کو ہیرو اور جوئی کو ہیروئین کہہ سکتے ہیں۔ جوئی اپنے باپ کی اکلوتی بیٹی ہے۔ جیسا کہ ناصر نے بغاوت کر کے انا نیت کی دیوار توڑ دی۔ جوئی سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنے والدین اور رسم و رواج کی پابندی فرض سمجھ کر کرتی ہے۔ ایک طرف جوئی کا کر دار اہم ثابت ہوتا ہے کہ جہاں وہ اپنے والدین کی عزت رکھ لیتی ہے تو دوسری طرف محبت کی خاطر بغاوت نہ کر کے اپنے کر دار کو کمزور بناتی ہے  جوئی کے لئے یہ ممکن نہ تھا اس  لئے کہ وہ مجبور تھی وہ جوئی کہ کر دار سے آغا شاعر نے بیسویں صدی کے مسلمانوں کی مشرقی روایت کو زندہ  رکھا ہے کہ لڑکا اپنے رومانس کی خاطر بغاوت کر سکتا ہے مگر ایک مشرقی خاتون ایسا نہیں کر سکتی۔

          دوسرا کر دار مظہر کا ہے جو اپنے عہد کا نمائندہ ہے وہ ہر وقت اپنی بلندی پر رہنے والا انسان ہے اس کا ذہن نیچے آنے کو تیار نہیں ہے۔ اپنے متکبرانہ مزاج کی وجہ سے خون کو خون نہیں سمجھتا اپنی انا کی خاص بھائی کو تباہی کے راستے پر چلاتا ہے اور بیٹے کے جذبات کو ٹھیس لگا کر لقمہ اجل کا مزہ چکھا دیتا ہے۔اس کے کر دار میں مکاری عیاری ، دغا بازی بھری پڑی ہے۔ مظہر کا کر دار ناول کو جلا تو بخشا ہے مگر تنقیدی نقط نگاہ سے ذلیل اور بدمزہ کر دار ہے۔

          ناصر کا کر دار جوئی کے کر دار کے برعکس بے حد اہم اور نمایاں ہے جو ناول کے اوراق میں درخشندہ ستارے کی مانند چمک رہا ہے۔ مگر ناصر کا کر دار بھی ایک جگہ کمزور پرتا دکھائی دیتا ہے کہ اس نے شادی سے صرف اس لئے نکار کیا کہ وہ خود کفیل نہیں تھا۔ یہ غدر سچے عاشق کے لئے جائز نہیں۔ ناصر کا  باپ اس کے حال سے متاثر ہو گیا تھا اگر ناصر شادی کر لیتا تو مظہر ہو حال میں اس کی کفالت برداشت کر سکتا تھا۔ چند دن دقت ہوتی مگر اس کے بعد حالات سازگار ہوتے چونکہ ناصر کی ماں اس شادی کے لئے من و عن تیار تھی۔ یہ سچ ہے کہ عورت کے سامنے مرد کو جھکنا ہی پرتا ہے۔ ناصر کی ماں اس کی حمایت کرتیں۔ حالات سازگار ہوتے اور ناصر بھی تو روزی کمانے کے لئے کچھ کر سکتا تھا۔ تنقیدی نقطۂ نگاہ سے ناصر کا کردار بھی کچھ ڈھیلا ڈھالا ہے مگر جہاں وہ زہر کھا لیتا ہے تو دنیا میں اپنا مقام بناتا ہے۔ اس کے برعکس حیدری خانم کا کر دار شروع سے آخر تک صاف ہے۔ جیسا کہ ناول کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ حیدری خانم امراؤ بیگم کے تعلقات ہمیشہ سازگار رہے ہیں۔ مگر ایک جگہ جہاں ناصر آڑو لے کر نمودار ہوتا ہے۔ اس جگہ ناصر کی اپنی بہن سے جھڑپ ہو جاتی ہے مگر جوئی کے ساتھ اس کا رویہ مناسب ہے اور اپنا آڑو جوئی کو دے دیتی ہے دوسری جگہ امراؤ بیگم اور حیدری خانم کے درمیان شادی کی بات ہو تی ہے تو حیدری اپنے بیٹے کی نالائقی پر امراؤ بیگم سے الجھ جاتی ہے اور ناصر کا تعلق جوئی سے ختم کر نے کے لیے تعویذ لیتی ہے۔ اس طرح خانم کا کر دار بھی نقص سے پاک نہیں ہے لیکن موہوم سا نقص ہے جو کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس طرح خانم کا کر دار بھی نمایاں ہے امراؤ بیگم کا کر دار بھی شروع سے معصوم اور سادہ نظر آتا ہے۔ مجموعی طور پر جب ہم تنقیدی نگاہ ڈالتے ہیں تو دونوں کا کر دار اس میں جہاں باہمی رقابت ہی نہیں بلکہ مروت ، محبت ملتی ہے اس طرح خورشید کا کر دار اہمیت کا حامل ہے کہ مظہر نے مقدمہ کر کے زمین سے بے دخل کر دیا شادی کا پیغام دے کر بھی دغا کیا سب کچھ خورشید نے برداشت کیا صرف اتنا کہ سکا کہ بھائی ہے اس طرح اس نے انسانیت کا ثبوت دیا۔بقیہ سبھی کر دار ناول کی طوالت کے لئے ضمنی طور پر دئے گئے ہیں۔

          ارمان ایک نفسیاتی ناول ہے اس کا تذکرہ پہلے بھی ہو چکا ہے جو آغا شاعر کی زرف نگاہی کی پیدا وار ہے۔ آغا شاعر کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان تحریروں میں ا س سماج کی عکاسی ہے۔ انہوں نے اپنے دور پر بھی زبر دست طنز کیا ہے۔ آغا شاعر کا ناول ’’ارمان‘‘ دلچسپی اور دلکشی بھی رکھتا ہے ان کے اس ناول میں چند چھوٹے کر دار کے علاوہ سارے کر دار شروع سے ناول سے ناول کے صفحات پر ہمارے سامنے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں ہم اس کی ذہنیت اور شخصیت سے بخوبی واقف ہو جاتے ہیں۔ جیسے حیدری خانم ایک معاون کر دار بھی حیدری کے کر دار سے کچھ کم اہم نہیں ہے۔ ناول ’’ارمان‘‘ میں جذبات نگاری کی بہتات ہے جس کی بنیاد نفسیات انسانی پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آغا شاعر کی ناول نگاری کو رومانی کہا گیا ہے منظر کشی اس ناول کازیور ہے جو واقعات و کر دار سے قریب تر معلوم ہو تی ہے جس میں حسن و عشق کا دریا  تلاطم حیز ہے۔

          جس طرح شرر ناول کے ذریعہ تاریخ کے حوالے سے اسلام کی عظمت کو بروئے کار لائے ہیں اور راشد الخیری نے مشرقی روایات کو قائم رکھنے کی جستجو کی ہے اسی طرح آغا شاعر نے اپنے ناولوں کے ذریعہ اس عہد کے مسلمانوں کی رومانی معاشرتی اور نفسیاتی زندگی پر تبصرہ کر نے کی کوشش کی ہے۔ دراصل موصوف کا یہ رجحان مغربی تہذیب و تمدن کی یلغار سے محافظت کے حوالے سے و جود میں آیا تھا۔ انہوں نے ناول ’’ارمان‘‘ کے دزیعہ وہی کام انجام دیا جس کی تلقین اکبر الہ آبادی کی شاعری میں ملتی ہے اس ناول سے آغا شاعر نے مشرقی تہذیب کی مستحکم حمایت کی ہے۔ انسانی شعور کی رو کو اس انداز سے پیش کیا ہے کہ یہ ناول فن اور تکنیک کے اعتبار سے  مکمل اور مستحکم ہے۔ ’’ارمان‘‘ کے مطالعہ سے فلسفہ حیات کا پتہ چلتا ہے کہ۔ وہ تعلیم یافتہ سماج کی بنیاد  ڈالا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے وہ تعلیم نسواں کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ اس لئے کہ ماں کا گود ہی بچوں کا اولین مدرسہ  ہوتا ہے۔ اس کے متعلق والگ اور  وارن نے کہا ہے ’’خاندان ہی انسان کی زندگی کے بارے میں سارے تصورات کی تشکیل کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آغا شاعر نے ایک خاندان کے نزاع کو روحانی پیار  میں پیش کیا ہے۔ جس میں آغا شاعر نے دکھایا ہے کہ والدین کی بے توجہی اور نفرت کے سبب کئی معصوم جانیں ضائع ہو سکتی ہیں۔

          اس ناول میں مظہر کے کر دار سے پتہ چلتا ہے کہ وہ تعلیم یافتہ مسلم ضرور ہے  مگر اس کے خیالات مغربی  ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ناصر کی شادی جوئی سے نہیں ہونے دیتا۔ اس مغربی رنگ کی بنا پر بھائی سے نفرت کرتا ہے۔اس طرح مظہر کا کر دار آغا ز سے اختتام تک مغرب پرستی کا نمائندہ بن گیا ہے۔کبھی سفر میں ہے تو کبھی کالج یونی ورسٹی میں کبھی شرفا کی مجلس میں نظر آتے ہیں اس طرح آغا شاعر کا ناول ’’ارمان‘‘ مشرقی پائداری اور قدامت پسندی کی حمایت اور  مغرب پرستی سے انحراف کا آئینہ دار  ہے اس کے علاوہ جتنے بھی کر دار ہیں سبھی کر دار مشرقی پائداری کی اچھی مثال ہیں اس طرح آغا شاعر کے ناول اپنی طرز میں کامیاب کہے جا سکتے ہیں۔ یہ ناول ان کو خوب شہرت بخشتی ہے۔

          آغا شاعر جس کی اہتمام اور شدومد سے ارمان اور نفسیات کا اہتمام کر تے ہیں۔ یہ ناول ’’ارمان‘‘ میں پوری طرح رواں دواں ہے۔ اپنی انا کی خاطر جو لوگ معصوموں کی قربانی دیتے ہیں اس کے خطرناک انجام کو آغا شاعر نے ناول ’’ارمان‘‘ میں خوبصورت پیرائے میں پیش کر دیا ہے۔ انا کے پجاری والدین کے درمیان کشمکش کی چکی میں دو معصوم پھول کس طرح پستے ہیں مگر انہیں اس کا احسا س تب ہوتا ہے جب وہ پھول ٹہنی سے بچھڑ کر خاک کے دامن میں سما جاتا ہے۔ انہیں باتوں پر ناول کا پورا پلاٹ گرد ش کر رہا ہے۔

          ناول’’ارمان‘‘ کے مطالعہ سے پتہ  چلتا ہے کہ آغا شاعر مشرق کے دلدادہ تھے ہی مگر ساتھ ہی وہ مغربی تہذیب کی رنگارنگی سے اپنی ضرورت کی چیز حاصل کر نے میں گریز نہیں کر تے تھے ان کا ناول ’’ارمان‘‘ مشرقیت پر مبنی ہے مگر مغر بیت کا رنگ بھی  دیکھنے کو ملتا ہے جیسے مظہر کا کر دار جو پوری طرح مغرب پر ست ہے اور پھر اپنے اندر آغا شاعر نے مشرق اور مغرب کی خصوصیات کو پرو دیا ہے  اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آغا شاعر رومانی تحریک سے وابستہ رہے ہیں۔ مگر اس کے اثرات کو قبول نہیں کیا۔

          آغا شاعر نے 1903ء میں ’’ارمان‘‘ کے علاوہ ہیرے کی کنی اور دیگر ناول لکھے۔ ان کے ناول اردو ناول کی ترقی میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ ارمان میں خاندانی نزع اور افراد کی کشمکش کو بڑی چالاکی سے قلمبند کیا گیا ہے۔ فر د اور سماج میں جو آویزش ہوتی ہے اس ناول میں پیش کیا گیا ہے۔ دونوں کی کشمکش سے اس تہذیبی امتزاج کا نقشہ سامنے آتا ہے جو بیسویں صدی کے پہلے سے ہی ہندوستان میں زور پکڑ رہا  تھا۔ جس طرح ناصر کا کر دار بدلتے  ہوئے معاشرہ کا شکار ہے جیسا کہ مشہور ہے بیسویں صدی میں جسم و روح مادیت اور روحانیت کی کشمکش میں عام انسان کا اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا ہے۔ اس طرح اس عہد میں معاشرے کی تبدیلی سے فر د کی نفسیات پر جو اثرات پڑے اس کو ارمان میں بڑی فنکارانہ خوبیوں سے پیش کیا گیا۔ مقصد کے بارے میں کانٹ نے بھی ضروری اور اہم بتایا ہے یہ اور بات ہے کہ فن مقصدیت کا شکار ہو جاتا ہے مگر ناول میں مقصد کا ہونا فن کا نقصان نہیں کسی مقصد یا نظریہ کے بغیر کسی فن پارہ کی تخلیق نہیں ہو سکتی۔ اس بارے میں ارتھر کو سلو کا یوں کہنا ہے۔ ہم کو فن کی مقصدیت کے متعلق کوئی اقتباس نہیں رکھنا چاہیئے کیوں کہ فن کے پیچھے کوئی نہ کوئی نظریہ ضرور ہوتا ہے۔7

          ارمان مقصد ی ناول ہے یہ اور بات ہے کہ ناول نگاروں کی نظر سے دور طاق نسیاں کی زینت بنا رہا ہے اس کا کر دار اور پلاٹ اس نوعیت کا ہے کہ خود قاری  اس سے نتیجہ اخذ کر لیتا ہے کہ اس رول کی اہم ترین خصوصیت کر داروں کی نفسیاتی پیشکش ہے۔ فوسٹر نے کہا ہے کہ ’’پوشیدہ جذبات کو پیش کر نا ناول نویس کا عظیم کام ہے 8

          ڈیوڈ سیل نے کہا ہے ’’انسانی فطرت سے مکمل آگہی ظاہر کر نا ناول نویس کا کام ہے۔9 انسانی فطرت اور نفسیات سے آگہی آغا شاعر کے یہاں بھی ملتی ہے جیسا کہ اس عہد کے دوسرے ناول نویسوں کے یہاں بھی۔ ایسا اس لئے ہوا ہے کہ آغا شاعر نے انسانی نفسیات کا بڑا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اس لیے کہ وہ انگریزی منطق ، ادب فلسفہ تاریخ غرض ہر شعبہ میں کامل دستر س رکھتے تھے۔ ارمان میں کر داروں کا نفسیاتی مطالعہ شروع سے آخر تک موجود ہے۔ فرائڈ نے کہا ہے کہ ’’فنکار تصور کی دنیا میں اس لئے محو ہو جاتا ہے کہ وہ حقیقی دنیا میں اپنی خواہشات کی تسکین نہیں کر سکتا۔ 10 اور یہی چیز ارمان میں پیش کی گئی ہے اس طرح ناولوں میں کر داروں کی خواہشوں کی تکمیل ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔

          مگر ناول ارمان کا ہیرو منزل مقصود تک نہیں پہنچ پاتا ہے وہ جذبات و  خواہشات دبا لیتا ہے۔ جو فرائیڈ کے متعلق صرف الم سے بچنے کے لئے دب جاتی ہے۔11اس لئے کہ اس کو بر قرار رکھنے سے سماجی قوت اسے تکلیف پہنچا سکتی ہے۔ اس لئے ایس خواہش رد کر دی جاتی ہے۔12 مگر یہ لاشعور میں باقی رہتی ہے اس ناول میں جوئی ناصر کی فطرت کو اپنی مرضی  کے مطابق موڑ دیتی ہے جبکہ ناصر کے لاشعور میں فطری خو ا ہش پنہاں ہے اس کے برخلاف جوئی ناصر کی موت کی خبر سنتی ہے تو غیر شعوری طورپر اپنی محبت کا انکشاف کر دیتی ہے اس طرح آغا شاعر نے بالکلیہ نفسیاتی اسباب ظاہر کئے ہیں دونوں ہی خوش گوار زندگی گذارتے تھے مگر دونوں ذہنی مریض تھے کہ دونوں ایک دوسرے میں ضم ہو جانا چاہتے تھے جس کاپودہ بچپن میں ہی لگ چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یونگ نے کہا ہے کہ’’ہر مرد ایک عورت کی تمنا رکھتا ہے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ لاشعور میں چھپی اس عورت کو تخیلی طور پر کسی وقت بھی جسمانی صورت دی جا سکتی ہے۔12 اس طرح ناصر نے بھی جوئی کو اپنے تصور میں بسا لیا تھا۔یہ تصویر جوئی کی طرح تھی تو دل دے دینا لازمی امر تھا جیسا کہ دونوں بچپن سے ہی ایک دوسرے پر جان چھڑک رہے تھے اس لئے جب ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں تو جذباتی ہو کر ملتے ہیں۔ یونگ کا قول ہے کہ والدین اپنی اولاد کو ایسی زندگی گذارنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ جس کو وہ خود حاصل کر نا چاہتے تھے مگر نہ کر پائے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت زیادہ اخلاق پر زور دینے والے ماں باپ کے بچے غیر اخلاقی حرکتوں میں منہمک ہو جاتے ہیں یا پھر اس کے برعکس ہوتا ہے۔13مظہر کی سخت گیری نے ناصر کے کر دار میں یہی بات پیدا کر دی ہے کہ جس کی وجہ سے وہ ساری بندشوں اور قیود کو توڑ کر آزاد ہو جانا چاہتا ہے اور اپنی نفسیاتی حالات کے ساتھ جوئی کی یاد میں محو رہتا ہے ساتھ ہی یہاں ایک اور اہم واقعہ پیش آتا ہے کہ جوئی کی ماں ناصر کو یہ کہہ کر کوستی ہے کہ جوئی کون ہے تمہاری جو اس کی حمایت کر تے ہو۔ جو ناصر کو گراں گذرتا ہے۔ اس طرح آغا شاعر نے مخلوط خاندان کے ایک اہم نفسیاتی پہلو کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ آغا شاعر نے اس ناول میں جگہ جگہ نفسیاتی بصیرت کا ثبوت فراہم کیا ہے اور زندگی کی حقیقت شعارانہ عکاس کی ہے جیسا کہ سہیل بخاری نے ناول ارمان کے متعلق لکھا ہے۔

’’ارمان بھی ایک رومانی ناول ہے جس میں ایک خاندان کے نزاع کے المناک نتائج دکھائے گئے ہیں۔اس ناول میں بڑی چابک دستی سے متوسط طبقہ کی خانگی معاشرت کی نقشہ کشی کی گئی ہے۔ مصنف نے جس اہتمام کے ساتھ دو معصوم دلوں میں محبت کابیج ہویا ہے اور جس نفسیاتی انداز میں ان کی عمر کے ساتھ ساتھ اس ننھے سے پودے کو پروان چڑھایا ہے وہ تاثیر درد او کسک میں آپ اپنی مثال ہے اول الذ کر ناول کی جملہ خوبیوں  کے علاوہ اس میں آغا شاعر کی حقیقت نگاری کا بھی کمال نظر آتا ہے۔ یہ ناول اپنی معصوم رومان کی دلکش آغاز اور فطری انجام لطیف و بلیغ کتابوں نفسیاتی اشاروں حقیقی مرقع کشی۔ واقعیت نگاری ڈرامائی انداز بیان اور کر داری ارتقاء اور پر تا ثیر مکالموں اعلی انشا پردازی کے باعث اردو ادب کا ایک نادر شاہکار ہے     ۔13

 

’’ہیرے کی کنی‘‘

          ناول ’’ہیرے کی کنی‘‘ اردو ناول نگاری میں آغا شاعر کا وہ قیمتی سرمایہ ہے جس پر انسانی فلسفہ حیات کی بنیاد ہے۔ اس ناول کا پلاٹ ایک سولہ سالہ لڑکی کی نازیبا حرکت اور جنسی خواہشات کی لذت پر مبنی ہے اور نواب جہانگیر احمد کی نازیبا حرکات پربھی اس ناول کی نوعیت دلکش اور دلفریب ہے۔ ناول کہ مطالعہ سے قاری کا دل و دماغ خوش رنگ ہو جاتا ہے۔ اس کے متعلق آغا شاعر نے لکھا ہے کہ ہیرے کی کنی ایک ایسا ناول ہے جس میں بیسویں صدی کی حکومت ہند کے ولی عہد کی ناشائستہ حرکات اور رومانس کو دلچسپ بنا کر پیش کیا گیا ہے ناول ہیرے کی کنی انیس باب پر مبنی ہے۔ ہر باب کا ربط و تسلسل ایک دوسرے سے یکساں اور قریب ہے۔ ساتھ ہی مفصل اور متعین نصب العین بھی اس میں کثرت سے نظر آتا ہے۔ ہیرے کی کنی میں جس ماحول کی عکاسی کی گئی ہے اس کا نصب لعین ہندوستانی حکومت کے ولی عہد کی نازیبا  حرکات غیر ذمہ دار اور نا عاقبت اندیشی ہے جس کی آگ میں پوری ریاست جل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آغا شاعر کا ناول ہیرے کی کنی جس میں بیسویں صدی کے اوائل ہندوستانی روایت ، رسم و رواج، حکومت سیاست کا رنگ سماجی، معاشی سیاسی تعلیمی، مذہبی اقتصادی زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ اس میں آغا شاعر نے دلی کے قدیم تہذیب و معاشرت کی عکاسی کی ہے۔ ادنیٰ اعلی کی سوسائٹی امرا ’’رؤسا‘‘ کی محل سراؤں ، گلی کوچوں بازاروں کی رنگ برنگی زندگی کی مرقع کشی بڑے دلکش انداز میں کی گئی ہے۔ نواب جہاں گیر اور سلطانہ بیگم ناول کے مخصوص کر دار ہیں جو رومان کا مرکز ہے۔ دلی کی پرانی معاشرتی اور لا ابالی پن فضا کا پروردہ ہے دوسری طرف دہلی کے نوابین کی مصاحبین کا نمائندہ  ہے۔ دوسرے نمبر کا کر دار کبریٰ کا ہے۔جس کی بنیاد بے وفائی پر ہے۔ مگر نواب جہانگیر دار ہو س کا شکار ہو نے کی وجہ سے کبریٰ کو دل و جان سے چاہتا ہے اور پھر آخر میں کبریٰ کے بے وفائی بے حد شرمندہ ہوتا ہے اور پریشان رہنے لگتا ہے کہ سلطانہ بیگم جو کہ بچہ ایاز بن کر نواب کی خدمت میں آتی ہے وہ نواب کو صداقت پر مبنی زندگی گذارنے کی تلقین کرتی ہے اور اسے درس دیتی ہے کہ انسان کا فلسفہ حیات کیا ہے اور اس کے پیچھے خدا کی مرضی کیا ہے اس کو سمجھئے اور اس کے مطابق زندگی گذارئیے،  دنیا تو فرضی ہے۔ ابدی زندگی تو عالم برزخ ہے اس کا سامان تیار کرو  اسطرح سلطانہ بیگم کو بھی اس ناول کا اہم کر دار مانا جا سکتا ہے جو مختلف حرب و ضرب میں ماہر ہے سچا عاشق اور باغی دوشیزہ ہے حسین صحت مند ہے۔ سچائی کا ثبوت فراہم کر نا اس کا شغل ہے مجموعی  طور سے ناول ’’ہیرے کی کنی‘‘  فنی اعتبار سے بڑے پایہ کی چیز ہے یہ اور بات ہے کہ اس میں رومان کا پہلو زیادہ ہے۔ مگر امراؤ سے لے کر غربا تک کی زندگی کا آئینہ دار ہے جو بیسویں صدی کی ٹھاٹھ باٹھ  پر محیط ہے۔ یہاں ہیرے کی کنی کے پلاٹ کو مختصر طور پر قلم بند کرتا  ہوں اس سے ناول کی نوعیت کا اندازہ ہو سکتا   ہے۔

          پہلے باب میں ناول نگار نے ایک سولہ سالہ لڑکی حمیدن کو پیش کیا ہے جو اپنی ماں کی بنائی میٹھی ٹکیا کھا رہی ہے اور اپنے عاشق کے متعلق سوچتی ہے اور والدین کو  کوستی ہے کہ یہ لوگ میری شادی نہیں کراتے۔ اس جگہ حمیدن جذبات کی حد کو پار کر گئی ہے۔ آغا شاعر نفسیات کہ ماہر نظر آتے ہیں اس عالم میں لڑکی کھانے پینے سے بے بہرہ ہے وہ ہمیشہ اپنے الجھن کے بارے میں سوچتی ہے کہ کہیں ہمارے پیار کو پڑوسی کی نظر نہ لگ جائے۔ اچھن ایک سپاہی ہے جو حمیدن کا عاشق ہے جو روزانہ چھپ کر اس سے ملتا ہے مگر حمیدن چوری کی ملاقات سے گریز کرتی ہے۔ وہ تو شادی کر نا چاہتی ہے شادی کی تکمیل نہ ہونے پر اپنے والدین کو کوستی ہے۔ نازیبا الفاظ استعمال  کر تی ہے اور خواہ مخواہ احساس کم تری کا شکار ہو کر پڑوس سے نفرت کر تی ہے اس باب میں ناول نگار نے لڑکی کے جذبات کو وسعت نظر سے پیش کیا ہے۔ اس ناول میں فنی تکنیک کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے جس کی مثال باب اول میں ملتی ہے۔ ساتھ ہی بیسویں صدی کے معاشرت کو بر قرار رکھنے کے لیے ایک سولہ سالہ لڑکی اس طرح کی بات سوچتی ہے جو اپنے جنسی خواہشات کی تکمیل کے لئے سب کچھ کر گذرنے کو تیار ہے۔ اس لڑکی کا باغیانہ پن ظاہر ہوتا ہے یہی آغا شاعر کی خوبی ہے کہ وہ جس عہد کی بات کرتے ہیں اس کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں۔

          اس باب میں ناول نگار نے نواب جاگیردار کے کر دار کو پیش کیا ہے جو دہلی کے جلیل القدر نواب کا لڑکا ہے جس کا حسن یوسف ثانی اور عدل نوشیرواں جیسا ہے وہ شروع سے ہی کبریٰ سے عشق کرتا ہے۔ والد کی زندگی تک اظہار نہ کر سکا والد کے رخصت ہو تے ہی پہلا حکم صادر کیا وہ کبریٰ سے شادی کے متعلق تھا اس پر وزرا میں چہ مگوئیاں  ہوتی ہے اس کی ماں نے اپنے خاندان کی عزت کا حوالہ دیکر سمجھا یا مگر نواب نہ سمجھ سکا۔ سبھی نے عزت خاندان و وقار کا حوالہ دیا مگر بے سود لیکن ان کا ایک ہی جواب تھا ملاحظہ ہو   ؎

گر جہ بد نا مبست نزد عاقلاں

مالمے خواہم ننگ و نام را

          چنا نچہ شادی کی تجویز ہوتی ہے طے شدہ تاریخ سے قبل ایک بڑی رقم خزانہ عامرہ میں سے پر بھو مالی کو نذر کیا جاتا ہے تا کہ اپنی برادری کے لوگوں کی آؤ بھگت کر سکے اس طرح جہاں گیر اور کیسری کی شادی ہو جاتی ہے۔

          یہاں آغا شاعر نواب اوباشی کو بیان کر تے ہیں جو اپنے والد کے انتقال کے بعد کر رہا ہے اس وجہ سے حکومت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔ اور مزید یہ بھی بتانا چاہا ہے کہ اگر کوئی ادنی لڑکی کو اپنا نا چاہے تو اس کا کیا طریقہ تھا۔ لڑکے کی طرف سے بارات نہیں جانی تھی بلکہ لڑکی کے والد اپنے ہاتھوں سے بیٹی کا ڈولا پہنچا تے تھے۔ ساتھ ہی انسانی جذبات کی تحلیل نفسی بھر پور انداز سے کی ہے کہ انسان کا دل کسی پر بھی آ سکتا ہے۔مقولہ مشہور ہے۔

دل نہ مانے اچھوت ذات

 پیاس نہ مانے دھوبی گھاٹ

          آغا شاعر نے بیسویں صدی کے نوابوں باد شاہوں کے کارناموں کو دکھلایا ہے جس سے ان لوگوں کی نجی زندگی سامنے آتی ہے۔

          تیسرے باب میں ریاست بھوپال کا منظر ہے جس کے ولی عہد کو بھی کچھ اس طرح کا مزاج ورثہ میں ملا ہے وہاں محفل سجی سے رقص و سرود کا دور دورہ ہے یا یوں کہا جائے کہ عیاشی کا سامان موجود ہے بھوپالی رسم و رواج کے مطلق شاہجہاں پوری ، عربی ، فارسی ترکی لکھنؤی وغیرہ اہم بڑے بڑے فلسفی تشریف رکھنے ہیں جہاں جہانگیر بھی مہمان خصوصی میں شامل ہے۔ شاہزادہ بھوپال جلوہ افروز ہوتے ہیں لوگ مودب اور خاموش ہیں ایک نوجوان موسم کو مد نظر رکھتے ہوئے گرمی کو گفتگو کا موضوع بناتا ہے جس کی بنیاد فلسفہ پر ہے۔ لفظ گرمی سے گفتگو کا موضوع نقط زبان بن جاتا ہے وہ اس طرح کے ایک لکھنؤی فرماتے ہیں ’’ہم سے کوئی گرم ہو کر آیا کرے گا دنیا ہمارا لوہا مانے ہوئے ہے   ؎

دعوی زباں کا لکھنؤ والوں کے سامنے

اظہار بوئے مشک غزالاں کے سامنے

اس کے بر عکس جو ایک دہلی والے تھے ان کو بڑا برا لگا فوراً فقرہ چست کیا   ؎

زبان لکھنؤ دہلی سے اچھی

ہماری بلی اور میاؤں ہمیں سے

          اس طرح زبان کا مسئلہ ختم ہوتا ہے تو زر کا مسئلہ آتا ہے۔ زر کے توسط سے برے بڑے عربی فارسی داں طرح طرح کی مثال سامنے لاتے ہیں اور زر کو دنیا کی سب سے بڑی چیز ثابت کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ تشبیہہ، استعارہ، مجاز مرسل۔ یعنی علم و عروض علم بلاغت کا پور ا پور ا سہارا لیتا ہے مگر اس کا انداز تجا ہل عارفانہ ایک دوسریے کے ساتھ نو ک جھونک یعنی بحث سے ایک دوسرے کو زیر کر نا ہوتا ہے انہیں باتوں پر تیسرے باب کا اختتام ہوتا ہے سب اپنے وطن کو کوچ کر تے ہیں۔

          چوتھا باب جہاں گیر دار کا بھوپال سے واپسی پر لکھا گیا ہے نو اب موصوف شان و شوکت سے گھوڑے کی سواری پر واپس ہو رہے ہیں۔ راستہ میں سلطانہ بیگم کا محل ہے جو اپنے محل سے دیکھتی ہے اور سوچتی ہے کہ یہی ماہتاب ہے جس کی گود میں کیسری مالن مجھلتی ہے کاش یہ مجھے نصیب ہو تا یہی لڑکی سلطانہ ناول کی کامیابی کا راز ہے اچانک گھوڑے کا رکاب ٹوٹنے سے جہاں گیر جو اس باختہ  ہو جاتا ہے۔ آغا شاعر نے نواب کی واپسی شام چھ بچے بتلایا ہے۔ دلی والے نواب کی شان و شوکت گھوڑے کی تعریف برکھا رت کا شباب جنگل جھاڑی چرند و پرند کی آواز سر سبز پھولوں کی وادی دونو نواب کی دوستی جہانگیر کو مکمل گھوڑ سوار اور سلطانہ کی اضطراری کیفیت کو اتنا دلکش بنا کر پیش کیا ہے کہ منظر نگاری کا ہل باندھ دیا ہے۔ آغا شاعر کے اندر وہ صلاحیت موجو د ہے کہ ایک جملہ کو کئی طرح سے کہہ سکتے ہیں۔ دلی کی ٹکسالی زبان پر مہارت ہے اردو تو گھر کی لونڈی تھی ہی۔

          پانچویں باب میں احاطہ قلعہ معلیٰ میں نظام احمد خان یعنی سلطانہ بیگم کے چچا کا عالیشان مکان  ہے۔ جہانگیر مدعو ہے سلطانہ جہانگیر اور کیسری کے بارے میں سوچتی ہے کہ ایک مالن نے کیا مقام پایا ہے اور نواب کی تعریف میں شعر کہتی ہے   ؎

چشم یہ دور ہیں کس درجہ میں پیاری آنکھیں

میری آنکھوں سے کوئی دیکھے تمہاری آنکھیں

          یہ دوشیزہ سلطانہ بیگم اپنے والدین کی لاڈلی اور اکلوتی دختر نیک اختر ہے باپ کا سایہ اٹھ چکا ہے اپنے چچا کے دامن عاطفت میں اپنی جائداد کے ساتھ آزادی  کی زندگی بسر کر رہی ہے وہ دنیا کے ہر ہر علم و فن کی ماہر بے ، حسن مجسم،اخلاق کا پیکر دور اندیشی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔شام ہوتے ہی تقریب ختم ہو جاتی ہے سبھی محو آرام ہیں۔ سلطانہ بیگم جو نواب پر فریفتہ ہے یہ سوچ رہی ہے کہ کس طرح میر ملاقات نواب سے ہو جائے اور نواب صاحب کی جوانی کو لوٹ لیا جائے۔ مگر وضع داری کا خیال کر کے درد قلب میں مبتلا ہو کر یہ شعر پڑھتی ہے   ؎

سر میرا دیوانگی سے ہے یہاں دیوار جو

واں وہ فرق ناز محو بالش کم خواب ہے

          آخر سرہانے جا کر ایک پیش بہا انگوٹھی اپنی انگلی سے اتار کر پہنا رہی تھی کہ نازک کلائی کی لوازمات سے نواب لطف اندوز ہو رہا تھا اور پھر بیدار ہو جاتا ہے۔ سلطانہ آدھی انگلی میں انگوٹھی چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے اور نواب جو کچھ دیکھا اس کا شاعر اس شعر میں ہے   ؎

 

سہ چوری بد مست آں نگارے

بد شاخ صندلیں پیجید ہمارے

          چھٹے باب میں کیسری بن سنور کر اس طرح بیٹھی ہے کہ جنت کی حور دھوکہ کھا جائے اس کے حسن اور آرائش کو شعری پیکر میں یوں ڈھالا ہے   ؎

خدا جانے یہ آرائش کرے گی قتل کس کس کو

طلب ہوتا ہے شانہ آئینے کو یاد کر تے ہیں

          جہانگیر کمرہ میں داخل ہو کر کیسری سے پیار و محبت کی بات کر تے ہیں کیسری دیہاتی  زبان استعمال کرتی ہے تو نواب اصلاح زبان کی تاکید کر تے ہیں اچانک کیسری کی نگاہ انگوٹھی پر پڑتی ہے وہ فریفتہ ہو جاتی ہے تو نواب انگوٹھی کیسری کی انگلی میں ڈال دیتے ہیں اور نواب آہ بھر تے آہ ملیح ہے تو صبیح ہے   ؎

لگاویں کیوں نہ ایسی جنس پر ہم جان شیریں کو

نمک بھاتا ہے ہم کو سانولی صورت پہ مرتے ہیں

          ساتویں باب میں سلطانہ بیگم مردانہ لباس میں جہاں گیر کے دربار میں غلام محمد خان کی سفارش پر نوکری کے لئے داخل ہوتی ہے۔ نواب کو آداب بجا لاتی ہے۔ اپنا نام ایاز بتاتی ہے نواب ہنس کر کہتا ہے مجھے بھی اپنا تخلص محمود رکھنا ہی پڑے گا مگر نواب یہ سمجھ گیا ہے کہ یہ بچہ وہی سلطانہ بیگم ہے۔ آخر کار نواب اپنی بات ختم کر کے شب گذاری کے لئے معذرت خواہ ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ اس وقت میری غیر حاضری کے لیے صبح تک معاف کر دو اور از راہ کرم اس غریب خانہ پر آرام فرمائیے۔ حسرت اور کنکھیوں سے  اس حور کو دیکھتے ہوئے محل کو تشریف لے گئے۔ آٹھویں  باب میں نواب باغ میں جلوہ افروز ہیں یہ باغ باد شاہوں کا منظور نظر شاہ جہاں آباد سے کوئی تین چار میل دور ہے۔ نواب حوض کے پاس پانی سے کھیل کر لطف لے رہے ہیں۔ وہاں جوگی بچہ ایاز بھی محو گفتگو ہے نواب سچائی جاننے کی کوشش کرتا ہے مگر سلطانہ ہر حال میں اپنے کو ایاز ہی متعارف کر اتی ہے اور تجا ہل عارفانہ انداز میں بیزار ہو کر کہتی ہے۔

          فقہ رہوں یہ نہیں عادت سوال جی نواب شکریہ ظاہر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ انداز تکلم قبل اس کے بھی میری کانوں میں گونج چکا ہے اور یہ مصرع ادا کرتا ہے۔

ظالم تیری باتوں میں قیامت کا اثر ہے!   نواب عالم اضطراری میں ایاز کو آغوش میں

لئے کر اس کے ہونٹ کو اپنے ہونٹ سے چومتا ہے اور یہ شعر کہتا ہے   ؎

تمکنت یہ بھی کہے جاتے ہیں کوہ تمکین

ناز کی یہ ہے کہ غمزے بھی اٹھائے کوئی

          اس طرح نواب اپنی محبت ایاز پر آشکارا کر دیتا ہے اور کہتا ہے میں کیسری سے نفرت کرتا ہوں اور کہتا ہے کہ جہانگیر نہیں تو نہیں مگر محمود زندہ ہے اس لئے تم مجھے چھوڑ کر یا بھول کر مت جاؤ گے  اس جملہ پر آٹھواں باب مکمل ہوتا ہے۔ نویں باب میں کیسری نواب کے گھر میں قدم رکھتے ہی نواب کو اپنے جوبن سے مسحور کر کے ہر چیز پر قبضہ کر لیتی ہے نواب کو باغ عیش میں عیش مناتے ہوئے تین دن ہوتے ہیں اس دن سے کیسری نے بھی عیش و نشاط کی محفل سجا رکھی ہے۔

          کیسری نے سکندر خاں کے ساتھ عشق کا چکر چلا رکھا ہے۔ جہاں نواب سیر سپاٹے کو گئے ادھر کیسری بھی سکندر کے ساتھ عشق کر نے لگی ایسے موقع سے کیسری کی آوارہ گردی کو آغا شاعر کے اس شعر کے ذریعہ بیان کیا ہے   ؎

ہر روزِ عید ہے ہر شب شب برات 

سوتا ہوں ہاتھ گردن مینا میں ڈال کر

          حتی کہ دونوں شراب و کباب میں مست ہو کر بہک بہک کر باتیں کر تے ہیں اور سو سو طرح سے اپنی جوانی ایک دوسرے پر قربان کرتے میں۔ ایک دوسرے سے جدا ہونے سے خوف زدہ ہو کر یہ شعر پڑھتے ہیں   ؎

ہے وصل میں بھی سحر کا کھٹکا لگا ہوا

جھونکے خزاں کے آتے ہیں فصل بہار میں

          اور بڑی مایوسی سے کیسری نوجوان کو دیکھتی ہے کہ نواں بات اختتام کو پہونچتا ہے اور دسواں باب ’’ایاز ہے تو جہاں ہے ‘‘کی صدا کے ساتھ نمو پذیر ہوتا ہے۔ نواب صاحب ایاز کو حکم دیتے ہیں کہ کیسری کو بلائے (جب سلطانہ ایاز کے بھیس میں کیسری کو یہ خبر دیتی ہے تو دونوں میں نوک جھونک ہوتی ہے خیر کسی طرح کیسری نواب کی خدمت میں حاضر ہوتی ہے اور اپنی شوخی  سے نواب کو مجبور کر کے ایاز کو نکال دینے کی التجا کرتی ہے نواب اس پر برہم ہوتا ہے اس سے کیسری سہم جاتی ہے مندرجہ شعر  پر باب ختم ہوتا ہے۔

خا کساران جہاں را بحقارت منگر

تو جہ داتی کہ درمیں گرد سوارے باشد

          گیارہویں باب کا آغا اس طرح ہوتا ہے کہ نواب جہانگیر ایاز اور وزیر نواب حبیب خاں سج دھج کر شاہانہ شان و شوکت کے ساتھ گھوڑے پر سوار شکار کو جاتے ہیں۔ راستے میں ایاز اور نواب کے مابین بہت ساری باتیں ہوتی ہیں۔ ایاز کیسری کی بے وفائی کا بھی ذکر کر تی ہے اس پر نواب کو بد گمانی ہوتی ہے البتہ شکار میں شیر کے خوفناک حملہ سے ایاز نواب کو بچا لیتی ہے اور بہادری پر خوش ہو کر رباعی پڑھ کر داد تحسین دیتا ہے بارہویں باب کا آغا ز یوں ہوتا ہے کہ کیسری نے نواب کے ڈانٹنے پر رو رو کر اپنا خون کر لیا ہے۔ نواب کو شکار میں گئے ہوئے تیسرا دن ہے  ایک ضعیفہ نازل ہوتی ہے اور کیسری کو بتاتی ہے کہ تمہارا پردہ فاش ہو گیا ہے۔ ایاز نے سارا قصہ نواب کو تمہاری بے وفائی کا بتا دیا ہے جس کی خبر حبیب خاں وزیر کو بھی ہو گئی ہے تیرہویں باب میں ایک اچکا لڑکا سکندر جاہ بیگ کی انگوٹھی فروخت کر نے جاتا ہے جو نواب کی انگلی سے نکال کر کیسری نے پہن رکھی تھی اس نے سکندر جاہ کو تحفہ میں دی تھی۔ بازار میں مول چند اور اس کی بیوی جئی دئی کے درمیان کافی تکرار ہوتی ہے۔ چودھویں باب میں سکندر جاہ یعنی کیسری کا عاشق ایک ضعیفہ کو اس بات پر معمور کرتا ہے کہ ایاز   جہانگیر کا قتل کر دیا جائے۔ اس لئے ضعیفہ سکندر جاہ کے پاس جاتی ہے اور وہ ساری کہانی کہہ سناتی ہے کہ کسیری کا برا حال ہے اس لئے کہ ایاز نے تم دونوں کے عشق کا پردہ نواب کے سامنے فاش کر دیا ہے سکندر جاہ ضعیفہ سے کہتا ہے کہ جاؤ کیسری  کو تشفی دو۔کھانا کھلاؤ اور بے فکر رکھو جوگی بچہ یا نواب جہاں گیر کی اوقات ہی کیا ہے۔ جب تک میں زندہ ہوں کیسری کا بال بانکا نہ ہو گا ضعیفہ کہتی ہے کہ مجھ سے کیسری نے یہ بھی کہا ہے کہ جب تک جہانگیر دار کو یا ایاز کو قتل نہ کر و گے تو میں زہر کھالوں گی۔ سکندر جاہ کہتا ہے تم جاؤ اور سکندر جاہ نے جہانگیر کے قتل کر نے کا منصوبہ بنا یا۔

          پندرہویں باب میں جئے دئی ایک اوباش عورت ہے جو بنیا مول چند کی بیوی ہے سید خاں سپاہی یعنی حمید کا باپ جہانگیر دار کی نوکری کرتا ہے جو کیسری کا پہریدار ہے۔ رات کوئی ڈیڑھ بجے کا عمل ہے سید خان جمعراتی دروازہ کی طرف سے آواز لگا تے ہوئے معشوقہ سے ملنے جاتا  ہے وہاں جئی دئی اور سید خان میں بات چیت پیار و محبت کی ہوتی ہے۔ جئی دئی وہی انگوٹھی دکھاتی ہے جس کو اس نے مسلمان چور اچکے سے خریدا ہے واپس گھر لوٹ کر انگوٹھی اپنی بیوی کو دیتا ہے مگر اس کی بیٹی حمیدن ضد کر کے ماں سے لے لیتی ہے اور عاشق اچھن کو تحفہ میں دے دیتی ہے جو نواب جہانگیر کا سپاہی ہے۔سولہویں باب کا آغا شام کا منظر چرند و پرند کا شور و غل کارخانوں کی آوازیں چمنی کا دھواں چھوٹے چھوٹے باغ کے مناظر سے شروع ہوتا ہے یہاں نواب صدیق حسن خاں صاحب کا مقبرہ ہے اس وقت اس مقبرہ کے رو برو دو سوار آپس میں باتیں کر تے جا رہے ہیں یہ نواب جہانگیر اور ایاز کی گفتگو تھی۔اچانک سکندر جاہ موقع پا کر حملہ کرتا ہے اور پہلے ہی وار میں جہانگیر دار گھائل ہو جاتا ہے۔ نواب کا یہ حال دیکھتے ہیں ایاز تاب نہیں لاسکا اپنا ریوالور نکال کر سکندر جاہ پر وار کرتا ہے جس سے اس کا بایاں ہاتھ اور گردن جسم سے الگ ہو جاتا ہے۔۔۔ اس شعر پر سولہویں باب کا اختتام ہوتا ہے   ؎

جان پر کھیل کے عاشق کو بچا لیتے ہیں

تم نے دیکھے ہی نہیں نازو نزاکت ولے

          سترہویں باب میں تین دن سے پتلی گھر کے پاس ایک لاش پڑی ہے پولس والے تفتیش کر رہے ہیں مگر لاش کی شناخت نہیں کر سکے اس لئے کہ سر ہی غائب ہے جیب سے ایک کارڈ نکلتا ہے جس سے شناخت کیا گیا کہ سکندر جاہ ہے۔ آخراس کے بوڑھے ماموں نے اس کی تجہیز و تکفین کر دی اس کے بعد خفیہ پولس والے ان کے وارثوں سے مرحوم کے متعلق یوچھ تاچھ کرتے ہیں یہ بات غلام احمد یعنی سلطانہ بیگم کے چچا کو بھی معلوم ہوئی جو کافی پریشان ہوا کیونکہ وہ ابھی ابھی وارثوں کو صبر کی تلقین کر کے آئے ہیں اور اپنے کمرہ میں گئے یہ کہہ کر کہ سلطانہ کو میرے پاس بھیج دو اتنے میں سلطانہ گلدستہ لئے  شوخی کے ساتھ نازل ہوتی ہے اور مندرجہ ذیل شعر پڑھتی ہے   ؎

گل گلدستہ کر کے آئی ہے وہ صحن باغ سے

تفریح ٹپکی پڑتی ہے  ان کے دماغ سے

غرض مسکراتی ہوئی چچا کے کمرہ میں جاتی ہے دونوں چچا بھتیجی میں بات چیت ہوتی ہے اور اس حال میں واپس ہوتی ہے اپنے کمرہ میں جا کر الماری سے ڈھکا ہو ا ایک خوان اور ایک سربند خواچہ نکالتی ہے اور مسٹنڈی سیاہ فلم عورتوں کو لے کر لیسری کی خدمت میں بھیج دیتی ہے۔ اور سلطانہ خوش و خرم دن گذارتی ہے اٹھارہویں باب میں نواب جہانگیر دار اپنے محل میں ہے اور ایاز کے فراق میں غمگین ہے ایاز اس وقت اس کی مصاحبت سے غائب ہو گیا جب سکندر جاہ کا قتل کر کے اس کا سر حاصل کر لیا اور نواب جہانگیر ہوش میں آیا تو وہ اکیلا تھا مگر اس کے سامنے اس کا دشمن گر کر تڑپ رہا تھا۔ نواب موصوف کو اسی وقت اندازہ ہو گیا کہ ایاز نے ہی میری جان بچائی ہے سارے درباری نواب کی مزاج پرسی کر تے ہیں جن میں اچھن بھی ہے۔ اچھن خیریت پوچھ کر نبض دیکھنے لگتا ہے کہ نواب کی نگاہ انگوٹھی پر پڑ جاتی ہے اور پوچھنے لگتا ہے کہ اچھن یہ انگوٹھی تمہارے پاس کہاں سے آئی۔ یہ وہی اچھن ہے جس کا ذکر پہلے باب میں آ چکا ہے جس پر سولہ سالہ لڑکی حمیدن قربان جاتی ہے اور شادی کے رسم و رواج سے گذر کر اچھن کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتی ہے مگر اچھن جہانگیر دار کے یہاں ملازمت کرتا ہے جس کی وجہ سے آزاد کی زندگی گذارنا مشکل ہے۔ اچھن اور حمیدن کے تعلقات ناجائز ہیں مگر نکاح سے بے بہرہ اس طرح دیکھا جاتا ہے کہ سید خاں سپاہی سے مول چند کی بیوی اور سید خاں کی بیٹی حمیدن اچھن سے عشق فرماتی ہیں جن لوگوں کے دل میں عشق کا دریا تلاطم خیز ہے آغا شاعر کا یہی نکتہ ان کے ناولوں میں نفسیاتی اور رومانی ناول نگاری کا سراغ دیتا ہے۔

          انیسویں باب میں نواب صاحب وہ انگوٹھی اچھن کے ہاتھ میں دیکھ کر آگ بگولہ ہو جاتے ہیں اور اچھن سے سوال کرتے ہیں کہ سچ بتا تو نے یہ انگوٹھی کہاں سے حاصل کی فوراً اس کو گمشدہ ایاز کا خیال آگیا جس نے اس سے کہا تھا کہ آپ کو اپنی منکوحہ کی پاکدامنی پر کس درجہ یقین ہے۔ اب دہ سوچنے لگا کہ یہ انگوٹھی کیسری کو دی تھی اور اب یہ اچھن کے پاس ہے۔ قبل اس کے یہ بھی معلوم ہو ا کہ کیسری بد چلن ہے بس کیا تھا نواب جلال میں آ گئے مگر حاضرین مجلس کا احترام کرتے ہوئے اچھن سے انگوٹھی کے بارے میں نرمی سے پوچھا اچھن نے شرماتے ہوئے کہا کہ یہ انگوٹھی میں نے سید خاں سپاہی کی بیٹی سے حاصل کی ہے اس کے بعد سید خاں کو بلایا جاتا ہے۔ دریافت کرنے

پر دہ بتلاتا ہے کہ مجھے یہ انگوٹھی مول چند بنیا کی بیوی نے  دی تھی یہ میری بیوی کے پاس تھی ہو سکتا ہے میری بیٹی نے ماں سے ضد کر کے لے لی ہو مگر پیر و مرشد آپ تک کیسے آئی پھر یاد آیا شاہ نے مول چند کے بارے میں معلوم کیا کہ بنیا کون ہے۔سید خاں نے بتا یا کہ مول چند ایک بنیا ہے جس کی بازار میں دکان ہے۔ نواب کے حکم سے دو سپاہی بنیا کو لے کر عالم پناہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ بنیا بتاتا ہے کہ حضور ایک مسلمان چھوکرا جو مفلس تھا بیچنے کو آیا تھا میں نے خرید لی اس کے علاوہ انگوٹھی کی بابت میں اور کچھ نہیں جاتا۔

          بیسویں باب میں نواب صاحب اپنے باغ میں بیٹھا انگوٹھی کے متعلق سوچتا ہے کہ ایک انگوٹھی کی وجہ سے کیسری کی بھی جان گئی اور سکندر جاہ کی بھی وہ غمگین ہو جاتا ہے اس عالم میں ان کا ملازم اسے ایک خوشنما لفافہ پیش کرتا ہے جسے کھول کر وہ پڑھنے لگتا ہے۔

          اکیسویں باب میں نواب جہانگیر دار سلطانہ کا خط مزے لے لے کر پڑھ رہے ہیں جس کا پہلا جملہ ہی اس شعر سے شروع ہوتا ہے   ؎

عید آتی ہے کہ آئی ہے گھڑی ہیرے کی

کیا گلے ملتی ہے اک ایک لڑی ہیر کی

 جوگی بچہ کے بچھڑ جانے  سے نواب جو خود کشی پر آمادہ تھا خوشی سے باغ باغ ہو گیا اور شاہانہ جوڑے میں ملبوس غلام احمد خان کے یہاں جلوہ افروز ہوا۔ جہاں ان کا شاندار استقبال ہوا اور سلطانہ نے پس پردہ کیسری اور سکندر جاہ کی موت کا ماجرہ سنایا بس اب کیا تھا نواب جو پہلے ہی سے سلطانہ بیگم کے حسن پر ہزار جان سے فریفتہ تھا مگر اس کی جرات و دلبری اور حیرت انگیز کارنامہ دیکھ کر غلامی لکھ دینے پر آمادہ ہو گیا اور فوراً شادی کی تیاری ہوئی اور شادی ہو گئی اور بھوپال میں یہ خبر پھیل گئی کہ نواب جہانگیر دار نے سلطانہ بیگم غلام احمد ان صاحب مقصد خاص کی ایک لائق و فائق تیر دل عدیم المثال بھتیجی سے شادی کر لی اس طرح اس شعر پر ناول کا اختتام ہو جاتا  ہے   ؎

بشر کو صبر نہیں ورنہ یہ مثال سچ ہے

کہ چپ کی داد غفور الرحیم دیتا ہے

          جیسا کہ اس سے پہلے بھی ذکر آ چکا ہے کہ ’’ہیرے کی کنی‘‘ منصف کا طبع زاد ناول ہے جو حد درجہ رومانی ہے۔ ویسے اس ناول میں صنفی طور پر بہت سے کر دار دیکھنے کو ملتے ہیں مگر خاص طور سے جہانگیر دار اور سلطانہ کا کر دار اہم ہے اس میں سلطانہ بیگم کے کر دار کو اولیت حاصل ہے۔ یہی دونوں کر دار ناول کی روح ہے جو پورے ناول کے گرد طواف کر تے ہیں یہ ناول پورے اکیس باب پر مشتمل ہے ہر باب کا اختتام ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے اگر کوئی قاری چاہے کے چند باب پڑھ کر کوئی فیصلہ صادر کرے تو یہ ممکن نہیں۔ ناول ہیرے کی کنی میں آغا شاعر نے تسلسل قائم رکھنے کے لئے اپنی غیر معمولی استعداد کا استعمال کیا ہے۔ اس ناول کے تنقیدی مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ حمیدن اچھن، جئی دئی، مسیت خان ، نواب جہانگیر دار سکندر جاہ سب کے سب  عشق کے دلدادہ ہیں جو ہمہ وقت کسی نہ کسی صورت میں عشق کی آگ میں جل ر ہے ہیں مگر سب کا عشق چوری چوری ہے مکمل آزاد نہیں ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بیسویں صدی کے اوائل میں مسلم گھرانوں میں بے پردگی نہیں تھی۔ آغا شاعر نے بیسویں صدی کی رسوم کو ملحوظ رکھا ہے اور اس زمانے کی زندگی کا ہر شعبہ سمٹ کر سامنے آ جاتا ہے۔ جیسا کہ دوسرے باب میں نواب جہانگیر دار شادی کے لئے تیار ہے اور اس کی ماں خاندان کی وضع داری ختم ہو نے کے خوف سے منع کرتی ہے مگر نا اہل بیٹے کی کرتوت پر مجبور ہو کر ماں کیسری کو گھر لاتی ہے۔ یہاں جذبات کو خاص دخل ہے کہ ایک ماں بیٹے کو ہر حال میں قبول کر تی ہے۔ جہاں ذات کے مسئلے پر وزیروں میں چہ  مگوئیاں ہوتی ہیں کہ ایک مسلم نواب ہندو لڑکی سے شادی کرتا ہے اس سے سیاست کا خوفناک نتیجہ بر آمد ہو سکتا ہے۔ کہ غریب پر بھومالی کی زبان بند ہے اور وہ اپنی لڑکی کا ڈولا نواب کے یہاں پہنچا دیتا ہے۔ تیسرے باب میں آغا شاعر نے امیر زادی کی مجلس ناچ گانے اور عیش کے لوازمات کو پیش کیا ہے اور بھوپال کی مجلس عاملہ کی منظر کشی چابک دستی سے کی ہے جس سے ان کی فن پر دستر س کا ثبوت ملتا ہے۔منظر نگاری میں موصوف کو قدرت ہے چاہے کسی جگہ کی ہو اس کو پر اثر انداز میں پیش کر تے ہیں۔جب ہم ان کی ناول کا مطالعہ کر تے ہیں تو اس کی منظر نگاری آنکھوں کے سامنے ہو تی ہے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس ناول میں منظر نگاری کر کے آغا شاعر نے منظر نگاری کے باب کا دروازہ کھول دیا ہے اور مکالمہ نگاری کے موتی پرو دیئے ہیں اس ناول کے تنقیدی مطالعہ سنے اس نتیجہ پر پہونچا جا سکتا ہے کہ نواب صاحب کے گھر کیسری ایک رکھیل کے طور پر رہی ہے اس لئے ناول میں کہیں بھی کلمہ اور عقد پڑھانے کا ذکر نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ نواب صاحب کی ماں نے رسم کے مطابق کیسری کو اٹھا کر دیوان خانہ  میں پہونچا دیا اس سے شادی ہونا قطعی ظاہر نہیں ہوتا ہے اس ناول میں بنیا وغیرہ کا کر دار صرف ناول کو طول دیتے ہیں اور قصہ کو دلچسپ بنا نے کے لئے پیش کیا ہے۔ غلام محمد خاں کا کر دار صاف اور سادہ نظر آ رہا ہے۔ جیسا کہ اس نے سلطانہ کو نواب کے گھر نوکری دلا کر سلطانہ بیگم کی مدد کی۔ اس ناول میں آغا شاعر نے خاص طور سے  طبقہ اعلی کہ معاشقہ کو اس طرح بیان کیا ہے کہ شرفا کو گھر میں بھی رنڈیاں ناچتی ہیں جو اپنے آپ کو عزت دار جانتے ہیں مگر انہیں شرفا میں سلطانہ بیگم ایک مرحوم نواب کی اکلوتی بیٹی ہے۔ ناول میں اس کا کر دار سب سے امتیازی حیثیت رکھتا ہے جس کا ذکر اس سے قبل بھی آ چکا ہے۔ عزت و شرافت کے ساتھ اس کے دل میں شادی کا جذبہ   موجزن ہے جس کی بدولت وہ مختلف قسم کی اذیت اٹھاتی ہے۔ ناول ’’ہیرے کی کنی‘‘ کا پورا پلاٹ اسی کے ارد گرد گھومتا ہے اس کے برعکس نواب کا کر دار ارتقائی ہے انہوں نے عالم شباب میں نگاہ عشق کا شکار ہو کر ایک مالن کو اپنا تو لیا مگر بعد میں بھید کھلا تو اپنے فیصلے پر کر افسوس بھی کیا اور جب عشق کا نشہ زائل  ہو ا تو اپنی خاندانی شرافت یاد آنے لگی اور آخر میں نواب کیسری سے کنارہ کش ہو کر جوگی بچہ ایاز یعنی سلطانہ بیگم کی طرف رجوع ہوئے۔

          آغا شاعر کچھ اس انداز سے اپنے کر داروں کو ابھارتے ہیں کہ ناول ’’ہیرے کی کنی ‘‘ شروع ہوتا ہے لفظ ’’میں ‘‘ سے یہ ایک کنواری لڑکی کا ’’میں ‘‘ ہے اس کے شعور کی روسے اس کا کر دار اس طرح جلوہ گر ہوتا ہے۔

’’میں یہ میٹھی ٹکیا جو اماں نے بڑی چاؤ سے پکائی ہے ، کھا تو رہی ہوں لیکن رہ رہ کر تم یاد آ رہے ہو قسم ہے نوالہ حلق سے نہیں اتر تا۔ حیران ہوں کہ ان کی بیچینیوں  کا ایک دن کا کیا نتیجہ نکلے گا اچھا میں کہتی ہوں کنوار پنا تو ساری دنیا کا ہوتا آیا ہے یہ خدائی مار ہمارا کنوار پنا کون ناری کا حسن چلا ہے کہ ایک گھڑی نگوڑی چین سے نہیں کٹتی۔ تو یہ ہے اماں باو ا آپ تو چین کر تے ہیں لیکن ہمیں یوں ہی پچھتا وا کر کے بٹھا رکھا ہے کہیں کوئی بات ہی نہیں سمجھ میں آتی۔4 1

وہیں آغا شاعر ایک دوسری لڑکی کے کر دار کو اس طرح بیان کر تے ہیں

’’شاید وہ لڑکی ایسی ہی قبول صورت ہو جس پر ایک دیکھنے والے کی نگاہیں قربان ہو جاتی ہوں پھر تو تعجب نہیں ہے اگر نواب اس پر جان دیتا ہے لیکن ہائے امید میں کہتی ہوں ہر شخص تو قربان ہو جائے جوتی کی نوک سے ہو جائے نواب جہانگیر جیسا بھی تو حسن مجسم ہے خود پھر اس کی بلا کو کیا غرض پڑی تھی جو اس رذیل قوم سے آنکھیں لڑائی توبہ ہے۔‘‘ ح15

          اس طرح آغا شاعر کا ناول ’’ہیرے کی کنی‘‘ نہایت دلفریب ہے مکالمے فطری برا محل اور بر جستہ ہیں ناول میں ڈرامائی انداز نمایاں ہے۔

 

’’ناہید ‘‘

          ’’ناہید‘‘بھی آغا شاعر کا اہم ناول ہے جو دو پلاٹوں پر مشتمل ہے۔ پہلے پلاٹ میں ناہید اور جہاندار کے عاشقی کا احوال ہے اور دوسرے پلاٹ جہاندار کی خواہر اور ’’ناہید ‘‘ کے بھائی منجھو صاحب کے پیار و محبت کا ذکر خیر ہے دونوں دو الگ الگ خاندان کے افراد ہیں۔ دونوں خاندانوں میں کشمکش صدیوں سے اس دور کی روایت کے مطابق چلی آ رہی ہے ٹھیک اس طرح جس طرح ’’ارمان‘‘ میں ایک ہی خاندان کی خانگی معاشرت کی وجہ سے المناک نتائج وجود میں آتے ہیں اس کے برعکس ’’ناہید ‘‘ میں دو خاندانوں کے مابین دشمنی کی چنگاری ایک مدت سے بھڑ کتی ہے وہ اچانک بہت ہی خوش آئند اور عمدہ تعلقات میں بدل جاتی ہے قصہ کچھ اس طرح کا ہے کہ ناہید کے گھر آگ لگ جاتی ہے جہاندار ایسے موقع سے بعض و نفرت کو بالائے طاق رکھ کر بہادری اور دلیری سے ’’ناہید‘‘ کو بچا لیتا ہے اور اس کی صحت یابی کے لئے اپنی ہمشیرہ اختر کے ساتھ زنانہ لباس ذیب تن کر کے سو سو طرح سے ناہید کی تیمار داری کرتا ہے۔ جہاندار ناہید سے محبت کا دم بھر نے لگتا ہے اور ناہید بھی اس کے لئے کمر بستہ ہو جاتی ہے۔ یعنی جہاندار اور ناہید ایک دوسرے کی محبت کے اسیر ہو جاتے ہیں جب دونوں کا راز کھلتا ہے تو ناہید کے والدین اس کو قید میں ڈال دیتے ہیں ہزارہا پابندیاں عاید کر دی جاتی ہیں کہ جہاندار سے ملاقات نہ کرے اور نہ اس کا نام لے مگر جب جہاندار کو اس کی خبر ملتی ہے تو وہ ناہید کو اس دوزخ سے آزاد کرانے کی ترکیب سوچتا ہے۔ چونکہ جہاندار کے لئے ناہید سادہ لوح معشوقہ ہے جس کو وہ کھونا نہیں چاہتا اس سے جہاندار کو سچی محبت ہے۔ بحر حال جہاندار کی فریاد سے باران رحمت جوش میں آتی ہے اور ایک دن جہاندار ناہید کو اس کے والدین کے شکنجے سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور دونوں ہم آغوش ہو کر خوب رو روکر جی ہلکا کر تے ہیں اور اسلامی شرع کے مطابق دونوں ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے ہو جا تے ہیں یعنی شادی ہو جاتی ہے مگر کچھ دنوں تک دونوں کو جلا وطن رہنا پڑتا ہے ان دنوں جہاندار ناہید بنارس کانپور، اٹاوہ، آگرہ، دہلی وغیرہ کا طواف کرتے رہتے ہیں۔ ان کی اس حر کت کو کچھ لوگ غلط تصور کر تے ہیں مگر نہیں ایسے وقت میں ان کے لئے ایسا کرنا موزوں تھا اس لئے کہ ان دو خاندان میں نفرت و دشمنی کی آگ ایک عرصہ سے بھڑک رہی ہو وہاں معاشرے کے ذریعہ شادی ہو جائے تو یقینی بات ہے کہ تنازعہ اور بڑھے گا  اس لحاظ سے جہاندار نے اچھا کیا کہ شادی کے فوراً بعد ناہید کو لے کر شہر سے دور چلا گیا اور خون خرابہ سے دونوں خاندان بیچ گئے اور جب دونوں کے والدین مطمئن ہو گئے تو دونوں نے مستقل سکونت اختیار کر لی دوسرا پلاٹ بھی کچھ اسی طرح کا ہے کہ ادھر جہاندار کی بہن ناہید کے بھائی منجھو پر عاشق ہو جاتی ہے جہاندار اور ناہید کی بہ نسبت ان دونوں کی عاشقی دھیرے دھیرے پروان چڑھتی ہے۔ متعدد بار دونوں ملاقاتیں کر تے ہیں۔ اتنی عروج پر محبت جلی جاتی ہے گویا دو جسم ایک قالب ہوں۔ ابھی تک دونوں چوری چوری ملا قاتیں کرتے ہیں اچانک منجھو شدید طور پر بیمار ہو جاتا ہے اس کی خبر اختر کو ہو تی ہے مگر وہ کیا کر سکتی ہے وہ تو مجبور ہے اس لئے کہ وہ لڑکی ہے اور والدین کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتی ہے پھر خاندانی شرافت بھی مانع ہے اس کے بھائی کے کارنامے سے اس کی خاندان کی شرافت پر آنچ آ چکی تھی وہ مزید اس آنچ کو بھڑ کا نا نہیں چاہتی تھی آخر اس کی عقل میں بھی یہی بات آئی کہ وہ بھی اپنے بھائی کی طرح مر دانہ لباس میں ملبوس ہو کر اختر کی تیمار داری کو جا سکتی ہے اور وہاں پہنچ کر پیہم اختر کی تیمار داری کرتی ہے منجھو جو بیماری سے گھبرا کر زندگی سے عاجز آ چکا ہے خود کشی کے درپے ہو چکا تھا اس مقصد کو پورا کر نے کے لیے منجھو نے ایک دن زہر پینا چاہا مگر اختر اپنی دور اندیشی اور حکمت سے منجھو کو زہر پینے سے باز رکھتی ہے اور منجھو کو اختر کی بے پناہ محبت کا احساس ہوتا ہے اور وہ سو سو بار ہمدردی اور محبت سے اس پر قربان جاتا ہے اور زمانے سے جو خاندانی مخاصمت چلی آ رہی تھی اس کو آن کی آن میں محبت  اخوت و یکجہتی میں تبدیل کر کے نفرت کی دیوار گرا دیتا ہے اس کے بعد اختر کی شادی منجھو اور ناہید کی شادی جہاندار سے ہو جاتی ہے۔ اس ناول میں بھی آغا شاعر نے ہیرے کی کنی کی طرح اعلی طبقہ کی سیرت پیش کی ہیں۔ جیسا کہ ناول ناہید میں اختر منجھو کی عاشق ایک ملازم کی طرح مر دانہ لباس میں تیمار داری کر تی ہے یہ مقام بالکل ایسا ہی ہے جیسا ’’ہیرے کی کنی‘‘ میں سلطانہ بیگم جوگی بچہ ایاز بن کر نواب جہانگیر احمد کی مصاحبت میں رہتی ہے ناول ناہید کا کوئی ایک کر دار بھی ایسا نہیں جو دیر پا ہو یا دلچسپ ہو یہ بحث اور ہے مگر جب تنقیدی نقظ نگاہ سے غور کیا جائے تو پہلے پلاٹ میں جہاندار اور دوسرے پلاٹ میں اختر کا کر دار نمایاں اور خاص اہمیت کا حامل ہے۔

          آغا شاعر کا یہ ناول ان کی فنون لطیفہ سے دلچسپی کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔دراصل یہ ناول یوپی کے تعلقہ د ار خاندان کی تاریخ ہے جس میں اس عہد کی معاشرت تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے اس معاشرت پر جہالت کے ساتھ ساتھ جذبات کا رنگ بہت گہر ا ہے یہاں تک کہ خاندان کے افراد کے سوچنے کا طریقہ جاہلانہ ہے جس میں جذبات کو خاص دخل ہے اس کی مثال ہے کہ آن کی آن میں دشمنی کی دیوار مسمار ہو کر محبت اور رفاقت میں بدل جاتی ہے ناول میں مکالمہ نگاری اور منظر نگاری خاص درجہ رکھتی ہے کسی بھی ناول کی جانچ پر کھ مجموعی طور پر کی جاتی ہے۔ح16۔ اس اعتبار سے بھی ’’ناہید‘‘ ایک اچھا ناول ہے جس میں ابتدا سے انتہا تک قاری کی دلچسپی بر قرار رہتی ہے۔ اس بات کو سہیل بخاری نے مصنف کے کمال سے تعبیر کیا ہے۔17۔اور وارن بیچ نے کہا ہے کہ ہر ا چھے ساخت کا ناول اچھا نہیں ہوتا ہے۔ح۔18۔ اور مام روسو کی کو اچھا ناول نگار کہہ کر خراب فنکار ٹھہراتا ہے۔ح19ان تمام ناقدوں نے ناول کے بارے میں جو خیالات پیش کئے ہیں اس کی روشنی میں آغا شاعر کا ناول ناہید ایک ناول ہے اس میں ایک اچھے ناول کے ساتھ ناول کے سارے عناصر موجود ہیں۔ عشق و محبت تجسس، سنسنی خیزی سراغ رسانی پھر ہیرو ، ہیروئین کا ملاپ جیسا کہ ناول کے موضوع سے ہی پتہ چلتا ہے کہ ’’ناہید‘‘ ناول کا اہم کر دار ہے جو صورت و سیرت میں کامل ہے۔

          ایک اچھا ناول نگار داخلی اور خارجی کائنات پر غور کرتا ہے وہ کائنات کہ مدعا کو موضوع بنا کر پیش کرتا ہے جو کہ عام انسانی زندگی کے لئے کار آمد ثابت ہو۔ بیسویں صدی کے اوائل میں جہاں لاتعداد ناول نگاروں نے مروجہ روایات اور نقطہ نظر کے تحت ناول نگاری میں اپنی شناخت بنائی۔ وہیں آغا شاعر دہلوی نے اپنے چار اہم ناول ارمان ہیرے کی کنی، ناہید اور نقلی تاجدار لکھے اور اردو ناول نگاری میں رومان نفسیات اور سماجیات کو شامل کیا یہ الگ بحث ہے کہ وہ دوسرے  درجہ کے ناول نگار ہیں اس سے مجھے اختلاف نہیں لیکن درجہ دوم کے ادیبوں کے بغیر درجہ اول کے مصنفوں کی کوششوں کو سراہنا بھی مشکل کام ہے یوسف سرمست کا خیال ہے کہ آغا شاعر کے ناول  ناہید کو اردو کے قدیم ناول نگاری میں جو مقام ملنا تھا وہ تو درکنار غور طلب بات یہ ہے کہ ناقدین اس ناول کا مو ہوم سا اشارہ بھی ناول پر لکھے جانے والے مضامین میں نہیں کرنے جبکہ ان کے ناول اردو ناول نگاری میں اضافہ کر تے ہیں۔آغا شاعر کے بیشتر ناولوں میں نوجوانوں کی جذباتی اور ذہنی  زندگی کی کشمکش کو اپنے ناول کا موضوع بنا یا گیا ہے۔ ناول کی شان و شوکت اس کی ہیروئن کی نفسیاتی اور ذہنی کیفیات کے اظہار سے تیار کیا گیا ہے۔ ناہید کی زندگی کہ نفسیات کو قلم بند کر تے ہوئے آغا شاعر نے جدید نفسیاتی علم کا سہار ا لیا اور اس کی روشنی میں اس کے کر دار کی تحلیل نفسی کی ہے۔

          یہ ناول آغا شاعر کی ناول نگاری کی صلاحیت پر روشنی ڈالتا ہے اور بیسویں صدی کے ناول نگاری کے ان تمام رجحانات کو سامنے لاتا ہے جس کا تذکرہ پچھلے صفحات میں تفصیل سے ہو چکا ہے۔ آغا شاعر کے اس ناول کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر وہ پوری سنجیدگی سے اس طرف متوجہ ہو تے تو یقیناً اردو ناول نگاری میں بہترین اضافہ کر تے پھر ان کے یہ چند ناول اردو ناول نگاری میں اہمیت رکھتے ہیں۔

انہوں نے اپنے ناول ’’ناہید‘‘ میں ایک ایک کر دار کو نمایاں کرنے میں جس تحلیل نفسی سے کام لیا ہے وہ ان کے اس ناول کو بڑی اہمیت بخشتی ہے۔ جیسا کہ ناقدوں کی رائے ہے کہ ایک اچھا ناول لکھنے والا تخلیقی واقعات میں مواقع پیدا کر کے ایک بصیرت پید ا  کرتا ہے۔ یہی بصیرت آغا شاعر کے ناولوں میں ملتی ہے۔ البتہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ آغا شاعر  کے ناول کے بغیر بیسویں صدی کی ناول کو سمجھنا مشکل ہو گا۔

          آغا شاعر نے اپنے  ناول میں انسان کے نفسیاتی اور سماجی پہلو کو جس انداز سے بیان کیا ہے اس سے اردو ادب کے کسی بھی نقاد کو اختلاف نہیں ہو سکتا اب یہاں تجزیہ کر نا ہے کہ کیا وہ اپنے آپ میں ایک کامل ناول نگار ہو سکتے ہیں کہ نہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔لیکن یہ امر مسلم ہے کہ کسی بھی ناول کے لئے ایسے موضوع کا ہو نا ضروری ہے کہ جو کسی بھی سماج معاشرہ اور حکومت کی صحیح تصویر پیش کر سکے جس میں ناول نگار کا مزاج، خیالات، نقطہ نظر پنہاں اور اس کی کامیابی کا راز پوشیدہ ہوتا ہے۔ ہر قاری یا ناقد کسی بھی تخلیقی ورثہ کو اپنے نقطۂ نگاہ سے جانچ پرکھ کر کے اس کی کامیابی کا حکم صادر کرتا ہے۔آغا شاعر کے ناولوں میں کامیابی کے سبھی عناصر موجود ہیں اور اس بنیاد پر یہ رائے پیش کی جا سکتی ہے کہ آغا شاعر اپنے موضوع اور مزاج کے اعتبار سے صف دوم کے ناول نگاروں میں اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ناول کے موضوعات عام انسانی زندگی سے لیے ہیں اس لئے ان میں قاری کے لئے دلچسپی بھی ہے اور تجسس بھی۔ آغا شاعر نے اپنے ناولوں میں فنی اصول کا خاص خیال رکھا ہے اردو ادب کے ناقدوں اور ادیبوں کی رائے حق بہ جانب ہے کہ ایک اچھا ناول نگار ناول تخلیق کر تے وقت فنی اصول کا بہت خیال رکھتا ہے اور ہر ناول نگار فنی آہنگ کو اپنے ناولوں میں اپنے اپنے طور پر مختلف طریقے سے نبھاتے ہیں۔ اس اعتبار سے آغا شاعر اپنے آپ میں مکمل ہیں لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ آغا شاعر نے اپنے ناولوں میں فن کاری کا بہت زیادہ خیال نہیں رکھا ہے۔

حوالے

1۔ادب کا تنقیدی مطالعہ ڈاکٹر سلام سندیلوی

2۔تنقیدی اشارے۔آل احمد سرور

3۔آج کل نئی دہلی اکتوبر 1986ء

4۔تھیوری آف لٹریچر صفحہ 101

5۔تھیوری آف لٹریچر صفحہ 251

6۔کورست’’کوارٹرلی ‘‘ اپریل ، جون 1959ء

7۔کالیکٹیٹ پیپرز دولیم فورتھ صفحہ9

8۔کالیکٹیٹ پیپرز دولیم فورتھ صفحہ92

9۔کالیکٹیٹ پیپرز دولیم فورتھ صفحہ96

10۔کالیکٹیٹ پیپرز دولیم فورتھ صفحہ95

11۔کالیکٹیٹ پیپرز دولیم فورتھ صفحہ102

12۔کانٹری بیوشن ٹوانلاسیکل سائکولوجی صفحہ199

13۔کانٹری بیوشن ٹوانلاسیکل سائکولوجی صفحہ191

14۔اردو ناول نگاری صفحہ115-116

15۔ہیرے کی کنی صفحہ 1

16۔ہیرے کی کنی ’’آغا شاعر صفحہ

17۔فکشن اینڈ پبلک صفحہ213

18۔اردو ناول نگاری سہیل بخاری صفحہ 118

19۔دی ناول ان دی سینٹووی صفحہ121

20۔گریٹ ناولسٹ اینڈ اولس صفحہ202

 

کتب

نمبر شمار      کتاب کا نام                   مصنف                معلم اشاعت  سن اشاعت

-1      آغا شاعر حیات و شاعری    مرتبہ مجتبی حسین خاں       لاہور   1970ء

-2      اردو ناول کی تاریخ            ڈاکٹر محمد احسن فاروقی لکھنؤ      لکھنؤ  1962ء

-3      انگریزی عہد میں ہندوستان  عبداللہ یوسف علی     الہ آبادی        1936ء

-4      اردو ادب میں رومانی تحریک        ڈاکٹر محمد حسن                لکھنؤ  1950ء

-5      اردو ادب جنگ عظیم کے بعد         ڈاکٹر سید عبداللہ                 لاہور   1941ء

-6      ادب کا تنقیدی مطالعہ ڈاکٹر سلام سندیلوی   لکھنؤ  1986ء

-7      اردو ناول نگاری                سہیل بخاری            دہلوی  1972ء

-8      اردو نثر کی داستانیں           گیان چند جین           کرانچی         1945ء

-9      اردو زبان اور فنی داستان گوئی      کلیم الدین احمد                   پٹنہ              

-10   اردو کا افسانوی ادب بہار اردو اکیڈمی                پٹنہ     1987ء

-11   اردو ناول سمت و رافتار      سید حیدر علی          الہ آباد 1977ء

-12   ارمان            آغا شاعر قزلباش      دہلی    1903ء

-13   امراؤ جان ادا           مرزا ہادی رسوا                 دہلی    1958ء

-14   ایام عرب                عبد الحلیم شرر                   لکھنؤ  1915ء

-15   ایامی            ڈپٹی نظیر احمد                  دہلی    1991ء

-16   ابن الوقت۔ مرتبہ سید  ڈپٹی نظیر احمد                  لاہور   1961ء

-17   بہار کا اردو ادب                ڈاکٹر ارتضیٰ کریم              دہلی    1986ء

-18   بیسویں صدی میں اردو ناول یوسف سرمست                  حیدرآباد        1973ء

-19   پریم چند شخصیت اور کارنامے      پروفیسر قمر رئیس             دہلی    1987ء

-20   ترقی پسند ادب پچاس سالہ سفر       پروفیسر قمر رئیس             دہلی    1987ء

-21   تنقیدی اشارہ            آل احمد سرور                   علی گڑھ       1942ء

-22   ٹیڑھی لکیر              عصمت چغتائی                  علی گڑھ       1945ئ      

-23   خمکدہ خیلم              کتب پر نٹر ز اینڈ پبلیسرز لمیٹیڈ      کرانچی         1976ئ      

-24   خدائی فوجدار           رتن ناتھ سرشار                 لکھنؤ  1903ء

-25   داستان مے افسانے تک       وقار عظیم               لاہور   1960ء

-26   ذات شریف              مرزا ہادی رسوا                 لکھنؤ  1921ء

-27   ادبائے صادق           ڈپٹی نذیر احمد                   دہلی    1899ء

-28   سرشار کی ناول نگاری       ڈاکٹر سید لطیف حسین ادیب  کرانچی         1961ء

-29   سونیئر          آغا شاعر میموریل سوسائٹی دہلی    1983ء

-30   صبح گلشن              مطبوعہ شاہ جہانی             بھوپال 15-12ہجری

-31   عبدالحلیم شرر شخصیت و فن         ڈاکٹر شریف احمد     دہلی    1989ء

-32   عجائب القصص تنقیدی مطالعہ       ڈاکٹر ارتضیٰ کریم              دہلی    1987ء

-33   فسانہ آزاد                رتن ناتھ سرشار                 لکھنؤ  1935ء

-34   مقدمہ شعر و شاعری الطاف حسین حالی    لاہور   1945ء

-35   میدان عمل               منشی چند                دہلی    1952ء

-36   مراتۃ العروس                    ڈپٹی نذیر احمد                   کانپور 1886ء

-37   محمد علی طیب حیات اور تعانیت    ڈاکٹر عبدالحئی                   دہلی    1989ئ      

-38   ناہید              آغا قزلباش              دہلی    1903ء

-39   ہندوستان کا اردو ادب ڈاکٹر محمد ذاکر                 دہلی    1981ء

-40   ہیرے کی کنی          آغا شاعر قزلباش      دہلی    1903ئ      

-41   پریم چند کا تنقیدی مطالعہ بحیثیت ناول نگار         قمر رئیس                دہلی

-42   قرۃالعین حیدر ایک مطالعہ   ڈاکٹر ارتضیٰ کریم              دہلی

-43   انتظار حسین ایک دبستان     ڈاکٹر ارتضیٰ کریم              دہلی

 

’’رسائل‘‘

’’چمنستان‘‘             1940-41-46ء     دہلی

’’نقد ونظر‘‘            1942ء                           آگرہ

’’منادی‘‘                1942ء                           دہلی

’’سیپ‘‘                           1964ء                           کراچی

’’آج کل‘‘                1947-84ء           دہلی

’’انجام‘‘                           1964ء                           کراچی

’’شعلہ وشبنم‘‘                   1952ء                           دہلی

’’گوشت‘‘ کواٹر لی             1959ء                           بمبئی

 

BIBILOGRAPHY OF ENGLISH BOOKS

1.   Aspect lf the Novel    -  E.M. Forster   - 1962  - London.

2.   The Art of Novel    - Pelhan Edgar    -  1933  - New York

3.   The Advance of the English Novel  -  W. Lyon Philips  -1916 - New Yark

4.   The Living Novel  -  Pritchett   -  1954   -  London

5.   Munshi Prem Chanda  -  Madan Gopal  -  1964  - Delhi

6.   Modern Novel  - Walter Allem - 1964  - New York

7.   Collection Papers Vol  - IV  - Sigmond Frend  - 1948  - London

8.   Contribution to Analytical Psychology   - C.G. Jung, Trasnlated by H.G.                                                                                         and Carry F. Baynes

9.   The Novel in the Twelth Century- Joseph Warren - 1932- Beach New York

10. Theory fo Literature  -   Warren

11. Piction and reading Public

12. Great Novelist and their Novel's

13. Novelist on the Novel  -  Ed Miriam Allett  - 1954  - London

14. The Novel Today   - Philip Hinderson  - 1936  - London

15. The Rise of the Novel  - I am watt  - 1957 - London

16. Reading a Novel  - Walter Allen -1956 - London

17. The English Novel  - I.B. Priestly  - 1905  London

18. The Novel and the people  - Rolf Fox -1956 - Moscow

19. The story of a Novel - - Thoms Wolf  - 1936  - New York

20. The technique of the Novel  - Thomars H. Uzzel  - 1947  - U.S.A

آغا شاعر کی تخلیقات کا ایک جائزہ

آغا شاعر قزلباش دہلی کے ادیب ہیں اور دہلی کے ادیبوں میں امتیاز رکھتے ہیں کہ وہ شاعر بھی ہیں اور ’صحافت نگار بھی، سیر و سیاحت سے خاص دلچسپی رکھتے تھے، انہوں نے ایک سے زیادہ ادبی مجلوں سے وابستگی اختیار کی اور ان کے لئے لکھا۔ ’ کہکشاں ‘ رسالہ بھی جاری کیا اور خیام کا ایک شعری ترجمہ بھی ان سے یادگار ہے۔

 وہ ہمارے ان ادیبوں میں سے تھے جنہوں نے ایک سے زیادہ ادبی دائروں میں اپنی کاوشوں کے نقش ثبت کئے ، شاعری میں وہ داغ کے شاگرد تھے لیکن انہوں نے داغ کے انداز میں کم ہی غزلیں کہیں ہیں اور جس ادیب یا شاعر نے خود کو دہلی کے ادبی حلقے سے کلیتاً وابستہ نہ کیا ہو اس کے لئے یہ مشکل بھی تھا کہ وہ ہر سطح پر دہلوی روایت کی پابندی کرے ، طریقہ فکر میں بھی اور طرز ادا میں بھی۔

 آغا شاعر قزلباش کے چند افسانے ان کے مجموع ’’خمار ستان‘‘ میں ملتے ہیں جسے ان کے مضامین کا مجموعہ کہا گیا ہے۔ اس میں مندرجہ ذیل نگارشات شامل ہیں۔

 (۱) وطن (۲) سال (۳) بہار (۴) جوئی اور بارش کا ننھا قطرہ(۵) ہندوستانی (۶) بڑھو ورنہ کچل دئے جاؤ گے (۷) پوشیدہ(۸) ایک قطرہ خون کی سرگزشت(۹) باغ بہشت (۱۰) حسن اردو کا حجاب (۱۱) پھول والوں کی سیر (۱۲) چھوئی موئی (۱۳) وفائے عہد (۱۴) کھلتا ہوا پتہ (۱۵) بجھتا ہوا چراغ (۱۶) ٹوٹا ہوا ہاتھ(۱۷) انیس و دبیر (۱۸) خانہ بدوش (۱۹) جل ترنگ(۲۰) چاندنی رات اور دریائے فرات((۲۱) رنگیلا جوگی (۲۲) آہ پنڈت رتن ناتھ سرشار(۲۳) حضرت داغ کی ایک صحبت(۲۴) اپنے خالق کو پہچان (۲۵) میری بادشاہت کا زمانہ(۲۶) غلام ہندوستان(۲۷) پہلے کی ولی (۲۸) جمنا کے کنارے (۲۹) عبرت ناک مشاہدہ(۳۰) فیروز شاہ کی لاٹ(۳۱) ایک البیلی شام۔(۳۲)برسات کی بہار (۳۳) تاجدار دکن کی سوانح عمری(۳۴) استاد داغ کی اصلاح (۳۵) ادبی صحبت (۳۶) میرا گناہ(۳۷) آغا شاعر کا پیغام۔

 اس پر مجموعہ مضامین کا اطلاق بھی ہو سکتا ہے اس لئے کہ یہ آغا صاحب مرحوم کی بیشتر انشائی نگارشات ہیں۔ آغا صاحب ایڈیٹر بھی تھے ، مختلف رسالوں سے ان کا تعلق رہا ان سے لوگ فرمائشیں کر کے بھی لکھواتے رہتے ہوں گے۔ ان میں کچھ مضامین حسن اردو کا حجاب اردو زبان سے متعلق ان کا علمی مضمون کہا جا سکتا ہے لیکن روا داری میں قلم بند کیا گیا ہے۔ عام طور پر جو لوگ اخبار نویسی سے بہت گہری دلچسپی یا عملی وابستگی رکھتے ہیں ان کے یہاں قلم برداشتہ لکھنے کا ایک رویہ آ جاتا ہے جس میں غور و فکر کا زیادہ موقع نہیں ہوتا اور زبان و بیان کا حسن بھی ایسی تحریروں میں قابل توجہ افسانوی انداز رکھتے ہیں۔ ’’جوئی اور بارش کا ننھا قطرہ‘‘ ایک چھوٹا سا علامتی افسانہ ہے اس میں جو نام آئے ہیں وہ سب پھولوں سے متعلق ہیں یا پھر اس کا رشتہ موسم اس کے اثرات یا تبدیلیوں سے ہے جہاں تک اس کر داروں کا سوال ہے اس میں تین کر دار زیادہ اہم ہیں ایک ہوا اور بنیاد طور پر جوئی اور بارش کا ننھا قطرہ ان دونوں میں ایک طرح کا جذباتی اور ایک گناہ رومانی رشتہ بھی ہے جس کے ذہنی منظر میں یہ افسانہ ترتیب دیا گیا ہے۔

 اس کے ماحول میں اسراریت کے باوجود جہاں تک گفتگو کا تعلق ہے بہت ہی کھلا ڈھلا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ اس کو مکالموں کی صورت میں ترتیب دیا گیا ہے کہ اس کے وضاحت بھی افسانے کے عنوان کے ساتھ کر دی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ کہانی کے نقطہ نظر سے اس میں کوئی خاص بات نہیں لیکن اسے علامتی افسانے کا ایک نمونہ ضرور قرار دیا جا سکتا ہے۔

 ’’پوشیدہ ‘‘ آغا قزلباش کا ایک ایسا افسانہ ہے جو انہیں بے حد عزیز تھا۔ یہ کہانی انہیں کیوں عزیز رہی اس کا فیصلہ تو وہ خود ہی کر سکتے ہیں۔ یہ ان کی جوانی کا کوئی واقعہ ہے جسے وہ کہنا بھی چاہتے تھے اور چھپا نا بھی۔

 یہ کہانی ایک ایسے کلرک کی ہے جو کسی رئیس کے یہاں کام کرتا ہے بہت اچھے ماحول میں رہتا ہے لیکن اپنی تنہائیوں سے اکتایا ہوا ہے وہ رئیس اس کے تنہائی کے دکھ اور جدائی کے غم کو محسوس کر لیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اس زمانے میں جو دل بہلانے کے طریقے ہیں اس سے اپنے نوجوان کل کر کا دل بہلوائے اس میں میلوں ٹھیلوں کی سیر بھی شامل ہے۔

 اس سیر کے دوران وہ کسی حسینہ کو دیکھتا اور اس کے دام عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے ، دل میں ایک تڑپ اور بے قراری پیدا ہوتی ہے اور ایک رات کی تنہائی میں ایک رتھ میں بیٹھی ہوئی وہی حسینہ اس کے پاس آتی اور اس کا دل بہلاتی ہے وہ صبح ہونے سے پہلے رخصت ہو جاتی ہے یہ عالم خواب کی کیفیت بھی ہو سکتی ہے ، انہوں نے اس کر دار کو ہی پوشیدہ کا نام دیا ہے یہ افسانہ جس کی روئداد ملاقات ہے بہر حال اس کی بعض تفصیلات اس افسانے کی فضاء کو متاثر کرتی ہیں اور ان کے باعث یہ فنکارانہ Touchیا تکمیل سے محروم نظر آتا ہے۔ محبوب سے خواہ وہ خیال ہی کیوں نہ ہو ملاقات کے بعد نہ حمام میں جانے کی ضرورت تھی اور نہ اس تفصیل کے ساتھ اس ملاقات کو پیش کرنے کی جو اس افسانے میں موجود ہے۔

 ’’وفائے عہد ‘‘ آغا شاعر قزلباش کا قدیم ہندو قصوں سے ماخوذ ایک افسانہ ہے جس میں بھیشم پتامہ کا (جو گنگا پتر کہلاتے ہیں ) بے مثال کر دار پیش کیا گیا ہے لیکن افسانے کے آغاز اور کہانی کی پیش کش سے پہلے جو تمہیدی پیرا گراف لکھے ہیں ان پر افسانے سے زیادہ ایک مضمون کا دھوکا ہوتا ہے۔

 کہانی کچھ اس طرح ہے کہ بھیشم پتاما کا باپ ایک مچھیرن پر عاشق ہو جاتا ہے جو بہت ہی خوبصورت لڑکی ہے ، مجسمہ شباب ہے۔ وہ خود بھیشم پتا ا سے عشق کرتی ہے۔ لیکن اس وقت کا راجہ اسے اپنے محل میں لانا چاہتا ہے تو وہ راجہ سے یہ عہد لیتی ہے کہ آپ کے بعد بھیشم پتاما کو راج گدی نہیں ملے گی اور ان کی اولاد کو بھی اس لئے بھیشم پتاما شادی نہیں کرتے تاکہ اس مچھیرن کے بطن سے جو شہزادہ پیدا ہو وہی راج تلک کا مستحق قرار پائے۔ اس کہانی میں پرانی کہاوتوں جیسا آئیڈ لزم موجود ہے اور چوں کہ یہ ایک ماخوذ کہانی ہے جس کی بعض تفصیلات ممکن ہے مہابھارت کے علاوہ کسی اور قصے سے بھی فراہم کی گئی ہوں اس لئے اس میں قدیمانہ انداز فکر آگیا ہے۔ اس کہانی کے انتخاب سے پتہ چلتا ہے کہ آغا شاعر کو ہندو قصوں اور ان سے وابستہ تہذیبی رویوں سے بھی دلچسپی تھی اور ایک زمانہ میں تو وہ دلدار شاہ داتا بنے نظر آتے تھے اور انہوں نے ہندو فقیروں جیسا انداز اختیار کر لیا تھا۔ ان کی زبان میں ہندی الفاظ بھی بہت نظر آتے ہیں۔یا یہ کہئے کہ اس سے کچھ زیادہ جو اردو والوں کا عام طور پر دستور ہے۔

’’بجھتا ہوا چراغ اور رنگیلا جوگی‘‘ دو مضمون یا پھر افسانہ نما انشائیے ہیں۔افسانہ نما اس لئے کہ ان میں کہانی پن نہیں ہے۔بلکہ خیال آرائی یا مضمون آفرینی ہے۔بڑا حصہ مضمون نگاری اور زبان و بیان کے تجربوں سے متعلق ہے جو انشا پردازی کا رخ اختیار کرتا جاتا ہے۔بجھتا ہوا چراغ بجھتے ہوئے دل کی علامت ہے اور رنگیلا جوگی ایسے نوجوان کا انشائی تعارف نامہ ہے جو ممبئی سے کچھ فاصلے پر کسی قلعے کے سامنے ایک پہاڑی مندر میں بیٹھا ہے۔اس کر دار کو دیکھ کر خیال ہوتا ہے کہ یہاں آغا شاعر نے کہیں اپنی ہی زندگی کے کسی تجربے کو تو پیش نہیں کیا۔وہ کچھ دن بالکل ہندو انا بلکہ جوگیانہ لباس زیب تن کئے رہے اور انہوں نے رمتا جوگی کی سی زندگی گزاری انہوں نے یہاں جوگی کا کر دار پیش کیا ہے وہ قدرت کے مشاہدے سے گہری دلچسپی رکھتا ہے اور چٹانوں میں زندگی کا حسن دیکھتا ہے۔وہاں بجھتے چراغ میں چراغ سے وابستہ گوناگوں منظر ناموں کی مرقع کشی کے بعد انہوں نے اس چراغ کو اپنے حسرت زدہ دل سے تشبیہ دی تھی۔یہاں وہ ایسی کسی علامت کو پیش نہ کرتے ہوئے گزر گئے۔

ہندوی الفاظ دونوں میں ہیں۔اور اس کے ساتھ عربی اور فارسی الفاظ اپنی مرکب و مفرد صورتوں میں بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ایسے ہلے پھلکے جملے بھی ہیں جو عورتوں کی زبان پر بے اختیار آتے ہیں خاص طور سے ان عورتوں کی زبان پر جو گھریلو معاشرے کو پیش کرتی ہیں۔

افسانہ نگار کا مشاہدہ اچھا خاصا گہرا ہے پھر بھی کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کی نگاہ چوک گئی۔مثلاً جس چراغ میں تیل باقی نہ ہو اس کی بچی کھچی ممی پر پروانے کیسے ڈوب سکتے ہیں اور ڈوب کر اسے چوس سکتے ہیں۔

اسی طرح سے بحیرہ عرب کے پانی میں وہ سکوت مشکل ہی سے دیکھنے کو مل سکتا ہے کہ ستاروں بھرے آسمان کی تصویر اس میں اس طرح اتر آئے کہ زمین پر دوسرا آسمان پیدا ہو جائے۔ممبئی کے کنارے کھڑے ہو کر دیکھیں تو مسلسل یہ سمندر جوش مارتا اور لہریں لیتا ہوا نظر آتا ہے یہی صورت کراچی میں بھی ہے جس سکوت کا ذکر کیا گیا ہے وہ کسی جھیل اور نرم سیر دریا میں ہو سکتا ہے۔

’’جمنا کا کنارہ اور ایک البیلی شام‘‘ بھی آغا شاعر قزلباش کا ایک ایسا ہی افسانہ ہے، اس میں افسانوی فضا برائے نام ہے دراصل کسی بھی واقعہ یا معمولیSituationکو بنیاد بنا کر تھوڑی بہت خیال آرائی کا نمونہ پیش کرتا ہے۔مثلاً جمنا کے کنارے میں جس واقعہ کو پیش کیا گیا ہے وہ ایک شہزادے کا ساون منانے کے لئے اپنے محل کی بیگمات اور باندیوں کے درمیان آنا اور ان کے ساتھ جھولا جھولنا ہے،شہزادہ اس لئے کہ اسے صاحب عالم کہا گیا ہے،اس کی موجودگی میں اس کی باندیوں یا اس کی محل کی خواصوں کا جھولنا اور ساون کے گیت گانا اور اسی طرح کا کوئی جشن بہار منانا ایک ایسی بات ہے جس کے نمونے مغل تاریخ میں ملتے ہیں لیکن صاحب عالم ہر ایک کے ساتھ پاؤں سے پاؤں ملا کر جھول رہے ہیں ،اتنا ہی نہیں ان کے ساتھ اٹھکھیلیاں کر رہے ہیں۔بلکہ نہایت خوش گلوئی اور حسین آواز کے ساتھ ساون ملہار گار ہے ہیں۔یہاں پہنچ کر افسانہ تو ختم ہوتا ہی ہے یہ کہئے کہ خیال آرائی بھی ختم ہو جا تی ہے۔یہ صورت نہ آگرے میں ممکن تھی نہ لال قلعہ میں جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

آغا شاعر قزلباش کا مجموعہ ’’دامن مریم‘‘ ان کے انشائی مضمونوں اور روایتی کہانیوں کو نئے چھوٹے چھوٹے افسانوں میں ڈھال کر پیش کرنے کی ایک اچھی ادبی کوشش ہے۔اردو میں جو افسانے لکھے گئے ان میں ایسے افسانوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے جو قدیم قصے کہانیوں کا لباس پہنانے کی کوشش کی گئی ،اشرف صبوحی کے بعض خاکوں میں یہی صورت ہے،ناصر نذیر فراق کہانیوں کا یہی حال ہے ،اور آغا شاعر قزلباش کے ان مختصر افسانوں کو بھی اسی دائرے میں رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔

اس نوع کی کہانیوں کو ہم مختصر افسانوں کے ذیل میں رکھ بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی اگر آج کے افسانے میں دیو مالائی عناصر کو شامل کیا جا سکتا ہے اور ان سے افسانوی علامتوں کا کام لیا جا سکتا ہے تو روایتی قصوں کہانیوں کو بھی اس میں شامل کر کے افسانوی ماخذ کا ایک نیا دائرہ مقرر کیا جا سکتا ہے ،ادبی تخلیقات کو یوں بھی فرد بہ حلقہ اور زمانہ بہ زمانہ ایک ہی دائرے میں رکھ کر ایک ہی تنقیدی پیمانے سے ناپنا اور اس کی عیار گیری کرنا مشکل ہے۔

آغا شاعر نے اپنے زمانے کی عام روش کے مطابق ایسی کچھ کہانیوں کو پیش کر کے ان سے اخلاقی نتائج اخذ کرنا چاہئے یہ الگ بات ہے کہ انہیں اپنے زمانے کی جدید کہانیوں کا روپ دینے کے لئے ان میں بعض اضافے بھی کئے۔

دامن مریم کے سلسلے میں یہ لکھا ہے کہ ان نگار شات کو اردو معلیٰ کے خاص انداز کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔یہاں دراصل اردو معلیٰ سے مراد دہلی کی ٹکسالی اردو ہے جس کی بنیاد اس خاص محاورے اور روز مرہ پر ہے جسے اہل شہر اپنے لئے وجہ امتیاز قرار دیتے تھے۔بیان میں ایک خاص سلاست،نفاست،لطافت اور شگفتگی کا عنصر بھی ان کے خیال سے زبان اردو کو زبان اردو معلی بنا تا تھا۔بات وہاں آ جا تی ہے جہاں پہنچ کر اہل لکھنؤ سے میر نے کہا تھا کہ میری زبان کے لئے یا محاورے اہل دہلی ہے یا جامع مسجد کی سیڑھیاں۔

واقعہ یہ ہے کہ آغا شاعر کے سامنے افسانہ اپنی تکنیک کے ساتھ کبھی موجود نہیں رہا۔کہانی کو ایک میڈیم سمجھتے ہیں اور اس کے ذریعہ جو بات انہیں کہنا ہوتا ہے وہ اپنے طور پر کہہ جاتے ہیں۔ان کی تحریروں میں افسانہ ،کہانی،مضمون اور انشائیہ کے عناصر ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ ہو جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کی تحریروں پر جو بات کہی جا سکتی ہے۔وہ صرف یہ ہے کہ انشائی مضامین خیالی کہانیوں اور روایتی قصوں سے مدد لے کر انہوں نے افسانہ نما تحریروں قلمبند کی ہیں۔باقاعدگی سے افسانے نہیں لکھے۔پھر بھی کہانی سے افسانے تک کے سفر میں ان کی نگارشات کا درجہ ایک نشان منزل کا سا ضرور ہے۔

٭٭٭

آغا شاعر

آغا شاعر دہلوی کی وفات سے گو یا ایک نہیں ،کئی ہستیاں ایک ساتھ اٹھ گئیں۔قوم کا محترم۔قدامت کا نمونہ۔دہلی کا زبان داں۔شاعری کا استاد داغ کا جانشین!مجھے آغا صاحب سے ذاتی نیاز حاصل نہ تھا۔لیکن ان کے ساتھ میری نیاز مندی بہت قدیم ہے۔خوب یاد ہے 22-23برس سے کم نہ ہوئے ہوں گے،میری طالب علمی کا زمانہ تھا،رسالہ مخزن لاہور میرے پاس آتا تھا۔اس میں میرے مضامین اور نظمیں شائع ہوتی تھیں۔مخزن کے ایک پرچے میں آغا شاعر صاحب کی ایک غزل چھپ کر آئی۔مختصر غزل تھی،لیکن زمین نئی اور دلچسپ تھی،یعنی حج ہے ،کج ہے،دھج ہے۔اس کا ایک شعر بہت پسند آیا تھا،جب سے اب تک یاد ہے۔

دروازے پہ اس بت کے سو بار ہمیں جانا

اپنا تو یہی کعبہ ،اپنا تو تو یہی حج ہے

 اسی غزل کے ایک شعر پر خوب بحث رہی تھی۔فرماتے ہیں۔

اے ابروئے جانانہ اتنا بتا ہم کو

 کس رخ سے کریں سجدہ قبلہ میں ذرا کج ہے

 ’’کجی‘‘ کے معنوں میں ’’کج ‘‘کبھی نہ دیکھا تھا۔اس کی تحقیق درپیش رہی۔آغا صاحب کی زباندانی و استادی کا اس وقت بھی شہرہ تھا،اس لئے ان کی زبان ہی کو سند مان لیا گیا تھا۔خیر ’’یہ قصہ ہے جب کا کہ آتش جواں تھا‘‘ اس کے بعد جب میں نے شاعری کا مطالعہ کیا تو آغا شاعر کے مرتبہ کو پہنچانا حضرت داغؔ دہلوی کے کلام سے مجھے ہمیشہ سے دلچسپی رہی ہے۔ابتدا میں تو ممکن ہے ان کے اسی کلام سے عقیدت پیدا ہوئی ہو جو عام پسند ہے لیکن بعد میں نے اندازہ کیا کہ مرزا داغ جن کی شاعری کو پنڈت چکبستؔ لکھنوی وغیرہ نے ’’عیاشانہ شاعری‘‘ سے تعبیر کیا ہے،ایسے طرز کے موجد تھے،جوان سے شروع ہو کر انہیں پر ختم ہو گئی۔کلام داغؔ کے خذف ریزوں میں وہ جواہر پارے ملے ہوئے ہیں کہ ایسی تراش اور ایسی آب و تاب کے ساتھ اردو شاعری میں نہ کسی نے پہلے پیدا کئے۔نہ بعد کو آج تک کوئی پیدا کر سکا۔لطف زبان و حسن بیان کے ساتھ جدّت ادا ایسی نکالی ہے کہ اردو اور غزل اور دہلی کو ہمیشہ ان پر تاز رہے گا۔ممکن ہے بعض نقادوں کو میری اس رائے سے اتفاق ہو،لیکن حقیقت یہ ہے کہ قدیم زمانے کا کوئی بڑے سے بڑا ،سنجیدہ سے سنجیدہ ،پارسا سے فارسی واردو کا شاعر ایسا نہیں گزر جس نے وہ کچھ نہ کہا ہو جو داغؔ نے کہا ہے جس کے دیکھنے سے حیا آنکھیں نیچی کر لے،اور جس کے سننے سے تہذیب کانوں پر ہاتھ رکھ لے،اور اس پر بھی انہی بزرگوں کو گنجفۂ شاعری کا میرؔ،معرکۂ نکتہ سنجی کا غالبؔ اور ملک سخنوری کا امیرؔ مانا گیا ہے۔یہ الزام تنہا داغؔ پر نہیں ہے۔میں نے یہ بات دیکھ کر نواب مرزا داغؔ کے چاروں دیوانوں کا سخت انتخاب کیا،ایسا کہ ان کے پست و ادنیٰ اشعار بالکل نکال دئیے۔بلکہ ان کے بہت سے شوخ اشعار بھی خارج کر دئیے۔صرف بہترین اور انفرادی شوخ رنگ کو باقی رکھا،اور اس انتخاب پر ایک بسیط مقدمہ لکھ کرک مال داغؔ کے نام سے شائع کر دیا۔

جب میں نے داغؔ کے انفرادی رنگ کو سمجھا اور اس کا اندازہ کیا یہ یہ رنگ ایسے کمال کے ساتھ خود داغؔ کے شاگردوں سے بھی نسبتاً آسان نہیں ہے تو اس کی جستجو ہوئی کہ تلامذۂ داغؔ میں سے کون کون استاد کے قریب تر پہنچ سکے ہیں۔ان میں آغا شاعرؔ بھی وہ وہ شاگرد رشید نکلے جنہوں نے استاد کی زیادہ سے زیادہ پیروی کی۔چونکہ اس مختصر مضمون میں تلامذۂ داغؔ پر تبصرہ مقصود نہیں ہے،اس لئے اوروں کا ذکر نہیں کرتا۔

آغا شاعر کے حالات :آغا صاحب کے حالات ،ان کی وفات(11مارچ1940)کے بعد مختلف اخباروں میں شائع ہوئیں ہیں لیکن اتفاق سے ان میں سے کوئی پر چہ اس وقت میرے پیش نظر نہیں ہے اس لئے ان کے ذاتی حالات سے قطع نظر کر کے صرف بعض شاعرانہ احوال و ماحول کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔آغا صاحب نے ابتدائے مشق سخن سے حضرت داغؔ دہلوی سے فیض سخن حاصل کرنا شروع کر دیا تھا لیکن دور کی شاگرد کچھ شاگردی نہیں ہوتی بسا کیں دولت از گفتار خیزد آغا صاحب کو خوش نصیبی سے استاد داغؔ کی دولتِ دیدار و گفتار میسر آئی۔دو بار حیدر آباد گئے اور عرصہ تک استا دکی خدمت میں رہے۔استاد کی صحبت کسی طالب شاعری کے لئے ایسی ہی کیمیا ہے جیسی مرشد کامل کی صحبت سالک طریقت کے لئے جس شخص کو یہ یا وہ کبھی میر نہیں آئی۔وہ نہ اس کے فیض کو سمجھ سکتا ہے،نہ اس کی کرامت کا تصور کر سکتا ہے۔کبھی استاد کی زبان سے ایک نکتہ ،ایک اصلاح کی توجہ ایک شعری انتخاب ،ایک موازنہ و مقابلہ ،سلوک سخنوری کے وہ مدارج طے کر دیتا ہے جو دور کے شاگردوں کو برسوں کتابوں سے سر مارنے سے حاصل نہیں ہوتے۔

آغا شاعرؔ نواب نصیر الملک سفیر ایران کی مصاحبت میں بھی رہے اور وہاں سے افسر الشعراء کا خطاب پایا۔پھر ایک مدت تک مہاراجہ جھالا واڑ کے درباری شاعر ہے۔وہیں سے ایک ماہوار رسالہ’ آفتاب‘ نکالا ،جس کے لئے مشہور اہل قلم سے مضامین حاصل کئے اور خود اپنے استاد کے فیض سخن کے متعلق طویل مقالہ لکھا ۔

شاعر اور شاعری

کسی شاعر کے مفصل حالات زندگی معلوم ہوں ،اور اس کی غزلوں اور نظموں کی تصنیف کا زمانہ معلوم ہو تو اس شاعر کی شاعری کے مطالعہ میں خاص لطف پیدا ہو جاتا ہے۔شاعر کی افتاد طبع کا اس کی رفتار شاعری سے اندازہ ہوتا ہے اور اس کے مزاج و حالات کے انقلاب سے اس کی شاعری کے تغیرات کا پتہ ملتا ہے اور اس کے ذہنی ارتقاء اور شاعری کی ترقی میں توازن و تناسب قائم کیا جا سکتا ہے۔لیکن یہ بات ہماری اردو کے اکثر شاعروں کے معاملے میں بالکل پردۂ راز میں رہتی ہیں کتنوں کے پورے حالات معلوم نہیں جن کے معلوم ہیں ان کی شاعری کی رفتار کا علم نہیں۔بعض شاعروں کی غزلوں اور نظموں کا زمانۂ تصنیف معلوم ہے تو ان کے حالات سے مطابق کرنے کا ذریعہ موجود نہیں۔دیوان کو حروف تہجی کے اعتبار سے ردیف وار مرتب کرنے کی رسم نے اس راہ میں اور بھی رکاوٹ پیدا کر دی ہے۔

موجودہ زمانہ میں البتہ شاعروں نے اس ضرورت کا احساس کر کے اپنے مجموعۂ کلام کو اسی طور پر مرتب و شائع کرنا شروع کر دیا ہے کہ دیوان غزلیات ترتیب ردیف تو قائم رکھتے ہیں ،لیکن ہر غزل پر زمانۂ تصنیف بھی لکھ دیتے ہیں۔یہ بات سب سے پہلے غالباً حسرتؔ موہانی کو سوجھی تھی۔انہوں نے مختلف حالات و مواقع میں غزلیں لکھی ہیں۔۔علی گڑھ کی طالب علمی کے زمانہ میں ،نظر بندی کی حالت میں مختلف جیل خانوں میں ،مشاعروں کے لئے ،اور یہ سب باتیں بقید تاریخ و سنہ درج کر دیتے ہیں۔اس وجہ سے شاعری کا مطالبہ کرنے والے کو حسرتؔ کے سمجھنے میں بڑی آسانی ہو جا تی ہے۔

شاعرؔ کی شاعری

آغا شاعرؔی کا کلام اس طرح مرتب نہیں ہوا ہے پھر بھی ان کا اول آخر کلام الگ الگ ہو سکتا ہے۔پہلا دیوان (تیرو نشتر)اب سے 35-30برس پہلے شائع ہوا تھا،وہ ان کی جوانی کا کلام ہے۔آغا صاحب لڑکپن سے شوخ مزاج اور چلبلی طبیعت رکھتے تھے۔اور بقول شیخ سعدیؔ  کے ’’در ایام جوانی چنانکہ افتد دانی۔‘‘دوسرے آغاؔ صاحب حضرت داغؔ دہلوی کے رنگ و طرز کو پسند کرتے تھے،اور ان کا اتباع کرتے تھے۔تیسرے اس زمانہ کی غزل میں کھلے ڈھکے سب معاملے آزادی و بیباکی سے لکھے جاتے تھے،اور اس کو عیب نہ سمجھنے تھے۔چوتھے اگلے وقتوں کے لوگ اکثر نیک کر دار،پاک نفس اور صاف گو ہوتے تھے اس لئے ان کے رندانہ و بیبا کانہ اشعار اکثر حالتوں میں صرف قال ہوتے تھے،حال نہ تھے،اس لئے ان کو کہنے میں تامل نہ ہوتا تھا،اور سننے والے ان کے اقوال کو  ان کے افعال و کردار نہ سمجھنے تھے،چنانچہ حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت خواجہ میر دردؔ ؒ ،جو مشہور اور مسلم اولیا اللہ اور صوفیائے کرام تھے،اور حضرت امیرؔ مینائی ؒ جو مانے ہوئے صاحب دل و صوفی اور عالم و مفتی تھے،سب نے ہر طرح کی کہنی اور ان کہنی کھلے لفظوں میں کہی ہے ،لیکن کس کی مجال ہے کہ ان کی سیرت اور کیریکٹر پر انگلی اٹھا سکے۔جب یہ بات ہے کہ تو حضرت داغؔ اور جناب آغاؔ شاعر کو تو کوئی ولی و صوفی بھی نہیں کہتا۔پھر وہ بھی ویسا ہی کیوں نہ لکھتے جو سب لکھ گئے ہیں۔یہ وجہ ہے آغا شاعرؔ کے اس طرح کے اشعار کی ،جن کا نمونہ یہ ہے۔

نہ چھیڑ و اب شکستہ خاطروں کو

کوئی غمزے اٹھائے گا کہاں تک

بس چلو، ہو چکا،اتنا نہیں بنتے تو بہ

دیکھنا رات گزر جائے نہ سامانوں میں

ماشا ء اللہ ،رقیبوں کا یہ جمگھٹ ،آہا

آج تو شمع بنے بیٹھے ہو پروانوں میں

نہ دیں گے ،نہ دیں گے دل اپنا

چلو،جاؤ،بس ،خوب سمجھا ہوا ہے

یہ میں نے بہت ہلکے شعر انتخاب کئے ہیں اس سے بہت گہرا اور صاف بھی کہا ہے۔

اسی رنگ میں ایک یہ بھی جھلک تھی کہ حلیہ،انداز،لباس زیور وغیرہ کا ذکر بے تکلف لکھا کر تے تھے۔یہ طرز دہلی سے زیادہ لکھنؤ کی شاعری میں ہے بلکہ اسی کثرت لکھنؤ کی تقلید ہی سے دہلی والوں کے کلام میں ہوئی چنانچہ آغا شاعرؔ بھی فرماتے ہیں۔

 

ہاتھ رکھ کر سوئے ہو گیسو چبھے ہیں ،کیا ہوا؟

کیوں تمہارا پھول سا رخسار آبی ہو گیا؟

حسن رخسار سے ہے کان کی بجلی روشن

مہر کے ساتھ جھلکتا ہے قمر کا ٹکڑا

 

قدیم زمانے کا ایک اور اسلوب بیان یہ تھا کہ عالمانہ قابلیت اور شاعرانہ کاریگری کے لئے بھاری اور مشکل مضامین پیدا کیا کرتے تھے۔اصلی جذبات اور سچے واقعات تو کچھ بھی نہ ہوتے تھے۔ یا برائے نام ہوتے تھے ،لیکن تشبیہوں ،استعاروں ،لفظی رعایتوں اور دقیق بندشوں سے ایک خوشنما گلدستہ بنا دیا کر تے تھے۔یہ طریقہ اردو شاعری کی بالکل ابتدا سے موجود تھا۔لیکن پھر لکھنؤ کے شاعروں نے تو گویا اس کا ٹھیکہ لے لیا اور شاعرانہ پیشہ بنا لیا۔بہرحال یہ بھی بیشک ایک قسم کا کمال تھا اور ایک طرح کی استادی چنانچہ آغا شاعر کے ہاں اس کے نمونے دیکھئے۔

مر گیا ہوں یا د مژگان بت سفاک میں

خاک ترب سے مری پیکاں اگیں گے تیر کے

دامن ہی آسمان پہ ہمارے خیال ہے

زیبا ہے اس قبا میں گریباں ہلال کا

مر مٹا شاعر تری خوش قامتی کو دیکھ کر

واہ کیا موزوں ہی یہ مصرعہ کسی استاد کا

تازیانے کی ضرورت ؟گیسوئے مشکیں تو ہیں

اپنے دیوانے کو چھڑیاں مارئیے شمشاد کی

دیکھئے ان شعروں کو پڑھ کر شاعرانہ مسرت پیدا نہیں ہوتی ،کوئی جذبہ نہیں ابھرتا،دل پر کوئی اثر نہیں پڑتا،ہاں دماغ متاثر ہوتا ہے۔شاعر کے کمال علم کا قائل ہونا پڑتا ہے۔مضمون پیدا کرنے کی راہیں کھلتی ہیں اس طرح کے شعروں کا شاعری میں بس یہی فائدہ ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ رنگ آغاؔ صاحب یا ان کے استاد کا اصلی رنگ نہیں ہیں۔یہ شعر سازی ان کا پیشہ نہ تھی یہ گویا شاعری کی خانہ پری ہے اور بھی سب کہا کر تے تھے انہوں نے بھی چند شعر کہہ دئے ۔

اب آغا صاحب کا اصلی رنگ دیکھئے۔لطف زبان ،سلاست و صفائی ،روز مرہ محاورہ کی دلکشی ،بول چال کی بندش بہتر سے بہتر ہے۔

بہت رونا مجھے آتا ہے غنچوں کے تبسم پر

فقط کھلنے ہی کی تھی دیر سارے کھل کے بکھرے ہیں

او جنوں ،ہوش کی لے،دست درازی کب تک

دیکھ لے اب تو کوئی تار گریباں میں نہیں

جاتی رہی پہلو میں رہا کرتی تھی اک چیز

تربھر نہ ہوں ،کچھ آپ سے کہتا تو نہیں میں

خدا جانے کہاں کی دل لگی تھی درد کی دل سے

ابھی چونکا دیا پھر ،کیا لگی تھی آنکھ مشکل سے

کبھی نمک ہے ،کبھی تیر ہیں ،کبھی چرکے

ملی ہیں زخم جگرا منھ بھرائیاں کیسی؟

مرا قصہ سنا،سن کر ہنسے ،ہنس کر یہ فرمایا

ابھی جو کہہ رہے تھے کیوں جی یہ قصہ کہا شک ہے

اس کی چٹکی سے چھٹا ،سینے میں اترا ،دل میں تھا

کیا ٹھکا نہ توڑ کا،پلے تو دیکھو تیر کے

کسی کے روکنے سے کب ترا دیوانہ کتا ہی

بہار آئی ،چلا میں ،دھری ہیں بیڑیاں میری

غریبوں کے مرقد کو ٹھکرانے والے

سنبھل ،جانے والے سنبھل جانے والے

گری،گر کر اٹھی،پلٹی تو جو کچھ تھا اٹھا لائی

نظر کیا کیمیا تھی رنگ چہروں سے اڑا لائی

ان شعروں کا پہلے شعروں سے مقابلہ کر کے دیکھئے اور سوچئے ان میں کیوں زیادہ لطف و  اثر ہے۔اگر زبان و محاورہ کی تاثیر ہے تو یہ بات ان شعروں میں بھی تھی جو پہلے اور دوسرے نمبروں میں پیش کئے گئے ہیں۔دیکھئے وہاں مضمون و جذبات نامناسب ہونے کے سبب سے لطف کم ہو گیا تھا۔یہاں واقعات و خیالات سب واقعی اور اصلی اور درست و موزوں ہیں ، اس لئے دلکشی زیادہ ہے۔اسی طرح مضمون آفرینی و تخلیل آرائی نمبر3 کے اشعار میں بھی ہے،لیکن صدارت و واقعیت نہ ہونے کے سبب سے تاثیر پیدا نہ ہو سکی۔

لیکن محاورہ بندی کے شوق میں کہیں کہیں آغاؔ صاحب نے وہ محاورے لکھ دئیے ہیں جو عورتوں کی زبان پر سجتے ہیں ،مثلاً

کبھی ساون کی جھڑی ،ہو کبھی بھادوں برسے

ایسا برسے مرے اللہ کہ چھاجوں بر سے

کو ستے ہیں ستانے والے کو

آپ سے تو کوئی خطاب نہیں

پھر یہ دونوں شعر اپنے رنگ میں لاجواب ہیں اس خطاب کا کیا کہنا ہے ’’آپ سے تو کوئی خطاب نہیں۔‘‘کسی شاعر کا کمال اور استادی جانچنے کے لئے بہت سے گر نکتے اور انداز ہیں۔میں دو ایک کا ذکر کرتا ہوں۔ایک چیز تشبیہ ہے کہ یہ جتنی موزوں،صحیح اور نئی ہو گی اتنی ہی پر لطف و دلکش ہو گی،آغا شاعرؔ کلی اور پھولوں کی نئی اور نرالی تشبیہ لکھتے ہیں۔

لو ہم بتائیں غنچۂ و گل میں ہے فرق کیا؟

اک بات ہے کہی ہوئی اک بے کہی ہوئی

یہ تشبیہ بالکل نئی ہے کبھی شاعر پرانی اور معمولی تشبیہ کو عجیب و جدید بنا دیتا ہے۔ابرو کی تشبیہ ہلال سے اتنی عام ہو چکی ہے کہ اس میں کوئی لطف باقی نہیں رہا ہے۔لیکن آغا شاعر اپنے حسن تخلیل سے اس کے کہنے کا نیا اسلوب نکالتے ہیں ،اور اب یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا ابرو اور چاند آج نئے دیکھے ہیں۔شعر سنئے۔

خیال ا بروئے پر خم سے اک تصویر پیدا ہے

ذرا تم سامنے آنا کہ ہم نے چاند دیکھا ہے

اس شعر پر اردو شاعری کو فخر و ناز ہے اس خوبی بیان کو جدت ادا کہتے۔جدت ادا کی ایک مثال دیکھئے۔

ادھر دیکھتا ہے وہ ادھر بھی دیکھ لیتا ہے

تری تصویر بن کر ہم تری محفل میں رہتے ہیں

یہ مضمون درجنوں شاعروں نے لکھا ہے کہ ،لیکن اس طرح شاید ہی کسی نے کہا ہو۔شاعری،اصل میں جدت بیان ہی کا نام ہے ،ورنہ اگلے لوگوں نے کہا بات کہنے سے چھوڑ دی ہے اب شاعر کا کمال یہی ہے کہ کہی ہوئی بات اس طرح کہے کہ سننے والا سمجھے کہ یہ بات پہلے نہ سنی تھی یا اس انداز سے کسی نے نہ کہی تھی۔آغا شاعر کی جدت ادا اور دو اک جگہ دیکھے

 جاتے ہو تم کدھر صف محشر میں خیر ہے

دامن نہ ہو خدا کے لئے دھجیاں کہیں

مری وحشت کو یہ بیتا یہاں ہیں

ذرا دیکھوں ،سیا دامن کہاں سے

یہ چمن کا ہی تصور کہ قفس میں پہروں

ڈالیاں جھومتی ہیں مرغ گرفتار کے پاس

ایسا نیم نگاہی میں بھی ہے برق کا عالم

کیا جانے کہا کیا تری شوخی نے حیا سے

دوسرے مصرعوں کے انداز بیان دیکھئے کہ اک ذرا نئی طرز سے بات کہہ کر مضمون میں تازگی پیدا کر دی۔کہنا تھا کہ پہلے طبیعت میں حیا تھی اب شوخی آ گئی ہے ،اس نے تڑپا رکا ہے شعر کو پھر پڑھ کر دیکھئے کہ اس بات کو کس طرح کہا ہے۔

دوسرے شعر میں جوش وحشت کو بیان کرنا تھا،لیکن کیا خوب کہا ہے۔اس بیتابی کی کیا ٹھیک ہے کہ وحشت منتظر ہے کہ ’’ذرا دیکھوں سیا دامن کہاں سے‘‘ ادھر سنئے ادھر چاک کر دوں۔اب بغیر تعیین مضامین اور توجیہ بیان کے آغا صاحب کے چند منتخب شعر پیش کرتا ہوں۔

دم نکلا صبح تک شام الم

حسرتوں نے رات بھر پہرا دیا

کعبہ سے دیر،دیر سے کعبہ

مار ڈالے گی راہ کی گردش

تم کیا سنو گے،واہ،استمگر کیا ہیں

ہاں کوئی اہل درد ہو،پتھر سے کیا کہیں

پھرتا نہیں کبھی جو کسی طرح دن پھریں

یہ بھی تری نظر ہے مقدر سے کیا کہیں

سدھاریں بھلا آپ کیا دیکھتے ہیں

جنازہ کسی کا ،تماشہ کسی کا

آدمی آدمی سے ملتا ہے

بات کرنی تو کچھ گناہ نہیں

روز فرماتے ہیں ہم چاہیں تو مٹ جاؤ ابھی

دیکھنا کیا مری تقدیر سے بنے بیٹھے ہیں

تلون کی حکومت ہے تو شوخی کا زمانہ ہے

نگاہ یار میں آئے،مزاج یار میں آئے

تم نہ سمجھے تھے کہ مایوسیاں کیا کرتی ہیں

ہم نہ کہتے تھے کہ بیمار کوئی دم میں نہیں

دلفریبی لالہ رویوں کی نہیں مٹتی کبھی

یہ ستمگر خاک ہو کر بھی تو گل بوٹے ہوئے

چاہنے والے تری فرقت میں جی سکتے ہیں

زندگی سے ہیں وفاداروں کیجے چھوٹے ہوئے

انکار گر یہ پر مرے کس ناز سے کہا

آنسو نہیں پونچھتے ہو آستین سے کیا

چادر چڑھائی چاک گریباں نے پھول سی

لاکھوں بناؤ دے گئیں یہ دھجیاں مجھے

لو آئ، میں بتاؤں طلسم جہاں کا راز

جو کچھ ہے سب خیال کی مٹھی میں بند ہے

رنج و خوشی ، ہر اس و تمنا سب ایک ہیں

چولے بدل رہا ہے یہ پتلہ خیال کا

خیال ا بروئے پر خم سے اک تصویر پیدا ہے

ذرا تم سامنے آنا کہ ہم نے چاند دیکھا ہے

اس شعر پر اردو شاعری کو فخر و ناز ہے اس خوبی بیان کو جدت ادا کہتے۔جدت ادا کی ایک مثال دیکھئے

ادھر جو دیکھتا ہے وہ ادھر بھی دیکھ لیتا ہے

ذرا تم سامنے آتا کہ ہم نے چاند دیکھا ہے

یہ مضمون درجنوں شاعروں نے لکھا ہے لیکن اس طرح شاید ہی کسی نے کہا ہو۔ شاعری اصل میں جدت بیان ہی کا نام ہے ورنہ اگلے لوگوں نے کیا بات کہنے سے چھوڑ دی ہے۔ اب شاعر کا کمال یہی ہے کہ کہی ہوئی بات اس طرح کہے کہ سننے والا سمجھے کہ یہ بات پہلے نہ سنی تھی یا اس اندازہ سے کسی نے نہ کہی تھی۔ آغا شاعرؔ کی جدت ادا اور دو ایک جگہ دیکھئے۔

 جاتے ہو تم کدھر صف محشر میں خبر ہے

دامن نہ ہو خدا کے لئے دھجیاں کہیں

مری وحشت کو یہ بتیا یہاں ہیں

ذرا دیکھوں ، سیہ دامن کہاں ہے

 یہ چمن کا ہے تصور کہ قفس میں پہروں

ڈالیاں جھومتی ہیں مرغ گرفتار کے پاس

اب نیم نگاہی میں بھی ہے برق کا عالم

کیا جانے کہا کیا تری شوخی نے حیا سے

 دوسرے مصرعوں کے انداز بیان دیکھئے کہ اک ذرا نئی طرز سے بات کہہ کہ مضمون میں تازگی پیدا کر دی۔ کہنا تھا کہ پہلے طبیعت میں حیا تھی اب شوخی آ گئی ہے۔اس نے تڑپا رکھا ہے شعر کو پھر پڑھ کر دیکھئے کہ اس بات کو کس طرح کہا ہے۔

 دوسرے شعر میں جو ش وحشت کو بیان کرنا تھا لیکن کیا خوب کہا ہے۔ اس بیتابی کی کیا ٹھیک ہے کہ وحشت منتظر ہے کہ ’’ذرا دیکھوں سیاس دامن کہاں سے‘‘ ادھر سنئے ، ادھر چاک کر دوں۔

اب بغیر تعیین مضامین اور توجیہ بیان کے آغا صاحب کے چند منتخب شعر پیش کرتا ہوں۔

دم نہ نکلا صبح تک شام الم

حسرتوں نے راب بھر پہرا دیا

 کعبہ سے دیر ، دیر سے کعبہ

 مار ڈالے گی راہ کی گردش

 تم کیا سنو گے ، واہ ستمگر سے کیا کہیں

ہاں کوئی اہل درد ہو پتھر سے کیا کہیں

پھرتا نہیں کبھی جو کسی طرح دن پھریں

 یہ بھی تری نظر ہے قدر سے کیا کہیں

 سدھاریں بھلا آپ کیا دیکھتے ہیں

 جنازہ کسی کا تماشہ کسی کا

 آدمی آدمی سے ملتا ہے

 بات کرتی تو کچھ گناہ نہیں

روز فرماتے ہیں ، ہم چاہیں تو مٹ جاؤ ابھی        

 دیکھتا کیا مری تقدیر بنے بیٹھے ہیں

 تلون کی حکومت ہے تو شوخی کا زمانہ ہے

 نگاہ یار میں آئے مزاج یار میں آ گئے

تم نہ سمجھے تھے کہ مایوسیاں کیا کرتی ہیں

 ہم نہ کہتے تھے کہ بیمار کوئی دم میں نہیں

 دلفریبی لالہ رویوں کی نہیں ہٹتی کبھی

 یہ ستمگر خاک ہو کر بھی تو گل بوٹے ہوئے

 چاہنے والے تری فرقت میں جی سکتے ہیں

زندگی سے ہیں وفاداروں کے جی چھوٹے ہوئے

 انکار گریہ پر مرے کس نا ز سے کہا

 آنسو نہیں پونچھتے ہو آستین سے کیا

 چادر چڑھائی چاک گریبان نے پھول سی

 لاکھوں بناؤ دے گئیں یہ دجھیاں مجھے

 لو آؤ ، میں بتاؤں طلسم جہاں کا راز

 جو کچھ ہے سب خیال کی مٹھی میں بند ہے

رنج و خوشی ، ہراس و تمنا سب ایک ہیں

 چولے بدل رہا ہے یہ پتلہ خیال کا

 آخر کے دور شعروں میں ایک بات دو طرح کہی ہے ، دونوں انداز خوب ہیں۔ یہ جدت ادا آغا صاحب کے استاد فصیح الملک جہاں استاد نواب مرزا داغ کا دو کمال ہے جو لطف زبان کے ساتھ مل کر اس قدر دلکش اور اتنی کثرت سے مشکل سے کسی دوسرے استاد کے کلام میں موجود ہے۔ خود آغا شاعر اپنے استاد کی اس خصوصیت کا ذکر اپنے رسالہ آفتاب میں ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

 ’’وہ قادر الکلام تھے اور ایسی اچھوتی طبعیت لے کر آئے تھے جس کا شائبہ بھی کسی پر نہ پڑ سکا۔ ‘‘

 یہ فقرہ آغا صاحب کے اخلاق کا بھی آئینہ ہے۔ آغا کا استاد سے کمال محبت و کمال ادب اور کمال سخن فہمی و کمال انکسار دیکھئے کہ استاد کی اچھوتی طبعیت کا شائبہ نہ پڑنے میں اپنی ذات کو بھی شامل کر لیا اور صداقت اور اخلاق جرات کے ساتھ یہ بات کہہ دی۔ حضرت داغ کے کتنے شاگرد گزرچ کے اور کتنے اب موجود ہیں۔ شاید کوئی ایک آدھ حضرت مولانا احسن مارہروری جیسا نیک نفس قلب سلیم اور ذوق صحیح والا ایسا ہو جو آغا شاعر کی تائید کر ے۔ ورنہ ہر شخص کو استاد داغ کی جانشینی کا دعویٰ ہے۔

 اس سلسلے میں آغا صاحب کے اس مضمون کا جس کا ایک فقرہ نقل ہوا ) ذکر و اقتباس دلچسپی سے خالی ہو گا۔ آغا صاحب کے متعلق کوئی مقالہ لکھا جائے تو اس میں ان کی نثری نگاری کا بھی ذکر ضروری ہے میری پاس اتفاق سے ان کی کوئی تصنیف موجود نہیں۔ نہ کوئی ناول ، نہ فسانہ ، ڈراما ان کے رسالہ آفتاب کا ایک پرچہ موجود ہے۔ اس میں آغا صاحب کا ایک نہایت دلچسپ مضمون ہے اس کا کچھ انتخاب درج کرتا ہوں جس سے آغا صاحب کی دلکش تحریر کا نمونہ بھی نظر کے سامنے آ جائے گا اور خود آغا صاحب اور ان کے استاد کے بعض اخلاق و حالات پر بھی روشنی پڑے گی۔ آغا شاعر نے آفتاب میں ایک سلسلہ مضامین شروع کیا تھا جس کا موضوع اس کے عنوان سے ظاہر ہے یعنی ’’بزم داغ کے جشم دید نقوش ‘‘ اس مں ی ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں۔

استاد مرحوم کے ارشد تلامذہ

بہ استثنائے اعلیٰ حضرت (یعنی حضور نظام میر محبوب علی خاں بہادر) استاد بہادر کے ارشد تلامذہ اس وقت صرف انگلیوں پر گنے جاتے تھے۔ یعنی مولانا عبد الحئی بیخود ، منشی نسیم ، سید وحید الدین بیخود ، دہلوی ، بھایا ، رامچندر صاحب عیش ، برادر گرامی قدر سید احسن مار ہروی ، نواب عزیز بار جنگ بہادر ، جناب آزاد ، جناب بارق ، جناب ضیاء ، جناب شاہی گورگانی ، فیروز شاہ خاں رامپوری اور جناب رسا مرحوم ، میاں نوح ناروی ، اس وقت تو سبق آموز تھے۔ نواب سراج الدین سائل دہلوی اس وقت اتنے مقرب نہ تھے گو بلدے ہی میں تشریف رکھتے تھے۔ اور معیار الانشاء کے دو ایک نمبر بھی آپ کے قلم سے نکل چکے تھے مگر ان کے مقرب خاص ہوتے ہی استاد کا وصال ہو گیا۔ بس اللہ اللہ خیر صلا ّ۔ اس کے بعد جس قدر پیداوار بڑھی یہ سب استاد کا تصرف ہے ‘‘

 آغا شاعر نے یہ ذکر ۱۹۰۳ ء کا لکھا ہے۔ جیسا کہ اسی مضمون کے ایک اور فقرے سے معلوم ہوتا ہے یعنی کلام پر اصلاح دینے کے سلسلے میں مرزا داغ نے کہا ہے ’’اب میں بہتر برس کی عمر میں ان کے مصرعوں کے لئے دست و گریبانی کہاں سے لاؤں۔‘‘ داغ ۱۸۳۱ ، میں  پیدا ہوئے تھے اور اس ذکر سے دو سال بعد فروری ۱۹۰۵ ء میں انتقال فرما گئے۔

 یہ مسئلہ بھی یعنی کسی استاد سے فیض پانا اور اس کی جانشینی کا مستحق ہونا تاریخ شاعروں کا ایک دلچسپ باب و عنوان ہے۔ کسی شاعر اور اس کی شاعری کا مطالعہ اس پہلو سے بھی کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں اسی رسالہ آفتاب بابت اکتوبر ۱۹۲۱ء کے ایک دوسرے مضمون میں منشی نسیم بھرت پوری نے آغا شاعر کی تائید ان الفاظ میں کی ہے۔ ’’استاد داغ مرحوم کے تصرفات بھی عجیب و غریب ہیں۔ ان کی زندگی میں ان کے ارشاد تلامذہ کے نام انگلیوں پر گنے جاتے تھے۔ ’’یاد گار داغ اس کی شاہد عینی موجدو ہے مگر ان کے مرتے ہیں اب ان کے نام لیوا سیکڑوں گمنا و نشان برساتی کیڑے پید ا ہو گئے جو ایسے سعید شاگرد بنے ہیں کہ بجائے تعریف کے الٹا استاد مرحوم کو بدنام کرتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں ہم کو خواب میں یہ سند عطا ہوئی۔ بعض مجہول الاحوال خانہ ساز دمدار خطابوں کے پنچھلے لٹکا کر خود ہی اتراتے ہیں … ہم تو ان مرفعو القلم حضرات سے صرف اتنا پوچھتے ہیں کہ جانشینی و عدم جانشینی ہے کیا چیز ؟

کیا کسی کا جانشین کسی کے کہہ دینے سے کوئی بن سکتا ہے۔ داغ صاحب کو کس نے جانشین بنایا ؟ ذوق مرحوم کس کے بنائے سے خاقانی ہند بنے ، اور شاہ نصیر دہلوی کو ان کے مرتبے تک آخر کس نے پہنچایا ؟ حضرات! دنیا میں کمال کی قدر ہوتی ہے اور کمال بغیر خد ا کی دین کے میسر نہیں آ سکتا۔

 ہر زہ مشتاب دریں رہ کہ بسان توضعیف

 صورت کربک شب تاب ہزار آمدو رفت

 یہ درمیان میں شاعرانہ اخلاق و آداب کا ایک رخ آگیا تھا آغا شاعر نے اپنے اسی مضمون بزم داغ میں اپنے اور استاد داغ کے تعلقات شاعری کا ذکر کرتے ہیں۔ استاد کا ادب اور وقار میں استاد کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا ، جیسے غلام آقا کے سامنے یا گنہگار حاکم وقت کے روبرو ، لرزتا ، کانپتا ، تھراتا اور کبھی بجز ضروریات کے کوئی کلمہ میری زبان سے نہ نکلتا تھا۔ جو کچھ پوچھنا تھا پوچھا جو پوچھا وہ عرض کیا۔ باقی وقت خاموش۔ اور یہی حال ان کا تھا وہ بھی مجھے شیر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ میں حاضر ہوا ہوں ، کمرے میں قہقہے اڑ رہے ہیں اور جہاں میں نے اندر قدم رکھا لب فرش پہنچ کر آداب بجا لایا۔ اور سب سے فروتر بیٹھ گیا اور وہی مقام پھر اس طرح سنسان اور خاموش تھا جیسے وہاں کوئی ذی روح نہیں۔ میری ذاتی اصلاح :  میری اصلاح کیا ہوتی تھی گویا جنگ عظیم کا ایک الٹی میٹم ہوتا تھا۔ادھر حضرا گوش بر آواز ، ادھر میں خوف سے لرزاں اور لب تشنہ مطالب ادھر استاد کو معمول سے زیادہ کاوش مطلوب ، تیوری چڑھی ہوئی ہے ایک بھوں ماتھے تک کھینچ کر جا پہنچی ہے اور جتنا بلند سے بلند شعر ہوتا تھا ، بگڑ بگڑ کر فرماتے۔ آگے چلو جی اور جہاں ذرا سا بھی سقم نظر آگیا بس برس پڑے۔ قیامت برپا کر دی۔ ‘‘ یہ کیا ؟ صاحب یہ کیا ؟ ذرا پھر عنایت کیجئے ، ماشا ء اللہ! سبحان اللہ یہ آپ نے لکھا ہے ؟ ‘‘ غرض جان چھڑانی مشکل ہو جاتی۔ اس سرزنش اور معاصرین کی موجودگی کا اس درجہ خوف ہوا تھا کہ ایک ایک مصرع پر جان لگا دینی پڑتی تھی جب جا  کر وہ فرماتے تھے کہ آگے چلو ، آگے چلو ، ہاں البتہ جن مصرعوں پر مصرع لگانا میرے بس کا روگ نہ ہو گا۔ وہ بیشک میں چن کر لے جاتا تھا اور بعض اوقات انہیں کی اصلاح میں انہیں سخت کاوش کرنی پڑتی تھی اور انہیں پر وہ اکثر منغض بھی ہو جاتے تھے بار بارہ پہلو بدلتے ادھر تکیہ لگاؤ۔ ادھر تکیہ لگاؤ۔ پھر پڑھو اور پھر پڑھو۔ کیا مصرع۔ بکا ہے ، کیا لغو بندش ہے۔ یہ ہمارے پاس اصلاح لینے تھوڑا ہی آتے ہیں۔ یہ تو ہمارا امتحان لیتے ہیں صاحب۔

 باہر کے شاگردوں کے کلام پر اصلاح دینے کی صورت یہ بیان کرتے ہیں۔ اصلاح کی ترکیب : آپ پلنگڑی پر لیٹے ہیں یا  گاؤ تکیہ سے لگے بیٹھے ہیں ، چاروں طرف مستعد تلامذہ کا جھر مٹ ہے اور ایک صاحب غزلوں کا تھبہ سامنے رکھے قلم ہاتھ میں لئے ایک ایک غزل پڑھتے جاتے ہیں۔ حاضرین ہر شعر کو غور سے سماعت فرماتے ہیں اور مناسب موقع پر اپنی اپنی رائے کے پرتو سے لقمہ بھی دیتے جاتے ہیں۔ اگر اس مشورے سے استاد کی  رائے کو بھی اتفاق ہو گیا تو وہی الفاظ اس غزل میں بنا دئے گئے۔ ورنہ جو استاد نے بطور خود ایما فرمایا بجنسہ وہ اس مقام پر جڑ دیا گیا۔  اس طرح اصلاح کی اصلا ح ہو جاتی تھی اور آپس کے تبادلۂ خیالات سے معلومات کا دائرہ بھی وسیع ہو جاتا تھا۔‘‘  اس مضمون کے بعض کے اور حصے بھی قابل نقل ہیں لیکن وہ ان سے زیادہ طویل ہیں اور مضمون اب بھی کافی جگہ لے چکا ہے اس لئے ختم کرتا ہوں آفتاب کے اس پرچے میں حاشیئے پر آغا شاعر کے قلم کی چند سطریں لکھی ہوئی ہیں اور ان کے انگریزی میں دستخط بھی ہیں۔

٭٭٭

 

مصنف کے تشکر کے ساتھ جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔