اپنے ممّی پاپا کے نام
کہ جن کی شفقتیں، محبتیں، نالۂ نیم شبی اور دعائے سحر گاہی
میرے اس علمی و تحقیقی کام کے دوران شجرِ سایہ دار بنے
شمسی، قمری، انجمی اور موسمی تغیر و تبدّل کو اپنے بدن پر اوڑھے ہر لمحہ سایہ گُستر رہیں۔
اور
اُن کی بہو سُمیّہ کے نام
کہ جس کی مخلصانہ محبت و رفاقت ہر لمحہ میرے حوصلوں کو بلندی
اور میرے عزائم کو پختگی عطا کرتی ہے۔
محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
قائم رہے ہمیشہ یہ جذبۂ محبت
نام : محمد حسین
قلمی نام: محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
والد کا نام : عبدالرشید برکاتی
والدہ کا نام: خدیجہ حجن
گھر جنت: سُمیّہ ثمرین
دختران: مُصفّامیمونہ، مزکّا تسنیم
ولادت: محرم الحرام 1400ئ/دسمبر1979ء
مقامِ ولادت : مالیگاؤں، ضلع ناشک، مہاراشٹر
تعلیمی لیاقت: ایم۔ اے، ڈی۔ ایڈ، پی۔ ایچ۔ ڈی(اردو)، یوجی سی -نیٹ(اردو)،
دیگر تعلیمی لیاقت: 2؍ سالہ خوش نویسی و خطاطی کورس، زیرِ اہتمام قومی کونسل برائے
فروغِ اردو زبان، د ہلی ڈی۔ ٹی۔ پی کورس
پی۔ ایچ۔ ڈی کا موضوع:مصطفی رضا نوریؔ بریلوی کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ
یونی ورسٹی کا نام: ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونی ورسٹی، اورنگ آباد، مہاراشٹر، ہند
نگراں کا نام : محترمہ ڈاکٹر شرف النہار صاحبہ، صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر رفیق زکریا کالج فور ویمن، اورنگ آباد، مہاراشٹر
مشاغل: سیرت، قرآنیات، احادیث، شاعری، تنقید و تحقیق، ادب اور مذہبی ادب کا مطالعہ
ملازمت: ضلع پریشد اردو پرائمری اسکول، نیاے ڈونگری، تعلقہ ناندگاؤں
ضلع ناشک (2002ء سے تاحال)
ادبی سرگرمیاں : ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی کو شعر و ادب میں اردو ادب سے عموماً اور مذہبی ادب سے خصوصاً دل چسپی اور شغف ہے۔ نثر و نظم دونوں اصنافِ ادب میں طبع آزمائی کرتے۔ ہیں اردو کے اُبھرتے ہوئے عمدہ نعت گو شاعر، قلم کار اور نعتیہ ادب کے جواں سال محقق و ناقد میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ آپ کا طرزِ تحریر انتہائی دل نشین، شگفتہ اور سلیس ہے، مذہبی، اصلاحی، سماجی، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اب تک درجنوں تحقیقی و تنقیدی اور تجزیاتی مضامین و مقالات نہ صرف مقامی اخبارات بل کہ ملکی و بین الاقوامی اخبارات و رسائل اور جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ یہی نہیں بل کہ موصوف کے کئی اہم مضامین کے دوسری زبانوں میں تراجم بھی ہوئے ہیں۔ شاعری میں موصوف نے حمد و مناجات و دعا، نعت گوئی، سلام، اولیائے کرام کی شان میں مناقب نگاری اور مقتدر علمائے کرام کے لیے نذرانۂ عقیدت کو اپنا مطمحِ نظر بنایا۔
انعامات و اعزازات:
(1) بارہویں جماعت میں اردو مضمون میں ٹاپ(1997 ) ایوارڈ من جانب مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی، ممبئی
(2) مقابلۂ خوش نویسی میں دوم انعام(1998) منعقدہ من جانب ادارۂ فیض القلم، مالیگاؤں
(3)تقریری مقابلے میں اول انعام ( 1998) منعقدہ من جانب اے ٹی ٹی ہائی اسکول کلچرل کمیٹی، مالیگاؤں
(4)بیسٹ کیلی گرافر اِن اردو(1999) من جانب الا انصار ایجوکشنل سوسائٹی، ہزار کھولی، مالیگاؤں
(5)بی۔ اے میں اردو مضمون میں ٹاپ(2002) ایوارڈ من جانب مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی، ممبئی
(6)ایم۔ اے میں اردو مضمون میں ٹاپ(2004)ایوارڈ من جانب مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی، ممبئی
(7)ایوارڈ من جانب کل ہند تنظیمِ اردو اساتذہ ناشک ڈیویژن، برائے ادبی و تدریسی خدمات (2009)بہ دست محترم اطہر پرویز صاحب
(8) حجۃ الاسلام ایوارڈبر ائے پی۔ ایچ۔ ڈی(2011) من جانب تنظیم نوجوانانِ اہل سنت، اورنگ آباد
(9)بیسٹ اکیڈمک اچیومنٹ برائے پی ایچ ڈی(2011) بہ دست محترم ڈاکٹر اے جی خان صاحب (بی سی یو ڈی، مراٹھواڑہ یونی ورسٹی اونگ آباد)
(10) فخرِ سنیت ایوارڈ برائے پی ایچ ڈی(2011)من جانب رقیہ حجن ایجوکیشنل سوسائٹی، مالیگاؤں بہ دست حضرت مفتی مجیب اشرف صاحب قبلہ
(11) وقارِ قلم ایوارڈ برائے پی ایچ ڈی(2011) من جانب ترقی اردو ہند، شاخ مالیگاؤں و اردو لائبریری ٹرسٹ، مالیگاؤں
(12) فیضانِ رشید ایوارڈبرائے پی ایچ ڈی، (2011) من جانب نوجوانانِ بزمِ حق، نیاے ڈونگری
(13)اعزاز من جانب مہاراشٹر راجیہ پراتھمک شکشک سنگھ شاخ ناند گاؤں برائے پی ایچ ڈی، (2011)بہ دست مسٹر پنکج بھجبل ایم ایل اے، ناندگاؤں
(14)توصیفی سند، سپاس نامہ و اعزاز برائے پی ایچ ڈی، (2011)من جانب جامعہ غوثیہ نجم العلوم، ممبئی
مطبوعات:
(1)چہل حدیث مع گلدستۂ احادیث2004ء
(2)اردو کی دل چسپ اور غیر معروف صنعتیں 2005ء
(3)لمعاتِ بخشش(نعتیہ دیوان)2009ء
(4)تذکرۂ مجیب2010ئ
(5)عملی قواعدِ اردو2010ء دوسرا ایڈیشن 2011ء
(6)نثرِ رضا کے ادبی جواہر پارے2010ء
(7)سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی خوش طبعی2011ء
(8)جنگِ آزادی 1857ء کا فتوائے جہاد اور علامہ فضل حق کا قائدانہ کردار2011ء
(9)تشطیراتِ بخشش(شعری مجموعہ)2011ء
(10)شادی کا اسلامی تصور2011ء
(11)پھنس گیا کنجوس( ادبِ اطفال، مراٹھی کہانیوں کا ترجمہ)
(12)اقلیمِ نعت کا معتبر سفیر۔۔ نظمی مارہروی
(13)گلشنِ اقوال
(14)رہنمائے نظامت
(15) حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ
(16)جگا ڈاکو اور جادوئی غار
(17)سلطان ٹیپو
(18)میلاد النبی ﷺ اور علمائے عرب
(19)حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا
(20)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
زکوٰۃِ حُسن دے اے جلوۂ بینش کہ مہر آسا
چراغِ خانۂ درویش ہو کاسہ گدائی کا
(غالبؔ )
بفضلِ خدا و رسول( جل و علا و صلی اللہ علیہ و سلم )دسمبر 2003ء کی بات ہے جب میری تعلیمی ترقی میں ایک نیا موڑ آیا۔ یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC)کے زیرِ اہتمام منعقدہ ملک گیر سطح کے مقابلہ جاتی امتحان نیشنل ایجوکیشنل ٹیلنٹ(NET)میں مجھے تمغۂ کام یابی و کام رانی حاصل ہوا۔ بعدہ2004ء میں پونہ یونی ورسٹی سے ایم۔ اے۔ (اردو )کی تکمیل ہوئی۔ تو میرے ذہن و قلب میں یہ خواہش انگڑائیاں لینے لگی کہ اب مجھے کوئی تحقیقی کام کرنا چاہیے۔ چناں چہ میں نے اپنی پسندیدہ شخصیت ’’امام احمد رضا بریلوی‘‘ کے روشن و درخشاں افکار و نظریات کو پیشِ نظر رکھ کر کسی موضوع کے تعین کی طرف پیش قدمی کی۔ اسی دوران مجھے حضرت علامہ پروفیسر ڈاکٹر سید محمد امیٖن میاں صاحب قبلہ مارہروی(پروفیسر شعبۂ اردو مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ)سے شہر جل گاؤں میں ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اثنائے گفتگو راقم نے آپ کی خدمتِ والا بابرکت میں پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کرنے اور موضوع سے متعلق مودّبانہ معروضہ پیش کیا، تو آپ نے ’’حضور مفتیِ اعظم علامہ شاہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی کی حیات و خدمات اور نعتیہ شاعری‘‘ کے حوالے سے تحقیقی کام کرنے کا مفید ترین مشورہ عنایت فرمایا، ساتھ ہی خصوصی دعاؤں سے بھی نوازا۔ میں جلگاؤں سے اس یقین و اعتماد کے ساتھ وطنِ مالوف مالیگاؤں لوٹا کہ اب میرا تحقیقی کام ان شآء اللہ شروع ہو کر کامیابی کی منزل سے ضروٗر ہم کنار ہو گا، کیوں کہ ایک’’ نجیب الطرفین سید زادے ‘‘ کی دعائیں اور شفقتیں میرے سر پر سایہ فگن ہیں۔
اسی دوران ملک العلما(خلیفۂ امام احمد رضا)کے اکلوتے فرزندِ ارجمند تنویرِ عرب، توقیرِ عجم حضرت پروفیسر ڈاکٹر سیدمختارالدین احمد آرزوؔ علیہ الرحمۃ (سابق صدر شعبۂ عربی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) (م1431ھ/2010ء)کا تحریر فرمودہ محبت نامہ راقم کے گھر تشریف فرما ہوا، جس میں حضرتِ اقدس نے یوں مشفقانہ کرم نوازی فرمائی کہ :
’’یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ اور آپ کے رفقا دینی و علمی کاموں میں مصروف ہیں، یہ علم ہی کی خدمت ہے اوراس کے لیے ضروری ہے کہ اچھا کتب خانہ ہو۔ مسرت ہوئی کہ آپ اس طرف متوجہ ہیں، اچھے کتب خانے کے بغیر اچھی اور معیاری کتابیں نہیں لکھی جا سکتیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کچھ نہ کچھ لکھتے رہیں۔ مطالعہ اور موضوع وسیع رکھیں۔ مجھے آپ کی آیندہ ترقیوں کے بارے میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آپ ریسرچ کر کے ڈاکٹریٹ کر لیں۔ ‘‘
(مکتوب ڈاکٹر مختار الدین احمد آرزوؔ بنام راقم محررہ4؍ جنوری2005ء، از:علی گڑھ)
حضرت علامہ پروفیسر ڈاکٹر سید محمد امین میاں صاحب مارہروی اور حضرت پروفیسر ڈاکٹر سیدمختارالدین احمد آرزوؔ جیسی عظیم نابغۂ روزگار اور یادگارِ سلف روحانی و علمی مقدس ہستیوں کے مفید و نیک مشوروں اور حوصلہ افزائیوں کے زیرِ سایہ راقم نے ڈاکٹر عبداللطیف سبحانی صاحب(شعبۂ اردوٗ گورنمنٹ کالج، اورنگ آباد)کی نگرانی میں ’’ہندوستان میں اردو کی نعتیہ شاعری اور مصطفی رضا نوریؔ بریلوی کا حصہ ‘‘عنوان کے تحت ’’ناگ پوٗر یونی ورسٹی ‘‘ میں رجسٹریشن کے لیے درخواست دی، لیکن رجسٹریشن نہ ہوسکا۔ مگر حوصلہ بلند تھا، یقین پُختہ تھا۔ موصوف ہی کی نگرانی میں دوبارہ ’’ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونی ورسٹی، اورنگ آباد ‘‘ میں متذکرۂ بالا موضوع کے تحت میں نے رجسٹریشن کی درخواست دی، مگر اس مرتبہ بھی وائے محرومیِ قسمت کہ رجسٹریشن نہ ہوسکا۔ (دراصل نعت کو صنف ادب کی حیثیت سے تسلیم کرنے میں بہت سارے ناقدین کا رویہ انکاری ہے) اس دوران جو خاکہ مرتب کیا گیا تھا اُسے اصلاح و نظرِ ثانی کے لیے ناچیز نے حضرت پروفیسر ڈاکٹر سیدمختارالدین احمد آرزوٗؔ علیہ الرحمہ کو ارسال کیا تھا۔ حضرتِ اقدس نے اُسے ملاحظہ فرما کر ایک مکتوبِ گرامی کے ذریعہ دوبارہ رہنمائی فرمائی کہ :
’’مقالے کا خاکہ دیکھا، مناسب ہے۔ آپ محنت کر کے نگراں کے مشوروں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مقالہ کا پہلا ڈرافٹ تیار کر لیجیے، بعد میں حک و اصلاح، ترمیم و اضافہ کرتے رہیے گا، موضوع پر مواد کی کمی نہیں، بریلی، بمبئی، لاہور، کراچی کے علما و محققین سے رابطہ رکھیے اور کتب و رسائل جو آپ کے لیے ضروری ہوں منگواتے رہیے۔ ‘‘
(مکتوب ڈاکٹر مختار الدین احمد آرزوؔ بنام راقم محررہ23؍ اگست 2005ئ، از:علی گڑھ)
ڈاکٹر آرزوٗ علیہ الرحمہ کے مشوروں سے مختلف محققین سے رابطہ استوار کرنے کی راقم نے کوشش کی اس ضمن میں ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی صاحب (بریلی شریف) نے مواد کی فراہمی میں انتہائی فراخ دلانہ و مخلصانہ تعاون فرمایا۔ لیکن رجسٹریشن نہ ہونے کے سبب میں دل برداشتہ ہو گیا، لیکن جب اِن حوصلہ شکن واقعات سے میں نے جواں سال، با عزم و پُر ہمت، صاحبِ علم و فضل محقق و مصنف حضرت مولانا ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی صاحب (ممبئی)کو آگاہ کیا تو انھوں نے میری بے حد حوصلہ افزائی فرمائی برابر ٹیلی فونک رابطہ قائم رکھا۔ ایک مرتبہ فرمایا کہ تحقیق کے راستے میں آرام کم اور تکالیف زیادہ ہیں، اپنوں کی بے اعتنائیاں اور غیروں کی رکاوٹیں جھیلنے کا مادّہ پیدا کیجیے اور صبر و ضبط سے کام لیتے رہیے۔ اللہ رب العزت جل و علا بڑا کارساز ہے۔ اور جب آپ کے مقدر میں ہو گا تب ہی یہ کام شروع ہو کر پایۂ تکمیل تک پہنچے گا کیوں کہ ؎
اے رضاؔ ہر کام کا اک وقت ہے
دل کو بھی آرام ہوہی جائے گا
اسی اثنا میں ماہرِ رضویات علامہ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقش بندی مجددی(کراچی) نے اپنے ایک شفقت نامہ کے ذریعہ ہمت بڑھائی اور دعاؤں سے نوازا۔ جب آپ ہندوستان تشریف لائے تو فون پر گفتگوٗ بھی فرمائی اور میرے ارادوں پر مسرت و شادمانی کا اظہار کرتے ہوئے حوصلہ افزا ملفوظاتِ حسنہ سے سرفراز کیا۔
انھیٖں بزرگوں کی پیہم پذیرائیوں اور حوصلہ افزائیوں سے چند سال بعد ڈاکٹر عبداللطیف سبحانی صاحب ہی کے توسط سے ناچیز نے محترمہ ڈاکٹر شرف النہار صاحبہ (صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر رفیق زکریا کالج فور ویمن، اورنگ آباد ) کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنا مقصد و مدعا بیان کیا، آپ نے شفقت فرماتے ہوئے میرے مقالے کی نگرانی کی ذمہ داری کو قبول فرمالیا، چناں چہ آپ کی نگرانی میں نئے سرے سے موضوع میں معمولی ترمیم و تغیر کے بعد اجمالی خاکہ تیار کر کے ’’مصطفی رضا نوریؔ بریلوی کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ‘‘ عنوان متعین کرتے ہوئے 2008ء میں ’’ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونی ورسٹی، اورنگ آباد ‘‘ میں رجسٹریشن کے لیے درخواست پیش کی گئی ،مقامِ شکر و احسان کہ گائیڈ کی کوششوں سے ریسرچ کمیٹی کے مہربان اراکین نے اس موضوع کو تحقیق کے لیے منظور فرما لیا۔ رجسٹریشن ہو جانے کے بعد کام برق رفتاری سے شروع کر دیا گیا۔ اس دوران کیا کیا دشواریاں درپیش ہوئیں اس کا بیان کرنا غیر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ہاں ! اتنا ضرور عرض کروں گا کہ پھول کے ساتھ کانٹے بھی ملے، غیروں کا تو شکوہ کیا بعض اپنوں نے حوصلہ شکنی کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ مگر نعتِ مصطفی (صلی اللہ علیہ و سلم ) کے حوالے سے آپ(صلی اللہ علیہ و سلم ) کے ایک عاشقِ صادق، قطبِ دوراں علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی کی حیات و خدمات اور نعتیہ شاعری پر تحقیقی کام ہو رہا تھا، غیب سے مشکلات حل ہوتی گئیں اور کام آگے بڑھتا رہا۔ یہ بھی میری قسمت کی معراج ہی ہے کہ ’’دیر آید درست آید‘‘ کے مصداق اللہ رب العزت جل و علا نے میرے اس تحقیقی مقالے کی نگرانی کے لیے جس رہِ نما کو منتخب فرمایا وہ ساداتِ کرام سے تعلق رکھتی ہیں، اُن کے اہلِ خانہ کا خاندانِ برکات (مارہرہ مطہرہ) کے ساداتِ کرام سے دیرینہ روابط ہیں۔ لہٰذا محترمہ ڈاکٹر شرف النہار صاحبہ کی برکتوں اور شفقتوں سے بھی میری پریشانیاں اور کلفتیں کافور ہوتی گئیں اور بزرگوں کی نظرِ التفات اور دعائے خیر کے زیرِ سایہ بالآخر یہ تحقیقی کام پایۂ تکمیل تک پہونچ ہی گیا۔
راقم کا تحقیقی مقالہ آٹھ ابواب پر مشتمل ہے ،باب اول میں نعت کے لغوی اور اصطلاحی مفہوم کی وضاحت کی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ ہر وہ ادب پارہ جو قاری یا سامع کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف متوجہ کرے وہ نعت ہے چاہے و ہ نظمی ہو یا نثری۔
باب دوم میں نعت گوئی کے فن پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف قد آور علمائے ادب کے اقوال پیش کیے گئے ہیں۔ اس میں ضمنی عنوانات حزم و احتیاط موضوع اور من گھڑت روایتیں، نعت ہیئت -اصنافِ سخن، ضمائر کا استعمال کے تحت نعت، آدابِ نعت اور لوازماتِ نعت پر تحقیقی بحث کی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ نعت اصنافِ ادب میں سب سے محترم صنف ہے۔
باب سوم میں نعت گوئی کی تاریخ کا اجمالی جائزہ لیا گیا ہے اور تحقیق کی روشنی میں اس امر کو پایۂ ثبوت تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے کہ میثاق النبیین کے بعد حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک کسی نہ کسی طور نبیِ آخرالزماں صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکرِ جمیل ہوتا رہا ہے۔ ولادت و بعثت کے بعد نعت گوئی کو عروج حاصل ہوا۔ اس باب میں اوّلین نعت گو شعرا کی تحقیق کرتے ہوئے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جناب ابو طالب کو اوّلین نعت گو شاعر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
راقم نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ نعتیہ ادب کا طالبِ علم جب اس مقالے کو دیکھے تو اسے وافر مقدار میں تحقیقی مواد ایک ہی جگہ مل جائے اس لحاظ سے عربی، فارسی اور اردو کی نعتیہ شاعری کے علاوہ نعتیہ ادب کے فروغ و ارتقا میں دوسری زبانوں کی حصہ داری اور شراکت پر روشنی ڈالتے ہوئے انگریزی، فرانسیسی، جرمنی، بہاری، کر دی، مارواڑی، میواتی، سرائیکی، کشمیری، ہندکو، ہاوسا، سندھی، بنگالی، پشتو، پنجابی، دوآبے، ہریانوی، سنسکرت، گجراتی، ہندی، مراٹھی وغیرہ زبانوں میں تحریر کی گئی نعتوں کا ایک حسیٖن انتخاب بھی اس مقالہ میں جمع کر دیا گیا ہے۔ لیکن یہ بات بھی مسلم ہے کہ تحقیق ایک مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے اس لیے اس مقالہ کو حرفِ آخر نہ سمجھا جائے۔
باب چہارم میں ’’ ہندوستان میں اردو کی نعتیہ شاعری 1412ء سے حضرت نوریؔ بریلوی تک ‘‘عنوان کے تحت ہندوستان میں اردو کے ارتقائی عمل کو بیان کرتے ہوئے اس امر کی تحقیق کی گئی ہے کہ اردو زبان کے آغاز کے ساتھ ہی اردو میں نعت گوئی کا آغاز ہوا۔ ہندوستان میں اردو کی نعتیہ شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے اس باب میں اردو کے ارتقائی سفر کی طرح اردو نعت کے لسانی و ارتقائی مراحل، زبان کی شایستگی ا ور پختگی کو سمجھنے کے لیے فنِ اردو نعت گوئی کو تین ادوار میں منقسم کیاگیا ہے۔
(1) پہلا دور (815ھ/1412ء سے1154ھ/1750ء تک )
(2) دوسرا دور (1154ھ/1750ء سے 1308ھ/1890ء تک)
(3) تیسرا دور ( 1308ھ/1890ء سے حضرت نوریؔ بریلوی کے عہد تک)
تینوں ادوار پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے یہ واضح کیا گیا ہے کہ ان شعرائے کرام کے کلام کا یہ فکری کارواں پورے شعور و آگہی سے آگے بڑھتے ہوئے عصرِ حاضر کے شعرا کو ماضی کی جملہ امانتیں سونپ دیں۔ یہ انھیں حضرات کی کوششوں کا ثمرہ ہے کہ عصرِ حاضر کے ادبی منظر نامہ پر اردو نعت گوئی بے پناہ مقبول ہے اور آج نعتیہ شاعری میں نئے لہجے اور نئے رنگ و آہنگ کے ساتھ جدید علامتوں اور اشاروں کو بڑی فن کاری سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ اردو نعت گوئی کا یہ نہ رُکنے والا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ یہاں تک کہ بعض ناقدین اکیسویں صدی کو نعت گوئی کی صدی خیال کرتے ہیں۔
باب پنجم میں پانچ ضمنی عنوانات، (1) حیات نوریؔ بریلوی (2) علمی خدمات (3)ادبی خدمات (4) سیاسی خدمات (5) تدریسی خدمات کے تحت نوریؔ بریلوی کی حیات و خدمات پر بالتفصیل تحقیقی روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مقالے کا اصل موضوع مفتیِ اعظم حضرت نوریؔ بریلوی کی نعتیہ شاعری ہونے کے سبب آپ کی حیات و خدمات کے بعض اہم گوشوں کو اجاگر نہ کیا جا سکا۔ بہ ہر کیف! یہ اہلِ ذوق کو دعوتِ تحقیق دیتے ہیں کہ وہ ان پر مستقبل میں کام کریں۔
باب ششم میں کلامِ نوریؔ بریلوی کا بالتفصیل تحقیقی جائزہ لیتے ہوئے آپ کے کلام کے مختلف شعری و فنّی محاسن کو تحقیق کی روشنی میں اُجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس باب میں آپ کے دور میں نعت گوئی کے معیار اور اُس کی عام روش، آپ کی نعت گوئی کے آغاز، تخلیقی رویے، تصورِ عشق و فن، عقیدۂ توحید، خصائصِ رسالت صلی اللہ علیہ و سلم ، ترکیب سازی، شاعرانہ پیکر تراشی، لسانی و عروضی چاشنی، محاورات کا ستعمال، مشکل زمینوں اور موضوعات، خیال آفرینی، پیرایۂ زبان و بیان، صنائع و بدائع، تغزل کا رنگ و آہنگ، عربی، فارسی اور اردو کے ساتھ ہندی اور پورَبی زبان کی آمیزش اور رچاؤ نیز قرآن و حدیث، فقہ و تفسیر جیسے علوم و فنون کی رنگا رنگی وغیرہ شعری و فنّی محاسن کو نمایاں کیا گیا ہے۔
باب ہفتم میں حضرت نوریؔ بریلوی کے شعری و فنّی محاسن، آپ کے نعتیہ رُجحانات، خیالات اور افکار پر اہلِ علم و دانش نیز شاعروں، ادیبوں اور محققین و ناقدین نے اپنے جن گراں قدر تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے نوریؔ بریلوی کی شاعرانہ عظمت و رفعت کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ ان میں سے چند تاثرات یک جا کیے گئے ہیں۔ اسی طرح باب ہفتم میں ضمنی باب ’’نوریؔ بریلوی کی طرز کا اتّباع‘ کے تحت یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ آپ کے اسلوب اور طرزِ نگارش کو اختیار کرتے ہوئے آپ کے معاصرین اور متاخرین شعرا نے نعتیہ کلام قلم بند کیا ہے۔ مثال کے طور پر چند شعرا کی نعتیں اس باب میں جمع کی گئی ہیں۔
باب ہشتم میں ماحصل کے طور پر ماقبل ابواب کی روشنی میں نوریؔ بریلوی کے اسلوبِ نگارش، کلام کی خوبیوں، آپ کے نعتیہ رجحانات، خیالات اور افکار کی عالم گیر شہرت و مقبولیت کو واضح کرتے ہوئے یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ کی نعتوں میں تصوف و معرفت کی جو روح پنہاں ہے وہ ہماری قومی و ملی، تہذیبی و تمدنی اور علمی و ادبی ورثہ ہیں۔ جذبہ و فن کی وسعت، خیالات و محسوسات کی بلندی، مضامین و موضوعات کے تنوع اور مختلف علمی و ادبی اور شعری محاسن کے اعتبار سے اردو نعت گوئی کی تاریخ میں نوریؔ بریلوی کا مقام و مرتبہ بہت بلند و بالا اور ارفع و اعلا ہے۔ آج عالمِ اسلام میں نوریؔ بریلوی کے ذہن و فکر سے نکلے ہوئے نعتیہ سرمدی نغمات کی دھومیں مچی ہوئی ہیں اور آپ کے کلامِ بلاغت نظام قلبِ مُسلم پر نگراں ہیں اور فردوسِ گوش بنے ہوئے ہیں۔
علاوہ ازیں ضمیمہ کے تحت عصرِ حاضر میں اردو نعت گوئی کے اجمالی منظر نامہ کو بیان کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ عصرِ رواں میں نعت گوئی میں نت نئے تجربات ہو رہے ہیں۔ شعرائے کرام نو تراشیدہ اور خود وضع کردہ لفظی تراکیب، مترنم بحروں اور نئی ہیئت و سانچوں کو اندازِ نو سے برت رہے ہیں۔ ذات و کائنات کے مسائل، انسانی دکھوں، تکالیف، مصائب، آلام اور پریشانیوں کے مداوا کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حوالے سے نعتوں میں کی جا رہی ہے۔ نئے لہجے اور نئے رنگ و آہنگ کے ساتھ جدید علامتوں اور اشاروں کو بڑی چابک دستی سے برتا جا رہا ہے۔
اس مقام پر پہونچ کر مقالہ کی تیاری، مواد کی فراہمی اور قلمی و زبانی معاونت کرنے والوں نیز دعائے خیر سے نوازنے والوں کی خدمت میں ہدیۂ سپاس پیش کرنا راقم اپنا اہم ترین فریضہ تصور کرتا ہے۔ چناں چہ اس ضمن میں سب سے پہلے۔۔۔۔۔
اُس خالقِ کائنات عز و جل کے لیے ۔۔۔
جس نے لفظِ کُن سے لوحِ انسانی کو شکر و احسان کے پُر نور نشانات عطا کیے اور راقم کو اشرف المخلوقات بناتے ہوئے اُمّتِ محمدیہ(صلی اللہ علیہ و سلم ) میں پیدا فرما کر مجھے قرطاس و قلم اور تحقیق و جستجو کا حوصلہ بخشا اور اپنے محبوبِ اعظم صلی اللہ علیہ و سلم کی نعت گوئی کے حوالے سے اپنے ایک نیک بندے کی نعتیہ شاعری پر تحقیقی کام کرنے کی قوت عطا فرمائی۔
مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم پر ۔۔۔
کہ جو باعثِ تخلیقِ کائنات بھی ہیں اور محبوبِ کردگار بھی۔۔کہ جن کی مدح خوانی و ثنا خوانی قلب و جگر کے لیے نور اور روح و نظر کے لیے سرور ہے۔ یہ آپ(صلی اللہ علیہ و سلم ) ہی کی رحمتِ بے پایاں کا صدقہ و وسیلہ ہے کہ راقم آپ کے عاشقِ صادق مصطفی رضا نوریؔ بریلوی کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی جائزہ لیتے ہوئے اس علمی کام کی تکمیل کے قابل بن سکا۔
میری مشفقہ معلمہ محترمہ ڈاکٹر شرف النہار صاحبہ (صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر رفیق زکریا کالج فور ویمن، اورنگ آباد)کے لیے۔۔۔
جنھوں نے عدیم الفرصتی کے باوجود میرے اس مقالے کو از اوّل تا آخر حرف بہ حرف ملاحظہ فرما کر زیورِ اصلاح سے مزین و آراستہ کیا، اور میری اس تحقیقی کاوش کو اس لائق بنا دیا کہ اہلِ علم یقیناً اسے بہ نظرِ استحسان دیکھیں گے۔ آپ کیسی شفیق، خلیق، منکسر المزاج، مہربان اور سراپا خلوص و محبت ہیں اسے لفظوں کا جامہ پہنا کر بیان کرنا ممکن نہیں۔ میں جب جب اورنگ آباد حاضر ہوتا، آپ نہایت خندہ پیشانی سے پیش آتیں، میرے مقالے پر اصلاح فرماتیں، زبان و بیان اور اسلوب کی نوک پلک درست کرتیں، مفید مشوروں سے نوازتیں اور ساتھ ہی ساتھ خاطر تواضع بھی فرماتیں۔ یہ انھیٖں کی مربیانہ، مشفقانہ اور مخلصانہ بے غرَض رہِ نمائی کاحسیٖن و جمیل ثمرہ ہے کہ میرا مقالہ پایۂ تکمیل تک کام یابی و کام رانی سے پہنچ گیا۔ آپ کا میرے ساتھ تعاون و ہمدردی ’’نہ ستایش کی تمنا، نہ صلہ کی پروا‘‘ سے عبارت رہا، بل کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ نے نعتیہ شاعری پر ہو رہے اس تحقیقی کام کی مکمل رہِ نمائی ایک عبادت سمجھ کر فرمائی۔ خداوندِ قدوس سے دعا ہے کہ انھیں آلامِ روزگار سے ہر لمحہ محفوظ و مامون رکھے۔ (آمین)
ان حضرات کے لیے ۔۔۔
جنہوں نے مقالہ کی تیاری میں مواد فراہم کیے، کسی بھی طرح سے قلمی و علمی، زبانی و عملی معاونت فرمائی اور میری کامیابی کے لیے اپنی دعائے خیرسے مجھے نوازا، ان حضرات میں ۔۔
٭ حضرت علامہ پروفیسر ڈاکٹر سید محمد امیٖن میاں مارہروی صاحب(پروفیسر شعبۂ اردو مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ)
٭ حضرت حسان العصر سید آلِ رسول حسنین میاں نظمی مارہروی صاحب(سجادہ نشین خانقاہِ برکاتیہ، مارہرہ شریف)
٭ حضرت سید محمد اشرف میاں برکاتی مارہروی صاحب(انکم ٹیکس کمشنر، دہلی)
٭ حضرت مولاناسید محمد حسینی میاں اشرفی مصباحی صاحب
(سجادہ نشین آستانۂ عالیہ شمسیہ حسینیہ، رائے چور، کرناٹک)
٭ شہزادۂ حضور صدرالشریعہ محدثِ کبیر حضرت علامہ ضیاء المصطفی صاحب قبلہ، گھوسی۔
٭ ماہرِ رضویات حضرت پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقش بندی مجددی علیہ الرحمۃ(کراچی)
٭ حضرت پروفیسر ڈاکٹر سیدمختارالدین احمد آرزوؔ علیہ الرحمۃ (سابق صدر شعبۂ عربی مسلم یونی ورسٹی علیگڑھ)
٭ حضرت مفتی محمد مجیب اشرف صاحب، خلیفۂ نوریؔ بریلوی و مفتیِ اعظمِ مہاراشٹر(بانی و مہتمم جامعہ امجدیہ رضویہ، ناگ پور)
٭ حضرت قاری محمد امانت رسول رضوی صاحب، خلیفۂ نوریؔ بریلوی(پیلی بھیت)
٭ حضرت ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی صاحب(بریلی شریف)
٭ حضرت ڈاکٹر فاروٗق احمد صدیقی صاحب (صدر شعبۂ اردو بہار یونی ورسٹی، مظفر پور، بہار)
٭ حضرت علامہ وقار احمد عزیزی صاحب(بھیونڈی)
٭ حضرت مولانا ڈاکٹر غلام جابر شمس مصباحی صاحب(ممبئی)
٭ حضرت ڈاکٹر سراج احمد بستوی صاحب(اردوٗ ترجمان ڈی۔ آئی۔ جی۔ رینج بستی، یوپی)
٭ حضرت مولانا محمد توفیق احسنؔ مصباحی صاحب(ممبئی)
٭ حافظ و قاری محمد اسماعیل رشیدی صاحب (خطیب و امام سنی جامع مسجد، نیائے ڈونگری، تعلقہ ناندگاؤں، ناسک)وغیرہم نمایاں طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
بڑی ناسپاسی ہو گی اگر میں اس موقع پر محترم ڈاکٹر عبداللطیف سبحانی صاحب کا شکریہ نہ ادا کروں کہ اولاً انھیں کی نگرانی میں یہ کام شروع ہوا تھا۔ اسی طرح محترم پروفیسر ڈاکٹر غیاث الدین صاحب(صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونی ورسٹی، اورنگ آباد) میری طرف سے بجا طور پر ہدیۂ امتنان کے مستحق ہیں کہ جب بھی میں یونی ورسٹی گیا، آپ بڑے تپاک سے ملے، خلوص سے پیش آئے، اور ریسرچ ورک سے متعلق پوچھتے رہے، مفید مشورے بھی دیے۔ نیز وطنِ مالوف مالیگاؤں کے مشہور ناقد و محقق جناب سلیم شہزاد صاحب کا بھی راقم ممنون ہے کہ آپ نے بعض اہم دشواریوں کے حل میں میری بھر پور معاونت فرمائی۔
علاوہ ازیں اورنگ آباد میں مقیم میرے دیرینہ کرم فرما محترم حافظ و قاری ذکی اللہ خان رضوی صاحب کا ناچیز بے پناہ شکر گزار ہے کہ آپ نے بڑی فراخ دلی اور کشادہ قلبی کے ساتھ بیش تر میرے قیام و طعام کا بندوبست فرمایا اور پردیس میں مجھے پردیسی ہونے کا ذرّہ بھر بھی احساس نہ ہونے دیا۔ میرے جملہ احبا، اعزہ اور اقربا کا بھی میں ممنون و متشکر ہوں کہ ان حضرات کی ہمت افزائی قدم قدم پر میری ہم سفر رہی، نیز عزیزِ گرامی کاملی محمد غلام جیلانی صاحب(ٹائم کمپیوٹر، مالیگاؤں )کا شکریہ ادانہ کرنا بڑی نا انصافی ہو گی موصوف نے انتہائی درجہ رعایت کے ساتھ کمپوزڈ شدہ میٹرس کی پرنٹس اپنے پرنٹر سے کئی مرتبہ نکال کر دی۔ عقیل ورلڈ ڈی۔ ٹی۔ پی سینٹر کے عقیل احمد صاحب اور ایس آر گرافکس کے شفیق رشید آرٹسٹ کا بھی راقم ممنون ہے کہ انھوں نے ٹائپ شدہ مواد کی خوب صورت تزئین میں میری رہنمائی فرمائی۔
اخیر میں، مَیں اپنے مشفق و مہربان والدین کی خدمتِ عالیہ میں جذبۂ احترام و عقیدت کے ساتھ ہدیۂ امتنان و تشکر پیش کرتا ہوں جنھوں نے میری بہتر تعلیم و تربیت فرمائی۔ یہ انھیں کی شفقتیں، محبتیں، نالۂ نیٖم شبی اور دعائے سحر گاہی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ میرا یہ تحقیقی کام بہ حسن و خوبی انجام پذیر ہوا۔ میرے دونوں عزیز بھائی محمد اسماعیل برکاتی، مولانا محمد رضا رضوی (متعلم مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا، بریلی شریف) اور میری شریکِ حیات کی خدمت میں بھی مَیں ہدیۂ سپاس نذر کرتا ہوں کہ ان لوگوں کی محبت و رفاقت نہ ہوتی تو مَیں اتنا بڑا کام ہرگز نہیں کر سکتا تھا۔ اسی طرح میری تینوں پیاری بہنیں جو اپنے گھر رہتے ہوئے میرے علمی و تحقیقی کام سے متعلق نیک خواہشات اور تمناؤں کی سوغات مجھ پر لٹاتی رہیں اور دعاؤں میں یاد کرتی رہیں میں ان کے لیے بھی تشکر طراز ہوں۔
پیشِ نظر کتاب ’’ مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوری بریلوی کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ‘‘ میرے مقالہ برائے پی ایچ ڈی کے ابواب اول، دوم، پنجم، ششم، ہفتم اور ہشتم پر مشتمل ہے۔ بقیہ ابواب ان شآ ء اللہ ’’نعتیہ روایت اور ہندوستان میں اردو نعت گوئی‘‘ کے نام سے علاحدہ کتاب کی شکل میں پیش کیا جائے گا۔ اس کتاب کی اشاعت میں خصوصی دل چسپی کا مظاہرہ کرنے والے احباب کا راقم ممنون ہے۔ ناچیز نے اس تحقیقی مقالے کو معتبر و مستند بنانے میں بڑی عرق ریزی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پھر بھی اگر کہیں کوئی لغزش یا خامی نظر آ جائے تو اسے میری کم علمی اور بے بضاعتی پر محمول کرتے ہوئے مشفقانہ اصلاح و مشوروں سے نوازیں۔ مجھے یقین ہے کہ اربابِ نقد و نظر راقم کے اس تحقیقی مقالے کو بہ نظر استحسان دیکھتے ہوئے ہمت افزائی فرمائیں گے تاکہ مزید کچھ کام کرنے کا حوصلہ پیدا ہو۔
ربِّ لم یزل سے دست بستہ دعا ہے کہ ۔۔۔
اے ساری کائنات کے پروردگار۔۔۔
حرفوں اور لفظوں کے خالق۔۔۔
جلا جلالہٗ و عم نوالہٗ۔۔۔
جب تک گلشنِ عشقِ مصطفی(ﷺ)میں عندلیبانِ محبت و عقیدت کی نواسنجیاں قائم و دائم رہے۔۔۔
اور
جب تک ثنا گویانِ مصطفی بارگاہِ رسالت مآب (ﷺ)میں اپنا نذرانۂ خلوص و اُلفت نچھاور کرتے رہیں ۔۔۔
تب تک جو بھی ثواب و رحمت تُو اُن کے حصہ میں ارزاں فرماتا رہے تو تُو ان جملہ حضرات کو بھی عطا فرما جنھوں نے میری کسی بھی طرح سے معاونت فرمائی۔
اے قادرِ مطلق جل شانہٗ۔۔۔
رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کے صدقہ و طفیل۔۔۔
ان تمام حضرات کے عزّ و علم و عمل اور عمر میں برکتیں نازل فرما!۔۔۔
انھیں عفو و عرفاں اور عافیت سے نواز!۔۔
فروغِ نعت میں ہمیں اخلاص کے ساتھ مصروف و مشغول رکھ!۔۔۔
ایں دُعا از من و از جملہ جہاں آمین باد!!۔۔
(ڈاکٹر)محمد حسین مُشاہد رضوی
۱۴؍ محرم الحرام ۱۴۳۳ھ / ۱۰؍ دسمبر ۲۰۱۱ء بروز سنیچر
سروے نمبر ۳۹ پلاٹ نمبر ۱۴ نیا اسلام پورہ، مالیگاؤں
(ناسک ) ۴۲۳۲۰۳، مہاراشٹر، انڈیا،
+91 9420230235
نعت پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف و توصیف میں لکھی جانے والی منظومات کو کہا جاتا ہے۔ ویسے بعض علمائے ادب کے نزدیک ہر وہ ادبی کاوش جس میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر ہو تعریف و توصیف ہو چاہے وہ نثر ہو یا نظم ’’نعت‘‘ ہے۔
جہاں تک حمد کا معاملہ ہے تو اس میں شاعر کو اتنی پابندی نہیں ہوتی جتنی کہ نعت میں ہوتی ہے۔ نعت انتہائی مشکل ترین صنف سخن ہے۔ اگر شاعراس میں سر مو تجاوز کرتا ہے تو شرک کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے اور کمی کرتا ہے توگستاخیِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا مرتکب ہو جاتا ہے: بہ قولِ عرفی ؎
عرفی مَشَتاب ایں رہ نعت است نہ صحرا
آہستہ کہ رہ بر دمِ تیغ است قدم را
ہمارے ادبا اور شعرا نے حمد کے ساتھ ساتھ نعت گوئی کے فن کو ضرور برتا ہے اور اپنی اپنی تصنیف وتالیف میں حمد باریِ تعالیٰ کے بعد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کی بارگاہ میں عقیدت و محبت سے نعت پاک کا نذرانہ بھی پیش کیا ہے اور ادب کی جملہ اصناف مثلاً: غزل، مثنوی، قصیدہ، رباعی، قطعہ، مسدس، مخمس، ہائیکو، ترائیلے، سانیٹ، ماہیے، دوہا، کہہ مکرنی، اور معرا نظم وغیرہ میں نعتیں لکھی ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو نعت نہ صرف یہ کہ ایک صنف سخن کی حیثیت رکھتی ہے بل کہ تمام اصنافِ ادب میں انتہائی طاقت ور اور پاکیزہ صنف کا درجہ رکھتی ہے۔
عربی، فارسی اور دیگر زبانوں کے ادب کی طرح اردو زبان و ادب میں بھی نعتیہ شاعری کو کافی فروغ حاصل ہوا ہے۔ ہندوستان میں اردو نعتیہ شاعر ی کا آغاز دکن میں حضرت سید محمد حسینی عرف خواجہ بندہ نواز گیسو دراز(م825ھ)سے ہوا اور پھر دیکھتے دیکھتے شمالی ہند اور دیگر صوبوں اور خطوں میں اردو نعتیہ روایت کا آغاز ہوا۔ بعد ازاں اس میں رفتہ رفتہ ترقی ہوتی رہی۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی (م1981ء)ہندوستانی مسلمانوں کے ایک مذہبی رہِ نما تھے۔ عالم اسلام کی مشہور شخصیت اعلا حضرت امام احمد رضا محدثِ بریلوی (م 1921ء) کے فرزندِ اصغر تھے۔ آپ کا خانوادہ کئی صدی پیش تر سے اسلامی علوم و فنون کا مرکز و محور رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو ورثے میں علم و فن کے وہ نایاب گوہر حاصل ہوئے جو دیگر حضرات کے یہاں شاذونادر ہیں۔ ان میں سب سے اہم ترین عشق رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی دولتِ عظمیٰ ہے کہ یہ آپ کے خانوادے کا طرۂ امتیاز ہے۔ آپ کی علمی، ادبی، دینی، سیاسی اور اصلاحی خدمات کا دائرہ انتہائی وسیع ہے۔ آپ کو نثر کے ساتھ ساتھ نظم پر بھی ملکہ حاصل تھا۔ حمد و نعت و منقبت وسلام کے علاوہ آپ نے اپنی شعری صلاحیتوں کو کہیں اور نہیں برتا آپ کا مجموعۂ کلام ’’سامان بخشش 1354ھ‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ آپ کی شاعری اپنے پیش رَو شعرا سے قدرے مختلف ہے نوریؔ بریلوی کے مجموعۂ کلام میں شامل بیش تر نعتیں سادہ زمینوں اور آسان بحروں میں ہیں لیکن اس کے باوجود شعری و فنی محاسن بدرجۂ اتم موجود ہیں۔
یوں تو حضرت نوریؔ بریلوی کی حیات و خدمات پر عالمی پیمانے میں کام جاری ہے، درجنوں مصنفین کتب ورسائل تصنیف کر رہے ہیں۔ محققین اور ریسرچ اسکالرزتحقیقی مقالہ جات تحریر کر رہے ہیں اور بیش ترڈائجسٹ، ماہ نامہ، سہ ماہی رسائل اور ہفت روزہ و روزنامہ اخبارات نے آپ کی علمی شخصیت کے خد و خال اجاگر کرنے کے لیے خصوصی شماروں کی اشاعت بھی کی ہے۔ مگر دنیائے شعر و ادب میں آپ کی شاعرانہ حیثیت پر کوئی بھی قابل ذکر تحقیقی کام نہیں ہوا اور نہ ہی اردو کے بلند پایہ نعت گو کی حیثیت سے آپ کے مقام و منصب کو متعین کیا گیا لہٰذا اردو کے ممتاز نعت گو شعرا کفایت علی کافیؔ ، لطفؔ بدایونی، امیرؔ مینائی، شبلی نعمانی، الطاف حسین حالیؔ ، بیدمؔ شاہ وارثی، امام احمد رضاؔ بریلوی، محسنؔ کاکوروی، حسنؔ رضا بریلوی، حفیظؔ جالندھری، آسیؔ غازی پوری وغیرہ کے ساتھ ساتھ نوریؔ بریلوی کا تعین بھی دُنیائے ادب کے ممتاز نعت گو شاعر کی حیثیت سے کیا جائے اور حضرت نوریؔ بریلوی کے کلام میں موجود جملہ شعری و فنی محاسن کو اُجاگر کرنے اور بہ حیثیت نعت گو نوریؔ بریلوی کے مقام و منصب کو بیان کرنے کے لیے راقم نے اپنے تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی کا عنوان ’’ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ ‘‘ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو اور ریسرچ کمیٹی کے مہربان اراکین کی اجازت سے منتخب کر کے تحقیقی مقالے کی تکمیل کر لی ہے۔ جس کا ایک حصہ اس وقت آپ حضرات کے ہاتھوں کی زینت ہے۔
بہ حیثیت طالب علم راقم نے ’’مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ‘‘ عنوان کے تحت جو مقالہ تحریر کیا تھا اس میں سے پیشِ نظر کتاب میں شامل ابواب کی فہرست نشانِ خاطر کریں۔
باب اوّل: نعت، آدابِ نعت اور لوازماتِ نعت
٭ ---------نعت کی تعریف۔ لغوی اور اصطلاحی مفہوم
٭ ---------نثری نعت
٭ ---------نعت گوئی کا فن(علمائے ادب کے اقوال کی روشنی میں )
٭ ---------حزم و احتیاط اور موضوع روایتیں
٭ ---------ہیئت۔ اصنافِ سخن
٭ ---------ضمائر کا استعمال
باب دوّم :مفتیِ اعظم علامہ نوریؔ بریلوی۔ حیات و خدمات
٭ ---------حیات نوریؔ بریلوی
٭ ---------علمی خدمات
٭ ---------ادبی خدمات
٭ ---------سیاسی خدمات
٭ ---------تدریسی خدمات
باب سوم: مفتیِ اعظم کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی و ادبی مطالعہ
٭ ---------نوریؔ بریلوی کے عہد میں نعت گوئی کا معیار اور عام روش
٭ ---------نوریؔ بریلوی۔ نعتیہ شاعری کا آغاز
٭ ---------شاعری سے لگاؤ اور تخلیقی رویّے
٭ ---------نوریؔ بریلوی کا تصورِ عشق
٭ ---------کلامِ نوریؔ میں عقیدۂ توحید
٭ ---------کلامِ نوریؔ میں خصائص رسول صلی اللہ علیہ و سلم
٭ ---------کلامِ نوریؔ حزم و احتیاط
٭ ---------نوریؔ بریلوی کی منقبت نگاری
٭ ---------کلامِ نوریؔ اور علم بیان
٭ ---------کلامِ نوریؔ میں صنائع و بدائع
٭ ---------کلامِ نوریؔ میں عروضی چاشنی
٭ ---------کلامِ نوریؔ میں ترکیب سازی
٭ ---------کلامِ نوریؔ میں شاعرانہ پیکر تراشی
٭ ---------کلامِ نوریؔ میں خیال آفرینی
٭ ---------نوریؔ بریلوی کا پیرایۂ زبان وبیان
٭ ---------کلامِ نوریؔ میں محاورات کا استعمال
٭ ---------نوریؔ بریلوی کا تغزل
٭ ---------نوریؔ بریلوی کی مشکل پسندی
٭ ---------نوریؔ بریلوی کی اصلاحی شاعری
٭ ---------کلامِ نوری میں عربی کی آمیزش اور فارسیت کا رچاؤ
٭ ---------کلامِ نوریؔ میں ہندی و ہندوستانی عناصر اور علاقائی بولیوں کا استعمال
٭ ---------نوریؔ بریلوی کی حمداور رباعی میں نعتیہ کلام کا جائزہ
باب چہارم :نوریؔ بریلوی کے نعتیہ رجحانات، خیالات اور افکار کی پذیرائی
٭ ---------نوریؔ بریلوی کی طرز کا اتباع
باب پنجم:ماحصل: بہ حیثیت نعت گو نوریؔ بریلوی کا مقام و مرتبہ
کتابیات
نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی وصف و خوبی اور تعریف و توصیف کے ہیں۔ لیکن عُرفِ عام میں نعت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ثناوستایش اور تعریف و توصیف بیان کرنے والی منظومات کو کہا جاتا ہے۔ یوں تو نعت کا لفظ مستقل ایک موضوع یا مضمون کا احاطہ کرتا ہے اور جب یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو وہ تمام خزائن اور ذخائر مراد ہوتے ہیں جو حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے فضائل و مناقب، شمائل و خصائل، اخلاق و کردار، تعریف و توصیف اور مدح و ثنا پر مشتمل ہوتے ہیں۔ چاہے وہ نظمی ہوں یا نثری۔ لہٰذا ذیل میں عربی، فارسی اور اردو لغات سے نعت کا لغوی مفہوم اور ان مفاہیم سے ماخوذ تصریحات کی روشنی میں نعت کے اصطلاحی مفہوم پر روشنی ڈالنا غیر مناسب نہ ہو گا۔
لسان العرب :نعت:انعت : وصفک الشئی تنعتہ بما فیہ و تبالغ فی وصفہ والنعت : مانعت بہ نعت ینعتہ نعتا:وصفہ ورجل ناعت من قوم ناعت قال الشاعر ؎
انعتہا انی من نعتہا
ونعت الشئی وتنعتہ اذا وصفہ
قال ابن الاعرابی : انعت اذا حسن وجہۃ حتی ینعت وصفہ صلی اﷲ علیہ و سلم
یقول ابن الاثیر : النعت وصف الشئی بما فیہ من حسن ولا یقال فی القبیح الا یکلف متکلف فیقول نعت سوء والوصف یقال فی الحسن والقبیح وناعتون ونا عتین جمیعا موضع یقال الراعی ؎
حی الدیار دیار ام بشیر
بنو یعتیین فشاطی التسریر
انہا اراد اناعتین 3/2 فصحی (1)
تاج العروس:(نعت کالمنع)ای فی کونہ مفتوح العین فی الماضی والمضارع (الوصف) تنعت الشئی بما فیہ وتبالغ فی وصفہ وانعت ما نعت بہ نعتہ ینعتہ نعتا وسفہ ورجل ناعت من قوم نعات قال الشاعر ؎
انعتہا انی من نعتہا
وفی صفتہ صلی اﷲ علیہ و سلم (2)
لسان العرب اور تاج العروس دونوں ہی عربی لغات سے نعت کاجو مفہوم سامنے آیا ہے اس کی وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ نعت کسی شَے کی خوبی یا وصف کو اس طرح بیان کرنا ہے کہ اس میں مبالغہ سے کام لیا جائے اورقبح کا ذرّہ بھر شائبہ نہ ہو۔ صاحبِ لسان العرب نے ابنِ اعرابی کے حوالے سے تحریر کیا ہے کہ نعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صفت کو بھی کہتے ہیں اور صاحبِ تاج العروس نے بھی نعت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صفت شمار کیا ہے۔ لیکن صاف طور پر ان لغات سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ نعت کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔
المنجد: نعتہ (ف)نعتا تعریف کرنا، بیان کرنا، نعت کلمۃ :کلمہ کی صفت لانا، نعت (س)نعتا: اچھی صفات دکھانا، نعت (ک)نعاتہ الرجل پیدایش ہی سے اچھی صفات والا ہونا۔ (3)
معجم العربیہ : نعت ینعت نعتاوانتعت کسی چیز کو بیان کرنا یا اس کے اوصاف بیان کرنا (خصوصاً)تعریف میں، سراہنا، تعریف کرنا، خوبیاں بیان کرنا، صرف و نحو میں صفت کو موصوف کے ساتھ ملانا۔
نعت : صفت، وصف، جوہر، ہنر، تعریف
نعت(ج) نعوت، اسم صفت، وصف، صفت، خاصیت، گُن
نُعتَہُ: بہت خوبصورت، حسن
منعوت : وہ اسم جس کے ساتھ صفت بیان کی گئی ہو۔ موصوف (صرف و نحو) (4)
مصباح اللغات: نعتہ (ف) نعتاً: تعریف کرنا، بیان کرنا(اور اکثر اس کا استعمال صفات حسنہ کے لیے ہوتا ہے)۔ (5)
فرہنگ آصفیہ: صفت و ثنا، تعریف و توصیف، مدح، ثنا، مجازاً خاص حضرت سید المرسلین رحمۃ للعالمین صلی اﷲ علیہ و سلم کی توصیف۔ (6)
غیاث اللغات : نعت (ء) :نعت بالفتح تعریف و توصیف کردن از منتخب اگرچہ نعت بمعنی مطلق صفت است لیکن اکثر استعما ل ایں لفظ ستایش و ثنائے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم ) آمدہ است، بمعنیٰ صیغۂ اسمِ فاعل و اسمِ مفعول و صیغۂ صفتِ مشبہ نیز می آید۔ (7)
ترجمہ: زبرسے نعت کے معنی صفاتِ حسنہ کے ساتھ تعریف و توصیف کرنا ہیں اگرچہ لفظِ نعت کے مطلق معنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف و ثنا میں آتا ہے، اسمِ فاعل و مفعول اور صفت کے صیغے کے اعتبار سے یہ ثنائے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے معنی میں آتا ہے۔
لغاتِ فارسی : نعت (ء) تعریف، صفت، ستایش، تعریف کرنا، خاص کر رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و سلم ) کی تعریف و توصیف کو نعت کہتے ہیں۔ (8)
لغات کشوری: نعت(ء) :تعریف، صفت، تعریف کرنا خاص کر رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ و سلم )کی (9)
نور اللغات: نعت (ء : بالفتح ):یہ لفظ بمعنی مطلق وصف ہے لیکن اس کا استعمال آں حضرت (صلی اللہ علیہ و سلم )کی ستایش و ثنا کے لیے مخصوص ہے۔ (10)
فیروز اللغات:نعت (ئ، ا، مونث) : (1)مدح، ثنا، تعریف (2)رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ و سلم )کی شان میں مدحیہ اشعار۔ (11)
فرہنگ ادبیات:پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف و توصیف کا حامل کلام۔ (12)
درج بالا میں عربی لغات سے اخذ کردہ لغوی تصریحات سے لفظ ’’نعت‘‘سے متعلق اردو اور فارسی زبان میں جو تصور پایا جاتا ہے اس کا مکمل اظہار نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ عربی میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کی توصیف و ثنا میں جو اشعار کہے گئے تھے ان کو’’ نعت ‘‘تو نہیں، ہاں ! ’’مدحیۂ رسول اﷲ‘‘ کا سرنامہ اہلِ عرب دیا کرتے تھے، بہ ہر کیف !یہ بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ لفظ ’’نعت‘‘ کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کے وصف و خوبی بیان کرنے والی مدحیہ نظم کے سرنامہ کے طور پر استعمال کرنے کا سہرا اردو والوں کے سر جاتا ہے۔
عربی زبان کی متذکرۂ بالا لغات میں نعت کے جو معنی درج ہیں ان سے تو یہ تصور سامنے آتا ہے کہ نعت کے معنی وصف کے ہیں خصوصاً جب آپ کسی چیز کے وصف میں مبالغہ سے کام لیں تو اس وقت نعت کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
ڈاکٹر سراج بستوی کے بہ قول : ’’قرآن مجید میں اس مادہ ’’نعت ‘‘کا کوئی لفظ استعمال نہیں ہوا ہے۔ مفسرین کرام نے قرآن کی شرح و ترجمانی میں اس لفظ کو وصف کے معنی میں استعمال کیا ہے احادیث رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم و شمائل ترمذی (حافظ محمد عیسیٰ ترمذی م279ھ) میں نعت کا لفظ اپنی مختلف نحوی اور صرفی صورتوں میں قریباً پچاس مقامات پر استعمال ہوا ہے۔
مطالعۂ حدیث ہی کی روشنی میں بعض شارحینِ حدیث نے اپنی تحریروں میں نعت کو مطلق وصف کی عمومیت سے نکال کر اسے آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف و توصیف سے وابستہ کیا ہے اور اسے ایک خاص مفہوم کا حامل ٹھہرایا۔ غالباً ’’النہایۃ فی غریب الحدیث والاثر ‘‘وہ پہلا ماخذ ہے جس میں اس کے مرتب ابن اثیر (544ھ/606ھ)نے لفظ نعت کو اصطلاحی مفہوم میں پیش کیا ہے۔ ‘‘
نعت کے اصطلاحی معنوں کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر عبد المجید سندھی نے بھی اپنے خیال کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے کہ :
’’نعت کے معنی ہیں ’خوب صورت وصف ‘یعنی کسی کی خوبیاں بیان کرنا لیکن اب نعت مستقل اصطلاح کی صورت اختیار کر چکا ہے اور اس کے معنی ہیں آں حضرت (صلی اللہ علیہ و سلم )کی ثنا اور وصف بیان کرنا ‘‘(13)
اس ضمن میں ڈاکٹر رشاد عثمانی کا خیال یوں ہے کہ :
’’اردو لغات میں اگر چہ عربی و فارسی لغات کی پیروی میں نعت کا لفظ مطلق وصف اور ثنائے رسول دونوں معنی میں آیا ہے۔ مگر جیسا کہ ’’نور اللغات‘‘ کے مرتب نے لکھا ہے کہ ’’یہ لفظ بمعنی مطلق وصف ہے لیکن اس کا استعمال آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ستایش اور ثنا کے لیے مخصوص ہے ‘‘اردو زبان و ادب میں مطلق وصف کے معنی میں اس کا استعمال قریب قریب ناپید ہے۔ شعر و ادب میں لفظِ نعت کا استعمال وصفِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے بیان کے علاوہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس کی بڑی وجہ غالباً یہ ہے کہ عربی سے فارسی اور پھر فارسی سے اردو شعر و ادب تک یہ لفظ وصفِ مطلق کی عمومیت سے نکل کر آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف و توصیف اور مدح و ثنا کے لیے مخصوص ہو چکا تھا۔ یعنی اردو لغت اور زبان و ادب میں اس کے معنی سرکار دو عالم حضرت محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف و توصیف کے مفہوم سے منسوب و مختص ہے۔ ‘‘ (14)
مذکورہ بالا عربی، فارسی، اُردو لغات اور تمام حضرات کی مختلف آرا کو سمجھنے کے بعد نعت کے معنی و مفہوم اور تعریف و توصیف میں یہی کہنا منا سب معلوم ہوتا ہے کہ ہر وہ ادب پارہ جس میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر ہو، مدح ہو، ثنا ہو، تعریف و توصیف ہو، سراپا کا بیان ہو، شبیہ و شمائلِ اقدس کی لفظی تصویر کشی ہو، عادات و اخلاق کا بیان ہو، فضائل ومحاسن جمیلہ کا اظہار ہو، حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے خطاب ہو، آ پ سے استغاثہ و فریاد ہو، عقیدت و محبت کے جذبات کی ترجمانی ہو، مقصد و بعثتِ نبوت کا تذکرۂ خیر ہو یا ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر جمیل ہو۔ الغرض ہر وہ ادبی کاوش جو اپنے قاری یاسامع کو مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف متوجہ کرے اور قرب کا احساس پیدا کرے چاہے وہ نثری ہو یا نظمی بلا شبہ ’’نعت‘‘ ہے۔
چناں چہ متذکرۂ بالا خیال کی تصدیق مشہور محقق ڈاکٹر رفیع ا لدین اشفاقؔ اور معروف ادیب ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی کے گراں قدر خیالات سے ہوتی ہی،ڈاکٹر رفیع الدین اشفاؔ ق۔۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں :
’’اصولاً آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مدح سے متعلق نثر اور نظم کے ہر ٹکڑے کو نعت کہا جائے گا، لیکن اردو اور فارسی میں جب لفظِ نعت کا استعمال ہوتا ہے تو اس سے عام طور پر آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی منظوم مدح مراد لی جاتی ہے۔ ‘‘ (15)
اور ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی نے یوں تحریر کیا ہے کہ :
’’نعت ایک موضوع کا نام ہے اس کے لیے کوئی خاص صنف، فارم یا ٹیکنک نہیں ہے اسے غزل، مثنوی، مسدس، مخمس، رباعی، قطعہ وغیرہ کسی بھی صنف میں لکھا جا سکتا ہے۔ نعت کا موضوع مخصوص نہیں بہت ہی وسیع ہے۔ ‘‘ (16)
نعت کا موضوع ادب کی کسی ایک صنف سے مخصوص نہیں ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف و توصیف اور آپ کی سیرتِ طیبہ کا تذکرہ کسی بھی صنف اور ہیئت میں ہو سکتا ہے۔ شعرائے کرام نے کم و بیش تمام اصناف میں نعتیں قلم بند کی ہیں۔ جو صنفِ سخن جس عہد میں زیادہ مقبول رہی، اس کو نعت کے لیے استعمال کیا گیا۔
اس تجزیے کے بعد صاحبِ فرہنگِ ادبیات سلیم شہزاد کی نعت سے متعلق مکمل عبارت نقل کی جا رہی ہے جسے نعت کی جملہ تعریفوں میں جامع ترین تعریف سے تعبیر کرنا غیر مناسب نہ ہو گا۔ اس میں موصوف نے نعت کی صنفی حیثیت کے ساتھ ساتھ اس کے عہد بہ عہد عروج و ارتقا کی تاریخ کو بھی اجمالاً سمیٹ لیا ہے:
’’نعت : پیغمبرِ اسلام حضرت محمد( صلی اللہ علیہ و سلم )کی تعریف و توصیف کا حامل کلام۔ نعت شاعری کی مختلف ہیئتوں میں کہی گئی ہے اور مثنوی اور طویل بیانیہ نظموں کی یہ روایت رہی ہے کہ ابتدا نعت سے کی جائے۔ عربی اور فارسی کے اثر سے جس طرح اردو مرثیے میں محض واقعاتِ کربلا کو نظم کر دیا جاتا ہے اسی طرح نعت ایک موضوعی صنفِ سخن ہے جس میں قصائد، منظوم واقعاتِ سیرت، غزلیں، رباعیاں اور مثنویاں سبھی ہیئتیں شامل ہیں۔ حضور(صلی اللہ علیہ و سلم ) اپنی حیاتِ مبارکہ ہی میں اس شاعری کے زندہ موضوع بن گئے تھے اور آپ نے کعب بن زہیر، لبید بن ربیعہ، کعب بن مالک اور حسان بن ثابت وغیرہ اصحاب سے اپنی نعتیں سماعت فرمائی ہیں۔ عربی سے نعت فارسی میں آئی تو اسے حافظؔ ، سعدیؔ ، صائبؔ اور عرفیؔ جیسے شعرا میسر آئے۔ ہندوستان میں خسروؔ ، نظامیؔ اور بیدلؔ نے فارسی میں نعتیں کہیں، خسروؔ نے اسے ہندوستانی بولیوں میں بھی رواج دیا۔
اردو کے تشکیلی دور میں متعدد صوفی شعرا نے اس صنف میں طبع آزمائی اور بہ طور ایک زبان کے اپنی حیثیت منوا لینے کے بعد اردو کے سبھی چھوٹے بڑے شعرا کے یہاں اس کی مثالیں تخلیق ہوئیں اگرچہ انیسؔ و دبیرؔ نے جس طرح صرف مرثیے میں اپنے فنّی کمال دکھائے اس طرح صرف نعت سے منسلک کوئی کلاسیکی شاعر اردو کو نہیں ملا۔ البتہ یہ سعادت دورِ جدید کے بہت سے شعرا کو حاصل ہے۔
انیسویں صدی کے اواخر میں امام احمد رضا خاں رضاؔ اور محسنؔ کاکوروی نے اپنے شعری اظہار میں صرف نعت کو جگہ دی جن کا کلام آج بھی زبان زد خاص و عام ہے ان کے بعد نعت پھر اپنی روایتی حدود میں سمٹ گئی یعنی مثنوی کی ابتدا یا غزل کے چند اشعار میں۔ اس ضمن میں ’’مسدسِ حالی‘‘ کی یہ اہمیت ہے کہ اس کے اختتام پر شاعر نے حضور( صلی اللہ علیہ و سلم )سے خطاب کیا ہے۔ حالیؔ کے بعد حفیظؔ جالندھری کا ’’شاہ نامۂ اسلام‘‘ جس میں سیرت کے مضامین باندھے گئے ہیں، جدید نعت نگاری کے لیے تازیانہ بن گیا۔ اقبالؔ کی شاعری عشقِ رسول( صلی اللہ علیہ و سلم )کے تجربہ پسند شعری اظہار کی مثال ہے۔ اس میں نعت کے عنوان سے کوئی نظم نہیں ملتی لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم ) کے افکار کی شاعرانہ تفسیر و توضیح نے اقبالؔ کی کئی نظموں کو نعتیہ رنگ دے دیا ہے۔
انجمن ترقی پسند مصنفین اور حلقۂ اربابِ ذوق کے غلبے نے اس صنف کو ایک بار تو شاعری سے خارج ہی کر دیا کیوں کہ ان فن کاروں کے نظریات مادّی، جسمانی اور غیر مذہبی( بل کہ مذہب بے زار) نظریات تھے مگر آزادی کے کچھ عرصے بعد جدید شاعروں نے پھر اسمِ محمد(صلی اللہ علیہ و سلم ) سے اجالا کرنے کی تخلیقی کوشش شروع کر دی ہیں۔ ان میں اسلامی ادب کے بعض پیرو کار حفیظؔ میرٹھی، نعیمؔ صدیقی، یونسؔ قنوجی اور حفیظؔ تائب کے نام اہمیت رکھتے ہیں۔ عمیقؔ حنفی اور عبدالعزیز خالدؔ نے اپنی طویل نعتیہ نظموں ’’صلصلۃ الجرس‘‘ اور ’’فارقلیط‘‘ کے لیے، جن میں زبان و بیان کے گراں قدر تجربات ملتے ہیں، خاصی شہرت پائی ہے، ہندو پاک میں آج کئی شعرا صرف نعت کہنے میں مصروف ہیں۔ ‘‘(17)
مشہور و معروف محققین و ناقدین کے گراں قدر اقوال و تاثرات کی روشنی میں اس امر کی مکمل وضاحت و صراحت ہو جاتی ہے کہ نعت سرورِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف و توصیف میں لکھی جانے والی منظومات ہی کو نہیں بل کہ ایسے نثری شہ پاروں کو بھی کہا جا تا ہے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کسی بھی طرح سے ذکرِ خیر ہو، اور نعت اصنافِ ادب میں نہ صرف یہ کہ شامل ہے بل کہ یہ ادب کی ہر صنف میں مسلسل لکھی جا رہی ہے۔
(1)ابن منظور:لسان العرب، دار لسان العرب، بیروت ص668
(2)زبیدی :تاج العروس، با المطبعۃ الخیریۃ المنشاہ بجمالیہ، مصر ج 1، ص93
(3) المنجد:مرکزی ادارۂ تبلیغ دینیات، دہلی، ص1028
(4) ولیم ٹامسن ورٹے :معجم العربیہ، مولی رام منیجر مفید عام پریس، چٹر جی روڈ، لاہور، ص1121/1122
(5) عبد الحفیظ بلیاوی، مولوی:مصباح اللغات، ایچ ایم سعید اینڈ کمپنی لاہور، ص887
(6) خانصاحب سید احمد دہلوی، مولوی : فرہنگ آصفیہ، نیشنل اکاڈمی دہلی، 1974ء ج4، ص579
(7) غیاث الدین:غیاث اللغات، رزاق پریس، کان پور 1332ھ
(8)لغاتِ فارسی : پبلشر لالہ رام نرائن لال بینی مادھو، الٰہ آباد، 1931ء، ص 904
(9)لغات کشوری :مولوی تصدق حسین رضوی، دار الاشاعت کراچی، ص537
(10) نور اللغات : مولوی نورالحسن نیّرؔ کاکوروی، قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی، 1998ء، ص 833
(11) فیروزالدین، مولوی:فیروز اللغات، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤ س دہلی، ص683
(12) سلیم شہزاد:فرہنگ ادبیات، منظر نما پبلشرز، مالیگاؤں، ص709
(13)اوج: نعت نمبر ج2، گورنمنٹ کالج شاہدرہ، لاہور ص562
(14)اوج: نعت نمبر ج2، گورنمنٹ کالج شاہدرہ، لاہور ص155
(15) رفیع الدین اشفاقؔ ، ڈاکٹر :اردو کی نعتیہ شاعری، اردو اکیڈمی، سندھ، 1976ء، ص 21
(16)عبدالنعیم عزیزی، ڈاکٹر :رضا گائڈ بک، رضا اکیڈمی برطانیہ، ص2
(17)سلیم شہزاد:فرہنگِ ادبیات، منظر نما پبلشرز، مالیگاؤں، ص 709/710
٭٭٭
جیسا کہ تحقیق کی جاچکی ہے کہ ہر وہ ادب پارہ جس میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف و توصیف بیان کی جائے یا جس کے سننے، پڑھنے سے سے قاری یا سامع بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف متوجہ ہو وہ نعت ہے، خواہ وہ نظم ہو یا نثر۔
اگر دیکھا جائے تو نعت گوئی کا آغاز میثاق النبین ہی سے ہو گیا تھا اور اس کے بعد حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیائے کرام کی امتوں کے نیک طینت اور پاک باز افراد کو اس بات کا علم تھا کہ لوحِ محفوظ پر جن کا نام لکھا گیا ہے وہ ہی سب سے محترم و بزرگ ہستی ہیں۔ اس لحاظ سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی شانِ اطہر و اقدس میں مدحت و تہنیت کا نذرانہ پیش کرنے کو وہ باعثِ سعادت سمجھتے تھے۔ آسمانی کتب و صحائف میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت و بعثتِ طیبہ کے اذکار بڑی شان کے ساتھ موجود ہیں۔ یہی نہیں بل کہ انبیائے سابقہ نے اپنی امتوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد آمد کی بشارتیں بھی سنائی ہیں۔
حضرت آدم و حضرت شیث و حضرت یعقوب اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کے علاوہ حضرت عیسیٰ، حضرت اشعیاہ، حضرت دانیال، حضرت ابراہیم و اسماعیل، حضرت ارمیاہ، اور حضرت ہبقوق علیہم السلام نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد آمد کی عظیم خوش خبریاں سنائیں۔ یہ بشارتیں ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے قبل، ایک سے ڈھائی ہزار برس کے درمیان سنائی گئیں۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد کا انتظار تمام انبیائے کرام کی امتوں اور نیک بندوں کو تھا۔ یہی وجہ ہے کہ احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادتِ باسعادت کے بعد شاہِ حبش نجاشی، عبداللہ بن سلام، کعب احبار، سلمان فارسی (رضی اللہ عنہم)کہ علمائے یہود و نصاریٰ میں تھے۔ ان حضرات نے توریت، انجیل اور انبیائے کرام کی بشارتوں اور پیش گوئیوں کی تصدیق کی اور مشرف بہ اسلام ہوئے اور ان میں شاہِ حبش نجاشی کے علاوہ جملہ حضرات کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبتِ بابرکت نصیب ہوئی جس پر جملہ موجوداتِ عالم کو رشک ہے۔
آسمانی کتب توریت، زبور، انجیل اور دیگر آسمانی صحائف میں حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادتِ باسعادت کا تذکرۂ خیر موجود ہے ان تذکروں کو ہم نثری تہنیت نامے قرار دے سکتے ہیں۔ ولادتِ باسعادت سے قبل اور بعد حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف و توصیف اسی طرح جاری رہی اور جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اعلانِ نبوت کا حکم دیا اور وحی کے ذریعہ آپ پر قرآنِ کریم نازل کیا تو ساری دنیا نے دیکھا کہ وہ ایک مکمل ضابطۂ حیات ہونے کے ساتھ ہی اللہ رب العزت کی عظمت اور وحدانیت کا آئینہ دار ہے اور سرورِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی مدح و ستایش کا مظہر بھی۔ خالق کائنات نے اس مقدس کتاب میں جگہ جگہ اپنی حمد وثنا بھی فرمائی ہے اور اپنے حبیبِ پاک صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ و سلم کی نعت و صفات بھی بیان کی ہیں۔ جو کہ نثری نعت کے بہترین نمونے ہیں ، چند آیاتِ طیبات خاطر نشین ہوں :
وَمَا اَرسَلنٰکَ اِلَّاکاَ فَّۃً لِّلنَاس(اے محبوب ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر ایسی رسالت سے جو تمام آدمیوں کو گھیرنے والی ہے۔ سورہ سبا آیت 28)اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیم(بے شک تمہاری خوٗ بوٗ بڑی شان کی ہے۔ سورہ قلم آیت4) مَا کَانَ مُحَمُّدُ‘ اَبَا اَحَدٍمِّنْ رِّجَالِکُم وَلٰکن رَّسولَ اللّٰہِ و خاتَمَ النبیین(محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں، ہاں ! اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے۔ سورہ احزاب آیت 40)اِنَّا اعطینٰک الکوثر (اے محبوب بیشک ہم نے تمھیں بیشمار خوبیاں عطا فرمائیں۔ سورہ کوثر آیت 1)لاتَر فَعُوا اَصواتَکُم فَوقَ صوتِ النَّبی(اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے۔ سورہ حجرات آیت 2)قد جآء کُم مِنَ اللّٰہِ نورُ‘ وَّکِتابُ‘ مُّبین(بے شک تمھارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔ سورہ مائدہ آیت 15) یَا اَیُّھَا النَّبِیُ اِنَّا اَرْسَلنٰکَ شَاہِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیرًا(بیشک ہم نے تمھیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا۔ سورہ فتح آیت8) وَرَفَعَنا لَکَ ذِکْرَک(اور ہم نے تمھارے لیے تمھارا ذکر بلند کر دیا۔ سورہ انشراح آیت4 )وَلَو اَنَّہُم اِذ ظَلَمُوا اَنفُسَہُم جَآءُ وْکَ فَاسْتَغفِرُاللّٰہَ وَاسْتَغفَرَ لَھُمُ الرَّسُولُ لَوَ جَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا (اور وہ جب اپنی جانوں پر ظلم کریں، تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔ سورہ نسآء آیت 64) وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوَی اِن ہُوَ اِلَّا وَحْیُ‘ یُّوحیٰ(اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو انھیں کی جاتی ہے۔ سورہ نجم آیت3/4)وَمَا اَرسَلنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃَ لَّلعالَمِین(اور ہم نے تمھیں نہ بھیجا، مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔ سورہ انبیاء آیت107)(تراجم از: کنز الایمان)
یہاں نثری نعت کے نمونے کے طور پر چند آیات ہی نقل کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے مگر حق تو یہ ہے کہ اللہ تبار ک و تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بے شمار جگہوں پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکرِ خیر کیا ہے اور ان پر خود درود و سلام بھی بھیجا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بالکل ہی منفرد انداز میں اپنے محبوب کی تعریف یوں بھی کی ہے کہ لَا تَجْعَلُوا دُعَآ ءَ الرَّسُولِ بَیْنَکُمْ کَدُعَا ٓءِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا (رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ سورہ نورآیت63)۔۔ ۔۔۔ایسی شان اور رفیع مرتبہ اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے محبوب کو بخشا۔ یہ بات قرآن شریف سے اس طرح ثابت ہے کہ خالقِ کائنات نے ’’یا آدم، یا موسیٰ اور یا عیسیٰ ‘‘کے انداز میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب نہیں کیا بل کہ انھیں بڑے احترام سے ’’یا ایھا الرسول، یا ایھا النبی، یا ایھا المزمل، یا ایھا المدثر‘‘ وغیرہ کہہ کر پکارا ہے۔ اور بلا شبہہ انھیں ایسی شان اور وجاہت عطا کی ہے جو کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آئی۔ یہاں یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ قرآنِ کریم سرورِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی نعت بھی ہے اور کامل و اکمل ترین اوّلین درس گاہِ نعت بھی۔
واضح ہو کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادتِ باسعادت کے بعد اور بچپن سے عالمِ شباب تک آپ کو جتنے لوگوں نے بھی دیکھا آپ کی تعریف و توصیف بیان کی۔ ان کلمات کو بھی نثری نعت کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کے نورانی پیکر سے متعلق عرب کی بدّو خاتون اُمِّ معبد کے اس بیان کو بہ طورِ مثال پیش کرنا غیر مناسب نہ ہو گا جو اس نے اپنے خاوند کو دیا :
’’ام معبد کہنے لگی۔ میں نے ایک ایسا مرد دیکھا جس کا حُسن نمایاں تھا، جس کی ساخت بڑی خوب صورت اور چہرہ ملیح تھا۔ نہ رنگت کی زیادہ سفیدی اس کو معیوب بنا رہی تھی اور نہ گردن اور سرکا پتلا ہونا اس میں نقص پیدا کر رہا تھا۔ بڑا حسین، بہت خوب روٗ۔ آنکھیں سیاہ اور بڑی تھیں، پلکیں لانبی تھیں۔ اس کی آواز گونج دار تھی۔ سیاہ چشم۔ سرمگین۔ دونوں ابروٗ باریک اور ملے ہوئے۔ گردن چمک دار تھی۔ ریشِ مبارک گھنی تھی۔ جب وہ خاموش ہوتے تو پُر وقار ہوتے۔ جب گفتگو فرماتے تو چہرہ پُر نور اور با رونق ہوتا۔ شیریں گفتار۔ گفتگو واضح ہوتی نہ بے فائدہ ہوتی نہ بے ہودہ۔ گفتگو گویا موتیوں کی لڑی ہے جس سے موتی جھڑ رہے ہوتے۔ دور سے دیکھنے پر سب سے زیادہ با رعب اور جمیل نظر آتے۔ اور قریب سے سب سے زیادہ شیریں اور حسین دکھائی دیتے۔ قد درمیانہ تھا۔ نہ اتنا طویل کہ آنکھوں کو بُرا لگے۔ نہ اتنا پست کہ آنکھیں حقیر سمجھنے لگیں۔ آپ دو شاخوں کے درمیان ایک شاخ کی مانند تھے جو سب سے سر سبز و شاداب اور قد آور ہو۔ ان کے ایسے ساتھی تھے جو ان کے گرد حلقہ بنائے ہوئے تھے۔ اگر آپ انہیں کچھ کہتے تو فوراً تعمیل کرتے۔ اگر آپ انہیں حکم دیتے فوراً بجا لاتے۔ سب کے مخدوم۔ سب کے محترم۔ ‘‘ (1)
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے خدا دادحسن و جما ل کے بارے میں دو چار یا دس بیس کی یہ رائے نہ تھی بل کہ ہر وہ شخص جس کو قدرت نے ذوقِ سلیم کی نعمت سے نوازا ہوتا، وہ آ پ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھ کراسی طرح مسحور ہو جایا کرتا اور ہر ایک کی زبان سے بے ساختہ آپ کے حسن و جمال کی تعریف نکلنے لگتی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جو دیکھتا سو جان سے قربان ہونے لگتا دوست، دشمن، اپنے اور بے گانے میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہتا۔
اسی طرح حضرت جعفر طیّار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا وہ بے مثل و بے نظیر خطبہ جو آپ نے نجاشی بادشاہ کے دربار میں پیش فرمایا تھا وہ بھی نثری نعت کا اعلا نمونہ اور عمدہ شاہ کار تصور کیا جاتا ہے ، ذیل میں اردو ترجمہ نشانِ خاطر فرمائیں :
’’اے بادشاہ! ہم جاہل قوم تھے، بتوں کی پوجا کیا کرتے۔ مردار کھایا کرتے اور بد کاریاں کیا کرتے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بے رحمی کا سلوک کرتے ہم میں سے طاقت ور، غریب کو کھا جایا کرتا۔ ہمارا یہ نا گفتہ بہ حال تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف ہم میں سے ایسا رسول بھیجا جس کے نسب کو بھی ہم جانتے ہیں جس کی صداقت، امانت اور عفت سے بھی ہم اچھی طرح آگاہ ہیں اس نے ہمیں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ کہ ہم اس کو وحدہٗ لاشریک مانیں۔ اور اسی کی عبادت کریں اور وہ پتھر اور بت جن کی پوجا ہم اور ہمارے آبا و اجداد کیا کرتے تھے ان کی بندگی کا پٹہ اپنی گردن سے اتار پھینکیں۔ اس نے ہمیں حکم دیا کہ ہم سچ بولیں۔ امانت میں خیانت نہ کریں۔ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔ ہم سائیوں کے ساتھ عمدگی سے پیش آئیں۔ برے کاموں سے اور خوں ریزیوں سے باز رہیں۔ اس نے ہمیں فسق و فجور، جھوٹ بولنے، یتیموں کا مال کھا نے، پاک دامن عورتوں پر جھوٹی تہمت لگانے سے منع کیا اور ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ کسی چیز کو اس کا شریک نہ بنائیں۔ نیز اس نے ہمیں یہ حکم دیا کہ ہم نماز پڑھیں زکوٰۃ دیں اور روزے رکھیں۔ ‘‘(2)
نثری نعت کے ذیل میں بخاری شریف، مسلم شریف، ابن ماجہ، نسائی شریف، مشکوٰۃ شریف اور ترمذی شریف کے ابوابِ فضائل نیز مختلف اقسام کے درود شریف وغیرہ شمار کیے جاتے ہیں۔ اردو زبان میں امام العلما ء مولانا نقی علی خاں بریلوی ( والدِ ماجد امام احمد رضا بریلوی) کی ’’تفسیر سورۂ الم نشرح‘‘ اور ’’سرور القلوب‘‘ کی بعض عبارتیں تو نثر میں نعت نگاری کی ایسی اعلا ترین مثالیں ہیں کہ پڑھتے ہوئے کیف آگیں جذبات سے روح وجد کر اُٹھتی ہے۔ ’’تفسیرِ سورۂ الم نشرح‘‘ کی ایک خاصی طویل، عشق و محبتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور صفاتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کے پُر لطف بیان سے معمور عبارت خاطر نشین فرمائیں، جو نثری نعت کے ایک عمدہ شاہ کار سے کم نہیں، اس کا ایک ایک فقرہ اپنی جگہ خود ایک مکمل اور بہترین نعت ہے :
’’سرورِ بنی آدم۔۔ روحِ روانِ عالم۔۔ انسان عین وجود۔۔ دلیلِ کعبۂ مقصود۔۔ کاشفِ سرِّ مکنون۔۔ خازنِ علمِ مخزون۔۔ اقامتِ حدود و احکام ۔۔ تعدیلِ ارکانِ اسلام ۔۔ امامِ جماعتِ انبیا۔۔ مقتدائے زمرۂ اتقیا۔۔ قاضیِ مسندِ حکومت۔۔ مفتیِ دین و ملت۔۔ قبلۂ اصحابِ صدق و صفا۔۔ کعبۂ اربابِ حلم و حیا۔۔ وارثِ علومِ اولین۔۔ مورثِ کمالاتِ آخرین۔۔ مدلولِ حروفِ مقطعات۔۔ منشائے فضائل و کمالات۔۔ منزلِ نصوصِ قطعیہ ۔۔ صاحبِ آیتِ بینہ۔۔ حجت حق الیقین۔۔ تفسیرِ قرآنِ مبین۔۔ تصحیح علومِ متقدمین ۔۔ سندِ انبیا و مرسلین۔۔ عزیزِ مصر احسان۔۔ فخرِ یوسفِ کنعان۔۔ مظہرِ حالاتِ مضمرہ۔۔ مخبرِ اخبارِ ماضیہ۔۔ واقفِ امورِ مستقبلہ۔۔ عالمِ احوالِ کائنہ ۔۔ حافظِ حدودِ شریعت۔۔ ماحیِ کفر و بدعت ۔۔ قائدِ فوجِ اسلام ۔۔ دافعِ جیوشِ اصنام ۔۔ نگینِ خاتمِ سروری ۔۔ خاتمِ نگینِ پیغمبری۔۔ فاتح مغلقاتِ حقیقت۔۔ سرِّ اسرارِ طریقت۔۔ یوسفِ کنعان جمال۔۔ سلیمانِ ایوانِ جلال۔۔ منادیِ طریقِ رشاد۔۔ سراجِ اقطار وبلاد۔۔ اکرمِ اسلاف ۔۔ اشرفِ اشراف۔۔ لسانِ حجت۔۔ طرازِ مملکت۔۔ نورسِ گلشنِ خوبی ۔۔ چمن آرائے باغِ محبوبی۔۔ گلِ گلستانِ خوش خوئی۔۔ لالۂ چمنستانِ خوب روئی۔۔ رونقِ ریاضِ گلشن۔۔ آرایشِ نگارستانِ چمن۔۔ طرۂ ناصیۂ سنبلستان۔۔ قرۂ دیدۂ نرگستان۔۔ گل دستۂ بہارستانِ جنان۔۔ رنگ افزائے چہرۂ ارغواں ۔۔ ترطیبِ دماغِ گل روئی ۔۔ طراوتِ جوے بارِ دل جوئی ۔۔ تراوشِ شبنمِ رحمت۔۔ توتیائے چشمِ بصیرت۔۔ نسرینِ حدیقۂ فردوسِ بریں ۔۔ رَوحِ رائحہ روحِ ریاحین۔۔ چمن خیابان زیبائی۔۔ بہار افزائے گلستانِ رعنائی۔۔ نخل بند بہارِ نو آئین ۔۔ رنگ آمیز لالہ زارِ رنگین ۔۔ رنگ روے مجلس آرائی۔۔ رونقِ بزمِ رنگیں ادائی۔۔ گل گونہ بخش چہرۂ گل نار ۔۔ نسیمِ اقبالِ بہارِ ازہار ۔۔ نگہت عنبر بیزانِ گل زار ۔۔ نفحۂ مشک ریزانِ موسمِ بہار ۔۔ اصلِ اصول۔۔ سرا بستانِ ملکوت۔۔ بیخِ فروغِ نخلستانِ ناسوت ۔۔ فارسِ میدانِ جبروت ۔۔ شہ سوارِ مضمارِ لاہوت ۔۔ قمری سرو یکتائی ۔۔ تدرو باغِ دانائی ۔۔ شاہ بازِ آشیانِ قدرت ۔۔ طاوسِ مرغ زارِ جنت ۔۔ شگوفۂ شجرۂ محبوبیت ۔۔ ثمرۂ سدرۂ مقبولیت ۔۔ نوبادۂ گل زارِ ابراہیم ۔۔ نورسِ بہارِ جنتِ نعیم ۔۔ اعجوبۂ صنعت کدۂ بو قلموں ۔۔ زینتِ کارگاہِ گوناگوں ۔۔ لعلِ آب دارِ بدخشانِ رنگینی ۔۔ دُرِّ یتیم گوش مہ جبینی ۔۔ جگر گوشۂ کانِ کرم ۔۔ دست گیرِ درماندگانِ اُمم ۔۔ یاقوتِ نسخۂ امکان ۔۔ روحِ روانِ عقیق و مرجان ۔۔ خزانۂ زواہرِ ازلیہ۔۔گنجینۂ جواہرِ قدسیہ ۔۔گوہرِ محیطِ احسان ۔۔ ابرِ گہر بارِ نیساں ۔۔ لوٗ لوٗئے بحرِ سخاوت وعطا ۔۔ گہرِ دریائے مروت و حیا ۔۔ مشک بار صحرائے ختن ۔۔ گل ریز دامن گلشن ۔۔ غالیہ سائے مشامِ جان ۔۔ عطر آمیز دماغِ قدسیاں ۔۔ جوہرِ اعراض و جواہر ۔۔ منشائے اصنافِ زواہر ۔۔ مخزنِ اجناسِ عالیہ ۔۔ معدنِ خصائصِ کاملہ ۔۔ مقوم نوعِ انساں ۔۔ ربیعِ فصلِ دوراں ۔۔ مکمل انواعِ سافلہ۔۔ مربی نفوسِ فاضلہ ۔۔ اخترِ برجِ دل بری ۔۔ خورشیدِ سمائے سروری ۔۔ آبروے چشمۂ خورشید ۔۔ چہر ہ افروز ہلالِ عید ۔۔ ہلالِ عیدِ شادمانی۔۔ بہارِ باغِ کام رانی ۔۔ صفائے سینۂ نیّرِ اعظم ۔۔ نورِ دیدۂ ابراہیم و آدم ۔۔زیبِ نجمِ گلستاں ۔۔ گلِ ماہ تابِ باغِ آسماں ۔۔ مُشرقِ دائرۂ تنویر ۔۔ مَشرقِ آفتابِ منیر ۔۔ شمسِ چرخِ استوا ۔۔ چراغِ دودمانِ انجلا۔۔ مجلیِ نگار خانۂ کونین ۔۔ سیارۂ فضائے قاب قوسین ۔۔ زہرۂ جبینِ انوار ۔۔ غرۂ جبہۂ اسرار ۔۔عقدہ کشائے عقدِ ثریا ۔۔ ضیائے دیدۂ یدِ بیضا ۔۔ نورِ نگاہِ شہود ۔۔ مقبولِ ربِّ ودود ۔۔ بیاضِ روئے سحر ۔۔ طرازِ فلکِ قمر ۔۔ جلوۂ انوارِ ہدایت ۔۔ لمعانِ شموسِ سعادت ۔۔ نورِ مردمکِ انسانیت ۔۔ بہائے چشمِ نورانیت ۔۔ شمعِ شبستانِ ماہِ منور ۔۔ قندیلِ فلکِ مہر انور ۔۔ مطلعِ انوارِ ناہید ۔۔ تجلیِ برق و خورشید ۔۔ آئینۂ جمالِ خوب روئی ۔۔ برقِ سحابِ دل جوئی ۔۔ مشعلِ خور تابِ لامکاں ۔۔ تربیع ماہ تابِ درخشاں ۔۔ سہیلِ فلکِ ثوابت ۔۔ اعتدالِ امزجۂ بسائط۔۔ مرکزِ دائرۂ زمین و آسماں ۔۔ محیطِ کرۂ فعلیت و امکاں ۔۔ مربع نشینِ مسندِ اکتائی ۔۔ زاویہ گزینِ گوشۂ تنہائی ۔۔ مسند آرائے ربعِ مسکوں ۔۔ رونقِ مثلثات گردوں ۔۔ معدنِ نہارِ سخاوت۔۔منطقۂ بروجِ سعادت ۔۔ اوجِ محدبِ افلاک ۔۔ رونقِ حضیضِ خاک ۔۔ اسدِ میدانِ شجاعت ۔۔ اعتدالِ میزانِ عدالت ۔۔ سطحِ خطوطِ استقامت ۔۔ حاویِ سطوحِ کرامت۔۔ طبیبِ بیمارانِ ضلالت ۔۔ نباضِ محمومانِ شقاوت ۔۔ علاجِ طبائعِ مختلفہ ۔۔ دافعِ امراضِ متضادہ ۔۔ جوارشِ مریضانِ محبت ۔۔ معجونِ ضعیفانِ امت ۔۔ قوتِ دل ہائے ناتواں ۔۔ آرامِ جاں ہائے مشتاقاں ۔۔ تفریحِ قلوبِ پژمردہ ۔۔ دوائے دل ہائے افسردہ ۔۔ مقدمۂ قیاسِ معرفت ۔۔ ممہدِ قواعدِ محبت ۔۔ عقلِ اول سلسلۂ عقول ۔۔ مبدیِ ضوابطِ فروع و اصول ۔۔ نتیجۂ استقرائے مبادیِ عالیہ ۔۔ خلاصۂ مدارکِ ظاہرہ و باطنہ ۔۔ رابطۂ علت و معلول ۔۔ واسطۂ جاعل و مجعول ۔۔ مدرکِ نتائجِ محسوسات ۔۔ مہبطِ اسرارِ مجردات ۔۔ جامعِ لطائفِ ذہنیہ۔۔ مجمعِ انوارِ خارجیہ ۔۔ حقیقتِ حقائقِ کلیہ ۔۔ واقفِ اسرارِ جزئیہ ۔۔ مبطلِ مزخرفاتِ فلاسفہ ۔۔ مثبتِ براہینِ قاطعہ ۔۔ اوسطِ طرفینِ امکان و وجوب ۔۔ واسطۂ ربطِ طالب و مطلوب۔۔ معلمِ دبستانِ تفرید ۔۔ مدرسِ مدرسۂ تجرید ۔۔ سالکِ مسالکِ طریقت ۔۔ دانائے رموزِ حقیقت ۔۔ اثباتِ وحدتِ مطلقہ ۔۔ برہانِ احدیتِ مجردہ ۔۔ خزینۂ اسرارِ الٰہیہ ۔۔ گنجینۂ انوارِ قدسیہ ۔۔ تصفیۂ قلوبِ کاملہ ۔۔ تزکیۂ نفوسِ فاضلہ ۔۔ سرِ دفترِ دیوانِ ازل ۔۔ خاتمِ صحفِ ملل ۔۔ تخمِ مزرعِ حسنات ۔۔ ترغیبِ اہلِ سعادات ۔۔ جمعِ محاسنِ فتوت ۔۔کفایتِ حوائجِ خلقت ۔۔ ہادیِ سبیلِ رشاد ۔۔ استیعابِ قواعدِ سداد ۔۔ شیرازۂ مجموعۂ فصاحت ۔۔ بہجتِ حدائقِ بلاغت ۔۔ سراجِ وہاجِ ہدایت ۔۔ نسخۂ کیمیائے سعادت ۔۔ تکمیلِ دلائلِ نبوت ۔۔ صحیفۂ احوالِ آخرت ۔۔ منسح منتہی الا رب ۔۔ لُبِ اصولِ ادب ۔۔ بیاضِ زواہرِ جواہر ۔۔ تمہیدِ نوادرِ بصائر ۔۔ مقتدائے صغیر و کبیر ۔۔ مفتاحِ فتحِ قدیر ۔۔ میزبانِ نزل ابرار ۔۔ مفیدِ مستفیدانِ اسرار ۔۔ قلزمِ دررِ قلائد ۔۔ درجِ جواہرِ عقائد ۔۔ تیسیرِ اصولِ تاسیس ۔۔ روضۂ گلستانِ تقدیس ۔۔ احیائے علوم و کمالات ۔۔ مطلعِ اشعۂ لمعات ۔۔ مقدمۂ طبقاتِ بنی آدم ۔۔ رہِ نمائے دینِ مسلم و محکم ۔۔ تشریحِ حجتِ بالغہ ۔۔ تصریحِ واقعاتِ ماضیہ۔۔ تقریرِ قصصِ انبیا ۔۔ تحریرِ معارفِ اصفیا ۔۔ دلیلِ مناسکِ ملت ۔۔ منتقیِ اربابِ بصیرت ۔۔ وسیلۂ امدادِ فتاح ۔۔ سببِ نزہتِ ارواح ۔۔ خازنِ کنزِ دقائق ۔۔ درِ مختار بحرِ رائق ۔۔ ذخیرۂ جواہرِ تفسیر ۔۔ مشکوٰۃِ مفاتیحِ تیسیر ۔۔ جامعِ اصول ۔۔ غرائب معالم ۔۔ مصدرِ صحاح بخاری و مسلم ۔۔ منظورِ مدارکِ عالیہ۔۔ مختارِ عقولِ کاملہ ۔۔ ملتقطِ کتابِ تکوین ۔۔ نہایتِ مطالبِ مومنین ۔۔ انسانِ عیونِ ایمان ۔۔ قرۃ عینینِ انسان ۔۔ منبعِ شریعت و حکم ۔۔ مجمعِ بحرین حدوث و قدم ۔۔ خلاصۂ مآرب سالکین ۔۔ انتہائے منہاج عارفین ۔۔ شرفِ ائمۂ دین ۔۔ تنزیہہ شریعتِ متین ۔۔ زبورِ غرائبِ تدقیق ۔۔ تلخیص عجائبِ تحقیق۔۔ ناقدِ نقدِ تنزیل ۔۔ ناسخِ توریت و انجیل ۔۔ حافظِ مفتاحِ سعادت ۔۔ کشفِ غطائے جہالت ۔۔ واقفِ خزائنِ اسرار ۔۔ کاشفِ بدائعِ افکار ۔۔ عالمِ علومِ حقائق ۔۔ جذبِ قلوبِ خلائق ۔۔ زیبِ مجالسِ ابرار ۔۔ نورِ عیونِ اخیار ۔۔ تہذیبِ لطائفِ علمیہ ۔۔ تجریدِ مقاصدِ حسنہ ۔۔ بیاضِ انوارِ مصابیح ۔۔ توضیحِ ضیائے تلویح ۔۔ حاویِ علومِ سابقین ۔۔ قانونِ شفائے لاحقین ۔۔ معدنِ عجائب و غرائب ۔۔ مدارِ مکارمِ و مناقب ۔۔ نقش فصوصِ حکمیہ ۔۔ منتخب جواہرِ مضیہ ۔۔ عین علم و ایقان ۔۔ حصن حصین امتان ۔۔ تبیین متشابہاتِ قرآنیہ ۔۔ غایت بیان اشارات فرقانیہ۔۔ تنقیح دلائلِ کافیہ ۔۔ تصحیح براہینِ شافیہ ۔۔ زُبدۂ اہلِ تطہیر ۔۔ ملجائے صغیر و کبیر ۔۔ غواصِ بحارِ عرفان ۔۔ زُبدۂ اربابِ احسان ۔۔ مرقاتِ معارجِ حقیقت ۔۔ سلمِ مدارجِ معرفت ۔۔ موضحِ صراطِ مستقیمِ نجات ۔۔ اقصیِٰ معراجِ اصحابِ کمالات ۔۔ قوتِ قلوبِ ممکنات ۔۔ صفائے ینابیعِ طہارات ۔۔ وقایہ احکامِ الٰہیہ ۔۔ افقِ مبینِ انوارِ شمسیہ ۔۔ دستورِ قضاۃ و حکام ۔۔ ایضاحِ تیسیرِ احکام ۔۔ نورِ انوارِ مطالع ۔۔ تنویرِ منارِ طوالع ۔۔ کمالِ بدورِ سافرہ ۔۔ طلعتِ بوارقِ متجلیہ ۔۔ موردِ فتحِ باری ۔۔ تابشِ نورِ سراجی ۔۔ بحرِ جواہرِ درایت ۔۔ طغرائیِ منشورِ رسالت ۔۔ عدیمِ اشباہ و نظائر ۔۔ امینِ کنوزِ ذخائر ۔۔ ملخّصِ مضمراتِ عوارف ۔۔ شرحِ مبسوطِ معارف ۔۔ سراجِ شعبِ ایمان ۔۔برزخِ وجوب و امکان ۔۔ دُرِ تاجِ افاضل ۔۔ ملتقیٰ بحرِفضائل ۔۔ ناطقِ فصلِ خطاب ۔۔ میزانِ نصابِ احتساب ۔۔ منشائے فیضِ وافی ۔۔ مبدئِ علمِ کافی ۔۔ تبییضِ دُرِ مکنون ۔۔ موجبِ سرورِ محزون ۔۔ صرحِ برہانِ قاطع۔۔ نقایہ دلیلِ ساطع ۔۔ رافعِ لوائے ہدیٰ ۔۔ حکمتِ بالغۂ خدا ۔۔ ضوئِ مصباحِ عنایت ۔۔ معطیِ زادِ آخرت ۔۔ عمدۂ فتوحاتِ رحمانیہ ۔۔ مخزنِ مواہبِ لدنیہ ۔۔ نتیجۂ دلائلِ خیرات ۔۔ لمعانِ مطالعِ مسرات ۔۔ قاموسِ محیطِ اتقان ۔۔ بلاغِ مبینِ فرقان ۔۔ نہرِ خیابانِ توحید ۔۔ نورِ عینِ خورشید ۔۔ شمسِ بازغۂ مشارقِ انوار ۔۔ رونقِ ربیعِ بستانِ ابرار ۔۔ شناورِ قلزمِ ملاحت ۔۔ آب یارِ جوے لطافت ۔۔ تراوشِ ابرِ سیرابی ۔۔ ابرِ بہارِ شادابی ۔۔ سحابِ دُر افشانِ سخاوت ۔۔ نیسانِ گہر بارِ عنایت ۔۔ کوثرِ عرصۂ قیامت ۔۔ سلسبیلِ باغِ جنت ۔۔ آبِ حیاتِ رحمت ۔۔ ساحلِ نجاتِ امت ۔۔ روحِ چشمۂ حیواں ۔۔ آشنائے دریائے عرفاں ۔۔ محمد شاہدِ دیں جانِ ایماں ۔۔ محمد رحمتِ حق لطفِ یزداں ۔۔ (ﷺ)‘‘(3)
علاوہ ازیں امام احمدرضا محدث بریلوی کی مختلف تصنیفات کے اقتباسات، مولوی شبلی نعمانی کی نثر ’’ظہورِ قدسی‘‘، سید سلیمان علی ندوی کے ’’خطباتِ مدراس‘‘، مفتی محمد شریف الحق امجدی کی ’’نزہۃ القاری شرح بخاری ‘‘کی مختلف جلدیں، پیر کرم شاہ ازہری کی سیرت پر سات مجلدات کو محیط ’’ ضیاء النبی ‘‘ کی جلد 2؍ 3؍ 4؍ 5، اور پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقش بندی مجددی کراچی کی ’’جانِ ایمان‘‘ اور ’’ جانِ جاناں‘‘ ماہر القادری کی ’’دُرِّ یتیم‘‘ اور دیگر کتبِ سیرت وغیرہ نثری نعت کے نہایت خوبصورت اور دل کش نمونوں کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ متذکرۂ بالا کتب سے بعض کی عبارتیں ذیل میں ہدیۂ قارئین ہے :
’’ہم سر اس کا دیکھا نہ سنا، فر رسالت اس سے پیدا، اور افسرِ شفاعت اس پر زیبا، سرفرازانِ عالم اس کی سرکار میں فِرقِ ارادت زمینِ انکسار پر رکھتے ہیں اور سرشارانِ بادۂ نخوت اپنی سرکشی اور خود سری سے توبہ کرتے ہیں ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ روئے روشن زلفِ سیاہ میں نمایاں ہے، یا نورِ بصر مُردَمکِ چشم سے درخشاں، ماہِ دو ہفتہ پُر نور عارض سے تاباں، شمسِ بازغہ اس کے مدرسۂ تنویر میں شمسیہ خواں، لعلِ بدخشاں کا اس کی رنگینی سے دم فنا اور گلستانِ ارم کا صرصرِ خجالت سے رنگ ہَوا۔ اس عارضۂ پُر نور کے عشق میں رنگِ رخسارِ سحر فق ہے۔ اور سینۂ ماہ شق، مراء تِ خیال کو سکتہ، چراغِ صبح سسکتا، مطبخِ گل زار سرد، رنگِ شفق زرد، دلِ شبنم افسردہ، روئے گل پژ مردہ، دُربا گریاں، مرجانِ بے جان آئینۂ حیران، خورشید سرگرداں، شمعِ چراغِ سحر، عقیق خون در جگر، لالۂ خونین کفن، قمری طوقِ غم بہ گردن، یاقوت بے دم، لعل زیر بارِ غم، یدِ بیضا دست بردل، تدرو بے تیغِ بسمل، بلبل کو اس گلستانِ خوبی کی یاد میں سبقِ بوستان فراموش، اور مرغِ چمن اس گلِ رنگین کے شوق میں روز و شب نالاں و مدہوش، آئینۂ حلب پر اگر وہ سرِّ عرب عکس افگن ہو سوزِ محبت سے گل جائے، اور ورقِ گل پر اگر وصفِ عارضِ رنگین زیبِ رقم ہو پیرہن میں پھولا نہ سمائے۔ یا ایہا المشتاقون بنورِ جمالہٖ صلوا علیہ و آلہٖ۔ ‘‘(4)
٭
’’ہاں ! جشن کی وہ رات، راتوں کی سرتاج۔۔ رشکِ شبِ قدر، ۔۔ نازشِ لیلۃ القدر ۔۔ ہاں ! اس رات ستارے چمک رہے تھے۔۔ چاندنی کھل رہی تھی۔۔ نور کی چادر پھیلی ہوئی تھی۔۔ فضائیں مہک رہی تھیں، ہوائیں چل رہی تھیں، خاموشیاں مسکرارہی تھیں ۔۔ وہ آنے والا پیکرِ بشری میں آ رہا تھا۔۔ ہاں ! رات گذر گئی، وہ آ گیا۔۔ صبح ہو گئی، ہر طرف چہل پہل ہے۔۔ ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہیں ۔۔ ماں خوش ہو رہی ہیں ۔۔ دادا عبدالمطلب مسکرا رہے ہیں ۔۔ چچاؤں کے دل کی کلیاں کھل رہی ہیں ۔۔ خوشی میں باندیوں کے بندھن کھل رہے ہیں ۔۔ سدا کے اسیروں کو آزادیاں مل رہی ہیں ۔۔ اللہ اللہ ! وہ پیارا، ماں کا دُلارا، سیہ کاروں کا سہارا کیا آیا عالم میں بہار آ گئی۔۔ اُس کی آمد آمد کی ساتویں دن خوشی منائی گئی ۔۔ دادا نے نام رکھا۔۔ محمد۔۔ مگر یہ نام تو قرنوں پہلے رکھا جا چکا تھا۔۔‘‘(5)
٭
’’حسن و جمال کا یہ داتا۔۔ جس نے سارے عالم کو حسن و جمال کی بھیک بانٹی۔۔ جس کے صدقے کائنات کے ذرّے ذرّے پر نکھار آیا ۔۔ جو کائنات کا سنگھار ہے۔۔ دیکھیے دیکھیے، آگے قدم بڑھا رہا ہے۔۔ رُخ سے پردہ اٹھانے والا ہے۔۔ جلوہ دکھانے والا ہے۔۔ مگر وہ تو آدم (علیہ السلام) کی تخلیق سے پہلے بھی نبی تھا۔۔ دیکھنے والوں نے ا سے دیکھا بھی تھا۔۔مگر ہم نے نہ دیکھا تھا۔۔ ہم کو دکھا یا جانا تھا۔۔ اسی لیے نا معلوم کب سے اُس کی رسالت و ختمیّت کی بات ہو رہی تھی ۔۔ اس کے آنے سے صدیوں پہلے اس کے آنے کی خبریں دی جا رہی تھیں ۔۔ ذرا ماضی کی طرف چلیے، دور ۔۔ بہت دور۔۔ سنیے سنیے۔۔ نو عمری کا زمانہ ہے، چچا کے ساتھ شام کے سفر پر جا رہے ہیں، اچانک بحیرہ راہب کی نظر پڑتی ہے، بے ساختہ پکار اٹھتا ہے یہ بچہ وہی نبی ہے جس کی عیسیٰ (علیہ السلام) نے بشارت دی تھی۔۔ پھر جب جوانی میں تجارت کے لیے تشریف لے گئے تو نسطورا راہب کی نگاہ پڑ گئی وہ بھی پکار اٹھا آپ اس امت کے نبی ہیں ۔۔‘‘(6)
٭
’’جب وہ جانِ راحت کانِ رافت پیدا ہوا۔۔ بارگاہِ الٰہی میں سجدہ کیا اور ربِّ ھب لی اُمّتی فرمایا۔۔ جب قبر شریف میں اُتاراگیا، لبِ جاں بخش کو جنبش تھی، بعض صحابہ نے کان لگا کر سُنا، آہستہ آہستہ اُمتی فرماتے تھے ۔۔ قیامت کے روز کہ عجب سختی کا دن ہے۔۔ تانبے کی زمین۔۔ ننگے پاؤں ۔۔ زبانیں پیاس سے باہر۔۔ آفتاب سروں پر۔۔ سایے کا پتا نہیں ۔۔ حساب کا دغدغہ۔۔ مَلِکِ قہار کا سامنا۔۔ عالَم اپنی فکر میں گرفتار ہو گا۔۔ مجرمانِ بے یار دامِ آفت کے گرفتار۔۔ جدھر جائیں گے سوا نفسی نفسی اِذہبوا الیٰ غیری کچھ جواب نہ پائیں گے ۔۔ اُس وقت یہی محبوبِ غم گسار کام آئے گا ۔۔ قفلِ شفاعت اس کے زورِ بازو سے کھل جائے گا۔۔ عمامہ سرِ اقدس سے اُتاریں گے اور سر بہ سجود ہو کر’’ اُمتی ‘‘ فرمائیں گے۔۔ وائے بے انصافی! ایسے غم خوار پیارے کے نام پر جاں نثار کرنا اور مدح و ستایش و نشرِ فضائل سے اپنی آنکھوں کو روشنی اور دل کو ٹھنڈک دینا واجب۔۔یا یہ کہ حتی الوسع چاند پر خاک ڈالے اور اِن روشن خوبیوں میں انکار کی شاخیں نکالے۔۔‘‘(7)
٭
(1)پیر کرم شاہ ازہری، علامہ: ضیاء النبی، مطبوعہ دہلی، ج 2، ص174/175
(2)پیر کرم شاہ ازہری، علامہ: ضیاء النبی، مطبوعہ دہلی، ج 2، ص365
(3)نقی علی خاں بریلوی، علامہ : تفسیرِ سورۂ الم نشرح، رضوی کتاب گھر دہلی، ص 4/7
(4)نقی علی خاں بریلوی، علامہ: سرورالقلوب بذکرِ المحبوب، فاروقیہ بک ڈپو، دہلی، ص 119/120
(5)محمد مسعود احمد، پروفیسر ڈاکٹر: جانِ جاناں، رضوی کتاب گھر، دہلی، 1990، ص49/50
(6)محمد مسعود احمد، پروفیسر ڈاکٹر: جانِ جاناں، رضوی کتاب گھر، دہلی، 1990، ص57
(7) احمد رضا بریلوی، امام:مجموعۂ رسائل نور اورسایا، رضا اکیڈمی، ممبئی، 1998ء، ص 73
٭٭٭
جس طرح دیگر اصنافِ سخن میں قصیدہ، مثنوی، رباعی، غزل وغیرہ کا اپنا ایک منفرد اور جداگانہ مقام ہے۔ اسی طرح نعت بھی اپنے اصول و ضوابط کے اعتبار سے ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ دراصل اصنافِ ادب میں نعت سے زیادہ لطیف، نازک اور مشکل ترین کوئی صنفِ سخن نہیں اور اس سے کماحقہٗ عہدہ بر آ ہونا ممکن بھی نہیں اس لیے کہ ذاتِ باریِ تعالیٰ خود رسول کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کی ثنا خواں و مدح خواں ہے۔
نعت نگار کو اپنا شہبازِ فکر بڑے ہی ہوش و خرد کے ساتھ اس پُر خطر وادی میں پرواز کرنا پڑتا ہے۔ اگر اس سے اس راہ میں ذرہ بھر بھی لغزش اور کوتاہی ہو جاتی ہے تو اس کا ایمان و اسلام اور دین و مذہب دونوں خطرے میں پڑ جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ نعت کے میدان میں آہستگی کے ساتھ نہایت سنبھل کر حزم و احتیاط کے دامن کو تھامے ہوئے قدم رکھنا ضروری ہے۔ اکثر نعت گو شعرا نے اس پُر خطر وادی میں بڑے ہو ش و حواس کے ساتھ قدم رکھا ہے۔ علاوہ ازیں ایسے نعت گو شعرا بھی ہیں جن سے اس راہ میں لغزشیں ہوئی ہیں اُن کا ذکر آئندہ ضمنی باب میں کیا جائے گا۔ البتہ جن نعت گو شعرا نے اس پُر وادی کے خطرات اور فنِ نعت کی اہمیت و عظمت، اس کے مقام و مرتبہ اور تقدس کو محسوس کیا ہے ان کے جذبات و احساسات کو ذیل خیالات کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔
امام احمد رضا محدثِ بریلوی :
’’حقیقتاً نعت شریف لکھنا نہایت مشکل ہے، جس کو لوگ آسان سمجھتے ہیں اس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے اگر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہونچ جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہوتی ہے البتہ حمد آسان ہے کہ اس میں راستہ صاف ہے جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے، غرض ایک جانب اصلا حد نہیں اور نعت شریف میں دونوں جانب سخت پابندی ہے۔ ‘‘ (1)
عبد الکریم ثمرؔ :
’’نعت نہایت مشکل صنفِ سخن ہے نعت کی نازک حدود کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس کی آفاقیت قائم رکھنا آسان کام نہیں۔ سرکارِ اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کی شانِ اقدس میں ذرا سی بے احتیاطی اور ادنا سی لغزشِ خیال و الفاظ ایمان و عمل کو غارت کر دیتی ہے۔ ‘‘ (2)
مجید امجد:
’’حقیقت یہ ہے کہ جنا بِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف میں ذرا سی لغزش نعت گو کو حدودِ کفر میں داخل کر سکتی ہے۔ ذرا سی کوتاہی مدح کو قدح میں بدل سکتی ہے، ذرا سا شاعرانہ غلو ضلا لت کے زمرے میں آسکتا ہے، ذرا سا عجزِ بیان اہانت کا باعث بن سکتا ہے۔ ‘‘ (3)
ڈاکٹر ابواللیث صدیقی:
’’نعت کے موضوع سے عہدہ برآہوناآسان نہیں موضوع کا احترام کلام کی بے کیفی اور بے رونقی کی پردہ پوشی کرتا ہے، نقاد کو نعت گو سے باز پُرس کرنے میں تامّل ہوتا ہے اور دوسری طرف نعت گو کو اپنی فنی کمزوری چھپانے کے لیے نعت کا پردہ بھی بہت آسانی سے مل جاتا ہے، شاعر ہر مرحلہ پر اپنے معتقدات کی آڑ پکڑتا ہے اور نقاد جہاں کا تہاں رہ جاتا ہے لیکن نعت گوئی کی فضا جتنی وسیع ہے اتنی ہی اس میں پرواز مشکل ہے۔ ‘‘ (4)
ڈاکٹر اے۔ ڈی۔ نسیم قریشی:
’’نعت گوئی کا راستہ پُل صراط سے زیادہ کٹھن ہے اس پر بڑی احتیاط اور ہوش سے چلنے کی ضرورت ہے اس لیے اکثر شاعروں نے نعت کہنے میں بے بسی کا اظہار کیا ہے جس ہستی پر خدا خود درود بھیجتا ہے انسان کی کیا مجال کہ اس کی تعریف کا احاطہ کر سکیں۔ ‘‘ (5)
ڈاکٹر فرمان فتح پوری:
’’نعت کا موضوع ہماری زندگی کا ایک نہایت عظیم اور وسیع موضوع ہے اس کی عظمت و وسعت ایک طرف عبد سے اور دوسری طرف معبود سے ملتی ہے۔ شاعر کے پا ے فکر میں ذرا سی لغزش ہوئی اور وہ نعت کے بجائے گیا حمد و منقبت کی سرحدوں میں۔ اس لیے اس موضوع کو ہاتھ لگانا اتناآسان نہیں جتنا عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔ حقیقتاً نعت کا راستہ بال سے زیادہ باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے۔ ‘‘ (6)
مذکورہ بالا فکر انگیز، پاکیزہ خیالات سے یہ امر واضح ہو جا تا ہے کہ ایسی ارفع و اعلا ذات کو جب شاعر اپنی شاعری کا موضوع بناتا ہے تو اسے کن سنگلاخ وادیوں سے گذرنا پڑے گا اور کس قدر قیود و آداب اس کے عنان گیر رہیں گے، لہٰذا نعت گوئی ہماری شاعری میں سب سے زیادہ اہم اور دشوار گزار وہ موضوع ہے جو اس خیال کو استحکام بخشتا ہے کہ جن حضرات کوسرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و سلم سے دلی تعلق اور روحانی رابطہ ہو گا یقیناً وہی اس پُر خار وادی میں قدم رکھ سکتے ہیں۔ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور جذبۂ ایمانی سے سرشار ہو کر نعت گوئی کے لیے دیوانہ وار قلم برداشتہ نہیں لکھا جائے گا کہ اس طرح شاعر اس مقام تک جا سکتا ہے جو کفر واسلام اور شرک و توحید کی سرحد ہے۔ اس لیے نعت گو شاعر پر اوزان و بحور ہی کی پابندیاں عائد نہیں ہوتی ہیں بل کہ اسلام اور شریعت کاپاس و لحاظ اس کے لیے لازمی ہے۔ دراصل نعت ہماری شاعری کی وہ محبوب اور پاکیزہ صنف ہے جس کے ڈانڈے ایک طرف عبد سے اور دوسری طرف معبود سے ملتے ہیں اور اس کا راستہ بال سے باریک اور تلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے، نعت گو جب تک عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں ڈوب کر توحید ورسالت اور عبودیت کے نازک رشتوں میں ہم آہنگی پیدا نہ کرے اس وقت تک وہ نعت گوئی کے منصب سے عہدہ بر آ نہیں ہو سکتا۔ نعت کا فن نہایت مشکل ہے، کیوں کہ نعت کے مضامین قرآن و حدیث سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ اُن مضامین کو نظم و نثر میں اس اسلوب اور طرزِ ادا میں بیان نہیں کیا جا سکتا جسے دوسرے معشوقانِ مجازی کے ذکر کے وقت شاعراستعما ل کرتا ہے، یہاں چشمِ زدن کے لیے بھی ادب کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جانے پر شاعر کا اسلام و ایمان تباہ و برباد ہوسکتا ہے۔
دراصل نعت ایک ایسے ممدوح کی تعریف و توصیف ہے جس کی بارگاہ میں بے جا مبالغہ آرائی قربتِ ممدوح کا وسیلہ نہیں بن سکتی اور نہ یہاں اس بیان کو باریابی حاصل ہے جو حق و صداقت کی ترجمانی سے محروم ہو۔ یہاں قدم قدم پر خطرات کا سامنا ہے، کیوں کہ نعت اُس ذاتِ مقدس کی مدح سرائی ہے جن کی بارگاہ میں دانستہ و نادانستہ ذرا بھی سوے ادب حبطِ اعمال کا سبب ہوسکتا ہے، یہاں ’’با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار‘‘ کی منزل ہمہ وقت سامنے رہنی چاہیے۔ غرض یہ کہ نعت کی راہ شاعری کی سخت ترین راہوں میں سے ہے اور تمام اصنافِ سخن سے مشکل، اگر حد سے تجاوز کرتا ہے تو الوہیت کی تجلی خاکستر کر دے گی اور کمی کرتا ہے تو تنقیصِ شانِ رسالت کی تیز تلوار شاعر کی گردن ناپ دے گی لہٰذا اس فن کی نزاکتوں سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے بڑے محتاط فکر و تخیل، ہوشیاری اور ادب شناسی کی ضرورت پڑتی ہے کسی خیال کو فنی پیکر عطا کرنے سے پہلے اس کو سو بار احتیاط کی چھلنی میں چھان لینا پڑتا ہے تب کہیں جا کر وہ معرضِ وجود میں آتا ہے اور احتیاط کے تقاضوں کو ادا کرتا ہے۔
(1) مصطفیٰ رضا نوری بریلوی، علامہ:الملفوظ، مطبوعہ کانپور، ص144/145
(2) نقوش: رسول نمبر، لاہور، ج10، ص24
(3) نقوش: رسول نمبر، لاہور، ج10، ص24
(4) نقوش: رسول نمبر، لاہور، ج10، ص25
(5) نقوش: رسول نمبر، لاہور، ج10، ص25
(6) نقوش: رسول نمبر، لاہور، ج10، ص25
٭٭٭
نعت جملہ اصنافِ ادب میں انتہائی مشکل ترین اور حزم و احتیاط کی متقاضی صنف ہے، یہ پُل صراط پر چلنے اور تلوار پر قدم رکھنے کے مترادف ہے، بہ قولِ عُرفیؔ ؎
عُرفیؔ مَشَتاب ایں رہِ نعت است نہ صحرا
آہستہ کہ رہ بر دمِ تیغ است قدم را
ہشدار کہ نتواں بیک آہنگ سرودن
نعتِ شہ کونین و مدیحِ کے و جم را
گذشتہ اوراق میں نعت اور آدابِ نعت سے متعلق جید علمائے ادب کے گراں قدر اقوال و تاثرات کو پیش کیا گیا ہے جن کے مطالعہ کے بعد نعت کا سب سے اہم ترین اور قابلِ توجہ پہلوجوسامنے آیا ہے وہ حزم و احتیاط کا ہے۔
حزم و احتیاط نعت کے دیگر جملہ لوازمات و ضروریات میں انتہائی اہم جز ہے۔ اگر شاعر اس میں سرِ مو بھی حد سے تجاوز کرتا ہے تو الوہیت تک پہونچ کر شرک جیسے گناہِ عظیم کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے اور اگر بال برابر بھی کمی کرتا ہے تو تنقیصِ شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم ہو جاتی ہے اور وہ بجائے ثنا خوانِ رسول کہلا نے کہ بارگاہِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں بے ادب اور گستاخ سمجھا جاتا ہے اور لعنت کے طوق کا حامل ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں باتیں شاعر کے لیے دنیا و آخرت دونوں جگہ نقصان کی باعث بنتی ہیں۔ اسی لیے نعت کے میدان میں آہستگی کے ساتھ نہایت سنبھل کر حزم و احتیاط کے دامن کو سختی سے تھامے ہوئے قدم بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے، نعت کے میدان میں لمحہ لمحہ با ادب، با ملاحظہ، ہوشیار کی صدائے باز گشت گونجتی رہتی ہے اور یہاں پا ے اسلوب میں ہر لحظہ شریعتِ مطہرہ کی بیڑیوں کی کار فرمائیاں ہوتی ہیں۔
نعت دراصل حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی مدح سرائی، تہنیت، ثنا گوئی اور قصیدہ خوانی کا نام ہے کہ جن کے اوصافِ حمیدہ اور خصائلِ جمیلہ کو خود خالقِ کائنات جل شانہٗ نے قرآنِ پاک میں بیان فرمایا ہے، کہیں اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم کو مزمل و مدثر، کہیں طہٰ و یٰٓس، کہیں منذر و نذیر، کہیں سراجِ منیرجیسے القاب و خطابات سے یا د فرما کر محبوبِ رعنا صلی اللہ علیہ و سلم کی تقدس مآب بارگاہ کا ادب و احترام بتایا اور نعت گوئی کرنے والوں کو سلیقہ و شعور بخشا۔ دیکھا جائے تو قرآنِ مقدس کے ورق ورق میں ثنائے مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثنا مسطور ہے اور اس کی سطر سطر بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے ادب و احترام اور تعظیم و توقیر کا نورِ بصیرت اکنافِ عالم میں عام کر رہی ہیں۔ غرض یہ کہ قرآنِ مقدس مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کی نعت بھی ہے اور کامل و اکمل ترین اولین درس گاہِ نعت بھی۔
قرآن و سنت اور سیرتِ طیبہ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اگر نعت قلم بند کی جائے تو شاعر ہر قسم کی بے راہ روی، افراط و تفریط، غلو و اغراق اور کج بیانی سے کوسوں دور رہے گا، بہ قول رضا بریلوی ؎
قرآن سے میں نے نعت گوئی سیکھی
تاکہ رہے احکامِ شریعت ملحوظ
چناں چہ یہ امر ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے وہی شاعر نعت گوئی میں کام یاب و کام ران ہوسکتا ہے جو شریعتِ مطہرہ کے رموز واسرار سے کماحقہٗ واقف ہو اور سیرتِ طیبہ کا قاری و عامل بھی۔ کیوں کہ نعت میں خیالات کی بے راہ روی، افراط و تفریط اور غلو و اغراق کی چنداں گنجایش نہیں ہوتی یہاں لمحہ بھر کے لیے بھی زمامِ حزم و احتیاط ہاتھ سے بہ ہر صورت نہیں چھوٹنا چاہیے ورنہ شاعر کا ایمان واسلام اور دین و مذہب خطرے میں پڑ جائے گا اور جس کے نتیجے میں وہ خسر الدنیا و الآخرۃ قرار دیا جائے گا۔
احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ مبارکہ قیس و فرہاد، وامق و رانجھا اور لیلا و مجنوں کی طرح بے محابا عشق و محبت کے اظہار و اشتہار کی بارگاہ نہیں بل کہ یہاں صدیق و فاروق، عثمان و علی، سلمان و بوذر، خالد و ابنِ رواحہ اور دیگر جاں نثار صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تئیں مخلصانہ احترام و عقیدت، تعظیم و توقیر اور عشق و محبت کی خاموش عبادت مقبول ہے، اس مقام پر دلِ رنجور کے ہزار پارچے یہاں وہاں بکھیرنے والوں کا ازدحام نہیں بل کہ کفر و شرک، باطل پرستوں اور دشمنانِ مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و سلم )کے لشکرِ جرار کے مقابل چند فدایانِ شوق، حق پرست دیوانگانِ مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و سلم ) کی سر بہ کف عقیدت مندیاں اور جذبۂ ایثار و قربانی کی الفت آمیز سرشاریاں ہیں۔ اس بارگاہِ عظمت نشان میں دربارِ ایزدی کے مقرب قدسیانِ کرام اس درجہ ادب و احترام سے حاضر ہوتے ہیں کہ ان کے پروں کی آہٹ بھی محسوس نہیں ہوتی بہ قولِ علامہ اخترؔ رضا ازہری بریلوی ؎
’’ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرشِ نازک تر‘‘
یہاں آتے ہیں یوں قدسی کہ آوازہ نہیں پر کا
نعتیہ ادب کا ناقدانہ مطالعہ و تجزیہ کرنے کے بعد یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح اور عیاں ہو جاتی ہے کہ جہاں بیش تر نعت گو شعرا نے انتہائی درجہ حزم و احتیاط سے کام لیتے ہوئے بارگاہِ مصطفیٰ(صلی اللہ علیہ و سلم ) میں اپنا خراجِ عقیدت و محبت پیش کیا ہے وہیں بعض شعراسے نعت گوئی کے میدان میں لغزشیں بھی ہوئی ہیں اور ان کے ہاتھوں سے احتیاط کا دامن چھوٹتا نظر آیا ہے انھوں نے نعت میں ان مضامین کو نظم کر دیا ہے جن سے بچنا اور دور رہنا لا زمی امر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان شعرا کے اشعار میں افراط و تفریط اور غلو و اغراق پایا جاتا ہے۔ ویسے نعتیہ ادب کی روح سے واقف حضرات نے تنقید و اصلاح کا کارنامہ شروع سے ہی جاری رکھا تھا۔ اس ضمن میں ایک تاریخی واقعہ کا ذکر کرنا غیر مناسب نہ ہو گا۔ اردو زبان کے مشہور شاعر جناب اطہر ہاپوڑی نے ایک نعت لکھ کر امام احمد رضا بریلوی کے پاس بہ غرضِ ملاحظہ ارسال کی، جس کا مطلع تھا ؎
کب ہیں درخت حضرتِ والا کے سامنے
مجنوں کھڑے ہیں خیمۂ لیلا کے سامنے
امام احمد رضا بریلوی اس پر ناراض ہوئے اور فرمایا کہ مطلع کا مصرعِ ثانی منصبِ رسالت سے فروتر ہے۔ محبوبِ کردگار صلی اللہ علیہ و سلم کے گنبدِ خضرا کو خیمۂ لیلا سے تشبیہ دینا بے ادبی ہے اور مجنوں میاں بیچ میں کہاں سے آ گئے؟ یہ تو ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا معاملہ ہے، ساتھ ہی قلم برداشتہ یوں اصلاح فرمائی ؎
کب ہیں درخت حضرتِ والا کے سامنے
قدسی کھڑے ہیں عرشِ معلا کے سامنے
حضرت اطہر ہاپوڑی اس اصلاح پر اتنا خوش ہوئے کہ تا عمر اس پر نازاں رہے۔ یہ ان تمام شعرا کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جو نعتِ پاک میں بے احتیاطی اور من گھڑت واقعات کے باب میں توجہ دلانے پر برافروختہ ہو جاتے ہیں۔
میدانِ نعت میں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اچھے اچھے اور نام ور شعرا کے کلام میں بھی بے اعتدالی پائی جاتی ہے اور وہ نعتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم لکھتے ہوئے راستہ بھول کر الوہیت کی منزل تک پہنچ جاتے ہیں اور بے خبری کے اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ، مثلاً استاذالاساتذہ امیرؔ مینائی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
ظاہر ہے لفظِ اَحد و احمدِ بے میم
بے میم ہوئے عین خدا احمدِ مختار
ظاہر ہے لفظِ ’’احد‘‘ حقیقت میں بے میم ہے یا لفظِ ’’احمد ‘‘ سے میم کو جدا کر دیں تو لفظ’’ احد‘‘ رہ جاتا ہے۔ جس سے امیرؔ مینائی یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’’ احد ‘‘ و ’’احمد‘‘ ایک ہیں اور’’ احمدِ مختار‘‘ معاذ اللہ ’’عین خدا‘‘ ہیں۔ آپ مشکل سے یقین کریں گے کہ یہ امیرؔ مینائی جیسے ہوش مند شاعر کا شعر ہے۔ مزید دیکھیں ؎
قرآن ہے خورشید تو نجم صحیفے
اللہ گہر اور صدف احمدِ مختار
مصرعۂ ثانی شرعاً قابلِ گرفت اور لائقِ اعتراض ہے، کیوں کہ صدف سے گہر (موتی) پیدا ہوتا ہے اور امیرؔ مینائی کے مذکورۂ بالا شعر کی روشنی میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم صدف ہوئے اور اللہ تعالیٰ جل شانہٗ گہر تو غور فرمائیے کہ معنی و مفہوم کہاں سے کہاں تک جا پہنچا ہے ؟موصوف کے اس شعر سے بھی صَرفِ نظر نہیں کیا جا سکتاکہ ؎
طور کا جلوہ تھا جلوہ آپ کا
لن ترانی تھی صدائے مصطفیٰ
شاعر کے نزدیک طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو تجلی دیکھی تھی وہ جلوۂ مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم ہی تھا، اور لن ترانی بھی حضور صلی اللہ علیہ و سلم ہی نے کہا تھا (گویا حضور صلی اللہ علیہ و سلم خدا کے پردے میں خود ہی لن ترانی فرما رہے تھے، معاذ اللہ) یہ عقیدہ بھی توحید کے یک سر منافی اور شرعاً نادرست ہے۔ اسی طرح امیرؔ مینائی کا ہی ایک شعر دیکھیں ؎
طور وہ روضہ ہے، میں صورتِ موسیٰ لیکن
اَرِ نی مُنہ سے نکالوں جو مزار آئے نظر
اس شعر میں موصوف کہہ رہے ہیں کہ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کوہِ طور ہے اور میں بہ صورتِ موسیٰ (علیہ السلام) ۔۔ جب مجھے روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نظر آ جائے گا تو میں ربِّ ارِنی کہوں گا۔ یہاں نبیِ کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو ’’رب‘‘ کہنا نعت گوئی کا منصب نہیں بل کہ یہ آدابِ نعت اور لوازماتِ نعت سے بھٹک جانا ہے۔ یہ شعر بھی ملاحظہ کریں ؎
پاک تھی رنگِ دو رنگی سے وہ خلوت گہہِ خاص
وہی شیشہ، وہی مَے خوار تھا معراج کی شب
قابَ قوسین کی خلوتِ گاہِ خاص میں دو نہ تھے بل کہ صرف ایک ہی ذات تھی۔ وہی ذات شراب کی بوتل، وہی ذات شراب پینے والی تھی۔ امیرؔ مینائی کا ’’وہی ‘‘ سے خدا کی طرف اشارہ ہے یا حبیبِ خدا کی جانب، یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ خدا کو رسولِ خدا کا منصب دینا یا رسولِ خدا کو خدا کے مقام پر فائز کرنا یا دونوں کو ایک ہی قرار دینا دونوں ہی صورتیں قابلِ گرفت ہیں۔ نیز خدا اور حبیبِ خدا کو شیشہ و شراب اور مَے خوار جیسے سوقیانہ الفاظ سے تشبیہ دینا ادب و احترام کے یک سر خلاف ہے۔
مندرجہ بالا اشعار سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امیرؔ مینائی سے لغزشیں ہوئی ہیں کیوں کہ ان اشعار میں حضور احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات والا صفات کا بیان الوہیت کی صفات سے متصف کر کے کیا گیا ہے جس سے اخذ ہونے والا مفہوم یہی بتاتا ہے کہ معاذ اللہ ثم معاذاللہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم خدا ہیں۔ جب کہ آقا ے کائنات صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات کی سخت ممانعت فرمائی ہے کہ ہرگز ہرگز تم مجھ کو خدا نہ بنانا چناں چہ ارشاد فرماتے ہیں :
’’مجھے حد سے نہ بڑھاؤ جیسا کہ نصاریٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ کیا میں تو خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہوں مجھے صرف خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو۔ ‘‘ (1)
چناں چہ اسی حدیث پاک کی ترجمانی فرماتے ہوئے عاشقِ رسول اور عظیم نعت گو شاعر حضرت علامہ شرف الدین بوصیری علیہ الرحمہ (م695ھ)اپنے مشہورِ زمانہ قصیدۂ بُردہ میں ارشاد فرماتے ہیں ؎
’’دَع مَادَّ عَتہ ُ النَّصاریٰ فی نَبِیہِمُ
وَاحکُم بِمَا شِئتَ مَدحاً فیہِ وَاحتَکَمٖ
ترجمہ : وہ نعت چھوڑ جو عیسا ئیوں نے اپنے نبی کی شان میں کہی، کہ ابنُ اللہ بنا ڈالا اور اس کے سوا جو کچھ نعت میں کہنا چاہے حکم لگا کر اور فیصلہ کر کے کہہ۔ ‘‘
اسی قبیل کا ایک شعر اور ملاحظہ ہو، امیرؔ مینائی کہتے ہیں ؎
آیا خیالِ انجمنِ لامکاں ہمیں
دیکھے کبھی جو عاشق و معشوق ڈاب میں
(امیرؔ مینائی : محامدِ خاتم النبیین، مطبع نول کشور، لکھنؤ، صفحاتِ متفرقہ)
اس شعر کا مصرعۂ ثانی مبتذل ہے۔ انجمنِ لامکاں اور بزمِ اسرا میں اللہ جل شانہٗ اور محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ و سلم کی ملاقات کہاں اور دنیاوی عاشق و معشوق اور اُن کا ملن اور ڈاب کہاں ؟ اس شعر کا مضمون و تخیل اور تشبیہ کا انداز عامیانہ و سوقیانہ اور مبنی بر تضحیک و ابتذال ہے جو نعت جیسی تقدیسی صنف کے لیے قطعاً نامناسب اور خلافِ ادب ہے۔
اس طرح کے معاملات مشہور اور عظیم نعت گو شاعر محسنؔ کاکوروی کے کلام میں بھی ملتے ہیں، آپ کا کلام ملاحظہ ہو ؎
عینیت سے غیرِ رب کو رب سے
غیریتِ عین کو عرب سے
ذاتِ احمد تھی یا خدا تھا
سایا کیا میم تک جدا تھا(2)
ان شعروں میں ’’احمد‘‘ کے ’’میم‘ ‘ کو ہٹا کر ’’اَحد‘‘ اور ’’عرب‘‘ سے ’’عین‘‘ کو لفظ سے جدا کر کے ’’رب ‘‘ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ جن سے شرعی سقم مترشح ہوتا ہے۔
حضرت کرامت علی شہیدیؔ کا یہ شعر دیکھیں ؎
خدا منہ چوم لیتا ہے شہیدیؔ کس محبت سے
زباں پر میرے جس دم نام آتا ہے محمد کا
یہ شعر عاشقِ رسول (ﷺ) حضرت شہیدیؔ کا سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے تئیں والہانہ وارفتگی کا اشاریہ ہے، جس کے پُر خلوص ہونے سے انکار محال ہے لیکن ’’منہ چومنا‘‘۔۔ ’’بوسا لینا‘‘ یہ سب انسانی افعال ہیں جن سے سبحان السبوح و القدوس جل شانہٗ پاک و منزہ ہے۔ اسی طرح حضرت بیدمؔ شاہ وارثی کا یہ شعر بھی ملاحظہ کریں کہ بیدمؔ شاہ وارثی آدابِ نعت اور لوازماتِ نعت اور تقاضائے نعت کی حدود سے کتنی آگے نکل گئے ہیں اس شعر کو کسی بھی طرح سے نعت کا عمدہ شعر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس قسم کی بے جا خیال آرائیوں کی نعت میں چنداں گنجایش نہیں ؎
عشق کی ابتدا بھی تم عشق کی انتہا بھی تم
رہنے دو راز کھل گیا بندے بھی تم خدا بھی تم
امیرؔ مینائی، کرامت علی شہیدیؔ ، بیدمؔ شاہ وارثی اور محسنؔ کاکوروی جیسے اساتذۂ نعت کے علم و فضل پر ذرّہ بھر بھی شبہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان حضرات کے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی مخلصانہ تہہ داریوں کو نشانۂ تنقید بنایا جا سکتا ہے۔ اردو نعت گوئی کے فروغ و ارتقا اور استحکام میں ان کی خدمات یقیناً آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں ان حضرات سے جوشِ عقیدت میں جو شرعی لغزشیں واقع ہوئی ہیں اگر وہ ان سے باخبر ہو جاتے تو ایسے مضامین کو اپنے کلام سے خارج کر دیتے۔
مقالہ نگار کے ممدوح مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ رسولِ کونین ﷺ کی الفت و محبت میں والہانہ سرشار ی کے با وصف ایسے نازک مقامات سے چراغِ شریعت اور عشقِ حبیب کے اُجالے میں سلامت روی کے ساتھ گذرے ہیں۔ شعر نشانِ خاطر کریں ؎
خدا ہے تو نہ خدا سے جُدا ہے اے مولا
ترے ظہور سے رب کا ظہور آنکھوں میں
اور یہ دو شعر دیکھیں ، جوشِ عقیدت اور جذبۂ محبت میں عقیدہ کیسا سلامت ہے، فرماتے ہیں ؎
سجدہ کرتا جو مجھے اس کی اجازت ہوتی
کیا کروں اذن مجھے اس کا خدا نے نہ دیا
حسرتِ سجدہ یوں ہی کچھ تو نکلتی لیکن
سر بھی سرکار نے قدموں پہ جھکانے نہ دیا
عصرِ حاضر کے نعتیہ منظر نامے پر جو شعرا نعت کے میدان میں اپنی فکری جولانیاں دکھا رہے ہیں اُن میں بھی کچھ کے کلام میں قابلِ گرفت موضوعات در آئے ہیں۔ ذیل میں پیش مشہور نعت گو شاعر جناب اعظم چشتی کے اشعار بہ طورِ مثال پیش کیے جاتے ہیں جنھوں نے حزم و احتیاط کی شرط کو برقرار نہ رکھتے ہوئے شاعری کی ہے ؎
انسانیت کو بخشی وہ معراج آپ نے
ہر آدمی سمجھنے لگا ہے، خدا ہوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عبد و معبود میں ہے نسبتِ تام
ہے محمد بھی احمدِ بے میم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عقل کہتی ہے مثلُنا کہیے
عشق بے تاب ہے خدا کہیے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آ گئی سامنے آنکھوں کے اللہ کی صورت
آئے سرکار جو اللہ کی برہاں بن کر
(اعظم چشتی: نیرِ اعظم، صفحاتِ متفرقہ)
مذکورہ بالا اشعار میں عبد و معبود اور الوہیت و رسالت کے فرق کو ملحوظ نہ رکھتے ہوئے شرکیہ مضامین قلم بند ہوئے ہیں ان اشعار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بندہ بھی اور خدا بھی بتایا گیا ہے جو کسی بھی لحاظ سے صحیح نہیں ہے اور ذیل کے دو اشعار دیکھیں ان اشعار میں بارگاہِ خداوندی کے لیے جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے اسے بے ادبی قرار دینا غیر مناسب نہ ہو گا ؎
محمد نے خدائی کی خدا نے مصطفائی کی
کو ئی سمجھے تو کیا سمجھے کو ئی جانے تو کیا جانے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اللہ کے پلّے میں وحدت کے سوا کیا ہے
جو کچھ ہمیں لینا ہے لے لیں گے محمّد سے
(نامعلوم)
یہ بات مسلمہ ہے کہ نعت کا فن نعت نگار سے یہ چاہتا ہے کہ وہ نعت لکھتے ہوئے شریعت کا پاس و لحاظ کرے اور الوہیت و رسالت کے فرق کوسمجھے۔ نعت گوئی میں حزم و احتیاط اور لغزشوں پر مبنی جن اشعار کی مثالیں دی گئی ہیں ان سے مقصود بزرگ نعت گو شعرا پر نشترِ تنقید چلانا نہیں ہے بل کہ اس محاکمہ سے مجھے اس خیال کو مزید تقویت پہنچانا ہے کہ یقیناً نعت کے پلِ صراط پر چلنا نہایت مشکل کام ہے، اور نعت گوئی ’’اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں ‘‘ سے عبارت ہے۔
علاوہ ازیں مدینۂ طیبہ کے لیے ’’یثرب‘‘ کا استعمال شرعاً منع ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث ہے، یقولونَ یَثربَ وہِیَ المدینۃ، لوگ اسے یثرب کہتے ہیں حال آں کہ یہ مدینہ ہے۔ ممانعت کے باوجود بعض شعرا مثلاً امیرؔ مینائی، ڈاکٹر اقبالؔ ، محمد علی جوہرؔ ، ظفرؔ علی خاں، حفیظؔ جالندھری وغیرہ نے یثرب کا استعمال کیا ہے ؎
خاکِ یثرب ہے مرتبے میں حرم
واہ رے احترام احمد کا
(امیرؔ مینائی)
نگاہ عاشق کی دیکھ لیتی ہے پردۂ میم اٹھا اٹھا کر
وہ بزمِ یثرب میں آ کے بیٹھیں ہزار منھ کو چھپا چھپا کر
(ڈاکٹر اقبالؔ )
جس سے چہرے دمک اٹھے تھے یثرب کے
دیکھو جوہرؔ کی بھی آنکھوں میں وہی نور ہے آج
(محمد علی جوہرؔ )
ارسطو کی حکمت ہے یثرب کی لونڈی
فلاطون طفلِ دبستانِ احمد
(ظفرؔ علی خاں )
اسی طرح جب حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم اور دیگر انبیا ے کرام علیہم السلام کا تقابل بھی شعرا کرتے ہیں تو بعض اوقات اس میں بھی بے ادبی کا پہلو نکل جاتا ہے۔ اس لیے دیگر انبیائے کرام علیہم السلام سے تقابل کے موقع پر ’’تلک الرسل فضلنا بعضہم علیٰ بعض‘‘ کو پیشِ نظر رکھ کر سلیقہ مندی اور ادب و احترام کو ملحوظ رکھنا بھی از حد ضروری ہے۔
میدانِ نعت میں ان احتیاطی رویوں کے ساتھ متن اور لفظوں کے انتخاب میں بھی غایت درجہ توجہ کی ضرورت ہے۔ نعت میں انھیں مضامین کو نظم کیا جانا چاہیے جو مستند اور قرآن و حدیث کے متقاضی ہیں اور روایت و درایت کے اصولوں سے پایۂ ثبوت تک پہنچتے ہیں۔ بابِ فضائل میں ضعیف روایتیں بھی قابل قبول ہیں۔ لیکن موضوعات اور من گھڑت واقعات و قصص اور روایتوں کو جلیل القدر محدثین و محققین اور علمائے محتاطین کے نزدیک کسی بھی قسم کا مقامِ اعتبار حاصل نہیں ہے۔ واضح ہونا چاہیے کہ نعت گوئی میں موضوع اور من گھڑت روایتوں کو بیان کرنا نعت گوئی کے اصولوں کے یک سر منافی ہے۔ نعت نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ نعت گوئی سے پہلے صرف نعتیہ شاعری ہی نہیں بل کہ مستند روایتوں پر مشتمل سیرتِ طیبہ کی کتب و رسائل کا بھی گہرائی سے مطالعہ کرے۔
مشہور ناقد و شاعراحسان دانشؔ اپنے شاگردوں کو مشورہ دیا کرتے تھے کہ:
’’صرف شاعری کا مطالعہ کافی نہیں ہے، اچھا اور ستھرا شعر کہنے کے لیے نثری ادب بھی پڑھنا ضروری ہے۔ ‘‘
بہ قول عزیز احسنؔ (کراچی):
’ ’نعتیہ اشعار قلم بند کرنے کے لیے تو نثری ادب کی شرط کے ساتھ ساتھ دینی ادب کی شرط بھی لگانی ضروری ہے۔ ‘‘
چناں چہ نعت گو کو چاہیے کہ وہ سیرت و مغازی، تاریخِ اسلام، حیاتِ طیبہ، اور فضائلِ سیدُ الانام صلی اللہ علیہ و سلم پر لکھی گئی مستند نثری کتب کا بھی مطالعہ کرے۔ موضوع اور من گھڑت روایتوں پر مشتمل میلاد ناموں، معراج ناموں، مواعظ، خطبات اور حکایات سے دور رہے تاکہ اس کا کلام ہر قسم کی بے اعتدالی، بے راہ روی اور شرعی اسقام سے پاک و مبرا بن سکے۔ بلا تردد ہر قسم کے زباں زدِ خاص و عام غیر ثقہ اور وضعی مضامین، جعلی حکایات اور واقعات کو نعت میں منظوم کرتے رہنا یہ کسی بھی طرح سے لائقِ تحسین نہیں۔ ہاں ! یہ بات بھی تسلیم ہے کہ دورِ متاخرین و متوسطین کے شعرا کا ماخذ عموماً سنی سنائی روایتوں اور غیر مستند واقعات و حکایات پر مشتمل کتابیں تھیں اور جن کے صحیح و سقیم کا اندازہ لگانا بہ ہر کیف ! ایک مشکل امر تھا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ بعض علمائے اعلام نے روایت و درایت کے اصولوں پر جانچ پرکھ کر ایسی جملہ موضوع روایتوں کو اپنی کتب و رسائل میں جمع کر دیا ہے۔ اردو نعتیہ شاعری میں کثرت سے نظم کیے جانے والے بعض ایسے مضامین کی نشان دہی ذیل میں نشانِ خاطر فرمائیں۔
شبِ معراج میں حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کے نعلین شریف سمیت عرشِ معلا پر تشریف لے جانے سے متعلق ایک روایت کو نعت گو شعرا نے کافی نظم کیا ہے ، اس کے مفہوم سے پہلے چند مشہور شعرا کے اشعار ملاحظہ کریں ؎
نعلینِ پا سے عرشِ معلا کو ہے شرَف
روح الامیں ہے غاشیہ بردارِ مصطفی
(بیدمؔ وارثی)
حکم موسیٰ کو ’’فاخلع‘‘ مگر معراج میں
تاجِ فرقِ عرشِ بریں ہے نعلینِ پائے مصطفی
(وہبیؔ لکھنوی)
ان کے نعلین کا مقام فلک
ان کے نعلین تک مری پرواز
(بشیر حسین ناظمؔ )
عرشِ اعلا کا بھی اعزاز بڑھا ہے اُن سے
سلسلہ فیض کا ایسا ترے نعلین میں ہے
(غلام قطب الدین فریدؔ )
سُن کے جس کے نام کو جھک جائے عقیدت کی جبیں
جس کی نعلین کہ اتری نہ سرِ عرشِ بریں
(ادیبؔ رائے پوری)
یانبی دیکھا ہے رتبہ آپ کی نعلین کا
عرش نے چوما ہے تلوا آپ کی نعلین کا
(نثار علی اجاگرؔ )
متذکرۂ بالا واقعہ کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ جب سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے عرشِ الٰہی کی طرف عروج فرمایا تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے پیشِ نظر جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا گیا تھا :
’’اے موسیٰ بے شک میں تیرا رب ہوں تو تُو اپنے جوتے اتار ڈال، بے شک تُو پاک جنگل طویٰ میں ہے۔ ‘‘(3)
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی نعلین اتارنے کا قصد فرمایا ، لیکن ارشاد ہوا :
یا محمد! لا تخلع نعلیک لتشرک السمآء بھما۔
ترجمہ: اے محمد! تم اپنے نعلین نہ اتارو تاکہ آسمان ان سے شرف حاصل کرے۔
سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے نعلینِ مقدس کی فضیلت و عظمت پر لکھی جانے والی علامہ احمد المقری التلمسانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور و معروف کتاب ’’فتح المتعال فی مدح النعال ‘‘ اور علامہ رضی الدین قزوینی اور محمد بن عبدالباقی زرقانی علیہم الرحمۃ نے ’’شرح مواہب اللدنیہ ‘‘میں زور دے کر وضاحت کی ہے کہ یہ قصہ مکمل طور پر موضوع ہے۔
’’فتح المتعال فی مدح النعال ‘‘ کا اردو ترجمہ حضرت مولانا محمد خان قادری رضوی اور حضرت مولانا محمد عباس رضوی کی مشترکہ کاوش سے منظر عام پر آ چکا ہے۔ مذکورہ مترجم کتاب کے مقدمہ اور بعض تقریظات میں اس روایت کو نقل کر کے استشہاد کرتے ہوئے نعلینِ پاک کی فضیلت ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جب کہ علامہ احمد المقری التلمسانی نے شیخ السبتی، شیخ ابولحسن علی بن احمد الخزرجی اور دیگر حفاظِ حدیث کے حوالے سے اسے موضوع قرار دیا ہے۔ (4)
امام محمد بن عبدالباقی زرقانی علیہ الرحمہ نے امام رضی الدین قزوینی و دیگر محدثین کے حوالے سے اس روایت کو گھڑنے والے کے غارت ہونے کی دعا کی ہے۔ امامِ نعت گویاں امام احمد رضا محدث بریلوی سے بھی اس روایت کے بارے میں سوال کیا گیا، چناں چہ احکامِ شریعت میں ہے کہ :
’’سوال: حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کا شبِ معراج عرشِ الٰہی پر نعلینِ مبارک سمیت تشریف لے جانا صحیح ہے یا نہیں ؟
جواب: یہ محض جھوٹ اور موضوع ہے۔ واللہ اعلم۔ ‘‘(5)
اسی طرح واقعۂ معراج کے ضمن میں بیان کی جانے والی وہ روایت جسے ’’معارج النبوۃ‘‘ کے حوالے سے واعظین سنایا کرتے ہیں۔ اس کا خلاصہ یوں ہے :
’’حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے شبِ معراج براق پر سوار ہوتے وقت اللہ تعالیٰ سے وعدہ لے لیا ہے کہ روزِ قیامت جب کہ سب لوگ اپنی اپنی قبروں سے اٹھیں گے، ہر ایک مسلمان کی قبر پر اسی طرح ایک براق بھیجوں گا، جیسا کہ آج آپ کے واسطے بھیجا گیا۔ ‘‘
متذکرہ بالا روایت کو بھی بعض شعرا نے اپنی نعتوں میں نظم کیا ہے، اس کے بارے میں بھی امام احمد رضا محدثِ بریلوی سے استفسار کیا گیا کہ :
’’سوال: یہ مضمون صحیح ہے یا نہیں اور کتاب ’’معارج النبوۃ‘‘ کیسی کتاب ہے، اس کے مصنف عالمِ اہل سنت اور معتبر محقق تھے یا نہیں ؟
جواب: بے اصل ہے۔ ’’معارج النبوۃ‘‘ کے مولف سنّی واعظ تھے، کتاب میں رطب و یابس سبھی کچھ ہے۔ واللہ اعلم۔ ‘‘(6)
علاوہ ازیں معراج کے حوالے سے یہ بات بھی بے حد مشہور ہے کہ گلاب کا پھول اس رات آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے پسینۂ مبارک سے پیدا ہوا اور اس کی خوش بو میں بھی یہی راز پوشیدہ ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یوں نقل کیے گئے ہیں۔
من اراد ان یشم رائحتی فلیشتم الورد الاحمر۔
ترجمہ: جو میری خوش بو کو سونگھنا چاہے وہ سرخ گلاب کو سونگھ لے۔ (7)
امام بدرالدین زرکشی نے ’’اللآ لی المنثورۃ ‘‘ میں امام سخاوی نے ’’المقاصد الحسنہ‘‘ میں اور شیخ محمد طاہر پٹنی نے ’’تذکرۃ الموضوعات‘‘ میں اسے من گھڑت اور موضوع روایت قرار دیا ہے۔ (8)
واقعۂ معراج النبی صلی اللہ علیہ و سلم سے متعلق اس طرح کی بیش تر روایات ایسی کتابوں میں ملتی ہیں جو غیر مستند اور بے سروپا حکایات پر مبنی ہیں۔ اس سلسلے میں معارج النبوۃ اور نزہۃ المجالس کے ساتھ ساتھ بعض تقاریر کے مجموعوں کے نام لیے جا سکتے ہیں۔
اسی طرح سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے دندانِ مبارک کی شہادت کے بارے میں خبرسُن کر حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا اپنے تمام دانتوں کو توڑنے والی اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے بارے میں اذان سے روکنے اور آپ رضی اللہ عنہ کے اذان نہ پڑھنے کے سبب صبح کے طلوع نہ ہونے والی روایتیں بھی تواتر کے ساتھ ہمارے واعظین اور بیش تر نعت گو شعرا بیان کرتے رہتے ہیں۔ ذیل کے اشعار دیکھیں ؎
ایک دنداں کے بدلے میں توڑے، دانت اپنے دہن میں نہ چھوڑے
تھے وہ عاشق اویسِ قرنی، میرے پیارے رسولِ مدنی
(مدینہ کا چاند، میلاد نامہ)
حضرتِ بلال نے جو اذانِ سحر نہ دی
قدرت خدا کی دیکھیے نہ مطلق سحر ہوئی
(نامعلوم)
ان روایتوں کے بارے میں بھی علمائے محققین نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے انھیں بھی موضوع قرار دیا ہے، اس ضمن میں ممتاز عالمِ اہل سنت علامہ محمد عبدالمبین نعمانی مصباحی سے جب راقم نے پوچھا تو آپ نے جواباً تحریر فرمایا کہ :
’’ایک بار آپ نے واقعۂ اذانِ بلال (رضی اللہ عنہ) کے بارے میں سوال لکھا تھا، میری اپنی کوئی تحقیق نہیں ہے، ہاں ! مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت شارح بخاری علیہ الرحمہ اس کی تردید کیا کرتے اور کہا کرتے کہ یہ واقعہ ایسا ہے کہ اس کے راوی تواتر کی حد تک ہوں تو کسی طرح مانا جاتا مگر یہاں ضعیف حدیث بھی ملنا مشکل ہے، یوں ہی حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دانت توڑنے والے واقعے کا بھی رد فرماتے اور کہتے یہ عقل و شرع دونوں کے خلاف ہے، حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کوئی مجذوب یا مجنون تو تھے نہیں کہ ایسی خلافِ عقل حرکت کرتے۔ ‘‘(9)
نعتیہ ادب کے مطالعہ کے بعد یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ہمارے بیش تر نعت گو شعرا کے کلام میں جہاں ایسے مضامین ملتے ہیں جو صحیح اورحَسَن احادیثِ طیبہ سے ماخوذ تو ہیں ہی بل کہ بعض نے مکمل متنِ حدیث کو نظم کرنے کی کام یاب کوشش کرتے ہوئے مفہومِ حدیث کو اپنے شعروں میں خوش اسلوبی کے ساتھ برتا ہے۔ وہیں سیکڑوں نعتیہ اشعار ایسے بھی ملتے ہیں جو کسی شدید ضعیف بل کہ موضوع اور من گھڑت روایتوں پر مشتمل ہیں۔ آج کل تقریر و تحریر میں ایسی بے احتیاطی کی بھر مار ہوتی جا رہی ہے۔ واعظین اور قصہ گو قسم کے مقررین کا تو یہ معمول بنتا جا رہا ہے کہ وہ ایسی بے سروپا روایتوں کو بلا تحقیق لوگوں کے سامنے سناتے چلے جا رہے ہیں۔
حالاں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمانِ عالی شان ہے کہ :
’’کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے بیان کر دے۔ ‘‘(10)
واقعۂ معراج النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ضمن میں بعض واقعات، اذانِ حضرت بلا ل رضی اللہ عنہ، حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کے دانت توڑنے جیسے واقعات کا محاکمہ کیا جا چکا ہے۔ نعتیہ اشعار میں ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ایسی باتوں کو احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کہہ کر سُنا، سُنایا اور پڑھا جا رہا ہے جو آقائے کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمودات میں سے نہیں ہیں۔ ان موضوع روایتوں میں سے ایک مشہور قول ہے :
’’الفقر فخری وبہٖ افتخر‘‘۔
ترجمہ : فقر میرا فخر ہے اور میں اس کے ساتھ مفتخر ہوں۔
اس قول کی شہرت و مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اچھے اچھے اہلِ علم اپنی کتابوں میں اسے نقل کر کے اس سے استشہاد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، اور مشہور نعت گو شعرا نے اپنے کلام میں اس مضمون کو نظم کیا ہے، چوں کہ یہاں نعت گوئی میں حزم و احتیاط اور موضوع روایتوں کے بارے میں اظہارِ خیال مقصود ہے لہٰذا چند معروف شعرا کے اشعار کے بعد ائمۂ محدثین اور ماہرینِ اصولِ حدیث کے اقوا ل کی روشنی میں اس قول کا تنقیدی جائزہ پیش کیا جائے گا ؎
سماں ’’الفقر فخری‘‘ کا رہا شانِ امارت میں
’’بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روے زیبا را‘‘
(ڈاکٹر اقبالؔ )
اگرچہ ’’فقر فخری‘‘ رتبہ ہے تیری قناعت کا
مگر قدموں تلے ہے فرِ کسرائی و خاقانی
(حفیظؔ جالندھری)
جس کو حضرت نے کہا ’’الفقر فخری‘‘ اے ظفرؔ
فخرِ دیں، فخرِ جہاں پر وہ فقیری ختم ہے
(بہادر شاہ ظفرؔ )
سلام اس پر کہ تھا ’’الفقر فخری‘‘ جس کا سرمایا
سلام اس پر کہ جس کے جسمِ اطہر کا نہ تھا سایا
(ماہرؔ القادری)
کروں مال و زر کی میں کیوں ہوس مجھے اپنے فقر پہ فخر بس
یہی حرزِ جانِ فقیر ہے یہی ’’قولِ شاہِ حجاز‘‘ ہے
(مرتضیٰ احمد خان میکشؔ )
ہے فخر تجھے فقر پہ اے شاہِ دو عالم
اے ختمِ رُسل، ہادیِ دیں، خلقِ مجسم
(حافظؔ لدھیانوی)
ملا ہے درس محمد سے ’’ فقر فخری‘‘ کا
کمالِ فقر میں مضمر ہے قیصری اپنی
(راجا رشید محمود)
’’الفقر فخری‘‘ کے بارے میں امام حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :
’’الفقر فخرو بہ افتخر و ہٰذا الحدیث سئل عند الحافظ ابن تیمیہ، فقال انہ لا یعرف فی کتب المسلمین المرویۃ و جزم الاصفہانی بانہ موضوع (11)
ترجمہ : اس حدیث ’’الفقر فخری‘‘ کے بارے میں ابن تیمیہ سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا یہ جھوٹ ہے، مسلمانوں کے ذخیرۂ مرویات میں اس قسم کی کوئی چیز نہیں پائی گئی اور امام اصفہانی نے بھی اس کے موضوع (جعلی) ہونے کی تائید کی ہے۔ ‘‘
امام سخاوی علیہ الرحمہ راقم ہیں :
’’الفقر فخری وبہٖ افتخر۔۔ باطل الموضوع ‘‘(12)
ترجمہ: الفقر فخری۔۔ باطل اور گھڑی ہوئی روایت ہے۔
حضرت ملا علی قاری علیہ الرحمہ نے موضوعاتِ کبیر، شیخ محمد بن طاہر پٹنی علیہ الرحمہ نے تذکرۃ الموضوعات اور شارح بخاری امام احمد قسطلانی علیہ الرحمہ نے المواہب اللدنیہ میں بھی اس کو موضوع اور من گھڑت کہا ہے۔ علاوہ ازیں مجددِ اعظم امامِ نعت گویاں امام احمد رضا محدثِ بریلوی کی بھی تحقیق ذیل میں نشانِ خاطر فرمائیں آپ نے بھی ’’الفقر فخری‘‘ کو بے اصل قرار دیا ہے :
’’حضورِ اقدس، قاسمِ نعم، مالک الارض ورقابِ امم، معطیِ منعم، قثمِ قیم، ولی والی، علی عالی، کاشف الکرب، رافع الرتب، معینِ کافی، حفیظ وافی، شفیعِ شافی، عفوِ عافی، غفورِ جمیل، عزیزِ جلیل، وہابِ کریم، غنیِ عظیم، خلیفۂ مطلقِ حضرتِ رب، مالک الناس و دیانِ عرب، ولی الفضل، جلی الافضال، رفیع المثل، ممتنع الامثال صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی شانِ ارفع و اعلا میں الفاظِ مذکورہ (یتیم، غریب، مسکین، بے چارہ) کا اطلاق ناجائز و حرام ہے۔
خزانۃ الاکمل مقدسی و ردالمحتار اواخر شتی میں ہے :
ویجب ذکرہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم باسمآء المعظمۃ فلا یجوز ان بقال انہ فقیر، غریب، مسکین۔
ترجمہ: حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کا ذکر عزت و تکریم والے ناموں سے کرنا واجب ہے اور اس طرح کہنا جائز نہیں کہ آ پ فقیر، غریب اور مسکین تھے۔
نسیم الریاض جلد سابع صفحہ ۴۵۰ ؍ میں ہے :
الانبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام لا یو صفون با لفقر ولایجوز ان یقال نبینا صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم فقیر وقولہٗ عند ’الفقر فخری‘ لا اصل لہٗ کما تقدم۔
ترجمہ : انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کو فقر سے موصوف نہ کیا جائے اور یہ جائز نہیں کہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کو فقیر کہا جائے۔ رہا لوگوں کا ’الفقر فخری‘ کو آپ سے مروی کہنا تو اس کی کوئی اصل نہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے۔ اسی کے صفحہ ۳۷۸؍ میں ہے :
قال الزر کشی کالسبکی لا یجوز ان یقال لہٗ صلی اللہ علیہ و سلم فقیر او مسکین وہو اغنی الناس باللہ تعالیٰ لا سیحا بعد قولہٗ تعالیٰ ’’ووجدک عائلاً فاغنیٰ ‘‘ وقولہٗ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم ’’اللہم احینی مسکیناً ‘‘ اراد بہٖ المسکنۃ القبیلۃ با لخشوع والفقر فخری، باطل لا اصل لہ ۔۔ کما قال الحافظ ابنِ حجر عسقلانی۔ ۔
ترجمہ: امام بدرالدین زرکشی نے امام سبکی کی طرح کہا ہے کہ یہ جائز نہیں کہ آپ کو فقیر یا مسکین کہا جائے اور آپ اللہ کے فضل سے لوگوں میں سب سے بڑھ کر غنی ہیں۔ خصوصاً اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’’ہم نے آپ کو حاجت مند پایا سو غنی کر دیا‘‘۔ کے نزول کے بعد رہا آپ کا یہ فرمان کہ اے اللہ ! مجھے مسکین زندہ رکھ۔۔ الخ۔ تو اس سے مراد باطنی مسکنت کا خشوع کے ساتھ طلب کرنا ہے اور الفقر فخری باطل ہے۔ اس کی کوئی اصل نہیں جیسا کہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے فرمایا ہے۔ (13)
امام احمد رضا محدثِ بریلوی نے ’’کتاب الشفا‘‘ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے مزید اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ والا صفات کے لیے نازیبا اور غیر موزوں اسما و صفات کا استعمال حکایتاً بھی ناجائز و ممنوع ہے۔ اسی طرح بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں گستاخی و بے ادبی اگرچہ سہواً یا جہالت و لاعلمی کے سبب ہی ہو لائقِ گرفت اور ناقابلِ معافی جرم ہے۔
واضح ہونا چاہیے کہ یہ امران جانب دار ناقدین کے لیے چشم کشا ہے جو امام احمد رضا بریلوی، برادرِ رضا استاذِ علامہ حسن رضا بریلوی اور شہزادۂ رضا مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی علیہم الرحمہ کے کلام سے نہ صِرف یہ کہ صَرفِ نظر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں بل کہ ان محتاط نعت نگاروں کے کلام کو سوے عقیدت اور غلوئے عقیدت سے مملو قرار دینے کی سعیِ نا مشکور کرتے ہیں۔ جب کہ ان حضرات نے اپنی نثری کتب میں بے سروپا روایتوں کو حصارِ نقد میں لیتے ہوئے حزم و احتیاط کا حق ادا کیا ہے تو کیسے ان شاعروں کے یہاں ایسی روایتیں جگہ پا سکتی ہیں ؟ جب ہم ان حضرات کے کلام کا انتقادی جائزہ لیتے ہیں تو مسرت و انبساط کی لہریں نہاں خانۂ دل میں اٹھنے لگتی ہیں کہ ان کی زبان و قلم کو اللہ جل شانہٗ نے بے جا خیال آرائیوں سے محفوظ رکھا۔
غرض یہ کہ حقیقت میں نعت وہی نعت ہوتی ہے جو عبد اور معبود کے فرق، انبیائے کرام علیہم السلام کے مقام و منصب اور شریعتِ مطہرہ کے اصولوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ادب و احترام کے ساتھ نظم کی جائے۔ افراط و تفریط، مبالغہ و اغراق، بے جا خیال آرائی، من گھڑت، جعلی اور موضوع روایات سے شاعر کے ایمان و اسلام پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
معروف ادیب و محقق ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی نے نعت نگاری میں افراط و تفریط، مبالغہ و اغراق، بے جا خیال آرائی اور جعلی و موضوع روایات کو بیان کرنے کی نفی کرتے ہوئے اپنی حتمی رائے کا اظہار یوں کیا ہے اور بتایا ہے کہ حقیقی نعت کیا ہے؟ :
’’حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو خدا سمجھ لینا، ان سے دیگر انبیا کے تقابل میں انبیا کی توہین کا پہلو نکال دینا، نبی کو ایلچی اور بھائی کہہ کر ان کی بارگاہِ قُدس میں بے ادبی کا ارتکاب کرنا، ان کے لیے دل رُبا، رنگیلے وغیرہ کا استعمال، خدا ورسول کے فرق کو مٹا دینا، خدا کو جسم والاسمجھ کر منہ کا چوم لینا وغیرہ۔ غلط روایات اور معجزہ کا بیان، مدینۂ طیبہ کو یثرب کہنا۔ تمام باتیں شرعاً ناروا ہیں۔
یوں تو شاعری خواہ اس کا موضوع کچھ بھی ہو طہارتِ الفاظ ہر جگہ ضروری ہے اور نعت میں تو قدم قدم پر شریعت کا پہرہ ہے۔ یہ تو بڑے ادب کا مقام ہے۔ ہر لفظ کو منزلِ تطہیر سے گزار کر استعمال کرنا پڑتا ہے۔ (14)
نعت بلا شبہ عقیدے اور عقیدت کا نام ہے۔ مگر نعت میں اُن ہی عقائد اور موضوعات کو بیان کرنا ضروری ہے جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہوں اور جن پر علمائے امت کا اجماع ہو۔ نیز جن میں کسی بے ادبی یا عدم تقدیس کا شائبہ اور شرعی گرفت میں آنے کا احتمال بھی نہ ہو۔ نعت گوئی کی ابتدائی منزل کے چند محتاط شعرا کو چھوڑ کر بیش تر کے یہاں اس طرح کی خامیاں نظر آتی ہیں۔ الغرض کہنا صرف یہی ہے کہ نعت تحریر کرتے ہوئے اس پاکیزہ فن کے لوازمات اور شرعی وقار کو ملحوظِ خاطر رکھنا لازمی ہے۔
(1) نقوش : رسول نمبر، ج 10، ص 27
(2)محسن کاکوروی: کلیاتِ محسن، ص 232/233
(3)(سورۂ طٰہٰ :۱۲)
(4)فضائلِ نعلینِ حضور(مترجم: مفتی محمد خان قادری و مولانا محمد عباس رضوی ) ص ۳۶۲
(5)احمد رضا بریلوی، امام: احکامِ شریعت ص ۱۶۶
(6) احمد رضا بریلوی، امام: احکامِ شریعت ص ۱۶۵
(7) بدرالدین زرکشی، امام: اللا ٓ لی المنثورۃ، ص۱۴۷
(8)مختصر المقاصد الحسنہ ص ۹۱، اللآ لی المنثورہ ص ۱۴۷، تذکرۃ الموضوعات ص ۱۶۱وغیرہا کتب
(9)مکتوب بہ نام راقم ۱۵؍ ۸؍ ۲۰۰۵ء
(10)مسلم بن الحجاج قشیری، امام:مسلم شریف، مطبوعہ نور محمد، کراچی، ج ۱، ص ۸
(11)ابن حجر عسقلانی، امام: تلخیص الحبیر، جلد ۳، ص۱۰۹
(12)شمس الدین سخاوی، امام: مختصر المقاصد الحسنہ، ص ۲۹۲
(13)احمد رضا بریلوی، امام : فتاویٰ رضویہ، مطبوعہ کراچی، جلد ششم ص ۱۲۶
(14)عبدالنعیم عزیزی، ڈاکٹر :اردو نعت گوئی اور فاضلِ بریلوی، ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا، کراچی، 2008ء، ص 163/164
٭٭٭
نعت اصنافِ ادب کی سب سے مقدس و محترم اور پاکیزہ صنف ہے۔ لفظِ نعت اپنی ابتدائے آفرینش سے تا حال صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصاف و خصائل، شمائل و فضائل اور مدح و توصیف کے اظہار کے لیے مختص ہے۔ نعت کا شمار دیگر اصنافِ سخن میں ایک معتبر و محترم اور تقدس مآب صنف کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ ہر چند کہ نعت ہر زبان میں کہی جا رہی ہے لیکن بعض ناقدین کے نزدیک نعت اب بھی صنفِ سخن کا درجہ نہیں پا سکی بہ قول اُن کے وجہ صرف اتنی ہے کہ نعت کی کوئی متعین ہیئت نہیں ہے۔ جب کہ صنفی شناخت کے لیے صرف ہیئت معیار نہیں بل کہ موضوع بھی بہت اہم کردار ادا کرتا ہے اور موضوعی اہمیت کے لحاظ سے نعت وہ مہتم بالشان صنف ہے کہ دوسری کوئی صنف اس کے پاسنگ برابر بھی نہیں، نعت ہماری شاعری کی سب سے زیادہ محبوب، طاقت ور، مؤثر، پاکیزہ، تنوع اور مقدار و معیار کے اعتبار سے نمایاں اور ممتاز صنف ہے۔ اس ضمن میں اربابِ علم و فن کی گراں قدر آرا نشانِ خاطر ہوں :
ظہیر غازیپوری:
’’نعت بلاشبہ ایک اہم اور قابلِ توجہ صنفِ سخن ہے۔ اردو نعت نے جب ایک مستقل صنف کا درجہ حاصل کر لیا ہے تو اس کے فنی حسن و قبح پر بے باکانہ انداز میں گفتگو ہونی چاہئے تاکہ قارئین اور تخلیق کار دونوں حقائق سے واقف ہو سکیں۔ ‘‘ (1)
ڈاکٹر سید وحید اشرف:
’’نعت یقیناً ایک صنفِ شاعری ہے اور فارسی میں ایم۔ اے کے نصاب میں فارسی نعتیہ قصیدے شامل ہیں۔ اردو میں جب مرثیہ کو نصاب میں شامل کیا جا سکتا ہے تو نعتیہ شاعری کو کیوں نہیں شامل کیا جا سکتا۔ ‘‘ (2)
ڈاکٹر سید طلحہ رضوی برق داناپوری :
’’حمد، قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، سلام وغیرہ کی طرح نعت بھی اردو فارسی کی ایک مستقل صنفِ سخن کی حیثیت حاصل کر چکی ہے۔ لہٰذا نعت اردو شاعری کے اصنافِ سخن میں یقیناً شامل ہے۔ ‘‘(3)
ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی :
’’یہ صنف (نعت) اسلامی ارادت و عقیدت کی بنا پر ہی نہیں بل کہ اپنے شعری محاسن کی وجہ سے بھی بے مثال ہے۔ اس لیے دوسری اصنافِ سخن میں یہ بھی شمار ہوتی ہے اور بے حد مقبول ہے۔ ‘‘(4)
ساجد لکھنوی:
’’اصنافِ سخن میں نعت ہی ایک ایسی صنفِ سخن ہے جس کا دنیا کی ہر زبان کے ادب میں بہت کافی سرمایہ موجود ہے اور ہر مذہب اور ملت کے شاعر نے اس صنفِ سخن کے اضافے میں حصہ لیا ہے اور فخرِ کائنات، سید الرسل، محمّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حضور نذرانۂ عقیدت و محبت پیش کیا ہے۔ ‘‘(5)
ڈاکٹر محبوب راہی :
’’نعت کے اردو کی صنفِ سخن ہونے سے کون انکار کر سکتا ہے۔ نوا سۂ رسول (صلی اللہ علیہ و سلم ) حضرت امام حسین (رضی اللہ عنہ) اور ان کے رفقا کے غم کے اظہار کے لیے اردو شاعر ی نے مرثیہ جیسی متا ثر کن اور زندۂ جاوید صنف کو زندہ کیا تو کیا خود سرورِ کائنات کے تئیں اظہار عقیدت کے لیے ’’نعت ‘‘ ایک آزاد صنفِ سخن قرار نہیں دی جا سکتی، اوروں کی رائے کچھ بھی ہو میری اپنی حتمی رائے ’’نعت ‘‘ کے اردو شاعری کی ایک لاثانی اور لافانی صنفِ سخن قرار دیے جانے کے حق میں ہے۔ ‘‘ (6)
ڈاکٹر شمس الر حمن فاروقی :
’’آپ نے حمد کو صنف سخن میں شمار کیا ہے اور صحیح شمار کیا ہے۔ اسی انداز کی چیز نعت بھی ہے یعنی یہ صنفِ سخن اس معنی میں ہے کہ اس کا موضوع متعین ہے اگرچہ ہیئت متعین نہیں۔ ملحوظ رہے کہ بعض اصناف موضوع سے زیادہ اپنی ہیئت سے پہچانی جاتی ہیں، جیسے غزل، رباعی۔ بعض اصناف میں ہیئت اور موضوع دونوں کی قید ہوتی ہے، جیسے قصیدہ۔ اور بعض اصناف صرف موضوع کی بنا پر پہچانی جاتی ہیں، مثلاً مرثیہ، حمد، نعت وغیرہ۔ لہٰذا نعت کو صنف قرار دینے میں کوئی قباحت نہیں۔ اسے ہمیشہ صنف ہی قرار دیا گیا ہے۔ ‘‘ (7)
لہٰذا تمام گراں قدر خیالات و نظریات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جس طرح حمد، غزل، قصیدہ، مرثیہ، رباعی، مستزاد، مثنوی وغیرہ میں اصنافِ سخن کی ہیئت و ساخت کی واضح شکل نظر آتی ہے۔ نعت کی کوئی خاص ہیئت و ساخت کا تعین اب تک نہیں ہوسکا ہے۔ بہ ہر حال اسے غزل، مثنوی، قصیدہ، رباعی، قطعہ، مرثیہ، مستزاد، مسدس، مخمس، دوہا، ماہیا، سانیٹ، ترائیلے، ہائیکو، ثلاثی وغیرہ میں لکھا جا سکتا ہے۔ اس صنفِ سخن کی مقبولیت کا آج یہ عالم ہے کہ ادب کی ہر صنف میں شعرا نعتیہ کلام تحریر کر رہے ہیں اور اس کی آفاقیت اور عالم گیریت میں بہ تدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نعت اپنے ابتدائی دور میں قصیدے کے فارم میں کہی جاتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عربی کی شاعری میں جہاں نعت گوئی کا آغاز ہوا مافی الضمیر کے اظہار کے لیے قصیدے کی ہیئت رائج تھی، یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ نعت عصری اور زمانی تقاضوں کی ہم مزاج صنف ہے کیوں کہ جس عہد میں جو صنفِ سخن مروج تھی اسی میں نعتیہ کلام تحریر کیا گیا۔ غزل چوں کہ ہماری شاعری کی مقبول صنف ہے اور ہردور میں اپنی داخلی خصوصیات اور ہیئت کے سبب پسندیدہ رہی ہے یہی وجہ ہے کہ نعتیہ مضامین کے لیے بھی سب سے زیادہ غزل کی صنف ہی مستعمل رہی ہے۔ ساجد لکھنوی کے بہ قول:
’’ابتدائے اردو شاعری سے اگر آپ بہ نظر غائر مطالعہ کریں تو آپ کو پچانوے فی صد نعتیں غزل کے فارم میں ملیں گی۔ ‘‘ (8)
یہاں یہ کہنا غیر مناسب نہ ہو گا کہ نعت گوئی کاسلسلہ اردو میں ابتدا ہی سے جاری ہے اردو کا غالباً ایک بھی شاعر خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم، سکھ ہویا عیسائی، یا کسی اور عقیدے کا ایسا نہ ملے گا کہ اس نے نعت نہ کہی ہو، یہ اردو کے اپنے مزاج اور تہذیب کی دین ہے۔ ذخیرۂ نعت کے مطالعہ کی روشنی میں یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ابتداء ً فارسی اور اردو میں لکھی گئی نعتیں زیادہ تر غزل کی ہیئت میں ہیں۔ پہلے ہی عرض کیا جا چکا ہے کہ نعت ایک موضوعی صنف ہے وہ کسی ایک ہیئت میں محصور نہیں رہی، بالخصوص اردو میں یہ قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، قطعہ، رباعی، نظم، معریٰ نظم، آزاد نظم، آزاد غزل، مخمس، مسدس، مثلث، مربع، ثلاثی، سانیٹ، ہائیکو، ترائیلے، ماہیے، دوہا، کہہ مکرنی وغیرہ تک میں لکھی جا رہی ہے اور اس لیے موضوعی تقدس کے شانہ بشانہ ہیئتی تنوع کے لحاظ سے بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ نعت سب سے زیادہ طاقت ور، مؤثر، نمایاں اور ممتاز صنفِ سخن ہے اور یہ صرف اپنے موضوعی تقدس اور اسلامی ارادت کی بنا پر ہی نہیں بلکہ اپنے شعری محاسن کی وجہ سے بھی بے مثال صنف تصور کی جاتی ہے۔
آج جب ہم ادب کے شعری اثاثے عموماً نعتیہ شاعری کا خصوصاً تحقیقی مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات مکمل طور پر عیاں ہو جاتی ہے کہ نعت گوئی ادب کی جملہ اصناف میں جاری و ساری ہے۔ ادب کی مختلف اصناف میں لکھے گئے نعتیہ کلام کی مثالیں ذیل میں خاطر نشین کریں۔
غزل اردو شاعری کی ایک ہر دل عزیز صنفِ سخن ہے۔ ہر دور میں شعرا نے اس صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ اردو شاعری کا بہت بڑا سرمایہ غزل کی شکل میں محفوظ ہے۔ غزل کے معنی ’’سخن با یار گفتن‘‘ کے ہیں۔ عشق و محبت غزل کے خمیر میں داخل ہے۔ لیکن غزل صرف محبت کے موضوعات ہی تک محدود نہیں۔ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس میں سماجی و سیاسی مسائل، فلسفہ و تصوف اور انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی ترجمانی موجود ہے۔
ظاہری ساخت کے اعتبار سے غزل کے پہلے شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں، اسے مطلع کہا جاتا ہے۔ پہلے مطلع کے بعد آنے والے مطلع کو حُسنِ مطلع کہتے ہیں۔ آخری شعر میں شاعر اپنا تخلص پیش کرتا ہے جسے مقطع کہتے ہیں۔ غزل کے تمام مصرعے کسی ایک بحر میں ہوتے ہیں اسی طرح شاعر کو قافیہ و ردیف کی پابندی بھی کرنی پڑتی ہے۔ غزل کا ہر شعر ایک مکمل اکائی ہوتا ہے جو جداگانہ مضامین کی عکاسی کرتا ہے۔
اردو شاعری کی ابتدا ہی سے غزل نے مقبولیت حاصل کر لی تھی اور تا حال اس میں کوئی فرق نہیں آیا ہے قلی قطب شاہ معانیؔ سے لے کر بانیؔ تک عوام و خواص میں غزل کی مقبولیت حیرت انگیز ہے۔ موجودہ زمانے میں فلم اور ٹی وی کے پھیلاؤ نے موسیقی میں غزل گایکی کو بھی خاصا رواج دیا اور عوام میں پسندیدہ بنا یا ہے۔
اس میں ولی، میرؔ ، سوداؔ ، انشاءؔ ، آتشؔ ، مصحفیؔ ، ناسخؔ ، ذوقؔ ، مومنؔ ، غالبؔ ، ظفرؔ ، داغؔ ، اکبرؔ ، اقبالؔ ، جوشؔ ، فراقؔ ، یگانہؔ ، حسرتؔ ، جگرؔ ، ریاضؔ ، اصغرؔ ، آرزوؔ ، تاباںؔ ، مجروحؔ ، جذبیؔ ، اخترؔ ، ناصرؔ ، شکیبؔ ، بانیؔ ، ظفرؔ اقبال، زیبؔ ، خلیلؔ ، اور نداؔ وغیرہ نے عہد بہ عہد نام پیدا کیا ہے۔ ان شعرا کی غزل کا مطالعہ زبان اور اس کے شعری برتاؤ کی تبدیلیوں اور غزل کی مختلف روایات کا مطالعہ بھی ہے۔
غزل ہر دور میں اپنی داخلی خصوصیات اور ہیئت کے سبب پسندیدہ رہی ہے یہی وجہ ہے کہ نعتیہ مضامین کے لیے بھی سب سے زیادہ غزل کی صنف ہی مستعمل رہی ہے۔ بیشتر شعرا نے غزل ہی کے فارم میں نعتیں کہی ہیں ذیل میں مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی کا غزل کی ہیئت میں تحریر کیا گیا نعتیہ کلام نشانِ خاطر کیجیے ؎
قفسِ جسم سے چھٹتے ہی یہ پرّاں ہو گا
مرغِ جاں گنبدِ خضرا پہ غزل خواں ہو گا
روز و شب مرقدِ اقدس کا جو نگراں ہو گا
اپنی خوش بختی پہ وہ کتنا نہ نازاں ہو گا
اس کی قسمت کی قسم کھائیں فرشتے تو بجا
عید کی طرح وہ ہر آن میں شاداں ہو گا
اس کی فرحت پہ تصدق ہوں ہزاروں عیدیں
کب کسی عید میں ایسا کوئی فرحاں ہو گا
چمنِ طیبہ میں تو دل کی کلی کھلتی ہے
کیا مدینہ سے سوا روضۂ رضواں ہو گا
آپ آ جائیں چمن میں تو چمن جانِ چمن
خاصہ اک خاک بسر دشتِ مغیلاں ہو گا
جانِ ایماں ہے محبت تری جانِ جاناں
جس کے دل میں یہ نہیں خاک مسلماں ہو گا
دردِ فرقت کا مداوا نہ ہوا اور نہ ہو
کیا طبیبوں سے مرے درد کا درماں ہو گا
نورِ ایماں کی جو مشعل رہے روشن پھر تو
روز و شب مرقدِ نوریؔ میں چراغاں ہو گا
اک غزل اور چمکتی سی پڑھو اے نوریؔ
دل جلا پائے گا میرا ترا احساں ہو گا
قصیدے کی ابتدا عربی شاعری سے ہوئی۔ عربی سے یہ صنفِ سخن فارسی شاعری میں پہونچی اور فارسی کے اثرسے اردو شاعری میں اس صنفِ سخن کو فروغ حاصل ہوا۔ قصیدہ ایک موضوعی صنفِ سخن ہے۔ جس میں کسی کی مدح یا ہجو کی جاتی ہے لیکن زیادہ تر قصائد مدح و توصیف ہی کی غرض سے لکھے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مناظرِ قدرت، پند و نصائح، معاشی بدحالی، سیاسی انتشار وغیرہ جیسے موضوعات بھی قصیدے میں بیان کیے جاتے ہیں، قصیدے کے اجزائے ترکیبی یہ ہیں۔ (1)تشبیب(2)گریز(3)مدح(4) دعا یا حُسنِ طلب۔
پہلا شعر قصیدے کا مطلع کہلا تا ہے یہاں سے قصیدے کا پہلا جز تشبیب شروع ہوتا ہے۔ اس میں شاعر اپنے تعلق سے فخر و امتنان پر مشتمل اشعار کہتا ہے۔ دوسرا جز گریز جیسا کہ نام سے ظاہر ہے شاعر اپنی تعریف ترک کر کے ممدوح کی مدح و توصیف کی سمت رجوع کرتا ہے۔ اس کے بعد مدح کا مرحلہ آتا ہے جو تشبیب سے طویل تر ہوتا ہے اگرچہ ذوقؔ و غالبؔ کے قصیدوں میں مدح کے اشعار کم تعداد میں ملتے ہیں۔ حُسنِ طلب اس کے بعد کی منزل ہے جس میں قصیدہ خواں اپنے ممدوح کی جانب سے لطف و اکرام کی توقع ظاہر کرتا ہے، پھر ممدوح کے لیے دعا پر قصیدہ ختم ہو جاتا ہے۔ جس قصیدے میں اس کے تمام اجزائے ترکیبی موجود ہوں اور جس میں راست ممدوح سے خطاب کیا گیا ہو اسے خطابیہ قصیدہ کہتے ہیں۔ قصیدے میں یوں تو صرف مدح خوانی مقصود ہوتی ہے لیکن اکثر قصائد میں ہجویہ، واعظانہ، اور دوسرے بیانیہ مضامین بھی نظم کیے گئے ملتے ہیں۔ اس اعتبار سے انھیں مدحیہ، ہجویہ، واعظانہ وغیرہ بھی کہا جاتا ہے۔ اردو میں سوداؔ ، انشائؔ ، ذوقؔ اور غالبؔ کے قصائد معروف ہیں۔ مدح و توصیف کے مقصد سے بعض شعرا نے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ و سلم ، خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم، اور دیگر اکابرِ دین کے بھی قصیدے لکھے ہیں جن میں مومنؔ ، محسنؔ ، رضاؔ بریلوی، عبدالعزیز خالدؔ اور بہت سے دوسرے نئے شعرا کے نام آتے ہیں۔ ذیل میں حضرت نوریؔ بریلوی کا صنفِ قصیدہ میں تحریر کیا گیا نعتیہ کلام خاطر نشین ہو ؎
بہ خطِ نور اس در پر لکھا ہے
یہ بابِ رحمتِ ربِّ عُلا ہے
سر خیرہ جو اس در پر جھکا ہے
ادا ہے عمر بھر کی جو قضا ہے
مقابل در کے یوں کعبہ بنا ہے
یہ قبلہ ہے تو تُو، قبلہ نما ہے
یہاں سے کب کوئی خالی پھرا ہے
سخی داتا کی یہ دولت سرا ہے
جسے جو کچھ ملا جس سے ملا ہے
حقیقت میں وہ اس در کی عطا ہے
یہاں سے بھیک پاتے ہیں سلاطیں
اسی در سے انھیں ٹکڑا ملا ہے
شبِ معراج سے ظاہر ہوا ہے
رسل ہیں مقتدی تو مقتدا ہے
خدائی کو خدا نے جو دیا ہے
اسی در سے اسی گھر سے ملا ہے
شہ عرش آستاں اللہ اللہ!
تصور سے خدا یاد آ رہا ہے
یہ وہ محبوبِ حق ہے جس کی رویت
یقیں مانو کہ دیدارِ خدا ہے
رمی جس کی رمی ٹھہری خدا کی
کتاب اللہ میں اللہ رمیٰ ہے
ہَوا سے پاک جس کی ذاتِ قدسی
وہ جس کی بات بھی وحیِ خدا ہے
وہ یکتا آئینہ ذاتِ اَحد کا
وہ مرآتِ صفاتِ کبریا ہے
جہاں ہے بے ٹھکانوں کا ٹھکانہ
جہاں شاہ و گدا سب کا ٹھیا ہے
کرم فرمایئے اے سرورِ دیں
جہاں منگتوں کی یہ پیہم صدا ہے
خزانے اپنے دے کے تم کو حق نے
نہ قاسم ہی کہ مالک کر دیا ہے
جسے جو چاہو جتنا چاہو دو تم
تمہیں مختارِ کل فرما دیا ہے
نہیں تقسیم میں تفریق کچھ بھی
کہ دشمن بھی یہیں کا کہہ رہا ہے
ضیائے کعبہ سے روشن ہیں آنکھیں
منور قلب کیسا ہو گیا ہے
مَے محبوب سے سرشار کر دے
اویسِ قرَنی کو جیسا کیا ہے
گما دے اپنی الفت میں کچھ ایسا
نہ پاؤں مَیں میں مَیں جو بے بقا ہے
عطا فرما دے ساقی جامِ نوریؔ
لبالب جو چہیتوں کو دیا ہے
رباعی اس نظم کو کہتے ہیں جس میں صر ف چار مصرع ہوں، پہلا، دوسرا اور چوتھا ہم قافیہ ہو، دوسرا شعر خصوصاً چوتھا مصرع نہایت بلند اور عجیب ہوتا کہ سننے والا متحیر ہو جائے۔ یوں تو چار مصرعوں میں ایک ہی مضمون قطعہ میں بھی بیان کیا جاتا ہے لیکن چار مصرعوں کے قطعے کے لیے کوئی عروضی وزن مخصوص نہیں جب کہ رباعی بحرِ ہزج کے چوبیس مخصوص اوزان میں کہی جاتی ہے۔ وزن کی قید کے باوجود رباعی میں اتنا تصرف جائز ہے کہ ایک ہی رباعی میں چاروں مصرعے چوبیس میں سے چار مختلف اوزان لے کر کہے جا سکتے ہیں۔ عروضیوں نے ’’لاحول ولا قوۃ الا باللہ ‘‘ کے وزن کو بھی رباعی کا وزن قرار دیا ہے۔
رباعی اور غزل کے موضوعات میں فرق صرف دو اور چار مصرعوں میں بیان کرنے کا ہے اگرچہ رباعی میں یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ اس کا چوتھا مصرع ’’زور دار‘‘ ہو یعنی اس میں خیال کی بلندی پائی جائے کہ سننے والا متحیر ہو جائے۔
رباعی کی ایجاد کا سہرا فارسی شاعر رودکیؔ کے سر باندھا جاتا ہے۔ عمر خیامؔ نے صرف رباعیاں کہی ہیں جن کے سبب مشہورِ عالم شعرا میں اس کا شمار ہونے لگا۔ اردو میں یہ صنفِ شعر ابتدا ہی سے موجود ہے اور اس پر طبع آزمائی استادِ فن ہونے کے مترادف خیال کی جاتی ہے۔ میرؔ ، سوداؔ ، ناسخؔ ، انیسؔ ، دبیرؔ ، غالبؔ ، مومنؔ اور ذوقؔ سے لے کر امجدؔ ، جوشؔ ، فراقؔ ، یگانہؔ ، اکبرؔ ، اقبالؔ ، فانیؔ ، اخترؔ ، سہیلؔ اور رواںؔؔ وغیرہ شعرا نے رباعیاں کہی ہیں۔ ہمارے شعرا نے نعتیہ موضوعات کے اظہار کے لیے رباعی کا بھی سہارالیا چناں چہ اس میں نعتیہ کلام بہ کثرت ملتے ہیں۔ ذیل میں حضرت نوریؔ بریلوی کی نعتیہ رباعیاں خاطر نشین کیجیے ؎
دنیا تو یہ کہتی ہے سخن ور ہوں میں
ارے شعرا کا آج سرور ہوں میں
میں یہ کہتا ہوں یہ غلط ہے سوبار غلط
سچ تو ہے یہی کہ سب سے احقر ہوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بدکار ہوں مجرم ہوں سیاہ کار ہوں میں
اقرار ہے اس کا کہ گنہ گار ہوں میں
بہ ایں ہمہ ناری نہیں نوری ہوں ضرور
مومن ہوں تو فردوس کا حق دار ہوں میں
قطعہ کے معنی ٹکڑے کے ہوتے ہیں اصطلاحاً قصیدے یا غزل کی طرح مقفّا چند اشعار جن کا مطلع نہیں ہوتا اور جن میں ایک ہی مربوط خیال پیش کیا جاتا ہے۔ یعنی قطعہ نظم نگاری کی ایک ہیئت ہے۔ قطعے میں کم سے کم دو اشعار ہونے چاہئیں زیادہ کی تعداد مقرر نہیں۔ اردو میں اقبالؔ ، چکبستؔ ، سیمابؔ اور جوشؔ وغیرہ کے قطعے مشہور ہیں۔ شعر ا نے قطعہ میں بھی نعتیہ موضوعات کو برتا ہے۔ حضرت نوریؔ بریلوی کا نعتیہ قطعہ ملاحظہ کیجیے ؎
کفش پا ان کی رکھوں سر پہ تو پاؤں عزت
خاکِ پا ان کی ملوں منھ پہ تو پاؤں طلعت
طیبہ کی ٹھنڈی ہوا آئے تو پاؤں راحت
قلبِ بے چین کو چین آئے تو جاں کو راحت
مرثیہ عربی لفظ ’’رُثاء‘‘ بہ معنی ’’ مُردے پر رونا‘‘ سے مشتق ہے۔ قدیم ترین موضوعی صنفِ سخن ہے، دنیا بھر کی شاعری میں جس کے عمدہ نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہومرؔ کی ’’ایلیڈ‘‘، فردوسیؔ کی’’ شاہ نامہ‘‘ اور ویاسؔ کی ’’مہا بھارت‘‘ جیسی رزمیہ نظموں سے لے کر مرثیے کا سلسلہ واقعاتِ کربلا کے رزمیوں تک پھیلا ہوا ہے۔ رزم میں کام آنے والے سورماؤں کے سوگ اور ماتم کے علاوہ مرثیہ بزرگانِ قوم، خویش و اقارب اور مشاہیر کی موت پر بھی لکھا گیا ملتا ہے۔ کربلا کو موضوع بنا کر کہے گئے مراثی کربلائی اور دیگر شخصیات پر کہے گئے مراثی شخصی مرثیے کہلاتے ہیں۔
اردو شاعری میں مرثیہ واقعاتِ کربلا کو موضوع بنا کر کہی گئی نظموں سے بہ طورِ صنف قائم ہوا قدیم دکنی شعرا اشرف بیابانیؔ ، محمد قطب شاہ قلیؔ ، ملاوجہیؔ ، غواصیؔ ، فائزؔ ، شاہیؔ ، کاظمؔ ، ابنِ نشاطیؔ ، ہاشمیؔ ، نصرتیؔ وغیرہ کے کلام کو مرثیے کا نقطۂ آغاز قرار دیا جا سکتا ہے۔ شمالی ہند میں بھی یہ روایت اسی زمانے میں اسماعیلؔ امروہوی، آبروؔ ، یک رنگؔ ، حاتمؔ ، مسکینؔ ، حزینؔ ، غمگینؔ ، فضلیؔ وغیرہ کے کلام میں ملتی ہے۔ میرؔ و سوداؔ نے مربع بندوں میں کثرت سے کربلائی مرثیے نظم کیے ہیں۔ اس ہیئت کے علاوہ مرثیہ مختلف ہیئتوں میں بھی لکھا گیا ہے لیکن لکھنوی شعرا نے اس صنف کے لیے مسدس کی ہیئت اختیار کر لی اور مسلسل تقلید نے جسے مرثیے کی روایت بنا دیا۔ میر ضمیرؔ ، میرانیسؔ اور مرزا دبیرؔ نے مرثیہ نگاری میں فن کارانہ اضافے کیے گویا انھیں پر اس صنف کا اتمام ہو گیا۔ جہاں دیگر اصناف میں نعتیہ کلام ملتے ہیں، وہیں مرثیہ میں بھی نعتیہ موضوع پر شعرا نے بند تحریر کیے ہیں، مرثیے میں نعتیہ بند کی مثال نشانِ خاطر کیجیے ؎
خواہاں نہیں یاقوتِ سخن کا کوئی گر آج
ہے آپ کی سرکار تو یا صاحبِ معراج
اے باعثِ ایجادِ جہاں، خلق کے سرتاج
ہو جائے گا دم بھر میں غنی بندۂ محتاج
امید اسی گھر کی، وسیلہ اس گھر کا
دولت یہی میری، یہی توشہ ہے سفر کا
میں کیا ہوں، مری طبع ہے کیا، اے شہ شاہاں
حسّان و فرذوق ہیں یہاں عاجز و حیراں
شرمندہ زمانے سے گئے وائل و سحباں
قاصر ہیں سخن فہم و سخن سنج و سخن داں
کیا مدح کفِ خاک سے ہو نورِ خدا کی
لکنت یہیں کرتی ہیں زبانیں فصحا کی(9)
لفظی معنی ’’اضافہ کیا گیا ‘‘، اصطلاحاً ایسی نظم، غزل یا رباعی کو کہتے ہیں جس کے ہر مصرع یا شعر کے بعد ایسا زائد ٹکڑا لگا ہو جو اسی مصرع یا شعر کی معنویت سے مربوط یا غیر مربوط اور مصرع سے ہم قافیہ یا غیر ہم قافیہ لیکن ہم وزن فقرے سے ہم قافیہ فقروں کا اضافہ کیا گیا ہو۔ اضافہ کیا گیا فقرہ اگر مصرعے سے مربوط نہ ہو تو اسے مستزادِ عارض اور مربوط ہو تو مستزادِ اَلزم کہتے ہیں۔ مستزاد میں اضافی فقروں کی تعداد متعین نہیں یعنی یہ ایک سے زائد ہوسکتے ہیں۔ اس صنف میں نعتیہ کلام کا نمونہ امام احمد رضا بریلوی کے مجموعۂ کلام ’حدائقِ بخشش‘ سے خاطر نشین کیجیے ؎
وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا
ہمیں بھیک مانگنے کو ترا آستاں بتایا
تجھے حمد ہے خدایا
تمہیں حاکمِ برایا، تمہیں قاسمِ عطایا
تمہیں دافعِ بلایا، تمہیں شافعِ خطایا
کوئی تم ساکون آیا
یہی بولے سدرہ والے، چمنِ جہاں کے تھالے
سبھی میں نے چھان ڈالے، ترے پائے کا نہ پایا
تجھے یک نے یک بنایا
مثنوی اس نظم کو کہتے ہیں جس میں شعر کے دونوں مصرعے میں قافیہ آئے اور ہر شعر کے دونوں مصرعوں کے قافیے الگ الگ ہوں۔ محققین اسے ایرانیوں کی ایجاد بتاتے ہیں۔ عربی میں یہ صنف نہیں پائی جاتی البتہ رجز اس سے ملتی جلتی صنف ہے۔ شبلیؔ کہتے ہیں کہ رجز کو دیکھ کر ایرانیوں نے مثنوی ایجاد کی جو ایک ہیئتی صنف ہے جس میں کسی بھی موضوع کا اظہار کیا جا سکتا ہے اگرچہ مخصوص معنوں میں اسے عشقیہ منظوم داستان تصور کیا جاتا ہے۔ اس میں ابیات کی تعداد متعین نہیں۔ یہ چند ابیات سے لے کر سیکڑوں ابیات پر مشتمل ہو سکتی ہے اس شرط کے ساتھ کہ اس کی ہر بیت معنوں میں نا مکمل ہو یعنی تمام ابیات مل کر خیال و موضوع کی اکائی تشکیل دیں۔ ’’بوستانِ سعدی‘‘ کی حکایات مختصر مثنویاں ہیں جب کہ مولانا رومؔ کی ’’مثنوی‘‘ طویل ترین مثنوی خیال کی جاتی ہے۔ اردو میں بھی عشقیہ مثنویوں کے ساتھ فلسفیانہ، واعظانہ اور اخلاقی مثنویاں بہ کثرت موجود ہیں۔
عام طور سے رزمیہ مثنوی کے لیے بحرِ متقارب اور بزمیہ کے لیے بحرِ ہزج یا بحرِ سریع مستعمل ہے۔ مثنوی کے عناصر یہ ہیں۔
(1) حمد و نعت (2) مدح فرماں روائے وقت (3) تعریفِ شعر وسخن (4) قصد یا اصل موضوع (5) خاتمہ۔ بہت سے مثنوی نگاروں نے ان روایتی پابندیوں سے انحراف کیا ہے۔ حمد و نعت جس کا التزام عام طور سے شعرا کرتے ہیں، میرؔ اور سوداؔ کی ہجویہ مثنویاں ان سے بھی خالی ہیں۔ جہاں تک مثنوی کے مضامین اور موضوعات کا تعلق ہے تو اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ مذہبی واقعات، رموزِ تصوف، درسِ اخلاق، داستانِ حُسن و محبت، میدانِ کارزار کی معرکہ خیزی، بزمِ طرب کی دل آویزی، رسوماتِ شادی، مافوق الفطرت کے حیرت زا کارنامے سبھی کچھ مثنویوں کا موضوع ہیں۔ اس طرح مثنوی کے مضامین میں بڑی وسعت اور ہمہ گیری ہے۔
اردو میں کلاسیکی اور روایتی شاعری اس صنف سے مالامال ہے۔ میراںؔ جی، نظامیؔ ، اشرف بیابانیؔ ، جانمؔ ، عبدلؔ ، ملاوجہیؔ ، غواصیؔ ، مقیمیؔ ، نصرتیؔ ، ابن نشاطی، سراجؔ ، شفیقؔ ، جعفرؔ زٹلی، فائزؔ ، آبروؔ ، حاتمؔ ، اثرؔ ، میرؔ ، سوداؔ ، انشاءؔ ، مومنؔ اور شوقؔ وغیرہ کی مثنویاں مشہور ہیں۔ مثنوی نگار شعرا میں میر حسنؔ کے حصے میں جو مقبولیت اور شہرت آئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ اردو مثنوی کی تاریخ میرحسنؔ کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔ علاوہ ازیں غالبؔ نے فارسی میں کئی مثنویاں لکھی ہیں اور اردو میں ایک مختصر مثنوی ’’در صفتِ انبہ‘‘۔ حالیؔ ، اقبالؔ اور جوشؔ کا کلام بھی اس سے خالی نہیں۔ ترقی پسند شعرا میں سردار جعفری نے ’’نئی دنیا کو سلام ‘‘ اور جدید شعرا میں قاضی سلیم نے ’’باغبان و گل فروش‘‘لکھ کر روایتی ہیئت میں اس صنف پر طبع آزما ئی کی ہے۔ حمد و نعت تو مثنوی کے عناصر میں شامل ہیں، ذیل میں مشہور مثنوی نگار میرحسنؔ کی مثنوی سے نعتیہ اشعار پیش ہیں ؎
نبی کون یعنی رسولِ کریم
نبوت کے دریا کا دُرِّ یتیم
ہُوا گو کہ ظاہر میں اُمّی لقب
پَہ علمِ لدُنی کھلا دل پہ سب
کیا حق نے نبیوں کا سردار اُسے
بنایا نبوت کا حق دار اُسے
محمد کے مانند جگ میں نہیں
ہوا ہے نہ ایسا، نہ ہو گا کہیں
ہندی شاعری کی مشہور صنفِ سخن ہے۔ جس میں دو ہم قافیہ مصرعوں میں ایک مکمل خیال نظم کیا جاتا ہے۔ اسے دوہرا بھی کہتے ہیں۔ دوہا نگاری میں بعض محققین خسروؔ اور بوعلی قلندرؔ کو اولیت کا درجہ دیتے ہیں۔ دوہا نگاری زیادہ تر ہندی اور علاقائی بولیوں میں ہوتی تھی لوک ادب میں دوہا ان دونوں شعرائے کرام سے پہلے بھی مقبول تھا۔ ہندوی میں کبیرؔ ، گرونانکؔ ، شیخ فریدؔ شکر گنج، ملکؔ محمد جائسی، تلسیؔ داس، سور داسؔ ، خان خاناںؔ ، رسکھانؔ ، ملاداودؔ ، سہجوؔ بائی، دَیاؔ بائی، میراؔ بائی، بہاریؔ ، ورندؔ وغیرہ کے دوہے مشہور ہیں۔
مشہور ناقد نظامؔ صدیقی کے بہ قول اردو دوہا نگاری کے بانی اردو دوہوں کے اوّلین مجموعہ ’’پریٖت کی ریٖت‘‘کے شاعر خواجہ دلؔ محمد ہیں۔ نظیرؔ ، جلیلؔ مرزا خانی، جمیل الدین عالیؔ ، الیاس عشقیؔ ، تاجؔ سعید، پرتَوؔ روہیلہ، عادل فقیرؔ ، جمیلؔ عظیم آبادی، مشتاقؔ چغتائی، عبدالعزیزخالدؔ ، بھگوان داس اعجازؔ ، مناظر عاشقؔ ہرگانوی، جگن ناتھ آزادؔ ، نادمؔ بلخی، بیکلؔ اُتساہی، نداؔ فاضلی وغیرہ اردو دوہا نگاری کے اہم نام تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اس صنف میں بیش تر شعرا نے نعتیں تحریر کی ہیں نادمؔ بلخی کے دونعتیہ مجموعے اس صنف میں ہیں۔ بیکلؔ اُتساہی کے یہاں بھی نعتیہ دوہے بہ کثرت ملتے ہیں، ذیل میں بیکلؔ کے نعتیہ دوہے ملاحظہ ہوں ؎
صدقہ مرے رسول کا بٹتا ہے چہو اور
گدا شاہ سب ایک ہیں کوئی تور نہ مور
زُلفوں سے خوشبو بٹے چہرے سے انوار
اُن کے پاؤں کی دھول سے عرش و فرش اُجیار
وہ رب کا محبوب ہے سب اُس کی املاک
ہم سب اُس کے داس ہیں ہم کو کیا ادراک
ماہیا ایسے مختصر گیت کو کہتے ہیں جس میں ہجر و فراق کے دردو آلام کا ذکر کیا گیا ہو۔ ماہیا مفعول مفاعیلن /فاع مفاعیلن/مفعول مفاعیلن کے وزن میں تین تین مصرعوں کے بندوں میں کہا جا تا ہے۔ یہ صنف اردو شاعری میں بھی مقبول ہے۔ اردو میں جگن ناتھ آزادؔ ، ظہیرؔ غازی پوری، نادمؔ بلخی، شارقؔ جمال، بھگوان داس اعجازؔ ، بیکلؔ اُتساہی، پرکاشؔ تیواری، ستیہ پال آنندؔ ، احسن امام احسنؔ وغیرہ کے ماہیے مشہور ہیں۔ دیگر اصناف کی طرح صنفِ ماہیا میں بھی نعتیہ کلام بہ کثرت ملتے ہیں، اس صنف میں بیکلؔ اُتساہی کا نعتیہ کلام ؎
رحمت کا اشارا ہے
اِک نامِ شہِ طیبہ
جیٖنے کا سہارا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ شافعِ محشر ہیں
سرکار کے قدموں پر
ماں باپ نچھاور ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اشکوں سے ضیا کیجے
پھر نعتِ نبی بیکلؔ
دھڑکن سے لکھا کیجے
لفظی معنی ’’صوتِ مختصر ‘‘ سانیٹ اطالوی ادب کی صنفِ سخن ہے جس میں ایک مضمون کو چودہ مصرعوں میں بیان کیا جاتا ہے اور بحر مخصوص ہوتی ہے۔ لیکن اردو سانیٹ کے لیے کوئی مخصوص بحر نہیں ہے۔ حنیف کیفیؔ کے بہ قول اردو شاعری میں سانیٹ انگریزی کے اثر سے داخل ہوا لیکن ایک صنفِ سخن کی حیثیت سے نہیں بل کہ جدت پسندی کے اظہار کے لیے اور نئے تجربے کی حیثیت سے۔ اردو سانیٹ کی ابتدا کے تعلق سے کیفیؔ نے ن۔م راشد کے حوالے سے لکھا ہے کہ اردو میں پہلا سانیٹ اخترؔ جونا گڑھی نے لکھا اور دوسرا خود راشدؔ نے جو راشدؔ وحیدی کے نام سے شائع ہوا۔ عام خیال یہ ہے کہ اخترؔ شیرانی نے سانیٹ کو اردو میں متعارف کرایا۔ تصدق حسین خالدؔ ، احمد ندیم قاسمیؔ ، تابشؔ مہدی، منظرؔ سلیم وغیرہ نے بھی سانیٹ لکھے ہیں۔ ان کے بعد عزیزؔ تمنائی نے اس ہیئت میں شاعری کا ایک پورا مجموعہ ’’برگِ نو خیز‘‘ کے نام سے شائع کرایا ہے۔ اس صنف میں بھی نعتیں لکھی جا رہی ہیں، نادمؔ بلخی اور علیم صباؔ نویدی کے اس صنف پر مشتمل دو نعتیہ مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ علیمؔ صاحب کا ایک نعتیہ سانیٹ ذیل میں خاطر نشین ہو ؎
گرد آلود بدن تھے ہر طرف
صورتوں پر تیرہ بختی کے نقوش
زندگی میلی دشاؤں کی شناخت
غیر سنجیدہ فضاؤں کی شناخت
نسلِ آدم کا مقدر چاک چاک
بدنما، بے رنگ ارادے خوف ناک
دور تک پھیلے تھے پستی کے نقوش
تیرگی عریاں کھڑی تھی صف بہ صف
جلوہ فرما جب ہوئے شاہِ ہدیٰ
صورتوں میں صورتیں پیدا ہوئیں
رحمتوں پر نیتیں شیدا ہوئیں
اور منور ہو گئے ارض و سما
جسم کو تہذیب کی خوشبو ملی
زندگانی نور افشاں ہو گئی
ہا ئیکو جاپانی صنفِ سخن ہے جو سترہ ہجاؤں اور تین سطروں میں کہی جاتی ہے اس کی پہلی اور تیسری سطر میں پانچ پانچ اوردوسری سطرمیں سات ہجائیں ہوتی ہیں جن میں ایک مکمل خیال یا لفظی پیکر تشکیل دیا جاتا ہے اور اس کا خاتمہ ہمیشہ کسی اسم پر ہوتا ہے۔ اردو میں پہلی بار(1936ء)’’ساقی‘‘ کے جاپان نمبر میں اس کے نمونے سامنے آئے، پھر مختصر نظم نگاری کے رجحان نے بہت سے شعرا کو ہائیکو لکھنے کی ترغیب دی اور اردو مزاج کے مطابق بے شمار ہائیکو لکھے گئے جن میں کبھی اصل کی تقلید کی گئی اور کبھی آہنگ کی دھن میں قافیے بھی نظم کر دیے گئے۔ اردو میں علیمؔ صبا نویدی، نادمؔ بلخی، بیکلؔ اُتساہی، ساحلؔ احمد، شبنمؔ سنبھلی، فرازؔ حامدی، ظہیرؔ غازی پوری، شارقؔ جمال، وغیرہ کے ہائیکو مشہور ہیں۔ بیکلؔ نے جہاں دیگر اصناف میں نعتیں تحریر کی ہیں، وہیں اس صنف میں بھی آپ کا نعتیہ کلام ملتا ہے، ذیل میں نعتیہ ہائیکو ملاحظہ ہو ؎
قرآں کی آیات
دل سے پڑھیے تو لگتی ہے
پیارے نبی کی نعت
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جیٖنے کا احساس
روئے تمنّا جگمگ جگمگ
ذکرِ نبی کی آس
اسے مثلث اور تثلیث بھی کہتے ہیں۔ ثلاثی تین مصرعوں پر مشتمل شعری ہیئت ہے جو مختلف اوزان و بحور اور مختلف نظامِ قوافی کے استعمال سے کسی مکمل خیال کا اظہار کرتی ہے۔ پرانی شاعری میں تین تین مصرعوں پر مشتمل بندوں کی طویل نظمیں پائی جاتی ہیں۔ نئی شاعری میں ثلاثی کے نام سے صرف تین مصرعے ایک مکمل نظم کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ ثلاثی کے تین مصرعے آزاد بھی ہوسکتے ہیں اور پابند بھی۔ اردو میں حمایت علی شاعرؔ ، حمیدالماسؔ ، عادلؔ منصوری، محمد علویؔ ، رشیدافروزؔ ، ساحلؔ احمد، علی ظہیرؔ وغیرہ کی اکثر نظمیں ثلاثی میں ہیں۔ اس صنف میں بھی نعت گو شعرا نے بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم میں نذرانۂ عقیدت پیش کیا ہے ؎
شغلِ ذکرِ حبیب
ہے خدا کی قسم
ہر مرَض کا طبیب (10)
۔۔۔
خارزاروں کو لالہ زار کیا
مصطفی کی نگاہ نے ارشدؔ
جلتے صحرا کو برف بار کیا
فرانسیسی ادب کی ایک معروف صنفِ سخن ہے۔ جو آٹھ مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے اور جس میں پہلے مصرعے کی تکرار چوتھے اور ساتویں مصرعے کی جگہ اور دوسرے مصرعے کی تکرار آٹھویں مصرعے کی جگہ کی جاتی ہے تیسرا اور پانچواں مصرع پہلے مصرعے کے اور چھٹا مصرع دوسرے مصرعے کے قافیے میں لکھا جاتا ہے۔ اردو میں نریش کمار شادؔ ، فرحت کیفیؔ اور روف خیرؔ وغیرہ نے اس صنف میں نظمیں کہیں ہیں۔ مذکورہ صنف میں نعتیہ کلام ؎
بشیر و نذیر و سراجِ منیر
رسولِ مکرّم خدا کے حبیب
دو عالم کی رحمت، خدا کے سفیر
بشیر و نذیر و سراجِ منیر
پیامیِ توحیدِ ربِّ قدیر
وہ آئے تو جاگے ہمارے نصیب
بشیر و نذیر و سراجِ منیر
رسولِ مکرّم خدا کے حبیب(11)
کہہ مکرنی میں عورتوں کی زبان سے کوئی بات بیان کی جاتی ہے جس میں ایک سے معشوق مراد ہوتا ہے اور دوسری سے کچھ اور۔ اس کا قائل معشوق کی بات کہہ کر مکر جاتا ہے کہہ مکرنیوں کو سکھیاں اور مکرنیاں بھی کہتے ہیں۔ یہ امیر خسروؔ کی پسندیدہ صنف تھی اس میں بھی نعتیہ کلام کے نمونے ملتے ہیں ؎
ہیں وہ رب کے بڑے دُلارے
ہم کو بھی ہیں جان سے پیارے
کوئی نہیں ہے اُن کا ہم قد
کیا جبریل ؟
نہیں ، محمّد!(12)
ایسی نظم جو کسی روایتی شعری ہیئت کی پابند ی نہیں کرتی اس میں مقررہ تعداد میں مصرعوں کے بند نہیں ہوتے لیکن بحر و وزن کی اتنی پابندی ضرور ہوتی ہے کہ کسی وزن کا کوئی رکن منتخب کر کے اس کی تکرار کی جائے اس نظم میں مصرعے کا روایتی تصور مفقود ہونے کے سبب سطر (یا سطروں ) کو معیار مانا جاتا ہے سطریں بالعموم چھوٹی بڑی ہو تی ہیں جن کی طوالت کا انحصار خیال کی وسعت پر ہوتا ہے ویسے حقیقی آزاد نظم کا تصور محال ہے جو کسی فنی پابندی کو قبول نہیں کرتی۔
آزاد نظم مغربی شاعری کی دین ہے جس کے ابتدائی آثار بائبل میں شامل ’’نغماتِ سلیمان‘‘ اور زبور کے انگریزی تراجم میں ملتے ہیں۔ فرانسیسی شعرا نے انیسویں اور انگریزی شعرا نے بیسویں صدی میں اسے شعری اظہار کے لیے اپنایا۔ بادلئیرؔ ، والٹ وھٹمنؔ ، ہاپکنزؔ ، ایلیٹؔ ، لارنسؔ اور بہت سے مغربی شعرا نے اسے خوب ترقی دی۔ اردو میں آزاد نظم انھیں کی تقلید میں کہی گئی۔ راشدؔ ، میراجیؔ ، فیضؔ اور اخترالایمانؔ اردو آزاد نظم سے منسوب اہم نام مانے جاتے ہیں۔ جدید شاعری کا بڑا حصہ اسی میں تخلیق کیا گیا ہے اور چھوٹے بڑے ہر جدید شاعر کے یہاں اس کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ کلیم الدین احمد نے لکھا ہے کہ آزاد نظم لکھنا پابند نظم لکھنے سے زیادہ دشوار ہے۔ اس صنف میں ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کی ایک نعت بہ طورِ مثال خاطر نشین ہوں ؎
بحرِ ظلمت میں یا محمّد ( صلی اللہ علیہ و سلم )
ہے آپ ہی کا بس اک سہارا
فیوضِ شبنم کی خنکیوں سے
عذار گل ہے
لگی ہے پت جھڑ سے
آگ غم میں
اندھیرا بڑھتا ہی جا رہا ہے
جو آشکارا ہے یا پیمبر ( صلی اللہ علیہ و سلم )
ہم عاصیوں کے تم ہی مسیحا
تمہارے دم سے ہے ضو فشانی (13)
مذکورہ بالا تحقیقی جائزے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ نعت کی کوئی مخصوص ہیئت متعین نہیں ہے۔ لیکن اس کی مقبولیت اور آفاقیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ادب کی جملہ اصناف میں نعتیہ کلام ملتے ہیں۔ شعرا ے کرام نے بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم میں نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے لیے ہر صنفِ شاعری کو برتا ہے۔ غزل، قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، رباعی، قطعہ، مسدس، مخمس، مربع، ثلاثی، مستزاد، دوہا، ماہیا، سانیٹ، ہائیکو، کہہ مکرنی، ترائیلے، آزاد نظم وغیرہ میں نعتیہ کلام بہ کثرت ملتے ہیں جو نعت کی بے پناہ مقبولیت اور ہمہ گیریت پر دال ہے۔
(1) مکتوب ظہیر غازی پوری، محررہ 28؍مئی 2000ء
(2) مکتوب ڈاکٹر سید وحید اشرف، محررہ 3؍جون 2000ء
(3) مکتوب ڈاکٹر سید طلحہ رضوی برقؔ داناپوری، محررہ 28؍مئی2000ء
(4) مکتوب ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، محررہ 25؍مئی 2000ء
(5) مکتوب ظہیر غازی پوری، محررہ 28؍مئی 2000ء
(6) مکتوب ڈاکٹر محبوب راہی، محررہ 23 ؍ مئی 2000ء
(7) مکتوب ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی، محررہ 23؍ جولائی2008ء
(8) مکتوب ظہیر غازی پوری، محررہ 28؍مئی 2000ء
(9) سلیم شہزاد :فرہنگِ ادبیات، منظر نما پبلشرز، مالیگاؤں، 1998ء، ص 711
(10) دو ماہی گلبن: نعت نمبر، جنوری /اپریل 1999ء، احمد آباد، ص 42
(11) دو ماہی گلبن: نعت نمبر، جنوری /اپریل 1999ء، احمد آباد، ص 42
(12) دو ماہی گلبن: نعت نمبر، جنوری /اپریل 1999ء، احمد آباد، ص 42
(13) دو ماہی گلبن: نعت نمبر، جنوری /اپریل 1999ء، احمد آباد، ص 182
(نوٹ: اس باب میں اصنافِ سخن کی تعریفیں زیادہ تر مشہور محقق و ناقد سلیم شہزاد
صاحب کی مرتبہ فرہنگِ ادبیات سے لی گئی ہیں، مُشاہدؔ ۔ )
٭٭٭
نعت گوئی کے فن میں ضمائر یعنی ’تو ‘ اور ’تم‘ کا استعمال اور ان کے مراجع کا تعین ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ضمائر کا استعمال حد درجہ سلیقہ اور قرینہ کا متقاضی ہے اس لیے کہ ضمائر کے استعمال میں اس بات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کون سی ضمیر کس ذات کے لیے استعمال ہو رہی ہے اور اس کا تعلق عبد سے ہے یا معبود سے، نیز اسی کے ساتھ یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ کس ضمیر کا مرجع کیا ہے۔ نعت میں ضمائر کے استعما ل سے زیادہ توجہ اور احتیاط اس کے مرجع کے تعین میں دامن گیر ہوتی ہے۔ بہ ہر حال! نعت میں ضمائرکا استعمال کیا جا سکتا ہے لیکن مکمل حزم و احتیاط کے ساتھ کہ معنی و مفہوم تخریب کاری کے شکار نہ ہوں ورنہ عبد کا اطلاق معبود پراور معبود کا اطلاق عبد پر ہو جائے گا جس سے دنیا و آخرت کی تباہی و بربادی ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔ امیرؔ مینائی کا یہ شعر دیکھیں جس میں مرجع اور مُشارُُ الیہ کا تعین سمجھ میں نہیں آتا ؎
پاک تھی رنگِ دو رنگی سے وہ خلوت گہہِ خاص
وہی شیشہ، وہی مَے خوار تھا معراج کی شب
امیرؔ مینائی کا یہ شعر اس امر کا اشاریہ ہے کہ قابَ قوسین کی خلوتِ گاہِ خاص میں دو نہ تھے بل کہ صرف ایک ہی ذات تھی۔ وہی ذات شراب کی بوتل، وہی ذات شراب پینے والی تھی۔ مصرعۂ اولیٰ کے لفظ’’وہ ‘‘ کا مرجع اور مُشارُُ الیہ کون سی ذات ہے واضح طور پر پتہ نہیں چلتا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات ہے یا اللہ جل شانہ کی۔ امیرؔ مینائی کا ’’وہی ‘‘ سے خدا کی طرف اشارہ ہے یا حبیبِ خدا کی جانب، یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ غرض مرجع اور مُشارُُ الیہ کے مجہول استعمال سے شعر ایک پہیلی بن کر رہ گیا ہے۔ خدا کو رسولِ خدا کا منصب دینا یا رسولِ خدا کو خدا کے مقام پر فائز کرنا یا دونوں کو ایک ہی قرار دینا دونوں ہی صورتیں قابلِ گرفت ہیں۔ نیز خدا اور حبیبِ خدا کو شیشہ و شراب اور مَے خوار جیسے سوقیانہ الفاظ سے تشبیہ دینا ادب و احترام کے یک سر خلاف ہے۔ چناں چہ آدابِ نعت میں یہ بات پیشِ نظر رکھنا شاعر کے لیے از حد ضروری ہے کہ وہ رسولِ کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے جس صفت یا ضمائر کا استعمال کر رہا ہے وہ ادب اور احترام سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہو، تاکہ کسی بھی طرح سے نعت کا تقدس اور پاکیزگی مجروح نہ ہوسکے۔ عربی اور فارسی کے بجائے اردو لسانیات کا یہ ایک توصیفی پہلو ہے کہ اس میں معظم اور مکرم شخصیتوں کے لیے ضمیرِ تعظیمی (آپ)کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے ممدوح کا علوئے مرتبت ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے نعت میں ضمائر ’’تو ‘‘ اور ’’تم‘‘ سے اجتناب برتنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ لیکن یہاں یہ امر ذہن نشین رہے کہ جن بزرگ شعرا نے رسولِ کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے نعتیہ کلام میں ضمائر کا استعمال کیا ہے انھیں شریعت سے بے خبر اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کا بے ادب اور گستاخ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جیسا کہ استاذِ محترم پروفیسر ڈاکٹر اشفاق انجم نے نعت میں ضمائر سے متعلق جو اظہارِ خیال کیا ہے اُس سے جید اکابرِ امت پر ضرب پڑتی ہے۔ موصوف راقم ہیں :
’’ آج بھی اکثر شعرا سید الثقلین، حضور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو ’’تو‘‘ سے مخاطب کرتے ہیں، میری نظر میں یہ گستاخی کی انتہا ہے‘‘(1)
محترم ڈاکٹر اشفاق انجم نے نعت میں ضمائر ’’تو‘‘ ۔۔’’تم‘‘ اور اس کی اضافی صورتوں کے استعمال کو بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں گستاخی سے تعبیر کیا ہے۔ لیکن ہمیں حیرت ہوتی ہے موصوف کے مجموعۂ کلام کے نام ’’صلوا علیہ و آلہٖ‘‘ پر کہ اس میں ’’علیہ‘‘ ضمیر واحد غائب ہے جس کے معنی ہوتے ہیں ’’اُس‘‘ ۔۔ اِس طرح اگر نعت میں ضمائر ’’تو‘‘ ۔۔’’تم‘‘ اوراس کی اضافی صورتوں کا استعمال استاذِ محترم ڈاکٹر اشفاق انجم کے نزدیک بارگاہِ نبوی علیہ الصلاۃ والتسلیم میں گستاخی ہے تو موصوف خود اس کے مرتکب ہو رہے ہیں !۔۔
یہاں یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم نعت میں ضمائر کے استعمال کی وکالت کر رہے ہیں۔ بل کہ ہمارا مقصود یہ ہے کہ لسانی ترقی کا دائرہ جب تک محدود رہا تو جن شعرا نے نعت میں ضمائر کا استعمال کیا انھیں گستاخ اور بے ادب قرار دینا سراسر انصاف و دیانت کے منافی ہے۔ خود محترم ڈاکٹر اشفاق انجم کی مرقومہ ’’مناجات بہ واسطۂ صد و یک اسمائے رسولِ کریم ﷺ‘‘ کے چند اشعار نشانِ خاطر کریں جس میں آپ نے ضمائر ’’تو‘‘۔۔’’ تم‘‘ اور اس کی اضافی صورتوں کا استعمال کیا ہے ؎
مدد اے شفیعِ امم المدد
کہ گھیرے ہیں رنج و الم المدد
تم ہی ہو ولی و نبی و رسول
شفیق و شکور و حبیب و وصول
تمہی داعی و ہادی و ہاشمی
تمہی بالغ و صادق و ابطحی
تمہارے کرم سے ہوں میں نام دار
جلائے گی کیا مجھ کو دوزخ کی نار
ہو جنت میں ایسی جگہ گھر مرا
تمہیں دیکھوں ہر دم حبیبِ خدا
(اشفاق انجم، ڈاکٹر:روزنامہ انقلاب، ممبئی، جمعہ میگزین، بہ تاریخ 1؍ جنوری 2010ئ، ص10)
ڈاکٹر اشفاق انجم کی اس مناجات سے استغاثہ و فریاد کا جو پُر سوز انداز مترشح ہوتا ہے اس سے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں آپ کی مخلصانہ عقیدت و محبت عیاں ہوتی ہے۔ اس مناجات میں آپ نے ضمائر ’’تو‘‘۔۔’’تم‘‘ اور اس کی اضافی صورتیں استعمال کی ہیں، لیکن کہیں بھی معنی و مفہوم کا عمل ادب و احترام کے تقاضوں سے دور نہیں ہوا ہے۔ جب انجم صاحب خود ضمائر کا استعما ل کر رہے ہیں تو انھیں چاہیے کہ اپنے فرمانِ والا شان پر نظر ثانی فرما لیں۔
اس کے علاوہ نعت میں ضمائر کے استعمال سے متعلق ڈاکٹر اشفاق انجم ہی سے ملتا جلتا خیال ڈاکٹر ملک زادہ منظورؔ نے اپنے ایک مضمون مشمولہ ماہنامہ ’’مظہرِ حق‘‘ بدایوں کے ’’تاج الفحول نمبر‘‘ میں ظاہر فرمایا ہے موصوف لکھتے ہیں :
’’ اچھے نعتیہ کلام کے حسن میں اس وقت اور اضافہ ہو جاتا ہے جب شاعر احترام و ادب کے سارے لوازمات کو ملحوظِ خاطر رکھے اور اسی سیاق وسباق میں الفاظ و محاورات، صنائع و بدائع اور ضمائر کا استعمال کرے۔ چوں کہ اردو زبان میں کلمہ تعظیمی بہت زیادہ مستعمل ہیں اس لیے نعتیہ کلام میں ’’تو ‘‘ اور ’’تم‘‘ قابلِ اجتناب ہو جاتے ہیں جو شعرا شریعت کے رموز و نکات سے واقفیت رکھتے ہیں وہ ان کی جگہ ’’وہ‘‘، ’’اُن‘‘ اور ’’آپ‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ ‘‘(2)
ڈاکٹر ملک زادہ منظورؔ کی محولہ بالا عبارت سے نعت لکھتے وقت ضمائر کا خیال کس طرح رکھا جائے پورے طور پر واضح ہو گیا ہے لیکن مذکورہ عبارت اس بات کا اشاریہ بھی ہے کہ جو شعرا اپنے نعتیہ کلام میں ’’تو‘‘ اور ’’تم‘‘ اور اس کی اضافی صورتوں کا استعمال کرتے ہیں گویا وہ شریعتِ مطہرہ کے اسرار و نکات سے یک سر ناواقف ہیں اور یہ کہ یہ ضمیریں نعت میں استعمال کرن ا ایک طرح کا سوئے ادب اور گستاخی ہے۔ جب کہ اردو کا کوئی بھی ایسا شاعر نہیں ہو گا جس نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں کمالِ ادب و احترام ملحوظ رکھنے کے باوجود ان ضمائر کا استعمال نہ کیا ہو۔ قواعد کی رُو سے ان ضمائر ’’تو‘‘ اور ’’تم‘‘ کا جب تحقیقی جائزہ لیتے ہیں تو جامعہ اشرفیہ مبارکپور کے رکنِ مجلسِ شوریٰ و معروف ادیب ڈاکٹر شکیل اعظمی ’’تو‘‘، تم‘‘ اور ’’تیرا‘‘ وغیرہ ضمائر کی تحقیق کرتے ہوئے اس طرح رقم طراز ہیں :
’’تو، تم، تیرا، وغیرہ اگرچہ لغۃً ضمیرِ مخاطب اور کلمۂ خطاب ہے جو ادنا کی طرف کیا جاتا ہے۔ فارسی میں ’’تو‘‘ اور ’’شما‘‘عربی میں ’’انت‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ’’ انتم‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ’’لک‘‘۔ ۔ ۔ ۔ ’’ بک‘‘ وغیرہ ایک ہی انداز سے استعمال ہوتے ہیں خواہ مخاطب ادنا اور کمتر درجے کا ہو یا اعلا اور برتر درجے کا۔ لیکن اردو میں تو، تیرا، تم جیسے کلماتِ خطاب و ضمائرادنا اور کمتر درجے کے لئے مستعمل ہیں لیکن یہ معاملہ صرف نثر تک ہی محدود ہے، نظم میں معاملہ اس سے مختلف ہے۔
چناں چہ قواعدِ اردو از مولوی عبدالحق میں صاف درج ہے کہ نظم میں اکثر مخاطب کے لیے ’تو‘ لکھتے ہیں یہاں تک کہ بڑے بڑے لوگوں اور بادشاہوں کو بھی اسی طرح خطاب کیا جاتا ہے ؎
بعد شاہانِ سلف کے ’تجھے‘ یوں ہے تفضیل
جیسے قرآن پسِ توریت و زبور و انجیل
(ذوقؔ دہلوی)
دعا پر کروں ختم اب یہ قصیدہ
کہاں تک کہوں ’تو‘ چنیں و چناں ہے
(میرؔ )
اگرچہ لغوی اعتبار سے’ تو ‘اور’ تیرا‘ کے الفاظ کم تر درجے والوں کے لیے وضع کیے گئے ہیں لیکن اہلِ زبان پیارو محبت کے لیے بھی ان کا استعمال کرتے ہیں اور کسی بھی زبان میں اہمیت اہلِ زبان کے محاورات اور استعمالات ہی کو حاصل ہوتی ہے اس لیے نعتِ پاک میں ان کا استعمال قطعاً درست ہے اور اس میں کسی طر ح کی بے ادبی اور شرعی قباحت نہیں۔ ‘‘ (3)
واضح ہو کہ نعت میں بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے ادب و احترام کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے ضمائر ’تو ‘اور’ تم‘ اور ان کی اضافی صورتوں کا استعمال بلاشبہ کیاجا سکتا ہے اور نعت میں ضمائر کا استعمال کرنے والے بزرگوں اور نعت گو شعرا کو بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و سلم کا بے ادب اور گستاخ قرار نہیں دینا چاہیے۔ بہ طورِ مثال مشہور و معروف اور مستند شعرا کے نعتیہ اشعار جن میں ’تو، تیرا، تم، تجھ وغیرہ ضمائر کا استعمال کیا گیا ہے ملاحظہ ہو ؎
کھینچوں ہوں نقصانِ دینی یارسول
’تیری‘ رحمت ہے یقینی یارسول
(میر تقی میرؔ )
’تم‘ شہ دنیا و دیں ہو یا محمد مصطفیٰ
سر گروہِ مرسلیں ہو یا محمد مصطفیٰ
(نظیرؔ اکبر آبادی)
واللیل ’تیرے‘ گیسوے مشکیں کی ہے قسم
والشمس ہے ’ترے‘ رُخِ پُر نور کی قسم
(بہادر شا ہ ظفرؔ )
حشر میں امّتِ عاصی کا ٹھکانہ ہی نہ تھا
بخشوانا ’تجھے‘ مرغوب ہوا، خوب ہوا
(داغؔ دہلوی)
اے خاصۂ خاصانِ رسل وقتِ دعا ہے
امّت پہ ’تری‘ آ کے عجب وقت پڑا ہے
(حالیؔ )
جھلکتی ہے ’تری‘ امّت کی آبرو اس میں
طرابلس کے شہیدوں کا ہے لہو اس میں
شیرازہ ہوا ملّتِ مرحوم کا ابتر
اب ’تو‘ ہی بتا ’تیرا‘ مسلمان کدھر جائے
(ڈاکٹر اقبالؔ )
’ترے‘ روضے کو مسجودِ زمین و آسماں کہیے
عبادت خانۂ عالم، مطاعِ دوجہاں کہیے
(محسنؔ کاکوروی)
’تو‘ جو چاہے ارے او مجھ کو بچانے والے
موجِ طوفانِ بلا اُٹھ کے سفینہ ہو جائے
(ریاضؔ خیرآبادی )
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنّا ’تمہیں ‘ تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا ’تمہیں ‘ تو ہو
(ظفرؔ علی خان)
زینت ازل کی ’تو‘ ہے تو رونق ازل کی ’تو‘
دونوں میں جلوہ ریز ہے ’تیرا‘ رنگ و آب
(سائل دہلوی)
’ترے‘ کردار پہ دشمن بھی انگلی رکھ نہیں سکتا
’ترا‘ اخلاق تو قرآن ہی قرآن ہے ساقی
(ماہرؔ القادری )
سلام اے ظلِ رحمانی سلام اے نورِ یزدانی
’ترا‘ نقشِ قدم ہے زندگی کی لَوحِ پیشانی
(حفیظؔ جالندھری)
کس کی مشکل میں ’تری ‘ ذات نہ آڑے آئی
’تیرا‘ کس پر نہیں احسان رسولِ عربی
(بیدمؔ وارثی)
مرے آقا رسولِ محترم خیر الورا ’تم‘ ہو
خدائی بھر کے داتا شافعِ روزِ جزا ’تم‘ ہو
(جذبیؔ بریلوی)
’تری‘ پیمبری کی یہ سب سے بڑی دلیل ہے
بخشا گدائے راہ کو ’تو‘ نے شکوہِ حیدری
(جوشؔ ملیح آبادی)
حمیدِؔ بے نوا پربھی کرم ہو
مُسلَّم ہے ’ترا‘ فیضِ دوامی
(حمیدؔ صدیقی لکھنوی)
ہے ’تری‘ ذات باعثِ تخلیقِ دوعالم
جھکتے ہیں ’ترے‘ در پر جہاں گیر و جہاں دارا
(شورشؔ کاشمیری)
کُنتُ کنزاً سے ہویدا ہے حقیقت ’تیری‘
نور بے کیف کا آئینہ ہے صورت ’تیری‘
(عزیزؔ صفی پوری)
’تو‘ حبیبِ ربِّ جلیل ہے، ’تری‘ عظمتوں کا جواب کیا
’تو‘ ضیائے شمعِ خلیل ہے، ’تری ‘ رحمتوں کا جواب کیا
(شعریؔ بھوپالی)
’ترے ‘نام سے ہے سکونِ دل، ’ترا‘ ذکر وجہِ قرار ہے
’تری‘ یاد پر شہِ بحر و بر، مری زندگی کا مدار ہے
(نفیسؔ لکھنوی)
رخشندہ ’ترے‘ حسن سے رخسارِ یقیں ہے
تابندہ ’ترے‘ عشق سے ایماں کی جبیں ہے
(صوفی غلام مصطفیٰ تبسمؔ )
کعبہ ہے زاہد کا قبلہ، میں تو ہوں ’تیرا ‘ عاشقِ شیدا
قبلہ مرا ’ترے ‘ ابروئے پُر خم، صلی اللہ علیک و سلم
(آسیؔ سکندرپوری )
دستگیری اب ’تری‘ درکار ہے
ہے فقیرِؔ خستہ مضطر الغیاث
(فقیرؔ بدایونی)
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے عشق و محبت اور ادب و احترام خانوادۂ رضا بریلوی کا طرۂ امتیاز ہے، امام احمد رضا محدثِ بریلوی اور ان کے فرزندِ ارجمند مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے وہ نعت گو شعرا ہیں کہ جن کی مثیل و نظیر شاید ہی کہیں ملے۔ ان شمع رسالت کے پروانوں اور مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کے دیوانوں کے شعر شعر میں شرعی و لسانی حزم و احتیاط کے وہ جلوے پنہاں ہیں جو کسی اور کے یہاں شاذونادر ہی پائے جاتے ہوں ان واقفانِ علمِ شریعت اور محافظانِ ناموسِ رسالت نے بھی اپنے نعتیہ کلام میں ’’تو، تیرا، تم‘ وغیرہ ضمائر کابلا تکلف استعمال فرمایا ہے۔
چناں چہ امام احمد رضا بریلوی نے اپنے مشہور و معروف نعتیہ مجموعۂ کلام ’’ حدائقِ بخشش‘‘ میں جو پہلی نعت درج کی ہے اس کی ردیف ہی ’’تیرا‘‘ ہے ؎
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا ’تیرا‘
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا ’تیرا‘
’تو‘ جو چاہے تو ابھی میل مرے دل کے دُھلیں
کہ خدا دل نہیں کرتا کبھی میلا ’تیرا‘
’تیرے ‘ ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ ’تیرا‘
’تو‘ نے اسلام دیا ’تو‘ نے جماعت میں لیا
’تو‘ کریم اب کوئی پھرتا ہے عطیہ ’تیرا‘
’تیری‘ سرکار میں لاتا ہے رضاؔ اُس کو شفیع
جو مرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا ’تیرا‘
مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی کے نعتیہ کلام میں ضمائر کا بہ کثرت استعمال ہوا ہے۔ مگرضمائر کے مراجع اور مُشارُُ الیہ میں کہیں بھی مجہول انداز نہیں دکھائی دیتا، کلامِ نوریؔ میں ضمائر کا استعمال بڑے حسن و خوبی اور سلیقہ و قرینہ سے کیا گیا ہے کہ کہیں بھی اس کے مرجع کے تعین میں کسی طرح کی کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی ؎
ضیا بخشی ’تری‘ سرکار کی عالم پہ روشن ہے
مہ و خورشید صدقہ پاتے ہیں پیارے ’ترے‘ در کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’تو‘ ہے رحمت، بابِ رحمت ’تیرا‘ دروازہ ہوا
سایۂ فضلِ خدا سایہ ’تری‘ دیوار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’تو‘ اگر چاہے ملے خاک میں سلطانِ زماں
’تیرا‘ بندہ کوئی ’تو‘ چاہے تو سلطاں ہو گا
حضرت نوریؔ بریلوی کے متذکرہ بالا اشعار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے ادب و احترام کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اس حسن و خوبی کے ساتھ ضمائر کا استعمال کیا ہے کہ مرجع و معنی کے تعین و تفہیم میں کسی طرح کی کوئی دشواری محسوس نہیں ہوتی اور عبد و معبود کا واضح فرق نظر آتا ہے، مرجع اور مُشارُُ الیہ میں معقولیت کے سبب شعر فہمی میں دقت کا احساس نہیں ہوتا۔ کلامِ نوریؔ سے ضمائر کے استعمال کی مزید مثالیں نشانِ خاطر ہوں ؎
’تیرا‘ دیدارِ کرم رحمِ مجسم ’تیرا‘
دیکھنی ہو جسے رحماں کے کرم کی صورت
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مالکِ کل کے ’تم‘ ہو نائب، سب ہے ’تمہارا‘ حاضر و غائب
’تم‘ ہو شہود و غیبت والے، صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہر ذرہ پر ’تیری‘ نظر ہے، ہر قطرہ کی ’تجھ‘ کو خبر ہے
ہو علمِ لدنی کے ’تم‘ دانا، صلی اللہ علیک و سلم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بہارِ جاں فزا ’تم‘ ہو، نسیمِ داستاں ’تم‘ ہو
بہارِ باغِ رضواں ’تم‘ سے ہے زیبِ جناں ’تم‘ ہو
حبیبِ ربِّ رحماں ’تم‘ مکینِ لامکاں ’تم‘ ہو
سرِ ہر دوجہاں ’تم‘ ہو شہ، شاہنشہاں ’تم‘ ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’تمہارے‘ فیض سے لاٹھی مثالِ شمع روشن ہو
جو ’تم‘ لکڑی کو چاہو تیز تر تلوار ہو جائے
’تمہارے‘ حکم کا باندھا ہوا سورج پھرے اُلٹا
جو ’تم‘ چاہو کہ شب دن ہوا بھی سرکار ہو جائے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’تم‘ آئے چھٹی بازی رونق ہوئی پھر تازی
کعبہ ہوا پھر کعبہ کر ڈالا تھا بت خانہ
کیوں زلفِ معنبر سے کوچے نہ مہک اُٹھیں
ہے پنجۂ قدرت جب زلفوں کا ’تری‘ شانہ
ہر پھول میں بو ’تیری‘ ہر شمع میں ضو ’تیری‘
بلبل ہے ’ترا‘ بلبل پروانہ ہے پروانہ
پیتے ہیں ’ترے‘ در کا کھاتے ہیں ’ترے‘ در کا
پانی ہے ’ترا‘ پانی دانہ ہے ’ترا‘ دانہ
میں شاہ نشیں ٹوٹے دل کو نہ کہوں کیسے
ہے ٹوٹا ہوا دل ہی مولا ’ترا‘ کاشانہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
فوجِ غم کی برابر چڑھائی ہے
دافعِ غم ’تمہاری‘ دہائی ہے
’تم‘ نے کب آنکھ ہم کو دکھائی ہے
’تم‘ نے کب آنکھ ہم سے پھرائی ہے
’تو‘ خدا کا ہوا اور خدا ’تیرا‘
’تیرے‘ قبضے میں ساری خدائی ہے
تاج رکھا ’ترے‘ سر رفعنا کا
کس قدر ’تیری‘ عزت بڑھائی ہے
مذکورہ بالا اشعار میں بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے ادب و احترام اور تعظیم و توقیر کے جملہ لوازمات کے ساتھ ضمائر کو نہایت طریقے اور سلیقے کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔ لہٰذا مذکورہ مثالوں سے کلّی طور پر واضح ہو گیا کہ حضرت نوریؔ بریلوی نے بھی ضمائر کی زبان میں نعت نگاری کی ہے۔ لیکن زمامِ حزم و احتیاط کو مکمل طور پر ملحوظِ خاطر رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کا کلام اپنی قادرالکلامی اور انفرادیت کی آئینہ داری کرتا ہے۔
حاصلِ مطالعہ یہ کہ نعت میں ضمائر کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس سلیقہ مندی سے کہ معنی و مفہوم کسی بھی طرح کی تخریب کاری کے شکار نہ ہوں اور نعت کے جملہ لوازمات کا احترام بھی باقی رہے۔ ہاں ! وہ شعرائے کرام جنھوں نے لسانی ترقی کے ہوتے اپنی نعتوں میں ضمائر ’’تو، تم تیرا ‘‘ اور اس کی شکلیں کی بجائے ضمیرِ تعظیمی ’’آپ‘‘ کا استعمال کیا ہے اور کر رہے ہیں وہ بلا شبہ لائقِ تحسین و آفرین ہیں۔ آج جب کہ زبان کا دائرہ وسعت اختیار کر چکا ہے تو نعت نگار شعرا کو چاہیے کہ نعت میں ضمیرِ تعظیمی کا ہی استعمال کریں تو بہتر ہے۔
(1) اشفاق انجم، ڈاکٹر: پیش لفظ صلو ا علیہ وآلہ، ۔۔(2)ماہنامہ اشرفیہ : ستمبر2000ء مبارک پور، ص43
(3)ماہنامہ اشرفیہ : ستمبر2000ء مبارک پور، ص48/
٭٭٭
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی ہندوستانی مسلمانوں کے ایک مذہبی رہِ نما گذرے ہیں۔ آپ عالم اسلام کی مشہور شخصیت امام احمد رضا محدث بریلوی (م1921ء) کے فرزند اصغر تھے۔ آپ کا خانوادہ کئی صدی پیش تر سے اسلامی علوم و فنون کا مرکز و محور رہا ہے۔ آپ تقوا و طہارت میں بلندیِ کردار سے متصف تھے۔ مرجعِ فتاویٰ تھے۔ ملتِ اسلامیہ کے قائد و رہِ بر تھے۔ ذیل میں آپ کا شجرۂ نسب پیش کیا جاتا ہے۔ جس کی ابتدا حضرت سعید اﷲ خان صاحب سے کی جا رہی ہے جو عالی جاہ شجاعت جنگ بہادر کے لقب سے مشہور تھے اور قندھار سے سلطان شاہ محمد شاہ کے ہمراہ ہندوستان آئے تھے۔ اعلا انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے حکومت وقت نے انھیں ’’شش ہزاری ‘‘کے منصب سے سرفراز کیا تھا۔ لاہور کا ’’شیش محل‘‘ آپ ہی کی جاگیر تھی۔ آپ کے صاحب زادے سعادت یار خاں صاحب ہیں جوسلطانِ وقت کے وزیر مالیات تھے ان کی امانت داری اور دیانت داری کو دیکھ کر سلطان محمد شاہ نے ضلع بدایوں کے کئی مواضعات انھیں عطا کیے جو آج بھی اس خاندان کے حصے میں ہیں۔ سعادت یار خاں صاحب کے تین فرزند محمد معظم خاں صاحب، محمد اعظم خاں صاحب اور محمد مکرم خاں صاحب ہوئے۔ ان میں محمد اعظم خاں صاحب بھی وزارتِ اعلا کے عہدے پر فائز تھے، مگر کچھ عرصہ بعد سلطنت کی ذمہ داریوں سے سبک دوشی حاصل کر لی اور زہد و اتقا، ریاضت و روحانیت کی جانب مکمل طور پر مائل ہو گئے آپ ہی کی ذات والا مرتبت سے قندھار کے اس خانوادے میں علم و فضل اور زہد و اتقا کا بول بالا شروع ہوا۔ حضرت نوریؔ بریلوی، محمد اعظم خاں صاحب ہی کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ محمد اعظم خاں صاحب کے یہاں چار بیٹیاں تولد ہوئیں اور ایک فرزند حافظ کاظم علی خاں ہوئے، جن کی آل میں تین صاحب زادیاں اور تین بیٹے امام العلماء رضا علی خاں صاحب، حکیم تقی علی خاں صاحب اور جعفر علی خاں صاحب تولد ہوئے۔ حافظ کاظم علی خاں صاحب کے بیٹوں میں امام العلماء رضا علی خاں صاحب کی اولاد میں مولانا نقی علی خاں صاحب اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ مولانا نقی علی خاں صاحب کے یہاں تین بیٹے امام احمد رضا، مولانا حسن رضا، محمد رضا اور تین صاحب زادیاں پیدا ہوئیں۔ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، مولانا نقی علی خاں صاحب کے بڑے بیٹے امام احمد رضا خاں صاحب کے فرزندِ اصغر ہیں۔ حضرت نوریؔ بریلوی کے بڑے بھائی مولانا حامد رضا خاں صاحب اور پانچ بہنیں مصطفائی بیگم، کنیز حسن، کنیز حسنین، کنیزحسین اور مرتضائی بیگم ہیں۔ حضرت نوریؔ بریلوی کے یہاں ایک بیٹے انوار رضا خاں صاحب ہوئے جو کم سنی ہی میں انتقال فرما گئے علاوہ ازیں آپ کی چھ بیٹیاں ہوئیں، جن کے اسمائے گرامی نگار فاطمہ، انوار فاطمہ، برکاتی بیگم، رابعہ بیگم، ہاجرہ بیگم اور شاکرہ بیگم ہیں۔ مزید خاکے سے شجرۂ نسب کی تفصیل واضح طور پر نمایاں ہوتی ہے۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کا شجرۂ نسب
سعید اﷲ خاں (شجاعت جنگ بہادر)
سعادت یار خاں (وزیر مالیات)
محمد معظم خاں محمد اعظم خاں محمد مکرم خاں
چار صاحبزادیاں حافظ کاظم علی خاں
تین صاحبزادیاں امام العلما رضا علی خاں حکیم تقی علی خاں جعفر علی خاں
مولانا نقی علی خاں تین صاحبزادیاں
امام احمد رضا خاں مولاناحسن رضا خاں محمد رضا خاں تین صاحبزادیاں
مولانا حامد رضا خاں مولانا مصطفی رضا نوریؔ بریلوی مصطفائی بیگم کنیز حسن کنیز حسنین کنیز حسین مرتضائی بیگم
انوار رضا خاں نگار فاطمہ انوار فاطمہ برکاتی بیگم رابعہ بیگم ہاجرہ بیگم شاکرہ بیگم (1)
(کم سنی میں انتقال ہو گیا)
تحقیق و مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی دنیائے اسلام کے عظیم رہِ نما، قطبِ زمانہ، مرجع العلماء و الخلائق، رہبرِ شریعت و طریقت، غزالی دوراں، رازیِ زماں، با فیض مدرس، پُر خلوص داعی، عظیم فقہیہ، مفسر، محدث، خطیب، مفکر، دانش ور، تحریک آفریں قائد، مایۂ ناز مصنف و محقق اور بلند پایہ نعت گو شاعر اور گوناگوں خصوصیات کے مالک تھے۔ آپ عالمِ اسلام کی مشہور شخصیت امام احمد رضا بریلوی کے فرزندِ اصغر تھے۔ آپ کا خاندان علم و فضل، زہد و اتقا اور عشقِ رسول (صلی اللہ علیہ و سلم ) میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ آپ کی ولادت 22؍ ذی الحجہ1310ھ بمط 7 جولائی1893ء بروز جمعہ بہ وقتِ صبح صادق آپ کے چچا استاذِ زمن علامہ حسن رضا بریلوی کے دولت کدہ پر، واقع رضا نگر، محلہ سوداگران، بریلی، یوپی، (انڈیا) میں ہوئی۔ (2)
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کا پیدایشی اور اصل نام ’ ’محمد‘‘ ہے۔ آپ کا عقیقہ اسی نام پر ہوا۔ غیبی نام ’’آلِ رحمن ‘‘ہے۔ پیر و مرشد نے آپ کا پورا نام ’’ابوالبرکات محی الدین جیلانی ‘‘ تجویز فرمایا اور والد گرامی نے عرفی نام ’’مصطفیٰ رضا‘ ‘ رکھا۔ فنِ شاعری میں آ پ اپنے پیر ومرشد شیخ المشائخ سید شاہ ابوالحسین نوریؔ میاں مارہروی نور اللہ مرقدہٗ(م1324ء) کی نسبت سے اپنا تخلص ’’نوریؔ ‘‘ فرماتے تھے۔ عرفی نام اس قدر مشہور ہوا کہ ہر خاص و عام آ پ کو اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔ (3)
یوں تو آپ کو علم و فضل کی بنیاد پر بہت سارے القاب سے نوازا گیا، مگر جس لقب کو شہرتِ دوام حاصل ہوئی وہ ہے ’’مفتیِ اعظم‘‘۔ اس کی تفصیل آ گے پیش کی جائے گی۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی ولادت سے پہلے والد ماجد امام احمد رضا بریلوی اپنے پیر و مرشد حضرت سید شاہ آل رسول احمدی مارہروی (م1297ھ) کے مزارِ پاک کی زیارت اور سید المشائخ سید شاہ ابوالحسین نوریؔ مارہروی(م1324ھ) سے ملاقات کے لیے مارہرہ مطہر ہ تشریف لے گئے تھے۔ اس موقع پر جو واقعات ہوئے اس کی الگ الگ روایتیں سامنے آئی ہیں، مگر ان میں فقیہ النفس مفتی مطیع الرحمن رضوی کی وہ روایت جسے آپ نے مولاناسید شاہد علی رضوی رام پو ری سے بیان کیا، بہ ایں معنی قابلِ ترجیح ہے کہ مفتی صاحب موصوف نے اس کو خود مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی زبانی سماعت کیا ہے۔ سید شاہد علی رضوی تحریر فرماتے ہیں :
’’22؍ ذی الحجہ1310ھ کی شب میں تقریباً نصف رات تک امام احمد رضا قدس سرہ اور سید المشائخ حضرت نوری میاں قدس سرہ کے درمیان علمی مذاکرات رہے۔ پھر دونوں اپنی اپنی قیام گاہوں میں آرام فرما ہوئے۔ اسی شب عالمِ خواب میں دونوں بزرگوں کو حضرت مفتی اعظم کی ولادت کی نوید دی گئی اور نومولود کا نام ’آل الرحمن ‘ بتا یا گیا۔ خواب سے بیداری پر دونوں بزرگوں میں سے ہر ایک نے یہ فیصلہ کیا کہ بہ وقتِ ملاقات مبارک باد پیش کروں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فجر کی نما ز کے لیے جب دونوں بزرگ مسجد پہنچے تو مسجد کے دروازے پر ہی دونوں بزرگوں کی ملاقات ہو گئی اور وہیں ہر ایک نے دوسرے کو مبارک باد پیش کی۔ فجر کی نماز کے بعد سید المشائخ حضرت سید شاہ ابو الحسین نوری میاں قدس سرہ نے امام احمد رضا سے ارشاد فرمایا :
’مولانا صاحب!آپ اس بچے کے ولی ہیں۔ اگر اجازت دیں تو میں نو مولود کو داخلِ سلسلہ کر لوں۔ ‘۔۔ امام احمد رضا قدس سرہ نے عرض کیا : ’حضور غلام زادہ ہے اسے داخلِ سلسلہ فرما لیا جائے۔ ‘۔۔ سید المشائخ حضرت سید شاہ ابو الحسین نوری میاں قدس سرہ نے مصلا ہی پر بیٹھے بیٹھے مفتی اعظم کو غائبانہ داخلِ سلسلہ فرما لیا۔ حضرت سید المشائخ نے امام احمد رضا کو اپنا عمامہ اور جبہ عطا فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا :
’میری یہ امانت آپ کے سپرد ہے جب وہ بچہ اس امانت کا متحمل ہو جائے تو اسے دے دیں۔ مجھے خواب میں اس کا نام ’آل الرحمن ‘بتایا گیا ہے۔ لہٰذا نومولود کا نام ’آل الرحمن ‘ رکھیے۔ مجھے اس بچے کو دیکھنے کی تمنا ہے۔ وہ بڑا ہی فیروز بخت اور مبارک بچہ ہے۔ میں پہلی فرصت میں بریلی حاضر ہو کر آپ کے بیٹے کی روحانی امانتیں اس کے سپرد کر دوں گا۔ ‘‘
دوسرے روز جب ولادت کی خبر مارہرہ پہنچی تو سید المشائخ حضرت سیدشاہ ابوالحسین نوری قدس سرہ نے نومولود کا نام ’ابوالبرکات محی الدین جیلانی ‘منتخب فرمایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ا مام احمد رضا قدس سرہ نے ساتویں روز ’’محمد ‘‘ نام پر بیٹے کا عقیقہ کیا۔ (4)
متذکرہ واقعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت جل شانہٗ کے نیک طینت اور پاک باز بندوں پر عنایاتِ الٰہیہ سے غیبی طور پر آیندہ پیش آنے والے امور منکشف ہو جاتے تھے۔ مفتیِ اعظم قدس سرہ کی ولادت کی خبریں جن بندگانِ خدا نے دیں وہ اپنے عہد کے قطب اور مجدد ہیں۔ انھیں نفوسِ قدسیہ کی بشارتوں کا یہ ثمرہ ہے کہ مفتیِ اعظم قدس سرہ کا نام آج دنیائے اسلام کے افق پر روشن و منور ہے۔
6؍ ماہ بعد جب 25 جمادی الثانی 1311ھ کو سید المشائخ سید شاہ ابوالحسین نوری میاں مارہروی (م1324ھ) بریلی تشریف لائے تومفتیِ اعظم قدس سرہ کو اپنی آغوش میں لے کر دعاؤں سے نوازا اور چھ ماہ تین دن کی عمر میں ہی آپ کو داخلِ سلسلہ فرما کر تمام سلاسل کی اجازت و خلافت سے سرفراز کیا۔ اور دورانِ بیعت ارشاد فرمایا کہ :
’’یہ بچہ دین و ملت کی بڑی خدمت کرے گا اور مخلوق خدا کو اس کی ذات سے بہت فیض پہونچے گا، یہ بچہ ولی ہے، اس کی نگاہوں سے لاکھوں گم راہ انسان دین حق پر قائم ہوں گے۔ یہ فیض کا دریا بہائے گا۔ ‘‘(5)
سید المشائخ نے حلقۂ بیعت میں لینے کے بعد قادری نسبت کا دریائے فیض بنا کر ابوالبرکات محی الدین جیلانی کو امام احمد رضا کی آغوش میں دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’مبارک ہو آپ کو یہ، قرآنی آیت۔۔ ’’واجعل لی وزیرا من اہلی ‘‘ کی تفسیر مقبول ہو کر آ پ کی گود میں آ گئی ہے۔۔ ’’ آل الرحمن۔ محمد۔ ابولبرکات۔ محی الدین جیلانی۔ مصطفیٰ رضا ‘‘ (6)
بزرگوں کے اقوال سے یہ بات مذکور ہے کہ جب کسی شخص میں محاسن کی کثرت ہوتی ہے تو اس کا ہر کام تشنۂ توصیف ہوتا ہے ، اور لوگ ایسی جامع الصفات شخصیت کو مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔ مفتیِ اعظم حضرت نوریؔ بریلوی کے نام میں پہلی نسبت رحمن سے ہے، دوسری نسبت حضوراقدس صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے، تیسری نسبت غوث اعظم علیہ الرحمہ سے ہے اور چوتھی والد گرامی امام احمد رضا بریلوی سے ہے۔ اگرچہ یہ اہتمام تو اکابر نے اپنی بالغ نظری سے کیا مگر دنیا نے اس منبعِ خیر و فلاح سے قریب ہو کر جب فیوض حاصل کیا تو لوگ اپنے جذبۂ ستایش پر قابو نہ پا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ آج آپ مختلف مبارک ناموں سے یاد کیے جاتے ہیں۔
جب مفتیِ اعظم قدس سرہ نے ہوش و خرد کی منزل میں قدم رکھا تو آپ کو زیورِ علم اور تہذیبِ اخلاق سے آراستہ کرنے کے لیے والدِ ماجد امام احمد رضا بریلوی کے قائم کردہ مدرسہ’’منظرِ اسلام‘‘ میں داخل کرایا گیا۔ آپ نے مدرسہ کے مختلف اساتذہ سے کسبِ علم کیا مگر آپ کی تربیت میں سب سے زیادہ دخل آپ کے برادرِ اکبر مولانا حامد رضا خاں بریلوی (م1362ھ/1943ء) کا رہا، انھوں نے اس ہیرے کو خوب خوب تراشا ہر زاویے سے دیکھا پرکھا اور جب قوم کے روٗ بہ روٗ کیا تو بڑے بڑوں کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں، بعد اس کے آپ نے اپنے والدِ گرامی امام احمد رضا بریلوی سے اکتسابِ فیض کیا۔ ابتدا ہی سے ذکاوت و نکتہ سنجی، جودتِ طبع، فکر و خیال کی بلندی، حصولِ علم میں کد و کاوش نمایاں رہی۔ آپ کے اساتذۂ کرام میں برادرِ اکبر مولانا حامد رضا خاں بریلوی، مولانا شاہ رحم الٰہی منگلوری (م1361ھ)، مولانا سید شاہ بشیر احمد علی گڑھی، مولانا ظہور الحسین فاروقی رام پوری (م1342ھ) علیہم الرحمۃکا شمار ہوتا ہے۔
تعلیم سے فراغت:
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ نوریؔ بریلوی نے 1328ھ/1910ء میں بہ عمر اٹھارہ سال خداداد ذہانت، ذوقِ مطالعہ، لگن و محنت اور اساتذۂ کرام کی شفقت و محبت، والد گرامی امام احمد رضا بریلوی کی کامل توجہ اور مرشد گرامی حضرت سید شاہ ابوالحسین احمد نوری مارہروی کی روحانی عنایات کے نتیجے میں جملہ علوم و فنون، منقولات و معقولات پر عبور حاصل کیا اور دارالعلوم منظر اسلام بریلی سے فراغت پائی۔ (7)
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی تصنیفات و تالیفات کے مطالعہ کے بعد یہ خیال تقویت پاتا ہے کہ برِ صغیر ہند و پاک میں علومِ عقلیہ و نقلیہ کی جتنی مشہور سندیں ہیں۔ آپ کا سلسلۂ تلمذ اُن سب کا جا مع ہے۔ ذیل میں ان علوم و فنون کی فہرست پیش کی جاتی ہے جو آپ نے’’ بریلوی سلسلۂ تلمذ ‘‘کے واسطے سے نہ صرف حاصل کیے بل کہ ان میں انھیں مہارتِ تامّہ و کاملہ بھی حاصل رہی۔
(1) علم تفسیر
(2) علم حدیث
(3) اُصول حدیث
(4) فقہ(جملہ مذاہب)
(5) اصول فقہ
(6) علم الفرائض
(7) جدل
(9) عقائد
(10) کلام
(11) نحو
(12) صرف
(13) معانی
(14) بیان
(15) بدیع
(16) منطق
(17) مناظرہ
(18) فلسفہ
(19) تکسیر
(20) ہیئت
(21) حساب
(22) ہندسہ
(23) قراء ت
(24) تجوید
(25) تصوّف
(26) سلوک
(27) اخلاق
(28) اسماء الرجال
(29) سیَر
(30) تاریخ
(31) لغت
(32) ادب(عربی، فارسی، اردو)
(33) عروض و قوافی
(34) توقیت
(35) اوفاق
(36) فنِ تاریخ و اعداد
(37) جفر
(38) ریاضی وغیرہ۔ (8)
علوم و فنون کی یہ کثرت مفتیِ اعظم حضرت نوریؔ بریلوی کے علوئے مرتبت پر دلالت کرتی ہے۔ ان علوم فنون کو آپ نے خالص اللہ و رسول (جل و علا و صلی اللہ علیہ و سلم )کی رضا و خوش نودی اور دین و مذہب کی ترویج و اشاعت کے لیے حاصل کیا۔ مذکورہ بالا علوم و فنون آپ نے جن سلاسل سے حاصل کیے اور امام احمد رضا بریلوی نے آپ کو جن 25سلاسل اولیا و سلاسل قرآن و سلاسل حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی ان اسنادکے نقشے آیندہ صفحات کی زینت بنیں گے۔
تعلیم و تربیت سے فراغت کے بعد آپ کے والدِ ماجد امام احمد رضا محدثِ بریلوی نے آپ کو جمیع اوراد و وظائف اور جملہ سلاسلِ طریقت کی خلافت و اجازت عطا فرمائی۔
امام احمد رضا بریلوی کے برادر اصغر مولانا محمد رضا صاحب کی اکلوتی صاحب زادی سے مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کا عقدِ مسنون1911ء میں ہوا۔ جن کو مخدومۂ اہل سنت کے لقب سے یاد کیاجاتا تھا، جو 16 جمادی الثانی 1405ھ /1985ء کو وصال کر گئیں۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی اولاد میں ایک صاحب زادہ محمد انور رضا خاں تولد ہوئے افسوس! جو کم سنی ہی میں انتقال فرما گئے اور آپ کے یہاں چھ صاحب زادیاں پیدا ہوئیں، جن کو آپ نے نہایت شفقت و محبت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحب زادی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی سیرتِ طیبہ کے مطابق تربیت دی اور فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو ادا کرتے ہوئے اپنی صاحب زادیوں کو پارۂ جگر تصور کیا۔ اُن کی پرورش و پرداخت میں حقِ پدری ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے نواسوں میں ہر کوئی ’’ہر گلے را رنگ وبوئے دیگر است‘‘کے مصداق گلشنِ اسلام کا بے خزاں شگفتہ پھول تصور کیا جاتا ہے۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کو تین مرتبہ حجِ بیت اللہ شریف اور زیارتِ مواجہہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سعادت حاصل ہوئی۔ آپ نے پہلا حج 1364ھ/1945ء میں اوردوسرا حج1366ھ / 1948ء میں ادا کیا۔ ان دونوں حج و زیارت کے دوران پاسپورٹ میں فوٹو کی قید نہیں تھی۔ جب آپ نے تیسرا حج اپنی زوجۂ محترمہ کے ہم راہ 1391ھ/1971ء میں ادا کیا تو اس وقت پاسپورٹ میں فوٹو لازمی ہو گیا تھا لیکن آپ کا یہ حج اس لحاظ سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ آپ نے بغیر فوٹو کے حج کی سعادت حاصل کی۔ اس معاملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ تقوا و طہارت کی کس بلند منزل پر فائز تھے اور فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم پر عمل میں آپ کتنے غیور تھے۔ (9)
جب آپ کے حسن و جمال اور نقش سراپا پر نظر کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے نقش و نگار پر جو خامہ فرسائی آپ کے شاگرد و خلیفہ جناب مفتی سید شاہد علی رام پوری نے کی ہے اُنھیں کے حوالے سے معمولی حذف و اضافہ کے ساتھ دیگر مصنفین نے نقل کیا ہے۔ لہٰذا اسی روایت کو اعتبار کا درجہ حاصل ہے۔ ذیل میں آپ کا سراپامفتی موصوف کی زبانی خاطر نشین ہو :
’’رنگت سرخی مائل سفید، قد میانہ، بدن نحیف، سر بڑا گول اس پر عمامہ کی بہار، چہرہ گول روشن و تاب ناک نور برساتاہواجسے دیکھ کر خدا کی یاد آ جائے، پیشانی کشادہ، بلند تقدس کا آثار لیے ہوئے، بھویں گنجان ہالہ لیے ہوئے، پلکیں گھنی بالکل سفید ہالہ نما، آنکھیں بڑی بڑی کالی چمک دار گہرائی و گیرائی لیے ہوئے، رخسار بھرے بھرے گداز روشن جلال و جمال کا آئینہ، ناک متوسط قدرے اٹھی ہوئی، مونچھ نہ بہت پست نہ اٹھی ہوئی، لب پتلے گلاب کی پتی کی طرح تبسم کے آثار لیے ہوئے، دنداں چھوٹے چھوٹے ہم وار موتیوں کی لڑی کی طرح جب تبسم ریز ہوتے، کان متناسب قدرے درازی لیے ہوئے، گردن معتدل، سینہ فراخ کچھ روئیں لیے ہوئے، کمر خمیدہ مائل، ہاتھ لمبے لمبے جو سخاوت و فیاضی میں بے مثل، کلائیاں چوڑی روئیں دار، ہتھیلیاں بھری ہوئیں گداز، انگلیاں لمبی لمبی موزوں کشادہ، پاؤں متوسط، ایڑیاں گول موزوں۔ ‘‘(10)
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی حیات و خدمات کا تحقیقی جائزہ لینے کے بعد اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ آپ گوناگوں خصوصیات اور متنوع صفات کے حامل تھے، آپ کی ہمہ جہت خوبیوں میں تین خوبیاں انتہائی نمایاں اور ممتاز ہیں :
(1)عشق رسالت مآب صلی اﷲ علیہ و سلم ۔ یہ آپ کے خانوادے کا طرۂ امتیاز ہے۔
(2)تقوا۔ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کے عہد میں اور بعد بھی دور دور تک تقوا میں کوئی آپ کا مثیل و نظیر نہیں۔
(3)تفقہ فی الدین(دین کی سمجھ)۔ یہ وہ امتیازی وصف ہے جس میں آپ اپنے معاصرین مفتیانِ کرام کے مقابلہ میں سب سے زیادہ نمایاں تھے۔ اسی سبب سے آپ کو ’’مفتیِ اعظم ‘‘ کے لقب سے سرفراز کیا گیا۔
علاوہ ازیں آپ نے ہمیشہ آل رسول کا احترام کیا، غیر محرم عورتوں کو کبھی بھی بے پردہ نہیں دیکھا نہ ہی کبھی غیر محرم عورتوں کو بے پردہ مرید کیا، بے شرع کو سخت فضیحت اور شریعت مطہرہ پر قائم رہنے کی نصیحت کی، آپ نے تا حیات نماز کی ادائیگی میں پاسداری اختیار کی، حتیٰ کہ نماز تہجد اور دیگر نوافل پر بھی مداومت کی، طہارت کا یہ عالم تھا کہ ہمیشہ وضو سے رہتے ہوئے بھی ہر نماز کے لیے تازہ وضو فرماتے، ڈاکٹروں کی ممانعت پر بھی آپ نے حالتِ بیماری میں وضو کیا، انگریزی اشیا، دوات، دوائیں اور دیگر کو کبھی بھی استعمال نہ کیا، آپ کی طبیعت میں مہمان نوازی کا جذبہ نہایت بلند تھا، گویا مہمان کو آپ خدا کی رحمت سمجھتے تھے اور ہر کس و ناکس سے شفقت و محبت کا سلوک کرنا آپ کی منکسر المزاجی کو ظاہر کرتا ہے۔ غرض یہ کہ آپ سراپا خلوص و محبت تھے۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی تا عمر اہلِ اسلام کو اپنے علمی، روحانی اور عرفانی فیوض سے مالامال فرماتے رہے۔ اللہ رب العزت کی مرضی و مشیت کے مطابق علم و فضل اور زہد و اتقا کا یہ روشن ستارہ 92 ؍برس کی عمر میں 14؍ محرم الحرام1402ھ بمط12نومبر 1981ء بروز جمعرات شب ایک بج کر چالیس منٹ پر غروب ہو گیا۔ جوں ہی ریڈیو کے ذریعہ آپ کے وصالِ پُر ملال کی خبر اکنافِ عالم میں نشر ہوئی، پورے عالمِ اسلام میں رنج و غم کی فضا چھا گئی۔ سارا ماحول سوگوار ہو گیا۔ مختلف ممالک سے آپ کے عقیدت مند، مریدین و متوسلین جوق در جوق اپنے اس عظیم روحانی رہِ نما کے آخری دیدار کے لیے بریلی جمع ہونے لگے۔ 15؍ محرم ا لحرام 1402ھ بروز جمعہ صبح تقریباً نو بجے آپ کے جسدِ خاکی کو غسل دیا گیا۔ صبح تقریباً دس بجے جنازۂ مبارک لاکھوں عشاق کی اشک بار آنکھوں سے خراجِ عقیدت و محبت وصول کرتا ہوا کلمۂ طیبہ اور درود و سلام کی پُر کیف و روحانی گونج میں کاشانۂ اقدس سے بر آمد ہوا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ہر دل تڑپ رہا تھا۔ ہر آنکھ برس رہی تھی۔ ہر فرد مغموم تھا گویا انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا جو اپنے اس عظیم محسن کو آخری آرام گاہ تک پہنچا نے کے لیے بریلی میں امنڈ آیا تھا۔ تقریباً دوپہر سوا تین بجے نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ جس کی امامت پیر طریقت مولاناسید مختار اشرف اشرفی الجیلانی الملقب بہ سرکار کلاں کچھوچھوی نے کی۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق نمازِ جنازہ میں تقریباً پانچ لاکھ اور جلوسِ جنازہ میں تقریباً بیس لاکھ مسلمانوں نے شرکت کی۔ حکومتِ وقت کے وزرا اور بیرونِ ملک کے سفرا و مشاہیر بھی بریلی حاضر ہوئے۔ تقریباً ہر زبان کے ملکی و بین الاقوامی اخبارات و رسائل نے حضرت نوریؔ بریلوی کے وصالِ پُر ملال پر تعزیتی پیغامات شائع کیے۔ (11)
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کے مریدین ہندوستان، پاکستان کے علاوہ حجازِ مقدس، مصر، عراق، برطانیہ، افریقہ، امریکہ، ترکی، افغانستان، بنگلہ دیش، وغیرہ ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے علما، فضلا اور دانش وروں نے آپ سے شرف بیعت حاصل کیا۔ آپ کے مریدین کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے، روایتوں میں آتا ہے کہ بیش تر جن بھی آپ سے بیعت تھے۔ آپ کی علمی و ادبی اور سیاسی و تدریسی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ جس کی تفصیل کے لیے ایک دفتر درکار ہے۔ اگلے صفحات پر آپ کی خدمات پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔
(1)ماہ نامہ اعلیٰ حضرت :مفتیِ اعظم نمبر، ستمبر، نومبر 1990ء، ص14/15
(2)پندرہ روزہ رفاقت: پٹنہ ج 1، ش 5، 1؍ فروری 1982ئ، ص 6
]نوٹ :مفتیِ اعظم قدس سرہٗ کی تاریخ ولادت سے متعلق مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : ’’ تاریخ ولادت بعض سوانح نگاروں نے 25؍ جمادی الاولیٰ 1310ھ لکھا ہے یہ صحیح نہیں ہے، خود حضرت مفتیِ اعظم ہند نے اپنی تاریخ ولادت 22؍ ذی الحجہ 1310ھ بتائی ہے۔ خود حضرت مفتیِ اعظم ہند سے یہ سننے والے آج بھی اتنے موجود ہیں کہ ان سب کو غلط نہیں کہا جا سکتا، ایک شہرت یہ ہے کہ مفتیِ اعظم کا تاریخی نام ’’محمد‘‘ ہے۔ اس طرح کہ سالِ ولادت 1892ء ہے، اور بہ حذفِ صدی 92 کا عدد آتا ہے۔ مگر قواعد اس کی تائید نہیں کرتے۔ سنہ ہجری و عیسوی میں تطابق کے جتنے قاعدے ہیں کسی قاعدے سے تطابق نہیں ہوتا۔ ہر قاعدے سے سالِ عیسوی 1893ء آتا ہے۔ نہ معلوم کیسے اسے شہرت ہو گئی۔ بہ ہرحال! 1892ء درست نہیں۔ اس کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ الملفوظ میں اَعلا حضرت کا یہ ارشاد تو مذکور ہے کہ میرے بڑے بیٹے حامد رضا کا تاریخی نام ’’محمد‘‘ ہے، ان کا سالِ ولادت 1292ھ ہے ۔۔۔مقام اس کا مقتضی تھاکہ اگر واقعۃً حضرت مفتیِ اعظم کا نام نامی ’’محمد‘‘ بھی تاریخی ہوتا تو اس کا تذکرہ بھی ضرور فرماتے خصوصاً جب کہ وہی جامعِ ملفوظات ہیں۔ ‘‘[۔۔(شریف الحق امجدی، مفتی: مقالہ مفتیِ اعظم اپنے فضل و کمال کے آئینے میں، مشمولہ: انوارِ مفتیِ اعظم، رضا اکیڈمی، ممبئی، اکتوبر 1992ء، ص 275 )۔۔ ( علاوہ ازیں کمپیوٹر سافٹ ویئر Hijri Gregorian Converterسے بھی 22؍ ذی الحجہ 1310ھ کی عیسوی تاریخ 7؍ جولائی 1893ء بر آمد ہوتی ہے، مُشاہدؔ )
(3) شاہد علی رضوی، سید، مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا، رضا اکیڈمی، ممبئی، ج1 ص 20
(4) شاہد علی رضوی، سید، مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا، رضا اکیڈمی، ممبئی، ج1 ص 22/23
(5) شاہد علی رضوی، سید، مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا، رضا اکیڈمی، ممبئی، ج1 ص 25
(6) محمد جلال الدین قادری:محدث اعظم پاکستان، مکتبۂ نبویہ، لاہور، ج۱ ص67
(7)مرزا عبدالوحید بیگ بریلوی: حیاتِ مفتیِ اعظم کی ایک جھلک، مطبوعہ بریلی، ص 6
(8) شاہد علی رضوی، سید، مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا، رضا اکیڈمی، ممبئی، ج1 ص 31/32
(9)شریف الحق امجدی، مفتی: مقالہ مفتیِ اعظم اپنے فضل و کمال کے آئینے میں، مشمولہ: انوارِ مفتیِ اعظم، رضا اکیڈمی، ممبئی، اکتوبر 1992ء، ص 276
(10) شاہد علی رضوی، سید، مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا، رضا اکیڈمی، ممبئی، ج1 ص 17/18
(11)ماہ نامہ اعلیٰ حضرت :مفتی اعظم نمبر، بریلی، ستمبر تا نومبر 1990ء ص49
٭٭٭
علامہ مولانا فضل حق خیرآبادی
مولانا عبدالعلی خاں رام پوری (الریاضی) مولانا عبدالحق خیرآبادی
امام احمد رضا محدث بریلوی مولانا ظہور الحسین رام پوری مولانا سید عبدالعزیز انبیٹھوی
مولانا رحم الٰہی مظفر نگری
حضرت مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی
(قدست اسرارہم)
( شاہد علی رضوی، سید، مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا، رضا اکیڈمی، ممبئی، ج1 ص 33)
حضور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم
حضرت ابو قابوس مولا عبداللہ بن عمرو بن عاص
حضرت سفیان بن عمرو بن دینار
حضرت سفیان بن عینیہ
حضرت عبدالرحمن بن بشیر بن الحکم
حضرت ابو حامد احمد بن محمد بن یحییٰ بن بلال البزار
حضرت ابو طاہر بن محمد بن محمدمحمش الزیادی
حضرت ابو صالح احمد بن عبدالملک الموذن
حضرت ابو سعید اسماعیل بن ابوالصالح احمد بن عبدالملک نیشاپوری
حضرت حافظ ابوالفرج عبدالرحمن بن علی الجوزی
حضرت ابوالفرج عبداللطیف بن عبد المنعم الحرانی
حضرت ابوالفتح محمد بن محمد بن ابراہیم الکبریٰ المیدومی
شیخ شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن احمد التدمیری شیخ زین الدین عبدالرحیم بن الحسین العراقی
شیخ الفضل عبدالرحیم بن حسین العراقی شیخ ابوالفتح محمد بن ابو بکر بن الحسین المراغی
شیخ الشہاب ابوالفضل احمد بن علی العسقلانی ابن حجر شیخ سید ابراہیم التازی
شیخ شمس الدین سخاوی القاہری شیخ احمد حجی الوہرانی
شیخ وجیہ الدین عبدالرحمن بن ابراہیم علوی شیخ سعید بن محمد المقرّی
شیخ محمد افلح الیمنی شیخ سعید بن ابراہیم الحزائری قدورہ
شیخ عبدالوہاب بن فتح اللہ بروجی شیخ یحییٰ بن محمد شاوی
(یکے از فقرائے سید عبدالوہاب المتقی) شیخ عبداللہ بن سالم البصری
شیخ سید عمر
شیخ عبدالحق محدث دہلوی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
شیخ ابولرضا بن اسماعیل دہلوی(نواسۂ شیخ محقق ) شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی
سید مبارک فخرالدین بلگرامی سید آل رسول احمدی مارہروی
سید شاہ حمزہ بن سید آل محمد بلگرامی حسنی الواسطی
سید آل احمد اچھے میاں مارہروی
سید آل رسول احمد ی مارہروی
امام احمد رضا محدث بریلوی
مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی (قدست اسرارہم)
( شاہد علی رضوی، سید، مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا، رضا اکیڈمی، ممبئی، ج1 ص 35/36)
(یہ سندِ حدیث بہت عالی ہے)
حضور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے لے کر شیخ الشہاب ابوالفضل احمد بن حجر العسقلانی تک وہی سند ہے جو ماقبل سند گذری۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد سند یوں ہے :
شیخ الاسلام اشرف زکریا بن محمد الانصاری
شیخ ابوالخیر بن عموس الرشیدی
شیخ محمد بن عبدالعزیز
شیخ احمد بن محمد الدمیاطی المعروف ابن عبدالغنی
شیخ مولانا احمد حسن الصوفی مرادآبادی
سید شاہ ابوالحسین احمد النوری مارہروی
امام احمد رضا محدث بریلوی
مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی
(قدست اسرارہم)
( شاہد علی رضوی، سید، مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا، رضا اکیڈمی، ممبئی، ج1 ص 37)
اس سند کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے تمام تر اساتذۂ کرام و مشائخِ ذوی الاحترام حنفی المسلک ہیں ۔۔۔۔۔اس نقشۂ سندِ فقۂ حنفی کو ’’العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ جلد اول ص ۵‘‘ سے نقل کیا جا رہا ہے، نشانِ خاطر فرمائیں :
النبی الکریم الامین علیہ الصلاۃ والسلام
حضرت عبداللہ بن مسعود
حضرت علقمہ حضرت الاسود
حضرت ابراہیم
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ
حضرت ابو عبداللہ محمد بن الحسن الشیبانی
حضرت احمد بن حفص (الشہیر ابو حفص الکبیر)
شیخ ابو عبداللہ السبند مونی
شیخ ابو بکر محمد بن الفضل البخاری
شیخ القاضی ابو علی النسفی
امام شمس الائمۃ الحلوانی
امام فخر الاسلام البزودی
امام برہان الدین (صاحب الہدایہ)
امام عبدالستار بن محمد الکردری
شیخ جلال الدین الکبیر
شیخ عبدالعزیز البخاری
شیخ جلال الدین الخبازی
شیخ علاوالدین السیرانی
شیخ السراج قاری الہدایہ
شیخ الکمال بن الہمام (ساحب فتح القدیر)
شیخ سری الدین عبدالبر بن الشحنہ
شیخ احمد بن یونس الشلبی
شیخ محمد بن عبدالرحمن المسیری شیخ عبداللہ النحریری شیخ محمد بن احمد الحموی شیخ احمد المحبیّٰ
شیخ حسن الشرنبلالی شیخ علی المقدسی شیخ الشمس الحانوتی شیخ عمر بن نجیم
(صاحبِ نورالایضاح وغیرہ)
شیخ احمد شوبری
شیخ اسماعیل بن عبدالغنی النابلسی (ساحب شرح الدرد الغرر)
شیخ عبدالغنی بن اسماعیل بن عبدالغنی النابلسی( صاحب الحدیقۃ الندیۃ وغیرہ)
شیخ اسماعیل بن عبداللہ الشہیر علی زادہ البخاری
شیخ عبدالقادر بن خلیل
شیخ یوسف بن محمد بن علاو الدین المزجاجی
شیخ محمد عابدالانصاری المدنی
شیخ جمال بن عبداللہ بن عمر مفتیِ مکہ
شیخ عبدالرحمن السراج بن شیخ عبداللہ السراج مفتیِ مکہ
امام احمد رضا محدث بریلوی
مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی
(قدست اسرارہم)
( شاہد علی رضوی، سید، مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا، رضا اکیڈمی، ممبئی، ج1 ص 38/39)
٭٭٭
علم اور علما کی قرآن و حدیث میں بہت فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔ دراصل علم سیکھنے اور سکھانے کا عمل ہے۔ علما کو انبیائے کرام علیہم السلام کا وارث بتاتے ہوئے خوف و خشیتِ الٰہی میں ان کو دیگر بندوں پر ممتاز قرار دیا گیا ہے۔ یہ امر مسلمہ ہے کہ انبیائے کرام کی بعثت و نبوت کا بنیادی مقصد اسلام کی ترویج و اشاعت تھا۔ آدم علیہ السلام سے لے کر حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم تک تمام نبیوں اور رسولوں نے اللہ رب العزت کے پیغام کو اس کے بندوں تک پہنچایا۔ نبیِ آخرالزماں مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم پر اللہ رب العزت نے نبوت و رسالت کا خاتمہ فرما دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی تمام تر ذمہ داریاں علمائے امت پر عائد ہو گئیں۔ اور جب بھی اہل اسلام کسی ناگفتہ بہ صورتِ حال سے دو چار ہوئے یا اسلام کے خلاف دشمنانِ اسلام نے سازشیں کیں تو علمائے کرام کی مقدس جماعت نے ان کا جواں مردی سے مقابلہ کرتے ہوئے مذہبِ اسلام کی صحیح تصویر پیش کی۔
ایک سچا اور حق پسند عالمِ دین اپنے افکار و نظریات اور رجحانات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں پرکھتا ہے۔ اس کے اقوال و اعمال اور عقائد کی اساس خلوص و للہیت پر ہوتی ہے۔ اس کا دل و دماغ تجلیاتِ ربانی اور انوارِ محمدی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ وہ کسی کی روٗ رعایت نہیں کرتا۔ اس معاملے میں اس کا طریقۂ کار اس طرح ہوتا ہے کہ وہ اپنوں کے ساتھ ریشم کی طرح نرم و ملائم اور دشمنانِ اسلام کے ساتھ فولاد سے زیادہ سخت بن جاتا ہے گویا حق بات کہنے میں اپنوں اور بے گانوں میں کوئی تفریق مدِ نظر نہیں رکھتا۔ دوستوں کی بے جا طرف داری سے گریزاورسچائی و صداقت کا برملا اظہاراس کا شعار ہوتا ہے۔ اس کی دوستی اور دشمنی دونوں اللہ کے لیے ہوتی ہے۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی شخصیت ان اوصاف سے متصف تھی۔ علم و فضل اور زہد و اتقا کے سبب آپ کو اپنے عہد کے علما میں ممتاز اور نمایاں مقام حاصل رہا۔ آپ نے تمام تر چیزوں کو دینی نقطۂ نگاہ سے دیکھا اور جو چیز مذہب کی روشنی میں ہوتی تھی اس کو قبول کیا اور جو اس کے خلاف ہوتی تھی اس کو ٹھکرا دیا۔ آپ کی زندگی کے شب و روز کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آپ کی جملہ خدمات خواہ وہ علمی ہوں یا ادبی، سیاسی ہوں یا تدریسی ان تمام میں آپ نے مذہبِ اسلام کی ترویج و اشاعت کو مقدم جانا اور اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عشق و محبت کو پیشِ نگاہ رکھا۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی علمی، ادبی، سیاسی اور تدریسی خدمات کا دائرۂ کار وسیع و عریض ہے۔ اس موضوع پر اگر مفصّل قلم اٹھایا جائے تو ایک ضخیم مقالہ سپردِ قرطاس کیا جا سکتا ہے۔ پیشِ نظر مقالہ کا خاص موضوع حضرت نوریؔ بریلوی کی نعتیہ شاعری ہے۔ اس لیے یہاں آپ کی علمی، ادبی، سیاسی اور تدریسی خدمات کا جائزہ اختصاراً پیش کیا جا رہا ہے۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کو مختلف علوم و فنون پر دست رس حاصل تھی۔ آپ کی تصانیف کے مطالعہ کے بعد یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ مختلف علوم و فنون کے ماہر تھے۔ علمِ تفسیر، علمِ حدیث، علمِ فقہ ا ور دیگر علوم و فنون سے متعلق آپ کی خدمات یقیناً لائقِ صد آفریں ہیں۔ چوں کہ علمِ فقہ میں آپ کی خدمات انتہائی وسیع تر ہیں اوراسی کو جملہ خدمات میں ممتاز حیثیت حاصل ہے کہ اسی کے سبب آپ کو ’’مفتیِ اعظم‘‘ جیسے مہتم بالشان لقب سے نوازا گیا۔ چناں چہ اوّلاً اسی کو بیان کیا جاتا ہے۔
فقہ و افتا : افتا کے معنی ہیں فتویٰ دینا۔ فتویٰ شرعی مسائل میں ماہر شریعت کے فیصلے کو کہتے ہیں۔ اور علم فتویٰ کو علم فقہ بھی کہتے ہیں۔ فقہ ایک نہایت عالی اور کامل فن ہے جو آغازِ اسلام ہی میں وجود میں آیا۔ افتا چوں کہ نہایت اہم اور ذمہ داری کا کام ہے۔ اس لیے ابتدائے اسلام سے ہی اس کا ایک مخصوص محکمہ قائم تھا۔ جس کا نام ’’محکمۂ افتا ‘‘ تھا۔ اس محکمہ میں اسلامی قوانین کے ماہرین جنہیں ’’فقیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ تشنگانِ علومِ دینیہ کی طرف سے پوچھے گئے مسائل کے جوابات دیا کرتے تھے۔ فقیہ کو عرف عام میں ’’مفتی ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
امتِ مسلمہ میں علمائے دین کے دو طبقوں نے خاص طور پر اسلام کی خدمت نمایاں طور پر کی ہیں۔ ایک محدثینِ کرام کا طبقہ جس نے احادیثِ نبوی کی روایات اور ان کے بیان و ضبط کا اہتمام فرمایا اور اسناد وغیرہ پر گہری نظر رکھی۔ دوسرا فقہا(مفتیان کرام) کا طبقہ جس نے قرآنی آیات اور احادیثِ نبوی سے مسائل و احکام کا استنباط و استخراج کیا اور الفاظِ حدیث سے زیادہ معانیِ حدیث اور اس سلسلہ کے اصول و قواعد پر ان کی نظر مرکوز رہی۔ مفتیان کرام کا تعلق اسی دوسرے طبقہ سے ہے۔
تیرہویں صدی ہجری میں مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کے جدِ امجد امام العلماء مفتی رضا علی خاں بریلوی (م1282ھ/1865ء)نے 1246ھ/1831ء میں بریلی میں مسندِ افتا کی بنیاد رکھی اور1282ھ/1865ء تک فتویٰ نویسی کا گراں قدر کام انجام دیا۔ آپ کے بعد آپ کے فرزند مولانا نقی علی بریلوی نے 1297ھ تک اپنے والدِ ماجد کی جگہ فتویٰ نویسی کا کام بہ حسن و خوبی انجام دیا اور مولانانقی علی بریلوی نے اپنے والدِ گرامی کی طرح اپنے تمام صاحب زادوں کو زیورِ علم سے آراستہ کیا اور ان میں امام احمد رضا محدثِ بریلوی کو خصوصی طور پر علمِ فقہ سے بہرہ ور فرما کر فتویٰ نویسی کے لیے متعین کیا۔ 1293ھ/1876ء کو مولانا نقی علی نے امام احمد رضاکو فتویٰ نویسی کی کُلی طور پر اجازت دی، امام احمد رضا بریلوی نے 1297ھ/1880ء سے 1340ھ/1921ء تک مسلسل فتویٰ نویسی کی خدمات انجام دیں۔ آپ پوری دنیا کے مسلمانوں کے مرجع تھے۔ ایساماناجاتا ہے کہ آپ کے دار الافتاء میں برِّ اعظم ایشیائ، یورپ، امریکہ، افریقہ سے استفتا وارد ہوتے تھے اور ایک ایک وقت میں پانچ پانچ سو سوالات جمع ہو جایا کرتے تھے اور آپ تمام کا شافی و کافی جواب عنایت فرماتے تھے۔ امام احمد رضا محدثِ بریلوی نے بھی اپنے آبا و اجداد کی طرح اپنے صاحب زادوں کو فتویٰ نویسی کی خصوصی تربیت دی، حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا بریلوی اور مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی دونوں ہی اپنے وقت کے ممتاز فقیہ کہلائے۔ آج بھی خانوادۂ رضویہ میں فتویٰ نویسی کا کام بہ حسن و خوبی انجام دیا جا رہا ہے۔ جانشینِ مفتیِ اعظم علامہ مفتی محمد اختر رضا قادری برکاتی ازہری بریلوی زیبِ مسندِ افتا و ارشاد ہیں۔
جیسا کہ بیان کیا جاچکا ہے کہ فتویٰ نویسی حضرت نوریؔ بریلوی کے خانوادے کا طرۂ امتیاز تھا۔ آپ اس فن کے امام کہے جاتے ہیں۔ آپ کے زمانے میں آپ جیسا تفقہ کسی اور کو حاصل نہیں ہوا۔ آپ کی ذات مرجع علما و خواص رہی۔ آپ کی اصابتِ رائے اور فکری گیرائی وگہرائی کی مثال ملنی مشکل ہے۔ مختلف مسائل پر آپ کے فتاوے ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ جس کے کچھ نمونے ’’فتاویٰ مصطفویہ‘‘ کی شکل میں منظر عام پر آ چکے ہیں۔ جو علوم و معارف کے گہر ہائے آب دار کہلاتے ہیں۔ آپ کی فتویٰ نویسی کی ابتدا کے بارے میں مولانا محمود احمد قادری مظفر پوری لکھتے ہیں :
’’مولانا ظفرالدین (بہاری) ومولاناسیدعبدالرشید (عظیم آبادی) دارالافتاء میں کام کر رہے تھے ایک دن آپ دارالافتاء پہنچے مولانا ظفرالدین فتویٰ لکھ رہے تھے، مراجع کے لیے اُٹھ کر فتاویٰ رضویہ الماری سے نکالنے لگے حضرت (نوریؔ بریلوی) نے فرمایا، نو عمری کا زمانہ تھا، میں نے کہا! فتاویٰ رضویہ دیکھ کر جواب لکھتے ہو ؟ مولانا نے فرمایا، اچھا! تم بغیر دیکھے لکھ دو تو جانوں، میں نے فوراً لکھ دیا، وہ رضاعت کامسئلہ تھا۔ یہ پہلا جواب تھا آپ کا یہ واقعہ 1328ھ کاہے، اصلاح کے لیے اعلا حضرت کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ صحت جواب پر امام اہل سنت بہت خوش ہوئے اور ’’صحیح الجواب بعون اﷲ العزیزالوہاب ‘‘ لکھ کر دستخط ثبت فرمایا۔ اور ’’ابوالبرکات محی الدین جیلانی آل الرحمن عرف مصطفیٰ رضا‘‘ کی مہر مولانا یقین الدین سے بنوا کر عطا فرمائی۔ ‘‘ (1)
بلاشبہ اسے فیضانِ نظر ہی کہا جا سکتا ہے کہ18؍ برس کی عمر میں بغیر کتاب کی مدد اور مشاہدے کے، فقط حافظے کی بنیاد پر قلم برداشتہ جواب لکھ دینا یقیناً قابلِ تحسین ہے۔ چناں چہ یہ حُسنِ تربیت کا فیضان ہی تھا ورنہ مکتب کی کرامت میں یہ بات کہاں ؟ اور یہ بھی عجیب حسنِ اتفاق ہے کہ امام احمد رضامحدثِ بریلوی کے قلم سے جو پہلا فتویٰ صادر ہوا تو وہ بھی رضاعت ہی کا تھا اور جب ان کے فرزندِ سعید نے قلم اٹھایا تو پہلامسئلہ جو قلم بند کیا وہ بھی مسئلۂ رضاعت ہی تھا۔ 18؍ سال سے فتویٰ نویسی کی ابتدا ہوئی تو پھر تا حیات یہ سلسلۂ خیر جاری رہا اور آپ کا یہی وہ نمایاں فن تھا، جس میں اس وقت برصغیر میں آپ کی نظیر نہیں۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کے معاصر علمائے کرام آپ کی علمی برتری اور تفوق کے قائل رہے۔ اختلاف کی صورت میں آپ کی جانب رجوع کیا جاتا، جس فتویٰ پر آپ کی مہرِ تصدیق ثبت ہوتی، اس میں کسی کو چوں چرا کی گنجایش نہیں رہتی، آپ کی رائے سند اور قولِ فیصل کا درجہ رکھتی تھی۔ امام احمد رضا محدثِ بریلوی کے بعد اُمتِ مسلمہ جن مسائل سے دوچار ہوئی۔ ان مسائل کو آپ نے جس تحقیقِ انیق سے واضح کرتے ہوئے ان کا حل پیش کیا وہ آپ کی اعلا ترین اجتہادی صلاحیتوں اور فقہی بصیرتوں پر دلالت کرتے ہیں۔ ذیل میں چند مثالیں نشانِ خاطر ہوں :
(1) انجکشن سے روزہ ٹوٹنے نہ ٹوٹنے کا مسئلہ
روزہ رہتے ہوئے انجکشن لگانے سے روزہ ٹوٹنے نہ ٹوٹنے کامسئلہ جب پہلی بار مفتیانِ کرام کے سامنے آیا تو بیش تر حضرات متردّد رہے کچھ نے انجکشن لگوانے پر روزہ فاسد ہو جانے کا حکم دیاتو کچھ نے کہا گوشت میں انجکشن لگوانے سے روزہ فاسد نہیں ہو گا، ہاں ! رگ میں لگوانے سے روزہ فاسدہو جائے گا کیوں کہ دوائیں گوشت سے معدہ تک پہونچتی ہیں وغیرہ۔ لیکن حضرت نوریؔ بریلوی نے کہا کہ :
’’انجکشن گوشت میں لگوایا جائے یا رگ میں کسی صورت میں اس کی دوائیں معدہ تک منفذ کے ذریعے نہیں پہونچتی ہیں بل کہ مسامات کے ذریعہ پہونچتی ہیں، اس لیے روزہ فاسد نہیں ہو گا‘‘(2)ملخصاً
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی نے فقہ کے ضابطے سے کہ ’’اگر کوئی بیرونی چیز بغیر منفذ کے معدہ تک پہونچے تو روزہ فاسد نہیں ہو گا‘‘۔ روزہ کی حالت میں انجکشن لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، اس کی وضاحت فرمائی نیز آپ نے اس میں طبی نقطۂ نظر کو ملحوظ رکھا اور پھر فتویٰ صادر کیا، اور ملتِ اسلامیہ کی صحیح رہِ نمائی فرمائی۔
(2) چاند پر انسان کا پہنچنا
جب چاند پر پہلا قدم رکھنے کے لیے روس اور امریکہ ایک دوسرے پر سبقت اور اوّلیت لے جانے کی جدو جہد اور تگ و دو میں مصروف تھے تو چاند کو خدائی کا درجہ دینے والوں اور اس کی عبادت و پرستش کرنے والوں کے ساتھ ساتھ بعض مفتیانِ کرام بھی اسے روس اور امریکہ کا جنون اور بکواس قرار دے رہے تھے ان کا استدلال تھا کہ :
’’چاند پر پہنچنے میں کامیاب ہونے کا خیال اسلامی اصول کے خلاف ہے۔ ‘‘
بیش تر علمائے کرام گومگو کی کیفیت سے دوچار خاموش تھے لیکن مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی نے کہا کہ :
’’جب چاند کی طرف نگاہ اُٹھائی جاتی ہے تو وہ آسمان کے نیچے دکھائی دیتا ہے۔ صحابیِ رسول رئیس المفسرین حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفسیر کے مطابق سورج چاند اور ستارے سبھی زمین وآسمان کے درمیان مسخّر ہیں جیسا کہ تفسیرِ مدارک میں ہے۔
عن ابن عباس ان الشمس والقمر والنجوم کلہا مسخرات بین السماء والارض۔۔الغرض مشاہدہ اور روایات دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ چاند آسمان کے نیچے ہے اور جب چاند آسمان کے نیچے ہے تو چاند پر پہنچنے سے آسمان پر پہنچنا کہاں لازم آتا ہے کہ چاند پر پہنچنا ممکن ہے اور اگر کسی مشینی ذریعہ سے انسان چاند پر پہنچ جائے تو اس سے اسلام کا کوئی اصول مجروح نہیں ہو گا۔ ‘‘(3)
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کے اس فتویٰ سے جہاں آپ کی مجتہدانہ صلاحیت و قابلیت کا اظہار ہوتا ہے وہیں تفاسیر پر آپ کی وسعتِ نظری اور اسلامی اصولوں سے مکمل واقفیت و آگاہی کا اندازہ بھی لگتا ہے۔
(3)29 ؍ تاریخ کو ہوائی جہاز سے چاند دیکھے جا نے کا مسئلہ
جنرل محمد ایوب خاں کے دورِ صدارت میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے علما کی شمولیت میں رویتِ ہلال کمیٹی قائم کی گئی اور سطح زمین سے چاند نہ دیکھے جانے کی صورت میں ہوائی جہاز سے چاند دیکھنے کی کوشش کرنا طے پایا۔ چوں کہ یہ مسئلہ فقہ کی کتابوں میں موجود نہیں تھا اس لیے دنیائے اسلام کے بڑے بڑے مفتیانِ کرام سے فتویٰ طلب کیا گیا تمام مفتیانِ کرام نے ہوائی جہازسے 29؍کا چاند دیکھے جانے پر روزہ اور عید کرنا جائز قرار دیا مگرمفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی نے فرمایا :
’’چاند سطحِ زمین سے دیکھ کر روزہ رکھنے اور عید کرنے کا حکم ہے جہاں چاند نظر نہ آئے وہاں قاضیِ شرع شرعی ثبوت پر روزہ و عید کا حکم دیں گے۔ سطح زمین یا وہ جگہ جو سطح زمین سے ملی ہوئی ہو وہاں سے چاند دیکھا جائے تو معتبر ہے، جہاز سے چاند دیکھا جانا معتبر نہیں۔ چاند نگاہوں سے پوشیدہ ہو جاتا ہے فنا نہیں ہو جاتا۔ اس لیے مزید بلندی پہ جایا جائے تو انتیس کے بجائے اٹھائیس کو بھی نظر آسکتا ہے اب اگر کوئی ہوائی جہاز سے اٹھائیس ہی کو چاند نظر آ جائے تو روزہ وعید کا حکم دیا جائے گا؟‘‘
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کا فتویٰ صادر فرمانا تھا کہ پاکستان کے تمام اخباروں نے جلی سُرخیوں کے ساتھ شائع کیا۔ حکومت نے 28؍تاریخ کو ہوئی جہاز اڑا کر اس کی تصدیق کرنا چاہی تو واقعی کافی بلندی پر جانے سے چاند نظر آ گیا۔ جس سے آپ کے فتویٰ کی صداقت کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ ہوا اور حکومتِ پاکستان نے ہوائی جہاز کے ذریعہ چاند دیکھنے کی کوشش ترک کر دی۔ (4)
ان فتووں کے علاوہ تصویر کھنچوانے کے جواز و عدم جواز، نیز لاؤ ڈ اسپیکر پر نماز ادا ہونے نہ ہونے سے متعلق اور دیگر سلگتے ہوئے مسائلِ جدیدہ میں آپ نے جس انداز سے تحقیق و تدقیق فرما کر مسئلہ کی صحیح صورت حال کو واضح کر کے حکم صادر فرمایا ہے ان سے آپ کی اعلا ترین اجتہادی صلاحیتوں، فقہی مہارتوں اور علمِ فقہ پر غیور مطالعے اور گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی اعلا فقہی بصیرت کو دیکھتے ہوئے، امام احمد رضا محدثِ بریلوی کے ساتویں عرس منعقدہ 25؍صفر المظفر 1347ھ اگست 1928ء کے عظیم الشان اجلاس میں حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا بریلوی (برادرِ اکبر)سمیت غیر منقسم ہندوستان کے بڑے بڑے مفتیانِ کرام، علمائے عظام اور مشاہیر قوم کی موجود گی میں آپ کو ’’مفتیِ اعظم‘‘ کہاگیا اور حضرت حجۃ الاسلام کے حکم سے منظور شدہ تجویزوں میں سے تجویز نمبر 3 میں آپ کو ’’صد رالعلما‘‘ اور ’’مفتیِ اعظم ‘‘ کا لفظ لکھا گیا۔ (5)
اسی طرح آل انڈیا سنی کانفرنس منعقدہ 27تا 30 ؍اپریل 1946ء بہ مقام بنارس کے تاریخ ساز اجلاس جس میں غیر منقسم ہندوستان کے پانچ سو مشائخِ عظام سات ہزار مفتیانِ کرام اور علمائے فخام شریک تھے اس میں آپ کو بار بار ’’ مفتیِ اعظم‘‘ کے لقب سے یاد کیا گیا اور اس کی مختلف تجویزوں میں ’’مفتیِ اعظم‘‘ لکھا گیا۔ (6)تب سے حضرت نوریؔ بریلوی کو دنیائے اہل سنت عقیدت و احترام کے ساتھ’’ مفتیِ اعظم‘‘ کے معزز لقب سے یاد کرتی ہے، یہاں تک کہ جب کوئی ’’مفتیِ اعظم‘‘ کہتا ہے تو اس سے شہزادۂ اعلا حضرت علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی ہی مراد لیے جاتے ہیں۔
ایک کامیاب فقیہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ کامیاب مفسر بھی ہو، آشنائے رموزِ قرآنی اور مستندتفاسیر پر گہری نظر رکھتا ہو۔ کیوں کہ فتویٰ نویسی کے دوران مسائل کے استخراج اور استنباط اور استفتا کے جوابات میں بار بار قرآنی آیات اور احادیثِ نبویہ کا سہارا لینا پڑتا ہے، مسئلہ کی مکمل توضیح و تشریح کے لیے قرآنی آیات کی تشریح و تفسیر کرنا پڑتی ہے۔ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی نہ صرف یہ کہ کامیاب مفتی تھے بل کہ علمائے کرام اور مفتیانِ شرعِ متین کی کثیر جماعت نے آپ کو ’’مفتیِ اعظم‘‘ کے لقب سے نوازا تھا ، بہ ایں طور دیکھا جائے تو مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کا مفسر ہونا یقینی ہے۔ چناں چہ آ پ کی تصنیفات و تالیفات اور حواشی نیز فتاویٰ مصطفویہ کی مجلدات کا مطالعہ کرنے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ آ پ علوم قرآنیہ میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے نیز مستند تفاسیر پر آپ کی گہری نظر تھی اور آپ نے تفسیری حواشی بھی تحریر کیے، تفسیرِ احمدی پر آپ کا حاشیہ رضوی دارالافتاء بریلی شریف کے کتب خانہ میں موجود ہے۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی علمِ تفسیر پر دقتِ نظر کا اجمالاً مطالعہ کرتے ہیں۔ آپ کی بارگاہ میں سوال آیا :
’’ زید کا قول ہے کہ شراب تھوڑی پئیں کہ حدِ سکر کو نہ پہنچے امام شافعی کے نزدیک اس کا پینا جائز و حلال ہے یہ صحیح ہے یا نہیں اگر نہیں تو مع حوالۂ کتب جواب عنایت ہو۔ ‘‘
اس پر آپ نے ارشاد فرمایا:
’’زید کا قول حضرت امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر افترا ہے اوس پر پہلی آن میں اپنی اس افترا سے توبہ اور رجوع لازم اوس نے اوس جلیل الشان رکنِ دین امامِ مسلمین پر افترا کیا لا حول ولاقوۃ ۔۔الخ ۔۔شراب پیشاب کی طرح عین نجاست ہے ‘‘۔ اس کے بعد آیتِ کریمہ یا ایہا الذین اٰمنوا انما الخمر والمیسر والانصاب ۔۔الخ ۔۔کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ: ’’ اور جس پلیدی محرم العین، جس کے دماغ میں عقل کا چراغ کچھ بھی روشنی دے رہا ہو وہ بھی یہ نہ کہے گا کہ کسی پلیدی کا کوئی قلیل حصہ حلال ہے کثیر حرام ہے بل کہ جو شَے عین نجاست ہو نجاست کا کوئی ذرہ یا کوئی قطرہ پڑ جانے سے پاک شَے ناپاک ہو گئی جب تک وہ ناپاک رہی اوس وقت تک کوئی صحیح دماغ والا انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کا کثیر حرام، قلیل حلال ہے شراب حرامِ قطعی ہے اوس کی حرمت کتاب و سنت اور امامِ امت سب سے ثابت۔ ‘‘ملخصاً (7)
اس کے بعد تفسیراتِ احمدیہ ص243کی عبارت پیش کر کے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں کہا کہ زید کا قول حضرت امام پر نری تہمت ہے اس لیے اس پر توبہ لازم ہے۔
اس حوالے سے آپ کی علم قرآن اور تفسیر پر دقتِ نظر کا برملا اظہار ہوتا ہے۔
ایک سوال ’’ایسٹرن ٹائمز ‘‘ لاہور سے1354ھ میں آیا :
’’قرآن کریم اور احادیث مبارکہ وغیرہم سے یہ امر ثابت فرما دیجیے کہ تلوار رکھنا مسلم کے لیے ضروری ہے ایک انگریز اخبار نے چھاپا ہے کہ تلوار رکھنا مسلمانوں کا مذہبی شعار نہیں لفظ ’تلوار‘ صاف صاف آنا چاہیے۔ ‘‘
اس کے جواب میں آیت کریمہ :
’’و ا عد وا لہم ما ا ستطعتم من قوۃ ومن رباط۔۔الخ۔۔ اور آیت کریمہ :’’یا ا یہا ا لذ ین اٰمنوا خذ و ا حذ رکم۔۔ الخ۔۔ کو تحریر فرما کر اس کی روشنی میں واضح کیا کہ مسلمانوں کو حفظِ ما تقدم بہ نیتِ مغلوبیِ اعدائے دین تلوار رکھنا روا ہے، اور پھر اس کی توضیحِ مزید میں تفسیراتِ احمدیہ کے حوالے دے کر مسئلہ روشن و صاف کیا ہے۔ ‘‘ (8)
اسی طرح ایک مسئلہ رائے بریلی سے 25؍ محرم الحرام 1358ھ کو آیا جسے ملخصاً پیش کیا جا رہا ہے ۔۔سوال یوں تھا کہ :
’’جن عورتوں کو حیض و نفاس ہو تا ہے جب تک وہ پاک نہیں ہوتیں تب تک بعض بعض شخص ان کے ہاتھ کا کھانا اور ان کے ہاتھ کا چھوا پانی کھانے پینے سے اعتراض کرتے ہیں کیا ایساہی حکم شریعت میں ہے۔ ‘‘
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی نے ارشاد فرمایا:
’’جو لوگ ایسا کرتے ہیں ناجائز و گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور مشرکین کی پیروی کرتے ہیں بہ حالتِ حیض و نفاس صرف شرم گاہ سے استمناع ناجائز ہے، مشرکین کی طرح ایسی عورت کو بھنگن سے بھی بد تر سمجھنا بہت ناپاک خیال ‘‘۔
اس کے بعد تفسیراتِ احمدیہ کی طویل عبارت نقل کرتے ہوئے مسئلہ کو واضح کیا ہے اور یوں ارشاد فرمایا ہے کہ :
’’مسلمانوں پر لازم ہے کہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں انھیں سمجھائیں اور یہود و مجوس و ہنود و عنود کی اس ناجائز موذی رسم کی پیروی سے روکیں اگر وہ جہالت پر جمیں اپنی ہٹ پر اَڑیں ضد پر رہیں ان سے برادرانہ تعلقات چھوڑیں یہاں تک کہ وہ توبہ کریں۔ واللہ تعالیٰ اعلم (9)
یوں تو علمِ قرآن و تفسیر کے حوالے سے مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی تصانیف اور فتووں سے درجنوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ یہاں اختصاراً صرف تین ہی مثال پر اکتفاکیاگیاہے۔ آپ کی تصانیف میں تفسیر مدارک، معالم التنزیل، ابن کثیر، نیشاپوری، خازن، کبیر، لباب التاویل، ابن جریر، بیضاوی، صاوی، روح البیان، جلالین، احمدیہ، عزیزی، مظہری وغیرہ کتبِ تفاسیر کے حوالے بہ کثرت ملتے ہیں اس سے آپ کی مستند تفاسیر پر ژرف نگاہی کا ثبوت ملتا ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کامیاب مفتی و فقیہ کے لیے جس طرح علومِ قرآنی کا ماہر ہونا لازمی ہے۔ اسی طرح اسے محدث اور حدیث داں ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ محدث کے لیے مفتی اور فقیہ ہونا ضروری نہیں۔ اس بات کو اگر ذہن نشین رکھا جائے اور علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی المعروف بہ مفتیِ اعظم کی حدیث دانی اور فنِ حدیث میں آپ کے رسوخ اور تبحر کو نہ بھی بیان کیا جائے تب بھی یہ بات اپنی جگہ پر ثابت ہوتی ہے کہ جس طرح فقہ میں آپ کا مقام و منصب انتہائی اعلا ہے اسی طرح فنِ حدیث میں بھی آپ کا مقام و مرتبہ بلند و بالا ہے۔
ایک کامیاب مفتی کو فتویٰ نویسی کے دوران سائلین کے جوابات کے دوران جہاں آیاتِ قرآنیہ اور تفاسیر کے حوالے دینے پڑتے ہیں وہیں اپنے موقف کی وضاحت و صراحت کے لیے قدم قدم پر احادیثِ نبویہ علیٰ صاحبہا الصلاۃ والتسلیم کا سہارا بھی لینا ہوتا ہے۔
اس تناظر میں اگر مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی تصنیفات و تالیفات، حواشی اور فتاویِٰ مصطفویہ کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ جہاں آپ اپنے عہد میں مفتیِ اعظم تھے وہیں محدثِ اعظم کے منصب پر فائز رہنے کے بھی حق دار ہیں۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی تصنیفات، تالیفات اور فتاویٰ کے مطالعہ سے یہ واضح ہو تا ہے کہ ان میں احادیث و آثار کی ایک حسین و جمیل دنیا آباد ہے۔ چناں چہ آپ کی محدثانہ بصیرت پر خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے عصرِ حاضر کے مشہور و معروف استاذِ حدیث مولانا محمد عیسیٰ رضوی قادری تحریر فرماتے ہیں :
’’حضور مفتیِ اعظم کے بعض فتاوے دیکھ کر علمِ حدیث پر ان کی معلومات و وسعتِ نظر کا اعتراف و اقرار کرنا پڑتا ہے اور اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جس طرح فقہ کی باریکیوں پر آپ کی نظر گہری تھی، اسی طرح علمِ حدیث کے آداب و اصول سے بھی آپ کلی طور پر واقف و آگاہ تھے۔ ‘‘
(مفتیِ اعظم اور علمِ حدیث :مولانا محمد عیسیٰ رضوی قادری: مشمولہ جہانِ مفتیِ اعظم :رضا اکیڈمی، ممبئی، ص593/594)
اسی طرح مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی مسئلۂ اذانِ ثانی پر مشہورِ زمانہ تصنیف ’’وقایۃ اہل السنۃ ‘‘ کا مکمل تجزیہ کرنے کے بعد ممتا ز عالمِ دین رئیس القلم علامہ ارشد القادری علیہ الرحمۃ نے آپ کے محدثانہ مقام و منصب اور آپ کی فنِ حدیث میں گیرائی اور گہرائی پر یوں اظہارِ خیال کیا ہے :
’’فنِ حدیث میں حضور مفتیِ اعظم کے رسوخ و تبحر کو سمجھنے کے لیے وقایۃ اہل السنۃ کے اتنے اقتباسات ہی کا فی ہیں، ورنہ اس دریائے نا پیدا کنار کے تلاطم کا تو یہ حال ہے کہ بحث کے جس نکتے پر قلم اٹھتا ہے مختلف سمتوں میں اتنی دور تک پھیل جاتا ہے کہ اس کا سمٹنا مشکل ہے۔ ابنِ اسحاق کی حدیث پر حضور مفتیِ اعظم نے فنِ حدیث کے ایسے ایسے علمی ذخائر اور نوادر کا انبار لگا دیا ہے کہ عقل حیران ہے کہ ہم کس کس رُخ سے اس جلوے کا تماشا دیکھیں اور اس چمکتے ہوئے نگار خانے میں کس کس گوہرِ تاب دار کی نشاندہی کریں ۔۔ حضور مفتیِ اعظم کو اب تک اپنے وقت کے عظیم فقیہِ اعظم اور مجتہدانہ بصیرت رکھنے والے ایک فقید المثال اور وحید ا لعصر کشورِ افتا کی حیثیت سے جانتے تھے، لیکن وقایۃ اہل السنۃ کے مطالعہ کے بعد ہر انصاف پسند کو یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ وہ صرف مفتیِ اعظم نہیں تھے بل کہ وہ اپنے دور میں فنِ حدیث کے امامِ اعظم تھے۔ ‘‘
(مفتیِ اعظم کا محدثانہ منصب:علامہ ارشد القادری:مشمولہ :جہانِ مفتیِ اعظم:رضا اکیڈمی، ممبئی، ص568)
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی فتویٰ نویسی میں طرزِ استدلال بھی اپنے اندر انفرادیت اور جامعیت کا درجہ رکھتا ہے۔ استدلال کے طور پر آپ پہلے آیاتِ قرآنیہ، پھر احادیثِ نبویہ علیٰ صاحبہا الصلاۃ والتسلیم، پھر کتبِ فقہ کی عبارات و نصوص، پھر اقوالِ ائمہ و علما پیش کرتے ہیں۔ یقیناً ایسا وہی شخص کر سکتا ہے جو علومِ اسلامیہ کا ماہر و فاضل ہو اور ان علوم و فنون پر جس کی فکر سلیم ہو اور غیورن ظر ہو۔ فتاوائے مصطفویہ اور آپ کی دوسری تصنیفات و تالیفات کے مطالعہ و مشاہدہ سے یہ واضح ہو تا ہے کہ آپ نے درج ذیل کتبِ احادیث اور کتبِ شروحِ احادیث کو زیرِ مطالعہ رکھا ہے اور ان کتب کے حوالے آپ کی تحریرات میں بہ کثرت ملتے ہیں۔ مثلاً :
’’بخاری، مسلم، ابوداود، ترمذی، نسائی، ابنِ ماجہ، خصائصِ نسائی، مشکوٰۃ، مرقات شرحِ مشکوٰۃ، اشعۃ اللمعات، مسند امامِ اعظم، موطا امام محمد، موطا امام مالک، کتاب الآثار، کتاب الخراج، شرح معانی الآثار، مسند امام شافعی، مسند امام محمد، سنن دارمی، بیہقی، مسند امام احمد بن حنبل، کنز العمال، مقدمۂ اصولِ حدیث، مختار الاحادیث، حصن حصین، طبرانی، مستدرک، معجم الکبیر، جامع کبیر، جامع صغیر، کتاب الترغیب، خصائص کبریٰ، صحیح البہاری، عینی شرح بخاری، فتح الباری شرح بخاری، دار قطنی، شرح السنۃ وغیرہ‘‘۔
چناں چہ جس فقیہ کے فتاویٰ اور تصانیف میں اس قدر کثرتِ تعداد کے ساتھ کتبِ احادیث کے حوالے ملتے ہوں وہ فقیہ ہونے ساتھ ساتھ بجا طور پر ایک با خبر حدیث داں اور محدث کہلانے کا واجب طور پرمستحق ہے۔ اسی طرح آپ کے مجموعہ فتاویٰ ’’فتاویٰ مصطفویہ‘‘ جوکہ644؍ صفحات پر مشتمل ہے، اس میں 375؍ مسائل ہیں مگر ان میں احادیث کی کل تعداد 357؍ تک ہے۔ اس میں دیگر مفتیان کے مقابلہ میں مسائل کی تعداد کی نسبت سے احادیث کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ آپ نے ایک ایک سوال کے جواب کو دلائل و براہین سے مزین و آراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ آیاتِ قرآنیہ کے بعد کہیں 38؍ احادیث، کہیں 25؍ احادیث، کہیں 20؍ احادیث، کہیں 15؍ احادیث تو کہیں 10؍ 10؍ احادیث بھی پیش فرمائی ہیں بل کہ بعض فتاوے تو ایسے بھی ہیں جن میں آپ نے درجنوں احادیث سے استدلال کیا ہے اس سے آپ کے محدثانہ مقام و منصب اور علمِ حدیث میں وسعتِ نظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
آخر میں مثال کے طور پر ایک استفتا فتاویٰ مصطفویہ سے نقل کیا جاتا ہے جس میں مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی سے سوال کیا گیا کہ :
’’زید کہتا ہے رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کو علم غیب حاصل نہیں ہے اور یہ کہ آپ غیب نہیں جانتے تھے؟‘‘
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی نے اس سوال کے جواب میں دس آیاتِ قرآنیہ، دس احادیثِ نبویہ علیٰ صاحبہا الصلاۃ والتسلیم پیش فرمائیں، پھر کتبِ فقہ کی عبارات و اقوالِ ائمہ سے اسے مزین و آراستہ کیا :
قرآنِ عظیم کی آیات کے بعد آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے علمِ غیب کے ثبوت میں یہ احادیث پیش فرمائی ہیں :
(1)ان اﷲقد رفع لی الدنیا وانا انظر الیہا والی ماہو کائن فیہا الی یوم القیامۃ کا نما انظر الی کفی ہذہ(زرقانی علی المواہب اللدنیہ)
بے شک اﷲ عزوجل نے میرے لیے دنیا اٹھائی یعنی میرے پیشِ نظر فرما دی اور جو کچھ اس میں روزِ قیامت تک ہونے والا ہے سب کو ایسا دیکھ رہا ہوں جیسے ہا تھ کی ہتھیلی کو۔
(2)اخبرنا عن بدء الخلق حتی دخل اہل الجنۃ منازلہم واہل النار منازلہم
(مشکوٰۃ، ص 506، کتاب بدء الخلق و ذکر الدنیا، الفصل الاول)
ہمیں سیدِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے ابتدائے آفرینش سے جنتیوں کے اور جہنمیوں کے اپنے اپنے منازل میں داخل ہونے تک کی خبر دی۔
(3)اﷲ زوی لی الارض فر اء یت مشارقہا و مغاربہا
(مشکوٰۃ، ص 512، فضل سید المرسلین، الفصل الاول)
اﷲ عزوجل نے میرے لیے دنیا کو سمیٹ دیا تو میں نے اس کے مشارق و مغارب کو ملاحظہ فرمالیا۔
(4)تجلی لی کل شئی و عرفت
(مشکوٰۃ، ص72، باب المساجد و مواضع الصلاۃ، الفصل الاول)
ہر چیز مجھ پر روشن ہو ئی اور میں نے پہچان لیا۔
(5)علمت ما فی السموٰوٰت و الارض (مشکوٰۃ، ص70)
میں نے جان لیا جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے۔
(6)قطرت فی حلقی قطرۃ فعلمت ماکان ومایکون
میرے حلق میں ایک قطرہ ٹپکا تو میں نے جان لیا ما کان و ما یکون کو جو کچھ ہونے والا ہے سب کو۔
(7)مامن شئی کنت لم ارہ ال وقد راء یت فی مقامی ہذا حتی الجنۃ والنار
(بخاری، ج 1، ص 18)
جو چیز میں نے نہیں دیکھی تھی انھیں میں نے اپنی اس جگہ پر دیکھ لیا یہاں تک کہ جنت و دوزخ کو بھی دیکھا۔
(8) تجلی لی مابین السمآ والارض
آسمان و زمین کے درمیان کی ہر چیز مجھ پر روشن ہو گئی۔
(9) علمت ما بین المشرق والمغرب
مشرق و مغرب کے درمیان سب کچھ میں نے جان لیا۔
(10) اخبرنا بماکان و بما ہو کا ئن فاعلمنا احفظنا (مسلم، ج2، ص390)
جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو نے والا ہے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں خبر دی تو ہم میں زیادہ علم والا وہ جسے زیادہ یا د رہا۔
الغرض آیات و احادیث و دیگر دلائلِ شرعیہ سے جو اب واضح کرنے کے بعد مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی ایک جگہ تحریر فرماتے ہیں :
’’آیات و احادیث جن سے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے لیے علمِ غیب کا ثبوت ہے اور بھی ہیں مگر منکرین کے دس انکار کے مقابل دس آیات و احادیث پر بس کریں۔ ‘‘ (فتاویٰ مصطفویہ، مولانا مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، ص32)
علمِ تفسیر، علمِ فقہ، علمِ حدیث، اصولِ حدیث وغیرہ علوم و فنون کی طرح مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی فنِ تاریخ گوئی میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے تھے اور اس فن میں بھی مثالی حیثیت کے حامل تھے۔ آپ کی بیش تر تصانیف کے نام قریب قریب تاریخی ہیں۔ وجوبِ حج کے سلسلے میں آپ کی ایک کتاب ہے ، ’’حجۃ واہرہ بوجوبِ الحجۃ الحاضرہ (1344ھ)‘‘ اس کا نام تاریخی ہے اس کا سنِ تصنیف 1344ھ ہے۔ اسی طرح ’’القول العجیب فی اجوبۃ التثویب ‘‘ یہ بھی تاریخی نام ہے جو 1339ھ کی تصنیف ہے۔ دیوانِ نعت ’’سامانِ بخشش‘‘ کا نام بھی تاریخی ہے۔ آپ نے اس کا دوسرا نام ’’گلستانِ نعتِ نوری‘‘ رکھا، اس لیے کہ یہ دیوان1347ھ سے1354ھ کے درمیان مکمل ہوا دونوں سن کے حساب سے آ پ نے اس کے دو نام رکھے ’’سامانِ بخشش عرف گلستانِ نوری‘‘۔
علاوہ ازیں اور بھی کئی تصانیف ہیں جن کے نام تاریخی ہیں۔ مریدین و معتقدین کے یہاں جب بچہ پیدا ہوتا تو حضرت سے تاریخی نام دریافت کرتے آپ فوراً بتا دیتے بعد میں جب اس نام کے تاریخی اعداد جوڑے جاتے تو وہ ایک دم صحیح اور تاریخی ہوتے۔
محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد (م 1382ھ) کے وصال پر صوفی اقبال احمد نوری بریلوی نے ماہ نامہ ’’نوری کرن ‘‘ کا خاص نمبر شائع کیا جس کے لیے انھوں نے حضرت سے تاریخِ وصال کی درخواست کی حضرت نے فرمایا کل صبح بعد نمازِ فجر آنا۔ صوفی صاحب موصوف دوسرے دن بعد نمازِ فجر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے حضرت بیٹھک میں بیٹھے وظیفہ میں مشغول تھے انھیں اشارہ سے بیٹھنے کو کہا بعد فراغتِ وظیفہ ایک کاغذ لیا اور صرف بیس منٹ میں حسبِ ذیل لوحِ تاریخِ وصال لکھ کر عطا کر دی۔
لوحِ تا ریخِ وصال( 1382ھ)
آہ میرا روشن چاند جاتا رہا( 1382ھ)
غروبِ مہ صلحا ( 1382ھ)
فیضانِ تام ( 1382ھ)
فیضانِ اتم ( 1382ھ)
منبعِ کرم مقبولِ عصر امیر العلما ء( 1382ھ)
آئینۂ اسرارِ مقصود آفاقِ زین و دانش ( 1382ھ)
مشہورِ انام پیشوا چارہ سازِ بیکساں ( 1382ھ)
ہادیِ بُستان رہبرِ اسلام نورالہدیٰ ( 1382ھ)
مولیٰنا الاوحد الاسدُ الاسعدُ الارشد بحر علم ( 1382ھ)
سعادت مآب مولوی سردار احمد صاحب ( 1382ھ)
ذکی و محدثِ باکمال ( 1382ھ)
رضی عنہ مولاہ الصمد ( 1382ھ)۔
لوحِ تا ریخِ وصال کے اس استخراج میں ایک اور خوبی یہ ہے کہ ’’ لوحِ تاریخِ وصال ‘‘ کے اعداد بھی 1382ھ ہیں جو کہ محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمۃ کا سنِ وصال ہے۔
اسی ’’نوری کرن‘‘ میں منظوم تاریخِ وصال بھی نوریؔ بریلوی نے مولانا سردار احمد صاحب علیہ الرحمۃ کی رقم فرمائی، یہ نظم 33؍ اشعار پر مشتمل ہے، جس کے تین ا شعار جن میں تاریخِ وصال درج ہے خاطر نشین ہوں ؎
مر گیا فیضان جس کی موت سے
ہائے وہ ’’فیض انتما‘‘ جاتا رہا 1382ھ
’’یا مجیب اغفر لہ‘‘ تاریخ ہے1382ھ
کس برس وہ رہنما جاتا رہا
دیو کا سر کاٹ کر نوریؔ کہو
’’ چاند روشن علم کا جاتا رہا‘‘ 1382ھ
علمی خدمات کے ضمن میں تصنیفات و تالیفات اور حواشی کا ذکر بھی غیر ضروری نہ ہو گا۔ یوں تو بعض تصانیف ادبی خدمات کے زمرے میں بھی آتی ہیں۔ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کے تمام قلمی جواہر پارے آپ کی علمیت و صلاحیت اور فقہی بصیرت و ژرف نگاہی کے منہ بولتے نادر نمونے اور شاہ کار ہیں۔ آپ نے اپنی گو نا گوں اور متنوع مصروفیات اور مشاغل کے باوجود تصنیف و تالیف اور حواشی کا ایک گراں قدر ذخیرہ چھوڑا ہے۔ قلم میں مبدءِ فیاض نے بے پناہ قوت اور کشش ودیعت فرمائی تھی۔ زبان پُر اثر اور طاقت ور استعمال فرماتے۔ الفاظ اور روزمرہ محاورات کا برمحل استعمال کرتے۔ آپ کی تصنیف و تالیف اور حواشی سے متعلق مایۂ ناز ادیب مولانا افتخار احمد مصباحی رقم طراز ہیں :
’’وہ(مولانا مصطفی رضا نوریؔ بریلوی ) ایک عظیم محقق و مصنف بھی ہیں، ان کی تحریر میں ان کے والدِ جلیل امام احمد رضاقدس سرہ کے اسلوب کی جھلک اور ژرف نگاہی نظر آتی ہے۔ تحقیق کا کمال بھی نظر آتا ہے اور تدقیق کا جمال بھی۔ فتاویٰ کے جزئیات پر عبور کا جلوہ بھی نظر آتا ہے اور علامہ شامی کے تفقہ کا انداز بھی۔ تصانیف میں امام غزالی کی تحقیق اور امام رازی کی تدقیق اور امام سیوطی کی تلاش و جستجو کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ ‘‘ (10)
اللہ جل شانہ نے مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کے قلم میں ایسی روانی دی تھی کہ مضامین کے سیلاب کو جو اُن کے دماغ میں امنڈتا تھا اسے ضبطِ تحریر میں لے آتے تھے کتاب وسنّت کے خلاف اگر کسی طرف سے آواز اُٹھتی تو بے تابانہ تعاقب کرتے اور بلا خوفِ لومۃ لائم احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا فریضہ انجام دیتے مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی تصنیفات و تالیفات اور حواشی جو اب تک تحقیق میں آئیں مندرجہ ذیل ہیں :
(1) اشدالباس علیٰ عابد الخناس (1328ھ)
(2) الکاوی فی العاوی والغاوی (1330ھ)
(3) القشم القاصم للداسم القاسم (1330ھ)
(4) نور الفرقان بین جند الالٰہ و احزاب الشیطان (1330ھ)
(5) وقعات السنان فی حلقۃ مسماۃ بسط البنان (1330ھ)
(6) الرمح الدیانی علیٰ راس الوسواس الشیطانی (1331ھ)
(7) وقایہ اہل سنۃ ( 1332ھ)۔
(8) الٰہی ضرب بہ اہل الحرب (1332ھ)
(9) ادخال السنان الیٰ الحنک الحلقی بسط البنان (1332ھ)
(10) نہا یۃ السنان (1332ھ)
(11) صلیم الدیان لتقطیع حبا لۃ الشیطان (1332ھ)
(12) سیف القہار علیٰ عبد الغفار (1332ھ)
(13) نفی العار من معائب المولوی الغفار (1332ھ)
(14) النکۃ علیٰ مراۃ کلکتہ ( 1332ھ)
(15) مقتلِ اکذب و اجہل (1332ھ)
(16) مقتلِ کذب و کید (1332ھ)
(17) الموت الاحمر علیٰ کل الجنس اکفر (1337ھ)
(18) ملفوظات (چار حصے)(1338ھ)
(19) الطاری الداری لہفوات عبد الباری (تین حصے)(1339ھ)
(20) القول العجیب فی جواب التثویب (1339ھ)
(21) طرق الہدیٰ والارشاد الیٰ احکام الامارۃ والجہاد (1341ھ)
(22) حجۃ واہرہ بوجوب الحجۃ الحاضرہ (1342ھ)
(23) القسورۃ علیٰ ادوارالحمر الکفرۃ (1343ھ)
(24) سامانِ بخشش عرف گلستان نعت نوری (1354ھ)
(25) فتاویٰ مصطفویہ
(26) شفاء العی فی جواب سوال بمبئی
(27) تنویر الحجہ با التواء الحجہ
(28) وہابیہ کی تقیہ بازی
(29) مسائلِ سماع
(30) الحجۃ الباہرہ
(31) نورالعرفان
(32) داڑھی کا مسئلہ
(33) ہشتاد و بید بند بر مکال دیوبند
(34) طرد الشیطان
(35) سل الحسام الہندی لنصرۃ سیدناخالد النقشبندی
(36) کانگریسیوں کا رد
(37) حواشی و تکمیلاتِ الاستمداد
(38) حاشیہ تفسیرِ احمدی (قلمی )
(39) حاشیہ فتاویٰ عزیزیہ (قلمی)
(1)محمود احمد قادری، مولانا:تذکرۂ علمائے اہل سنّت، مکتبۂ نبویہ، لاہور، ص223
(2)مطیع الرحمن رضوی، مفتی :مفتیِ اعظم مفتیِ اعظم کیوں ؟، رضا دار المطالعہ، بہار 2004ء، ص18/19
(3) مطیع الرحمن رضوی، مفتی :مفتیِ اعظم مفتیِ اعظم کیوں ؟، رضا دار المطالعہ، بہار2004ء، ص20
(4)ماہ نامہ استقامت : مفتیِ اعظم نمبر، کانپور، 1983ء، ص 116/118
(5)دبدبۂ سکندری :رامپور، اگست 1928ئ، شمارہ 9، جلد 6، ص206
(6)ماہ نامہ المیزان : ممبئی، اپریل 1987ء، ص 120/122
(7)مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ :فتاویٰ مصطفویہ، مکتبہ رضا بریلی، ج1، ص207
(8)مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ :فتاویٰ مصطفویہ، مکتبہ رضا بریلی، ج3، ص194/195
(9)مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ :فتاویٰ مصطفویہ، مکتبہ رضا بریلی، ج3، ص13/14
(10)ماہ نامہ استقامت : مفتیِ اعظم نمبر، کانپور، 1983ء، ص
(11)مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:فتاویٰ مصطفویہ، بیسلپور پیلی بھیت 1397ھ، ج1، ص9
٭٭٭
تحقیق و مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت نوریؔ بریلوی کی ادبی خدمات کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ وہ مختلف اصنافِ ادب کے ماہر، صاحبِ طرز ادیب، مایۂ ناز انشا پرداز اور قادر الکلام نعت گو شاعر تھے۔ آپ کی تصنیف و تالیف اور حواشی میں بیش تر کتب و رسائل کو جب پیشِ نظر رکھتے ہیں تو بہت سارے ادبی پہلو سامنے آتے ہیں۔
الملفوظ کی ترتیب و تدوین، الاستمداد کی شرح و تکمیلات، سامانِ بخشش اور مختلف کتب ورسائل سے آپ کی ادبیت آشکار ہے۔ آپ کی تصنیفات میں اردو، عربی اور فارسی تینوں زبانوں کا کثرت سے استعمال ہے۔ حضرت نوریؔ بریلوی کی شاعری سے متعلق تحقیقی جائزہ تو پیشِ نظر مقالے کا خاص موضوع ہے۔ یہاں صرف آپ کی نثر نگاری پر قدرے روشنی ڈالنا مقصود ہے۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی تصانیف جہاں اپنے فن کے اعتبار سے معرکہ آرا کہلاتی ہیں۔ وہیں زبان و بیان اور اسلوبِ نگارش کے اعتبار سے بھی اپنا جواب نہیں رکھتیں۔ آپ نے انشایئے، خاکے اور مضامین بھی لکھے۔ جس میں اعلا درجہ کی نثرنگاری کی جھلک سامنے آئی ہے۔ مسجع و مقفا عبارتیں بھی لکھیں۔ سیدھے سادھے جملے بھی لکھے۔ مگر ان میں بھی بلا کی پر کا ری اور دلفریبی انگڑائیاں لیتی ہو ئی نظر آتی ہے۔ بات میں بات پیدا کرنا، تشبیہ و استعارہ اور صنعتی گل بوٹے کھلانا آپ کی نثر نگاری کا اعلا نمونہ ہے۔ محدثِ اعظم پاکستان کے وصال پر ’’وہ میرا چاند تھا‘‘ کے عنوان سے ماہ نامہ نوری کرن، بریلی کے محدثِ اعظم نمبر1382ھ میں آپ کا ایک مضمون شائع ہوا جو نثر نگاری کا ایک عمدہ نمونہ ہے :
’’وہ میرا چاند تھا، جو بڑھتا ہی رہا کبھی نہ گھٹا جو اپنی گفتار۔۔ اپنی رفتار۔۔ اپنے کردارسے فتنوں ۔۔ فسادوں ۔۔ کفر و گمراہی کی گھٹا کو دفع کرتا رہا۔۔ کبھی گھٹاؤں میں نہ چھپا ۔۔ کتنی ہی دھولیں اڑیں ۔۔ کتنا ہی گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا۔۔ وہ چمکتا جگمگاتا ہی رہا ۔۔ وہ میرے دین کا چاند تھا۔۔ دین کا چاند بڑھتا ہی رہتا ہے آسمانِ دنیا کے چاند کی طرح بار بار گھٹتا اور اترتا اور اتر کر غائب نہیں ہوتا۔۔ وہ میرا چاند تھا، جس نے ملک میں بہت چاند روشن کیے۔ ‘‘
امام احمد رضا محدثِ بریلوی کے علوم و معارف کا ایک بڑا ذخیرہ ’’الملفوظ ‘‘ ہے جو ان کے ارشادات اور کلمات طیبات پر مشتمل ہے۔ اس کو مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی نے چار حصوں میں جمع کیا، مکمل کتاب میں جا بجا ادبی جواہر پارے نظر آتے ہیں، نثر اعلا ترین ہے، اس کا مقدمہ مسجع و مقفا نثر نگاری کا بہترین نمونہ ہے۔ نشانِ خاطر کیجیے :
’’یہاں جو دیکھا شریعت و طریقت کے باریک مسائل جن پر مدتوں غور و خوضِ کامل کے بعد ہماری کیا بساط بڑے بڑے سر پٹک کر رہ جائیں فکر کرتے کرتے تھک جائیں اور ہرگز نہ سمجھیں صاف لاعلمی کا دم بھریں وہ یہاں ایک فقرہ میں ایسے صاف فرما دیے جائیں کہ ہر شخص سمجھ لے اور حقائق و نکاتِ مذہب و ملّت جو ایک چیستاں اور معمّہ ہیں جن کا حل دشوار تر ہے وہ یہاں حل فرما دیے جائیں تو خیال گذرا کہ یہ جواہرِ عالیہ اور زواہرِ غالیہ یونہی بکھرے رہے اور انھیں سلکِ تحریر میں نہ لا یا تو اندیشہ ہے کہ وہ کچھ عرصہ بعد ضائع ہو جائیں۔ ‘‘ (1)
اسی طرح الاستمداد کے مقدمہ کی یہ عبارت بھی کتنی شگفتہ، سلیس، اور رواں دواں ہے :
’’فضول قصوں، ناولوں کی نظمیں، نثریں دیکھتے پڑھتے گھنٹوں گزریں یہ بھی ایک مزہ دار نظم ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زینت ہے، قیامت قریب ہے۔ اللہ حسیب ہے۔ اس کا ثواب عظیم اور عذاب شدید ہے، دین کو جھگڑا سمجھنا مسلمانوں کی شان سے بعید ہے، تنہا یا دو دو اطمینان سے۔ انصاف یا ایمان سے۔ دو تین بار سچے دل سے ایک ہی نگاہ دیکھ لیجیے مگر یہ کہ صاف بات میں نہ ایچ پیچ کی حاجت۔ نہ اللہ جل وعلا ورسولصلی اللہ علیہ و سلم کے مقابل کسی کی رعایت۔ ‘‘ (2)
علاوہ ازیں امام احمد رضا محدثِ بریلوی کی کتاب ’دوام العیش فی الا ئمۃ من القریش‘ کے مقدمہ میں جو مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی نے لکھا ہے اس میں ایسی ایسی عبارتیں ہیں جنھیں پڑھنے کے بعد قاری یہ سوچنے لگتا ہے کہ یہ کسی مولو ی کے جملے ہیں ؟ اس کی زبان ہے یاکسی صاحبِ طرز ادیب یا قلم کار کی عبارتیں ہیں ؟
’’اگرچہ چہرۂ پُر نور، ماہتابِ صدق پر کذابوں کے کذب کی نہایت وحشت ناک تیرگیاں چھائیں، اور روئے آفتابِ حق پر باطل کی سخت بھیانک اور خوف ناک تاریکیاں اور کالی کالی ڈراؤنی بدلیاں آئیں، مگر ہمارے قلوب بفضلہ تعالیٰ مطمئن تھے، ہم سمجھے ہوئے تھے یہ بھی کچھ روز کی ہَوا ہے، جو دم میں ہَوا ہے، آخر کار وہی ہُوا جس کا ہمیں شدت سے انتظار تھا۔ وہ دن آ ہی گیا کہ وہ تیرگی دور اور تاریکی کافور ہوئی، نورِ حق کا جگمگاتا، چمکتا دمکتا پُر نور چہرۂ آفتاب نصف النہار کی طرح آنکھیں خیرہ کرتے نکلا اور ایک عالم نے آنکھوں دیکھ لیا کہ حق یہ ہے اور باطل وہ تھا جو اس کے حضور جم نہ سکا پتّا توڑ بھاگا، کب تک باطل حجابِ حق کو چھپائے تابہ کے جھوٹے نقابِ صدق کی آڑ کر سکے، آخر حق کی شعاعوں نے ان باطل پردوں کو خاکستر ہی کر دیا، جھوٹے نقابوں کو جلا ہی ڈالا اور دنیا کو اپنا جلوۂ جہاں تاب دکھا ہی دیا ‘‘ (3)
اس اقتباس میں ’’چہرۂ پُر نور، ماہتابِ صدق، روئے آفتابِ حق، نقابِ صدق، حجابِ حق‘‘ وغیرہ جیسے تراکیب کے حُسن ’’وحشت ناک، خوف ناک، جگمگاتا، چمکتا، دمکتا‘‘، وغیرہ ہم آواز اور ہم وزن الفاظ نیز ’’تیرگیاں، تاریکیاں، جگمگاتا، چمکتا، دمکتا‘‘ وغیرہ مترادفات اور’’ کالی کالی‘‘ لفظ کے جوڑ ے وغیرہ کا سلیقہ مندانہ استعمال نے تحریر میں صوتی فضا بھر دی اور اسے جمال و جلال کا حسین امتزاج بنا دیا ہے۔ کچھ روز کی ہوا، اور پتہ توڑ بھا گا جیسے محاورات،۔ ہَوا، ہَوا اورہُوا کا استعمال، ۔۔ ذرا یہ جملہ دیکھیے :
’’کچھ روز کی ہَوا ہے، جو دم میں ہَوا ہے، آخر کار وہی ہُوا جس کا ہمیں شدت سے انتظار تھا۔ وہ دن آہی گیا‘‘۔
’’کی ۔۔ روز ۔۔ ہَوا۔۔ ہُوا۔ ‘‘ کی تکرار نے تحریر میں حُسن و لطافت پیدا کر دی ہے مزید یہ کہ تحریر میں استفہامیہ انداز بھی ہے، تشبیہات و استعارات کی جلوہ گری بھی۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی ایک مقفّا و مسجع تحریر دیکھیے اور اس میں لطیف طنز کا جلوہ بھی خاطر نشین کیجیے :
’’ یہ ہے آپ کی سندوں کا بھاگ۔۔ یہ ہے آپ کے کمل کا باگ۔۔ یہ ہے آپ کی کتابوں کی قطار۔۔یہ ہے آپ کی روایتوں کی پکار ع
شرم بادت از خدا ورسول‘‘(4)
مذکورہ تحریر میں شعری فضا کے اہتمام کے ساتھ فارسی مصرع نے حُسنِ تحریر کو اور بھی دوبالا کر دیا ہے۔ یہ اقتباس نشانِ خاطر کیجیے :
’’وہ بے چارے ہیبت کے مارے، خاموش روپوش اور یہ چاری لگائے جاتے ہیں۔ ہر بار منہ کی کھاتے ہیں۔ مگر مکر و کید سے کب باز آتے ہیں ‘‘۔
عبارت مقفّا بھی ہے اور ترکیب بند بھی۔ آوازوں کے جوڑوں نے جملے میں آہنگ برپا کر دیا ہے۔ ’’ خاموش، روپوش، بے چارے، ہیبت کے مارے ‘‘ لائقِ دید ہیں۔ ’’چاری لگائے جاتے ہیں، ہر بار منہ کی کھاتے ہیں ‘‘۔ میں شعری ملاحت کا جلوہ دیدنی ہے۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی نے تا عمر فتویٰ نویسی کی، قرآن و حدیث سے تحریروں کو آراستہ کیا اور اللہ و رسول جل و علاو صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام اور نظامِ اسلام کے نفاذ و اشاعت اور ترویج و تشہیر کی سعی بلیغ فرمائی، فقہ و فتویٰ اور دینی تحریرات میں فصاحت و استدلال لازمی جزو ہیں، ساتھ ہی ساتھ ایجاز و اختصار اور متانت و سنجیدگی بھی ضروری ہے۔
ایک سائل نے سوال کیا کہ :
’’اصول کو اہلِ منطق اور اہلِ فلسفہ وحدتِ نظری اور عوام الناس نظمِ کائنات کہتے ہیں، کیا اس طرح قائل نے نظمِ کائنات کو دائمی اور ابدی نہیں کہا؟‘‘
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی نے اس کا جواب یوں دیا :
’’قائل، نظمِ کائنات کو ابدی کہتا ہے نہ کائنات کو، کائنات کو نہ ابدی اور دائمی بتایا نہ اس کے کسی لفظ سے مترشح۔ نظمِ کائنات اس نے انھیں اصولوں کا نام رکھا جن پر نظامِ کائنات برقرار ہے۔ جن پر کائنات کا مدار ہے۔ رہا یہ کہ کن اصولوں کو وہ دائمی ومستحکم و ابدی کہتا ہے یہ اس عبارتِ منقولہ میں نہیں وہ بھی منقول ہوتے تو ان کا حکم بتایا جاتا مگر ایسے اصول ہیں جنھیں ابدی کہہ سکتے ہیں مگر وہ بھی جواز کی بھی ہیں اور ابدی بھی ہمیشہ سے ہے اور ابد الآباد تک رہے گا۔ وہ اصل کیا ہے لا الہٰ الا اللہ جس پر نظامِ کائنات کا مدار ہے جب عالم میں کوئی لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کہنے والا باقی نہ رہے گا جب ہی قیامت قائم ہو گی اور یہ نظامِ عالم درہم برہم اور عالم تہہ و بالانیست و نابود ہو جائے گا۔ فنا کے گھاٹ اُتر جائے گا۔ تو اسے ابدی دائمی کہنے میں کیا حرج کہ قطعاً ابدی و دائمی ہے۔ اصول کے دائمی و ابدی ہونے سے نظامِ عالم ابدی و دائمی نہ ہو جائیں گے! ‘‘ (5)
غور کریں اس قدر فلسفیانہ اور زبردست دینی مسئلہ کو کس قدر آسانی کے ساتھ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی نے سمجھایاہے کہ قوتِ استدلال اور منطقیانہ اندازِ بیان دید نی و شنیدنی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایجاز و اختصار اور متانت و سنجیدگی کو بھی برقرار رکھا گیا ہے۔
طنز و نشتریت بھی ادب کا اہم جز ہے اس سے فن پا رے میں لذت و ملاحت پیدا ہوتی ہے اور یہ اصلاحِ معاشرہ کا ذریعہ بھی ہے اور فسادات کو روکتا اور دور کرتا ہے۔ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی نے فرقہائے باطلہ کے پیشواؤں، بد عقیدوں، مشرکوں، ملحدوں، اشتراکیوں، غیروں کی چال و جال میں آ کر اسلامی عقائد اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے والے اپنوں اور بے گانوں نیز بے عمل مسلمانوں وغیرہ پر طنز و تعریض اور تنقید کی نشتر زنی کی ہے اور اپنی تحریروں کو نمکین حُسن کا پیکر بنا دیا ہے، چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے :
’’نہ تم انھیں مسجدوں میں لے جاتے اور انھیں مسجد کے منبر پر مسلمانوں سے اونچا اٹھاتے، نہ تم ان کو واعظ بناتے، نہ تم ان کے فوٹو کھنچواتے، تصویر اترواتے، نہ تم یہ روزِ بد دیکھتے نہ اوروں کو دکھاتے۔ آج میدانِ ارتداد میں منشی رام، شردھانند کا وہ فوٹو جو جا مع مسجد دہلی میں اس کے منبر پر بیٹھے ہونے اور لکچر دینے کا لیا گیا ہے، مسلمانوں کو دکھا دکھا کر مرتد کیا جا رہا ہے۔ شرم، شرم، شرم۔ ‘‘ (6)
اسلام میں خلافت و امامت کے لئے ’’قُرشیت‘‘ شرط ہے مگر مولانا عبدالباری فرنگی محلی اس شرط کو نہیں مانتے تھے ان کے دادا مولانا عبدالرزاق صاحب نے بھی امامت و خلافت کے لئے ’’قُرشیت‘‘ کو لازمی قرار دیا اس پر مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی موصوف کو لکھتے ہیں طنز کا یہ لطیف مگر کاٹ دار انداز لائقِ دید ہے :
’’اب فرمایئے !آ پ حق پر ہیں یا آپ کے دادا اور وہ آپ کے جدِ اعلیٰ بحر ا لعلوم دیکھیں تو آپ کیسے بات کے دھنی ہیں کہ اپنے بزرگوں پر بھی کوئی فتویٰ لگاتے ہیں یا نہیں یا یہ عنایت ہم غربا اور ائمہ و علما پر ہے۔ ‘‘ (7)
اسی طرح علما کی بارگاہ کے بے ادب و گستاخ افراد پر کس طرح طنز کے ہلکے ہلکے نشتر چلائے ہیں :
’’ اے مدعیانِ علم و تہذیب و ادب علما کی شان میں گستاخ نہ بنو، انھیں اپنے پر قیاس نہ کرو۔ ‘‘ (8)
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کے یہاں جملہ اقسامِ نثر کے تمام خوب صورت نمونے موجود ہیں۔ یہاں مزید ایک اقتباس خاطر نشین کیجیے:
’’اللہ اﷲ !اہل اﷲ کی زندگی اﷲ تبارک و تعالیٰ کی اعلا نعمت ہے۔ سبحان اﷲ! انھیں نفوسِ قدسیہ طاہرہ کے قدم کی برکت سے وہ عقدۂ لاینحل چٹکی بجاتے حل ہو جاتے ہیں جنھیں قیامت تک کبھی بھی ناخنِ تدبیر نہ کھول سکے جس سے کیساہی کوئی عقیل، مدبّر ہو، حیران رہ جائے، کچھ نہ بول سکے، جسے میزانِ عقل میں تول نہ سکے، اﷲ اکبر! ان کی سیرت، ان کی صورت، ان کی رفتار، ان کی گفتار، ان کی ہر روش، ان کی ہر ادا، ان کا ہر ہر کردار، اسرارِ پروردگار عز مجدہٗ کا ایک بہترین مرقع اور بولتی تصویر ہے کہ یہ انفاسِ نفیسہ مظہرِ ذاتِ عُلیا وصفاتِ قدسیہ ہوتے ہیں۔ ‘‘ (9)
علاوہ ازیں اس طر ح کی درجنوں نادر مثالیں مفتیِ اعظم حضرت نوریؔ بریلوی کے مکتوبات، تصنیفات، تالیفات، حواشی اور فتاوائے مصطفویہ کے سیکڑوں صفحات پر جابہ جا جلوہ افروز ہیں جن سے آپ کی اعلا ترین ادبیت آشکار ہوتی ہے۔
ذیل میں آپ کی مختلف تصنیفات و تالیفات سے بلا تبصرہ چند ادبی جواہر پارے پیش کیے جاتے ہیں جن میں اعلا ترین نثر کے نمونے، مسجع و مقفا جملے اور روزمرہ محاورات کے استعمال ملتے ہیں ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ ان میں مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کے قلم نے تازگی و طرفگی کے گلہائے رنگا رنگ کھلائے ہیں :
’’حمد کی جان اس مالکِ عرش و فرش پر قربان۔ جس نے صدق و حق کو پسند کیا اور اسے عزت دی اور اس سے اپنی حمد فرمائی کہ فرمایا۔ من اصدق من اﷲ قیلا۔ اور فرمایا۔ ومن اصدق من اﷲ حدیثا۔ اور ارشاد ہوا۔ واﷲ یقول الحق و یہدی السبیل۔ اور کذب و باطل کو سخت مبغوض رکھا اور کذابوں پر لعنت بھیجی اور ان پر اپنا غضب اتارا کہ فرمایا۔ لعنت اﷲ علیٰ الکاذبین۔ حق کو باطل پر ہمیشہ غلبہ عطا فرمایا حق گو، راست بازوں کا منہ اجالا اور جھوٹے کذابوں، دروغ بافوں، ناپاکوں کا منہ کالا کیا جس نے ہمیں یہ پیارا پیارا روح افز ا جاں فزا مژدہ سنایا۔ قل جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زہوقا۔ تم فرما دو ! حق آیا اور باطل بھاگا اور باطل تو بھاگنے ہی کو تھا اور ہزاروں صلاۃ و لاکھوں تسلیمات کروروں تحیات زاکیات کی نچھاور اس کے مقدس رسول حبیب و محبوب، طالب و مطلوب، دانائے کل غیوب، صادق و مصدوق صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم پر جنھوں نے فرمایا۔ الصدق نجی والکذاب یہلک سچ نجات دیتا ہے اور کذب ہلاکت کرتا ہے پھر ان کی آل و اصحاب پر جنھوں نے امتیازِ حق و باطل کے لیے جان توڑ کوششیں فرمائیں اور دودھ کا دودھ پانی کا پانی کر دیا۔ ‘‘(10)
٭
’’ہاں تکفیر کرنے والے ان کے نزدیک خطاکار ہیں۔ قصور وار ہیں۔ مجرم ہیں گنہ گار ہیں۔ ان کے خیال میں کفر کرنا کفر بکنا کچھ عیب نہیں کافر کہنا عیب ہے، جب تو کفر بکنے والوں کے طرف دار ہیں۔ اور تکفیر کرنے والوں سے بر سرِ پیکار ہیں۔ کوئی کہتا ہے صاحب ان کے یہاں کفر کی مشین ہے جس میں رات دن کفر کے فتوے ڈھلتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے اجی ساری دنیا کافر ہے بس یہ مسلمان ہیں۔ یہ بھی کافر وہ بھی کافر سب کو کافر کیے ڈالتے ہیں کوئی کہتا ہے یہ سب کو کافر کہتے ہیں انھوں نے اسلام کا دائرہ تنگ کر دیا ہے بڑے تنگ نظر ہیں، بہت تنگ خیال ہیں۔ ‘‘(11)
٭
’’یہ بے ادب و بے تہذیب، مدعیانِ تہذیب و ادب، علما پر بے تہذیبی کا الزام لگاتے ہیں اور بے ادبی کا منہ آتے ہیں۔ کہ یہ لوگ گالیاں سناتے ہیں۔ مخلوقِ خدا کو ناحق ستاتے ہیں۔ بہت سختیاں برتتے ہیں۔ نہایت شدتیں کرتے ہیں۔ ان کے اعتراض علما تک ہی نہیں رہتے بل کہ اﷲ ورسول تک جاتے ہیں، علما ہی ان کی گندی گھنونی گالیوں سے ایذا نہیں پاتے ہیں بل کہ یہ کہہ کر اﷲ ورسول تک ایذا پہنچاتے ہیں علما کیا فرماتے ہیں جنھیں یہ گالیاں بتاتے ہیں۔ بے تہذیبی ٹھہراتے ہیں۔ علما تو وہی کہتے ہیں جو قرآن و حدیث انھیں سکھاتے ہیں۔ وہ اگر کافر کہتے ہیں تو اﷲ و رسول نے کافر فرمایا۔ ‘‘(12)
٭
’’اگر اس قسم کی آیات و احادیث لکھوں تو دفتر درکار ہے۔ اور مدِ نظر اختصار ہے۔ اور ہے یہ کہ ع
در خانہ اگر کس ست یک حرف بس ست
اور معاند کے لیے اوراقِ سماوات و ارض کے شواہد ناکافی۔ غرض اتنا تو بفضلہٖ تعالیٰ ہر ادنا عقل والے پر روشن ہو گیا کہ علمائے کرام متخلق با خلاق اﷲ المنان ہیں۔ ہر طرح اس کے اور اس کے رسول کے تابعِ فرمان ہیں۔ اور یہ ان کے دشمن اعدائے دین و مذہب و متبع خطوٰتِ شیطان ہیں۔ والعیاذ باﷲتعالیٰ۔ اے عزیز! یہ مسئلہ بھی ایسا ہے جس کے لیے دلائلِ فقیہہ درکار ہیں۔ اور اگر یہی اصرار ہے تو یہاں کب انکار ہے۔ ‘‘ (13)
٭
’’کیا اب بھی جوازِ مزامیر کا بے سُرا راگ گائے جاؤ گے؟۔ کیا اب بھی بے وقت کی راگنی الاپے جاؤ گے؟ حضور سلطان المشائخ کے فرمانِ ذی شان کے آگے سرِ تسلیم جھکاؤ۔ اور اپنے غلط و باطل کہے پر پشیماں ہو اور شرماؤ۔ کیا حضور نے مزامیر کو ناجائز، حرام، ممنوع و معصیت نہ فرمایا؟ کیا حضور نے ان کا معصیت ہونا غیر صوفیہ کے ساتھ خاص فرما دیا ؟ کیا خود صوفیہ کے لیے بار بار نہ فرما دیا کہ میں منع کر چکا ہوں ؟ انھوں نے بُرا کیا۔ نا مشروع کام کیا، معصیت کی، پھر یارب! اب وہ کون سے صوفی ہیں جو حضور سلطان المشائخ کے مریدوں سے بھی آگے ہیں اور ہوں بھی تو علی الاطلاق یہ کہنا کہ صوفیوں کے لیے مزامیر حلال ہیں کیوں کر برمحل ہو گا؟۔ ولاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔ (14)
٭
’’جو حکم انسانی قوت و طاقتِ بشری، وسعت واستطاعت سے باہر ہو وہ ہرگز حکمِ شریعتِ مطہرہ نہیں، جس حکم میں باقاعدہ اتلافِ جان و اہلاکِ نفس ہو وہ اس شرع مبین کا حکم نہیں یو ہیں جس حکم سے سوتے فتنے جاگیں فساد برپا ہوں وہ کبھی مقدس اسلام کا حکم نہیں ہوسکتا اب یہی خود دیکھ لیں یہاں اس وقت حکمِ جہاد میں تکلیف مالایطاق ہے یا نہیں ؟ اس میں فائدہ ہے یا مضرت ؟ جانوں کی بلاوجہ ہلاکت یا حفاظت، فتنہ و فساد کی اشارت ہے یا اقامت ؟ اس میں مسلمانوں کی عزت ہے یا ذلّت؟ یہ حکم قبل از وقت ہے یا خاص وقت پر؟ ان امور پر غور کرنے کے بعد مسئلہ بالکل صاف ہو جائے گا، اصلا خفا نہ ہو گا کیا نہتوں کو ان سے جو تمام ہتھیاروں سے لیس ہوں لڑنے کا حکم دینا سختی نہیں ؟ اور تکلیفِ فوق الوسعت نہیں ؟ کیا ایسوں کو جو ہتھیار چلانا بڑی بات ہے اٹھانا نہیں جانتے، جن کے وہم میں بھی کبھی نہیں گذرا کہ بندوق کس طرح اٹھاتے، تلوار کیوں کر تھامتے، مارتے، طمنچہ کیسے چلاتے ہیں، جنہوں نے کبھی جنگ کے ہنگامے، لڑائی کے معرکے خواب میں نہ دیکھے ہوں انھیں توپوں کے سامنے کر دینا کچھ زیادتی نہیں ؟ کیا ایسوں سے میدان کرانا اور ان کی جانیں مفت گنوانا عبث نہیں ؟ کیا یہ فتنہ و فساد نہیں کہ مسلمانوں کی عزیز اور قیمتی جانیں مفت ضائع ہوں ؟ اس سے بڑھ کر اور فتنہ اور اس سے زائد فساد فی الارض کیا ہو گا؟۔ ‘‘(15)
٭
’’ہم کہتے ہیں اگر معاذ اﷲ شریف سے بھی کوئی کفر بھی ہو گیا ہوتا۔ تو ان کے کفر کا جب کہ امن پر کوئی اثر نہ ہوتا حج کیوں ناروا ہوتا؟ اب جب کہ بفضلہٖ تعالیٰن سے صدورِ کفر تو کفر، فسق بھی بہ طریقِ ثبوتِ شرعی ثابت نہیں اور امن موجود، جوازِ حج کیوں مفقود؟ اتنی سی عبارت میں اکاذیبِ مضمون نگار کا انبار، اور اس کے افتراءت کا طومار۔ ‘‘ (16)
٭
’’مضمون نگار صاحب یہ سمجھے کہ اتنی خیانتیں کر کے اب یہ عبارت ان کے مقصود کی مو ید ہو گئی۔ مگر خدا کا دھرا سرپر اُنھیں نصیبوں سے کیا خبر۔ عبارت اتنی کاٹ چھانٹ، لَوٹ پَوٹ پر بھی ان کے مقصود کے خلاف ہی ہے اور ان کی کج فہمی، ناسمجھی کا پکار پکار کر اعلان کر رہی ہے، اس کا بیان ہم آگے کریں گے پہلے مضمون نگار کی چوریاں بتا دیں۔ سینہ زوریاں دکھا دیں۔ ‘‘(17)
٭
’’تحریفیں بھی کیں، خیانتیں بھی کیں، مطلب خبط کرنے کو اوپر کی عبارت نیچے، نیچے کی اوپر بھی کی، یہ سب کچھ ہوا مگر للہ الحمد! وہ ستم زدہ عبارت وہی فرماتی رہی جو اس ستم سے پہلے فرما رہی تھی، یہ اپنی کج فہمی سے اسے اپنے حسبِ منشا بن جانا سمجھے اور اسے نقل کر لائے اور نہ جانا کہ اس میں اب بھی ان کے لیے زہرِ ہلاہل سمِ قاتل ملا ہوا ہے۔ ‘‘(18)
٭
’’ہر مسلمان مظلوم کی حمایت کی جائے گی بلکہ ہر مظلوم انسان کی حالت دل دکھاتی اور خواہ نخواہ حمایت پر لاتی ہے پھر یہ کہ حمایت ہمدردی ہی سے ہوتی ہے سلطان کو سلطان مان کر حمایت کی تو ان کی ہم دردی ہے۔ انھیں معزول کیا یہ بھی ان کی ہم دردی ہے۔ کہ وہ اپنے ملک سنبھال نہ سکے لہٰذا انھیں گوشۂ عافیت میں بٹھایا اپنے آپ ملک کا انتظام کیا اگر ہم دردی نہ ہوتی یہ ترک اﷲ تعالیٰ انھیں اپنی ہزاروں نعمتوں سے نوازے اور ان کی تمام جائز مرادیں پوری فرمائے اپنے آپ کیوں زحمتیں گوارا کرتے کیوں مشقتیں اٹھاتے کس لیے مصیبتیں جھیلتے کا ہے کو تکلیفیں برداشت کرتے سلطان کے ہم درد نہ ہوتے تو ان کا سار ا ملک معاذاﷲ !سارا ملک غیروں کے قبضہ میں چلا جاتا ان کے کان پر جوں نہ رینگتی وہ خود ان کے ہاتھ میں پڑ جاتے انھیں خیال بھی نہ ہوتا کہ کیا ہوا؟ کیوں ہوا ؟ وہ ہم درد تھے جب ہی تو انھیں درد ہو ا ان کے ملک کی حمایت و حفاظت ان کی حمایت و حفاظت ہے۔ ‘ ‘(19)
متذکرۂ بالا مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مفتیِ اعظم حضرت نوریؔ بریلوی قدس سرہ کی نثر اعلا پایے کی ہے۔ آپ کے قلم نے تازگی و طرفگی کے گلہائے رنگا رنگ کھلائے ہیں۔ آپ کی نثر میں مسجع و مقفا عبارتیں بھی ہیں، سیدھے سادھے جملے بھی۔ تشبیہات و استعارات بھی ہیں اور صنعتوں کے گل بوٹے بھی۔ روزمرہ محاورات کا استعما ل بھی ہے، اور ایجاز و اختصار اور متانت و سنجیدگی بھی۔ اور کہیں کہیں عبارت کی طنز و نشتریت نے آپ کی نثر کو اور بھی لطیف بنا دیا ہے۔ تصنیفاتِ نوریؔ کے مطالعہ کے بعد آپ کو مایۂ ناز ادیب اور بلند پایہ انشاپرداز قرار دینا غیر مناسب نہ ہو گا۔
(1) مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:الملفوظ، فیاض الحسن بک سیلر، کانپور، ص20
(2)مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:مقدمہ الاستمداد، مرکزی مجلسِ رضا، لاہور، ص2/3
(3)احمد رضا بریلوی، امام:مقدمہ دوام ا لعیش فی الائمۃمن القریش، رضا اکیڈمی، ممبئی، ص 34
(4)مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:مقتلِ کذب و کید، مطبع بریلی، ص 12
(5)مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:فتاویٰ مصطفویہ، اختر رضا بک ڈپو، بریلی، ج 1، ص50
(6)مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:طرق الہدیٰ والارشاد، ریڈمی، ممبئی، ص23
(7)مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:سوراخ در سوراج، رضا اکیڈمی، ممبئی، ص76/77
(8)مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:طرق الہدیٰ والارشاد، مطبع بریلی، ص52
(9)مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:الملفوظ، فیاض الحسن بک سیلر، کانپور، ص18
(10)احمد رضا بریلوی، امام:مقدمہ دوام العیش فی الائمۃ من القریش، رضا اکیڈمی، ممبئی، ص11
(11)مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:القسورۃ علیٰ ادوار الحمرۃ، رضا اکیڈمی، ممبئی، ص18
(12)مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:القسورۃ علیٰ ادوار الحمرۃ، رضا اکیڈمی، ممبئی، ص35/36
(13)مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:القسورۃ علیٰ ادوار الحمرۃ، رضا اکیڈمی، ممبئی، ص43/44
(14)مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:مسائلِ سماع، رضا اکیڈمی، ممبئی، ص10/11
(15)مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:طرق الہدیٰ والارشاد، رضا اکیڈمی ممبئی، ص7/8
(16)مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:حجۃ واہرہ، رضا اکیڈمی ممبئی، ص19/20
(17)مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:حجۃ واہرہ، رضا اکیڈمی ممبئی، ص29/30
(18)مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:حجۃ واہرہ، رضا اکیڈمی ممبئی، ص32/33
(19)احمد رضا بریلوی، امام:مقدمہ دوام العیش فی الائمۃ من القریش، رضا اکیڈمی، ممبئی، ص38
٭٭٭
اسلام میں دین وسیاست جدا نہیں ہیں۔ علمائے حق پیغمبروں کے وارث اور جانشین ہونے کی بنا پر اسلامی سیاست کے وارث و جانشین بھی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر دور یاکسی بھی حکومت و ریاست میں عہدہ کے حصو ل، جاہ و حشم کے لالچ، اپنے مطلب کی خاطر دنیاوی عزت و شہرت اور نام وری کے لیے سیاست میں ملوّث ہوتے رہیں۔ جیسا کہ آج کل سیاست داں دنیا بھر میں کرتے پھر رہے ہیں۔
مختلف ادوار اور حکومتوں میں مسلم سیاست کا طریقۂ کار بھی مختلف ہوتا ہے۔ لیکن اگر وہ مردِ مومن ہے تو حق و صداقت اور سچائی کا دامن نہیں چھوڑتا۔ دین و شریعت کے راستے سے کبھی نہیں ہٹتا۔ وہ سیاست میں حصہ لیتا بھی ہے تو اپنی قوم کی فلاح و بہبود اور دین و شریعت کے تحفظ و بقا کی خاطر اور اگر وہ دین و مذہب سے دور رہ کر سیاست میں سرگرمِ عمل ہو تو وہ سیاست نہیں بل کہ چنگیزی کرتا ہے۔
فی زمانہ باطل پرستوں نے اسلامی سیاست کو دنیوی اور کفری سیاست میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ نام نہاد مسلم سیاست داں سیاست کا ڈھونگ رچا کر ایک طرف اسلام اورمسلم قوم کو بدنام کر رہے ہیں تو دوسری طرف موقع فراہم ہونے پر ان کے جان و مال، عزت و آبرو کی بربادی اور پامالی کا سامان بھی پیدا کر رہے ہیں۔ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی نے ان نام نہاد سیاست دانوں کی بساطِ سیاست الٹ کر رکھ دی، مطالعہ و تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی سیاسی خدمات، علمی خدمات ہی کی طرح وسعت رکھتی ہیں۔ سرِ دست یہاں آپ کی سیاسی خدمات پر مختصراً روشنی ڈالنا مقصود ہے۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی اپنے وقت کے سیاسی بصیرت و بصارت کے حامل، دور اندیش، تہذیبِ اخلاق، سیاستِ مُدن اور تدبیرِ منزل سے آشنا فرد کہلائے۔ سیاسی اور ملی معاملات میں اعتدال پسندی، تدبر و تحمل، سلامت روی اور مثبت غور و فکر میں آپ نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ آپ کے سیاسی افکار و نظریات کو سمجھنے کے لیے آپ کی درج ذیل تصانیف کا مطالعہ معلومات بخش ہو گا۔
(1) طرق الہدی والارشاد الیٰ احکام الجہاد (1341ھ)
(2) فصل الخلافۃ یعنی سوراخ در سوراج (1341ھ)
(3) الطاری الداری لہفوات عبدالباری (1339ھ)
(4) مقدمہ ’’دوام العیش فی ائمۃ من القریش‘‘ (1334ھ)
(5) فتاویٰ مصطفویہ، 3؍جلدکے مختلف فتاویٰ۔
تقسیمِ ہند سے پہلے شدھی تحریک نے جس طرح فتنہ انگیزی پھیلائی اور مسلمانوں پر جس انداز سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ زبردستی مسلمانوں کا شدھی کرن کیا جاتا، اور روپیوں کا لالچ دے کر ان کے دلوں میں اسلام کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑکائے جاتے۔ بوالہوس اور زرپرست انسان ان کے دامِ فریب میں آ کر اپنے دین و ایمان کا سودا کر ڈالتے۔ یہ سلسلہ اس قدر بڑھا کہ شہر شہر، قریہ قریہ اس کی وبا عام ہو گئی اور نوبت یہاں تک پہونچی کہ اہلِ ہنود ببانگِ دہل اعلان کرنے لگے کہ چار کروڑ مسلمانوں کو شاشتر اور ششتر (تلوار)کے ذریعہ شدھ کیا جائے گا۔ ساتھ ہی ایسے نعرے بھی لگاتے جسے سُن کر مسلمانوں کا خون کھول جاتا۔ اور اپنی تقریروں میں بارہامسلمانوں کو کھٹمل، آبِ زم زم کو کیچڑ اور گندگی، وضو کو ڈھکوسلہ، رکوع کو اچک بلّی، اور سجدہ کو مُرغا بتا کر مسلمانوں کی دل آزاری کرنا ان کا شیوہ تھا۔
غرض یہ کہ ایک سوچی سمجھی اسکیم اور منظم سازش کے تحت مسلمانوں کو جبراً مُرتد کیا جا رہا تھا، قتل و غارت گری اور خوں ریزی کا بازار گرم تھا یہ قتل عام اس لیے تھا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری ۔۔ اس مذموم مقصد میں اہلِ ہنود اپنی گندی اور شاطرانہ سیاسی چالوں کے پیشِ نظر کامیاب ہو رہے تھے۔ مگر وہ ذات مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی تھی کہ بلند حوصلگی اور پختہ عزائم کے ساتھ جان و مال کی پروا کیے بغیر میدانِ عمل میں آ کر میلوں بھوکے پیاسے چل کر تبلیغِ دین کی۔ مشرکوں کے دامِ فریب سے مسلمانوں کو بچانے کی سعیِ بلیغ فرمائی اور جو مسلمان دھوکہ میں آ کر مرتد ہو گئے تھے انہیں ارتداد سے نکال کر توبہ کرائی اور دوبارہ مسلمان کیا۔ حضرت نوریؔ بریلوی اور ان کے رفقائے کار نے شدھی تحریک کے خلاف جس مجاہدانہ طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا اس کے شواہد جماعت رضائے مصطفیٰ کی فائلوں میں اب بھی محفوظ ہیں۔ (ملخصاً1)
ہندوستان میں ضبطِ ولادت کا مسئلہ بھی کچھ کم اہمیت کا حامل نہیں اس مسئلہ پر علما دو گروہوں میں منقسم ہو گئے تھے ایک گروہ مسئلہ اجتہادی کہہ کر اس کے جواز کے حق میں تھا جس کی نمائندگی دارالعلوم دیوبند کے مہتمم قاری طیب صاحب فرما رہے تھے اور دوسرا گروہ عدمِ جواز کے حق میں تھا جس کی زمامِ قیادت مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کے ہاتھ میں تھی نس بندی کے اس رستا خیز عہد میں جب کہ حکومتِ ہند کی طرف سے 5؍ جون 1976ء کو ایمر جنسی نافذ کر دی گئی، حکومت کے خلاف زبان کھولنا انتہائی سنگین جرم تھا اس عہد میں ’’میٖسا ‘‘ نامی قانون کے تحت گرفتاریاں بھی زورو شور سے ہو رہی تھیں۔ لیکن حکومتِ وقت کے جبر و ظلم اور تشدد کی پروا نہ کرتے ہوئے مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی نے قلمی جہاد فرمایا اور ظالم و جابر حکمراں کے سامنے حق گوئی کا مظاہرہ کیا، جب آپ سے فیمیلی پلاننگ(نس بندی) کے بارے میں سوا ل ہوا تو آپ نے جواباً ارشاد فرمایا:
’’ کہ نس بندی حرام ہے، حرام ہے، حرام‘‘۔
مذکورہ فتویٰ جناب ساجد علی خاں مہتمم دارالعلوم مظہرِ اسلام بریلی نے 3 ؍ رمضان المبارک 1396ھ/30؍ستمبر1976ء کو شائع کیا۔ اس کی اشاعت کے بعد فتوا میں تبدیلی کا مطالبہ کیا گیا تو مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی نے فرمایا :
’’ ہمارے یہاں فتویٰ نہیں بدلا جاتا ہے ضرورت پڑی تو حکومت بدل دی جائے گی ‘‘۔
چناں چہ ہوا بھی ایساہی کہ الیکشن میں حکمراں پارٹی ’’کانگریس ‘‘ کو بُری طر ح شکستِ فاش اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور جنتا پارٹی کی حکومت بن گئی۔ (2)
اسلامی فرائض میں جہاد اہم ترین فریضہ ہے۔ لیکن یہ اسی وقت فرض ہو گا جب اس کی شرائط پائی جائیں۔ اس کی اہم شرائط میں سلطانِ اسلام اور طاقت و قوت کا موجود ہونا انتہائی ضروری ہے۔ امام احمد رضا محدثِ بریلوی کے بہ قول :
’’مفلس پر اعانتِ مال نہیں، بے دست و پا پر اعانتِ اعمال نہیں، لہٰذا مسلمانانِ ہند پر حکمِ جہاد و قتال نہیں۔ ‘‘ (3)
تحریکِ جہاد کا نعرہ مسٹر موہن داس کرم چند گاندھی اور ان کے ہم نواؤں نے یہ باور کر کے لگایا تھا کہ ہم ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرائیں گے چاہے مال کے ذریعہ چاہے جان کے ذریعہ۔ مسلمان چوں کہ فطرتاً جذباتی ہوتے ہیں اس لیے انہوں نے فوراً نعرۂ جہاد کو قبول کر لیا کیوں کہ کہا یوں گیا تھا کہ یہ جہاد انگریزوں کے خلاف ہے حال آں کہ اس کی حقیقت اس کے بر عکس تھی مسٹر گاندھی بے دست و پا مسلمانوں کو در پردہ مفلس و قلاش بنانا چاہتے تھے اور ان کے پاس جو مال و متاع تھی وہ جہاد کی نذر ہو جائے تاکہ قومِ مسلم ایک قوت بن کر نہ ابھر سکے۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی جہاد کے مخالف نہ تھے مگر ایسی بے سروساما نی، مفلسی اور تنگ دستی کی حالت دیکھ کر آپ نے مخالفتِ جہاد کی شرعی کوشش کی چوں کہ جہاد کی شرائط اس وقت ہندوستان میں نہیں پائی جاتی تھی آپ نے تحریر فرمایا :
’’جو حکم انسانی قوت و طاقتِ بشری، وسعت واستطاعت سے باہر ہو وہ ہرگز حکمِ شریعتِ مطہرہ نہیں، جس حکم میں باقاعدہ اتلافِ جان و اہلاکِ نفس ہو وہ اس شرع مبین کا حکم نہیں، یو ہیں جس حکم سے سوتے فتنے جاگیں فساد برپا ہوں وہ کبھی مقدس اسلام کا حکم نہیں ہوسکتا اب یہی خود دیکھ لیں یہاں اس وقت حکمِ جہاد میں تکلیف مالایطاق ہے یا نہیں ؟ اس میں فائدہ ہے یا مضرت ؟ جانوں کی بلاوجہ ہلاکت ہے یا حفاظت، فتنہ و فساد کی اشارت ہے یا اقامت ؟ اس میں مسلمانوں کی عزت ہے یا ذلّت؟ یہ حکم قبل از وقت ہے یا خاص وقت پر؟ ان امور پر غور کرنے کے بعد مسئلہ بالکل صاف ہو جائے گا، اصلا خفا نہ ہو گا کیا نہتوں کو ان سے جو تمام ہتھیاروں سے لیس ہوں لڑنے کا حکم دینا سختی نہیں ؟ اور تکلیفِ فوق الوسعت نہیں ؟ کیا ایسوں کو جو ہتھیار چلانا بڑی بات ہے اٹھانا نہیں جانتے، جن کے وہم میں بھی کبھی نہیں گذرا کہ بندوق کس طرح اٹھاتے، تلوار کیوں کر تھامتے، مارتے، طمنچہ کیسے چلاتے ہیں، جنہوں نے کبھی جنگ کے ہنگامے، لڑائی کے معرکے خواب میں نہ دیکھے ہوں انھیں توپوں کے سامنے کر دینا کچھ زیادتی نہیں ؟ کیا ایسوں سے میدان کرانا اور ان کی جانیں مفت گنوانا عبث نہیں ؟ کیا یہ فتنہ و فساد نہیں کہ مسلمانوں کی عزیز اور قیمتی جانیں مفت ضائع ہوں ؟ اس سے بڑھ کر اور فتنہ اور اس سے زائد فساد فی الارض کیا ہو گا؟‘‘(4)
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی ہرگز ہرگز جذبۂ جہاد کو سردکرنا نہیں چاہتے تھے انہوں نے ایک باخبر مفتی اور فقیہہ کی حیثیت سے شرعی حکم صادر فرمایا، اس میں نہ انگریزوں کی طر ف داری مقصود تھی نہ ہی خوشامد، وہ تو ان کے سخت مخالف تھے ان کے دولت کدہ پر بڑے بڑے سربراہانِ مملکت آئے مگر آپ نے ملاقات تک نہ کی اور وہ خود ہی بغیر ملاقات کے واپس چلے گئے۔ آ پ نے نام نہاد تحریکِ جہاد کا رد کرتے ہوئے شریعتِ مطہرہ کا واضح حکم یوں بیان کیا :
’’یہاں کے نہتے بے سروپا جنگ سے ناواقف مسلمان، ان پر خود سلطانِ اسلام جس کے پاس سامانِ حرب بھی ہو اور باقاعدہ فوج بھی وہ اگر یہ سمجھے کہ کفار زائد ہیں یہ فوج و سامان انہیں کافی نہ ہو گا تو ایسی حا لت میں اسے ان سے پہل ناجائز ہے۔ ‘‘ (5)
واضح ہو کہ جس دور میں مسلمانوں کو جہاد کے لیے اکسایاجا رہا تھا، اس وقت جہاد کی شرائط عنقا تھیں۔ اور مسلمان مالی اور دیگر لحاظ سے انتہائی کمزور اور بے دست و پا تھے، جب کہ دشمن انتہائی طاقت ور اور ہتھیاروں سے لیس ، زبردست کے مقابلے میں کمزور کو پیش کرنا خود کو موت کے منہ میں ڈالنا نہیں تو اور کیا ہے ؟ مسٹرگاندھی کے مشوروں سے اس عہد کے بہت سارے مسلمان لیڈروں نے قرآن و حدیث کے حوالے سے ’’جہاد جہاد‘‘ کا نعرہ دیا تاکہ مسلمان قریب سے قریب تر ہو جائیں، ایک طرف گاندھی نے اخبارات میں شائع کرنا شروع کر دیا کہ میرا مذہب کشت و خون کو روا نہیں رکھتا ہم تو’’ اہنسا کے پُجاری ‘‘ہیں اور ’’عدم تشدد‘‘ پر یقین رکھتے ہیں۔ تو دوسری طرف انگریزوں کو مرعوب کرنے بل کہ درپردہ اسلام کو بدنام کرنے کے لیے یہ پالیسی اختیار کی کہ مسلمان ہر لمحہ جہاد جہاد پکارتے رہیں۔ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی پس پردہ سازش سے نقاب اُٹھاتے ہوئے یوں فرماتے ہیں :
’’اس وقت یہ جہاد بھی اسی دشمنِ اسلام و مسلمین گاندھیِ بد دین کا حکم ہے۔ جیسے پہلے ہجرت سے نقصان پہونچائے، مسلمانوں کو خانماں برباد کرائے، ان کی بیش بہا جائداد یں اور اموال کوڑیوں میں بکوائے، سب کے کوڑے کرائے، غریب مسلمانوں میں اتنا روپیہ کہاں تھا، یوں اپنے ہندو بھائیوں کو دلوائے، یوہیں یہ مسئلہ جہاد نکال کر اس نے چاہا کہ مسلمانوں کو جن کی روح بالکل فنا ہو چکی ہے کچھ یوہیں سی رمق باقی ہے یہ بھی کیوں رہ جائے بالکل تباہ کرائے۔ ‘‘ (6)
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی نے ہر اس تحریک کا رد کیا جو اسلامی اصولوں اور بنیادوں سے ہٹ کر چلی، جس تحریک نے بہ نامِ اسلام اسلامی اصولوں سے کھلواڑ کیا اس کی بھی آپ نے سختی سے تردید فرمائی اور مسلمانوں کو آگاہ کرتے ہوئے تنبیہاً تحریر فرمایا :
’’کاش اب بھی سنبھلو !اور ان گندم نما جو فروشوں سے بھاگو ان کی تو دلی خواہش ہے کہ تم مشقت میں پڑو۔ قد بدت البغضا من افواہہم وما تخفی صدورہم اکبر قد بینا الاٰیات ان کنتم تعقلون۔ ‘‘ ۔۔ ’’خدا کے لیے ہماری اس یا د دہانی سے فائدہ اٹھایئے اور خلقِ خدا کو راہِ راست پر لایئے ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے اور اب آپ اپنا فر ض ادا کیجیے۔ ‘‘ (7)
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کے دل میں اسلام کا درد اور مسلمانوں کے کامیاب مستقبل کی فکر تھی آپ کی سوچ مسلمانوں کے مستقبل کو تاب ناک اور روشن بنانے کی تھی، انہوں نے اپنی سیاسی بالغ نظری اور دوراندیشی کو بروئے کار لاتے ہوئے اس دور میں چلنے والی سیاسی تحریکات کا صرف ظاہری خد و خال نہیں دیکھا بل کہ اس کا گہرائی سے مشاہدہ کرنے کے بعد ملّتِ اسلامیہ کی صحیح رہِ نمائی فرمائی۔
1919ء میں خلافت کا مسئلہ پیش آیا تو اس وقت بھی آپ نے امتِ مسلمہ کی صحیح قیادت اور رہِ نمائی کا فریضہ انجام دیا، امام احمد رضا محدثِ بریلوی کی تصنیف ’دوام العیش فی ائمۃ من القریش 1334ھ‘ پر آپ نے ایک جامع، پُر مغز اور معلومات افزا مقدمہ تحریر فرمایا جو آ پ کی اعلا ترین سیاسی بصیرت و بصارت کا منہ بولتا نمونہ ہے۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی نے تحریکِ خلافت کے حامیوں سے تین سوالات کیے جو ترکی کے سلطان عبدالحمید کو خلیفۂ شرعی تسلیم کرانے پر اصرار کرتے تھے، ذرا ان سوالات کو ملاحظہ کیجیے اور مفتیِ اعظم حضرت نوریؔ بریلوی کی سیاسی سوجھ بوجھ اور بالغ نظری کے ساتھ ساتھ ان کے علم دین کا کمال بھی دیکھیے :
’’(1) سلطان مراد کی معزولی کے بعد عبدالحمید خاں سلطانِ ترکی ہوئے اگر سلطان مراد کو خلیفہ تسلیم کیا جائے تو سلطان عبدالحمید پر کیا حکم لگایا جائے گا؟
(2) غازی مصطفیٰ کمال پاشا نے سلطان عبدالحمید خاں کو معزول کیا اگر واقعی عبدالحمید خاں خلیفہ تھے تو مصطفیٰ کما ل پا شا پر کیا حکم لگایا جائے گا ؟
(3) جب سلطان عبدالحمید خاں کی خلافت سے انکار کفر تھا تو جس نے اس کو معزول کیا اس پر تو اس سے بڑ ا فتویٰ لگنا چاہیے تھا مگر غازی مصطفیٰ کمال پاشا پر فتویٰ لگانے کی بجائے ان کو مبارک با دی کے تار بھیجے گئے ‘‘۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی نے ارکانِ خلا فت سے یوں سوال کیا :
’’کیا ان کو باغی و کافر کہا جائے گا جس طر ح شریفِ مکہ ملک الحجاز کو سلطان کی اطاعت سے سرتابی پر واجب القتل کا حکم لگایا جاچکا ہے۔ ‘‘
آگے چل کر بڑے ناصحانہ انداز میں اصلاح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’انسان کو چاہیے کہ بات کہنے اور کرنے سے پہلے اس کے قال و انجام پر نظر رکھے، جس کا آخر حَسن ہو اسے اختیار کرے ورنہ نہیں، تیرہ سو برس کے اجتماعی اتفاقی مسئلہ میں اختلاف سوائے کشت و افتراقِ بین المسلمین اور کیا تھا ؟ ترکوں کو اس سے کچھ فائدہ نہ ہوا ہاں ! اختلافِ مسلمین میں ایک اور اضافہ ہو گیا ‘‘۔ (8)
تحریکِ خلافت کے زمانہ میں جو سب سے عجیب بات دیکھی گئی وہ یہ تھی کہ جو حضرات خلافتِ اسلامیہ کی حفاظت کی جد و جہد کر رہے تھے، وہ اہلِ ہنود کی ہم نوائی کو احیائے خلافتِ اسلامیہ کے لیے ممد ومعاون سمجھ رہے تھے اور جوش و جذبات میں اسلامی شعائر کو چھوڑ کر شعائرِ کفر اپنا رہے تھے۔ چناں چہ اس زمانے میں مسلمانوں نے اپنی پیشانی پر قشقہ بھی لگوایا، ہندو لیڈروں کی ارتھیوں پر کندھا بھی دیا، ہندو لیڈروں کو مساجد میں منبرِ رسول (صلی اللہ علیہ و سلم ) پر بٹھایا، اپنا ہادی، اپنا رہِ بر اور پیشوا بنایا، قرآنِ پاک کو مندروں میں لے جایا گیا وغیرہ۔
یہاں یہ امر ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ تحریکِ خلافت کا ظاہر یہی تھا کہ یہ سلطنتِ اسلامیہ اور خلیفۂ اسلام کی حفاظت و صیانت کے لیے چلائی جا رہی ہے۔ جب کہ اس کا تحقیقی جائزہ لینے کے بعد یہ واضح ہوتا ہے کہ اس تحریک کے ہم نواؤں نے غیر مسلموں کے ساتھ جو دیرینہ تعلقات اور مراسم روا رکھے تھے۔ اس کا شریعتِ مطہرہ ہرگز اجازت نہیں دیتی یہی وجہ ہے کہ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی نے اس کا تعاقب کیا اور اس کے نقصانات سے اہلِ اسلام کو آگاہ کیا۔ یہاں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ آپ ایک اسلامی تحریک کی مخالفت کر رہے تھے اور مسلمانانِ ترکی کی خیر خواہی کے جذبات کو سرد کر رہے تھے۔ ذیل کی تحریر چشم کشا اور سچائی کا اظہار کرتی ہوئی نظر آتی ہے :
’’ سلطنتِ اسلام تو سلطنتِ اسلام ہے۔ سلطان تو سلطان ہیں۔ ہر فردِ مسلم کی خیر خواہی لازم ہے۔۔ الدین النصح لکل مسلم ۔۔ ارشادِ پاکِ حضور صلی اللہ علیہ و سلم اس پر ناطق ہے۔ ‘‘ (9)
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی ایک صاحبِ فکر و نظر، صاحبِ بصیرت و بصارت اور مدبر سیاست داں تھے۔ جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا گیا ہے کہ آپ کی سیاسی سوجھ بوجھ میں مذہبی اثرات اس قدر نمایاں تھے کہ آ پ نے دیگر ہم عصر بازی گرانِ سیاست کی طرح مذہب و ملّت کا سودا نہیں کیا، بل کہ آپ نے ان سیاسی تحریکات کی زبردست مخالفت کی، جن سے مذہبی اصولوں اور شرعِ مطہرہ پر ضرب پڑتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے بعض ان تحریکات کا بھی تعاقب کیا جوبہ بظاہر مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے چلائی جا رہی تھیں۔ مگر جب اس کا قال اور انجام بہ نظرِ غائر دیکھا گیا تو وہ پس پردہ مسلمانوں کو نقصان اور خسارے میں ڈال کر مفلس و قلاش اور بے دست و پا بنا رہی تھیں۔ یہ مفتیِ اعظم کی تاب ناک اور پاکیزہ سیاسی فکر تھی کہ آپ نے ایسے ناگفتہ بہ حالات میں اپنے افکارِ عالیہ سے ملّتِ اسلامیہ کی حفاظت و صیانت کا فریضہ انجام دیا۔ چوں کہ آپ کی زندگی کا لمحہ لمحہ شرعی اصول و ضابطے کا آئینہ دار تھا، اور اسی کے مطابق آپ کے شب و روز بسر ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے سیاسی شعور اور افکار و نظریات کی بنیاد اسلامی افکار و خیالات سے مملو تھی۔
(1)تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں، تاریخِ جماعتِ رضائے مصطفیٰ :مولانا شہاب الدین رضوی، رضا اکیڈمی، ممبئی
(2) حجاز : مفتی اعظم نمبر، دہلی 1990ء، ص106
(3) احمد رضا بریلوی، امام:مقدمہ دوام العیش، رضا ا ا اکیڈمی، ممبئی، ص108
(4) مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:طرق الہدیٰ والارشاد، رضا اکیڈمی، ممبئی، ص20/30
(5) مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:طرق الہدیٰ والارشاد، رضا اکیڈمی، ممبئی، ص31
(6) مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:طرق الہدیٰ والارشاد، رضا اکیڈمی، ممبئی، ص41
(7) مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:طرق الہدیٰ والارشاد، رضا اکیڈمی، ممبئی، ص42/44
(8) احمد رضا بریلوی، امام:مقدمہ دوام العیش، رضا اکیڈمی، ممبئی، ص11
(9) مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی، علامہ:طرق الہدیٰ والارشاد، رضا اکیڈمی، ممبئی، ص53/54
٭٭٭
تحقیق کی روشنی میں یہ واضح کیا جا چکا ہے کہ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی دنیا ے اسلام کے عظیم روحانی پیشوا، مرجع العلماء، رہبرِ شریعت، پُر خلوص داعی، تحریک آفریں قائد، مایۂ ناز فقیہ و محدث، با فیض مدرس اور بلند پایہ نعت گو شاعر کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ نے درس وتدریس کے فرائض بھی انجام دیے۔ درسِ نظامی کی تکمیل و فراغت کے بعد 1328ھ / 1910ء میں جامعہ رضویہ منظرِ اسلام میں مسندِ تدریس کو زینت بخشی اورتدریسی سلسلہ شروع کیا۔ (1)
آپ کے تلامذہ اور خلفا کے تذکروں کے مطالعہ اور منظرِ اسلام اور مظہرِ اسلام کے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ دارا لافتا ء کے اہتمام و انصرام، فتویٰ نویسی کی زیادتی، تبلیغِ دین کے اسفار، تصنیف و تالیف اور دیگر مصروفیات کے سبب کبھی کبھار صرف مخصوص طلبہ کو درس دیتے تھے۔ اور آپ کا سلسلۂ درس و تدریس تسلسل کے ساتھ جاری نہ تھا بل کہ آپ فرصت کے لمحات میں طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے۔ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے 1328ھ / 1910ء سے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ لیکن یہ سلسلہ کس طرح اور کب تک جاری رہا ؟ اس کی وضاحت و صراحت سے آپ کی حیات و خدمات پر تحقیق و ریسرچ کرنے والے محققین و اسکالرز اور تذکرہ نگاروں کی زبانیں خاموش ہیں۔ بہ ہرکیف!آپ نے اپنا تدریسی سلسلہ تسلسل سے نہ سہی کسی نہ کسی طور پر جاری رکھا۔ اس ضمن میں ذیل کا واقعہ پیش کرنا غیر مناسب نہ ہو گا۔
1344ھ / 1926ء میں آپ کے برادرِ اکبر حجۃ الاسلام علامہ محمد حامد رضا بریلوی انجمن حزب الاحناف لاہور کے پہلے اجلاس میں شریک ہوئے۔ دو روز لاہور میں قیام کے بعد بریلی واپس آئے۔ واپسی پر حصول تعلیم کی غرض سے مولانا ابو الفضل سردار احمد رضوی لائل پوری، حامد رضا صاحب کے ہمراہ بریلی آئے۔ آپ (علامہ حامد رضا صاحب) نے اپنی سرپرستی میں خصوصی عنایات کے ساتھ تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ اور اپنے دولت خانے پر قیام و طعام کا انتظام کیا۔ جامعہ رضویہ منظرِ اسلام بریلی میں کم و بیش تین سال تک تعلیم حاصل کی۔ اس عرصے میں مولانا سردار احمد نے علامہ محمد حامد رضا بریلوی، مولانا شاہ محمد حسین کے ساتھ ساتھ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی سے درس نظامی کی کتابیں اور صرف و نحو کی ابتدائی کتابیں مولانا محمد حسین مدرس منظرِ اسلام سے پڑھیں، منیہ، کنز الدقائق اور شر ح جامی تک کی کتابوں کا درس حضرت نوریؔ بریلوی سے حاصل کیا۔ چناں چہ حضرت نوریؔ بریلوی نے اس امر کی طرف یوں اشارہ کیا ہے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو :
’’ جب میں ان (مولانا سرداراحمد ) کو دیکھتا۔ پڑھتے دیکھتا۔ مدرسہ میں قیام گاہ پر حتیٰ کہ مسجد میں آتے تو بھی کتاب ہا تھ میں ہوتی، اگر جماعت میں تا خیر ہوتی تو بجائے دیگر اذکار و اوراد کے مطالعہ میں مصروف ہو جاتے۔ ان کے اس والہانہ تحصیلِ علم سے میں بہت متاثر ہوا۔ میرے پا س دوسرے پنجابی طالب علم مولوی نذیر احمد سلمہ پڑھتے تھے۔ ان سے دریافت کرنے پر آپ کی ساری سرگزشت سنائی۔ پھر ان کے ذریعہ وہ(مولانا محمد سردار احمد)میرے پاس آنے جا نے لگے۔ ان کے بہ اصرار درخواست اور مولوی نذیر احمد سلمہ کی سفارش پر میں نے منیہ، قدوری، کنز الدقائق اور شرح جامی تک پڑھایا۔ ‘‘(2)
علاوہ ازیں مولانامفتی محمد اعجاز ولی خاں رضوی بریلوی( متولد1332ھ / 1914ء متوفی 1393ھ / 1973ء) نے بھی حضرت نوریؔ بریلوی سے شرح جامی پڑھی اور 1352ھ / 1929ئمیں آپ سے سند حدیث حاصل کی۔ مولانا معین الدین شافعی قادری(متولد 1357ھ/1939ء) ناظم اعلیٰ جامعہ قادریہ رضویہ لائل پور نے بھی مفتیِ اعظم سے میزان، نحو میر تک کی کتابیں مستقل سبقاً سبقاً پڑھیں اور 1950ء میں جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام بریلی سے سند فراغت حاصل کی۔ بعد میں آپ نے اجمیر مقدس میں آستانۂ عالیہ پر مولانا معین الدین شافعی کو دستار خلافت کے ساتھ ’’تاج العلم و الفضل ‘‘ کی سند بھی عطا کی۔ اور بعد ازاں عدیم الفرصتی کے سبب آپ نے درس ورتدریس کاسلسلہ موقوف کر دیا لیکن مدارسِ اسلامیہ کے ماہرینِ علوم و فنون، اساتذۂ کرام خصوصاً جامعہ رضویہ منظرِ اسلام اور جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام کے اساتذہ اور فارغ ہونے والے طلبہ آپ سے صحاحِ ستّہ اور درسِ نظامی کی منتہی کتابوں کا درس لیتے اور شرف تلمذ حاصل کرتے رہے۔
مندرجہ بالا تحقیق سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ مفتیِ اعظم قدس سرہ نے 1328ھ / 1910ء سے 1366ھ /1947ء تک درس و تدریس کا سلسلہ کسی نہ کسی طور جاری رکھا۔ بعد میں رضوی دارالافتاء کی کثرت، جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام کی ادارت و سرپرستی اور تبلیغی اسفار کے سبب تدریس کا سلسلہ موقوف ہوا، اور یہ بھی واضح ہو اکہ مدارسِ اسلامیہ کے اساتذہ و طلبہ آپ سے درس لیا کرتے تھے۔ چناں چہ مدارسِ اسلامیہ کی تعطیلِ کلاں ماہِ شعبان المعظم اور ماہِ رمضان المبارک میں بعض مدارس کے اساتذہ و فارغ التحصیل طلبہ نیز زیرِ تعلیم طلبہ اپنے آپ کو حضرت نوریؔ بریلوی کے حلقۂ شاگردی میں شمار ہونے کی سعادت حاصل کرنے کی غرض سے بریلی حاضر ہوتے اور آپ سے صحاح ستّہ اور دیگر درسی کتابوں کا درس لیتے۔ اس ضمن میں علامہ ضیاء المصطفیٰ اعظمی اپنا ذاتی واقعہ یوں بیان کرتے ہیں :
’’علومِ اسلامیہ کی عربی درس گاہوں میں عموماً رمضان المبارک میں تعطیلِ کلاں ہوتی ہے۔ ان تعطیلات میں بریلی حاضر ہو کر فقیر ضیاء المصطفیٰ حضرت مفتی اعظم (نوریؔ بریلوی) رضی اﷲ عنہ وارضاہ عنا سے علمی استفادہ کرتا، ایک سال تعطیل کلاں میں حضرت مفتی اعظم قدس سرہ سے صحاح ستّہ میں ابو داود شریف و ابن ماجہ شریف پڑھی۔ حضرت مفتی اعظم نے ان دونوں کتابوں کی اجازت بھی عطا فرمائی۔ ‘‘(3)
مفتیِ اعظم قدس سرہ جب تبلیغِ دین اور اشاعتِ مذہب کی غرض سے دورے پر ہوتے تو کسی نا کسی جامعہ یا دارالعلوم میں آپ ضرور تشریف لے جاتے تو اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھا کر ان جامعات کے اساتذہ بھی خود کو آپ کے حلقہ شاگردی میں شامل کرنے کے لیے التماس کر کے درس حدیث کی نورانی و عرفانی محفل آراستہ کرتے اور درس لیتے چناں چہ درسِ حدیث کی ایسی ہی ایک نورانی و عرفانی محفل کا تذکرہ قاضی عبد الرحیم رضوی بستوی نے یوں کیا ہے :
’’حضرت مفتی اعظم(نوریؔ بریلوی) قدس سرہ ایک سال دارالعلوم فیض الرسول، براؤں کے سالانہ جلسۂ دستارِ فضیلت کے موقع پر براؤں تشریف لے گئے۔ ساتھ میں مَیں اور مفتی شریف الحق صاحب امجدی مدظلہ بھی تھے۔ دارالعلوم فیض الرسول کے اساتذہ و منتظمین نے حضرت کا شان دار استقبال کیا۔ حضرت فیض الرسول پہنچے کئی روز قیام رہا۔ اسی موقع پر فیض الرسول کے اساتذہ نے حضرت مفتی اعظم قدس سرہ سے درسِ حدیث لے کر اجازتِ حدیث لینے کا فیصلہ کیا۔ حضرت مفتی اعظم کی اجازت سے درسِ حدیث کی ایک نورانی مجلس بڑے تزک و احتشام سے منعقد ہو ئی۔ درسِ حدیث کی اس مجلس میں شرکا پر لازم قرار دیا گیا کہ وہ عمامہ باندھ کر ہی شریک ہوں۔ چناں چہ سارے اساتذۂ فیض الرسول درسِ حدیث کی اس مجلس میں عمامہ باندھ کر شریک ہوئے۔ حضرت مفتی اعظم قدس سرہ نے بخاری شریف کی ایک حدیث کا درس دیا۔ درسِ بخاری سے فراغت کے بعد جمیع شرکائے درس کو حدیث مسلسل بالاولیہ، حدیث مصافحہ اور حدیثِ تمر کی عملاً اجازت عطا فرمائی۔ نیز النور و البہا میں درج شدہ جملہ اجازتیں عطا فرمائیں۔ بخاری شریف کے اس درس میں، مَیں، مفتی شریف الحق امجدی صاحب، مولانا غلام جیلانی صاحب، مولانا جلال الدین صاحب، مولانا محمد یونس صاحب، مولانا محمد حنیف صاحب بستوی اور مولانا قدرت اﷲ وغیرہ شریک تھے۔ ‘‘(4)
علاوہ ازیں آپ صحت کے زمانے میں عموماً بعدِ عشآرضوی دارالافتاء میں تشریف رکھتے تھے۔ اس وقت علمائے کرام اور مفتیانِ عظام آپ سے استفادہ کرتے تھے۔ چناں چہ اس دوران مولانا محمد نعیم اللہ رضوی، صدرالمدرسین جامعہ منظرِ اسلام بریلی آپ سے استفادہ کرتے اور مشکل مقامات کو حل کرتے تھے۔
تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی اعلا تدریسی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ باوجود یہ کہ آپ نے اپنا تدریسی سلسلہ مسلسل جاری نہ رکھا، پھر بھی آپ کو اپنے عہد کے دیگر ممتاز اساتذہ میں نمایاں مقام حاصل رہا۔ علم و فضل کے اعتبار سے آپ بلند رُتبے پر فائز تھے۔ درسِ نظامی کے باریک باریک اُمور پر آپ گہری نظر رکھتے تھے۔ اس مقام پر آپ کی تدریسی صلاحیتوں، مبلغِ علم کی بلندی اور درسِ نظامی پر کامل دست گاہ کے بارے میں مفتی محمد اعظم رضوی ٹانڈوی، شیخ الحدیث جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام، بریلی کے خیالات کو پیش کرنا غیر مناسب نہ ہو گا :
’’ایک بار جب کہ میں رضوی دارالافتاء میں بیٹھا مشکوٰۃ شریف کا مطالعہ کر رہا تھا کیوں کہ مجھے یہ کتاب پڑھانے کے لیے دی گئی تھی۔ حدیثِ جبریل میں جہاں قیامت کے علم کو پانچ ان علوم میں بتایا گیا ہے جنھیں بے بتائے کوئی نہیں جانتا سوائے اﷲ تعالیٰ کے۔ میں اس حدیث کو کئی بار پڑھا چکا تھا۔ علومِ خمسہ طلبہ کو سمجھاچکا تھا بما لہ وماعلیہ۔ لیکن مجھے خود سمجھانے کے باوجود حضرت مفتی اعظم(نوریؔ بریلوی) علیہ الرحمۃسے اس حدیث کو سمجھنے کا شوق ہوا۔ میں نے حضرت مفتی اعظم رحمۃ اﷲ علیہ سے دریافت کیا کہ حضور! اس حدیث میں پانچ علوم کے مخلوق کو علم ذاتی نہ ہونے کی تخصیص ہے، تو پانچ ہی کی تخصیص کیوں کی گئی حال آں کہ کسی چیز کا علمِ ذاتی مخلوق کو نہیں۔ حضرت مفتی اعظم نے ارشاد فرمایا: آپ نے کہا ہے کہ علوم خمسہ کی تخصیص کی گئی۔ یہاں تخصیص کہاں ہے ؟ میں متنبہ ہوا اور سمجھ گیا کہ حضرت نے مجھے اس بات پر تنبیہ کی ہے کہ آپ کو تخصیص نہیں کہنا چاہیے تھا کہ تخصیص علمِ معانی و بیان میں خاص صورت میں ہوتی ہے، خاص کلمات کے ذریعہ نفی اور استثناکے ذریعہ اور کلمہ انما کے ذریعہ اور تقدیم وغیرہ کے ذریعہ۔ اور یہاں ایسی کوئی صورت نہیں۔ مجھے یہاں تخصیص نہیں بولنا چاہیے تھا۔ اس کے بعد فوراً حضرت مفتی اعظم نے فرمایا: یہ کہیے علومِ خمسہ کی تخصیصِ بالذکر کی گئی۔ اس تنبیہ سے میں نے حضرت مفتی اعظم کے مبلغِ علم کی بلندی اور تعمقِ نظر و فکر کو خوب سمجھ لیا اور میں نے اندازہ لگا لیا کہ حضور مفتی اعظم کا درس نظامی پر گہرا مطالعہ ہے۔ اگرچہ مفتی اعظم کہلاتے ہیں، مگر مدرسِ اعظم بھی ہیں۔ پھر حضرت نے وہ بتا یا جو میں جاننا چاہتا تھا۔
حضرت مفتی اعظم نے فرمایا :
بے شک عالم کے کسی ذرّے کا بھی علم مخلوق کو بے عطائے الٰہی حاصل نہیں کہ علمِ ذاتی خاص ہے اﷲ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ۔ حدیث شریف کایہ مطلب ہرگز نہیں کہ پانچ چیزوں کا علمِ ذاتی مخلوق کو نہیں اور ان پانچ کے سوا کا معاذ اﷲ ذاتی مخلوق کو ہے۔ اصل میں پانچ کی تخصیص ذکر کے ساتھ اس لیے کی گئی کہ اس زمانے میں کاہن، قائف، اور ساحر وغیرہ ان پانچ چیزوں کے علم کا دعوا کیا کرتے تھے اور وہ گمراہ تھے۔ وہ اس قابل نہیں تھے کہ اﷲ عزوجل انھیں ان چیزوں کا علم عطا فرمائے۔ جب انھیں اﷲ تعالیٰ نے بتایانہیں اور وہ ان علوم کے جاننے کے مدعی تھے تو ان کے دعوے سے نکلتا تھاکہ انھیں ان چیزوں کاعلم ذاتی ہے۔ تو قرآن و حدیث میں ان کا رد کیا گیاکہ اﷲ تعالیٰ کے بے بتائے جو یہ دعوا کر رہے ہیں وہ غلط اور باطل ہے۔ ان علوم کو بھی وہی جانتے ہیں جنھیں اﷲ بتائے۔ اور یہ کاہن وغیرہ نہیں جانتے۔ یہ ہے وجہ تخصیصِ بالذکر کی۔ یہ ایک حدیثِ خا ص حضرت نے مجھے سمجھائی اور پتہ نہیں کتنی بار فتاویٰ سناتے اور دکھاتے وقت تفسیر و حدیث اور فقہ وغیرہ کی کتابوں کے مطالب سمجھائے اور بتائے۔ ‘‘(5)
مفتیِ اعظم حضرت نوری بریلوی کے درس نظامی کی انفرادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ کے جانشین تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضا قادری ازہری دام ظلہ العالی اپنی فتویٰ نویسی کی ابتدا بیان کرتے ہوئے راقم ہیں :
’’جامعہ ازہر سے واپسی کے بعد میں نے اپنی دل چسپی کی بنا پر فتوے کا کام شروع کیا۔۔ شروع شروع میں مفتی افضل حسین صاحب علیہ الرحمہ اور دوسرے مفتیان کرام کی نگرانی میں یہ کام کرتا رہا۔۔ اور کبھی کبھی حضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر فتویٰ دکھا یا کرتا تھا۔۔ کچھ دنوں بعد اس کام میں میری دل چسپی زیادہ بڑھ گئی اور پھر میں مستقل حضرت کی خدمت میں حاضر ہونے لگا۔۔ حضرت کی توجہ سے مختصر مدت میں اس کام میں مجھے وہ فیض حاصل ہوا کہ جو کسی کے پاس مدتوں بیٹھنے سے بھی نہ ہوتا۔ ‘‘(6)
علاوہ ازیں آپ سے بیش تر حضرات نے فتویٰ نویسی کی تربیت بھی لی اور اپنے فتاویٰ پر اصلاح و نظر ثانی کے لیے آپ کی بارگاہ میں رہ کر مدتوں بعض علمائے دین نے کسبِ فیض کیا۔ اس دوران کبھی کبھار اصلاحِ فتاویٰ کے ساتھ ساتھ درس و تدریسِ حدیث کاسلسلہ بھی چل نکلتا۔ فتویٰ نویسی سیکھنے کے دوران جب علماآپ کو فتاویٰ دکھاتے اور سناتے اس وقت مفتیِ اعظم تفسیر و حدیث اور فقہ و اصول کی سیکڑوں کتابوں کے مطالب سمجھاتے اور ان کی زنبیلِ حیات میں علم وفن کے گہر ہائے آب دار کا اضافہ کرتے۔
مفتیِ اعظم قدس سرہ کے ہم عصر علما و فقہا، مفسرین و محدثین اور متکلمین و مناظرین آپ سے علمی استفادہ کرتے اور شرعی مسائل میں آپ سے رجوع ہوتے۔ مزید یہ کہ پیچیدہ و لاینحل مسائل کے حل کے لیے آپ کے یہاں حاضر ہوتے تھے۔ آپ جب تک حیات رہے یہ سلسلہ جاری رہا۔ علما و طلبہ آتے گئے اور آپ کے علمی فیض سے مالامال ہوتے گئے۔ ا ور جنھیں آپ کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا وہ اپنے آپ کو سعادت مند اورخوش قسمت تصور کرتے ہیں۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کا طریقۂ تعلیم اور درسِ افتا امتیازی شان کا حامل تھا۔ آپ درسِ افتا میں اس بات کا التزام فرماتے تھے کہ محض نفسِ حکم سے واقفیت نہ ہو بل کہ اس کے ما علیہ ومالہٗ کے تمام نشیب و فراز ذہن نشین ہو جائیں۔ پہلے آیات و احادیث سے استدلال کرتے، پھر اصولِ فقہ و حدیث سے اس کی تائید دکھاتے اور قواعدِ کلیہ کی روشنی میں اس کا جائزہ لے کر کتبِ فقہ سے اس کی جزئیات پیش فرماتے، اور مزید اطمینان کے لیے فتاویٰ رضویہ یا امام احمد رضا بریلوی کا ارشاد بیان کرتے۔ اگر مسئلہ میں اختلاف ہوتا تو قول راجح کی تعیین دلائل سے کرتے اور اصولِ افتا کی روشنی میں ماعلیہ الفتویٰ کی نشاندہی کرتے۔ پھرفتاویٰ رضویہ یا امام احمد رضا بریلوی کے ارشاد سے اس کی تائید پیش فرماتے۔ مگر عموماً یہ سب زبانی ہوتا۔ عام طور سے جواب بہت مختصر اور سادہ لکھنے کی تاکید فرماتے، ہاں ! کسی عالم کا بھیجا ہوا استفتا ہوتا اور وہ ان تفصیلات کا خواست گار ہوتا تو پھر جواب میں وہی رنگ اختیار کرنے کی بات ارشاد فرماتے۔
مفتیِ اعظم قدس سرہ کے درسِ افتا اور اصلاحِ فتاویٰ سے متعلق آپ کے نائب شارح بخاری، مفتی محمد شریف الحق امجدی نے یوں اظہارِ خیال کیا ہے :
’’میں گیارہ سال تین ماہ خدمت میں حاضر رہا۔ اس مدت میں چوبیس ہزار مسائل لکھے ہیں، جن میں کم از کم دس ہزار وہ ہیں جن پر حضرت مفتی اعظم کی تصحیح و تصدیق ہے۔ عالم یہ ہوتا کہ دن بھر بل کہ بعدِ مغرب بھی دو گھنٹے تک حاجت مندوں کی بھیڑ رہتی۔ یہ حاجت مند خوش خبری لے کر نہیں آتے، سب اپنا اپنا دکھڑا سناتے، غم آگیں واقعات سننے کے بعد دماغ کا کیا حال ہوتا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔ اتنے طویل عرصے تک اس غم آگیں ماحول سے فارغ ہونے کے بعد، عشآ بعد پھر تشریف رکھتے اور میں اپنے لکھے ہوئے مسائل سناتا، میں گھسا پٹا نہیں بل کہ بہت سوچ سمجھ کر، جانچ تول کر مسئلہ لکھتا، مگر واہ رے ! مفتی اعظم۔ اگر کہیں ذرا بھی غلطی ہے، لوچ ہے یا بے ربطی ہے، یا تعبیر غیر مناسب ہے، یا سوال کے ماحول کے مطابق جواب میں کمی بیشی ہے، یا کہیں سے کوئی غلط فہمی کا ذرا بھی اندیشہ ہے فوراًاس پر تنبیہ فرما دیتے اور مناسب اصلاح۔ تنقید آسان ہے مگر اصلاح دشوار، جو لکھا گیا ہے وہ نہیں ہونا چاہیے، اس کو کوئی بھی ذہین نقاد کہہ سکتا ہے، مگر اس کو بدل کر لکھا جائے، یہ جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ مگر ستّر سالہ مفتی اعظم کا علم ایسا جوان تھا کہ تنقید کے بعد فوراً اصلاح فرما دیتے اور ایسی اصلاح کہ پھر قلم ٹوٹ کر رہ جاتا۔
کبھی ایسے جاں فزا تبسم کے ساتھ کہ قربان ہونے کا جذبہ حدِ اضطرار کو پہنچ جائے، کبھی ایسے جلال کے ساتھ کہ اعصاب جواب د ے جائیں۔ مگر اس جلال کو کون سانام دیں جس کے مخاطب کی جراتِ رندانہ اور بڑھ جاتی کیا کیجیے گا؟ اگر جلال سے مرعوب ہو کر چپ رہتے تو جلال اور بڑھتا، بڑھتا رہتا یہاں تک کہ مخاطب کو عرض معروض کرنا ہی پڑتا۔ یہ جلال وہ جلال تھا کہ جو اس کا مورد بنا کندن ہو گیا ۔۔یہ مجلس آدھی رات سے پہلے کبھی ختم نہ ہوتی۔ بارہا رات کے دو بج جاتے اور رمضان شریف میں تو سحری کا وقت روز ہو جاتا۔
بارہا ایسا ہوتا کہ حکم کی تائید میں کوئی عبارت نہ ملتی تو اپنی صواب دید سے حکم لکھ دیتا۔ کبھی دور دراز کی عبارت سے تائید لاتا۔ مگر مفتی اعظم ان کتابوں کی عبارتیں جو دارالافتاء میں نہ تھیں زبانی لکھوا دیتے۔ میں حیران رہ جاتا، یا اﷲ! کبھی کتاب کا مطالعہ کرتے نہیں، یہ عبارتیں زبانی کیسے یاد ہیں ؟ پیچیدہ سے پیچیدہ دقیق سے دقیق مسائل پر بداہۃً ایسی تقریر فرماتے کہ معلوم ہوتا تھا اس پر بڑی محنت سے تیاری کی ہے۔
سب جانتے ہیں کہ کلام بہت کم فرماتے مگر جب ضرورت ہوتی تو ایسی بحث فرماتے کہ اجلہ علما انگشت بدنداں رہ جاتے۔ کسی مسئلہ میں فقہا کے متعدد اقوال ہیں تو سب دماغ میں ہر وقت حاضر رہتے، سب کے دلائل، وجوہِ ترجیح، اور قولِ مختار و مفتی بہ پر تیقن اور ان سب اقوال پر اس کی وجہِ ترجیح سب ازبر۔ بابِ نکاح میں ایک مسئلہ ایسا ہے جس کی بہتّر(72)صورتیں ہیں اور کثیر الوقوع بھی ہیں، پہلی بار جب میں نے اس کو لکھا، سوال مبہم تھا، میں نے بیس(20) پچیس(25) شق قائم کر کے چار ورق فل اسکیپ کاغذ پر لکھا جب سنانے بیٹھا تو فرمایا :
’’یہ طول طویل شق در شق اور شق در شق جواب کون سمجھ پائے گا ؟ پھر اگر لوگ خدا ناترس ہوئے تو جو شق اپنے مطلب کی ہو گی اس کے مطابق واقعہ بنا لیں گے۔ آج ہندوستان میں یہ صورت رائج ہے اسی کے مطابق حکم لکھ کر بھیج دیں یہ قید لگا کر کہ آپ کے یہاں یہی صورت تھی تو حکم یہ ہے۔ ‘‘
یہ جواب فل اسکیپ کے آدھے ورق سے بھی کم پر مع تائیدات آ گیا۔ اس واقعہ نے بتایا کہ کتب بینی سے علم حاصل کر لینا اور بات ہے اور فتویٰ لکھنا اور بات۔ ‘‘(7)
متذکرہ واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مفتیِ اعظم قدس سرہ کا طریقۂ تعلیم انتہائی عمدہ تھا۔ آپ نہایت شفقت ومحبت سے اپنے طلبہ کو پڑھاتے تھے۔ پیچیدہ سے پیچیدہ اور دقیق سے دقیق مسائل کو اس آسانی سے سمجھاتے کہ وہ طلبہ کے ذہن نشیٖن ہو جاتا۔ فتویٰ نویسی کی تربیت لینے والے علما سے آپ ہمیشہ فرماتے تھے کہ استفتا کے جواب میں جو صورت رائج ہو اس کے مطابق حکم واضح کریں اور جواب طول طویل دینے کی بجائے اجمالاً مگر جامع دیا جائے۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی طلبہ سے مشفقانہ و مربیانہ اور محبت آمیز رویہ رکھتے تھے۔ آپ طلبہ پر نہایت مہربان تھے، انھیں شفقت و محبت سے نوازتے اور ہر طرح ان کی خدمت کرتے حتیٰ کہ غریب و نادار طلبہ کو خفیہ طور پر خرچ کے لیے رقوم بھی عنایت فرماتے۔ یوں ہی درس وتدریس کے ذریعہ ان کی خدمت کرتے، نہایت شفقت و محبت سے ان کو پڑھاتے، علمِ نافع حاصل ہونے کی دعائیں دیتے، کوئی طالب علم مسئلہ دریافت کرتا یا حدیث یا فقہ کی کتاب کے آغاز کے وقت تبرکاً پڑھنے کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا، آپ نہایت شفقت سے جواب دے کر مطمئن فرماتے، جلسۂ دستارِ فضیلت کے موقع پر علما و طلبہ کے لیے خصوصی دعوت کا اہتمام فرماتے تھے۔ خوشی کے موقع پر کھانے پکوا کر طلبہ کو کھلاتے۔ بیش تر طلبہ ایسے تھے جو دونوں وقت آپ کے یہاں کھاتے تھے، بعض طلبہ کو ان کے ذوقِ علمی کی بنا پر آپ خود اپنے مکان پر ٹھہراتے اور نہایت لطف و کرم سے قیام و طعام کا بندوبست فرماتے نیز ان کو اپنے علمی و روحانی فیضان سے مالا مال کرتے۔ غرض یہ کہ علما کی توقیر، طلبہ سے شفقت و محبت جو آج کل بڑی بڑی ہستیوں میں مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ وہ آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔
آپ کا علمی رعب و دبدبہ اور روحانیت ساری دنیا پر واضح ہے، آپ عالمِ اسلام میں مسلمانوں کی توجہ کا مرکز تھے۔ اس کے باوجود اپنے شاگرد رشید مولانا سردار احمد رضوی لائل پوری کو کن الفاظ سے یا د کرتے ہیں، آپ کے ایک مکتوب کا اقتباس نشانِ خاطر کرتے ہوئے اپنے شاگرد کے تئیں اُن کی والہانہ شفقت و محبت کا اندازہ کیجئے :
’’آپ کے مدرسہ اور خدماتِ دینی کا حال ہر آنے والے سے معلوم ہوتا رہتا ہے۔ ماشا ء اﷲ لاحول ولاقوۃ الا باللہ۔ مولا تعالیٰ آپ کے فیض کو اور زیادہ سے زیادہ کرے اور دارین کی نعمتوں، برکتوں سے آپ کو مالامال کرے اور بہت بہت ترقیاں ہر قسم کی دینی و دنیوی نصیب فرمائے آپ کی خدماتِ دینی کو شرفِ قبول بخشے اور بیش از بیش توفیقِ خیر دے اور آپ کو اس فقیر حقیر گناہ گار، عصیاں کار کے لیے سرمایۂ نجات بنائے۔ آپ کی دینی خدمات سُن سُن کر د ل باغ باغ ہے۔ ‘‘ (8)
دورِ حاضر کے اساتذہ کے لیے مفتیِ اعظم قدس سرہ کا اپنے تلامذہ کے ساتھ یہ محبت آمیز رویہ ایک درس پیش کرتا ہے کہ اتنی عظیم اور بلند پایہ شخصیت جب اپنے شاگردوں کے ساتھ ایسا مشفقانہ برتاؤ ر کھتی تھی تو انھیں بھی چاہیے کہ آپ کے اس طرزِ عمل کو مشعلِ راہ بنائیں۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کے شاگردوں اور آپ سے علمی و فقہی استفادہ کرنے والوں میں بڑے بڑے علما و فقہا، مدرسین و محققین، مفسرین و محدثین، متکلمین و مناظرین گزرے ہیں جن کی ہند و پاک اور دیگر ممالک میں ایک بڑی جماعت ہے۔ گو کہ بعض اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے ہیں اور بقیہ جو بہ قید حیات ہیں وہ ہمہ وقت دین و مذہب اور حق و صداقت کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں۔ آپ کے تلامذہ و مستفیدین عالم، عامل، مدرس، مقرر، مفسر و محدث، مناظر و متکلم، منطقی و فلسفی، محقق و مصنف، فقیہ و قاضی اور مفتی ہونے کا ساتھ ساتھ ملک و ملت کے بہی خواہ، ہم درد اور بے لوث خادم ہیں۔
استاذ کی سیرت و کردار، علم و عمل کی پختگی اور قول و فعل کی یکسانیت اور ہم آہنگی کا اثر تلامذہ پر ضرور پڑتا ہے۔ خصوصاً جب استاذ کی علمی و روحانی قوت اپنے معاصر علما و مشائخ سے بھی خراجِ عقیدت وصول کر چکی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مفتیِ اعظم کے تلامذہ و مستفیدین رسوخ فی العلم، استقامت فی الدین، مسلک سے والہانہ محبت، عشقِ مصطفیٰ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم اور دیگر مقاصدِ علم میں ایسے ممتاز و منفرد ہیں کہ اپنی مثال آپ ہیں۔
حضرت نوریؔ بریلوی خیرآبادی اور دہلوی سلسلۂ تدریس کے ساتھ ساتھ عشقِ مصطفیٰ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم کے مظہر بریلی سلسلۂ تدریس کے وارث و امیٖن ہیں۔ اس لیے آپ کے تلامذہ میں عشقِ مصطفیٰ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم کی ایک حسیٖن تڑپ پیدا ہو گئی۔ جس نے ان کی فکری و اعتقادی زندگی میں اجتماعیت، روحانیت، عزمِ مصمم، یقیں محکم اور عمل پیہم کی بے کراں دولت جمع کر دی۔ آپ کے مکتب اور فیضانِ نظر نے انھیں باطل فتنوں کے مقابلوں کی ہمت و جرات بخشی۔ آپ کے فیض یافتہ علما، فقہا، مفسرین، محدثین، متکلمین و مناظرین، محققین و مقننین، مصنفین و مولفین، مقررین و مدرسین، مناطقہ و فلاسفہ، ادبا و شعرا، قاضیانِ عدالت اور مفتیانِ شریعت زمانے کے ہر چیلنج کا جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں، اور اپنے اندر ایسی توانائی اور قوت پاتے ہیں کہ جہاں ہوں وہاں ایک جہان آباد کر دیتے ہیں۔
تحقیق سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ منظرِ اسلام و مظہرِ اسلام کے جن طلبہ نے آپ سے درس لیا یا ا ستفادہ کیا ان کا کوئی ریکارڈ نہ رکھا گیا اس لیے آپ کے تلامذہ و مستفیدین کا شمار ممکن نہیں رہا۔ لیکن یہ حقیقت تو ظاہرہے کہ آپ کے ان گنت تلامذہ ومستفیدین آسمانِ علم و فضل کے مہر و ماہ بن کر چمکے اور ان کا علمی فیض ہند و پاک اور اس کی سرحدوں کے پار بھی فضاؤں کو منور کر رہا ہے۔
مفتیِ اعظم قدس سرہ کے بے شمار تلامذہ میں سے چند کے اسمائے گرامی ذیل میں ملاحظہ ہوں :
1)محدثِ پاکستان مولاناسردار احمد رضوی، گورداس پور ی، بانی جامعہ رضویہ مظہرِاسلام، فیصل آباد، پاکستان
2)مفتی محمد اعجاز ولی خاں رضوی بریلوی، شیخ الحدیث و الفقہ جامعہ نعیمیہ لاہور، پاکستان
3)مولانا مفتی حشمت علی خاں رضوی پیلی بھیتی، بانی دارالعلوم حشمت الرضا، پیلی بھیت
4)مولانا الحاج مبین الدین امروہوی، شیخ التفسیر جامعہ نعیمیہ، مرادآباد
5)مولانا محمد تحسین رضا خاں رضوی محدث بریلوی، صدرالمدرسین مرکزالدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا، بریلی
6)شارح بخاری مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی، صدر مفتی الجامۃ الاشرفیہ، مبارک پور
7)مولانا محمد ریحان رضا خاں رضوی بریلوی، مہتمم جامعہ رضویہ منظرِ اسلام، بریلی
8)مفتی محمداختر رضاخاں ازہری میاں، صدر مفتی مرکزی دارالافتا، و بانی مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الر ضا، بریلی
9)مولانا محمد خالد علی خاں رضوی، مہتمم جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام، بریلی
10)محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ رضوی امجدی اعظمی، بانی و سربراہِ اعلیٰ جامعہ امجدیہ رضویہ، گھوسی
11)مولانا مفتی محمد اعظم رضوی ٹانڈوی، شیخ الحدیث وصدرالمدرسین جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام، بریلی
12)مولانا سید عارف رضوی نان پاروی، شیخ الحدیث جامعہ رضویہ منظرِاسلام، بریلی
13)مولانا محمد نعیم اﷲ خاں رضوی بستوی، صدرالمدرسین جامعہ رضویہ منظرِاسلام، بریلی
14)مبلغِ اسلام مولانا محمد ابراہیم خوشتر صدیقی رضوی، بانی سُنّی رضوی سوسائٹی، ماریشش
15)مولانا محمد منظور احمد فیضی رضوی، بانی مدینۃ العلوم، بھاول پور، پاکستان
16)مولانا معین الدین شافعی قادری، ناظمِ اعلیٰ جامعہ قادریہ رضویہ، فیصل آباد، پاکستان
17)مولانا غلام جیلانی گھوسوی، شیخ الحدیث جامعہ رضویہ مظہر اسلام، بریلی
18)مولانا مفتی قاضی عبد الرحیم بستوی، مرکزی دارالافتا، بریلی
19)فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی، بانی مرکزِ تربیتِ افتا اوجھاگنج، بستی
20)مولانا بد رالدین رضوی گورکھپوری، صدر مدرس مدرسہ غوثیہ، بڑھیا، بستی
21)مولانا محمد یونس نعیمی، صدرالمدرسین دارالعلوم فیض الرسول، براؤں، بستی
22)مولانا محمد حنیف قادری، مدرس دارالعلوم فیض الرسول، براؤں، بستی
23)مولانا قدرت اﷲ رضوی، مفتی دارالعلوم فیض الرسول، براؤں، بستی
24)مفتی محمد مطیع الرحمن رضوی، مدیرِ عام الادارۃ الحنفیہ، کشن گنج، بہار
25)مولانا لطف اﷲ قریشی رضوی علی گڑھی، خطیب شاہی جامع مسجد و مفتی شہر متھرا
26)مولانا نذیر احمد رضوی پنجابی
27)مولانا محمد اسماعیل رضوی پورنوی
28)مولانا بلال احمد رضوی بہاری، مدرس جامعہ رضویہ منظرِ اسلام، بریلی
29)مولانا عبدالخالق نوری بہاری، مدرس جامعہ رضویہ منظرِ اسلام، بریلی
30)مولانا محمد ہاشم یوسفی بہاری، مدرس جامعہ رضویہ منظرِ اسلام، بریلی
31)مولانا عبدالحمیدرضوی افریقی
32)مولانا احمد مقدم رضوی افریقی
33)مولانا محمد میاں رضوی بریلوی
34)قاری محمد امانت رسول پیلی بھیتی
35)مولاناسید شاہد علی رضوی رام پوری، شیخ الحدیث و ناظم الجامعۃ الاسلامیہ، رام پور۔ وغیرہ (9)
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کے شاگردوں میں آپ سے فتویٰ نویسی میں استفادہ کرنے والے حضرات کی تعداد کثیر ہے۔ بل کہ اگر برِ صغیر کے مفتیانِ کرام کے اسماجمع کیے جائیں تو ان میں بیش تر حضرات آپ کے بلاواسطہ یا بالواسطہ شاگرد ہوں گے۔ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کے درسِ افتا کے چند تلامذہ کے اسمائے گرامی ملاحظہ ہوں :
1)محدثِ پاکستان مولاناسردار احمد رضوی، گورداس پور ی، بانی جامعہ رضویہ مظہرِاسلام، فیصل آباد، پاکستان
2)مفتی اعظم پاکستان مولانا ابوالبرکات سید احمد رضوی، شیخ الحدیث دارالعلوم حزب الاحناف، لاہور، پاکستان
3)مفتی سید افضل حسین رضوی مونگیری، شیخ الحدیث و مفتی جامعہ قادریہ رضویہ، فیصل آباد، پاکستان
4)مولانا الحاج مبین الدین امروہوی، شیخ التفسیر جامعہ نعیمیہ، مرادآباد
5)مفتی محمد احمد جہانگیر خاں رضوی اعظمی، شیخ الحدیث و مفتی جامعہ رضویہ منظرِ اسلام، بریلی
6)مولانا محمد تحسین رضا خاں رضوی محدث بریلوی، صدرالمدرسین مرکزالدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا، بریلی
7)شارح بخاری مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی، صدر مفتی الجامۃ الاشرفیہ، مبارک پور
8)مفتی محمد اختررضاخاں ازہری میاں، صدر مفتی مرکزی دارالافتا، و بانی مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الر ضا، بریلی
9)محدث کبیر علامہ ضیاء المصطفیٰ رضوی امجدی اعظمی، بانی و سربراہِ اعلیٰ جامعہ امجدیہ رضویہ، گھوسی، اعظم گڑھ
10)مولانا مفتی قاضی عبد الرحیم بستوی، مرکزی دارالافتا، بریلی
11)مولانا مفتی محمد اعظم رضوی ٹانڈوی، شیخ الحدیث وصدرالمدرسین جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام، بریلی
12)مفتی عبدالمنان اعظمی، شیخ الحدیث و مفتی شمس العلوم، گھوسی، اعظم گڑھ
13)مفتی رجب علی رضوی نان پاروی، بانی و مہتمم مدرسہ عزیزالعلوم، نان پارہ، بہرائچ
14)مولانا محمد حبیب رضا خاں رضوی بریلوی، ناظم ادارہ سُنّی دنیا، بریلی
15)مولانا مفتی ابرارحسین صدیقی تلہری، مفتی جماعت رضائے مصطفیٰ و مدیرِ اعلیٰ ماہنامہ یادگارِ رضا، بریلی
16)مولانا غلام جیلانی گھوسوی، شیخ الحدیث جامعہ رضویہ مظہر اسلام، بریلی
17) مفتی خواجہ مظفر حسین رضوی پورنوی، شیخ المعقولات دارالعلوم
18)مولانا غلام یزدانی گھوسوی، صدرالمدرسین جامعہ رضویہ مظہرِاسلام، بریلی
19)مولانا غلام یٰسین رشیدی پورنوی
20)مولانا معین الدین خاں اعظمی مدرس جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام، بریلی
21)مفتی محمد طاہر حسین اشرفی، مفتی رضوی دارالافتا، بریلی
22)مفتی محمد مطیع الرحمن رضوی، مدیرِ عام الادارۃ الحنفیہ، کشن گنج، بہار
23)مولانا محمد حسن منظر قدیری، فاضل جامعہ رضویہ منطرِ اسلام، بریلی
24)مولانا عبدالحمید رضوی، دیناجپوری
25)مفتی محمد صالح رضوی مدرس جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام، بریلی
26)مولانا مفتی مجیب الاسلام نسیم اعظمی، مدرس جامعہ رضویہ مظہرِاسلام، بریلی
27)مولانا مظفر حسین غازی پوری، کراچی، پاکستان
28)مفتی ریاض احمد سیوانی، نائب مفتی جامعہ رضویہ منظرِاسلام، بریلی
29)مفتی جلال الد ین قادری، ٹانڈہ، فیض آباد
30)مفتی عبدالغفور بہاری، مدرس جامعہ رضویہ مظہرِاسلام، بریلی
31)مولانا محمد انور رضوی ٹانڈوی، مفتی رضوی دارالافتا، بریلی
32)مولانا رئیس الدین رضوی پورنوی، مدرس جامعہ رضویہ مظہرِاسلام، بریلی۔ وغیرہ (10)
حضرت نوریؔ بریلوی کی شہرت و مقبولیت صرف برِ صغیر ہند و پاک تک ہی محدود نہ تھی۔ بل کہ عالمِ اسلام کے جید علما و مشائخ آپ کو قد رو منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ غائبانہ طور پر آپ کی دینی و ملی، علمی و فنی خدمات اور رفعت و عظمت کے معترف اور قدرداں تھے۔ آپ کے وجودِ مسعود کو عالمِ اسلام کے لیے باعثِ برکت و رحمت اور ایک نعمتِ عظمیٰ تصور فرماتے تھے۔ چناں چہ1391ھ / 1971ء میں جب آپ تیسری مرتبہ حج و زیارت کے لیے حاضر ہوئے تو اس موقع پر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے سیکڑوں افراد آپ کے دستِ مبارک پر بیعت ہوئے۔ بڑے بڑے جید علمائے اعلام، فضلائے کرام اور مفتیانِ عظام نے آپ کے سامنے زانوئے ادب تہہ فرما کر شرفِ تلمذ حاصل کیا۔ آپ سے اجازتِ حدیث لی اور خلافتیں حاصل کیں۔ ان میں سے چند کے اسما ے گرامی ملاحظہ ہوں :
1) مفتیِ حرم علامہ مولاناسید محمد مغربی مالکی مکی
2) شیخ العلما علامہ سید امین قطبی مکی
3) حضرت علامہ مولانا مفتی سید نور
4) استاذالعلما حضرت علامہ مولانا جعفر بن کثیر
5) حضرت علامہ مولانا عمر ہمدان مکی
6) حضرت علامہ مولاناسید عباس مالکی مکی
7) حضرت علامہ مولانا عبدالمالک
8) حضرت علامہ مولانا موزا عرقی
9) حضرت علامہ مولانا ابراہیم مدنی
10) حضرت علامہ مولانا محمد فضل الرحمن مدنی
11) حضرت علامہ مولاناسید علوی مالکی وغیرہ (11)
تدریسی خدمات کے تحت جائزہ لیتے ہوئے اس امر کو واضح کیا گیا ہے کہ مفتیِ اعظم قدس سرہ نے تعلیم سے فراغت کے بعد 1328ھ / 1910ء سے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ لیکن فتویٰ نویسی کی زیادتی اور دیگر مصروفیات کے سبب آپ کا تدریسی سلسلہ تسلسل سے جاری نہ رہ سکا۔ ویسے آپ کبھی کبھار مخصوص طلبہ کو پڑھاتے رہے۔ مدارس کے اساتذہ، فارغ التحصیل طلبہ اور زیرِ تعلیم طلبہ تعطیل کے دوران بریلی حاضر ہو کر آپ کے حلقۂ شاگردی میں داخل ہوتے۔ اسی طرح تبلیغی سفر کے دوران بھی بعض علما و مشائخ آپ سے درسِ حدیث لے کر حضرت نوریؔ بریلوی کے تلامذہ میں شامل ہو کر اپنے آپ کو سعادت مند تصور کرتے۔
تحقیق سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ آپ اعلا تدریسی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ درسِ نظامی کے باریک باریک اُمور پر گہری نظر تھی۔ طلبہ کو نہایت شفقت و محبت سے پڑھاتے۔ آپ کا طریقۂ تعلیم اور درسِ افتا امتیازی شان کا حامل تھا۔ آپ پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کو اس آسانی سے سمجھاتے کہ وہ طلبہ کے ذہن نشین جاتا۔ طلبہ پر نہایت مہربان تھے، انھیں شفقت و محبت سے نوازتے، انھیں وظائف دیتے اور علمِ نافع حاصل ہونے کی دعائیں دیتے تھے۔
آپ کی تدریسی خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہوا کہ آپ سے بالواوسطہ یا بلا واسطہ علمی و فقہی استفادہ کرنے والوں کی ایک بڑی جماعت نہ صرف ہند و پاک بلکہ دیگر ممالک میں بھی موجود ہے۔ جو ہمہ وقت دین و مذہب کی حفاظت و صیانت میں مصروف ہے۔
(1) شاہد علی رضوی، سید، مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا، رضا اکیڈمی، ممبئی، ج1 ص 40
(2) شاہد علی رضوی، سید، مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا، رضا اکیڈمی، ممبئی، ج1 ص 42
(3) شاہد علی رضوی، سید، مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا، رضا اکیڈمی، ممبئی، ج1 ص 44
(4) شاہد علی رضوی، سید، مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا، رضا اکیڈمی، ممبئی، ج1 ص 44/45
(5) شاہد علی رضوی، سید، مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا، رضا اکیڈمی، ممبئی، ج1 ص 46/47
(6)ماہ نامہ استقامت ڈائجسٹ، کان پور، مفتیِ اعظم نمبر، ملخصاً مئی 1983ء، ص 191
(7)پندرہ روزہ رفاقت:مفتی اعظم نمبر، پٹنہ، جلد ؍۱، شمارہ؍5، فروری 1982ء، ص9
(8)مکتوب حضرت نوریؔ بریلوی بنام محدث اعظم پاکستان محررہ 16؍شوال 1374ھ
(9) شاہد علی رضوی، سید، مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا، رضا اکیڈمی، ممبئی، ج1 ص 58/64
(10) شاہد علی رضوی، سید، مفتی:مقدمہ مفتی اعظم اور ان کے خلفا، رضا اکیڈمی، ممبئی، ج1 ص64/67
(11)عبد النعیم عزیزی، ڈاکٹر :ضمیمہ:مفتی اعظم، مطبوعہ بریلی، چھٹا ایڈیشن، ص 77
٭٭٭
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کے عہد میں نعتیہ شاعری کا معیار اوراس کی عام روش کم و بیش وہی تھی جو انیسویں صدی کے نصف آ خر میں نظر آتی ہے۔ جس کا تذکرہ مقالہ نگار نے اپنے پی ایچ ڈی مقالہ کے باب چہارم ’’ہندوستان میں اردو کی نعتیہ شاعری کا تاریخی جائزہ ‘‘ کے تحت دورِ متاخرین نعت گو شعرا میں کیا ہے۔ نوریؔ بریلوی کا عہد (1892ء سے 1981ء تک) ہندوستانی مسلمانوں کے لیے تاریخ کا ایک ایسا کرب ناک اور ناگفتہ بہ دور تھا جو تاریخِ ہند میں اس سے قبل نہ دیکھا گیا تھا۔ نت نئی تحریکات جنم لے رہی تھیں۔ اسلام اور مسلمانوں کو زک پہنچانے کے لیے اسلام دشمن قوتیں شب و روز نئے نئے منصوبے بنا کر ان کو عملی جامہ پہنا رہی تھیں۔ ۱۸۵۷ء کی پہلی جنگِ آزادی کی ناکامی کے زخم اب دھیرے دھیرے مندمل ہو رہے تھے، لیکن کشورِ ہند پر انگریزوں کی حکومت تشکیل پا چکی تھی۔ چوں کہ نوریؔ بریلوی کا تعلق ہندوستان کے اسی عہدِ افتراق و انتشار سے تھا، اس لیے ان کی شاعری میں بھی اُس دور میں پیدا ہونے والے حالات و حوادث کی عکاسی دیکھنے کو ملتی ہے۔
نوریؔ بریلوی کے عہد میں نعت گوئی کا جو معیار قائم ہو چکا تھا اُسے بہ آسانی فہم کر لینا دشوار گزار امر ہے کیوں کہ نوریؔ بریلوی نے بیسویں صدی کا وہ دور دیکھا تھا جب کہ امیرؔ مینائی، محسنؔ کاکوروی، حالیؔ ، شبلیؔ اور نظمؔ طباطبائی کے قائم کردہ معیار میں مزید کچھ نئے رنگ و آہنگ کا اضافہ ہو گیا تھا۔
تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دور میں نعتیہ شاعری دو حلقوں میں منقسم ہو گئی تھی۔ نعت گو شعرا کا ایک حلقہ محسنؔ کاکوروی، حالیؔ ، شبلیؔ اور نظم طباطبائی کے زیر اثر کام کر رہا تھا تو دوسرا طبقہ امیرؔ مینائی، داغؔ دہلوی اورناسخؔ لکھنوی کے زیر اثر نعت گوئی کے پرچم کو بلند کیے ہوئے تھا۔ اول الذکر شعرا کے یہاں مسائلِ حاضرہ بھی نعت کے دامن میں جگہ پاتے تھے جب کہ آخرالذکر شعرا کے کلام میں تغزل کا فنّی ولسانی در وبست نظر آتا ہے اور ان کے ہاں نعت کا روایتی اسلوب بھی خاصا نمایاں ہے۔ گویا گردشِ ایّام پیچھے کی طرف لوٹ رہا تھا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ 1857ء کی ناکام جنگِ آزادی کے زخم اب اتنے تازہ نہیں رہ گئے تھے۔ لیکن اول الذکر شعرا نے اس درد اور کسک کو اپنی نعت گوئی میں زندہ رکھا جو امتِ مسلمہ کے زوال کے سبب دلوں میں پیدا ہوئی تھی۔ اس عہد میں پہلے گروہ کی قیادت مولانا ظفرؔ علی خان اور اقبالؔ کے ہاتھوں میں تھی تو دوسرے گروہ کی زمام میلادِ اکبر والے اکبرؔ میرٹھی کے ہاتھ میں تھی۔
اس پورے منظر نامے میں ایک نئی، اچھوتی اور ملکوتی، کوثر وتسنیم سے دھلی ہوئی دل کش آواز اُبھر رہی تھی جسے ہم تیسری آواز کہہ سکتے ہیں۔ اور وہ آواز ہے امام احمد رضا محدثِ بریلوی کی۔ اس آواز میں کوثر و تسنیم کا تقدس، ملکوتی صفات، زوالِ امتِ مسلمہ کی تڑپ اور کسک، تغزل کا فنی اور لسانی رنگ و آہنگ، تعظیم و توقیرِ ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم ، اور عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کچھ ایسے متنوع جز شامل ہو گئے تھے جو اس سے پہلے نعتیہ شاعری کا مقدر نہ بن سکے۔ اور آج یہی تیسری آواز نعتیہ شاعری اور نعت خوانی کی محفلوں اور مجلسوں میں نوائے سروش بن کر امتِ مسلمہ کے قلب و روح پر سایہ فگن ہے۔
اس آواز کے حامل نعت گو شعرا کی زمام امام احمد رضا بریلوی کے ہاتھ میں تھی اور اس کی ہم نوائی کرنے والوں میں آسیؔ سکندرپوری، حسنؔ رضا بریلوی، جمیلؔ بریلوی، سید محمد اشرفی سیدؔ کچھوچھوی، نعیم الدین نعیمؔ مرادآبادی، احمد یار خاں سالکؔ نعیمی، علیمؔ میرٹھی، فقیرؔ برکاتی مارہروی وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی چوں کہ اسی عہد کے ممتاز عالمِ دین، عظیم فقیہ و محدث، بلند پایہ ادیب و مصنف اور مایۂ ناز شاعر ہیں۔ آپ کے کلام کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے عہد سے اثر تو قبول کیا ہے۔ لیکن آپ کی آواز حسنؔ رضا بریلوی، جمیلؔ بریلوی، سیدمحمد سیدؔ کچھوچھوی، نعیم الدین نعیمؔ مرادآبادی، احمد یار خاں سالکؔ نعیمی، علیمؔ میرٹھی، فقیرؔ برکاتی مارہروی وغیرہ کی آواز سے منفرد اور جدا لگتی ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ آپ کی شاعری کا معیار اور روش اس عہد کے شعرائے نعت کے معیار اور روش سے مماثل ہے۔ آپ کے یہاں مسائلِ حاضرہ بھی نعت کے اندر جگہ پاتے ہیں تو تغزل کے فنی اور لسانی درو بست بھی موجود ہیں، اسی طرح وہ کسک اور تڑپ بھی ہے، جو اُمتِ مسلمہ کے زوال و انحطاط کے سبب قلب و روح میں پیدا ہو رہی تھی اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا جذبہ بھی نہاں ہے۔ گویا آ پ کی نعتیہ شاعری میں گو نا گوں اور متنوع جز یک جا ہو گئے ہیں۔
’’نعت گوئی کی تاریخ کا اجمالی جائزہ‘‘ کے تحت اس بات کی وضاحت مقالہ نگار نے اپنی پی ایچ ڈی تھیسس کے باب سوم میں کی ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں میں رسولِ مختار صلی اللہ علیہ و سلم کی نعتِ پاک کے محبت آمیز ذخائر موجود ہیں۔ اور سار ی دنیا کے مسلمان اپنی اپنی زبانوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مقدس بارگاہ میں اپنا نذرانۂ خلوص و محبت نذر کر رہے ہیں۔ نعت کو نورِ لحد اورسرمایۂ آخرت سمجھ کرمسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی نعتِ پاک کی بابرکت محفلوں میں شرکت کو سعادت سمجھتے ہیں اور عقیدت و احترام کے ساتھ نعتِ پاک کی مجالس میں شریک ہوتے ہیں۔ ذکرِ رسول و نعتِ رسول کو آفاقیت اور عالم گیریت بلکہ کائناتی وسعت حاصل ہے۔ جہاں جہاں اس روئے زمین پر کوئی بھی ذی روح موجود ہے وہاں وہاں ذکرِ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ و سلم جاری وساری ہے۔ عربی، فارسی، اردو اور ہندوستانی زبانوں کی بات تو کُجا دنیا کی ساری زبانیں اور بولیاں ذکرِ نبوی اور حُبِّ نبوی کی شاہد و گواہ ہیں۔
حضرت نوریؔ بریلوی کی نعت گوئی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ آپ کی نعتیہ شاعری جملہ شعری و فنی محاسن سے آراستہ اور مزین ہے۔ آپ کے کلام میں رعایتِ لفظی، صنائع و بدائع، محاورات کا استعمال، تجانیس، پیکر تراشی، تراکیب سازی، معنی آفرینی، جدت طرازی، ندرتِ بیان، علاقائی زبانوں کا استعمال، عربی کی آمیزش اور فارسیت کا رچاؤ وغیرہ عناصر بدرجۂ اتم موجود ہیں۔
نوریؔ بریلوی کے علم و فضل اور کمال کا اک جہاں معترف ہے۔ آپ نے اپنی شاعری میں جذبے کی آنچ اور تبحرِ علمی دونوں کو ہم آہنگ کر کے ایک ایسے لب و لہجے کو جنم دیا جو دیدنی بھی ہے اور شنیدنی بھی۔ آپ کے یہاں صنائعِ لفظی و معنوی، اصنافِ سخن اور جملہ شعری و فنی لوازمات کے تجربات محض تفنّنِ طبع کے طور پر نہیں بل کہ ایک سنجیدہ فکری نظریے کے طور پر کیے گئے ہیں۔ اور یہ تجربات مکمل عالمانہ شان، ادیبانہ مہارت اور وقار و تمکنت کے ساتھ نوریؔ بریلوی کے کلام میں جلوہ گر نظر آتے ہیں۔
نعت کا وسیع و عریض دامن پوری کائنات پر اس طرح پھیلا ہوا ہے کہ اس کی بے کراں وسعت، آفاقیت، عالم گیریت اور ہمہ جہتی کا کماحقہٗ اندازہ عقلِ انسانی کے بس کی بات نہیں۔ اس کا احاطہ کرنا اربابِ عقل و فہم سے بھی ماورا بل کہ وراء ُ الورا ہے اس میں کسی بھی بلند پایہ نعت گو شاعر اور مداحِ رسول کی بھی کوئی تخصیص نہیں۔ ہاں ! اس راہ میں جو رفعت و منزلت امام احمد رضا محدث بریلوی ان کے برادرِ اصغر علامہ حسن رضا خاں بریلوی اور فرزندِ ارجمند علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کے حصے میں آئی ہے وہ نہایت اعلا اور منفرد ہے۔ ان شعرائے نعت نے نعت گوئی میں نئے نئے گوشوں اور نئی نئی یافتوں سے نعتیہ ادب کو روشناس اور مالامال کیا ہے۔ ان حضرات نے مقامی زبانوں اور علاقائی بولیوں کا عربی و فارسی کے ساتھ جس طرح ایک مخصوص رنگ و آہنگ اور آمیزہ نعت گوئی میں تیار کیا ہے وہ زبان و ادب کے لیے باعثِ فخر ہے۔
یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ہمارے وہ تجربات جو محض جودتِ فکر کو چمکانے اور جودتِ طبع کی نمایش کے لیے وجود میں لائے جاتے ہیں وہ اکثر و بیش تر ناکامی کے شکار ہو جاتے ہیں۔ مگر جو تجربات نعتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حوالے سے حضرت نو ریؔ بریلوی نے کیے ہیں وہ مہک مہک اُٹھے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ تجربات خود ملہمِ غیبی کے اشارے پر معرضِ وجود میں آئے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کے مشہور و معروف حمدیہ و نعتیہ کلام ؎
قلب کو اس کی رویت کی ہے آرزو
جس کا جلوہ ہے عالم میں ہر چار سو
بل کہ خود نفس میں ہے وہ سبحٰنہ
عرش پر ہے مگر عرش کو جستجو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو شمعِ رسالت ہے عالم ترا پروانہ
تو ماہِ نبوت ہے اے جلوۂ جانانہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ ایسا کر دے مرے کردگار آنکھوں میں
ہمیشہ نقش رہے روئے یار آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حبیبِ خدا کا نظارا کروں میں
دل و جان اُن پر نثارا کروں میں
کی محبت آمیز خوشبوئیں عالمِ اسلام کے اہلِ ایمان و عقیدت کے مشامِ جان و ایمان کو معطر و معنبر کر رہی ہیں۔ غر ض یہ کہ نوریؔ بریلوی کے کلام میں شاعری برائے شاعری نہیں بل کہ شاعری برائے عبادت بن کر جلوہ فگن ہے۔ آپ کے کلام کی سب سے اہم ترین خصوصیت آپ کا عشقِ رسول صلی اﷲ علیہ و سلم ہے کہ آپ نے اسی عشق کے اظہار کے لیے نعت گوئی کو بطورِ وسیلہ استعمال کیا ہے۔
ذیل میں نوریؔ بریلوی کے ہم عصر غزل گو و نعت نگار شعرا کے منتخب نعتیہ اشعار پیش کیے جا رہے ہیں تا کہ اس بات کا مزید اندازہ ہوسکے کہ نوریؔ بریلوی کے عہد میں نعت گوئی کا معیار اور روش کیا تھی ؎
گزرے جس راہ سے وہ سیّدِ والا ہو کر
رہ گئی ساری زمیں عنبرِ سارا ہو کر
چمنِ طیبہ ہے وہ باغ کہ مرغِ سدرہ
برسوں چہکے ہیں جہاں بلبلِ شیدا ہو کر
صرصرِ دشتِ مدینہ کا مگر آیا خیال
رشکِ گلشن جو بنا غنچۂ دل وا ہو کر
امام احمد رضاؔ بریلوی (م1921ء)
مدیحِ سرورِ کونین میں خامہ اٹھاتا ہوں
خیالِ کفر کی ظلمت پہ اک بجلی گراتا ہوں
شبِ اوہام ہے، شمعِ یقیں محفل میں لاتا ہوں
چراغِ طورِ ایمن کوہِ معنی پر جلاتا ہوں
الٰہی شوخیِ برق تجلی دہ زبانم را
قبول خاطر موسیٰ نگاہاں کن بیانم را
محمد پیشوا اور رہنمائے خلق و عالم ہیں
معزز ہیں مقدس ہیں معظم ہیں مکرم ہیں
فروغِ محفلِ ہستی میں نورِ عرشِ اعظم ہیں
حبیبِ حق ہیں ممدوحِ ملک ہیں فخرِ آدم ہیں
انہیں کے رنگ سے رنگِ گلِ ہستی کی زینت ہے
انہیں کی بو سے عطر آگیں بنی آدم کی طینت ہے
اکبرؔ الٰہ آبادی (م1921ء)
جو پایا ناشناس اہلِ جہاں کو شاہِ بطحا نے
تو بس آئینۂ زانو سے پیدا کی شناسائی
رہے غارِ حرا میں مہرِ انور ایک مدت تک
پسندِ طبع تھی عزلت شریکِ حال تنہائی
نہ تھا جز ذکرِ حق دنیا و مافیہا سے کچھ مطلب
اسی عالم میں گذرا عالمِ طفلی و برنائی
نظمؔ طباطبائی (م1933ء)
کلفتِ قطعِ منازل ہوئی کافور ہے آج
ہے مدینہ جو نزدیک تو سب دور ہے آج
سنگِ در تک تو بہ ہر حال رسائی بخشی
دیکھوں کیا کیا مرے سرکار کو منظور ہے آج
اب بھی دیدار سے محروم ہی رکھیے گا ہمیں
تھی جو اک حسرتِ پابوس بہ دستور ہے آج
محمد علی جوہرؔ (م1931ء)
وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اک روز چمکنے والی تھی دنیا کے سب درباروں میں
گر ارض و سما کی محفل میں ’لولاک لما‘ کا شور نہ ہو
یہ رنگ نہ ہو گل زاروں میں یہ نور نہ ہو سیّاروں میں
وہ جنس نہیں ایمان جسے لے آئیں دکانِ فلسفہ سے
ڈھونڈے سے ملے گی عاقل کو یہ قرآں کے سی پاروں میں
ظفرؔ علی خاں (م1956ء)
جو تیرے کوچے کے ساکنوں کا فضائے جنت میں دل نہ بہلے
تسلیاں دے رہی ہیں حوریں خوشامدوں سے منا منا کر
شہیدِ عشق نبی کے مرنے میں بانکپن بھی ہیں سوطرح کے
اجل بھی کہتی ہے زندہ باشی ہمارے مرنے پہ زہر کھا کر
ترے ثنا گو عروسِ رحمت سے چھیڑ کرتے ہیں روزِ محشر
کہ اس کو پیچھے لگا لیا ہے گناہ اپنا دکھا دکھا کر
شہیدِ عشقِ نبی ہوں میری لحد پہ شمعِ قمر جلے گی
اٹھا کے لائیں گے خود فرشتے چراغِ خورشید سے جلا کر
اقبالؔ (م 1938ء)
عدم سے لائی ہے ہستی کو آرزوئے رسول
کہاں کہاں لیے پھرتی ہے جستجوے رسول
تلاشِ نقشِ کفِ پائے مصطفی کی قسم
چنے ہیں آنکھ سے ذرّاتِ خاکِ کوے رسول
عجب تماشا ہو میدانِ حشر میں بیدمؔ
کہ سب ہوں پیشِ خدا میں روبروئے رسول
بیدمؔ شاہ وارثی (م1944ء)
حیران ہوئے برق اور نظر اک آن ہے اور برسوں کاسفر
راکب نے کہا اﷲ غنی مرکب نے کہا سبحان اﷲ
طالب کا پتا مطلوب کو ہے مطلوب ہے طالب سے واقف
پردہ میں بلا کر مل بھی لیے پردہ بھی رہا سبحان اﷲ
ہے عبد کہاں معبود کہاں معراج کی شب ہے راز نہاں
دو نور حجابِ نور میں تھے خود رب نے کہا سبحان اﷲ
حامد رضا بریلوی (م1942ء)
نام کے نقش سے روشن یہ نگینہ ہو جائے
کعبۂ دل مرے اﷲ مدینہ ہو جائے
اس کی تقدیر جو پامال ہو تیرے در پر
اس کی تقدیر کہ جو خاکِ مدینہ ہو جائے
دفن ہوں ساتھ مرے میرے گہر ہائے سخن
خاک میں مل کے نمایاں یہ دفینہ ہو جائے
جان کی طرح تمنا ہے یہی دل میں ریاضؔ
مروں کعبہ میں تو منھ سوے مدینہ ہو جائے
ریاضؔ خیرآبادی (م1934ء)
دل نثارِ مصطفیٰ جاں پائمالِ مصطفیٰ
یہ اویسِ مصطفیٰ وہ بلالِ مصطفیٰ
سب سمجھتے ہیں اسے شمعِ شبستانِ حرا
نور ہے کونین کا لیکن جمالِ مصطفیٰ
عالمِ ناسوت میں اور عالمِ لاہوت میں
کوندتی ہے ہر طرف برقِ جمالِ مصطفیٰ
اصغرؔ گونڈوی (م1936ء)
مظہرِ شانِ کبریا صلِ علیٰ محمدٍ
آئینۂ خدا نما صلِ علیٰ محمدٍ
موجبِ نازِ عارفاں باعثِ فخرِ صادقاں
سرورِ خیلِ انبیا صلِ علیٰ محمدٍ
مرکزِ عشقِ دل کشا مصدرِ حسنِ جاں فزا
صورت و سیرتِ خدا صلِ علیٰ محمدٍ
مونسِ دل شکستگاں پُشتِ پناہِ خستگاں
شافعِ عرصۂ جزا صلِ علیٰ محمدٍ
حسرتؔ موہانی (م1951ء)
سلام اے صبحِ کعبہ السلام اے شامِ بت خانہ
تو چمکا بزمِ آزر میں بہ اندازِ خلیلانہ
حریمِ پاک تیرا وہ بلند ایواں حقیقت کا
جہاں جبریل بھی ناچیز سا ہے ایک پروانہ
کہیں تو زندگی پیرا بہ اندازِ لبِ عیسیٰ
کہیں تو خطبہ فرما اوجِ طائف پر کلیمانہ
کچھ اس انداز سے جلوہ نمائی تو نے فرمائی
کہ ہر ذرّہ زمیں کا ہو گیا تیرا ہی دیوانہ
یہ دنیا تیری نظروں میں مثالِ نقطۂ ناقص
یہ عالم خرمنِ عرفاں کا تیرے صرف اک دانہ
سیمابؔ اکبرآبادی(1951ء)
نیرنگیاں عجب تھیں محمّد کے نور کی
ہر جا نئی ادا تھی کرم کے ظہور کی
آنکھوں میں روشنی ہے محمّد کے نور کی
بجلی چمک رہی ہے ثنا میں ظہور کی
غنچوں میں عطر بیز ہے خوشبو حضور کی
نیرنگیاں ہیں گل میں محمّد کے نور کی
رحمت نے آ کے جوش میں کیں غرق کشتیاں
عیبوں کی، معصیت کی، خطا کی، قصور کی
اکبر وارثی میرٹھی (م1952ء)
آمنہ بی بی کے گلشن میں آئی ہے تازہ بہار
پڑھتے ہیں صلی اللہ و سلم آج در و دیوار
بارہ ربیع الاول کو وہ آیا ہے دُرِّ یتیم
ماہِ رسالت مہرِ نبوت صاحبِ خلقِ عظیم
سید احمد حسین امجدؔ حیدرآبادی(م1961ء)
تو صبحِ ازل آئینۂ حسن ازل بھی
اے صلِ علیٰ صورتِ سلطانِ مدینہ
اے خاکِ مدینہ تری گلیوں کے تصدق
تو خلد ہے تو جنتِ سلطانِ مدینہ
ظاہر میں غریب الغرباء پر یہ عالم
شاہوں سے سوا سطوتِ سلطانِ مدینہ
جگر مرادآبادی (1960ء)
بد ہیں اگرچہ ہم حضور، آپ کے ہیں مگر ضرور
کس کو سنائیں حالِ دل، تم کو نہیں سنائیں تو
آپ کے در پہ گر نہ آئیں، کون سا در ہے جس پہ جائیں
سامنے کس کے سر جھکائیں، آپ ہمیں بتائیں تو
دل کی مراد ان کی دید، دید ہے ان کی دل کی عید
عید نہیں ہے کچھ بعید، لطف سے گر بلائیں تو
علامہ سید نعیم الدین نعیمؔ مرادآبادی(م1948ء)
تمنا ہے کہ مرتے وقت ہم بھی مسکراتے ہوں
زباں پر یا محمد ہو جب اس دنیا سے جاتے ہوں
بنے اے کاش اس دم سازِ ہستی آخری ہچکی
فرشتے نغمۂ صل علیٰ جب گنگناتے ہوں
شبِ فرقت کی ان رنگینیوں پر جان و دل صدقے
تمہاری یاد ہو دل میں ستارے مسکراتے ہوں
سکوں کی ساعتوں میں کون ان کو بھول سکتا ہے
دمِ مشکل جو ہر اک بے نوا کے کام آتے ہوں
شکیل بدایونی (م1970ء)
تری نعلِ مقدس جس کے سر پر سایہ گستر ہے
وہی فرماں روائے ہفت کشور ہے سکندر ہے
خدا ہی جانے ان کے سر کی عزت اور عظمت کو
قدم ان کے جہاں پہنچے وہ عرشِ ربِّ اکبر ہے
ترے الطافِ بے پایاں تری چشم کرم مولا!
ہمیٖں پر ہے ہمیٖں پر ہے ہمیٖں پر ہے ہمیٖں پر ہے
مولاناحسنینؔ رضا بریلوی(م1981ء)
جس زمیں کو پائے بوسی کا شرَف حاصل ہوا
اس زمیں میں لعل و یاقوت و گہر پیدا ہوئے
عارفِ ارض و سما میرِ بساطِ کائنات
خیر سے خیر الامم، خیرالبشر پیدا ہوئے
جس نے دیکھا پھر نہ دیکھا اور کچھ ان کے سوا
اک نظر میں سیکڑوں حُسنِ نظر پیدا ہوئے
اب نہ اتریں گے صحیفے اب نہ آئیں گے رسول
لے کے قرآں آخری پیغام بَر پیدا ہوئے
احسان دانش(م1982ء)
اے مسلمانو! مبارک ہو نویدِ فتحِ یاب
لو وہ نازل ہو رہی ہے چرخ سے امُّ الکتاب
وہ اٹھے تاریکیوں کے بامِ گردوٗں سے حجاب
وہ عرب کے مطلعِ روشن سے ابھرا آفتاب
گرد بیٹھی کفر کی، اٹھی رسالت کی نگاہ
گر گئے طاقوں سے بت خم ہو گئی پشتِ گناہ
چرخ سے آنے لگی پیہم صدائے لا الٰہ
ناز سے کج ہو گئی آدم کے ماتھے پر کلاہ
آ گیا جس کا نہیں ہے کوئی ثانی وہ رسول
روحِ فطرت پر ہے جس کی حکمرانی وہ رسول
ٰجس کا ہر تیور ہے حکمِ آسمانی وہ رسول
موت کو جس نے بنایا زندگانی وہ رسول
محفلِ سفاکی و وحشت کو برہم کر دیا
جس نے خوں آشام تلواروں کو مرہم کر دیا
جوشؔ ملیح آبادی(م1982ء)
سلام اے آمنہ کے لال اے محبوبِ سبحانی
سلام اے فخرِ موجودات فخرِ نوعِ انسانی
سلام اے ظلِ رحمانی سلام اے نورِ یزدانی
ترا نقشِ قدم ہے زندگی کی لوحِ پیشانی
ترے آنے سے رونق آ گئی گل زارِ ہستی میں
شریکِ حالِ قسمت ہو گیا پھر فضلِ ربّانی
سلام اے صاحبِ خلقِ عظیم انساں کو سکھلائے
یہی اعمالِ پاکیزہ یہی اشغالِ روٗحانی
حفیظِؔ بے نوا بھی ہے گدائے کوچۂ الفت
عقیدت کی جبیں تیری مروت سے ہے نورانی
ترا در ہو، مرا سر ہو، مرا دل ہو، ترا گھر ہو
تمنا مختصر سی ہے مگر تمہید طولانی
سلام اے آتشیں زنجیرِ باطل توڑنے والے
سلام اے خاک کے ٹوٹے ہوئے دل جوڑنے والے
حفیظؔ جالندھری(م1982ء)
مدینہ کی زمیں بھی کیا زمیں معلوم ہوتی ہے
لیے آغوش میں خلدِ بریں معلوم ہوتی ہے
ترے جوٗد و کرم کی ہر ادا میں یارسول اللہ
نمودِ شانِ رب العالمیں معلوم ہوتی ہے
تعالیٰ اللہ اے ارضِ مدینہ تیرا کیا کہنا
بلندی عرش کی زیرِ زمیں معلوم ہوتی ہے
مولاناسید محمدؔ اشرفی محدث کچھوچھوی(م1383ھ)
آ گیا رحمت بہ داماں موسمِ حج آ گیا
نغمہ ہائے شوق اربابِ طرب گانے لگے
عازمانِ کوچۂ طیبہ پَہ ہنگامِ وداع
کوثر و زم زم کے ساگر بھر کے چھلکانے لگے
پھر سکونِ گم شدہ کی جستجو ہونے لگی
وہ جنونِ شوق کے لمحات یاد آنے لگے
زائرِ حرم حمیدؔ صدیقی لکھنوی(م1385ھ)
پامال کیا برباد کیا، کم زور کو طاقت والوں نے
جب ظلم و ستم حد سے گزرے، تشریف محمّد لے آئے
تہذیب کی شمعیں روشن کیں، اونٹوں کے چرانے والوں نے
کانٹوں کو گلوں کی قسمت دی، ذرّوں کے مقدر چمکائے
عورت کو حیا کی چادر دی، غیرت کا غازہ بھی بخشا
سینوں میں نزاکت پیدا کی، کردار کے موتی بکھرائے
ماہرالقادری(م1398ھ)
حضرت نوریؔ بریلوی کے عہد میں نعت گوئی کی مبارک و مسعود روش اور اس کے معیار پر روشنی ڈالتے ہوئے جن شعرائے گرامی کے نعتیہ اشعار پیش کیے گئے ہیں ان کے مطالعہ کے بعد آئیے نوریؔ بریلوی کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی و ادبی جائزہ لیتے ہیں۔
٭٭٭
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی اپنے والدِ ماجد امام احمد رضا محدثِ بریلوی نور اللہ مرقدہٗ کے علم و فضل اور زہد و تقوا کے جانشین اور وارث و امیٖن تھے۔ فقہ، حدیث، تفسیر اور دیگر علوم عقلیہ و نقلیہ کی طرح تقدیسی شاعری بھی آپ کو ورثے میں ملی تھی۔ اور یہی شاعری تا عمر آپ کی شہنازِ تخییل اور ناہیدِ سُخن بنی رہی۔
سرکارِ ابد قرار روحی فداہ، نبیِ امّی، ختمی مرتبت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم و اصحاب و اولیا سے عشق و محبت و الفت، خانوادۂ رضا کا طرۂ امتیاز ہے۔ حضرت نوریؔ بریلوی نہ صرف عاشقِ رسول اور عقیدت کیشِ اولیا بالخصوص شیدائے غوث الورا تھے بل کہ عشقِ مصطفوی اور عقیدتِ اولیا کی اشاعت و تشہیر بھی ان کی حیات کا مقصد اور ان کا مشن تھا فرماتے ہیں ؎
ترا ذکر لب پر خدا دل کے اندر
یوں ہی زندگانی گذارا کروں میں
دمِ واپسیں تک ترے گیت گاؤں
محمّد محمّد پکارا کروں میں
ظاہر ہے ایک ایسے عاشقِ رسول کا وہ بھی ایک خالص دینی، روحانی، علمی اور ادبی خانوادے کے چشم و چراغ کی حیثیت سے تقدیسی شاعری یعنی نعتیہ شاعری (اسی کے تحت حمد و مناجات اور منقبت کو بھی رکھا گیا ہے)سے لگاؤ اور شغف فطری اور قدرتی امر تھا۔ جسے عشق و محبت، عقیدت و الفت، تعظیم و توقیر، دینی دردمندی اور پاکیزہ ومقدس ماحول نے نکھارا اور بانکپن عطا کیا۔
حضرت نوریؔ بریلوی 18؍ سال کی عمر میں درسیارت سے فارغ ہوئے لہٰذا دونوں باتیں ممکن ہیں کہ زمانۂ طالب علمی سے ہی آپ نے شعر کہنا شروع کیا ہو یا باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز بعدِ فراغت کیا ہو اس بابت اب تک کوئی تحقیق سامنے نہیں آسکی ہے اوریوں بھی اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا کہ کس عمر میں شاعری کا آغاز ہوا۔
سید تعظیم علی نقوی شایاںؔ بریلوی کے بہ قول حضرت نوریؔ بریلوی کا تخلص پہلے ’’شیداؔ ‘‘ تھا۔ انھوں نے اپنی تالیف میں آپ کے دونوں تخلص لکھے ہیں یعنی ’’شیدا‘‘ و ’’نوری‘‘۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاعری کا آغاز بہ بہر حال! جو انی ہی میں ہو گیا تھا۔
تعظیم علی نقوی شایاںؔ بریلوی نے شیداؔ تخلص سے حضرت کے دو شعر بھی لکھے ہیں ؎
بزمِ عالم میں ہزاروں لائے پیغمبر چراغ
کوئی کب لایا جہاں میں آپ سے بہتر چراغ
ظلمتِ مرقد کا اندیشہ ہے شیداؔ کس لیے
لے کے آئیں گے لح دمیں شافعِ محشر چراغ (1)
حضرت نوریؔ بریلوی کے نعتیہ دیوان کے مندرجۂ ذیل تین تاریخی نام ہیں۔ یہ تینوں آپ نے خود اپنے قلمی دیوان کے شروع میں اپنے ہی قلم سے لکھے تھے :
(1) حضور بیانِ نور۔ 1333ھ
(2) گلستانِ نعتِ نبی۔ 1347ھ
(3) سامانِ بخشش۔ 1354ھ
دیوان کے مندرجہ بالا تینوں نام میں پہلا نام ’’حضور بیانِ نور‘‘سے ظاہر ہے کہ حضرت نوریؔ بریلوی نے1333ھ میں اچھے خاصے کلام پر مشتمل دیوان مرتب کر لیا تھا یعنی 23 ؍ سال کی عمر میں۔ (کیوں کہ حضرت نوریؔ بریلوی کاسنہ ولادت 1310ھ ہے)
اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت نوریؔ بریلوی نے شاعری کا آغاز کم عمری ہی میں کر دیا ہو گا یعنی زمانۂ طالب علمی میں اور پھر18؍ سال کی عمر میں درسیات سے فارغ ہونے کے بعد آپ پر فتویٰ نویسی، درس وتدریس، رشد و ہدایت وغیرہ کی ذمہ داری بھی عائد ہو گئی تھی لہٰذا اشعار کہنے کا زیادہ وقت نہ مل پاتا رہا ہو گا اور چوں کہ آپ نے بہ عمر 23؍سال (حیاتِ مولانا احمد رضا ہی میں کہ آپ کا سنہ وصال 1340ھ ہے) اچھے خاصے کلام پر مشتمل بہ نام ’’حضور جانِ نور ‘‘ کے نام سے مجموعہ مرتب کر لیا تھا لہٰذا یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ آپ کو شاعر ی سے بڑا لگاؤ تھا اور آپ بہت زود گو بھی تھے۔
یہ بات تو ابتدا میں واضح کی جاچکی ہے کہ شاعری حضرت نوریؔ بریلوی کو ورثہ میں ملی تھی اور محبتِ رسول و عقیدتِ نائبینِ رسول نیز گھریلو ماحول نے شعر گوئی کی تحریک میں تیزی پیدا کی اور چوں کہ بریلی میں وصالِ امام احمد رضا کے بعد عرسِ رضا میں نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد بھی ہوتا تھا۔ اس میں آپ بھی شرکت فرماتے تھے لہٰذا ایسا گمان گزرتا ہے کہ ذوقِ شعر گوئی کو اور بھی تقویت و تحریک ملی۔
حضرت نوریؔ بریلوی کے تقدیسی شاعری سے لگاؤ کا اندازہ مندرجہ ذیل واقعات سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی لکھتے ہیں :
’’ ایک بار حضرت( حضرت نوریؔ بریلوی)ضلع بریلی کے ایک گاؤں میں تشریف لے گئے تھے۔ صاحب خانہ کی آٹھ، نو برس کی لڑکی کے ہاتھ میں کتاب کا ایک ورق تھا جس پر داغؔ دہلوی کی ایک غزل تھی جس کا ایک مصرع اس طرح تھا ع
کون کہتا ہے آنکھیں چرا کر چلے
حضرت کو مصرع بہت پسند آیا اور وہیں بیٹھے بیٹھے تھوڑی دیر میں نعت لکھ دی۔ ‘‘(2)
مصرع داغؔ ۔ ’’کون کہتا ہے آنکھیں چرا کر چلے‘‘۔ پر حضرت نوریؔ بریلوی نے جو نعتِ پاک کہی اس کا مطلع اس طرح ہے ؎
کون کہتا ہے آنکھیں چرا کر چلے
کب کسی سے نگاہیں بچا کر چلے
یہ نعت پاک 34 ؍اشعار پر مشتمل ہے۔ ایک نشست میں وہ بھی قلیل وقت میں اتنی طویل نعت کہہ دینا حضرت نوریؔ بریلوی کی شعری حرکیت اور زود گوئی پر دال ہونے کے ساتھ ساتھ شاعری سے ان کے شغف اور لگاؤ کی بھی شاہد و گواہ ہے۔
دوسرا واقعہ حضرت نوریؔ بریلوی کے اولین سوانح نگار ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی اس طرح بیان کرتے ہیں :
’’ ایک بار حضرت سفر میں تھے راستے میں کاغذ کا ایک ورق پڑا ملا جس کو حضرت نے اٹھا لیا۔ اس میں اکبرؔ الہ آبادی کی ایک نظم کے کچھ اشعار تھے جس کا مضمون کچھ اس طرح تھا کی اس میں ڈور، الجھاؤ، اور پتنگ وغیرہ کا تذکرہ آتا تھا۔
حضرت کو یہ مضمون بہت پسند آیا بعد میں حضرت نے ایک طویل نظم کہی جس کا ایک شعر مندرجہ ذیل ہے اور جو بہت مشہور ہے ؎
دہریہ الجھا ہوا ہے دہر کے پھندے میں یوں
سارا الجھا سامنے ہے اور سرا ملتا نہیں (3)‘‘
یہ نعتِ پاک بھی طویل ہے اور47 ؍اشعار پر مشتمل ہے۔ اس نعت کے لکھنے سے بھی حضرت نوریؔ بریلوی کی زود گوئی اور شاعری سے قلبی لگاؤ کا پتہ چلتا ہے۔
یہاں یہ امر بھی ملحوظ رہ کہ نوریؔ بریلوی کی ذمہ داریاں گوناگوں تھیں، رضوی دارالافتاء کا اہتمام، جامعہ مظہرِاسلام کا انصرام، کارِ فتویٰ کی کثرت، تبلیغِ دین کے اسفار، تصنیف و تالیف اور دیگر مصروفیات سے جو وقت بچ جاتا تھا یا بچا لیا جاتا تھا اس میں نوریؔ بریلوی نعت گوئی کیا کرتے تھے۔ پھر بھی آپ کی شاعری ایسی عمدہ شاعری ہے کہ سلاست و روانی، زبان کی شگفتگی اور محاورہ کے اعتبار سے جن شعرا کی حیثیت کو مسلم مانا گیا ہے ان کی صف میں بلا شبہہ شامل ہو نے کی حق دار ہے۔
(1)تعظیم علی نقوی شایاںؔ بریلوی، سید:تاریخِ شعرائے روہیلکھنڈ، ج2، ص759
(2) عبدالنعیم عزیزی، ڈاکٹر:مفتیِ اعظمِ ہند، اختر رضا بکڈپو، بریلی، 1981ء، ص58
(3)عبدالنعیم عزیزی، ڈاکٹر:مفتیِ اعظمِ ہند، اختر رضا بکڈپو، بریلی، 1981ء، ص58
٭٭٭
تخییلی رویّے اور شاعری سے لگاؤ کا ایک دوسرے سے خاص تعلق ہے ایک فطری شاعر وہ بھی نعت و منقبت کا شاعر جب بھی اپنے ممدوحین کا تصور کرتا ہے یا ان کے تذکرے کرتا ہے یاسنتا ہے یاگستاخانِ زمانہ ان کی تنقیص و توہین کرتے ہیں تب شاعر کا قلم حرکت میں آ جاتا ہے۔
حضرت نوریؔ بریلوی کے والد ماجد امام احمد رضا محدثِ بریلوی، عمِ محترم علامہ حسن رضا خاں حسنؔ بریلوی اور برادرِ اکبر حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خاں حامدؔ بریلوی وغیرہ کے دواوین حضرت نوریؔ بریلوی کے گھر ہی میں تھے۔ آپ کو ان کے مطالعے سے بھی شعر گوئی کی تحریک و ترغیب ملتی تھی علاوہ اس کے فتویٰ نویسی، درسِ فقہ و حدیث، نیز دینی تصنیف و تالیف میں حضور جانِ نور صلی اللہ علیہ و سلم نیز نائبین رسول کے فضائل و مناقب اور گستاخانِ رسول و اصحاب و عترت و اولیا وغیرہ کے ردّ کے توسط سے بھی نعت و منقبت لکھنے کی تحریک و ترغیب ملتی تھی اور حضرت نوریؔ بریلوی اپنے شعری حرکیت کو بروئے کار لا کر اشعار قلم بند کیا کرتے تھے۔
حضرت نوریؔ بریلوی کی شاعر ی دراصل وہبی تھی کسبی نہیں۔ حضرت نوریؔ بریلوی صرف شاعر ہی نہیں شارحِ ادب بھی تھے اور طلاقتِ لسانی، برجستگی و شگفتہ کلامی کا پیکر بھی۔ آپ نے اپنے والد ماجد امام احمد رضا بریلوی کے چند اشعار کی شرح بھی فرمائی جسے فتاویٰ مصطفویہ میں نشانِ خاطر کیا جا سکتا ہے۔ نیز تصنیفِ رضا’’ الاستمداد علیٰ اجیال الارتداد ‘‘ پر نوریؔ بریلوی نے حواشی لکھے ہیں اور اشعار کی شرح فرمائی ہے۔ ان امور سے بھی شعر وسخن سے آپ کے دلی لگاؤ اور شغف کا اندازہ ہوتا ہے نیز تخییلی رویّے کا پتہ چلتا ہے۔
ادیبِ شہیر مولانا اسلم بستوی بلرام پوری آپ کی شعر فہمی، طلاقتِ لسانی، برجستگی اور شگفتہ کلامی بیان کرتے ہوئے حضرت نوریؔ بریلوی کی زبان دانی کا ایک واقعہ یوں تحریر کیا ہے:
’’ مَیں نے ایک ملاقات میں عرض کیا :’ حضور ایک جدید شاعر کو اَعلا حضرت کے اس مصرعے۔۔ ’کھائی قرآں نے خاکِ گذر کی قسم ‘ ۔۔ پر اعتراض ہے، شاعر کا کہنا ہے کہ ’’خاکِ گذر‘‘ کی ترکیب صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ اَعلا حضرت نے غالباً ’’خاکِ گذر ‘‘ سے ’’خاکِ رہِ گذر‘‘ مراد لیا ہے۔ اوّل تو ’’خاکِ گذر‘‘ کی ترکیب بالکل نئی ہے، اساتذہ کے کلام میں کہیں اس کی نظیر نہیں ملتی، دوّم یہ کہ مفہوم کی صحیح ترسیل نہیں ہو پاتی، سوّم یہ کہ ’’گذر‘‘ بمعنی ’’گذرنا‘‘ ہوتا ہے اور گذرنا مرنے کو بھی کہتے ہیں اس لیے ’’خاکِ گذر‘‘ کا یہاں کچھ اور مفہوم بھی نکلتا ہے، وغیرہ وغیرہ قسم کی لایعنی باتیں کہتا ہے۔ ‘
اس پر آپ(مفتیِ اعظم) نے ارشاد فرمایا :’ جدیدیے ابھی پچاس سال اَعلا حضرت کو پڑھیں، اور پچاس سال سمجھیں، ۔۔ ’’خاکِ گذر‘‘ کی ترکیب بالکل نئی ہے مسلّم!۔۔ لیکن یہ تو کوئی اعتراض نہ ہوا، اس لیے کہ غالبؔ وغیرہ اپنی نئی ترکیبوں کی وجہ سے بھی ممتاز سمجھے جاتے ہیں، درآں حال یہ کہ وہاں کچھ بے معنی تراکیب بھی ملتی ہیں جب کہ اَعلا حضرت کی یہ اور اس طرح کی بہت ساری نئی تراکیب بامعنی اور برمحل ہیں، اس طرح اَعلا حضرت نے نعتیہ شاعری میں نہ صرف اضافہ کیا ہے بل کہ خوش آیند امکانات کے بہت سے نئے دروازے بھی کھول دئیے ہیں، جو فنِّ شاعری کے لیے فالِ نیک ہے۔ اور یہ کہ اَعلا حضرت کے کلام کے لیے دوسروں کی نظیر کیوں تلاش کی جائے ؟ ۔۔ اَعلا حضرت کا کلام بجائے خود دوسروں کے لیے نظیر ہے۔
اور یہ کہ اس سے مفہوم کی صحیح ترسیل جاہلوں تک نہیں ہو پاتی اور اَعلا حضرت کی شاعری جاہلوں کے لیے ہے بھی نہیں ! ۔۔
اَعلا حضرت نے ’’خاکِ گذر‘‘ کی ترکیب وانت حل بہذا البلد کی رعایت سے استعمال کی ہے جو اس آیتِ مبارکہ کی صحیح ترجمانی بھی ہے، اس کے برخلاف بات غلط ہو جاتی۔
اور یہ کہ’’ گذر‘‘ بمعنی ’’گذرنا‘‘ یعنی ’’ مرنا ‘‘ہے تو اس شاعر سے کہو کہ تمہارے مرنے کے بعد کیا تمہاری قبر کو ’’گذر گاہ ‘‘ کہا جائے گا؟‘‘
( ماہ نامہ استقامت: مفتیِ اعظم نمبر، ماہ مئی ۱۹۸۳ء، کان پور، ص ۴۲۰)
اسی طرح حضرت نوریؔ بریلوی نے مدیر زمین دار ظفر علی خاں کے تین کفری اشعار کی شرح کرتے ہوئے ان اشعار کو خالص کفری قرار دیتے ہوئے ظفر علی خاں پر حکمِ کفر عائد کیا ہے، اشعار مندرجہ ذیل ہیں ؎
یہ سچ ہے اس پہ خدا کا نہیں چلا قابو
مگر ہم اس بتِ کافر کو رام کر لیں گے
بجائے کعبہ خدا آج کل ہے لندن میں
وہیں پہنچ کے ہم اس سے کلام کر لیں گے
جو مولوی نہ ملے گا تو مالوی ہی سہی
خدا خدا نہ سہی رام رام کر لیں گے
تفصیل کے لیے خاطر نشیٖن کریں رسالہ ’ ’القسورۃ علی ادّوار الحمرۃالکفرۃ (1343ھ ) ‘‘ رسالہ کا عرفی نام ہے ’’سیف الجبار علی کفر زمین دار‘‘ اور لقبی نام ہے ’’ظفر علی رمۃ من کفر‘‘۔
درج بالا شرح و نقد سے حضرت نوریؔ بریلوی کے شعری لگاؤ اور ساتھ ہی ساتھ تخییلی رویّے کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
حضرت نوریؔ بریلوی نے اپنے والد ماجد امام احمد رضا بریلوی کے کلام سے بھی استفادہ کیا ہے۔ ’’گیسو‘‘کی ردیف پر امام احمد رضا کی ایک نعت ہے جس کا مطلع ہے ؎
چمنِ طیبہ میں سنبل جو سنوارے گیسو
حوریں بڑھ کر شکنِ ناز پہ وارے گیسو
اسی زمین پر نوریؔ بریلوی نے بھی نعت کہی ہے جس کا مطلع ہے ؎
کیا کہوں کیسے ہیں پیارے ترے پیارے گیسو
دونوں عارض ہیں ضحی لیل کے پارے گیسو
حضرت رضا بریلوی کے اشعار ہیں ؎
ذبح ہوتے ہیں وطن سے بچھڑے
دیس کیوں گاتے ہیں گانے والے
ارے بد فال بُری ہوتی ہے
دیس کا جنگلا سنانے والے
اسی مضمون پر حضرت نوریؔ بریلوی کے دو شعر ملاحظہ کریں ؎
دیس سے ان کے جو الفت ہے تو دل نے میرے
اس لیے دیس کا جنگلا بھی تو گانے نہ دیا
دیس کی دھن ہے وہی راگ الاپا اس نے
نفس نے ہائے خیال اس کا مٹانے نہ دیا
کلامِ نوری اور کلامِ رضاؔ کی معنوی اور صوتی ہم آہنگی کی مزید چند مثالیں ذیل میں نشانِ خاطر کریں ؎
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
’نہیں ‘ سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
مانگیں گے مانگے جائیں گے منہ مانگی پائیٕں گے
سرکار میں نہ ’لا‘ ہے نہ حاجت اگر کی ہے
(رضاؔ )
جس نے جو مانگا وہ پایا اور بے مانگے دیا
پاک منہ پر حرف آتا ہی نہیں انکار کا
سنو گے ’لا‘ نہ زبانِ کریم سے نوریؔ
کریم ہیں یہ خزانے لٹانے آئے ہیں
(نوریؔ )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لاوربِّ العرش جس کو جو ملا ان سے ملا
بٹتی ہے کونین میں نعمت رسول اللہ کی
(رضاؔ )
دوجہاں میں بٹتا ہے باڑہ اسی سرکار کا
دونوں عالم پاتے ہیں صدقہ اسی سرکار کا
(نوریؔ )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پھول کیا دیکھوں میری آنکھوں میں
دشتِ طیبہ کے خار پھرتے ہیں
(رضاؔ )
نظر میں کیسے سمائیں گے پھول جنت کے
کہ بس چکے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں
(نوریؔ )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا، وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی، جان ہے تو جہان ہے
(رضاؔ )
جب تم نہ تھے کچھ بھی نہ تھا، جب تم ہوئے سب کچھ ہو ا
ہے سب میں جلوہ آپ کا، مہرِ عجم ماہِ عرب
(نوریؔ )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جن جن مرادوں کے لیے احباب نے کہا
پیشِ خبیر کیا مجھے حاجت خبر کی ہے
(رضاؔ )
حال ہمارا جیسا زبوں ہے، اور وہ کیسا اور وہ کیوں ہے
سب ہے تم پر روشن شاہا، صلی اللہ علیک و سلم
(نوریؔ )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گذرے جس راہ سے وہ سیدِ والا ہو کر
رہ گئی ساری زمیں عنبرِ سارا ہو کر
(رضاؔ )
جس گلی سے تو گذرتا ہے مرے جانِ جناں
ذرّہ ذرّہ تری خوشبو سے بسا ہوتا ہے
(نوریؔ )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسا اُمی کس لیے منتِ کشِ استاد ہو
کیا کفایت تجھ کو اقرا ربک الاکرم نہیں
(رضاؔ )
نہ منت تم پہ استادوں کی رکھی
تمہارا اُمی ہونا معجزا ہے
(نوریؔ )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروروں درود
(رضاؔ )
چھپا تم سے رہے کیوں کر کوئی راز
خدا بھی تو نہیں تم سے چھپا ہے
(نوریؔ )
مذکورہ مثالیں اس بات کی دلیل ہیں کہ حضرت نوریؔ بریلوی کی شاعرانہ دل چسپی، لگاؤ اور شغف انتہائی گہرا تھا اور ساتھ ہی یہ آپ کے تخییلی رویّے کی غمازی بھی کرتی ہیں۔
بہ ہر حال! اس حقیقت سے انکار نہیں کہ حضرت نوریؔ بریلوی فطری شاعر تھے اور نعتیہ شاعری سے آپ کو عشقِ نبوی علیہ التحیۃ و الثنا ہی کے حوالے سے بڑا لگاؤ تھا۔ آپ اپنے دولت کدہ پر سالانہ محفلِ میلاد، ہفتہ وار میلاد اور نعتِ پاک کی بزم آراستہ کرتے تھے اس سے بھی نعتیہ شاعری سے آپ کے والہانہ شغف کا اندازہ ہوتا ہے۔
نوریؔ بریلوی نے عشقِ رسولصلی اللہ علیہ و سلم کے حوالے سے ہی نعت نگاری کا آغاز کیا۔ آپ نے اپنے کلام میں رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت و رفعت اور مقام و منصب کے ہر رُخ اور ہر پہلو کو اجاگر کرنے کی سعی فرمائی ہے۔ آپ کی نثر و نظم دونوں جگہ حضور احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت و رفعت کے جلوے نظر آتے ہیں۔ نوریؔ بریلوی نے والد گرامی امام احمد رضا محدثِ بریلوی کی طرح اپنے نعتیہ کلام میں جن موضوعات کو اختیار کیا ہے اس کی فہرست ذیل میں درج ہے۔
1۔ اللہ رب العزت جل شانہ کی حمد و ثنا
2۔ رسول اللہ ﷺ کا اللہ کا نور اور باعثِ ایجادِ عالم واصلِ عالم ہونا
3۔ رسول اللہ ﷺ کا اللہ کی عطا سے غیب پر آگاہ ہونا
4۔ رسول اللہ ﷺ کا حاضر و ناظر ہونا اور آپ کی حیات
5۔ رسول اللہ ﷺ کی محبوبیت (اللہ کا محبوب ہونا)
6۔ رسول اللہ ﷺ کا معراج کی شب لامکاں کا مکیں ہونا اور دیدارِ الٰہی سے مشرف ہونا
7۔ رسول اللہ ﷺ کا مالک و مختار ہونا
8۔ رسول اللہ ﷺ کا خاتم النبین ہونا
9۔ رسول اللہ ﷺ کا قاسمِ نعمت ہونا
10۔ رسول اللہ ﷺ کا بے مثل و بے مثال ہونا
11۔ رسول اللہ ﷺ کی فصاحت و بلاغت سب سے اعلیٰ و ارفع ہونا
12۔ رسول اللہ ﷺ کا شافع یوم النشور ہونا
13۔ رسول اللہ ﷺ کی میلادِ پاک کا جشن منانا
14۔ رسول اللہ ﷺ کا سایہ نہ ہونا
15۔ رسول اللہ ﷺ کے معجزات کا ذکر کرنا
16۔ رسول اللہ ﷺ کے شہرِ پاک مدینۂ طیبہ کا ذکر کرنا
17۔ رسول اللہ ﷺ کے دیگر آسمانی کتب میں ذکر و ثنا کو بیان کرنا
18۔ رسول اللہ ﷺ کی بارگاہِ عالیہ میں قوم و ملّت کی بدحالی پر استغاثہ و فریاد کرنا
19۔ رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ پر اصلاحِ اعمال و عقائد کے ساتھ قومِ مسلم کو عمل کرنے کی تلقین کرنا۔
٭٭٭
اردو شاعری کا خمیر بنیادی طور پر عشقیہ رہا ہے۔ ولیؔ سے میرؔ تک، ذوقؔ سے مومنؔ تک، غالبؔ سے داغؔ تک اور اقبالؔ سے زمانۂ حال کے شعرا تک، تمام ہی شعرا کے تصورِ فن پر عشق کے تصورات قائم اور حاوی رہے ہیں۔ عشق ایک فطری جذبہ ہے۔ کوئی انسان چاہے کتنا ہی بے حِس اور سنگ دل ہو۔ مگر قدرت کے اس حسین و جمیل اور لطیف و پُر کیف انعام سے وہ بے خبر ہرگز نہیں رہ سکتا۔ یہ لطیف جذبہ جب سر اٹھاتا ہے تو زندگی ایک نئی انگڑائی لیتی نظر آتی ہے۔ ساکت و جامد زندگی میں حرارت و توانائی پیدا ہو جاتی ہے۔ مر کے جینے کے اسباب مہیا ہو جاتے ہیں۔ اور بے ثبات و بے نشاط زندگی کو حیاتِ جاوداں اور انبساط و نوید کا سراغ مل جاتا ہے، لمحہ لمحہ دل میں امنگ و ولولہ، آنکھوں میں تجسس و تلاش، سینے میں خلش و کرب، کچھ پا نے اور کچھ کھونے کی تمنا و آرزو، بڑ ی مصروف ترین اور مشغولیت کی زندگی ہوتی ہے ان عشق کے ماروں کی مگر ؎
رونقِ ہستی ہے عشقِ خانہ ویراں ساز سے
انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں
آیئے اوّل، عشق کی حقیقت و ماہیت اور اس کے اسباب و محرکات کا تجزیہ کرتے ہیں اوراس ضمن میں مذہبی ادب کے معروف ناقد ڈاکٹر امجد رضا امجد کا مرقومہ حوالہ پیش کرتے ہیں :
’’حضرت فرید الدین عطار نے تکمیلِ عشق کی مثال پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’ایک شب کچھ پروانے ایک جگہ اکٹھا ہوئے اپنے دلوں میں شمع سے ہم کنار ہو نے کی آرزو لیے ہوئے۔ ان میں سے ایک پروانہ شمع کی تلاش میں اڑا اس نے دور سے شمع کو جلتے ہوئے دیکھا، پس واپس آیا، اور دوسرے پروانوں کے سامنے شمع کے بارے میں بڑی دانش مندی سے باتیں کرنے لگا، مگر پروانوں میں سب سے عقل مند پروانے نے کہا : ’’یہ پروانہ ہمیں شمع کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتا، ‘‘۔ تب ایک پروانہ اڑا، وہ شمع کے اس قدر قریب چلا گیا کہ اس کے پروں نے شمع کے شعلے کو چھو لیا، مگر تپش اتنی زیادہ تھی کہ وہ اس کی تاب نہ لا سکا اور واپس آ گیا، واپس آ کر اس نے بھی شمع کے اسرار سے پردہ اٹھایا اور بتایا کہ شمع سے وصال کی کیا نوعیت ہوتی ہے۔ مگر عقل مند پروانے نے کہا: ’’ تمہارا تجربہ بھی اتنا ہی بے کار ہے جتنا تمہارے ساتھی کا تھا‘‘۔ تب تیسرا پروانہ اڑا اوراس پروانے نے جاتے ہی خود کو شمع کے حوالے کر دیا پھر جب وہ شعلے سے ہم کنار ہو گیا تو شمع کی طرح ہی لو دینے لگا، عقل مند پروانے نے دیکھا کہ شمع نے پروانے کو خود میں جذب کر لیا ہے تو اس نے کہا : ’’ اس پروانے نے عشق کی تکمیل کر دی ہے لیکن اس تجربہ کو وہی جانتا ہے اور کوئی نہیں جان سکتا، ‘‘۔
اس تمثیل پر ڈاکٹر وزیر آغا تبصرہ کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں :
’’تصوف میں عشق کا سفر پروانے کے سفر سے مماثل ہے، جو شمع کی روشنی کی ایک جھلک پانے پر شروع ہوتا ہے اور اس لمحہ اپنے انجام کو پہنچتا ہے جب پروانہ خود کو شمع کی روشنی کی آگ میں جلا کر روشنی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ ‘ ‘ (1)
اسی طرح عشق کی حقیقت کو مشہور صوفی بزرگ منصور بن حلّاج نے اس طرح طرح بیان فرمایا ہے :
’’محبت کی ابتدا جلنا ہے اور انتہا قتل ہو جانا۔ ‘‘
علاوہ ازیں حضرت ابو تراب بخشی نے عشق کی علامات میں یہ چند شعر کہے ہیں ؎
’’منہا تنعمہ بمر بلائہ
وسرورہ فی کل ماہو فاعل
ومن الدلائل ان تریٰ فی عزمہ
طوع الحبیب وان الح العادل
ومن الدلائل ان یری متبسما
والقلب فیہ من الحبیب بلائل
ترجمہ :ایک علامت یہ ہے کہ وہ اپنی تلخ آزمایش سے لطف اندوز ہوتا ہے اور محبوب جو کرتا ہے اس سے خوش ہوتا ہے، ایک علامت یہ ہے کہ وہ محبوب کی اطاعت کا پختہ ارادہ رکھتا ہے اگر اسے ملامت کرنے والے ملامت کریں، ایک علامت یہ ہے کہ تم اسے مسکراتا ہوا پاؤ گے اگرچہ اس کے دل میں محبوب کی طرف سے آگ سلگ رہی ہوتی ہے۔ ‘‘(2)
حقیقت یہ ہے کہ کائناتِ عالم کی ساری رونقیں، چہل پہل اور رنگینیاں عشق ہی کے دم قدم سے ہیں ، کہ اگر عشق نہ ہوتا تو کچھ نہ ہوتا اور عشق نہ ہو تو کچھ نہ ہو۔ عشق ہی ’’کنت کنزاً مخفیا ‘‘کی تفسیر بن کر کائنات کی شکل میں ظہور پذیر ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ قدرت نے ہر شَے میں اس پاکیزہ قوت کو کار فرما رکھا ہے۔
اس ضمن میں پروفیسر ڈاکٹر طلحہ رضوی برقؔ داناپوری تحریر کرتے ہیں :
’’سائنٹفک طور پر اگر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ عشق وہ کشش ہے جو مادہ میں موجود ہے اور جس کی بہ دولت دنیا کا نظام بہ دستور قائم ہے۔ ‘ ‘ (3)
اﷲ رب العزت جل و علا نے بھی اپنے محبوب علیہ السلام سے بے مثال محبت فرمائی ہے۔ ذرا قرآنِ مقدس میں محبوبِ بے مثال کا ذکرِ جمیل اور اظہارِ محبت کا دل نواز اسلوب ملاحظہ کیجیے :
لا اقسم بہٰذا البلد وانت حل بہٰذا البلد (سورۃ البلد پارہ 30، آیت 2)
محبوب کے شہر کی قسم
سبحان الذی اسریٰ بعبدہ (سورۃ بنی اسرائیل پارہ15، آیت1)
محبوب کے سفرِ لامکاں اور رفتار کا ذکرِ جمیل
ید اللہ فوق ایدہم (سورۃ الفتح پارہ26، آیت10)
محبوب کے ہاتھوں کو محبت میں اپنا ہاتھ کہنے کا واقعہ
ومارمیت اذ رمیت (سورۃ الانفال پ 9، آیت 17)
محبوب کے عمل کو اپنا عمل کہنے کاسُخنِ د ل آرا
والضحیٰ واللیل اذا سجیٰ (سورۃ الضحیٰ پارہ 30، آیت 1)
محبوب کے چہرۂ زیبا کی یاد اور زلفِ پیچاں کا تذکرۂ خیر
گویا عشق کی یہ مقدس روایت جو عملاً ہم تک پہنچی ہے اس کی بنیاد ہی تقدس و طہارت، شیفتگی و لطافت اور پاکی و نفاست پر ہے۔ یہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عشق بندگی ہے، عشق عبادت ہے، عشق ریاضت ہے، عشق طاعت ہے، عشق سپردگی ہے، عشق فنا ہو کر بقا کا حصول ہے اگر اسے برتا جائے۔ اسے پرکھا جائے اور یہ’’ سب کچھ ہے ‘‘اگر اسے سمجھاجائے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں عشق و عقل کے مابین معرکہ آرائی میں عقل شکست خوردہ ہو جاتی ہے، وہیں عشق کی قوت و طاقت بڑے بڑے ناقابلِ تسخیر معرکے سر کر لیا کرتی ہے۔ عقل اصولوں کی پابند ہے۔ اس کے پیروں میں ضوابط کی بیڑیاں ہیں۔ اسے کانٹوں میں چبھن، انگاروں میں جلن، درد میں بے قراری، اور ہجر میں کرب و کسک کا احساس ہوتا ہے۔ مگر عشق کا انداز ہی انتہائی جداگانہ، اچھوتا اور نرالا ہے۔ انگارے اس کے لیے لالہ و گل بن جاتے ہیں۔ بے قراری میں سکون و اطمینان کی لذت ملتی ہے۔ اور کرب میں آرام و آسایش کا احساس، عاشقِ زخم خوردہ کی ٹیس بھی مرہمِ زنگار ہے۔ مگر عقل کے لیے آہ آہ اور ہائے ہائے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ عاشق کا زخم نہیں بھرتا اور اس کا درد و کرب منّتِ کشِ دوا بھی نہیں ہوتا، بہ قولِ غالبؔ ؎
درد منّت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا بُرا نہ ہوا
یہ عشق کے زخموں اور چوٹوں کا اعجاز ہے کہ وہ بڑھتے بڑھتے خود ہی دوا ہو جاتا ہے۔ اس کے چاک زخموں کو رفو کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی غالبؔ کہتے ہیں ؎
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گذرنا ہے دوا ہو جانا
اور جب عشق اپنے انتہا کو پہنچتا ہے تو اسے قتل گہہ جاناں تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے اور یہی عشق کی معراج ہے ؎
عشرتِ قتل گہہ اہلِ تمنا مت پوچھ
عیدِ نظّارہ ہے خورشید کا عریاں ہونا
غزل کا بنیادی سرمایہ چوں کہ عشق ہے۔ اور یہ عشق جتنا شدید اور پختہ ہو گا غزل کی معنویت اتنی ہی پر کشش اور اثر انگیز ہو گی۔ شاعر کا فکری رجحان اور قلبی میلان معشوقِ مجازی کی طرف ہو یا محبوبِ حقیقی کی طرف۔۔اگر اس میں عشق کا سوز و گداز اور جذبِ دروں کی کیفیت کافی و وافی ہو تو فوراً دل پر اثر انداز ہوتا ہے۔
فارسی سے لے کر اردو تک ایسے شاعروں کی کمی نہیں جنھوں نے عشق کے بحرِ بے کراں کا صرف ساحل سے نظارہ نہیں کیا بل کہ اس میں غوطہ زن بھی ہوئے ہیں۔ چشمِ گریاں اور دلِ بریاں کے گوہر ہائے آب دار بھی پائے ہیں۔ اور دلِ مبتلا کو زخم و غم کے داغوں سے آراستہ بھی کیا ہے۔ اسی لیے ان کی شاعری میں درد و کرب کا سورج چمکتا ہے۔ زخموں اور ٹیسوں کے گلہائے رنگارنگ مہکتے ہیں۔ اور داغِ دل کا سرسبز و شاداب باغ بہاروں کو شرماتا ہے۔ جب تک شاعر عینی مشاہدہ کی آنچ اور ذاتی تجربہ کی تپش سے اپنے فکر و خیال کو روشن نہیں کرتا، اس کی شاعری تاثیر اور اثر انگیزی سے یک سر محروم ہوتی ہے۔ اردو شاعری میں میرؔ و غالبؔ اور اقبالؔ بڑے خوش قسمت شاعر گذرے ہیں جنھیں اردو شاعری کی ارواحِ ثلاثہ کہا جاتا ہے۔ ان کے یہاں تصورِ عشق کا جو رجحان ملتا ہے دراصل وہ ذاتی تجربہ اور عینی مشاہدہ کا منہ بولتاعکس ہے۔ خارجیت و داخلیت دونوں پہلوؤں میں ان کے احساسات و جذبات کی کرچیاں ہمیں ان کے صحیفۂ عشق اور دیوانِ غم کا مکمل عرفان بخشتی ہیں۔
مذکورہ بالا تمہید کے بعد عشق کے تناظر میں ہم مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی شاعری اور ان کے تصورِ عشق و فن پر گفتگو کرتے ہیں۔ حضرت نوریؔ بریلوی اتر پردیش کے شہر بریلی کے اس خانوادہ سے متعلق ہیں کہ جس کا طرۂ امتیاز ہی عشق ہے۔ اور وہ عشق ملکوتی تصورات اور صفات کا حامل عشق ہے۔ والد گرامی امام احمد رضا محدثِ بریلوی کہ جن کی زندگی کا مشن ہی تحریکِ عشق تھا۔ آپ کے وجود پر عشق ہی عشق کا غلبہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے ہر فعل سے عشق کی تاب ناکی ہویدا تھی۔ آپ کے ہر عمل سے عشق کی درخشانی عیاں تھی۔ آپ کا لمحہ لمحہ عشق کی تشہیر میں گذرا۔ آ پ کا قلم عشق ہی عشق کی ترویج کرتا رہا۔ حضرت نوریؔ بریلوی کو جہاں اپنے والدِ ماجد سے ورثے میں بہت سے قیمتی گوہر ملے۔ وہیں سب سے بیش بہا جو دولت ملی وہ دولتِ عشق ہے۔
حضرت نوریؔ بریلوی کے یہاں عشق کا ایک ایسا توانا تصور و تخیل ہے جو انتہائی نکھرا ہوا، ستھرا ہوا، صاف و شفاف اور دل کش و دل نشین ہے۔ آپ کے تصورِ عشق میں پراگندگی نہیں بل کہ پاکیزگی ہے۔ آلودگی نہیں بل کہ طہارت ہے۔ آپ کی عاشقی مجازی عاشق و معشوق کی طرح بے راہ روی اور بے حیائی سے عبارت نہیں بل کہ آپ کی عاشقی خدائے وحدہ لاشریک اور اس کے محبوبِ بے مثال مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم سے بے پناہ عقیدت و محبت سے آراستہ و مزین ہے کہ یہی عشق اصل میں زندگی اور بندگی ہے، طاعت اور عبادت ہے۔ یہی منشائے قرآنی بھی ہے اور باعثِ نجاتِ دائمی بھی۔ نوریؔ بریلوی کے تصورِ عشق کے سب رنگ جلوے ہمیں ان کی زندگی کے گوشہ گوشہ میں نظر آتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ضمیر کی آواز لفظوں کا لبادہ اوڑھ کر جب درِ دل پر دستک دیتی ہے تو قاری وسامع اپنے اندر وہی درد، سوز، غم، کسک، کرب، تڑپ اور اضطراب کی لذتوں سے آشنا ہو جاتا ہے جو شاعر کے قلب پر گذر چکی ہوتی ہے۔
حضرت نوریؔ بریلوی کی غزلیات کو پڑھ کر ان کی اس کیفیت کو جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ جس کا شعر شعر قرآنی عشق کی تشریح و تفسیر، لفظ لفظ حدیثِ محبت کا سرچشمہ و منبع اور حرف حرف واردات و الہام کاعکاس ہے۔ آپ نے اپنے والد رضاؔ بریلوی ہی کی طر ح اپنی زندگی کا مقصد و مدعا عشق ہی کو بنایا۔ اسی لیے مادیت کے تمام افعال اور روحانیت کے تمام امور میں عشق ہی کی جلوہ گری رہی اور آپ نے عشق ہی کی رہِ بری میں تمام مقدمات و مسائل حل کیے۔ آپ کی ذات پر عشق ہی عشق کا غلبہ تھا۔ اس لیے آپ کے ہر فعل سے عشق کی روشنی پھوٹتی تھی۔ آپ کے ہر عمل سے عشق کی تاب ناکی ہویدا تھی۔
چناں چہ حضرت نوریؔ بریلوی کے جانشین سماحۃ الشیخ فخر ازہر مرشدی مفتی محمد اختر رضا قادری برکاتی ازہری بریلوی آپ کے عشق کے بارے میں رقمطراز ہیں :
’’سیدی مفتی اعظم حضرت مصطفیٰ رضا قدس سرہ رضائے مصطفیٰ تھے، اور جو عظمت انھیں حاصل ہوئی محبتِ رسول علیہ الصلوٰۃ والتسلیم ہی کی بنا پر اور بلا شبہ عشقِ مصطفی علیہ التحیۃ والثناہی جانِ ایمان ہے۔ حضرت کی سرکار علیہ السلام کے عشق میں فنائیت کا شاہد ان کی زندگی کا ہر لمحہ ہے۔ ان کی محبتِ رسول میں فنائیت کا صحیح اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آخری عمر میں باوجود شدیدعلالت کے نعت کی محفلوں میں گھنٹوں با ادب بیٹھے رہتے تھے اور نعتِ پاک کے ہر ہر مصرعے پر رونا اور والہانہ کیفیت کا طاری ہونا اس بات کا غماز ہے کہ وہ مصطفی (صلی اللہ علیہ و سلم )کی محبت میں ضم ہو چکے تھے۔ ‘‘(4)
جس طرح ڈاکٹر اقبالؔ نے اسرارِ خودی سے جاوید نامہ تک کا اور امام احمد رضا محدثِ بریلوی نے انیسویں صدی کے اواخر سے 1921ء تک کا روحانی و ادبی اور شعری سفر عشق کی رہبری میں طے کیا تھا۔ اسی طرح کلامِ نوریؔ کے مطالعہ کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت نوریؔ بریلوی نے بھی 1892ء سے 1981ء تک کا علمی و ادبی، روحانی و عرفانی، شعری و فنی سفر اسی عشق کی ہم رکابی میں مکمل کیا ہے۔ آپ کا یہ وصف ایک اعجاز ہے جس نے اربابِ فکر و نظر کو مخمور و مسحور کر رکھا ہے۔ یہ عشقِ صادق ہی کی کرشمہ سازیاں ہیں کہ آج نوریؔ بریلوی کا نعتیہ کلام دنیائے اسلام کے مسلمانوں کے لبوں پر جاری وساری ہے اور لوگ وجد آفریں انداز میں آپ کے اشعار پڑھتے اور سنتے رہتے ہیں۔ حسن و عشق کی یہ دل ربائی اردو شاعری میں حضرت نوریؔ بریلوی کا طرۂ امتیاز اور وجہِ افتخار ہے۔
آپ کی غزلیات میں علوئے فکر، اوجِ خیال اور معنویت کی پُرکاری ہے۔ وہ اسی دردِ دل اور اضطرابی کیفیت کے ترجمان ہیں جو عشقِ صادق کا مقصود ہے۔ آپ از خود کچھ نہیں کہتے تھے بل کہ جذبات خود ہی اشعار کی صورت میں ڈھل جاتے تھے اس لیے آپ کی غزلوں میں آمد آمد کی کیفیات ہیں جو ہمیں بھی تڑپنے، سلگنے، جلنے اور مچلنے پر انگیز کرتی ہے۔ چند شہ پارے خاطر نشین کیجیے ؎
اے شہ عرش آستاں اے سرورِ کون و مکاں
اے مرے ایمانِ جاں اے جانِ ایمانِ زماں
اے مرے امن و اماں اے سرورِ ہر دوجہاں
میں ہوں عاصی سرورا اور تم شفیعِ عاصیاں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تری رحمتیں عام ہیں پھر بھی پیارے
یہ صدماتِ فرقت سہارا کروں میں
خدارا اب آؤ کہ دم ہے لبوں پر
دمِ واپسیں تو نظارہ کروں میں
یہ اک جان کیا ہے اگر ہوں کروروں
ترے نام پر سب کو وارا کروں میں
مجھے ہاتھ آئے اگر تاجِ شاہی
تری کفشِ پا پر نثارا کروں میں
ترا ذکر لب پر خدا دل کے اندر
یوں ہی زندگانی گذارا کروں میں
مرا دین و ایماں فرشتے جو پوچھیں
تمہاری ہی جانب اشارا کروں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نامِ والا ترا اے کاش مثالِ مجنوں
ریگ پر انگلیوں سے لکھوں قلم کی صورت
تیرا دیدار کرے رحمِ مجسّم تیرا
دیکھنی ہو جسے رحماں کے کرم کی صورت
صفحۂ دل پہ مرے نامِ نبی کندہ ہو
نقش ہو دل پہ مرے ان کے علم کی صورت
دم نکل جائے مرا راہ میں ان کی نوریؔ
ان کے کوچے میں رہوں نقشِ قدم کی صورت
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بڑے دربار میں پہنچایا مجھ کو میری قسمت نے
میں صدقے جاؤں کیا کہنا مرے اچھے مقدر کا
بجھے گی شربتِ دیدار ہی سے تشنگی اپنی
تمہاری دید کا پیاسا ہوں یوں پیاسا ہوں کوثر کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دل ہے کس کا جان کس کی سب کے مالک ہیں وہی
دونوں عالم پر ہے قبضہ احمدِ مختار کا
کیا کرے سونے کا کشتہ، کشتہ تیرِ عشق کا
دید کا پیاسا کرے کیا شربتِ دینار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چارہ گر ہے دل تو گھایل عشق کی تلوار کا
کیا کروں میں لے کے پھاہا مرہمِ زنگار کا
جاگ اٹھی سوئی قسمت اور چمک اٹھا نصیب
جب تصور میں سمایا روئے انور یار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کبھی بیمارِ محبت بھی ہوئے ہیں اچھے
روز افزوں ہے مرَض کام دوا نے نہ دیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مرَضِ عشق کا بیمار بھی کیا ہوتا ہے
جتنی کرتا ہے دوا درد سوا ہوتا ہے
ہم نے یوں شمعِ رسالت سے لگائی ہے لَو
سب کی جھولی میں انھیں کا تو دیا ہوتا ہے
آپ محبوب ہیں اللہ کے ایسے محبوب
ہر محب آپ کا محبوبِ خدا ہو تا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ اشتیاق تری دید کا ہے جانِ جہاں
دم آ گیا ہے دمِ احتضار آنکھوں میں
کرم وہ مجھ پہ کیا ہے مرے تصور نے
کہ آج کھینچ دی تصویرِ یار آنکھوں میں
ڈاکٹر اقبالؔ نے کہا تھا مسلمان اگر عشقِ مصطفی(صلی اللہ علیہ و سلم )میں سرشار ہو کر زندگی کے راستے پر گامزن نہیں ہوسکتا تو پھر اس کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ دینِ ابراہیمی سے اپنا رشتہ منقطع کر لے اور کافر کی موت مرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ ان کا کہنا یہ بھی تھا کہ مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم ہی اصل میں دین ہیں اگر ان سے کوئی اپنا تعلق توڑتا ہے تو وہ مصطفوی نہیں بل کہ ابولہبی کہلانے کا مستحق ہے ؎
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر با و نرسیدی تمام بولہبی ست(5)
حضرت نوریؔ بریلوی کا بھی یہی تصور ہے کہ مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت ہی ایمان کی جان ہے اور یہ جذبۂ عشق جس کے دل میں نہیں وہ مسلمان نہیں۔ کہتے ہیں ؎
جانِ ایماں ہے محبت تری جانِ جاناں
جس کے دل میں یہ نہیں خاک مسلماں ہو گا
رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کا عشق ہی سراپاعبادت اور بندگی ہے۔ باعثِ نجاتِ سرمدی اور ایمان کا نور ہے۔ اور اسی نور کی مشعلِ تاباں مرتے دم تک روشن و منور رہی تو قبر کی اندھیری رات چراغاں ہو گی۔ نوریؔ بریلوی نے عشق کو جانِ ایمان اور نورِ ایمان قرار دیا ہے اور اسی نور کو ظلمت کدۂ لحد میں لے کر جا رہے ہیں ؎
نورِ ایماں کی جو مشعل رہے روشن پھر تو
روز و شب مرقدِ نوریؔ میں چراغاں ہو گا
(1)سہ ماہی افکارِ رضا :شمار ہ اپریل تا جون 2000ء، ممبئی، ص21
(2)غزالی، امام:مکاشفۃالقلوب، ترجمہ:مفتی تقدس علی خاں بریلوی، مطبوعہ دہلی 1978ء، ص87/88
(3)سہ ماہی افکارِ رضا :شمار ہ اپریل تا جون 2000ء، ممبئی، ص21
(4)ماہنامہ استقامت : مفتی اعظم نمبر، کانپور، 1983ء، ص193
(5)محمد اقبال، ڈاکٹر:کلیاتِ اقبالؔ ، اعتقاد پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 1981ء، ص 691
٭٭٭
توحید خدائے وحدہ لاشریک جل شانہٗ کی یکتائی اور بے ہمتائی پر مکمل ایمان رکھنے کا نام ہے۔ اس کا اجمالی تعارف سورۂ اخلاص میں اﷲ رب العزت جل شانہ نے یوں بیان فرمایا ہے :
’’ اے محبوب تم فرماؤ! وہ اللہ ہے وہ ایک ہے۔ اﷲ بے نیاز ہے۔ نہ اس کی کوئی اولاد۔ اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔ اور نہ اس کے جوڑ کا کوئی۔ ‘‘
(سورۃ اخلاص:پ ؍30، رکوع؍37)
قرآن و حدیث میں توحیدِ باریِ تعالیٰ سے متعلق جتنے بیانات و ارشادات اور اقوال و آثار ملتے ہیں ان سب کا خلاصہ و نچوڑ سورۂ اخلاص میں پوری شانِ اکملیت اور کاملیت کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ توحید کے تحت خدائے بزرگ و برتر جل شانہٗ کی ذات و صفات کی بو قلمونی کا بیان ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت کی عظمت و کبریائی چوں کہ لامحدود و لامتناہی ہے۔ اس لیے شاعری میں اللہ کی توحید بیان کرنے کے لیے شاعروں کو لامحدود و لامتناہی فضا میسر آتی ہے۔ اب یہ شعرا کے شاعرانہ ظرف اور ذوق پر منحصر ہے کہ وہ کس حد تک صفاتِ خداوندی اور تجلیاتِ ربانی کے کیفِ مشاہدہ یا اپنے حُسنِ تخیل کو اظہار کی حدوں میں سمیٹ سکتے ہیں۔ وہ ذات جو کسی کے مثل نہیں، اور نہ کوئی شَے اس کی مثل ۔۔ جو عرش پر مستوی ہے مگر عرش کو اس کی جستجو ہے۔ اور جو کائنات کے ذرّے ذرّے میں پنہاں اور مستور ہے۔ زمان و مکاں سے منزہ و مبرہ ہے۔ اور جو احساسات و ادراک سے ماورا بل کہ وراء الوراء ہے۔ اور پھر بھی شہ رگ سے قریب ترین ہے۔ اس کے بیان کو محسوسات کے دائرے میں لانا بڑے زرین تخیل اور بلند حوصلگی کا تقاضا ہے۔ ہاں ! اس کے اسمائے صفات کی بہ دولت کچھ بات بن سکتی ہے۔ جہاں تک حضرت نوریؔ بریلوی کا معاملہ ہے تو تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ عشق و عرفانِ الٰہی، معرفتِ ربانی اور روحانیت و تصوف کے اس بلند و بالا اور ارفع و اعلا مقام و مرتبہ پر فائز تھے کہ آپ کو اپنے زمانے کا قطب اور غوث کہا جاتا تھا۔ بہ بایں معنیٰ دیکھا جائے تو آپ کے کلامِ بلاغت نظام میں توحیدِ باریِ تعالیٰ جل شانہ کے اذکار پوری تکمیلی شان و شوکت کے ساتھ جلوہ گرہیں۔
آپ کے مجموعۂ کلام سامانِ بخشش کی دو ابتدائی حمدیہ نظمیں اذکارِ توحید باری سے اس قدر آراستہ و مزین ہیں کہ پڑھنے کے بعد دیدہ و دل روشن و تاب ناک ہو جاتے ہیں۔ حمدِ باریِ تعالیٰ، مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ، مناجات، اذکارِ توحید، اسما و صفات، اور عقائدِ توحید سے مملو یہ نظمیں بالترتیب ۲۰ بندوں اور ۹۹ بندوں پر مشتمل ہیں اور یہ دل کش نظمیں خوش آہنگی و ترنم ریزی، غنائیت اور نغمگی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ منظر کشی کاحسن اور تصویریت کا جمال ہر جگہ نمایاں ہے۔ لفظ لفظ میں اذکارِ توحید، اسماو صفات کی جلوہ گری ہے اور حرف حرف میں توحیدِ باری کی عظمت و جلالت کا کیف آگیں بیان ہے ؎
قلب کو اس کی رویت کی ہے آرزو
جس کا جلوہ ہے عالم میں ہر چار سو
بلکہ خود نفس میں ہے وہ سبحٰنہ
عرش پر ہے مگر عرش کو جستجو
اﷲ اﷲ اﷲ اﷲ
عرش و فرش و زمان و جہت اے خدا
جس طرف دیکھتا ہوں ہے جلوہ ترا
ذرّے ذرّے کی آنکھوں میں تو ہی ضیا
قطرے قطرے کی تو ہی تو ہے آبرو
اﷲ اﷲ اﷲ اﷲ
تو کسی جا نہیں اور ہر جا ہے تو
تو منزہ مکاں سے مبرہ زسو
علم و قدرت سے ہر جا ہے تو کو بکو
تیرے جلوے ہیں ہر ہر جگہ اے عفو
اﷲ اﷲ اﷲ اﷲ
بے شک خداوندِ قدوس کی ذات یکہ و تنہا ہے۔ اس کا کوئی شریک و سہیم نہیں۔ نہ ذات میں نہ صفات میں۔ نہ افعال میں۔ نہ احکام میں۔ اور نہ اسمامیں۔ وہی ہمارا معبودِ برحق ہے۔ اس کے علاوہ کو ئی عبادت و بندگی کے لائق نہیں۔ صرف اور صرف وہی پرستش کے قابل ہے۔ اس کی بارگاہِ جلالت مآب کے سوا کسی اور کی بارگاہ میں سرِخم ہونا روا نہیں۔ ہر ایک کی وہی سنتا ہے۔ ہر سانس ہر دھڑکن اس کی دستِ نگر ہے۔ عالم کی ہر شَے اس کی محتاجِ کرم ہے۔ جب کہ اسے کسی کی احتیاج نہیں وہ بے ہمتا ہے۔ حضرت نوریؔ بریلوی فرماتے ہیں ؎
اﷲ واحد و یکتا ہے
ایک خدا بس تنہا ہے
کوئی نہ اس کا ہمتا ہے
ایک ہی سب کی سنتا ہے
خداوندِ قدوس کی ذات وحدہ لاشریک ہے وہ ہر طرح کی حرکت، سکون، صورت اور اجسام سے پا ک و منزہ ہے۔ اس کے ہر فعل میں حکمتِ بے بہا پوشیدہ ہے۔ وہی ہوتا ہے جو وہ چاہتا ہے وہی ہر شَے پر قادر ہے۔ حضرت نوریؔ بریلوی اس عقیدۂ توحید کا جلوہ اس طر ح دکھاتے ہیں ؎
وہ ہے منزہ شرکت سے
پاک سکون و حرکت سے
کام ہے اس کے حکمت سے
کرتا ہے سب قدرت سے
جیساکہ عرض ہوا کہ علمائے اسلام نے جس قدر بھی توحیدِ باری تعالیٰ جل شانہ کی تعریفیں پیش کی ہیں اور عقیدۂ توحید کا بیان کیا ہے وہ تمام بیانات و ارشادات اور اقوال سورۃاخلاص کا خلاصہ و نچوڑ ہیں یا اس کی تشریح و تفسیر ہیں۔ حضرت نوریؔ بریلوی چوں کہ علومِ اسلامیہ کے افق کے ایک روشن و تابندہ ستارہ ہیں۔ علمِ قرآن وتفسیرِ قرآن پر آپ کی گہری نظر تھی۔ اور عقیدۂ توحید کی عظمت و جلالت آپ کے قلب و ذہن پر ثبت تھی۔ سورۃ اخلاص کو اپنے ایک بند میں بیان کرتے ہوئے آپ اﷲ رب العزت کے آٹھ اسمائے صفات کو اس حسن و خوبی کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ طبیعت پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور توحیدِ باری کی اس مشک باری سے مشامِ جان و ایمان معطر و معنبر ہو جاتی ہے فرماتے ہیں ؎
اﷲ الٰہ و ربُّ واحد
فرد و واحد و تر و صمد
جس کا والد ہے نہ ولد
ذات و صفات میں بے حد و عد
خدائے واحد کی طرح کوئی دوسرا نہیں۔ اسی سے یہ کائنات قائم ہے۔ اس کی جڑیں مضبوط ہیں۔ وہ ہر عیاں کو دیکھتا ہے۔ حیات، قدرت، سننا، دیکھنا، کلام، علم، اور ارادہ اس کی صفاتِ ذاتیہ ہیں۔ مگر کان، ناک، زبان، جلد یعنی حواسِ خمسہ کے ذریعہ اس کا سننا، بولنا، دیکھنا، محسوس کرنا اور کلام کرنا نہیں ہے کہ یہ سب اجسام ہیں اور ذاتِ باری عز اسمہ اجسام سے پاک و منزہ ہے۔ بہر حال وہ پست سے پست آواز مسموع کر لیتا ہے، مہین سے مہین کو محسوس کر لیتا ہے۔ اس کی ذات و صفات ایسی ہے کہ وہ احاطۂ بیان سے ما ورا اور ورا ء الورا ہے۔ حضرت نوریؔ بریلوی اس امر کا اظہار یوں کرتے ہیں ؎
ساجھی اس کا نہ کوئی شریک
وہی مَلَک ہے وہی مَلیک
پاک مکاں سے اور نزدیک
دیکھے سُنے پست و باریک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روح نہیں ہے اور نہ وہ جسیم
مُقسم ہے نہ وہ قِسم و قسیم
اس کے صفات و اسم قدیم
یہ ہے اپنا دینِ قویم
اﷲ فرماتا ہے : ’’بے شک شرک بڑا ظلم ہے‘‘(قران عظیم: پ ۲۱رکوع۱۱)
شرک ظلمِ عظیم ہے۔ اﷲ کی ذات و صفات میں کسی کو شریک کرنا دائرۂ اسلام سے آدمی کو خارج کر دیتا ہے۔ یہ انتہائی خطرناک جرم ہے۔ اسی طر ح اﷲ سبحان السبوح والقدوس کی ذات کی طرف کسی ایسی بات کو منسوب کر دینا جو اس کی تنزیہہ کے خلاف ہے وہ بھی کفر ہے۔ مثلاً: یہ کہنا کہ اﷲ جھوٹ بول سکتا ہے، العیاذ با ﷲتعالیٰ۔ اس سے جھوٹ صادر ہو سکتا ہے یا کذب باریِ تعالیٰ ممکن ہے۔ تو وہ دراصل خدائے واحد جل شانہٗ کا انکار کر رہا ہے کہ اﷲ کی ذات ہر عیب سے پاک و منزہ ہے۔ اس کی ذات سے عیب کو کیا علاقہ ؟ حضرت نوریؔ بریلوی ایسے باطل نظریات کی تردید کرتے ہوئے یوں تحفظِ الوہیت و توحیدِ باری کی عظمت و جلالت کا نقشہ پیش کر رہے ہیں ؎
جہل و کذب و ظلم و زنا
خواری مے خواری سرقہ
اس سے ممکن؟ جس نے کہا
لاریب اس نے کفر بکا
پاک ہے عیبوں سے مولا
عیب سے اس کو علاقہ کیا
عیب اس کا صالح نہ ہوا
ہو متعلق قدرت کا
عقیدۂ توحید کے منکروں کو اﷲ رب العزت جل شانہ نے جا بہ جا قرآن پاک میں تنبیہ فرماتے ہوئے کہا ہے کہ : ا ﷲ کے برابر کوئی نہیں، نہ اس کی ضد ہے اور نہ اس کی کو ئی نظیر و مثیل ہے۔ اور وہ ہر عیب سے پاک ہے۔ اسی کا قول سچا ہے اور اسی کی بات صادق ہے۔ اﷲ رب العزت سے زیادہ سچا اور صادق کون؟ یہ ایک ایسا عقیدہ ہے جس میں کسی شک و شبہہ کی گنجایش نہیں مگر منکرینِ عقیدۂ توحید نے ذاتِ باری کے لیے محال کو ممکن ثابت کرنے کی ناپاک جسارت کرتے ہوئے کذبِ باریِ تعالیٰ کو ممکن بتانا شروع کر دیا۔ جب کہ ایسے ناہنجار اور ناعاقبت اندیش اسی کی زمین پر رہتے بستے ہیں اور اسی کا رزق کھاتے ہیں ایسے فاجروں اور منکروں کو حضرت نوریؔ بریلوی نے یوں للکار کر کہا ہے ؎
من اصدق منہ قیلا
من اصدق منہ حدیثا
کیسا کیسا رب نے کہا
منکر ایک نہیں سنتا
صدقِ رب جب واجب ہے
کذب محال اے خائب ہے
جمعِ دو ضد جائز کب ہے
عقل کہاں تری غائب ہے
اس کا کھائے او منکر
اور غرائے او کافر
کون ہے دیتا او غادر
اس کے سوا ہاں او فاجر
اﷲ رب العزت کی جلوہ گری کائنات کی ہر شَے میں ہے عرش و فرش، زمان و جہت ہر ذرۂ خشک و تر، میں اسی کا جلوہ سمایا ہوا ہے اسی کا علم، اور اسی کی رحمت ہر شَے کو محیط ہے۔ اﷲ جزئیات، کلیات موجودات، معدومات، ممکنات اور محالات کو ازل میں جانتا تھا، اب جانتا ہے اور ابد تک اور ہمیشہ جانتا ہے گا۔ اشیا میں تغیرات واقع ہوتے ہیں مگر اس کا علم نہیں بدلتا دلوں کے خطرات اور وساوس پر وہ باخبر ہے اس کا علم لامتناہی ہے اور وہی ہر شَے کا خالق ہے حضرت نوریؔ بریلوی کی نظر میں توحیدِ باری کے یہ عقائد انتہائی گہرائی سے بسے ہوئے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ نے عقائدِ توحید کو اپنے اشعار میں بڑی ہنر مندی سے پیش کیا ہے جس سے آپ کی قادرالکلامی کا ثبوت ملتا ہے ؎
عرش و فرش و زمان و جہت اے خدا
جس طرف دیکھتا ہوں ہے جلوہ ترا
ذرّے ذرّے کی آنکھوں میں تو ہی ضیا
قطرے قطرے کی تو ہی تو ہے آبرو
اﷲ اﷲ اﷲ اﷲ
تو کسی جا نہیں اور ہر جا ہے تو
تو منزہ مکاں سے مبرہ زسو
علم و قدرت سے ہر جا ہے تو کو بکو
تیرے جلوے ہیں ہر ہر جگہ اے عفو
اﷲ اﷲ اﷲ اﷲ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہے وہ زمان و جہات سے پاک
وہ ہے ذمیمِ صفات سے پاک
وہ سارے محالات سے پاک
وہ ہے سب حالات سے پاک
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ ہے محیطِ انس و جاں
وہ ہے محیطِ جسم و جاں
وہ ہے محیطِ کل از ماں
وہ ہے محیطِ کون و مکاں
ہمارا عقیدہ ہے کہ بخشنے والا۔ ظاہر و باطن کا بادشاہ۔ بہت پاک۔ سلامت رکھنے والا۔ امن دینے والا۔ نگہبان۔ غالب۔ نقصان کو پورا کرنے والا۔ بزرگ۔ سب چیز کا پیدا کرنے والا۔ صورت بنانے والا۔ تمام مخلوقات کو روزی دینے والا۔ بہت زیادہ جاننے والا۔ بلند درجہ کرنے والا۔ دونوں جہاں میں عزت دینے والا۔ دیکھنے۔ سننے۔ انصاف کرنے والا۔ بخشنے والا۔ معاف کرنے والا۔ خبردار۔ روح و بدن کو طاقت دینے والا۔ آخرت میں حساب لینے والا۔ کرم کرنے والا۔ دعائیں قبول کرنے والا۔ قوت و طاقت والا۔ دوبارہ پیدا کرنے والا۔ مارنے والا۔ جِلانے والا۔ ہر شَے پر قدرت رکھنے والا۔ سب سے اول۔ سب سے آخر۔ ظاہر۔ باطن۔ احسان کرنے والا۔ توبہ قبول کرنے والا۔ نعمت عطا کرنے والا۔ سارے جہانوں کا بادشاہ۔ نفع پہنچانے والا۔ ہمیشہ رہنے والا۔ گنہگاروں کے گناہوں کو پوشیدہ رکھنے والا۔ صرف اور صرف اﷲ تعالیٰ جل شانہ ہی ہے۔ یہ توحیدِ باری تعالیٰ سے متعلق وہ عقائدِ ضروریہ ہیں جن پر ایمانِ کامل رکھنا ہی ہمارے مومنِ کامل ہونے کی بیّن دلیل ہے۔ حضرت نوریؔ بریلوی کا عقیدۂ توحید انتہائی پختہ اور مضبوط تھا۔ آپ کا عقیدۂ توحید ہر قسم کی ا فراط و تفریط اور شرکتِ بے جا سے پاک تھا۔ اﷲ رب العزت کے اسمائے صفات اور اس کے مفاہیم و مطالب پر آپ کی بڑی گہری نظر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اسمائے حسنیٰ کے گوہر ہائے آبدار سے ایسا خوش نما ہار تیار کیا ہے جو ہمیں کیف اندوز کرتا ہے۔ حضرت نوریؔ بریلوی فرماتے ہیں ؎
منعم و حق و سمیع و بصیر
باقی باری برّ و خبیر
جامع مانع منار و کبیر
رافع نافع حیّ و قدیر
حَکَم و عدل و علی و عظیم
دیّان و رحمن و رحیم
قدوس و حنّان و علیم
فتّاح و منّان و کریم
والی ولیّ و متعالی حکیم
وہّاب و رزّاق و علیم
مالکِ یومِ دین و جحیم
مالکِ مُلک و خلد و نعیم
وہ ہے عزیز و مجیب و شکور
وہ ہے بدیع و قریب و صبور
وہ ہے متین و حبیب و غفور
وہ ہے معین و رقیب ضرور
وہ ہے مقدِّم اور غفار
وہ ہے مہیمن اور جبار
وہ ہے مؤخر اور قہّار
وہ ہے باسط اور ستّار
نور مصوّر اور ظاہر
باطن اول اور آخر
واجد ماجد اور قادر
مومن متکبّر و قاہر
توّاب و مغنی ہادی
مقسط محیی ممیت و غنی
منتقم و قیوّم و قوی
مقتدر و واسع مُہی
مبدی جلیل و حفیظ و مجید
معطی و وکیل و سلام و معید
وہ ہے لطیف و ودود وحید
اور شہیدُ وحید و رشید
وہ ہے جوّاد و عفوُ عطوف
ازلی ابدی ہے معروف
یصرف عنا جمیع صروف
مولی الکل وہو رؤف
لا الٰہ الا اﷲ اٰمنابرسول اﷲ
عقیدۂ توحید صرف ’’لا الٰہ الا اﷲ‘‘ کہہ دینے سے مکمل نہیں ہو جاتا بلکہ ’’محمد رسول اﷲ ‘‘ کا صدقِ دل سے اقرار بھی ضروری ہے۔ اﷲ عز و جل کو وحدانیت کے جملہ لوازمات کے ساتھ مانتے ہوئے محبوبانِ خدا کو بھی ماننا یہی صحیح اور سچی توحید ہے۔ صرف اﷲ کو ماننا اور محبوبانِ خدا سے منہ موڑنا یہ عقیدۂ توحید کے منافی ہے۔ اس نکتے کو ابلیس نہ سمجھ سکا۔ اﷲ کو مانتے ہوئے عظمتِ آدم علیہ السلام کا منکر ہو کر راندۂ درگاہ ہو گیا۔ نوریؔ بریلوی ایسی ابلیسی توحید کے سخت ترین مخالف اور حقیقی توحید کے قائل تھے۔ آپ کے نزدیک اﷲ عز و جل کی وحدانیت کے ساتھ ساتھ رسو ل اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت پر ایمان لانا ایمانِ کامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام میں جہاں عقیدۂ توحید کی جلوہ ریزیاں ہیں وہیں عقیدۂ رسالت کی ضیا باریاں بھی ہیں جو پڑھنے اور سننے والوں کو بڑے کیف آگیں جذبات سے سرشار کرتی ہیں ؎
اپنے کرم سے ربِّ کریم
ہم پہ کیا احسانِ عظیم
بھیجا ہم میں بفضلِ عمیم
بحرِ کرم کا دُرِّ یتیم
اپنے مظہرِ اول کو
اپنے حبیبِ اجمل کو
پہلے نبیِ افضل کو
پچھلے مُرسلِ اکمل کو
موجِ اول بحرِ قَدِم
موجِ آخر بحرِ کرم
سب سے اعلیٰ اور اعظم
سب سے اولیٰ اور اکرم
نور سے اپنے پیدا کیا
نورِ حبیبِ ربِّ عُلا
پھر اس نور کو حصے کیا
ان سے بنایا جو ہے بنا
لا الٰہ الا اللہ اٰمنا برسول اللہ
الغرض نوریؔ بریلوی کا عقیدۂ توحید انتہائی نکھر ا اور ستھرا ہوا ہے۔ آپ نے اللہ جل شانہٗ کی صفات و کمالات کو بڑے احسن انداز میں پیش کیا ہے۔ جس سے اللہ رب العزت جل شانہٗ سے آپ کی محبت و اُلفت کا پتہ چلتا ہے۔ نوریؔ بریلوی کا عقیدۂ توحید ابلیسی توحید کے منافی تھا کہ ابلیس عظمتِ آدم علیہ السلام کا منکر ہو کر راندۂ درگاہ ہو گیا۔ آپ نے اللہ کی وحدانیت کے ساتھ رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ و سلم پر ایمان لانے کو ہی اصل توحید قرار دیا ہے۔
٭٭٭
نعت وہ مقدس و محترم اور پاکیزہ صنفِ ادب ہے۔ جو اپنی ابتدائے آفرینش سے امروز تک رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وکسلم کی توصیف و ثنا، شمائل و خصائل اور اوصافِ جمیل کے اظہار کے لیے مختص ہے۔ نعت منشائے قرآن اور تقاضائے ایمان ہے۔ نعت قلب و نظر کے لیے نور اور روح و جگر کے لیے سرور ہے۔ نعت حریمِ جاناں میں اذانِ شوق، آبروئے فن اور معراجِ ذوق ہے۔ نعت ہر زبان کے شعر و ادب کی بلا شبہہ عزت و آبرو اور عصمت و عفت ہے۔ یوں تو نعت کی کوئی خاص ہیئت متعین نہیں کی گئی ہے کیوں کہ ادب کی جملہ اصناف میں نعتیہ کلام لکھا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ بعض علمائے ادب کے نزدیک وہ نثری شہ پا رہ بھی نعت کے زمرہ میں شمار کیا جانا چاہیے جس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصافِ جمیل اور اخلاقِ عظیم کا تذکرۂ جلیل ہو۔ بہ ہر کیف ! اصطلاحِ ادب میں حمد، قصیدہ، مثنوی، مرثیہ، منقبت اور غزل کے جس طرح موضوعات متعین ہیں اسی طر ح نعت کا موضوع بھی رسولِ مختا ر صلی اللہ علیہ و سلم کی ثنا و توصیف کے اظہار کے تئیں مختص ہے۔ ان میں ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے خصائص و فضائل سببِ تخلیقِ کائنات، ذکرِ معجزات، بے مثالی، نفیِ سایہ، اختیارات و تصرفات، عطائے عام، بیانِ عظمت و رفعت، ختمِ نبوّت، مظہرِ ذاتِ رب العزت، علمِ نبوت، وصفِ جمالِ نبوی، آستانۂ بلند، شہرِ محبوب کے خار و گل، مسیحائی، دستگیری، امیدِ شفاعت وغیرہ کو نعت گو شعرا اپنے کلام کا موضوع بناتے ہوئے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں اپنا خراجِ عقیدت و محبت پیش کرتے ہیں۔
جہاں تک حضرت نوریؔ بریلوی کے عشقِ رسول اور وارفتگیِ شوق کا معاملہ ہے تو آپ کا خانوادہ آج سارے عالم میں محبتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے طرۂ امتیاز کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب بھی جہاں کہیں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر نکلتا ہے وہاں خانوادۂ رضاؔ کا تذکرہ لازمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت نوریؔ بریلوی کے مجموعہ کلام ’’سامانِ بخشش‘‘ کے ورق ورق میں شمائلِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی جلوہ ریزیاں ہیں اور سطر سطر میں خصائصِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ضیا پاشیاں ہیں۔
کائنات اوراس کی نیرنگیاں اس کی ساری نعمتیں، تمام آسایشیں، چاند کی چاندنی، سورج کی روشنی، ستاروں کی چمک، کہکشاں کا وجود، سمندروں کی جو لانی، دریاؤں کی روانی، فصلوں کی لہلہاہٹ، جنگلوں کی شادابی، گلوں کی عطر بیزی، پرندوں کی چہچہاہٹ غرض یہ کہ کائنات کی ہر شَے صدقہ ہے باعثِ تخلیقِ کائنات، وجہِ بِنائے روزگار صلی اللہ علیہ و سلم کا جس پر حدیثِ قدسی ’’لولاک لما خلقت الافلاک والارضین‘‘(1)۔ اور حدیثِ نبوی ’’کل خلائق من نوری‘‘ (2)۔ شاہد ہے۔ جس کی تشریح و تفسیر اہلِ معرفت شعرائے کرام نے اچھوتے انداز میں کی ہے اسی کی توضیح و تفسیر کلامِ نوریؔ میں ملاحظہ ہو ؎
ہے خشک وتر پہ قبضہ جس کا وہ شاہِ جہاں یہ ہے
یہی ہے بادشاہ بر کا یہی سلطاں سمندر کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تمہارے ہی دم کی ہیں ساری بہاریں
تمہارے ہی دم سے یہ نشوونما ہے
اُسی دم سے آباد سارا جہاں ہے
اُسی دم سے سارا وجود و بِنا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جب تم نہ تھے کچھ بھی نہ تھا، جب تم ہوئے تو سب ہوا
ہے سب میں جلوہ آپ کا مہرِ عجم ماہِ عرب
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم ہو وجہِ بعثِ خلقت تم ہو سرِّ غیب و شہادت
رازِ وحدت کثرت والے صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
سرور و آقا مالک و مولا دونوں جگ کے تم ہو داتا
رحمت والے رافت والے صلی اﷲ صلی اﷲ صلی اﷲ علیک و سلم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم ہو پیارے اصل ہماری سارا جہاں ہے فرع تمہاری
تم سب کی ماہیت گویا صلی اﷲ صلی اﷲ صلی اﷲ علیک و سلم
رسو ل اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کی بے مثالی کتاب و سنت سے ثابت ہے کہ اﷲ رب العزت نے اپنے محبوبِ مکرم علیہ التحیۃ و الثناکو بے مثل و بے نظیر پیدا کیا ہے۔ تمام مخلوقات میں سب سے افضل و اعلا اور بے نظیر ذات رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی ہے۔ یہ بے مثالی خصائصِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں نمایاں خصوصیت ہے اس کو حضرت نوریؔ بریلوی نے اپنے کلام میں یوں پیش کیا ہے ؎
مُحالِ عقل ہے تیرا مماثل اے مرے سرور
توہم کر نہیں سکتا ہے عاقل تیرے ہمسر کا
اسی کو دوسری جگہ یوں بیان کرتے ہیں ؎
مثل ممکن ہی نہیں ہے ترا اے لاثانی
وہم نے بھی تو ترا مثل سمانے نہ دیا
آپ کے جوڑ کا آئے تو کہاں سے آئے
جب وجود اس کو شہ ارض و سما نے نہ دیا
دوسر ے مقام پر اس کو بڑے خوب صورت انداز میں بیان کرتے ہیں کہ پڑھتے ہی وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ؎
نظر نظیر نہ آیا نظر کوئی کہیں
جچے نہ غلماں نظر میں نہ حور آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تمہیں حق نے دیئے ہیں وہ فضائل
کہ شرکت اس میں ہو ناروا ہے
مماثل ہو نہیں سکتا تمہارا
تمہیں وہ فضلِ کل رب نے دیا ہے
تمہاری بے مثالی اس سے ظاہر
کہ محبوبِ خدا تم کو کیا ہے
محب کیا چاہتا ہے مثلِ محبوب
محب تو بے مثالی چاہتا ہے
حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کے جسدِ لطیف اور جسمِ انور کا سایہ نہ تھا ۔ حدیثِ پاک میں ہے۔ حضرت ذکوان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کا سایۂ مبارک نہ سورج کی دھوپ میں نظر آتا تھا نہ چاندنی میں۔ ‘‘(3)
اس مضمون کو نعتِ سرکارعلیہ السلام میں حضرت نوریؔ بریلوی نے مختلف مقام پر پیش کیا ہے اور ہر جگہ ندرتِ ادا کے ساتھ طرزِ بیان میں نیا بانکپن ہے۔ کہیں بلندیِ خیال ہے۔ کہیں عاشقانہ رنگ اور کہیں طرزِ استدلال۔ فرماتے ہیں ؎
نہ سایا روح کا ہرگز نہ سایا نور کا ہرگز
تو سایہ کیسا اس جانِ جہاں کے جسمِ انور کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ ہیں خورشیدِ رسالت نور کا سایہ کہاں
اس سبب سے سایۂ خیرالوریٰ ملتا نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جسمِ پر نور کا یوں تو سایہ نہ تھا
اور پتھر میں نقشے جما کر چلے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو ہے نورِ خدا پھر سایہ کہاں
کہیں بھی نور کا سایہ پڑا ہے
تو ہے ظلِّ خدا واللہ باﷲ
کہیں سایے کا بھی سایہ پڑا ہے
زمیں پر تیرا سایہ کیسے پڑتا
ترا منسوب ارفع دائما ہے
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ رسولِ کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے عشق و الفت میں سرشار رہنے والے سچے شاعروں کا کلام اور ان کی شاعرانہ ریاضتیں آقائے کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے تئیں اس کی خوش عقیدگی اور ایمانی پختگی کی تفسیر ہوتی ہیں۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے اختیارات و تصرفات ماننا۔ آپ کو قاسمِ نعمت تسلیم کرنا۔ بارگاہِ رب العزت میں آپ کو وسیلۂ عظمیٰ ماننا۔ آپ کو بہ عطائے الٰہی مِلکِ خدا اور سارے جہاں کا مالک ماننا۔ یہ سب ایسے امور ہیں جن کا ایک طبقہ منکر ہے۔ حضرت نوریؔ بریلوی نے جہاں مخالفین پر طنز و نشتریت کرتے ہوئے ان عقائد کو بیان کیا ہے وہیں ان کمالات و خصائص کا ذکر کرتے ہوئے نعتِ سرور کائنات کا حق بھی ادا کیا ہے۔ حضرت نوریؔ بریلوی، سیدِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے اختیارات و تصرفات اور حاکمیت و مالکیت کو بہ رنگِ استدلال یوں پیش کرتے ہیں ؎
تم کو عالم کا مالک کیا اس نے
جس کی مملوک ساری خدائی ہے
کس کے قبضے میں ہیں یہ زمین و زماں
کس کے قبضے میں ساری خدائی ہے
تو خدا کا ہوا اور خدا تیرا
تیرے قبضے میں ساری خدائی ہے
جب خدا خود تمہارا ہوا تو پھر
کون سی چیز ہے جو پرائی ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دل ہے کس کا جان کس کی سب کے مالک ہیں وہی
دونوں عالم پر ہے قبضہ احمدِ مختار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جو محب کی چیز ہے محبوب کے قبضے کی ہے
ہاتھ میں ہو جس کے سب کچھ اس سے کیا ملتا نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
انھیں خدا نے کیا اپنے مُلک کا مالک
انھیں کے قبضے میں رب کے خزانے آئے ہیں
عطائے عام و فیضِ دوام
مالکِ کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے جود و نوال، بخشش و عطا، عنایت و کرم، فیض و سخا اور قاسمیتِ عامّہ کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے حضرت نوریؔ بریلوی رقم طراز ہیں ؎
دو عالم صدقہ پاتے ہیں مرے سرکار کے در کا
اسی سرکار سے ملتا ہے جو کچھ ہے مقدر کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جو آیا لے کے گیا کون لوٹا خالی ہاتھ
بتا دے کوئی سنا ہو جو ’لا‘ مدینے سے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جو چاہیں گے جسے چاہیں گے یہ اسے دیں گے
کریم ہیں یہ خزانے لٹانے آئے ہیں
سنو گے ’لا‘ نہ زبانِ کریم سے نوریؔ
یہ فیض و جو د کے دریا بہانے آئے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاری ہے آٹھوں پہر لنگر سخی دربار کا
فیض پر ہر دم ہے دریا احمدِ مختار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
محروم نہیں جس سے مخلوق میں کوئی بھی
وہ فیض انھیں دینا وہ جود و سخا کرنا
ہے عام کرم ان کا اپنے ہوں کہ اعدا ہوں
آتا ہی نہیں گویا سرکار کو ’لا‘ کرنا
محروم گیا کوئی مایوس پھرا کوئی
دیکھا نہ سنا ان کا انکار و اِبا کرنا
استغاثہ و فریاد اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں التجا کے عناصر بھی نعتیہ شاعری کے موضوعات سے متعلق ہیں، حضرت نوریؔ بریلوی چوں کہ ایک خوش عقیدہ شاعرِ محبت و الفت ہیں اس لیے آقائے کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے اختیارات و تصرفات کا ذکرِ جمیل کرتے ہوئے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں یوں اپنا دردِ دل پیش کر کے ملتجی ہیں ؎
تم سے ہر دم امیدِ بھلائی ہے
میٹ دیجے جو ہم میں برائی ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اعدا کو خدا والا جب تم نے بنا ڈالا
دشوار ہے تم پر کیا مجھ بد کا بھلا کرنا
سوکھی ہے مری کھیتی پڑ جائے بھرن تیری
اے ابرِ کرم اتنا تو بہرِ خدا کرنا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہماری کشتِ امل میں کبھی نہ پھل آئے
کبھی تو شجرۂ امید بارور ہو جائے
اہل سنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ حقیقی معطی تو رب العزت جل شانہ کی ذاتِ والا تبار ہے۔ لیکن کوئی بھی نعمت کسی کو سرکار کے وسیلے کے بغیر نہیں ملتی۔ حقیقی دینے والا تو اﷲ ہے اور بانٹنے والے سرکارصلی اللہ علیہ و سلم ۔۔ خود سیدِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشادِ گرامی ہے :
’’انما انا قاسم واللہ یعطی ‘‘ (4)حضرت نوریؔ بریلوی اپنے نعتیہ کلام میں بخاری شریف کی اس حدیثِ پاک کی ترجمانی کرتے ہوئے یوں گویا ہیں کہ ؎
انت القاسم ربک معطی تم ہی نے سب کو نعمت دی
دے دو مجھ کو میرا حصہ صلی اﷲ صلی اﷲ صلی اﷲ علیک و سلم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جو خدا دیتا ہے ملتا ہے اسی سرکار سے
کچھ کسی کو حق سے اس در کے سوا ملتا نہیں
خود خدا بے واسطہ دے یہ ہمارا منہ کہاں
واسطہ سرکار ہیں بے واسطہ ملتا نہیں
حضرت نوریؔ بریلوی کا جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم سے والہانہ محبت و عقیدت، احترام و تعظیم اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم پر فدا کا ری و جاں نثاری کا جو انداز تھا وہ آپ کے ہر شعر سے نمایاں ہے۔ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں بے تاب و سرشار رہنے والے دلِ گداختہ میں ہر لمحہ یہی ایمانی و عرفانی آرزو پروان چڑھتی رہی کہ شانِ مصطفوی صلی اللہ علیہ و سلم کا بیان ان رفعتوں اور بلندیوں تک پہنچا دیا جائے جہاں تک انسان کا علم، اس کا قلم، اس کی زبان، اس کی فکر، اس کا خیال اور اس کا ادراک ساتھ دے سکتا ہو۔ ویسے یہ بھی سچ ہے کہ بندے سے یہ ممکن نہیں کہ وہ محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ و سلم کی رفعت و عظمت کا کما حقہ بیان کر سکے کیوں کہ خود خدائے مطلق جل شانہ نے قرآنِ مقدس میں یوں آپ کی رفعتِ بالا بیان فرمائی ہے کہ ’’ورفعنا لک ذکرک ‘‘۔
اسی تعلیمِ قرآنی اور عشقِ صادق کے جذبۂ دروں کی کار فرمائی تھی جس نے نثر نگاری ہو یا شاعری نوریؔ بریلوی کو ہر زاویۂ فکر وفن سے شانِ مصطفوی کی رفعتوں اور عظمتوں کے اظہار کے لیے تا دمِ زیست سرگرمِ عمل رکھا۔ سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ و سلم کی رفعت و عظمت اور افضلیت کو نعتیہ پہلو میں کس طرزِ ادا اور رنگینیِ بیان کے ساتھ بیان کیا ہے کلامِ نوریؔ میں نشانِ خاطر ہو ؎
ماہِ تاباں تو ہوا مہرِ عجم ماہِ عرب
ہیں ستارے انبیا مہرِ عجم ماہِ عرب
ہیں صفاتِ حق کے نوری آئینے نبی سارے
ذاتِ حق کا آئینا مہرِ عجم ماہِ عرب
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
رَفعنا سے تمہاری رفعتِ بالا ہوئی ظاہر
کہ محبوبانِ رب میں سب سے عالی مرتبہ تم ہو
شبِ معراج سے اے سیدِ کل ہو گیا ظاہر
رُسل ہیں مقتدی اور امام الانبیا تم ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تاج رکھا تیرے سر پر رَفعنا کا
کس قدر تیری عزت بڑھائی ہے
اہلِ اسلام کا یہ ایک نصِ قرآنی سے ثابت اجماعی عقیدہ ہے کہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و سلم خاتم الانبیا ہیں، آپ پر ربِ ذوالجلا ل والاکرام نے نبوت کا دروازہ بند کر دیا۔ آپ کے بعد نہ کوئی نبی پیدا ہوا نہ قیامت تک ہو گا۔ قرآن پاک میں ہے :
’’ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اﷲ و خاتم النبین ‘‘(5)
ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں، ہاں !اﷲ کے رسول ہیں سب نبیوں میں پچھلے (آخری)۔
نعتیہ کلام میں نوریؔ بریلوی نے اس مضمون کو اس شعر میں یوں پیش کیا ہے ؎
کب ستارہ کوئی چمکا سامنے خورشید کے
ہو نبی کیسے نیا مہرِ عجم ماہِ عرب
حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و سلم دنیا میں تمام انبیا کے بعد خاتم الانبیا بن کر آئے لیکن اصل تخلیق کے اعتبار سے آپ تمام انبیا و رسل سے اول و مقدم ہیں۔ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کہ ’’ میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم روح و جسد کی منزل میں تھے۔ ‘‘۔۔ اور ۔۔ ’’ میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم آب و گِل کی منزل میں تھے۔ ‘‘ اسمفہوم کی ادائیگی حضرت نوریؔ بریلوی نے بڑے اچھوتے انداز میں اور علمِ صرف و نحو کے استعمال سے کیا ہے، نشانِ خاطر ہو شہ پارہ ؎
نہ ہوتے تم نہ ہوتے وہ کہ اصلِ جملہ تم ہی ہو
خبر تھے وہ تمہاری میرے مولا مبتدا تم
تمہیں باطن تمہیں ظاہر تمہیں اول تمہیں آخر
نہاں بھی ہو عیاں بھی مبتدا و منتہا تم ہو
علمائے معرفت و طریقت کا اس امر پر اجماع ہے کہ رسولِ کونین علیہ افضل الصلاۃ والتسلیم کی ذاتِ والا شان، رب العالمین کی ذاتِ واحد کی جملہ صفاتِ عالیہ کی مظہرِ کامل و اکمل ہے۔ اس مظہریتِ عظمیٰ کا بیان صنائع معنوی و لفظی کا لحاظ رکھتے ہوئے حضرت نوریؔ بریلوی نے کلام میں کیا ہے، مثالیں خاطر نشین ہوں ؎
خدا ہے تو نہ خدا سے جدا ہے اے مولا
ترے ظہور سے رب کا ظہور آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہیں صفاتِ حق کے نوری آئینے سارے نبی
ذاتِ حق کا آئینہ مہرِ عجم ماہِ عرب
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خدا نے ذات کا اپنی تمہیں مظہر بنایا ہے
جو حق کو دیکھنا چاہیں تو اس کے آئینہ تم ہو
مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے علمِ غیب کا ثبوت ایک اہم علمی مسئلہ ہے۔ اﷲ کا علم ذاتی ہے جب کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا علم عطائی، خامۂ گل رنگِ نوریؔ اپنے عقیدے کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے نعتیہ کلام میں اس مسئلے کو استدلالی انداز میں یوں زیبِ قرطاس کرتا ہے ؎
خدا نے غیب تمہارے لیے حضور کیا
جو راز دل میں چھپے ہوں تمہیں خبر ہو جائے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مسلط کر دیا تم کو خدا نے اپنے غیبوں پر
نبیِ مجتبیٰ تم ہو، رسولِ مرتضیٰ تم ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عیب سے تم کو پاک کیا ہے غیب کا تم کو علم دیا ہے
اور خود حق بھی تم سے چھپا کیا صلی اللہ علیک و سلم
محبوب کے حسن و جمال کی تعریف و توصیف، اس کے رخِ زیبا اور جبینِ تاباں کی ستایش اور ان کی سحر اور شمس و قمر سے تشبیہہ غزلیہ شاعری کا خاصہ رہا ہے۔ لیکن جب عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم اپنے آقا کے حُسن و جمال، سراپائے اقدس، رخِ زیبا، قامتِ رعنا، جمالِ جہاں آرا اور جبینِ تاباں کی مدح و ثناسے اپنے عشق و محبت کی بزم آراستہ کرتا ہے تو کس کس انداز سے نواسنج و نغمہ سرا ہوتا ہے اور شمس و قمر کی تابانی و درخشانی کو اپنے آقا کے مقابل کس طرح پیش کرتا ہے۔ اس کا خوب صورت اورحسین و جمیل نظارا آئیے کلامِ نوریؔ میں نشانِ خاطر فرمائیں، نت نئی ترکیباتِ لفظی متاثر کن ہے جو اپنے اندر جہانِ معانی اور محبت کا دل کش اندازسموئے ہوئے ہے ؎
تمہارا حسن ایسا ہے کہ محبوبِ خدا تم ہو
مہ کامل کرے کسبِ ضیا وہ مہ لقا تم ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وصف کیا لکھے کوئی اس مہبطِ انوار کا
مہر و مہ میں جلوہ ہے جس چاند سے رخسار کا
فق ہو چہرہ مہر و مہ کا ایسے منہ کے سامنے
جس کو قسمت سے ملے بوسہ تری پیزار کا
تیرے باغِ حسن کی رونق کا کیا عالم کہوں
آفتاب اک زرد پتہ ہے ترے گلزار کا
جلوہ گاہِ خاص کا عالم بتائے کیا کوئی
مہر عالم تاب ہے ذرہ حریم یار کا
زرد رُو کیوں ہو گیا خورشیدِ تاباں سچ بتا
دیکھ پایا جلوہ کیا اس مطلعِ انوار کا
یہ مہ و خور یہ ستارے چرخ کے فانوس میں
شمعِ روشن میں ہے جلوہ آپ کے رخسار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صورتِ پاک وہ بے مثل ہے پائی تم نے
جس کی ثانی نہ عرب اور عجم کی صورت
اس کے علاوہ والشمس وضحٰہا اور والضحیٰ واللیل اذا سجیٰ کی تفسیر عاشق رسول حضرت نوریؔ بریلوی کے اشعار میں ملاحظہ کیجیے ؎
زلف والا کی صفت واللیل ہے قرآن میں
اور رخ کی والضحیٰ مہرِ عجم ماہِ عرب
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نہار چہرۂ والا تو گیسو ہیں واللیل
بہم ہوئے ہیں یہ لیل و نہار آنکھوں میں
محبوب کے دیار اور درو دیوار اور اس کے دربارو گلی کوچے کی شان و شوکت، عظمت و رفعت، قدر و منزلت اور اس کا وقارو عزت ایک عاشقِ صادق کی نظر میں کس قدر ہوتا ہے۔ خاطر نشین کیجیے کلامِ نوریؔ بریلوی سے محبت آمیز چند شہ پارے ؎
بادشاہانِ جہاں ہوتے ہیں منگتا اس کے
آپ کے کوچے کا شاہا جو گدا ہوتا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ضیا بخشی تری سرکار کی عالم پہ روشن ہے
مہ و خورشید صدقہ پاتے ہیں پیارے ترے در کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
رشکِ سلطان ہیں وہ گدا جس نے
تیرے کوچے میں دھونی رمائی ہے
کوچۂ محبوب کے پاس و لحاظ اور اس کے ادب و احترام کواس انداز میں بیان کرنا حضرت نوریؔ بریلوی جیسے عاشقِ صادق کا کمال ہے ؎
پاؤں تھک جاتے اگر پاؤں بناتا سر کو
سر کے بل جاتا مگر ضعف نے جانے نہ دیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آبلے پاؤں میں پڑ جائیں جو چلتے چلتے
راہِ طیبہ میں چلوں سر سے قدم کی صورت
یہ حقیقت ہے کہ ایک عاشقِ صادق کی نظر میں دیارِ محبوب کے خار گلہائے باغِ عالم ہی نہیں بل کہ گلہائے جنت سے بھی زیادہ دل کش، دل فریب، روح پرور، فرحت افزا، خوش نما اور تسکین بخش ہوتے ہیں حضرت نوریؔ بریلوی فرماتے ہیں ؎
نہ کیسے یہ گل و غنچہ ہوں خوار آنکھوں میں
بسے ہوئے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں
نظر میں کیسے سمائیں گے پھول جنت کے
کہ بس چکے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں
پناہِ عاصیاں، ہم دردِ بے کساں، شافعِ روزِ جزا، سرورِ کونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم کی بارگاہِ عالی وقار میں اپنے رنج والم اور بارِ عصیاں کی درد بھری داستان پیش کرتے ہوئے غم گسار و غم خوارِ امت سے حمایت و دستگیری کی طلب کا اندازِ عاشقانہ خاطر نشین ہو ؎
دبا جاتا پجا جاتا ہوں میں آقا دہائی ہے
یہ بھاری بوجھ عصیاں کا مرے سر سے ذرا سرکا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دور ساحل موج حائل پار بیڑا کیجیے
ناؤ ہے منجدھار میں اور ناخدا ملتا نہیں
جانِ عالم و عالمیان صلی اللہ علیہ و سلم باعثِ ایجادِ عالم ہیں۔ کائنات کی جملہ اشیا آپ ہی کی وجہ سے تخلیق کی گئیں۔ بل کہ آپ ہی کے ہونے سے ہر کسی کو ربِ کائنات کا عرفان حاصل ہوا۔ دیگر انبیائے کرام کو جو مقام و منصب ملا ہے وہ بھی مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کا صدقہ ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ مسیحائی سے تقابل کرتے ہوئے رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی مسیحائی کو حضرت نوریؔ بریلوی ندرتِ بیان کے ساتھ پیش کرتے ہوئے بارگاہِ بے کس پناہ میں عرض گزار ہیں، تقابل کا یہ انداز دیگر شعرا کے یہاں نہیں ملتا احترام و عقیدت کا پاس و لحاظ قابلِ دید ہے ؎
شہرہ لبِ عیسیٰ کا جس بات میں ہے مولا
تم جانِ مسیحا ہو ٹھوکر سے ادا کرنا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مسیحِ پاک نے اجسامِ مردہ زندہ کئے
یہ جانِ جاں دل و جاں کو جِلانے آئے ہیں
احادیثِ کثیرہ سے یہ ثابت ہے کہ سیدِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گنہ گار امتیوں کی شفاعت فرمائیں گے، یہی نہیں بل کہ حافظِ قرآن بھی شفاعت کے مرتبے کو پائیں گے۔ ایک طبقہ اس امر کا بھی منکر ہے۔ جب کہ حقیقت یہی ہے کہ نبیِ کونین صلی اللہ علیہ و سلم کو رب العالمین جل شانہ نے تاجِ شفاعتِ کبریٰ سے نوازا ہے۔
نوریؔ بریلوی جیسے خوش عقیدہ شاعر اپنے انتہائے جرم و خطا، اس پر ندامت و شرمندگی اور شفیعِ روزِ جزا دستگیرِ عاصیاں صلی اللہ علیہ و سلم کے انتہائے عفو و کرم اور آپ کی دستگیری و شفاعت پر بھروسہ اور امید کا اظہار کرتے ہوئے شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ و سلم کے اس خاصہ کو یوں پیش کرتے ہیں ؎
دھجیاں ہو جائے دامن فردِ عصیاں کا مری
ہاتھ آ جائے جو گوشہ دامنِ دل دار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عجب کرم ہیں کہ خود مجرموں کے حامی ہیں
گنہ گاروں کی بخشش کرانے آئے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیوں مجھے خوف ہو محشر کا کہ ہاتھوں میں مرے
دامنِ حامیِ خود ماحیِ عصیاں ہو گا
پلہ عصیاں کا گراں ہو بھی تو کیا خوف مجھے
میرے پلے پہ تو وہ رحمتِ رحماں ہو گا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گنہ کتنے ہی اور کیسے ہی ہیں پر رحمتِ عالم
شفاعت آپ فرمائیں تو بیڑا پار ہو جائے
احادیثِ طیبہ اس بات پر بھی دال ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ و سلم جس گلی، کوچے یا راہ سے گزر تے تو آپ کے جسمِ اطہر اور زلفِ مشک بار کی خو شبو سے گلی کوچے معطر و معنبر ہو جاتے تھے۔ اسی مشک باری اور عطر بیزی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت نوریؔ بریلوی وجد آفریں انداز میں فرماتے ہیں ؎
جس گلی سے تو گذرتا ہے مرے جانِ جناں
ذرّہ ذرّہ تری خوشبو سے بسا ہوتا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جگمگا ڈالیں گلیاں جدھر آئے وہ
جب چلے وہ تو کوچے بسا کر چلے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خوشبوئے زلف سے کوچے مہکے ہیں
کیسے پھولوں میں شہا بسائی ہے
پیارے خوشبو تمہارے پسینے کی
خلد کے پھولوں سے بھی سوائی ہے
بات وہ عطرِ فردس میں بھی نہیں
تیرے ملبوس نے جو سنگھائی ہے
افصح الفصحاء، نبیِ امی صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی کے آگے زانوئے ادب تہِ نہیں فرمایا نہ کسی سے پڑھنا، لکھنا سیکھا۔ لیکن یہ ایک عظیم معجزہ ہے کہ آپ کی زبانِ بلاغت نظام سے فصاحت و بلاغت کے ایسے ایسے چشمے ابلے جن کے سامنے عرب کے فصحا و بلغا کی فصاحتیں اور بلاغتیں دم بہ خود رہ گئیں۔ اور ان کی بلاغتوں کا تا جِ تفوق و برتری سرنگوں ہو کر رہ گیا۔ ان کی ساری خوش فہمیاں خس و خاشاک کی طرح بہہ گئیں اور ان کی زبانیں گنگ ہوتی دکھائی دیں۔ اس کی منظر کشی حضرت نوریؔ بریلوی نے یوں کی ہے ؎
جن کے دعوے تھے ہم ہی ہیں اہلِ زباں
سن کے قرآں زبانیں دبا کر چلے
جس طرح شعرا اور ان کی شاعری کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اسی طرح شعرا کے مقصدِ شاعری میں بھی واضح اختلاف پا یا جا تا ہے۔ عموماً ایسے شعرا کی کثرت ہے جن کی شاعری برائے شاعری ہے لیکن حضرت نوریؔ بریلوی کی شاعری کا واحد مقصد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کے جملہ خصائصِ جمیل کے جلوۂ جہاں آرا کو نمایاں کرنا تھا۔ جسے ہم بہ الفاظِ دیگر یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت نوریؔ بریلوی کی شاعری، شاعری برائے شاعری نہیں بلکہ برائے عبادت تھی۔ لہٰذا اس کی وضاحت آپ کے کلام میں یوں ہے ؎
ثنا منظور ہے ان کی نہیں یہ مدعا نوریؔ
سخن سنج و سخن ور ہو سخن کے نکتہ داں تم ہو
(1)نقی علی خاں بریلوی، مولانا:سرورالقلوب، فاروقیہ بک ڈپو، دہلی، ص55
(2)نقی علی خاں بریلوی، مولانا:سرورالقلوب، فاروقیہ بک ڈپو، دہلی، ص55
(3) ارشدالقادری، علامہ: جسمِ بے سایہ، مکتبۂ جامِ نور، دہلی، 1985ء، ص 7، بحوالہ المواہب ص30
(4)محمد شریف الحق امجدی، مفتی:نزہۃ القاری شرح بخاری، دائرۃ البرکات، گھوسی، ص 370/372
(5)القران الکریم:پ 22رکوع 2
٭٭٭
نعت نگاری کے جملہ لوازمات میں سب سے اہم حزم و احتیاط ہے کہ اگر شاعر نعت میں بال برابر بھی تجاوز کرے تو عبد کو معبود کے منصب پر پہنچا کر شرک کر سکتا ہے۔ اور اگر بال برابر کمی کرے تو معبودِ حقیقی کے محبوبِ اکبر صلی اللہ علیہ و سلم کی شانِ اقدس میں توہین و تنقیص جیسے ناقابلِ معافی جرم کا مرتکب ہو کر خسر الدنیا و الآخرۃ کا مصداق ہو سکتا ہے۔
اس پُر خار وادی میں اچھے اچھے نام ور شعرا سے لغزش سرزد ہو ئی ہے۔ جس کا جائزہ بابِ دوم : نعت گوئی کا فن کے ضمنی باب: حزم و احتیاط اور موضوع روایتیں میں لیا جا چکا ہے۔
بہ ہر کیف!حقیقت میں نعت وہی نعت ہوتی ہے جو عبد و معبود، خالق و مخلوق اور الوہیت و نبوت کو سمجھ کر ان کے مابین کے فرق کو ملحوظِ خاطر رکھ کر حفظِ مراتب کا لحاظ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ادب و احترام کے ساتھ نظم کی جائے۔ افراط و تفریط اور غلو و اغراق سے مملو کلام نعت نگار کے اسلام و ایمان پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیتا ہے۔ اس لیے نعت نگار سے نعت گوئی کا فن بار بار حدودِ شرع کے پاس ولحاظ اور حزم و احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ اوصافِ محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کا تقابل جب کسی دوسرے نبی علیہم السلام سے کیا جائے تو اس وقت بھی مکمل ادب و احترام ملحوظ رکھنا ازبس ضروری ہے، کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے اعلا ترین اوصافِ جمیلہ کا تقابل کرتے ہوئے شاعر دیگر انبیا و مرسلین علیہم السلام کی شان میں توہین و تنقیص کا ارتکاب کر کے اپنے اعمال کو تباہ و برباد کر دے۔
حضرت نوریؔ بریلوی کے والدِ ماجد امام احمد رضا بریلوی کے یہاں حزم و احتیاط کا جو عالم ہے وہ مخفی نہیں اردو کے جملہ ناقدین اس امر پر متفق ہیں کہ آپ کے یہاں جو شانِ احتیاط ہے وہ کسی دوسرے شاعر کے ہاں نہیں۔ تحقیق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جہاں تک مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی کا معاملہ ہے تو موصوف نے امام احمد رضا بریلوی کے دربارِ علمی سے کسبِ فیض کیا ہے۔ آپ علم و فضل، زہد و تقوا، استقامت علیٰ الدین اور تفقہ فی الدین میں یگانۂ روزگار تھے۔ آپ جہاں آشنائے رموزِ شریعت تھے وہیں واقفِ اسرارِ طریقت بھی تھے۔ علم و فضل کی گیرائی و گہرائی اور عشقِ رسو ل صلی اللہ علیہ و سلم کی والہیت سے آپ کے کلام میں سادگی و معنوی حسن حد درجہ موج زن ہے۔ آپ کا کلام از اول تا آخر خشیتِ ربانی اور محامدِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم میں سرتا سر ڈوبا ہے۔ افراط و تفریط، بے جا خیال آفرینی اور غلو و اغراق سے پورا کلام یک سر پاک و منزہ ہے۔
کلامِ نوریؔ کا تنقیدی مطالعہ کرنے کے بعد اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ آپ نے حدودِ شرع کی مکمل پاس داری کی ہے۔ اور آپ کے ہاتھوں سے کہیں بھی زمامِ حزم و احتیاط ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں چھوٹی ہے۔ آپ نے مکمل حزم و احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے با ادب با ملاحظہ ہوشیار کی صدائے بازگشت میں بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں مدح سرائی کی ہے۔ آپ کے کلام میں حزم و احتیاط اور حدودِ شرع کی پاس داری کا جو عالم ہے وہ قابلِ دید ہے دیگر شعرا کی طرح آپ کے کلام میں کسی قسم کی شرعی لغزش نہیں ملتی اس کا اعتراف خود حضرت نوریؔ بریلوی کو بھی ہے چناں چہ بہ طورِ تحدیثِ نعمت فرماتے ہیں ؎
گل ہائے ثناسے مہکتے ہوئے ہار
سُقمِ شرعی سے منزہ اشعار
آیئے خاطر نشین کیجیے کلامِ نوریؔ میں حزم و احتیاط کا اچھوتا اور نرالا انداز ؎
کوئی کیا جانے جو تم ہو خدا ہی جانے کیا تم ہو
خدا تو کہہ نہیں سکتے مگر شانِ خدا تم ہو
کس درجہ خوبی سے دامنِ احتیاط تھامے ہوئے نوریؔ بریلوی نے رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کے علوئے مرتبت کو بیان کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہم خدا ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ وہ اﷲ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ ہاں ! مگر شانِ خدا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ خالقِ مطلق جل شانہٗ کی شاہ کار تخلیق آپ ہی ہیں۔
حضور احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادتِ باسعادت اور بعثتِ پاک کے سبب بل کہ ذاتِ با برکات کے سبب ہی سے دنیا کو عرفانِ خداوندی کی دولتِ عظمیٰ نصیب ہوئی۔ آپ ہی کے صدقہ و طفیل دنیا نے اﷲ اور اس کی صفات کو پہچانا۔ اور اﷲ نے اپنی ربوبیت کا اظہار بھی آپ کی تخلیق ہی کے سبب کیاہے اورسب کچھ پیدا فرمایا ہے۔ پھر بھی ہم رسول کو رسول ہی کہہ سکتے ہیں خدا ہرگز ہرگز نہیں کہہ سکتے۔ لیکن ہاں ! رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو خدا سے جدا بھی نہیں کہا جا سکتا۔ نوریؔ بریلوی اسی نکتے کو انتہائی احتیاط سے بلیغ انداز میں یوں بیان کرتے ہیں ؎
خدا ہے تو نہ خدا سے جدا ہے اے مولا
ترے ظہور سے رب کا ظہور آنکھوں میں
اسی طرح یہ شہ پارے نشانِ خاطر کرتے ہوئے کلامِ نوریؔ بریلوی میں شانِ حزم و احتیاط کی جلوہ گری کا اعتراف کرنا لازمی ہو جاتا ہے ؎
ہیں صفاتِ حق کے نوری آئینے سارے نبی
ذاتِ حق کا آئینہ مہرِ عجم ماہِ عرب
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خدا نے ذات کا اپنی تمہیں مظہر بنایا ہے
جو حق کو دیکھنا چاہیں تو اس کے آئینہ تم ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سجدہ کرتا جو مجھے اس کی اجازت ہوتی
کیا کروں اذن مجھے اس کا خدا نے نہ دیا
حسرتِ سجدہ یوں ہی کچھ تو نکلتی لیکن
سر بھی سرکار نے قدموں پہ جھکانے نہ دیا
کیا خوب حسنِ بیان اور ندرتِ ادا سے اپنی بات بھی کہہ دی اور شریعت کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے دامنِ احتیاط کو چھوٹنے بھی نہ دیا اور اپنے آپ کو غلو و اغراق اور افراط و تفریط سے پاک رکھا۔ لہٰذا کلامِ نوریؔ بریلوی کے مطالعہ کی روشنی میں یہ کہنا غیر مناسب نہیں ہے کہ آپ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے انتہائی ادب شناس تھے اور آپ نے عبد و معبود کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے نعتیہ کلام تحریر کیا ہے۔ اور کہیں بھی لمحہ بھر کے لیے بھی آپ کے ہاتھوں سے زمامِ احتیاط نہیں چھوٹی ہے۔
٭٭٭
منقبت کی تعریف ناقد و محقق سلیم شہزاد نے یوں رقم کی ہے :
’’مدحیہ صنف سخنجس میں کسی اصحابِ رسول خلفائے راشدین (خصوصاً حضرت علی رضی اللہ عنہ) ائمۂ کرام یا اولیا و صوفیائے عظام کی توصیف کی گئی ہو، اس کے لیے کوئی ہیئت مخصوص نہیں ہے۔ ‘‘(ادبیات فرہنگِ ص683)
ہر زبان و ادب کے شعرا نے حمد و نعت، غزل اور رباعی گوئی کے ساتھ ساتھ منقبت نگاری بھی کی ہے۔ بعض شعرائے کرام نے تو تمام مشہور و معروف اولیائے کاملین کی شان میں مناقب لکھے ہیں اور بعض نے صرف مخصوص بزرگوں کی شان میں منقبتیں قلم بند کی ہیں۔ جہاں تک حضرت نوریؔ بریلوی کا تعلق ہے تو آپ نے زیادہ تر توجہ نعت نگاری کی طرف ہی مرکوز رکھی۔ بہ ہر کیف ! آپ کے مجموعۂ کلام میں منقبتیں بھی ملتی ہیں۔ چوں کہ آپ قادری المشرب تھے۔ آپ کو سرتاجِ اولیا حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی بغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (م561ھ) سے خاص لگاؤ اور محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ’’سامانِ بخشش ‘‘ میں تین منقبتیں بالترتیب 28، 19 اور 51؍ اشعار پر مشتمل حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں ملتی ہیں۔ سرکار غوثیت مآب کی شان میں لکھی گئی مناقب میں استغاثہ و فریاد کا عنصر غالب ہے، نوریؔ بریلوی نے بارگاہِ غوثِ اعظم میں شاعرانہ لطافتوں اور عقیدت مندانہ حُسنِ تخیل کے ساتھ آپ کے مقام و منصب، کرامات اور کمالات کو خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے۔
اسی طرح آپ کو کلیر شریف کے جیّد ولیِ کامل حضرت پیر سید علاو الدین صابر پیا کلیری رحمۃ اللہ علیہ (م690ھ ) سے بھی قلبی لگاؤ تھا۔ حضرت صابر پیا کلیری کی شان میں بھی آپ نے ایک منقبت لکھی ہے نیز آپ نے اپنے شاگردِ رشید محدث اعظم پا کستان مولاناسردار احمد خاں لائل پوری علیہ الرحمۃ (م1382ھ) کے وصال پر آپ کی شان میں ایک بہترین تعزیتی منقبت بھی تحریر کی ہے۔
یہ تمام مناقب فنِ شاعری کا اعلا ترین نمونہ ہیں معنی آفرینی، خیال کی ندرت، سلاست و روانی، ایجاز اختصار، پیکر تراشی، روزمرہ محاوروں کا برجستگی کے ساتھ استعمال، صنائع و بدائع، عربی کی آمیزش، فارسیت کارچاو اور دیگر شعری و فنّی محاسن ان مناقب میں جابہ جا بکھرے ہوئے ہیں۔ ذیل میں تمام مناقب کے چیدہ چیدہ اشعار بلا تبصرہ ملاحظہ ہوں :
(1)
ترا جلوا نورِ خدا غوثِ اعظم
ترا چہرہ ایماں فزا غوثِ اعظم
مجھے بے گماں دے گما غوثِ اعظم
نہ پاؤں میں اپنا پتا غوثِ اعظم
خودی کو مٹا دے خدا سے ملا دے
دے ایسی فنا و بقا غوثِ اعظم
خدا ساز آئینۂ حق نما ہے
ترا چہرۂ پر ضیا غوثِ اعظم
تو باغِ علی کا ہے وہ پھول جس سے
دماغِ جہاں بس گیا غوثِ اعظم
ترا مرتبہ کیوں نہ اعلا ہو مولیٰ
ہے محبوبِ ربُّ العلا غوثِ اعظم
ترا رتبہ اللہ اکبر سروں پر
قدم اولیا نے لیا غوثِ اعظم
ترا دامنِ پاک تھامے جو راہ زن
بنے ہادی و رہنما غوثِ اعظم
نہ کیوں مہرباں ہو غلاموں پہ اپنے
کرم کی ہے تو کان یا غوثِ اعظم
ترے صدقہ جاؤں مری لاج رکھ لے
ترے ہاتھ ہے لاج یا غوثِ اعظم
پریشان کر دے پریشانیوں کو
پریشان دل ہے مرا غوثِ اعظم
ارے مورے سیّاں پڑوں تورے پیّاں
پکڑ موری بیّاں پیا غوثِ اعظم
تو بے کس کا کس اور بے بس کا بس ہے
تواں ناتوانوں کی یا غوثِ اعظم
مری جان میں جان آئے جو آئے
مرا جانِ عالم مرا غوثِ اعظم
مری جان کیا جانِ ایماں ہو تازہ
کہ ہے محیِ دینِ خدا غوثِ اعظم
مرا سر تری کفشِ پا پر تصدق
وہ پا کے تو قابل ہے غوثِ اعظم
جھلک روئے انور کی اپنی دکھا کر
تو نوریؔ کو نوری بنا غوثِ اعظم
(2)
کھلا میرے دل کی کلی غوثِ اعظم
مٹا قلب کی بے کلی غوثِ اعظم
مرے چاند میں صدقے آ جا ادھر بھی
چمک اُٹھے دل کی کلی غوثِ اعظم
ترے رب نے مالک کیا تیرے جد کو
ترے گھر سے دنیا پلی غوثِ اعظم
وہ ہے کون ایسا نہیں جس نے پایا
ترے در پہ دُنیا ڈھلی غوثِ اعظم
کہا جس نے یا غوث اعظم اغثنی تو دم میں
ہر آئی مصیبت ٹلی غوثِ اعظم
نہیں کوئی بھی ایسا فریادی آقا
خبر جس کی تم نے نہ لی غوثِ اعظم
مری روزی مجھ کو عطا کر دے آقا
ترے در سے دنیا نے لی غوثِ اعظم
نہ مانگوں میں تم سے تو پھر کس سے مانگوں
کہیں اور بھی ہے چلی غوثِ اعظم
صدا گر یہاں میں نہ دوں تو کہاں دوں
کوئی اور بھی ہے گلی غوثِ اعظم
جو قسمت ہو میری بُری اچھی کر دے
جو عادت ہو بد کر بھلی غوثِ اعظم
ترا مرتبہ اعلا کیوں نہ ہو مولا
تو ہے ابنِ مولیٰ علی غوثِ اعظم
قدم گردنِ اولیا پر ہے تیرا
ہے تو رب کا ایسا ولی غوثِ اعظم
جو ڈوبی تھی کشتی وہ دم میں نکالی
تجھے ایسی قدرت ملی غوثِ اعظم
ہمارا بھی بیڑا لگا دو کنارے
تمہیں ناخدائی ملی غوثِ اعظم
تباہی سے ناؤ ہماری بچا دو
ہوائے مخالف چلی غوثِ اعظم
تجھے تیرے جد سے انھیں ان کے رب سے
ہے علمِ خفی و جلی غوثِ اعظم
مرا حال تجھ پر ہے ظاہر کہ پُتلی
تری لوح سے جا ملی غوثِ اعظم
خدا ہی کے جلوے نظر آئے جب بھی
تری چشمِ حق بیں کھلی غوثِ اعظم
فدا تم پہ ہو جائے نوریِؔ مضطر
یہ ہے اس کی خواہش دلی غوثِ اعظم
(3)
تجلّیِ نورِ قِدَم غوثِ اعظم
ضیائے سراج الظلم غوثِ اعظم
ترا حِل ہے تیرا حرم غوثِ اعظم
عرب تیرا تیرا عجم غوثِ اعظم
چلا ایسی تیغِ دو دم غوثِ اعظم
کہ اعدا کے سر ہوں قلم غوثِ اعظم
ترے ہوتے ہم پر ستم ڈھائے دشمن
ستم ہے ستم ہے ستم غوثِ اعظم
نہیں لاتا خاطر میں شاہوں کو شاہا
ترا بندۂ بے درم غوثِ اعظم
کرم چاہئے تیرا تیرے خدا کا
کرم غوثِ اعظم کرم غوثِ اعظم
بڑھا ناخدا سر سے پانی الم کا
خبر لیجیے ڈوبے ہم غوثِ اعظم
کرو پانی غم کو بہا دو الم کو
گھٹائیں بڑھیں ہیں کرم غوثِ اعظم
خدا نے تمہیں محو و اثبات بخشا
ہو سلطانِ لوح و قلم غوثِ اعظم
بہ عینِ عنایت بہ چشمِ کرامت
بدہ جرعۂ نا چشَم غوثِ اعظم
ترا ایک قطرہ عوالم نما ہے
نہیں چاہیے جامِ جم غوثِ اعظم
ترا حسنِ نمکیں بھرے زخم دل کے
کہ خود کہہ اُٹھوں میں منم غوثِ اعظم
ترقی کرے روز و شب دردِ الفت
نہ ہو قلب کا درد کم غوثِ اعظم
یہ دل یہ جگر ہے یہ آنکھیں یہ سر ہے
جہاں چاہو رکھو قدم غوثِ اعظم
سرِ خود بہ شمشیرِ ابرو فروشم
بہ مژگانِ تو سینہ ام غوثِ اعظم
بہ پیکانِ تیرت جگر می فروشم
بہ تیرِ نگاہت دلم غوثِ اعظم
دماغم رسد بر سرِ عرشِ اعلا
بپایت اگر سر نہم غوثِ اعظم
مری سر بلندی یہیں سے ہے ظاہر
کہ شُد زیرِ پایت سرم غوثِ اعظم
لگا لو مرے سر کو قدموں سے اپنے
تمہیں سِرِّ حق کی قسم غوثِ اعظم
تمہاری مہک سے گلی کوچے مہکے
ہے بغداد رشکِ ارم غوثِ اعظم
مرا نفسِ سر کش بھی رہزن ہے میرا
یہ دیتا ہے دم، دم بدم غوثِ اعظم
دکھا دے تو اِنی عزومُُ کے جلوے
سنادے صدائے منم غوثِ اعظم
ہماری خطاؤں سے دفتر بھرے ہیں
کرم کر کہ ہوں کالعدم غوثِ اعظم
تمہارے کرم کا ہے نوریؔ بھی پیاسا
ملے یم سے اس کو بھی نم غوثِ اعظم
ان مناقب کے ساتھ ساتھ حضرت علاوالدین صابرپیا کلیری کی شان میں لکھی گئی حضرت نوریؔ بریلوی کی منقبت ذیل میں ملاحظہ ہو ؎
کیسے کاٹوں رتیاں صابر
تارے گنت ہَوں سیّاں صابر
مورے کرجوا ہوک اُٹھت ہے
مو کو لگا لے چھتیاں صابر
توری صورتیا پیاری پیاری
اچھی اچھی بتیاں صابر
چیری کو اپنے چرنوں لگا لے
میں پروں تورے پیّاں صابر
ڈولے نیّا موری بھنور میں
بلما پکڑ لے بیّاں صابر
چھتیاں لاگن کیسے کہوں میں
تم ہو اونچے اٹریاں صابر
تورے دوارے سیس نواؤں
تیری لے لوں بلیاّں صابر
سپنے ہی میں درشن دکھلا دو
مو کو مورے گسیّاں صابر
تن من سب توپے وارے
نوریؔ مورے سیّاں صابر
اسی طرح نوریؔ بریلوی کے اپنے والدِ ماجد امام احمد رضا بریلوی کی شان میں لکھے ہوئے منقبتی اشعاربھی ’’سامانِ بخشش‘‘ میں موجود ہیں ، اشعار نشانِ خاطر فرمائیں ؎
اس رضا پر ہو مولا رضائے حق
راہ جس نے تمہاری چلائی ہے
۔۔۔
محیِ سنت، حامیِ ملت، مجدد دین کا
پیکرِ رشد و ہدا احمد رضا ملتا نہیں
علاوہ ازیں نوریؔ بریلوی کی ایک غیر مطبوعہ منقبتِ رضا ذیل میں قاری امانت رسول پیلی بھیتی کے شکریے کے ساتھ نشانِ خاطر ہو ؎
تم ہو سراپا شمعِ ہدایت محیِ سنت اعلا حضرت
تم ہو ضیائے دین و ملت محیِ سنت اعلا حضرت
بحرِ علم و چشمۂ حکمت محیِ سنت اعلا حضرت
ہو دریائے فیض و رحمت محیِ سنت اعلا حضرت
کر دی زندہ سنتِ مردہ، دینِ نبی فرمایا تازہ
مولا مجددِ دین و ملت محیِ سنت اعلا حضرت
اس سے راضی ربّ و نبی ہو، جس سے آقا تم راضی ہو
تم ہو رضائے حضرتِ عزت محیِ سنت اعلا حضرت
مرکزِ حلقۂ اہلِ سنت، معدنِ علم و فضل و کرامت
منبعِ فیضِ شاہِ رسالت محیِ سنت اعلا حضرت
پھوٹ رہے ہیں تخمِ بدعت، پھوٹ رہی ہے شاخِ ضلالت
رہِ برِ امت شیخِ طریقت محیِ سنت اعلا حضرت
زیرِ قدم تھے ہم جو تمہارے، گویا جنت میں تھے سارے
تم جو سدھارے راہِ جنت محیِ سنت اعلا حضرت
ہو گئی دنیا دوزخ گویا، ہجر کی تپ نے ایسا پھونکا
جلوا دکھا دو دور ہو فرقت محیِ سنت اعلا حضرت
تم وہ مجسم نورِ ہدایت، دور ہے جس کے دم سے ظلمت
ہادیِ ملت ماحیِ بدعت محیِ سنت اعلا حضرت
محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد لائل پوری علیہ الرحمۃ کی شان میں لکھی گئی تعزیتی منقبت یوں ہے ؎
سنیوں کا دل نہ بیٹھے کس طرح
زور ان کے قلب کا جاتا رہا
فیض سے معمور جس نے کر دیا
چپّہ چپّہ ملک کا جاتا رہا
اُٹھتے اُٹھتے چَو طرف وہ چھا گیا
خوب برسا ابر سا، جاتا رہا
قوتِ دل طاقتِ دل زورِ دل
اس کے جانے سے مرا جاتا رہا
وہ محدث وہ محقق وہ فقیہ
عالمِ علمِ ہدا جاتا رہا
جو مرقع تھا جمال و حسن کا
وہ نگارِ اولیا، جاتا رہا
اس زمانے کا محدث بے مثال
جس کا ثانی ہی نہ تھا، جاتا رہا
تھا خشیت میں خدائے پاک کی
وہ مثالِ اتقیا، جاتا رہا
غوثِ اعظم خواجۂ اجمیر کا
وہ مجسم فیض تھا، جاتا رہا
فیض سے داتا کے مالامال تھا
گنجِ بخشِ علم تھا، جاتا رہا
پیکرِ رُشد و ہدا تھا بالیقیں
مظہرِ احمد رضا جاتا رہا
اعظمِ خلَفا تھا پاکستان میں
جانشینِ مصطفا جاتا رہا
حضرتِ صدر الشریعہ کا وہ چاند
میرا مہرِ پُر ضیا جاتا رہا
مرگیا فیضان جس کی موت سے
ہائے وہ ’’فیض انتما‘‘ جاتارہا
’’یا مجیب اغفرلہ‘‘ تاریخ ہے
کس برس وہ رہنما جاتا رہا
دیو کا سر کاٹ کر نوریؔ کہو
چاند روشن علم کا جاتا رہا
٭٭٭
علمِ بیان علمِ بلاغت کی ایک شاخ ہے۔ جس کے چار ارکان تشبیہہ، استعارہ، کنایہ اور مجازِ مُرسل ہیں۔ یہ زُہرہ جبین، شاعری کے سنگھار اور آرایش و زیبایش ہیں۔ ان کے استعمال سے کلام کے حُسن میں نکھار آ جاتا ہے اور اس کی جاذبیت میں اضافہ ہو جاتا ہے عام طور سے شعرا تشبیہہ و استعارہ ہی استعمال میں لاتے ہیں۔ لیکن کنایہ اور مجاز بھی کبھی کبھی استعمال کرتے ہیں جس سے شاعری میں ایک دھوپ چھاؤں کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔
حضرت نوریؔ بریلوی کے کلام میں تشبیہات و استعارات کی بہاریں لائقِ دید ہیں :
تعریف: جب شاعرکسی شعر میں مشبہ کو مشبہ بہٖ کے جیسا بیان کرتا ہے تو اسے تشبیہہ کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثال ؎
آبلوں کے سب کٹورے آہ خالی ہو گئے
منہ ابھی تر بھی نہ ہونے پایا تھا ہر خار کا
(آبلوں کو کٹورے کہا ہے یعنی آبلہ کی تشبیہ کٹورے سے دی ہے )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مرقدِ نوریؔ پہ روشن ہے یہ لعلِ شب چراغ
یا چمکتا ہے ستارہ آپ کی پیزار کا
(سرکارِ اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے پیزار کے ذرّہ کو ’’ستارا‘‘ اور پھر اسے ’’لعلِ شب چراغ‘‘
سے تشبیہہ دی ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زلفِ والا کی صفت واللیل ہے قرآن میں
اور رُخ کی والضحیٰ مہرِ عجم ماہِ عرب
(اس شعر میں زلف کو واللیل اور رُخ کو والضحیٰ سے تشبیہہ دی ہے نیز مہرِ عجم ماہِ عرب استعارے ہیں ایک شعر میں تشبیہات بھی اور استعارات بھی سبحان اﷲ!)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چہرہ مطلعِ نورِ الٰہی، سینہ مخزنِ رازِ الٰہی
شرح صدرِ صدارت والے صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
(چہرہ مشبہ، نورِ الٰہی مشبہ بہٖ۔ سینہ مشبہ، رازِ خدائی مشبہ بہٖ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تمہارے قدموں پہ موتی نثار کرنے کو
ہیں بے شمار مری اشک بار آنکھوں میں
(آنسووں کو موتی کہا گیا ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نہار چہرۂ والا تو گیسو ہیں واللیل
بہم ہوئے ہیں یہ لیل و نہار آنکھوں میں
(پہلے گیسو کو واللیل پھر لیل۔ چہرہ کو نہار(صبح)سے تشبیہہ دی ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیا کہوں کیسے ہیں پیارے ترے پیارے گیسو
دونوں عارض ہیں ضحی لیل کے پارے گیسو
(گیسو کو پارۂ لیل سے اور عارض کو ضحی سے تشبیہہ دی ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جو ساقیِ کوثر کے چہرے سے نقاب اُٹھے
ہر دل بنے مے خانہ، ہر آنکھ ہو پیمانہ
(دل مشبہ، مے خانہ مشبہ بہٖ۔ آنکھ مشبہ، پیمانہ مشبہ بہٖ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تیرے باغِ حُسن کی رونق کا کیا عالم کہوں
آفتاب اک زرد پتہ ہے ترے گل زار کا
(آفتاب کو زرد پتہ سے تشبیہہ دی ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ماہِ تاباں تو ہوا مہرِ عجم ماہِ عرب
ہیں ستارے انبیا مہرِ عجم ماہِ عرب
(انبیا کو ستارے کہا ہے اور سرکار کو ماہِ تاباں سے تشبیہہ دی ہے)
تعریف: جب شاعر کسی شعر میں مشبہ کو مشبہ بہٖ قرار دے دے تو اسے استعارہ کہتے ہیں۔
ناقدینِ ادب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ استعارہ، تشبیہہ سے زیادہ لطیف ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں مشبہ بہٖ کو عین مشبہ تسلیم کر لیتے ہیں۔ یعنی مستعار منہ سے مستعار لہٗ کے لیے اس کا وصف عاریۃً لے لیتے ہیں پھر اس کو عین مستعار منہٗ یعنی مشبہ بہٖ تسلیم کر لیتے ہیں جس سے مشبہ کی خوبی اور اس کی خوب صورتی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
نعت تو دراصل اس بے مثیل و بے نظیر ذات کی مدح ہے جو ہر تشبیہہ و استعارہ سے بلند و برتر اور ارفع و اعلا ہے۔ لیکن شاعر ا پنی قوتِ متخیلہ کو بروئے کار لا کر بے نظیر آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے استعارہ سازی کرتا ہے۔ حضرت نوریؔ بریلوی کے کلام میں استعارات کی بہتات ہے اور جو بھی استعارہ ہے خوب ہے اور عام فہم بھی ہے۔ چند مثالیں خاطر نشین کیجیے ؎
تو جانِ مسیحا سے حالت مری جا کہنا
اتنا تو کرم مجھ پر اے بادِ صبا کرنا
(استعارہ۔ جانِ مسیحا )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میرا گھر غیرتِ خورشید درخشاں ہو گا
خیر سے جانِ قمر جب کبھی مہماں ہو گا
(جانِ قمر۔ استعارہ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ماہِ طیبہ نیّرِ بطحا صلی اللہ علیک و سلم
تیرے دم سے عالم چمکا صلی اﷲ علیک و سلم
(ماہِ طیبہ، نیّرِ بطحا۔ استعارے ہیں )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ ہیں خورشیدِ رسالت نور کا سایہ کہاں
اس سبب سے سایۂ خیر الورا ملتا نہیں
(خورشیدِ رسالت۔ استعارہ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بسا ہوا ہے کوئی گل عذار آنکھوں میں
کھلا ہے چار طرف لالہ زار آنکھوں میں
(گل عذار۔ استعارہ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بہارِ جاں فزا تم ہو نسیمِ داستاں تم ہو
بہارِ باغِ رضواں تم سے ہے زیبِ جناں تم ہو
(بہارِ جاں فزا، نسیمِ داستاں، زیبِ جناں۔ استعارے ہیں )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
علوئے مرتبت پیارے تمہارا سب پہ روشن ہے
مکینِ لامکاں تم ہو شہ عرش علا تم ہو
(مکینِ لامکاں، شہ عرشِ علا۔ استعارے ہیں )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جو ساقیِ کوثر کے چہرے سے نقاب اُٹھے
ہر دل بنے مے خانہ ہر آنکھ ہو پیمانہ
(ساقیِ کوثر۔ استعارہ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اگر آئے وہ جانِ نور میرے خانۂ دل میں
مہ و خاور مرا گھر مطلعِ انوار ہو جائے
(جانِ نور۔ استعارہ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ناخدا با خدا آؤ بہرِ خدا
میری کشتی تباہی میں آئی ہے
(ناخدا۔ استعارہ ہے)
حضرت نوریؔ بریلوی کے سلامیہ قصائد میں حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کے جو اوصاف ہیں وہ سب استعارہ ہیں۔ مثلاً :شہ اورنگِ خلافت، والیِ ملکِ جلالت، رافع، نافع، سرورِ عالی مقام، ماہِ لاہوتِ خلوت، شاہِ ناسوتِ جلوت، وجہِ بعثِ خلقت، نورِ مجسم، رہِ برِ جملہ انام، نوری آئینے، کوچۂ پُر نور، رشکِ مہر، جانِ قمر، نیرِ چرخِ رسالت، نورِ چشمِ انبیا وغیرہ۔
علاوہ ازیں مختلف اشعار میں، شہ ہر دوسرا، آفتابِ ہاشمی، مہرِ عجم، ماہِ عرب، بدرالدجیٰ، فضلِ اتم، شانِ کرم، جانِ کرم، کانِ کرم وغیرہ استعارات میں ترکیب سازی سے بھی کام لیا گیا ہے۔
تعریف:جب شاعر کسی شعر میں ملزوم کا ذکر کر کے لازم مراد لیتا ہے تو اسے کنایہ کہتے ہیں۔
کنایہ لغوی اور مرادی دونوں معنوں میں مستعمل ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں اور استعارے میں یہ فرق پیدا ہو گیا ہے کہ استعارہ صرف مرادی معنی ترسیل کرتا ہے مثلاً: سفید پوش (شریف)، سفیدریش (بوڑھا)، مگس کی قے(شہد)، قندیلِ فلک(چاند)، دبیرِ فلک(عطارد) وغیرہ۔
چوں کہ اس کی مثالیں بھی کلامِ نوریؔ میں موجود ہیں لہٰذا اس سلسلے میں دو شعر نشانِ خاطر فرمائیں ۔۔ کنایہ کبھی استعارہ کے رنگ میں بھی استعمال ہوتا ہے، اس وقت اس کو ’’استعارہ با لکنایہ ‘‘ کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثالیں ؎
اس جبہہ سائی کے سبب شب کو اسی سرکار نے
انعام میں ’ٹیکا‘ دیا مہرِ عجم ماہِ عرب
اور صبح کو سرکار سے اس کو ملا نوریؔ صلہ
عمدہ سا ’جھومر‘ پُر ضیا مہرِ عجم ماہِ عرب
(یہاں۔ ٹیکا سے مرادچاند ہے جھومر سے مراد ہے سورج استعارہ بالکنایہ ہے۔ ماہِ عجم مہرِ عرب استعارے ہیں )
تشبیہہ، استعارہ اور کنایہ کی متذکرۂ بالا مثالیں کلامِ نوریؔ سے پیش کی گئی ہیں۔ آپ نے اپنے کلام میں علمِ بیان کے ان زیوروں کو جس احسن انداز سے برتا ہے اور اردو کے ساتھ فارسی لفظیات کی ترکیب کے جو جوہر بکھیرے ہیں وہ آپ کی فصاحت و بلاغت اور قادرالکلامی کی روشن دلیل پیش کرتے ہیں۔ آپ کے ذہنِ رسا نے اچھوتے اور نرالے استعارات و تشبیہات کو اپنے اشعار میں بڑی سادگی و صفائی اور خوش سلیقگی سے اس طرح نظم کیا ہے کہ ان کو پڑھنے کے بعد ایک طرح کے کیف آگیں جذبات سے روح سرشار ہونے لگتی ہے۔
٭٭٭
علمِ بیان کی طرح صنائع و بدائع بھی کلام کی آرایش و زیبایش کا ایک وسیلہ ہے۔ اس سے کلام میں حُسن اور لطف کی کیفیت میں اضافہ ہوتا ہے، لہٰذا اس کو لوازمِ شاعری میں شمار کیا جا تا ہے۔ البتّہ صنائع و بدائع کا استعمال بڑی سلیقہ مندی کا متقاضی ہے۔ حدِ اعتدال سے زیادہ اس کا استعمال کلام میں حُسن و خوبی کے بجائے بے کیفی اور عیب جوئی کی کیفیت پید ا کر دیتا ہے۔
اصنافِ غزل و قصیدے میں صنائع و بدائع کے استعمال کی بڑی گنجایش ہے کیوں کہ اس میدان میں مبالغہ اور غلو پر کوئی پابندی یا قدغن نہیں ہے۔ لہٰذا شعرا صنائع بدائع کے استعمال کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ غزل اور قصیدہ میں صنائع بدائع کا استعمال آسان ہے۔ جب کہ نعت کے تنگنائے میں اس کا استعمال بے حد دشوار اور مشکل ہے۔ اس لیے کہ یہاں غلو اور مبالغہ کا ہر گز گذر نہیں۔ البتہ نعت پاک میں صنعتِ تلمیح، صنعتِ تلمیع، لف و نشر مرتب و غیر مرتب، مراعاۃ النظیر، صنعتِ اقتباس ( قرآن و حدیث کے حوالے یا اشارے وغیرہ) خا ص طور سے استعمال کیے جاتے ہیں۔ لیکن ان کے استعمال کے لیے بھی شعری تجربہ اور سلیقہ درکار ہے۔
دراصل عصرِ موجودہ کی شاعری میں بیان و بدیع نیز بہت سے فنّی اور عروضی اصولوں اور نزاکتوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی شعرا ان فنون اور آدابِ شاعری سے واقفیت کو ضروری اور لازمی سمجھتے ہیں۔ لیکن 20 ؍ ویں صدی کے کم سے کم نصفِ اول تک ان باریکیوں اور فنّی قیود و آداب پر توجہ ضروری سمجھی جاتی تھی۔
گو حضرت نوریؔ بریلوی کا وصال بیسویں صدی کی نویں دہائی(1981ء ) میں ہوا۔ لیکن آپ نے اپنا دیوان ’’سامانِ بخشش‘ ‘ بیسویں صدی کے نصفِ اول یعنی بیسویں صدی کی چوتھی دہائی1354ھ / 1934ء ہی میں مرتب کر لیا تھا۔ لہٰذا آپ کے دور کی روایت میں فنّی قیود و آداب کی پوری پابندی کی جاتی تھی اور خود حضرت نوریؔ بریلوی نے ان آداب کا خیال رکھا ہے۔
صنائع بدائع کے نقطۂ نظر سے حضرت نوریؔ بریلوی کے کلام کے محاسن میں ۔۔ ’’صنائع معنوی اور صنائع لفظی ‘‘۔۔ دونوں کے نمونے پیش کیے جا تے ہیں۔
تعریف :ظاہری طور پر معنویت پر منحصر صنعتوں کو صنائعِ معنوی کہتے ہیں۔ لیکن الفاظ کے بغیر معنوی صنعت کا وجود ممکن نہیں۔ ایہام، مبالغہ، مراعاۃ النظیر، تضاد، تنسیق الصفات، لف و نشر مرتب و غیر مرتب، تلمیح، حُسنِ تعلیل اور ہجو وغیرہ معروف صنائعِ معنوی ہیں۔
تعریف :جب شاعر کسی شعر یا کلام میں ایک لفظ کی رعایت سے اس کے مترادف الفاظ کا استعمال کرتا ہے تو اسے مراعاۃ النظیر کہتے ہیں۔ مثلاً : برسات کا ذکر اس طرح کیا جائے کہ بارش، بادل، گرج، چمک، بجلی وغیرہ کا ذکر بھی ہو۔ یا چمن کا ذکر اس طرح ہو کہ پھول، پتی، شاخ، خوشبو، وغیرہ کا بیان ہو، ہر صنفِ شاعری میں یہ صنعت عام طور سے استعمال کی جاتی ہے اس سے کلام میں حُسن پیدا ہو جاتا ہے۔ کلامِ نوریؔ سے مثالیں نشانِ خاطر ہوں ؎
گل سے مطلب ہے جہاں ہو عندلیبِ زار کو
گل نہ ہو تو کیا کرے بلبل کہو گل زار کا
(گل، عندلیب، بلبل، گل زار)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کب ستارہ کوئی چمکا سامنے خورشید کے
ہو نبی کیسے نیا مہرِ عجم ماہِ عرب
(ستارہ، چمک، خورشید، مہر، ماہ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میری آنکھوں، میرے سر پر، میرے دل پر، میرے جگر پر
پائے اقدس رکھ دو شاہا صلی اللہ علیک و سلم
(آنکھ، سر، دل، جگر، پا)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دور ساحل موج حائل پار بیڑا کیجیے
ناؤ ہے منجدھار میں اور ناخدا ملتا نہیں
(ساحل، موج، بیڑا، ناؤ، منجدھار، ناخدا)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نسیمِ فیض سے غنچے کھلانے آئے ہیں
کرم کی اپنی بہاریں دکھانے آئے ہیں
(نسیٖم، غنچہ، کھلانے، بہار )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بہارِ جاں فزا تم ہو نسیمِ داستاں تم ہو
بہارِ باغِ رضواں تم سے ہے زیبِ جناں تم ہو
(بہار، نسیٖم، باغ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کعبہ و اقصیٰ و عرش و خلد نوریؔ ہیں مگر
ہے نرالا سب عالم جلوہ گاہِ یار کا
(کعبہ، اقصیٰ، عرش، خلد )
کلامِ نوریؔ میں مراعاۃ النظیر کی بے پناہ مثالیں بکھری نظر آتی ہیں۔ لیکن مقالے کی ضخامت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے چند پر ہی اکتفا کیا جا رہا ہے۔
تعریف:جب شاعر کسی شعر یا کلام میں دو ایسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہوں تو اسے صنعتِ تضاد کہتے ہیں۔ اس صنعت کو تکافو، طباق اور مطابقت بھی کہتے ہیں۔ یہ صنعت بھی بہ کثرت استعما ل ہو ئی ہے، یہاں نوریؔ بریلوی کے کلام سے صرف چند مثالوں پر ہی اکتفا کیا جا رہا ہے ؎
ہے خشک و تر پہ قبضہ جس کا وہ شاہِ جہاں یہ ہے
یہی ہے بادشاہ بر کا یہی سلطاں سمندر کا
(خشک و تر۔ بر و سمندر)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آبلہ پا چل رہا ہے بے خودی میں سر کے بل
کام دیوانہ بھی کرتا ہے بڑے ہشیار کا
(دیوانہ و ہشیار)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گل ہو صحرا میں تو بلبل کے لیے صحرا چمن
گل نہ ہو گلشن میں تو گلشن ہے اک بَن خار کا
(صحرا و چمن۔ گل و خار)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صبحِ روشن کی سیہ بختی سے اب شام ہوئی
کب قمر نور دہ شامِ غریباں ہو گا
(صبح و شام)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ظلمتیں سب مٹ گئیں ناری سے نوری ہو گیا
جس کے دل میں بس گیا مہرِ عجم ماہِ عرب
(ناری و نوری)
تعریف : جب شاعر کسی شعر یا کلام میں کسی کا ذکر صفاتِ متواتر سے کرے تواسے صنعتِ تنسیق الصفات اور تواتر کہتے ہیں۔ اس سلسلے میں کلامِ نوریؔ سے مثالیں خاطر نشین ہوں ؎
ماہِ تاباں تو ہوا مہرِ عجم ماہِ عرب
ہیں ستارے انبیا مہرِ عجم ماہِ عرب
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو شمعِ رسالت ہے عالم ترا پروانہ
تو ماہِ نبوت ہے اے جلوۂ جانانہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم ہو شہ اورنگِ خلافت تم ہو والیِ ملکِ جلالت
تم ہو تاجِ رفعت والے تم پر لاکھوں سلام
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم ہو جوہرِ فردِ عزت تم ہو جسم و جانِ وجاہت
تم ہو تاجِ رفعت والے صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم ہو اول تم ہو آخر تم ہو باطن تم ہو ظاہر
حق نے بخشے ہیں یہ اسما صلی اللہ علیک و سلم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بہارِ جاں فزا تم ہو نسیمِ داستاں تم ہو
بہارِ باغِ رضواں تم سے ہے زیبِ جناں تم ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تعریف: وہ صنعت جس میں شاعر کسی شعر کے ایک مصرعے میں چند خیالات یا چیزوں کا ذکر کرتا ہے پھر دوسرے مصرعے میں چند اور خبریں بیان کرتا ہے جو پہلی چیزوں سے مشابہت رکھتی ہیں۔ مگر اس طرح کہ ہر ایک کی نسبت اپنے منسوب الیہ سے مل جائے تو اس صنعت کو لف و نشر کہا جاتا ہے۔ یہ صنعت بھی کثیر الاستعمال اور عامۃ الورود ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔
تعریف: اس میں دونوں مصرعوں میں خیالات و اشیا کے مناسبات ترتیب میں ہوتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثالیں ؎
کجا ہم خاک افتادہ کجا تم اے شہ والا
اگر مثلِ زمیں ہم ہیں تو مثلِ آسماں تم ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم ہیں جتنے خاطی مخطی آپ ہیں اس سے زائد معطی
عفو و صفح و عنایت والے صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
لف و نشر غیر مرتب
تعریف:لف و نشر غیر مرتب میں خیالات یا اشیاکسی ترتیب میں نہ ہوں یا معکوسی ترتیب میں ہوں۔ مثلاً ؎
نہار چہرۂ والا تو گیسو ہیں واللیل
بہم ہوئے ہیں یوں لیل و نہار آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سماوا ڈوبا ہوا اور ساوا خشک ہوا
خزاں کا دور گیا موسمِ بہار آیا
تعریف:مذہبی، تاریخی، سماجی، ثقافتی وغیرہ روایات و واقعات میں سے کسی ایک واقعہ یا قصہ کی طرف شعر میں اشارہ کرنا تلمیح ہے۔ مذہبی شاعری میں صنعتِ تلمیح کے بغیر شعر میں وقار اور علمیت برپا ہوہی نہیں سکتی اور نہ ہی شعری حُسن اور مضمون آفرینی کے جلوے بکھرسکتے ہیں۔
صنعتِ تلمیح کے استعمال کا تعلق شاعر کے علم و فضل سے بھی ہے۔ حضرت نوریؔ بریلوی تو مفتی اعظمِ ہند ہیں۔ فقہ، حدیث، تفسیر اور دیگر علومِ دینیہ کے کوہِ گراں ہیں۔ ظاہر ہے آپ کے کلام میں اس صنعت کا موزوں اور اعلا استعمال ناگزیر ہے۔ چناں چہ کلامِ نوریؔ سے اس صنعت کی چند مثالیں خاطر نشین ہوں ؎
جمالِ حق نما دیکھیں عیاں نورِ خدا پائیں
کلیم آئیں ہٹا دیکھیں ذرا پردہ ترے در کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شہرہ لبِ عیسیٰ کا جس بات میں ہے مولا
تم جانِ مسیحا ہو ٹھوکر سے ادا کرنا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اک اشارے سے قمر کے تم نے دو ٹکڑے کیے
مرحبا صد مرحبا مہرِ عجم ماہِ عرب
(معجزۂ شق القمر کا واقعہ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تمہارے فیض سے لاٹھی مثالِ شمع روشن ہو
جو تم لکڑی کو چاہو تیز تر تلوار ہو جائے
(عصائے صحابہ کا مثلِ شمع روشن ہونا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میدانِ جنگ میں لکڑی کا تلوار بن جانا)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تمہارے حکم کا باندھا ہوا سورج پھرے الٹا
جو تم چاہو کہ شب دن ہو ابھی سرکار ہو جائے
(اشارۂ مصطفوی سے ڈوبے ہوئے سورج کا دوبارہ طلوع ہو جانا)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بوجہلِ لعیں کلمہ پڑھتا دیکھا ہی نہیں اس نے شاہا
پردوں والی صورت والے تم پر لاکھوں سلام
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تیرے نقشِ قدم نے سرور پتھر موم بنائے یک سر
موم بنا دلِ سنگیں میرا صلی اﷲ علیک و سلم
(حضور صلی اللہ علیہ و سلم پتھر پر قدم رکھتے تو وہ موم کی طرح نرم ہو جاتا تھا)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کون گیا ہے عرشِ علا تک کس کی رسائی ذاتِ خدا تک
تم نے پایا رتبۂ اعلا صلی اﷲ علیک و سلم
اب کلامِ نوریؔ سے صنعتِ تلمیح کی چند ایسی مثالیں پیش ہیں جن کی تشریح و تصریح کے لیے مذہبی دیدہ وری کی ضرورت ہے ؎
پایا تم نے رتبۂ علیا قاب قوسین او ادنیٰ
حق سے ایسی قرابت والے صلی اللہ صلی اﷲ صلی اﷲ علیک و سلم
(معراج میں قرب کا واقعہ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آدم سے تا حضرتِ عیسیٰ سب کی خدمت میں ہو آیا
نفسی سب نے ہی فرمایا صلی اللہ علیک و سلم
(بروزِ محشر خلقِ خدا حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک سارے انبیا علیہم السلام کے پاس شفاعت کے لیے جائے گی مگر سب اذہبوا الیٰ غیری فرمائیں گے۔ آخر میں سب حضور نبیِ آخر الزماں صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور آپ فرمائیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انالہا انالہا)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ آئے جن کے آنے کی خبر تھی مدت سے
دعا خلیل کی عیسیٰ کی جو بشارت تھے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وقتِ ولادت تم نہیں بھولے وقتِ رحلت یاد ہی رکھے
اپنے بندے تم نے شاہا صلی اﷲ علیک و سلم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سماوا ڈوبا ہوا اور ساوا خشک ہوا
خزاں کا دور گیا موسمِ بہار آیا
(سرکارِ ابد قرار صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادتِ پاک پر ساوا دریا خشک ہو گیا تھا اور خشک سماوا جاری)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہزار سال کی روشن شدہ بجھی آتش
یہ کفر و شرک کی آتش بجھانے آئے ہیں
(سرکارِ ابد قرار صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادتِ پاک پر ہزار سال سے روشن آگ بجھ گئی )
تعریف:جب شاعر کسی واقعے کا وہ سبب بیان کرے جو اصلاً اس واقعے کا سبب نہ ہو تو اس کو صنعتِ حُسنِ تعلیل کہتے ہیں۔
شعرا و ادبا صنعتِ حُسنِ تعلیل کو شاعری کی جان مانتے ہیں۔ شاعر کی قوتِ متخیلہ اشیائے کائنات کی حقیقی علل سے ہٹ کر ان کے لیے نئی علتّیں تراشتی ہے جس سے کلام میں لطف و تاثیر اور کیف پیدا ہو جاتا ہے۔ کلامِ نوریؔ سے اس کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں ؎
سرو و سنبل اور سمن
شمشاد و صنوبر اور سوسن
نرگس نسریں سارا چمن
اس کی ثنا میں نغمہ زن
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تیرے باغِ حُسن کی رونق کا عالم کیا کہوں
آفتاب اک زرد پتہ ہے ترے گل زار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دھو دیں گنہ کے کالے دھبے ابرِ کرم کے برسیں جھالے
گیسووں والے رحمت والے تم پر لاکھوں سلام
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ آج کاہے کی شادی ہے عرش کیوں جھوما
لبِ زمیں نے لبِ آسماں کو کیوں چوما
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نظر کے ایسے قوی ہیں طیور آنکھوں میں
یہ آ رہا ہے دلِ ناصبور آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
غلافِ چشم کے اُٹھتے ہی آسمان گئے
نظر کے ایسے قوی ہیں طیور آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ سرِ طور سے گرتے ہیں شرارے نوریؔ
روئے پُر نور پہ یا وارے ہیں تارے گیسو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آبلوں کے سب کٹورے آہ خالی ہو گئے
منھ ابھی تر بھی نہ ہونے پایا تھا ہر خار کا
تعریف: جب شاعر کسی شعر یا کلام میں اپنے تخلص کو اس طرح استعما ل کرے کہ و ہ مضمون کا حصہ بن جائے تو اسے صنعت استشہاد کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے اس صنعت کی مثال نشانِ خاطر ہو ؎
کعبہ و اقصیٰ و عرش و خلد نوریؔ ہیں مگر
ہے نرالا سب سے عالم جلوہ گاہِ یار کا
کلامِ نوریؔ کی متذکرہ بالا مثالیں صنائعِ معنوی سے متعلق ہیں۔ ان مثالوں سے نوریؔ بریلوی کی فصاحت و بلاغت آشکار ہوتی ہے۔ ایک خالص مذہبی و دینی شاعر ہونے کے با وصف آپ کے یہاں شعری و فنّی محاسن کی جو جلوا گری ہے وہ آپ کے اہلِ زبان و بیان شاعر ہونے پر دال ہے۔ صنائعِ معنوی کے بعد نوریؔ بریلوی کے کلام سے صنائعِ لفظی کی مثالیں نشانِ خاطر ہوں۔
تعریف: وہ صنعتیں جن میں منفرد الفاظ کا ہنر مندی سے استعمال کیا جائے صنائعِ لفظی کہلاتی ہیں۔ تجانیس، ایک یا زائد لفظوں کا استعمال، سجع، تلمیع، اقتباس، ردالعجز، مسمط، تاریخ گوئی، نقطوں یا بغیر نقطوں کی صنعت اور معمّا وغیرہ معروف صنائعِ لفظی ہیں۔
تعریف:جب شاعر کسی شعر یا کلام میں ایسے دو لفظوں کا استعمال کر ے جو تلفظ میں یک ساں اور معنی کے اعتبار سے مختلف ہوں تو اسے صنعتِ تجنیس کہتے ہیں۔
صنائعِ لفظی میں صنعتِ تجنیس کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ صنعتِ تجنیس کی متعدد قسمیں ہیں لیکن ان میں ’’تجنیسِ تام‘‘سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
تعریف: جب شاعر کسی شعر میں دوایسے ا لفاظ استعمال کرتا ہے۔ جو لکھنے پڑھنے اور بولنے میں ایک جیسے ہوں لیکن ان کے معنی جدا جدا ہوں تو اسے صنعتِ تجنیسِ تام کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثالیں خاطر نشین ہوں ؎
نگاہِ مہر سے اپنی بنایا مہر ذرّوں کو
الٰہی نور دن دونا ہو مہر ذرّہ پرور کا
(ایک مہر کا معنی ہے مہربانی و عنایت اور دوسرے مہر کا معنی ہے سورج)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیا کرے سونے کا کُشتہ، کُشتہ تیرِ عشق کا
دید کا پیاسا کرے کیا شربتِ دینار کا
(ایک کُشتہ کا معنی ہے اکسیر یا پھونکی ہوئی دھات۔ دوسرے کا معنی قتل ہونا یا ذبح ہو جانا)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پاؤں کیا میں دل میں رکھ لوں پاؤں جو طیبہ کے خار
مجھ سے شوریدہ کو کیا کھٹکا ہو نوکِ خار کا
(پاؤں، پیر۔ پاؤں یعنی مِل جائے یا حاصل ہو جائے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دیس سے ان کے جو الفت ہے تو دل نے میرے
اس لیے دیس کا جنگلہ بھی تو گانے نہ دیا
(دیس، ملک۔ دیس، ایک قسم کا راگ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تمہارا فیض ہی ساری ہے ان ساری بہاروں میں
بہاروں میں نہاں تم ہو بہاروں سے عیاں تم ہو
(ساری، جاری، رواں۔ ساری، مکمل، پوری)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نظر عارف کو ہر عالم میں آیا آپ کا عالم
نہ ہوتے تم تو کیا ہوتا بہارِ جاں فزا تم ہو
(عالم، دنیا، جہاں۔ عالم، جلوہ، تجلّی )
تعریف: جب شاعر کسی شعر میں دوایسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ جو تلفظ میں یک ساں ہوں لیکن بعض حروف مختلف اور قریب المخرج ہوں تو اسے صنعتِ تجنیسِ مضارع کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے چند مثالیں ؎
کچھ ایسے نیک عمل بھی ہیں یا یونہی امل ہی ہے
دنیا کی بھی ہر شیَ کا تم لیتے ہو بیعانہ
(عمل اور اَمل کے پہلے حروف مختلف لیکن قریب المخرج ہیں )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
برے احوال ہیں اس روز اف اف
بہت اہوالِ بہ کا سامنا ہے
(احوال اور اہوال میں دوسرے حروف مختلف لیکن قریب المخرج ہیں )
تعریف: جب شاعر کسی شعر میں دو ایسے الفاظ کا ا ستعمال کرتا ہے جن میں ایک حرف کی کمی یا بیشی ہو تو اسے صنعتِ تجنیسِ زائد کہتے ہیں۔ ا سے تجنیس مطرّف اور ناقص بھی کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے چند مثالیں ؎
مظالم کر لیں جتنے ہوویں ظالم
نہ کر غم نوریؔ کہ اپنا بھی خدا ہے
(’’مظالم‘‘ اور’’ ظالم‘‘ میں تجنیس زائد ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بسا ہوا ہے کوئی گل عذار آنکھوں میں
کھلا ہے چار طرف لالہ زار آنکھوں میں
(’’عذار‘‘ اور’’ زار‘‘ میں تجنیس زائد ہے)
تعریف:جب شاعر کسی شعر میں دو ایسے الفاظ کا استعمال کرے۔ جن میں سے ایک میں دو حرف زائد ہوں تو اسے صنعتِ تجنیسِ مذیّل کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثال ؎
شب کو شبنم کی مانند رویا کیے
صورتِ گل وہ ہم کو ہنسا کر چلے
(’’شب‘‘ اور ’’شبنم‘‘ میں تجنیس مذیل ہے)
ہ:تجنیس خطّی:
تعریف: جب شاعر کسی شعر میں دو ایسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ جن میں نقطوں کی کمی بیشی یا ان کے مقام میں تبدیلی ہو تو اسے صنعتِ تجنیسِ خطّی کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثالیں ؎
سراپا کو ئی تو غرقِ عَرَق ہے
کسی کے منہ تک آ کر رہ گیا ہے
(’’غرق‘‘ اور ’’عرق‘‘ کی تحریر میں ایک نقطے کا فرق ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خدا ہے تو نہ خدا سے جدا ہے اے مولا
ترے ظہور سے رب کا ظہور آنکھوں میں
(’’خدا‘‘ اور ’’جدا‘‘ کی تحریر میں ایک نقطے کا فرق ہے)
تعریف:جب شاعر کسی شعر میں دو ایسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ جن میں حرکات (زبر، زیر یا پیش )کا اختلاف ہو تو اسے صنعتِ تجنیسِ محرّف کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثالیں ؎
خزاں کا دَور ہوا دُور وہ جہاں آئے
ہوئی ہے قدموں سے ان کے بہار آنکھوں میں
(’’دَور‘‘ اور ’’دُور‘‘ میں دال کی حرکت مختلف ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ماں باپ بھائی بہن فرزند و زن اک اک جدا
غم زَدا ہر ایک ہے اور غم زُدا ملتا نہیں
(’’غم زَدا‘‘ اور ’’غم زُدا‘‘میں زا کی حرکت مختلف ہے)
تعریف: جب شاعر کسی شعر میں ایسے الفاظ کا استعما ل کرتا ہے۔ جن میں ایک سے زائد حرف کی تکرا ر پائی جائے تو اسے صنعتِ تجنیسِ صوتی کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثال ؎
نظر نظیر نہ آیا نظر کو کوئی کہیں
جچے نہ غلماں نظر میں نہ حور آنکھوں میں
(یہاں ’’ن، ظ، ر‘‘ کی تکرار نمایاں ہے )
تعریف :جب شاعر کسی شعر کے کسی مصرعے یا ترکیب میں ایسے الفاظ کا استعما ل کرے جن میں کئی لفظ ایک حرف سے شروع ہوں تو اسے صنعتِ تجنیسِ سر حرفی کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثال ؎
مَے محبتِ محبوب سے یہ ہیں سر سبز
بھری ہوئی ہے شرابِ طہور آنکھوں میں
(اس شعر میں ’’مَے، محبت، محبوب‘‘ میں میم سے سر حرفی تجنیس پیدا ہو گئی ہے)
تعریف:جب شاعر کسی شعر میں دو ایسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ جو صوتی ترتیب اور معنوں میں جدا ہوں لیکن جن کی تقلیب سے ایک سے دوسرے کے معنی حاصل ہوں تو اسے صنعتِ تجنیسِ قلب کہتے ہیں۔ اس کی کئی قسمیں ہیں۔ کلامِ نوریؔ میں تجنیسِ قلبِ بعض کی مثال ملتی ہے۔
تجنیس قلبِ بعض کی تعریف: جب شاعر کسی شعر میں دو ایسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ جن میں الفاظ کے بعض اجزا کی تقلیب ہوتی ہے اور ایک سے دوسرے کے معنی حاصل ہوتے ہیں تو اسے صنعتِ تجنیسِ قلبِ بعض کہتے ہیں۔
کیوں مجھے خوف ہو محشر کا کہ ہاتھوں میں مرے
دامنِ حامیِ خود، ماحیِ عصیاں ہو گا
(’’حامی‘‘ اور ’’ماحی‘‘ میں تجنیس قلبِ بعض ہے)
تعریف: جب شاعر کسی شعر میں کسی دوسری زبان کے لفظ کا استعمال کرتا ہے تو اسے صنعتِ تلمیع کہتے ہیں۔ اس صنعت کے بر محل استعمال کے لیے تبحُرِ علمی کی ضرورت ہے۔ اردو زبان کا عام شاعر اس کو برت نہیں سکتا۔ حضرت نوریؔ بریلوی کی تبحرِ علمی اظہر من الشمس ہے۔ آپ کے یہاں اس صنعت کا بہ کثرت اور نہایت خوب صورتی سے استعمال ہوا ہے۔
حضرت نوریؔ بریلوی کی حمدیہ نظم بہ عنوان ’’اذکارِ توحید ذات، اسما و صفات و بعض عقائد‘‘ (مخمس میں ) ہر بند میں۔ ’’لا الہ الا اللہ اٰمنا برسول اللہ ‘‘مکرّر ہے۔ علاوہ اس کے کوئی بند عربی میں جیسے ؎
ربی حسبی جل اللہ
مافی قلبی غیر اللہ
حق حق حق اﷲ اﷲ
رب رب رب سبحان اﷲ
لا الہ الا اﷲ اٰمنا برسول اللہ
ایک سلام کا یہ شعر دیکھیے مصرع اُولیٰ عربی میں ہے اس کے علاوہ ہر مصرع ثانی میں ’’صلی اللہ علیک و سلم ‘‘ آیا ہے جو عربی میں ہے ؎
بارکَ شرَّف مجَّد کرَّم نوِّر قلبک اسریٰ علَّم
رب نے تم کو کیا کیا بخشا صلی اللہ علیک و سلم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
از سرِ بالینِ من بر خیز اے ناداں طبیب
ہو چکا تجھ سے مداوا عشق کے بیمار کا
(مصرع اولیٰ فارسی میں ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چہ نسبت خاک را باعالمِ پاکت کہ اے مولا
گدائے بے نوا ہم ہیں شہ عرش آستاں تم ہو
(مصرع اولیٰ فارسی میں ہے)
حضرت صابر پیا کلیر علیہ الرحمۃ کی منقبت حضرت نوریؔ بریلوی نے پوربی زبان میں لکھی ہے جس میں ہندی الفاظ مثلاً۔ ۔ ۔ ۔ درشن، چرن، سپنا وغیرہ بھی آئے ہیں۔ دو شعر دیکھیے ؎
چیری کو اپنے چرنوں لگا لے
میں پروں تورے پیّاں صابر
سپنے ہی میں درشن دکھلا دو
مو کو مورے گسیّاں صابر
(خط کشیدہ الفاظ ہندی زبان کے ہیں )
تعریف : جب شاعر کسی شعر میں کوئی آیت یا حدیث اس طرح استعمال کرے کہ اس کے اصل الفاظ اپنے سیاق میں نہ رہیں تو اسے صنعتِ اقتباس یا عُقد کہتے ہیں۔
اس صنعت کو شعر میں کماحقہٗ استعمال کے لیے بہت زیادہ علمیت کی ضرورت ہے۔ نوریؔ بریلوی کی عالمانہ حیثیت واضح ہے، چناں چہ ان کے ہاں اس کی مثالیں بہت ملتی ہیں۔ چند مثالیں نشانِ خاطر فرمائیں ؎
آپ کا ید یدِ ربِّ واحد فوق ایدہم ہے شاہد
اے ربانی بیعت والے تم پر لاکھوں سلام
(قرآنی آیت کا جزو)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
قولِ حق ہے قول تمہارا ان ہو الا وحیُّ یو حیٰ
صدق و حق و امانت والے تم پر لاکھوں سلام
(قرآنی آیت کا جزو)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ربِّ سلِّم کی دعا سے پار بیڑا کیجیے
راہ ہے تلوار پر نیچے ہے دریا نار کا
(حدیث پاک)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زبانِ انبیا پر آج نفسی نفسی ہے
مگر حضور شفاعت کی ٹھانے آئے ہیں
(حدیث پاک)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سبھی رسل نے کہا اذہبوا الیٰ غیری
انا لہا کا یہ مژدہ سنانے آئے ہیں
(حدیث پا ک)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیا کہوں کیسے ہیں پیارے ترے پیارے گیسو
دونوں عارض ہیں ضحی لیل کے پارے گیسو
(قرآن پاک)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تاج رکھا ترے سر رفعنا کا
کس قدر تیری عزت بڑھائی ہے
(قرآن پاک)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
انا قاسمُُ سے ہے روشن جہاں میں
جسے جو ملا وہ تمہارا دیا ہے
(حدیث پاک)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مصطفیٰ ماجآ الا رحمۃ للعٰلمین
چارہ سازِ دوسرا تیرے سوا ملتا نہیں
(قرآن پاک)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
من رأنی راء الحق سنا کر چلے
میرا جلوہ ہے حق کا جتا کر چلے
جز بشر اور کیا دیکھیں خیرہ نظر
ایُّکم مثلی کو وہ سنا کر چلے
(قطعہ بند۔ حدیث پاک)
تعریف : شعر جس کے دو مصرعے دو مختلف زبانوں میں ہوں تو اسے صنعتِ ذو لسانین کہتے ہیں۔
کلامِ نوریؔ میں اس کی بہ کثرت مثالیں ملتی ہیں چند ملاحظہ ہوں ؎
بارکَ شرَّف مجَّد کرَّم نوِّر قلبک اسریٰ علَّم
رب نے تم کو کیا کیا بخشا صلی اللہ علیک و سلم
(مصرعِ اولیٰ عربی میں ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
از سرِ بالینِ من بر خیز اے ناداں طبیب
ہو چکا تجھ سے مداوا عشق کے بیمار کا
(مصرع اولیٰ فارسی میں ہے)
تعریف : جب شاعر کسی شعر میں اصل قافیے کے علاوہ تین مسجع یا ہم وزن فقرے یا قافیے مزید نظم کرے تو اسے صنعتِ مُسمّط کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثالیں خاطر نشین ہوں ؎
ہر شَے میں ہے تیرا جلوا، تجھ سے روشن دین و دنیا
بانٹا تو نے نور کا باڑا صلی اللہ علیک و سلم
منہ تک میرے پسینہ پہونچا، ڈوبا ڈوبا ڈوبا ڈوبا
دامن میں لے لیجے آقا صلی اللہ علیک و سلم
آدم سے تا حضرت عیسا، سب کی خدمت میں ہو آیا
نفسی سب نے ہی فرمایا صلی اللہ علیک و سلم
میرے آقا میرے مولا، آپ سے سن کر انی لہا
دم میں ہے دم میرے آیا صلی اللہ علیک و سلم
تعریف: جب شاعر کسی شعر یا کلام میں ضرب المثل کا استعما ل کرے تو اسے صنعتِ ارسال المثل کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے اس صنعت کی مثال نشانِ خاطر ہو ؎
یہ ایسا اس کا حکمِ شرک و بدعت
اسے ’’ساون کے اندھے کا ہرا‘‘ ہے
تعریف: جب شاعر کسی شعر یا کلام میں ایک اصل کے ہم معنی الفاظ یا معنوی ہم آہنگی رکھنے والے ایک ہی مشتق کے مختلف الفاظ استعما ل کرے تو اسے صنعتِ اشتقاق کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے اس صنعت کی مثالیں نشانِ خاطر ہوں ؎
گل ہو صحرا میں تو بلبل کے لیے صحرا چمن
گل نہ ہو گلشن میں تو گلشن ہے اک بَن خار کا
گل سے مطلب ہو جہاں ہو عندلیبِ زار کو
گل نہ ہو تو کیا کرے بلبل کہو گل زار کا
تعریف: جب شاعر کسی شعر یا کلام میں ہم وزن اور مقفا لفظ کسی بھی مقام پر نظم کرے تو اسے صنعتِ تضمین مزدوج کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے اس صنعت کی مثال نشانِ خاطر ہو ؎
تم ہو ماہِ لاہوتِ خلوت
تم ہو شاہِ ناسوتِ جلوت
تم ہو آبِ عینِ رحمت
تم ہو تابِ ماہِ ندرت
تم ہو سایۂ ربِّ عزت
تم ہو مایۂ خلق و خلقت
۔۔۔۔۔
چمک سے اپنی جہاں جگمگانے آئے ہیں
مہک سے اپنی یہ کوچے بسانے آئے ہیں
بہ طورِ مثال پیش کیے گئے جملہ اشعار کے خط کشیدہ الفاظ تضمین مزدوج کے بہترین عکاس ہیں۔
تعریف: جب شاعر کسی شعر یا کلام میں دو قافیے نظم کرے تو اسے صنعتِ ذو قافیتین کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے اس صنعت کا شہ پارہ ملاحظہ ہو ؎
پیام لے کے جو آئی صبا مدینے سے
مریضِ عشق کی لائی دوا مدینے سے
آئی۔ صبا/لائی۔ دوا۔۔دوہرے قوافی ہیں۔ اس صنعت کو ’’تشریع ‘‘بھی کہتے ہیں۔
تعریف: جب شاعر کسی شعر کے پہلے مصرعے میں کوئی ایسا مخصوص لفظ استعمال کرے جو شعر کے لیے متوقع قافیہ ذہن میں لائے۔ ’’بولتے ہوئے قافیے‘‘ اسی صنعت سے ذہن میں آتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے اس صنعت کی مثالیں خاطر نشین ہوں ؎
ہزار سال کی روشن شدہ بجھی آتش
یہ کفر و شرک کی آتش بجھانے آئے
حضور بہرِ خدا داستانِ غم سن لیں
غمِ فراق کا قصہ سنانے آئے ہیں
کھلے گی میرے بھی دل کی کلی کہ جانِ جناں
چمن میں پھول کرم کے کھلانے آئے ہیں
۔۔۔۔۔
گل سے مطلب ہو جہاں ہو عندلیبِ زار کو
گل نہ ہو تو کیا کرے بلبل کہو گل زار کا
ان اشعار کے پہلے مصرعے میں ’’بجھی‘‘۔۔’’ سُن‘‘۔۔ ’’کھِلے‘‘۔۔ اور ’’گل‘‘ بہ طور ارصاد ہیں جن سے دوسرے مصرعوں کے قافیے ’’بجھانے‘‘۔۔ ’’سنانے‘‘۔۔ ’’کھلانے‘‘ ۔۔اور ’’ گل زار‘‘ متلازم ہیں۔ اس صنعت کو ’’تسہیم ‘‘ بھی کہتے ہیں۔
تعریف: جب شاعر کسی شعر یا قطعہ میں کسی واقعے کی عیسوی یا ہجری سال کی تاریخ نظم کرتا ہے تو اسے تاریخ گوئی کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثالیں پیش ہیں ؎
مر گیا فیضان جس کی موت سے
ہائے وہ ’’فیض انتما‘‘ جاتا رہا
’’یا مجیب اغفر لہ ‘‘ تاریخ ہے
کس برس وہ رہنما جاتا رہا
دیو کا سر کاٹ کر نوریؔ کہو
’’چاند روشن علم کا جاتا رہا‘‘
(واوین کے الفاظ سے 1382ھ مستخرج ہوتا ہے جو سنہ وصال ہے)
صنائعِ لفظی و معنوی کی مذکورہ مثالیں نوریؔ بریلوی کے کلام سے ماخوذ ہیں۔ آپ نے ان صنعتوں کو ادیبانہ مہارت سے اپنے اشعار میں پیش کیا ہے۔ کہا جا تا ہے کہ صنائع کے استعمال سے معنی آفرینی اور خیال آفرینی مفقود ہو جا تی ہے۔ لیکن کلامِ نوریؔ کے مطالعہ کی روشنی میں یہ خیال تقویت پاتا ہے کہ صنعتوں کے استعمال کی گہما گہمی کے باوجود کہیں بھی کسی لفظی جھول کا احساس نہیں ہوتا اور نہ ہی معنی آفرینی کا عمل متاثر ہوا ہے۔ کلام میں آورد نہیں بل کہ آمد آمد کا جلوہ نظر آتا ہے جو آپ کی مشّاقی اور اہلِ زبان و بیان شاعر ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
٭٭٭
شاعری ایک ایساملکہ ہے جس کا تعلق علم و فضل سے ذرا دور کا ہے۔ یہ ملکہ کسبی نہیں کہ جو چاہے ریاض کر کے سیکھ لے اور شاعر بن جائے۔ بل کہ یہ سراسر وہبی اور فطری ہے۔ کہا یوں گیا ہے کہ شاعر پیدا ہوتا ہے اور عالم بنتا ہے۔ شاعری میں جہاں تک موزونیِ طبع اور فکر کی رسائی کا سوال ہے یہ قول بالکل درست ہے۔ مگر فن پر نکھار علم ہی سے آتا ہے۔ کم علم شعرا کے یہاں جذبے کا التہاب، فکر کی بلندی اور نازک خیالی کے ساتھ ساتھ فن کی غلطیاں بھی نظر آ جاتی ہیں جو اہلِ علم کو انگشت نمائی پر مجبور کرتی ہیں۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی علم و فضل میں یگانۂ روزگار تھے۔ آپ کے لیے نہ شاعری ذریعۂ عزت تھی اور نہ ذریعۂ شہرت۔۔ ان کے دل میں حضور ختمیِ مرتبت صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت اور عظمت کا جو جذبہ موج زن تھا وہ اظہار بھی چاہتا تھا۔ اور اس اظہار کا سب سے بہتر طریقہ شاعری تھا۔ نعت گوئی کو انہوں نے ذریعۂ عزت یا ذریعۂ شہرت کے بجائے ذریعۂ نجات تصور کیا اور زندگی بھر اپنے خامۂ گل رنگ سے جذباتِ محبت و عظمت کو الفاظ کی صورت میں قرطاسِ عقیدت پرسجاتے رہے۔
سامانِ بخشش کے فکر و فن کا جائزہ لیتے ہوئے یہاں عروضی تجزیہ بھی کر لینا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ حضرت نوریؔ بریلوی جس طرح دیگر علومِ عقلیہ و نقلیہ میں دسترسِ تامّہ رکھتے تھے۔ اسی طرح آپ کو علمِ عروض پر بھی دست گاہ حاصل تھی۔
علمِ عَروض بلاغت کی ایک شاخ ہے جس میں بعض مقررہ طویل و مختصر اصوات کے مجموعے سے کلام میں نظم کیے گئے الفاظ کی اصوات کو مماثل یا دونوں کو ہم وزن کیا جاتا ہے اس طرح کلام کی موزونیت، شعری آہنگ یا موسیقی معلوم ہوتی ہے۔ مقررہ لسانی اصوات کے یہ مجموعے ارکانِ افاعیل یا تفاعیل یا موازین کہلاتے ہیں۔
علمِ عروض کا موجد خلیل بن احمد بصری کوتسلیم کیا جاتا ہے۔ جنہوں نے شاعری اور موسیقی کے زیر وبم میں آہنگ کے مشترک رشتہ کو سمجھا اور اس کی بنیاد پر افاعیل تفاعیل اور ان کے مزاحف وضع کیے۔
خلیل بن احمد کے پندرہ بحور ایجاد کرنے کی روایت عہدِ قدیم سے چلی آ رہی ہے۔ عربی، فارسی اور اردو میں صرف 19 ؍ بحریں مروج ہیں۔ تقریباً اتنی ہی تعداد میں اور بحریں وجود میں آئیں مگر مروج نہ ہوسکیں۔ ان 19؍ مروجہ بحروں میں سے کچھ اردو کے مزاج سے میل نہیں کھاتیں تو کچھ فارسی کے مزاج کے خلاف ہیں کچھ نہایت مترنم ہیں تو کچھ فارسی کے لیے ثقیل ہیں۔
حضرت نوریؔ بریلوی نے مروجہ بحروں میں سے مشہور بحروں میں طبع آزمائی کی ہے۔ آپ کے کلام میں استعمال شدہ کچھ بحریں انتہائی مترنم ہیں۔ ’’سامانِ بخشش‘‘ کے مکمل کلام کا عروضی جائزہ اگر لیا جائے تو اس کے لیے طویل مقالہ درکار ہے۔ یہاں صرف چند نعتوں کا عروضی جائزہ پیش کرنا مقصود ہے۔
(1) بحرِ متدارک مثمن سالم (فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن )
قلب کو اس کی رویت کی ہے جستجو
جس کا جلوہ ہے عالم میں ہر چار سو
(20؍ بند)
(2) بحرِ ہزج مثمن سالم(مفاعی لن مفاعی لن مفاعی لن مفاعی لن)
بہارِ جاں فزا تم ہو نسیمِ داستاں تم ہو
بہارِ باغِ رضواں تم سے ہے زیبِ جناں تم ہو
(27؍ اشعار)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کوئی کیا جانے جو تم ہو خدا ہی جانے کیا تم ہو
خدا تو کہہ نہیں سکتے مگر شانِ خدا تم ہو
(26؍ اشعار)
(3)بحرِ ہزج مثمن اخرب (مفعول مفاعی لن مفعول مفاعی لن)
تو شمعِ رسالت ہے عالم ترا پروانہ
تو ماہِ نبوت ہے اے جلوۂ جانانہ
(23؍اشعار)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مقبول دعا کرنا منظور ثنا کرنا
مدحت کا صلہ دینا مقبول ثنا کرنا
(46؍اشعار)
(4) بحرِ ہزج مثمن سالم مسبغ الآخر(مفاعی لن مفاعی لن مفاعی لن مفاعی لن)
پڑھوں وہ مطلعِ نوری ثنائے مہر انور کا
ہو جس سے قلب روشن جیسے مطلع مہرِ محشر کا
(21؍ اشعار)
(5)بحرِ رمل مثمن مخبون مقطوع (فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن)
کیا کہوں کیسے ہیں پیارے ترے پیارے گیسو
دونوں عارض ہیں ضحی لیل کے پارے گیسو
(20؍اشعار)
(6) بحرِ رمل مثمن مقصور (فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلات)
وصف کیا لکھے کوئی اس مہبطِ انوار کا
مہر و مہ میں جلوہ ہے جس چاند سے رُخسار کا
(13؍ اشعار)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چارہ گر ہے دل تو گھایل عشق کی تلوار کا
کیا کروں میں لے کے پھاہا مرہمِ زنگار کا
(37؍ اشعار)
(7) بحرِ رمل مربع سالم
سب سے اعلا عزت والے
غلبہ و قہر و طاقت والے
حرمت والے کرامت والے
تم پر لاکھوں سلام
تم پر لاکھوں سلام
(40؍ بند)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اعلا سے اعلا رفعت والے بالا سے بالا عظمت والے
سب سے برتر عزت والے صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
صلی اللہ صلی اللہ
(39؍بند)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
(8) بحرِ رمل مثمن مخبون (فعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلاتن)
مرضِ عشق کا بیمار بھی کیا ہوتا ہے
جتنی کرتا ہے دوا درد سوا ہوتا ہے
(32؍ اشعار)
(9)بحرِ متقارب مثمن سالم (فعولن فعولن فعولن فعولن)
حبیبِ خدا کا نظارا کروں میں
دل و جان ان پر نثارا کروں میں
(19؍اشعار)
(10)بحرِ متدارک مثمن سالم (فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)
وہ حسیں کیا جو فتنے اُٹھا کر چلے
ہاں ! حسیں تم ہو فتنے مٹا کر چلے
(34؍اشعار)
(11)بحرِ مجتث مثمن مخبون مقصور (مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فعلان/فَعِلاتن)
کچھ ایسا کر دے مرے کردگار آنکھوں میں
کہ جلوہ گر رہے رُخ کی بہار آنکھوں میں
(40؍اشعار)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جو خواب میں کبھی آئیں حضور آنکھوں میں
سرور دل میں ہو پیدا تو نور آنکھوں میں
(16؍ اشعار)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
رُسل انھیں کا تو مژدہ سنانے آئے ہیں
انھیں کے آنے کی خوشیاں منانے آئے ہیں
(20؍اشعار)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم اپنی حسرتِ دل کو مٹانے آئے ہیں
ہم اپنی دل کی لگی کو بجھانے آئے ہیں
(24؍اشعار)
٭٭٭
کم سے کم لفظوں میں مفہوم کی ادائیگی نیز اشعار میں بلاغت کاحُسن پیدا کرنے کے لیے تراکیب بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ عربی، فارسی اور اردو شاعری میں ترکیب سازی کا رجحان ابتدا سے لے کر اب تک برابر چلا آ رہا ہے۔ شعرا ان تراکیب کے ذریعہ دو چیزوں یا دو خیالوں کے درمیان رشتہ قائم کرتے ہیں، اور جہاں کہیں اس میں مماثلت کا پہلو ہوتا ہے۔ وہاں مرکب لفظ ایک نیا استعارہ بن کر اُبھرتا ہے۔ شاعری میں محبوب یا ممدوح کے اوصاف کے اظہار میں تراکیب اہم ترین کردار ادا کرتی ہیں۔ تلمیحی تراکیب اشعار میں ایک تمکنت اور وقار کا درجہ رکھتی ہیں۔
غزلیہ و بہاریہ شاعری کی طرح نعتیہ شاعری میں بھی تراکیب کی بڑی اہمیت ہے۔ بل کہ اگر یہ کہا جائے تو غیر مناسب نہ ہو گا کہ اس صنف میں ترکیب سازی دیگر اصناف کی بہ نسبت زیادہ ہی اہمیت کی حامل ہے۔ تراکیب مشکل اور پیچیدہ مفہوم کے اظہار میں بہت معاونت کرتی ہیں۔ فنِ نعت گوئی میں شعرا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصافِ بلیغ کے اظہار میں ان سے بڑا کام لیتے ہیں۔ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردو نعتیہ شاعری میں امیرؔ مینائی نے ترکیب سازی کے خوب صورت اور نادر نمونے پیش کیے ہیں۔ پرو فیسر ریاض مجید نے حضرت امیرؔ کی ان ترکیبوں۔ ’’گہرِمحیطِ عطائے رب، قمرِ سخائے رب، شجرِ ریاضِ رضائے رب، ثمرِ نہالِ ولائے رب، گل بانگِ نشونمائے رب، داخلِ بزمِ ہوٗ، نسیمِ گلِ کن فکاں، شمیمِ روضۂ جاوداں، ہمائے فقرِ پیغمبراں، مسافرِ رہِ لامکاں، ختمِ صنعِ الٰہ، شاہِ نجمِ سپاہ، نو بہارِ ریاضِ دیں، ثمرِ شجرِ یقیں ‘‘ وغیرہ کو سراہتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ :
’’مذکورہ بالا تراکیب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی صفات میں ہیں۔ امیرؔ مینائی نے تراکیب میں صفاتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا اتنا بلیغ اظہار کیا ہے کہ خود ان میں چھوٹی چھوٹی نعتوں کا رنگ جھلکتا ہے ‘‘ (1)
بلا شبہہ ! حضرت امیرؔ مینائی کی متذکرہ ترکیبیں نہایت ہی خوب صورت اور تازہ کاری کا اَعلا نمونہ ہیں۔ علاوہ ازیں مشہور نعت گو حضرت محسنؔ کاکوروی کے یہاں بھی تراکیب کے نادر اورحسین نمونے ملتے ہیں ؎
گلِ خوش رنگ رسولِ مدنی العربی
زیبِ دامانِ ابد طرّۂ دستارِ ازل
مرجعِ روحِ امیں زبدۂ عرشِ بریں
حامیِ دینِ متیں ناسخِ ادیان و ملل
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پیدا ہوئے حضرتِ پیمبر
صبحِ قدرت کے سعدِ اکبر
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خورشیدِ سپہرِ دین محمد
نورِ عین الیقین محمد
پہلا اور دوسرا شعر صرف ترکیب ہی سے مکمل ہو گیا ہے۔ حضور جانِ نور صلی اللہ علیہ و سلم کو ’’صبحِ قدرت کے سعدِ اکبر، خورشیدِ سپہرِ دیں، نورِ عین الیقین، گلِ خوش رنگ، زیبِ دامانِ ابد، طرّۂ دستارِ ازل، مرجعِ روحِ امیں، زبدۂ عرشِ بریں، حامیِ دینِ متیں، ناسخِ ادیان و ملل‘‘ وغیرہ کہنے میں کافی حد تک خوب صورتی و نادر کاری ہے۔
نوریؔ بریلوی کے والدِ ماجد امام احمد رضا بریلوی، امیرؔ و محسن کاکورویؔ کے معاصر میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے نعتیہ کلام میں جہاں تمامی ادبی و فنی خوبیاں موجود ہیں وہیں ترکیب سازی کے بہترین نمونے ملتے ہیں۔ 171 ؍ اشعار پر مشتمل امام احمد رضا کا مشہورِ زمانہ قصیدۂ سلامیہ ’’مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ میں تراکیب کے بہت خوب صورت نمونے ملتے ہیں۔ اور کچھ ترکیبیں ایسی ہیں جو بالکل اچھوتی ہیں اس سلام کے قریب قریب ہر شعر میں استعارہ موجود ہے۔ مثلاً مطلع ہی دیکھیے ؎
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
’’جانِ رحمت‘‘ کس قدر خوب صورت استعارہ ہے اور یہ ترکیب کتنی پیاری اور بلاغت کے کیسے حسین و جمیل جلوے بکھیرتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ و سلم ) رحمۃ للعالمین ہیں اور رضاؔ بریلوی نے اس لیے انھیں جانِ رحمت کہا ہے۔ ممکن ہے رضاؔ سے قبل بھی کسی نعت گو نے یہ ترکیب پیش کی ہو لیکن یہاں مطلع ہی میں مصرعِ اولیٰ میں اس ترکیب سے ابتدا کا انداز وہ بھی سلام میں کس قدر دل کشی کا حامل ہے کہ بس سبحان اللہ! کہہ دینا ہی اس کی بہترین تعریف ہے۔ جو بات جانِ رحمت کہنے میں ہے وہ رُوحِ رحمت یا کسی اور لفظ سے رحمت کو جوڑنے میں پیدا نہیں ہو سکتی۔ مکمل سلام میں حضرت رضاؔ نے حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصاف و خصائل، اختیارات و تصرفات اور استغاثہ وغیرہ کو مدِّ نظر رکھ کر نہایت حسین و جمیل ترکیبیں وضع کی ہیں۔ مثال کے طور پر چند تراکیب پیش ہیں :’’ نورِ عینِ لطافت، اصلِ ہر بود و بہبودِ تخمِ وجود، قاسمِ کنزِ نعمت، حرزِ ہر رفتہ طاقت، مغزِ زارِ حکم، یکّہ تازِ فضیلت، مصدرِ مظہریت، ظلۂ قصرِ رحمت، سبزۂ نہرِ رحمت، ساقِ اصلِ کرم، شاخِ نخلِ کرم وغیرہ‘‘
نوریؔ بریلوی۔۔ امیرؔ مینائی، محسنؔ کاکوروی اور رضاؔ بریلوی کے مابعد کے نعت گو شاعر ہیں ، اور اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر اُن کے یہاں نعت گوئی کا اسلوب اور طرز اُن نعت گو شعرائے کرام سے منفرد اور جداگانہ ہے۔ آ پ کی نعتیہ شاعری ان شعرا کی روایت کی علم بردار سہی مگر انفرادیت کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ آئیے حضرت نوریؔ بریلوی کلام میں تراکیب سازی کی نادر کاری کا نظارہ کرتے ہیں۔ حضرت نوریؔ بریلوی کے مجموعۂ کلام ’’سامانِ بخشش ‘‘ کا آغاز دو طویل حمدیہ نظموں ’’ ضربِ ہو ‘‘ مشتمل بر ۲۰ ؍ بند اور’’ اذکارِ توحید ذات، اسما و صفات وغیرہ ‘‘ مشتمل بر ۹۹ ؍ بند میں اللہ جل شانہٗ کی وحدانیت کی تعریف اور عقیدۂ توحید کے اظہار کے لیے آپ نے انتہائی حسین و جمیل تراکیب و ضع کی ہیں جس سے بلاغت کا حُسن دوبالا نظر آتا ہے۔ اشعار یا بند کو مثال کے طور پر پیش کرنے کے بجائے صرف تراکیب کو ذیل میں درج کرنے کی جسارت کی جا رہی ہے۔ ملاحظہ ہوں :’’نغمہ سنجانِ گلشن، طائرانِ جناں، بلبلِ خوش نوا طوطیِ خوش گلو، زمزمہ خواں، قمریِ خوش لقا، فاختہ خوش ادا، شاہدانِ چمن بستہ صف رو برو، لسانِ مقال، قعرِ غفلت، رختِ اعمال وغیرہ‘‘۔۔۔بعداس کے اذکارِ توحید کے عنوان سے جو طویل حمدیہ نظم ہے اس کی تراکیب ملاحظہ ہوں :
وہ ہے محیطِ انس و جاں
وہ ہے محیطِ جسم و جاں
وہ ہے محیطِ کل از ماں
وہ ہے محیطِ کون و مکاں
مذکورہ بند میں عقیدۂ توحید کا ذکر کرتے ہوئے خدائے واحد کی قدرتِ کا ملہ کو محیطِ کل از ماں، محیطِ انس وجاں، محیطِ کون و مکاں اور محیطِ جسم و جاں کہہ کر ترکیب سازی کی عمدہ مثال پیش کی ہے۔
علاوہ ازیں ’’حُسنِ بُتِ طنّاز، افغانِ بلبل، نغماتِ قلقل، مرا ء تِ لحاظِ ذات، بہ فضلِ عمیم، بحرِ کرم، مظہرِ اول، حبیبِ اجمل، نبیِ افضل، مُرسلِ اکمل، روحِ روانِ خلدِ بریں، نخلِ جہاں کے اصلِ متیں، نائبِ حضرت حقِ متیں، شاہنشاہِ چرخ و زمیں، والیِ تختِ عرشِ بریں، راحتِ جان و قلبِ حزیں، موجِ بحرِ قِدم، موجِ آخر بحرِ کرم، لوحِ جبینِ سیدنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ وغیرہ ترکیبیں مذکورہ نظم میں جلوہ گر ہیں جو زبان و بیان پر نوریؔ بریلوی کی عالمانہ مشاقی کا با وقاراظہاریہ ہیں۔
مذکورہ بالا تراکیب میں مراء تِ لحاظِ ذات تک کی ترکیبیں ذاتِ الوہیت کے ذکر سے مملو ہیں اور بہ فضلِ عمیم کے بعد سے لوحِ جبینِ سیدنا تک حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصاف کو بیان کیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بحرِ کرم روحِ روانِ خلدِ بریں وغیرہ کہنے میں حیرت و ندرت بھی ہے اور نہایت حسین و دل کش تراکیب سازی بھی ۔۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی نے اپنے والدِ ماجد کی طرح بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں جو سلام پیش کیا ہے وہ 40؍ بندوں پر صنفِ مستزاد میں ہے۔ اس میں بھی آپ نے حضور جانِ نور صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصاف و خصائص کا بیان کرتے ہوئے وہ حسین و جمیل ترکیبیں وضع کی ہیں کہ بار بار سبحان اﷲ ! کہنے کو جی چاہتا ہے۔ جس کا مطلع یوں ہے ؎
سب سے اعلا عزت والے، غلبہ و قہر و طاقت والے
حرمت والے کرامت والے، تم پر لاکھوں سلام
تم پر لاکھوں سلام
مذکورہ نعت کی چند ترکیبیں ملاحظہ کیجیے : ’’ظاہر باہر سیادت والے، غالب قاہر ریاست والے، نورِ علم وحکمت والے، نافذ جاری حکومت والے، شہ اورنگِ خلافت، والیِ ملکِ جلالت، ناسخِ ادیان، ظلِ رحمت طلعت والے، فرش کی نزہت، عرش کی زینت، نورِ چشمِ خُلّت، سرورِ قلبِ صفوت، وجد کی فرحت، شاہدِ حق، شاہدِ اُمت، سُنتِ ربِّ عزت، زیب و زینِ جنت، امن و امانِ امت وغیرہ۔ ‘‘
ان تراکیب سے اوصافِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا بلیغ اظہار ہوتا ہے حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کو والیِ ملکِ جلالت، شہ اورنگِ خلافت، نورِ چشمِ خُلّت اور سرورِ قلبِ صفوت کہنے میں تازہ کاری و نادر کاری اور حُسن و جمال موج زن ہے۔
سلام کے بعد ہی ایک طویل نعت 39؍ بندوں پر مشتمل صنفِ مستزاد میں ہے جس کا مطلع یوں ہے ؎
اعلا سے اعلا رفعت والے بالا سے بالا عظمت والے
سب سے برتر عزت والے صلی اﷲ صلی اﷲ صلی اﷲ علیک و سلم
مذکورہ نعت کے تقریباً ہر بند میں ایک خوب صورت استعارہ موجود ہے۔ اور تراکیب کے بہت ہی حسیٖن و خوب صورت اور نادر نمونے ملتے ہیں اور بعض ترکیبیں نہایت اچھوتی ہیں۔ حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصاف و خصائص کے اظہار کے لیے ترکیب سازی کا اس قدر حسین طرزِاداسے استعمال کیا گیا ہے کہ بلاغت و فصاحت کے جلووں سے روح سرشار ہونے لگتی ہے اور حضرت نوریؔ بریلوی کی قادر الکلامی کا بیّن ثبوت ملتا ہے۔ ذیل میں پیش ہے مذکورہ نعت سے ترکیبوں کی مثالیں :’’زائد حرمت والے، برتر قدرت والے، ماہِ لاہوتِ خلوت، شاہِ ناسوتِ جلوت، جوہرِ فردِ عزت، جسم و جانِ وجاہت، آبِ عینِ رحمت، تابِ ماہِ ندرت، نہرِ بحرِ وحدت، منبعِ کثرت، سایۂ ربِّ عزت، مایۂ خلق و خلقت، صاحبِ عز و کرامت، لعلِ نگینِ کرامت، مطلعِ نورِ الٰہی، مخزنِ رازِ خدائی، سرمایۂ راحت، شمعِ علم وحکمت، ضوئے نورِ ہدایت، باغِ بہار و رحمت، غنچۂ رازِ وحدت، موجِ اول بحرِ رحمت، جوشِ آخر بحرِ را فت، وجہِ بعثِ خلقت، سِرِّ غیب و شہادت، فتحِ بابِ نبوّت، ختمِ دورِ رسالت، نافعِ علّت، دافعِ کربت، کہفِ روزِ مصیبت وغیرہ‘‘۔
یہ ترکیبیں خصائص و اوصافِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا بلیغ اشاریہ ہیں جن سے قاری و سامع کیف آگیں لذتوں سے سرشار ہونے لگتا ہے۔ آقا و مولا صلی اللہ علیہ و سلم کی جامعیت کو ماہِ لاہوتِ خلوت، شاہِ ناسوتِ جلوت، آپ کی رنگت کو آبِ عینِ رحمت، تابِ ماہِ وحدت، آپ کی ذاتِ اقدس کو سایۂ ربِّ عزت، مایۂ خلق و خلقت، صاحبِ عز و کرامت، لعلِ نگینِ کرامت، چہرۂ انور کو مطلعِ نورِ الٰہی، سینۂ مبارک کو مخزنِ رازِ خدائی، آپ کی خوشبوؤں کو باغِ بہار و رحمت، جود وسخا کو موجِ اول بحرِ رحمت، موجِ آخر بحرِ رافت، آپ کی ختمِ نبوت و فضیلت کو ختمِ دورِ رسالت کہنے میں دل کشی بھی ہے اور شگفتگی بھی، یہ نہایت حسین و جمیل ترکیب سازی کے بہترین نمونے ہیں جو روح کو شادابی سے ہم کنار کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں ’’جاری رہے گا سکّہ تیرا ‘‘ عنوان سے 48؍ اشعار پر مشتمل ایک نعت جس کا مطلع ہے ؎
ماہِ طیبہ نیرِ بطحا صلی اللہ علیک و سلم
تیرے دم سے عالم چمکا صلی اللہ علیک و سلم
میں بھی ترکیب سازی کے نادر نمونے ملتے ہیں :’’ماہِ طیبہ نیرِ بطحا، مظہرِ ربِّ اجمل، حجتِ رب، زینِ طاعت، عینِ عبادت، نورِ مجسم، نورِ ذاتِ والا، بحرِ رحمت، صاحبِ دولت، قاسمِ نعمت وغیرہ ‘‘۔
اسی طرح سامانِ بخشش میں شامل مزید ایک سلام جس کا مطلع یوں ہے ؎
الصلوٰۃ والسلام اے سرورِ عالی مقام
الصلوٰۃ والسلام اے رہبرِ جملہ انام
الصلوٰۃ والسلام اے مظہرِ ذات السلام
الصلوٰۃ والسلام اے پیکرِ حُسنِ تمام
الصلوٰۃ والسلام الصلوٰۃ والسلام
اے نبیوں کے نبی اور اے رسولوں کے امام
اس سلام میں بھی ترکیب سازی کے انتہائی دل کش اور حسین و جمیل نمونے ملتے ہیں، مثلاً : ’’ سرورِ عالی مقام، رہِ برِ جملہ انام، پیکرِ حُسنِ تمام، شہ عرش آستاں، سرورِ کون و مکاں، جانِ ایمانِ زماں، سرورِ ہر دوجہاں، شفیعِ عاصیاں، سرِّ ہر موجود، بودِ ہر نابود، قبلۂ کونین، امام القبلتین، شہنشاہِ دو عالم، شافعِ روزِ قیام، زینتِ گل زارِ طیبہ، مرجعِ ہر خاص و عام وغیرہ‘‘۔
ان تراکیب کے علاوہ مکمل مجموعۂ کلام میں ترکیب سازی کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ کلامِ نوریؔ میں ترکیب سازی کی حسین و نادر تمثیلات ردیف کے لحاظ سے نشانِ خاطر کرتے چلیں :
ردیف الف: مطلعِ نوری، مہرِ انور، مطلعِ محشر، کفِ پائے منور، نقابِ روئے انور، مہرِ ذرہ پرور، جمالِ حق نما، خوش آب گوہر، مہبطِ انوار، روضۂ والائے طیبہ، مخزنِ انوار، مرہمِ زنگار، زخمِ دامن دار، دوشِ صبا، خورشیدِ تاباں، مطلعِ انوار، لعلِ شب چراغ، سوختہ جاں، جانِ مسیحا، بختِ خفتہ، قفسِ جسم، مُرغِ جاں، جلوہ گہہ سرورِ خوباں، جلوۂ حُسنِ جہاں تاب، تیغِ دو پیکر، غیرتِ خورشیدِ درخشاں، دامنِ حامیِ خود، ماحیِ عصیاں، نوردہِ شامِ غریباں وغیرہ۔
ردیف با : مہر عجم ماہِ عرب، نوری آئینے، کوچۂ پُر نور، رشکِ مہر، جانِ قمر، نیرِ چرخِ رسالت، نورِ چشمِ انبیا وغیرہ۔
ردیف تا :رحمِ مجسم، شانِ کرم، جانِ کرم، کانِ کرم، فضلِ اتم، لطفِ اعم، سحابِ کرم، صفحۂ دل، مصباحِ ظلم وغیرہ۔
ردیف نون:آبِ بحرِ عشقِ جاناں، چشمۂ آبِ بقا، آبِ تیغِ عشق، طائرِ جاں، شا فعِ روزِ جزا، سایۂ زلفِ رسا، نسیمِ فیض، جانِ جناں، حسرتِ پابوس، دیدۂ عشاق، گل عذار، قرارِ دلِ حزیں، نرگسِ شہلا، گلِ مہتاب وغیرہ۔
ردیف واو:شاہِ والا، دار الشفائے طیبہ، بادِ مخالف، بہارِ جاں فزا، نسیمِ داستاں، بہارِ باغِ رضواں، زیبِ جناں، حبیبِ ربِّ رحمن، مکینِ لامکاں، سرِ ہر دو جہاں، شہ شاہنشہاں، بہارِ بے خزاں، بہارِ جاوداں، بہارِ گلستاں، بہارِ بوستاں، تابشِ رُخ، مجسم رحمتِ حق، شفیعِ عاصیاں، وکیلِ مجرماں، طبیبِ انس و جاں، عنبرِ سارا، محرابِ خمِ ابرو، نیرِ حشر، لکۂ رحمت، کشتِ امل، شانِ خدا، مہِ لقا، شہ عرشِ علا وغیرہ۔
ردیف ہائے: شمعِ رسالت، ماہِ نبوت، ساقیِ کوثر، جامِ لبالب، مستِ مَے الفت، زلفِ معنبر، پنجۂ قدرت، زہرِ معاصی، سنگِ درِ جاناں، جبیں سائی، حبِّ صنمِ دنیا وغیرہ۔
ردیف یائے: سیدِ ابرار، محرمِ اسرار، جانِ نور، خانۂ دل، مطلعِ انوار، مثالِ شمعِ روشن، قید وبندِ جہاں، رضا جوئے خداوندِ جہاں، جانِ قمر، جلوہ نما، دلِ پژمردہ، بہارِ چمنِ طیبہ، قصۂ غم، جلو ۂ حق، جانِ مسیحا، چشمۂ آبِ حیات، نگاہِ مہر، قلبِ تیرہ، شجرۂ امید، بقعۂ نور، ابروئے خم دار، شبِ فراق، فوجِ غم، بابِ رحمتِ ربِّ علا، سرِ خیرہ، آئینۂ ذاتِ اَحد، مرآتِ صفاتِ کبریا، بیانِ عیبِ دشمن، ضیائے کعبہ، ضیائے روضہ، فضائے طیبہ، شامِ غربت، مَے محبوب، بلبلِ باغِ مدینہ، زورقِ خورشید، جانِ رحمت، کانِ نعمت، شانِ حق نما، زُلفِ مشکیں، رموزِ مصلحت، مثالِ ماہیِ بے آب، مریضِ معاصی، معراجِ قسمت وغیرہ۔
کلامِ نوریؔ میں ترکیب سازی کے مطالعہ سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ آپ نے ادیبانہ مہارت کے ساتھ اپنے جذبات و خیالات کو پیش کرنے کے لیے خوب صورت ترکیبوں کا استعمال کیا ہے۔ آپ نے اپنے کلام میں بلاغت و فصاحت کے دریا بہاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصافِ بلیغ کے اظہار کے لیے جن حسین و جمیل تراکیب کا استعمال کیا ہے۔ اُسے پڑھ کر کیف وسرور کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ مزید یہ کہ آپ کی شعری و فنّی مہارتوں کا اندازہ لگتا ہے۔ آپ نے تراکیب کا اس خوب صورتی اور نادر کاری سے استعمال کیا ہے کہ طبیعت پر وجد کا عالم طاری ہو جاتا ہے۔
نوریؔ بریلوی نے تراکیب سازی کا وہ کمال دکھایا ہے کہ شعر شعر میں نازک خیالی اور سلاست کا بیان موج زن ہو گیا ہے۔ ترکیبوں میں لفظ و خیال کی مماثلت ہے اور تراکیب کے بطن سے خوب صورت تشبیہ و استعارہ سامنے آئے ہیں۔ باوجود نصف سے زائد صدی گذر جانے کے نوریؔ بریلوی کے کلام میں عصرِ حاضر کے لب و لہجہ کی تا زہ کاری اور ان تراکیب میں جو کیفیات موجود ہیں ، وہ آپ کی شاعرانہ عظمت و رفعت، قادرالکلامی اور مشاقی کی بین دلیل پیش کرتی ہیں۔
قدیم رومی نقاد ہوریس نے کہا ہے کہ :
’’ شاعری مصوری کی طرح ہے ‘‘ یا ’’شاعری لفظی مصوری ہے‘‘
شاعری اور مصوری کا یہ تقابل ہوریس کے زمانے میں بھی نیا تصور نہیں تھا جو شاعری کا محاکاتی تصور ہے۔ (1)
قدیم شاعری کا یہی محاکاتی تصور جدید شاعری میں پیکری بیانیہ یا پیکر کی شکل میں رونما ہوا ہے۔ محاکاتی تصور یا محاکات اور پیکر تراشی میں کوئی فرق نہیں، ان کے مابین گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ محاکاتی تصور، حکائی بیان کی جمع ہے جو قاری یا سامع کے سامنے شعری بیان کی کیفیات کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ یعنی کچھ ذہنی تصویروں کے ذریعے شعری کیفیات کی ترسیل کرتی ہے۔ رومی نقاد ہوریس نے دو ہزار سال پیش تر شاعری کی جو تعریف کی تھی کہ شاعری لفظی مصوری ہے، وہ محاکات ہی کے ذیل میں آتی ہے مزید یہ کہ پیکر بیانی کا نیا شعری تصور بھی اسی سے مماثلت رکھتا ہے۔
قدیم شاعری میں محاکاتی تصور یعنی پیکر تراشی کے بہت سارے نمونے ملتے ہیں۔ تشبیہات اور استعارات کے روپ میں پیکروں کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ مگر جدید شاعری میں یہ شعرا کے نزدیک خاصے کی چیز ہے۔ جدید شعرائے اردو میں پیکر تراشی کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ اردو کی جدید شاعری میں یہ اصطلاح انگریزی ادب کے لفظ امیجری (Imagery) یا امیج (Image) سے لی گئی ہے۔ جسے اردووالوں نے پیکرتراشی کا نام دیاہے۔ جیسا کہ خورشید احمدصدیقی کا خیال ہے کہ :
’’انگریزی تنقید کے اثر سے اردو میں Imageکا تصور اب غیر معروف نہیں رہا۔ اس کا اردو ترجمہ اردو والوں نے پیکر، نقش، تمثال، یا شبیہ کیا ہے لیکن’پیکر ‘ہی کا چلن اب زیادہ ہو گیا ہے۔ ‘‘(2)
لیکن معروف محقق ڈاکٹر عبد النعیم عزیزی کا خیال ہے کہ :
’’اردو شاعری میں پیکر کی اصطلاح انگریزی ادب سے لی گئی ہے، جدید اردو شعرا کے یہاں پیکر تراشی کا رجحان زیادہ ہے اور جدید شاعری میں پیکر یت میں تصویری حُسن، خیال کی ندرت اور تلازموں کی فضا سے معنویت بڑھی ہے اور اس نئی شاعری کے پیکر اپنے دور کے تہذیبی اور معاشرتی حالات کا نتیجہ ہیں۔ ‘‘ (3)
پیکر کی تعریف : پیکر کی تعریف بیان کرتے ہوئے مشہور محقق و ناقد سلیم شہزاد راقم ہیں :
’’(1) لغوی معنی ’’شکل و ہیئت ‘‘، اصطلاحی معنی اشیا کی مشابہت جو صرف ذہنی تصویریں نہیں پیش کرتی بل کہ زبان کے استعمال سے جذبات و خیالات، تصورات و اعمال اور اشیا کے حسّی اور ماورائے حسّی تجربات کو محسوس و مدرک اجسام میں بیان کرتی ہے۔ ‘‘(4)
’’(2) شعری زبان کا استعما ل جو نہ صرف ذہنی تصویریں پیش کرتا ہے بل کہ اس زبان کے تاثرات قاری یا سامع کے حواسِ خمسہ پر بھی مرتسم ہوتے ہیں اور وہ لفظی پیکروں کی مشابہت معروضی اشیا میں پالیتا ہے۔ پیکری بیانیہ ضروری نہیں کہ صرف ایک حِس کو متاثر کرنے والا ہو، دو یا زائد حواس بھی بیک وقت اس سے متاثر ہوسکتے ہیں یعنی قاری کسی شعری پیکر میں نہ صرف دریا بہتا ہوا دیکھتا بلکہ پانی کی آواز سُن سکتا اور اس کی ٹھنڈک بھی محسوس کر سکتا ہے۔ ‘‘(5)
پیکر کی مذکورہ بالا تعریفوں میں پیکر کی جو تعریف بیان کی گئی ان میں حِس کو محور قرار دیا گیا ہے۔ مگر تمثال یا پیکر کا حسّی ہونا ضروری نہیں بل کہ وہ ذہنی بھی ہوسکتا ہے۔ جیساکہ ابنِ فرید کا خیال ہے کہ :
’’تمثال کے بارے میں ایلیٹ(Eliot) اور ایزرا پاونڈ (Ezrapound) وغیرہ نے اس امر پر زور دیا ہے کہ یہ صرف حسّی نہیں ذہنی بھی ہوسکتی ہے لیکن نہ صرف یہ لوگ بلکہ ٹوئی (Tuve) اور کرموڈ (Kermod)بھی جب تفصیل میں جاتے ہیں تو ان کی ذہنی تمثیلیں حسّی تمثال تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس لیے تمثال کو حواسِ خمسہ سے غیر متعلق کرنا اسے اس کے فطری حُسن سے محروم کر دینا ہے اور یہ کسی طرح ممکن نہیں ہوتا۔ ‘‘(6)
ان تمام بحثوں کا مدار پیکر کے خد و خال کو واضح کرتا ہے۔ جس کا محور و مرکزحِس ہے اگرچہ اس میں ذہنی احساسات اور ذاتی و خارجی ادراکات و تجربات کو داخل کر لیا گیا ہے۔ ویسے پیکر کا صحیح مفہوم ادا کرنے کے لیے فن کی اصطلاحات کا سہارا لینا پڑتا ہے جن کو تعریف کی جنسِ قریب کہا جا سکتا ہے، مثلاً : استعارہ، کنایہ، تشبیہہ، علامت، اسم فعل اور صفت وغیرہ۔
پیکر کی تقسیم :پیکر کی درج بالا بیان کردہ تعریفوں کو اندازِ عمل اور طرزِ بیان کے لحاظ سے تین حصوں میں منقسم کیا جا سکتا ہے۔
(1) ذہنی پیکر
(2) مجازی پیکر
(3) تجسیمی پیکر
ذہنی پیکر: جو تعریفیں پیکر کو ذہنی پیکر قرار دیتی ہیں وہ نفسیاتی ہیں۔ پیکر تراشی کے اعتبار سے ہر شخص کا ذہن جداگانہ نوعیت رکھتا ہے اس لیے ایک چیز کے پیکر مختلف اذہان میں الگ ہوتے ہیں۔
مجازی پیکر :اس میں خیال اور لسانی شکلوں پر گفتگو ہوتی ہے اور اظہارِ خیال کو مزید جامع بناتی ہے اور زبان استعاروں کے ذریعہ نمو پذیر ہوتی ہے۔
تجسیمی پیکر: اس میں پیکروں کے عمل پر بحث کی جاتی ہے خواہ پیکر حقیقی ہوں یا مجازی، اس کے دائرے میں دونوں شامل ہیں۔ پیکر شاعر کے وجدان و بصیرت اور داخلیت کا انکشاف کرتا ہے۔ اس کے ذہن کی حسّی صلاحیت اور اس کے مزاج و کردار کا مظاہرہ کرتا ہے۔
ان کے علاوہ پیکروں کو ان کے اندازِ عمل کے لحاظ سے الگ الگ ناموں سے معنون کیا گیا ہے۔ حِس اور ادراک کو براہِ راست متاثر کرنے والے پیکروں کو حسّی اور ادراکی پیکر کا نام دیا گیا ہے اور پھر ان پیکروں کو حواسِ خمسہ کے نام دیے گئے ہیں۔
(1) پیکرِ باصرہ
(2) پیکرِ سامعہ
(3) پیکرِ ذائقہ
(4) پیکرِ شامّہ
حواسِ خمسہ کی مناسبت سے تقسیم کیے گئے ان پیکروں کی تعریف اپنے اپنے مقام پر بیان کی جائے گی۔
پیکر بیانی اور پیکر تراشی کے تصور اور ان کی تعریف بیان کرنے کے بعد مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی شاعری میں پیکر تراشی کی طر ف بڑھتے ہیں۔ مگر شعری نقد ونظرسے پہلے شاعر کی ذاتی زندگی سے آگاہی ضروری ہے۔ کیوں کہ ماحول کے شعر و ادب پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ شاعر جب اپنے گرد و پیش سے متا ثر ہو کر شعر کہتا ہے تو کلام میں سوز و شگفتگی دونوں ایک ساتھ جنم لیتی ہیں۔
حضرت نوریؔ بریلوی کے حالاتِ زندگی اور واقعات کا جائزہ بالتفصیل باب اول میں لیا جا چکا ہے۔ آپ کے عہد میں وطنِ عزیزہندوستان میں جو حالات تھے وہ ایسے نہ تھے کہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر ضربِ کلیمی کا شغف رکھا جاتا بل کہ ہر محاذ پر سینہ سپر ہو کر مقابلہ کرنا ضروری تھا۔ پورے ہندوستان میں حالات انتہائی ناگفتہ بہ تھے ہر طرف قتل و غارت گری، شعائرِ اسلامی کی پامالی، شدھی تحریک کا زور، موالات، خلافت اور بساطِ سیاست پر ناعاقبت اندیش سیاست دانوں کی ترک تازیاں، مسلمانوں کا احساسِ محرومی، کیا کچھ نہ تھا ایسے ماحول میں نوریؔ بریلوی کی ذمہ داریاں یک گونہ نہیں بلکہ گوناگوں تھیں۔ خانقاہِ رضویہ اور جامعہ مظہرِ اسلام کا اہتمام و انصرام، فتوا نویسی، درس و تدریس، رشد و ہدایت، مناظرہ و مباحثہ، اہلِ سیاست سے پنجہ آزمائی، شدھی تحریک کا انسداد، موالات، خلافت، جہاد اور تحریکِ گاو کشی کا تعاقب، مسلمانانِ ہند کی دل جوئی، شعائرِ اسلامی کا تحفظ اور ناموسِ رسالتصلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت و صیانت ، کیا کیا نہ تھا سب کچھ کرنا تھا دل میں شعائرِ اسلامی کے مٹائے جانے سے لاوا پکتا تھا گویا زندگی کی ایک ایک ساعت اور شب و روز کا ایک ایک لمحہ شدید ترین مصروفیتوں اور مشغولیتوں کی نذر تھا۔ ان تمام مصروفیات و مشغولیات کے با وصف شعری نازک خیالیوں اور مشقِ سخن کی جولانی کو بھلا کب راہ ملتیں ؟ مگر سوزِ عشق کی جلوہ سامانیاں قلبِ عاشق پر اُبھرنے والے زرین نقوش کو صفحۂ قرطاس پر اُتارتی رہتیں اور یوں ہزاروں مصروفیتوں کے رہتے ہوئے بھی مشقِ سخن جاری رہتا، یہی وجہ ہے کہ آپ کی شاعری میں خارجی اثرات کے جذباتی احساسات سوزِ دروں بن کر داخلیت کو مزید رنگ و آہنگ عطا کر رہے تھے۔ یہاں بات صرف سخن سنجی و سخن وری اور نکتہ آفرینی کی نہ تھی بل کہ بات اسلام کے تحفظ واستحکام اور ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس و لحاظ اور حفاظت کی تھی، پھر کیا تھا اشعار کے قالب میں دُوٗدِ عشق کی گرمی اُتر آئی۔ جیسا کہ اس بات کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ نوریؔ بریلوی نے تا عمر تقدیسی شاعری یعنی حمد و نعت و منقبت سے تعلق رکھا۔ آپ نے نعتیہ شاعری میں پیکر تراشی کے لیے انھیں عناصر کو بروئے کار لایا جو ادب کی دیگر اصناف میں پائے جاتے ہیں۔ یہاں صرف یہ فرق کیا کہ ان کو معانی و مطالب کی طہارت و پاکیزگی اور نفاست و نظافت عطا کر دی جس سے ان کا قالب پاکیزہ و نفیس اور تقدیسی و ملکوتی ہو گیا ہے۔
نعتیہ شاعری میں پیکر کے جو تصورات و تخیلات اُبھرتے ہیں وہ دیگر اصنافِ ادب سے الگ ہوتے ہیں۔ کیوں کہ یہاں صرف زبان کے چٹخارے، لفظوں کی بندش، صوتی آہنگ، تشبیہات کی ندرت، استعارات کی چاشنی، رعایاتِ لفظی کا حُسن اور بحروں کی موزونیت نیز افاعیل کی نغمگی اور موسیقیت ہی کافی نہیں بل کہ ادب و احترام اور تعظیم و توقیر کا تقاضا سب سے ضروری اور اولین مرحلہ ہوتا ہے۔ اس لیے شاعر کا علمی مطالعہ و مشاہدہ، فکری گیرائی و گہرائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عشق و محبت کی تڑپ اور کسک جس قدر زیادہ ہو گی شعر کا معیار اور اس کے داخلی مصداق اُسی قدر زیادہ ہوں گے۔ یہاں مبالغہ و اغراق اور افراط و تفریط کی وہ جملہ اقسام یک سرقلم زد کر دی جاتی ہیں جن کا خارجی یا داخلی مصداق غیر مودّب ہوتا ہے۔ پہلی صورت یعنی خارجی مصداق میں اگر شاعر نے مبالغہ و اغراق سے ذرّہ بھر بھی کام لیا تو شرک جیسے جُرم کا مرتکب ہوسکتا ہے۔ اور دوسری صورت یعنی داخلی مصداق میں اگر شاعر نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں ایسا کوئی خیال یا ایسی کوئی وارداتِ قلبی پیش کر دی جو حقیقت سے بعید ہو تو وہ جھوٹ ہو گا۔ اور یہ دونوں باتیں شاعر کے لیے دنیوی و اُخروی نقصان کی باعث ہیں۔
کلامِ نوریؔ بریلوی کے مطالعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ بارگاہِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے انتہائی مودّب نعت گو شاعر تھے۔ آپ کے یہاں نہ مبالغہ ہے نہ اغراق و غلو، نہ خیالات کی بے راہ روی ہے نہ افراط و تفریط، آپ نے مکمل ادب و احترام اور حزم و احتیاط کے ساتھ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں نعتوں کا نذرانۂ عقیدت پیش کیا ہے۔
ذیل میں نوریؔ بریلوی کی نعتیہ شاعری میں پیکر تراشی کا حسین و جمیل اور خوب صورت امتزاج نشانِ خاطر فرمائیں :
پیکرِ باصرہ یا بصری پیکر :جب شاعر اپنے کلام میں ایسا لفظی پیکر بیان کرے جو نظر آنے والا ہو یعنی الفاظ سے ایسی تصویر پیش کرے جس سے پڑھنے یا سننے والے کی حسِ باصرہ متاثر ہو اور وہ الفاظ سے بنائی گئی تصویر میں بیان کی گئی شَے کو دیکھ لے تو ایسے پیکر کو پیکرِ باصرہ یا بصری پیکر کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے پیکرِ باصرہ کی مثالیں ؎
ان کو دیکھا تو گیا بھول میں غم کی صورت
یاد بھی اب تو نہیں رنج و الم کی صورت
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہیں صفاتِ حق کے نوری آئینے سارے نبی
ذاتِ حق کا آئینہ مہرِ عجم، ماہِ عرب
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ذرّہ ذرّہ سے عیاں ہے ایسا ظاہر ہوکے بھی
قطرے قطرے میں نہاں ہے برملا ملتا نہیں
دل گیا اچھا ہوا اس کا نہیں غم، غم ہے یہ
لے گیا پہلو سے جو وہ دل رُبا ملتا نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کھُلے ہیں دیدۂ عشاق قبر میں یوں ہی
ہے انتظار کسی کا ضرور آنکھوں میں
نہ ایک دل کہ مہ و مہر و انجم و نرگس
ہے سب کی آرزو رکھیں حضور آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نظر نہ آیا قرارِ دل حزیں اب تک
نگاہ رہتی ہے یوں بے قرار آنکھوں میں
کرم یہ مجھ پہ کیا ہے مرے تصور نے
کہ آج کھینچ دی تصویرِ یار آنکھوں میں
مذکورہ بالا اشعار میں محبوب کو دیکھ کر غم اور رنج و الم کی صورت بھول جانا، مرہمِ دیدار کی بھیک سے زخمِ دامن دار کا منہ کرنا، انبیا کا صفاتِ حق کا نوری آئینہ ہونا اور مہرِ عجم ماہِ عرب صلی اللہ علیہ و سلم کا ذاتِ حق کا آئینہ ہونا، ذرّہ ذرّہ سے عیاں ہو کر بھی برملا نہ ملنا، دل چلا جانا پھر دل رُبا کا نہ ملنا، قبر میں دیدۂ عشاق کا کسی کے انتظار میں کھُلنا، مہر و مہ و انجم و نرگس کا حضور کی آنکھوں میں رکھے جائے جانے کی آرزو و تمنا کرنا، نگاہوں کا آنکھوں میں بے قرار رہنا، تصویرِ یار کا آنکھوں میں کھینچ دینا۔۔یہ سب و ہ بصری پیکر ہیں جن کو نوریؔ بریلوی نے اپنے داخلی جذبات و احساسات سے ہم آہنگ ہو کر تراشا ہے۔ کیوں کہ نعت میں عشق رسو ل صلی اللہ علیہ و سلم کے داخلی محرکات ہی سے تجربات و مشاہدات کو جِلا ملتی ہے اور پیکر کے محاسن جنم لیتے ہیں۔
پیکرِ لامسہ یا لمسی پیکر: جب شاعر اپنے شعر میں ایسا لفظی پیکر بیان کرے جو پڑھنے یا سننے والے کی لمسی حِس کو متاثر کرے یعنی الفاظ کی ایسی تصویر جو اسے سرد و گرم وغیرہ کا احساس کرائے تو ایسے پیکر کو پیکرِ لامسہ یا لمسی پیکر کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے پیکرِ لامسہ کی مثالیں ؎
فق ہو چہرہ مہر و ماہ کا ایسے منہ کے سامنے
جس کو قسمت سے ملے بوسہ تری پیزار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چاک تقدیر کو کیا سوزنِ تدبیر سیے
لاکھ وہ بخیہ کرے چاک گریباں ہو گا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کاسہ لیسی سے ترے دربار کی مہتاب بھی
کیسا منور ہو گیا ماہِ عجم، مہرِ عرب
یوں بھیک لیتا ہے دو وقتہ آسماں انوار کی
صبح و مسا ہے جبہہ سا ماہِ عجم، مہرِ عرب
اس جبہہ سائی کے سبب شب کو اسی سرکار نے
انعام میں ٹیکا دیا ماہِ عجم، مہرِ عرب
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
موم ہے ان کے قدم کے لیے دل پتھر کا
سنگ نے دل میں رکھی ان کے قدم کی صورت
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہے رگِ گردن سے اقرب نفس کے اندر ہے وہ
یوں گلے سے مل کے بھی ہے وہ جدا ملتا نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ آج کاہے کی شادی ہے عرش کیوں جھوما
لبِ زمیں کو لبِ آسماں نے کیوں چوما
جانِ کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے پیزار کے بوسہ پر چومنے والے کا منہ دیکھ کر مہر و مہ کے چہرے کا فق ہونا، چاک تقدیر کو سوزنِ تدبیر سے سینا، پھر گریباں کا چاک ہونا، درِ اقدس کی کاسہ لیسی سے مہتاب کا منور ہونا، آستانے پر جبیں سائی، آسماں کا صبح و مسا انوار کی بھیک لینا، آسمان کو درِ اقدس سے چاند کا ٹیکا دیا جانا، پتھر کا ان کے قدم کو موم کی صورت دل میں رکھنا، رگِ گردن سے قریب اور نفس میں رہ کر گلے سے ملنا، شادی سے لبِ آسمان کا لبِ زمین کو چومنا۔۔ ان اشعار میں لمسی پیکر کو اس طرح ڈھالا گیا ہے۔ کہ ہر شعر لمسی کیفیت کا حسّی و ادراکی تصور پیش کرتا نظر آتا ہے۔ جہاں شاعر تشبیہہ و استعارہ اور کنایہ سے لمسی پیکر تراش رہا ہے۔ درج بالا اشعار کے ان کلمات پر غور و خوض کیجیے۔ بوسہ لینا، سینا، کاسہ لیسی، جبہ سائی، ٹیکہ دینا، دل میں صورت رکھنا، گلے ملنا، لب چومنا۔۔ یہ سب کے سب لمس کی جملہ لذّاتی کیفیات و محسوسات کو اجاگر کرتے ہیں جس سے نعت کا اچھوتا بانکپن دوبالا ہو رہا ہے۔
پیکرِ ذائقہ یا مذوقی پیکر: جب شاعر اپنے شعر میں ایسا لفظی پیکر بیان کرے جو پڑھنے یا سننے والے کی حسِ ذائقہ کو متاثر کرے یعنی الفاظ کی ایسی تصویر جو اسے ترش و شیریں وغیرہ کا احساس کرائے تو ایسے پیکر کو پیکرِ ذائقہ یا مذوقی پیکر کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے پیکرِ ذائقہ کی مثالیں ؎
آبلوں کے سب کٹورے آہ خالی ہو گئے
منہ ابھی تر بھی نہ ہونے پایا تھا ہر خار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نہ کیسے یہ گل و غنچہ ہوں خوار آنکھوں میں
بسے ہوئے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں
نظر میں کیسے سمائیں گے پھول جنت کے
کہ بس چکے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جو ساقیِ کوثر کے چہرے سے نقاب اُٹھے
ہر دل بنے مَے خانہ ہر آنکھ ہو پیمانہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آبلے پاؤں میں پڑ جائیں جو چلتے چلتے
راہِ طیبہ میں چلوں سر سے قدم کی صورت
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بجھے گی شربتِ دیدار ہی سے تشنگی اپنی
تمہاری دید کا پیاسا ہوں یوں پیاسا ہوں کوثر کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دلِ دشمن کے لیے تیغِ دو پیکر ہے سخن
چشمِ حاسد کو مرا شعر نمک داں ہو گا
آبلوں کے کٹوروں کا خالی ہونا، خار کا منہ تر نہ ہونا، مدینے کے خار کا آنکھوں میں بسنا، دل کا مَے خانہ اور آنکھوں کا پیمانہ بننا، پاؤں میں آبلے پڑنے کے سبب راہِ طیبہ میں سر کے بل چلنا، شربتِ دیدار سے تشنگی بجھانا، چشمِ حاسد کے لیے شعر کا نمک داں ہونا۔۔ان جملہ اشعار میں مذوقی پیکر کی وہ تمام کیفیات اور احساسات موجودہیں جو ذائقۂ حس سے متعلق ہیں۔ یہ شاعر کا فنّی کمال ہے کہ ان میں جن علامتوں کو برتا گیا ہے ان سے وجدان میں ایک خاص لذتِ ذائقہ اُبھرتی ہے جو کہیں نمک دانی اور شربتِ دیدار، تو کہیں دل کے مَے خانہ اور آنکھ کے پیمانہ بننے اور کہیں آبلوں کے درد و کرب اور کسک کے پیکر میں جلوہ گر ہیں۔ مگر ان اشعار میں نعت کا اسلوب اپنے مکمل رنگ و آہنگ کے ساتھ سبک خرام ہے قدم قدم پر مذاقِ فن کی تہہ داری دلوں میں لذتِ ذائقہ پیدا کرتی ہے، جہاں نہ تو قوتِ ذائقہ کی تلخیاں و ترشیاں ہیں اور نہ ہی سقم و عیب کی بے کیفی و بے لذتی ۔۔
پیکرِ شامّہ یا مُشامی پیکر : جب شاعر اپنے شعر میں ایسا لفظی پیکر بیان کرے جو پڑھنے یا سننے والے کی حسِ شامّہ کو متاثر کرے یعنی الفاظ کی ایسی تصویر جو خوشبو وغیرہ کا احساس کرائے تو ایسے پیکر کو پیکرِ شامّہ یا مُشامی پیکر کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے پیکرِ شامّہ کی مثالیں ؎
کوچۂ دل کو بس جاتا مہک سے تیری
کام اتنا بھی مجھے بادِ صبا نے نہ دیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خاکِ طیبہ سے اگر کوئی نکھارے گیسو
سنبلِ خلد تو کیا حور بھی وارے گیسو
عنبرستاں بنے محشر کا وہ میداں سارا
کاش ساقی کے کھُلیں حوض کنارے گیسو
بادہ و ساقی لبِ جُو تو ہیں پھر ابر بھی ہو
کھول دے ساقی اگر حوض کنارے گیسو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیوں زُلفِ معنبر سے کوچے نہ مہک اُٹھیں
ہے پنجۂ قدرت جب زُلفوں کا تری شانہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جس گلی سے تو گذرتا ہے مری جانِ جناں
ذرّہ ذرّہ تری خوشبو سے بسا ہوتا ہے
ان تمام اشعار میں مشامی پیکر کی جن تہوں کو عشق و اُلفت کی خوشبو سے معطر و معنبر کیا گیا ہے اُنھیں نعت کا جوہر کہا جا سکتا ہے۔ کوچۂ دل کا مہک سے بسنا، خاکِ طیبہ سے گیسو کا نکھارنا پھر اس پر سنبل اور حور کا اپنے گیسو ہارنا، حوض کے کنارے گیسو کھُل جانے پر میدانِ محشر کا عنبرستاں بن جانا، بادہ و ساقی، لبِ جُو اور ابر میں ساقی کا گیسو کھلنا، زُلفِ معنبر سے گلیوں کا مہک اُٹھنا، پنجۂ قدرت کا زُلفِ اقدس کو شانہ کرنا، گلی سے گذرنے پر ذرّے ذرّے کا خوشبو سے بس جانا۔۔ مُشامی پیکر کی جس تمثالی کیفیت کو واضح کرتے ہیں وہ قوتِ شامّہ کے لیے پیکر کی حسین و جمیل اور دل کش مثالیں ہیں۔ جن میں گہری معنویت کے ساتھ ساتھ ایک مانوس فضا بھی پائی جاتی ہے جہاں مُشامی پیکر کے علائم کُلی طور پر موجود ہیں۔ یہاں عشق و محبتِ رسو ل صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ سوختگی جلوہ فرما ہے جو کسی عاشقِ مہجور کے ہر اعضائے بدن کو قوتِ شامّہ عطا کرتی ہے۔
پیکرِ سامعہ یا سمعی پیکر: جب شاعر اپنے شعر میں سنائی دینے والا لفظی پیکر بیان کرے یعنی الفاظ کی ایسی تصویر جس سے پڑھنے یا سننے والے کی حسِ سامعہ متاثر ہو اور وہ تصویر میں بیان کی گئی شَے کو سُن لے تو ایسے پیکر کو پیکرِ سامعہ یا سمعی پیکر کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے پیکرِ سامعہ کی مثالیں ؎
انھیں کی نعت کے نغمے زبور سے سُن لو
زبانِ قرآں میں اُن کے ترانے آئے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جن کے د
عوے تھے ہم ہی اہلِ زباں
سُن کے قرآں زبانیں دبا کر چلے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پڑھوں وہ مطلعِ نوری ثنائے مہرِ انور کا
ہو جس سے قلب روشن جیسے مطلع مہرِ محشر کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بلبلِ خوش نوا طوطیِ خوش گلو‘
زمزمہ خواں ہیں گاتے ہیں نغماتِ ہو‘
قمریِ خوش لقا بولی حق سرہ‘
فاختہ خوش ادا نے کہا دوست تو‘
سماعی پیکر کے مذکورہ بالا اشعار میں نعت کے نغمے زبور سے سننا، زبانِ قرآں پر محبوب کے ترانے آنا، قرآن سن سن کر زبانیں دبا کر چلنا، ثنائے مہرِ انور کا مطلعِ نوری پڑھنا، بلبلِ خوش نوا اور طوطیِ خوش گلو کا نغمہ سرا ہونا، قُمری اور فاختہ کا بولنا۔۔ یہ سماعی پیکر کی مثالیں ہیں جن میں استعارہ و کنایہ سے سماعی پیکر تشکیل دیے گئے ہیں۔ گو یا اپنی معنویت کے لحاظ سے ان پیکروں میں سماعی حس کی اُٹھان شباب پر ہے اور پورا نظامِ سماعی، حسّی جولانی سے ہم کنار نظر آتا ہے مذکورہ بالا اشعارسماعی پیکر کی دل نشین تصویریں ہیں۔
مخلوط پیکر: ذہنی ا ور ادراکی، مجازی اور تجسیمی پیکروں کے مرکب سے بننے والا پیکر ’’مخلوط پیکر ‘‘ کہلاتا ہے۔ ذہنی اور ادراکی پیکروں کو حواسِ خمسہ کے لحاظ سے تقسیم کر کے بیان کرنے کے بعد مخلوط پیکر کی چند مثالیں پیش کرنا ناگزیر ہے۔ مخلوط پیکر میں پیکروں کی ترتیب کبھی دو دو، کبھی تین تین اور کبھی کبھار کئی کئی پیکروں سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر نوریؔ بریلوی کے اشعار خاطر نشین ہوں ؎
دیکھ مت دیکھ مجھے گرم نظر سے خاور
شوخیِ چشم سے تو آپ پریشاں ہو گا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم اگر چاہو تو اک چینِ جبیں سے اپنی
کر دو اعدا کو قلم تیغِ دو دم کی صورت
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سر پر بادل کالے کالے دودِ عصیاں کے ہیں چھالے
دم گھُٹتا ہے میرے مولیٰ صلی اللہ علیک و سلم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شب کو شبنم کی مانند رویا کیے
صورتِ گل وہ ہم کو ہنسا کر چلے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نگاہِ مہر جو اس مہر کی ادھر ہو جائے
گنہ کے داغ مٹیں دل مرا قمر ہو جائے
پہلے شعر میں بصری پیکر، آتشیں پیکر اور جمالیاتی پیکر کو اجاگر کیا گیا ہے۔ دوسرے شعر میں حسّی پیکر، حرکی پیکر اور بصری پیکر کو پیش کیا گیا ہے۔ تیسرے شعر میں لونی پیکر، آتشیں پیکر اور مذوقی پیکر ہے۔ چوتھے شعر میں سیّال پیکر، جمالیاتی پیکر اور سماعی پیکر موجود ہیں۔ پانچویں شعر میں بصری پیکر، نوری پیکر، لمسی پیکر اور جمالیاتی پیکر کی مثالیں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
بے مثل پیکر : نعتیہ شاعری میں پیکریت کا تصور کچھ اس قدر زیادہ وسیع و عریض ہے جو دیگر اصناف میں کم پایا جاتا ہے۔ ذہنی و ادراکی، تجسیمی، مادی، بسیط، مخلوط اور آتشیں پیکر کی مثالیں تو دوسری اصناف میں بہ کثرت ملتی ہیں۔ مگر بے مثل پیکر یہ صرف اور صرف صنفِ نعت کا خاصّہ ہے۔ اس کی ایک نادر اور اچھوتی مثال حسان الہند امام احمد رضا بریلوی (م 1340ھ / 1921ء ) کے کلام سے نشانِ خاطر فرمائیں، جو مکمل طور پر بے مثل پیکر پر مبنی ہے ؎
رُخ دن ہے مہرِ سما یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
شب زُلف یا مشکِ ختا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
خورشید تھا کس زور پر کیا بڑھ کے چمکا تھا قمر
بے پردہ جب وہ رُخ ہوا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
مذکورہ اشعار میں پیکر کے تمثال و تصورات کی نفی کر دی گئی ہے۔ جس سے بے مثل پیکر اُبھرتا چلا آرہا ہے۔ اب حضرت نوریؔ بریلوی کے ان اشعار کو دیکھیے کہ بے مثل پیکرسے نعتیہ شاعری میں کیسے کیسے حسین و جمیل لالہ و گل کھلائے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے بے مثل پیکر کی مثالیں ؎
محالِ عقل ہے تیرا مماثل اے مرے سرور
تَوَہُم کر نہیں سکتا ہے عاقل تیرے ہم سر کا
آپ کا مثل شہا کیسے نظر میں آئے
کس نے دیکھی ہے بھلا اہل عدم کی صورت
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نظر نظیر نہ آیا نظر کو کوئی کہیں
جچے نہ غلماں نظر میں نہ حور آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دوجہاں میں کوئی تم سا دوسرا ملتا نہیں
ڈھونڈتے پھرتے ہیں مہر و مہ پتا ملتا نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ کیا میں نے کہا مثلِ سما تم ہو معاذ اللہ!
منزّہ مثل سے برتر ز ہر وہم و گماں تم ہو
ان اشعار میں عقلاً مماثل کو ہونا محال، ہم سری کا تَوَہُم نہ کر سکنا، اہلِ عدم کی صورت نہ دیکھنا، نظر کو نظیر کا نہ آنا، مہر و مہ و انجم کے ڈھونڈنے پر بھی دوسرا نہ ملنا، وہم و گمان میں بھی مثل سے منزّہ و برتر ہونا۔۔ یہ بے مثل پیکر کے ایسے حسین و جمیل تصورات و تخیلات ہیں جن سے ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کا بے نظیر و بے مثیل پیکر اُبھرتا ہے۔ اگرچہ ان اشعار میں بے مثل پیکر کے جس اسلوب کو برتا گیا ہے وہ بالکل عام فہم اورسلیس و سادہ ہے۔ تاہم فنِ نعت کا یہی سب سے بڑا کمال ہے کہ اس میں مقامِ نبوت کو حد درجہ حزم و احتیاط کے ساتھ اس حسیٖن اسلوب سے بیان کیا جائے کہ دامنِ تقدیس پر تنقیص کی گرد بھی نہ پڑے اور نہ ہی مقامِ عبدیت کو مقامِ الوہیت تک پہونچا دیا جائے۔ حضرت نوریؔ بریلوی اس خارا شگاف وادی سے بہ آسانی اور اہتمام کے ساتھ گزر گئے جو آپ کے قادر الکلام شاعر ہونے کی بیّن دلیل ہے۔
نوری پیکر:بے مثل پیکر کی طرح نوری پیکر بھی صنفِ نعت ہی کی ایک پیکری علامت ہے۔ جس میں تشبیہات کے ان تنزیہی تصورات و تخیلات کو واضح کیا جاتا ہے جو ممدوح کی ذات و صفات کے تناظر میں نورانی کوائف کا ماحصل لیے ہیں۔ چوں کہ ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ان اوصاف سے متصف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نعت کے تقدیسی و ملکوتی اور ایمان افروز ماحول میں نوری پیکر کی فراوانی ملتی ہے۔ کلامِ نوریؔ سے نوری پیکر کی مثالیں ؎
بنا عرشِ بریں مسند کفِ پائے منور کا
خدا ہی جانتا ہے مرتبہ سرکار کے سر کا
مٹے ظلمت جہاں کی نور کا تڑکا ہو عالم میں
نقابِ روئے انور اے مرے خورشید اب سرکا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وصف کیا کوئی لکھے اس مہبطِ انوار کا
مہر و ماہ میں جلوہ ہے جس چاند سے رُخسار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ آئیں تیرگی ہو دور میرے گھر بھر کی
شبِ فراق کی یارب سحر ہو جائے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نصیب تیرا چمک اُٹھا دیکھ تو نوریؔ
عرب کے چاند لحد کے سرہانے آئے ہیں
ان تمام اشعار میں عرشِ بریں کا کفِ پائے منور کا مسند بننا، نقابِ روئے انور سے عالم میں نور کا تڑکا ہونا، مہر و ماہ میں چاند سے رُخسار کا جلوہ ہونا، رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر آنے سے تیرگی کا دور ہونا اور شبِ فراق کا سحر ہونا، عرب کے چاند کا لحد کے سرہانے آنا۔۔ نوری پیکر کے لطیف تمثالی تصورات و تخیلات روشن کر رہے ہیں۔ جس سے نعت کا کیف و سرور دو بالا ہوتا جا رہا ہے۔
اب آئیے جمالیاتی پیکر، آتشیں پیکر اور لُونی پیکر پر کچھ گفتگو کرتے ہیں اگرچہ یہ سارے پیکر قدرے فرق کے ساتھ نوری پیکر کا تلازمہ کہے جا سکتے ہیں اس لیے ان پیکروں کو علاحدہ بیان کیا جا رہا ہے۔
جمالیاتی پیکر : جمالیاتی پیکر میں نوری پیکر بھی شامل ہوتا ہے۔ مگر لُونی پیکر میں ایک خاص رنگت، نمکینیت اور ملاحت کا استدراکی پہلو متصور ہوتا ہے۔ اس لیے محاکات میں لُون کو جمال قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کہ لُون کی بہ نسبت جمالیاتی پیکر میں وسعت نمایاں ہوتی ہے اور اس کا دائرۂ حُسن لُونی پیکر سے ممتاز ہوتا ہے بر خلاف لُونی پیکر کے۔ کلامِ نوریؔ میں جمالیاتی پیکر کی مثالیں نشانِ خاطر ہوں ؎
کھُلے ہیں دیدۂ عشاق خوابِ مرگ میں بھی
کہ اس نگار کاہے انتظار آنکھوں میں
بسا ہوا ہے کوئی گل عذار آنکھوں میں
کھِلا ہے چار طرف لالہ زار آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ گھٹا جھوم کے کعبہ کی فضا پر آئی
اُڑ کے یا ابرو پہ چھائے ہیں تمہارے گیسو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ حسیں کیا جو فتنے اُٹھا کر چلے
ہاں ! حسیں تم ہو فتنے مٹا کر چلے
مذکورہ اشعار میں خوابِ مرگ میں انتظار کے لیے دیدۂ عشاق کا کھُلا رہنا، فضائے کعبہ پہ گھٹا کا اُڑ کے آنا، ابرو پہ گیسو کا چھا جانا، حسیٖن کا فتنے اُٹھا کر چلنا۔۔ جمالیاتی پیکر کی انتہائی دل کش تصویریں ہیں۔
آتشیں پیکر:آتشیں پیکر کا نوری پیکر سے ایک گہرا تعلق اور رشتہ ہے۔ مگر یک گونہ آتشیں پیکر نوری پیکر سے جدا ہے۔ چوں کہ آتشیں پیکر میں سوختگی، جلن اور سوزش کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے اس لیے ہر نوری پیکر کو آتشیں پیکر سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ پھر آتشیں پیکر میں دوٗد کا کثیف مادّہ بھی ہوتا۔ جس کو صنفِ نعت میں برتنے کے لیے شعری محاسن پر گہری نظر ہونے کے ساتھ علمی گہرائی و گیرائی بھی ضروری ہے، ورنہ اس سے پیکر کی پاک و صاف چادر داغ دار ہو جائے گی۔ آتشیں پیکر کی وہ قدریں جو متعلقات سے تعبیر ہیں ان کو صنفِ نعت میں مقام دیا جا سکتا ہے اور اس سے پیکر تراشی قبیح نہیں کہلائے گی۔ کلامِ نوریؔ سے آتشیں پیکر کی مثالیں ؎
مرقدِ نوریؔ پہ روشن ہے یہ لعلِ شب چراغ
یا چمکتا ہے ستارہ آپ کی پیزار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شربتِ دید نے اور آگ لگا دی دل میں
تپشِ دل کو بڑھایا ہے بجھانے نہ دیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ ہیں خورشیدِ رسالت نور کا سایہ کہاں
اس سبب سے سایۂ خیر الورا ملتا نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دل تپا سوزِ محبت سے کہ سب میل چھٹے
تپنے کے بعد ہی تو سونا کھرا ہوتا ہے
ان اشعار میں لعلِ شب چراغ کا مرقد پہ روشن ہونا، پیزاروں کا ستارہ چمکنا، شربتِ دید سے دل میں آگ لگنا، تپشِ دل کا نہ بجھنا بلکہ بڑھنا، خورشیدِ رسالت میں بہ وجہِ نور سایہ نہ ہونا، سوزِ محبت میں دل تپ کر میل کا چھٹنا ۔۔ محاکاتِ شعری کے آتشیں پیکر ہیں۔
ان اشعار میں آتشیں پیکر کو برتنے کا جوحسین و جمیل انداز ہے اس کو دیکھ کر بے ساختہ دل سے سبحان اللہ! کی داد نکلتی ہے۔ نوریؔ بریلوی نے آتشیں پیکر میں چراغ کا جلنا، آگ لگنا، دل کا تپنا۔۔ اس حسیٖن انداز سے استعمال کیا ہے کہ یہاں سوختگی، جلن اور سوزش کی کیفیات و احساسات کا ادراک تو ہوتا ہے مگر دُوٗد کی کثافت کا دور دور تک پتہ نہیں چلتا۔ جس سے نعت کا تقدس بھی برقرار رہتا ہے اور اس کی ملکوتیت بھی۔۔
لُونی پیکر: لُونی پیکر ایک خاص رنگت، نمکینیت اور ملاحت کا حامل پیکر ہے۔ لُون کا جمالیات سے انتہائی گہرا تعلق ہے۔ یہ دراصل جمالیات ہی کے دائرۂ کار کی درخشندگی اور تابندگی کا ایک پیکری کردار ہوتا ہے۔ تاہم قدرے فرق کے سبب اس کو علاحدہ رکھا جا سکتا ہے۔ اب لُونی پیکر کے چند اشعار کلامِ نوریؔ سے خاطر نشین ہوں ؎
تیرے باغِ حُسن کی رونق کا کیا عالم کہوں
آفتاب اک زرد پتّہ ہے ترے گلزار کا
زرد رُو کیوں ہو گیا خورشیدِ تاباں سچ بتا
دیکھ پایا جلوہ کیا اس مطلعِ انوار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جو سوختہ ہَیزُم کو چاہو تو ہرا کر دو
مجھ سوختہ جاں کا بھی دل پیارے ہرا کرنا
ان اشعار میں آفتاب کا باغِ حُسن کا ایک زرد پتّہ ہونا، مطلعِ انوار کا جلوہ دیکھ کر خورشید کازرد ہو جانا، سوختہ جاں کے دل کو ہرا کرنا۔۔ لُونی پیکر کی زندہ مثالیں ہیں۔
یہ تھا حضرت نوریؔ بریلوی کی نعتیہ شاعری میں محاکات اور پیکر تراشی کا تجزیاتی جائزہ ، آپ کی نعتیہ شاعری کے محرکات داخلی اور خارجی دونوں ہیں۔ مگر داخلیت اس قدر غالب ہے کہ وہ آئینۂ قلب و رُوح کو صیقل اور مجلّا کرتی ہے۔ آپ کی شاعری میں پیکر کا جو حسیٖن و جمیل امتزاج ہے و ہ سمعی، بصری، لمسی، مذوقی، شامّی، جمالیاتی، لونی، آتشیٖں پیکر تراشی کا نگار خانہ ہے۔ جس سے جمالیاتی حس کو بھر پور تسکیٖن ملتی ہے۔ ان استعاروں اور پیکروں سے نوریؔ بریلوی کی جمالیاتی حسّیت اور بصیرت کی آب و تاب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ کلامِ نوریؔ کے بین السطور میں روحانی، عرفانی، اقداری اور اخلاقی شعور و آگہی کا ادراک بھی ہوتا ہے۔ آپ کے بیش تر شہ پارے جھلملاتے پیکروں کا حسیٖن جھرمٹ معلوم ہوتے ہیں۔ نئے اور بدیع مرکّبات، استعارات و پیکرات ان کی قوتِ متخیلہ اور شعری حرکیت کو عیاں کرتے ہیں۔ آپ کے تئیں برتے گئے پیکروں میں پاکیزگی، لطافت، روحانیت اور صداقت بھی جھلکتی ہے جن سے قلب و ذہن میں شیفتگی، شگفتگی، فریفتگی اور شادابی پیدا ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی اُجاگر ہوتی ہے کہ نوریؔ بریلوی کی شاعری کا محور و مرکز رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی اُلفت و محبت اور تعظیم و توقیر ہے، کہ یہی امر اُن کی نعت گوئی سے شغف کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اور اسی جذبے کے اظہار کے لیے آپ نے نعت گوئی کے میدان میں قدم رکھا۔
٭٭
(1) سلیم شہزاد:فرہنگِ ادبیات، منظر نما پبلشرز، مالیگاؤں، 1998ئ، ص16
(2) علی گڑھ میگزین:77/1976ئ، لیتھو کلر پرنٹرس، اچل تال، علی گڑھ، ص38
(3) عبد النعیم عزیزی، ڈاکٹر:کلامِ رضا کے نئے ادبی زاویے، مطبوعہ بریلی، ص33
(4) سلیم شہزاد:فرہنگِ ادبیات، منظر نما پبلشرز، مالیگاؤں، 1998ئ، ص197
(5) سلیم شہزاد:فرہنگِ ادبیات، منظر نما پبلشرز، مالیگاؤں، 1998ئ، ص198
(6) ابنِ فریٖد:میں اور ادب، اسرار کریمی پریس، الٰہ آباد، ص 37
اظہارِ صداقت:اس ضمنی باب کی تیّاری میں راقم نے معروف ادیب و شاعر خلیفۂ حضور تاج الشریعہ حضرت مولانا قمر الحسن بستوی (النور مسجد، ہیوسٹن، امریکا) کے مقالے ’’مفتیِ اعظم کی پیکر تراشی ‘‘ سے جزوی مدد لی ہے۔ مُشاہدؔ
٭٭٭
دیگر اصنافِ ادب کے مقابل نعت میں خیال آفرینی، مضمون آفرینی، معانی آفرینی، جدتِ ادا، ندرتِ بیان، شوکتِ لفظی، شکوہِ الفاظ، علوئے فکر، اوجِ تخیل، طرزِ ادا کا بانکپن، شوخی و طراوت، بندش و چُستی، نغمگی و موسیقیت، بے ساختگی و برجستگی، نیرنگی و زورِ کلام، نکتہ آفرینی و نکتہ سنجی، فلسفیانہ و عالمانہ مصطلحات اور تنوعِ خیال جیسے عناصر کا استعمال مشکل ترین امر ہے۔ کیوں کہ نعت نگار کے لیے ان عناصر کے استعمال سے زیادہ اہمیت کا حامل نکتہ حزم و احتیاط اور شریعتِ مطہرہ کا پاس و لحاظ ہے۔ نعت کے تنگنائے میں شاعر کے لیے ان خوبیوں اور عناصر کا استعمال کرنا جذباتِ عشق و محبت کی صداقت و سچائی اور اللہ رب العزت کی عطائے خاص پر مبنی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شاعری صرف موزوں مصرعوں کے جوڑ توڑ اور ردیف و قافیے کے صحیح استعمال کا نام نہیں۔ بل کہ معیاری شاعری وہی تسلیم کی جاتی ہے جن میں کلام کی یہ خوبیاں اور بیان وبدیع کے یہ عناصر موجود ہوں وگر نہ وہ اعلا شاعری نہیں بل کہ تُک بندی ہی کہلائے گی چناں چہ مشہور ادیب و محقق ڈاکٹر صابر سنبھلی اس ضمن میں اپنے خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں۔ :
’’شاعری محض موزوں مصرعوں کے جوڑ توڑ اور ردیف و قافیے کے استعمال کا نام نہیں ہے، اگر الفاظ کے ایسے اجتماع جس میں ردیف و قوافی تو موجود ہوں مگر تخیل کی کارفرمائی نہ ہو اسے تُک بندی یا برائے نام شاعری تو کہا جا سکتا ہے، اعلا درجے کی شاعری نہیں۔ تخیل کی بلندی سے کلام میں جو خوبیاں پیدا ہوتی ہیں، وہ ہیں تشبیہات واستعارات، تمام صنائع معنوی، اصلیت، باریک بینی، بلند خیالی، جذبات نگاری، جوش، دقتِ نظر، زورِ کلام، فلسفیانہ نکات، طنز، محاکات، مرقع نگاری، منظر نگاری، مطائبات، معاملہ بندی، نزاکتِ خیال، نکتہ آفرینی وغیرہم ، ان خوبیوں کی وجہ سے کسی شاعر کی کوشش صحیح معنی میں شاعری بنتی ہے۔ ‘‘(یادگارِ رضا : سالنامہ، رضا اکیڈمی، ممبئی، 2004ء، ص 42)
ہم اس بات سے بہ خوبی واقف ہیں کہ نعت کا میدان بہت محدود ہے۔ اس لیے اس میں ان عناصر اور خوبیوں کا کماحقہٗ استعمال مشکل ہے۔ مگر ہمارے مستند اور جید نعت گو شعرا نے اس احسن انداز اور طرزِ ادا سے نعت گوئی کے چمنستان میں خیال آفرینی، جدتِ ادا، ندرتِ بیان اور نئے رنگ و آہنگ اور مزاج کے وہ حسین و جمیل گل بوٹے کھِلائے ہیں کہ بے ساختہ سبحان اللہ! کہنے کو جی چاہتا ہے۔
رحمتِ عالم، ختمیِ مرتبت صلی اللہ علیہ و سلم کا حسین و جمیل سراپا، حق گوئی، اخلاقِ کریمانہ، سادگی و صفائی، سخاوت و فیاضی، داد و دہش، روضے کے دیدار کی خواہش و تمنا، روزِ محشر شفاعت و دادرسی کی آرزو، آپ سے طلبِ استعانت ودست گیری، معجزات و تصرفات اور معمولاتِ روز و شب وغیرہ ان جیسے بہت سے مضامین سے اردو کی روایتی نعتیہ شاعری مالامال ہے۔ جن شعرا نے اپنی پوری توجہ نعت گوئی پر مرکوز کر دی انہوں نے اگرچہ انھیں موضوعات و خیالات کا سہارا لیا مگر بات کہنے کے انداز اور سلیقے نے مضمون کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا اور قاری و سامع کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جو پڑھ اور سُن رہاہے وہ بالکل نیا اور اچھوتا مضمون اور خیال ہے۔
شاعری میں کلام کے حُسن کو دوبالا کرنے کے لیے خیال آفرینی کا سہارا لینا شاعر کے لیے ناگزیر امر ہے۔ ندرتِ بیان، نادرہ کاری، تازہ کاری، جدتِ ادا اور لطافتِ معنی بھی اس کی مختلف شکلیں ہیں یا قدرے فرق کے ساتھ بدلے ہوئے نام ہیں۔
چودہویں صدی ہجری میں برِ صغیر ہند و پاک کے چند مشہور نعت گو شعرا میں امیرؔ مینائی، احمد رضاؔ بریلوی، حسنؔ رضا بریلوی، محسنؔ کاکوروی، ضیا القادری بدایونی، حافظؔ پیلی بھیتی وغیرہ کے نام خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔ ان شعرا کے بعدمصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی بھی نعت گو شعرا میں منفرد اور ممتاز مقام و منصب کے حامل مانے جاتے ہیں۔ یہاں آپ کے کلام میں خیال آفرینی کا جائزہ مقصود ہے۔
رسولِ محترم صلی اللہ علیہ و سلم کا ادب و احترام آپ کی تعظیم و توقیر اور عظمتِ شان ایمانی عقیدہ ہے۔ اور یہی عقیدہ ایمان و اسلام کی جان ہے اگر یہ نہ ہو تو کوئی شخص مومن تو درکنار مسلمان بھی نہیں ہوسکتا۔ یوں ہی مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کے علوئے مرتبت اور رفعت و منزلت کا کما حقہ‘ بیان کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ آپ کا رتبہ و مرتبہ اللہ رب العزت ہی صحیح معنوں میں جانتا ہے۔ حضرت نوریؔ بریلوی کی نثر و نظم میں ہر جگہ اس عقیدے کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ یوں تو بیش تر نعت گو شعرا کے کلام میں ان عقائد کے جلوے نظر آتے ہیں لیکن کلامِ نوریؔ میں ان مضامین کے بیان میں خیال آفرینی کا اچھوتا اور دل کش انداز خاطر نشین ہو ؎
جانِ ایماں ہے محبت تری جانِ جاناں
جس کے دل میں یہ نہیں خاک مسلماں ہو گا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بنا عرشِ بریں مسند کفِ پائے منور کا
خدا ہی جانتا ہے مرتبہ سرکار کے سر کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
علوئے مرتبت پیارے تمہاراسب پہ روشن ہے
مکینِ لامکاں تم ہو شہ عرشِ عُلا تم ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تمہارے فیض سے لاٹھی مثالِ شمع روشن ہو
جو تم لکڑی کو چاہو تیز تر تلوار ہو جائے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہزار آنکھیں ہیں تاروں کی اک گلِ مہتاب
یہ ایک پھول ہے جیسے ہزار آنکھوں میں
یوں ہی ہیں ماہِ رسالت بھی سب نبیوں میں
کرور آنکھوں نہیں بے شمار آنکھوں میں
رسولِ کریم، قاسمِ نعمت صلی اللہ علیہ و سلم کی داد و دہش، جود و عطا، سخاوت و فیاضی اور عطائے عام و فیضِ دوام کے بارے میں مختلف اسالیب میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ نوریؔ بریلوی کا دل کش اسلوب نکتہ آفرینی اور خیال آفرینی لیے ہوئے ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں ؎
دو عالم صدقہ پاتے ہیں مرے سرکار کے در کا
اسی سرکار سے ملتا ہے جو کچھ ہے مقدر کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جو آیا لے کے گیا کون لوٹا خالی ہاتھ
بتا دے کوئی سُنا ہو جو ’لا‘ مدینے سے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
محروم نہیں جس سے مخلوق میں کوئی بھی
وہ فیض انھیں دینا وہ جود انھیں کرنا
ہے عام کرم ان کا اپنے ہوں کہ ہوں اعدا
آتا ہی نہیں گویا سرکار کو ’لا‘ کرنا
محروم گیا کوئی مایوس پھرا کوئی
دیکھا نہ سُنا ان کا انکار و اِبا کرنا
حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے جسمِ پاک کی لطافت اور نورانیت سے متعلق احادیثِ طیبات بہ کثرت وارد ہیں۔ آپ کے جسمِ لطیف کا سایہ نہ تھا۔ اس مضمون کو نعت میں نوریؔ بریلوی نے مختلف مقامات پر پیش کیا ہے۔ اور ہر جگہ نیا اسلوب اور اندازِ بیان ہے۔ نیا اور اچھوتا خیال ہے۔ دل کش انداز کے ساتھ آپ کے یہاں کہیں عاشقانہ رنگ ہے تو کہیں استدلالی رنگ ؎
نہ سایا روح کا ہرگز نہ سایا نور کا ہرگز
تو سایا کیسا اس جانِ جہاں کے جسمِ انور کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ ہیں خورشیدِ رسالت نور کا سایا کہاں
اس سبب سے سایۂ خیرالورا ملتا نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو ہے نورِ خدا پھر سایہ کیسا
کہیں بھی نور کا سایا پڑا ہے
تو ہے ظلِ خدا واللہ باللہ
کہیں سایے کا بھی سایہ پڑا ہے
زمیں پر تیرا سایہ کیسے پڑتا
ترا منسوب ارفع دائما ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بے مثالی اور بے نظیری کتاب و سُنّت سے ثابت ہے۔ آپ بے مثل و بے نظیر ہیں۔ اس مضمون کو نوریؔ بریلوی نے نعت میں بڑی نزاکت و لطافت سے بلند تخیل کے ساتھ قلم بند کیا ہے ؎
محالِ عقل ہے تیرا مماثل اے مرے سرور
تَوَہُم کرنہیں سکتا ہے عاقل تیرے ہم سر کا
اسی مضمون کو بالکل نئے اور اچھوتے پیرایہ میں ایک جگہ یوں بیان کرتے ہیں ؎
مثل ممکن نہیں ہے ترا اے لاثانی
وہم نے بھی تو ترا مثل سمانے نہ دیا
علاوہ ازیں نکتہ آفرینی اور خیال آفرینی کے ساتھ ساتھ بلندیِ تخیل اور ندرتِ ادا کا بانکپن خاطر نشین ہو ؎
نظر نظیر نہ آیا نظر کو کوئی کہیں
جچے نہ غلماں نظر میں نہ حور آنکھوں میں
شہرِ محبوب، آستانۂ محبوب، کوچۂ محبوب اور دیارِ محبوب کے کانٹوں سے محبت ہر عاشقِ صادق کے لیے باعثِ راحتِ جان و سرورِ قلب و سینہ ہے۔ مدینے کے خاروں کے سامنے لالہ و گل کی نازکی اُن کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ نوریؔ بریلوی کے کلام میں بھی اس کا ذکرِ جمیل نو بہ نو انداز میں ملتا ہے ؎
ضیا بخشی تری سرکار کی عالم پہ روشن ہے
مہ و خورشید صدقہ پاتے ہیں پیارے ترے درکا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ سبز سبز نظر آرہا ہے گنبدِ سبز
قرار آ گیا یوں بے قرار آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آبلے پاؤں میں پڑ جائیں جو چلتے چلتے
راہِ طیبہ میں چلوں سر سے قدم کی صورت
دم نکل جائے مرا راہ میں اُن کی نوریؔ
ان کے کوچے میں رہوں نقشِ قدم کی صورت
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نہ کیسے یہ گل و غنچہ ہوں خار آنکھوں میں
بسے ہوئے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں
نظر میں کیسے سمائیں گے پھول جنت کے
کہ بس چکے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں
رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ مقدسہ حُسنِ سیرت کے ساتھ ساتھ حُسنِ صورت کے لحاظ سے بھی سب سے اعلا و ارفع اور بے مثل و بے نظیر ہے۔ ان جیسا حسین و جمیل اور خوب صورت نہ اُن سے پہلے کوئی ہوا نہ بعد میں، غزلیہ شاعری میں سراپا نگاری شعرا کے نزدیک محبوب و مرغوب ہے۔ شعرا اپنے محبوب کی سراپا بیانی کے لیے نت نئے انداز اور اسلوب کو اختیار کرتے ہیں۔ مگر جب عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حُسن و جمال، روئے تاباں، جمالِ جہاں آرا اور جبینِ منور کی ثنا خوانی و قصیدہ سرائی کرتا ہے تو معنی و مفہوم کا عمل اور خیال آفرینی کا نکھرا ہوا پیرایۂ اظہار طبیعت پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتا ہے۔ یہاں یہ امر ملحوظ رہ کہ نعت میں سیدِ کونین صلی اللہ علیہ و سلم کا نورانی سراپا بلا شبہ بیان کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس بیانیہ میں کسی بھی قسم کا رطب و یابس نہ ہو بل کہ سیرت کی معتبر کتب میں جو شمائل محدثین اور سیرت نگاروں نے قلم بند کیے ہیں۔ نعت میں وہی موضوعات پیش کیے جائیں۔ یہ کہنا کہ سراپا نگاری پر مبنی نعت کو کسی طور پر نعت نہیں کہی جا سکتی اور یہ کہ نعت صرف نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت اور توصیف پر مبنی منظومات ہیں تو یہ بات مقالہ نگار کے نزدیک نادرست ہے۔ کیوں کہ ہر و ہ ادب پارہ جس سے قاری یا سامع کے ذہن و دل میں نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کا تصور ابھرے اور جس میں آقائے کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلقات و مناسبات لکھے جائیں وہ نعت ہے اب چاہے و ہ نثر ہو یا نظم۔
جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے حُسنِ پاک کے ذکر و بیان میں نوریؔ بریلوی کا سادگی و معنویت سے پُر، جدتِ ادا سے معمور، خیال آفرینی سے مملو شعر نشانِ خاطر کریں ؎
وہ حَسیٖں کیا جو فتنے اُٹھا کر چلے
ہاں ! حَسیٖں تم ہو فتنے مِٹا کر چلے
’’حَسیٖن‘‘ کا تصور و تخیل اہلِ دنیا کے نزدیک فتنہ سامانیوں اور حشر انگیزیوں کا سبب رہا ہے۔ مگر نوریؔ بریلوی کے بلندیِ تخیل اور شکوہِ لفظی نے حُسن کو ایک نئی دل کش معنویت عطا کی ہے۔ ’’حَسیٖن‘‘ وہ کیا جو فتنہ سامانیوں اور حشر انگیزیوں کا سبب بنے بل کہ ’’حَسیٖن ‘‘ تو درحقیقت حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ مقدسہ ہے۔ جس نے اس عالمِ رنگ و بُوسے جملہ فتنہ وفسا د کا مکمل طور پر خاتمہ فرما دیا اور کرب و غم میں ڈوبی ہوئی اس زمین کو محبت و اُخوّت کا سرچشمہ اور گہوارہ بنا دیا۔ لفظِ ’’حَسیٖن‘‘ کا اتنا حَسیٖن، دل کش اور خوب صورت استعمال نوریؔ بریلوی کی طہارتِ نفسی، وجدان کی پاکیزگی اور فکری تقدس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کی گہری وابستگی کی صادق مثال ہے۔
تخیل کی بلند پروازی بھی کسی کلام کو بہترین شعر بنا سکتی ہے۔ اس لیے شاعری کے لیے یہ قوت از بس ضروری ہے ورنہ شاعری تُک بندی بن کر رہ جائے گی۔ غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ مضمون آفرینی، خیال آفرینی اور نکتہ آفرینی شاعر کی قوتِ متخیلہ کا ہی حصہ ہے۔ مگر نعت میں اس کے استعمال میں حد درجہ حزم و احتیاط کی ضرورت ہے۔ غزل کی طرح نعت میں ہر جگہ اور ہر موقع پر اس کا استعمال نہیں ہوسکتا۔ نوریؔ بریلوی نے جمالِ مصطفوی صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصاف کا بیان جس حُسن و خوبی کے ساتھ کیا ہے اس سے آپ کے تخیل کی بلند پروازی، علوئے فکر اور خیال آفرینی کو محسوس کیا جا سکتا ہے ؎
تمہارا حُسن ایسا ہے کہ محبوبِ خدا تم ہو
’مہ‘ کامل کرے ’کسبِ ضیا‘ وہ ’مہ لقا‘ تم ہو
مذکورہ شعر میں ’’مہ کامل۔۔ کسبِ ضیا۔۔ مہ لقا‘‘ کے بیان میں معنی آفرینی کے ساتھ خیال آفرینی اور بلند پروازی بھی ہے۔ اسی طرح بالکل نیا خیال اور اچھوتا مضمون ؎
جلوۂ حُسنِ جہاں تاب کا کیا حال کہوں
آئینہ بھی تو تمہیں دیکھ کے حیراں ہو گا
مذکورہ بالا شعرمیں مصرعِ ثانی میں بالکل نیا اور اچھوتا خیال قلم بند کیا ہے جوکسی کے یہاں نظر نہیں آتاکہ ’’آئینہ بھی تو تمہیں دیکھ کے حیراں ہو گا‘‘۔
علاوہ ازیں بلا تبصرہ چند اشعار اور خاطر نشین فرمائیں جن میں خیال آفرینی کا جوہر مکمل آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے ؎
وصف کیا کوئی لکھے اس مہبطِ انوار کا
مہر و ماہ میں جلوہ ہے جس چاند سے رُخسار کا
فق ہو چہرہ مہر و ماہ کا ایسے منہ کے سامنے
جس کو قسمت سے ملے بوسہ تری پیزار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
رو کشِ خلدِ بریں ہے دیکھ کوچہ یار کا
حیف! بلبل اب اگر لے نام تو گل زار کا
تیرے باغِ حُسن کی رونق کا کیا عالم کہوں
آفتاب اک زرد پتہ ہے ترے گل زار کا
جلوہ گاہِ خاص کا عالم بتائے کوئی کیا
مہرِ عالم تاب ہے ذرّہ حریمِ یار کا
زرد رُو کیوں ہو گیا خورشیدِ تاباں سچ بتا
دیکھ پایا جلوہ کیا اس مطلعِ انوار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تمہارا نور ہی ساری ہے ان ساری بہاروں میں
بہاروں میں نہاں تم ہو بہاروں سے عیاں تم ہو
تمہارے حُسن و رنگ و بُو کی گل بوٹے حکایت ہیں
بہارِ گلستاں تم ہو بہارِ بوستاں تم ہو
تمہاری تابشِ رُخ ہی سے روشن ذرّہ ذرّہ ہے
مہ و خورشید و انجم برق میں جلوہ کُناں تم ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اے کہ تیری ذاتِ عالی سرِّ ہر موجود ہے
اے وہ سرور جس پہ صدقے بود ہر نابود ہے
اے وہ جس کا در، درِ فیض و سخا و جود ہے
اے وہ جس کا باب دشمن پر بھی نامسدود ہے
اے وہ جس کا رب ہے شاہد اور وہ مشہود ہے
اے وہ جس کا رب ہے حامد اور وہ محمود ہے
اے وہ جس کا رب ہو قاصد اور وہ مقصود ہے
اے کہ جس کا جود ایسا ہے کہ لا مقصود ہے
٭٭٭
تحقیق کی روشنی میں یہ بات واضح کی جا چکی ہے کہ نوریؔ بریلوی اپنے عہد کے ممتاز عالم و فاضل، مفسر و محدث، فقیہ و مدرس، بلند پایہ ادیب، صاحبِ طرز انشا پرداز اور عظیم نعت گو شاعر کہلاتے تھے۔ آپ کا خانوادہ علم و فضل، زہد و تقوا، خشیتِ ربانی اور عشقِ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و سلم میں اپنی مثال آپ تھا۔ جدِ امجد مولانا رضا علی خاں (م1282ھ / 1866ء)، جدِ کریم مولانا نقی علی خاں (م1297ھ)، وا لدِ گرامی امام احمد رضا محدثِ بریلوی (م 1340ھ /1921ء) اور دیگر بزرگانِ خاندان نے علم و ادب کی وہ خدمات انجام دی ہیں کہ انھیں یقیناً آبِ زر سے تحریر کرنا چاہیے۔ صرف آپ کے والدِ ماجد امام احمد رضا محدثِ بریلوی نے لگ بھگ ہزار کتب و رسائل قلم بند کر کے دین و ملّت اور علم و ادب کے ایسے ماہ و نجوم درخشاں کیے ہیں جن کی روشنی میں دنیا بھر کے مسلمان اپنی فکر و نظر کا کارواں رواں دواں کیے ہوئے ہیں۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کو شاعری ورثے میں ملی تھی۔ آپ نے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے اظہار کے لیے شاعری کو بہ طورِ وسیلہ استعمال کیا۔ آپ کا کلام ایک عارف کے قلب و روح کی صدائیں ہیں علمی گیرائی و گہرائی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سوزِ والہانہ نے آپ کے کلام کو سادگی و معنوی دونوں حُسن سے مالامال کر دیا۔ آپ کو زبان و بیان پر عالمانہ و فاضلانہ دسترس حاصل تھی۔ آپ کلی طور پر زبان کی نزاکتوں اور باریکیوں سے بہرہ ور تھے۔ چوں کہ آپ نظم کے ساتھ ساتھ نثر پر بھی مہارتِ تامّہ رکھتے تھے اور ۴۰ کے لگ بھگ نثری کتب و رسائل، فتاوے اور حواشی آپ کی علمی یادگاریں ہیں جو کہ علم و ادب کا اَعلا ترین شاہ کار ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شاعر اپنے عہد اور زمانے کا ترجمان اور نقیب ہوتا ہے۔ اُس کی قوتِ متخیلہ پر اپنے عہد کے حالات اور ماحول کے بہت ہی گہرے اثرات مُرتسم ہوتے ہیں۔ شاعر اپنے کلام میں غیر محسوس طور پر اپنے دور سے قبول کیے ہوئے اثرات کو بیان کرتا ہے۔ شاعر کی انہی کیفیات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر سراج احمد بستوی راقم ہیں :
’’ شاعر اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے وہ جو کچھ دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے اور جو کچھ اس پر گزرتی ہے اس کو وہ اپنی زبان، اپنے بیان اور اپنے انداز و لب و لہجہ میں نظم کرتا ہے کسی بھی شاعر کی تخلیقات کا غائر نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد آسانی کے ساتھ اس کی تخلیقات کی زبان و بیان کا تعین کیا جا سکتا ہے کہ یہ فلاں عہد کا شاعر ہے اس کی زبان فلاں عہد کی ہے۔ ‘‘(1)
اس پس منظر میں جب ہم نوریؔ بریلوی کے عہد کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ وہ دور تھا جب اردو اپنے تشکیلی عہد سے نکل کر عنفوانِ شباب کی دہلیز بھی پار کر چکی تھی اور اردو زبان و بیان میں اس دور میں خاصی ترقی بھی ہوئی تھی۔ ادب کی مختلف تحریکات سے وابستہ ادبا، شعرا اور علمائے کرام نے اردو زبان و بیان کو خوب آگے بڑھایا اور اس کی زُلفِ برہم کو اس حُسن و خوبی سے نکھارا اور سنوارا کہ نثر و نظم میں نت نئے تجریدی تجربات ہونے لگے۔
چناں چہ نوریؔ بریلوی کے پیرایۂ زبان و بیان کا جائزہ لینے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ موصوف نے جس ماحول میں نشوونما پائی وہاں زبان و ادب کا کیا حال تھا۔
تحقیق سے یہ امر ظاہر ہوتا ہے کہ نوریؔ بریلوی کے عہد میں شاعری کا بڑا غلغلہ تھا۔ زبان و بیان کی دھوم مچی ہوئی تھی ان حالات کو بہ آسانی فہم کر لینا دشوار گزار امر ہے۔ کیوں کہ نوریؔ بریلوی نے بیسویں صدی کا وہ دور دیکھا تھا جب کہ محسنؔ ، حالیؔ ، شبلیؔ اور نظمؔ طباطبائی کے قائم کردہ معیار میں مزید کچھ نئے رنگ وآہنگ کا اضافہ ہو گیا تھا۔ اُس دور میں نعتیہ شاعری دو حلقوں میں منقسم ہو گئی تھی۔ نعت گو شعرا کا ایک حلقہ حالیؔ ، شبلیؔ ، محسنؔ اور نظمؔؔ طباطبائی کے زیر اثر تھا تو دوسرا طبقہ امیرؔ مینائی، داغؔ دہلوی اورناسخؔ لکھنوی کے زیر اثر تھا۔ ان دونوں کے علاوہ اس دور میں ایک نئی، اچھوتی، ملکوتی، کوثر وتسنیم سے دھلی ہوئی، دل کش اور دل نشین آواز اُبھر رہی تھی جسے ہم تیسری آواز کہہ سکتے ہیں ، ۔۔ اور وہ آواز ہے امام احمد رضا محدثِ بریلوی کی۔۔ نوریؔ بریلوی نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اس میں رضاؔ بریلوی کی شاعری خصوصاً نعتیہ شاعری کا بڑا شہرہ تھا۔ آپ کی زبان و بیان کی پاکیزگی اور طہارت نے بے پناہ مقبولیت حاصل کر لی تھی۔ بچے بچے کی زبان پر آپ کا ترانۂ سلام’’ مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ ۔۔ اور نغماتِ نعت ’’ چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے ‘‘۔۔ ’’سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی (صلی اللہ علیہ و سلم )‘‘۔۔ جاری تھے اور دیگر نعتیہ اشعار اکنافِ عالم میں فردوسِ گوش بنے ہوئے تھے۔ آپ کی شہرت و مقبولیت نے آپ کی زبان و بیان کو وہ قبولِ عام عطا کیا کہ آپ کے عہد کے بیش تر نعت گو شعرا حسنؔ رضا بریلوی، محسنؔ کاکوروی، جمیلؔ بریلوی، حسنینؔ رضا بریلوی، نعیم الدین نعیمؔ مرادآبادی، سید محمد اشرفی سیدؔ کچھوچھوی، عبدالعلیم علیمؔ میرٹھی، حشمت علی عبیدؔ رضوی لکھنوی ثم پیلی بھیتی، حافظؔ پیلی بھیتی اور مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی وغیرہ نے آپ کا تتبع اختیار کیا اور نعتیہ شاعری کے میدان میں قدم رنجہ ہوئے۔
یہ ایک سچائی ہے کہ شاعر اپنے زمانے اور ماحول میں رچی بسی شاعرانہ خصوصیات کو اپنانا اپنے لیے لازمی اور ضروری قرار دیتا ہے۔ دراصل اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کی شاعری قبولیتِ عام کی سند سے یک سر محروم رہ جائے گی۔ نوریؔ بریلوی اپنے پیش رو شعرا کی ز بان و بیان کی تقلید تو کر رہے تھے مگر آپ کا پیرایۂ زبان و بیان، اندازِ نگارش اور طرزِ اظہار ان سے قدرے مختلف ہے۔ آپ کے کلام کے مطالعہ کی روشنی میں اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ آپ کے کلام میں زبان کی صحت کے ساتھ ساتھ سلاست، روانی، سادگی، بانکپن، پاکیزگی، طہارت اور صفائی وغیرہ نعتیہ شاعری کے جملہ اوصاف موجود ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آپ کے کلام میں معنویت کے ساتھ ساتھ سادگی اس درجہ غالب ہو گئی ہے کہ بعض غزلوں کی زمینیں بالکل سادہ سی ہو کر رہ گئی ہیں، ان میں نثریت آ گئی ہے اور غنائیت اور نغمگی مفقود ہو گئی ہے۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو یہ ان کی شاعری کا عیب یا فنّی سُقم نہیں بل کہ یہ تو ایک ہنر ہے۔ صاف، سہل اور سادہ گوئی میں جو کیف ہے وہ مشکل پسندی اور ادق الفاظ و تراکیب کے استعمال میں نہیں۔ ممدوح سے متعلق جو واقعات حقیقتاً ظہور پذیر ہوئے ہوں اور شاعر اپنے اشعار میں سادگی اور معنویت کے ساتھ انھیٖں امور کونظم کرے جو واقعتاً اُس کے اندر موجود ہوں تو یہی شاعر کا فنّی کمال ہے۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کا کلام سہلِ ممتنع کا اَعلا نمونہ ہے۔ اور شاعر کے اندر یہ مادہ تب ہی پیدا ہوتا ہے جب وہ شعر نظم کرنے میں مہارتِ تامّہ حاصل کر لیتا ہے۔ ورنہ نو مشق و نو آموز شعرا تو مشکل اور ادق الفاظ و تراکیب کا استعمال کرنے میں شہرت رکھتے ہیں چہ جائے کہ معنویت مفقود ہو۔ سہل اور سیدھے سادے الفاظ میں اپنا مقصد ادا کرنا ہی دراصل قادرالکلامی ہے اس پر وہی حاوی ہوسکتا ہے جو زبان و بیان سے مکمل طور پر آگاہی رکھتا ہو۔
نوریؔ بریلوی نے اپنے والدِ ماجد رضاؔ بریلوی سے بہت زیادہ اثرات قبول کیے۔ نوریؔ بریلو ی کا پیرایۂ زبان و بیان رضاؔ بریلوی کے پیرایۂ زبان و بیان سے حد درجہ مماثلت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کے کلام میں صوتی و معنوی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ جس کی درجنوں مثالیں دونوں کے کلام سے پیش کی جا سکتی ہیں۔ جن سے نوریؔ بریلوی کے پیرایۂ زبان و بیان کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے ؎
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
’نہیں ‘ سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
مانگیں گے مانگے جائیں گے منہ مانگی پائیں گے
سرکار میں نہ ’لا‘ ہے نہ حاجت اگر کی ہے
(رضاؔ )
جس نے جو مانگا وہ پایا اور بے مانگے دیا
پاک منہ پر حرف آتا ہی نہیں انکار کا
سنو گے ’لا‘ نہ زبانِ کریم سے نوریؔ
کریم ہیں یہ خزانے لٹانے آئے ہیں
(نوریؔ )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لاو ربِّ العرش جس کو جو ملا ان سے ملا
بٹتی ہے کونین میں نعمت رسول اللہ کی
(رضاؔ )
دوجہاں میں بٹتا ہے باڑہ اسی سرکار کا
دونوں عالم پاتے ہیں صدقہ اسی سرکار کا
(نوریؔ )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پھول کیا دیکھوں میری آنکھوں میں
دشتِ طیبہ کے خار پھرتے ہیں
(رضاؔ )
نظر میں کیسے سمائیں گے پھول جنت کے
کہ بس چکے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں
(نوریؔ )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا، وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی، جان ہے تو جہان ہے
(رضاؔ )
جب تم نہ تھے کچھ بھی نہ تھا، جب تم ہوئے سب کچھ ہو ا
ہے سب میں جلوہ آپ کا، مہرِ عجم ماہِ عرب
(نوریؔ )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جن جن مرادوں کے لیے احباب نے کہا
پیشِ خبیر کیا مجھے حاجت خبر کی ہے
(رضاؔ )
حال ہمارا جیسا زبوں ہے، اور وہ کیسا اور وہ کیوں ہے
سب ہے تم پر روشن شاہا، صلی اللہ علیک و سلم
(نوریؔ )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گذرے جس راہ سے وہ سیدِ والا ہو کر
رہ گئی ساری زمیں عنبرِ سارا ہو کر
(رضاؔ )
جس گلی سے تو گذرتا ہے مرے جانِ جناں
ذرّ ہ ذرّہ تری خوشبو سے بسا ہوتا ہے
(نوریؔ )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسا اُمی کس لیے منتِ کشِ استاد ہو
کیا کفایت تجھ کو اقرا ربک الاکرم نہیں
(رضاؔ )
نہ منت تم پہ استادوں کی رکھی
تمہارا اُمی ہونا معجزا ہے
(نوریؔ )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروروں درود
(رضاؔ )
چھپا تم سے رہے کیوں کر کوئی راز
خدا بھی تو نہیں تم سے چھپا ہے
(نوریؔ )
مذکورہ بالا جائزے کے بعد نوریؔ بریلوی کے پیرایۂ زبان و بیان پر مزید روشنی ڈالنے کی چنداں ضرورت نہیں ذیل میں کلامِ نوریؔ سے زبان و بیان کی گل کاریوں کی مثالیں نشانِ خاطر کیجیے اور زبان کا لطف و سرور اُٹھاتے ہوئے بے ساختگی اورسلاست و روانی کو محسوس کیجیے ؎
مرَضِ عشق کا بیمار بھی کیا ہوتا ہے
جتنی کرتا ہے دوا درد سِوا ہوتا ہے
کیوں عبث خوف سے دل اپنا ہَوا ہوتا ہے
جب کرم آپ کا عاصی پہ شہا ہوتا ہے
سارا عالم ہے رضا جوئے خداوندِ جہاں
اور خدا آپ کا جویائے رضا ہوتا ہے
جس گلی سے تو گذرتا ہے مرے جانِ جناں
ذرّہ ذرّہ تری خوشبو سے بسا ہوتا ہے
کب گل طیبہ کی خوشبو سے بسیں گے دل و جاں
دیکھیے کب کرمِ بادِ صبا ہوتا ہے
دیکھیے غنچۂ دل اپنا کھِلے کا کب تک
دیکھیے کب دلِ پژ مردہ ہرا ہوتا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پیام لے کے جو آئی صبا مدینے سے
مریضِ عشق کی لائی دوا مدینے سے
تمہاری ایک جھلک نے کیا اُسے دل کش
فروغ حُسن نے پایا شہا مدینے سے
نہ چین پائے گا یہ غم زدہ کسی صورت
مریضِ غم کو ملے گی شفا مدینے سے
لگاؤ دل کو نہ دنیا میں ہر کسی شَے سے
تعلق اپنا ہو کعبے سے یا مدینے سے
گدا کی راہ جہاں دیکھیں پھر نوا کیوں ہو
نوا سے پہلے ملے بے نوا مدینے سے
چمن کے پھول کھلے مردہ دل بھی جی اُٹھّے
نسیم خلد سے آئی ہے یا مدینے سے
مدینہ چشمۂ آبِ حیات ہے یارو
چلو ہمیشہ کی لے لو بقا مدینے سے
فضائے خلد کے قرباں مگر وہ بات کہاں
مل آئیں حضرتِ رضواں ذرا مدینے سے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
فوجِ غم کی برابر چڑھائی ہے
دافعِ غم تمہاری دوہائی ہے
عمر کھیلوں میں ہم نے گنوائی ہے
عمر بھر کی یہی تو کمائی ہے
تم سے ہر دم امیدِ بھلائی ہے
میٹ دیجے جو ہم میں برائی ہے
تم نے کب آنکھ ہم کو دکھائی ہے
تم نے کب آنکھ ہم سے چرائی ہے
تم کو عالم کا مالک کیا اس نے
جس کی مملوک ساری خدائی ہے
تو خدا کا ہوا اور خدا تیرا
تیرے قبضے میں ساری خدائی ہے
جب خدا خود تمہارا ہوا تو پھر
کون سی چیز ہے جو پرائی ہے
تاج رکھا ترے سر رفعنا کا
کس قدر تیری عزت بڑھائی ہے
انبیا کو رسائی ملی تجھ تک
بس تمہاری خدا تک رسائی ہے
رشکِ سلطان ہیں وہ گدا جس نے
تیرے کوچے میں دھونی رمائی ہے
کاش وہ حشر کے دن کہیں مجھ سے
نارِ دوزخ سے تجھ کو رہائی ہے
خوشبوئے زلف سے کوچے مہکے ہیں
کیسے پھولوں میں شاہا بسائی ہے
بات وہ عطرِ فردوس میں بھی نہیں
تیرے ملبوس نے جو سنگھائی ہے
طیبہ جاؤں وہاں سے نہ واپس آؤں
میرے جی میں تو بس یہ سمائی ہے
مر رہا ہوں تم آ جاؤ جی اُٹھوں
شربتِ دید میری دوائی ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو شمعِ رسالت ہے عالم ترا پروانہ
تو ماہِ نبوت ہے اے جلوۂ جانانہ
جو ساقیِ کوثر کے چہرے سے نقاب اُٹھے
ہر دل بنے مَے خانہ ہر آنکھ ہو پیمانہ
دل اپنا چمک اُٹھے ایمان کی طلعت سے
کر آنکھ بھی نورانی اے جلوۂ جانانہ
سرشار مجھے کر دے اک جامِ لبالب سے
تا حشر رہے ساقی آباد یہ مے خانہ
مستِ مَے اُلفت ہے مدہوشِ محبت ہے
فرزانہ ہے دیوانہ دیوانہ ہے فرزانہ
ہر پھول میں بو تیری ہر شمع میں ضَو تیری
بلبل ہے ترا بلبل پروانہ ہے پروانہ
ہر آرزو بر آئے سب حسرتیں پوری ہوں
وہ کان ذرا دھر کر سن لیں مرا افسانہ
مذکورہ بالا نمونۂ کلام نوریؔ بریلوی کے مجموعۂ کلام ’’سامانِ بخشش‘‘ میں شامل چھوٹی بحروں کی نعتوں سے اخذ کر کے پیش کیا گیا ہے۔ شعرا کے درمیان چھوٹی بحروں میں طبع آزمائی خاصی مقبولیت کی حامل ہے۔ چھوٹی چھوٹی بحروں میں طبع آزمائی کرنا اور غزلیں کہنا دورِ متوسطین اور دورِ متاخرین کے شعرا کا خاص وصف رہا ہے۔ مومنؔ ، غالبؔ ، میرؔ اور داغؔ وغیرہ کے یہاں یہ خاص انداز اپنی پوری شعری و فنّی خوبیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ عموماً ان چھوٹی بحروں کا انتخاب لطفِ زبان کے اظہار کے لیے کیا جاتا تھا فصیح الملک داغؔ دہلوی نے ان چھوٹی بحروں میں زبان و بیان کی شوخی اور بانکپن کے خوب خوب جوہر دکھائے ہیں۔
غزل کے لیے یہ میدان تو بڑا وسیع اور پُر کیف ہے۔ البتہ نعتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں یہ ایک مشکل امر ہے کیوں کہ چھوٹی بحروں میں مضمون آفرینی کی گنجایش بہت کم ہے اور نعت میں جس قدر مضمون آفرینی ہو گی اتنی ہی کیف و سرورکی کیفیت پائی جائے گی۔ نوریؔ بریلوی نے ان چھوٹی بحروں میں بھی زبان و بیان کے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ پڑھنے والے پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ یہ آپ کی قادرالکلامی کی روشن دلیل ہے۔
چھوٹی بحروں کے بعد آیئے طویل بحروں میں نوریؔ بریلوی کی زبان و بیان اور سلاست و روانی اور شگفتگی کا نظارہ کیجیے ؎
بہارِ جاوداں تم ہو نسیمِ داستاں تم ہو
بہارِ باغِ رضواں تم سے ہے زیبِ جناں تم ہو
حبیبِ ربِ رحماں تم مکینِ لامکاں تم ہو
سرِ ہر دوجہاں تم ہو شہ شاہنشہاں تم ہو
خدا کی سلطنت کا دو جہاں میں کون دولہا ہے
تم ہی تم ہو تم ہی تم ہو یہاں تم ہو وہاں تم ہو
تمہارا نور ہی ساری ہے ان ساری بہاروں میں
بہاروں میں نہاں تم ہو بہاروں سے عیاں تم ہو
تمہارے حسن و رنگ و بو کے گل بوٹے حکایت ہیں
بہارِ گلستاں تم ہو بہارِ بوستاں تم ہو
نظر عارف کو ہر عالم میں آیا آپ کا عالم
نہ ہوتے تم تو کیا ہوتا بہارِ جاوداں تم ہو
یہ کیا میں نے کہا مثلِ سما تم ہو معاذاللہ!
منزہ مثل سے برتر ز ہر وہم و گماں تم ہو
میں بھولا آپ کی رفعت سے نسبت ہی ہمیں کیا ہے
وہ کہنے بھر کی نسبت تھی کہاں ہم ہیں کہاں تم ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کوئی کیا جانے جو تم ہو خدا ہی جانے کیا تم ہو
خدا تو کہہ نہیں سکتے مگر شانِ خدا تم ہو
تمہارا حسن ایسا ہے کہ محبوبِ خدا تم ہو
مہِ کامل کرے کسبِضیا وہ مہِ لقا تم ہو
علوئے مرتبت پیارے تمہارا سب پہ روشن ہے
مکینِ لامکاں تم ہو شہِ عرشِ علا تم ہو
تمہاری حمد فرمائی خدا نے اپنے قرآں میں
محمد اور ممجد مصطفیٰ و مجتبیٰ تم ہو
خدا نے ذات کا اپنی تمہیں مظہر بنایا ہے
جو حق کو دیکھنا چاہیں تو اس کے آئینہ تم ہو
تمہیں باطن تمہیں ظاہر تمہیں اول تمہیں آخر
نہاں بھی ہو عیاں بھی مبتدا و منتہا تم ہو
مٹا دی کفر کی ظلمت تمہارے رئوے روشن نے
سویرا شرک کا تم نے کیا شمس الضحیٰ تم ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
رسل انہیں کا تو مژدہ سنانے آئے ہیں
انہیں کے آنے کی خوشیاں منانے آئے ہیں
فرشتے آج جو دھومیں مچانے آئے ہیں
انہیں کے آنے کی شادی رچانے آئے ہیں
فلک کے حور و ملک گیت گانے آئے ہیں
کہ دوجہاں میں یہ ڈنکے بجانے آئے ہیں
چمک سے اپنی جہاں جگمگانے آئے ہیں
مہک سے اپنی یہ کوچے بسانے آئے ہیں
نسیمِ فیض سے غنچے کھلانے آئے ہیں
کرم کی اپنی بہاریں دکھانے آئے ہیں
سحر کو نور جو چمکا تو شام تک چمکا
بتا دیا کہ جہاں جگمگانے آئے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ ایسا کر دے مرے کردگار آنکھوں میں
ہمیشہ نقش رہے روئے یار آنکھوں میں
بسا ہوا ہے کوئی گل عذار آنکھوں میں
کھلا ہے چار طرف لالہ زار آنکھوں میں
وہ نور دے مرے پروردگار آنکھوں میں
کہ جلوہ گر رہے رخ کی بہار آنکھوں میں
انہیں نہ دیکھا تو کس کام کی ہے یہ آنکھیں
کہ دیکھنے کی ہے ساری بہار آنکھوں میں
نظر میں کیسے سمائیں گے پھول جنت کے
کہ بس چکے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں
خزاں کا دَور ہوا دُور وہ جہاں آئے
ہوئی ہے قدموں سے ان کے بہار آنکھوں میں
کرم یہ مجھ پہ کیا ہے مرے تصور نے
کہ آج کھینچ دی تصویر یار آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چارہ گر ہے دل تو گھایل عشق کی تلوار کا
کیا کروں میں لے کے پھاہا مرہمِ زنگار کا
رو کشِ خلدِ بریں ہے دیکھ کوچہ یار کا
حیف بلبل اب اگر تو نام لے گل زار کا
حُسن کی بے پردگی پردہ ہے آنکھوں کے لیے
خود تجلی آپ ہی پردہ ہے روئے یار کا
حُسن تو بے پردہ ہے پردہ ہے آنکھوں کے لیے
دل کی آنکھوں سے نہیں ہے پردہ روئے یار کا
تیرے باغِ حسن کی رونق کا کیا عالم کہوں
آفتاب اک زرد پتہ ہے ترے گل زار کا
جب گرا میں بے خودی میں ان کے قدموں پر گرا
کام تو میں نے کیا اچھے بھلے ہشیار کا
خارِ گل سے دہر میں کوئی چمن خالی نہیں
یہ مدینہ ہے کہ ہے گلشن گلِ بے خار کا
گل ہو صحرا میں تو بلبل کے لیے صحرا چمن
گل نہ ہو گلشن میں تو گلشن ہے اک بَن خار کا
کوثر و تسنیم سے دل کی لگی بجھ جائے گی
میں تو پیاسا ہوں کسی کے شربتِ دیدار کا
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ نوریؔ بریلوی کی لفظیات میں سادگی ہے۔ آپ کی اکثر نعتیں سادہ زمینوں اور آسان بحروں میں ملتی ہیں۔ آپ نے اپنے کلام میں غیرمانوس، مشکل اور ادق الفاظ استعمال کرنے سے گریز کیا ہے۔ یہ نوریؔ بریلوی کے کلام کی خامی نہیں بل کہ یہ ایک طرح کی فن کاری اور کلام کا حُسن ہے۔ کہاجاتا ہے کہ شاعر اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے اور وہ اپنے ماحول کے زیرِ اثر فکرو قلم کو مہمیز دیتا ہے۔ نوریؔ بریلوی کے پیرایۂ زبان و بیان کے بارے میں ناقدین کا خیال ہے کہ آپ کی شاعری نثریت سے عبارت ہے اور اس میں غنائیت و نغمگی کم ہے، آپ کے کلام میں اردو کے دیگر شعرا کی طرح وہ لفظیات نہیں ہیں جو ہونی چاہئیں۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ نوریؔ بریلوی کو زبان وبیان پر اس قدر ملکہ حاصل تھا کہ آپ نے معنی و مفہوم کی ادائیگی کے لیے آسان اور سہل پیرایۂ بیان اختیار کیا جو قاری و سامع کے لیے گراں نہیں گزرتا۔ وہ معنی و مفہوم کی تہہ تک بہ آسانی پہنچ جاتا ہے نہ کہ دیگر شعرا کے کلام کی طرح مشکل اور ادق الفاظ کی بھول بھلیوں میں گم ہو جائے۔
واضح ہو کہ ہر زمانے کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے۔ سوداؔ ، غالبؔ ، مومنؔ ، انیسؔ ، اصغرؔ ، حسرتؔ ، امیرؔ مینائی، داغؔ اور اقبالؔ وغیرہ کے دور کا تقاضا تھا کہ مشکل الفاظ استعمال کیے جائیں۔ اب جب کہ اردو صرف دہلی اور لکھنو تک محدود تک نہیں ہے اس کے اور بہت سے دبستان قائم ہو چکے ہیں اور اردو ادب پورے کشورِ ہندوستان پر چھایا ہوا ہے اور اس منظر نامے پر اب صاف و شُستہ، سادہ و سلیس، آسان اور سہل پیرایۂ زبان و بیان کا مطالبہ ہے۔ نوریؔ بریلوی اس مطالبے سے کماحقہٗ واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آ پ نے سہل پیرایۂ زبان و بیان اختیار کیا۔
نوریؔ بریلوی کی شاعری کا ایک مقصد تھا۔ وہ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کے عشق و ادب کو مسلمانانِ عالم کے قلوب و اذہان میں جاگزیں دیکھنا چاہتے تھے۔ گستاخانِ زمانہ بد عقیدوں اور بے دینوں، دہریوں اور ملحدوں کی مذمت بھی آپ کا مطمحِ نظر تھا۔ اس فکری محاسبے کے بعد جب ہم نوریؔ بریلوی کے کلام کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں تو یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ آپ انتہائی کام یاب وکام ران شاعر ہیں۔ اورآسان و سہل پیرایۂ زبان و بیان کے با وصف آپ کے کلام میں شعری و فنّی محاسن اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ جلوہ گر ہیں اور آپ کے کلام میں زبان و بیان کی گل کاریاں بھی بدرجۂ اتم موجود ہیں۔
نوریؔ بر یلوی کے کلام میں یہ ساری خوبیاں اور اوصاف کسی استاذ کی رہبری کا رہینِ منّت نہیں ہیں بل کہ آپ کو خالقِ مطلق جل شا نہٗ نے خود اپنی جانب سے ذہنِ رسا بخشا تھا اور عشقِ رسولصلی اللہ علیہ و سلم کی والہانہ وارفتگی اور فدائیت کی سرمستی و سرشاری نے آپ سے شعر کہلوائے اور علمی گہرائی و گیرائی نے آپ کے پیرایۂ بیان کو اتنی شیفتگی، شگفتگی اور پختگی عطا کر دی کہ آپ کی نثری کاوشات میں بھی کسی کو انگشت نمائی کا موقع نہیں ملا۔ غرض یہ کہ نوریؔ بریلوی ایک قادر الکلام شاعر اور بلند پایہ ادیب تھے جن کو زبان و بیان پر کامل دست گاہ حاصل تھی۔
(1)سراج احمد بستوی، ڈاکٹر:احمد رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری، کانپور یونیورسٹی، کانپور، ص257
٭٭٭
کلام میں صنائعِ لفظی و معنوی، تراکیب، پیکر ات، استعارات، تشبیہات نیز روزمرہ محاورات اور ضرب الامثال کا برمحل اور خوب صورت استعمال اس کے ادبی و لسانی حُسن اور لُطفِ مطالعہ کی کیفیت کو دوبالا کر دیتا ہے۔
کلامِ نوریؔ بریلوی کے مطالعہ کی روشنی میں یہ خیال تقویت پاتا ہے کہ آپ کے کلام میں جہاں دیگر شعری و فنّی محاسن کی جلوہ گری ہے وہیں روز مرہ محاورات کے خوب صورت اور بر محل استعمال کی مثالیں بہ کثرت موجود ہیں۔ آ پ شاعری کے جملہ محاسن پر یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ گذشتہ ابواب میں آپ کے کلام کی دیگر خوبیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ پیشِ نظر ضمنی باب میں آپ کے کلام میں محاورات کے استعمال کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
محاورات اندازِ بیان اور طرزِ اظہار میں حُسن و دل کشی، جاذبیت اور کشش پیدا کرتے ہیں۔ جس سے مطالعہ میں لُطف و سرور محسوس ہوتا ہے۔ بہ قول ڈاکٹر صابر سنبھلی :
’’محاورے کلام میں زور اور اثر پیدا کرتے ہیں، بہ شرط یہ کہ ان کو چابک دستی کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ ‘‘(1)
ادب میں محاورات کو مخصوص مقام حاصل ہے۔ محاورے نظم و نثر دونوں میں برتے جاتے ہیں۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ محاورے کیا ہیں ؟ اس تعلق سے اربابِ علم و ادب نے مختلف تعریفیں بیان کی ہیں۔ تاہم تمام ہی تعریفوں کا خلاصہ و نچوڑ یہی نکلتا ہے کہ۔۔ ’’محاورے وہ مصادر کہلاتے ہیں جو اصل معنی کی بجائے مجازی معنی میں استعمال ہوتے ہوں ‘‘۔ جیسے غم کھانا، چراغ پا ہونا، آنکھ دکھانا وغیرہ۔ یوں ہی کھانا کھانا، غذا کھانا، مال چرانا، پانی پینا، وغیرہ محاورے نہیں کہلائیں گے کہ یہاں اصل معنی میں یہ مصادر استعمال ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں پروفیسر محمد طاہر فاروقی کے خیالات کو پیش کرنا غیرمناسب نہ ہو گا، وہ لکھتے ہیں :
’’ محاورہ یہ ہے کہ الفاظ کو ان کے حقیقی معنوں میں سے ہٹ کر مجازی معنوں میں بولا جائے مثلاً : اتارنا کے حقیقی معنی ہیں اوپر سے نیچے لاناجیسے گھوڑے سے سوار کو اتارنا، کھونٹی سے کپڑا اتارنا، کوٹھے سے پلنگ اتارنا۔ لیکن نقشہ اتارنا، نقل اتارنا، دل سے اتارنا اور دل میں اتارنا اپنے حقیقی معنوں میں نہیں اس لیے انھیں محاورہ کہا جائے گا۔ اسی طرح کھانا کے حقیقی معنی ہیں کہ کسی چیز کو دانتوں سے دبا کر یا بغیر چبائے حلق سے اتارنا جیسے روٹی کھانا، دوا کھانا۔ لیکن قسم کھانا، غم کھانا، دھوکہ کھانا، ٹھوکر کھانا اپنے حقیقی معنوں میں نہیں ہے اس لیے یہ محاورے ہیں۔ ‘‘(2)
یہاں یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ محاورے کے الفاظ میں اوّلاً: تو کسی چیز کی کمی بیشی جائز نہیں۔ ثانیاً: ان کا صحیح اور برمحل استعمال ہی نثر و نظم کے حُسن و دل کشی میں اضافہ کا سبب بن سکتا ہے۔ اشعار میں محاورات کا استعمال حُسن و جمال اور لفظی رعنائی کو دو آتشہ کر دیتا ہے۔ بہ قول ڈاکٹر صابر سنبھلی :
’’بعض جگہ تو محاورہ شعر میں جان ڈال دیتا ہے اور سامع اور قاری پھڑک اُٹھتا ہے۔ تو بعض جگہ اس استاذی اور قادرالکلامی سے واسطہ پڑتا ہے کہ محاورہ استعمال بھی کیا ہے اور پھر بھی اس کی توضیحات کے حقیقی معنی مراد لیے گئے ہیں۔ یہ کام بڑے بڑے اساتذہ سے ہی ممکن ہے۔ ‘‘(3)
اس پس منظر میں کلامِ نوریؔ بریلوی کے مطالعہ کے بعد یہ کہنا غیرمناسب نہ ہو گا کہ آپ نے اپنے کلام میں محاوروں کا صحیح اور بر محل استعمال کیا ہے، جس سے آپ کے اشعار حُسن و دل کشی اور لفظی رعنائی کا پیکر بن گئے ہیں۔ جو آپ کی قادرالکلامی کو نمایاں کرتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ بریلوی میں استعمال کیے گئے محاورات سے متعلق اشعار کا ایک انتخاب ردیف کے اعتبار سے ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے :
محاورہ(1) آنکھیں بہنا : آنسو نکلنا
حسرتِ دیدار دل میں ہے اور آنکھیں بہہ چلیں
تو ہی والی ہے خدایا دیدۂ خوں بار کا
محاورہ(2) آنکھوں میں بسانا: آنکھوں میں سمانا، پسند کرنا
پردہ میں جو رہتے ہو پردہ ہے چلے آؤ
آنکھوں میں بسا کرنا تم دل میں رہا کرنا
محاورہ( 3) انگشت بدنداں ہونا:حیرت، تعجب، افسوس یا حسرت کا اظہار کرنا
ماجرا دیکھ کے ہو گا یہ کسی کو سکتہ
اک تعجب سے وہ انگشت بدنداں ہو گا
محاورہ(4) باڑا بٹنا :صدقہ و خیرات بٹنا
دو جہاں میں بٹتا ہے باڑا اسی سرکار کا
دونوں عالم پاتے ہیں صدقہ اسی دربار کا
محاورہ(5) بیڑا پار کرنا: مشکل آسان کرنا
رَبِّ سلِّم کی دعا سے پار بیڑا کیجیے
راہ ہے تلوار پر نیچے ہے دریا نار کا
محاورہ(6) فق ہونا: چہرے کا رنگ اُڑنا
فق ہو چہرہ مہر و مہ کا ایسے منہ کے سامنے
جس کو قسمت سے ملے بوسہ تری پیزار کا
محاورہ(7) دل میں گھر کرنا: دوستی کرنا، دل پر اثر کرنا، محبت پیدا کرنا
دل میں گھر کرتا ہے اعدا کے ترا شیریں سخن
ہے میرے شیریں سخن شہرہ تری گفتار کا
محاورہ(8) دل کی لگی بجھنا: حسرت نکلنا
کوثر و تسنیم سے دل کی لگی بجھ جائے گی
میں تو پیاسا ہوں کسی کے شربتِ دیدار کا
محاورہ(9) ڈنکا بجنا: دھوم مچنا، شہرت ہونا
عرشِ اعظم پر پھریرا ہے شہ ابرار کا
بجتا ہے کونین میں ڈنکا مرے سرکار کا
محاورہ(10) سایا کرنا :حفاظت کرنا، حمایت کرنا
اے ظلِ خدا سایہ ہے آج کہاں پایا
ہم سایے کو آئے ہیں تم سایا ذرا کرنا
محاورہ(11) صدقے جانا: قربان ہونا، واری جانا، تصدق ہونا
بڑے دربار میں پہنچایا مجھ کو میری قسمت نے
میں صدقے جاؤں کیا کہنا مرے اونچے مقدر کا
محاورہ(12) صدقہ پانا: خیرات پانا
دو عالم صدقہ پاتے ہیں مرے سرکار کے در کا
اسی سرکار سے ملتا ہے جو کچھ ہے مقدر کا
محاورہ(13) قسمت جاگ اُٹھنا: اچھے دن آنا، دن پھرنا
جاگ اُٹھی سوئی قسمت اور چمک اُٹھا نصیب
جب تصور میں سمایا روئے انور یار کا
محاورہ(14) قسم کھانا : عہد کرنا، قول دینا، حلف اُٹھانا
اس کی قسمت کی قسم کھائیں فرشتے تو بجا
عید کی طرح وہ ہر آن میں شاداں ہو گا
محاورہ(15) کھٹکا ہونا: کھڑکا ہونا، فکر ہونا، اندیشہ ہونا
راہ پر کانٹے بچھے ہیں کانٹوں پر چلنی ہے راہ
ہر قدم ہے دل میں کھٹکا اس رہِ پُر خار کا
محاورہ(16) گریباں چاک کرنا : کپڑے پھاڑنا، بہت رنج کرنا
یوں ہی کچھ اچھا مداوا اس کا ہو گا بخیہ گر
چاک کر ڈالوں گریباں زخمِ دامن دار کا
چاک تقدیر کو کیا سوزنِ تدبیر سیے
لاکھ وہ بخیہ کرے چاک گریباں ہو گا
محاورہ(17) لوہا ماننا : کسی کی دلیری اور شجاعت کا قائل ہونا
کچھ عرب پر ہی نہیں موقوف اے شاہِ جہاں
لوہا مانا ایک عالم نے تری تلوار کا
محاورہ(18) منہ تر نہ ہونا :پیاس نہ بجھنا
آبلوں کے سب کٹورے آہ خالی ہو گئے
منہ ابھی تر بھی نہ ہونے پایا تھا ہر خار کا
محاورہ(19) مقدر چمکنا : تقدیر جاگنا، بھلے دن آنا، قسمت یاور ہونا
کوئی دم کی دیر ہے آتے ہی دم کی دیر ہے
اب چمکتا ہے مقدر طالبِ دیدار کا
محاورہ(20) ہاتھ آنا: میسر آنا، دستیاب ہونا
دھجیاں ہو جائے دامن فردِ عصیاں کا مری
ہاتھ آ جائے جو گوشہ دامنِ دل دار کا
محاورہ(21) ہرا کرنا: سر سبز کرنا، باغ باغ کرنا
جو سوختہ ہَیزُم کو چاہو تو ہرا کر دو
مجھ سوختہ جاں کا بھی دل پیارے ہرا کرنا
محاورہ(22) پیاسا ہونا: خواہش مند ہونا، مشتاق ہونا
بجھے گی شربتِ دیدار ہی سے تشنگی اپنی
تمہاری دید کا پیاسا ہوں یوں پیاسا ہوں کوثر کا
(یہاں ’’پیاساہونا ‘‘ حقیقی اور مجازی دونوں معنی میں استعما ل ہوا ہے اس میں
’’دید کا پیاسا ہونا ‘‘ محاورہ ہے)
محاورہ(23) ٹیکا دینا: زیور دینا
اس جبہ سائی کے سبب شب کو اسی سرکار نے
انعام میں ٹیکا دیا ماہِ عجم مہرِ عرب
محاورہ(24) جِلا دینا : زندہ کرنا
ہے تم سے عالم پُر ضیا ماہِ عجم مہرِ عرب
دے دو میرے دل کو جِلا ماہِ عجم مہرِ عرب
محاورہ(25) جبہ سائی کرنا : ما تھا رگڑنا
اس جبہ سائی کے سبب شب کو اسی سرکار نے
انعام میں ٹیکا دیا ماہِ عجم مہرِ عرب
محاورہ(26) دامنِ شب پھٹنا : اُجالا ہونا، روشنی ہونا
آپ نے جب مشرقِ انوار سے فرمایا طلوع
دامنِ شب پھٹ گیا مہرِ عجم ماہِ عرب
محاورہ(27) قیامت بپا کرنا :مصیبت میں ڈالنا
تم نے مغرب سے نکل کر اک قیامت کی بپا
کافروں پر سرورا مہرِ عجم ماہِ عرب
محاورہ(28) منہ اُجالا کرنا : سرخروئی ہونا، چہرے کا رنگ نکھر آنا
روسیہ ہوں منہ اُجالا کر مرا جانِ قمر
صبح کر یا چاندنا مہرِ عجم ماہِ عرب
محاورہ(29) دل میں رکھنا : پوشیدہ کرنا
موم ہے ان کے قدم کے لیے دل پتھر کا
سنگ نے دل میں رکھی ان کے قدم کی صورت
محاورہ(30) جھولی پسارنا : جھولی پھیلانا
راجا پرجا آپ کے دوارے، سب ہیں بیٹھے جھولی پسارے
داتا پیارے دولت والے تم پر لاکھوں سلام
محاورہ(31) جلوہ دکھانا : دیدار دکھانا، نظر آنا
خواب میں جلوہ اپنا دکھاؤ، نوریؔ کو تم نوری بناؤ
اے چمکیلی رنگت والے تم پر لاکھوں سلام
محاورہ(32) پردہ ڈھانپنا: عیب چھپانا
کوئی نہیں ہے ایسا آقا، پردہ ڈھانپے جو تنکوں کا
شرم و حیا و غیرت والے صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
محاورہ(33) خبر لینا : مدد کو آنا، دستگیری کرنا
للہ! خبر لو نوریؔ کی اچھی صورت ہو نوریؔ کی
چاند سی اچھی صورت والے صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
محاورہ(34) دم گھٹنا : سانس کا رُکنا، گھبراہٹ ہونا، جی گھبرانا
سر پر بادل کالے کالے، دودِ عصیاں کے ہیں چھالے
دم گھٹتا ہے میرے مولا صلی اللہ علیک و سلم
محاورہ(35) دامن میں لینا : پناہ دینا، سہارا دینا
منہ تک میرے پسینہ پہونچا، ڈوبا ڈوبا ڈوبا ڈوبا
دامن میں لے لیجے آقا صلی اللہ علیک و سلم
محاورہ(36) دم میں دم آنا : اطمینان ہونا، تسلی ہونا
میرے آقا میرے مولا، آپ سے سُن کر انی لہا
دم میں ہے دم میرے آیا صلی اللہ علیک و سلم
محاورہ(37) سکہ جاری ہونا: حکم چلنا
جتنے سلاطیں پہلے آئے، سکے ان کے ہو گئے کھوٹے
جاری رہے گا سکہ تیرا صلی اللہ علیک و سلم
محاورہ(38) گھٹا چھانا: ابر گھرنا، بادل گھرنا
غم کی کالی گھٹائیں چھائیں، رنج و الم کی بلائیں چھائیں
شمسِ ضحی ہو جلوہ فرما صلی اللہ علیک و سلم
محاورہ(39) موم بنانا: نرم کرنا، ملائم کرنا
تیرے نقشِ قدم نے سرور پتھر موم بنائے یک سر
موم بنا دلِ سنگیں میرا صلی اللہ علیک و سلم
محاورہ(40) پیچ وخم نکالنا : ٹیڑھا پن دور کرنا
ہے قسمت میری ٹیڑھی تم سیدھی کر دو
نکل جائے سب پیچ و خم غوثِ اعظم
محاورہ(41) جان میں جان آنا: طاقت آنا، قوت آنا، تازگی آنا
مری جان میں جان آئے جو آئے
مرا جانِ عالم مرا غوثِ اعظم
محاورہ(42) خاطر میں نہ لانا: خیال نہ کرنا، عزت نہ کرنا، پراہ نہ کرنا
نہیں لاتا خاطر میں شاہوں کو شاہا
ترا بندۂ بے درم غوثِ اعظم
محاورہ(43) زخم بھرنا : زخم اچھا ہونا
ترا حُسنِ نمکیں بھرے زخم دل کے
بنہ مرہمے بر دلم غوثِ اعظم
محاورہ(44) فدا ہونا: قربان ہونا، تصدق کرنا، وارنا، عاشق ہونا، فریفتہ ہونا
فدا تم پہ ہو جائے نوریِؔ مضطر
یہ ہے اس کی خواہش دلی غوثِ اعظم
محاورہ(45) لاج رکھنا : عزت بچانا، آبرو نہ بگڑنے دینا
ترے صدقے جاؤں مری لاج رکھ لے
ترے ہاتھ ہے لاج یا غوثِ اعظم
محاورہ(46) آنکھوں میں آنا: آنکھ میں سمانا
جو خواب میں کبھی آئیں حضور آنکھوں میں
سرور دل میں ہو پیدا تو نور آنکھوں میں
محاورہ(47) بستر جمانا: قیام کرنا
مدینہ ہم سے فقیر آ کے لوٹ جائیں گے
درِ حضور پہ بستر جمانے آئے ہیں
محاورہ(48) تصویر کھینچنا : شبہہ اُتارنا
کرم یہ مجھ پہ کیا ہے مرے تصور نے
کہ آج کھینچ دی تصویرِ یار آنکھوں میں
محاورہ(49) ٹھوکریں کھانا: دربدر پھرنا
میں کیوں غیر کی ٹھوکریں کھانے جاؤں
ترے در سے اپنا گزارا کروں میں
محاورہ(50) چارا کرنا: راستہ نکالنا، تدبیر کرنا
صبا ہی سے نوریؔ سلام اپنا کہہ دے
سوا اس کے کیا اور چارا کروں میں
محاورہ(51) دل کی لگی بجھانا: حسرت نکالنا
ہم اپنی حسرتِ دل کو مٹانے آئے ہیں
ہم اپنی دل کی لگی کو بجھانے آئے ہیں
محاورہ(52) داغِ دل دکھانا: رنج و غم دکھانا
کریم ہیں وہ نگاہِ کرم سے دیکھیں گے
ہے داغ داغِ دل اپنا دکھانے آئے ہیں
محاورہ(53) دل کی کلی کھلنا: آرزو پوری ہونا
کھلے گی میرے بھی دل کی کلی کہ جانِ جناں
چمن میں پھول کرم کے کھلانے آئے ہیں
محاورہ(54) دل میں سمانا: ہر وقت خیال میں رہنا
حضور آنکھوں میں آئیں حضور دل میں سمائیں
حضور دل میں سمائیں حضور آنکھوں میں
محاورہ(55) دھونی رمانا: کسی جگہ بیٹھ جانا
فقیر آپ کے در کے ہیں ہم کہاں جائیں
تمہارے کوچہ میں دھونی رمانے آئے ہیں
محاورہ(56) دل قربان ہونا: فریفتہ ہونا، شیدا ہونا
نہ اک نگاہ ہی صدقہ ہو دل بھی قرباں ہو
کرم کرے تو وہ ناقہ سوار آنکھوں میں
محاورہ(57) دم کا میہماں ہونا:مرنے کے قریب ہونا
یہ دم ہمارا کوئی دم کا اور مہماں ہے
کرم سے لیجیے دم بھر قرار آنکھوں میں
محاورہ(58) دامن پسارنا: سوال کے لیے ہاتھ پھیلانا
ترے در کے ہوتے کہاں جاؤں پیارے
کہاں اپنا دامن پسارا کروں میں
محاورہ(59) دل نکھارنا : دل صاف کرنا
جو ہو قلب سونا تو یہ ہے سہاگا
تری یاد سے دل نکھارا کروں میں
محاورہ(60) دو پارا کرنا: دو ٹکڑے کرنا
خدا ایک پر ہو تو اک پر محمد
اگر قلب اپنا دو پارا کروں میں
محاورہ(61) ڈنکا بجنا: دھوم مچنا، شہرت ہونا
فلک کے حور و ملک گیت گانے آئے ہیں
کہ دوجہاں میں یہ ڈنکے بجانے آئے ہیں
محاورہ(62) راہ ماری کام ہونا: رہزنی کا کام ہونا
رہِ نماؤں کی سی صورت راہ ماری کام ہے
راہ زن ہیں کو بکو اور راستہ ملتا نہیں
محاورہ(63) روشن ہونا: ظاہر ہونا
خدا نے غیب دیا ہے انھیں ہے سب روشن
جو خطرے دل ہی میں چھپنے چھپانے آئے ہیں
محاورہ(64) شادی رچانا: خوشی کرنا، جشن کرنا
فرشتے آج جو دھومیں مچانے آئے ہیں
انھیں کے آنے کی شادی رچانے آئے ہیں
محاورہ(65) فسانے آنا:قصّے آنا
کتابِ حضرتِ موسیٰ میں وصف ہیں اُن کے
کتابِ عیسیٰ میں اُن کے فسانے آئے ہیں
محاورہ(66) قصّہ سنانا: داستان سنانا
حضور! بہرِ خدا داستانِ غم سُن لیں
غمِ فراق کا قصّہ سنانے آئے ہیں
محاورہ(67) گیت گانا: تعریف کرنا
دمِ واپسیں تک ترے گیت گاؤں
محمد محمد پکارا کروں میں (ﷺ)
محاورہ(68) نثار ہونا: عاشق ہونا، صدقے ہونا، فریفتہ ہونا
تمہارے قدموں میں موتی نثار ہونے کو
ہیں بے شمار مری اشک بار آنکھوں میں
محاورہ(69) نصیب جاگ اُٹھنا: قسمت کھُلنا
نصیب جاگ اُٹھا اس کا چین سے سویا
وہ جس کو قبر میں سرور سُلانے آئے ہیں
محاورہ(70) نصیب چمک اُٹھنا: تقدیر جاگ اُٹھنا، حالات سازگار ہونا
نصیب تیرا چمک اُٹھا دیکھ تو نوریؔ
عرب کے چاند لحد کے سرہانے آئے ہیں
محاورہ(71) نقش رہنا: دل نشیں ہو جانا، کندہ ہونا
کچھ ایسا کر دے مرے کردگار آنکھوں میں
ہمیشہ نقش رہے روئے یار آنکھوں میں
محاورہ(72) نظر میں سمانا: پیارا لگنا، مقبول
نظر میں کیسے سمائیں گے پھول جنت کے
کہ بس چکے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں
محاورہ(73) نقشہ جمانا: تصور جمانا
ہے آشکار نظر میں جہاں کی نیرنگی
جما ہے نقشۂ لیل و نہار آنکھوں میں
محاورہ(74) منجدھار میں ہونا: مصیبت میں ہونا
بادِ مخالف تیز آ رہی ہے کشتی ہماری چکرا رہی ہے
منجدھار میں ہے مولا بچا لو پیارے بچا لو مجھے شاہا بچا لو
محاورہ(75) الم نکالنا: غم دور کرنا
دار الشفائے طیبہ میں آؤ جو مانگو فوراً منہ مانگی پاؤ
اندوہ و غم سب اپنے مٹا لو رنج و الم سب دل سے نکالو
محاورہ(76) تہ دامن لینا: پناہ میں لینا، حفاظت میں لینا
میں بے کس ہوں میں بے بس ہوں مگر کس کا تمہارا ہوں
تہ دامن مجھے لے لو پناہِ بے کساں تم ہو
محاورہ(77) گرفتارِ بلا ہونا: مصیبت میں مبتلا ہونا
گرفتارِ بلا حاضر ہوئے ہیں ٹوٹے دل لے کر
کہ ہر بے کل کی کل ٹوٹے دلوں کا آسرا تم ہو
محاورہ(78) گھٹا چھانا:بادل گھرنا، ابر کاآسمان پر محیط ہونا
ماہِ تاباں پہ ہیں رحمت کی گھٹائیں چھائیں
روئے پُر نور پہ یا چھائے تمہارے گیسو
محاورہ(79) افسانہ سنانا: روداد سنانا، داستان سنانا
وہ کہتے نہ کہتے کچھ وہ کرتے نہ کرتے کچھ
اے کاش وہ سُن لیتے مجھ سے مرا افسانہ
محاورہ(80) ٹھوکر لگنا:نقصان اُٹھانا
محاورہ(81) ہوش پکڑنا: ہوشیار ہونا، عقل حاصل کرنا، شعور پکڑنا
سنگِ درِ جاناں ہے ٹھوکر نہ لگے اس کو
لے ہوش پکڑ اب تو اے لغزشِ مستانہ
محاورہ(82) حسرتیں پوری ہونا: ارمان پورا ہونا، آرزو پوری ہونا
محاورہ(83) آرزو بر آنا: امید حاصل ہونا
محاورہ(84) کان دھرنا:غور سے سننا توجہ سے سننا
ہر آرزو بر آئے سب حسرتیں پوری ہوں
وہ کان ذرا دھر کر سن لیں مرا افسانہ
محاورہ(85)بازی چَھٹنا: کھیل ختم ہونا
تم آئے چَھٹی بازی رونق ہوئی پھر تازی
کعبہ ہوا پھر کعبہ کر ڈالا تھا بُت خانہ
محاورہ(86) دل ٹوٹا ہونا: غم زدہ ہونا، غمگین ہونا
میں شاہ نشیں ٹوٹے دل کو نہ کہوں کیسے
یہ ٹوٹا ہوا دل ہی مولا ترا کاشانہ
محاورہ(87) دل میں بسنا: محبت پیدا ہونا
محاورہ(88) دل شاد ہونا: خوش ہونا، ہشاش بشا ش ہونا
آنکھوں میں مری تو آ اور دل میں مرے بس جا
دل شاد مجھے فرما اے جلوۂ جانانہ
محاورہ(89) زنگ چھُڑانا: تاریکی دور کرنا، سیاہی دور کرنا
مولا دل کا زنگ چھُڑا قلبِ نوریؔ پائے جِلا
دل کو کر دے آئینہ جس میں چمکے یہ کلمہ
لا الٰہ الا اللہ اٰمنا برسول اللہ
محاورہ(90) سر پھیرنا: دور ہو جانا
جو سر رکھ دے تمہارے قدموں پہ سردار ہو جائے
جو تم سے سر کوئی پھیرے ذلیل و خوار ہو جائے
محاورہ(91) بار ہونا: بوجھ ہونا
قوافی اور مضامیں اچھے اچھے ہیں ابھی باقی
مگر بس بھی کرو نوریؔ نہ پڑھنا بار ہو جائے
محاورہ(92) حجاب اُٹھنا: پردہ اُٹھنا، روک ہٹنا
حجاب اُٹھیں جو مرقد سے اُن کے روضے تک
اندھیرا قبر کا مٹ جائے دوپہر ہو جائے
محاورہ(93) در بہ در ہونا: ٹھکانہ نہ ہونا
ترے غضب سے ہوں غارت یہ دہر کے شیطاں
بنے غلام ہر ایک ان میں در بہ در ہو جائے
محاورہ(94) جلوہ نما ہونا: سج دھج کے ساتھ سامنے آنا
جگمگا اُٹھتا ہے دل کا مرے ذرّہ ذرّہ
جب مرا جانِ قمر جلوہ نما ہوتا ہے
محاورہ(95) ہَوا ہونا: کافور ہونا، فنا ہونا
کیوں عبث خوف سے دل اپنا ہوا ہوتا ہے
جب کرم آپ کا عاصی پہ شہا ہوتا ہے
محاورہ(96) لَو لگانا: خیال باندھنا، توجہ دینا، آرزو مند ہونا
ہم نے یوں شمعِ رسالت سے لگائی ہے لَو
سب کی جھولی میں انھیں کا تو دِیا ہوتا ہے
محاورہ(97) مَیل چھُٹنا: مَیل صاف ہونا، مَیل دور ہونا
دل تپا سوزِ محبت سے کہ سب مَیل چھُٹے
تپنے کے بعد ہی تو سونا کھرا ہوتا ہے
محاورہ(98) دل کو جِلا دینا: زندگی ملنا، تازگی آنا
ملے ہمارے بھی دل کو جِلا مدینے سے
کہ مہر و ماہ نے پائی ضیا مدینے سے
محاورہ(99) جاں فدا ہونا: جان قربان کرنا
تمہارے قدموں پہ سر صدقے جاں فدا ہو جائے
نہ لائے پھر مجھے میرا خدا مدینے سے
محاورہ(100) خالی ہاتھ لَوٹنا: محروم واپس ہونا، بغیر کوئی چیز لیے جانا
جو آیا لے کے گیا کون لَوٹا خالی ہاتھ
بتا دے کوئی سُنا ہو جو ’لا‘ مدینے سے
محاورہ(101) راہ دیکھنا: انتظار کرنا
گدا کی راہ جہاں دیکھیں پھر نوا کیوں ہو
نوا سے پہلے ملے بے نوا مدینے سے
محاورہ(102) فتنے اُٹھانا: فساد برپا کرنا، شرارت کرنا
وہ حسیٖں کیا جو فتنے اُٹھا کر چلے
ہاں ! حسیٖں تم ہو فتنے مٹا کر چلے
محاورہ(103) نگاہیں لڑانا: آنکھ سے آنکھ مِلانا
کون اُن سے نگاہیں لڑا کر چلے
کس کی طاقت جو آنکھیں ملا کر چلے
محاورہ(۱۰۸) پاؤں اُٹھانا: تیزی سے جانا
جن کو اپنا نہیں غم، ہمارے لیے
دوڑے جھپٹے وہ پاؤں اُٹھا کر چلے
محاورہ(104) پھیرا پھرانا: واپس لانا
دم میں پہنچے وہ حکمِ رہائی دِیا
ان کو دوزخ سے پھیرا پھرا کر چلے
محاورہ(105) دامن بچانا: الگ رہنا، بے تعلق رہنا
بد سے بد کو لِیا جس نے آغوش میں
کب کسی سے وہ دامن بچا کر چلے
محاورہ(106) زبان دبانا: آہستہ کہنا، چُپ ہو جانا
جن کے دعوے تھے ہم ہی ہیں اہلِ زباں
سُن کے قرآں زبانیں دبا کر چلے
محاورہ(107) داغِ دل دکھانا: غم ظاہر کرنا
محاورہ(108) فسانہ سُنانا: قصّہ سُنانا، احوال سُنانا
داغِ دل ہم نے نوریؔ دِکھا ہی دِیا
دردِ دل کا فسانہ سُنا کر چلے
محاورہ(109) آنکھ دکھانا: خفگی کی نظر سے دیکھنا، چشم نُمائی کرنا
محاورہ(110) آنکھ پھرانا: نظر پھیرنا، دوسری طرف دیکھنا
تم نے کب آنکھ ہم کو دکھائی ہے
تم نے کب آنکھ ہم سے پھرائی ہے
محاورہ(111) آرزو بر آنا:امید حاصل ہونا، ارمان پورا ہونا
تم نے کب بات کوئی نبرائی ہے
تم سے جو آرزو کی بَرآئی ہے
محاورہ(112) دھونی رمانا:کسی جگہ بیٹھ جانا
رشکِ سلطان ہے وہ گدا جس نے
تیرے کوچے میں دھونی رمائی ہے
محاورہ(113) دل کی لگی بجھانا: رنج و غم دور کرنا
میرے دل کی لگی بھی بجھا دیجیے
نارِ نمرود کس نے بجھائی ہے
محاورہ(114) لبوں پر دم ہونا: نزع کا وقت ہونا، آخری وقت ہونا
اب تو آؤ کہ دم لبوں پر ہے
چہرے پر مُردنی بھی چھائی ہے
محاورہ(115) ٹکڑا ملنا: صدقہ ملنا
یہاں سے بھیک پاتے ہیں سلاطیں
اسی در سے انھیں ٹکڑا ملا ہے
متذکرہ اشعار میں محاورات کے استعمال کی مثالیں نوریؔ بریلوی کے کلام سے پیش کی گئی ہیں۔ آپ نے اپنے اشعار میں بڑی فن کارانہ چابک دستی، عالمانہ برجستگی اور ادیبانہ مہارت کے ساتھ محاوروں کا صحیح اور بر محل استعمال کیا ہے جس سے کلام کی دل کشی اور حُسن میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اور کلام لفظی و معنوی دل کشی کا ایک حسیٖن و جمیل پیکر بن کر اُبھرا ہے۔ آپ کے کلام میں محاورات کی اس کثرت کے باوجود کہیں بھی فنّی سقم یا لسانی جھول کا احساس نہیں ہوتا نیز پڑھنے اور سننے کے دوران اُکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی بل کہ ایک طرح کے کیف آگیں جذبات سے قاری و سامع کی روح سرشار ہونے لگتی ہے۔ اس مقام پر پہونچ کر اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ نوریؔ بریلوی اپنے عہد کے قادر الکلام شاعر ہیں۔
(1) پیغامِ رضا :امام احمد رضا نمبر، 1999ء، رضا دارالمطالعہ بہار، ص 377
(2) مسلم ٹائمز: امام احمد رضا نمبر، 26؍ جولائی1995ء، ممبئی، ص 1
(3) پیغامِ رضا :امام احمد رضا نمبر، 1999ء، رضا دارالمطالعہ بہار، ص 377
٭٭٭
نعت نگاری کے جملہ لوازمات میں سب سے اہم حزم و احتیاط ہے کہ اگر شاعر نعت میں بال برابر بھی تجاوز کرے تو عبد کو معبود کے منصب پر پہنچا کر شرک کر سکتا ہے۔ اور اگر بال برابر کمی کرے تو معبودِ حقیقی کے محبوبِ اکبر صلی اللہ علیہ و سلم کی شانِ اقدس میں توہین و تنقیص جیسے ناقابلِ معافی جرم کا مرتکب ہو کر خسر الدنیا و الآخرۃ کا مصداق ہو سکتا ہے۔
اس پُر خار وادی میں اچھے اچھے نام ور شعرا سے لغزش سرزد ہو ئی ہے۔ جس کا جائزہ بابِ دوم : نعت گوئی کا فن کے ضمنی باب: حزم و احتیاط اور موضوع روایتیں میں لیا جا چکا ہے۔
بہ ہر کیف!حقیقت میں نعت وہی نعت ہوتی ہے جو عبد و معبود، خالق و مخلوق اور الوہیت و نبوت کو سمجھ کر ان کے مابین کے فرق کو ملحوظِ خاطر رکھ کر حفظِ مراتب کا لحاظ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ادب و احترام کے ساتھ نظم کی جائے۔ افراط و تفریط اور غلو و اغراق سے مملو کلام نعت نگار کے اسلام و ایمان پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیتا ہے۔ اس لیے نعت نگار سے نعت گوئی کا فن بار بار حدودِ شرع کے پاس ولحاظ اور حزم و احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ اوصافِ محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کا تقابل جب کسی دوسرے نبی علیہم السلام سے کیا جائے تو اس وقت بھی مکمل ادب و احترام ملحوظ رکھنا ازبس ضروری ہے، کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے اعلا ترین اوصافِ جمیلہ کا تقابل کرتے ہوئے شاعر دیگر انبیا و مرسلین علیہم السلام کی شان میں توہین و تنقیص کا ارتکاب کر کے اپنے اعمال کو تباہ و برباد کر دے۔
حضرت نوریؔ بریلوی کے والدِ ماجد امام احمد رضا بریلوی کے یہاں حزم و احتیاط کا جو عالم ہے وہ مخفی نہیں اردو کے جملہ ناقدین اس امر پر متفق ہیں کہ آپ کے یہاں جو شانِ احتیاط ہے وہ کسی دوسرے شاعر کے ہاں نہیں۔ تحقیق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جہاں تک مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی کا معاملہ ہے تو موصوف نے امام احمد رضا بریلوی کے دربارِ علمی سے کسبِ فیض کیا ہے۔ آپ علم و فضل، زہد و تقوا، استقامت علیٰ الدین اور تفقہ فی الدین میں یگانۂ روزگار تھے۔ آپ جہاں آشنائے رموزِ شریعت تھے وہیں واقفِ اسرارِ طریقت بھی تھے۔ علم و فضل کی گیرائی و گہرائی اور عشقِ رسو ل صلی اللہ علیہ و سلم کی والہیت سے آپ کے کلام میں سادگی و معنوی حسن حد درجہ موج زن ہے۔ آپ کا کلام از اول تا آخر خشیتِ ربانی اور محامدِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم میں سرتا سر ڈوبا ہے۔ افراط و تفریط، بے جا خیال آفرینی اور غلو و اغراق سے پورا کلام یک سر پاک و منزہ ہے۔
کلامِ نوریؔ کا تنقیدی مطالعہ کرنے کے بعد اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ آپ نے حدودِ شرع کی مکمل پاس داری کی ہے۔ اور آپ کے ہاتھوں سے کہیں بھی زمامِ حزم و احتیاط ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں چھوٹی ہے۔ آپ نے مکمل حزم و احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے با ادب با ملاحظہ ہوشیار کی صدائے بازگشت میں بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں مدح سرائی کی ہے۔ آپ کے کلام میں حزم و احتیاط اور حدودِ شرع کی پاس داری کا جو عالم ہے وہ قابلِ دید ہے دیگر شعرا کی طرح آپ کے کلام میں کسی قسم کی شرعی لغزش نہیں ملتی اس کا اعتراف خود حضرت نوریؔ بریلوی کو بھی ہے چناں چہ بہ طورِ تحدیثِ نعمت فرماتے ہیں ؎
گل ہائے ثناسے مہکتے ہوئے ہار
سُقمِ شرعی سے منزہ اشعار
آیئے خاطر نشین کیجیے کلامِ نوریؔ میں حزم و احتیاط کا اچھوتا اور نرالا انداز ؎
کوئی کیا جانے جو تم ہو خدا ہی جانے کیا تم ہو
خدا تو کہہ نہیں سکتے مگر شانِ خدا تم ہو
کس درجہ خوبی سے دامنِ احتیاط تھامے ہوئے نوریؔ بریلوی نے رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کے علوئے مرتبت کو بیان کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہم خدا ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ وہ اﷲ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ ہاں ! مگر شانِ خدا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ خالقِ مطلق جل شانہٗ کی شاہ کار تخلیق آپ ہی ہیں۔
حضور احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادتِ باسعادت اور بعثتِ پاک کے سبب بل کہ ذاتِ با برکات کے سبب ہی سے دنیا کو عرفانِ خداوندی کی دولتِ عظمیٰ نصیب ہوئی۔ آپ ہی کے صدقہ و طفیل دنیا نے اﷲ اور اس کی صفات کو پہچانا۔ اور اﷲ نے اپنی ربوبیت کا اظہار بھی آپ کی تخلیق ہی کے سبب کیاہے اورسب کچھ پیدا فرمایا ہے۔ پھر بھی ہم رسول کو رسول ہی کہہ سکتے ہیں خدا ہرگز ہرگز نہیں کہہ سکتے۔ لیکن ہاں ! رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو خدا سے جدا بھی نہیں کہا جا سکتا۔ نوریؔ بریلوی اسی نکتے کو انتہائی احتیاط سے بلیغ انداز میں یوں بیان کرتے ہیں ؎
خدا ہے تو نہ خدا سے جدا ہے اے مولا
ترے ظہور سے رب کا ظہور آنکھوں میں
اسی طرح یہ شہ پارے نشانِ خاطر کرتے ہوئے کلامِ نوریؔ بریلوی میں شانِ حزم و احتیاط کی جلوہ گری کا اعتراف کرنا لازمی ہو جاتا ہے ؎
ہیں صفاتِ حق کے نوری آئینے سارے نبی
ذاتِ حق کا آئینہ مہرِ عجم ماہِ عرب
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خدا نے ذات کا اپنی تمہیں مظہر بنایا ہے
جو حق کو دیکھنا چاہیں تو اس کے آئینہ تم ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سجدہ کرتا جو مجھے اس کی اجازت ہوتی
کیا کروں اذن مجھے اس کا خدا نے نہ دیا
حسرتِ سجدہ یوں ہی کچھ تو نکلتی لیکن
سر بھی سرکار نے قدموں پہ جھکانے نہ دیا
کیا خوب حسنِ بیان اور ندرتِ ادا سے اپنی بات بھی کہہ دی اور شریعت کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے دامنِ احتیاط کو چھوٹنے بھی نہ دیا اور اپنے آپ کو غلو و اغراق اور افراط و تفریط سے پاک رکھا۔ لہٰذا کلامِ نوریؔ بریلوی کے مطالعہ کی روشنی میں یہ کہنا غیر مناسب نہیں ہے کہ آپ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے انتہائی ادب شناس تھے اور آپ نے عبد و معبود کے فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے نعتیہ کلام تحریر کیا ہے۔ اور کہیں بھی لمحہ بھر کے لیے بھی آپ کے ہاتھوں سے زمامِ احتیاط نہیں چھوٹی ہے۔
٭٭٭
منقبت کی تعریف ناقد و محقق سلیم شہزاد نے یوں رقم کی ہے :
’’مدحیہ صنف سخنجس میں کسی اصحابِ رسول خلفائے راشدین (خصوصاً حضرت علی رضی اللہ عنہ) ائمۂ کرام یا اولیا و صوفیائے عظام کی توصیف کی گئی ہو، اس کے لیے کوئی ہیئت مخصوص نہیں ہے۔ ‘‘(ادبیات فرہنگِ ص683)
ہر زبان و ادب کے شعرا نے حمد و نعت، غزل اور رباعی گوئی کے ساتھ ساتھ منقبت نگاری بھی کی ہے۔ بعض شعرائے کرام نے تو تمام مشہور و معروف اولیائے کاملین کی شان میں مناقب لکھے ہیں اور بعض نے صرف مخصوص بزرگوں کی شان میں منقبتیں قلم بند کی ہیں۔ جہاں تک حضرت نوریؔ بریلوی کا تعلق ہے تو آپ نے زیادہ تر توجہ نعت نگاری کی طرف ہی مرکوز رکھی۔ بہ ہر کیف ! آپ کے مجموعۂ کلام میں منقبتیں بھی ملتی ہیں۔ چوں کہ آپ قادری المشرب تھے۔ آپ کو سرتاجِ اولیا حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی بغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (م561ھ) سے خاص لگاؤ اور محبت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ’’سامانِ بخشش ‘‘ میں تین منقبتیں بالترتیب 28، 19 اور 51؍ اشعار پر مشتمل حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں ملتی ہیں۔ سرکار غوثیت مآب کی شان میں لکھی گئی مناقب میں استغاثہ و فریاد کا عنصر غالب ہے، نوریؔ بریلوی نے بارگاہِ غوثِ اعظم میں شاعرانہ لطافتوں اور عقیدت مندانہ حُسنِ تخیل کے ساتھ آپ کے مقام و منصب، کرامات اور کمالات کو خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے۔
اسی طرح آپ کو کلیر شریف کے جیّد ولیِ کامل حضرت پیر سید علاو الدین صابر پیا کلیری رحمۃ اللہ علیہ (م690ھ ) سے بھی قلبی لگاؤ تھا۔ حضرت صابر پیا کلیری کی شان میں بھی آپ نے ایک منقبت لکھی ہے نیز آپ نے اپنے شاگردِ رشید محدث اعظم پا کستان مولاناسردار احمد خاں لائل پوری علیہ الرحمۃ (م1382ھ) کے وصال پر آپ کی شان میں ایک بہترین تعزیتی منقبت بھی تحریر کی ہے۔
یہ تمام مناقب فنِ شاعری کا اعلا ترین نمونہ ہیں معنی آفرینی، خیال کی ندرت، سلاست و روانی، ایجاز اختصار، پیکر تراشی، روزمرہ محاوروں کا برجستگی کے ساتھ استعمال، صنائع و بدائع، عربی کی آمیزش، فارسیت کارچاو اور دیگر شعری و فنّی محاسن ان مناقب میں جابہ جا بکھرے ہوئے ہیں۔ ذیل میں تمام مناقب کے چیدہ چیدہ اشعار بلا تبصرہ ملاحظہ ہوں :
(1)
ترا جلوا نورِ خدا غوثِ اعظم
ترا چہرہ ایماں فزا غوثِ اعظم
مجھے بے گماں دے گما غوثِ اعظم
نہ پاؤں میں اپنا پتا غوثِ اعظم
خودی کو مٹا دے خدا سے ملا دے
دے ایسی فنا و بقا غوثِ اعظم
خدا ساز آئینۂ حق نما ہے
ترا چہرۂ پر ضیا غوثِ اعظم
تو باغِ علی کا ہے وہ پھول جس سے
دماغِ جہاں بس گیا غوثِ اعظم
ترا مرتبہ کیوں نہ اعلا ہو مولیٰ
ہے محبوبِ ربُّ العلا غوثِ اعظم
ترا رتبہ اللہ اکبر سروں پر
قدم اولیا نے لیا غوثِ اعظم
ترا دامنِ پاک تھامے جو راہ زن
بنے ہادی و رہنما غوثِ اعظم
نہ کیوں مہرباں ہو غلاموں پہ اپنے
کرم کی ہے تو کان یا غوثِ اعظم
ترے صدقہ جاؤں مری لاج رکھ لے
ترے ہاتھ ہے لاج یا غوثِ اعظم
پریشان کر دے پریشانیوں کو
پریشان دل ہے مرا غوثِ اعظم
ارے مورے سیّاں پڑوں تورے پیّاں
پکڑ موری بیّاں پیا غوثِ اعظم
تو بے کس کا کس اور بے بس کا بس ہے
تواں ناتوانوں کی یا غوثِ اعظم
مری جان میں جان آئے جو آئے
مرا جانِ عالم مرا غوثِ اعظم
مری جان کیا جانِ ایماں ہو تازہ
کہ ہے محیِ دینِ خدا غوثِ اعظم
مرا سر تری کفشِ پا پر تصدق
وہ پا کے تو قابل ہے غوثِ اعظم
جھلک روئے انور کی اپنی دکھا کر
تو نوریؔ کو نوری بنا غوثِ اعظم
(2)
کھلا میرے دل کی کلی غوثِ اعظم
مٹا قلب کی بے کلی غوثِ اعظم
مرے چاند میں صدقے آ جا ادھر بھی
چمک اُٹھے دل کی کلی غوثِ اعظم
ترے رب نے مالک کیا تیرے جد کو
ترے گھر سے دنیا پلی غوثِ اعظم
وہ ہے کون ایسا نہیں جس نے پایا
ترے در پہ دُنیا ڈھلی غوثِ اعظم
کہا جس نے یا غوث اعظم اغثنی تو دم میں
ہر آئی مصیبت ٹلی غوثِ اعظم
نہیں کوئی بھی ایسا فریادی آقا
خبر جس کی تم نے نہ لی غوثِ اعظم
مری روزی مجھ کو عطا کر دے آقا
ترے در سے دنیا نے لی غوثِ اعظم
نہ مانگوں میں تم سے تو پھر کس سے مانگوں
کہیں اور بھی ہے چلی غوثِ اعظم
صدا گر یہاں میں نہ دوں تو کہاں دوں
کوئی اور بھی ہے گلی غوثِ اعظم
جو قسمت ہو میری بُری اچھی کر دے
جو عادت ہو بد کر بھلی غوثِ اعظم
ترا مرتبہ اعلا کیوں نہ ہو مولا
تو ہے ابنِ مولیٰ علی غوثِ اعظم
قدم گردنِ اولیا پر ہے تیرا
ہے تو رب کا ایسا ولی غوثِ اعظم
جو ڈوبی تھی کشتی وہ دم میں نکالی
تجھے ایسی قدرت ملی غوثِ اعظم
ہمارا بھی بیڑا لگا دو کنارے
تمہیں ناخدائی ملی غوثِ اعظم
تباہی سے ناؤ ہماری بچا دو
ہوائے مخالف چلی غوثِ اعظم
تجھے تیرے جد سے انھیں ان کے رب سے
ہے علمِ خفی و جلی غوثِ اعظم
مرا حال تجھ پر ہے ظاہر کہ پُتلی
تری لوح سے جا ملی غوثِ اعظم
خدا ہی کے جلوے نظر آئے جب بھی
تری چشمِ حق بیں کھلی غوثِ اعظم
فدا تم پہ ہو جائے نوریِؔ مضطر
یہ ہے اس کی خواہش دلی غوثِ اعظم
(3)
تجلّیِ نورِ قِدَم غوثِ اعظم
ضیائے سراج الظلم غوثِ اعظم
ترا حِل ہے تیرا حرم غوثِ اعظم
عرب تیرا تیرا عجم غوثِ اعظم
چلا ایسی تیغِ دو دم غوثِ اعظم
کہ اعدا کے سر ہوں قلم غوثِ اعظم
ترے ہوتے ہم پر ستم ڈھائے دشمن
ستم ہے ستم ہے ستم غوثِ اعظم
نہیں لاتا خاطر میں شاہوں کو شاہا
ترا بندۂ بے درم غوثِ اعظم
کرم چاہئے تیرا تیرے خدا کا
کرم غوثِ اعظم کرم غوثِ اعظم
بڑھا ناخدا سر سے پانی الم کا
خبر لیجیے ڈوبے ہم غوثِ اعظم
کرو پانی غم کو بہا دو الم کو
گھٹائیں بڑھیں ہیں کرم غوثِ اعظم
خدا نے تمہیں محو و اثبات بخشا
ہو سلطانِ لوح و قلم غوثِ اعظم
بہ عینِ عنایت بہ چشمِ کرامت
بدہ جرعۂ نا چشَم غوثِ اعظم
ترا ایک قطرہ عوالم نما ہے
نہیں چاہیے جامِ جم غوثِ اعظم
ترا حسنِ نمکیں بھرے زخم دل کے
کہ خود کہہ اُٹھوں میں منم غوثِ اعظم
ترقی کرے روز و شب دردِ الفت
نہ ہو قلب کا درد کم غوثِ اعظم
یہ دل یہ جگر ہے یہ آنکھیں یہ سر ہے
جہاں چاہو رکھو قدم غوثِ اعظم
سرِ خود بہ شمشیرِ ابرو فروشم
بہ مژگانِ تو سینہ ام غوثِ اعظم
بہ پیکانِ تیرت جگر می فروشم
بہ تیرِ نگاہت دلم غوثِ اعظم
دماغم رسد بر سرِ عرشِ اعلا
بپایت اگر سر نہم غوثِ اعظم
مری سر بلندی یہیں سے ہے ظاہر
کہ شُد زیرِ پایت سرم غوثِ اعظم
لگا لو مرے سر کو قدموں سے اپنے
تمہیں سِرِّ حق کی قسم غوثِ اعظم
تمہاری مہک سے گلی کوچے مہکے
ہے بغداد رشکِ ارم غوثِ اعظم
مرا نفسِ سر کش بھی رہزن ہے میرا
یہ دیتا ہے دم، دم بدم غوثِ اعظم
دکھا دے تو اِنی عزومُُ کے جلوے
سنادے صدائے منم غوثِ اعظم
ہماری خطاؤں سے دفتر بھرے ہیں
کرم کر کہ ہوں کالعدم غوثِ اعظم
تمہارے کرم کا ہے نوریؔ بھی پیاسا
ملے یم سے اس کو بھی نم غوثِ اعظم
ان مناقب کے ساتھ ساتھ حضرت علاوالدین صابرپیا کلیری کی شان میں لکھی گئی حضرت نوریؔ بریلوی کی منقبت ذیل میں ملاحظہ ہو ؎
کیسے کاٹوں رتیاں صابر
تارے گنت ہَوں سیّاں صابر
مورے کرجوا ہوک اُٹھت ہے
مو کو لگا لے چھتیاں صابر
توری صورتیا پیاری پیاری
اچھی اچھی بتیاں صابر
چیری کو اپنے چرنوں لگا لے
میں پروں تورے پیّاں صابر
ڈولے نیّا موری بھنور میں
بلما پکڑ لے بیّاں صابر
چھتیاں لاگن کیسے کہوں میں
تم ہو اونچے اٹریاں صابر
تورے دوارے سیس نواؤں
تیری لے لوں بلیاّں صابر
سپنے ہی میں درشن دکھلا دو
مو کو مورے گسیّاں صابر
تن من سب توپے وارے
نوریؔ مورے سیّاں صابر
اسی طرح نوریؔ بریلوی کے اپنے والدِ ماجد امام احمد رضا بریلوی کی شان میں لکھے ہوئے منقبتی اشعاربھی ’’سامانِ بخشش‘‘ میں موجود ہیں ، اشعار نشانِ خاطر فرمائیں ؎
اس رضا پر ہو مولا رضائے حق
راہ جس نے تمہاری چلائی ہے
۔۔۔
محیِ سنت، حامیِ ملت، مجدد دین کا
پیکرِ رشد و ہدا احمد رضا ملتا نہیں
علاوہ ازیں نوریؔ بریلوی کی ایک غیر مطبوعہ منقبتِ رضا ذیل میں قاری امانت رسول پیلی بھیتی کے شکریے کے ساتھ نشانِ خاطر ہو ؎
تم ہو سراپا شمعِ ہدایت محیِ سنت اعلا حضرت
تم ہو ضیائے دین و ملت محیِ سنت اعلا حضرت
بحرِ علم و چشمۂ حکمت محیِ سنت اعلا حضرت
ہو دریائے فیض و رحمت محیِ سنت اعلا حضرت
کر دی زندہ سنتِ مردہ، دینِ نبی فرمایا تازہ
مولا مجددِ دین و ملت محیِ سنت اعلا حضرت
اس سے راضی ربّ و نبی ہو، جس سے آقا تم راضی ہو
تم ہو رضائے حضرتِ عزت محیِ سنت اعلا حضرت
مرکزِ حلقۂ اہلِ سنت، معدنِ علم و فضل و کرامت
منبعِ فیضِ شاہِ رسالت محیِ سنت اعلا حضرت
پھوٹ رہے ہیں تخمِ بدعت، پھوٹ رہی ہے شاخِ ضلالت
رہِ برِ امت شیخِ طریقت محیِ سنت اعلا حضرت
زیرِ قدم تھے ہم جو تمہارے، گویا جنت میں تھے سارے
تم جو سدھارے راہِ جنت محیِ سنت اعلا حضرت
ہو گئی دنیا دوزخ گویا، ہجر کی تپ نے ایسا پھونکا
جلوا دکھا دو دور ہو فرقت محیِ سنت اعلا حضرت
تم وہ مجسم نورِ ہدایت، دور ہے جس کے دم سے ظلمت
ہادیِ ملت ماحیِ بدعت محیِ سنت اعلا حضرت
محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد لائل پوری علیہ الرحمۃ کی شان میں لکھی گئی تعزیتی منقبت یوں ہے ؎
سنیوں کا دل نہ بیٹھے کس طرح
زور ان کے قلب کا جاتا رہا
فیض سے معمور جس نے کر دیا
چپّہ چپّہ ملک کا جاتا رہا
اُٹھتے اُٹھتے چَو طرف وہ چھا گیا
خوب برسا ابر سا، جاتا رہا
قوتِ دل طاقتِ دل زورِ دل
اس کے جانے سے مرا جاتا رہا
وہ محدث وہ محقق وہ فقیہ
عالمِ علمِ ہدا جاتا رہا
جو مرقع تھا جمال و حسن کا
وہ نگارِ اولیا، جاتا رہا
اس زمانے کا محدث بے مثال
جس کا ثانی ہی نہ تھا، جاتا رہا
تھا خشیت میں خدائے پاک کی
وہ مثالِ اتقیا، جاتا رہا
غوثِ اعظم خواجۂ اجمیر کا
وہ مجسم فیض تھا، جاتا رہا
فیض سے داتا کے مالامال تھا
گنجِ بخشِ علم تھا، جاتا رہا
پیکرِ رُشد و ہدا تھا بالیقیں
مظہرِ احمد رضا جاتا رہا
اعظمِ خلَفا تھا پاکستان میں
جانشینِ مصطفا جاتا رہا
حضرتِ صدر الشریعہ کا وہ چاند
میرا مہرِ پُر ضیا جاتا رہا
مرگیا فیضان جس کی موت سے
ہائے وہ ’’فیض انتما‘‘ جاتارہا
’’یا مجیب اغفرلہ‘‘ تاریخ ہے
کس برس وہ رہنما جاتا رہا
دیو کا سر کاٹ کر نوریؔ کہو
چاند روشن علم کا جاتا رہا
٭٭٭
علمِ بیان علمِ بلاغت کی ایک شاخ ہے۔ جس کے چار ارکان تشبیہہ، استعارہ، کنایہ اور مجازِ مُرسل ہیں۔ یہ زُہرہ جبین، شاعری کے سنگھار اور آرایش و زیبایش ہیں۔ ان کے استعمال سے کلام کے حُسن میں نکھار آ جاتا ہے اور اس کی جاذبیت میں اضافہ ہو جاتا ہے عام طور سے شعرا تشبیہہ و استعارہ ہی استعمال میں لاتے ہیں۔ لیکن کنایہ اور مجاز بھی کبھی کبھی استعمال کرتے ہیں جس سے شاعری میں ایک دھوپ چھاؤں کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔
حضرت نوریؔ بریلوی کے کلام میں تشبیہات و استعارات کی بہاریں لائقِ دید ہیں :
تعریف: جب شاعرکسی شعر میں مشبہ کو مشبہ بہٖ کے جیسا بیان کرتا ہے تو اسے تشبیہہ کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثال ؎
آبلوں کے سب کٹورے آہ خالی ہو گئے
منہ ابھی تر بھی نہ ہونے پایا تھا ہر خار کا
(آبلوں کو کٹورے کہا ہے یعنی آبلہ کی تشبیہ کٹورے سے دی ہے )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مرقدِ نوریؔ پہ روشن ہے یہ لعلِ شب چراغ
یا چمکتا ہے ستارہ آپ کی پیزار کا
(سرکارِ اقدس صلی اللہ علیہ و سلم کے پیزار کے ذرّہ کو ’’ستارا‘‘ اور پھر اسے ’’لعلِ شب چراغ‘‘
سے تشبیہہ دی ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زلفِ والا کی صفت واللیل ہے قرآن میں
اور رُخ کی والضحیٰ مہرِ عجم ماہِ عرب
(اس شعر میں زلف کو واللیل اور رُخ کو والضحیٰ سے تشبیہہ دی ہے نیز مہرِ عجم ماہِ عرب استعارے ہیں ایک شعر میں تشبیہات بھی اور استعارات بھی سبحان اﷲ!)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چہرہ مطلعِ نورِ الٰہی، سینہ مخزنِ رازِ الٰہی
شرح صدرِ صدارت والے صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
(چہرہ مشبہ، نورِ الٰہی مشبہ بہٖ۔ سینہ مشبہ، رازِ خدائی مشبہ بہٖ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تمہارے قدموں پہ موتی نثار کرنے کو
ہیں بے شمار مری اشک بار آنکھوں میں
(آنسووں کو موتی کہا گیا ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نہار چہرۂ والا تو گیسو ہیں واللیل
بہم ہوئے ہیں یہ لیل و نہار آنکھوں میں
(پہلے گیسو کو واللیل پھر لیل۔ چہرہ کو نہار(صبح)سے تشبیہہ دی ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیا کہوں کیسے ہیں پیارے ترے پیارے گیسو
دونوں عارض ہیں ضحی لیل کے پارے گیسو
(گیسو کو پارۂ لیل سے اور عارض کو ضحی سے تشبیہہ دی ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جو ساقیِ کوثر کے چہرے سے نقاب اُٹھے
ہر دل بنے مے خانہ، ہر آنکھ ہو پیمانہ
(دل مشبہ، مے خانہ مشبہ بہٖ۔ آنکھ مشبہ، پیمانہ مشبہ بہٖ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تیرے باغِ حُسن کی رونق کا کیا عالم کہوں
آفتاب اک زرد پتہ ہے ترے گل زار کا
(آفتاب کو زرد پتہ سے تشبیہہ دی ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ماہِ تاباں تو ہوا مہرِ عجم ماہِ عرب
ہیں ستارے انبیا مہرِ عجم ماہِ عرب
(انبیا کو ستارے کہا ہے اور سرکار کو ماہِ تاباں سے تشبیہہ دی ہے)
تعریف: جب شاعر کسی شعر میں مشبہ کو مشبہ بہٖ قرار دے دے تو اسے استعارہ کہتے ہیں۔
ناقدینِ ادب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ استعارہ، تشبیہہ سے زیادہ لطیف ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں مشبہ بہٖ کو عین مشبہ تسلیم کر لیتے ہیں۔ یعنی مستعار منہ سے مستعار لہٗ کے لیے اس کا وصف عاریۃً لے لیتے ہیں پھر اس کو عین مستعار منہٗ یعنی مشبہ بہٖ تسلیم کر لیتے ہیں جس سے مشبہ کی خوبی اور اس کی خوب صورتی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
نعت تو دراصل اس بے مثیل و بے نظیر ذات کی مدح ہے جو ہر تشبیہہ و استعارہ سے بلند و برتر اور ارفع و اعلا ہے۔ لیکن شاعر ا پنی قوتِ متخیلہ کو بروئے کار لا کر بے نظیر آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے استعارہ سازی کرتا ہے۔ حضرت نوریؔ بریلوی کے کلام میں استعارات کی بہتات ہے اور جو بھی استعارہ ہے خوب ہے اور عام فہم بھی ہے۔ چند مثالیں خاطر نشین کیجیے ؎
تو جانِ مسیحا سے حالت مری جا کہنا
اتنا تو کرم مجھ پر اے بادِ صبا کرنا
(استعارہ۔ جانِ مسیحا )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میرا گھر غیرتِ خورشید درخشاں ہو گا
خیر سے جانِ قمر جب کبھی مہماں ہو گا
(جانِ قمر۔ استعارہ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ماہِ طیبہ نیّرِ بطحا صلی اللہ علیک و سلم
تیرے دم سے عالم چمکا صلی اﷲ علیک و سلم
(ماہِ طیبہ، نیّرِ بطحا۔ استعارے ہیں )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ ہیں خورشیدِ رسالت نور کا سایہ کہاں
اس سبب سے سایۂ خیر الورا ملتا نہیں
(خورشیدِ رسالت۔ استعارہ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بسا ہوا ہے کوئی گل عذار آنکھوں میں
کھلا ہے چار طرف لالہ زار آنکھوں میں
(گل عذار۔ استعارہ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بہارِ جاں فزا تم ہو نسیمِ داستاں تم ہو
بہارِ باغِ رضواں تم سے ہے زیبِ جناں تم ہو
(بہارِ جاں فزا، نسیمِ داستاں، زیبِ جناں۔ استعارے ہیں )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
علوئے مرتبت پیارے تمہارا سب پہ روشن ہے
مکینِ لامکاں تم ہو شہ عرش علا تم ہو
(مکینِ لامکاں، شہ عرشِ علا۔ استعارے ہیں )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جو ساقیِ کوثر کے چہرے سے نقاب اُٹھے
ہر دل بنے مے خانہ ہر آنکھ ہو پیمانہ
(ساقیِ کوثر۔ استعارہ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اگر آئے وہ جانِ نور میرے خانۂ دل میں
مہ و خاور مرا گھر مطلعِ انوار ہو جائے
(جانِ نور۔ استعارہ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ناخدا با خدا آؤ بہرِ خدا
میری کشتی تباہی میں آئی ہے
(ناخدا۔ استعارہ ہے)
حضرت نوریؔ بریلوی کے سلامیہ قصائد میں حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کے جو اوصاف ہیں وہ سب استعارہ ہیں۔ مثلاً :شہ اورنگِ خلافت، والیِ ملکِ جلالت، رافع، نافع، سرورِ عالی مقام، ماہِ لاہوتِ خلوت، شاہِ ناسوتِ جلوت، وجہِ بعثِ خلقت، نورِ مجسم، رہِ برِ جملہ انام، نوری آئینے، کوچۂ پُر نور، رشکِ مہر، جانِ قمر، نیرِ چرخِ رسالت، نورِ چشمِ انبیا وغیرہ۔
علاوہ ازیں مختلف اشعار میں، شہ ہر دوسرا، آفتابِ ہاشمی، مہرِ عجم، ماہِ عرب، بدرالدجیٰ، فضلِ اتم، شانِ کرم، جانِ کرم، کانِ کرم وغیرہ استعارات میں ترکیب سازی سے بھی کام لیا گیا ہے۔
تعریف:جب شاعر کسی شعر میں ملزوم کا ذکر کر کے لازم مراد لیتا ہے تو اسے کنایہ کہتے ہیں۔
کنایہ لغوی اور مرادی دونوں معنوں میں مستعمل ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں اور استعارے میں یہ فرق پیدا ہو گیا ہے کہ استعارہ صرف مرادی معنی ترسیل کرتا ہے مثلاً: سفید پوش (شریف)، سفیدریش (بوڑھا)، مگس کی قے(شہد)، قندیلِ فلک(چاند)، دبیرِ فلک(عطارد) وغیرہ۔
چوں کہ اس کی مثالیں بھی کلامِ نوریؔ میں موجود ہیں لہٰذا اس سلسلے میں دو شعر نشانِ خاطر فرمائیں ۔۔ کنایہ کبھی استعارہ کے رنگ میں بھی استعمال ہوتا ہے، اس وقت اس کو ’’استعارہ با لکنایہ ‘‘ کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثالیں ؎
اس جبہہ سائی کے سبب شب کو اسی سرکار نے
انعام میں ’ٹیکا‘ دیا مہرِ عجم ماہِ عرب
اور صبح کو سرکار سے اس کو ملا نوریؔ صلہ
عمدہ سا ’جھومر‘ پُر ضیا مہرِ عجم ماہِ عرب
(یہاں۔ ٹیکا سے مرادچاند ہے جھومر سے مراد ہے سورج استعارہ بالکنایہ ہے۔ ماہِ عجم مہرِ عرب استعارے ہیں )
تشبیہہ، استعارہ اور کنایہ کی متذکرۂ بالا مثالیں کلامِ نوریؔ سے پیش کی گئی ہیں۔ آپ نے اپنے کلام میں علمِ بیان کے ان زیوروں کو جس احسن انداز سے برتا ہے اور اردو کے ساتھ فارسی لفظیات کی ترکیب کے جو جوہر بکھیرے ہیں وہ آپ کی فصاحت و بلاغت اور قادرالکلامی کی روشن دلیل پیش کرتے ہیں۔ آپ کے ذہنِ رسا نے اچھوتے اور نرالے استعارات و تشبیہات کو اپنے اشعار میں بڑی سادگی و صفائی اور خوش سلیقگی سے اس طرح نظم کیا ہے کہ ان کو پڑھنے کے بعد ایک طرح کے کیف آگیں جذبات سے روح سرشار ہونے لگتی ہے۔
٭٭٭
علمِ بیان کی طرح صنائع و بدائع بھی کلام کی آرایش و زیبایش کا ایک وسیلہ ہے۔ اس سے کلام میں حُسن اور لطف کی کیفیت میں اضافہ ہوتا ہے، لہٰذا اس کو لوازمِ شاعری میں شمار کیا جا تا ہے۔ البتّہ صنائع و بدائع کا استعمال بڑی سلیقہ مندی کا متقاضی ہے۔ حدِ اعتدال سے زیادہ اس کا استعمال کلام میں حُسن و خوبی کے بجائے بے کیفی اور عیب جوئی کی کیفیت پید ا کر دیتا ہے۔
اصنافِ غزل و قصیدے میں صنائع و بدائع کے استعمال کی بڑی گنجایش ہے کیوں کہ اس میدان میں مبالغہ اور غلو پر کوئی پابندی یا قدغن نہیں ہے۔ لہٰذا شعرا صنائع بدائع کے استعمال کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ غزل اور قصیدہ میں صنائع بدائع کا استعمال آسان ہے۔ جب کہ نعت کے تنگنائے میں اس کا استعمال بے حد دشوار اور مشکل ہے۔ اس لیے کہ یہاں غلو اور مبالغہ کا ہر گز گذر نہیں۔ البتہ نعت پاک میں صنعتِ تلمیح، صنعتِ تلمیع، لف و نشر مرتب و غیر مرتب، مراعاۃ النظیر، صنعتِ اقتباس ( قرآن و حدیث کے حوالے یا اشارے وغیرہ) خا ص طور سے استعمال کیے جاتے ہیں۔ لیکن ان کے استعمال کے لیے بھی شعری تجربہ اور سلیقہ درکار ہے۔
دراصل عصرِ موجودہ کی شاعری میں بیان و بدیع نیز بہت سے فنّی اور عروضی اصولوں اور نزاکتوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی شعرا ان فنون اور آدابِ شاعری سے واقفیت کو ضروری اور لازمی سمجھتے ہیں۔ لیکن 20 ؍ ویں صدی کے کم سے کم نصفِ اول تک ان باریکیوں اور فنّی قیود و آداب پر توجہ ضروری سمجھی جاتی تھی۔
گو حضرت نوریؔ بریلوی کا وصال بیسویں صدی کی نویں دہائی(1981ء ) میں ہوا۔ لیکن آپ نے اپنا دیوان ’’سامانِ بخشش‘ ‘ بیسویں صدی کے نصفِ اول یعنی بیسویں صدی کی چوتھی دہائی1354ھ / 1934ء ہی میں مرتب کر لیا تھا۔ لہٰذا آپ کے دور کی روایت میں فنّی قیود و آداب کی پوری پابندی کی جاتی تھی اور خود حضرت نوریؔ بریلوی نے ان آداب کا خیال رکھا ہے۔
صنائع بدائع کے نقطۂ نظر سے حضرت نوریؔ بریلوی کے کلام کے محاسن میں ۔۔ ’’صنائع معنوی اور صنائع لفظی ‘‘۔۔ دونوں کے نمونے پیش کیے جا تے ہیں۔
تعریف :ظاہری طور پر معنویت پر منحصر صنعتوں کو صنائعِ معنوی کہتے ہیں۔ لیکن الفاظ کے بغیر معنوی صنعت کا وجود ممکن نہیں۔ ایہام، مبالغہ، مراعاۃ النظیر، تضاد، تنسیق الصفات، لف و نشر مرتب و غیر مرتب، تلمیح، حُسنِ تعلیل اور ہجو وغیرہ معروف صنائعِ معنوی ہیں۔
تعریف :جب شاعر کسی شعر یا کلام میں ایک لفظ کی رعایت سے اس کے مترادف الفاظ کا استعمال کرتا ہے تو اسے مراعاۃ النظیر کہتے ہیں۔ مثلاً : برسات کا ذکر اس طرح کیا جائے کہ بارش، بادل، گرج، چمک، بجلی وغیرہ کا ذکر بھی ہو۔ یا چمن کا ذکر اس طرح ہو کہ پھول، پتی، شاخ، خوشبو، وغیرہ کا بیان ہو، ہر صنفِ شاعری میں یہ صنعت عام طور سے استعمال کی جاتی ہے اس سے کلام میں حُسن پیدا ہو جاتا ہے۔ کلامِ نوریؔ سے مثالیں نشانِ خاطر ہوں ؎
گل سے مطلب ہے جہاں ہو عندلیبِ زار کو
گل نہ ہو تو کیا کرے بلبل کہو گل زار کا
(گل، عندلیب، بلبل، گل زار)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کب ستارہ کوئی چمکا سامنے خورشید کے
ہو نبی کیسے نیا مہرِ عجم ماہِ عرب
(ستارہ، چمک، خورشید، مہر، ماہ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میری آنکھوں، میرے سر پر، میرے دل پر، میرے جگر پر
پائے اقدس رکھ دو شاہا صلی اللہ علیک و سلم
(آنکھ، سر، دل، جگر، پا)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دور ساحل موج حائل پار بیڑا کیجیے
ناؤ ہے منجدھار میں اور ناخدا ملتا نہیں
(ساحل، موج، بیڑا، ناؤ، منجدھار، ناخدا)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نسیمِ فیض سے غنچے کھلانے آئے ہیں
کرم کی اپنی بہاریں دکھانے آئے ہیں
(نسیٖم، غنچہ، کھلانے، بہار )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بہارِ جاں فزا تم ہو نسیمِ داستاں تم ہو
بہارِ باغِ رضواں تم سے ہے زیبِ جناں تم ہو
(بہار، نسیٖم، باغ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کعبہ و اقصیٰ و عرش و خلد نوریؔ ہیں مگر
ہے نرالا سب عالم جلوہ گاہِ یار کا
(کعبہ، اقصیٰ، عرش، خلد )
کلامِ نوریؔ میں مراعاۃ النظیر کی بے پناہ مثالیں بکھری نظر آتی ہیں۔ لیکن مقالے کی ضخامت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے چند پر ہی اکتفا کیا جا رہا ہے۔
تعریف:جب شاعر کسی شعر یا کلام میں دو ایسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہوں تو اسے صنعتِ تضاد کہتے ہیں۔ اس صنعت کو تکافو، طباق اور مطابقت بھی کہتے ہیں۔ یہ صنعت بھی بہ کثرت استعما ل ہو ئی ہے، یہاں نوریؔ بریلوی کے کلام سے صرف چند مثالوں پر ہی اکتفا کیا جا رہا ہے ؎
ہے خشک و تر پہ قبضہ جس کا وہ شاہِ جہاں یہ ہے
یہی ہے بادشاہ بر کا یہی سلطاں سمندر کا
(خشک و تر۔ بر و سمندر)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آبلہ پا چل رہا ہے بے خودی میں سر کے بل
کام دیوانہ بھی کرتا ہے بڑے ہشیار کا
(دیوانہ و ہشیار)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گل ہو صحرا میں تو بلبل کے لیے صحرا چمن
گل نہ ہو گلشن میں تو گلشن ہے اک بَن خار کا
(صحرا و چمن۔ گل و خار)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صبحِ روشن کی سیہ بختی سے اب شام ہوئی
کب قمر نور دہ شامِ غریباں ہو گا
(صبح و شام)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ظلمتیں سب مٹ گئیں ناری سے نوری ہو گیا
جس کے دل میں بس گیا مہرِ عجم ماہِ عرب
(ناری و نوری)
تعریف : جب شاعر کسی شعر یا کلام میں کسی کا ذکر صفاتِ متواتر سے کرے تواسے صنعتِ تنسیق الصفات اور تواتر کہتے ہیں۔ اس سلسلے میں کلامِ نوریؔ سے مثالیں خاطر نشین ہوں ؎
ماہِ تاباں تو ہوا مہرِ عجم ماہِ عرب
ہیں ستارے انبیا مہرِ عجم ماہِ عرب
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو شمعِ رسالت ہے عالم ترا پروانہ
تو ماہِ نبوت ہے اے جلوۂ جانانہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم ہو شہ اورنگِ خلافت تم ہو والیِ ملکِ جلالت
تم ہو تاجِ رفعت والے تم پر لاکھوں سلام
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم ہو جوہرِ فردِ عزت تم ہو جسم و جانِ وجاہت
تم ہو تاجِ رفعت والے صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم ہو اول تم ہو آخر تم ہو باطن تم ہو ظاہر
حق نے بخشے ہیں یہ اسما صلی اللہ علیک و سلم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بہارِ جاں فزا تم ہو نسیمِ داستاں تم ہو
بہارِ باغِ رضواں تم سے ہے زیبِ جناں تم ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تعریف: وہ صنعت جس میں شاعر کسی شعر کے ایک مصرعے میں چند خیالات یا چیزوں کا ذکر کرتا ہے پھر دوسرے مصرعے میں چند اور خبریں بیان کرتا ہے جو پہلی چیزوں سے مشابہت رکھتی ہیں۔ مگر اس طرح کہ ہر ایک کی نسبت اپنے منسوب الیہ سے مل جائے تو اس صنعت کو لف و نشر کہا جاتا ہے۔ یہ صنعت بھی کثیر الاستعمال اور عامۃ الورود ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔
تعریف: اس میں دونوں مصرعوں میں خیالات و اشیا کے مناسبات ترتیب میں ہوتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثالیں ؎
کجا ہم خاک افتادہ کجا تم اے شہ والا
اگر مثلِ زمیں ہم ہیں تو مثلِ آسماں تم ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم ہیں جتنے خاطی مخطی آپ ہیں اس سے زائد معطی
عفو و صفح و عنایت والے صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
لف و نشر غیر مرتب
تعریف:لف و نشر غیر مرتب میں خیالات یا اشیاکسی ترتیب میں نہ ہوں یا معکوسی ترتیب میں ہوں۔ مثلاً ؎
نہار چہرۂ والا تو گیسو ہیں واللیل
بہم ہوئے ہیں یوں لیل و نہار آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سماوا ڈوبا ہوا اور ساوا خشک ہوا
خزاں کا دور گیا موسمِ بہار آیا
تعریف:مذہبی، تاریخی، سماجی، ثقافتی وغیرہ روایات و واقعات میں سے کسی ایک واقعہ یا قصہ کی طرف شعر میں اشارہ کرنا تلمیح ہے۔ مذہبی شاعری میں صنعتِ تلمیح کے بغیر شعر میں وقار اور علمیت برپا ہوہی نہیں سکتی اور نہ ہی شعری حُسن اور مضمون آفرینی کے جلوے بکھرسکتے ہیں۔
صنعتِ تلمیح کے استعمال کا تعلق شاعر کے علم و فضل سے بھی ہے۔ حضرت نوریؔ بریلوی تو مفتی اعظمِ ہند ہیں۔ فقہ، حدیث، تفسیر اور دیگر علومِ دینیہ کے کوہِ گراں ہیں۔ ظاہر ہے آپ کے کلام میں اس صنعت کا موزوں اور اعلا استعمال ناگزیر ہے۔ چناں چہ کلامِ نوریؔ سے اس صنعت کی چند مثالیں خاطر نشین ہوں ؎
جمالِ حق نما دیکھیں عیاں نورِ خدا پائیں
کلیم آئیں ہٹا دیکھیں ذرا پردہ ترے در کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شہرہ لبِ عیسیٰ کا جس بات میں ہے مولا
تم جانِ مسیحا ہو ٹھوکر سے ادا کرنا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اک اشارے سے قمر کے تم نے دو ٹکڑے کیے
مرحبا صد مرحبا مہرِ عجم ماہِ عرب
(معجزۂ شق القمر کا واقعہ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تمہارے فیض سے لاٹھی مثالِ شمع روشن ہو
جو تم لکڑی کو چاہو تیز تر تلوار ہو جائے
(عصائے صحابہ کا مثلِ شمع روشن ہونا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میدانِ جنگ میں لکڑی کا تلوار بن جانا)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تمہارے حکم کا باندھا ہوا سورج پھرے الٹا
جو تم چاہو کہ شب دن ہو ابھی سرکار ہو جائے
(اشارۂ مصطفوی سے ڈوبے ہوئے سورج کا دوبارہ طلوع ہو جانا)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بوجہلِ لعیں کلمہ پڑھتا دیکھا ہی نہیں اس نے شاہا
پردوں والی صورت والے تم پر لاکھوں سلام
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تیرے نقشِ قدم نے سرور پتھر موم بنائے یک سر
موم بنا دلِ سنگیں میرا صلی اﷲ علیک و سلم
(حضور صلی اللہ علیہ و سلم پتھر پر قدم رکھتے تو وہ موم کی طرح نرم ہو جاتا تھا)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کون گیا ہے عرشِ علا تک کس کی رسائی ذاتِ خدا تک
تم نے پایا رتبۂ اعلا صلی اﷲ علیک و سلم
اب کلامِ نوریؔ سے صنعتِ تلمیح کی چند ایسی مثالیں پیش ہیں جن کی تشریح و تصریح کے لیے مذہبی دیدہ وری کی ضرورت ہے ؎
پایا تم نے رتبۂ علیا قاب قوسین او ادنیٰ
حق سے ایسی قرابت والے صلی اللہ صلی اﷲ صلی اﷲ علیک و سلم
(معراج میں قرب کا واقعہ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آدم سے تا حضرتِ عیسیٰ سب کی خدمت میں ہو آیا
نفسی سب نے ہی فرمایا صلی اللہ علیک و سلم
(بروزِ محشر خلقِ خدا حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک سارے انبیا علیہم السلام کے پاس شفاعت کے لیے جائے گی مگر سب اذہبوا الیٰ غیری فرمائیں گے۔ آخر میں سب حضور نبیِ آخر الزماں صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور آپ فرمائیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انالہا انالہا)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ آئے جن کے آنے کی خبر تھی مدت سے
دعا خلیل کی عیسیٰ کی جو بشارت تھے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وقتِ ولادت تم نہیں بھولے وقتِ رحلت یاد ہی رکھے
اپنے بندے تم نے شاہا صلی اﷲ علیک و سلم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سماوا ڈوبا ہوا اور ساوا خشک ہوا
خزاں کا دور گیا موسمِ بہار آیا
(سرکارِ ابد قرار صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادتِ پاک پر ساوا دریا خشک ہو گیا تھا اور خشک سماوا جاری)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہزار سال کی روشن شدہ بجھی آتش
یہ کفر و شرک کی آتش بجھانے آئے ہیں
(سرکارِ ابد قرار صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادتِ پاک پر ہزار سال سے روشن آگ بجھ گئی )
تعریف:جب شاعر کسی واقعے کا وہ سبب بیان کرے جو اصلاً اس واقعے کا سبب نہ ہو تو اس کو صنعتِ حُسنِ تعلیل کہتے ہیں۔
شعرا و ادبا صنعتِ حُسنِ تعلیل کو شاعری کی جان مانتے ہیں۔ شاعر کی قوتِ متخیلہ اشیائے کائنات کی حقیقی علل سے ہٹ کر ان کے لیے نئی علتّیں تراشتی ہے جس سے کلام میں لطف و تاثیر اور کیف پیدا ہو جاتا ہے۔ کلامِ نوریؔ سے اس کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں ؎
سرو و سنبل اور سمن
شمشاد و صنوبر اور سوسن
نرگس نسریں سارا چمن
اس کی ثنا میں نغمہ زن
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تیرے باغِ حُسن کی رونق کا عالم کیا کہوں
آفتاب اک زرد پتہ ہے ترے گل زار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دھو دیں گنہ کے کالے دھبے ابرِ کرم کے برسیں جھالے
گیسووں والے رحمت والے تم پر لاکھوں سلام
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ آج کاہے کی شادی ہے عرش کیوں جھوما
لبِ زمیں نے لبِ آسماں کو کیوں چوما
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نظر کے ایسے قوی ہیں طیور آنکھوں میں
یہ آ رہا ہے دلِ ناصبور آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
غلافِ چشم کے اُٹھتے ہی آسمان گئے
نظر کے ایسے قوی ہیں طیور آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ سرِ طور سے گرتے ہیں شرارے نوریؔ
روئے پُر نور پہ یا وارے ہیں تارے گیسو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آبلوں کے سب کٹورے آہ خالی ہو گئے
منھ ابھی تر بھی نہ ہونے پایا تھا ہر خار کا
تعریف: جب شاعر کسی شعر یا کلام میں اپنے تخلص کو اس طرح استعما ل کرے کہ و ہ مضمون کا حصہ بن جائے تو اسے صنعت استشہاد کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے اس صنعت کی مثال نشانِ خاطر ہو ؎
کعبہ و اقصیٰ و عرش و خلد نوریؔ ہیں مگر
ہے نرالا سب سے عالم جلوہ گاہِ یار کا
کلامِ نوریؔ کی متذکرہ بالا مثالیں صنائعِ معنوی سے متعلق ہیں۔ ان مثالوں سے نوریؔ بریلوی کی فصاحت و بلاغت آشکار ہوتی ہے۔ ایک خالص مذہبی و دینی شاعر ہونے کے با وصف آپ کے یہاں شعری و فنّی محاسن کی جو جلوا گری ہے وہ آپ کے اہلِ زبان و بیان شاعر ہونے پر دال ہے۔ صنائعِ معنوی کے بعد نوریؔ بریلوی کے کلام سے صنائعِ لفظی کی مثالیں نشانِ خاطر ہوں۔
تعریف: وہ صنعتیں جن میں منفرد الفاظ کا ہنر مندی سے استعمال کیا جائے صنائعِ لفظی کہلاتی ہیں۔ تجانیس، ایک یا زائد لفظوں کا استعمال، سجع، تلمیع، اقتباس، ردالعجز، مسمط، تاریخ گوئی، نقطوں یا بغیر نقطوں کی صنعت اور معمّا وغیرہ معروف صنائعِ لفظی ہیں۔
تعریف:جب شاعر کسی شعر یا کلام میں ایسے دو لفظوں کا استعمال کر ے جو تلفظ میں یک ساں اور معنی کے اعتبار سے مختلف ہوں تو اسے صنعتِ تجنیس کہتے ہیں۔
صنائعِ لفظی میں صنعتِ تجنیس کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ صنعتِ تجنیس کی متعدد قسمیں ہیں لیکن ان میں ’’تجنیسِ تام‘‘سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
تعریف: جب شاعر کسی شعر میں دوایسے ا لفاظ استعمال کرتا ہے۔ جو لکھنے پڑھنے اور بولنے میں ایک جیسے ہوں لیکن ان کے معنی جدا جدا ہوں تو اسے صنعتِ تجنیسِ تام کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثالیں خاطر نشین ہوں ؎
نگاہِ مہر سے اپنی بنایا مہر ذرّوں کو
الٰہی نور دن دونا ہو مہر ذرّہ پرور کا
(ایک مہر کا معنی ہے مہربانی و عنایت اور دوسرے مہر کا معنی ہے سورج)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیا کرے سونے کا کُشتہ، کُشتہ تیرِ عشق کا
دید کا پیاسا کرے کیا شربتِ دینار کا
(ایک کُشتہ کا معنی ہے اکسیر یا پھونکی ہوئی دھات۔ دوسرے کا معنی قتل ہونا یا ذبح ہو جانا)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پاؤں کیا میں دل میں رکھ لوں پاؤں جو طیبہ کے خار
مجھ سے شوریدہ کو کیا کھٹکا ہو نوکِ خار کا
(پاؤں، پیر۔ پاؤں یعنی مِل جائے یا حاصل ہو جائے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دیس سے ان کے جو الفت ہے تو دل نے میرے
اس لیے دیس کا جنگلہ بھی تو گانے نہ دیا
(دیس، ملک۔ دیس، ایک قسم کا راگ)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تمہارا فیض ہی ساری ہے ان ساری بہاروں میں
بہاروں میں نہاں تم ہو بہاروں سے عیاں تم ہو
(ساری، جاری، رواں۔ ساری، مکمل، پوری)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نظر عارف کو ہر عالم میں آیا آپ کا عالم
نہ ہوتے تم تو کیا ہوتا بہارِ جاں فزا تم ہو
(عالم، دنیا، جہاں۔ عالم، جلوہ، تجلّی )
تعریف: جب شاعر کسی شعر میں دوایسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ جو تلفظ میں یک ساں ہوں لیکن بعض حروف مختلف اور قریب المخرج ہوں تو اسے صنعتِ تجنیسِ مضارع کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے چند مثالیں ؎
کچھ ایسے نیک عمل بھی ہیں یا یونہی امل ہی ہے
دنیا کی بھی ہر شیَ کا تم لیتے ہو بیعانہ
(عمل اور اَمل کے پہلے حروف مختلف لیکن قریب المخرج ہیں )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
برے احوال ہیں اس روز اف اف
بہت اہوالِ بہ کا سامنا ہے
(احوال اور اہوال میں دوسرے حروف مختلف لیکن قریب المخرج ہیں )
تعریف: جب شاعر کسی شعر میں دو ایسے الفاظ کا ا ستعمال کرتا ہے جن میں ایک حرف کی کمی یا بیشی ہو تو اسے صنعتِ تجنیسِ زائد کہتے ہیں۔ ا سے تجنیس مطرّف اور ناقص بھی کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے چند مثالیں ؎
مظالم کر لیں جتنے ہوویں ظالم
نہ کر غم نوریؔ کہ اپنا بھی خدا ہے
(’’مظالم‘‘ اور’’ ظالم‘‘ میں تجنیس زائد ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بسا ہوا ہے کوئی گل عذار آنکھوں میں
کھلا ہے چار طرف لالہ زار آنکھوں میں
(’’عذار‘‘ اور’’ زار‘‘ میں تجنیس زائد ہے)
تعریف:جب شاعر کسی شعر میں دو ایسے الفاظ کا استعمال کرے۔ جن میں سے ایک میں دو حرف زائد ہوں تو اسے صنعتِ تجنیسِ مذیّل کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثال ؎
شب کو شبنم کی مانند رویا کیے
صورتِ گل وہ ہم کو ہنسا کر چلے
(’’شب‘‘ اور ’’شبنم‘‘ میں تجنیس مذیل ہے)
ہ:تجنیس خطّی:
تعریف: جب شاعر کسی شعر میں دو ایسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ جن میں نقطوں کی کمی بیشی یا ان کے مقام میں تبدیلی ہو تو اسے صنعتِ تجنیسِ خطّی کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثالیں ؎
سراپا کو ئی تو غرقِ عَرَق ہے
کسی کے منہ تک آ کر رہ گیا ہے
(’’غرق‘‘ اور ’’عرق‘‘ کی تحریر میں ایک نقطے کا فرق ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خدا ہے تو نہ خدا سے جدا ہے اے مولا
ترے ظہور سے رب کا ظہور آنکھوں میں
(’’خدا‘‘ اور ’’جدا‘‘ کی تحریر میں ایک نقطے کا فرق ہے)
تعریف:جب شاعر کسی شعر میں دو ایسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ جن میں حرکات (زبر، زیر یا پیش )کا اختلاف ہو تو اسے صنعتِ تجنیسِ محرّف کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثالیں ؎
خزاں کا دَور ہوا دُور وہ جہاں آئے
ہوئی ہے قدموں سے ان کے بہار آنکھوں میں
(’’دَور‘‘ اور ’’دُور‘‘ میں دال کی حرکت مختلف ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ماں باپ بھائی بہن فرزند و زن اک اک جدا
غم زَدا ہر ایک ہے اور غم زُدا ملتا نہیں
(’’غم زَدا‘‘ اور ’’غم زُدا‘‘میں زا کی حرکت مختلف ہے)
تعریف: جب شاعر کسی شعر میں ایسے الفاظ کا استعما ل کرتا ہے۔ جن میں ایک سے زائد حرف کی تکرا ر پائی جائے تو اسے صنعتِ تجنیسِ صوتی کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثال ؎
نظر نظیر نہ آیا نظر کو کوئی کہیں
جچے نہ غلماں نظر میں نہ حور آنکھوں میں
(یہاں ’’ن، ظ، ر‘‘ کی تکرار نمایاں ہے )
تعریف :جب شاعر کسی شعر کے کسی مصرعے یا ترکیب میں ایسے الفاظ کا استعما ل کرے جن میں کئی لفظ ایک حرف سے شروع ہوں تو اسے صنعتِ تجنیسِ سر حرفی کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثال ؎
مَے محبتِ محبوب سے یہ ہیں سر سبز
بھری ہوئی ہے شرابِ طہور آنکھوں میں
(اس شعر میں ’’مَے، محبت، محبوب‘‘ میں میم سے سر حرفی تجنیس پیدا ہو گئی ہے)
تعریف:جب شاعر کسی شعر میں دو ایسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ جو صوتی ترتیب اور معنوں میں جدا ہوں لیکن جن کی تقلیب سے ایک سے دوسرے کے معنی حاصل ہوں تو اسے صنعتِ تجنیسِ قلب کہتے ہیں۔ اس کی کئی قسمیں ہیں۔ کلامِ نوریؔ میں تجنیسِ قلبِ بعض کی مثال ملتی ہے۔
تجنیس قلبِ بعض کی تعریف: جب شاعر کسی شعر میں دو ایسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ جن میں الفاظ کے بعض اجزا کی تقلیب ہوتی ہے اور ایک سے دوسرے کے معنی حاصل ہوتے ہیں تو اسے صنعتِ تجنیسِ قلبِ بعض کہتے ہیں۔
کیوں مجھے خوف ہو محشر کا کہ ہاتھوں میں مرے
دامنِ حامیِ خود، ماحیِ عصیاں ہو گا
(’’حامی‘‘ اور ’’ماحی‘‘ میں تجنیس قلبِ بعض ہے)
تعریف: جب شاعر کسی شعر میں کسی دوسری زبان کے لفظ کا استعمال کرتا ہے تو اسے صنعتِ تلمیع کہتے ہیں۔ اس صنعت کے بر محل استعمال کے لیے تبحُرِ علمی کی ضرورت ہے۔ اردو زبان کا عام شاعر اس کو برت نہیں سکتا۔ حضرت نوریؔ بریلوی کی تبحرِ علمی اظہر من الشمس ہے۔ آپ کے یہاں اس صنعت کا بہ کثرت اور نہایت خوب صورتی سے استعمال ہوا ہے۔
حضرت نوریؔ بریلوی کی حمدیہ نظم بہ عنوان ’’اذکارِ توحید ذات، اسما و صفات و بعض عقائد‘‘ (مخمس میں ) ہر بند میں۔ ’’لا الہ الا اللہ اٰمنا برسول اللہ ‘‘مکرّر ہے۔ علاوہ اس کے کوئی بند عربی میں جیسے ؎
ربی حسبی جل اللہ
مافی قلبی غیر اللہ
حق حق حق اﷲ اﷲ
رب رب رب سبحان اﷲ
لا الہ الا اﷲ اٰمنا برسول اللہ
ایک سلام کا یہ شعر دیکھیے مصرع اُولیٰ عربی میں ہے اس کے علاوہ ہر مصرع ثانی میں ’’صلی اللہ علیک و سلم ‘‘ آیا ہے جو عربی میں ہے ؎
بارکَ شرَّف مجَّد کرَّم نوِّر قلبک اسریٰ علَّم
رب نے تم کو کیا کیا بخشا صلی اللہ علیک و سلم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
از سرِ بالینِ من بر خیز اے ناداں طبیب
ہو چکا تجھ سے مداوا عشق کے بیمار کا
(مصرع اولیٰ فارسی میں ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چہ نسبت خاک را باعالمِ پاکت کہ اے مولا
گدائے بے نوا ہم ہیں شہ عرش آستاں تم ہو
(مصرع اولیٰ فارسی میں ہے)
حضرت صابر پیا کلیر علیہ الرحمۃ کی منقبت حضرت نوریؔ بریلوی نے پوربی زبان میں لکھی ہے جس میں ہندی الفاظ مثلاً۔ ۔ ۔ ۔ درشن، چرن، سپنا وغیرہ بھی آئے ہیں۔ دو شعر دیکھیے ؎
چیری کو اپنے چرنوں لگا لے
میں پروں تورے پیّاں صابر
سپنے ہی میں درشن دکھلا دو
مو کو مورے گسیّاں صابر
(خط کشیدہ الفاظ ہندی زبان کے ہیں )
تعریف : جب شاعر کسی شعر میں کوئی آیت یا حدیث اس طرح استعمال کرے کہ اس کے اصل الفاظ اپنے سیاق میں نہ رہیں تو اسے صنعتِ اقتباس یا عُقد کہتے ہیں۔
اس صنعت کو شعر میں کماحقہٗ استعمال کے لیے بہت زیادہ علمیت کی ضرورت ہے۔ نوریؔ بریلوی کی عالمانہ حیثیت واضح ہے، چناں چہ ان کے ہاں اس کی مثالیں بہت ملتی ہیں۔ چند مثالیں نشانِ خاطر فرمائیں ؎
آپ کا ید یدِ ربِّ واحد فوق ایدہم ہے شاہد
اے ربانی بیعت والے تم پر لاکھوں سلام
(قرآنی آیت کا جزو)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
قولِ حق ہے قول تمہارا ان ہو الا وحیُّ یو حیٰ
صدق و حق و امانت والے تم پر لاکھوں سلام
(قرآنی آیت کا جزو)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ربِّ سلِّم کی دعا سے پار بیڑا کیجیے
راہ ہے تلوار پر نیچے ہے دریا نار کا
(حدیث پاک)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زبانِ انبیا پر آج نفسی نفسی ہے
مگر حضور شفاعت کی ٹھانے آئے ہیں
(حدیث پاک)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سبھی رسل نے کہا اذہبوا الیٰ غیری
انا لہا کا یہ مژدہ سنانے آئے ہیں
(حدیث پا ک)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیا کہوں کیسے ہیں پیارے ترے پیارے گیسو
دونوں عارض ہیں ضحی لیل کے پارے گیسو
(قرآن پاک)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تاج رکھا ترے سر رفعنا کا
کس قدر تیری عزت بڑھائی ہے
(قرآن پاک)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
انا قاسمُُ سے ہے روشن جہاں میں
جسے جو ملا وہ تمہارا دیا ہے
(حدیث پاک)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مصطفیٰ ماجآ الا رحمۃ للعٰلمین
چارہ سازِ دوسرا تیرے سوا ملتا نہیں
(قرآن پاک)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
من رأنی راء الحق سنا کر چلے
میرا جلوہ ہے حق کا جتا کر چلے
جز بشر اور کیا دیکھیں خیرہ نظر
ایُّکم مثلی کو وہ سنا کر چلے
(قطعہ بند۔ حدیث پاک)
تعریف : شعر جس کے دو مصرعے دو مختلف زبانوں میں ہوں تو اسے صنعتِ ذو لسانین کہتے ہیں۔
کلامِ نوریؔ میں اس کی بہ کثرت مثالیں ملتی ہیں چند ملاحظہ ہوں ؎
بارکَ شرَّف مجَّد کرَّم نوِّر قلبک اسریٰ علَّم
رب نے تم کو کیا کیا بخشا صلی اللہ علیک و سلم
(مصرعِ اولیٰ عربی میں ہے)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
از سرِ بالینِ من بر خیز اے ناداں طبیب
ہو چکا تجھ سے مداوا عشق کے بیمار کا
(مصرع اولیٰ فارسی میں ہے)
تعریف : جب شاعر کسی شعر میں اصل قافیے کے علاوہ تین مسجع یا ہم وزن فقرے یا قافیے مزید نظم کرے تو اسے صنعتِ مُسمّط کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثالیں خاطر نشین ہوں ؎
ہر شَے میں ہے تیرا جلوا، تجھ سے روشن دین و دنیا
بانٹا تو نے نور کا باڑا صلی اللہ علیک و سلم
منہ تک میرے پسینہ پہونچا، ڈوبا ڈوبا ڈوبا ڈوبا
دامن میں لے لیجے آقا صلی اللہ علیک و سلم
آدم سے تا حضرت عیسا، سب کی خدمت میں ہو آیا
نفسی سب نے ہی فرمایا صلی اللہ علیک و سلم
میرے آقا میرے مولا، آپ سے سن کر انی لہا
دم میں ہے دم میرے آیا صلی اللہ علیک و سلم
تعریف: جب شاعر کسی شعر یا کلام میں ضرب المثل کا استعما ل کرے تو اسے صنعتِ ارسال المثل کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے اس صنعت کی مثال نشانِ خاطر ہو ؎
یہ ایسا اس کا حکمِ شرک و بدعت
اسے ’’ساون کے اندھے کا ہرا‘‘ ہے
تعریف: جب شاعر کسی شعر یا کلام میں ایک اصل کے ہم معنی الفاظ یا معنوی ہم آہنگی رکھنے والے ایک ہی مشتق کے مختلف الفاظ استعما ل کرے تو اسے صنعتِ اشتقاق کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے اس صنعت کی مثالیں نشانِ خاطر ہوں ؎
گل ہو صحرا میں تو بلبل کے لیے صحرا چمن
گل نہ ہو گلشن میں تو گلشن ہے اک بَن خار کا
گل سے مطلب ہو جہاں ہو عندلیبِ زار کو
گل نہ ہو تو کیا کرے بلبل کہو گل زار کا
تعریف: جب شاعر کسی شعر یا کلام میں ہم وزن اور مقفا لفظ کسی بھی مقام پر نظم کرے تو اسے صنعتِ تضمین مزدوج کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے اس صنعت کی مثال نشانِ خاطر ہو ؎
تم ہو ماہِ لاہوتِ خلوت
تم ہو شاہِ ناسوتِ جلوت
تم ہو آبِ عینِ رحمت
تم ہو تابِ ماہِ ندرت
تم ہو سایۂ ربِّ عزت
تم ہو مایۂ خلق و خلقت
۔۔۔۔۔
چمک سے اپنی جہاں جگمگانے آئے ہیں
مہک سے اپنی یہ کوچے بسانے آئے ہیں
بہ طورِ مثال پیش کیے گئے جملہ اشعار کے خط کشیدہ الفاظ تضمین مزدوج کے بہترین عکاس ہیں۔
تعریف: جب شاعر کسی شعر یا کلام میں دو قافیے نظم کرے تو اسے صنعتِ ذو قافیتین کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے اس صنعت کا شہ پارہ ملاحظہ ہو ؎
پیام لے کے جو آئی صبا مدینے سے
مریضِ عشق کی لائی دوا مدینے سے
آئی۔ صبا/لائی۔ دوا۔۔دوہرے قوافی ہیں۔ اس صنعت کو ’’تشریع ‘‘بھی کہتے ہیں۔
تعریف: جب شاعر کسی شعر کے پہلے مصرعے میں کوئی ایسا مخصوص لفظ استعمال کرے جو شعر کے لیے متوقع قافیہ ذہن میں لائے۔ ’’بولتے ہوئے قافیے‘‘ اسی صنعت سے ذہن میں آتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے اس صنعت کی مثالیں خاطر نشین ہوں ؎
ہزار سال کی روشن شدہ بجھی آتش
یہ کفر و شرک کی آتش بجھانے آئے
حضور بہرِ خدا داستانِ غم سن لیں
غمِ فراق کا قصہ سنانے آئے ہیں
کھلے گی میرے بھی دل کی کلی کہ جانِ جناں
چمن میں پھول کرم کے کھلانے آئے ہیں
۔۔۔۔۔
گل سے مطلب ہو جہاں ہو عندلیبِ زار کو
گل نہ ہو تو کیا کرے بلبل کہو گل زار کا
ان اشعار کے پہلے مصرعے میں ’’بجھی‘‘۔۔’’ سُن‘‘۔۔ ’’کھِلے‘‘۔۔ اور ’’گل‘‘ بہ طور ارصاد ہیں جن سے دوسرے مصرعوں کے قافیے ’’بجھانے‘‘۔۔ ’’سنانے‘‘۔۔ ’’کھلانے‘‘ ۔۔اور ’’ گل زار‘‘ متلازم ہیں۔ اس صنعت کو ’’تسہیم ‘‘ بھی کہتے ہیں۔
تعریف: جب شاعر کسی شعر یا قطعہ میں کسی واقعے کی عیسوی یا ہجری سال کی تاریخ نظم کرتا ہے تو اسے تاریخ گوئی کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے مثالیں پیش ہیں ؎
مر گیا فیضان جس کی موت سے
ہائے وہ ’’فیض انتما‘‘ جاتا رہا
’’یا مجیب اغفر لہ ‘‘ تاریخ ہے
کس برس وہ رہنما جاتا رہا
دیو کا سر کاٹ کر نوریؔ کہو
’’چاند روشن علم کا جاتا رہا‘‘
(واوین کے الفاظ سے 1382ھ مستخرج ہوتا ہے جو سنہ وصال ہے)
صنائعِ لفظی و معنوی کی مذکورہ مثالیں نوریؔ بریلوی کے کلام سے ماخوذ ہیں۔ آپ نے ان صنعتوں کو ادیبانہ مہارت سے اپنے اشعار میں پیش کیا ہے۔ کہا جا تا ہے کہ صنائع کے استعمال سے معنی آفرینی اور خیال آفرینی مفقود ہو جا تی ہے۔ لیکن کلامِ نوریؔ کے مطالعہ کی روشنی میں یہ خیال تقویت پاتا ہے کہ صنعتوں کے استعمال کی گہما گہمی کے باوجود کہیں بھی کسی لفظی جھول کا احساس نہیں ہوتا اور نہ ہی معنی آفرینی کا عمل متاثر ہوا ہے۔ کلام میں آورد نہیں بل کہ آمد آمد کا جلوہ نظر آتا ہے جو آپ کی مشّاقی اور اہلِ زبان و بیان شاعر ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
٭٭٭
شاعری ایک ایساملکہ ہے جس کا تعلق علم و فضل سے ذرا دور کا ہے۔ یہ ملکہ کسبی نہیں کہ جو چاہے ریاض کر کے سیکھ لے اور شاعر بن جائے۔ بل کہ یہ سراسر وہبی اور فطری ہے۔ کہا یوں گیا ہے کہ شاعر پیدا ہوتا ہے اور عالم بنتا ہے۔ شاعری میں جہاں تک موزونیِ طبع اور فکر کی رسائی کا سوال ہے یہ قول بالکل درست ہے۔ مگر فن پر نکھار علم ہی سے آتا ہے۔ کم علم شعرا کے یہاں جذبے کا التہاب، فکر کی بلندی اور نازک خیالی کے ساتھ ساتھ فن کی غلطیاں بھی نظر آ جاتی ہیں جو اہلِ علم کو انگشت نمائی پر مجبور کرتی ہیں۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی علم و فضل میں یگانۂ روزگار تھے۔ آپ کے لیے نہ شاعری ذریعۂ عزت تھی اور نہ ذریعۂ شہرت۔۔ ان کے دل میں حضور ختمیِ مرتبت صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت اور عظمت کا جو جذبہ موج زن تھا وہ اظہار بھی چاہتا تھا۔ اور اس اظہار کا سب سے بہتر طریقہ شاعری تھا۔ نعت گوئی کو انہوں نے ذریعۂ عزت یا ذریعۂ شہرت کے بجائے ذریعۂ نجات تصور کیا اور زندگی بھر اپنے خامۂ گل رنگ سے جذباتِ محبت و عظمت کو الفاظ کی صورت میں قرطاسِ عقیدت پرسجاتے رہے۔
سامانِ بخشش کے فکر و فن کا جائزہ لیتے ہوئے یہاں عروضی تجزیہ بھی کر لینا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ حضرت نوریؔ بریلوی جس طرح دیگر علومِ عقلیہ و نقلیہ میں دسترسِ تامّہ رکھتے تھے۔ اسی طرح آپ کو علمِ عروض پر بھی دست گاہ حاصل تھی۔
علمِ عَروض بلاغت کی ایک شاخ ہے جس میں بعض مقررہ طویل و مختصر اصوات کے مجموعے سے کلام میں نظم کیے گئے الفاظ کی اصوات کو مماثل یا دونوں کو ہم وزن کیا جاتا ہے اس طرح کلام کی موزونیت، شعری آہنگ یا موسیقی معلوم ہوتی ہے۔ مقررہ لسانی اصوات کے یہ مجموعے ارکانِ افاعیل یا تفاعیل یا موازین کہلاتے ہیں۔
علمِ عروض کا موجد خلیل بن احمد بصری کوتسلیم کیا جاتا ہے۔ جنہوں نے شاعری اور موسیقی کے زیر وبم میں آہنگ کے مشترک رشتہ کو سمجھا اور اس کی بنیاد پر افاعیل تفاعیل اور ان کے مزاحف وضع کیے۔
خلیل بن احمد کے پندرہ بحور ایجاد کرنے کی روایت عہدِ قدیم سے چلی آ رہی ہے۔ عربی، فارسی اور اردو میں صرف 19 ؍ بحریں مروج ہیں۔ تقریباً اتنی ہی تعداد میں اور بحریں وجود میں آئیں مگر مروج نہ ہوسکیں۔ ان 19؍ مروجہ بحروں میں سے کچھ اردو کے مزاج سے میل نہیں کھاتیں تو کچھ فارسی کے مزاج کے خلاف ہیں کچھ نہایت مترنم ہیں تو کچھ فارسی کے لیے ثقیل ہیں۔
حضرت نوریؔ بریلوی نے مروجہ بحروں میں سے مشہور بحروں میں طبع آزمائی کی ہے۔ آپ کے کلام میں استعمال شدہ کچھ بحریں انتہائی مترنم ہیں۔ ’’سامانِ بخشش‘‘ کے مکمل کلام کا عروضی جائزہ اگر لیا جائے تو اس کے لیے طویل مقالہ درکار ہے۔ یہاں صرف چند نعتوں کا عروضی جائزہ پیش کرنا مقصود ہے۔
(1) بحرِ متدارک مثمن سالم (فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن )
قلب کو اس کی رویت کی ہے جستجو
جس کا جلوہ ہے عالم میں ہر چار سو
(20؍ بند)
(2) بحرِ ہزج مثمن سالم(مفاعی لن مفاعی لن مفاعی لن مفاعی لن)
بہارِ جاں فزا تم ہو نسیمِ داستاں تم ہو
بہارِ باغِ رضواں تم سے ہے زیبِ جناں تم ہو
(27؍ اشعار)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کوئی کیا جانے جو تم ہو خدا ہی جانے کیا تم ہو
خدا تو کہہ نہیں سکتے مگر شانِ خدا تم ہو
(26؍ اشعار)
(3)بحرِ ہزج مثمن اخرب (مفعول مفاعی لن مفعول مفاعی لن)
تو شمعِ رسالت ہے عالم ترا پروانہ
تو ماہِ نبوت ہے اے جلوۂ جانانہ
(23؍اشعار)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مقبول دعا کرنا منظور ثنا کرنا
مدحت کا صلہ دینا مقبول ثنا کرنا
(46؍اشعار)
(4) بحرِ ہزج مثمن سالم مسبغ الآخر(مفاعی لن مفاعی لن مفاعی لن مفاعی لن)
پڑھوں وہ مطلعِ نوری ثنائے مہر انور کا
ہو جس سے قلب روشن جیسے مطلع مہرِ محشر کا
(21؍ اشعار)
(5)بحرِ رمل مثمن مخبون مقطوع (فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فعلن)
کیا کہوں کیسے ہیں پیارے ترے پیارے گیسو
دونوں عارض ہیں ضحی لیل کے پارے گیسو
(20؍اشعار)
(6) بحرِ رمل مثمن مقصور (فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلات)
وصف کیا لکھے کوئی اس مہبطِ انوار کا
مہر و مہ میں جلوہ ہے جس چاند سے رُخسار کا
(13؍ اشعار)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چارہ گر ہے دل تو گھایل عشق کی تلوار کا
کیا کروں میں لے کے پھاہا مرہمِ زنگار کا
(37؍ اشعار)
(7) بحرِ رمل مربع سالم
سب سے اعلا عزت والے
غلبہ و قہر و طاقت والے
حرمت والے کرامت والے
تم پر لاکھوں سلام
تم پر لاکھوں سلام
(40؍ بند)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اعلا سے اعلا رفعت والے بالا سے بالا عظمت والے
سب سے برتر عزت والے صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
صلی اللہ صلی اللہ
(39؍بند)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
(8) بحرِ رمل مثمن مخبون (فعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلاتن)
مرضِ عشق کا بیمار بھی کیا ہوتا ہے
جتنی کرتا ہے دوا درد سوا ہوتا ہے
(32؍ اشعار)
(9)بحرِ متقارب مثمن سالم (فعولن فعولن فعولن فعولن)
حبیبِ خدا کا نظارا کروں میں
دل و جان ان پر نثارا کروں میں
(19؍اشعار)
(10)بحرِ متدارک مثمن سالم (فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)
وہ حسیں کیا جو فتنے اُٹھا کر چلے
ہاں ! حسیں تم ہو فتنے مٹا کر چلے
(34؍اشعار)
(11)بحرِ مجتث مثمن مخبون مقصور (مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فعلان/فَعِلاتن)
کچھ ایسا کر دے مرے کردگار آنکھوں میں
کہ جلوہ گر رہے رُخ کی بہار آنکھوں میں
(40؍اشعار)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جو خواب میں کبھی آئیں حضور آنکھوں میں
سرور دل میں ہو پیدا تو نور آنکھوں میں
(16؍ اشعار)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
رُسل انھیں کا تو مژدہ سنانے آئے ہیں
انھیں کے آنے کی خوشیاں منانے آئے ہیں
(20؍اشعار)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم اپنی حسرتِ دل کو مٹانے آئے ہیں
ہم اپنی دل کی لگی کو بجھانے آئے ہیں
(24؍اشعار)
٭٭٭
کم سے کم لفظوں میں مفہوم کی ادائیگی نیز اشعار میں بلاغت کاحُسن پیدا کرنے کے لیے تراکیب بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ عربی، فارسی اور اردو شاعری میں ترکیب سازی کا رجحان ابتدا سے لے کر اب تک برابر چلا آ رہا ہے۔ شعرا ان تراکیب کے ذریعہ دو چیزوں یا دو خیالوں کے درمیان رشتہ قائم کرتے ہیں، اور جہاں کہیں اس میں مماثلت کا پہلو ہوتا ہے۔ وہاں مرکب لفظ ایک نیا استعارہ بن کر اُبھرتا ہے۔ شاعری میں محبوب یا ممدوح کے اوصاف کے اظہار میں تراکیب اہم ترین کردار ادا کرتی ہیں۔ تلمیحی تراکیب اشعار میں ایک تمکنت اور وقار کا درجہ رکھتی ہیں۔
غزلیہ و بہاریہ شاعری کی طرح نعتیہ شاعری میں بھی تراکیب کی بڑی اہمیت ہے۔ بل کہ اگر یہ کہا جائے تو غیر مناسب نہ ہو گا کہ اس صنف میں ترکیب سازی دیگر اصناف کی بہ نسبت زیادہ ہی اہمیت کی حامل ہے۔ تراکیب مشکل اور پیچیدہ مفہوم کے اظہار میں بہت معاونت کرتی ہیں۔ فنِ نعت گوئی میں شعرا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصافِ بلیغ کے اظہار میں ان سے بڑا کام لیتے ہیں۔ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردو نعتیہ شاعری میں امیرؔ مینائی نے ترکیب سازی کے خوب صورت اور نادر نمونے پیش کیے ہیں۔ پرو فیسر ریاض مجید نے حضرت امیرؔ کی ان ترکیبوں۔ ’’گہرِمحیطِ عطائے رب، قمرِ سخائے رب، شجرِ ریاضِ رضائے رب، ثمرِ نہالِ ولائے رب، گل بانگِ نشونمائے رب، داخلِ بزمِ ہوٗ، نسیمِ گلِ کن فکاں، شمیمِ روضۂ جاوداں، ہمائے فقرِ پیغمبراں، مسافرِ رہِ لامکاں، ختمِ صنعِ الٰہ، شاہِ نجمِ سپاہ، نو بہارِ ریاضِ دیں، ثمرِ شجرِ یقیں ‘‘ وغیرہ کو سراہتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ :
’’مذکورہ بالا تراکیب حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی صفات میں ہیں۔ امیرؔ مینائی نے تراکیب میں صفاتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا اتنا بلیغ اظہار کیا ہے کہ خود ان میں چھوٹی چھوٹی نعتوں کا رنگ جھلکتا ہے ‘‘ (1)
بلا شبہہ ! حضرت امیرؔ مینائی کی متذکرہ ترکیبیں نہایت ہی خوب صورت اور تازہ کاری کا اَعلا نمونہ ہیں۔ علاوہ ازیں مشہور نعت گو حضرت محسنؔ کاکوروی کے یہاں بھی تراکیب کے نادر اورحسین نمونے ملتے ہیں ؎
گلِ خوش رنگ رسولِ مدنی العربی
زیبِ دامانِ ابد طرّۂ دستارِ ازل
مرجعِ روحِ امیں زبدۂ عرشِ بریں
حامیِ دینِ متیں ناسخِ ادیان و ملل
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پیدا ہوئے حضرتِ پیمبر
صبحِ قدرت کے سعدِ اکبر
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خورشیدِ سپہرِ دین محمد
نورِ عین الیقین محمد
پہلا اور دوسرا شعر صرف ترکیب ہی سے مکمل ہو گیا ہے۔ حضور جانِ نور صلی اللہ علیہ و سلم کو ’’صبحِ قدرت کے سعدِ اکبر، خورشیدِ سپہرِ دیں، نورِ عین الیقین، گلِ خوش رنگ، زیبِ دامانِ ابد، طرّۂ دستارِ ازل، مرجعِ روحِ امیں، زبدۂ عرشِ بریں، حامیِ دینِ متیں، ناسخِ ادیان و ملل‘‘ وغیرہ کہنے میں کافی حد تک خوب صورتی و نادر کاری ہے۔
نوریؔ بریلوی کے والدِ ماجد امام احمد رضا بریلوی، امیرؔ و محسن کاکورویؔ کے معاصر میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے نعتیہ کلام میں جہاں تمامی ادبی و فنی خوبیاں موجود ہیں وہیں ترکیب سازی کے بہترین نمونے ملتے ہیں۔ 171 ؍ اشعار پر مشتمل امام احمد رضا کا مشہورِ زمانہ قصیدۂ سلامیہ ’’مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ میں تراکیب کے بہت خوب صورت نمونے ملتے ہیں۔ اور کچھ ترکیبیں ایسی ہیں جو بالکل اچھوتی ہیں اس سلام کے قریب قریب ہر شعر میں استعارہ موجود ہے۔ مثلاً مطلع ہی دیکھیے ؎
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
’’جانِ رحمت‘‘ کس قدر خوب صورت استعارہ ہے اور یہ ترکیب کتنی پیاری اور بلاغت کے کیسے حسین و جمیل جلوے بکھیرتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ و سلم ) رحمۃ للعالمین ہیں اور رضاؔ بریلوی نے اس لیے انھیں جانِ رحمت کہا ہے۔ ممکن ہے رضاؔ سے قبل بھی کسی نعت گو نے یہ ترکیب پیش کی ہو لیکن یہاں مطلع ہی میں مصرعِ اولیٰ میں اس ترکیب سے ابتدا کا انداز وہ بھی سلام میں کس قدر دل کشی کا حامل ہے کہ بس سبحان اللہ! کہہ دینا ہی اس کی بہترین تعریف ہے۔ جو بات جانِ رحمت کہنے میں ہے وہ رُوحِ رحمت یا کسی اور لفظ سے رحمت کو جوڑنے میں پیدا نہیں ہو سکتی۔ مکمل سلام میں حضرت رضاؔ نے حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصاف و خصائل، اختیارات و تصرفات اور استغاثہ وغیرہ کو مدِّ نظر رکھ کر نہایت حسین و جمیل ترکیبیں وضع کی ہیں۔ مثال کے طور پر چند تراکیب پیش ہیں :’’ نورِ عینِ لطافت، اصلِ ہر بود و بہبودِ تخمِ وجود، قاسمِ کنزِ نعمت، حرزِ ہر رفتہ طاقت، مغزِ زارِ حکم، یکّہ تازِ فضیلت، مصدرِ مظہریت، ظلۂ قصرِ رحمت، سبزۂ نہرِ رحمت، ساقِ اصلِ کرم، شاخِ نخلِ کرم وغیرہ‘‘
نوریؔ بریلوی۔۔ امیرؔ مینائی، محسنؔ کاکوروی اور رضاؔ بریلوی کے مابعد کے نعت گو شاعر ہیں ، اور اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر اُن کے یہاں نعت گوئی کا اسلوب اور طرز اُن نعت گو شعرائے کرام سے منفرد اور جداگانہ ہے۔ آ پ کی نعتیہ شاعری ان شعرا کی روایت کی علم بردار سہی مگر انفرادیت کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ آئیے حضرت نوریؔ بریلوی کلام میں تراکیب سازی کی نادر کاری کا نظارہ کرتے ہیں۔ حضرت نوریؔ بریلوی کے مجموعۂ کلام ’’سامانِ بخشش ‘‘ کا آغاز دو طویل حمدیہ نظموں ’’ ضربِ ہو ‘‘ مشتمل بر ۲۰ ؍ بند اور’’ اذکارِ توحید ذات، اسما و صفات وغیرہ ‘‘ مشتمل بر ۹۹ ؍ بند میں اللہ جل شانہٗ کی وحدانیت کی تعریف اور عقیدۂ توحید کے اظہار کے لیے آپ نے انتہائی حسین و جمیل تراکیب و ضع کی ہیں جس سے بلاغت کا حُسن دوبالا نظر آتا ہے۔ اشعار یا بند کو مثال کے طور پر پیش کرنے کے بجائے صرف تراکیب کو ذیل میں درج کرنے کی جسارت کی جا رہی ہے۔ ملاحظہ ہوں :’’نغمہ سنجانِ گلشن، طائرانِ جناں، بلبلِ خوش نوا طوطیِ خوش گلو، زمزمہ خواں، قمریِ خوش لقا، فاختہ خوش ادا، شاہدانِ چمن بستہ صف رو برو، لسانِ مقال، قعرِ غفلت، رختِ اعمال وغیرہ‘‘۔۔۔بعداس کے اذکارِ توحید کے عنوان سے جو طویل حمدیہ نظم ہے اس کی تراکیب ملاحظہ ہوں :
وہ ہے محیطِ انس و جاں
وہ ہے محیطِ جسم و جاں
وہ ہے محیطِ کل از ماں
وہ ہے محیطِ کون و مکاں
مذکورہ بند میں عقیدۂ توحید کا ذکر کرتے ہوئے خدائے واحد کی قدرتِ کا ملہ کو محیطِ کل از ماں، محیطِ انس وجاں، محیطِ کون و مکاں اور محیطِ جسم و جاں کہہ کر ترکیب سازی کی عمدہ مثال پیش کی ہے۔
علاوہ ازیں ’’حُسنِ بُتِ طنّاز، افغانِ بلبل، نغماتِ قلقل، مرا ء تِ لحاظِ ذات، بہ فضلِ عمیم، بحرِ کرم، مظہرِ اول، حبیبِ اجمل، نبیِ افضل، مُرسلِ اکمل، روحِ روانِ خلدِ بریں، نخلِ جہاں کے اصلِ متیں، نائبِ حضرت حقِ متیں، شاہنشاہِ چرخ و زمیں، والیِ تختِ عرشِ بریں، راحتِ جان و قلبِ حزیں، موجِ بحرِ قِدم، موجِ آخر بحرِ کرم، لوحِ جبینِ سیدنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ وغیرہ ترکیبیں مذکورہ نظم میں جلوہ گر ہیں جو زبان و بیان پر نوریؔ بریلوی کی عالمانہ مشاقی کا با وقاراظہاریہ ہیں۔
مذکورہ بالا تراکیب میں مراء تِ لحاظِ ذات تک کی ترکیبیں ذاتِ الوہیت کے ذکر سے مملو ہیں اور بہ فضلِ عمیم کے بعد سے لوحِ جبینِ سیدنا تک حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصاف کو بیان کیا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بحرِ کرم روحِ روانِ خلدِ بریں وغیرہ کہنے میں حیرت و ندرت بھی ہے اور نہایت حسین و دل کش تراکیب سازی بھی ۔۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی نے اپنے والدِ ماجد کی طرح بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں جو سلام پیش کیا ہے وہ 40؍ بندوں پر صنفِ مستزاد میں ہے۔ اس میں بھی آپ نے حضور جانِ نور صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصاف و خصائص کا بیان کرتے ہوئے وہ حسین و جمیل ترکیبیں وضع کی ہیں کہ بار بار سبحان اﷲ ! کہنے کو جی چاہتا ہے۔ جس کا مطلع یوں ہے ؎
سب سے اعلا عزت والے، غلبہ و قہر و طاقت والے
حرمت والے کرامت والے، تم پر لاکھوں سلام
تم پر لاکھوں سلام
مذکورہ نعت کی چند ترکیبیں ملاحظہ کیجیے : ’’ظاہر باہر سیادت والے، غالب قاہر ریاست والے، نورِ علم وحکمت والے، نافذ جاری حکومت والے، شہ اورنگِ خلافت، والیِ ملکِ جلالت، ناسخِ ادیان، ظلِ رحمت طلعت والے، فرش کی نزہت، عرش کی زینت، نورِ چشمِ خُلّت، سرورِ قلبِ صفوت، وجد کی فرحت، شاہدِ حق، شاہدِ اُمت، سُنتِ ربِّ عزت، زیب و زینِ جنت، امن و امانِ امت وغیرہ۔ ‘‘
ان تراکیب سے اوصافِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا بلیغ اظہار ہوتا ہے حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کو والیِ ملکِ جلالت، شہ اورنگِ خلافت، نورِ چشمِ خُلّت اور سرورِ قلبِ صفوت کہنے میں تازہ کاری و نادر کاری اور حُسن و جمال موج زن ہے۔
سلام کے بعد ہی ایک طویل نعت 39؍ بندوں پر مشتمل صنفِ مستزاد میں ہے جس کا مطلع یوں ہے ؎
اعلا سے اعلا رفعت والے بالا سے بالا عظمت والے
سب سے برتر عزت والے صلی اﷲ صلی اﷲ صلی اﷲ علیک و سلم
مذکورہ نعت کے تقریباً ہر بند میں ایک خوب صورت استعارہ موجود ہے۔ اور تراکیب کے بہت ہی حسیٖن و خوب صورت اور نادر نمونے ملتے ہیں اور بعض ترکیبیں نہایت اچھوتی ہیں۔ حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصاف و خصائص کے اظہار کے لیے ترکیب سازی کا اس قدر حسین طرزِاداسے استعمال کیا گیا ہے کہ بلاغت و فصاحت کے جلووں سے روح سرشار ہونے لگتی ہے اور حضرت نوریؔ بریلوی کی قادر الکلامی کا بیّن ثبوت ملتا ہے۔ ذیل میں پیش ہے مذکورہ نعت سے ترکیبوں کی مثالیں :’’زائد حرمت والے، برتر قدرت والے، ماہِ لاہوتِ خلوت، شاہِ ناسوتِ جلوت، جوہرِ فردِ عزت، جسم و جانِ وجاہت، آبِ عینِ رحمت، تابِ ماہِ ندرت، نہرِ بحرِ وحدت، منبعِ کثرت، سایۂ ربِّ عزت، مایۂ خلق و خلقت، صاحبِ عز و کرامت، لعلِ نگینِ کرامت، مطلعِ نورِ الٰہی، مخزنِ رازِ خدائی، سرمایۂ راحت، شمعِ علم وحکمت، ضوئے نورِ ہدایت، باغِ بہار و رحمت، غنچۂ رازِ وحدت، موجِ اول بحرِ رحمت، جوشِ آخر بحرِ را فت، وجہِ بعثِ خلقت، سِرِّ غیب و شہادت، فتحِ بابِ نبوّت، ختمِ دورِ رسالت، نافعِ علّت، دافعِ کربت، کہفِ روزِ مصیبت وغیرہ‘‘۔
یہ ترکیبیں خصائص و اوصافِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا بلیغ اشاریہ ہیں جن سے قاری و سامع کیف آگیں لذتوں سے سرشار ہونے لگتا ہے۔ آقا و مولا صلی اللہ علیہ و سلم کی جامعیت کو ماہِ لاہوتِ خلوت، شاہِ ناسوتِ جلوت، آپ کی رنگت کو آبِ عینِ رحمت، تابِ ماہِ وحدت، آپ کی ذاتِ اقدس کو سایۂ ربِّ عزت، مایۂ خلق و خلقت، صاحبِ عز و کرامت، لعلِ نگینِ کرامت، چہرۂ انور کو مطلعِ نورِ الٰہی، سینۂ مبارک کو مخزنِ رازِ خدائی، آپ کی خوشبوؤں کو باغِ بہار و رحمت، جود وسخا کو موجِ اول بحرِ رحمت، موجِ آخر بحرِ رافت، آپ کی ختمِ نبوت و فضیلت کو ختمِ دورِ رسالت کہنے میں دل کشی بھی ہے اور شگفتگی بھی، یہ نہایت حسین و جمیل ترکیب سازی کے بہترین نمونے ہیں جو روح کو شادابی سے ہم کنار کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں ’’جاری رہے گا سکّہ تیرا ‘‘ عنوان سے 48؍ اشعار پر مشتمل ایک نعت جس کا مطلع ہے ؎
ماہِ طیبہ نیرِ بطحا صلی اللہ علیک و سلم
تیرے دم سے عالم چمکا صلی اللہ علیک و سلم
میں بھی ترکیب سازی کے نادر نمونے ملتے ہیں :’’ماہِ طیبہ نیرِ بطحا، مظہرِ ربِّ اجمل، حجتِ رب، زینِ طاعت، عینِ عبادت، نورِ مجسم، نورِ ذاتِ والا، بحرِ رحمت، صاحبِ دولت، قاسمِ نعمت وغیرہ ‘‘۔
اسی طرح سامانِ بخشش میں شامل مزید ایک سلام جس کا مطلع یوں ہے ؎
الصلوٰۃ والسلام اے سرورِ عالی مقام
الصلوٰۃ والسلام اے رہبرِ جملہ انام
الصلوٰۃ والسلام اے مظہرِ ذات السلام
الصلوٰۃ والسلام اے پیکرِ حُسنِ تمام
الصلوٰۃ والسلام الصلوٰۃ والسلام
اے نبیوں کے نبی اور اے رسولوں کے امام
اس سلام میں بھی ترکیب سازی کے انتہائی دل کش اور حسین و جمیل نمونے ملتے ہیں، مثلاً : ’’ سرورِ عالی مقام، رہِ برِ جملہ انام، پیکرِ حُسنِ تمام، شہ عرش آستاں، سرورِ کون و مکاں، جانِ ایمانِ زماں، سرورِ ہر دوجہاں، شفیعِ عاصیاں، سرِّ ہر موجود، بودِ ہر نابود، قبلۂ کونین، امام القبلتین، شہنشاہِ دو عالم، شافعِ روزِ قیام، زینتِ گل زارِ طیبہ، مرجعِ ہر خاص و عام وغیرہ‘‘۔
ان تراکیب کے علاوہ مکمل مجموعۂ کلام میں ترکیب سازی کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ کلامِ نوریؔ میں ترکیب سازی کی حسین و نادر تمثیلات ردیف کے لحاظ سے نشانِ خاطر کرتے چلیں :
ردیف الف: مطلعِ نوری، مہرِ انور، مطلعِ محشر، کفِ پائے منور، نقابِ روئے انور، مہرِ ذرہ پرور، جمالِ حق نما، خوش آب گوہر، مہبطِ انوار، روضۂ والائے طیبہ، مخزنِ انوار، مرہمِ زنگار، زخمِ دامن دار، دوشِ صبا، خورشیدِ تاباں، مطلعِ انوار، لعلِ شب چراغ، سوختہ جاں، جانِ مسیحا، بختِ خفتہ، قفسِ جسم، مُرغِ جاں، جلوہ گہہ سرورِ خوباں، جلوۂ حُسنِ جہاں تاب، تیغِ دو پیکر، غیرتِ خورشیدِ درخشاں، دامنِ حامیِ خود، ماحیِ عصیاں، نوردہِ شامِ غریباں وغیرہ۔
ردیف با : مہر عجم ماہِ عرب، نوری آئینے، کوچۂ پُر نور، رشکِ مہر، جانِ قمر، نیرِ چرخِ رسالت، نورِ چشمِ انبیا وغیرہ۔
ردیف تا :رحمِ مجسم، شانِ کرم، جانِ کرم، کانِ کرم، فضلِ اتم، لطفِ اعم، سحابِ کرم، صفحۂ دل، مصباحِ ظلم وغیرہ۔
ردیف نون:آبِ بحرِ عشقِ جاناں، چشمۂ آبِ بقا، آبِ تیغِ عشق، طائرِ جاں، شا فعِ روزِ جزا، سایۂ زلفِ رسا، نسیمِ فیض، جانِ جناں، حسرتِ پابوس، دیدۂ عشاق، گل عذار، قرارِ دلِ حزیں، نرگسِ شہلا، گلِ مہتاب وغیرہ۔
ردیف واو:شاہِ والا، دار الشفائے طیبہ، بادِ مخالف، بہارِ جاں فزا، نسیمِ داستاں، بہارِ باغِ رضواں، زیبِ جناں، حبیبِ ربِّ رحمن، مکینِ لامکاں، سرِ ہر دو جہاں، شہ شاہنشہاں، بہارِ بے خزاں، بہارِ جاوداں، بہارِ گلستاں، بہارِ بوستاں، تابشِ رُخ، مجسم رحمتِ حق، شفیعِ عاصیاں، وکیلِ مجرماں، طبیبِ انس و جاں، عنبرِ سارا، محرابِ خمِ ابرو، نیرِ حشر، لکۂ رحمت، کشتِ امل، شانِ خدا، مہِ لقا، شہ عرشِ علا وغیرہ۔
ردیف ہائے: شمعِ رسالت، ماہِ نبوت، ساقیِ کوثر، جامِ لبالب، مستِ مَے الفت، زلفِ معنبر، پنجۂ قدرت، زہرِ معاصی، سنگِ درِ جاناں، جبیں سائی، حبِّ صنمِ دنیا وغیرہ۔
ردیف یائے: سیدِ ابرار، محرمِ اسرار، جانِ نور، خانۂ دل، مطلعِ انوار، مثالِ شمعِ روشن، قید وبندِ جہاں، رضا جوئے خداوندِ جہاں، جانِ قمر، جلوہ نما، دلِ پژمردہ، بہارِ چمنِ طیبہ، قصۂ غم، جلو ۂ حق، جانِ مسیحا، چشمۂ آبِ حیات، نگاہِ مہر، قلبِ تیرہ، شجرۂ امید، بقعۂ نور، ابروئے خم دار، شبِ فراق، فوجِ غم، بابِ رحمتِ ربِّ علا، سرِ خیرہ، آئینۂ ذاتِ اَحد، مرآتِ صفاتِ کبریا، بیانِ عیبِ دشمن، ضیائے کعبہ، ضیائے روضہ، فضائے طیبہ، شامِ غربت، مَے محبوب، بلبلِ باغِ مدینہ، زورقِ خورشید، جانِ رحمت، کانِ نعمت، شانِ حق نما، زُلفِ مشکیں، رموزِ مصلحت، مثالِ ماہیِ بے آب، مریضِ معاصی، معراجِ قسمت وغیرہ۔
کلامِ نوریؔ میں ترکیب سازی کے مطالعہ سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ آپ نے ادیبانہ مہارت کے ساتھ اپنے جذبات و خیالات کو پیش کرنے کے لیے خوب صورت ترکیبوں کا استعمال کیا ہے۔ آپ نے اپنے کلام میں بلاغت و فصاحت کے دریا بہاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصافِ بلیغ کے اظہار کے لیے جن حسین و جمیل تراکیب کا استعمال کیا ہے۔ اُسے پڑھ کر کیف وسرور کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ مزید یہ کہ آپ کی شعری و فنّی مہارتوں کا اندازہ لگتا ہے۔ آپ نے تراکیب کا اس خوب صورتی اور نادر کاری سے استعمال کیا ہے کہ طبیعت پر وجد کا عالم طاری ہو جاتا ہے۔
نوریؔ بریلوی نے تراکیب سازی کا وہ کمال دکھایا ہے کہ شعر شعر میں نازک خیالی اور سلاست کا بیان موج زن ہو گیا ہے۔ ترکیبوں میں لفظ و خیال کی مماثلت ہے اور تراکیب کے بطن سے خوب صورت تشبیہ و استعارہ سامنے آئے ہیں۔ باوجود نصف سے زائد صدی گذر جانے کے نوریؔ بریلوی کے کلام میں عصرِ حاضر کے لب و لہجہ کی تا زہ کاری اور ان تراکیب میں جو کیفیات موجود ہیں ، وہ آپ کی شاعرانہ عظمت و رفعت، قادرالکلامی اور مشاقی کی بین دلیل پیش کرتی ہیں۔
(1) سہ ماہی ’افکارِ رضا‘ : ممبئی، شمارہ جولائی تا ستمبر 1997ء، ص 20
٭٭٭
قدیم رومی نقاد ہوریس نے کہا ہے کہ :
’’ شاعری مصوری کی طرح ہے ‘‘ یا ’’شاعری لفظی مصوری ہے‘‘
شاعری اور مصوری کا یہ تقابل ہوریس کے زمانے میں بھی نیا تصور نہیں تھا جو شاعری کا محاکاتی تصور ہے۔ (1)
قدیم شاعری کا یہی محاکاتی تصور جدید شاعری میں پیکری بیانیہ یا پیکر کی شکل میں رونما ہوا ہے۔ محاکاتی تصور یا محاکات اور پیکر تراشی میں کوئی فرق نہیں، ان کے مابین گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ محاکاتی تصور، حکائی بیان کی جمع ہے جو قاری یا سامع کے سامنے شعری بیان کی کیفیات کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ یعنی کچھ ذہنی تصویروں کے ذریعے شعری کیفیات کی ترسیل کرتی ہے۔ رومی نقاد ہوریس نے دو ہزار سال پیش تر شاعری کی جو تعریف کی تھی کہ شاعری لفظی مصوری ہے، وہ محاکات ہی کے ذیل میں آتی ہے مزید یہ کہ پیکر بیانی کا نیا شعری تصور بھی اسی سے مماثلت رکھتا ہے۔
قدیم شاعری میں محاکاتی تصور یعنی پیکر تراشی کے بہت سارے نمونے ملتے ہیں۔ تشبیہات اور استعارات کے روپ میں پیکروں کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ مگر جدید شاعری میں یہ شعرا کے نزدیک خاصے کی چیز ہے۔ جدید شعرائے اردو میں پیکر تراشی کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ اردو کی جدید شاعری میں یہ اصطلاح انگریزی ادب کے لفظ امیجری (Imagery) یا امیج (Image) سے لی گئی ہے۔ جسے اردووالوں نے پیکرتراشی کا نام دیاہے۔ جیسا کہ خورشید احمدصدیقی کا خیال ہے کہ :
’’انگریزی تنقید کے اثر سے اردو میں Imageکا تصور اب غیر معروف نہیں رہا۔ اس کا اردو ترجمہ اردو والوں نے پیکر، نقش، تمثال، یا شبیہ کیا ہے لیکن’پیکر ‘ہی کا چلن اب زیادہ ہو گیا ہے۔ ‘‘(2)
لیکن معروف محقق ڈاکٹر عبد النعیم عزیزی کا خیال ہے کہ :
’’اردو شاعری میں پیکر کی اصطلاح انگریزی ادب سے لی گئی ہے، جدید اردو شعرا کے یہاں پیکر تراشی کا رجحان زیادہ ہے اور جدید شاعری میں پیکر یت میں تصویری حُسن، خیال کی ندرت اور تلازموں کی فضا سے معنویت بڑھی ہے اور اس نئی شاعری کے پیکر اپنے دور کے تہذیبی اور معاشرتی حالات کا نتیجہ ہیں۔ ‘‘ (3)
پیکر کی تعریف : پیکر کی تعریف بیان کرتے ہوئے مشہور محقق و ناقد سلیم شہزاد راقم ہیں :
’’(1) لغوی معنی ’’شکل و ہیئت ‘‘، اصطلاحی معنی اشیا کی مشابہت جو صرف ذہنی تصویریں نہیں پیش کرتی بل کہ زبان کے استعمال سے جذبات و خیالات، تصورات و اعمال اور اشیا کے حسّی اور ماورائے حسّی تجربات کو محسوس و مدرک اجسام میں بیان کرتی ہے۔ ‘‘(4)
’’(2) شعری زبان کا استعما ل جو نہ صرف ذہنی تصویریں پیش کرتا ہے بل کہ اس زبان کے تاثرات قاری یا سامع کے حواسِ خمسہ پر بھی مرتسم ہوتے ہیں اور وہ لفظی پیکروں کی مشابہت معروضی اشیا میں پالیتا ہے۔ پیکری بیانیہ ضروری نہیں کہ صرف ایک حِس کو متاثر کرنے والا ہو، دو یا زائد حواس بھی بیک وقت اس سے متاثر ہوسکتے ہیں یعنی قاری کسی شعری پیکر میں نہ صرف دریا بہتا ہوا دیکھتا بلکہ پانی کی آواز سُن سکتا اور اس کی ٹھنڈک بھی محسوس کر سکتا ہے۔ ‘‘(5)
پیکر کی مذکورہ بالا تعریفوں میں پیکر کی جو تعریف بیان کی گئی ان میں حِس کو محور قرار دیا گیا ہے۔ مگر تمثال یا پیکر کا حسّی ہونا ضروری نہیں بل کہ وہ ذہنی بھی ہوسکتا ہے۔ جیساکہ ابنِ فرید کا خیال ہے کہ :
’’تمثال کے بارے میں ایلیٹ(Eliot) اور ایزرا پاونڈ (Ezrapound) وغیرہ نے اس امر پر زور دیا ہے کہ یہ صرف حسّی نہیں ذہنی بھی ہوسکتی ہے لیکن نہ صرف یہ لوگ بلکہ ٹوئی (Tuve) اور کرموڈ (Kermod)بھی جب تفصیل میں جاتے ہیں تو ان کی ذہنی تمثیلیں حسّی تمثال تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس لیے تمثال کو حواسِ خمسہ سے غیر متعلق کرنا اسے اس کے فطری حُسن سے محروم کر دینا ہے اور یہ کسی طرح ممکن نہیں ہوتا۔ ‘‘(6)
ان تمام بحثوں کا مدار پیکر کے خد و خال کو واضح کرتا ہے۔ جس کا محور و مرکزحِس ہے اگرچہ اس میں ذہنی احساسات اور ذاتی و خارجی ادراکات و تجربات کو داخل کر لیا گیا ہے۔ ویسے پیکر کا صحیح مفہوم ادا کرنے کے لیے فن کی اصطلاحات کا سہارا لینا پڑتا ہے جن کو تعریف کی جنسِ قریب کہا جا سکتا ہے، مثلاً : استعارہ، کنایہ، تشبیہہ، علامت، اسم فعل اور صفت وغیرہ۔
پیکر کی تقسیم :پیکر کی درج بالا بیان کردہ تعریفوں کو اندازِ عمل اور طرزِ بیان کے لحاظ سے تین حصوں میں منقسم کیا جا سکتا ہے۔
(1) ذہنی پیکر
(2) مجازی پیکر
(3) تجسیمی پیکر
ذہنی پیکر: جو تعریفیں پیکر کو ذہنی پیکر قرار دیتی ہیں وہ نفسیاتی ہیں۔ پیکر تراشی کے اعتبار سے ہر شخص کا ذہن جداگانہ نوعیت رکھتا ہے اس لیے ایک چیز کے پیکر مختلف اذہان میں الگ ہوتے ہیں۔
مجازی پیکر :اس میں خیال اور لسانی شکلوں پر گفتگو ہوتی ہے اور اظہارِ خیال کو مزید جامع بناتی ہے اور زبان استعاروں کے ذریعہ نمو پذیر ہوتی ہے۔
تجسیمی پیکر: اس میں پیکروں کے عمل پر بحث کی جاتی ہے خواہ پیکر حقیقی ہوں یا مجازی، اس کے دائرے میں دونوں شامل ہیں۔ پیکر شاعر کے وجدان و بصیرت اور داخلیت کا انکشاف کرتا ہے۔ اس کے ذہن کی حسّی صلاحیت اور اس کے مزاج و کردار کا مظاہرہ کرتا ہے۔
ان کے علاوہ پیکروں کو ان کے اندازِ عمل کے لحاظ سے الگ الگ ناموں سے معنون کیا گیا ہے۔ حِس اور ادراک کو براہِ راست متاثر کرنے والے پیکروں کو حسّی اور ادراکی پیکر کا نام دیا گیا ہے اور پھر ان پیکروں کو حواسِ خمسہ کے نام دیے گئے ہیں۔
(1) پیکرِ باصرہ
(2) پیکرِ سامعہ
(3) پیکرِ ذائقہ
(4) پیکرِ شامّہ
حواسِ خمسہ کی مناسبت سے تقسیم کیے گئے ان پیکروں کی تعریف اپنے اپنے مقام پر بیان کی جائے گی۔
پیکر بیانی اور پیکر تراشی کے تصور اور ان کی تعریف بیان کرنے کے بعد مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی شاعری میں پیکر تراشی کی طر ف بڑھتے ہیں۔ مگر شعری نقد ونظرسے پہلے شاعر کی ذاتی زندگی سے آگاہی ضروری ہے۔ کیوں کہ ماحول کے شعر و ادب پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ شاعر جب اپنے گرد و پیش سے متا ثر ہو کر شعر کہتا ہے تو کلام میں سوز و شگفتگی دونوں ایک ساتھ جنم لیتی ہیں۔
حضرت نوریؔ بریلوی کے حالاتِ زندگی اور واقعات کا جائزہ بالتفصیل باب اول میں لیا جا چکا ہے۔ آپ کے عہد میں وطنِ عزیزہندوستان میں جو حالات تھے وہ ایسے نہ تھے کہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر ضربِ کلیمی کا شغف رکھا جاتا بل کہ ہر محاذ پر سینہ سپر ہو کر مقابلہ کرنا ضروری تھا۔ پورے ہندوستان میں حالات انتہائی ناگفتہ بہ تھے ہر طرف قتل و غارت گری، شعائرِ اسلامی کی پامالی، شدھی تحریک کا زور، موالات، خلافت اور بساطِ سیاست پر ناعاقبت اندیش سیاست دانوں کی ترک تازیاں، مسلمانوں کا احساسِ محرومی، کیا کچھ نہ تھا ایسے ماحول میں نوریؔ بریلوی کی ذمہ داریاں یک گونہ نہیں بلکہ گوناگوں تھیں۔ خانقاہِ رضویہ اور جامعہ مظہرِ اسلام کا اہتمام و انصرام، فتوا نویسی، درس و تدریس، رشد و ہدایت، مناظرہ و مباحثہ، اہلِ سیاست سے پنجہ آزمائی، شدھی تحریک کا انسداد، موالات، خلافت، جہاد اور تحریکِ گاو کشی کا تعاقب، مسلمانانِ ہند کی دل جوئی، شعائرِ اسلامی کا تحفظ اور ناموسِ رسالتصلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت و صیانت ، کیا کیا نہ تھا سب کچھ کرنا تھا دل میں شعائرِ اسلامی کے مٹائے جانے سے لاوا پکتا تھا گویا زندگی کی ایک ایک ساعت اور شب و روز کا ایک ایک لمحہ شدید ترین مصروفیتوں اور مشغولیتوں کی نذر تھا۔ ان تمام مصروفیات و مشغولیات کے با وصف شعری نازک خیالیوں اور مشقِ سخن کی جولانی کو بھلا کب راہ ملتیں ؟ مگر سوزِ عشق کی جلوہ سامانیاں قلبِ عاشق پر اُبھرنے والے زرین نقوش کو صفحۂ قرطاس پر اُتارتی رہتیں اور یوں ہزاروں مصروفیتوں کے رہتے ہوئے بھی مشقِ سخن جاری رہتا، یہی وجہ ہے کہ آپ کی شاعری میں خارجی اثرات کے جذباتی احساسات سوزِ دروں بن کر داخلیت کو مزید رنگ و آہنگ عطا کر رہے تھے۔ یہاں بات صرف سخن سنجی و سخن وری اور نکتہ آفرینی کی نہ تھی بل کہ بات اسلام کے تحفظ واستحکام اور ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس و لحاظ اور حفاظت کی تھی، پھر کیا تھا اشعار کے قالب میں دُوٗدِ عشق کی گرمی اُتر آئی۔ جیسا کہ اس بات کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ نوریؔ بریلوی نے تا عمر تقدیسی شاعری یعنی حمد و نعت و منقبت سے تعلق رکھا۔ آپ نے نعتیہ شاعری میں پیکر تراشی کے لیے انھیں عناصر کو بروئے کار لایا جو ادب کی دیگر اصناف میں پائے جاتے ہیں۔ یہاں صرف یہ فرق کیا کہ ان کو معانی و مطالب کی طہارت و پاکیزگی اور نفاست و نظافت عطا کر دی جس سے ان کا قالب پاکیزہ و نفیس اور تقدیسی و ملکوتی ہو گیا ہے۔
نعتیہ شاعری میں پیکر کے جو تصورات و تخیلات اُبھرتے ہیں وہ دیگر اصنافِ ادب سے الگ ہوتے ہیں۔ کیوں کہ یہاں صرف زبان کے چٹخارے، لفظوں کی بندش، صوتی آہنگ، تشبیہات کی ندرت، استعارات کی چاشنی، رعایاتِ لفظی کا حُسن اور بحروں کی موزونیت نیز افاعیل کی نغمگی اور موسیقیت ہی کافی نہیں بل کہ ادب و احترام اور تعظیم و توقیر کا تقاضا سب سے ضروری اور اولین مرحلہ ہوتا ہے۔ اس لیے شاعر کا علمی مطالعہ و مشاہدہ، فکری گیرائی و گہرائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عشق و محبت کی تڑپ اور کسک جس قدر زیادہ ہو گی شعر کا معیار اور اس کے داخلی مصداق اُسی قدر زیادہ ہوں گے۔ یہاں مبالغہ و اغراق اور افراط و تفریط کی وہ جملہ اقسام یک سرقلم زد کر دی جاتی ہیں جن کا خارجی یا داخلی مصداق غیر مودّب ہوتا ہے۔ پہلی صورت یعنی خارجی مصداق میں اگر شاعر نے مبالغہ و اغراق سے ذرّہ بھر بھی کام لیا تو شرک جیسے جُرم کا مرتکب ہوسکتا ہے۔ اور دوسری صورت یعنی داخلی مصداق میں اگر شاعر نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں ایسا کوئی خیال یا ایسی کوئی وارداتِ قلبی پیش کر دی جو حقیقت سے بعید ہو تو وہ جھوٹ ہو گا۔ اور یہ دونوں باتیں شاعر کے لیے دنیوی و اُخروی نقصان کی باعث ہیں۔
کلامِ نوریؔ بریلوی کے مطالعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ بارگاہِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے انتہائی مودّب نعت گو شاعر تھے۔ آپ کے یہاں نہ مبالغہ ہے نہ اغراق و غلو، نہ خیالات کی بے راہ روی ہے نہ افراط و تفریط، آپ نے مکمل ادب و احترام اور حزم و احتیاط کے ساتھ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں نعتوں کا نذرانۂ عقیدت پیش کیا ہے۔
ذیل میں نوریؔ بریلوی کی نعتیہ شاعری میں پیکر تراشی کا حسین و جمیل اور خوب صورت امتزاج نشانِ خاطر فرمائیں :
پیکرِ باصرہ یا بصری پیکر :جب شاعر اپنے کلام میں ایسا لفظی پیکر بیان کرے جو نظر آنے والا ہو یعنی الفاظ سے ایسی تصویر پیش کرے جس سے پڑھنے یا سننے والے کی حسِ باصرہ متاثر ہو اور وہ الفاظ سے بنائی گئی تصویر میں بیان کی گئی شَے کو دیکھ لے تو ایسے پیکر کو پیکرِ باصرہ یا بصری پیکر کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے پیکرِ باصرہ کی مثالیں ؎
ان کو دیکھا تو گیا بھول میں غم کی صورت
یاد بھی اب تو نہیں رنج و الم کی صورت
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہیں صفاتِ حق کے نوری آئینے سارے نبی
ذاتِ حق کا آئینہ مہرِ عجم، ماہِ عرب
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ذرّہ ذرّہ سے عیاں ہے ایسا ظاہر ہوکے بھی
قطرے قطرے میں نہاں ہے برملا ملتا نہیں
دل گیا اچھا ہوا اس کا نہیں غم، غم ہے یہ
لے گیا پہلو سے جو وہ دل رُبا ملتا نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کھُلے ہیں دیدۂ عشاق قبر میں یوں ہی
ہے انتظار کسی کا ضرور آنکھوں میں
نہ ایک دل کہ مہ و مہر و انجم و نرگس
ہے سب کی آرزو رکھیں حضور آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نظر نہ آیا قرارِ دل حزیں اب تک
نگاہ رہتی ہے یوں بے قرار آنکھوں میں
کرم یہ مجھ پہ کیا ہے مرے تصور نے
کہ آج کھینچ دی تصویرِ یار آنکھوں میں
مذکورہ بالا اشعار میں محبوب کو دیکھ کر غم اور رنج و الم کی صورت بھول جانا، مرہمِ دیدار کی بھیک سے زخمِ دامن دار کا منہ کرنا، انبیا کا صفاتِ حق کا نوری آئینہ ہونا اور مہرِ عجم ماہِ عرب صلی اللہ علیہ و سلم کا ذاتِ حق کا آئینہ ہونا، ذرّہ ذرّہ سے عیاں ہو کر بھی برملا نہ ملنا، دل چلا جانا پھر دل رُبا کا نہ ملنا، قبر میں دیدۂ عشاق کا کسی کے انتظار میں کھُلنا، مہر و مہ و انجم و نرگس کا حضور کی آنکھوں میں رکھے جائے جانے کی آرزو و تمنا کرنا، نگاہوں کا آنکھوں میں بے قرار رہنا، تصویرِ یار کا آنکھوں میں کھینچ دینا۔۔یہ سب و ہ بصری پیکر ہیں جن کو نوریؔ بریلوی نے اپنے داخلی جذبات و احساسات سے ہم آہنگ ہو کر تراشا ہے۔ کیوں کہ نعت میں عشق رسو ل صلی اللہ علیہ و سلم کے داخلی محرکات ہی سے تجربات و مشاہدات کو جِلا ملتی ہے اور پیکر کے محاسن جنم لیتے ہیں۔
پیکرِ لامسہ یا لمسی پیکر: جب شاعر اپنے شعر میں ایسا لفظی پیکر بیان کرے جو پڑھنے یا سننے والے کی لمسی حِس کو متاثر کرے یعنی الفاظ کی ایسی تصویر جو اسے سرد و گرم وغیرہ کا احساس کرائے تو ایسے پیکر کو پیکرِ لامسہ یا لمسی پیکر کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے پیکرِ لامسہ کی مثالیں ؎
فق ہو چہرہ مہر و ماہ کا ایسے منہ کے سامنے
جس کو قسمت سے ملے بوسہ تری پیزار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چاک تقدیر کو کیا سوزنِ تدبیر سیے
لاکھ وہ بخیہ کرے چاک گریباں ہو گا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کاسہ لیسی سے ترے دربار کی مہتاب بھی
کیسا منور ہو گیا ماہِ عجم، مہرِ عرب
یوں بھیک لیتا ہے دو وقتہ آسماں انوار کی
صبح و مسا ہے جبہہ سا ماہِ عجم، مہرِ عرب
اس جبہہ سائی کے سبب شب کو اسی سرکار نے
انعام میں ٹیکا دیا ماہِ عجم، مہرِ عرب
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
موم ہے ان کے قدم کے لیے دل پتھر کا
سنگ نے دل میں رکھی ان کے قدم کی صورت
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہے رگِ گردن سے اقرب نفس کے اندر ہے وہ
یوں گلے سے مل کے بھی ہے وہ جدا ملتا نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ آج کاہے کی شادی ہے عرش کیوں جھوما
لبِ زمیں کو لبِ آسماں نے کیوں چوما
جانِ کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے پیزار کے بوسہ پر چومنے والے کا منہ دیکھ کر مہر و مہ کے چہرے کا فق ہونا، چاک تقدیر کو سوزنِ تدبیر سے سینا، پھر گریباں کا چاک ہونا، درِ اقدس کی کاسہ لیسی سے مہتاب کا منور ہونا، آستانے پر جبیں سائی، آسماں کا صبح و مسا انوار کی بھیک لینا، آسمان کو درِ اقدس سے چاند کا ٹیکا دیا جانا، پتھر کا ان کے قدم کو موم کی صورت دل میں رکھنا، رگِ گردن سے قریب اور نفس میں رہ کر گلے سے ملنا، شادی سے لبِ آسمان کا لبِ زمین کو چومنا۔۔ ان اشعار میں لمسی پیکر کو اس طرح ڈھالا گیا ہے۔ کہ ہر شعر لمسی کیفیت کا حسّی و ادراکی تصور پیش کرتا نظر آتا ہے۔ جہاں شاعر تشبیہہ و استعارہ اور کنایہ سے لمسی پیکر تراش رہا ہے۔ درج بالا اشعار کے ان کلمات پر غور و خوض کیجیے۔ بوسہ لینا، سینا، کاسہ لیسی، جبہ سائی، ٹیکہ دینا، دل میں صورت رکھنا، گلے ملنا، لب چومنا۔۔ یہ سب کے سب لمس کی جملہ لذّاتی کیفیات و محسوسات کو اجاگر کرتے ہیں جس سے نعت کا اچھوتا بانکپن دوبالا ہو رہا ہے۔
پیکرِ ذائقہ یا مذوقی پیکر: جب شاعر اپنے شعر میں ایسا لفظی پیکر بیان کرے جو پڑھنے یا سننے والے کی حسِ ذائقہ کو متاثر کرے یعنی الفاظ کی ایسی تصویر جو اسے ترش و شیریں وغیرہ کا احساس کرائے تو ایسے پیکر کو پیکرِ ذائقہ یا مذوقی پیکر کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے پیکرِ ذائقہ کی مثالیں ؎
آبلوں کے سب کٹورے آہ خالی ہو گئے
منہ ابھی تر بھی نہ ہونے پایا تھا ہر خار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نہ کیسے یہ گل و غنچہ ہوں خوار آنکھوں میں
بسے ہوئے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں
نظر میں کیسے سمائیں گے پھول جنت کے
کہ بس چکے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جو ساقیِ کوثر کے چہرے سے نقاب اُٹھے
ہر دل بنے مَے خانہ ہر آنکھ ہو پیمانہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آبلے پاؤں میں پڑ جائیں جو چلتے چلتے
راہِ طیبہ میں چلوں سر سے قدم کی صورت
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بجھے گی شربتِ دیدار ہی سے تشنگی اپنی
تمہاری دید کا پیاسا ہوں یوں پیاسا ہوں کوثر کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دلِ دشمن کے لیے تیغِ دو پیکر ہے سخن
چشمِ حاسد کو مرا شعر نمک داں ہو گا
آبلوں کے کٹوروں کا خالی ہونا، خار کا منہ تر نہ ہونا، مدینے کے خار کا آنکھوں میں بسنا، دل کا مَے خانہ اور آنکھوں کا پیمانہ بننا، پاؤں میں آبلے پڑنے کے سبب راہِ طیبہ میں سر کے بل چلنا، شربتِ دیدار سے تشنگی بجھانا، چشمِ حاسد کے لیے شعر کا نمک داں ہونا۔۔ان جملہ اشعار میں مذوقی پیکر کی وہ تمام کیفیات اور احساسات موجودہیں جو ذائقۂ حس سے متعلق ہیں۔ یہ شاعر کا فنّی کمال ہے کہ ان میں جن علامتوں کو برتا گیا ہے ان سے وجدان میں ایک خاص لذتِ ذائقہ اُبھرتی ہے جو کہیں نمک دانی اور شربتِ دیدار، تو کہیں دل کے مَے خانہ اور آنکھ کے پیمانہ بننے اور کہیں آبلوں کے درد و کرب اور کسک کے پیکر میں جلوہ گر ہیں۔ مگر ان اشعار میں نعت کا اسلوب اپنے مکمل رنگ و آہنگ کے ساتھ سبک خرام ہے قدم قدم پر مذاقِ فن کی تہہ داری دلوں میں لذتِ ذائقہ پیدا کرتی ہے، جہاں نہ تو قوتِ ذائقہ کی تلخیاں و ترشیاں ہیں اور نہ ہی سقم و عیب کی بے کیفی و بے لذتی ۔۔
پیکرِ شامّہ یا مُشامی پیکر : جب شاعر اپنے شعر میں ایسا لفظی پیکر بیان کرے جو پڑھنے یا سننے والے کی حسِ شامّہ کو متاثر کرے یعنی الفاظ کی ایسی تصویر جو خوشبو وغیرہ کا احساس کرائے تو ایسے پیکر کو پیکرِ شامّہ یا مُشامی پیکر کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے پیکرِ شامّہ کی مثالیں ؎
کوچۂ دل کو بس جاتا مہک سے تیری
کام اتنا بھی مجھے بادِ صبا نے نہ دیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خاکِ طیبہ سے اگر کوئی نکھارے گیسو
سنبلِ خلد تو کیا حور بھی وارے گیسو
عنبرستاں بنے محشر کا وہ میداں سارا
کاش ساقی کے کھُلیں حوض کنارے گیسو
بادہ و ساقی لبِ جُو تو ہیں پھر ابر بھی ہو
کھول دے ساقی اگر حوض کنارے گیسو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیوں زُلفِ معنبر سے کوچے نہ مہک اُٹھیں
ہے پنجۂ قدرت جب زُلفوں کا تری شانہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جس گلی سے تو گذرتا ہے مری جانِ جناں
ذرّہ ذرّہ تری خوشبو سے بسا ہوتا ہے
ان تمام اشعار میں مشامی پیکر کی جن تہوں کو عشق و اُلفت کی خوشبو سے معطر و معنبر کیا گیا ہے اُنھیں نعت کا جوہر کہا جا سکتا ہے۔ کوچۂ دل کا مہک سے بسنا، خاکِ طیبہ سے گیسو کا نکھارنا پھر اس پر سنبل اور حور کا اپنے گیسو ہارنا، حوض کے کنارے گیسو کھُل جانے پر میدانِ محشر کا عنبرستاں بن جانا، بادہ و ساقی، لبِ جُو اور ابر میں ساقی کا گیسو کھلنا، زُلفِ معنبر سے گلیوں کا مہک اُٹھنا، پنجۂ قدرت کا زُلفِ اقدس کو شانہ کرنا، گلی سے گذرنے پر ذرّے ذرّے کا خوشبو سے بس جانا۔۔ مُشامی پیکر کی جس تمثالی کیفیت کو واضح کرتے ہیں وہ قوتِ شامّہ کے لیے پیکر کی حسین و جمیل اور دل کش مثالیں ہیں۔ جن میں گہری معنویت کے ساتھ ساتھ ایک مانوس فضا بھی پائی جاتی ہے جہاں مُشامی پیکر کے علائم کُلی طور پر موجود ہیں۔ یہاں عشق و محبتِ رسو ل صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ سوختگی جلوہ فرما ہے جو کسی عاشقِ مہجور کے ہر اعضائے بدن کو قوتِ شامّہ عطا کرتی ہے۔
پیکرِ سامعہ یا سمعی پیکر: جب شاعر اپنے شعر میں سنائی دینے والا لفظی پیکر بیان کرے یعنی الفاظ کی ایسی تصویر جس سے پڑھنے یا سننے والے کی حسِ سامعہ متاثر ہو اور وہ تصویر میں بیان کی گئی شَے کو سُن لے تو ایسے پیکر کو پیکرِ سامعہ یا سمعی پیکر کہتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے پیکرِ سامعہ کی مثالیں ؎
انھیں کی نعت کے نغمے زبور سے سُن لو
زبانِ قرآں میں اُن کے ترانے آئے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جن کے د
عوے تھے ہم ہی اہلِ زباں
سُن کے قرآں زبانیں دبا کر چلے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پڑھوں وہ مطلعِ نوری ثنائے مہرِ انور کا
ہو جس سے قلب روشن جیسے مطلع مہرِ محشر کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بلبلِ خوش نوا طوطیِ خوش گلو‘
زمزمہ خواں ہیں گاتے ہیں نغماتِ ہو‘
قمریِ خوش لقا بولی حق سرہ‘
فاختہ خوش ادا نے کہا دوست تو‘
سماعی پیکر کے مذکورہ بالا اشعار میں نعت کے نغمے زبور سے سننا، زبانِ قرآں پر محبوب کے ترانے آنا، قرآن سن سن کر زبانیں دبا کر چلنا، ثنائے مہرِ انور کا مطلعِ نوری پڑھنا، بلبلِ خوش نوا اور طوطیِ خوش گلو کا نغمہ سرا ہونا، قُمری اور فاختہ کا بولنا۔۔ یہ سماعی پیکر کی مثالیں ہیں جن میں استعارہ و کنایہ سے سماعی پیکر تشکیل دیے گئے ہیں۔ گو یا اپنی معنویت کے لحاظ سے ان پیکروں میں سماعی حس کی اُٹھان شباب پر ہے اور پورا نظامِ سماعی، حسّی جولانی سے ہم کنار نظر آتا ہے مذکورہ بالا اشعارسماعی پیکر کی دل نشین تصویریں ہیں۔
مخلوط پیکر: ذہنی ا ور ادراکی، مجازی اور تجسیمی پیکروں کے مرکب سے بننے والا پیکر ’’مخلوط پیکر ‘‘ کہلاتا ہے۔ ذہنی اور ادراکی پیکروں کو حواسِ خمسہ کے لحاظ سے تقسیم کر کے بیان کرنے کے بعد مخلوط پیکر کی چند مثالیں پیش کرنا ناگزیر ہے۔ مخلوط پیکر میں پیکروں کی ترتیب کبھی دو دو، کبھی تین تین اور کبھی کبھار کئی کئی پیکروں سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر نوریؔ بریلوی کے اشعار خاطر نشین ہوں ؎
دیکھ مت دیکھ مجھے گرم نظر سے خاور
شوخیِ چشم سے تو آپ پریشاں ہو گا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم اگر چاہو تو اک چینِ جبیں سے اپنی
کر دو اعدا کو قلم تیغِ دو دم کی صورت
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سر پر بادل کالے کالے دودِ عصیاں کے ہیں چھالے
دم گھُٹتا ہے میرے مولیٰ صلی اللہ علیک و سلم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شب کو شبنم کی مانند رویا کیے
صورتِ گل وہ ہم کو ہنسا کر چلے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نگاہِ مہر جو اس مہر کی ادھر ہو جائے
گنہ کے داغ مٹیں دل مرا قمر ہو جائے
پہلے شعر میں بصری پیکر، آتشیں پیکر اور جمالیاتی پیکر کو اجاگر کیا گیا ہے۔ دوسرے شعر میں حسّی پیکر، حرکی پیکر اور بصری پیکر کو پیش کیا گیا ہے۔ تیسرے شعر میں لونی پیکر، آتشیں پیکر اور مذوقی پیکر ہے۔ چوتھے شعر میں سیّال پیکر، جمالیاتی پیکر اور سماعی پیکر موجود ہیں۔ پانچویں شعر میں بصری پیکر، نوری پیکر، لمسی پیکر اور جمالیاتی پیکر کی مثالیں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔
بے مثل پیکر : نعتیہ شاعری میں پیکریت کا تصور کچھ اس قدر زیادہ وسیع و عریض ہے جو دیگر اصناف میں کم پایا جاتا ہے۔ ذہنی و ادراکی، تجسیمی، مادی، بسیط، مخلوط اور آتشیں پیکر کی مثالیں تو دوسری اصناف میں بہ کثرت ملتی ہیں۔ مگر بے مثل پیکر یہ صرف اور صرف صنفِ نعت کا خاصّہ ہے۔ اس کی ایک نادر اور اچھوتی مثال حسان الہند امام احمد رضا بریلوی (م 1340ھ / 1921ء ) کے کلام سے نشانِ خاطر فرمائیں، جو مکمل طور پر بے مثل پیکر پر مبنی ہے ؎
رُخ دن ہے مہرِ سما یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
شب زُلف یا مشکِ ختا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
خورشید تھا کس زور پر کیا بڑھ کے چمکا تھا قمر
بے پردہ جب وہ رُخ ہوا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
مذکورہ اشعار میں پیکر کے تمثال و تصورات کی نفی کر دی گئی ہے۔ جس سے بے مثل پیکر اُبھرتا چلا آرہا ہے۔ اب حضرت نوریؔ بریلوی کے ان اشعار کو دیکھیے کہ بے مثل پیکرسے نعتیہ شاعری میں کیسے کیسے حسین و جمیل لالہ و گل کھلائے ہیں۔ کلامِ نوریؔ سے بے مثل پیکر کی مثالیں ؎
محالِ عقل ہے تیرا مماثل اے مرے سرور
تَوَہُم کر نہیں سکتا ہے عاقل تیرے ہم سر کا
آپ کا مثل شہا کیسے نظر میں آئے
کس نے دیکھی ہے بھلا اہل عدم کی صورت
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نظر نظیر نہ آیا نظر کو کوئی کہیں
جچے نہ غلماں نظر میں نہ حور آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دوجہاں میں کوئی تم سا دوسرا ملتا نہیں
ڈھونڈتے پھرتے ہیں مہر و مہ پتا ملتا نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ کیا میں نے کہا مثلِ سما تم ہو معاذ اللہ!
منزّہ مثل سے برتر ز ہر وہم و گماں تم ہو
ان اشعار میں عقلاً مماثل کو ہونا محال، ہم سری کا تَوَہُم نہ کر سکنا، اہلِ عدم کی صورت نہ دیکھنا، نظر کو نظیر کا نہ آنا، مہر و مہ و انجم کے ڈھونڈنے پر بھی دوسرا نہ ملنا، وہم و گمان میں بھی مثل سے منزّہ و برتر ہونا۔۔ یہ بے مثل پیکر کے ایسے حسین و جمیل تصورات و تخیلات ہیں جن سے ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کا بے نظیر و بے مثیل پیکر اُبھرتا ہے۔ اگرچہ ان اشعار میں بے مثل پیکر کے جس اسلوب کو برتا گیا ہے وہ بالکل عام فہم اورسلیس و سادہ ہے۔ تاہم فنِ نعت کا یہی سب سے بڑا کمال ہے کہ اس میں مقامِ نبوت کو حد درجہ حزم و احتیاط کے ساتھ اس حسیٖن اسلوب سے بیان کیا جائے کہ دامنِ تقدیس پر تنقیص کی گرد بھی نہ پڑے اور نہ ہی مقامِ عبدیت کو مقامِ الوہیت تک پہونچا دیا جائے۔ حضرت نوریؔ بریلوی اس خارا شگاف وادی سے بہ آسانی اور اہتمام کے ساتھ گزر گئے جو آپ کے قادر الکلام شاعر ہونے کی بیّن دلیل ہے۔
نوری پیکر:بے مثل پیکر کی طرح نوری پیکر بھی صنفِ نعت ہی کی ایک پیکری علامت ہے۔ جس میں تشبیہات کے ان تنزیہی تصورات و تخیلات کو واضح کیا جاتا ہے جو ممدوح کی ذات و صفات کے تناظر میں نورانی کوائف کا ماحصل لیے ہیں۔ چوں کہ ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم ان اوصاف سے متصف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نعت کے تقدیسی و ملکوتی اور ایمان افروز ماحول میں نوری پیکر کی فراوانی ملتی ہے۔ کلامِ نوریؔ سے نوری پیکر کی مثالیں ؎
بنا عرشِ بریں مسند کفِ پائے منور کا
خدا ہی جانتا ہے مرتبہ سرکار کے سر کا
مٹے ظلمت جہاں کی نور کا تڑکا ہو عالم میں
نقابِ روئے انور اے مرے خورشید اب سرکا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وصف کیا کوئی لکھے اس مہبطِ انوار کا
مہر و ماہ میں جلوہ ہے جس چاند سے رُخسار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ آئیں تیرگی ہو دور میرے گھر بھر کی
شبِ فراق کی یارب سحر ہو جائے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نصیب تیرا چمک اُٹھا دیکھ تو نوریؔ
عرب کے چاند لحد کے سرہانے آئے ہیں
ان تمام اشعار میں عرشِ بریں کا کفِ پائے منور کا مسند بننا، نقابِ روئے انور سے عالم میں نور کا تڑکا ہونا، مہر و ماہ میں چاند سے رُخسار کا جلوہ ہونا، رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر آنے سے تیرگی کا دور ہونا اور شبِ فراق کا سحر ہونا، عرب کے چاند کا لحد کے سرہانے آنا۔۔ نوری پیکر کے لطیف تمثالی تصورات و تخیلات روشن کر رہے ہیں۔ جس سے نعت کا کیف و سرور دو بالا ہوتا جا رہا ہے۔
اب آئیے جمالیاتی پیکر، آتشیں پیکر اور لُونی پیکر پر کچھ گفتگو کرتے ہیں اگرچہ یہ سارے پیکر قدرے فرق کے ساتھ نوری پیکر کا تلازمہ کہے جا سکتے ہیں اس لیے ان پیکروں کو علاحدہ بیان کیا جا رہا ہے۔
جمالیاتی پیکر : جمالیاتی پیکر میں نوری پیکر بھی شامل ہوتا ہے۔ مگر لُونی پیکر میں ایک خاص رنگت، نمکینیت اور ملاحت کا استدراکی پہلو متصور ہوتا ہے۔ اس لیے محاکات میں لُون کو جمال قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کہ لُون کی بہ نسبت جمالیاتی پیکر میں وسعت نمایاں ہوتی ہے اور اس کا دائرۂ حُسن لُونی پیکر سے ممتاز ہوتا ہے بر خلاف لُونی پیکر کے۔ کلامِ نوریؔ میں جمالیاتی پیکر کی مثالیں نشانِ خاطر ہوں ؎
کھُلے ہیں دیدۂ عشاق خوابِ مرگ میں بھی
کہ اس نگار کاہے انتظار آنکھوں میں
بسا ہوا ہے کوئی گل عذار آنکھوں میں
کھِلا ہے چار طرف لالہ زار آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ گھٹا جھوم کے کعبہ کی فضا پر آئی
اُڑ کے یا ابرو پہ چھائے ہیں تمہارے گیسو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ حسیں کیا جو فتنے اُٹھا کر چلے
ہاں ! حسیں تم ہو فتنے مٹا کر چلے
مذکورہ اشعار میں خوابِ مرگ میں انتظار کے لیے دیدۂ عشاق کا کھُلا رہنا، فضائے کعبہ پہ گھٹا کا اُڑ کے آنا، ابرو پہ گیسو کا چھا جانا، حسیٖن کا فتنے اُٹھا کر چلنا۔۔ جمالیاتی پیکر کی انتہائی دل کش تصویریں ہیں۔
آتشیں پیکر:آتشیں پیکر کا نوری پیکر سے ایک گہرا تعلق اور رشتہ ہے۔ مگر یک گونہ آتشیں پیکر نوری پیکر سے جدا ہے۔ چوں کہ آتشیں پیکر میں سوختگی، جلن اور سوزش کا جذبہ کار فرما ہوتا ہے اس لیے ہر نوری پیکر کو آتشیں پیکر سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ پھر آتشیں پیکر میں دوٗد کا کثیف مادّہ بھی ہوتا۔ جس کو صنفِ نعت میں برتنے کے لیے شعری محاسن پر گہری نظر ہونے کے ساتھ علمی گہرائی و گیرائی بھی ضروری ہے، ورنہ اس سے پیکر کی پاک و صاف چادر داغ دار ہو جائے گی۔ آتشیں پیکر کی وہ قدریں جو متعلقات سے تعبیر ہیں ان کو صنفِ نعت میں مقام دیا جا سکتا ہے اور اس سے پیکر تراشی قبیح نہیں کہلائے گی۔ کلامِ نوریؔ سے آتشیں پیکر کی مثالیں ؎
مرقدِ نوریؔ پہ روشن ہے یہ لعلِ شب چراغ
یا چمکتا ہے ستارہ آپ کی پیزار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شربتِ دید نے اور آگ لگا دی دل میں
تپشِ دل کو بڑھایا ہے بجھانے نہ دیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ ہیں خورشیدِ رسالت نور کا سایہ کہاں
اس سبب سے سایۂ خیر الورا ملتا نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دل تپا سوزِ محبت سے کہ سب میل چھٹے
تپنے کے بعد ہی تو سونا کھرا ہوتا ہے
ان اشعار میں لعلِ شب چراغ کا مرقد پہ روشن ہونا، پیزاروں کا ستارہ چمکنا، شربتِ دید سے دل میں آگ لگنا، تپشِ دل کا نہ بجھنا بلکہ بڑھنا، خورشیدِ رسالت میں بہ وجہِ نور سایہ نہ ہونا، سوزِ محبت میں دل تپ کر میل کا چھٹنا ۔۔ محاکاتِ شعری کے آتشیں پیکر ہیں۔
ان اشعار میں آتشیں پیکر کو برتنے کا جوحسین و جمیل انداز ہے اس کو دیکھ کر بے ساختہ دل سے سبحان اللہ! کی داد نکلتی ہے۔ نوریؔ بریلوی نے آتشیں پیکر میں چراغ کا جلنا، آگ لگنا، دل کا تپنا۔۔ اس حسیٖن انداز سے استعمال کیا ہے کہ یہاں سوختگی، جلن اور سوزش کی کیفیات و احساسات کا ادراک تو ہوتا ہے مگر دُوٗد کی کثافت کا دور دور تک پتہ نہیں چلتا۔ جس سے نعت کا تقدس بھی برقرار رہتا ہے اور اس کی ملکوتیت بھی۔۔
لُونی پیکر: لُونی پیکر ایک خاص رنگت، نمکینیت اور ملاحت کا حامل پیکر ہے۔ لُون کا جمالیات سے انتہائی گہرا تعلق ہے۔ یہ دراصل جمالیات ہی کے دائرۂ کار کی درخشندگی اور تابندگی کا ایک پیکری کردار ہوتا ہے۔ تاہم قدرے فرق کے سبب اس کو علاحدہ رکھا جا سکتا ہے۔ اب لُونی پیکر کے چند اشعار کلامِ نوریؔ سے خاطر نشین ہوں ؎
تیرے باغِ حُسن کی رونق کا کیا عالم کہوں
آفتاب اک زرد پتّہ ہے ترے گلزار کا
زرد رُو کیوں ہو گیا خورشیدِ تاباں سچ بتا
دیکھ پایا جلوہ کیا اس مطلعِ انوار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جو سوختہ ہَیزُم کو چاہو تو ہرا کر دو
مجھ سوختہ جاں کا بھی دل پیارے ہرا کرنا
ان اشعار میں آفتاب کا باغِ حُسن کا ایک زرد پتّہ ہونا، مطلعِ انوار کا جلوہ دیکھ کر خورشید کازرد ہو جانا، سوختہ جاں کے دل کو ہرا کرنا۔۔ لُونی پیکر کی زندہ مثالیں ہیں۔
یہ تھا حضرت نوریؔ بریلوی کی نعتیہ شاعری میں محاکات اور پیکر تراشی کا تجزیاتی جائزہ ، آپ کی نعتیہ شاعری کے محرکات داخلی اور خارجی دونوں ہیں۔ مگر داخلیت اس قدر غالب ہے کہ وہ آئینۂ قلب و رُوح کو صیقل اور مجلّا کرتی ہے۔ آپ کی شاعری میں پیکر کا جو حسیٖن و جمیل امتزاج ہے و ہ سمعی، بصری، لمسی، مذوقی، شامّی، جمالیاتی، لونی، آتشیٖں پیکر تراشی کا نگار خانہ ہے۔ جس سے جمالیاتی حس کو بھر پور تسکیٖن ملتی ہے۔ ان استعاروں اور پیکروں سے نوریؔ بریلوی کی جمالیاتی حسّیت اور بصیرت کی آب و تاب کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ کلامِ نوریؔ کے بین السطور میں روحانی، عرفانی، اقداری اور اخلاقی شعور و آگہی کا ادراک بھی ہوتا ہے۔ آپ کے بیش تر شہ پارے جھلملاتے پیکروں کا حسیٖن جھرمٹ معلوم ہوتے ہیں۔ نئے اور بدیع مرکّبات، استعارات و پیکرات ان کی قوتِ متخیلہ اور شعری حرکیت کو عیاں کرتے ہیں۔ آپ کے تئیں برتے گئے پیکروں میں پاکیزگی، لطافت، روحانیت اور صداقت بھی جھلکتی ہے جن سے قلب و ذہن میں شیفتگی، شگفتگی، فریفتگی اور شادابی پیدا ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی اُجاگر ہوتی ہے کہ نوریؔ بریلوی کی شاعری کا محور و مرکز رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کی اُلفت و محبت اور تعظیم و توقیر ہے، کہ یہی امر اُن کی نعت گوئی سے شغف کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اور اسی جذبے کے اظہار کے لیے آپ نے نعت گوئی کے میدان میں قدم رکھا۔
٭٭
(1) سلیم شہزاد:فرہنگِ ادبیات، منظر نما پبلشرز، مالیگاؤں، 1998ئ، ص16
(2) علی گڑھ میگزین:77/1976ئ، لیتھو کلر پرنٹرس، اچل تال، علی گڑھ، ص38
(3) عبد النعیم عزیزی، ڈاکٹر:کلامِ رضا کے نئے ادبی زاویے، مطبوعہ بریلی، ص33
(4) سلیم شہزاد:فرہنگِ ادبیات، منظر نما پبلشرز، مالیگاؤں، 1998ئ، ص197
(5) سلیم شہزاد:فرہنگِ ادبیات، منظر نما پبلشرز، مالیگاؤں، 1998ئ، ص198
(6) ابنِ فریٖد:میں اور ادب، اسرار کریمی پریس، الٰہ آباد، ص 37
اظہارِ صداقت:اس ضمنی باب کی تیّاری میں راقم نے معروف ادیب و شاعر خلیفۂ حضور تاج الشریعہ حضرت مولانا قمر الحسن بستوی (النور مسجد، ہیوسٹن، امریکا) کے مقالے ’’مفتیِ اعظم کی پیکر تراشی ‘‘ سے جزوی مدد لی ہے۔ مُشاہدؔ
٭٭٭
دیگر اصنافِ ادب کے مقابل نعت میں خیال آفرینی، مضمون آفرینی، معانی آفرینی، جدتِ ادا، ندرتِ بیان، شوکتِ لفظی، شکوہِ الفاظ، علوئے فکر، اوجِ تخیل، طرزِ ادا کا بانکپن، شوخی و طراوت، بندش و چُستی، نغمگی و موسیقیت، بے ساختگی و برجستگی، نیرنگی و زورِ کلام، نکتہ آفرینی و نکتہ سنجی، فلسفیانہ و عالمانہ مصطلحات اور تنوعِ خیال جیسے عناصر کا استعمال مشکل ترین امر ہے۔ کیوں کہ نعت نگار کے لیے ان عناصر کے استعمال سے زیادہ اہمیت کا حامل نکتہ حزم و احتیاط اور شریعتِ مطہرہ کا پاس و لحاظ ہے۔ نعت کے تنگنائے میں شاعر کے لیے ان خوبیوں اور عناصر کا استعمال کرنا جذباتِ عشق و محبت کی صداقت و سچائی اور اللہ رب العزت کی عطائے خاص پر مبنی ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شاعری صرف موزوں مصرعوں کے جوڑ توڑ اور ردیف و قافیے کے صحیح استعمال کا نام نہیں۔ بل کہ معیاری شاعری وہی تسلیم کی جاتی ہے جن میں کلام کی یہ خوبیاں اور بیان وبدیع کے یہ عناصر موجود ہوں وگر نہ وہ اعلا شاعری نہیں بل کہ تُک بندی ہی کہلائے گی چناں چہ مشہور ادیب و محقق ڈاکٹر صابر سنبھلی اس ضمن میں اپنے خیالات کا اظہار یوں کرتے ہیں۔ :
’’شاعری محض موزوں مصرعوں کے جوڑ توڑ اور ردیف و قافیے کے استعمال کا نام نہیں ہے، اگر الفاظ کے ایسے اجتماع جس میں ردیف و قوافی تو موجود ہوں مگر تخیل کی کارفرمائی نہ ہو اسے تُک بندی یا برائے نام شاعری تو کہا جا سکتا ہے، اعلا درجے کی شاعری نہیں۔ تخیل کی بلندی سے کلام میں جو خوبیاں پیدا ہوتی ہیں، وہ ہیں تشبیہات واستعارات، تمام صنائع معنوی، اصلیت، باریک بینی، بلند خیالی، جذبات نگاری، جوش، دقتِ نظر، زورِ کلام، فلسفیانہ نکات، طنز، محاکات، مرقع نگاری، منظر نگاری، مطائبات، معاملہ بندی، نزاکتِ خیال، نکتہ آفرینی وغیرہم ، ان خوبیوں کی وجہ سے کسی شاعر کی کوشش صحیح معنی میں شاعری بنتی ہے۔ ‘‘(یادگارِ رضا : سالنامہ، رضا اکیڈمی، ممبئی، 2004ء، ص 42)
ہم اس بات سے بہ خوبی واقف ہیں کہ نعت کا میدان بہت محدود ہے۔ اس لیے اس میں ان عناصر اور خوبیوں کا کماحقہٗ استعمال مشکل ہے۔ مگر ہمارے مستند اور جید نعت گو شعرا نے اس احسن انداز اور طرزِ ادا سے نعت گوئی کے چمنستان میں خیال آفرینی، جدتِ ادا، ندرتِ بیان اور نئے رنگ و آہنگ اور مزاج کے وہ حسین و جمیل گل بوٹے کھِلائے ہیں کہ بے ساختہ سبحان اللہ! کہنے کو جی چاہتا ہے۔
رحمتِ عالم، ختمیِ مرتبت صلی اللہ علیہ و سلم کا حسین و جمیل سراپا، حق گوئی، اخلاقِ کریمانہ، سادگی و صفائی، سخاوت و فیاضی، داد و دہش، روضے کے دیدار کی خواہش و تمنا، روزِ محشر شفاعت و دادرسی کی آرزو، آپ سے طلبِ استعانت ودست گیری، معجزات و تصرفات اور معمولاتِ روز و شب وغیرہ ان جیسے بہت سے مضامین سے اردو کی روایتی نعتیہ شاعری مالامال ہے۔ جن شعرا نے اپنی پوری توجہ نعت گوئی پر مرکوز کر دی انہوں نے اگرچہ انھیں موضوعات و خیالات کا سہارا لیا مگر بات کہنے کے انداز اور سلیقے نے مضمون کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا اور قاری و سامع کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جو پڑھ اور سُن رہاہے وہ بالکل نیا اور اچھوتا مضمون اور خیال ہے۔
شاعری میں کلام کے حُسن کو دوبالا کرنے کے لیے خیال آفرینی کا سہارا لینا شاعر کے لیے ناگزیر امر ہے۔ ندرتِ بیان، نادرہ کاری، تازہ کاری، جدتِ ادا اور لطافتِ معنی بھی اس کی مختلف شکلیں ہیں یا قدرے فرق کے ساتھ بدلے ہوئے نام ہیں۔
چودہویں صدی ہجری میں برِ صغیر ہند و پاک کے چند مشہور نعت گو شعرا میں امیرؔ مینائی، احمد رضاؔ بریلوی، حسنؔ رضا بریلوی، محسنؔ کاکوروی، ضیا القادری بدایونی، حافظؔ پیلی بھیتی وغیرہ کے نام خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔ ان شعرا کے بعدمصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی بھی نعت گو شعرا میں منفرد اور ممتاز مقام و منصب کے حامل مانے جاتے ہیں۔ یہاں آپ کے کلام میں خیال آفرینی کا جائزہ مقصود ہے۔
رسولِ محترم صلی اللہ علیہ و سلم کا ادب و احترام آپ کی تعظیم و توقیر اور عظمتِ شان ایمانی عقیدہ ہے۔ اور یہی عقیدہ ایمان و اسلام کی جان ہے اگر یہ نہ ہو تو کوئی شخص مومن تو درکنار مسلمان بھی نہیں ہوسکتا۔ یوں ہی مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کے علوئے مرتبت اور رفعت و منزلت کا کما حقہ‘ بیان کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ آپ کا رتبہ و مرتبہ اللہ رب العزت ہی صحیح معنوں میں جانتا ہے۔ حضرت نوریؔ بریلوی کی نثر و نظم میں ہر جگہ اس عقیدے کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ یوں تو بیش تر نعت گو شعرا کے کلام میں ان عقائد کے جلوے نظر آتے ہیں لیکن کلامِ نوریؔ میں ان مضامین کے بیان میں خیال آفرینی کا اچھوتا اور دل کش انداز خاطر نشین ہو ؎
جانِ ایماں ہے محبت تری جانِ جاناں
جس کے دل میں یہ نہیں خاک مسلماں ہو گا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بنا عرشِ بریں مسند کفِ پائے منور کا
خدا ہی جانتا ہے مرتبہ سرکار کے سر کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
علوئے مرتبت پیارے تمہاراسب پہ روشن ہے
مکینِ لامکاں تم ہو شہ عرشِ عُلا تم ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تمہارے فیض سے لاٹھی مثالِ شمع روشن ہو
جو تم لکڑی کو چاہو تیز تر تلوار ہو جائے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہزار آنکھیں ہیں تاروں کی اک گلِ مہتاب
یہ ایک پھول ہے جیسے ہزار آنکھوں میں
یوں ہی ہیں ماہِ رسالت بھی سب نبیوں میں
کرور آنکھوں نہیں بے شمار آنکھوں میں
رسولِ کریم، قاسمِ نعمت صلی اللہ علیہ و سلم کی داد و دہش، جود و عطا، سخاوت و فیاضی اور عطائے عام و فیضِ دوام کے بارے میں مختلف اسالیب میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ نوریؔ بریلوی کا دل کش اسلوب نکتہ آفرینی اور خیال آفرینی لیے ہوئے ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں ؎
دو عالم صدقہ پاتے ہیں مرے سرکار کے در کا
اسی سرکار سے ملتا ہے جو کچھ ہے مقدر کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جو آیا لے کے گیا کون لوٹا خالی ہاتھ
بتا دے کوئی سُنا ہو جو ’لا‘ مدینے سے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
محروم نہیں جس سے مخلوق میں کوئی بھی
وہ فیض انھیں دینا وہ جود انھیں کرنا
ہے عام کرم ان کا اپنے ہوں کہ ہوں اعدا
آتا ہی نہیں گویا سرکار کو ’لا‘ کرنا
محروم گیا کوئی مایوس پھرا کوئی
دیکھا نہ سُنا ان کا انکار و اِبا کرنا
حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے جسمِ پاک کی لطافت اور نورانیت سے متعلق احادیثِ طیبات بہ کثرت وارد ہیں۔ آپ کے جسمِ لطیف کا سایہ نہ تھا۔ اس مضمون کو نعت میں نوریؔ بریلوی نے مختلف مقامات پر پیش کیا ہے۔ اور ہر جگہ نیا اسلوب اور اندازِ بیان ہے۔ نیا اور اچھوتا خیال ہے۔ دل کش انداز کے ساتھ آپ کے یہاں کہیں عاشقانہ رنگ ہے تو کہیں استدلالی رنگ ؎
نہ سایا روح کا ہرگز نہ سایا نور کا ہرگز
تو سایا کیسا اس جانِ جہاں کے جسمِ انور کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ ہیں خورشیدِ رسالت نور کا سایا کہاں
اس سبب سے سایۂ خیرالورا ملتا نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو ہے نورِ خدا پھر سایہ کیسا
کہیں بھی نور کا سایا پڑا ہے
تو ہے ظلِ خدا واللہ باللہ
کہیں سایے کا بھی سایہ پڑا ہے
زمیں پر تیرا سایہ کیسے پڑتا
ترا منسوب ارفع دائما ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بے مثالی اور بے نظیری کتاب و سُنّت سے ثابت ہے۔ آپ بے مثل و بے نظیر ہیں۔ اس مضمون کو نوریؔ بریلوی نے نعت میں بڑی نزاکت و لطافت سے بلند تخیل کے ساتھ قلم بند کیا ہے ؎
محالِ عقل ہے تیرا مماثل اے مرے سرور
تَوَہُم کرنہیں سکتا ہے عاقل تیرے ہم سر کا
اسی مضمون کو بالکل نئے اور اچھوتے پیرایہ میں ایک جگہ یوں بیان کرتے ہیں ؎
مثل ممکن نہیں ہے ترا اے لاثانی
وہم نے بھی تو ترا مثل سمانے نہ دیا
علاوہ ازیں نکتہ آفرینی اور خیال آفرینی کے ساتھ ساتھ بلندیِ تخیل اور ندرتِ ادا کا بانکپن خاطر نشین ہو ؎
نظر نظیر نہ آیا نظر کو کوئی کہیں
جچے نہ غلماں نظر میں نہ حور آنکھوں میں
شہرِ محبوب، آستانۂ محبوب، کوچۂ محبوب اور دیارِ محبوب کے کانٹوں سے محبت ہر عاشقِ صادق کے لیے باعثِ راحتِ جان و سرورِ قلب و سینہ ہے۔ مدینے کے خاروں کے سامنے لالہ و گل کی نازکی اُن کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ نوریؔ بریلوی کے کلام میں بھی اس کا ذکرِ جمیل نو بہ نو انداز میں ملتا ہے ؎
ضیا بخشی تری سرکار کی عالم پہ روشن ہے
مہ و خورشید صدقہ پاتے ہیں پیارے ترے درکا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ سبز سبز نظر آرہا ہے گنبدِ سبز
قرار آ گیا یوں بے قرار آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آبلے پاؤں میں پڑ جائیں جو چلتے چلتے
راہِ طیبہ میں چلوں سر سے قدم کی صورت
دم نکل جائے مرا راہ میں اُن کی نوریؔ
ان کے کوچے میں رہوں نقشِ قدم کی صورت
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نہ کیسے یہ گل و غنچہ ہوں خار آنکھوں میں
بسے ہوئے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں
نظر میں کیسے سمائیں گے پھول جنت کے
کہ بس چکے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں
رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ مقدسہ حُسنِ سیرت کے ساتھ ساتھ حُسنِ صورت کے لحاظ سے بھی سب سے اعلا و ارفع اور بے مثل و بے نظیر ہے۔ ان جیسا حسین و جمیل اور خوب صورت نہ اُن سے پہلے کوئی ہوا نہ بعد میں، غزلیہ شاعری میں سراپا نگاری شعرا کے نزدیک محبوب و مرغوب ہے۔ شعرا اپنے محبوب کی سراپا بیانی کے لیے نت نئے انداز اور اسلوب کو اختیار کرتے ہیں۔ مگر جب عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حُسن و جمال، روئے تاباں، جمالِ جہاں آرا اور جبینِ منور کی ثنا خوانی و قصیدہ سرائی کرتا ہے تو معنی و مفہوم کا عمل اور خیال آفرینی کا نکھرا ہوا پیرایۂ اظہار طبیعت پر وجدانی کیفیت طاری کر دیتا ہے۔ یہاں یہ امر ملحوظ رہ کہ نعت میں سیدِ کونین صلی اللہ علیہ و سلم کا نورانی سراپا بلا شبہ بیان کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس بیانیہ میں کسی بھی قسم کا رطب و یابس نہ ہو بل کہ سیرت کی معتبر کتب میں جو شمائل محدثین اور سیرت نگاروں نے قلم بند کیے ہیں۔ نعت میں وہی موضوعات پیش کیے جائیں۔ یہ کہنا کہ سراپا نگاری پر مبنی نعت کو کسی طور پر نعت نہیں کہی جا سکتی اور یہ کہ نعت صرف نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت اور توصیف پر مبنی منظومات ہیں تو یہ بات مقالہ نگار کے نزدیک نادرست ہے۔ کیوں کہ ہر و ہ ادب پارہ جس سے قاری یا سامع کے ذہن و دل میں نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کا تصور ابھرے اور جس میں آقائے کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلقات و مناسبات لکھے جائیں وہ نعت ہے اب چاہے و ہ نثر ہو یا نظم۔
جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے حُسنِ پاک کے ذکر و بیان میں نوریؔ بریلوی کا سادگی و معنویت سے پُر، جدتِ ادا سے معمور، خیال آفرینی سے مملو شعر نشانِ خاطر کریں ؎
وہ حَسیٖں کیا جو فتنے اُٹھا کر چلے
ہاں ! حَسیٖں تم ہو فتنے مِٹا کر چلے
’’حَسیٖن‘‘ کا تصور و تخیل اہلِ دنیا کے نزدیک فتنہ سامانیوں اور حشر انگیزیوں کا سبب رہا ہے۔ مگر نوریؔ بریلوی کے بلندیِ تخیل اور شکوہِ لفظی نے حُسن کو ایک نئی دل کش معنویت عطا کی ہے۔ ’’حَسیٖن‘‘ وہ کیا جو فتنہ سامانیوں اور حشر انگیزیوں کا سبب بنے بل کہ ’’حَسیٖن ‘‘ تو درحقیقت حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ مقدسہ ہے۔ جس نے اس عالمِ رنگ و بُوسے جملہ فتنہ وفسا د کا مکمل طور پر خاتمہ فرما دیا اور کرب و غم میں ڈوبی ہوئی اس زمین کو محبت و اُخوّت کا سرچشمہ اور گہوارہ بنا دیا۔ لفظِ ’’حَسیٖن‘‘ کا اتنا حَسیٖن، دل کش اور خوب صورت استعمال نوریؔ بریلوی کی طہارتِ نفسی، وجدان کی پاکیزگی اور فکری تقدس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ان کی گہری وابستگی کی صادق مثال ہے۔
تخیل کی بلند پروازی بھی کسی کلام کو بہترین شعر بنا سکتی ہے۔ اس لیے شاعری کے لیے یہ قوت از بس ضروری ہے ورنہ شاعری تُک بندی بن کر رہ جائے گی۔ غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ مضمون آفرینی، خیال آفرینی اور نکتہ آفرینی شاعر کی قوتِ متخیلہ کا ہی حصہ ہے۔ مگر نعت میں اس کے استعمال میں حد درجہ حزم و احتیاط کی ضرورت ہے۔ غزل کی طرح نعت میں ہر جگہ اور ہر موقع پر اس کا استعمال نہیں ہوسکتا۔ نوریؔ بریلوی نے جمالِ مصطفوی صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصاف کا بیان جس حُسن و خوبی کے ساتھ کیا ہے اس سے آپ کے تخیل کی بلند پروازی، علوئے فکر اور خیال آفرینی کو محسوس کیا جا سکتا ہے ؎
تمہارا حُسن ایسا ہے کہ محبوبِ خدا تم ہو
’مہ‘ کامل کرے ’کسبِ ضیا‘ وہ ’مہ لقا‘ تم ہو
مذکورہ شعر میں ’’مہ کامل۔۔ کسبِ ضیا۔۔ مہ لقا‘‘ کے بیان میں معنی آفرینی کے ساتھ خیال آفرینی اور بلند پروازی بھی ہے۔ اسی طرح بالکل نیا خیال اور اچھوتا مضمون ؎
جلوۂ حُسنِ جہاں تاب کا کیا حال کہوں
آئینہ بھی تو تمہیں دیکھ کے حیراں ہو گا
مذکورہ بالا شعرمیں مصرعِ ثانی میں بالکل نیا اور اچھوتا خیال قلم بند کیا ہے جوکسی کے یہاں نظر نہیں آتاکہ ’’آئینہ بھی تو تمہیں دیکھ کے حیراں ہو گا‘‘۔
علاوہ ازیں بلا تبصرہ چند اشعار اور خاطر نشین فرمائیں جن میں خیال آفرینی کا جوہر مکمل آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے ؎
وصف کیا کوئی لکھے اس مہبطِ انوار کا
مہر و ماہ میں جلوہ ہے جس چاند سے رُخسار کا
فق ہو چہرہ مہر و ماہ کا ایسے منہ کے سامنے
جس کو قسمت سے ملے بوسہ تری پیزار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
رو کشِ خلدِ بریں ہے دیکھ کوچہ یار کا
حیف! بلبل اب اگر لے نام تو گل زار کا
تیرے باغِ حُسن کی رونق کا کیا عالم کہوں
آفتاب اک زرد پتہ ہے ترے گل زار کا
جلوہ گاہِ خاص کا عالم بتائے کوئی کیا
مہرِ عالم تاب ہے ذرّہ حریمِ یار کا
زرد رُو کیوں ہو گیا خورشیدِ تاباں سچ بتا
دیکھ پایا جلوہ کیا اس مطلعِ انوار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تمہارا نور ہی ساری ہے ان ساری بہاروں میں
بہاروں میں نہاں تم ہو بہاروں سے عیاں تم ہو
تمہارے حُسن و رنگ و بُو کی گل بوٹے حکایت ہیں
بہارِ گلستاں تم ہو بہارِ بوستاں تم ہو
تمہاری تابشِ رُخ ہی سے روشن ذرّہ ذرّہ ہے
مہ و خورشید و انجم برق میں جلوہ کُناں تم ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اے کہ تیری ذاتِ عالی سرِّ ہر موجود ہے
اے وہ سرور جس پہ صدقے بود ہر نابود ہے
اے وہ جس کا در، درِ فیض و سخا و جود ہے
اے وہ جس کا باب دشمن پر بھی نامسدود ہے
اے وہ جس کا رب ہے شاہد اور وہ مشہود ہے
اے وہ جس کا رب ہے حامد اور وہ محمود ہے
اے وہ جس کا رب ہو قاصد اور وہ مقصود ہے
اے کہ جس کا جود ایسا ہے کہ لا مقصود ہے
٭٭٭
تحقیق کی روشنی میں یہ بات واضح کی جا چکی ہے کہ نوریؔ بریلوی اپنے عہد کے ممتاز عالم و فاضل، مفسر و محدث، فقیہ و مدرس، بلند پایہ ادیب، صاحبِ طرز انشا پرداز اور عظیم نعت گو شاعر کہلاتے تھے۔ آپ کا خانوادہ علم و فضل، زہد و تقوا، خشیتِ ربانی اور عشقِ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و سلم میں اپنی مثال آپ تھا۔ جدِ امجد مولانا رضا علی خاں (م1282ھ / 1866ء)، جدِ کریم مولانا نقی علی خاں (م1297ھ)، وا لدِ گرامی امام احمد رضا محدثِ بریلوی (م 1340ھ /1921ء) اور دیگر بزرگانِ خاندان نے علم و ادب کی وہ خدمات انجام دی ہیں کہ انھیں یقیناً آبِ زر سے تحریر کرنا چاہیے۔ صرف آپ کے والدِ ماجد امام احمد رضا محدثِ بریلوی نے لگ بھگ ہزار کتب و رسائل قلم بند کر کے دین و ملّت اور علم و ادب کے ایسے ماہ و نجوم درخشاں کیے ہیں جن کی روشنی میں دنیا بھر کے مسلمان اپنی فکر و نظر کا کارواں رواں دواں کیے ہوئے ہیں۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کو شاعری ورثے میں ملی تھی۔ آپ نے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے اظہار کے لیے شاعری کو بہ طورِ وسیلہ استعمال کیا۔ آپ کا کلام ایک عارف کے قلب و روح کی صدائیں ہیں علمی گیرائی و گہرائی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سوزِ والہانہ نے آپ کے کلام کو سادگی و معنوی دونوں حُسن سے مالامال کر دیا۔ آپ کو زبان و بیان پر عالمانہ و فاضلانہ دسترس حاصل تھی۔ آپ کلی طور پر زبان کی نزاکتوں اور باریکیوں سے بہرہ ور تھے۔ چوں کہ آپ نظم کے ساتھ ساتھ نثر پر بھی مہارتِ تامّہ رکھتے تھے اور ۴۰ کے لگ بھگ نثری کتب و رسائل، فتاوے اور حواشی آپ کی علمی یادگاریں ہیں جو کہ علم و ادب کا اَعلا ترین شاہ کار ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شاعر اپنے عہد اور زمانے کا ترجمان اور نقیب ہوتا ہے۔ اُس کی قوتِ متخیلہ پر اپنے عہد کے حالات اور ماحول کے بہت ہی گہرے اثرات مُرتسم ہوتے ہیں۔ شاعر اپنے کلام میں غیر محسوس طور پر اپنے دور سے قبول کیے ہوئے اثرات کو بیان کرتا ہے۔ شاعر کی انہی کیفیات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر سراج احمد بستوی راقم ہیں :
’’ شاعر اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے وہ جو کچھ دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے اور جو کچھ اس پر گزرتی ہے اس کو وہ اپنی زبان، اپنے بیان اور اپنے انداز و لب و لہجہ میں نظم کرتا ہے کسی بھی شاعر کی تخلیقات کا غائر نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد آسانی کے ساتھ اس کی تخلیقات کی زبان و بیان کا تعین کیا جا سکتا ہے کہ یہ فلاں عہد کا شاعر ہے اس کی زبان فلاں عہد کی ہے۔ ‘‘(1)
اس پس منظر میں جب ہم نوریؔ بریلوی کے عہد کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ یہ وہ دور تھا جب اردو اپنے تشکیلی عہد سے نکل کر عنفوانِ شباب کی دہلیز بھی پار کر چکی تھی اور اردو زبان و بیان میں اس دور میں خاصی ترقی بھی ہوئی تھی۔ ادب کی مختلف تحریکات سے وابستہ ادبا، شعرا اور علمائے کرام نے اردو زبان و بیان کو خوب آگے بڑھایا اور اس کی زُلفِ برہم کو اس حُسن و خوبی سے نکھارا اور سنوارا کہ نثر و نظم میں نت نئے تجریدی تجربات ہونے لگے۔
چناں چہ نوریؔ بریلوی کے پیرایۂ زبان و بیان کا جائزہ لینے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ موصوف نے جس ماحول میں نشوونما پائی وہاں زبان و ادب کا کیا حال تھا۔
تحقیق سے یہ امر ظاہر ہوتا ہے کہ نوریؔ بریلوی کے عہد میں شاعری کا بڑا غلغلہ تھا۔ زبان و بیان کی دھوم مچی ہوئی تھی ان حالات کو بہ آسانی فہم کر لینا دشوار گزار امر ہے۔ کیوں کہ نوریؔ بریلوی نے بیسویں صدی کا وہ دور دیکھا تھا جب کہ محسنؔ ، حالیؔ ، شبلیؔ اور نظمؔ طباطبائی کے قائم کردہ معیار میں مزید کچھ نئے رنگ وآہنگ کا اضافہ ہو گیا تھا۔ اُس دور میں نعتیہ شاعری دو حلقوں میں منقسم ہو گئی تھی۔ نعت گو شعرا کا ایک حلقہ حالیؔ ، شبلیؔ ، محسنؔ اور نظمؔؔ طباطبائی کے زیر اثر تھا تو دوسرا طبقہ امیرؔ مینائی، داغؔ دہلوی اورناسخؔ لکھنوی کے زیر اثر تھا۔ ان دونوں کے علاوہ اس دور میں ایک نئی، اچھوتی، ملکوتی، کوثر وتسنیم سے دھلی ہوئی، دل کش اور دل نشین آواز اُبھر رہی تھی جسے ہم تیسری آواز کہہ سکتے ہیں ، ۔۔ اور وہ آواز ہے امام احمد رضا محدثِ بریلوی کی۔۔ نوریؔ بریلوی نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اس میں رضاؔ بریلوی کی شاعری خصوصاً نعتیہ شاعری کا بڑا شہرہ تھا۔ آپ کی زبان و بیان کی پاکیزگی اور طہارت نے بے پناہ مقبولیت حاصل کر لی تھی۔ بچے بچے کی زبان پر آپ کا ترانۂ سلام’’ مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ ۔۔ اور نغماتِ نعت ’’ چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے ‘‘۔۔ ’’سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی (صلی اللہ علیہ و سلم )‘‘۔۔ جاری تھے اور دیگر نعتیہ اشعار اکنافِ عالم میں فردوسِ گوش بنے ہوئے تھے۔ آپ کی شہرت و مقبولیت نے آپ کی زبان و بیان کو وہ قبولِ عام عطا کیا کہ آپ کے عہد کے بیش تر نعت گو شعرا حسنؔ رضا بریلوی، محسنؔ کاکوروی، جمیلؔ بریلوی، حسنینؔ رضا بریلوی، نعیم الدین نعیمؔ مرادآبادی، سید محمد اشرفی سیدؔ کچھوچھوی، عبدالعلیم علیمؔ میرٹھی، حشمت علی عبیدؔ رضوی لکھنوی ثم پیلی بھیتی، حافظؔ پیلی بھیتی اور مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی وغیرہ نے آپ کا تتبع اختیار کیا اور نعتیہ شاعری کے میدان میں قدم رنجہ ہوئے۔
یہ ایک سچائی ہے کہ شاعر اپنے زمانے اور ماحول میں رچی بسی شاعرانہ خصوصیات کو اپنانا اپنے لیے لازمی اور ضروری قرار دیتا ہے۔ دراصل اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کی شاعری قبولیتِ عام کی سند سے یک سر محروم رہ جائے گی۔ نوریؔ بریلوی اپنے پیش رو شعرا کی ز بان و بیان کی تقلید تو کر رہے تھے مگر آپ کا پیرایۂ زبان و بیان، اندازِ نگارش اور طرزِ اظہار ان سے قدرے مختلف ہے۔ آپ کے کلام کے مطالعہ کی روشنی میں اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ آپ کے کلام میں زبان کی صحت کے ساتھ ساتھ سلاست، روانی، سادگی، بانکپن، پاکیزگی، طہارت اور صفائی وغیرہ نعتیہ شاعری کے جملہ اوصاف موجود ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آپ کے کلام میں معنویت کے ساتھ ساتھ سادگی اس درجہ غالب ہو گئی ہے کہ بعض غزلوں کی زمینیں بالکل سادہ سی ہو کر رہ گئی ہیں، ان میں نثریت آ گئی ہے اور غنائیت اور نغمگی مفقود ہو گئی ہے۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو یہ ان کی شاعری کا عیب یا فنّی سُقم نہیں بل کہ یہ تو ایک ہنر ہے۔ صاف، سہل اور سادہ گوئی میں جو کیف ہے وہ مشکل پسندی اور ادق الفاظ و تراکیب کے استعمال میں نہیں۔ ممدوح سے متعلق جو واقعات حقیقتاً ظہور پذیر ہوئے ہوں اور شاعر اپنے اشعار میں سادگی اور معنویت کے ساتھ انھیٖں امور کونظم کرے جو واقعتاً اُس کے اندر موجود ہوں تو یہی شاعر کا فنّی کمال ہے۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کا کلام سہلِ ممتنع کا اَعلا نمونہ ہے۔ اور شاعر کے اندر یہ مادہ تب ہی پیدا ہوتا ہے جب وہ شعر نظم کرنے میں مہارتِ تامّہ حاصل کر لیتا ہے۔ ورنہ نو مشق و نو آموز شعرا تو مشکل اور ادق الفاظ و تراکیب کا استعمال کرنے میں شہرت رکھتے ہیں چہ جائے کہ معنویت مفقود ہو۔ سہل اور سیدھے سادے الفاظ میں اپنا مقصد ادا کرنا ہی دراصل قادرالکلامی ہے اس پر وہی حاوی ہوسکتا ہے جو زبان و بیان سے مکمل طور پر آگاہی رکھتا ہو۔
نوریؔ بریلوی نے اپنے والدِ ماجد رضاؔ بریلوی سے بہت زیادہ اثرات قبول کیے۔ نوریؔ بریلو ی کا پیرایۂ زبان و بیان رضاؔ بریلوی کے پیرایۂ زبان و بیان سے حد درجہ مماثلت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کے کلام میں صوتی و معنوی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ جس کی درجنوں مثالیں دونوں کے کلام سے پیش کی جا سکتی ہیں۔ جن سے نوریؔ بریلوی کے پیرایۂ زبان و بیان کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے ؎
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
’نہیں ‘ سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
مانگیں گے مانگے جائیں گے منہ مانگی پائیں گے
سرکار میں نہ ’لا‘ ہے نہ حاجت اگر کی ہے
(رضاؔ )
جس نے جو مانگا وہ پایا اور بے مانگے دیا
پاک منہ پر حرف آتا ہی نہیں انکار کا
سنو گے ’لا‘ نہ زبانِ کریم سے نوریؔ
کریم ہیں یہ خزانے لٹانے آئے ہیں
(نوریؔ )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لاو ربِّ العرش جس کو جو ملا ان سے ملا
بٹتی ہے کونین میں نعمت رسول اللہ کی
(رضاؔ )
دوجہاں میں بٹتا ہے باڑہ اسی سرکار کا
دونوں عالم پاتے ہیں صدقہ اسی سرکار کا
(نوریؔ )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پھول کیا دیکھوں میری آنکھوں میں
دشتِ طیبہ کے خار پھرتے ہیں
(رضاؔ )
نظر میں کیسے سمائیں گے پھول جنت کے
کہ بس چکے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں
(نوریؔ )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا، وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی، جان ہے تو جہان ہے
(رضاؔ )
جب تم نہ تھے کچھ بھی نہ تھا، جب تم ہوئے سب کچھ ہو ا
ہے سب میں جلوہ آپ کا، مہرِ عجم ماہِ عرب
(نوریؔ )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جن جن مرادوں کے لیے احباب نے کہا
پیشِ خبیر کیا مجھے حاجت خبر کی ہے
(رضاؔ )
حال ہمارا جیسا زبوں ہے، اور وہ کیسا اور وہ کیوں ہے
سب ہے تم پر روشن شاہا، صلی اللہ علیک و سلم
(نوریؔ )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گذرے جس راہ سے وہ سیدِ والا ہو کر
رہ گئی ساری زمیں عنبرِ سارا ہو کر
(رضاؔ )
جس گلی سے تو گذرتا ہے مرے جانِ جناں
ذرّ ہ ذرّہ تری خوشبو سے بسا ہوتا ہے
(نوریؔ )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ایسا اُمی کس لیے منتِ کشِ استاد ہو
کیا کفایت تجھ کو اقرا ربک الاکرم نہیں
(رضاؔ )
نہ منت تم پہ استادوں کی رکھی
تمہارا اُمی ہونا معجزا ہے
(نوریؔ )
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا
جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروروں درود
(رضاؔ )
چھپا تم سے رہے کیوں کر کوئی راز
خدا بھی تو نہیں تم سے چھپا ہے
(نوریؔ )
مذکورہ بالا جائزے کے بعد نوریؔ بریلوی کے پیرایۂ زبان و بیان پر مزید روشنی ڈالنے کی چنداں ضرورت نہیں ذیل میں کلامِ نوریؔ سے زبان و بیان کی گل کاریوں کی مثالیں نشانِ خاطر کیجیے اور زبان کا لطف و سرور اُٹھاتے ہوئے بے ساختگی اورسلاست و روانی کو محسوس کیجیے ؎
مرَضِ عشق کا بیمار بھی کیا ہوتا ہے
جتنی کرتا ہے دوا درد سِوا ہوتا ہے
کیوں عبث خوف سے دل اپنا ہَوا ہوتا ہے
جب کرم آپ کا عاصی پہ شہا ہوتا ہے
سارا عالم ہے رضا جوئے خداوندِ جہاں
اور خدا آپ کا جویائے رضا ہوتا ہے
جس گلی سے تو گذرتا ہے مرے جانِ جناں
ذرّہ ذرّہ تری خوشبو سے بسا ہوتا ہے
کب گل طیبہ کی خوشبو سے بسیں گے دل و جاں
دیکھیے کب کرمِ بادِ صبا ہوتا ہے
دیکھیے غنچۂ دل اپنا کھِلے کا کب تک
دیکھیے کب دلِ پژ مردہ ہرا ہوتا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پیام لے کے جو آئی صبا مدینے سے
مریضِ عشق کی لائی دوا مدینے سے
تمہاری ایک جھلک نے کیا اُسے دل کش
فروغ حُسن نے پایا شہا مدینے سے
نہ چین پائے گا یہ غم زدہ کسی صورت
مریضِ غم کو ملے گی شفا مدینے سے
لگاؤ دل کو نہ دنیا میں ہر کسی شَے سے
تعلق اپنا ہو کعبے سے یا مدینے سے
گدا کی راہ جہاں دیکھیں پھر نوا کیوں ہو
نوا سے پہلے ملے بے نوا مدینے سے
چمن کے پھول کھلے مردہ دل بھی جی اُٹھّے
نسیم خلد سے آئی ہے یا مدینے سے
مدینہ چشمۂ آبِ حیات ہے یارو
چلو ہمیشہ کی لے لو بقا مدینے سے
فضائے خلد کے قرباں مگر وہ بات کہاں
مل آئیں حضرتِ رضواں ذرا مدینے سے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
فوجِ غم کی برابر چڑھائی ہے
دافعِ غم تمہاری دوہائی ہے
عمر کھیلوں میں ہم نے گنوائی ہے
عمر بھر کی یہی تو کمائی ہے
تم سے ہر دم امیدِ بھلائی ہے
میٹ دیجے جو ہم میں برائی ہے
تم نے کب آنکھ ہم کو دکھائی ہے
تم نے کب آنکھ ہم سے چرائی ہے
تم کو عالم کا مالک کیا اس نے
جس کی مملوک ساری خدائی ہے
تو خدا کا ہوا اور خدا تیرا
تیرے قبضے میں ساری خدائی ہے
جب خدا خود تمہارا ہوا تو پھر
کون سی چیز ہے جو پرائی ہے
تاج رکھا ترے سر رفعنا کا
کس قدر تیری عزت بڑھائی ہے
انبیا کو رسائی ملی تجھ تک
بس تمہاری خدا تک رسائی ہے
رشکِ سلطان ہیں وہ گدا جس نے
تیرے کوچے میں دھونی رمائی ہے
کاش وہ حشر کے دن کہیں مجھ سے
نارِ دوزخ سے تجھ کو رہائی ہے
خوشبوئے زلف سے کوچے مہکے ہیں
کیسے پھولوں میں شاہا بسائی ہے
بات وہ عطرِ فردوس میں بھی نہیں
تیرے ملبوس نے جو سنگھائی ہے
طیبہ جاؤں وہاں سے نہ واپس آؤں
میرے جی میں تو بس یہ سمائی ہے
مر رہا ہوں تم آ جاؤ جی اُٹھوں
شربتِ دید میری دوائی ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو شمعِ رسالت ہے عالم ترا پروانہ
تو ماہِ نبوت ہے اے جلوۂ جانانہ
جو ساقیِ کوثر کے چہرے سے نقاب اُٹھے
ہر دل بنے مَے خانہ ہر آنکھ ہو پیمانہ
دل اپنا چمک اُٹھے ایمان کی طلعت سے
کر آنکھ بھی نورانی اے جلوۂ جانانہ
سرشار مجھے کر دے اک جامِ لبالب سے
تا حشر رہے ساقی آباد یہ مے خانہ
مستِ مَے اُلفت ہے مدہوشِ محبت ہے
فرزانہ ہے دیوانہ دیوانہ ہے فرزانہ
ہر پھول میں بو تیری ہر شمع میں ضَو تیری
بلبل ہے ترا بلبل پروانہ ہے پروانہ
ہر آرزو بر آئے سب حسرتیں پوری ہوں
وہ کان ذرا دھر کر سن لیں مرا افسانہ
مذکورہ بالا نمونۂ کلام نوریؔ بریلوی کے مجموعۂ کلام ’’سامانِ بخشش‘‘ میں شامل چھوٹی بحروں کی نعتوں سے اخذ کر کے پیش کیا گیا ہے۔ شعرا کے درمیان چھوٹی بحروں میں طبع آزمائی خاصی مقبولیت کی حامل ہے۔ چھوٹی چھوٹی بحروں میں طبع آزمائی کرنا اور غزلیں کہنا دورِ متوسطین اور دورِ متاخرین کے شعرا کا خاص وصف رہا ہے۔ مومنؔ ، غالبؔ ، میرؔ اور داغؔ وغیرہ کے یہاں یہ خاص انداز اپنی پوری شعری و فنّی خوبیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ عموماً ان چھوٹی بحروں کا انتخاب لطفِ زبان کے اظہار کے لیے کیا جاتا تھا فصیح الملک داغؔ دہلوی نے ان چھوٹی بحروں میں زبان و بیان کی شوخی اور بانکپن کے خوب خوب جوہر دکھائے ہیں۔
غزل کے لیے یہ میدان تو بڑا وسیع اور پُر کیف ہے۔ البتہ نعتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں یہ ایک مشکل امر ہے کیوں کہ چھوٹی بحروں میں مضمون آفرینی کی گنجایش بہت کم ہے اور نعت میں جس قدر مضمون آفرینی ہو گی اتنی ہی کیف و سرورکی کیفیت پائی جائے گی۔ نوریؔ بریلوی نے ان چھوٹی بحروں میں بھی زبان و بیان کے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ پڑھنے والے پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ یہ آپ کی قادرالکلامی کی روشن دلیل ہے۔
چھوٹی بحروں کے بعد آیئے طویل بحروں میں نوریؔ بریلوی کی زبان و بیان اور سلاست و روانی اور شگفتگی کا نظارہ کیجیے ؎
بہارِ جاوداں تم ہو نسیمِ داستاں تم ہو
بہارِ باغِ رضواں تم سے ہے زیبِ جناں تم ہو
حبیبِ ربِ رحماں تم مکینِ لامکاں تم ہو
سرِ ہر دوجہاں تم ہو شہ شاہنشہاں تم ہو
خدا کی سلطنت کا دو جہاں میں کون دولہا ہے
تم ہی تم ہو تم ہی تم ہو یہاں تم ہو وہاں تم ہو
تمہارا نور ہی ساری ہے ان ساری بہاروں میں
بہاروں میں نہاں تم ہو بہاروں سے عیاں تم ہو
تمہارے حسن و رنگ و بو کے گل بوٹے حکایت ہیں
بہارِ گلستاں تم ہو بہارِ بوستاں تم ہو
نظر عارف کو ہر عالم میں آیا آپ کا عالم
نہ ہوتے تم تو کیا ہوتا بہارِ جاوداں تم ہو
یہ کیا میں نے کہا مثلِ سما تم ہو معاذاللہ!
منزہ مثل سے برتر ز ہر وہم و گماں تم ہو
میں بھولا آپ کی رفعت سے نسبت ہی ہمیں کیا ہے
وہ کہنے بھر کی نسبت تھی کہاں ہم ہیں کہاں تم ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کوئی کیا جانے جو تم ہو خدا ہی جانے کیا تم ہو
خدا تو کہہ نہیں سکتے مگر شانِ خدا تم ہو
تمہارا حسن ایسا ہے کہ محبوبِ خدا تم ہو
مہِ کامل کرے کسبِضیا وہ مہِ لقا تم ہو
علوئے مرتبت پیارے تمہارا سب پہ روشن ہے
مکینِ لامکاں تم ہو شہِ عرشِ علا تم ہو
تمہاری حمد فرمائی خدا نے اپنے قرآں میں
محمد اور ممجد مصطفیٰ و مجتبیٰ تم ہو
خدا نے ذات کا اپنی تمہیں مظہر بنایا ہے
جو حق کو دیکھنا چاہیں تو اس کے آئینہ تم ہو
تمہیں باطن تمہیں ظاہر تمہیں اول تمہیں آخر
نہاں بھی ہو عیاں بھی مبتدا و منتہا تم ہو
مٹا دی کفر کی ظلمت تمہارے رئوے روشن نے
سویرا شرک کا تم نے کیا شمس الضحیٰ تم ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
رسل انہیں کا تو مژدہ سنانے آئے ہیں
انہیں کے آنے کی خوشیاں منانے آئے ہیں
فرشتے آج جو دھومیں مچانے آئے ہیں
انہیں کے آنے کی شادی رچانے آئے ہیں
فلک کے حور و ملک گیت گانے آئے ہیں
کہ دوجہاں میں یہ ڈنکے بجانے آئے ہیں
چمک سے اپنی جہاں جگمگانے آئے ہیں
مہک سے اپنی یہ کوچے بسانے آئے ہیں
نسیمِ فیض سے غنچے کھلانے آئے ہیں
کرم کی اپنی بہاریں دکھانے آئے ہیں
سحر کو نور جو چمکا تو شام تک چمکا
بتا دیا کہ جہاں جگمگانے آئے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ ایسا کر دے مرے کردگار آنکھوں میں
ہمیشہ نقش رہے روئے یار آنکھوں میں
بسا ہوا ہے کوئی گل عذار آنکھوں میں
کھلا ہے چار طرف لالہ زار آنکھوں میں
وہ نور دے مرے پروردگار آنکھوں میں
کہ جلوہ گر رہے رخ کی بہار آنکھوں میں
انہیں نہ دیکھا تو کس کام کی ہے یہ آنکھیں
کہ دیکھنے کی ہے ساری بہار آنکھوں میں
نظر میں کیسے سمائیں گے پھول جنت کے
کہ بس چکے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں
خزاں کا دَور ہوا دُور وہ جہاں آئے
ہوئی ہے قدموں سے ان کے بہار آنکھوں میں
کرم یہ مجھ پہ کیا ہے مرے تصور نے
کہ آج کھینچ دی تصویر یار آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
چارہ گر ہے دل تو گھایل عشق کی تلوار کا
کیا کروں میں لے کے پھاہا مرہمِ زنگار کا
رو کشِ خلدِ بریں ہے دیکھ کوچہ یار کا
حیف بلبل اب اگر تو نام لے گل زار کا
حُسن کی بے پردگی پردہ ہے آنکھوں کے لیے
خود تجلی آپ ہی پردہ ہے روئے یار کا
حُسن تو بے پردہ ہے پردہ ہے آنکھوں کے لیے
دل کی آنکھوں سے نہیں ہے پردہ روئے یار کا
تیرے باغِ حسن کی رونق کا کیا عالم کہوں
آفتاب اک زرد پتہ ہے ترے گل زار کا
جب گرا میں بے خودی میں ان کے قدموں پر گرا
کام تو میں نے کیا اچھے بھلے ہشیار کا
خارِ گل سے دہر میں کوئی چمن خالی نہیں
یہ مدینہ ہے کہ ہے گلشن گلِ بے خار کا
گل ہو صحرا میں تو بلبل کے لیے صحرا چمن
گل نہ ہو گلشن میں تو گلشن ہے اک بَن خار کا
کوثر و تسنیم سے دل کی لگی بجھ جائے گی
میں تو پیاسا ہوں کسی کے شربتِ دیدار کا
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ نوریؔ بریلوی کی لفظیات میں سادگی ہے۔ آپ کی اکثر نعتیں سادہ زمینوں اور آسان بحروں میں ملتی ہیں۔ آپ نے اپنے کلام میں غیرمانوس، مشکل اور ادق الفاظ استعمال کرنے سے گریز کیا ہے۔ یہ نوریؔ بریلوی کے کلام کی خامی نہیں بل کہ یہ ایک طرح کی فن کاری اور کلام کا حُسن ہے۔ کہاجاتا ہے کہ شاعر اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے اور وہ اپنے ماحول کے زیرِ اثر فکرو قلم کو مہمیز دیتا ہے۔ نوریؔ بریلوی کے پیرایۂ زبان و بیان کے بارے میں ناقدین کا خیال ہے کہ آپ کی شاعری نثریت سے عبارت ہے اور اس میں غنائیت و نغمگی کم ہے، آپ کے کلام میں اردو کے دیگر شعرا کی طرح وہ لفظیات نہیں ہیں جو ہونی چاہئیں۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ نوریؔ بریلوی کو زبان وبیان پر اس قدر ملکہ حاصل تھا کہ آپ نے معنی و مفہوم کی ادائیگی کے لیے آسان اور سہل پیرایۂ بیان اختیار کیا جو قاری و سامع کے لیے گراں نہیں گزرتا۔ وہ معنی و مفہوم کی تہہ تک بہ آسانی پہنچ جاتا ہے نہ کہ دیگر شعرا کے کلام کی طرح مشکل اور ادق الفاظ کی بھول بھلیوں میں گم ہو جائے۔
واضح ہو کہ ہر زمانے کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے۔ سوداؔ ، غالبؔ ، مومنؔ ، انیسؔ ، اصغرؔ ، حسرتؔ ، امیرؔ مینائی، داغؔ اور اقبالؔ وغیرہ کے دور کا تقاضا تھا کہ مشکل الفاظ استعمال کیے جائیں۔ اب جب کہ اردو صرف دہلی اور لکھنو تک محدود تک نہیں ہے اس کے اور بہت سے دبستان قائم ہو چکے ہیں اور اردو ادب پورے کشورِ ہندوستان پر چھایا ہوا ہے اور اس منظر نامے پر اب صاف و شُستہ، سادہ و سلیس، آسان اور سہل پیرایۂ زبان و بیان کا مطالبہ ہے۔ نوریؔ بریلوی اس مطالبے سے کماحقہٗ واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آ پ نے سہل پیرایۂ زبان و بیان اختیار کیا۔
نوریؔ بریلوی کی شاعری کا ایک مقصد تھا۔ وہ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کے عشق و ادب کو مسلمانانِ عالم کے قلوب و اذہان میں جاگزیں دیکھنا چاہتے تھے۔ گستاخانِ زمانہ بد عقیدوں اور بے دینوں، دہریوں اور ملحدوں کی مذمت بھی آپ کا مطمحِ نظر تھا۔ اس فکری محاسبے کے بعد جب ہم نوریؔ بریلوی کے کلام کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں تو یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ آپ انتہائی کام یاب وکام ران شاعر ہیں۔ اورآسان و سہل پیرایۂ زبان و بیان کے با وصف آپ کے کلام میں شعری و فنّی محاسن اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ جلوہ گر ہیں اور آپ کے کلام میں زبان و بیان کی گل کاریاں بھی بدرجۂ اتم موجود ہیں۔
نوریؔ بر یلوی کے کلام میں یہ ساری خوبیاں اور اوصاف کسی استاذ کی رہبری کا رہینِ منّت نہیں ہیں بل کہ آپ کو خالقِ مطلق جل شا نہٗ نے خود اپنی جانب سے ذہنِ رسا بخشا تھا اور عشقِ رسولصلی اللہ علیہ و سلم کی والہانہ وارفتگی اور فدائیت کی سرمستی و سرشاری نے آپ سے شعر کہلوائے اور علمی گہرائی و گیرائی نے آپ کے پیرایۂ بیان کو اتنی شیفتگی، شگفتگی اور پختگی عطا کر دی کہ آپ کی نثری کاوشات میں بھی کسی کو انگشت نمائی کا موقع نہیں ملا۔ غرض یہ کہ نوریؔ بریلوی ایک قادر الکلام شاعر اور بلند پایہ ادیب تھے جن کو زبان و بیان پر کامل دست گاہ حاصل تھی۔
(1)سراج احمد بستوی، ڈاکٹر:احمد رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری، کانپور یونیورسٹی، کانپور، ص257
٭٭٭
کلام میں صنائعِ لفظی و معنوی، تراکیب، پیکر ات، استعارات، تشبیہات نیز روزمرہ محاورات اور ضرب الامثال کا برمحل اور خوب صورت استعمال اس کے ادبی و لسانی حُسن اور لُطفِ مطالعہ کی کیفیت کو دوبالا کر دیتا ہے۔
کلامِ نوریؔ بریلوی کے مطالعہ کی روشنی میں یہ خیال تقویت پاتا ہے کہ آپ کے کلام میں جہاں دیگر شعری و فنّی محاسن کی جلوہ گری ہے وہیں روز مرہ محاورات کے خوب صورت اور بر محل استعمال کی مثالیں بہ کثرت موجود ہیں۔ آ پ شاعری کے جملہ محاسن پر یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ گذشتہ ابواب میں آپ کے کلام کی دیگر خوبیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ پیشِ نظر ضمنی باب میں آپ کے کلام میں محاورات کے استعمال کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
محاورات اندازِ بیان اور طرزِ اظہار میں حُسن و دل کشی، جاذبیت اور کشش پیدا کرتے ہیں۔ جس سے مطالعہ میں لُطف و سرور محسوس ہوتا ہے۔ بہ قول ڈاکٹر صابر سنبھلی :
’’محاورے کلام میں زور اور اثر پیدا کرتے ہیں، بہ شرط یہ کہ ان کو چابک دستی کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ ‘‘(1)
ادب میں محاورات کو مخصوص مقام حاصل ہے۔ محاورے نظم و نثر دونوں میں برتے جاتے ہیں۔ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ محاورے کیا ہیں ؟ اس تعلق سے اربابِ علم و ادب نے مختلف تعریفیں بیان کی ہیں۔ تاہم تمام ہی تعریفوں کا خلاصہ و نچوڑ یہی نکلتا ہے کہ۔۔ ’’محاورے وہ مصادر کہلاتے ہیں جو اصل معنی کی بجائے مجازی معنی میں استعمال ہوتے ہوں ‘‘۔ جیسے غم کھانا، چراغ پا ہونا، آنکھ دکھانا وغیرہ۔ یوں ہی کھانا کھانا، غذا کھانا، مال چرانا، پانی پینا، وغیرہ محاورے نہیں کہلائیں گے کہ یہاں اصل معنی میں یہ مصادر استعمال ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں پروفیسر محمد طاہر فاروقی کے خیالات کو پیش کرنا غیرمناسب نہ ہو گا، وہ لکھتے ہیں :
’’ محاورہ یہ ہے کہ الفاظ کو ان کے حقیقی معنوں میں سے ہٹ کر مجازی معنوں میں بولا جائے مثلاً : اتارنا کے حقیقی معنی ہیں اوپر سے نیچے لاناجیسے گھوڑے سے سوار کو اتارنا، کھونٹی سے کپڑا اتارنا، کوٹھے سے پلنگ اتارنا۔ لیکن نقشہ اتارنا، نقل اتارنا، دل سے اتارنا اور دل میں اتارنا اپنے حقیقی معنوں میں نہیں اس لیے انھیں محاورہ کہا جائے گا۔ اسی طرح کھانا کے حقیقی معنی ہیں کہ کسی چیز کو دانتوں سے دبا کر یا بغیر چبائے حلق سے اتارنا جیسے روٹی کھانا، دوا کھانا۔ لیکن قسم کھانا، غم کھانا، دھوکہ کھانا، ٹھوکر کھانا اپنے حقیقی معنوں میں نہیں ہے اس لیے یہ محاورے ہیں۔ ‘‘(2)
یہاں یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ محاورے کے الفاظ میں اوّلاً: تو کسی چیز کی کمی بیشی جائز نہیں۔ ثانیاً: ان کا صحیح اور برمحل استعمال ہی نثر و نظم کے حُسن و دل کشی میں اضافہ کا سبب بن سکتا ہے۔ اشعار میں محاورات کا استعمال حُسن و جمال اور لفظی رعنائی کو دو آتشہ کر دیتا ہے۔ بہ قول ڈاکٹر صابر سنبھلی :
’’بعض جگہ تو محاورہ شعر میں جان ڈال دیتا ہے اور سامع اور قاری پھڑک اُٹھتا ہے۔ تو بعض جگہ اس استاذی اور قادرالکلامی سے واسطہ پڑتا ہے کہ محاورہ استعمال بھی کیا ہے اور پھر بھی اس کی توضیحات کے حقیقی معنی مراد لیے گئے ہیں۔ یہ کام بڑے بڑے اساتذہ سے ہی ممکن ہے۔ ‘‘(3)
اس پس منظر میں کلامِ نوریؔ بریلوی کے مطالعہ کے بعد یہ کہنا غیرمناسب نہ ہو گا کہ آپ نے اپنے کلام میں محاوروں کا صحیح اور بر محل استعمال کیا ہے، جس سے آپ کے اشعار حُسن و دل کشی اور لفظی رعنائی کا پیکر بن گئے ہیں۔ جو آپ کی قادرالکلامی کو نمایاں کرتے ہیں۔ کلامِ نوریؔ بریلوی میں استعمال کیے گئے محاورات سے متعلق اشعار کا ایک انتخاب ردیف کے اعتبار سے ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے :
محاورہ(1) آنکھیں بہنا : آنسو نکلنا
حسرتِ دیدار دل میں ہے اور آنکھیں بہہ چلیں
تو ہی والی ہے خدایا دیدۂ خوں بار کا
محاورہ(2) آنکھوں میں بسانا: آنکھوں میں سمانا، پسند کرنا
پردہ میں جو رہتے ہو پردہ ہے چلے آؤ
آنکھوں میں بسا کرنا تم دل میں رہا کرنا
محاورہ( 3) انگشت بدنداں ہونا:حیرت، تعجب، افسوس یا حسرت کا اظہار کرنا
ماجرا دیکھ کے ہو گا یہ کسی کو سکتہ
اک تعجب سے وہ انگشت بدنداں ہو گا
محاورہ(4) باڑا بٹنا :صدقہ و خیرات بٹنا
دو جہاں میں بٹتا ہے باڑا اسی سرکار کا
دونوں عالم پاتے ہیں صدقہ اسی دربار کا
محاورہ(5) بیڑا پار کرنا: مشکل آسان کرنا
رَبِّ سلِّم کی دعا سے پار بیڑا کیجیے
راہ ہے تلوار پر نیچے ہے دریا نار کا
محاورہ(6) فق ہونا: چہرے کا رنگ اُڑنا
فق ہو چہرہ مہر و مہ کا ایسے منہ کے سامنے
جس کو قسمت سے ملے بوسہ تری پیزار کا
محاورہ(7) دل میں گھر کرنا: دوستی کرنا، دل پر اثر کرنا، محبت پیدا کرنا
دل میں گھر کرتا ہے اعدا کے ترا شیریں سخن
ہے میرے شیریں سخن شہرہ تری گفتار کا
محاورہ(8) دل کی لگی بجھنا: حسرت نکلنا
کوثر و تسنیم سے دل کی لگی بجھ جائے گی
میں تو پیاسا ہوں کسی کے شربتِ دیدار کا
محاورہ(9) ڈنکا بجنا: دھوم مچنا، شہرت ہونا
عرشِ اعظم پر پھریرا ہے شہ ابرار کا
بجتا ہے کونین میں ڈنکا مرے سرکار کا
محاورہ(10) سایا کرنا :حفاظت کرنا، حمایت کرنا
اے ظلِ خدا سایہ ہے آج کہاں پایا
ہم سایے کو آئے ہیں تم سایا ذرا کرنا
محاورہ(11) صدقے جانا: قربان ہونا، واری جانا، تصدق ہونا
بڑے دربار میں پہنچایا مجھ کو میری قسمت نے
میں صدقے جاؤں کیا کہنا مرے اونچے مقدر کا
محاورہ(12) صدقہ پانا: خیرات پانا
دو عالم صدقہ پاتے ہیں مرے سرکار کے در کا
اسی سرکار سے ملتا ہے جو کچھ ہے مقدر کا
محاورہ(13) قسمت جاگ اُٹھنا: اچھے دن آنا، دن پھرنا
جاگ اُٹھی سوئی قسمت اور چمک اُٹھا نصیب
جب تصور میں سمایا روئے انور یار کا
محاورہ(14) قسم کھانا : عہد کرنا، قول دینا، حلف اُٹھانا
اس کی قسمت کی قسم کھائیں فرشتے تو بجا
عید کی طرح وہ ہر آن میں شاداں ہو گا
محاورہ(15) کھٹکا ہونا: کھڑکا ہونا، فکر ہونا، اندیشہ ہونا
راہ پر کانٹے بچھے ہیں کانٹوں پر چلنی ہے راہ
ہر قدم ہے دل میں کھٹکا اس رہِ پُر خار کا
محاورہ(16) گریباں چاک کرنا : کپڑے پھاڑنا، بہت رنج کرنا
یوں ہی کچھ اچھا مداوا اس کا ہو گا بخیہ گر
چاک کر ڈالوں گریباں زخمِ دامن دار کا
چاک تقدیر کو کیا سوزنِ تدبیر سیے
لاکھ وہ بخیہ کرے چاک گریباں ہو گا
محاورہ(17) لوہا ماننا : کسی کی دلیری اور شجاعت کا قائل ہونا
کچھ عرب پر ہی نہیں موقوف اے شاہِ جہاں
لوہا مانا ایک عالم نے تری تلوار کا
محاورہ(18) منہ تر نہ ہونا :پیاس نہ بجھنا
آبلوں کے سب کٹورے آہ خالی ہو گئے
منہ ابھی تر بھی نہ ہونے پایا تھا ہر خار کا
محاورہ(19) مقدر چمکنا : تقدیر جاگنا، بھلے دن آنا، قسمت یاور ہونا
کوئی دم کی دیر ہے آتے ہی دم کی دیر ہے
اب چمکتا ہے مقدر طالبِ دیدار کا
محاورہ(20) ہاتھ آنا: میسر آنا، دستیاب ہونا
دھجیاں ہو جائے دامن فردِ عصیاں کا مری
ہاتھ آ جائے جو گوشہ دامنِ دل دار کا
محاورہ(21) ہرا کرنا: سر سبز کرنا، باغ باغ کرنا
جو سوختہ ہَیزُم کو چاہو تو ہرا کر دو
مجھ سوختہ جاں کا بھی دل پیارے ہرا کرنا
محاورہ(22) پیاسا ہونا: خواہش مند ہونا، مشتاق ہونا
بجھے گی شربتِ دیدار ہی سے تشنگی اپنی
تمہاری دید کا پیاسا ہوں یوں پیاسا ہوں کوثر کا
(یہاں ’’پیاساہونا ‘‘ حقیقی اور مجازی دونوں معنی میں استعما ل ہوا ہے اس میں
’’دید کا پیاسا ہونا ‘‘ محاورہ ہے)
محاورہ(23) ٹیکا دینا: زیور دینا
اس جبہ سائی کے سبب شب کو اسی سرکار نے
انعام میں ٹیکا دیا ماہِ عجم مہرِ عرب
محاورہ(24) جِلا دینا : زندہ کرنا
ہے تم سے عالم پُر ضیا ماہِ عجم مہرِ عرب
دے دو میرے دل کو جِلا ماہِ عجم مہرِ عرب
محاورہ(25) جبہ سائی کرنا : ما تھا رگڑنا
اس جبہ سائی کے سبب شب کو اسی سرکار نے
انعام میں ٹیکا دیا ماہِ عجم مہرِ عرب
محاورہ(26) دامنِ شب پھٹنا : اُجالا ہونا، روشنی ہونا
آپ نے جب مشرقِ انوار سے فرمایا طلوع
دامنِ شب پھٹ گیا مہرِ عجم ماہِ عرب
محاورہ(27) قیامت بپا کرنا :مصیبت میں ڈالنا
تم نے مغرب سے نکل کر اک قیامت کی بپا
کافروں پر سرورا مہرِ عجم ماہِ عرب
محاورہ(28) منہ اُجالا کرنا : سرخروئی ہونا، چہرے کا رنگ نکھر آنا
روسیہ ہوں منہ اُجالا کر مرا جانِ قمر
صبح کر یا چاندنا مہرِ عجم ماہِ عرب
محاورہ(29) دل میں رکھنا : پوشیدہ کرنا
موم ہے ان کے قدم کے لیے دل پتھر کا
سنگ نے دل میں رکھی ان کے قدم کی صورت
محاورہ(30) جھولی پسارنا : جھولی پھیلانا
راجا پرجا آپ کے دوارے، سب ہیں بیٹھے جھولی پسارے
داتا پیارے دولت والے تم پر لاکھوں سلام
محاورہ(31) جلوہ دکھانا : دیدار دکھانا، نظر آنا
خواب میں جلوہ اپنا دکھاؤ، نوریؔ کو تم نوری بناؤ
اے چمکیلی رنگت والے تم پر لاکھوں سلام
محاورہ(32) پردہ ڈھانپنا: عیب چھپانا
کوئی نہیں ہے ایسا آقا، پردہ ڈھانپے جو تنکوں کا
شرم و حیا و غیرت والے صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
محاورہ(33) خبر لینا : مدد کو آنا، دستگیری کرنا
للہ! خبر لو نوریؔ کی اچھی صورت ہو نوریؔ کی
چاند سی اچھی صورت والے صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
محاورہ(34) دم گھٹنا : سانس کا رُکنا، گھبراہٹ ہونا، جی گھبرانا
سر پر بادل کالے کالے، دودِ عصیاں کے ہیں چھالے
دم گھٹتا ہے میرے مولا صلی اللہ علیک و سلم
محاورہ(35) دامن میں لینا : پناہ دینا، سہارا دینا
منہ تک میرے پسینہ پہونچا، ڈوبا ڈوبا ڈوبا ڈوبا
دامن میں لے لیجے آقا صلی اللہ علیک و سلم
محاورہ(36) دم میں دم آنا : اطمینان ہونا، تسلی ہونا
میرے آقا میرے مولا، آپ سے سُن کر انی لہا
دم میں ہے دم میرے آیا صلی اللہ علیک و سلم
محاورہ(37) سکہ جاری ہونا: حکم چلنا
جتنے سلاطیں پہلے آئے، سکے ان کے ہو گئے کھوٹے
جاری رہے گا سکہ تیرا صلی اللہ علیک و سلم
محاورہ(38) گھٹا چھانا: ابر گھرنا، بادل گھرنا
غم کی کالی گھٹائیں چھائیں، رنج و الم کی بلائیں چھائیں
شمسِ ضحی ہو جلوہ فرما صلی اللہ علیک و سلم
محاورہ(39) موم بنانا: نرم کرنا، ملائم کرنا
تیرے نقشِ قدم نے سرور پتھر موم بنائے یک سر
موم بنا دلِ سنگیں میرا صلی اللہ علیک و سلم
محاورہ(40) پیچ وخم نکالنا : ٹیڑھا پن دور کرنا
ہے قسمت میری ٹیڑھی تم سیدھی کر دو
نکل جائے سب پیچ و خم غوثِ اعظم
محاورہ(41) جان میں جان آنا: طاقت آنا، قوت آنا، تازگی آنا
مری جان میں جان آئے جو آئے
مرا جانِ عالم مرا غوثِ اعظم
محاورہ(42) خاطر میں نہ لانا: خیال نہ کرنا، عزت نہ کرنا، پراہ نہ کرنا
نہیں لاتا خاطر میں شاہوں کو شاہا
ترا بندۂ بے درم غوثِ اعظم
محاورہ(43) زخم بھرنا : زخم اچھا ہونا
ترا حُسنِ نمکیں بھرے زخم دل کے
بنہ مرہمے بر دلم غوثِ اعظم
محاورہ(44) فدا ہونا: قربان ہونا، تصدق کرنا، وارنا، عاشق ہونا، فریفتہ ہونا
فدا تم پہ ہو جائے نوریِؔ مضطر
یہ ہے اس کی خواہش دلی غوثِ اعظم
محاورہ(45) لاج رکھنا : عزت بچانا، آبرو نہ بگڑنے دینا
ترے صدقے جاؤں مری لاج رکھ لے
ترے ہاتھ ہے لاج یا غوثِ اعظم
محاورہ(46) آنکھوں میں آنا: آنکھ میں سمانا
جو خواب میں کبھی آئیں حضور آنکھوں میں
سرور دل میں ہو پیدا تو نور آنکھوں میں
محاورہ(47) بستر جمانا: قیام کرنا
مدینہ ہم سے فقیر آ کے لوٹ جائیں گے
درِ حضور پہ بستر جمانے آئے ہیں
محاورہ(48) تصویر کھینچنا : شبہہ اُتارنا
کرم یہ مجھ پہ کیا ہے مرے تصور نے
کہ آج کھینچ دی تصویرِ یار آنکھوں میں
محاورہ(49) ٹھوکریں کھانا: دربدر پھرنا
میں کیوں غیر کی ٹھوکریں کھانے جاؤں
ترے در سے اپنا گزارا کروں میں
محاورہ(50) چارا کرنا: راستہ نکالنا، تدبیر کرنا
صبا ہی سے نوریؔ سلام اپنا کہہ دے
سوا اس کے کیا اور چارا کروں میں
محاورہ(51) دل کی لگی بجھانا: حسرت نکالنا
ہم اپنی حسرتِ دل کو مٹانے آئے ہیں
ہم اپنی دل کی لگی کو بجھانے آئے ہیں
محاورہ(52) داغِ دل دکھانا: رنج و غم دکھانا
کریم ہیں وہ نگاہِ کرم سے دیکھیں گے
ہے داغ داغِ دل اپنا دکھانے آئے ہیں
محاورہ(53) دل کی کلی کھلنا: آرزو پوری ہونا
کھلے گی میرے بھی دل کی کلی کہ جانِ جناں
چمن میں پھول کرم کے کھلانے آئے ہیں
محاورہ(54) دل میں سمانا: ہر وقت خیال میں رہنا
حضور آنکھوں میں آئیں حضور دل میں سمائیں
حضور دل میں سمائیں حضور آنکھوں میں
محاورہ(55) دھونی رمانا: کسی جگہ بیٹھ جانا
فقیر آپ کے در کے ہیں ہم کہاں جائیں
تمہارے کوچہ میں دھونی رمانے آئے ہیں
محاورہ(56) دل قربان ہونا: فریفتہ ہونا، شیدا ہونا
نہ اک نگاہ ہی صدقہ ہو دل بھی قرباں ہو
کرم کرے تو وہ ناقہ سوار آنکھوں میں
محاورہ(57) دم کا میہماں ہونا:مرنے کے قریب ہونا
یہ دم ہمارا کوئی دم کا اور مہماں ہے
کرم سے لیجیے دم بھر قرار آنکھوں میں
محاورہ(58) دامن پسارنا: سوال کے لیے ہاتھ پھیلانا
ترے در کے ہوتے کہاں جاؤں پیارے
کہاں اپنا دامن پسارا کروں میں
محاورہ(59) دل نکھارنا : دل صاف کرنا
جو ہو قلب سونا تو یہ ہے سہاگا
تری یاد سے دل نکھارا کروں میں
محاورہ(60) دو پارا کرنا: دو ٹکڑے کرنا
خدا ایک پر ہو تو اک پر محمد
اگر قلب اپنا دو پارا کروں میں
محاورہ(61) ڈنکا بجنا: دھوم مچنا، شہرت ہونا
فلک کے حور و ملک گیت گانے آئے ہیں
کہ دوجہاں میں یہ ڈنکے بجانے آئے ہیں
محاورہ(62) راہ ماری کام ہونا: رہزنی کا کام ہونا
رہِ نماؤں کی سی صورت راہ ماری کام ہے
راہ زن ہیں کو بکو اور راستہ ملتا نہیں
محاورہ(63) روشن ہونا: ظاہر ہونا
خدا نے غیب دیا ہے انھیں ہے سب روشن
جو خطرے دل ہی میں چھپنے چھپانے آئے ہیں
محاورہ(64) شادی رچانا: خوشی کرنا، جشن کرنا
فرشتے آج جو دھومیں مچانے آئے ہیں
انھیں کے آنے کی شادی رچانے آئے ہیں
محاورہ(65) فسانے آنا:قصّے آنا
کتابِ حضرتِ موسیٰ میں وصف ہیں اُن کے
کتابِ عیسیٰ میں اُن کے فسانے آئے ہیں
محاورہ(66) قصّہ سنانا: داستان سنانا
حضور! بہرِ خدا داستانِ غم سُن لیں
غمِ فراق کا قصّہ سنانے آئے ہیں
محاورہ(67) گیت گانا: تعریف کرنا
دمِ واپسیں تک ترے گیت گاؤں
محمد محمد پکارا کروں میں (ﷺ)
محاورہ(68) نثار ہونا: عاشق ہونا، صدقے ہونا، فریفتہ ہونا
تمہارے قدموں میں موتی نثار ہونے کو
ہیں بے شمار مری اشک بار آنکھوں میں
محاورہ(69) نصیب جاگ اُٹھنا: قسمت کھُلنا
نصیب جاگ اُٹھا اس کا چین سے سویا
وہ جس کو قبر میں سرور سُلانے آئے ہیں
محاورہ(70) نصیب چمک اُٹھنا: تقدیر جاگ اُٹھنا، حالات سازگار ہونا
نصیب تیرا چمک اُٹھا دیکھ تو نوریؔ
عرب کے چاند لحد کے سرہانے آئے ہیں
محاورہ(71) نقش رہنا: دل نشیں ہو جانا، کندہ ہونا
کچھ ایسا کر دے مرے کردگار آنکھوں میں
ہمیشہ نقش رہے روئے یار آنکھوں میں
محاورہ(72) نظر میں سمانا: پیارا لگنا، مقبول
نظر میں کیسے سمائیں گے پھول جنت کے
کہ بس چکے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں
محاورہ(73) نقشہ جمانا: تصور جمانا
ہے آشکار نظر میں جہاں کی نیرنگی
جما ہے نقشۂ لیل و نہار آنکھوں میں
محاورہ(74) منجدھار میں ہونا: مصیبت میں ہونا
بادِ مخالف تیز آ رہی ہے کشتی ہماری چکرا رہی ہے
منجدھار میں ہے مولا بچا لو پیارے بچا لو مجھے شاہا بچا لو
محاورہ(75) الم نکالنا: غم دور کرنا
دار الشفائے طیبہ میں آؤ جو مانگو فوراً منہ مانگی پاؤ
اندوہ و غم سب اپنے مٹا لو رنج و الم سب دل سے نکالو
محاورہ(76) تہ دامن لینا: پناہ میں لینا، حفاظت میں لینا
میں بے کس ہوں میں بے بس ہوں مگر کس کا تمہارا ہوں
تہ دامن مجھے لے لو پناہِ بے کساں تم ہو
محاورہ(77) گرفتارِ بلا ہونا: مصیبت میں مبتلا ہونا
گرفتارِ بلا حاضر ہوئے ہیں ٹوٹے دل لے کر
کہ ہر بے کل کی کل ٹوٹے دلوں کا آسرا تم ہو
محاورہ(78) گھٹا چھانا:بادل گھرنا، ابر کاآسمان پر محیط ہونا
ماہِ تاباں پہ ہیں رحمت کی گھٹائیں چھائیں
روئے پُر نور پہ یا چھائے تمہارے گیسو
محاورہ(79) افسانہ سنانا: روداد سنانا، داستان سنانا
وہ کہتے نہ کہتے کچھ وہ کرتے نہ کرتے کچھ
اے کاش وہ سُن لیتے مجھ سے مرا افسانہ
محاورہ(80) ٹھوکر لگنا:نقصان اُٹھانا
محاورہ(81) ہوش پکڑنا: ہوشیار ہونا، عقل حاصل کرنا، شعور پکڑنا
سنگِ درِ جاناں ہے ٹھوکر نہ لگے اس کو
لے ہوش پکڑ اب تو اے لغزشِ مستانہ
محاورہ(82) حسرتیں پوری ہونا: ارمان پورا ہونا، آرزو پوری ہونا
محاورہ(83) آرزو بر آنا: امید حاصل ہونا
محاورہ(84) کان دھرنا:غور سے سننا توجہ سے سننا
ہر آرزو بر آئے سب حسرتیں پوری ہوں
وہ کان ذرا دھر کر سن لیں مرا افسانہ
محاورہ(85)بازی چَھٹنا: کھیل ختم ہونا
تم آئے چَھٹی بازی رونق ہوئی پھر تازی
کعبہ ہوا پھر کعبہ کر ڈالا تھا بُت خانہ
محاورہ(86) دل ٹوٹا ہونا: غم زدہ ہونا، غمگین ہونا
میں شاہ نشیں ٹوٹے دل کو نہ کہوں کیسے
یہ ٹوٹا ہوا دل ہی مولا ترا کاشانہ
محاورہ(87) دل میں بسنا: محبت پیدا ہونا
محاورہ(88) دل شاد ہونا: خوش ہونا، ہشاش بشا ش ہونا
آنکھوں میں مری تو آ اور دل میں مرے بس جا
دل شاد مجھے فرما اے جلوۂ جانانہ
محاورہ(89) زنگ چھُڑانا: تاریکی دور کرنا، سیاہی دور کرنا
مولا دل کا زنگ چھُڑا قلبِ نوریؔ پائے جِلا
دل کو کر دے آئینہ جس میں چمکے یہ کلمہ
لا الٰہ الا اللہ اٰمنا برسول اللہ
محاورہ(90) سر پھیرنا: دور ہو جانا
جو سر رکھ دے تمہارے قدموں پہ سردار ہو جائے
جو تم سے سر کوئی پھیرے ذلیل و خوار ہو جائے
محاورہ(91) بار ہونا: بوجھ ہونا
قوافی اور مضامیں اچھے اچھے ہیں ابھی باقی
مگر بس بھی کرو نوریؔ نہ پڑھنا بار ہو جائے
محاورہ(92) حجاب اُٹھنا: پردہ اُٹھنا، روک ہٹنا
حجاب اُٹھیں جو مرقد سے اُن کے روضے تک
اندھیرا قبر کا مٹ جائے دوپہر ہو جائے
محاورہ(93) در بہ در ہونا: ٹھکانہ نہ ہونا
ترے غضب سے ہوں غارت یہ دہر کے شیطاں
بنے غلام ہر ایک ان میں در بہ در ہو جائے
محاورہ(94) جلوہ نما ہونا: سج دھج کے ساتھ سامنے آنا
جگمگا اُٹھتا ہے دل کا مرے ذرّہ ذرّہ
جب مرا جانِ قمر جلوہ نما ہوتا ہے
محاورہ(95) ہَوا ہونا: کافور ہونا، فنا ہونا
کیوں عبث خوف سے دل اپنا ہوا ہوتا ہے
جب کرم آپ کا عاصی پہ شہا ہوتا ہے
محاورہ(96) لَو لگانا: خیال باندھنا، توجہ دینا، آرزو مند ہونا
ہم نے یوں شمعِ رسالت سے لگائی ہے لَو
سب کی جھولی میں انھیں کا تو دِیا ہوتا ہے
محاورہ(97) مَیل چھُٹنا: مَیل صاف ہونا، مَیل دور ہونا
دل تپا سوزِ محبت سے کہ سب مَیل چھُٹے
تپنے کے بعد ہی تو سونا کھرا ہوتا ہے
محاورہ(98) دل کو جِلا دینا: زندگی ملنا، تازگی آنا
ملے ہمارے بھی دل کو جِلا مدینے سے
کہ مہر و ماہ نے پائی ضیا مدینے سے
محاورہ(99) جاں فدا ہونا: جان قربان کرنا
تمہارے قدموں پہ سر صدقے جاں فدا ہو جائے
نہ لائے پھر مجھے میرا خدا مدینے سے
محاورہ(100) خالی ہاتھ لَوٹنا: محروم واپس ہونا، بغیر کوئی چیز لیے جانا
جو آیا لے کے گیا کون لَوٹا خالی ہاتھ
بتا دے کوئی سُنا ہو جو ’لا‘ مدینے سے
محاورہ(101) راہ دیکھنا: انتظار کرنا
گدا کی راہ جہاں دیکھیں پھر نوا کیوں ہو
نوا سے پہلے ملے بے نوا مدینے سے
محاورہ(102) فتنے اُٹھانا: فساد برپا کرنا، شرارت کرنا
وہ حسیٖں کیا جو فتنے اُٹھا کر چلے
ہاں ! حسیٖں تم ہو فتنے مٹا کر چلے
محاورہ(103) نگاہیں لڑانا: آنکھ سے آنکھ مِلانا
کون اُن سے نگاہیں لڑا کر چلے
کس کی طاقت جو آنکھیں ملا کر چلے
محاورہ(۱۰۸) پاؤں اُٹھانا: تیزی سے جانا
جن کو اپنا نہیں غم، ہمارے لیے
دوڑے جھپٹے وہ پاؤں اُٹھا کر چلے
محاورہ(104) پھیرا پھرانا: واپس لانا
دم میں پہنچے وہ حکمِ رہائی دِیا
ان کو دوزخ سے پھیرا پھرا کر چلے
محاورہ(105) دامن بچانا: الگ رہنا، بے تعلق رہنا
بد سے بد کو لِیا جس نے آغوش میں
کب کسی سے وہ دامن بچا کر چلے
محاورہ(106) زبان دبانا: آہستہ کہنا، چُپ ہو جانا
جن کے دعوے تھے ہم ہی ہیں اہلِ زباں
سُن کے قرآں زبانیں دبا کر چلے
محاورہ(107) داغِ دل دکھانا: غم ظاہر کرنا
محاورہ(108) فسانہ سُنانا: قصّہ سُنانا، احوال سُنانا
داغِ دل ہم نے نوریؔ دِکھا ہی دِیا
دردِ دل کا فسانہ سُنا کر چلے
محاورہ(109) آنکھ دکھانا: خفگی کی نظر سے دیکھنا، چشم نُمائی کرنا
محاورہ(110) آنکھ پھرانا: نظر پھیرنا، دوسری طرف دیکھنا
تم نے کب آنکھ ہم کو دکھائی ہے
تم نے کب آنکھ ہم سے پھرائی ہے
محاورہ(111) آرزو بر آنا:امید حاصل ہونا، ارمان پورا ہونا
تم نے کب بات کوئی نبرائی ہے
تم سے جو آرزو کی بَرآئی ہے
محاورہ(112) دھونی رمانا:کسی جگہ بیٹھ جانا
رشکِ سلطان ہے وہ گدا جس نے
تیرے کوچے میں دھونی رمائی ہے
محاورہ(113) دل کی لگی بجھانا: رنج و غم دور کرنا
میرے دل کی لگی بھی بجھا دیجیے
نارِ نمرود کس نے بجھائی ہے
محاورہ(114) لبوں پر دم ہونا: نزع کا وقت ہونا، آخری وقت ہونا
اب تو آؤ کہ دم لبوں پر ہے
چہرے پر مُردنی بھی چھائی ہے
محاورہ(115) ٹکڑا ملنا: صدقہ ملنا
یہاں سے بھیک پاتے ہیں سلاطیں
اسی در سے انھیں ٹکڑا ملا ہے
متذکرہ اشعار میں محاورات کے استعمال کی مثالیں نوریؔ بریلوی کے کلام سے پیش کی گئی ہیں۔ آپ نے اپنے اشعار میں بڑی فن کارانہ چابک دستی، عالمانہ برجستگی اور ادیبانہ مہارت کے ساتھ محاوروں کا صحیح اور بر محل استعمال کیا ہے جس سے کلام کی دل کشی اور حُسن میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اور کلام لفظی و معنوی دل کشی کا ایک حسیٖن و جمیل پیکر بن کر اُبھرا ہے۔ آپ کے کلام میں محاورات کی اس کثرت کے باوجود کہیں بھی فنّی سقم یا لسانی جھول کا احساس نہیں ہوتا نیز پڑھنے اور سننے کے دوران اُکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی بل کہ ایک طرح کے کیف آگیں جذبات سے قاری و سامع کی روح سرشار ہونے لگتی ہے۔ اس مقام پر پہونچ کر اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ نوریؔ بریلوی اپنے عہد کے قادر الکلام شاعر ہیں۔
(1) پیغامِ رضا :امام احمد رضا نمبر، 1999ء، رضا دارالمطالعہ بہار، ص 377
(2) مسلم ٹائمز: امام احمد رضا نمبر، 26؍ جولائی1995ء، ممبئی، ص 1
(3) پیغامِ رضا :امام احمد رضا نمبر، 1999ء، رضا دارالمطالعہ بہار، ص 377
٭٭٭
رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی اُلفت و محبت ہی بنیادی طور پر نعت نگاری کی محرک ہے۔ ا ور غزل ’’حکایات با یار گفتن‘‘ کی شاعری ہے۔ لیکن نعت اور غزل دونوں میں عشق ایک مشترک جذبہ ہے۔ البتہ غزل اُسی وقت نعت میں تبدیل ہوسکتی ہے جب اُس کے سارے زیور، تزئین اور آرایش و زیبایش کے لوازمات یعنی الفاظ، تشبیہات، استعارات، علامات، محاکات، اشارات، کنایات، صنائع و بدائع، مجاز مرسل وغیرہ تطہیر و تقدیس کی منازل سے گذر کر قرآنی ادب کے نور سے معمور اور احادیث کی خوشبو سے معطر کر دیے جائیں۔
چوں کہ نعت میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے عشق و اُلفت اور عقیدت و محبت کا اظہار و اقرار لازمی امر ہے۔ لہٰذا اسی وجہ سے اردو میں نعت گوئی کی ابتدا سے ہی بیش تر نعتیں غزل کی ہیئت میں لکھی گئیں اور زیادہ تر شعرا نے نعت کو غزلیہ انداز میں قلم بند کیا۔ عموماً لوگ غزل کی ہیئت اور فارم میں لکھی گئی نعت ہی کو نعت تصور کرتے ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے نعت ہر صنف میں نا صرف لکھی جا سکتی ہے بل کہ لکھی جا رہی ہے۔ نعت خوانی کی محفلوں میں پڑھی جانے والی زیادہ تر نعتیں غزل ہی کی ہیئت میں ہوتی ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ غزلیہ انداز میں لکھی گئی نعتوں میں بَلا کی نغمگی اور غنائیت ہوتی ہے اور بہ آسانی ترنم سے پڑھی جا سکتی ہیں۔ جن کے پڑھنے سے محفل میں ایک عجیب سماں بندھ جاتا ہے اور قاری و سامع کو لطف وسرور حاصل ہوتا ہے۔
بعض ناقدین نے نعت کے غزلیہ انداز پر اعتراضات بھی کیے ہیں۔ ہاں !اگر یہ اعتراض اس سبب سے ہے جیسا کہ ریاض الحسن نے لکھا ہے :
’’نعت چوں کہ اُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی ولولہ انگیز ی اور جوشِ محبت کی ترجمان ہوتی ہے اس لیے نعت گو شاعر سروٗرِ محبت کی بے خودی میں منہاجِ اعتدال سے لغزش کھا جاتا ہے۔ ‘‘(1)
تب تو صحیح اور مناسب ہے۔ لیکن یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ نعت میں خواہ وہ کسی بھی صنف یا فارم میں لکھی گئی ہو اس میں کسی بھی طرح کی معمولی سی سوئِ ادبی، غیر شرعی طرزِ اسلوب اور اندازِ بیان یاعشق و عقیدت کی ولولہ انگیزی کے سبب مبالغہ و غلو یا اغراق سے کام لے کر اُلوہیت و رسالت کے درمیان فرق نہ کرتے ہوئے اس کے ڈانڈے ملادینا یہ نعت کی توہین ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کا سراپائے مقدس بھی نہ بیان کیا جائے ! ۔۔ یا شمائلِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم نہ رقم کیے جائیں !۔۔ جیسا کہ مولوی عبد الحق مرقوم ہیں :
’’نعت کا جو طرز ہمارے شعرا نے اختیار کیا ہوا ہے وہ بہت قابلِ اصلاح ہے، ہمارے ہاں شاعری کی بنیاد غزل پر سمجھی گئی ہے جو ایک لحاظ سے کم ترین قسم شعر کی ہے۔ اس لیے لغزش کا رنگ کچھ ایسا جما کہ ہر جگہ اس کی جھلک نظر آتی ہے۔ بھلا نعت میں زُلف و کمر و خال و خط سے کیا تعلق؟‘‘(2)
مولوی عبدالحق کی مذکورہ بالا تحریر میں جہاں بعض باتیں تو درست اور صحیح ہیں وہیں یہ کہتے وقت کہ :
’’بھلا نعت میں زُلف و کمر و خال و خط سے کیا تعلق؟۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
وہ فراموش کر بیٹھے کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے زُلف و رُخ و چشم وغیرہ کی تعریف و توصیف اللہ رب العزت کے مقدس کلام قرآن مجید سے ثابت ہے۔ ہاں ! عامیانہ اندازِ بیان اور دنیاوی محبوبوں کی طرح بے محابا طرزِ اسلوب میں جانِ جہان و جانِ ایمان صلی اللہ علیہ و سلم کو پیش کرنا یقیناً صاف و صریح بے ادبی اور گستاخی ہے۔ اور ایسا پیرایۂ اظہار و بیان دنیا و آخرت اور ایمان و مذہب کی بربادی کا سبب ہے۔
دراصل مولوی عبدالحق نے حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو محض بشری حیثیت ہی میں دیکھا اور سمجھا ہے۔ اسی لیے ایک مقام پر وہ کہتے ہیں:
’’ نعت میں وہی ذکر ہونا چاہیے جو خدا کے نبی کے لیے شایاں ہے اور جس کے پڑھنے اور سنانے سے لوگوں پر روحانی اور اخلاقی اثر پڑے اور معلوم ہو کہ کمالِ بشریت اسے کہتے ہیں نہ یہ کہ تمام نعتیہ قصائد سننے کے بعد دل پر یہ اثر ہو کہ کسی شاہدِ رعنا، خوش رُو، خوش اندام، نازک بدن، کی تعریف ہے۔ ‘‘(3)
یہاں مولوی عبدالحق وغیرہ کی تحریروں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے عرض یہ ہے کہ حضور ختمیِ مرتبت صلی اللہ علیہ و سلم کے زُلف و رُخ اور سراپائے اقدس کے بیان میں ایسے استعارات اور تشبیہات کو برتا جائے جس سے ذرّہ بھر بھی بے ادبی، تنقیص اور گستاخی کا پہلو نہ نکلے کہ یہ بارگاہ انتہائی ادب و احترام کی متقاضی ہے۔
غزل کے فارم میں تمنّاؔ مرادآبادی، لطفؔ بریلوی، امیرؔ مینائی، محسنؔ کاکوروی، ا حمد رضاؔ بریلوی، حسنؔ رضا بریلوی، جمیلؔ بریلوی، اور نوریؔ بریلوی نے خوب نعتیں کہی ہیں۔ عصرِ جدید کے بیش تر شعرا بھی غزل ہی کی ہیئت میں نعتیں قلم بند کر رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جو شعرا محض زبان دانی یا شعری مہارت کی بنیاد پر علومِ دینیہ اور شریعتِ مطہرہ کے رموز و اسرار سے کلی واقفیت کے بغیر کسی بھی ہیئت یا صنفِ ادب میں نعت لکھ رہے ہیں ان کے ہاں اس بات کا احتمال ہے کہ ان کے کلام میں لغزش و خطا واقع ہوسکتی ہے اور جو کچھ بھی سوئے ادبی یا تنقیص و گستاخی سے پُر نعتیہ اشعار ملتے ہیں وہ ایسے ہی شعرا کے ہیں۔ اس بنیاد پر براہِ راست نعتیہ شاعری کو ہی مشقِ تنقید بنانا تنقید کے اصولوں کے منافی ہے۔
تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی ایک ایسے نعت گو شاعر گذرے ہیں۔ جن کا شعر شعر قرآن و حدیث کے نور و نکہت سے معطر ہے۔ آپ کا مکمل کلام حزم و احتیاط سے لبریز ہے کہیں بھی لمحہ بھر کے لیے بھی زمامِ احتیاط ہاتھ سے نہیں چھوٹی ہے۔ آپ نے جس احسن اسلوبِ بیان سے حضور احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے زُلف و رُخ کا ذکر اپنے کلام میں کیا ہے وہ دیدنی و شنیدنی ہے ؎
کس لیے عنبرِ سارا نہ ہوں سارے گیسو
گیسو کس کے ہیں یہ پیارے ہیں تمہارے گیسو
سوکھ جائے نہ کہیں کشتِ امل اے سرور
بوندیاں لکّۂ رحمت سے اُتارے گیسو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم ہو آبِ عینِ رحمت، تم ہو تابِ ماہِ نُدرت
اے چمکیلی رنگت والے، صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
چہرہ مطلعِ نورِ الٰہی، سینہ مخزنِ رازِ خدائی
شرحِ صدرِ صدارت والے، صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
علاوہ ازیں نوریؔ بریلوی نے اپنے نعتیہ کلام میں جابہ جا شاہ کارِ قدرت، مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کے سراپا کا بیان کیا ہے۔ آپ کے گیسوے عنبریں، عارضِ تاباں، رُخِ حسیٖن، چشمِ ما زاغ و ما بصر، لبِ جاں بخش وغیرہ کی تعریف و توصیف بیان کی ہے۔ کہیں سے بھی کوئی ایسا اندازِ بیان اور طرزِ اظہار نہیں ملے گا جسے دنیاوی محبوب کے زُلف و رُخ وغیرہ کے رُوپ میں پیش کیا جا سکے۔ نوریؔ بریلوی نے قصیدہ، غزل، رُباعی، مستزاد، قطعہ وغیرہ اصنافِ ادب میں نعتیں لکھیں اور خوب لکھیں۔ لیکن اُن کی زیادہ تر نعتیں غزل ہی کے فارم میں ہیں۔ ان کا ہر ہر شعر عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا آئینہ دار ہے۔ اظہارِ عشق و محبت اور والہانہ شیفتگی و فدائیت کے باوجود نوریؔ بریلوی کے کلام میں کسی بھی طرح کی اخلاقی و شرعی خامی کا گمان تک نہیں گزرتا۔ انھوں نے نعت کو غزل کا جو رُوپ دیا ہے اس نے ان کے کلام کو قرآنی ادب کا مظہرِ جمیل بنا دیا ہے۔ نمونۂ کلام نشانِ خاطر فرمائیں ؎
بختِ خفتہ نے مجھے روضہ پہ جانے نہ دیا
چشم و دل سینے کلیجے سے لگانے نہ دیا
آہ قسمت مجھے دنیا کے غموں نے روکا
ہائے تقدیر کہ طیبہ مجھے جانے نہ دیا
سر تو سر جان سے جانے کی مجھے حسرت ہے
موت نے ہائے مجھے جان سے جانے نہ دیا
حالِ دل کھول کے دل آہ ادا کر نہ سکا
اتنا موقع ہی مجھے میری قضا نے نہ دیا
ہائے اس دل کی لگی کو میں بجھاؤں کیوں کر
فرطِ غم نے مجھے آنسو بھی گرانے نہ دیا
شربتِ دید نے اور آگ لگا دی دل میں
تپشِ دل کو بڑھایا ہے بجھانے نہ دیا
اور چمکتی سی غزل کو ئی پڑھو اے نوریؔ
رنگ اپنا ابھی جمنے شُعَرا نے نہ دیا
کلامِ نوریؔ بریلوی کے مطالعہ کی روشنی میں یہ کہنا غیرمناسب نہ ہو گا کہ آپ غزل اور نعت کو یک جا کرنے کا فن بہ خوبی جانتے تھے اور یہی سبب ہے کہ اُن کی نعتیہ غزلیں پاسِ شرع اور حسنِ شعری کا حسین و جمیل امتزاج ہیں اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک ایسا تقدیسی اور سرمدی نغمۂ جاں فزا بن گئی ہیں کہ جنھیں سُن کر انسانی وجود کا ذرّہ ذرّہ سحابِ سرمدی کی سرشاریوں اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کی تعظیم و توقیر کے جذبۂ خیر کی لذتوں میں گم ہو جاتا ہے ؎
تو شمعِ رسالت ہے عالم ترا پروانہ
تو ماہِ نبوت ہے اے جلوۂ جانانہ
سرشار مجھے کر دے اک جامِ لبالب سے
تا حشر رہے ساقی آباد یہ مَے خانہ
جو ساقیِ کوثر کے چہرے سے نقاب اُٹھے
ہر دل بنے مَے خانہ ہر آنکھ ہو پیمانہ
دل اپنا چمک اُٹھے ایمان کی طلعت سے
کر آنکھ بھی نورانی اے جلوۂ جانانہ
مستِ مَے الفت ہے مدہوشِ محبت ہے
فرزانہ ہے فرزانہ دیوانہ ہے دیوانہ
میں شاہ نشیں ٹوٹے دل کو نہ کہوں کیسے
ہے ٹوٹا ہوا دل ہی مولا ترا کاشانہ
کیوں زُلفِ معنبر سے کوچے نہ مہک اُٹھیں
ہے پنجۂ قدرت جب زُلفوں کا تری شانہ
وہ کہتے نہ کہتے کچھ وہ کرتے نہ کرتے کچھ
اے کاش وہ سُن لیتے مجھ سے مرا افسانہ
آنکھوں میں مری تو آ اور دل میں مرے بس جا
دل شاد مرا فرما اے جلوۂ جانانہ
آباد اسے فرما ویراں ہے دلِ نوریؔ
جلوے ترے بس جائیں اے جلوۂ جانانہ
کلامِ نوریؔ میں صدیقی عشق، فاروقی محبت، عثمانی وفا کاری، علوی جاں نثاری، بلالی فدائیت، اویسی شیفتگی، صُہیبی خود رفتگی اور حسّانی سوز و گداز کی روشنی اور خوشبوئیں پھوٹتی نظر آتی ہیں۔ یہاں تک کہ روح القدس کی محبتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کا جلوۂ خوش رنگ بھی دکھائی دیتا ہے۔ بل کہ حق یہ ہے کہ کلامِ نوریؔ حضرت رسالت پناہی صلی اللہ علیہ و سلم سے حضرت الٰہی جل شانہ‘ کی محبت و الُفت کا غماز ہے ؎
خدا شاہد رضا کا آپ کی طالب خدا ہو گا
تعالیٰ اللہ رُتبہ میرے حامی میرے یاور کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سارا عالم ہے رضا جوے خداوندِ جہاں
اور خدا آپ کا جویائے رضا ہوتا ہے
سارا عالم خداوندِ قدوس کی رضا کا طالب ہے لیکن رب العزت جل شانہٗ اپنے محبوبِ ذی شان صلی اللہ علیہ و سلم کی خوشی چاہتا ہے، وہ محبوب بھی ایسے محبوب ہیں کہ ان ہی کی تخلیق سے کائنات وجود میں آئی بل کہ خود اللہ رب العزت نے اپنے آپ کو ظاہر کیا گویا آپ کی ذات عرفانِ خداوندی کا وسیلۂ عظمیٰ ہے، آپ نہ تو خدا ہیں اور نہ ہی خدا سے جُدا بل کہ خداوند کائنات کے حبیبِ اعظم ہیں۔ نوریؔ بریلوی جیسے عاشق کا اندازِ عاشقانہ ملاحظہ ہو، نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے مقام و مرتبہ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ؎
خدا ہے تو نہ خدا سے جدا ہے اے مولا
ترے ظہور سے رب کا ظہور آنکھوں میں
وجودِ شمس کی برہاں ہے خود وجود اس کا
نہ مانے کوئی اگر، ہے فتور آنکھوں میں
حضرت نوریؔ بریلوی نے نعت گوئی کے میدان کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مؤدبانہ اظہارِ عشق کے لیے اپنایا، لیکن اس اظہاریہ میں ان کے یہاں محتاط وارفتگی کے جلوے بکھرے نظر آتے ہیں، اُن کا عشق عقیدۂ توحید و رسالت کے درمیان حدِ فاصل کو قائم رکھتا ہوا یوں ثبتِ قرطاس ہوتا ہے کہ ؎
ترا ذکر لب پر خدا دل کے اندر
یوں ہی زندگانی گذارا کروں میں
خدا ایک پر ہو تو اک پر محمد
اگر قلب اپنا دوپارا کروں میں
نوریؔ بریلوی نے غزل کو نعت میں ضم کر کے غزل کا جو حسیٖن و جمیل اور تقدیسی انداز پیش کیا ہے وہ انھیں کا حصہ ہے۔ ان کے مجموعۂ کلام ’’سامانِ بخشش‘‘ میں پچاسوں ایسے اشعار مل جائیں گے کہ اگر اُن کے بارے میں یہ نہ بتایا جائے کہ وہ نعتیہ اشعار ہیں تو قاری انھیں میرؔ و غالبؔ اور مومنؔ و حسرتؔ جیسے غزل گو شعرا کے اشعار تصور کرے گا۔
نوریؔ بریلوی نے غزلیہ انداز میں اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف و توصیف میں فدائیت و شیفتگی کا جو والہانہ اظہار کیا ہے وہ قابلِ دید ہے۔ آپ نے طرزِ ادا کے بانکپن اور خیال کی نُدرت و جدّت کے توسط سے عشقیہ اظہار کیا ہے۔ محبوب علیہ السلام کے نام، ذکر، یاد، ذات اور در و دیار سے عشق اُلفت اور والہانہ وابستگی، فراقِ حبیب میں خیال کی رنگینیاں اور محبوب علیہ السلام سے وصال کی تمنّائیں اور محبوب علیہ السلام کے زُلف و گیسو وغیرہ کا ذکر آپ نے عشقیہ اور غزلیہ انداز میں پیش کیا ہے۔ نوریؔ بریلوی نے غزل کی رنگینیِ بیان اور نعت کے تقدس دونوں ہی کو ہم آہنگ کر کے جس سلامت روی اور حزم و احتیاط سے نعتیہ غزلیں کہی ہیں اُس سے آپ کے مسلم الثبوت اور قادر الکلام نعت گو شاعر ہونے کا بیّن ثبوت ملتا ہے۔ ذیل میں آپ کے غزلیہ رنگ و آہنگ سے مملو نمونۂ کلام نشانِ خاطر ہوں ؎
چارہ گر ہے دل تو گھایل عشق کی تلوار کا
کیا کروں میں لے کے پھاہا مرہمِ زنگار کا
روکشِ خلدِ بریں ہے دیکھ کوچہ یار کا
حیف بلبل اب اگر تو نام لے گل زار کا
حُسن کی بے پردگی پردہ ہے آنکھوں کے لیے
خود تجلی آپ ہی پردہ ہے روئے یار کا
حُسن تو بے پردہ ہے پردہ ہے آنکھوں کے لیے
دل کی آنکھوں سے نہیں ہے پردہ روئے یار کا
اک جھلک کا دیکھنا آنکھوں سے گو ممکن نہیں
پھر بھی عالم دل سے طالب ہے ترے دیدار کا
کوثر و تسنیم سے دل کی لگی بجھ جائے گی
میں تو پیاسا ہوں کسی کے شربتِ دیدار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لب تشنہ ہے گو ساقی تشنہ تری رویت کا
رویت جو نہ ہو تیری تو جام کا کیا کرنا
ہوں تشنہ مگر دیدار کے شربت کا
اک جام مجھے پیارے للہ! عطا کرنا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ گلستاں ہے جہاں آپ ہوں اے جانِ جناں
آپ صحرا میں اگر آئیں گلستاں ہو گا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آہ پورا میرے دل کا کبھی ارماں ہو گا
کبھی دل جلوہ گہِ سرورِ خوباں ہو گا
دیکھ مت دیکھ مجھے گرم نظر سے خاور
شوخیِ چشم سے تو آپ پریشاں ہو گا
جلوۂ حُسنِ جہاں تاب کا کیا حال کہوں
آئینہ بھی تو تمہیں دیکھ کے حیراں ہو گا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ان کو دیکھا تو گیا بھول میں غم کی صورت
یاد بھی اب تو نہیں رنج و الم کی صورت
نامِ والا ترا اے کاش مثالِ مجنوں
ریگ پر اُنگلیوں سے لکّھوں قلم کی صورت
خواب میں بھی نہ نظر آئے اگر تم چاہو
درد و غم رنج و الم ظلم و ستم کی صورت
جائیں گلشن سے تو لُٹ جائے بہارِ گلشن
دشت میں آئیں تو ہو دشت ارم کی صورت
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
آبِ بحرِ عشقِ جاناں سینہ میں ہے موج زن
کون کہتا ہے ہمیں آبِ بقا ملتا نہیں
آبِ تیغِ عشق پی کر زندۂ جاوید ہو
غم نہ کر جو چشمۂ آبِ بقا ملتا نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم اپنی حسرتِ دل کو مٹانے آئے ہیں
ہم اپنی دل کی لگی کو بجھانے آئے ہیں
دلِ حزیں کو تسلّی دلانے آئے ہیں
غمِ فراق کو دل سے مٹانے آئے ہیں
کریم ہیں وہ نگاہِ کرم سے دیکھیں گے
ہے داغ، داغِ دل اپنا دکھانے آئے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہٹا دیں آپ اگر رُخ سے اک ذرا پردہ
چمک نہ جائے ابھی برقِ طور آنکھوں میں
امنڈ کے آہ نہیں آئے اشک ہائے خوں
یہ آرہا ہے دلِ ناصبور آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کچھ ایسا کر دے مرے کردگار آنکھوں میں
ہمیشہ نقش رہے روئے یار آنکھوں میں
بسا ہوا ہے کوئی گل عذار آنکھوں میں
کھلا ہے چار طرف لالہ زار آنکھوں میں
ہوا ہے جلوہ نما گل عذار آنکھوں میں
خزاں کے دَور میں پھولی بہار آنکھوں میں
وہ نور دے مرے پروردگار آنکھوں میں
کہ جلوہ گر رہے رُخ کی بہار آنکھوں میں
نظر نہ آیا قرارِ دلِ حزیں اب تک
نگاہ رہتی ہے یوں بے قرار آنکھوں میں
کرم یہ مجھ پہ کیا ہے مرے تصور نے
کہ آج کھینچ دی تصویر یار آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میرا گھر غیرتِ خورشید درخشاں ہو گا
خیر سے جانِ قمر جب کبھی میہماں ہو گا
اک تبسم سے عیاں جو دُرِ دنداں ہو گا
ذرّہ ذرّہ مرے گھر کا مہ تاباں ہو گا
دم نکل جائے تمہیں دیکھ کے آسانی سے
کچھ بھی دشوار نہ ہو گا جو یہ آساں ہو گا
صبحِ روشن کی سیہ بختی سے اب شام ہوئی
کب قمر نوردہِ شامِ غریباں ہو گا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کس لیے عنبرِ سارا نہ ہوں سارے گیسو
گیسو کس کے ہیں یہ پیارے ہیں تمہارے گیسو
پھوار مستوں پہ ترے ابرِ کرم کی برسے
ساقیا! کھول ذرا حوض کنارے گیسو
بادہ و ساقی لبِ جو تو ہیں پھر ابر بھی ہو
ساقی کھل جائیں ترے حوض کنارے گیسو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کبھی تو ایسا ہو یارب وہ در ہو اور یہ سر
کبھی تو اُن کی گلی میں مرا گذر ہو جائے
تڑپ رہے ہیں فراقِ حبیب میں عاشق
الٰہی راہ مدینہ کی بے خطر ہو جائے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہیں یہ صدمے تری ہی فرقت کے
روز افزوں یہ دردِ جدائی ہے
مر رہا ہوں تم آ جاؤ جی اُٹھوں
شربتِ دید میری دوائی ہے
شوقِ دیدارِ نوری میں اے نوریؔ
روح کھنچ کراب آنکھوں میں آئی ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم کو دیکھا تو دم میں دم آیا
آپ آئے کہ جان آئی ہے
مر رہا تھا تم آئے جی اُٹّھا
موت کیا آئی جان آئی ہے
حسرتِ دیدِ یار میں ہم نے
آج مرمر کے موت پائی ہے
جو حسیٖں دیکھا مر مٹا اس پر
میں نے مر کے حیات پائی ہے
واہ کیا بات آپ کی نوریؔ
کیا ہی اچھی غزل سُنائی ہے
پیشِ نظر ضمنی باب کے تحت کلامِ نوریؔ بریلوی میں تغزُّل کے رنگ و آہنگ کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ متذکرۂ بالا مثالوں کے علاوہ اس طرح کے بہت سے اشعار آپ کے کلام میں موجود ہیں۔ نوریؔ بریلوی نے غزلیہ لب و لہجے میں نعت کے اندر حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ و سلم کے زُلف و رُخ اور سراپائے مقدس وغیرہ کا جو بیان کیا ہے وہ اپنے اندر ادب و احترام کا جذبہ لیے ہوئے ہے۔ کہیں بھی کسی قسم کی سوئِ ادبی اور تنقیصی انداز ظاہر نہیں ہوتا۔ آپ کے کلام میں غزلیہ اسلوب میں روایتی غزل کی جلوہ سامانیوں کے با وصف آج کی غزل کے جدید لب و لہجہ، علامات اور محاکات وغیرہ کے نمونے بھی ملتے ہیں۔ اور صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو یہی ایک شاعر کی عظمت و رفعت کا بیّن ثبوت ہے کہ وہ اپنے عہد سے بہت آگے دیکھتا ہے۔
(1) رسالہ حنفی : اعلیٰ حضرت نمبر، شمارہ اپریل 1973ء، لائل پور، پاکستان، ص 24
(2) عبدالحق، مولوی :چند ہم عصر، انجمن ترقی اردو، دہلی، ص 4
(3) عبدالحق، مولوی :چند ہم عصر، انجمن ترقی اردو، دہلی، ص 3
٭٭٭
حضرت نوریؔ بریلوی کے مجموعۂ کلام ’’سامانِ بخشش‘‘ کے بیش تر کلام آسان زمینوں اور سادہ بحروں میں ہیں۔ یوں کہا جا سکتا کہ کلامِ نوری میں زیادہ تر کلام سہل کاری ہی کے نمونے ہیں۔ یہاں یہ بات یا د رہ کہ اس سے نوریؔ بریلوی کی شاعرانہ کم زوری کا پہلو نہیں نکلتا۔ بل کہ جب نوریؔ بریلوی کے کلام کا تنقیدی نقطۂ نظر سے مطالعہ کیا جاتا ہے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ زمینیں آسان اور بحریں سادہ ہیں لیکن شعری و فنّی محاسن اور لوازماتِ شعری نوریؔ بریلوی کے اشعار میں جلوہ گر ہیں۔ صنائع معنوی اور صنائع لفظی کا جا بہ جا استعمال ہے۔ روزمرہ محاورات کی بندش اور ان کا برمحل استعمال، خیال آفرینی، جدّتِ ادا، طرزِ بیان کا بانکپن، رعایاتِ لفظی، تراکیب سازی، محاکات اور شاعرانہ پیکر تراشی، معانی و مفہوم کا عمل، عربی کی آمیزش، فارسیت کا رچاو نیز دیگر فنّی خوبیاں اور شعری محاسن سامانِ بخشش کے ورق ورق میں مسطور ہیں۔
نوریؔ بریلوی کے کلام میں چند مشکل ردیفوں اور زمینوں میں بھی مکمل نعتیہ غزلیں ملتی ہیں۔ یہ آپ کی مشکل پسندی پر دال ہیں۔ ردیفوں کی سختی کی وجہ سے شعر کی زمین انتہائی سخت اور سنگلاخ ہو کر رہ گئی ہیں۔ یہ مشکل پسندی نوریؔ بریلوی کے ہاں اپنے پیش رو بزرگ شعرا کی زمینوں میں طبع آزمائی کرنے اور اُن کی بحروں کے تتبع کرنے میں ہوا ہے۔ مگر ان سنگلاخ اور مشکل زمینوں میں بھی نوریؔ بریلوی کا قلم اپنے مزاج اور اپنے خیال کے اشعار بڑی کام یابی اور چابک دستی سے نکال لیتا ہے یہ بھی آپ کے بہترین اور قادر الکلام شاعر ہونے کی بیّن دلیل ہے :
ردیف: مہرِ عجم ماہِ عرب
ماہِ تاباں تو ہوا مہرِ عجم ماہِ عرب
ہیں ستارے انبیا مہرِ عجم ماہِ عرب
ہیں صفاتِ حق کے نوری آئینے سارے نبی
ذاتِ حق کا آئینا مہرِ عجم ماہِ عرب
کب ستارا کوئی چمکا سامنے خورشید کے
ہو نبی کیسے نیا مہرِ عجم ماہِ عرب
آپ ہی کے نور سے تابندہ ہیں شمس و قمر
دل چمک جائے مرا مہرِ عجم ماہِ عرب
قبر کا ہر ذرّہ اک خورشیدِ تاباں ہو ابھی
رُخ سے پردہ دو ہٹا مہرِ عجم ماہِ عرب
کوچۂ پُرنور کا ہر ذرّہ رشکِ مہر ہے
واہ کیا کہنا ترا مہرِ عجم ماہِ عرب
رُو سیہ ہوں منہ اُجالا کر مرا جانِ قمر
صبح کر یا چاندنا مہرِ عجم ماہِ عرب
نیّرِ چرخِ رسالت جس گھڑی طالع ہوا
اوج پر تھا غلغلہ مہرِ عجم ماہِ عرب
حق کے پیارے نور کی آنکھوں کے تارے ہو تمھیں
نورِ چشمِ انبیا مہرِ عجم ماہِ عرب
ظلمتیں سب مٹ گئیں ناری سے نوری ہو گیا
جس کے دل میں بس گیا مہرِ عجم ماہِ عرب
نور کی سرکار ہے تو بھیک بھی نوری ملے
قلبِ نوریؔ جگمگا مہرِ عجم ماہِ عرب
ردیف : ماہِ عجم مہرِ عرب
ہے تم سے عالم پُر ضیا ماہِ عجم مہرِ عرب
دے دو میرے دل کو جِلا ماہِ عجم مہرِ عرب
کب ہوتے یہ شام و سحر کب ہوتے یہ شمس و قمر
جلوہ نہ ہوتا گر ترا ماہِ عجم مہرِ عرب
شام و سحر کے قلب میں شمس و قمر کی آنکھ میں
جلوہ ہے جلوہ آپ کا ماہِ عجم مہرِ عرب
ہے روسیہ مجھ کو کیاآقا مرے اعمال نے
کردو اجالا منہ میرا ماہِ عجم مہرِ عرب
خورشید کے سر آپ کے در کی گدائی سے رہا
سہرا شہا انوار کا ماہِ عجم مہرِ عرب
کاسہ لیسی سے ترے دربار کی مہتاب بھی
کیسا منور ہو گیا ماہِ عجم مہرِ عرب
اس جبہہ سائی کے سبب شب کو اسی سرکار نے
انعام میں ٹیکا دیا ماہِ عجم مہرِ عرب
اور صبح کو سرکار سے اس کو ملا نوری صلہ
عمدہ سا جھومر پُر ضیا ماہِ عجم مہرِ عرب
جب تم نہ تھے کچھ بھی نہ تھا جب تم ہوئے سب کچھ ہوا
ہے سب میں جلوہ آپ کا ماہِ عجم مہرِ عرب
برتو شود از نورِ رب بارانِ نوری روز و شب
ہو تا ابد یہ سلسلہ ماہِ عجم مہرِ عرب
ہو مرشدوں پر نورِ جاں بارش تمہارے نور کی
اور ان سے پائے یہ گدا ماہِ عجم مہرِ عرب
بے شک ہے عاصی کے لیے ناری صلہ لیکن شہا
نوریؔ کو دو نوری جزا ماہِ عجم مہرِعرب
ردیف : غم، الم، قلم، قدم کی صورت
ان کو دیکھا تو گیا بھول میں غم کی صورت
یاد بھی اب تو نہیں رنج و الم کی صورت
خواب میں دیکھوں اگر دافعِ غم کی صورت
پھر نہ واقع ہو کبھی رنج و الم کی صورت
آبلے پاؤں میں پڑ جائیں جو چلتے چلتے
راہِ طیبہ میں چلوں سر سے قدم کی صورت
نامِ والا ترا اے کاش مثالِ مجنوں
ریگ پر انگلیوں سے لکھوں قلم کی صورت
آپ ہیں شانِ کرم کانِ کرم جانِ کرم
آپ ہیں فضلِ اتم لطفِ اعم کی صورت
موم ہے ان کے قدم کے لیے دل پتھر کا
سنگ نے دل میں رکھی ان کے قدم کی صورت
جب سے سوکھے ہیں مرے کشتِ امل باغِ عمل
یاد آتی ہے مجھے ابر کرم کی صورت
صفحۂ دل پہ مرے نامِ نبی کندہ ہو
نقش ہو دل پہ مرے اُن کے عَلَم کی صورت
آئیں جو خواب میں وہ ہو شبِ غم عید کا دن
جائیں تو عید کا دن ہو شبِ غم کی صورت
جائیں گلشن سے تو لُٹ جائے بہارِ گلشن
دشت میں آئیں تو ہو دشت ارم کی صورت
کوہ ہو جائیں اگر چاہو تو سونا چاندی
سنگ ریزے بنیں دینار و درہم کی صورت
دم نکل جائے مرا راہ میں اُن کی نوریؔ
ان کے کوچہ میں رہوں نقشِ قدم کی صورت
ردیف: حضور، نور، طور آنکھوں میں
جو خواب میں کبھی آئیں حضور آنکھوں میں
سرور دل میں ہو پیدا تو نور آنکھوں میں
ہٹا دیں آپ اگر رخ سے اک ذرا پردہ
چمک نہ جائے ابھی برقِ طور آنکھوں میں
نظر کو حسرتِ پابوس ہے مرے سرور
کرم حضور کریں پُر ضرور آنکھوں میں
کھلے ہیں دیدۂ عشاق قبر میں یوں ہی
ہے انتظار کسی کا ضرور آنکھوں میں
وجودِ شمس کی بُرہاں ہے خود وجود اس کا
نہ مانے کوئی اگر، ہے قصور آنکھوں میں
خدا ہے تو نہ خدا سے جدا ہے اے مولا
ترے ظہور سے رب کا ظہور آنکھوں میں
خدا سے تم کو جدا دیکھتے ہیں جو ظالم
ہے زیغ قلب میں ان کے فتور آنکھوں میں
نہ ایک دل کہ مہ و مہر، انجم و نرگس
ہے سب کی آرزو رکھیں حضور آنکھوں میں
حضور آنکھوں میں آئیں حضور دل میں سمائیں
حضور دل میں سمائیں حضور آنکھوں میں
نظر نظیر نہ آیا نظر کو کوئی کہیں
جچے نہ غلماں نظر میں نہ حور آنکھوں میں
ہماری جان سے زیادہ قریب ہو ہم سے
تمہیں قریب جو ہم کو ہے دور آنکھوں میں
مَے محبتِ محبوب سے یہ ہیں سر سبز
بھری ہوئی ہے شرابِ طہور آنکھوں میں
ہوا ہے خاتمہ ایمان پر ترا نوریؔ
جبھی ہیں خلد کے حور و قصور آنکھوں میں
ردیف:کردگار، یار، خار آنکھوں میں
کچھ ایسا کر دے مرے کردگار آنکھوں میں
ہمیشہ نقش رہے روئے یار آنکھوں میں
بساہوا ہے کوئی گل عذار آنکھوں میں
کھلا ہے چار طرف لالہ زار آنکھوں میں
وہ نور دے مرے پروردگار آنکھوں میں
کہ جلوہ گر رہے رخ کی بہار آنکھوں میں
بصر کے ساتھ بصیرت بھی خوب روشن ہو
لگاؤں خاک قدم بار بار آنکھوں میں
انہیں نہ دیکھا تو کس کام کی ہے یہ آنکھیں
کہ دیکھنے کی ہے ساری بہار آنکھوں میں
نظر میں کیسے سمائیں گے پھول جنت کے
کہ بس چکے ہیں مدینے کے خار آنکھوں میں
مدینہ جان چمن اور خزاں سے ایمن ہے
لگائے خاک وہاں کی ہزار آنکھوں میں
خزاں کا دَور ہوا دُور وہ جہاں آئے
ہوئی ہے قدموں سے ان کے بہار آنکھوں میں
وہ سبز سبز نظر آ رہا ہے گنبد سبز
قرار آ گیا یوں بے قرار آنکھوں میں
کرم یہ مجھ پہ کیا ہے مرے تصور نے
کہ آج کھینچ دی تصویر یار آنکھوں میں
فرشتو! پوچھتے ہو مجھ سے کس کی امت ہو
لو دیکھ لو یہ ہے تصویر یار آنکھوں میں
یہ کیا سوال ہے مجھ سے کہ کس کا بندہ ہے
میں جس کا بندہ ہوں ہے نور بار آنکھوں میں
پیا ہے جامِ محبت جو آپ نے نوریؔ
ہمیشہ اس کا رہے گا خمار آنکھوں میں
ردیف: گیسُو
کیا کہوں کیسے ہیں پیارے ترے پیارے گیسو
دونوں عارض ہیں ضحی لیل کے پارے گیسو
دستِ قدرت نے ترے آپ سنوارے گیسو
حور سو ناز سے کیوں ان پہ نہ وارے گیسو
خاکِ طیبہ سے اگر کوئی نکھارے گیسو
سنبلِ خلد تو کیا حور بھی ہارے گیسو
کس لیے عنبرِ سارا نہ ہوں سارے گیسو
گیسو کس کے ہیں یہ پیارے ہیں تمہارے گیسو
یہ گھٹا جھوم کے کعبہ کی فضا پر آئی
اُڑ کے یا ابرو پہ چھائے ہیں تمہارے گیسو
نیّرِ حشر ہے سر پر نہیں سایہ سرور
ہے کڑی دھوپ کریں سایہ تمہارے گیسو
سوکھ جائے نہ کہیں کشتِ امل اے سرور
بوندیاں لکّۂ رحمت سے اُتارے گیسو
اپنی زُلفوں سے اگر نعلِ مبارک پونچھے
رضواں برکت کے لیے حور کے دھارے گیسو
پیشِ مولائے رضا جو ہیں جھکے سجدے میں
کرتے ہیں بخششِ اُمت کے اشارے گیسو
پھوار مستوں پہ ترے ابرِ کرم کی برسے
ساقیا کھول ذرا حوض کنارے گیسو
عنبرستاں بنے محشر کا وہ سارا میداں
کھول دے ساقی اگر حوض کنارے گیسو
بادہ و ساقی لبِ جُو تو ہیں پھر ابر بھی ہو
ساقی کھل جائیں ترے حوض کنارے گیسو
یہ سرِ طور سے گرتے ہیں شرارے نوریؔ
روئے پُر نور پہ یا وارے ہیں تارے گیسو
٭٭٭
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی اپنے عہد کے ممتا زعالمِ دین، فقیہ، مفسر، محدث، خطیب، مفکر، دانش ور، ادیب، شاعر اور گوناگوں خصوصیات کے مالک تھے۔ آپ کی حیات اور کارہائے نمایاں کے مطالعہ کے بعد یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ آپ اپنے وقت کے عظیم مصلح بھی تھے۔ آپ کے دل میں اُمتِ مسلمہ کی اصلاح و تذکیر کا جذبۂ صادق موج زن تھا، آپ کی حیات کا لمحہ لمحہ ملّتِ اسلامیہ کی اصلاح میں گذرا، آپ نے تحریراً و تقریراً غرض یہ کہ ہر ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے اصلاحِ معاشرہ اور رُشد و ہدایت کا وہ عظیم کارنامہ انجام دیا جو اپنی مثال آپ ہے۔ آپ نے بدعات و خرافات کا قلع قمع فرمایا۔ افعالِ شنیعہ اور معاشرے میں در آئی نت نئی برائیوں اور خرابیوں کو دور کرنے کی شب و روز سعیِ بلیغ فرمائی۔ آپ کی جملہ تصنیف و تالیف اور فتووں کا مطالعہ کرنے سے اس بات کا اندازہ بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔
نوریؔ بریلوی نے گمراہ انسانوں کو صراطِ مستقیم پر گام زن کرنے، جُرم و معصیت کے چاہِ عمیق میں غوطہ زن افراد کو نیکیوں اور اچھائیوں کی جوے خوش آب کی شناوری کا جو درسِ حسیٖن دیا ہے اسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
نوریؔ بریلوی کے دل میں اصلاحِ اُمّت کی جو سچی تڑپ اور لگن پنہاں تھی اس کی کارفرمائی آپ کی نثر و نظم میں نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ کا کلام ہر قسم کی بے راہ روی، بے جا خیال آرائی اور افراط و تفریط سے یک سر پا ک و صاف ہے۔ عشقِ خدا و رسول جل و علا و صلی اللہ علیہ و سلم ، انقلابِ اُمّت، اصلاحِ معاشرہ اور غفلت کی نیند میں سوئے ہوئے مسلمانوں کو بیدار کرنا یہ سب نوریؔ بریلوی کے کلام کے خصوصی عناصر ہیں۔
آج ہر جگہ دولت و ثروت، جاہ و منصب، زمین و جائداد اور صنفِ نازک کے طلب گاروں کی زیادتی ہو گئی ہے۔ زن، زمین، زور اور زر کے گاہک جگہ جگہ نظر آتے ہیں مگر دل سے ذکرِ خدا کا طالب کوئی مردِ با خدا نہیں ملتا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے وقت کے عظیم مصلح ہونے کی حیثیت سے نوریؔ بریلوی اصلاحی انداز میں چار ’’زا‘‘ یعنی’’ زن، زمین، زور اور زر‘‘ کے طلب گاروں کو کہتے ہیں کہ یہ نہ سمجھییکہ یہ سیکڑہ بے اکائی یعنی صرف ایک ’’ذال‘‘ (ذکرِ الٰہی ) کے بدلے نہیں ملتا۔ شہ پارے ملاحظہ ہوں ؎
زن، زمین و زور اور زر کے ہیں گاہک کہیں
دل سے جو ہو طالبِ ذکرِ خدا ملتا نہیں
چار زا اک ذال کے بدلے میں لیں چوکس رہے
یہ نہ سمجھے بے اکائی سیکڑہ ملتا نہیں
واضح ہو کہ زن، زمین، زر اور زور یہ و ہ اشیا ہیں جو انسان کو نقصان اور خسارے کے علاوہ کچھ اور نہیں دے سکتیں۔ جب کہ اس کے برعکس ذکرِ الٰہی و ہ دولتِ لازوال ہے جو انسان کو دنیوی اور اُخروی نجات سے سرفراز کرتی ہے۔
نوریؔ بریلوی کے عہد میں بھی ہر دور کی طرح طریقت کے نام پر پیری مریدی کا جال پھیلانے والے شریعتِ مطہرہ کے رموز و اسرار سے بے خبر، بے شرع اور جاہل پیروں، فقیروں کا جگہ جگہ جمگھٹا تھا۔ جو بستی بستی سادہ لوح مسلمانوں کے ایمان و اسلام کو برباد کرتے پھر رہے تھے۔ ظاہری وجاہت اور پُر تصنع بناوٹ سے بے علم مسلمان ایسے رہِ نما صورت رہِ زنوں کے دامِ تزویر کا شکار ہو رہے تھے۔ ایسے پُر آشوب ماحول میں نوریؔ بریلوی نے مسلمانوں کی اصلاح و تذکیر کا عظیم فریضہ انجام دیا، شریعت و طریقت کے رموز و اسرار سمجھائے اور بتا یا کہ بغیر شریعت کے طریقت مکمل نہیں ہوسکتی اور وہی شیخ سچا ہے جس کا ظاہر ہی نہیں بل کہ باطن بھی صاف ستھرا ہو اور وہ شریعتِ مطہرہ کا تابع و فرماں بردار ہو۔ آپ اُمّتِ مسلمہ کو اپنے اشعار کے ذریعہ یوں باخبر کرتے ہیں ؎
رہِ نماؤں کی سی صورت راہ ماری کام ہے
راہ زن ہیں کو بہ کو اور راہ نما ملتا نہیں
اہلے گہلے ہیں مشائخ آج کل ہر ہر گلی
بے ہمہ و باہمہ مردِ خدا ملتا نہیں
ہیں صفائے ظاہری کے ساز و ساماں خوب خوب
جس کا باطن صاف ہو وہ با صفا ملتا نہیں
بر زباں تسبیح و در دل گاو خر کا دَور ہے
ایسے ملتے ہیں بہت اس سے ورا ملتا نہیں
عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ جیسے ہی جوانی کی دہلیز پار ہو جاتی ہے لوگ مساجد کا رُخ کرتے ہیں اور عبادت و ریاضت میں زندگی کے شب و روز بسر گذارنے لگتے ہیں۔ اور عہدِ جوانی میں گناہوں، بے حیائیوں اور بد کرداریوں میں ملوث رہتے ہیں۔ یہ جاننا چاہیے کہ نوجوانی کی ایک وقت کی خالص اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے کی گئی عبادت پیرانہ سالی کی ستّر عبادتوں سے افضل ہے۔ وہ اس بات سے بے خبر رہتے ہیں کہ جوانی کی عمر میں عبادت و ریاضت کرنا چاہیے کیوں کہ بڑھاپے میں قوا بھی جواب دے جاتے ہیں اور ہمت و طاقت و یسی نہیں رہتی اور یہ بھی کہ کسے خبر کہ زندگی کا چراغ کب گل ہو جائے۔ نوریؔ بریلوی اپنے آپ سے مخاطب ہو کر اُمّتِ مسلمہ کے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہیں کہ ریاضت کے ایّام درحقیقت نوجوانی کے ہی ہیں کہ بڑھاپے میں کہاں ہمت ہوتی ہے اس لیے جو کچھ عبادتیں کرنا ہوں جوانی میں ہی کرو ؎
ریاضت کے یہی دن ہیں بڑھاپے میں کہاں ہمت
جو کچھ کرنا ہو اب کر لو ابھی نوریؔ جواں تم ہو
آج ہر کوئی دنیا بنانے اور کمانے کی بڑی تیزی سے فکر کر رہا ہے۔ اور اس کے لیے عملی طور پر ہر لمحہ کوشاں ہے جس کے سبب دین کی طرف سے بے پروا ہو گیا ہے۔ اور کھانا پینا اعلا قسم کا ہو رہا ہے، پوشاک بھی انتہائی قیمتی اور نفیس استعمال کر رہا ہے۔ ان فانی نعمتوں پر اِترا رہا ہے دنیا کے پیچھے لگا ہوا ہے مگر منعمِ حقیقی کی یاد سے دور ہو گیا ہے دین کی فکر نہیں کر رہا ہے۔ وہ یہ بھول بیٹھا ہے کہ دین کی فکر اور دین کا بنانا دنیا سے اول اور مقدم ہے۔ اس ضمن میں نوریؔ بریلوی کا اصلاحی تیور نشانِ خاطر کیجیے ؎
دنیا بنے یا بگڑے دنیا رہے یا جائے
تو دین بنا پیارے دنیا کا ہے کیا کرنا
کھا یا پیا اور پہنا اچھوں سے رہا اچھا
کچھ دین کا بھی کر لے دنیا کا ہے کیا کرنا
آج دنیا کمانے اور بنانے کے ساتھ دنیا کی مختلف فانی چیزوں کی محبت و اُلفت بھی اُمّتِ مسلمہ کے دلوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے۔ اور دل کا تعلق جن سے ہونا چاہیے ہم اس سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ نوریؔ بریلوی یوں ہمیں اپنی محبت و اُلفت کا مرکز بتا رہے ہیں ؎
لگاؤ دل کو نہ دنیا میں ہر کسی شَے سے
تعلق اپنا ہو کعبے سے یا مدینے سے
نفسِ امّارہ کی شرارتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اسے انسان صحیح طور پر محسوس نہیں کر پاتا۔ جب کہ وہ ہر لمحہ اپنا کام کرتے رہتا ہے۔ جو بھی بندہ نفس کی شر انگیزی کا شکار ہو جاتا ہے اس کو طاعتِ حق کا نام سنتے ہیں خوشی و مسرت کے بجائے بے زاری محسوس ہوتی ہے۔ اور وہ گناہ کو ہی اچھا سمجھنے لگتا ہے۔ نوریؔ بریلوی ایسے افراد کو کہتے ہیں کہ معصیت اور گناہ یہ زہر ہیں، مٹھائی نہیں، نفس تو قصائی ہے اس لیے اس کی شرارتوں سے بچیں اور اطاعتِ حق کی طرف اپنے آپ کو موڑیں ؎
شامتوں نے تمہاری گھیرا ہے
موت تم کو یہاں پہ لائی ہے
ذبح کر ڈالا تو نے او ظالم!
نفس تُو تو نرا قصائی ہے
طاعتِ حق کا نام سنتے ہی
تجھ کو کم بخت موت آئی ہے
معصیت زہر ہے مگر اوندھے
تُو نے سمجھا اسے مٹھائی ہے
اچھے جو کام کرنے ہیں کر لو
جان اپنی نہیں پرائی ہے
نوریؔ بریلوی اُمّتِ مسلمہ کے افراد سے مخاطب ہیں کہ رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ کتنا اعلا کرم اور احسان ہے کہ دن رات ہم خطاؤں پر خطائیں کرتے رہتے ہیں مگر وہ ہمیں نوازتے رہتے ہیں۔ لہٰذا اس بات کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے کہ خطاؤں کے باوجود عطاؤں میں جب کمی نہیں ہو رہی ہے تو ہمیں خطاؤں پر نادم اور شرمندہ ہو کر اس سے باز آ جانا چاہیے ؎
دن رات خطاؤں پر ہم کو ہے خطا کرنا
اور تم کو عطاؤں پر ہر دم ہے عطا کرنا
ہم اپنی خطاؤں پر نادم بھی نہیں ہوتے
اور ان کو عطاؤں پر ہر بار عطا کرنا
ان اصلاحی اشعار کے علاوہ کلامِ نوریؔ میں اور بھی بیش تر ایسے اشعار ملتے ہیں جن میں اُمّتِ مسلمہ کی زبوں حالی کا نقشہ کھینچ کر آپ نے ناگفتہ بہ حالات سے نجات اور مسلمانوں میں انقلابی سوچ اور فکر بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان جواہر پاروں سے نوریؔ بریلوی کی اُمّتِ مسلمہ کے تئیں سچی تڑپ اور کسک کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ساتھ ہی ان اشعار کی زیریں لہروں میں نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے استغاثہ و فریاد کا عنصر بھی پنہاں ہے جو حضرت نوریؔ بریلوی کی شہرۂ آفاق خوش عقیدگی کا مظہر ہے ؎
زخم پہ زخم یہی کھائے یہی قتل بھی ہو
خونِ مسلم کیا ابھی اوربھی ارزاں ہو گا
بھیڑیوں کا ہے جنگل نہیں کوئی راعی
بھولی بھیڑوں کا شہا کون نگہباں ہو گا
ظلم پر ظلم سہے اور سزائیں بھگتے
اور اُف کی تو تہِ خنجرِ برّاں ہو گا
یہی اندھیر اگر اور بھی کچھ روز رہا
تو مسلماں کا نشاں بھی نہ نمایاں ہو گا
صبحِ روشن کی سیہ بختی سے اب شام ہوئی
کب قمر نور دہِ شامِ غریباں ہو گا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اغثنا حبیب الاِ لٰہ اغثنا
تباہی میں بیڑا ہمارا پھنسا ہے
یہ سچ ہے بد اعمالیوں ہی نے اپنی
ہمیں روزِ بد یہ دکھایا شہا ہے
بہت نام لیوا ہوئے قتل و غارت
خبر کیا نہیں تم سے کیا کچھ چھپا ہے
تصور میں بھی جو نہ تھے وہ مظالم
ہوئے اور ابھی تک وہی سلسلا ہے
نہ دیکھا تھا جو چشمِ گردوں نے اب تک
ترے بندوں نے وہ ستم اب سہا ہے
چھِنے مال و دولت ہوئے قتل و غارت
ہزاروں کا ناموس لوٹا گیا ہے
لکھو کھا کیے ٹھنڈے سفاکیوں سے
مگر ظالم اب تک بھی گرما رہا ہے
جو حق چاہتا ہے یہ وہ چاہتے ہیں
جو یہ چاہتے ہیں وہ حق چاہتا ہے
مگر مولا اب تو سزا پا چکے ہم
کرم کیجیے اب یہی التجا ہے
نکو کار بندے ہی کیا ہیں تمہارے
یہ بدکار بھی آپ ہی کا شہا ہے
جو پہلے تھے آقا، غلام آج ٹھہرے
غلام اپنے آقا کا آقا بنا ہے
متذکرۂ بالا مثالوں سے نوریؔ بریلوی کی اصلاحِ اُمّت کی سچی تڑپ اور لگن نمایاں ہوتی ہے۔ اور اس امر کا پتہ چلتا ہے کہ عشقِ خدا و رسول جل و علا و صلی اللہ علیہ و سلم ، انقلابِ اُمّت، اصلاحِ معاشرہ اور غفلت کی نیند میں سوئے ہوئے مسلمانوں کو بیدار کرنا یہ سب نوریؔ بریلوی کے کلام کے خصوصی عناصر ہیں۔
٭٭٭
حضرت مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی اپنے عہد میں مایۂ ناز عالم و فاضل، عظیم مفسر و محدث، بے مثال فقیہ و مدرس، بلند پایہ ادیب، صاحبِ طرز انشا پرداز اورسچے عاشقِ رسول نعت گو شاعر کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ آپ اور بھی بہت سی خوبیوں اور صلاحیتوں کے مالک تھے۔ آپ کو زبان و بیان پر مکمل اور عالمانہ دست رَس حاصل تھی۔ آپ کلی طور پر زبان کی نزاکتوں اور باریکیوں سے بہرہ ور تھے۔ آپ نظم کے ساتھ ساتھ نثر پر بھی مہارتِ تامّہ رکھتے تھے اور ۴۰ کے لگ بھگ نثری کتب و رسائل، فتاوے اور حواشی آپ کی علمی یادگاریں ہیں جو کہ علم و ادب کا اعلا ترین شاہ کار کہلاتی ہیں۔ آپ کو جہاں اردو میں کامل عبور حاصل تھا وہیں آپ عربی اورفارسی پر بھی یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ لہٰذا موضوع و مضمون کی گراں قدری اور رفعت و منزلت کی مناسبت سے آپ کی نعتوں میں جا بہ جا اردو کے ساتھ ساتھ عربی کی آمیزش اور فارسیت کا گہرا رچاؤ پایا جاتا ہے۔ آپ نے اردو کے ساتھ عربی اور فارسی کا اُس حُسن و خوبی اور ندرتِ ادا سے استعمال کیا ہے کہ بے اختیارسبحان اللہ ! کہنے کو جی چاہتا ہے۔
نوریؔ بریلوی کی اردو نعتوں میں عربی اور فارسی کا جس خوش اسلوبی، ماہرانہ چابک دستی، ادیبانہ مہارت اور عالمانہ شان و شوکت سے استعمال ہوا ہے۔ وہ آپ کے اہلِ زبان اور اعلا ترین لب و لہجے کے بلند پایہ شاعر ہونے کی روشن دلیل ہے۔ عربی و فارسی کے استعمال کی چند مثالیں اس سے قبل صنعتِ تلمیع، اقتباس اور ذولسانین کے تحت پیش کی جاچکی ہیں۔ کلامِ نوریؔ میں عربی کی آمیزش بہ کثرت ملتی ہے۔
نوریؔ بریلوی کی حمدیہ نظم بعنوان ’’اذکارِ توحید ذات، اسما و صفات و بعض عقائد‘‘ (مخمس) جو ۹۹؍ بندوں پر مشتمل ہے۔ عربی زبان کا یہ ٹکڑا۔ ’’لا الہ الا اللہ اٰمنا برسول اللہ ‘‘۔ ہر بند میں مکرّر ہے۔ علاوہ اس کے۷؍ بند مکمل عربی میں ہیں اور ۱۲؍بند میں اردو کے ساتھ ماہرانہ چابک دستی سے عربی کی آمیزش کی گئی ہے۔ ذیل میں خاطر نشین کیجیے مذکورہ حمدیہ نظم کے چند بندوں کی مثالیں ؎
لا موجود الا اللہ
لامشہود الا اللہ
لا مقصود الا اللہ
لا معبود الا اللہ
لا الہ الا اﷲ اٰمنا برسول اللہ
ربی حسبی جل اللہ
مافی قلبی غیر اللہ
حق حق حق اﷲ اﷲ
رب رب رب سبحان اﷲ
لا الہ الا اﷲ اٰمنا برسول اللہ
حَکم و عدَ لُ و علیُ وَ عظیم
۔
دیّانُ وَ رحمٰنُ و رحیم
قدوسُ‘ و حنان و حلیم
فتّاحُ و منّانُ وَ کریم
لا الہ الا اﷲ اٰمنا برسول اللہ
والی ولیّ متعالی حکیم
وہاب ورزاق و علیم
مالک یومِ دین و جحیم
مالکُ ملکِ خلد و نعیم
لا الہ الا اﷲ اٰمنا برسول اللہ
’’جاری رہے گا سکّہ تیرا‘‘ عنوان کے تحت ایک نعت کے ہر مصرعِ ثانی میں ’’صلی اللہ علیک و سلم ‘‘ آیا ہے جو عربی میں ہے۔ اور اسی نعت کے چند شہ پارے نشانِ خاطر ہوں جن میں اردو کے ساتھ عربی کی دل آویز اور دل کش آمیزش کی گئی ہے ؎
بارکَ شرَّف مجَّد کرَّم نوِّر قلبک اسریٰعلَّم
رب نے تم کو کیا کیا بخشا صلی اللہ علیک و سلم
انت الرافع انت النافع انت الدافع انت الشافع
اشفع عند الربِّ الاعلیٰ صلی اللہ علیک و سلم
انت الاول انت الاٰ خر انت الباطن انت الظاہر
انت سمی المولیٰ تعالیٰ صلی اللہ علیک و سلم
من لی ناصر مالیَ والی غیرک مالی فانظر حالی
واسمع قالی یا مولایٰ صلی اللہ علیک و سلم
انت القاسم ربُّک معطی تم نے ہی سب کو نعمت دی
دے دو مجھ کو میرا حصہ صلی اللہ علیک و سلم
انت شفیعی انت وکیلی انت حبیبی انت طبیبی
انت کفیلی یا مولاناصلی اللہ علیک و سلم
علاوہ ازیں ’’صلی اللہ علیک و سلم صلی اللہ صلی اللہ‘‘۔ عنوان کے تحت ایک نعت ۳۹؍ بندوں پر مشتمل ہے۔ جس کے ہر مصرعِ ثانی میں ’’ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم صلی اللہ صلی اللہ‘‘ کی تکرار ہے جو عربی میں ہے۔ اس نعت کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے جن میں اردو کے ساتھ عربی کی آمیزش کی تازہ کاری ہے ؎
اوحیٰ الیک اللہ ما اوحیٰ من یّعلمہا الا انت
مولیٰ سرِّ قدرت والے صلی اللہ علیک و سلم صلی اللہ صلی اللہ
پایا تم نے رتبۂ علیا’ قاب قوسینِ او ادنیٰ‘
حق سے ایسی قرابت والے صلی اللہ علیک و سلم صلی اللہ صلی اللہ
اس کے علاوہ ایک سلام ’’پیکرِ حُسنِ تمام ‘‘کے دو بند خاطر نشین ہوں جو عربی کی آمیزش کا خوب صورت شاہ کار ہیں ؎
الصلاۃ والسلام اے سرورِ عالی مقام
الصلاۃ والسلام اے رہبرِ جمل انام
الصلاۃ والسلام اے مظہرِ ذات السلام
الصلاۃ والسلام اے پیکرِ حُسنِ تمام
الصلاۃ والسلام الصلاۃ والسلام
یا حبیب اللہ انت مَہبَطُ الوحیِ المبیں
اِنی مُذنب سیدی انت شفیعُ المذنبیں
یا رسول اللہ انت صادقُ الوعد الامیں
یا نبی اللہ انت رحمۃ للعٰلمیں
الصلاۃ والسلام الصلاۃ والسلام
ذیل میں نوریؔ بریلوی کے کلام سے چند جواہر پارے نشانِ خاطر فرمائیں جن میں بڑی خوش اسلوبی، سلیقہ مندی اور ادیبانہ مہارت کے ساتھ اردو اشعار میں عربی کی دل آویز آمیزش ہے جو نوریؔ بریلوی کے قادر الکلام شاعر ہونے کا روشن اعلان ہے ؎
صبح دم کر کے شبنم سے غسل و وضو
شاہدانِ چمن بستہ صف رو بہ رو
ورد کرتے ہیں تسبیح ’سبحانہٗ‘
ہوٗ ولا غیرہٗ ہوٗ ولا غیرہٗ
اللہ اللہ اللہ اللہ
بد ہوں مولا مرے مجھ کو کر دے نکو
رختِ اعمال ہے چاک فرما رفو
تیری رحمت کی اُمید ہے اے عفو
کہ ہے ارشادِ قرآن ’لاتقنطوٗا‘
اللہ اللہ اللہ اللہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’ربِّ سلِّم‘ کی دعا سے پار بیڑا کیجیے
راہ ہے تلوار پر نیچے ہے دریا نار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زُلفِ والا کی صفت ’واللیل‘ ہے قرآن میں
اور رُخ کی ’والضحیٰ‘ مہرِ عجم ماہِ عرب
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مازاغ بصرک یا مولیٰ ما کذب قلبک حین راٰی
ایسی چشمِ بصیرت والے تم پر لاکھوں سلام
قولِ حق ہے قول تمہارا ان ’ہو الا وحیُّ یو حیٰ ‘
صدق و حق و امانت والے تم پر لاکھوں سلام
آپ کا ید ’یدِ ربِّ واحد فوق ایدہم‘ ہے شاہد
اے ربانی بیعت والے تم پر لاکھوں سلام
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مصطفیٰ ماجآ الا رحمۃ للعٰلمین
چارہ سازِ دوسرا تیرے سوا ملتا نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ آج ’بُشریٰ لکم‘ کی صدا کا شور ہے کیوں
یہ مرحبا کی نداؤں میں آج زور ہے کیوں
بڑھو ادب سے کرو عرض ’السلام علیک‘
واہل بیتک والاٰل والذین لدیک
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سبھی رسل نے کہا ’اذہبوا الیٰ غیری‘
’انا لہا ‘کا یہ مژدہ سنانے آئے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کیا کہوں کیسے ہیں پیارے ترے پیارے گیسو
دونوں عارض ہیں ضحی لیل کے پارے گیسو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مٹا دی کفر کی ظلمت تمہارے روئے روشن نے
سویرا شرک کا تم نے کیا ’شمس الضحیٰ‘ تم ہو
جہاں تاریک تھا سارا اندھیرا ہی اندھیرا تھا
تم آئے ظلمتیں تم سے مٹیں ’بدرالدجیٰ‘ تم ہو
’رفعنا‘ سے تمہاری رفعتِ بالا ہوئی ظاہر
کہ محبوبانِ رب میں سب سے عالی مرتبہ تم ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
من رأنی راء الحق سنا کر چلے
میرا جلوہ ہے حق کا جتا کر چلے
جز بشر اور کیا دیکھیں خیرہ نظر
ایُّکم مثلی کو وہ سنا کر چلے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ترے حبیب کے دشمن ہیں اور خود تیرے
ہر ایک ان میں کا ’فی النارِ والسقر‘ ہو جائے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تاج رکھا ترے سر ’رفعنا‘ کا
کس قدر تیری عزّت بڑھائی ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’رمی‘ جس کی ’رمی‘ ٹھہری خدا کی
’کتاب اللہ‘ میں ’اللّٰہُ رمیٰ‘ ہے
اسے ’من ابتدع‘ تو رہ گیا یاد
مگر ’من سَنَّ‘ یہ بھولا ہوا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سنگھادیجے ہمیں وہ زُلفِ مشکیں
صفت میں جس کی ’واللیل و سجیٰ‘ ہے
دکھا دیجے شہا پُر نور چہرہ
صفت میں جس کی ’والشمس‘ اور ’ضحیٰ‘ ہے
زبانیں سوکھی ہیں کانٹے جمے ہیں
’عطش‘ سے حال ابتر ہو رہا ہے
سنیں گے سننے والے ’اذہبوا‘ کے
زبانِ پاک پر ’انی لہا‘ ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’اغثنا حبیب الالٰہ اغثنا‘
تباہی میں بیڑا ہمارا پھنسا ہے
’وما ینطق عن ہویٰ ‘ سے ہے روشن
زبانِ مقدس پہ حق بولتا ہے
’انا قاسمُُ‘ سے ہے روشن جہاں میں
جسے جو ملا وہ تمہارا دیا ہے
اردو زبان عربی، فارسی، ہندی اور سنسکرت کے ملاپ سے وجود میں آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں جب کوئی شاعر شعر نظم کرتا ہے یا کوئی مصنف کتاب کی تصنیف و تالیف کرتا ہے تو اُن میں عربی کی آمیزش اور فارسیت کا رچاؤ ناگزیر ہو جاتا ہے۔ نوریؔ بریلوی کے کلام میں عربی کی آمیزش کا نظارہ ہم نے گذشتہ صفحات میں کیا اب آئیے کلامِ نوریؔ میں فارسیت کے گہرے رچاؤ کو نشانِ خاطر کیجیے۔
حضرت نوریؔ بریلوی کے کلام میں جا بہ جا اردو کی لفظیات کے ساتھ فارسی الفاظ و تراکیب کا برمحل، خوب صورت اورحسیٖن و جمیٖل امتزاج ملتا ہے۔ بعض ترکیبات تو خالص فارسی الاصل ہیں جو آ پ کی زبان دانی اور فارسی زبان میں مہارتِ تامّہ پر دلالت کرتی ہیں۔ ’’جلوۂ ماہِ عرب‘‘ اور ’’جلوہ ہے جلوہ آپ کا‘‘کی ردیفیں ’’ مہرِ عجم ماہِ عرب ‘‘ اور ’’ ماہِ عجم مہرِ عرب‘‘ خالص فارسی تراکیب ہیں۔ چند اشعار خاطر نشین کیجیے ؎
’ماہِ تاباں ‘ تو ہوا ’مہرِ عجم ماہِ عرب‘
ہیں ستارے انبیا ’مہرِ عجم ماہِ عرب‘
قبر کا ہر ذرہ اک ’خورشیدِ تاباں ‘ ہو ابھی
رُخ سے پردہ دو ہٹا ’مہرِ عجم ماہِ عرب‘
’کوچۂ پُر نور‘ کا ہر ذرہ ’رشکِ مہر‘ ہے
واہ کیا کہنا ترا ’مہرِ عجم ماہِ عرب‘
’رُو سیہ‘ ہوں منھ اُجالا کر مرا ’جانِ قمر‘
صبح کر یا چاندنا ’مہرِ عجم ماہِ عرب‘
’نیّرِ چرخِ رسالت‘ جس گھڑی ’طالع‘ ہوا
اوج پر تھا غلغلہ ’مہرِ عجم ماہِ عرب‘
ہے تم سے عالم پُر ضیا ماہِ عجم مہرِ عرب
دے دو میرے دل کو جِلا ماہِ عجم مہرِ عرب
میں ردیف ’مہرِ عجم ماہِ عرب‘ کے علاوہ ماہِ تاباں، خورشیدِ تاباں، کو چۂ پُر نور، رشکِ مہر، جانِ قمر، نیّرِ چرخِ رسالت، طالع، پُر ضیا یہ سب خالص فارسی لفظیات کی ترکیبیں ہیں۔
۲۰؍ بندوں پر مشتمل حمدیہ نظم ’’ضربِ ہوٗ‘ ‘ میں فارسی ترکیبوں کا بہت زیادہ استعمال ہوا ہے۔ اس نظم میں عرش و فر ش، زمان و جہت، ضیا، منزہ، مبرہ، نغمہ سنجانِ گلشن، طائرانِ جناں، بلبلِ خوش نوا، طوطیِ خوش گلو، زمزمہ خواں، قمریِ خوش لقا، لسانِ مَقال جیسی ترکیبات فارسیت کے دل نشیٖن رچاؤ کی مثالیں ہیں۔
۲؍ نعتیں ’’ بہارِ جاوداں تم ہو‘‘ اور ’’ ختم الانبیا تم ہو‘‘۔ میں فارسیت کا انتہا ئی گہرا رچاؤ ملتا ہے۔ ان دونوں نعتوں کے بیش تر قوافی خالص فارسی الاصل ترکیبِ لفظی پر مشتمل ہیں۔ مثال کے طور پر اشعار کے بجائے ان ترکیبوں کو ملاحظہ کیجیے۔ بہارِ جاوداں، نسیمِ داستاں، بہارِ باغِ رضواں، زیبِ جناں، حبیبِ ربِّ رحمن، مکینِ لامکاں، سرِ ہر دو جہاں، شہ شاہنشہاں، بہارِ بے خزاں، بہارِ جاوداں، بہارِگلستاں، بہارِبوستاں، تابشِ رُخ، مجسم رحمتِ حق، شفیعِ عاصیاں، وکیلِ مجرماں، طبیبِ انس و جاں، شانِ خدا، مہِ لقا، شہ عرشِ علا، مہ و خورشید و نجم برق، کسبِ ضیا، علوِ مرتبت وغیرہ۔
علاوہ ازیں نوریؔ بریلوی کے کلامِ بلاغت نظام میں بعض ایسے جواہر پارے بھی موجود ہیں جن میں ایک مصرع مکمل فارسی میں ہے تو دوسرا اردو میں ۔۔ اردو کے ساتھ فارسی مصرع کی ادائیگی اس حُسنِ ادا، زورِ بیان اوردل کشی و شگفتگی سے کی گئی ہے کہ قاری و سامع لطف اندوز اور کیف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ؎
’’از سرِ بالینِ من بر خیز اے ناداں طبیب ‘‘
ہو چکا تجھ سے مداوا عشق کے بیمار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’بر تو شود از نورِ رب بارانِ نوری روز و شب‘‘
ہو تا ابد یہ سلسلہ ماہِ عجم مہرِ عرب
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’کجا ہم خاک اُفتادہ کجا تم اے شہ بالا‘‘
اگر مثلِ زمیں ہم ہیں تو مثلِ آسماں تم ہو
’’چہ نسبت خاک را با عالمِ پاکت کہ اے مولا‘‘
گدائے بے نوا ہم ہیں شہ عرش آستاں تم ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’از شہا تابگدایانِ جہاں یک عالم‘‘
آپ کے در پہ شاہ عرض رسا ہوتا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’از زمیں تا فلک جن و انس وملک ‘‘
جس کو دیکھو تمہارا فدائی ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’بہر لحظہ بہر ساعت بہر دم‘‘
درِ سرکارِ فیض آثار وا ہے
’’سلامِ روستائی بے غرض نیست‘‘
وہ کیا تعظیم کو حاضر ہوا ہے
اسی طرح نوریؔ بریلوی کے مجموعۂ کلام ’’سامانِ بخشش‘‘ میں شامل حضرت سیدناعبدالقادر جیلانی بغدادی علیہ الرحمۃ کی شان میں لکھی گئی مناقب میں بھی فارسی کے اشعار ملتے ہیں، نشانِ خاطر کیجیے منقبت سے چند شہ پارے ؎
بہ عینِ عنایت بہ چشمِ کرامت
بدہ جرعۂ نا چشم غوثِ اعظم
سرِ خود بہ شمشیرِ ابرو فروشم
بہ مژگانِ تو سینہ ام غوثِ اعظم
بہ پیکانِ تیٖرت جگر می فروشم
بہ تیٖرِ نگاہت دلم غوثِ اعظم
دماغم رسد بر سرِ عرشِ اعلیٰ
بہ پایت اگر سر نہم غوثِ اعظم
مری سربلندی یہیں سے ہے ظاہر
’’کہ شد زیرِ پایت سرم غوثِ اعظم‘‘
علاوہ ازیں نوریؔ بریلوی کے مجموعۂ کلام ’’سامانِ بخشش‘‘سے ذیل میں ایسے اشعار خاطر نشین کیجیے جن میں اردو لفظیات کے ساتھ فارسی لفظیات کا انتہائی گہرا رچاؤ ہے ؎
بنا عرشِ بریں ’مسند کفِ پائے منور‘ کا
خدا ہی جانتا ہے مرتبہ سرکار کے سر کا
جو ’آب و تابِ دندانِ منور‘ دیکھ لوں نوریؔ
مرا ’بحرِ سُخن سر چشمہ‘ ہو ’خوش آب گوہر‘ کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دل میں گَھر کرتا ہے ’اعدا‘ کے ترا ’شیریٖں سُخن‘
ہے میرے ’شیریٖں سُخن‘ شہرہ تری ’گفتار‘ کا
چوکڑی بھولا ’براقِ باد پا‘ یہ دیکھ کر
ہے قدم ’دوشِ صبا‘ پر اس ’سبک رفتار‘ کا
’ہفت کشور‘ ہی نہیں چودہ ’طبق‘ روشن کیے
’عرش و کرسی لامکاں ‘ پر بھی ہے جلوہ یار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میرا گھر ’غیرتِ خورشید درخشاں ‘ ہو گا
خیر سے ’جانِ قمر‘ جب کبھی مہماں ہو گا
جو ’تبسم‘ سے ’عیاں ‘ اک ’دُرِ دنداں ‘ ہو گا
ذرّہ ذرّہ مرے گھر کا ’مہِ تاباں ‘ ہو گا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’آبِ بحر عشقِ جاناں ‘ سینہ میں ہے موج زن
کون کہتا ہے ہمیں ’آبِ بقا‘ ملتا نہیں
’بر زباں ‘ تسبیح و ’در دل گاو خر‘ کا دور ہے
ایسے ملتے ہیں بہت اس سے ورا ملتا نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کھلے ہیں ’دیدۂ عشاق خوابِ مرگ‘ میں بھی
کہ اس ’نگار‘ کا ہے انتظار آنکھوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تو ’شمعِ رسالت‘ ہے عالم ترا پروانہ
تو ’ماہِ نبوت‘ ہے اے جلوۂ جانانہ
کیوں ’زُلفِ معنبر‘ سے ’کوچے‘ نہ مہک اُٹھیں
ہے پنجۂ قدرت جب زلفوں کا تری ’شانہ‘
۔۔۔
’ماہِ طیبہ نیّرِ بطحا‘ صلی اللہ علیک و سلم
تیرے دم سے عالم چمکا صلی اللہ علیک و سلم
سر پر بادل کالے کالے ’دودِ عصیاں ‘ کے ہیں چھالے
دم گھٹتا ہے میرے مولا صلی اللہ علیک و سلم
میں ہوں تنہا ’بن‘ ہے سُونا ’دُزدِ‘ ایماں سر پر پہنچا
میری خبر لے میرے مولا صلی اللہ علیک و سلم
کلامِ نوریؔ میں عربی کی آمیزش اور فارسیت کے گہرے رچاو کے اس جائزے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نوریؔ بریلوی کو زبان کے استعمال پر ملکہ حاصل تھا۔ آپ اپنے عہد کے ممتاز اہلِ زبان اور منفرد لب و لہجے کے شاعر تھے۔ آپ کے کلام میں فارسی کی اور بھی بہت ساری ترکیبات موجود ہیں، یہاں مُشتے نمونہ از خروارے کے مصداق چند شہ پارے درج کیے جا رہے ہیں۔ مطلعِ نوری، مہرِ انور، مطلعِ محشر، کفِ پائے منور، نقابِ روئے انور، مہرِ ذرہ پرور، جمالِ حق نما، خوش آب گوہر، مہبطِ انوار، مخزنِ انوار، مرہمِ زنگار، زخمِ دامن دار، دوشِ صبا، خورشیدِ تاباں، مطلعِ انوار، لعلِ شب چراغ، سوختہ جاں، جانِ مسیحا، بختِ خفتہ، قفسِ جسم، مُرغِ جاں، جلوہ گہہ سرورِ خوباں، جلوۂ حُسنِ جہاں تاب، تیغِ دو پیکر، غیرتِ خورشیدِ درخشاں، دامنِ حامیِ خود، ماحیِ عصیاں، نوردہِ شامِ غریباں، فضلِ اتم، لطفِ اعم، سحابِ کرم، صفحۂ دل، مصباحِ ظلم، آبِ تیغِ عشق، طائرِ جاں، شافعِ روزِ جزا، سایۂ زلفِ رسا، نسیمِ فیض، جانِ جناں، حسرتِ پابوس، دیدۂ عشاق، گل عذار، قرارِ دلِ حزیں، نرگسِ شہلا، گلِ مہِ تاب، مطلعِ انوار، مثالِ شمعِ روشن، رضا جوے خداوندِجہاں، جانِ قمر، جلوہ نما، دلِ پژمردہ، بہارِ چمنِ طیبہ، جانِ مسیحا، چشمۂ آبِ حیات، نگاہِ مہر، قلبِ تیرہ، شجرۂ امید، بقعۂ نور، ابروے خم دار، شبِ فراق، فوجِ غم، بابِ رحمتِ ربِّ علا، سرِ خیرہ، آئینۂ ذاتِ اَحد، مرآتِ صفاتِ کبریا، بیانِ عیبِ دشمن، ضیائے کعبہ، ضیائے روضہ، فضائے طیبہ، شامِ غربت، مَے محبوب، بلبلِ باغِ مدینہ، زورقِ خورشید، جانِ رحمت، کانِ نعمت، شانِ حق نما، زُلفِ مشکیں، رموزِ مصلحت، مثالِ ماہیِ بے آب، مریضِ معاصی، معراجِ قسمت وغیرہ۔
٭٭٭
اردو زبان و ادب کے شعرا و ادبا اور محققین و ناقدین پر یہ اعتراضات ہمیشہ سے عائد کیے جاتے رہے ہیں اور آج بھی معترضین ایسی الزام تراشیاں کرتے ہوئے نہیں تھکتے کہ اردو شعرا و ادبا ہندوستان کی سر زمین پر بیٹھ کر دنیائے عرب اور مملکتِ ایران کے گیت گاتے ہیں اور اپنی شاعری اور اپنے ادب میں ہندی اور ہندوستانیت کو کوئی جگہ نہیں دیتے۔ اردو زبان و ادب کے شعرا و ادبا پر اس قسم کے بے بنیاد اور بے سرو پا اعتراضات وارد کرنے والے افراد میں کچھ تو ایسے بھی ہیں جو اردو زبان کو بدیسی زبان تک بھی کہہ دیتے ہیں۔
یہ تمام الزامات اور اعتراضات لغو اور بے بنیاد ہیں نہ تو اردو زبان بدیسی زبان ہے اور نہ ہی اردو دنیا کے شعرا و ادبا نے ہندی و ہندوستانی عناصر کے ذکر سے روگردانی اور اجتناب برتا ہے۔
اردو خالص ہندوستانی زبان ہے۔ اس میں ہندی الفاظ کی تعداد عربی اور فارسی الفاظ سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے ، بہ قول اعجاز صدیقی :
’’جہاں تک اردو گرامر کا تعلق ہے وہ ہندی گرامر سے بہت زیادہ قریب ہے اس کے تمام افعال و ضمائر دیسی ہیں، مزاج دیسی ہے، روح دیسی، جسم دیسی ہے۔ ‘‘(1)
علاوہ ازیں اردو کے ہندوستانی زبان ہونے کے بارے میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کا خیال بھی ملاحظہ کریں، وہ لکھتے ہیں :
’’اردو نے ہند آریائی زبان کا دودھ پیا ہے۔ اردو زبان ہماری پچھلی کئی صدیوں کی تہذیبی کمائی ہے۔ ‘‘(2)
اردو زبان و ادب اور اردو دنیا کے شعرا و ادبا کے بارے میں جو افراد اس طرح کی بد گمانیاں اور غلط فہمیاں پھیلاتے ہیں ان کا علم و ادب سے دور کا واسطہ بھی نہیں۔ جہاں تک اردو شعرا و ادبا کا ادب اور شاعری میں ہندی اور ہندوستانی عناصر کو جگہ دینے کا تعلق ہے تو یہ سوال ہی اردو شعر و ادب سے ناواقف افراد کی طرف سے لگتا ہے۔ کیوں کہ ہندی الفاظ، روزمرہ محاورے، ضرب الامثال، کہاوتیں، ہندوستانی تہذیب و تمدن اور رسم و رواج کی جلوہ ریزیاں ہر قدیم اور جدید شاعر کے کلام میں خوب صورت رنگ و آہنگ کے ساتھ موجود ہے۔ ان شعرا میں کسی کی تخصیص نہیں خواہ وہ کسی نظریہ یا مرکزی عقیدے کا شاعر ہو یا محض شاعرِ جذبات ہو۔ ہر ایک شاعر کی شاعری میں ہندی یا ہندوستانیت نمایاں ہے اور ان کے کلام میں ہندوستانی عناصر کی جھلکیاں موجود ہیں۔
شاعر تو بڑا حساس اور جذباتی ہو تا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے جذبات و خیالات کی ترجمانی کرتا ہے بلکہ و ہ اپنے عہد اور زمانے کا بھی ترجمان ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ اپنے گرد و پیش اور ماحول سے کیسے بے خبر رہ سکتا ہے اور ان سے بے پروا ہو کر یا ان کی طرف سے نظریں چُرا کر وہ کامیاب شاعری ہرگز نہیں کر سکتا اور نہ ہی اچھے ادب اور اچھی شاعری کو منصۂ شہود پر لا سکتا ہے۔
یہ بھی ایک مسلمہ سچائی ہے کہ جو زبان جس ملک میں آنکھ کھولتی ہے۔ پلتی بڑھتی ہے۔ بچپن دیکھتی ہے۔ لڑکپن دیکھتی ہے۔ عنفوانِ شباب میں اٹھکیلیاں کھیلتی ہے۔ وہ کسی بیرونی تہذیب و تمدن اور ثقافت سے متاثر ہونے کے باوجود بھی اپنی ملکی تہذیب و تمدن اور ثقافت سے ہرگز اپنا رشتہ منقطع نہیں کر سکتی۔
اردو زبان ہندوستان کی تمام قوموں اور زبانوں کا مشترک روپ ہے۔ ہندوستانی تہذیب و تمدن کا کوئی مظہر ایسا نہیں جو اردو ادب میں نہ ہو۔ اس کی کہاوتوں، محاوروں، ضرب الامثال اور لوک گیتوں میں ہندوستان کا دل دھڑک رہا ہے۔
حتیٰ کہ جب اردو شاعری ارتقائی مدارج طَے کر رہی تھی تو اس وقت بھی خسروؔ جیسے خالص ہندوستانی شاعر کا کلام بھی ہندوستانی عناصر کی بھینی بھینی خوش بُوسے فضا کو معطر کر رہا تھا۔ خسروؔ کے یہاں ہندی وہندوستانی کی بہتات ہے۔ خسروؔ کے چند شہ پارے خاطر نشیٖن ہوں ؎
گوری سووے سیج پر اور مکھ پر ڈارے کیس
چل خسروؔ گھر آپنے رین بھئی چھوندیس
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زحالِ مسکیں مکن تغافل، دورائے نیناں، بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں نہ دارم اے جاں نہ کاہے لیہو لگائے چھتیاں
شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چو عمرِ کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں رتیاں
مذکورہ بالا اشعار میں فارسی اور اردو کے ساتھ ہندی و ہندوستانی زبان کا گہرا رچاؤ ہے۔ پرانے زمانے میں ’’سَتی‘‘ ہندوستانی عناصر کی ایک مشہور رسم ہے۔ اسے ایک عورت کی وفا شعاری اور ایثارِ نفسی کی مثال تصور کی جاتی تھی۔ جو عورت اپنے شوہر کی موت کے بعد اس کی لاش کے ساتھ جل مرتی تھی اسے محبت اور عصمت پروری کی دیوی مانا جاتا تھا۔ گو کہ اب یہ رسم مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔ خسروؔ کا یہ دوہا’’ستی کی رسم‘‘ سے متاثر ہو کر کہا گیا ہے ؎
خسروؔ ایسی پیت کر جیسے ہندو جوئے
پوت پرائے کار نے جل جل کوئلا ہوئے
علاوہ ازیں میرؔ ، انشاؔ ، سوداؔ ، مصحفیؔ ، حالیؔ وغیرہ کے ہاں ہندی اور ہندوستانی عناصرنشانِ خاطر کیجیے ؎
ہر اشک کو مری مژگاں سے یہ علاقہ ہے
کہ جوں ’ستار‘ کی کھونٹی سے تار تار بندھا
(مصحفیؔ )
دل میں سما رہا ہے یوں داغِ عشق اپنے
جس طرح کوئی ’بھونرا‘ ہووے ’کنول‘ میں بیٹھا
(انشاؔ )
نہیں کوئی گھر ایسا، جہاں اس کو نہ دیکھا ہو
’کنہیا‘ سے نہیں کم، صنم میرا وہ ہر جائی
(سوداؔ )
در پہ ’الکھ‘ آکے جگاتے ہیں جب
سُن کے گھروں سے نکل آتے ہیں سب
(حالیؔ )
الکھ جگانا، ہندوستانی محاورہ ہے۔ ستارا، بھونرا، کنول، کنہیا۔۔ ان علامتوں کو ملاحظہ کیجیے ، یہ سارے کے سارے خالص ہندوستانی عناصر ہیں۔
دھونی رمانا، آسن مار کر بیٹھنا، قشقہ کھینچنا، ماتھے پر صندل لگانا۔۔ یہ سب ہندوستانی جوگیوں اور پنڈتوں کا طریقہ ہے۔ اب دیکھیے کہ میر تقی میرؔ نے ان سے کس طرح کام لیا ہے ؎
کب تلک ’دھونی رمائے‘ ’جوگیوں ‘ کی سی رہوں
بیٹھے بیٹھے در پہ میرے تیرا ’آسن‘ جل گیا
ہندی بتوں کا جلوہ صحنِ چمن میں دیکھا
’صندل‘ بھری جبیں ہے ہونٹوں کی بدلیاں ہیں
نظیرؔ اکبرآبادی کی شاعری تو عوامی شاعری کہلاتی ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کا خاص موضوع ہندوستان کی مختلف النوع اشیا اور اس کی عوام کو بنایا۔ مسلم تہواروں اور مسلم بزرگوں کے مقابلے میں ہندوستانی میلوں ٹھیلوں، موسموں اورتہواروں اور ہندو بزرگوں کی زندگی کے واقعات کو اپنا موضوعِ شاعری بنا کر نظیرؔ نے نظمیں لکھی ہیں۔ نظیرؔ پہلے ہندوستانی شاعر ہیں جنھوں نے اپنی شاعری کا تاناباناخالص ہندوستانی عناصر سے تیار کیا ہے۔ کرشن کنہیا، ریچھ کا بچہ، ہولی، دیوالی، بسنت، بیراکی، بنجارہ، وغیرہ۔۔ ہرایک موضوع پر ان کی نظمیں ہیں۔
شاعرِ مشرق ڈاکٹر اقبالؔ کے یہاں بھی ہندی و ہندوستانی عناصر کی کثرت ہے۔ اسی طرح وہ شعرا جن پر مذہبی شاعر ہونے کا لیبل لگا ہوا ہے یا جن کی شاعری میں ان کے اپنے عقیدہ و نظریہ کے لحاظ سے مذہبی رنگ و آہنگ غالب ہے ان کی شاعری میں بھی ہندوستانیت کا رچاوپایاجاتا ہے ؎
یارب رسولِ پاک کی کھیتی ہری رہے
’صندل سے مانگ‘ بچوں سے گودی بھری رہے
(میرانیسؔ )
اسی طرح وہ شعرا جنھیں یہ شرف حاصل ہے کہ انھوں نے تادمِ زیست پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی مدح و ثنا اور تعریف وتوصیف میں اپنے آپ کو مصروف رکھا اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم میں نعت کا نذرانہ پیش کیا۔ ایسے نعت گو شعرا نے بھی ہندی و ہندوستانی عناصر کو برتا ہے اور اپنے کلام میں ہندوستانیت کو جگہ دے کر ان بے بنیاد اور بے سرو پا اعتراضات کے تار و پود بکھیر کر رکھ دیا جو اردو شعرا پر ہوتے رہتے ہیں۔ محسنؔ کاکوروی اور رضاؔ بریلوی کے کلام میں ہندوستانیت خاطر نشین کیجیے، حضرت محسن کہتے ہیں ؎
سمت ’کاشی‘ سے چلا جانبِ ’متھرا‘ بادل
برق کے کاندھے پہ لائی ہے صبا ’گنگا جل‘
’جوگِیا‘ چرخ پہ ہے یا کہ لگائے ہے’ بھبھوت‘
یا کہ ’بیراگی‘ ہے ’پربت‘ پہ بچھائے کمبل
کاشی، متھرا، گنگا، جوگِیا، بھبھوت اور بیراگی ۔۔ خالص ہندوستانی علامتیں ہیں نیز جل اور پربت ہندی ا لفاظ ہیں ، حضرت رضاؔ بریلوی کے اشعار دیکھیں ؎
دونوں بنیں ’انیلی سجیلی‘ بنی مگر
جو ’پی‘ کے پاس ہے وہ ’سہاگن کنور‘ کی ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لَکَ بدرُ‘ فی الوجہِ الاجملخط ہالۂ مہ زُلف ابرِ اجل
تورے ’چندن چندر پرو کنڈل‘ رحمت کی بھرن برسا جانا
(رضاؔ بریلوی)
سجیلی، پی، سہاگن، کنور۔۔ یہ سارے کے سارے ہندی الفاظ ہیں۔ اسی طرح چندن، چندر، پرو، کنڈل سنسکرت کے الفاظ ہیں اور چندن چندر پرو کنڈل خالص سنسکرت ترکیبِ لفظی ہے اور انھیں عربی، فارسی اور اردو کے ساتھ کس قدر خوب صورتی سے استعمال کیا گیا کہ ایک شعر کئی زبانوں کا مجموعہ نظر آتا ہے۔
علاوہ ازیں جہاں تک جدید اردو شعرا کے یہاں ہندی اور ہندوستانی عناصر کی جلوہ گری کا معاملہ ہے تو مطالعہ و مشاہدہ سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے یہاں تو ہندوستانیت کی بہتات ہے۔
اب آیئے مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کے نعتیہ کلام میں اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ نوریؔ بریلوی نے کس طرح ہندی وہندوستانی عناصر کا استعما ل اپنے کلام میں کیا ہے۔ آپ دنیائے اسلام کے ایک مذہبی رہِ نما اور روحانی پیشوا تھے۔ بیعت و ارشاد اور تبلیغِ دین کے سلسلے میں ملک کے کونے کونے کا آپ نے سفر کیا۔ اس لیے آپ کو ہندوستان کی علاقائی بولیوں سے بھی کماحقہٗ واقفیت اور آگاہی ہوئی۔ نیز ہندوستانی تہذیب و تمدن، ہندی محاورات، ضرب الامثال اور ہندی علامتوں سے آشنا ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنی شاعری میں ان عناصر کو کئی جگہ برتا بھی ہے۔ لہٰذا اس بات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ آپ کی شاعری ہندی اور ہندوستانی عناصر کا ایک ایسا گل دستہ ہے جس میں علاقائی بولیوں کی خوشبو بھی ہے اور آپ کے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ہندوستانی ہونے کا اشاریہ بھی ۔۔ ۔۔
نوریؔ بریلوی نے اپنے کلام میں دن، رات، چاند، سورج، اُجالا، گھڑی، شُبھ گھڑی، ٹیک، ساجھی، جورو، تڑکا، پاٹ، کاٹھ، کٹورا، بِرتے، تِتّا، کھٹکا، جپا، رٹا، داتا، دَیا، بھکاری، جگ، سنسار، ڈھلا، کُڑھا، دیس، جنگلہ، دھُن، چوندھ، جھومر، ٹیکا، سہرا، کاہے، دھونی رمانا، بُہارنا، پھوار، کھرا، چنگا، کوڑی، کَے، تِرائی، ٹھِیا، اہلے گہلے، پھُنک وغیرہ۔۔ نہ جانے کتنے الفاظ استعمال کیے ہیں جو ہندی اور خالص ہندوستانی ہیں ؎
مٹے ظلمت جہاں کی نور کا ’تڑکا‘ ہو عالم میں
نقابِ روئے انور اے مرے خورشید اب سرکا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عرشِاعظم پر پھریرا ہے مرے سرکار کا
بجتا ہے کونین میں ’ڈنکا‘ مرے سرکار کا
کاٹ کر یہ خود سر میں گھس کے ’بھیجا چاٹ‘ لے
کاٹ ایسا ہے تمہاری ’کاٹھ‘ کی تلوار کا
اس کنارے ہم کھڑے ہیں ’پاٹ‘ ایسا دھار یہ
المدد اے ناخدا ہے قصہ اپنے پار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وا اسی ’بِرتے‘ پہ تھا یہ ’تِتّا‘ پانی واہ واہ
پیاس کیا بجھتی دہن بھی تر نہیں ہر خار کا
پاؤں کیا میں دل میں رکھ لوں پاؤں جو طیبہ کے خار
مجھ سے شوریدہ کو کیا ’کھٹکا‘ ہو نوکِ خار کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دل ذکرِ شریف ان کا ہر صبح و مسا کرنا
دن رات ’جپا‘ کرنا ہر آن ’رٹا‘ کرنا
’سنسار بھکاری‘ ہے ’جگ داتا دَیا‘ کرنا
ہے کام تمہارا ہی سرکار عطا کرنا
دنیا میں جو روتے ہیں عقبیٰ میں وہ ہنستے ہیں
دنیا میں جو ہنستے ہیں ہے ان کو ’کُڑھا‘ کرنا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور صبح کو سرکار سے اس کو ملا نوری صلہ
عمدہ سا ’جھومر‘ پُر ضیا ماہِ عجم مہرِ عرب
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دور ساحل موج حائل پار ’بیڑا‘ کیجیے
’ناؤ‘ ہے ’منجدھار‘ میں اور ناخدا ملتا نہیں
جل رہے ’پھُنک‘ رہے ہیں عاشقانِ سوختہ
دھوپ ہے اور سایۂ زُلفِ دوتا ملتا نہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ آج ’کاہے‘ کی شادی ہے عرش کیوں جھوما
لبِ زمیں کو لبِ آسماں نے کیوں چوما
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تری کفشِ پا یوں سنوارا کروں میں
کہ پلکوں سے اس کو ’بُہارا‘ کروں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’پھوار‘ مستوں پہ ترے ابرِ کرم کی برسے
ساقیا! کھول ذرا حوض کنارے گیسو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دل تپا سوزِ محبت سے کہ سب میل ’چھٹے‘
تپنے کے بعد ہی سونا ’کھرا‘ ہوتا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کَوڑیوں کوڑھیوں کے لیے کوڑھ دور
اچھا ’چنگا‘ وہ خاصا بھلا کر چلے
’کَے‘ صحابی تھے پر تھی یہ ہیبتِ حق
گردنیں سارے کافر جھکا کر چلے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جہاں ہے بے ٹھکانوں کا ٹھکانہ
جہاں شاہ و گدا سب کا ’ٹھیا‘ ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’دیس‘ سے انکے جو اُلفت ہے تو دل نے میرے
اس لیے ’دیس کا جنگلہ‘ بھی تو گانے نہ دیا
’دیس کی دھُن‘ ہے وہی ’راگ الاپا‘ اس نے
نفس نے ہائے خیال اس کا مٹانے نہ دیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خورشید کے سر آپ کے در کی گدائی سے رہا
’سہرا‘ شہا انوار کا ماہِ عجم مہرِ عرب
متذکرۂ بالا اشعارمیں کاٹ، کاٹھ، چاٹ، دھار، پاٹ، کھٹکا، جپا کرنا، رٹا کرنا، دَیا کرنا، کُڑھا کرنا، جھومر، پھُنک، کاہے، منجدھار، ٹھیا۔۔ یہ سب کے سب خالص ہندی الفاظ ہیں۔ اسی طرح نور کا تڑکا ہونا، ڈنکا بجنا، بھیجا چاٹ لینا، بِرتے پہ تِتّا پانی ہونا، جگ داتا دَیا کرنا، سنسار کا بھکا ری ہونا، دیس کا جنگلہ گانا، دیس کی دھُن ہونا، راگ الاپنا، سر پر سہرا ہونا۔۔ یہ سب خالص ہندوستانی محاورے اور ہندی زبان سے اردو میں آئے ہوئے عناصر ہیں۔ جن کو نوریؔ بریلوی نے بڑی خوبصورتی اور تازہ کاری سے اردو اورفارسی لفظیات کی تراکیب کے ساتھ استعمال کیا ہے۔
’’شُبھ گھڑی‘‘ ۔۔ یہ بھی خا لص ہندوستانی تہذیب و تمدن اور کلچر کا لفظ ہے۔ کسی بھی نئے کام کرنے سے پہلے مہورت نکالنا اور اچھا شگون دیکھنا یہاں کی علامت ہے جسے’’ شُبھ گھڑی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نوریؔ بریلوی کا شعر دیکھیں ؎
موت کا اب نہیں ذرا ’کھٹکا‘
زندگی ’شُبھ گھڑی‘ سے پائی ہے
’’بھرن برسانا اور بھرن پڑنا‘‘۔۔ ویسے تو اس سے مراد بارش برسانے کے ہیں۔ لیکن بھرن ہندوستانی رسم و رواج کی ایک علامت بھی ہے۔ راجستھانی راجاؤں کے یہاں یہ رواج تھا کہ جب انھیں کسی درباری یا رعایا کو کوئی شخص خراج و نذر یا ڈالی وغیرہ پیش کرتا تھا تو وہ اسے اس کے منصب اور عہدہ یا اس کی سماجی اور شہری حیثیت کے مطابق اسے بھرن عطا کرتے تھے یعنی ایک طرح سے انعام و اکرام یا خلعتِ فاخرہ سے نوازتے تھے۔
بھرن ایک پیمانہ ہوتا تھا اور دھات کا ایک برتن، جو لگن کی طرح ہوتا تھا اسے بھرن کہتے تھے۔ اسی برتن میں اناج یا زر و جواہر یا کپڑے وغیرہ بھر کر راجستھانی راجے عطا کرتے تھے۔
اسی کو بھرن دینا، یا بھرن برسانایا بھرن پڑنا بھی کہا جاتا تھا ابھی یہ رواج میواڑی راجاؤں میں ہندوستان کی آزادی سے پہلے تک پایا جاتا تھا۔ (۳)
کلامِ نوری میں ’بھرن پڑنا‘ کا استعما ل خاطر نشین کیجیے ؎
سوکھی ہے مری کھیتی پڑ جائے ’بھرن‘ تیری
اے ابرِ کرم اتنا تو بہرِ خدا کرنا
درج بالا تجزیے کے پیشِ نظر دیکھا جائے تو نوریؔ بریلوی نے اپنے کلام میں ایک خالص ہندوستانی رسم و رواج اور ہندوی علامتوں کی جھلک پیش کی ہے۔
اسی طرح ’’دھونی رمانا ‘‘۔۔ آگ کا الاؤ جلا کر سادھووں کی طرح بیٹھ جانا۔ یہ خالص ہندوستانی جوگیوں کا طریقہ ہے۔ اس کا استعمال کلامِ نوریؔ میں یوں ہوا ہے ؎
فقیر آپ کے در کے ہیں ہم کہاں جائیں
تمہارے کوچے میں ’دھونی رمانے‘ آئے ہیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
رشکِ سلطان ہے وہ گدا جس نے
تیرے کوچے میں ’دھونی رمائی‘ ہے
’’ٹیٖکالگانا‘‘۔۔ یہ بھی خالص ہندی و ہندوستانی علامت ہے کہ ہندو مذہب کے مرد و خواتین اپنی پیشانیوں پر سیندور اور صندل وغیرہ کی گول بِندیا لگاتے ہیں جسے ٹیکا کہا جاتا۔ ان علامتوں کا اظہار نوریؔ بریلوی نے اپنی شاعری میں یوں کیا ہے ؎
اس جبہہ سائی کے سبب شب کو اسی سرکار نے
انعام میں ’ٹیکا‘ دیا ماہِ عجم مہرِ عرب
نوریؔ بریلوی نے نعتیہ شاعری میں جس حُسن و خوبی اور حزم و احتیاط کے ساتھ ہندی و ہندوستانی عناصر کے مظاہر پیش کیے ہیں یہ اُن کا خاص انداز، جداگانہ رنگ و آہنگ اور منفرد پیرایۂ بیان ہے۔ نوریؔ بریلوی نے ایک خالص مذہبی شاعر ہونے کے باوجود بھی ہندوستانیت کے جو مظاہر پیش کیے ہیں اور انھیں بڑی مہارت اورسُندرتا سے نبھا یا ہے یہ آپ کے قادر الکلام اور محبِّ وطن شاعر ہونے کی بیّن دلیل ہے۔
پورَبی : ہندوستان کی ریاستِ اُتر پردیش میں دریائے گنگا کے مشرقی علاقے پر آباد لوگوں کی مقامی بولی کا نام ’’پورَبی‘‘ ہے۔
مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی ریاستِ اُتر پردیش کے شہر بریلی کے رہنے والے تھے علاقائی اعتبار سے آپ پر بھی غیر محسوس یا محسوس طور پر پورَبی بھا شا کے اثرات کا مرتب ہونا کچھ بعید نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام میں جہاں عربی کی آمیزش، فارسیت کا رچاؤ، اردو اور ہندی و ہندوستانی عناصر کے مظاہر ملتے ہیں وہیں آپ کی شاعری میں پورَبی بولی کے رنگ و آہنگ بھی جھلکتے ہیں۔ ایک مکمل منقبت جو انھوں نے حضرت پیر سید علاو الدین صابر پیا کلیری علیہ الرحمۃ (م690ھ) کی شان میں تحریر کی ہے وہ مکمل پورَبی بھاشا ہی میں ہے۔ نیز مختلف نعتیہ نظموں اور سلامیہ قصائد میں پورَبی بھاشا کا استعما ل نوریؔ بریلوی نے بڑے اہتمام کے ساتھ کیا ہے۔ جس کی ایک جھلک ذیل میں بلا تبصرہ نشانِ خاطر فرمائیں ؎
ڈگمگ ڈگمگ نیّا ہالے
جیَرا کانپے توئی سنبھالے
آہ دوہائی رحمت والے
تم پر لاکھوں سلام تم پر لاکھوں سلام
تم پر لاکھوں سلام
راجا پرجا آپ کے دوارے
سب ہیں بیٹھے جھولی پسارے
داتا پیارے دولت والے
تم پر لاکھوں سلام تم پر لاکھوں سلام
تم پر لاکھوں سلام
کھیون ہارے کھیون ہارے
بیّاں پکڑلے مورے پیارے
قوت والے ہمت والے
تم پر لاکھوں سلام تم پر لاکھوں سلام
تم پر لاکھوں سلام
عربی، فارسی اور اردو لفظیات کی ترکیبوں کے ساتھ پوربی بولی کا استعما ل نوریؔ بریلوی نے اپنے کلام میں کس درجہ خوش اسلوبی اور حسیٖن و جمیل انداز سے کیا ہے اس کی مزید مثالیں ملاحظہ کرتے چلیں ؎
تم ہو ہمارے ہم ہیں تمہارے
رب کے پیارے ’راج دُلارے‘
عزت والے عظمت والے
صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
صلی اللہ صلی اللہ
ہم ہیں بیٹھے ’تُمرے دوارے‘
اپنی اپنی ’جھولی پسارے‘
داتا پیارے دولت والے
صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
صلی اللہ صلی اللہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ڈولت ہے نیّا موری بھنور میں
مولا تِراؤ اَیکے نجر میں
موری کھبریا مورے پیا لو
موکو بچا لو پیا موکو بچا لو
علاوہ ازیں حضرت مخدوم سیدنا شاہ علاو الدین صابر پیا کلیری علیہ الرحمۃ (م690ھ) کی شان میں نوریؔ بریلوی نے ایک منقبت تحریر کی ہے جو پورَبی بھاشا ہی میں ہے۔ منقبت نشانِ خاطر ہو ؎
کیسے کاٹوں رتیاں صابر
تارے گنت ہَوں سیّاں صابر
مورے کرجوا ہوک اُٹھت ہے
موکو لگالے چھتیاں صابر
توری صورتیا پیاری پیاری
اچھی اچھی بتیاں صابر
چیری کو اپنے چرنوں لگا لے
میں پروں تورے پیّاں صابر
تورے دوارے سیس نواؤں
تیری لے لوں بلیاّں صابر
سپنے ہی میں درشن دکھلا دو
مو کو مورے گُسیّاں صابر
تن من سب توپے وارے
نوریؔ مورے سیّاں صابر
اسی طرح ایک لفظ ہے۔۔ ’’چاندنا‘‘۔۔ جسے حضرت نوریؔ بریلوی نے اپنے کلام میں یوں استعمال کیا ہے ؎
روسیہ ہوں منہ اجالا کر مرا جانِ قمر
صبح کر یا چاندنا مہرِ عجم ماہِ عرب
لفظ ’’ چاندنا‘‘ کو مقالہ نگار شعری ضرورت کے تحت ’’چاندنی ‘‘کی بدلی ہوئی شکل سمجھ رہا تھا لیکن میرے دیرینہ کرم فرما علامہ وقار احمد عزیزی بھیونڈی (جو کہ خود بھی ’’چاندنا کو ’’چاندنی ‘‘ کی بدلی ہوئی شکل سمجھتے تھے) نے اپنا ایک واقعہ سنا یا کہ موصوف ایک مرتبہ راجستھان کے شہر ناگور تبلیغی سفر پر گئے ایک مقام پر رات ہو گئی، آپ لوگوں نے حضرت صوفی حمید الدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کا راستہ وہاں کے مقامی لوگوں سے دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کے یہاں سے نزدیک ہی ہے چلے جائیے، علامہ وقار احمد صاحب کا بیان ہے کہ ہم لوگوں نے کہا کہ ابھی رات ہے تھوڑا رک کر جاتے ہیں، تو ان افراد نے کہا کہ کوئی بات نہیں چلے جائیے ابھی تو تھوڑی دیر میں ’’چاندنا ‘‘ پھیل جائے گا۔ اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ لفظ ’’چاندنا‘ ‘ ۔۔’’چاندنی ‘‘ کی بدلی ہوئی شکل نہیں، بل کہ راجستھان کے ناگور کی علاقائی بولی کا لفظ ہے جو صبحِ صادق کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس امر سے اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے کہ حضرت نوریؔ بریلوی کو عربی، فارسی، اردو اور دیگر علاقائی زبانوں سے کما حقہ واقفیت تھی اور آپ نے اپنے کلام میں شاعرانہ نزاکتوں اور ادیبانہ مہارتوں سے استعمال کیا ہے۔
متذکرۂ بالا جائزے سے یہ بات اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ نوریؔ بریلوی جیسے مذہبی شاعر نے مذہبی و تقدیسی شاعری میں عربی، فارسی اور اردو کے ساتھ ہندی بھاشا اور پورَبی بولی کا بڑی مشّاقی سے استعمال کیا ہے۔ اور اپنے ملک ہندوستان کی رسم و رواج اور یہاں کے مختلف عناصر کو نہایت سلیقہ مندی اور صفائی سے برتا ہے۔ آپ کا یہ انداز اور طرزِ اسلوب اس بات کو بھی واضح کرتا ہے کہ آپ اپنے ملک سے بھی محبت کرتے تھے اور یہ کہ آپ اپنے عہد کے سچے ترجمان تھے۔
(1)اردو ادب میں مشترکہ تہذیب و تمدن: مشمولہ:ماہ نامہ شاعر، ممبئی، شمارہ4، 1966ء، ص33
(2)اردو رسمِ خط بدیسی نہیں : مشمولہ: قومی آواز دہلی، اردو بک سیلرز و پبلشرز نمبر 1982ء
(3)ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی، ڈاکٹر:کلامِ رضا کے نئے تنقید ی زاویے، ادارۂ سُنّی دنیا، بریلی، ص 8
٭٭٭
حمد اُس صنفِ سخن کو کہتے ہیں جس میں کسی شعری ہیئت کے توسط سے خدا کی تعریف و توصیف بیان کی جاتی ہے۔ اردو کے بیش تر شاعروں کی طرح مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کے مجموعۂ کلام ’’سامانِ بخشش1354ھ‘‘کا دروازۂ سخن بھی حمدِ باریِ تعالیٰ سے وا ہوتا ہے۔ مجموعۂ کلام کے شروع میں دو طویل ترین حمدیہ نظمیں بالترتیب 20؍ اور99؍بندوں پر مشتمل ہیں۔ ان نظموں میں عقیدۂ توحید کی ترجمانی ہے۔ عشق و معرفتِ الٰہی کی جلوہ ریزیاں ہیں۔ خداوندِ قدوس جل شانہ‘ کے اسمائے حُسنیٰ کا بیان کر کے صفاتِ خداوندی کا بڑی خوب صورتی اور صفائی سے تذکرہ کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی قرآنی آیات کا بہ کثرت استعمال ہے۔ دونوں حمدیہ نظموں کے مطالعہ کے دوران ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی صوفیِ با صفا قلب و روح کی تطہیر اور پاکیزگی کا کام کر رہاہے۔ حمد پڑھتے وقت ایسا لگتا ہے کہ عشق و معرفتِ ربّانی اور توحیدِ باری تعالیٰ جل شانہ‘ کے نظاروں میں قلب و روح گم ہوتے جا رہے ہیں۔
یہ بات ہر مومن کو ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ توحید کے جملہ تقاضے رسالت کے بغیر نامکمل ہیں۔ اور توحید یہ نہیں کہ صرف خدائے وحدہٗ لاشریک کو اس کی وحدانیت کے جملہ لوازمات کے ساتھ صدقِ دل سے مان کر محبوبانِ خدا، اور پیغمبرانِ خدا سے یک سر منہ موڑ لیا جائے، ابلیسِ لعین اسی نکتے کو نہ سمجھ سکا اور راندۂ درگاہ ہوا۔ اس کا صاف و صریح مطلب یہی ہوا کہ توحید اُسی وقت صحیح اور سچی ہو گی جب رسالت کے جملہ لوازمات کے ساتھ ساتھ وحدانیتِ خداوندی کا اقرار کیا جائے۔
نوریؔ بریلوی اسی توحید کے قائل تھے۔ ایک طرف اللہ کی وحدانیت کا اقرا رتو دوسری طرف رسالت کا اقرار، خود ہی فرماتے ہیں ؎
خدا ایک پر ہو تو اک پر محمّد(ﷺ)
اگر قلب اپنا دوپارا کروں میں
یہی وجہ ہے کہ عشقِ خدا کے ساتھ ساتھ عشقِ رسو ل صلی اللہ علیہ و سلم میں سرشار نوریؔ بریلوی کی علوئے فکر اور اوجِ خیال نے جب پرواز کی تو حمدیہ نظموں میں بھی جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کے ذکرِ جمیل نے جگہ پالی اور اس طرح حمدیہ نظموں میں حمدِ باریِ تعالیٰ کے جملہ لوازمات کو برقرار رکھتے ہوئے مکمل حزم و احتیاط اور سلیقہ و قرینہ کے ساتھ آپ کے قلم نے نعتیہ اشعار بھی نظم کیے جس کی جھلکیاں خاطر نشیٖن ہوں ؎
نور کی تیرے ہے اک جھلک خوب رو
دیکھے نوریؔ تو کیوں کر نہ یاد آئے تو
ان کا سرور ہے مظہر ترا ہو بہ ہو
من رانی راء الحق ہے حق مو بہ مو
اللہ اللہ اللہ اللہ
خوابِ نوریؔ میں آئیں جو نورِ خدا
بقعۂ نور ہو اپنا ظلمت کدا
جگمگا اُٹھے دل چہرہ ہو پُر ضیا
نوریوں کی طرح شُغل ہو ذکرِ ہو
اللہ اللہ اللہ اللہ
اسی طرح اللہ رب العزت نے ہم مسلمانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث فرما کر ہم پر احسانِ عظیم فرمایا اور نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کے نور کو سب سے پہلے بنایا، جب کہ حضرت آدم علیہ السلام آب وگِل کی منزل میں تھے۔ پھر اس نورِ مصطفائی سے عالم کی جملہ اشیا کی تخلیق فرمائی۔ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایسے ایسے فضائل و شمائل عطا فرمائے جو دیگر انبیا کو نہ عطا کیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے نور کی کیفیات آپ کی ولادتِ باسعادت اور بعثتِ اقدس سے قبل کس طرح رہیٖں اور آپ کا نور کہاں کہاں سے ہوتا ہوا بطنِ آمنہ رضی اللہ عنہا میں نزولِ اجلا ل فرمایا ان تمام کا تسلسل کے ساتھ نوریؔ بریلوی نے اپنی دوسری طویل حمدیہ نظم میں بڑی خوب صورتی سے اس طرح ذکر کیا ہے، سلاست و روانی دیدنی و شنیدنی ہے ؎
اپنے کرم سے ربِّ کریم
ہم پہ کیا احسانِ عظیم
بھیجا ہم میں بہ فضلِ عمیم
بحرِ کرم کا دُرِّ یتیم
اپنے مظہرِ اول کو
اپنے حبیبِ اجمل کو
پہلے نبیِ اکرم کو
پچھلے مرسلِ اکمل کو
ایسی فضیلتیں ان کو دیں
جن کا مثل امکاں میں نہیں
روحِ روانِ خلدِ بریں
نخلِ جہاں کے اصلِ متیں
نائبِ حضرتِ حقِّ متیں
شاہنشاہِ چرخ و زمیں
والیِ تختِ عرشِ بریں
راحتِ جان و قلبِ حزیں
موجِ اول بحرِ قدم
موجِ آخر بحرِ کرم
سب سے اعلا اور اعظم
سب سے اولا اور اکرم
نور سے اپنے پیدا کیا
نورِ حبیبِ ربِّ عُلا
پھر اس نور کے حصے کیے
ان سے بنایا جو ہے بنا
قالبِ آدم خلق کیا
روح در آئے حکم ہوا
روح در آئی جب دیکھا
پُتلے میں ہے نورِ خدا
آدم و عالم پیدا ہوئے
نور سے سارے ہویدا ہوئے
جو جو اس پر شیدا ہوئے
رب کے وہی گرویدہ ہوئے
حوّا سے جب آدم کا
عہد مہرِ درود ہوا
آدم سے وہ نورِ خدا
زوجہ کو تفویض ہوا
پیشانیِ شیث میں آیا
صُلبوں رحموں میں ہوتا
پیشانیِ نوح میں آیا
پھر ایسے ہی آگے بڑھا
طاہر صُلبوں میں ہوتا
پاک ارحام میں رہتا ہوا
ہونا چاہا جلوہ نما
بطنِ آمنہ میں آیا
٭٭٭
رباعی اس نظم کو کہتے ہیں جس میں صر ف چار مصرع ہوں، پہلا، دوسرا اور چوتھا ہم قافیہ ہو، دوسرا شعر خصوصاً چوتھا مصرع نہایت بلند اور حاصلِ کلام ہو، تاکہ سننے والا متحیراور متاثر ہو جائے۔ یوں تو چار مصرعوں میں ایک ہی مضمون قطعہ میں بھی بیان کیا جاتا ہے لیکن چار مصرعوں کے قطعہ کے لیے کوئی عروضی وزن مخصوص نہیں جب کہ رباعی بحرِ ہزج کے چوبیس مخصوص اوزان میں کہی جاتی ہے۔ وزن کی قید کے باوجود رباعی میں اتنا تصرف جائز ہے کہ ایک ہی رباعی میں چاروں مصرعے چوبیس میں سے چار مختلف اوزان لے کر کہے جا سکتے ہیں۔ عروضیوں نے قرآنی آیت ’’لاحول ولا قوۃ الا باللہ ‘‘ کے وزن کو بھی رباعی کا وزن قرار دیا ہے۔
رباعی اور غزل کے موضوعات میں فرق صرف دو اور چار مصرعوں میں بیان کرنے کا ہے اگرچہ رباعی میں یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ اس کا چوتھا مصرع ’’زور دار‘‘ ہو یعنی اس میں خیال کی بلندی پائی جائے کہ سننے والا متحیر اور متاثر ہو جائے۔
رباعی کی ایجاد کا سہرا فارسی شاعر رودکیؔ کے سر باندھا جاتا ہے۔ عمر خیامؔ نے صرف رباعیاں کہی ہیں جن کے سبب مشہورِ عالم شعرا میں اس کا شمار ہونے لگا۔ اردو میں یہ صنفِ شعر ابتدا ہی سے موجود ہے اور اس پر طبع آزمائی استادِ فن ہونے کے مترادف خیال کی جاتی ہے۔ میرؔ ، سوداؔ ، ناسخؔ ، انیسؔ ، دبیرؔ ، غالبؔ ، مومنؔ اور ذوقؔ سے لے کر امجدؔ ، جوشؔ ، فراقؔ ، یگانہؔ ، اکبرؔ ، اقبالؔ ، فانیؔ ، اخترؔ ، سہیلؔ اور رواںؔ وغیرہ شعرا نے رباعیاں کہی ہیں۔ ہمارے شعرا نے نعتیہ موضوعات کے اظہار کے لیے رباعی کا بھی سہارالیا چناں چہ اس میں نعتیہ کلام بہ کثرت ملتے ہیں۔
نورؔ ی بریلوی نے جہاں حمدیہ نظموں میں نعتیہ اشعار لکھے اور غزل و قصیدے کے فارم میں نعتیں لکھیں۔ وہیں آپ نے صنفِ رباعی میں بھی نعت گوئی کے جوہر بکھیرے ہیں۔ صنفِ رباعی میں لکھے گئے آپ کے نعتیہ کلام کے نمونے ذیل میں خاطر نشین ہوں ؎
دنیا تو یہ کہتی ہے سخن ور ہوں میں
ارے شعَرا کا سرور ہوں میں
میں یہ کہتا ہوں یہ غلط ہے سوبار غلط
سچ تو یہ ہے کہ سب سے احقر ہوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بدکار ہوں مجرم ہوں سیہ کار ہوں میں
اقرار ہے اس کا کہ گنہ گار ہوں میں
بہ ایں ہمہ ناری نہیں نوری ہوں حضور!
مومن ہوں تو فردوس کا حق دار ہوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
منظورِ نظر ہے بس ثنائے سرکار
جانِ دوجہاں کی جو ہیں سرِ ہر کار
نوریؔ کافی ہے دوجہاں میں مجھ کو
مقبول اگر ہوں ان کو مرے افکار
۔۔۔
گل ہائے ثنا سے مہکتے ہوئے ہار
ہیں سقمِ شرعی سے منزہ اشعار
دشمن کی نظر میں نہ کھٹکیں کیوں کر
ہیں پھول مگر ہیں چشمِ اعدا میں خار
٭٭٭
قطعہ کے معنی ٹکڑے کے ہوتے ہیں اصطلاحاً قصیدے یا غزل کی طرح مقفّا چند اشعار جن کا مطلع نہیں ہوتا اور جن میں ایک ہی مربوط خیال پیش کیا جاتا ہے۔ یعنی قطعہ نظم نگاری کی ایک ہیئت ہے۔ قطعے میں کم سے کم دو اشعار ہونے چاہئیں زیادہ کی تعداد مقرر نہیں۔ اردو میں اقبالؔ ، چکبستؔ ، سیمابؔ اور جوشؔ وغیرہ کے قطعے مشہور ہیں۔ شعرا نے قطعہ میں بھی نعتیہ موضوعات کو برتا ہے۔ نوریؔ بریلوی نے غزل، مسدس، رباعی، قصیدہ کی طرح قطعہ کے فارم میں بھی مدحتِ سرکار صلی اللہ علیہ و سلم کے گل بوٹے بکھیرے ہیں نشانِ خاطر کیجیے صنف قطعہ میں نوریؔ بریلوی کا کلام ؎
کفشِ پا ان کی رکھوں سر پہ تو پاؤں عزت
خاکِ پا ان کی ملوں منھ پہ تو پاؤں طلعت
طیبہ کی ٹھنڈی ہوا آئے تو پاؤں راحت
قلبِ بے چین کو چین آئے تو جاں کو راحت
٭
پیشِ نظر باب میں کلامِ نوریؔ بریلوی کا بالتفصیل تحقیقی جائزہ لیتے ہوئے آپ کے کلام کے مختلف شعری و فنّی محاسن کو تحقیق کی روشنی میں اُجاگر کرنے کی حقیر سی کوشش کی گئی ہے۔ اس باب میں آپ کے دور میں نعت گوئی کے معیار اور اُس کی عام روش سے بحث کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ نوریؔ بریلوی نے اپنے عہد کے دیگر شعرا سے اثرات قبول تو کیا ہے لیکن آپ کا انداز اُن حضرات سے قدرے مختلف معنویت کے ساتھ ساتھ سادگی سے پُر ہے۔ اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ آپ کو نعت گوئی ورثے میں ملی اور یہ کہ آپ کا تصورِ عشق، تصورِ فن پر غالب تھا۔ دراصل آپ نے عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کے اظہار کے لیے نعت گوئی کو وسیلہ بنایا۔ آپ علم و فضل اور زہد و ورع کے لحاظ سے اپنے دور کے علما میں نمایاں مقام رکھتے تھے آپ کے یہاں علم و فضل کی گیرائی اور جذبے کی صفائی کے سبب عقیدۂ توحید ورسالت کے اظہار میں کذب آمیز مبالغہ آرائی کے بجائے حزم و احتیاط کا ایک سمندر موج زن ہے۔
آپ کے کلام میں زبان و بیان کی سادگی، شکوہِ الفاظ، بے ساختگی و برجستگی، بندشوں کی چُستی، طرزِ ادا کا بانکپن، جدّت طرازی، خیال آفرینی، معنوی پُرکاری، نت نئی ترکیب سازی، شاعرانہ پیکر تراشی، لسانی و عروضی چاشنی، اثباتِ مضمون و دعوا، گیتوں کی لفظیات، تشبیہات و استعارات، کنایات و علامات، محاکات و محاورات، صنائع و بدائع، تغزل کا رنگ و آہنگ، مشکل زمینوں اور موضوعات کا استعمال، ایجاز و اختصار، تفکر و تخیل، حقیقت نگاری، عربی، فارسی اور اردو کے ساتھ ساتھ ہندی اور پورَبی زبان کی آمیزش اور رچاؤ نیز قرآن و حدیث، فقہ و تفسیر جیسے علوم و فنون کی رنگا رنگی وغیرہ شعری و محاسن موجود ہیں جو آپ کی قادرالکلامی کو نمایاں کرتے ہیں۔
٭٭٭
گذشتہ ابواب میں تحقیق کی روشنی میں اس بات کو واضح کیا جا چکا ہے کہ مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کی شاعری کسبی نہیں وہبی تھی۔ آپ امام احمد رضا محدثِ بریلوی کے فرزند اصغر تھے۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ امام احمد رضا بریلوی کا خانوادہ اکنافِ عالم میں عدیم المثال حیثیت رکھتا ہے۔ ایسے کیف پرور، روح افزا، نور بار اور ایمان افروز ماحول میں پروان چڑھنے والے مفتیِ اعظم علامہ مصطفیٰ رضا نوریؔ بریلوی کے قلب و روح میں عشق و ادبِ رسولصلی اللہ علیہ و سلم کے جذبۂ خیر کا پیدا ہونا لازمی امر تھا۔ حضرت نوریؔ بریلوی کو اپنے والد ماجد سے ورثے میں جہاں علم و فضل، زہد و ورع، صبر و رضا اور علومِ شریعت و طریقت کے نایاب گوہر حاصل ہوئے وہیں عشقِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و سلم کی دولتِ عظمیٰ بھی حاصل ہوئی۔ آپ نے علم و فضل اور جذبے کی صداقت و سچائی اور عشق و محبت کی و الہیت کی حسین و جمیل آمیزش سے میدانِ نعت میں قدم رنجہ کیا اور اپنے عشق کے اظہار و اشتہار کے لیے نعتیہ شاعری کا سہارا لیا۔ اپنے مرشدِ باوقار سید المشائخ سید شاہ ابوالحسین نوریؔ میاں مارہروی کی نسبت سے آپ نے ’’نوریؔ ‘‘ تخلص اختیار فرمای ا۔
حضرت نوریؔ بریلوی کی زندگی انتہائی مصروف ترین تھی۔ تدریسی ذمہ داری، افتا نویسی، تصنیفی سرگرمیاں، وعظ و نصیحت کے لیے تبلیغی اسفار، مریدین و متوسلین کے تزکیۂ نفس اور طہارتِ قلبی کی مجالس کی آراستگی، جیسی گوناگوں اور متنوع مصروفیات کے باوجود آپ نے اتنا وقت نکال ہی لیا کہ دنیائے شعر اودب کو ’’سامانِ بخشش‘ ‘ کے نام سے ایک عظیم مجموعۂ کلام دے ہی دیا۔
آپ کے مجموعۂ کلام میں شامل بیش تر نعتیں سادہ زمینوں اور آسان بحروں میں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود شعری و فنی محاسن سے لبریز۔۔ صنائع لفظی و معنوی، مراعا ۃ النظیر، استعارات، تشبیہات، علمی نکات، تلمیحات و تلمیعات، محاورات، رعایاتِ لفظی، حسنِ تکرار، استعارہ بالکنایہ، مجازِ مرسل، سہلِ ممتنع، برجستگی، زورِ بیان، لطفِ زبان، عربی و فارسی زبان کی آمیزش اور رچاؤ، ہندی و ہندوستانی عناصر، تراکیب سازی اور شاعرانہ پیکر تراشی وغیرہ سے آراستہ ایک نگار خانۂ رقصاں ہے۔
نوریؔ بریلوی کی شاعری خیالات کی بے راہ روی، افراط و تفریط اور غلو و اغراق سے کوسوں دور مقامِ الوہیت اور منصبِ رسالت کے واضح فرق کا بیان کرتی ہے۔ عشقِ رسول میں با ادب وارفتگی، حقیقت نگاری، جذبات کی سچائی و صفائی اور بیان کی تاثیر و شیرینی نے آپ کے کلام کو ایک شاہ کار بنا دیا ہے۔
نوریؔ بریلوی کے شعری ومحاسن، آپ کے کلام، رنگ و آہنگ، حُسن و خوبی اور نعتیہ رُجحانات، خیالات اور افکار پر اہلِ علم و دانش نیز شاعروں، ادیبوں اور محققین و ناقدین نے اپنے گراں قدر تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے آپ کی شاعرانہ عظمت و رفعت کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے اور آپ کے کلامِ بلاغت نظام کی سراہناکی ہے اور دنیائے شعر و ادب میں آپ کے مقام و منصب اور مرتبے کا تعین کیا ہے۔ نوریؔ بریلوی کی نعت گوئی سے متعلق اہلِ علم و ادب کے تاثرات ذیل میں خاطر نشین کیجیے :
علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری علیہ الرحمہ:
’’علامہ مصطفی رضا خاں مرحوم اپنی ذات میں ایک انجمن اور جامع الصفات انسان تھے علم و ادب پر ان کی گہری نظر تھی اور ایک باکمال ادیب و مصنف ہونے کے علاوہ آپ ایک زبردست شاعر بھی تھے۔ آپ کی نعتیں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ جن کو پڑھنے سننے کے بعد لوگوں پر بے اختیار سوز و گداز کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ‘‘
(ماہ نامہ فیض الرسول، براؤں شریف، نومبر1980ء، ص 30)
علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمۃ:
’’مانی ہوئی بات ہے جس کے پاس علم بھی ہو اور شعر وسخن کی فطرت پر پیدا بھی کیا گیا ہو تو اس کا کلام سونے پر سہاگہ کی حیثیت رکھے گا اور شعر وسخن اس کی گھٹی میں ہو گا یہی حال سرکار مفتیِ اعظمِ ہند کا بھی ہے۔ ‘‘(1)
پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقش بندی مجددی :
(سابق پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج، سکھر، سندھ)
’’مفتی اعظم عالم و عارف، مفتی و فقیہہ اور مدبر و مفکر ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر بھی تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے اشعار میں قدما کا رنگ جھلکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے اشعار میں دل نشینی و دل آویزی ہے۔ ان کا شعری مجموعہ ’’سامانِ بخشش‘‘ بریلی سے شائع ہو چکا ہے۔ ‘‘(2)
ڈاکٹر اخترؔ بستوی :(سابق لکچرر شعبۂ اردو گورکھپور یونیورسٹی، گورکھپور)
’’مفتی اعظم ہند ایک باکمال شاعر بھی تھے اور بلا شبہ ان شعرا میں شامل تھے جن کے لیے قرآن کا ارشاد ہے ’’الا الذین اٰمنوا وعملوالصٰلحٰت و ذکر اللہ کثیرا‘‘۔ شاعری ایک سحر ہے جو مفتیِ اعظم جیسے شاعروں کے ہاتھ میں پہنچ کر ’’سحرِ جلال‘‘ بن جاتی ہے، موصوف کا تخلص ’نوریؔ ‘ ان کے کلام کے وصف کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشعار کی صورت میں ایسے ایسے نوری پیکر تراشنے والے شاعر کے شاعرانہ کمال کو نمایاں کرنا شعر پسندوں ہی کو نہیں شاعروں کو بھی روشن اور تاب ناک راہ دکھانا ہے۔ ‘‘(3)
مفتی مظفر احمد بدایونی داتا گنجوی :
’’آپ کا نعتیہ دیوان’’سامانِ بخشش‘‘ ہے جو نہ صرف عشقِ حبیب کی شعری تصویر ہے بل کہ نعتِ مصطفی علیہ التحیۃ والثنا کا وہ آفتابِ عالم تاب ہے جس سے عشقِ محبوب کی شعاعیں پھوٹ رہی ہیں جو آنکھوں کی راہ سے دل میں اُتر کر کائناتِ حیات کو روشن و منور کر دیتی ہیں۔ آپ کا دامنِ شاعری ایسے جواہر پاروں سے بھرا ہوا ہے جو کہیں اور مشکل سے ملیں گے اس میدان میں جس نے بھی قدم رکھنے کی جسارت کی راہ بھول گیا۔ مگر حضور مفتیِ اعظمِ ہند کا شعور و آگہی چراغِ شریعت کی روشنی اور عشقِ حبیب کے اُجالے میں ان دشوار منازل سے سلامت روی سے گزرا ہے۔ ‘‘(4)
ڈاکٹر طلحہ رضوی برق داناپوری :
(صدر شعبۂ اردو فارسی ویر کنور سنگھ یونیورسٹی، آریا، بہار)
’’آپ نے اپنا تخلص نوریؔ فرمایا، سوا حمد و نعت و منقبت کے اپنی اس وہبی صلاحیتِ شعری وسخن وری کو کبھی بھی استعمال نہ فرمایا، مبدئِ فیاض نے ذہن رسا عطا فرمایا تھا، علوئے فکر و اوجِ خیال میں محصور بالِ جبریل، علم و فضل میں اسلاف کے عکسِ جمیل، جذبۂ عشقِ محمدی صلی اللہ علیہ و سلم سے سرشار گلشنِ حسان و کعب رضی اللہ عنہم کی مستانہ بہار تھے۔۔جہاں تک زبان و بیان اور فنِ شعر و سخن وری کا تعلق ہے حضرت نوریؔ ، ناسخؔ اسکول کے نمائندہ شاعرِ نعت گو ہیں۔ ‘‘(یادگارِ رضا، ممبئی، 2009ء، ص 143/144)
علامہ نسیم بستوی :(سابق پرنسپل جامعہ انوار القران، بلرام پور)
’’حضور مفتیِ اعظم ہند کتاب و سنت کے علوم و معارف پر تو تحقیقی نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ایک کہنہ مشق اور عاشقِ رسول نعت گو بھی تھے۔ آپ کے نعتیہ کلام کا ایک ایک شعر عشقِ رسول کے گہرے دردو سوز میں ڈوبا ہوا ہے ’’سامانِ بخشش‘‘ کے نام سے آپ کا مجموعۂ کلام شائع ہو چکا ہے جو اربابِ علم و نظر و اہلِ دل کی مضطرب روح کا قرار و سکون ہے۔ ‘‘(5)
علامہ یٰس اختر مصباحی :(بانی و مہتمم دار القلم، دہلی)
’’مفتیِ اعظم کی نعتیہ شاعری بھی بڑے پایے کی ہے، اخلاصِ قلب اور عشقِ صادق جو معنوی لحاظ سے نعتیہ شاعری کے اجزائے ترکیبی ہیں وہ آپ کے اندر بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علمِ تفسیرو حدیث، فقہ و افتا اور جملہ علومِ نقلیہ و عقلیہ میں جہاں آپ مرجعِ علما و فضلا تھے، وہیں شعر و شاعری میں بھی آپ نے اپنے تاثرات و وارداتِ قلبی کو الفاظ کے پیکر میں ڈھال کر صنفِ نعت گوئی کو عروج و کمال بخشا ہے، صداقتِ بیان اور سلاستِ زبان کا مشاہدہ کرنا ہو تو ’’سامانِ بخشش‘‘ کا مطالعہ کیجیے اور اپنے ذخیرۂ عشق و عرفان میں اضافہ کیجیے۔ ‘‘(6)
پروفیسر ڈاکٹر فاروق احمد صدیقی :
(صدر شعبۂ اردو بہار یونیورسٹی، مظفر پور، بہار)
’’امام احمد رضا کی شاعرانہ عظمت کا تو سارا زمانہ معترف ہے۔ علامہ حسن بریلوی کی شاعرانہ فتوحات کا چرچا عام ہے۔ لیکن حضور مفتیِ اعظم کی شاعرانہ حیثیت کا عرفان ابھی عام نہیں ہے۔ صرف خواص اہلِ علم وادب ہی آپ کی شش جہت شخصیت کے اس پہلو سے بھی واقف ہیں۔ حضور مفتیِ اعظم کی حمدیہ شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ہر جگہ جمالیاتی حُسن کا احساس ہوتا ہے۔ ایک نرم سیر دریا میں جو خوب صورت فطری بہاؤ کی کیفیت ملتی ہے وہ یہاں بدرجۂ اتم موجود ہے۔ بعض مقامات پر تو شاعری نے ساحری کا روپ دھار لیا ہے اور صاف محسوس ہوتا ہے کہ ع
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نعتیہ شاعر ی سے آپ کا قلبی، روحانی اور ایمانی لگاؤ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ عشقِ رسول کی دولتِ گراں مایہ آپ کے اسلافِ کرام اور اجدادِ عظام سے منتقل ہوتی ہوئی آپ تک پہنچی اور آپ نے بڑی فیاضی اور فراخ دلی کے ساتھ اس کو اللہ کے بندوں تک پہنچایا ہے۔ جس طرح سیدی اعلا حضرت کے بارے میں ہم اہلِ عقیدت کہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ڈال دی قلب میں عظمتِ مصطفی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُن کے بعد آپ پر بھی یہ بات پوری طرح منطبق ہوتی ہے۔ کہ یہی آپ کی حیاتِ پاک کاسب سے اہم مشن اور مقدس نصب العین رہا ہے۔ ایسی ذاتِ محمود الصفات جن کے تقوا و طہارت کی قسم کعبے میں بھی کھائی جا سکتی ہے۔ اس کے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا پوچھنا ہی کیا۔ جب تک دل عشقِ رسول (صلی اللہ علیہ و سلم ) میں بریاں اور آنکھیں ان کے فراق میں گریاں نہیں ہوں اس طرح کے اشعار کارگاہِ فکر میں ڈھل ہی نہیں سکتے۔ ‘‘(7)
مفتی محمد مطیع الرحمن مضطرؔ رضوی :
’’حضور مفتیِ اعظم کی تابندہ ذات نے ہر اُس تاریک قلب کو عشقِ رسول(صلی اللہ علیہ و سلم ) اور خشیتِ الٰہی کی جگمگاہٹ عطا کی جس پر ظلمتوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ آپ کے فتاویٰ میں امام اعظم کا تفقہ فی الدین، امام رازی کا تدقیقی جمال، علامہ شامی کی دقتِ نظر کا پورا پورا کمال موجود ہے۔ آپ نعتیہ شاعری کا مذاق بھی رکھتے تھے آپ کا نعتیہ دیوان عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک مہکتا ہوا گلشن ہے آپ شعر پڑھتے جایئے اور مدینے کی سیر کرتے جایئے آپ کی شاعری میں حضرت حافظؔ کی تڑپ۔ حضرت جامیؔ کا سوز و گداز اور حضرت خسروؔ کا انداز بدرجۂ اتم موجود ہے۔ ‘‘(8)
ڈاکٹر امجد رضا امجدؔ :(ایڈیٹر سہ ماہی رضا بک ری ویو، پٹنہ)
’’حضور مفتیِ اعظم کی شاعری میں علم و فن کی جلوہ گری کے ساتھ عشق و عرفان کی جو سرمستی ہے وہ اردو شاعری میں خال خال ہی کہیں نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری کا علمی، فنّی اور لسانی تجزیہ کرنا ہمارے جیسے کم علم کا کام نہیں۔ ہم نے دو چند جملے لکھ کر صرف یہ تاثر دیا ہے کہ اربابِ علم و ادب اور شعر وسخن کے پارکھ کے لیے ان کی شاعری میں بہت کچھ ہے۔ انھیں اس طرف مائل ہونا چاہیے تاکہ اردو شاعری نئی دریافت سے آشنا ہو اوراس کا وقار و اعتبار بلند سے بلند تر ہو۔ ‘‘(9)
مفتی محمد اشرف رضا صدیقی قادری نوری:
(قاضیِ شریعت ادارۂ شرعیہ مہاراشٹر، ممبئی)
’’حضور مفتیِ اعظم قدس سرہ العزیز کا کلام شیریں بیانی کے اعتبار سے بھی اہلِ زبان کے دیوان میں سکۂ رائج الوقت ہے۔ بلاشبہ اسے اپنے اہلِ زمانہ پر فوقیت حاصل ہے۔ آپ کی زبان کی شگفتگی اور روانی میں ان اساتذہ کی زبان سے جن کو سلاست و سادگی اور محاورہ کے اعتبار سے مسلم مانا گیا ہے کسی طرح بھی کم نہیں۔ ‘‘(10)
مولانا محمد قمر الحسن قمرؔ بستوی :(ہیوسٹن، امریکہ)
’’آ پ کا مجموعۂ کلام ’’سامانِ بخشش ‘‘ کا تجزیاتی جائزہ لیا جائے تو اس میں شعر کی وہ جملہ تاثیرات محسوس کی جا سکتی ہیں جو کسی استاذ الشعرا کے کلام میں پائی جاتی ہیں۔ آپ نے صرف عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے والہانہ جذبہ کو حرزِ جان رکھا اور تا حیات مدحِ مصطفوی کے نغمے لُٹاتے رہے۔ ان کی شاعری کے محرکات داخلی اور خارجی دونوں ہیں مگر داخلیت اس قدر غالب ہے کہ آئینۂ روح کو صیقل کرتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ صنفِ سخن کی اس دل کش اور جاذب سوغات میں زندگی کے وہ لمحات گردش کر رہے ہیں جو علمی مشاغل سے کسی صورت بچا لیے جاتے تھے یا بچ جاتے تھے۔ ہم ان کو ان کی بالاستیعاب شاعری نہیں کہہ سکتے۔ اگر وہ اپنے جملہ اوقات کو شاعری کی طرف مرتکز کرتے تو خدا جانتا ہے کہ کس ذرّ ۂ کما ل پر ہوتی۔ ‘‘(11)
ڈاکٹر سراج احمد بستوی :
(ایم۔ اے۔ پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کانپور یونیورسٹی، کانپور)
’’بڑے بھا ئی مولانا حامد رضا خاں بریلوی کی طرح مولانا مصطفی رضا نوریؔ بریلوی کو بھی نعت گوئی والدِ گرامی مولانا احمد رضا خاں بریلوی سے ورثہ میں ملی تھی۔ آپ ایک خوش نغز نعت گو شاعر تھے اور جمیع اصنافِ سخن میں نعت گوئی کرتے تھے، زبان و اسلوب آپ کو وراثت میں ملا تھا۔ عربی، فارسی، اردو تینوں زبانوں کے ماہر تھے لسانیات پر اچھی دست رس تھی، اپنے پیر و مرشد حضرت سید ابوالحسین احمد نوری مارہروی کی طرف منسوب کرتے ہوئے ’نوریؔ ‘ تخلص اختیار کیا۔ آپ کا نعتیہ دیوان ’’سامانِ بخشش‘‘ مختلف مطابع سے متعدد بار شائع ہو کر اربابِ سخن سے دادِ سخن وصول کر چکا ہے۔ ‘‘(12)
پروفیسر عبدالمغنی جوہرؔ بلیاوی :
(ایم۔ اے۔ ڈپ ان ایڈ، جمشید پور)
’’کسی شاعر کی سب سے بڑی شناخت اس کی اپنی آواز ہوتی ہے۔ آپ کی آواز اعلیٰ حضرت، شاہ حسنؔ اور دوسرے نعت گو شعرا سے مختلف ہے، جہاں تک نعتیہ مواد کا تعلق ہے مفتیِ اعظم کی شخصیت برِ صغیر میں آفتابِ علم و کمال کی حیثیت رکھتی تھی، قرآن، حدیث، تفسیر، فقہ اور دیگر علوم کے علاوہ فلسفۂ اسلامی اور عقائدِ دینی پر اُن کی گرفت بڑی مضبوط تھی۔ علومِ مشرقیہ کے باریک سے باریک نکات اُن پر واضح تھے نتیجے کے طور پر عشق کی آنچ نے جہاں جذبے کو مہمیز کیا وہیں تبحرِ علمی نے احتیاط کو راہ دی، اور پھر ان دونوں کی آمیزش نے مفتیِ اعظم کے کلام کو سادگی اور معنوی حُسن عطا کیا، عشقِ مصطفی(صلی اللہ علیہ و سلم ) سے سرشار دل کی آواز میں پاکیزگی، لطافت اور دلوں کو منور کر دینے والی وہ کیفیت ہے جو ایک صاحبِ دل بزرگ کے دلِ گداز کا پتہ دیتی ہے۔ ‘‘(13)
ڈاکٹر قمر الہدیٰ فریدی :
( شعبۂ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ)
’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر طریقت کی بزم میں قدم رکھا۔ شریعت نے ’مفتیِ اعظم‘ کے لقب سے نوازا۔ فضلِ خداوندی نے طالبانِ حقیقت کا قبلۂ مقصود بنا دیا۔۔ اور دردِ دل نے وادیِ شعر وسخن میں گلشنِ نعت کی نازک کلیاں چننے کا بے انتہا خوب صورت طریقہ و سلیقہ بخش دیا۔۔ نوریؔ تخلص اختیار فرمایا۔۔ اور عشق و اخلاص کی دل کش چاندنی میں بیٹھ کر سدابہار نغمے گنگنائے۔ ۔۔‘‘(14)
ڈاکٹر غلام مصطفی نجم القادری :
( ایم۔ اے۔ پی۔ ایچ۔ ڈی۔ میسور یونیورسٹی، کرناٹک)
’’حضور مفتیِ اعظم کی عبقری شخصیت، متحرک ذہنیت، جدید تخیل کی علم بردار، قدیم طرزِ فکر کی آئینہ دار ہے۔ آپ نے بھی اپنے اصول و ایقان کی روشنی میں ایک فصیح و بلیغ و جدید کلام دنیا کو پیش کیا ہے، اور اپنی بانکی طبیعت سے گلشنِ شعر وسخن میں جذبۂ محبت اور ولولۂ عقیدت کا ایسا کشادہ منفرد اور پُر شکوہ تاج محل تعمیر کیا ہے جس کی خوب صورتی، فن کاری، نئے نئے نقش و نگار، اور انوکھے بوٹے دیکھ کر لوگ غرقِ حیرت ہیں۔ آپ کی شاعری میں طلاقتِ لسانی، سلاستِ زبانی، طرزِ ادا کی دل آویزی، اسلوبِ بیان کی دل کشی، اور مضامین کی روانی و شگفتگی بہ درجۂ اتم موجود ہے، اور جو خوبی جہاں ہے وہیں سے متوجہ کرتی، دامنِ دل کھینچتی اور پکار کر کہتی ہے کہ ’جا ایں جاست‘۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ کے بعض اشعار تو ایسے ہیں کہ عارفِ رومیؔ کا نشۂ عرفانی۔۔ جامیؔ کی سرمستی و بے خودی۔۔ امیرؔ خسرو کی عشوہ طرازی۔۔ حافظؔ کی منظر کشی۔۔ سعدیؔ کے جدتِ تخیل کی بو قلمونی۔۔ اور اس پر امام الکلام، شاہِ سخن امام احمد رضا خاں علیہم الرحمۃ والرضوان کے ندرتِ تخیل کی عطر بیزی سونے پر سہاگہ کی بہار دکھا رہی ہے۔۔ ‘‘(15)
انوار محمد عظیم آبادی (ادیب و صحافی ) :
’’موضوعاتی حُسن و تقدس اور تنوعات کے دوش بہ دوش حضرت نوریؔ بریلوی کی شاعری میں سادگی، معنوی پُرکاری، زورِ بیان، اثباتِ مضمون و دعوا جیسے اوصاف بھی جا بہ جا دیکھے جا سکتے ہیں، مزید برآں ’’سامانِ بخشش ‘‘ کے اشعار میں حضرتِ رضاؔ کی لفظیاتِ شاعری سے استفادہ کا ہنر، زیورات کے تلازمے سے کام لینے کی فن کاری، گیتوں کی لفظیات، ہندی الفاظ کا برجستہ استعمال نیز سوالیہ انداز کی معنویت، بیان کی جامعیت اور خیال آفرینی کی حسیٖن مثالیں بھی بہ کثرت موجود ہیں اتنا ہی نہیں بل کہ بعض اشعار میں حضرت نوریؔ بریلوی کے یہاں ’’خود گفتہ تضمین ‘‘ کی کیفیت بھی عجیب لُطف دے جاتی ہے ’’سامانِ بخشش‘‘ کے عالی مرتبت شاعر کا کلام پڑھتے ہوئے یا نقل کرتے ہوئے جس طرح علاماتِ قرأت کا خاص لحاظ رکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ حضرت نوریؔ کی شاعری ’’نزاکتِ زبان‘‘ کی شاعری ہے اوراس اعتبار سے وہ بلاشبہہ ’’لہجے کے شاعر ‘‘ کہے جانے کا استحقاق رکھتے ہیں۔ ‘‘(16)
ڈاکٹر ارشد علی خاں (قنّوج) :
’’نعتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں آپ(نوریؔ بریلوی ) نے اس بات کاخاص خیال رکھا ہے کہ رسول(صلی اللہ علیہ و سلم ) کی عظمت ان کی شان کے عین مطابق رہے اور تعریف میں اللہ سے بڑھ کر کوئی بات نہ کہی جائے آپ کی شاعری میں بے حد آسان لہجہ ہے۔۔۔۔۔ نعت گوئی میں رنگِ تغزُّل کا پیدا کرنا اردو شاعری کا ایک کمال ہے آپ کے کلام میں یہ خوبی بھی موجود ہے آپ کے اندازِ بیان میں شگفتگی، لہجہ میں نرمی، ترنم، محبوبانہ شوخی بھی موجود ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘(17)
صاحب زادہ سید وجاہت رسول قادری :
(ادارۂ تحقیقاتِ امام احمد رضا انٹر نیشنل، کراچی)
’’ مفتیِ اعظم مولانا مصطفی رضا نوریؔ بریلوی علیہ الرحمۃ بلند ذوقِ شعر و ادب کے حامل تھے اور یہ ملکہ آپ کو اپنے والدِ ماجد سے وراثت میں ملا تھا۔ آپ کا شمار اپنے وقت کے استاذ شعرا میں ہوتا ہے۔ آپ نوریؔ تخلص فرماتے تھے، آپ نے شاعری کو عشقِ مجازی کے بجائے عشقِ حقیقی کا ذریعۂ اظہار بنایا اور اس کے تمام موضوعات و اصناف مثلاً: حمد، نعت، منقبت، غزل، قطعات، رباعیات پر قلم اُٹھایا۔ اس اعتبار سے آپ کی شاعری آفاقی، اصلاحی اور پیغاماتی ہے اور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ کے بے پناہ عشق کا مظہر ہے۔ آپ کے اشعار میں آپ کے والدِ ماجد رضاؔ بریلوی کی طرح دل نشینی، دل آویزی، نغمگی، برجستگی اور تغزل کا رنگ ہے۔ آپ نے اپنی نعتوں میں مضامین و الفاظ، استعارات و تلمیحات کے استعمال میں خاص احتیاط برتی ہے اور متقدمین علما و صوفیہ شعرا کی روایت پر نظر رکھی ہے۔۔۔ آپ کی شاعری کے زیر و بم میں جہاں رضاؔ بریلوی طرح قرآن و حدیث، فقہ و تفسیر اور تصوف کی چاشنی پنہاں ہے وہیں حسنؔ بریلوی کی طرح کلام میں معنی آفرینی کے ساتھ شکوہِ الفاظ، بے ساختگی، برجستگی، بندشوں کی چستی اور زبان کی سادگی بھی نظر آتی ہے۔ ‘‘(18)
مولانا مبارک حسین مصباحی :
(مدیرِ اعلیٰ ماہنامہ اشرفیہ، مبارک پور، اعظم گڑھ)
’’ہاں تو ذکر تھا تاج دارِ اہلِ سنت مفتیِ اعظم کی شخصیت و فکر کا۔۔ وہ صرف پیر اور فقیہ ہی نہیں تھے زبان و ادب کے کینوس پر بھی ان کی نظر ہمیشہ تیز رہتی تھی وہ خود بھی عظیم شاعر اور نثر نگار تھے۔ وہ روہیل کھنڈ کے ادبی دبستان کے بھی تاج دار تھے، ان کی تصانیف علمی، استدلالی اور تحقیقی اسلوب کا شاہ کار ہیں، ان کی لسانی اصلاحات بجائے خود ایک مستقل موضوع ہے، آپ کی نعتیہ شاعری کا نمایاں وصف یہ ہے کہ جس میں ’’دبستانِ رضا ‘‘ اور ’’دبستانِ حسن‘‘ کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے، میرے اس زاویۂ فکر پر ہزاروں صفحات روشن کیے جا سکتے ہیں۔ ‘‘(19)
مفتی ولی محمد رضوی :
(سربراہ سنی تبلیغی جماعت، راجستھان)
’’حضرت علامہ مصطفی رضا خاں نوریؔ (مفتیِ اعظم) علیہ الرحمۃ والرضوان کے نعتیہ کلام کو بھی ہند و پاک اور دیگر ممالک میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ بلا شبہہ کلامِ مفتیِ اعظم میں عشق و محبت کی چاشنی ہے، صوفیانہ اور عالمانہ رنگ ہے جس کو پڑھنے سے دل و دماغ جھوم جھوم جاتے ہیں۔ آج اہلِ عقیدت و محبت کی مجلسوں میں ان کے نعتیہ اشعار پڑھے جاتے ہیں تو لوگ خوب محظوظ ہوتے ہیں۔ سامانِ بخشش کے نام سے آپ کا نعتیہ کلام بہت پہلے منظرِ عام پر آچکا ہے، بلا شبہہ یہ دیوان نورانی و عرفانی نعتوں سے پُر ہے، نورِ باری سے منور ہے، محبتِ مصطفی سے لبریز ہے۔ شاعر جن مبارک خیالات کا جامع ہے کلام انھیں افکار و خیالات کا مجموعہ ہے۔ مفتیِ اعظم ہند قدس سرہٗ السامی کے بہت سے نعتیہ اشعار مشہورِ زمانہ ہیں۔ ‘‘ (یادگارِ رضا، ممبئی، 2009ء، ص160/ 161)
مولانا مقبول احمد سالکؔ مصباحی :
’’تقدیسِ الوہیت ورسالت، عشقِ رسول (صلی اللہ علیہ و سلم )، رقتِ جذبات اور حقیقت گوئی، حضور مفتیِ اعظم کی شاعر ی کے بنیادی عناصر ہیں، ان کے یہاں کذب آمیز مبالغہ آرائی، سطحی جذبات اور بے باکانہ اظہارِ بیان کی بجائے، جذبات کی سچائی و صفائی اندازِ بیان کی تاثیر اور شیرینی کو فروغ حاصل ہے۔ ‘‘(20)
مولانا اقبال حسین (ایم۔ اے۔ ) :
’’مفتیِ اعظم کی شاعر ی ایک مقصدی شاعری ہے، کامیاب اور مقصدی ادب وہی ہے جو مقصدی ہونے کے باوجود اصول و مطالبات کی پیروی کرتے ہوئے فن کے اعلا معیار پر پورا اترے، مکمل طور پر اچھا شعر وہی ہے جو فن کے معیار پر ہی نہیں زندگی کے معیار پر پورا اترے، مفتیِ اعظم کا کلام زندگی کے معیار پر پورا اترتا ہے اگرچہ اُن کی شاعری مقصدی ہے لیکن فن کے معیار پرہے۔۔ ان کا بیش تر کلام نعتِ رسولِ پاک(صلی اللہ علیہ و سلم ) سے عبارت ہے۔ ‘‘(21)
مولانا غلام جیلانی اورنگ آبادی :
(فاضل جامعہ اشرفیہ، مبارک پور)
’’مفتیِ اعظم ایک متبحر اور باکمال عالم تھے، تبحرِ علمی کے ساتھ انھیں وہ شعری مزاج بھی حاصل ہوا تھا جس میں سادگی، تیکھا پن اور چبھن تھی، جو جذبات کی شدت سے پُر اور احساسات کی لطافت سے معمور تھا۔ شعری ذوق ایسا ملا تھا جو قرآن و سنّت کا آئینہ دار تھا۔ متضاد اوصاف سے کچھ نقش ابھارنا جو اپنے جِلو میں جلوہ ہائے رنگارنگ رکھتا ہو۔ حضرت کے کلام کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ ‘‘(22)
مولاناسید اولادِ رسول قدسیؔ (امریکہ) :
’’مفتیِ اعظم ہند کا محتاط قلم میدانِ نعت گوئی میں بھی قابلِ تحسین ہے کیوں کہ آپ موصوف کا دیوان چھان ڈالیے کہیں بھی آپ کو شرعی سقم مل ہی نہیں سکتا ۔۔ حضور مفتیِ اعظم ہند کے کلام کا ایک مختصر جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہونچتے ہیں کہ موصوف کے کلام میں فکر و فن کی تمام خصوصیات کی تابندگی ملتی ہے اور آپ کا کلام علمِ بدیع، علمِ بیان اور جدید رجحانات کے زاویوں سے بھی جامع نظر آتا ہے۔ گویا آپ کا کلام جہاں فصاحت و بلاغت اور فنی اصطلاحات کا ایک حسین مرقع و سرچشمہ ہے وہیں آپ کے کلام میں ایسا سوزِ عشق ہے جو ایک عارفِ باللہ کے دل کی ا تھاہ گہرائی سے اٹھتا ہے اور آناً فاناً پورے عالم میں پھیل جاتا ہے۔ ‘‘
(ماہ نامہ اعلیٰ حضرت، بریلی، جنوری1992ء، 38)
مفتی محمد توفیق احسنؔ برکاتی مصباحی :
(فاضل جامعہ اشرفیہ، مبارکپور، استاذ الجامعۃ الغوثیہ نجم العلوم، ممبئی)
’’ حضور مفتیِ اعظم ہند علیہ الرحمۃ نے اپنی شاعر ی کے ذریعہ اس فن میں صرف قادرالکلامی کا ثبوت نہ دیا بلکہ اپنے کلام کو شاعرانہ حُسن و رعنائی، لسانی و عروضی محاسن کا بے مثل شاہ کار بنا کر پیش فرمایا اور اربابِ فکر و فن اور وابستگانِ شعر وسخن کے لیے اپنی معتبر اور مستند شاعری کے ذریعہ سامانِ مسرت فراہم کیا، بلا شبہ آپ کے خیالات، درخشندہ تصورات اور دل نشیں تصورات والیانِ شعر و ادب کی قیادت کرتے رہیں گے، اپنے وقت کے استاذ الشعرا تسلیم کرتے ہیں کہ نوریؔ بریلوی فکر و فن، شعر و ادب کے تاجدار تھے، تا دیر آپ کے اشعار گلستانِ ادب میں نغمہ سنجی کرتے رہیں گے۔ ‘‘(23)
(1)ماہ نامہ استقامت: مفتیِ اعظم نمبر، کانپور، ماہ مئی 1983ء، ص 47
(2)محمد مسعود احمد، پروفیسر ڈاکٹر:محدثِ بریلوی، قادری کتاب گھر، بریلی، 1995ء، ص 22
(3)ماہ نامہ استقامت: مفتیِ اعظم نمبر، کانپور، ماہ مئی 1983ء، ص 398/399
(4)ماہ نامہ استقامت: مفتیِ اعظم نمبر، کانپور، ماہ مئی 1983ء، ص 344
(5)ماہ نامہ استقامت: مفتیِ اعظم نمبر، کانپور، ماہ مئی 1983ء، ص 395
(6)یٰٓس اختر مصباحی:تین برگزیدہ شخصیتیں، رضوی کتاب گھر، دہلی، 1993ء، ص 15/22
(7)جہانِ مفتیِ اعظم : رضا اکیڈمی، ممبئی، 2007ء، ص632/633
(9)جہانِ مفتیِ اعظم : رضا اکیڈمی، ممبئی، 2007ء، ص661
(10)جہانِ مفتیِ اعظم : رضا اکیڈمی، ممبئی، 2007ء، ص662
(11)جہانِ مفتیِ اعظم : رضا اکیڈمی، ممبئی، 2007ء، ص652
(12)سراج احمد بستوی، ڈاکٹر:مولانا احمد رضا خاں کی نعتیہ شاعری، کانپور یونیورسٹی، کانپور، 1997ء، ص 48
(13)ماہ نامہ استقامت: مفتیِ اعظم نمبر، کانپور، ماہ مئی 1983ء، ص 182/183
(14)ماہ نامہ استقامت: مفتیِ اعظم نمبر، کانپور، ماہ مئی 1983ء، ص 405
(15)سالنامہ یادگارِ رضا: حضور مفتیِ اعظم نمبر، رضا اکیڈمی ممبئی، 2006ء ص20/21/22
(16)ماہ نامہ نورِ مصطفی : پٹنہ، ج 19، مارچ /اپریل 2006ء، ص 42
(17)ماہ نامہ اعلیٰ حضرت : مفتیِ اعظم نمبر، بریلی، ستمبر/نومبر1990ء، ص176/177
(18)جہانِ مفتیِ اعظم : رضا اکیڈمی، ممبئی، 2007ء، ص358/360
(19)جہانِ مفتیِ اعظم : رضا اکیڈمی، ممبئی 2007ء، ص 33
(20)جہانِ مفتیِ اعظم : رضا اکیڈمی، ممبئی، 2007ء، ص42
(21)ماہ نامہ اعلیٰ حضرت : مفتیِ اعظم نمبر، بریلی، ستمبر/نومبر 1990ء، ص 206
(22)انوارِ مفتیِ اعظم : رضا اکیڈمی، ممبئی، 1992ء ص 68
(23)محمد توفیق احسنؔ برکاتی مصباحی:خانوادۂ رضویہ کی شعری و ادبی خدمات، رضا اکیڈمی، ممبئی، 2008ء، ص52/53
٭٭٭
ماقبل ابواب میں اس بات کی تحقیق کی جاچکی ہے نوریؔ بریلوی اپنے عہد کے علما و مشائخ میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ مرجعِ علما و فضلا ہونے کے ساتھ ساتھ شعر و ادب میں بھی مرکزیت کے حامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کا شاعرانہ اسلوب معاصرین و متاخرین شعرا کے قلب و ذہن کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ چوں کہ آپ کی شخصیت عالمی شہرت کی حامل ہے بہ ایں سبب جہاں معاصر شعرانے آپ اسلوب اور بحروں کو نشانِ منزل کے طور پر مشعلِ راہ بناتے ہوئے آپ کی زمینوں میں طبع آزمائی کیں۔ وہیں بعد کے شعرا بھی آپ کے اسلوب کو اپنے فکر و فن کا محور بنا کر نعتیہ اشعار قلم بند کر رہے ہیں۔ آپ کی زمینوں اور اسلوب کے اتباع میں شعرا مسلسل نعتیں لکھ رہے ہیں۔ بل کہ بعض شعرا نے آپ کی نعتوں پر بڑی خوب صورت تضمینیں بھی لکھی ہیں۔ اسی طرح راقم نے آپ کے ۴۰؍ اشعار پر تشطیر قلم بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہر سال آپ کے سالانہ عرس کے موقع پر آپ کے کسی مصرع کو ’طرح‘ کو طور پر پیش کر کے اس مصرعِ طرح پر شعرائے کرام طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں۔
آپ کی زمینوں کے تتبع میں لکھی گئی نعتوں کا شمار ممکن نہیں۔ ذیل میں آپ کے کلام پر تضمینیں اور آپ کے اسلوب اور زمینوں پر لکھی گئی نعتوں کا ایک مختصر انتخاب نشانِ خاطر کیجیے۔ جس سے نوریؔ بریلوی کی نعتیہ شاعری، ان کے رُجحانات، خیالات اور افکار کی ہمہ گیر مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
حضرت علامہ ریحان رضا خاں رحمانی میاں علیہ الرحمہ(سجادۂ نوریؔ بریلوی)
پڑھوں وہ مطلعِ نوری ثنائے مہرِ انور کا (نوریؔ بریلو ی)
وہ پتھر جس میں اترا نقش تیرے پائے اطہر کا
ہمیں بھی کاش مل جاتا مقدر ایسے پتھر کا
سلامِ عاجزی جب میں کروں گا ان کو تربت میں
فرشتے بوسہ لیں گے میرے لب کا اور مرے سر کا
دو عالم پر حکومت ہے مگر جَو پر قناعت ہے
ہے اندازِ جہاں بانی انوکھا میرے سرور کا
یہ ریحاںؔ دین و سنت کے مہکتے ہیں جدھر دیکھو
نوازش ہے رضا کی اور احساں ان کے منظر کا
مفتی محمد اختر رضا خاں ازہری اخترؔ بریلوی (جانشیٖنِ نوریؔ بریلوی )
(1) پڑھوں وہ مطلعِ نوری ثنائے مہرِ انور کا (نوریؔ بریلوی)
وہ بڑھتا سایۂ رحمت چلا زُلفِ معنبر کا
ہمیں اب دیکھنا ہے حوصلہ خورشیدِ محشر کا
جو بے پردہ نظر آ جائے جلوہ روئے انور کا
ذرا سا منہ نکل آئے ابھی خورشیدِ خاور کا
شہ کوثر ترحم تشنۂ دیدار جاتا ہے
نظر کا جام دے پردہ رُخِ پُر نور سے سرکا
’’ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرشِ نازک تر‘‘
یہاں آتے ہیں یوں قدسی کہ آوازہ نہیں پر کا
ہماری سمت وہ مہرِ مدینہ مہرباں آیا
ابھی کھل جائے گا سب حوصلہ خورشیدِ محشر کا
چمک سکتا ہے تو چمکے مقابل اُن کی طلعت کے
ہمیں بھی دیکھنا ہے حوصلہ خورشیدِ محشر کا
رواں ہو سلسبیلِ عشقِ سرور میرے سینے میں
نہ ہو پھر نار کا کچھ غم نہ ڈر خورشیدِ محشر کا
ترا ذرّہ وہ ہے جس نے کھلائے ان گنت تارے
ترا قطرہ وہ ہے جس سے ملا دھارا سمندر کا
بتانا تھا کہ نیچر ان کے زیرِ پا مسخّر ہے
بنا پتھر میں یوں نقشِ کفِ پا میرے سرور کا
وہ ظاہر کے بھی حاکم ہیں وہ باطن کے بھی سلطاں ہیں
نرالا طَورِ سلطانی ہے شاہوں کے سکندر کا
یہ سُن لیں سایۂ جسمِ پیمبر ڈھونڈنے والے
بشر کی شکل میں دیگر ہے وہ پیکر پیمبر کا
وہ ظلِ ذاتِ رحماں ہیں نبوت کے مہِ تاباں
نہ ظل کا ظل کہیں دیکھا نہ سایہ ماہ و اخترؔ کا(1)
(2) دوجہاں میں کوئی تم سا دوسرا ملتا نہیں (نوریؔ بریلوی )
گر ہمیں ذوقِ طلب سا رہنما ملتا نہیں
راستہ ملتا نہیں اور مدعا ملتا نہیں
جھک کے مہر و ماہ گویا دے رہے ہیں یہ صدا
دو سَرا میں کوئی تم سا دُوسرا ملتا نہیں
اُن سے امیدِ وفا اے دل محض بے کار ہے
اہلِ دنیا سے محبت کا صلہ ملتا نہیں
کس نے تجھ سے کہہ دیا دل بے غرض آتے ہیں وہ
بے غرض نادان کوئی بے وفا ملتا نہیں
دیکھتے ہی دیکھتے سب اپنے بے گانے ہوئے
اب تو ڈھونڈے سے بھی کوئی آشنا ملتا نہیں
لَو لگاتا کیوں نہیں بابِ شہ کونین سے
ہاتھ اُٹھا کر دیکھ تو پھر اُن سے کیا ملتا نہیں
تیرے مَے خانے میں جو کھینچی تھی وہ مَے کیا ہوئی
بات کیا ہے آج پینے کا مزا ملتا نہیں
ساقیا! تیری نگاہِ ناز مَے کی جان تھی
پھیر لی تو نے نظر تو وہ نشہ ملتا نہیں
پینے والے دیکھ پی کر آج اُن کی آنکھ سے
پھر یہ عالم ہو گا کہ خود کا پتہ ملتا نہیں
اخترِؔ خستہ عبث در در پھرا کرتا ہے تو
جُز درِ احمد کہیں سے مدعا ملتا نہیں (2)
٭
سید آلِ رسول حسنین میاں نظمی مارہروی (پیرزادۂ نوریؔ بریلوی)
کرم جو آپ کا اے سیدِ ابرار ہو جائے (نوریؔ بریلوی)
کرم مجھ پر بھی بس اتنا مرے سرکار ہو جائے
بھنور میں ہے پھنسا میرا سفینہ پار ہو جائے
تمنا ہے مری اتنی کہ مرتے وقت بالیں پر
رسول اللہ کا یارب مجھے دیدار ہو جائے
تمھیں ہو شافعِ محشر دعا سن لو غریبوں کی
کہ اُمت کے گنہ گاروں کا بیڑا پار ہو جائے
رہِ محشر ہمارے واسطے آسان ہو آقا
ہر اک منکر کو یہ رستہ شہا دشوار ہو جائے
یہی ہے آرزو آقا بلا لو اب مدینے میں
مزارِ پاک کا نظمی کو بھی دیدار ہو جائے
(سیدآ لِ رسول حسنین میاں نظمی:بعد از خدا، بزمِ برکاتِ آلِ مصطفی، ممبئی، 2008ء، ص 173)
٭
علامہ تحسین رضا خاں محدث بریلوی علیہ الرحمہ خلیفۂ نوریؔ بریلوی
اشارا آپ فرما دیں تو بیڑا پار ہو جائے (نوریؔ بریلوی)
مَے حبِ نبی سے جس کا دل سرشار ہو جائے
وہ دانائے حقیقت واقفِ اسرار ہو جائے
اگر بے پردہ حُسنِ سیدِ ابرار ہو جائے
زمیں سے آسماں تک عالمِ انوار ہو جائے
نظر آئے جسے حُسنِ شہِ کونین میں خامی
الٰہ العالمیں ایسی نظر بے کار ہو جائے
عطا فرمائیے آنکھوں کو میری ایسی بینائی
نظر جس سمت اُٹھے آپ کا دیدار ہو جائے
اگر عکسِ رُخِ سرکار کی ہو جلوہ آرائی
مرے دل کا سیہ خانہ تجلی زار ہو جائے
تمہارا نام لیوا ہے گدائے بے نوا تحسیٖںؔ
کرم کی اک نظر اس پر بھی اے سرکار ہو جائے
(سال نامہ ’’تجلیاتِ رضا‘‘ شمارہ نمبر6، صدر العلماء محدثِ بریلوی نمبر، امام احمد رضا اکیڈمی، بریلی)
٭
علامہ بدرالقادری مصباحی خلیفۂ نوریؔ بریلوی (اسلامک اکیڈمی، ہالینڈ)
(1) تو شمعِ رسالت ہے عالم ترا پروانہ (نوریؔ بریلوی)
دنیا کے گنہ گارو! واللہ نہ گھبرانہ
دربارِ محمد ہے عصیاں کا شفا خانہ
ہنگامۂ محشر میں ہو سر پہ ترا دامن
حیرت کی نظر میں ہو اک صورتِ دیوانہ
امید کرم کی ہے سرکارِ مدینہ سے
پوشیدہ نہیں ان سے کچھ درد کا افسانہ
بے چین ہے دل گویا سینے سے نکلنے کو
ہے پیشِ نظر اپنے محبوب کا کاشانہ
آباد نہیں جو دل آقا کی محبت سے
دل کہیے نہ اُس دل کو ویرانہ ہے ویرانہ
دل ان کا ہے شیدائی سر ان کا ہے سودائی
آنکھوں کے کٹوروں میں ہے اشک کا نذرانہ
مَے خانۂ طیبہ کے مستوں کا یہ عالم ہے
آنکھوں سے لگاتے ہیں خاکِ درِ مَے خانہ
دل میرا ہے گھر ان کا اور راہ گزر آنکھیں
اے پائے کرم اک دن تکلیف تو فرمانہ
گر درد کی لذت ہو خلوت میں بھی جلوت ہو
جس دل میں مکیں ہیں وہ وہ دل ہے خدا خانہ
اس سگ کا مقدر ہے جس کو کہ میسر ہے
گلیوں میں تری جینا در پہ ترے مر جانا
بدرؔ ایک سوالی ہے کاسہ بھی تو خالی ہے
للہ کرم کر دے اے غیرتِ شاہانہ(3)
(2) تیری آمد ہے موت آئی ہے (نوریؔ بریلوی)
اس نے دنیا میں خلد پائی ہے
موت طیبہ میں جس کو آئی ہے
میرے رب کی جہاں خدائی ہے
میرے آقا کی مصطفائی ہے
زُلفِ واللیل یاد آئی ہے
جب گھٹا آسماں پہ چھائی ہے
ہے مقدر کا وہ دھنی جس نے
سبز گنبد سے لَو لگائی ہے
جن میں شامل ہیں تاج والے بھی
میرے آقا تری گدائی ہے
اہلِ ایماں مچل گئے سُن کر
بات جب مصطفی کی آئی ہے
اک نظر دیکھ جائیے آقا
بزم ہم نے بھی اک سجائی ہے
نفسِ ظالم نے مجھ کو لوٹ لیا
یا حبیبِ خدا دہائی ہے
مجھ سے اچھا تو ہے وہ سگ جس نے
تیری گلیوں میں عمر پائی ہے
سارا عالم ہے نام ہی پہ فدا
کیسا اندازِ دل رُبائی ہے
کب سخی کی نظر ہو کیا معلوم
ہم نے در پہ صدا لگائی ہے
فرش تا عرش اُن کا چرچا ہے
شان کیا مصطفی نے پائی ہے
ذوقِ دیوانگیِ عشقِ نبی
رشکِ صد گُونہ پارسائی ہے
قیدِ عشقِ محمدی اے بدرؔ
غمِ کونین سے رہائی ہے(4)
٭
(3) چارہ گر ہے دل تو گھایل عشق کی تلوار کا (نوریؔ بریلوی)
دوستو! دربار ہے یہ سیدِ ابرار کا
ثانی عالم میں نہیں طیبہ کے اس گل زار کا
یہ مدینہ ہے، مدینہ ہے مرے سرکار کا
سیدِ کونین، داتا، احمدِ مختار کا
اس طرف محبوبِ حق ہیں اس طرف یہ ناب کار
اللہ اللہ صرف اک پردہ ہے بس دیوار کا
پہلوے سرور میں ہے شیخین کی آرام گاہ
یہ بھی ہے اعلا نشاں آقا سے ان کے پیار کا
طور کے جلوے نہاں ہیں خاک کے ذرّات میں
مسکنِ پُر نور ہے یہ صاحبِ انوار کا
آستانِ مصطفی پر خلق سمٹی آئے ہے
ہے یہاں ہر روز منظر مصر کے بازار کا
بارگاہِ ناز کے پیاروں کا صدقہ دیں حضور!
ہاتھ پھیلا ہے بھرم رہ جائے اک نادار کا
جس کو جو چاہیں عطا کر دیں خدا کے فضل سے
یہ جہاں سرکار کا وہ بھی جہاں سرکار کا
کارگاہِ خالقِ یکتا میں وہ بے مثل ہیں
ثانی ممکن ہی نہیں قدرت کے اس شہ کار کا
ہے بقیعِ پاک ان کے پیاروں کی آرام گاہ
یہ زمیں پر گوشہ ہے اک جنت الابرار کا
بدرؔ یہ بھی ہے کرم کے سلسلہ کی اک کڑی
اُن کی بزمِ ناز میں چرچا ترے اشعار کا(5)
٭
علامہ مصطفی رضا شبنمؔ کمالی (دربھنگہ )
(1) کرم جو آپ کا اے سیدِ ابرار ہو جائے (نوریؔ بریلوی)
مَے حبِّ نبی سے جس کا دل سرشار ہو جائے
قدم رکھ دے جہاں وہ رشکِ صد گلزار ہو جائے
سند محبوبِ رب کی پائے گا بے شک وہی مومن
نبی کی عظمتوں کو جو علم بردار ہو جائے
یہی روشن علامت ہے یقیناً ایک مومن کی
جہاں توہینِ سرور ہو کھلی تلوار ہو جائے
تلاطم خیز دریا کے تھپیڑے کب تلک آقا
’’اشارا آپ فرما دیں تو بیڑا پار ہو جائے‘‘
کرم کی اک نظر شبنمؔ پہ بھی ہو شافعِ محشر
مصیبت خیز جس دم حشر کا بازار ہو جائے(6)
٭
(2) آئینہ بھی تو تمہیں دیکھ کے حیراں ہو گا (نوریؔ بریلوی)
نورِ ایماں سے وہی مطلعِ تاباں ہو گا
جان و دل سے جو فدائے شہ ذی شاں ہو گا
قدمِ نازِ رسالت کا جو احساں ہو گا
رشکِ فردوس مرا خانۂ ویراں ہو گا
حشر کی دھوپ شبِ ماہ بنے گی اس دم
رُخ پہ سرکار کے گیسو جو پریشاں ہو گا
میرے گھر میں بھی تبسم کا اجالا پھیلے
کب کرم مجھ پہ ترا اے دُرِ دنداں ہو گا
نعتِ سرکار ہے بچپن سے وظیفہ شبنمؔ
میری بخشش کا یہی حشر میں ساماں ہو گا(7)
٭
مرحوم الطاف انصاری سلطان پوری ثم مالیگانوی
(1) قفسِ جسم سے چھٹتے ہی یہ پرّاں ہو گا (نوریؔ بریلوی)
طاعتِ فخرِ رسل سے جو گریزاں ہو گا
کوئی بتلائے مجھے کیا وہ مسلماں ہو گا
فخرِ آدم پہ جو دل و جان سے قرباں ہو گا
روزِ محشر بہ خدا وہ نہ پریشاں ہو گا
عشقِ احمد میں لٹا دے جو متاعِ ہستی
بعدِ مُردن وہ بشر عیش بہ داماں ہو گا
حشر کے روز شہنشاہِ مدینہ کا جمال
جو بھی دیکھے گا وہ انگشت بہ دنداں ہو گا
(2) دوجہاں میں بٹتا ہے باڑا مرے سرکار کا (نوریؔ بریلوی)
ہوں ثنا خواں میں ازل سے احمدِ مختار کا
یعنی آقائے مدینہ سیدِ ابرار کا
کیوں نہ ہو اس ذاتِ اقدس پر دل و جاں سے نثار
جو کہ منظورِ نظر ہے ایزَدِ غفار کا
ٹکڑے کر لیتیں دلوں کے مصر کی سب عورتیں
دیکھ لیتیں گر رُخِ انور مرے سرکار کا
گنبدِ خضرا کی ہو جائے زیارت جو نصیب
درد سب جاتا رہے میرے دلِ بیمار کا
حشر کے دن یارسول اللہ رکھنا کچھ خیال
اپنے اس الطافِؔ بے کس عاجز و لاچار کا( 8)
٭
سید قیصر وارثی (لکھنو)
چارہ گر ہے دل تو گھایل عشق کی تلوار کا (نوریؔ بریلوی)
ذکر اونچا نام میٹھا احمدِ مختار کا
ہے امام الانبیا رتبہ مرے سرکار کا
سامنا ہو جب کسی بیماری و آزار کا
آیتُ الکرسی پڑھو اور نام لو سرکار کا
ہے دلیلِ اختیارِ مصطفی شق القمر
کام انگشتِ رسالت نے کیا تلوار کا
آج بھی بِکتے ہیں آ کر سیکڑوں یوسف جمال
رنگ ہے پہلا سا اب بھی مصطفی بازار کا
یہ زمین و آسماں ان کی عمل داری میں ہیں
چل رہا ہے خلق میں سکہ مرے سرکار کا
ربِّ اکبر نے بنایا ہے نبی کو بے نظیر
لاؤ گے ثانی کہاں سے رب کے اس شہِ کار کا
سُن کے نعتِ مصطفی اہلِ محبت نے کہا
واہ کیا کہنا میاں قیصرؔ ترے اشعار کا(9)
٭
ڈاکٹر صابر سنبھلی (وظیفہ یاب صدر و ریڈر شعبۂ اردو فارسی ایم۔ ایچ۔ (پی۔ جی۔ ) کالج، مرادآباد)
وصف کیا لکھے کوئی اس مہبطِ انوار کا (نوریؔ بریلوی)
ذکر ہونا چاہیے اب سیدِ ابرار کا
اے مسیحا! وقتِ آخر آ گیا بیمار کا
خواب میں ہو جائے نظّارہ رُخِ سرکار کا
ہے بڑا ارمان آقا! طالبِ دیدار کا
ہو گیا بدبخت جو شاتم شہ ابرار کا
مستحق وہ ہو گیا بے شک عذابِ نار کا
اور کیا مانگوں، وہی کافی ہے بخشش کے لیے
ایک ذرّہ مل سکے گر آپ کی پیزار کا
مت الجھ بے کس سمجھ کر، گردشِ ایام دیکھ
میں بھی ہوں اک نام لیوا احمدِ مختار کا
چاہے پڑھ لو چاہے سُن لو دونوں ہے کارِ ثواب
جائے گا ضائع نہ سننا نعت کے اشعار کا
مصطفی کا مرتبہ کم کرنے والا بالیقیں
آخرت میں مستحق ہو گا خدا کی مار کا
گالیوں کے بدلے کی ایمان کی دولت عطا
ہے یہ اک پیارا نمونہ آپ کے کردار کا
اس لیے بھی آپ ٹھہرے رحمۃ للعالمیں
الفت و اخلاص سے بدلہ دیا تلوار کا
کفش دوزانِ نبی میں نام آ جائے مرا
مجھ کو مل جائے جو موقع خدمتِ سرکار کا
حضرتِ نوریؔ میاں کا قول صابرؔ یاد رکھ
’’دونوں عالم پر ہے قبضہ احمدِ مختار کا(10)
سید نجیب اشرفؔ (رائے چور)
خدا بھاتی تری ہر ہر ادا ہے (نوریؔ بریلوی)
شہ دیں صاحبِ جود و سخا ہے
جو مانگا ہے اسی در سے مِلا ہے
رسولِ دوجہاں مشکل کُشا ہے
نبی حاجت روائے بے نوا ہے
خدا نے خلق میں اعلا بنایا
نبیوں میں انھیں اولا کیا ہے
درود اس پر جو والی ہے ہمارا
سلام اس پر جو محبوبِ خدا ہے
کبھی جلوہ رسولِ حق کا دیکھوں
یہ ارمانِ نجیبِ بے نوا ہے(11)
٭
سلطان رضا سلطانؔ (ہالینڈ)
چارہ گر ہے دل تو گھایل عشق کی تلوار کا (نوریؔ بریلوی )
ہے بڑا بعدِ خدا رُتبہ شہ ابرار کا
فرش تا عرشِ بریں شہرہ مرے سرکار کا
ہے انھیں کے دم سے روشن مہر و ماہ و کہکشاں
جلوہ ہر اک شَے میں ہے اس مطلعِ انوار کا
جو مسیحائے دو عالم کا ہو قسمت سے مریض
حال کیا پوچھے کوئی پھر اس حسیٖں بیمار کا
جب بنا میں ان کا دیوانہ تو سب کہنے لگے
’’کام دیوانہ بھی کرتا ہے کبھی ہشیار کا‘‘
ہے دمِ آخر رضائے قادریؔ پہ ہو کرم
ایک مدت سے ہے طالب آپ کے دیدار کا(12)
عبرتؔ قادری سلطان پوری (برادرِ گرامی مرحوم الطافؔ انصاری سلطان پوری)
(1) پیام لے جو آئی صبا مدینے سے (نوریؔ بریلوی)
حیات و موت کا پردہ اٹھا مدینے سے
جڑا ہوا ہے ہر اک سلسلا مدینے سے
چلا وہ امن کا بادل چلا مدینے سے
اٹھی ہے رحمتوں والی گھٹا مدینے سے
حیات نام کو باقی نہ تھی زمانے میں
مِلا ہے جینے کا پھر حوصلا مدینے سے
بہار آ گئی سوکھے ہوئے گلستاں میں
چلی وہ ٹھنڈی ہَوا جاں فزا مدینے سے
نجات پاؤ گے آؤ نجات کی جانب
ہر ایک سمت یہ گونجی صدا مدینے سے
حیاتِ جاوداں واللہ! مِل گئی اس کو
مِلا ہے جس کو بھی جامِ بقا مدینے سے
ہوا سویرا مدینے میں آئے جب آقا
ٹلی ہر ایک بلا مرحبا مدینے سے
کلیجہ پھٹ گیا ظلمت کا چاندنی پھیلی
اٹھی وہ نور کی نوری فضا مدینے سے
چلو مدینہ اے عبرتؔ یہ کوئی کہہ دیتا
پیام لائی ہے بادِصبا مدینے سے(13)
٭
(2) تو شمعِ رسالت ہے عالم ترا پروانہ (نوریؔ بریلوی)
جامِ مَے وحدت ہے اور نور کا پیمانہ
آباد رہے دائم سرکار کا مَے خانہ
رنگینیِ دنیا ہو یا ٹھاٹِ امیرانہ
خاطر میں نہیں لاتا سرکار کا دیوانہ
وہ دوزخ و جنت سے ہو جاتا ہے بے گانہ
سرکار کی اُلفت میں جلتا ہے جو پروانہ
جب گرمیِ محشر ہو اور پیاس کی شدت ہو
کوثر کا مرے آقا اک جام پلا جانا
تورات کے عالم نے انجیل کے ماہر نے
آثار و قرائن سے سرکار کو پہچانا
جھکتی ہے جہاں دنیا الفت سے عقیدت سے
وہ مرکزِ ایماں ہے سرکار کا کاشانہ
جو روزِ قیامت تک جلتی ہی رہے آقا
مرقد کے اندھیرے میں وہ شمع جلا جانا
دیوانے تو ہوتے ہیں دیوانے مگر عبرتؔ
آقا کی اداؤں کا دیوانہ ہے دیوانہ(14)
٭
ثمرؔ بلیاوی، گرولیہ
کرم جو آپ کا اے سیدِ ابرار ہو جائے (نوریؔ بریلوی)
الٰہی مجھ پہ بھی نظرِ کرم اک بار ہو جائے
کہ مجھ کو روضۂ انوار کا دیدار ہو جائے
کوئی صورت نظر آتی نہیں مشکل کُشائی کی
’’اشارا آپ فرما دیں تو بیڑا پار ہو جائے‘‘
جو کھل جائیں مرے خفتہ مقدر کے دریچے بھی
کرم کی اک نظر مجھ پر مرے سرکار ہو جائے
وہ دل جس کو رہی ہے احمدِ مختار سے نسبت
خدا کی نعمتوں سے کیوں نہ وہ سرشار ہو جائے
نچھاور جس نے جان و دل کیے ہیں عشقِ احمد میں
نہ کیوں دوزخ کی اس امّت پہ ٹھنڈی نار ہو جائے
ثمرؔ روزِ ازل سے جامِ وحدت کا ہوں میں پیاسا
کہ دل سیراب مَے سے یا شہِ ابرار ہو جائے(15)
سلیم اختر بلالیؔ (ایم۔ اے۔ گولڈ میڈلسٹ) دربھنگہ
مقبول دعا کرنا منظور ثنا کرنا (نوریؔ بریلوی)
سرکار کی الفت کو دل سے نہ جُدا کرنا
ہر حکم پہ تم چلنا اُن کو نہ خفا کرنا
جب قبر کی منزل میں ہر سمت اندھیرا ہو
محبوبِ خدا رُخ سے اپنے تو ضیا کرنا
پلکوں سے کبھی در کی جاروب کشی کر لوں
بس اتنی تمنا ہے مقبول خدا کرنا
چاہوں کہ رہے ہر دم محشر کی فضا قائم
ہے شرط مگر سر پر رحمت کی گھٹا کرنا
دربارِ محمّد سے ہر ایک کو ملتا ہے
عادت ہی نہیں ٹھہری سرکار کی ’لا‘ کرنا
اک نور کی پھوٹے گی ہر سمت کرن دل میں
سرکار بلالیؔ کا دل غارِ حرا کرنا(16)
محمّد توفیق احسنؔ برکاتی مصباحی، ممبئی
سرِ عرشِ علا پہنچا قدم جب میرے سرور کا (نوریؔ بریلوی)
نظر میں بس گیا ہے جلوہ نبی کے روئے انور کا
بھلا کیا خوف ہو گا عاشقوں کو روزِ محشر کا
جناں کی خوشبو ہم کو اسی چوکھٹ پہ ملتی ہے
یقیناً ہے عجب نقشہ مرے سرکار کے گھر کا
تعالیٰ اللہ ان کے روئے انور کی ہے تابانی
جبھی تو آسماں پہ خوش ہے چہرہ ماہ و انور کا
بسی ہیں بالیقیں رعنائیاں جنت کے باغوں میں
شبِ اسرا جو دیکھا نور ہے محبوبِ داور کا
خدا نے نور سے اپنے انھیں پیدا کیا پہلے
جہاں تو کل کا کل صدقہ ہے اس نورانی پیکر کا
یقیں کر لو نبی مالک ہیں جنت اور کوثر کے
بروزِ حشر پاؤ گے پیالہ جامِ کوثر کا
نبی کے عشق پر ایمان کی بنیاد قائم ہے
یہی ایمان ہے احسنؔ سُنو! صدیقِ اکبر کا(17)
محمّد حُسین مُشاہدؔؔ رضوی(مقالہ نگار)
ان کو دیکھا تو گیا بھول میں غم کی صورت (نوریؔ بریلوی)
دشتِ طیبہ ہے ہمیں گلزارِ ارم کی صورت
یا خدا! اب تو دکھا دونوں حرم کی صورت
حالِ دل کس کو سناؤں آپ کے ہوتے ہوئے
آپ ہی ہم کو دکھائیں گے کرم کی صورت
جس کو ملتا ہے جو ملتا ہے آپ ہی کا صدقہ ہے
آپ نہ چاہیں تو نظر آئے نہ غم کی صورت
آپ چاہیں تو ہو شاخِ شجر پل میں شہا
بے گماں تیز تریں تیغِ دو دم کی صورت
دور ہے ہم سے شہِ کون و مکاں کے صدقے
درد و غم رنج و الم ظلم و ستم کی صورت
درِ اقدس پہ جبیں خم ہو مری، میرے خدا
جس گھڑی سامنے ہو ملکِ عدم کی صورت
از پَے نوریؔ مُشاہدؔ کی دعا ہے مولا
’’اُن کے کوچے میں رہوں نقشِ قدم کی صورت‘‘
محمودؔ ابن فاروق اختر مالیگ
اعلیٰ سے اعلیٰ رفعت والے
بالا با لا سے بالا عظمت والے
سب سے برتر عزت والے
صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
(نوریؔ بریلوی)
میرے آقا اُلفت والے
میرے آقا رحمت والے
میرے آقا شفاعت والے
صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
آپ ’’محمّد‘‘ آپ ہیں ’’احمد‘‘
آپ کے نوح و خلیل اب و جد
سب سے بالا نسبت والے
صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
آپ ہیں ’’صادق‘‘ آپ ہیں ’’طاہر‘‘
آپ ’’مصدق‘‘ آپ ہیں ’’ظاہر‘‘
سچے صدق و صداقت والے
صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
آپ ’’بشیر‘‘ و ’’نذیر‘‘ و ’’حاشر‘‘
آپ ’’منیر‘‘ و ’’نور‘‘ و ’’ناصر‘‘
نصرت والے بشارت والے
صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
چادر میں جب لِپٹا پایا
رب نے ’’مزّمّل‘‘ فرمایا
عزت والے حُرمت والے
صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
’’مجتبیٰ مختار و تہامی‘‘
’’مدَنی عرَبی اور حجازی‘‘
ایسی شان و شوکت والے
صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
آپ ’’امام و عالم و سید‘‘
کوئی نہیں ہے آپ سا جیّد
علم و حلم و حکمت والے
صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
آپ ’’مطیع و مبلغ و آمر‘‘
آپ ’’عزیز و فاتح و ناصر‘‘
غلبہ والے ریاست والے
صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
آپ ’’حکیم و حامد و قاسم‘‘
آپ ’’خلیل و قائم و خاتم‘‘
اعلیٰ و بالا دِرایت والے
صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
آپ ہیں ’’اوّل‘‘ آپ ہیں ’’آخر‘‘
آپ ہیں ’’طیّب‘‘ آپ ہیں ’’طاہر‘‘
پاکی والے طہارت والے
صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم
محمودِؔ عاصی کو بھی آقا
جلدی اپنے در پہ بلانا
رحمت والے شفقت والے
صلی اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیک و سلم (18)
مولانا محمد یونس مالیگ
آہ ! پورا مرے دل کا کبھی ارماں ہو گا (نوریؔ بریلوی)
عشقِ محبوبِ خدا باعثِ ایماں ہو گا
اُن کی اُلفت ہے اگر دل میں، مسلماں ہو گا
جذبۂ وصل اُبھر کر جو فراواں ہو گا
ہم نشیں ! ہجرِ محمّد میں جو گریاں ہو گا
قطرے قطرے سے عیاں نوح کا طوفاں ہو گا
یا الٰہی! کبھی پورا مرا ارماں ہو گا
ختم کس روز سوادِ شبِ ہجراں ہو گا
مہرِ وصل ایک نہ اک دن تو درخشاں ہو گا
راہِ طیبہ کا میسر مجھے ساماں ہو گا
طے مگر سر سے مدینے کا بیاباں ہو گا
تمہیں اللہ نے پیدا ہی کیا ہے یکتا
بے مثالی کی تو حد ہو گئی محبوبِ خدا
ثانی تو ہو گا کہاں آپ کا سایا بھی نہ تھا
مرتبے آپ کے کیا جانے کوئی جز بخدا
مرتبہ آشنا کیسے کوئی انساں ہو گا
کیسے القاب خدا نے دیے شاہا تم کو
کہیں یٰٓس پکارا کہیں طٰہٰ تم کو
لامکاں پر شبِ معراج بلایا تم کو
جو نہ دیکھا تھا کسی نے وہ دکھایا تم کو
دوسرا جس کے تصور سے بھی حیراں ہو گا
یا الٰہی! یہ تمنا ہے دلِ مضطر کی
یوں سما جائیں نگاہوں میں رسولِ عرَبی
دیکھوں جس سمت نظر آئیں مجھے میرے نبی
دل میں ہر وقت سمائی رہے صورت اُن کی
پھر تو محفوظ مرے سینے میں قرآں ہو گا
کیسے یونسؔ نہ رہوں اُن کا ہی مَیں مدح سرا
میرے حامی مرے غم خوار وہی ہیں بخدا
ہم نشیں ! رنج نہیں گو ہوں گرفتارِ بلا
چشمِ حق بیں سے اشارا جو کریں گے آقا
دیکھنا حشر کا دن مجھ پہ بھی آساں ہو گا(19)
تضمینیں
ڈاکٹر صابر سنبھلی(وظیفہ یاب صدر و ریڈر شعبۂ اردو فارسی ایم۔ ایچ۔ (پی۔ جی۔ ) کالج، مرادآباد)
سرِ عرشِ علا پہنچا قدم جب میرے سرور کا (نوریؔ بریلوی)
بہت اعلا ہے صابرؔ مرتبہ محبوبِ داور کا
کھلا جن کے لیے در لیلِ اسرا، چرخِ بے در کا
ہوا مرہونِ منت عرش جن کے پائے اطہر کا
’’سرِ عرشِ علا پہنچا قدم جب میرے سرور کا
زبانِ قدسیاں پر شور تھا اللہ اکبر کا‘‘
کسے معلوم ہے رتبہ حبیبِ ربِّ اکبر کا
کہ سایا تک نہیں تھا آپ کے پُر نور پیکر کا
ہوا معلوم اس سے مرتبہ کچھ کچھ پیمبر کا
’’بنا عرشِ بریں مسند کفِ پائے منور کا‘‘
خدا ہی جانتا ہے مرتبہ سرکار کے سرکا‘‘
نوازا ہے مجھے بے شک مرے مولا کی رحمت نے
کرم مجھ پر کیا ہے حضرتِ قادر کی قدرت نے
بہت ہی یاوری کی ہے مرے رب کی عنایت نے
’’بڑے دربار میں پہچایا مجھ کو میری قسمت نے‘‘
میں صدقے جاؤں کیا کہنا مرے اچھے مقدر کا‘‘
کیا سرکار نے کامل ہزاروں بے کمالوں کو
امارت میں کیا یکتا یتیموں کو ضعیفوں کو
شہنشاہوں سے افضل کر دیا ناچیز بندوں کو
’’نگاہِ مہر سے اپنی بنایا مہر ذرّوں کو
الٰہی نور دن دونا ہو مہرِ ذرّہ پرور کا‘‘
سبھی اصناف سے اعلیٰ ہے درجہ حمدِ باری کا
ہے اس کے بعد کوئی صنف تو نعتِ شہِ بطحا
یہ مجبوری ہے ورنہ نعت کا کاغذ پہ کیا لکھنا
’’طبق پر آسماں کے لکھتا میں نعتِ شہِ والا
قلم اے کاش مل جاتا مجھے جبریل کے پر کا‘‘
خدا کے حکم سے یومِ قیامت جب بپا ہو گا
یہی اک فکر ہے ہر دم کہ مجھ عاصی کا کیا ہو گا
مگر اُس دن شفیع المذنبیں کا آسرا ہو گا
’’خدا شاہد رضا کا آپ کی طالب خدا ہو گا
تعالیٰ اللہ رتبہ میرے حامی میرے یاور کا‘‘
مَیں اُن کے جسمِ اطہر کو کہوں صابرؔ نہ کیوں نوری
حدیثیں کہہ رہی ہیں جب تو پھر میں بھی کہوں نوری
سنو! اس باب میں اک شعر فرماتے ہیں یوں نوریؔ
’’جو آب و تابِ دندانِ منور دیکھ لوں نوریؔ
مرا بحرِ سخن سرچشمہ ہو خوش آب گوہر کا‘‘(20)
انورؔ چغتائی نوری بریلوی
تو شمعِ رسالت ہے عالم ترا پروانہ (نوریؔ بریلوی)
تیرا ہی ثنا خواں ہے گلشن ہو کہ ویرانہ
ہے مست تری دھن میں ہر رنگ کا مستانہ
روشن ہے ترے دم سے محرابِ خدا خانہ
’’تو شمعِ رسالت ہے عالم ترا پروانہ
تو ماہِ نبوت ہے اے جلوۂ جانانہ‘‘
ہر اک تہی ساغر سے خود موجِ شراب اُٹھے
خشکی سے تری چھوٹے صحرا سے سحاب اُٹھے
ماحول کی رنگت سے خوشبوئے گلاب اُٹھے
’’جو ساقیِ کوثر کے چہرے سے نقاب اُٹھے
ہر دل بنے مَے خانہ ہر آنکھ ہو پیمانہ‘‘
دیدِ رُخِ روشن کا ارمان ہے مدّت سے
کیوں اتنا حجاب آخر ہم اہلِ محبت سے
اللہ کو پہچانا ہم نے تری رحمت سے
’’دل اپنا چمک اُٹھے ایمان کی طلعت سے
کر آنکھ بھی نورانی اے جلوۂ جانانہ‘‘
مائل بکرم میں نے دیکھا ہے تجھے جب سے
دل مستِ تمنا ہے اے موجِ عطا تب سے
تو قاسمِ کوثر ہے افضل ہے تو ہی سب سے
’’سرشار مجھے کر دے اک جامِ لبالب سے
تا حشر رہے ساقی آباد یہ مَے خانہ‘‘
داتا ہو کہ منگتا ہو منگتا ہے ترے در کا
سب تیرے وسیلے سے پاتے ہیں مقدر کا
تو مالک و قاسم ہے ہر بحر کا ہر بر کا
’’پیتے ہیں ترے در کا کھاتے ہیں ترے در کا
پانی ہے ترا پانی دانہ ہے ترا دانہ‘‘
اے مہرِ جہاں آرا روشن ہو دلِ نوریؔ
روشن ہو جو ہر ذرّہ روشن ہو دلِ نوریؔ
چمکا دے دلِ انورؔ روشن ہو دلِ نوریؔ
’’آباد اسے فرما روشن ہو دلِ نوریؔ
جلوے ترے بس جائیں آباد ہو ویرانہ‘‘(21)
مولانا محمد ادریس رضویؔ ، کلیان
تو شمعِ رسالت ہے عالم ترا پروانہ (نوریؔ بریلوی)
تو جانِ محبت ہے بندہ ترا دیوانہ
تو بابِ عبادت ہے دل کش ترا خم خانہ
تو شانِ حقیقت اونچا ترا کاشانہ
’’تو شمعِ رسالت ہے عالم ترا پروانہ
تو ماہِ نبوت ہے اے جلوۂ جانانہ‘‘
جو عشق میں جائے جل وہ بن کے کباب اُٹھے
جو پیاس کا مارا ہو وہ پی کے شراب اُٹھے
جو جامِ وفا پی لے وہ کھل کے گلاب اُٹھے
’’جو ساقیِ کوثر کے چہرے سے نقاب اُٹھے
ہر دل بنے مَے خانہ ہر آنکھ ہو پیمانہ‘‘
جاں اپنی چہک اُٹھے عرفان کی علّت سے
حِس اپنی دمک اُٹھے ایقان کی اُلفت سے
رگ اپنی پھڑک اُٹھے ذی شان کی رحمت سے
’’دل اپنا چمک اُٹھے ایمان کی طلعت سے
کر آنکھ بھی نورانی اے جلوۂ جانانہ‘‘
ملتا ہے سکوں دل کو تو اپنے ہی مذہب سے
میں دل کی سناتا ہوں اپنے ہی مخاطب سے
کہتا ہوں غرض اپنی جانِ مسبب سے
’’سرشار مجھے کردے اک جامِ لبالب سے
تا حشر رہے ساقی آباد یہ مَے خانہ‘‘
میں عشق کی کلفت کو دولت نہ کہوں کیسے
میں راہِ محبت پر جم کر نہ رہوں کیسے
میں تیری جدائی کے غم کو نہ سہوں کیسے
’’میں شاہ نشیں ٹوٹے دل کو نہ کہوں کیسے‘‘
ہے ٹوٹا ہوا دل ہی مولا ترا کاشانہ
خالی مری جھولی میں وہ دھرتے نہ دھرتے کچھ
ارمان کے گلشن میں وہ جڑتے نہ جڑتے کچھ
بے تاب کے دامن میں وہ بھرتے نہ بھرتے کچھ
’’وہ کہتے نہ کہتے کچھ وہ کرتے نہ کرتے کچھ‘‘
اے کاش و ہ سن لیتے مجھ سے مرا افسانہ‘‘
رضویؔ کو نہ اب ترسا کر اس کی طلب کی پوری
کچھ بوندِ ولا برسا ہوں جان و جگر نوری
چوکھٹ سے نہ اب سرکا رکھ مجھ سے نہ اب دوری
’’آباد اسے فرما روشن ہو دلِ نوریؔ
جلوے ترے بس جائیں آباد ہو ویرانہ‘‘
(محمد ادریس رضوی، مولانا: سبیل بخشش، غوث الوریٰ اکیڈمی، کلیان، 2007ء، ص 104/114)
تشطیرات
محمد حسین مُشاہدؔ رضوی، مالیگاؤں
’’بختِ خفتہ نے مجھے روضہ پہ جانے نہ دیا‘‘
حالِ دل شاہِ مدینہ کو سنانے کو نہ دیا
جالیِ پاک کو آنکھوں میں بسانے نہ دیا
’’چشم و دل سینے کلیجے سے لگانے نہ دیا‘‘
٭
’’پیا ہے جامِ محبت جو آپ نے نوریؔ ‘‘
اُسی کی طاری رہے جان و دل میں مخموری
ہو جس سے پیدا سروٗر و بہار آنکھوں میں
’’رہے ہمیشہ اُسی کا خمار آنکھوں میں ‘‘
٭
’’تمہارے حکم کا باندھا ہوا سوٗرج پھرے اُلٹا‘‘
اشارے سے تمہارے چاند بھی ہو جائے دو ٹکڑا
کنواں میٹھا، جو چاہو تو شہِ ابرار ہو جائے
’’جو تم چاہو کہ شب دن ہو ابھی سرکار ہو جائے‘‘
٭
٭
’’ثنا منظوٗر ہے اُن کی نہیں یہ مدعا نوریؔ ‘‘
نبی کے عشق و الفت کے ہو تم اک رہِ نما نوریؔ
کہ باغِ نعت کے اک بلبلِ شیریں بیاں تم ہو
’’سخن سنج و سخن ور ہو سخن کے نکتہ داں تم ہو‘‘
٭
’’گرفتارِ بلا حاضر ہوئے ہیں ٹوٹے دل لے کر‘‘
کرم فرمائیے شاہِ مدینہ ہم گداؤں پر
مداوائے غمِ دوراں شہِ خیرالورا تم ہو
’’کہ ہر بے کل کی کل ٹوٹے دلوں کا آسرا تم ہو‘‘
٭
’’خدا خیر سے لائے وہ دن بھی نوریؔ ‘‘
مدینے کی حاصل ہمیں ہو حضوری
دل و جان سب اُس پہ وارا کروں میں
’’مدینے کی گلیاں بُہارا کروں میں ‘‘
٭
’’سرشار مجھے کر دے اک جامِ لبالب سے ‘‘
الطاف و عنایت کا طالب ہوں شہا کب سے
جلووں سے چمک جائے اِس دل کا نہاں خانہ
’’تا حشر رہے ساقی آباد یہ مَے خانہ‘‘
٭
٭
’’جاگ اُٹھّی سوئی قسمت اور چمک اُٹھّا نصیب‘‘
ہیں وہی لاریب! جن و انس کے حاذق طبیب
پل میں رنج و غم مٹا، سب شاہ کے بیمار کا
’’جب تصور میں سمایا روئے انور یار کا‘‘
٭
’’ہے عام کرم اُن کا اپنے ہوں کہ ہوں اعدا‘‘
منکر کو بھی دیتے ہیں رحمت سے دعا آقا
ہے کام شہِ دیں کا سب کو ہی عطا کرنا
’’آتا ہی نہیں گویا سرکار کو ’لا‘ کرنا‘‘
٭
’’قبر کا ہر ذرّہ اک خورشیدِ تاباں ہو ابھی ‘‘
ظلمتِ مرقد میں پھیلے روشنی ہی روشنی
تم جو ہو جلوا نما مہرِ عجم ماہِ عرب
’’رُخ سے پردا دو ہٹا مہرِ عجم ماہِ عرب‘‘
٭
’’اے سحابِ کرم اک بوٗند کرم کی پڑجائے‘‘
سوکھی کھیتی میں جو شادابیاں لے کر آئے
دوٗر ہو جائے ہر اک رنج و الم کی صورت
’’صفحۂ دل سے مرے محو ہو غم کی صورت‘‘
٭
٭
’’نصیب تیرا چمک اُٹھا دیکھ تو نوریؔ ‘‘
مِلی ہے تُربتِ خاکی میں جا کے مسروٗری
وہ اپنا جلوۂ آرا دکھانے آئے ہیں
’’عرب کے چاند لحد کے سرہانے آئے ہیں ‘‘
٭
’’نہ صرف آنکھیں ہی روشن ہوں دل بھی بیٖنا ہو‘‘
بصر کے ساتھ بصیرت مری مجلّا ہو
قرار آئے مری بے قرار آنکھوں میں
’’اگر وہ آئیں کبھی ایک بار آنکھوں میں ‘‘
٭
’’خدا کے فضل سے ہر خشک و تر پہ قدرت ہے‘‘
عیاں زمانے پہ آقا تمہاری شوکت ہے
جو شاخ لڑنے کو دو، تیغ سر بسر ہو جائے
’’جو چاہو تر ہو ابھی خشک، خشک تر ہو جائے‘‘
٭
(1) اختر رضا بریلوی :سفینۂ بخشش، رضا آفسیٹ، ممبئی، 2006ء، ص18 /19
(2) اختر رضا بریلوی:سفینۂ بخشش، رضا آفسیٹ، ممبئی، 2006ء، ص53/54
(3) بدرالقادری مصباحی:بادۂ حجاز، المجمع الاسلامی، مبار ک پور، 1989ء، ص56/57
(4) بدرالقادری مصباحی:بادۂ حجاز، المجمع الاسلامی، مبار ک پور، 1989ء، ص100
(5) بدرالقادری مصباحی:حریمِ شوق، المجمع الاسلامی، مبار ک پور، 1996ء، ص35/36
(6) ماہ نامہ اعلیٰ حضرت: بریلی، شمارہ ماہ جولائی 1999ء، ص 38
(7) ماہ نامہ اعلیٰ حضرت: بریلی، شمارہ ماہ جولائی تا اکتوبر1995 ء، ص 35
(8) شاعرِ اسلام الطاف انصاری سلطان پوری کے پسر زادے مومن وسیم احمد رضوی نے
قلمی نسخہ سے نقل کر کے راقم کو عنایت کی، موصوف راقم کے شکریے کے مستحق ہیں۔
(9) ماہ نامہ اعلیٰ حضرت: بریلی، شمارہ ماہ جولائی 1999ء، ص 38
(10) صابر سنبھلی، ڈاکٹر:دیوانِ صابر، اقرا آفسیٹ پریس، دلّی، 2008ء، ص 30
(11) ماہ نامہ اعلیٰ حضرت: بریلی، شمارہ ماہ نومبر 1997ء، ص 39
(12) ماہ نامہ اعلیٰ حضرت: بریلی، شمارہ ماہ مارچ 2000ء، ص 34
(13) 24؍ اگست2005ء۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ارسال کردہ بنام راقم مورخہ 13؍ جنوری 2006ء
(14) 6 ؍ نومبر2005ء۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ارسال کردہ بنام راقم مورخہ 13؍ جنوری 2006ء
(15) ماہ نامہ اعلیٰ حضرت: بریلی، شمارہ ماہ دسمبر، جنوری 1994-1993ء، ص 36
(16) ماہ نامہ اعلیٰ حضرت: بریلی، شمارہ ماہ دسمبر1990ء، ص 30
(17) ارسال کردہ بنام راقم مورخہ25 ؍ ذی قعدہ 1429ھ
(18) ارسال کردہ بنام راقم مورخہ 15؍ رجب المرجّب 1426ھ بمطہ21؍ اگست 2005ء، بروز اتوار
(19) یونسؔ مالیگ، مولانا:جناں بکف، رضا ریسرچ اینڈ پبلشنگ بورڈ م، مانچسٹر، برطانیہ2000ء، ص 112
(20) صابر سنبھلی، ڈاکٹر:دیوانِ صابر، اقرا آفسیٹ پریس، دلّی، 2008ء، ص 115/116
(21) ماہ نامہ اعلیٰ حضرت : بریلی، مفتیِ اعظم نمبر، ستمبر، اکتوبر 1990ء، ص 90
٭٭٭
مفتیِ اعظم علامہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی کو نعت گوئی ورثے میں ملی والدِ ماجد امامِ نعت گویاں امام احمد رضا محدثِ بریلوی اور عمِ محترم استاذِ زمن علامہ حسن رضا بریلوی اور دیگر شعرائے دبستانِ بریلی کے کلامِ بلاغت نظام اور اجدادسے ملی عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی تڑپ اور لگن کے اظہار کے لیے آپ نے نعتیہ شاعری کو وسیلہ بنایا اور اس میدان میں بے طرح کامیاب و کامران رہے۔ اپنے پیش رو اور معاصر شعرا سے آپ نے اثرات تو قبول کیا لیکن اپنے کلام کو آپ نے سا دگی اور معنوی حسن عطا کرنے میں سہل اور آسان لفظیات کا استعمال کیا۔ کچھ لوگوں نے اسے نشانۂ نقد بناتے ہوئے کہا کہ آپ کے کلام میں غنائیت میں کمی آ گئی ہے اور نثری انداز در آیا ہے۔ جب کہ انھیں جاننا چاہیے کہ ہر عہد اور زمانے کے الگ الگ تقاضے ہوتے ہیں اور شاعر اپنے دور کا ترجمان ہوتا ہے۔ آج غالبؔ ، مومنؔ ، میرؔ ، فانیؔ ، سوداؔ ، ذوقؔ ، انیسؔ ، دبیرؔ وغیرہ یہاں تک کہ اقبالؔ اور حضرت رضاؔ بریلوی کے اشعار بھی فی زمانہ لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں اس کی ایک جامع وجہ تو یہ ہے کہ آج ہماری تعلیم بالکل سطحی انداز سے ہو رہی ہے اسی لیے ان حضرات کے بعض اشعار عسیر الفہم ہوتے جا رہے ہیں جب کہ ان کے دور میں ایسے ہی اشعار قلم بند کرنا وقت کا تقاضا تھا۔ حضرت نوریؔ بریلوی نے اپنے کلام کو سہلِ ممتنع کا نمونہ اورآسان لفظیات کا مرقع بنا کر دراصل انحطاط پذیر تعلیمی معیار کے ہوتے ہم لوگوں پر ایک طرح سے احسان کیا ہے۔ یہ نوریؔ بریلوی کی شاعری کا ایک توصیفی پہلو ہے۔
کلامِ نوریؔ بریلوی کا مکمل تحقیقی و ادبی مطالعہ کرنے کے بعد ماحصل کے طور پر آپ کی شاعرانہ حیثیت اور فنی رفعت و منزلت کو پیشِ نظر باب میں اختصاراً بیان کیا جا رہا ہے۔
یہ بات اہلِ تحقیق کے نزدیک مسلّم ہے کہ شاعری کے محرکات و اسباب داخلی بھی ہوتے ہیں خارجی بھی، کلامِ نوریؔ بریلوی کے مطالعہ کی روشنی میں اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ آپ کی نعت گوئی کے محرکات بھی ان ہی دونوں سے عبارت ہیں۔ جب ہم نوریؔ بریلوی کی شاعری کے ان دونوں پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات واضح ہو جا تی ہے کہ آپ کے یہاں خارجی محرکات کی بہ نسبت داخلی محرکات کا غلبہ ہے۔ اور یہ داخلیت کوئی دوسری شَے نہیں بل کہ نوریؔ بریلوی کو اپنے اسلافِ کرام اور اجدادِ عظام سے ملی ہوئی وہ دولتِ عظمیٰ ہے جسے عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلم کہا جاتا ہے۔
حضور جانِ نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہٖ و سلم کے عشق میں والہانہ وارفتگی و شیفتگی اور فداکارانہ سرشاری و سرمستی نوریؔ بریلوی کی حیات کا سب سے اہم مشن اور مقدس نصب العین رہا ہے خود فرماتے ہیں ؎
ترا ذکر لب پر خدا دل کے اندر
یونہی زندگانی گذارا کروں میں
دمِ واپسیں تک ترے گیت گاؤں
محمّد محمّد(ﷺ) پکارا کروں میں
آپ کے کلام میں عشق و محبت کی جلو ہ سامانیاں اور اُلفت و عقیدت کی ضیا باریاں ہے۔ مگر یہ عشق و محبت مجازی نہیں حقیقی ہے۔ یہ عشق دنیاوی محبوبوں کی طرح بے محابا اور بے باکانہ اظہارِ محبت نہیں کرتا بل کہ یہ عشق صدیق و عمر، عثمان و علی، ابن رواحہ اور کعب و حسان وغیرہ اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم کی خاموش عقیدت و محبت کے نقوشِ تابندہ پر گام زن ہو کر رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ با برکات کے محور و مرکز پر گردش کرتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوۂ حسنہ، اخلاق و کردار، عظمت و رفعت، شمائل و فضائل اور حُسن و جمال کے مختلف پہلوؤں کے رنگارنگ جلوے اور حسین و جمیل گل بوٹے اردو نعت گوئی کی فضائے بسیط میں بکھیر رہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ نعتیہ شاعری عقیدے اور عقیدت کی شاعری ہے۔ یہ سچ ہے لیکن اس کارگاہِ خارا شگاف میں عقیدت کی وارفتگی و شیفتگی اور فدائیت کی سرمستی و سرشاری میں ڈوب کر افراط و تفریط، مبالغہ و اغراق، غلط واقعات، موضوع روایات اور بے جا خیال آرائیوں کی چنداں گنجایش نہیں۔
کلامِ نوریؔ بریلوی کے تحقیقی مطالعہ سے یہی واضح ہوتا ہے کہ آپ کا کلام بھی عقیدے اور عقیدت کا آئینہ دار ہے۔ لیکن آپ کا کلام سیدِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم سے والہانہ اظہارِ عقیدت و محبت اور فداکارانہ سرشاری کے باوجود جملہ سقمِ شرعی، افراط و تفریط، موضوع روایات اور بے جا خیال آرائی سے یک سر پاک و منزہ ہے۔ اس کا اعتراف خود نوریؔ کو بھی ہے کہتے ہیں ؎
گلہائے ثنا سے مہکتے ہوئے ہار
سُقمِ شرعی سے منزہ اشعار
نوریؔ بریلوی نے عقیدت و محبت میں ڈوب کر، عالمِ جذب و شوق کی کیفیات میں بھی جو اشعار کہے ہیں وہ بھی مبالغہ آرائی اور بے جا خیال آرائی سے پاک ہیں۔ آپ کے کلام میں رقّتِ جذبات کے با وصف حقیقت گوئی اور سچائی موجود ہے۔ کذب آمیز مبالغہ آرائی، سطحی جذبات اور بے باکانہ وسوقیانہ اظہار کی بجائے جذبات کی سچائی و صفائی موج زن ہے۔ مزید یہ کہ شعری اور شعوری صداقت پنہاں ہے۔
نوریؔ بریلوی کے نزدیک اللہ رب العزّت جل شانہٗ کے حقیقی عرفان کا وسیلۂ عظمیٰ رسولِ کونین صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی ذاتِ با برکات ہے۔ ان کا خیال ہے کہ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کا عشق ہی ایمان بھی ہے اور جانِ ایمان بھی، عبادت بھی ہے اور طاعت بھی، منشائے قرآنی بھی ہے اور باعثِ نجاتِ دائمی بھی، وہ کہتے ہیں ؎
جانِ ایماں ہے محبت تری جانِ جاناں
جس کے دل میں یہ نہیں خاک مسلماں ہو گا
باوجود اس عقیدت و محبت کی سرشاری و سرمستی کے نوریؔ بریلوی نے قدم قدم پر عبد و معبود کے فرق کو ملحوظ رکھا ہے اور جوشِ محبت و عقیدت میں کہیں بھی ایسا لمحہ نہیں آنے دیا کہ جہاں یہ فاصلہ برقرار نہ رہا ہو۔ نوریؔ بریلوی رسولِ کونین صلی اللہ علیہ و سلم کے جلوۂ حُسنِ جہاں تاب میں سرشاراورگم ہیں، سجدہ کی خواہش ہے، لیکن حکمِ خداوندی، سرمستی و جوش پر غالب ہے۔ جوشِ عقیدت و محبت میں بھی عقیدہ سلامت ہے۔ ایقان مامون ہے، ایمان محفوظ ہے ؎
سجدہ کرتا جو مجھے اس کی اجازت ہوتی
کیا کروں اذن مجھے اس کا خدا نے نہ دیا
حسرتِ سجدہ یوں ہی کچھ تو نکلتی لیکن
سر بھی سرکار نے قدموں پہ جھکانے نہ دیا
عشق کی وارفتگی، محبت کی شیفتگی اور فدائیت کی سرمستی کے باوجود نوریؔ بریلوی کا شعور و آگہی، چراغِ شریعت کی روشنی اور عشقِ حبیب کے اُجالے میں دشوار گزار وادیِ نعت سے سلامت روی کے ساتھ گذرا ہے۔
رسولِ کونین صلی اللہ علیہ و سلم کا اسوۂ حسنہ، سیرتِ طیبہ، اخلاق و کردار، قیادت و ہدایت اورعظمت و رفعت ہر دور کے گم گشتہ راہ مسافروں کے لیے منارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہیں اور تاقیامت انسانیت کا کاررواں اپنا عملی اور فکری سفر اسی کی روشنی میں طَے کرتا رہے گا۔
نوریؔ بریلوی نے اپنے کلام کے وسیلے سے رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت و رحمت اسوۂ حسنہ، حیاتِ طیبہ اور عظمت و رفعت کی عالم گیریت و آفاقیت کا بیان کر کے قومِ مُسلم کو اپنا علمی و فکری زاویہ صحیح سمت گام زن کرنے کا پیغام دیا ہے۔ خود شناسی اور عرفانِ نفس کے ساتھ بے عملی، بد اعتقادی اور نفسِ امّارہ کی شرارتوں سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ فریبِ نفس سے خبردار رہ کر اللہ و رسول (جل و علا و صلی اللہ علیہ و سلم ) کا ہو کر رہ جانے کا پیغام دیا ہے۔ نوریؔ بریلوی محبوبِ کائنات صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت و سنت پر خود بھی عمل پیرا ہو کر مسلمانانِ عالم کو بھی اسی راہِ فوز و فلاح کا راہی بنانا چاہتے ہیں، اس اعتبار سے آپ کی شاعری آفاقی، اصلاحی اور پیغامی ہے اور یہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے عشق و محبت کا مظہر ہے۔
نوریؔ بریلوی نے معنی آفرینی کے ساتھ شکوہِ الفاظ، بے ساختگی، برجستگی، بندشوں کی چُستی، زبان کی سادگی، تشبیہات و استعارات، کنایات و علامات، تراکیب و محاکات وغیرہ جیسے شعری محاسن کے جوہر دکھانے کے لیے شاعری نہیں کی بل کہ آپ نے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے اظہار کے لیے شاعری کو وسیلہ بنایا۔ علم و فضل کی گہرائی وگیرائی، جذبے کی صداقت و سچائی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی والہانہ سرشاری و سرمستی نے آپ کے کلام کو دو آتشہ بنا دیا ہے۔ آپ کے کلام میں علمی تعمق اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت و سچائی کے سبب سادگی ا ور معنوی حُسن کا ایک جہاں پنہاں ہے۔ مشکل زمینوں اور مشکل مضامین اور اردو کے ساتھ عربی اور فارسی زبانوں کی آمیزش اور رچاؤ کے باوجود آورد کی کیفیت نہیں محسوس ہوتی بل کہ آمد آمد کا وہ دل آویز و دل کش انداز ہے جو دوسروں کے یہاں خال خال نظر آتا ہے۔ اور یہ بے سبب نہیں ہے بل کہ یہ عشقِ صادق کے جذبۂ خیر کے التہاب کی کرشمہ سازیاں ہیں۔
زبان و بیان کی سادگی، شکوہِ الفاظ، بے ساختگی و برجستگی، بندشوں کی چُستی، طرزِ ادا کا بانکپن، جدّت طرازی، خیال آفرینی، معنوی پُرکاری، نت نئی ترکیب سازی، شاعرانہ پیکر تراشی، لسانی و عروضی چاشنی، اثباتِ مضمون و دعویٰ، گیتوں کی لفظیات، تشبیہات و استعارات، کنایات و علامات، محاکات و محاورات، صنائع و بدائع، تغزل کا رنگ و آہنگ، مشکل زمینوں اور موضوعات کا استعمال، ایجاز و اختصار، تفکر و تخیل، حقیقت نگاری، قرآن و حدیث، فقہ و تفسیر جیسے علوم و فنون کی رنگا رنگی وغیرہ شعری محاسن ایک سچی اوربڑی شاعری کی جان ہیں۔
نوریؔ بریلوی کے تبحُرِ علمی اور ان کے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی صداقت و سچائی نے ان خوبیوں اور محاسن کو اس انداز سے اپنے کلام میں برتا ہے کہ آپ کے کلام میں چار چاند لگ گئے ہیں۔ نعت میں اس طرح کا متنوع رچاؤ اور تغزل کا رنگ و آہنگ پیش کرنا وہ بھی مکمل حزم و احتیاط اور فنِ نعت کی تمام تر قیود و آداب کی پاس داری کرتے ہوئے دراصل یہ نوریؔ بریلوی کی اعلا استعداد، قوتِ متخیلہ، شعری حرکیت اور فنِ شاعری کا کمال ہے جو آپ کے ایک بڑے اور قادر الکلام شاعر ہونے کا واضح اعلان ہے۔
نوریؔ بریلوی نے اپنے افکار و خیالات اور احساسات و جذبات کی ترجمانی اپنے عہد اور علاقے کی زبان میں بھی کی ہے۔ عربی، فارسی اور اردو کے ساتھ ساتھ ہندی اور پورَبی بولی کی آمیزش نے نوریؔ بریلوی کی زبان کو ایک نیا اور منفرد نکھار بھی بخشا ہے۔ ہندوستانی عناصر اور یہاں کے رسم و رواج کی جھلکیاں بھی آپ کے کلام میں ملتی ہیں جو آپ کی حُبُّ الوطنی کو عیاں کرتی ہیں۔
نوریؔ بریلوی کی شاعری کے زیر و بم میں عارفِ رومیؔ کا نشّۂ عرفانی، جامیؔ کی سرمستی و بے خودی، امیر خسروؔ کی عشوہ طرازی، حافظؔ کی منظر کشی، سعدیؔ کے جدّتِ تخیل کی بو قلمونی، ناسخؔ کی سادہ بیانی، نظیرؔ کے ہندوستانی عناصر کا اظہار، ابوالحسین نوریؔ کا تصوفّانہ آہنگ، امیرؔ مینائی کی والہانہ وارفتگی، محسنؔ کاکوروی کے حُسنِ تفکر کا درو بست، جمیلؔ بریلوی کے جمالیاتی اسلوب کی تہہ داری، اقبالؔ کا ملّتِ اسلامیہ کے تئیں دردو کسک، حسرتؔ کی انقلابیت، اور والدِ ماجد امامِ سخن احمد رضا بریلوی کا رنگ و آہنگ، عشق و محبت میں وارفتگی و شیفتگی، تراکیب و محاورات، خیالات و رُجحانات، قرآن و حدیث، فقہ وتفسیر کی عطر بیزی اور عمِ محترم اُستاذِ زمن شاگردِ داغؔ حسنؔ رضا بریلوی کی معنی آفرینی، تغزل، بے ساختگی و برجستگی، شوخی و طراوت، شوکتِ ادا اور ندرتِ تخیل کی چاشنی نظر آتی ہے۔ بہ ایں معنی کلامِ نوریؔ میں گوناگوں فکر و نظر اور رنگ و آہنگ کا حسین و جمیل امتزاج ملتا ہے۔ آپ کا کلام پڑھتے اور نقل کرتے وقت علاماتِ قرات کا خاص لحاظ رکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور یہ اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ نوریؔ بریلوی کی شاعری ’’نزاکتِ زبان‘‘ کی شاعری ہے اور اس اعتبار سے وہ بلا شبہہ ’’لہجے کے شاعر ‘‘ کہے جانے کے مستحق ہیں۔
آپ کے والدِ ماجد رضاؔ بریلوی ہی کی طرح آپ کی شاعری بھی محض۔ شاعری برائے شاعری نہیں، بل کہ شاعری برائے زندگی اور شاعری برائے بندگی سے عبارت ہے۔
نوریؔ بریلوی کی حمدیہ نظموں اور نعتوں میں تصوف و معرفت کی جو روح پنہاں ہے وہ اردو ادب کے لیے ایک گراں بہا نعمت ہے۔ آپ کی نعتیں ہماری قومی و ملّی، تہذیبی و تمدنی اور علمی و ادبی ورثہ ہیں۔ جذبہ و فن کی وسعت، خیالات و محسوسات کی بلندی، مضامین و موضوعات کے تنوع اور مختلف علمی و ادبی اور شعری محا سن کے اعتبار سے اردو نعت گوئی کی تاریخ میں نوریؔ بریلوی کا مقام و مرتبہ بہت بلند و بالا اور ارفع و اعلا ہے۔
آج عالمِ اسلام میں نوریؔ بریلوی کے ذہن و فکر سے نکلے ہوئے نعتیہ سرمدی نغمات کی دھومیں مچی ہوئی ہیں اور آپ کے کلامِ بلاغت نظام قلبِ مُسلم پر نگراں ہیں اور فردوسِ گوش بنے ہوئے ہیں۔
نوریؔ بریلوی نے اردو نعت گوئی کو تقدیسِ الوہیت، جذبات کی سچائی و صفائی اور الفاظ کی طہارت و پاکیزگی سے مالامال کیا ہے۔ آپ مرجعِ علما و فضلا ہونے کے ساتھ ساتھ شعر و ادب میں بھی مرکزیت کے حامل تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کی شاعری اوراسلوبِ بیان معاصرین اور متاخرین شعرا ے نعت کے قلب و ذہن کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے۔ اور زمانۂ حال کے شعرائے نعت بھی آپ کی زمینوں اوراسلوب میں طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ عالم گیر شہرت یافتہ نعت خواں حضرات زیادہ تر آپ ہی کے نعتیہ کلام کو گنگناتے رہتے ہیں۔ اس عمل سے نوریؔ بریلوی کی عالم گیر مقبولیت کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
٭٭٭
اس مقالہ میں حوالے کے طور پر استعمال میں لائی جانے والی کتب و رسائل، اخبارات اور لغات کی فہرست
نمبرشمار
اسمائے کتب
مصنف
سنہ اشاعت
ناشر
(ا)
17
جانِ جاناں
پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مجددی
1990ء
رضوی کتاب گھر، دہلی
18
چند ہم عصر
مولوی عبدالحق
۔۔
ترقی اردو بیورو، دہلی
19
حدائق بخشش
مولانا احمد رضا بریلوی
1997ء
رضا اکیڈمی، ممبئی
20
حریمِ شوق
علامہ بدرالقادری
1996ء
المجمع الاسلامی، مبارک پور
21
حیات مفتیِ اعظم
مرزا عبدالوحید بیگ بریلوی
۔۔
صندل خاں بازار، بریلی
22
حجۃ واہرہ
حضرت نوریؔ بریلوی
2005ء
رضا اکیڈمی، ممبئی
23
دوام العیش فی الائمۃ من القریش
امام احمد رضا بریلوی
1998ء
رضا اکیڈمی، ممبئی
24
سامان بخشش
حضرت نوری بریلوی
2008ء
رضا اکیڈمی، ممبئی
25
سفینۂ بخشش
علامہ اختر رضا بریلوی
2006ء
رضاآفسیٹ، ممبئی
26
سرورالقلوب بذکر المحبوب
مولانا نقی علی خاں بریلوی
1990ء
فاروقیہ بکڈپو، دہلی
27
سوراخ در سوراج
حضرت نوری بریلوی
2005ء
رضا اکیڈمی، ممبئی
28
ضیاء النبی
پیر کرم شاہ الازہری
۔۔
فاروقیہ بک ڈپو، دہلی
29
طرق الہدیٰ والارشاد
حضرت نوری بریلوی
2005ء
رضا اکیڈمی، ممبئی
30
فتاویٰ مصطفویہ
حضرت نوری بریلوی
رضا اکیڈمی، ممبئی
31
فنِ شاعری
علامہ اخلاق حسین دہلوی
2004ء
کتب خانہ انجمن ترقی اردو، دہلی
32
کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن
امام احمد رضا بریلوی
۔۔
رضا اکیڈمی، ممبئی
33
کلام رضا کے نئے تنقیدی زاویئے
ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی
۔۔
اختر رضا بکڈپو، بریلی
34
مکاشفۃ القلوب
امام غزالی
۔۔
رضوی کتاب گھر، دہلی
35
میں اور ادب
ابن فرید
۔۔
اسرار کریمی پریس، الٰہ آباد
36
مولانا احمد رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری
ڈاکٹر سراج احمد بستوی
1997ء
کانپور یونیورسٹی، کانپور
37
مفتیِ اعظم ہند
ڈاکٹر عبد النعیم عزیزی
1981ء
اختر رضا بکڈپو، بریلی
38
مفتیِ اعظم اپنے فضل و کمال کے آئینے میں
مفتی محمد شریف الحق امجدی رضوی
رضا اکیڈمی، ممبئی
39
مفتیِ اعظم، مفتیِ اعظم کیوں ؟
مفتی محمد مطیع الرحمن رضوی
2002ء
رضا دارالمطالعہ،
پوکھریرا، بہار
40
محدثِ اعظمِ پاکستان
مولانا جلال الدین
۔۔
مکتبۂ قادریہ، لاہور
41
مولانا سردار احمد چشتی قادری
مولانا محمد عبدالمبین نعمانی
1999ء
رضا اکیڈمی، ممبئی
42
مفتیِ اعظم اور انکے خلفا
مولانا محمد شہاب الدین رضوی
1990ء
رضا اکیڈمی، ممبئی
43
مفتیِ اعظم کے سیاسی افکار
مولانا محمد شہاب الدین رضوی
1998ء
رضا اکیڈمی، ممبئی
44
مفتیِ اعظم اور تحریک انسداد شدھی
مولانا محمد شہاب الدین رضوی
1990ء
رضا اکیڈمی، ممبئی
45
مسائلِ سماع
حضرت نوریؔ بریلوی
2005ء
رضا اکیڈمی، ممبئی
46
مقتلِ کذب و کید
حضرت نوریؔ بریلوی
2005ء
رضا اکیڈمی، ممبئی
47
نعتیہ شاعری کا ارتقا
ڈاکٹر محمد اسماعیل آزاد فتح پوری
1988ء
فائن آفسیٹ ورکس، الٰہ آباد
48
نعت اور آداب نعت
مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی
۔۔
ادارۂ نعت رنگ، کراچی
49
نسیم البلاغت
جلال الدین جعفری
۔۔
لکھنؤ
50
وقعات السنان
حضرت نوری بریلوی
2005ء
رضا اکیڈمی، ممبئی
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے فائل بھی فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید