01:30    , بدھ   ,   08    مئی   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

2416 0 0 00

شکیل الرّحمٰن

میر تقی میرؔ کی جمالیات

میر تقی میرؔ کی جمالیات

محترم علی سردار جعفری کے نام

جو

اس دور کے

سب سے ممتاز

میر شناس ہیں

برسوں مارے چرخ فلک تو ایسے ہوویں پیدا لوگ

          ---- شکیل الرحمٰن

کوئی تو آبلہ پا دشتِ جنوں سے گزرا

ڈوبا ہی جائے ہے لوہو میں سرخار ہنوز

          میرؔ

 

 

 

 

 

 

 

          میر تقی میرؔ ’شرِنگار رَس‘ کے ایک ممتاز شاعر ہیں!

          ہندوستانی جمالیات میں ’شرِنگار رَس‘ تمام رسوں کا سرچشمہ تصوّر کیا گیا ہے، یہ رس محبت اور غم کے جذبوں سے پیدا ہوتا ہے اور فن میں ان جذبوں کا جمالیاتی تجربہ بن جاتا ہے۔

          ’عشق‘ ہی محبت کے جذبے کا جمالیاتی تجربہ ہے، عشق ہی ’شرِنگار رَس‘ کا مرکز ہے، اسی کے تحرّک سے یہ رَس اُبلتا ہے، اپنی شیرینی اور مٹھاس عطا کرتا ہے، غمناکی لیے ہوئے یہ رَس قاری کے جذبے کو صرف متاثر ہی نہیں کرتا بلکہ قاری کے باطن میں ’کتھارسس‘ کی کیفیت بھی پیدا کر دیتا ہے، شعور، احساس، تخیل سب متاثر ہوتے ہیں۔

          ’شرِنگار رَس‘ کی اصطلاح کے متعلق ایک خیال یہ ہے کہ اس کا تعلق ’شِر‘ (Sr) سے ہے جس کے لغوی معنی ہیں ’مارنا‘، ’ماردینا‘۔ Sr himsayamمفہوم ہے ’’اس شخصیت کا خاتمہ کہ جسے عشق کا تجربہ حاصل ہوا!‘‘ مطلب یہ ہے کہ جس نے عشق کیا، جو محبت میں گرفتار ہوا وہ ختم ہو گیا، عشق ختم کر دیتا ہے، مار ڈالتا ہے!

          معروف عالم جمالیات ابھی نو گپت نے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ لفظ ’شرِنگار‘ دراصل ’سرِنگا‘ (Srnga) سے نکلا ہے کہ جس کا مفہوم ہے ’’جس کا گہرا اثر ’سیکس‘ کی جبلت پر ہو!‘‘ --- وہ تجربہ جو عشق سے حاصل ہو اور ’سیکس‘ کی جبلت کو متاثر کرے وہی شرِنگار ہے!

          دونوں مفاہیم اہم ہیں۔ دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے، لفظ جہاں کا بھی، جس طرح بھی پھوٹا ہو دونوں مفاہیم مل کر شرِنگار کی اصطلاح کی معنویت میں کشادگی پیدا کر دیتے ہیں۔

          غزل کے پیشِ نظر ’شرِنگار‘ کے دونوں مفاہیم بلاشبہ اہمیت رکھتے ہیں۔ میر تقی میرؔ کی غزل تڑپتے ہوئے، زخمی، قتل ہوتے، عشق کے مارے ہوئے عاشق کی بھی کہانی ہے اور عشق اور جنس کی جبلت کی کشش اور ان کی جانب جھکاؤ کا بھی فسانہ ہے۔

          عشق ’شرِنگار‘ کا بنیادی جذبہ ہے اور میرؔ کی شاعری عشق کے جذبے کی ایک ایسی شاعری ہے کہ جسے ٹھٹھک کر دیکھتے رہنے کی خواہش ہوتی ہے۔ میرؔ کا ’تجربہ‘ بھی یہی ہے کہ عشق ختم کر دیتا ہے، جو محبت میں گرفتار ہوا وہ گیا:

پہلے دیوانے ہوئے پھر میرؔ آخر مر گئے

ہم نہ کہتے تھے کہ صاحب عاشقی تم مت کرو

----------

آشنا ہو اس سے ہم مر مر گئے آئندہ میرؔ

جیتے رہئے، تو کسو سے اب نہ یاری کیجیے

حیراں گم سم پیکر کی یہ تصویر دیکھئے:

خدا جانے کہ دل کس خانہ آباداں کو دے بیٹھے

کھڑے تھے میرؔ صاحب گھر کے دروازے پہ حیراں سے

عشق کیا اور جہاں سے گزر گئے:

رفتۂ عشق کیا ہوں میں اب کا

جا چکا ہوں جہان سے کب کا

چراغِ گور کی مانند تنہا جلتے رہے:

گو بے کسی سے عشق کی آتش میں جل بجھا

میں جوں چراغِ گور اکیلا جلا کیا

منظر دیکھئے اور گفتگو کا انداز ملاحظہ کیجیے:

قتل کیے پر غصہ کیا ہے لاش مری اُٹھوانے دو

جان سے بھی ہم جاتے رہے ہیں، تم بھی آؤ جانے دو

عشق میں محبوب دل کلیجہ نکال لیتا ہے:

جس کا خوباں خیال لیتے ہیں

دل کلیجہ نکال لیتے ہیں

میرؔ کے کلام میں ایسے تجربوں کے جانے کتنے اشعار ہیں۔ چند اشعار اور سنئے، ایسے تجربوں کا اظہار کتنے خوبصورت انداز میں کیا ہے:

ہزار بار گھڑی بھر میں میرؔ مرتے ہیں

انھوں نے زندگی کا ڈھب نیا نکالا ہے

--------

عاشقی جی ہی لے گئی آخر

یہ بلا کوئی ناگہانی تھی

--------

جور کیا کیا، جفائیں کیا کیا ہیں

عاشقی میں بلائیں کیا کیا ہیں

--------

محبت نے کھویا کھپایا ہمیں

بہت ان سے ڈھونڈا، نہ پایا ہمیں

--------

مرنے پہ جان دیتے ہیں وارفتگانِ عشق

ہے میرؔ راہ و رسم دیارِ وفا کچھ اور

--------

فرہاد و قیس و میرؔ، یہ آوارگانِ عشق

یونہی گئے ہیں، سب کی رہی من کی من کے بیچ

--------

کچھ زرد زرد چہرہ، کچھ لاغری بدن میں

کیا عشق میں ہوا ہے اے میرؔ حال تیرا

--------

بے خودی لے گئی کہاں ہم کو

دیر سے انتظار ہے اپنا

--------

لذّت سے نہیں خالی جانوں کا کھپا جانا

کب خضر و مسیحا نے مرنے کا مزا جانا

--------

کہتا تھا میرؔ حال تو جب تک تو تھا بھلا

کچھ ضبط کرتے کرتے ترا حال کیا ہوا

--------

میرے تغیرِ حال پر مت جا

اتفاقات ہیں زمانے کے

--------

از خویش رفتہ اس بن رہتا ہے میرؔ اکثر

کرتے ہو بات کس سے، وہ آپ میں کہاں ہے

--------

غالبؔ کہ یہ دل خستہ شبِ ہجر میں مر جائے

یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گزر جائے

--------

کہہ، سانجھ کے موئے کو اے میرؔ روئیں کب تک

جیسے چراغِ مفلس، اِک دم میں جل بجھا تو

--------

کاسۂ سر کو لیے مانگتا دیدار پھرے

میرؔ وہ جان سے بیزار گدا میں ہی ہوں

--------

’شرِنگار‘ کے دوسرے مفہوم کے پیش نظر یہ اشعار سنئے:

گل ہو، مہتاب ہو، آئینہ ہو، خورشید ہو میرؔ

اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو

--------

گل کو محبوب ہم نے قیاس کیا

فرق نکلا بہت جو باس کیا

--------

میرؔ کیا بات اس کے ہونٹوں کی

جینا دوبھر ہوا مسیحا پر

--------

چاہتا ہے جی کہ ہم تو ایک جا تنہا ملیں

نازِ بیجا بھی نہ ہووے کم نگاہی بھی نہ ہو

--------

گل و آئینہ کیا خورشید و مہ کیا

جدھر دیکھا تدھر تیرا ہی رُو تھا

--------

کیا چہرہ تجھ سا ہو گا اے آفتابِ طلعت

منہ چاند کا جو ہم نے دیکھا تو چھائیاں ہیں

--------

گزرا میں اس سلوک سے دیکھا نہ کر مجھے

برچھی سی لاگ جا ہے جگر میں تری نگاہ

--------

شب خواب کا لباس ہے عریاں تنی میں یہ

جب سوئیے تو چادرِ مہتاب تانئے

--------

کیا صورت ہے، کیا قیامت ہے، دست و پا کیا نازک ہیں

ایسے پتلے منہ دیکھو جو کوئی کلال بنا دے گا

--------

دور بہت بھاگو ہو ہم سے سیکھ طریق غزالوں کا

وحشت کرنا شیوہ ہے کیا اچھی آنکھوں والوں کا

--------

اس گلِ تر کی قبا کے کہیں کھولے گا بند

رنگوں گل برگ کے ناخن ہے معطر اپنا

--------

اس سے یوں گل نے رنگ پکڑا ہے

شمع سے جیسے لیں چراغ لگا

--------

ہلتی ہے یوں پلک کہ گڑی دل میں جائے ہے

انداز دیدنی ہے مرے دل نواز کا

--------

اس لطف سے نہ غنچۂ نرگس کھلا کبھو

کھلنا تو دیکھ اس مژہِ نیم باز کا

--------

ساعد سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیئے

بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خیالِ خام کیا

--------

نقشِ قدم سے اس کے گلشن کی طرح ڈالی

گردِ رہ اس کی لے کر سرو رواں بنایا

--------

جی پھٹ گیا ہے رشک سے چسپاں لباس کے

کیا تنگ جامہ لپٹا ہے اس کے بدن کے ساتھ

--------

ہم نہ کہتے تھے کہ نقش اس کا نہیں نقاش سہل

چاند سارا لگ گیا تب نیم رُخ صورت ہوئی

--------

کیا تن نازک ہے جاں کو بھی حسد جس تن پہ ہے

کیا بدن کا رنگ ہے تہہ جس کی پیراہن پہ ہے

--------

اتنی سڈول دیہی دیکھی نہ ہم سنی ہے

ترکیب اس کی گویا سانچے میں گئی ہے ڈھالی

--------

گوندھ کے گویا پتی گل کی وہ ترکیب بنائی ہے

رنگ بدن کا تب دیکھو جب چولی بھیگے پسینے میں

--------

وصل اس کا خدا نصیب کرے

میرؔ دل چاہتا ہے کیا کیا کچھ

--------

لکنت تری زبان کی ہے سحر جس سے شوخ

یک حرف نیم گفتہ نے دل پر اثر کیا

--------

میرا دانت ہے تیرے ہونٹوں پہ مت پوچھ

کہوں گا تو لڑنے کو تیار ہو گا

--------

وہ نہانے لگا تو سایۂ زلف

بحر میں تُو کہے کہ جال پڑا

--------

میرؔ دیکھو گے رنگ نرگس کا

اب جو وہ مست خواب نکلے گا

--------

گل شرم سے بہہ جائے گا گلشن میں ہو کر آب سا

برقع سے گر نکلا کہیں چہرہ ترا مہتاب سا

--------

اب رشک حنائی سے جو تر نہ کرے مژگاں

وہ تجھ کف رنگیں کا مارا نہ ہوا ہو گا

--------

ستھرائی اور نازکی گلبرگ کی درست

پردیسی بو کہاں کہ جو ہے اس بدن کے بیچ

--------

گل پیرہن نہ چاک کریں کیونکہ رشک سے

کس مرتبے میں شوخ ہے اس کی قبا کا رنگ

--------

کیا لطف تن چھپا ہے مرے تنگ پوش کا

اگلا پڑے ہے جامے سے اس کا بدن تمام

--------

چاہیں تو تم کو چاہیں، دیکھیں تو تم کو دیکھیں

خواہش دلوں کی تم ہو آنکھوں کی آرزو تم

--------

ہر نقش پا ہے شوخ ترا رشک یاسمن

کم گوشۂ چمن سے ترا رہ گزر نہیں

--------

صبحِ چمن میں اس کو کہیں تکلیف ہوا لے آئی تھی

رُخ سے گل کو مول لیا قیامت سے سرو غلام کیا

          ’شرِنگار رس‘ کی تازگی لیے ہر شعر اُردو زبان کا خوب صورت شعر ہے۔ میرؔ کا احساسِ حسن بھی متاثر کرتا ہے اور اس کی رومانیت بھی شدّت سے متاثر کرتی ہے۔ حسن کا گہرا احساس لیے رومانیت ’شرِنگار‘ کی روح اور اس کا جوہر ہے۔ جانے پہچانے اور بعض پرانے روایتی تجربوں میں بھی اس رَس کی وجہ سے تازگی اور نیا پن ہے۔ میرؔ کی کلاسیکیت حسن میں ایک تنظیم پیدا کرتی ہے اور ان کی رومانیت اس میں اجنبیت پیدا کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کلامِ میرؔ سے زیادہ سے زیادہ جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔ میرؔ تجربوں کی شدّت عطا کرنے اور جذبوں سے لطف اندوز کرنے کی بڑی صلاحیت رکھتے ہیں۔

          عورت اور مرد کی محبت کی شدّت اور ان کی جذباتی کیفیتوں کی بڑی اہمیت ہے۔ وہ سب جو جمالیاتی تجربے اصل کرتے ہیں انھیں محسوس بھی کرتے ہیں لیکن سب ان کا فنکارانہ اظہار تو نہیں کر سکتے۔ تخلیقی فنکار ہی ان جمالیاتی تجربوں کو ایسے ڈرامائی اور تمثیلی انداز میں پیش کرتا ہے کہ ان کی سطح بلند ہو جاتی ہے۔ اس حد تک کہ وہ اپنی تازگی لیے زندہ رہتے ہیں۔ فنکار کے ذہن کی شادابی انھیں زندگی بخش دیتی ہے، شرِنگار رَس لیے ہوئے ایسے تمام تجربوں میں میرؔ کے تخیل کی شادابی متاثر کرتی ہے، اسی شادابی کا کرشمہ ہے کہ اکثر تحیر بھی پیدا ہوتا ہے، محسوس ہوتا رہتا ہے کہ ہمیں جو جمالیاتی انبساط اصل ہو رہا ہے، اس سے کہیں زیادہ فنکار کے تحت الشعور میں انبساط اور شادمانی موجود ہے۔ اشعار کی سادگی اور پرکاری اور لہجے کے معصوم اور پاکیزہ انداز سے ڈرامائی کیفیت اور پرکشش ہو جاتی ہے۔ میرؔ کی جمالیات کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ عشق و محبت کے جمالیاتی تجربوں میں بار بار ایسی اُٹھان پیدا ہوتی ہے کہ زبردست جمالیاتی مسرت حاصل ہوتی ہے۔اکثر وجد اور کیف کی عجیب کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، اُردو کی عشقیہ شاعری میں روحانی سرور اور وجد و کیف (Exaltation) کی ایسی مثال بہت کم ملتی ہے، جو اشعار پیش کیے گئے ہیں انھیں پڑھتے ہوئے آپ کو یقیناً محسوس ہو گا کہ عشقیہ تجربوں کی جمالیاتی سطح صرف اس لیے بلند ہوتی ہوئی ہے کہ میرؔ صاحب حسن کا شدید احساس رکھتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ اس احساس کو لفظوں میں فنکارانہ انداز میں ڈھال بھی دیتے ہیں، محبوب کے گیسو و رُخسار، اس کے بدن کا رنگ، چسپاں لباس، قامت، ہونٹ، سڈول جسم، پسینے میں بھیگی چولی، کف رنگیں، زبان کی لکنت، سایۂ زلف، برچھی جیسی نگاہ، جسم کی خوشبو، جادو بھرے ہونٹ، چاندی کی طرح سفید روشن ہاتھ، اندازِ نظر-- یہ سب بڑی دلآویزی اور نفاست لیے ہوئے ہیں، بانکپن کے ساتھ تیکھا پن بھی توجہ طلب ہے۔ محبوب کے جسم کا مشاہدہ انتہائی لطیف اور دلآویز جمالیاتی تجربے پیش کرتا ہے۔ ہر شعر شرِنگار رَس میں ڈوبا ہوا ہے اور فنکار کے ذہن کی نیرنگیوں کے ساتھ جمالیاتی انبساط عطا کرتا ہے۔ ’شرِنگار رس‘ کے تجربوں کے عمدہ معیار کی پہچان ان اشعار سے بھی ہوتی ہے:

فروغ اس کے چہرے کا تھا پردہ در

ہوا کیا جو ہم نے بجھائی تھی شمع

--------

نازکی اس کے لب کی کیا کہئے

پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے

--------

نظر دزدیدہ کرتے ہو جھکی رکھتے ہو پلکوں کو

لگی ہوتیں نہ آنکھیں تو نہ آنکھوں کو چھپاتے ہم

--------

کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے

اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے

--------

دیکھ کے دست و پائے نگاریں چپکے سے رہ جاویں نہ کیوں

منہ بولے ہے یارو گویا مہندی اس کی رچائی ہوئی

--------

لطف اس کے بدن کا کچھ نہ پوچھو

کیا جانئے جان ہے کہ تن ہے

--------

لکنت سے کیا نکلتی نہیں اس کے منہ سے بات

چپکا ہے حرف یار کے شیریں دہن کے ساتھ

--------

منہ اپنا ان نے عکس سے اپنے چھپا لیا

دیکھا نہ کوئی آئینہ رو اس حیا کے ساتھ

--------

اس کا منہ دیکھ رہا ہوں سو وہی دیکھوں ہوں

نقش کا سا ہے سماں میری بھی حیرانی کا

--------

منہ تکا ہی کرے ہے جس تس کا

حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا

--------

اس گل زمیں سے اب تک اُگتے ہیں سرو جس جا

مستی میں جھکتے جس پر تیرا پڑا ہے سایا

          جمالیاتی تجربہ جسمانی سطح سے پھوٹتا ہے اور تخیل کی روشنی میں نہا کر پھر جسمانی سطح پر آ جاتا ہے اور ’رَس‘ عطا کرتا ہے۔ اس کی حسّی کیفیت یا حسیت (Sensuousness) متاثر کرنے لگتی ہے۔ آرزو صرف یہ ہے کہ جسم کی سطح پر دو ایک ہو جائیں اور ایک جمالیاتی وحدت قائم ہو جائے۔ اس تجربے کے تعلق سے اشعار پڑھتے جائیے، شاعر کے وجدان اور تخیل کی سحرانگیز کیفیتوں کا تاثر گہرا ہوتا جائے گا۔ میرؔ صاحب حسن پسند ہیں، حسن کا احساس دیتے رہتے ہیں، شرِنگار کے تجربوں میں ان کا تخیل شاداب اور مشاہدہ گہرا ہے، متوازن لہجے میں کیف و سرور اور نغمگی توجہ طلب بن جاتی ہے۔لفظوں میں حسن کا جس طرح اظہار ہوا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فنکار نے حسن کو کس شدّت سے محسوس کیا ہو گا۔ میرؔ صاحب نے اپنی حسن پسندی کا اظہار کھل کر کیا ہے، ان کی شاعری حسن کے حسّی ردّ عمل کی ایک بڑی خوبصورت شاعری ہے۔

          ’شرِنگار‘ کی دو بڑی خصوصیتیں ہیں، ایک احساسِ حسن کی شدّت اور دوسری رومانیت۔ میرؔ صاحب کے کلام میں یہ دونوں خصوصیتیں موجود ہیں، وہ حسن کا گہرا احساس رکھتے ہیں اور اکثر محسوس ہوتا ہے کہ اس احساس میں بڑی شدّت پیدا ہو گئی ہے، اس طرح ان کی رومانیت اور رومانیت کی شیرینی اپنی مثال آپ ہے۔

          ’شرِنگار‘ کی طرح غزل کی بھی یہ دو بڑی خصوصیتیں ہیں احساسِ حسن اور رومانیت! عاشق اور محبوب کے کر دار میں ان خصوصیات کی پہچان زیادہ ہوتی ہے۔ اُردو غزل کے عام روایتی عاشق اور محبوب کی ذات کی تشکیل میں میرؔ کے شعری تجربوں نے بھی نمایاں حصہ لیا ہے۔ میرؔ کے انفرادی جمالیاتی رویے کی وجہ سے دونوں کر داروں میں زیادہ کشش محسوس ہوتی ہے، غالبؔ کے عاشق اور محبوب کی طرح کلامِ میرؔ میں کوئی روشن جہت دار تصوّر نہیں ملتا۔ بلاشبہ کلامِ میرؔ میں جذبہ بھی اہم ہے اور تخیل بھی--- لیکن عاشق اور محبوب کے تعلق سے وہ Bursts of Inspiration نہیں ہے جو غالبؔ کے کلام میں ہے۔ غالبؔ نے عاشق اور محبوب دونوں کو اعلیٰ اور افضل قدر (Supreme Value) بنا دیا ہے کہ جس سے زبردست جمالیاتی آسودگی حاصل ہوتی ہے، جمالیاتی انبساط ملتا ہے۔

          میرؔ کے عاشق کا جمالیاتی شعور بالیدہ ہے، یہی وجہ ہے کہ حسن کا احساس مجسم ہو جاتا ہے:

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگہہ شیشہ گری کا

--------

کیا صورت ہے، کیا قامت ہے، دست و پا کیا نازک ہیں

ایسے پتلے منہ دیکھو جو کوئی کلال بناوے گا

میرؔ کا عاشق گوشت پوست کا پیکر ہے جو گوشت پوست کے پیکر سے والہانہ عشق کرتا ہے:

کیا لطف تن چھپا ہے مرے تنگ پوش کا

اگلا پڑے ہے جامے سے اس کا بدن تمام

--------

جی پھٹ گیا ہے رشک سے چسپاں لباس کے

کیا تنگ جامہ لپٹا ہے اس کے بدن کے ساتھ

--------

کیا تن نازک ہے جاں کو بھی حسد جس تن پہ ہے

کیا بدن کا رنگ ہے تہہ جس کی پیراہن پہ ہے

میرؔ کا عاشق محبوب کے جسم میں زبردست کشش تو محسوس کرتا ہی ہے اس کے بدن کے رنگ کا دیوانہ تو ہے ہی ساتھ ہی محبوب کے بدن کی خوشبو سے بھی پریشان پھر رہا ہے۔ یہ کہتے ہوئے ’’گوندھ کے گویا پتی‘‘ گل کی وہ ترکیب بنائی ہے، ’’رنگ بدن کا تب دیکھو جب چولی بھیگے پسینے میں‘‘ یہ بھی کہتا ہے:

ستھرائی اور نازکی گلبرگ کی درست

پر ویسی بو کہاں کہ جو ہے اس بدن کے بیچ

--------

گل کو محبوب ہم نے قیاس کیا

فرق نکلا بہت جو باس کیا

--------

اس گلِ تر کی قبا کے کہیں کھولے تھے بند

رنگوں گل برگ کے ناخن ہے معطر اپنا

--------

میرؔ کا عاشق وصل کا تجربہ حاصل کر چکا ہے اس کے باوجود وصل کے لمحوں کو پانے کا خواہش مند رہتا ہے:

وصل اس کا خدا نصیب کرے

میرؔ دل چاہتا ہے کیا کیا کچھ

میرؔ کے عاشق کی حسن پسندی محبوب کے وجود کے حسن و جمال کو مجسم کر دیتی ہے:

چہرہ:  کیا چہرہ تجھ سا ہو گا اے آفتابِ طلعت

منہ چاند کا جو ہم نے دیکھا تو چھائیاں ہیں

--------

ہونٹ، لب:     میرؔ کیا بات اس کے ہونٹوں کی

جینا دوبھر ہوا مسیحا پر

--------

نازکی اس کے لب کی کیا کہئے

پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے

--------

گل برگ کا یہ رنگ ہے مرجاں کا ایسا ڈھنگ ہے

دیکھو نہ جھمکے ہے پڑا وہ ہونٹ لعل ناب سا

--------

نگاہ:   گزرا میں اس سلوک سے دیکھا نہ کر مجھے

برچھی سی لاگ جا ہے جگر میں تری نگاہ

--------

بدن کا رنگ:  اس سے یوں گل نے رنگ پکڑا ہے

شمع سے جیسے لیں چراغ لگا

--------

اندازِ دیدنی:    ہلتی ہے یوں پلک کہ گڑی دل میں جائے ہے

انداز دیدنی ہے مرے دل نواز کا

--------

مژہ:    اس لطف سے نہ غنچۂ نرگس کھلا کبھو

کھلنا تو دیکھ اس مژۂ نیم باز کا

--------

نقشِ پا:         ہر نقشِ پا ہے شوخ ترا رشک یاسمن

کم گوشۂ چمن سے ترا رہ گزر نہیں

--------

لباس:  جی پھٹ گیا ہے رشک سے چسپاں لباس کے

کیا تنگ جامہ لپٹا ہے اس کے بدن کے ساتھ

--------

خوشبو:         ستھرائی اور نازکی گلبرگ کی درست

پر ویسی بو کہاں کہ جو ہے اس بدن کے بیچ

--------

کل لے گئے تھے یار ہمیں بھی چمن کے بیچ

اس کی سی بو نہ آئی گل و یاسمن کے بیچ

--------

گل کی تو بو سے غش نہیں آتا کسو کے تئیں

ہے فرق میرؔ پھول کی اور اس کی بو کے بیچ

گوشت پوست کا ایک دلنواز، دلکش اور انتہائی پرکشش پیکر خلق ہو جاتا ہے! میرؔ کا عاشق کبھی روایتی مزاج کے ساتھ اس طر پہچانا جاتا ہے:

کچھ زرد زرد چہرہ کچھ لاغری بدن میں

کیا عشق میں ہوا ہے اے میرؔ حال تیرا

اور کبھی عشق کا سچا درد لیے، اذیت ناک لمحوں سے گزرتے ہوئے اس طرح:

:سمجھ کے چنیو کہ گلشن میں میرؔ کے

لختِ جگر پڑے ہیں نہیں برگ ہائے گل

--------

دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک

قطرۂ خوں تھا مژہ پر جم رہا

--------

ہر صبح حادثہ سے یہ کہتا ہے آسماں

دے جام خون میرؔ کو گر منہ وہ دھو چکا

میرؔ کا عاشق عشق کے جادو سے اتنا بے خود ہو جاتا ہے کہ ایک عجیب و غریب کیفیت طاری ہو جاتی ہے، خود اپنا انتظار کرنے لگتا ہے:

بے خودی لے گئی کہاں ہم کو

دیر سے انتظار ہے اپنا

میرؔ کا عاشق اُردو غزل میں المیہ کے درد اور المیہ کی جمالیات کو محسوس بناتا ہے:

یک بیاباں ہے مری بے کسی و تنہائی

مثل آوازِ جرس سب سے جدا ہو جاتا ہوں

--------

دل کو جانا تھا گیا رہ گیا ہے افسانہ

روز و شب ہم بھی کہانی سی کہا کرتے ہیں

--------

عشق و محبت کیا جانوں میں لیکن اتنا جانوں ہوں

اندر ہی سینے میں میرے دل کو کوئی کھاتا ہے

--------

اے بوئے گل سمجھ کے لہکیو پون کے بیچ

زخمی پڑے ہیں مرغ ہزاروں چمن کے بیچ

میرؔ کے عاشق کے طنز کا انداز بھی بہت تیکھا ہے:

ہم سے دیوانے رہیں شہر میں سبحان اﷲ

دشت میں قیس رہے کوہ میں فرہاد رہے

--------

درویش ہیں ہم آخر دو اِک نگہ کی رخصت

گوشے میں بیٹھے پیارے تم کو دُعا کریں گے

میرؔ کا عاشق اکثر خود کلامی میں گرفتار ہو جاتا ہے:

کہتے نہ تھے میرؔ مت کڑھا کر

دل ہو نہ گیا گداز تیرا

--------

زنداں میں بھی شورش نہ گئی اپنے جنوں کی

اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سری کا

--------

میرؔ از بس کہ ناتواں ہوں میں

جی میرا سائیں سائیں کرتا ہے

میرؔ کے عاشق کا انداز، لب و لہجہ اور تیور اکثر مکالمہ کی فضا خلق کر دیتے ہیں:

موسم ابر ہو، سبو بھی ہو

گل ہو، گلشن ہو اور تو بھی ہو

--------

کب تک آئینے کا یہ حسن قبول

منہ ترا اس طرف کبھو بھی ہو

--------

تم تو تصویر ہوئے دیکھ کے کچھ آئینہ

اتنی چپ بھی نہیں ہے خوب کوئی بات کرو

--------

ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی

سحر کیا، اعجاز کیا، جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا

--------

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا

--------

ایسے وحشی کہاں ہیں اے خوباں

میرؔ کو تم عبث اُداس کیا

--------

دور بہت بھاگو ہو ہم سے سیکھ طریق غزالوں کا

وحشت کرنا شیوہ ہے کیا اچھی آنکھوں والوں کا

--------

ترے کوچے میں یکسر عاشقوں کے خار مژگاں ہیں

جو تو گھر سے کبھو نکلے تو رکھیو پاؤں آہستہ

--------

شمع اخیر شب ہوں سن سرگزشت میری

پھر صبح ہونے تک تو قصہ ہی مختصر ہے

--------

ہر دم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں

یہ کار گاہ ساری دُکاں شیشہ گر ہے

          میرؔ کے عاشق کے حسّی اور جمالیاتی تجربے ’شرِنگار رَس‘ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ احساسِ حسن، رومانیت، غمناکی، عشقیہ تجربے یہ سب عاشق کے ّحسی اور جمالیاتی تجربوں میں شامل ہیں۔ میرؔ مسرت آمیز احساسات یا Pleasurable Sensations کے ایک منفرد شاعر ہیں۔ ان کے شعری تجربوں میں موضوع اور مواد کو ڈرامائی صورت دینے کا بھی رجحان موجود ہے، تجربہ مختلف انداز سے ڈرامائی کیفیت پیدا کرتا ہے، مثلاً:

اِک زخم کو میں ریزۂ الماس سے چیرا

دل پر ابھی جراحت نو کار بہت ہیں

--------

جا کے پوچھا جو میں یہ کار گہ مینا میں

دل کی صورت کا بھی اے شیشہ گراں ہے شیشہ

کہنے لاگے کہ کدھر پھرتا ہے بہکا اے مست

ہر طرح کا جو تو دیکھے ہے کہ یاں ہے شیشہ

دل ہی سارے تھے پہ اِک وقت میں جو کر کے گداز

شکل شیشے کی بنائے ہیں کہاں ہے شیشہ

--------

کل پانو ایک کاسۂ سر پر جو آ گیا

یک سر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر

میں بھی کبھو کسو کا سرِ پر غرور تھا

--------

فرصت سے اس چمن کی کل روکے میں جو پوچھا

چشمک کی ایک گل نے میری طرف کو ہنس کر

اس قافلے میں کوئی دل آشنا نہیں ہے

ٹکڑے گلے کے اپنے ناحق نہ اے جرس کر

--------

اِک عمر مجھے خاک میں ملتے ہوئے گزری

کوچے میں ترے آن کے لوہو میں نہایا

--------

آوارگانِ عشق کا پوچھا جو میں نشاں

مشت غبار لے کے صبا نے اُڑا دیا

--------

کوئی تو آبلہ پا دشتِ جنوں سے گزرا

ڈوبا ہی جائے ہے لوہو میں سر خار ہنوز

--------

کر سیر جذب اُلفت:نے کل چمن میں

توڑا تھا شاخ گل کو نکلی صدائے بلبل

--------

رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے

جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ

--------

درد و اندوہ میں ٹھہرا جو رہا میں ہی ہوں

رنگ رو جس کے کبھو منہ نہ چڑھا میں ہی ہوں

خار کو جن نے لڑی موتی کی کر دِکھلایا

اس بیابان میں وہ آبلہ پا میں ہی ہوں

--------

کاسۂ سر کو لیے مانگتا دیدار پھرے

میرؔ وہ جان سے بیزار گدا میں ہی ہوں

--------

دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے

یہ دھُواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے

--------

کہتا تھا کسو سے کچھ تکتا تھا کسو کا منہ

کل میرؔ کھڑا تھا یاں سچ ہے کہ دِوانا تھا

--------

وہ دُزدِ دل نہیں تو کیوں دیکھتے ہی مجھ کو

پلکیں جھکالیاں ہیں آنکھیں چرالیاں ہیں

دُنیا اور زندگی کے حسن کا یہ غیر معمولی احساس توجہ طلب ہے:

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کار گہ شیشہ گری کا٭

دوسری جگہ اس خیال کو اس طرح پیش کیا ہے:

ہر دم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں

یہ کار گاہ ساری دُکان شیشہ گر ہے

          ’آفاق کی کار گہ شیشہ گری‘ کہہ کر زندگی کے حسن و جمال کو جس طرح سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے وہ بہت بڑی بات ہے۔ کار گہ شیشہ گری میں جہاں نازک شیشے مختلف صورتوں میں خلق ہوتے ہیں وہاں ان میں مختلف رنگوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ نازک، صاف شفاف اور رنگ برنگے شیشوں کی یہ دُنیا انتہائی خوب صورت اور حسین ہے، یہاں زور سے سانس لی جائے تو شیشے چنک جائیں گے۔ میرؔ صاحب نے حسن آفاق اور حسن زندگی کو جس طرح ایک شعر میں فنکارانہ انداز میں سمیٹ لینے کی کوشش کی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ شعر اچانک حسن و جمال کے ایک ارفع امیج (Image) کو پیش کر دیتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ زندگی کے اپنے Sense Impression کی گہرائی سے قاری کے احساساتی تاثر پر اثرانداز ہوتا ہے۔ یہاں تخیل، تصور اور ’فینسی‘ (Fancy) کی آمیزش سے ایک خوب صورت شعری جمالیاتی تجربہ سامنے آیا ہے۔ اس شعر کا حسن یہ بھی ہے کہ شاعر نے دُنیا اور زندگی کے عام تصورات کے اوپر انتہائی خوبصورت لباس کی چادر ڈال دی ہے، التباس کی چادر سے جو شعاعیں پھوٹ رہی ہیں وہ مسرت آمیز بصیرت عطا کررہی ہیں۔ سچائی یہی ہے کہ یہ

-------------------------------------------------------------------

٭ غالبؔ نے شیشے کی اس دُنیا کو اپنے وجود میں کھینچ لیا ہے۔ کہا ہے میں ایسا پہاڑ ہوں جس کے اندر آئینوں کی دُنیا ہے، سخت جاں ہوں اور خاطر نازک بھی رکھتا ہوں۔ شوق، انانیت، خود داری اسی آئینۂ صد نشاط کی دین ہیں:

سخت جانیم و قاش خاطر ما نازک است

کارگہ شیشہ پنداری بود کہسار ما

)غالبؔ(

دنیا، یہ زندگی بہت خوب صورت ہے، بہت نازک ہے، نفیس ہے، پر آہنگ ہے، حسین رنگوں کا مجموعہ ہے، کار گاہ شیشہ گری میں حسن کی تخلیق کا سلسلہ جاری ہے!

          ’شرِنگار رس‘ جس احساسِ حسن کا تقاضہ کرتا ہے وہ یہاں موجود ہے۔ یہ احساسِ حسن ہی ہے کہ جس کی وجہ سے گلشن میں رنگ گل سے آگ لگی نظر آ رہی ہے:

گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگ گل سے میرؔ

بلبل پکاری دیکھ کے صاحب پرے پرے

          گوشت پوست کا محبوب ہو یا اﷲ، وہ حسن ہے، حسن کا سرچشمہ ہے، اسی کا جلوہ ہے جو کائنات میں پھیلا ہوا ہے، خورشید و مہ ہو یا گل و آئینہ، ہر جگہ بس اسی کا حسن نظر آتا ہے۔ اسی کے رُو کی چمک دمک، اسی کے چہرے کی روشنی اور تازگی، اسی کی صورت کا رنگ ہر جگہ ہے:

گل و آئینہ کیا خورشید و مہ کیا

جدھر دیکھا تدھر تیرا ہی رو تھا

--------

دیا دِکھائی مجھے تو اسی کا جلوہ میرؔ

پڑی جہان میں جا کر نظر جہاں میری

حسن کا شدید احساس لیے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:

گل ہو، مہتاب ہو، آئینہ ہو، خورشید ہو میرؔ

اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو

--------

آئینہ ہو کے صورت معنی سے ہے لبالب

رازِ نہان حق میں کیا خود نمائیاں ہیں

--------

ہوا رنگ بدلے ہے ہر آن میرؔ

زمین و زماں ہر زماں اور ہے

--------

اپنی ہی سیر کرنے ہم جلوہ گر ہوئے تھے

اس رمز کو ولیکن معدود جانتے ہیں

--------

صبح ہوئی گلزار کے طائر دل کو اپنے ٹٹولیں ہیں

یاد میں اس خود رو گلِ تر کی کیسے کیسے بولیں ہیں

--------

اِک نور گرم جلوہ فلک پر ہے ہر سحر

کوئی تو ماہ پارہ ہے میرؔ اس رواق میں

--------

چھاتی قفس میں داغ سے ہو کیوں نہ رشک باغ

جوش بہار تھا کہ ہم آئے اسیر ہو

--------

          کائنات خوب صورت ہے، دُنیا کی ہر شئے حسین اور دلکش ہے، گل و آئینہ اور خورشید و مہ کے استعارے حسن کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، جدھر نظر جاتی ہے بس حسن ہی نظر آتا ہے، تصوف اور اس کی رُومانیت نے حسن اور حسن کے سرچشمے کا جو پیارا سا دلفریب تصویر دیا ہے، میرؔ صاحب نے اس سے گہری روشنی حاصل کی ہے۔

          بنیادی سچائی یہ ہے کہ فطرت یا نیچر میں جو حسن ہے اسی نے انسان کے جمالیاتی شعور کی تشکیل میں نمایاں حصہ لیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کے جمالیاتی شعور نے فطرت یا نیچر کو حسن بخشا ہے۔ جمالیاتی احساس نہ ہو تو نیچر کب خوب صورت اور دلکش لگے، جمالیاتی احساس و شعور ہی سے فطرت یا نیچر کا حسن اُبھرتا ہے۔ یہ بھی کہئے کہ خلق ہوتا ہے یا اس کی نئی تخلیق ہوتی ہے۔ خدا محبوب ہے، حسن ہے، مرکزِ حسن ہے،سرچشمۂ حسن ہے، جو کچھ دِکھائی دیتا ہے وہ سب اسی کا جلوہ ہے۔ گل، مہتاب، خورشید سب میں اس کا چہرہ ہے۔ میرؔ صاحب کہتے ہیں انسان کا دل ہو یا اس کی صورت ہو، اس کا پورا وجود، اس کا ظاہر و باطن حسنِ الٰہی کا آئینہ ہے، کہنے کو رازِ حق پوشیدہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ حسن ظاہر ہونا چاہتا تھا لہٰذا انسان کا وجود )ظاہر اور باطن دونوں( آئینہ بن گیا!

          کائنات کے حسن کو محسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں:

یہ دو ہی صورتیں ہیں یا منعکس ہے عالم

یا عالم آئینہ ہے اس یار خود نما کا

حسنِ کائنات حسنِ حقیقی کا عکس ہے،آئینہ ہے، خالقِ یار خود نما ہے، وہ چاہتا تھا کہ وہ جانا جائے، پہچانا جائے، محسوس کیا جائے، اس لیے یہ کائنات خلق کر دی۔ اس کا حسن ہے کہ بس ہر جانب ہر سو بکھرا ہوا ہے۔

          مندرجہ ذیل دو اشعار میرؔ کے تصوّرِ حسن میں بڑی کشادگی پیدا کر دیتے ہیں:

ہوا رنگ بدلے ہے ہر آن میرؔ

زمین و زماں ہر زماں اور ہے

اور

دل کو جو خوب دیکھا تو ہو کا مکان ہے

ہے اس مکاں میں ساری وہی لامکاں کی طرح

          گوتم بدھ نے کہا تھا تم ایک ہی ندی میں دوسری بار قدم نہیں رکھ سکتے اس لیے کہ تم بدلتے رہتے ہو!

          ہر دوسرے لمحے انسان خود ہی تبدیل ہو جاتا ہے!

          بدھ ازم میں یہ بات اس حد تک آگے بڑھی ہے کہ رُوح بھی یکساں نہیں رہتی، اس میں بھی ہمیشگی نہیں ہے، یہ بھی مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہے۔

          جین ازم کے مطابق چراغ کی لو، ہر لمحہ تبدیل ہوتی ہے، یکساں نہیں رہتی، روشنی کا تسلسل تو قائم رہتا ہے لیکن لو میں تبدیلی بھی مسلسل ہوتی رہتی ہے، ہر لمحہ لو کی صورت بدل جاتی ہے، پہلی صورت گم ہو جاتی ہے اور نئی صورت پیدا ہو جاتی ہے، شام کے روشن کیے چراغ کو صبح تک بجھاتے ہوئے لاکھوں لاکھ تبدیلیاں ہو چکی ہوتی ہیں۔

          گوتم بدھ کی بات اس بات سے مختلف ہے ناکہ ندی یکساں نہیں رہتی ہر لمحہ بدلتی رہتی ہے، ایک ہی ندی میں دوسری بار قدم نہیں رکھتے اس لیے کہ ندی بدل جاتی ہے!

          یہ تینوں باتیں متاثر کرتی ہیں، ایک بنیادی خوب صورت سچائی کا احساس دلاتی ہیں اور اس احساس کو بالیدہ کرتی ہیں۔ ان تینوں باتوں میں زندگی اور کائنات کا حسن اور اس کا مسلسل تخلیقی عمل پوشیدہ ہے۔ حسن ہر لحظہ تبدیل ہوتا رہتا ہے، طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک کا منظر ہر لمحے کو حسن کا ایک نیا نقش بناتا رہتا ہے۔

          ان باتوں کی روشنی میں میرؔ صاحب کے پہلے شعر کو پڑھئے تو ان کے احساسِ جمال کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ ہو گا:

ہوا رنگ بدلے ہے ہر آن میرؔ

زمین و زماں ہر زماں اور ہے

          ہر لمحے کے بدلتے ہوئے رنگ کا یہ انتہائی خوب صورت احساس ہے۔ ’’ہوا رنگ بدلے ہے‘‘ اور ’’ندی یکساں نہیں رہتی، ہر لمحہ تبدیل ہوتی ہے‘‘، ’’تم یکساں نہیں رہتے ہر لمحہ تبدیل ہوتے رہتے ہو‘‘، ’’رُوح میں ہر لمحہ تبدیلی ہوتی رہتی ہے، چراغ کی لو ہر لمحہ تبدیل ہوتی ہے‘‘ ایک دلفریب صورت گم ہوتی ہے تو دوسری خوب صورت آ جاتی ہے--- ان میں کیا فرق ہے؟ ایک ہی بات مختلف انداز سے کہی گئی ہے۔ بڑی گہرائیوں میں اُتر کر وجود، زندگی اور کائنات کے ہر لمحہ تبدیل ہوتے حسن کو محسوس کیا گیا ہے۔

          کلامِ میرؔ میں حسن ایک مثبت آفاقی انسانی قدر ہے، زندگی اور کائنات کے حسن و جمال اور مسلسل نئی صورتوں کے ساتھ وجود میں آتے جلوؤں کا غیر معمولی احساس بخشا گیا ہے۔ زندگی خوب صورت ہے، ہر لمحہ اس کا رنگ تبدیل ہوتا ہے، حسن کی تخلیق کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسرا شعر دیکھئے:

دل کو جو خوب دیکھا تو ہُو کا مکان ہے

ہے اس مکاں میں ساری وہی لامکاں کی طرح

          دل کو ’ہُو‘ کا مکاں کہا ہے۔ خالقِ کائنات کا مکاں بھی ’ہُو‘ کا مکاں ہے، خالی، جہاں کچھ بھی نہیں ہے، ایک عجیب و غریب پراسرار سنّاٹا ہے، ’کچھ نہیں‘ ہی میں سب کچھ ہے! پراسرار سنّاٹے اور خاموشی کے اندر حسنِ حقیقی کا آہنگ ہے، دل کے اندر، بہت اندر، بہت ہی اندر دیکھا تو لگا یہ ’ہُو‘ کا مکاں ہے، وہی پراسرار سنّاٹا ہے جو خدا کے ہُو کے مکاں میں ہے۔ یہ پراسرار سنّاٹا بھی غیر معمولی نوعیت کا ہے، ہُو کے عالم کے اندر، اس ’کچھ نہیں‘ کے بھیتر بھی سب کچھ ہے، کون جانے یہ دل ہی ہُو کا وہ مکاں ہو کہ جس میں خدا ہے! حسن حقیقی ہے!

          دل کو حسن کا مرکز اور حسن کا سرچشمہ بنا دیا ہے!

          اس شعر کا حسن یہ بھی ہے کہ خدا کا مکاں کہ جہاں کچھ بھی نہیں ہے، دل سے علیٰحدہ محسوس نہیں ہوتا، ’’ہے اس مکاں میں ساری وہی لامکاں کی طرح۔‘‘ جو کچھ خدا کے مکاں کے بارے میں سنتے ہیں وہ سب دل میں موجود ہے، خدا کا مکاں تو دیکھا نہیں لیکن دل جب خوب دیکھا تو ہُو کا مکاں نظر آیا، شدّت سے ہُو کا مکاں محسوس ہوا، ہو سکتا ہے یہی وہ لامکاں ہو، ہُو کا عالم لیے ہوئے خدا کا مکاں جہاں کچھ بھی نہیں ہے! یہاں کچھ بھی نہیں ہے لیکن اس ’کچھ نہیں‘ ہی میں سب کچھ ہے!

          میرؔ صاحب نے ان دونوں اشعار میں جس طرح جلال و جمال کو سمیٹ لیا وہ اپنی مثال آپ ہے، سنّاٹے اور خاموشی اور ہُو کے عالم میں حسن کو حد درجہ محسوس بنا دیا ہے۔ نیز زندگی کے ہر لمحہ بدلتے رنگ اور آہنگ کے تئیں بیدار کیا ہے--- ایک جگہ کہا ہے فرش عرش سب قلبِ حزیں میں سمائے ہوئے ہیں، بظاہر جو تنگ گھر ہے اس میں فرش و عرش کی تمام فضائیں موجود ہیں، دل کے اندر، اس کی گہرائیوں میں طرح طرح کی دلکش اور دلفریب فضائیں دیکھی ہیں:

ہے فرش عرش تک بھی قلبِ حزیں کا اپنے

اس تنگ گھر میں ہم نے دیکھی ہیں کیا فضائیں

دوسری جگہ کہتے ہیں

گھر دل کا بہت چھوٹا پر جائے تعجب ہے

عالم کو تمام اس میں کس طرح ہے گنجائی

          ’شرِنگار رَس‘ میں حیرت و استعجاب کی بڑی اہمیت ہے، میرؔ صاحب کے وہ اشعار جو احساسِ حسن اور اس کی شدّت کو پیش کرتے ہیں، جو المیہ کے حسن کے تئیں بیدار کرتے ہیں اور رومانیت اور اس کی ڈرامائی کیفیت کو نمایاں کرتے ہیں حیرت و استعجاب کو بھی محسوس بناتے ہیں، رجحان اور لہجہ حیرانی کا احساس لیے ہوئے ہوتا ہے جس سے اشعار کی دلآویزی اور بڑھ جاتی ہے۔ بلاشبہ غالبؔ تحیر اور تحیر کی جمالیات کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ 'Great Wonder' اور 'Aesthetics of Wonder' کے بڑے شاعر اور میرؔ ’شرِنگار رَس‘ کی شیرینی، مٹھاس، نفاست اور دلآویزی لیے تحیر کے چھوٹے چھوٹے خوب صورت تجربوں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ ان کے کلام میں تحیر لیے تجربوں کے چھوٹے چھوٹے نقش ملتے ہیں۔ انھیں Small Wonder کا شاعر کہا جا سکتا ہے، لیکن اس میں بڑی گہرائی ہے۔ یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

سب سطح ہے پانی کا آئینے کا سا تختہ

دریا میں کہیں شاید عکس اس کے بدن کا تھا

          منظر دیکھئے، محبوب کے بدن کے عکس کو دیکھ کر پانی حیرت سے جم گیا ہے اور آئینہ بن گیا ہے، اس آئینے میں اس خوب صورت جسم کا عکس اس طرح جلوہ گر ہے کہ جیسے اس پر نقش ہو گیا ہو، ’’دریا میں کہیں شاید‘‘ سے شعر کا لطف بڑھ گیا ہے۔ محبوب کا بدن حسن کی انتہا ہے یعنی حیرت! غالباً گیٹے نے کہا تھا حسن کی انتہا حیرت ہے۔ پانی نے شاید کہیں اس بدن کا عکس اپنے اوپر پایا تھا، دریا میں شاید کہیں محبوب کے حیرت انگیز جسم کا عکس پڑا ہو گا کہ دریا کا سارا پانی حیرت سے ٹھہر گیا اور صرف یہی نہیں آئینے کا سا تختہ بن گیا ہے کہ جس پر محبوب کے بدن کا عکس نقش ہو کر رہ گیا ہے۔

          غالبؔ کا ایک شعر ہے:

نادر آب افتادہ عکس قد دل جویش

چشمہ ہمچو آئینہ فارغ از روانی است

 (غالبؔ)

          میرؔ نے ایک واقعہ پیش کیا ہے، قیاس آرائی دلکش ہے، ’شاید‘ سے واقعے کی حیرت انگیز کیفیت کو محسوس بنایا ہے، داستان کی سحر انگیزی جذب ہو گئی ہے کہ جس سے تحیر بڑھ گیا ہے ’’ایسا ہوا ہو گا تب ہی ایسا ہوا ہے‘‘ یا ’’شاید ایسا ہوا ہو گا تب ہی ایسا ہوا ہے۔‘‘ میرؔ نے ایک ایسے منظر کو پیش کر دیا ہے کہ جس میں حیرانی کا احساس موجود ہے۔ شرِنگار رَس ایسا ٹپکا ہے کہ صاف شفاف پانی آئینے کا تختہ بن گیا ہے کہ جس پر محبوب کے بدن کا عکس نقش ہو کر رہ گیا ہے۔ دریا میں کہیں اس بدن کا عکس پڑا ہو گا کہ ندی کا سارا پانی آئینۂ جسم بن گیا ہے!

          یہ ایک خوبصورت منظر ہے، ایک پیاری سی تصویر، ایک دلکش نقش!

          غالبؔ کا شعر ایک متحرک ڈرامائی منظر ہے، محبوب اور بہتا ہوا چشمہ دونوں کر دار بن جاتے ہیں، محبوب کا عکس بہتے ہوئے چشمے پر پڑتا ہے تو چشمے کا بہاؤ رُک جاتا ہے، اس کا عکس چشمے پر ہے اور چشمہ دم بخود ہو کر ٹھہر جاتا ہے۔ وہ حیرت اور مسرت سے اس حسن کو دیکھ رہا ہے۔ تصور کیجیے اس منظر کا کہ جس میں محبوب چشمے کی جانب جھکا ہوا ہے، اس کا عکس چشمے پر ہے اور چشمہ دم بخود ہو کر اس کے حسن کو تک رہا ہے!

          غالبؔ کے کلام میں تو طلسم کی ایک بڑی حیرت انگیز دُنیا ہے، وہ اکثر حیرت یا تحیر کی حالت طاری کر دیتے ہیں، ان کا یہ شعر بھی تحیر کی جمالیات کی عمدہ مثال ہے لیکن چونکہ یہ شعر فارسی زبان میں ہے اور میرؔ کا شعر اُردو زبان میں، اس لیے میرؔ کا شعری تجربہ اساس و جذبے سے زیادہ قریب محسوس ہوتا ہے اور پھر یہ کہ غالبؔ سے بہت پہلے یہ شعر کہا گیا ہے۔ اس کے کیف و سرور کی اور ہی کیفیت ہے، جمالیاتی انبساط اور طرح کا ہے۔ خیال کی زرخیزی اور لہجے کی طلسمی کیفیت کو اس طرح کسی نے پیش نہیں کیا کہ اس کیفیت کے ساتھ دریا کے پورے پانی پر ایک حیرت انگیز نقش اُبھر آئے۔ شرِنگار رَس کے پیشِ نظر میرؔ کا یہ شعر اُردو کی بوطیقا میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔

          ’شرِنگار رَس‘ کو لیے تحیر کا یہ نقش بھی توجہ چاہتا ہے:

منہ تکا ہی کرے ہے جس تس کا

حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا

          آئینہ متحیر ہے، اس لیے کہ اس نے محبوب کا چمکتا دمکتا روشن چہرہ دیکھ لیا ہے، گم سم ہو گیا ہے، اسی گم سم حالت میں جس تس، ہر ایک کا منہ تک رہا ہے، شاید ایک بار پھر محبوب نظر آ جائے۔ ’’منہ تکا ہی کرے ہے‘‘ سے ’واقعہ‘ اور ’کیفیت‘ دونوں کو نقش کر دیا ہے، یہ واقعہ ہوا تھا، اس نے محبوب کے جلوے کو دیکھا تھا تب سے یہ کیفیت ہے، منہ تکا ہی کرے ہے! دوسرے مصرعے میں آئینے کی حیرت کا احساس بڑھا دیا گیا ہے۔ ’’حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا؟‘‘ یہ حیرت کا پیکر کیوں بن گیا ہے؟ ظاہر ہے اس نے کسی کا روشن تابناک چہرہ دیکھ لیا ہے، کس کا چہرہ تھا وہ؟--- کہ گم سم ہے اور جس تس کا منہ تک رہا ہے! حیرت زدہ آئینہ حسن کی تلاش میں ہے، وہ حسن جو اسے متحیر کر گیا ہے!

          یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ محبوب آئینۂ دل کے سامنے آیا تو اس کا دمکتا چہرہ اس پر نقش ہو گیا، وہ چلا گیا، آئینۂ دل کو متحیر کر کے، پھر اب تک اس آئینے کے سامنے نہیں آیا ہے، تب سے آئینۂ دل حیرتی ہے، جس تس کا منہ تک رہا ہے۔ اسے کس کی تلاش ہے؟

          میرؔ صاحب کا یہ شعر بھی توجہ طلب ہے:

آئینے کو بھی دیکھو پر ٹک ادھر بھی دیکھو

حیران چشم عاشق دمکے ہے جیسے ہیرا

          عاشق کی آنکھیں اتنی حیرت زدہ ہیں کہ ہیرے کی مانند دمک رہی ہیں، حسرتِ دیدار میں آنکھیں اتنی سفید ہو گئی ہیں کہ ان میں ہیرے کی مانند دمک اور روشنی آ گئی ہے۔ آئینے کو ضرور دیکھو لیکن ادھر بھی تو نظر کرو، عاشق کی حیرت سے کھلی آنکھیں ہیرے کی طرح دمک رہی ہیں، اس میں آئینے کو بھی دیکھو جو متحرک اور روشن ہے۔ چشم سفید میں بھی ہیرے جیسا نور ہے۔ ایک جگہ اپنے اس چشم حیراں کے حسن پر اس طرح فخر کیا ہے:

جو دیکھو تو نہیں یہ حال اپنا حسن سے خالی

دمک الماس کی سی ہے ہماری چشم حیراں میں

          محبوب کا حسن، حسنِ فطرت پر اثرانداز ہوتا ہے، محبوب کا جلوہ ہو یا اس کا عمل، حسنِ فطرت اور مظاہرِ فطرت پر اس کا اثر ہوتا ہے۔ میرؔ کا ایک نہایت خوب صورت شعر ہے:

اس گل زمیں سے اب تک اُگتے ہیں سر و مائل

مستی میں جھکتے جس پر تیرا پڑا ہے سایہ

غالبؔ کی جمالیات میں اس رجحان اور جہت کو بڑی اہمیت حاصل ہے، مثلاً:

دیکھ اس کے ساعد سیمیں و دست پر نگار

شاخِ گل جلتی تھی مثل شمع گل پروانہ تھا

(غالبؔ)

دیکھ کر تجھ کو چمن بسکہ نمو کرتا ہے

خود بخود پہنچے ہے گل گوشۂ دستار کے پاس

(غالبؔ)

          محبوب خود اپنے حسن و جمال کے نشے میں ہوتا ہے، جب چلتا ہے تو اس نشے کی وجہ سے جھومتا ہوا چلتا ہے۔ نشے میں جھکا ہوتا ہے اس لیے اس گل زمیں پر جہاں بھی اس کا سایہ پڑا وہاں سرو کے درخت اُگ آئے اور چونکہ نشے میں محبوب جھکا جھکا تھا اس لیے سرو کے درخت بھی سیدھے نہ اُگے، اُگے لیکن جھکے جھکے رہے۔ میرؔ صاحب نے گل زمیں کہا ہے جس سے مراد وہ چمن ہے کہ جہاں گلوں کے رنگ اور ان کی خوشبو پھیلی ہوئی ہے، یہ بھی محبوب کے وجود کی وجہ سے ہے، محبوب کے وجود کے رنگ اور خوشبو سے چمن گل زمیں بنا ہوا ہے۔ اس شعر کا حسن یہ ہے کہ جھکے جھکے سرو کے اُگنے کا سلسلہ جاری ہے، اپنے حسن کی مستی پر کیا سایہ پڑا کہ اس گل زمیں سے اب تک جھکے ہوئے سرو اُگ رہے ہیں۔ شرِنگار رَس کی دونوں بڑی خصوصیات یعنی احساسِ حسن اور رومانیت ایسے اشعار میں موجود ہیں، ایک جگہ کہتے ہیں:

کچھ گل سے ہیں شگفتہ کچھ سرو سے ہیں قد کش

اس کے خیال میں ہم دیکھے ہیں خواب کیا کیا

          چونکہ محبوب گل سے زیادہ شگفتہ اور سرو سے زیادہ قد کش ہے اس لیے اس کے تصور میں جو خواب دیکھتے ہیں ان میں ایسی صورتیں ہوتی ہیں جو گل سے زیادہ شگفتہ اور سرو سے زیادہ قد کش ہوتی ہیں۔ محبوب کا حسن گل کے جلوے سے زیادہ ہے جو شگفتگی اور جو خوشبو محبوب میں ہے گل میں نہیں ہے، اسی طرح محبوب سرو سے کہیں زیادہ قد کش ہے۔ خوابوں میں جو خوب صورتیں آتی ہیں وہ بھی گل سے زیادہ شگفتگی لیے ہوتی ہیں، گل سے زیادہ کشش اور خوشبو ہوتی ہے ان میں اور وہ سب سرو سے زیادہ قد کش ہیں، ایسے خوابوں کا سبب یہی ہے کہ میں محبوب کے تصور میں گم ہو جاتا ہوں، اس کے تصور میں گم رہنے کی وجہ سے ایسے خواب نظر آتے ہیں:

گل کو محبوب ہم نے قیاس کیا

فرق نکلا بہت جو باس کیا

          گل اور محبوب ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں، گل دیکھا تو لگا محبوب سامنے ہے، گل کی شگفتگی میں محبوب کی شگفتگی لگی لیکن جب قریب گئے تو فرق کو محسوس کیا وہ اس طرح کہ دونوں کی خوشبو میں فرق تھا۔ محبوب کا وجود اپنی منفرد خوشبو رکھتا ہے، بھلا گل کے پاس یہ خوشبو کہاں، میرؔ کی جمالیات میں محبوب کے وجود کی خوشبو نے جو اہمیت اختیار کر لی، اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے:

صحن میں میرے اے گل مہتاب

کیوں شگوفہ تو کھلنے کا لایا

          پیارا سا دلفریب شعر ہے۔ صحن میں گل چاندنی کی جھاڑی سے چاند کی کرنیں زمین پر پڑ رہی ہیں اور عاشق کی یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔ چاندنی محبوب کے حسن اور اس کے وجود کا عکس ہے کہ جس سے پرانے زخم ہرے ہو رہے ہیں، درد بڑھ رہا ہے، ایسا نہ ہو دیوانگی پھر طاری ہو جائے، حسن محبوب کی یاد کے ساتھ درد اور ٹیسوں کی یاد کا ایک سلسلہ قائم ہونے لگتا ہے۔ کہنے کو تو یہ کہا جا رہا ہے کہ ’’میرے صحن میں اے گل مہتاب کیوں شگوفہ تو کھلنے کا لایا‘‘ لیکن یہ کہتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے باطنی سطح پر انبساط بھی حاصل ہو رہا ہے، یادیں تازہ ہو رہی ہیں اور درد میں پھر کسک پیدا ہو رہی ہے، دل میں ٹیس اُٹھ رہی ہے۔ معروف ہندوستانی عالم جمالیات بھٹ لوللتا (Batta Lollata) نے رسوں پر گفتگو کرتے ہوئے باطنی سطح پر ایسے داخلی روحانی انبساط (Subjective Pleasure) کی جانب اشارہ کیا ہے۔ گل مہتاب سے تخاطب کا انداز ایسا نہیں ہے کہ جس سے یہ محسوس ہو کہ گل مہتاب نے غلطی کی ہے یا اس کی جھاڑی سے چاند کی کرنیں چھن کر جو آ رہی ہیں انھیں آنا نہ چاہیے تھا۔ ’شگوفہ‘ کا لفظ غور طلب ہے ’’کیوں شگوفہ تو کھلنے کا لایا‘‘ کسی قسم کی ناراضگی نہیں ہے، گل مہتاب کا شگوفہ کیا کھلا یادوں کا سلسلہ قائم ہو گیا۔ درد بڑھا، پرانے زخم کھل گئے، ٹیسیں بڑھیں، گل چاندنی سے چھن کر جو چاندنی نیچے اُتری وہ محبوب کا حسن، اس کا جلوہ بن گئی۔ باطنی سطح پر جو لذت ملی وہ اسی شگوفہ کے کھلنے کی وجہ سے ملی۔ تخاطب کا انداز کچھ ایسا بھی لگتا ہے ’’اے گل مہتاب تو نے ایسا کیوں کیا، دیکھ یادوں کا جو سلسلہ قائم ہو گیا ہے اس سے درد کتنا بڑھ گیا ہے! میرا جنوں ایک بار پھر بڑھ جائے گا۔‘‘

          پچھلے صفحات میں کہیں اس شعر کا ذکر کیا گیا ہے:

ہوا رنگ بدلے ہے ہر آن میرؔ

زمین و زماں ہر زماں اور ہے

اس کے ساتھ یہ شعر سنئے:

سرسری تم جہان سے گزرے

ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا

          انتہائی معصومانہ انداز میں عالم کے حسن کا احساس عطا کر دیا ہے۔ جلوۂ عالم کی جانب کتنی خوب صورت جہتیں ہیں اور اس کے جانے کتنے دلفریب اور دلکش پہلو ہیں۔ ہم آتے ہیں کچھ دیر سیر کرتے ہیں، کچھ دیر حسن عالم کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں، یعنی سرسری طور پر دُنیا کو دیکھتے ہیں، سرسری جہاں سے گزرتے ہیں۔ کُل عالم کے تمام جلوؤں کو نہیں دیکھتے، یہاں تو ہر قدم پر ایک جہانِ دیگر ہے، نت نئی دُنیاؤں سے آباد ہے یہ عالم،ہر جا جہانِ دیگر ہے کہ گر میرؔ صاحب نے عالم کی مختلف دُنیاؤں، ان کے مختلف پہلوؤں اور جہتوں کے حسن اور جلوؤں کے تئیں بیدار کر دیا ہے، روشنیوں اور خوشبوؤں سے بھری صرف ایک دُنیا نہیں ہے، جانے کتنے اور کیسے کیسے رنگوں، خوشبوؤں اور روشنیوں کو لیے کئی جہان ہیں، ہر جگہ، ہر قدم پر ایک نئی دُنیا کا انکشاف ہوتا رہا ہے۔ یہاں میرؔ صاحب کا احساسِ حسن کتنا گہرا اور معنی خیز ہے اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ان کے رومانی ذہن کی لطافت ہے کہ جس سے جذباتی سطح پر یہ جمالیاتی تجربہ حاصل ہوا ہے، بلاشبہ ایسے شعری تجربوں سے مسرّت آمیز بصیرت حاصل ہوتی ہے۔

          میرؔ کے کلام میں احساسِ حسن کبھی کبھی جلال کے پہلو کو شدّت سے اُجاگر کرتا ہے۔ دل جو محض ایک قطرۂ خوں ہے، طوفان کی صورت اختیار کر لیتا ہے، کچھ اس طرح کہ ماہیتِ دو عالم غوطے کھاتی پھرتی ہے، کہتے ہیں:

ماہیتِ دو عالم کھاتی پھرے ہے غوطے

یک قطرۂ خون یہ دل طوفان ہے ہمارا

          دل عشق کا مرکز اور سرچشمہ ہے۔ محض یک قطرۂ خون ہے لیکن سرچشمۂ توانائی ہے۔ طوفان بن جاتا ہے اور ماہیتِ دو عالم چکرا جاتی ہے۔ دونوں عالم کی وسعت کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا، اس کے برعکس یہ دل محض ایک قطرۂ خوں ہے، بظاہر اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن اس کی توانائی غیر معمولی ہے، ایسا طوفان ہے کہ ماہیتِ دو عالم اسے سمجھ نہیں پاتی، صرف یہی نہیں اسے جاننے پہچاننے کے لیے چکراتی پھرتی ہے، غوطے لگاتی رہتی ہے، اس کی ماہیت اور سچائی کو جاننے کے لیے! دل کا ذکر کر کے میرؔ نے عشق اور اس کی توانائی کا احساس بالیدہ کیا ہے۔

          اس شعر کے ساتھ ان اشعار کو بھی پڑھئے تو اس رجحان کو پہچاننے میں مدد ملے گی:

مت سہل ہمیں سمجھو پہنچنے تھے بہم تب ہم

برسوں تئیں گردوں نے جب خاک کو چھانا تھا

--------

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

--------

دل یہی ہے جس کو دل کہتے ہیں اس عالم کے بیچ

کاش یہ آفت نہ ہوتی قالبِ آدم کے بیچ

--------

برسوں لگی رہی ہیں جب مہر و مہ کی آنکھیں

تب کوئی ہم سا صاحب صاحبِ نظر بنے ہے

--------

اپنی ہی سیر کرنے ہم جلوہ گر ہوئے تھے

اس رمز کو ولیکن معدود جانتے ہیں

          انسان کے وجود اور اس کے باطن کی توانائی کا احساس میرؔ کے احساسِ حسن کا ایک اہم پہلو ہے، چونکہ انسان کا دل حسن و عشق کا مرکز ہے،اس لیے انسان سب سے زیادہ قیمتی ہے۔ یہ اشعار بھی توجہ طلب ہیں:

میں کون ہوں اے ہم نفساں، سوختہ جاں ہوں

اِک آگ مرے دل میں ہے جو شعلہ فشاں ہوں

--------

لایا ہے مرا شوق مجھے پردے سے باہر

میں ورنہ وہی خلوتیِ رازِ نہاں ہوں

--------

ہمت اپنی ہی تھی یہ میرؔ کہ جوں مرغِ خیال

اِک پر افشانی میں گزرے سر عالم سے بھی

--------

ہم ہیں قلندر آ کر اگر دل سے دم بھریں

عالم کا آئینہ ہے سیہ ایک ہو کے بیچ

--------

پیدا ہے کہ پنہاں تھی آتشِ نفسی میری

میں ضبط نہ کرتا تو سب شہر یہ جل جاتا

          میں نے کہا ہے ’شرِنگار رس‘ محبت اور غم کے جذبوں سے پیدا ہوتا ہے اور فن میں ان جذبوں کا جمالیاتی تجربہ بن جاتا ہے۔ غم اور المیہ، عشقِ زندگی اور عشقِ محبوب کی دین ہے۔ میرؔ صاحب کی سائیکی میں زندگی اور محبوب دونوں کے عشق اور درد کی کیفیت ایسی ہے کہ انھیں کبھی کبھی علیٰحدہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ عشق زندگی سے عبارت ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ فنکار کی ’سائیکی‘ کو جو روحانی جمالیاتی انبساط اور درد کی رُوحانی اور جمالیاتی لذّت حاصل ہوئی ہے انھیں اس نے بڑی سادگی سے قاری کی ’سائیکی‘ کو عطا کر دیا ہے۔ اکثر خیالات اور احساسات قاری کی ’سائیکی‘ پر شدّت سے اثرانداز ہوتے ہیں، اکثر سحر انگیزی غیر معمولی نوعیت کی ہوتی ہے۔ غم اور المیات کا حسن قاری کو گرفت میں لے لیتا ہے۔ ’غم‘ میرؔ صاحب کی شاعری اور اس شاعری کی جمالیات کا بنیادی جوہر ہے۔ ’لہو‘ ان کا سب سے معنی خیز محبوب استعارہ ہے:

دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک

قطرۂ خوں تھا مژہ پر جم رہا

--------

چشم خوں بستہ سے کل رات لہو پھر ٹپکا

ہم نے جانا تھا کہ بس اب تو یہ ناسور گیا

--------

یک قطرۂ خون ہوکے پلک سے ٹپک پڑا

قصہ یہ کچھ ہوا دلِ غفراں پناہ کا

--------

ہر صبح حادثے سے یہ کہتا ہے آسماں

دے جامِ خون میرؔ کو گر منہ وہ دھو چکا

--------

دامن میں آج دیکھا پھر لخت میں لے آیا

ٹکڑا کوئی جگر کا پلکوں میں رہ گیا تھا

--------

اِک عمر مجھے خاک میں ملتے ہوئے گزری

کوچے میں ترے آن کے لوہو میں نہایا

--------

جگر ہی میں یک قطرۂ خوں ہے سرشک

پلک تک خون گیا تو تلاطم کیا

--------

بہا تو خون ہو آنکھوں کی راہ بہہ نکلا

رہا جو سینۂ سوزاں میں داغ دار رہا

--------

لختِ دل کب تک الٰہی، چشم سے ٹپکا کریں

خاک میں تا چند ایسے لعل پارے دیکھئے

--------

جم گیا خوں کفِ قاتل پہ ترا میرؔ زبس

اُن نے رو رو دیا کل ہاتھ کو دھوتے دھوتے

--------

ہر اشک میرا ہے درِ شہوار سے بہتر

ہر لختِ جگر رشک عقیقِ یمنی ہے

--------

لیتا ہی نکلتا ہے مرا لختِ جگر اشک

آنسو نہیں گویا کہ یہ ہیرے کی کنی ہے

--------

وے دِن گئے کہ آنسو روتے تھے میرؔ اب تو

آنکھوں میں لختِ دل ہے یا پارۂ جگر ہے

--------

نہ تنہا داغ تو سینے پہ میرے اِک چمن نکلے

ہر اِک لختِ جگر کے ساتھ سو زخمِ کہن نکلے

--------

:سمجھ کے چنیوں کہ گلشن میں میرؔ کے

لختِ جگر پڑے ہیں نہیں برگ ہائے گل

--------

کیا ہے خوں مرا پامال یہ سرخی نہ چھوٹے گی

اگر قاتل تو اپنے پاؤں سو پانی سے دھوئے گا

--------

لوہو میں شور بور ہے دامان و جیب میرؔ

بپھرا ہے آج دیدۂ خوں بار بے طرح

--------

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا

لوہو آتا ہے جب نہیں آتا

--------

میں وہ رونے والا جہاں سے چلا ہوں

جسے ابر ہر سال روتا رہے گا

--------

میرے دل نے وہ نالہ پیدا کیا ہے

جرس کے بھی جو ہوش کھوتا رہے گا

--------

پلکوں پہ تھے پارۂ جگر رات

ہم آنکھوں میں لے گئے بسر رات

--------

کیا دن تھے کہ خون تھا جگر میں

رو اُٹھتے تھے بیٹھ دوپہر رات

--------

اے بوئے گل سمجھ کے مہکیو پون کے بیچ

زخمی پڑے ہیں مرغ ہزاروں چمن کے بیچ

--------

دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے

یہ دھُواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے

--------

گو خاک سی اُڑتی ہے مرے منہ پہ جنوں میں

ٹپکے ہے لہو دیدۂ نمناک سے اب تک

--------

نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا

شور اِک آسماں سے اُٹھتا ہے

--------

جب نام تیرا لیجیے تب چشم بھر آوے

اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے

--------

سینہ ہے چاک جگر پارہ ہے دل سب خوں ہے

تس پہ یہ جان بلب آمدہ بھی محزوں ہے

--------

خورشید میں محشر کی تپش ہو گی کہاں تک

یہ ساتھ میرے داغوں کے محشور ہوا ہے

--------

کیا جانے لذّتِ درد اس کی جراحتوں کی

یہ جانوں ہوں کہ سینہ سب چاک ہو گیا ہے

--------

ایدھر سے ابر اُٹھ کر جو گیا ہے

ہماری خاک پر بھی رو گیا ہے

--------

مصائب اور تھے پر دل کا جانا

عجب اِک سانحہ سا ہو گیا ہے

--------

دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے

یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

--------

کوئی تو آبلہ پا دشتِ جنوں سے گزرا

ڈوبا ہی جائے ہے لوہو میں سر خار ہنوز

--------

طرفہ خیال کیا کرتا تھا عشق و جنوں میں روز و شب

روتے روتے ہنسنے لگا یہ میرؔ عجب دیوانہ تھا

--------

میرؔ از بسکہ ناتواں ہوں میں

جی میرا سائیں سائیں کرتا ہے

--------

موقوف غمِ میرؔ کہ شب ہو چکی ہمدم

کل رات کو پھر باقی یہ افسانہ کہیں گے

          یہ صرف میرؔ کے خوب صورت جمالیاتی تجربے نہیں ہیں بلکہ اُردو شاعری کے اہم نمائندہ جمالیاتی تجربے بھی ہیں۔ ان سے میرؔ کی شاعری کے مزاج، رجحان، رویے اور میلان کی پہچان ہوتی ہے۔ ان اشعار میں اُتر جائیے تو ’شرِنگار رَس‘ لیے اُردو کے اس ممتاز شاعر کے کلام کی روح تک رسائی ہو جائے۔ بلاشبہ یہ تجربے میرؔ کی شناخت بن گئے ہیں۔ فنکار کے مزاج و شعور اور اس کی پوری شخصیت کا آہنگ دراصل ان ہی اشعار سے ملتا ہے۔ میرؔ کے کلام کے بنیادی جمالیاتی رجحان نے انھیں خلق کیا ہے۔

          میرؔ کے دواوین کے مطالعے سے خاکسار اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ میرؔ کے کلام کی رُوح تک رسائی ایسے اشعار ہی سے ہو گی کہ جن میں غم اور لہو کے تجربے ہیں۔ ان تجربوں کا بڑا گہرا رشتہ محبوب کے پیکر سے ہے، ان تجربوں کے ذریعے بھی محبوب کے حسن و جمال اور اس کے تیور تک پہنچا جا سکتا ہے اور محبوب کے ذریعے بھی ان تجربوں تک آیا جا سکتا ہے۔ [اُردو کی ادبی تنقید میں ابھی رجحانات اور رویوں کا بہتر مطالعہ نہیں ہوا ہے۔ جب رجحانات کا عمدہ مطالعہ ہو گا تو جمالیاتی رجحانات کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکے گا۔ چند کمزور اور معمولی اشعار کی بنیاد پر کوئی مفروضہ قائم کر لینا آسان ہو سکتا ہے لیکن بنیادی جمالیاتی رجحان قرار دیتے ہوئے کسی رویے یا رجحان کو تجربوں کا سرچشمہ قرار دینا یا اسے بنیادی مرکزی رجحانات پر فوقیت دینا خواہ مخواہ کی ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔ میرؔ کے شور انگیز تجربے )حالانکہ شور انگیزی کے تعلق سے میرؔ کے اکثر اشعار کمزور ہیں(اسی درد سے رشتہ رکھتے ہیں کہ جس سے لہو کا ’امیج‘ پھوٹا ہے۔]

          درد و غم اور المیات کے تعلق سے جو اشعار پیش کیے گئے ہیں وہ یقیناً میرؔ صاحب کے نمائندہ اشعار ہیں، اُردو شاعری میں ان اشعار سے قیمتی اضافہ ہوا ہے۔ یہ کلامِ میرؔ کی رُوح سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان اشعار سے المیہ کی جمالیات اُبھر کر سامنے آئی ہے۔ اس سچائی کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ غالبؔ اور صرف غالبؔ نے المیات کی جمالیات کو شدّت سے محسوس کرایا ہے۔ بہت سی روایتوں کے ساتھ میرؔ کی روایت سے بھی انھوں نے یقیناً فائدہ اُٹھایا ہے لیکن اپنی انفرادیت کو حد درجہ محسوس کرا دیا ہے، المیہ کی جمالیات میں غالبؔ ایک مستقل موضوع اور عنوان ہیں۔ اُردو کی بوطیقا میں المیہ کی جمالیات کا اتنا بڑا شاعر اب تک نہیں ملا ہے۔ آئیے پہلے میرؔ صاحب کے المیہ تجربوں اور ان تجربوں کے پہلوؤں اور ان کے حسن میں باتیں کریں۔ جو اشعار پیش کیے گئے ہیں، ان کے پیشِ نظر چند باتیں اس طرح سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

          بعض اشعار میں ایسی دلآویزی ہے کہ فوراً قاری کی سائیکی کو متاثر کرنے لگتی ہے جس طرح Mozart کی موسیقی فوراً احساس اور جذبے سے قریب ہو جاتی ہے۔ اسی طرح میرؔ کے ایسے تجربے دل و دماغ میں سمانے لگتے ہیں۔ Mozart کی موسیقی کی طرح بعض اشعار کا آہنگ سانس کی رفتار کے آہنگ میں جذب ہو جاتا ہے:

:سمجھ کے چنیو کہ گلشن میں میرؔ کے

لختِ جگر پڑے ہیں نہیں برگ ہائے گل

--------

دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے

یہ دھُواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے

--------

جب نام تیرا لیجیے تب چشم بھر آوے

اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے

--------

کوئی تو آبلہ پا دشتِ جنوں سے گزرا

ڈوبا ہی جائے ہے لوہو میں سر خار ہنوز

--------

          ایسے اشعار کا جمال آفاقی انسانی قدر کی طرح جلوہ گر ہو جاتا ہے۔ غم و درد کے شعری تجربوں کے گرد جو چمک اور روشنی ہے وہ ستاروں اور سیّاروں کے گرد بلّوری (Crystal) شعاعوں کی مانند ہے۔ درد و غم کا تجربہ متحرک ہوتا ہے اور بلّوری شعاعیں ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ تجربے کا حسن جلوہ بننے لگتا ہے۔ ہر المیہ تجربہ اپنی حرارت اور تابانی سے متاثر کرتا ہے۔

          میرؔ کے المیہ تجربے المیہ تصادم (Tragic Conflict) کو محسوس بناتے ہوئے فرد کی تکلیف اور اذیب کو نمایاں کرتے ہیں،شکست کا احساس بھی ملتا ہے۔ لہو رونے کا ایک سلسلہ قائم ہو جاتا ہے۔ میرؔ نے زندگی کو عشق میں تبدیل کر دیا ہے۔ لہٰذا غمِ زمانہ غمِ عشق بن گیا ہے اور غمِ عشق، غمِ زمانہ اور غمِ زندگی--- افسردگی کی فضا تو موجود رہتی ہے لیکن ساتھ ہی لذّتِ غم بھی ہے اور رُوح کا سوز و گداز بھی۔ المیہ کے تجربوں میں کیفیتِ انبساط پیدا کر کے جمالیاتی تسکین کا سامان غالباً اُردو شاعری میں سب سے پہلے میرؔ صاحب ہی نے فراہم کیا ہے:

دامن میں آج دیکھا پھر لخت میں لے آیا

ٹکڑا کوئی جگر کا پلکوں میں رہ گیا تھا

-------

اِک عمر مجھے خاک میں ملتے ہوئے گزری

کوچے میں ترے آ’ کے لوہو میں نہایا

-------

وہ دن گئے کہ آنسو روتے تھے میرؔ اب تو

آنکھوں میں لخت دل ہے یا پارۂ جگر ہے

-------

میرے دل نے وہ نالہ پیدا کیا ہے

جرس کے بھی جو ہوش کھوتا رہے گا

-------

طرفہ خیال کیا کرتا تھا عشق و جنوں میں روز و شب

روتے روتے ہنسنے لگا یہ میرؔ عجب دیوانہ تھا

          ایسے اشعار میں تصادم اور کشمکش کی شدّت پس منظر میں موجود ہے، المیہ تجربے تصادم ہی کی دین ہیں جو تمنّا کے آہنگ سے آشنا کرتے ہوئے مسرّت اور بصیرت بھی عطا کرتے ہیں۔ ’شرِنگار رس‘ کے اس پہلو پر غور کرتے ہوئے میرؔ کا محبوب استعارہ ’لہو‘ بار بار مرکزِ نگاہ بنتا ہے۔ ’لہو‘ کلامِ میرؔ کا مرکزی استعارہ ہے، یہ کہنا غلط نہ ہو گا یہ استعارہ ان کی شاعری کی جمالیات کا سب سے اہم سرچشمہ ہے۔ ’لہو‘ کے تعلق سے اشعار پیش کیے جا چکے ہیں۔ چند اور اشعار ملاحظہ فرمائیے:

جام خوں بن نہیں ملتا ہے ہمیں صبح کو آب

جب سے اس چرخ سیہ کاسہ کے مہمان ہوئے

--------

جم گیا خوں کفِ قاتل پہ ترا میرؔ زبس

ان نے رو رو دیا کل ہاتھ کو دھوتے دھوتے

--------

نشاں اشک خونیں کے اُڑتے چلے ہیں

خزاں ہو چلی ہے بہارِ گریباں

--------

سینے کے اپنے زخم سے خاطر ہو جمع کیا

دل ہی کی اور پاتے ہیں سب لوہو کا بہاؤ

--------

جگر لوہو کو ترسے ہے میں سچ کہتا ہوں دل خستہ

دلیل اس کی نمایاں ہے مری آنکھیں ہیں خوں بستہ

--------

نہیں ابرو ہی مائل جھک رہی ہے تیغ بھی ایدھر

ہمارے کشت و خوں میں متفق باہم ہیں یہ دونوں

--------

جائے روغن دیا کرے ہے عشق

خون بلبل چراغ میں گل کے

--------

عمر بھر ہم رہے شرابی سے

دل پر خوں کی اِک گلابی سے

--------

پیش از دم سحر مرا رونا لہو کا دیکھ

پھولے ہے جیسے سانجھ وہی یاں سماں ہے اب

--------

کس تازہ مقتل پہ کشندے تیرا ہوا ہے گزرا آج

زہ دامن کی بھری ہے لہو سے کس کو تو نے مارا آج

--------

مرے منہ پہ رکھا ہے رنگ اب تلک

ہزار آفریں چشم خوں بار کو

          بلاشبہ میرؔ زندگی کی جانب اپنے تخلیقی رویے سے حسن پیدا کرتے ہیں، المیہ جذبات جہاں درد و غم کو لیے ہوئے ہیں وہاں نشاطِ غم بھی موجود ہے۔ میرؔ کے المیہ میں Thrill نہیں ہے لیکن المیہ تصادم، اس کے گہرے تاثرات نیز اس کے ایسے نتائج کہ جن سے درد و غم کے احساس کے ساتھ جمالیاتی انبساط بھی حاصل ہو موجود ہیں اور یہی میرؔ کے کلام کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ میرؔ کو پڑھتے ہوئے مجھے اچانک یونان کا ایک پرانا ’5‘ یاد آ گیا، حاکمِ وقت بڑا ظالم تھا، اس کے عہد میں ایک فنکار مجسمہ ساز تھا کہ جس نے کانسی (Bronze)کا ایک بہت بڑا مجسمہ بنایا، بیل (Ox) کا یہ مجسمہ دیو ہیکل تھا، مجسمہ ساز Berillers نے حاکمِ وقت سے کہا۔ یہ ایسا مجسمہ ہے کہ اگر اس میں ملزم یا گنہ گار کو ڈال دیا جائے اور اس کے نیچے آگ لگا دی جائے تو ملزم یا گنہ گار کی ہر دردناک چیخ بیل کے منہ سے نغمہ بن کر نکلے گی اور بادشاہ اس نغمے سے محظوظ ہوں گے۔ یہ ’5‘ صرف اس لیے یاد آیا کہ اچھے المیہ تجربے واقعی نغمے بن جاتے ہیں۔ میرؔ کی شاعری میں بھی ایسا ہوا ہے اور غالبؔ کی شاعری میں بھی۔ یہ شرِنگار رس ہی کا جلوہ ہے۔ المیات کے تجربوں میں میرؔ ’’جذبے کے جمالیاتی تجربوں‘‘ کے ایک بہت اہم ممتاز شاعر کی طرح جلوہ گر ہوتے ہیں۔

          میرؔ کی شاعری میں غم ایک گہرا جذبہ ہے کہ جس کا ایک خوب صورت جمالیاتی استعارہ لہو ہے۔ غالبؔ کی شاعری میں غم ہمہ گیر ہے اور لہو ایک ’آرچ ٹائپ‘ (Archetype)! غالبؔ کی شاعری میں لہو کے آرچ ٹائپ کے اُبھرتے ہی تجربوں کا رنگ مختلف ہو جاتا ہے۔ شاعرانہ بصیرت کے ساتھ المیات کے حسن کا اساس شدید ہو جاتا ہے۔ لب و لہجے میں نئی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے۔ رنگ کی تصویریں زیادہ متحرک نظر آنے لگتی ہیں۔ ’آرچ ٹائپ‘ کی روشنی اور جمالیاتی وِژن کی صورت گر قوت سے ’الفاظ و معنی‘ کے رسمی تعلق سے زیادہ ’معنی و صورت‘ کے رشتے کی اہمیت کا احساس بڑھ جاتا ہے:

میں نے جنوں میں کی جو اسدؔ التماسِ رنگ

خونِ جگر میں ایک ہی غوطہ دیا مجھے

(غالبؔ)

          ’لہو‘ کے پیکر سے بہار کی یہ حسّی تصویر کتنی اچھوتی ہے کہ میں اس قدر رویا کہ میرے لہو سے بیاباں لالہ زار بن گیا، میری ’خزاں‘ دامنِ صحرا کی بہار ہو گئی‘ لہو کے رنگ سے بیاباں اور صحرا کی بہار کی یہ حسّی تصویر مجرد آرٹ کی کئی خصوصیتوں کو سمجھاتی ہے:

گرستیم آنقدر کز خونِ بیاباں لالہ زاری شد

خزاں ما بہار دامنِ صحراست پنداری

(غالبؔ)

          جمالیاتی ’وِژن‘ نے سرخ رنگ کے ’امیج‘ کو اس طرح اُبھار دیا ہے کہ رنگوں کی چنگاریاں اُڑتی نظر آ رہی ہیں۔ رنگوں کی اس فضا کی تصویر، مجرد آرٹ میں آسانی سے بنیادی تاثر کے ساتھ نہیں بن سکتی، رنگوں کے دھوئیں اور رنگوں کی چنگاریوں میں اسے ہر پھول آگ سے بھرے ہوئے دامن کو جھٹکتا نظر آ رہا ہے:

ہر گل از خویشنت آتش داماں زدہ

          ایک جمالیاتی ’امیج‘ جانے کتنے تاثرات اُبھارتا ہے۔ اپنی آگ میں جلنے کا تاثر، اپنے حسن کے شدید احساس کا تاثر، حسن کی وحدت کا تاثر، رنگوں کی چنگاریوں اور سرخ دھوئیں کا تاثر، فضا کا احساس غیر معمولی احساس ہے۔

          ’لہو‘ کے رنگ سے ’شفق‘ کا یہ تصور کتنا دلفریب ہے کہ ہر بن موسے خوں بار چشمے جاری ہیں۔ آج کی شب اپنے بستر کو شفق سے سجا رہا ہوں، ’دامنِ صحرا‘ کی بہار اور ’آفتاب‘ کے رنگ کے ساتھ شفق کے رنگ کو بھی لہو کے ’امیچ‘ نے اس طرح اُبھارا ہے:

از ہر بن ُمو چشمۂ خوں بار کشادم

آرائشِ بستر ز شفق میکنم امشب!

(غالبؔ)

          غالبؔ کی شاعری میں بھی ’لہو‘ کا ’امیج‘ رنگوں کے عشق سے اُبھرا ہے اور پھیلے ہوئے تہہ دار اور انتہائی پراسرار جمالیاتی اجتماعی لاشعور میں لہو کے آرچ ٹائپ کو بیدار کرتے ہوئے پوری تہذیب کی ٹریجیڈی کا علامیہ بن گیا ہے۔ ان کی شاعری میں ایسا جمالیاتی استعارہ ہے، جس سے غم کی جگر کاری کے ساتھ نشاطِ زیست کا بھی احساس ہوتا ہے، ’لہو‘ دیوانِ غالب کا ایک بنیادی حسّی استعارہ اور پیکر ہے جس کے المیات اور اس کی جمالیاتی قدروں کا مطالعہ بھی ہو سکتا ہے اور شاعر کی آواز کے طلسم اور اس کے آہنگ کی معنویت کا بھی ’لہو‘ غالبیات میں آتش کی سیّال صورت بھی ہے اور غم کا عرفان بھی، غالبؔ نے اس پیکر کو انتہائی وجد آفریں اور بصیرت افروز بنا دیا ہے۔ یہ پیکر اپنی گہرائی، تہہ داری، تازگی، لطافت، حرکت، گرمی اور روشنی اور رنگ سے متاثر کرتا ہے۔ بلاشبہ غالبؔ کی جمالیات میں اس پیکر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ اشعار یاد کیجیے:

پھر بھر رہا ہوں خامۂ مژگاں بہ خونِ دل

سازِ چمن طرازی داماں کیے ہوئے

--------

خوں ہو کے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ

رہنے دے مجھے یاں، کہ ابھی کام بہت ہے

--------

دل خوں شدۂ کش مکش حسرتِ دیدار

آئینہ بدست بت بدمست حنا ہے

--------

پھول اس چمن کے دیکھتے کیا کیا جھڑے ہیں ہائے

سیلِ بہار آنکھوں سے میری رواں ہے اب

--------

اچھا ہے سر انگشت حنائی کا تصوّر

دل میں نظر آتی ہے تو اِک بوند لہو کی

--------

رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل

جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

--------

چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن

ہمارے جیب کو اب حاجتِ رفو کیا ہے

---------

ایسا آساں نہیں لہو رونا

دل میں طاقت، جگر میں حال کہاں

--------

جو تھا سو موج رنگ کے دھوکے میں مرگیا

اے وائے نالۂ لبِ خونیں نوائے گل

--------

سطوت سے تیرے جلوۂ حسنِ غیور کی

خوں ہے مری نگاہ میں رنگ ادائے گل

--------

دردِ دل لکھوں کب تک، جاؤں ان کو دِکھلا دوں

اُنگلیاں فگار اپنی، خامۂ خونچکاں اپنا

--------

باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر

ہر گلِ تر ایک چشمِ خوں فشاں ہو جائے گا

--------

رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا

جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

--------

دل تا جگر کہ ساحلِ دریائے خوں ہے اب

اس رہگذر میں جلوۂ گل آگے گرد تھا

--------

بیاں کیا کیجیے بیداد کاوش ہائے مژگاں کا

کہ ہر اِک قطرۂ خوں دانہ ہے تسبیحِ مرجاں کا

---------

غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل

خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا

          یہ اشعار بلاشبہ اُردو کی بوطیقا کی آبرو ہیں۔ دُنیا کی بہترین شاعری میں ان کا شمار ہونا چاہیے۔ میرؔ کی روایت بھی غالبؔ تک آئی ہے اور غالبؔ نے میرؔ کا مطالعہ بھی کیا ہے۔ اس روایت کی روشنی بھی حاصل کی ہے لیکن المیات اور لہو کے ’امیج‘ کے پیشِ نظر غالبؔ ایک مستقل عنوان بن گئے ہیں۔ غالبؔ ایک دیو پیکر شخصیت کا نام ہے۔ ’دیوانِ غالب‘ اُردو ادب کا سب سے بڑا معجزہ ہے، تخلیقی فن میں غالبؔ کے ذہن کے ساتھ ان کے تہہ دار جمالیاتی وِژن نے تہہ داری اور معنی خیزی پیدا کی ہے۔ رنگوں، روشنیوں اور خوشبوؤں کا احساس عطا کیا ہے، اسی ’وِژن‘ کی وجہ سے وہ ایک بڑے ’5‘ (Legend) بن گئے ہیں،میرؔ خوب صورت اکہرے تجربوں کے شاعر ہیں، لغت کی مدد سے ان کے بعض اشعار کے لفظوں کے ایک سے زیادہ معنی بتائے جا سکتے ہیں، غالبؔ کا معاملہ ہی دوسرا ہے۔ ان کے اشعار جہتوں کی شاعری کی خصوصیات لیے ہوئے ہیں۔ میرؔ کی شاعری جہت دار نہیں ہے جبکہ غالبؔ کی شاعری جہت دار ہے، اپنی معنی خیزی سے ہر تجربے کو محسوس بناتی ہے۔ درد و غم کے تجربے اور لہو اور آتش کے پیکر اُردو کے کم و بیش تمام اہم روایتی اور کلاسیکی شاعروں کے کلام میں موجود ہیں لیکن صرف غالبؔ ہی اپنے وسیع تہہ دار اور جہت دار جمالیاتی وِژن سے اُردو کی بوطیقا کو ٹریجیڈی کی جمالیات کا ایک ڈراما پیش کر سکے۔ یہ میرؔ یا مصحفیؔ کے بس کی بات نہیں تھی۔ ان سے یہ توقع رکھنا بھی غلط ہے۔ وہ اس قسم کا کوئی ڈراما یا ایسی کوئی تمثیل پیش نہیں کر سکتے تھے۔ یہ ’شخصیت‘ کا معاملہ ہے!

          ’لہو‘ اور ’خون‘ کے تعلق سے غالبؔ کے جو اشعار پیش کیے گئے ہیں ان سے غم کے عرفان، زمانے کی جگر کاری اور نشاطِ زیست کی پہچان ہوتی ہے۔ ’لہو‘ کے اس جمالیاتی پیکر اور استعارے کے ساتھ زخم، گریہ،ماتم، نالہ، حسرت، آبلہ، فرقت، داغِ نہاں، رنج، درد و الم، وحشت، غمِ پنہاں، لذّتِ الم، چاکِ جگر، احتیاط و جنوں، جراحتِ دل اور جوشِ اشک سب کے حسّی اور جمالیاتی تصوّرات وابستہ ہیں:

یک مشت خوں ہے، پر توِ خور سے تمام دشت

دردِ طلب بہ آبلہ نادبیدہ کھینچ

(غالبؔ)

          لہو کے پیکر یا استعارے کے ساتھ اُردو شعریات کا کوئی شعر اب تک اس کے قریب نہ آ سکا! غالبؔ ٹریجیڈی کی جمالیات کے ایک بڑے فنکار ہیں، میرؔ نہیں ہیں۔ میرؔ المیہ کے حسن کو پیش تو کرتے ہیں لیکن اسی حد تک کہ جس حد تک وہ کلاسیکی اور روایتی تصوّرات اور تجربات کو تازگی بخشتے ہیں۔ درد و غم کا اظہار ہو یا لہو کے استعارے کا استعمال، وہ اکثر ایک ہی قسم کے تجربے کو دہراتے رہے ہیں۔ مثلاً دل کا قطرۂ خوں بننا، پلکوں پر رہ جانا یا ٹپک جانا۔ اس تجربے کو بار بار دہرایا ہے:

دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک

قطرۂ خوں تھا مژہ پر جم رہا

--------

چشم خوں بستہ سے کل رات لہو پھر ٹپکا

ہم نے جانا تھا کہ بس اب تو یہ ناسور گیا

--------

دل سے آنکھوں میں لہو آتا ہے شاید رات کو

کشمکش میں بے قراری کی یہ پھوڑا چھل گیا

--------

یک قطرۂ خون ہو کے پلک سے ٹپک پڑا

قصہ یہ کچھ ہوا دلِ غفراں پناہ کا

---------

دامن میں آج دیکھا پھر لخت میں لے آیا

ٹکڑا کوئی جگر کا پلکوں میں رہ گیا تھا

--------

اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا

لوہو آتا ہے جب نہیں آتا

--------

پلکوں پہ تھے پارۂ جگر رات

ہم آنکھوں میں لے گئے بسر رات

--------

کیا دن تھے کہ خون تھا جگر میں

رو اُٹھتے تھے بیٹھ دوپہر رات

--------

لیتا ہی نکلتا ہے مرا لختِ جگر اشک

آنسو نہیں گویا کہ یہ ہیرے کی کنی ہے

--------

ہر اشک میرا ہے دُرِ شہوار سے بہتر

ہر لختِ جگر رشک عقیقِ یمنی ہے

--------

وے دن گئے کہ آنسو روتے تھے میرؔ اب تو

آنکھوں میں لختِ دل ہے یا پارۂ جگر ہے

--------

لختِ دل کب تک الٰہی، چشم سے ٹپکا کریں

خاک میں تا چند ایسے لعل پارے دیکھئے

---------

جگر ہی میں یک قطرہ ہے سرشک

پلک تک گیا تو تلاطم کیا

          غور کیجیے ہر شعر خوب صورت اور دلنواز ہے۔ ہر شعر اپنا خاص حسن رکھتا ہے لیکن ایک ہی موضوع ہے۔ ایک ہی خیال ہے جو مختلف انداز سے ظاہر ہوا ہے، ایک ہی رجحان اور رویے کے اشعار ہیں جو اپنی جگہ جمالیاتی تاثر عطا کرتے ہیں۔

          ہم نے پچھلے صفحات پر لہو اور خون کے جو جمالیاتی تجربے کلامِ غالبؔ میں دیکھے ہیں ذرا ان پر ایک بار پھر نظر ڈالیے۔ مختلف تیور، مختلف رجحان اور رویے، مختلف فکر و نظر اور تہہ دار جمالیاتی ’وِژن‘ کا گہرا احساس ہو گا۔ غالبیات میں جو سرچشمۂ جمال ہے وہاں تک کوئی نہیں آیا۔

          غالبیات میں ٹریجیڈی کا حسن ایک انتہائی فکر انگیز موضوع ہے۔ المیہ پہلو غالبؔ کی شاعری کا وہ پہلو ہے کہ جس سے تہہ دار جمالیاتی شعور اور لاشعور کی پراسرار شعاعیں نکل کر دوسرے پہلوؤں تک پہنچتی ہیں اور نئی صورتیں خلق کرتی ہیں۔

          غالبؔ کی شاعری میں ٹریجیڈی کی جمالیات کے مطالعے میں تین رجحانات پر نظر رکھیے تو بصیرت بھی ملے گی اور جمالیاتی انبساط بھی حاصل ہو گا۔ یہ تینوں رجحانات ایک ہی تخلیقی وِژن کی تخلیق میں اور ایک دوسرے میں جذب ہیں۔ اس سلسلے میں آتش، رنگ اور لہو کے ’آرچ ٹائپ‘ (Archetype) اور حسّی پیکروں کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہو گا۔

          ایک رجحان یہ ہے کہ شاعر کو المیات نے جکڑ لیا ہے۔ وہ شدید داخلی کشمکش میں گرفتار ہے۔ حالات پر گزرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے، لیکن حالات اس پر چبھتے ہوئے لمحوں کے ساتھ گزرے ہیں، غم اور لہو کی آواز یہ کہتی ہے کہ اس آواز کو ہم جانے کب سے پہچانتے آئے ہیں:

اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو

توڑا جو تُو نے آئینہ، تمثال دار تھا

(غالبؔ)

دل تا جگر کہ ساحلِ دریائے خوں ہے اب

اس رہ گزر میں جلوۂ گل آگے گرد تھا

(غالبؔ)

          ’وِژن‘ میں جو لہو بھرے پیکر ہیں وہ جانے پہچانے اور محسوس کیے ہوئے ہیں، شعری اور جمالیاتی تجربوں میں یہ پیکر کچھ دُور جا کر ’لینڈ اسکیپ‘ (Landscape) بن گئے ہیں اور جمالیاتی تمثال یا ’امیج‘ نظر آ رہے ہیں۔

          ’ایک شہرِ آرزو‘ کا ماتم ہے اور تمثال دار آئینے کے ٹوٹنے کا تصوّر جانے کتنے خوبصورت نغموں کے ٹوٹنے بکھرنے کا احساس عطا کرتا ہے، اِسی شہرِ آرزو میں دریائے خون ہے، ان ہی آرزوؤں کا لہو ہے، ’’دل سے جگر تک‘‘ کے خیال سے داخلی کیفیت کی ایسی تصویر اُبھاری گئی ہے جس سے گزرے ہوئے لمحوں کے ساتھ گزرتے ہوئے لمحوں کی ’صورتوں‘ کی بھی پہچان ہو جاتی ہے۔ غالبؔ کے فن کا تقاضا یہ ہے کہ ایک یا ایک سے زیادہ مجرد لکیروں سے ’وِژن‘ کو سمجھ لیا جائے۔

          موجِ رنگ کا عاشق جب ایک بڑا المیہ کر دار بن جاتا ہے تو گل کے رنگ کو پہلے تو فریبِ تماشا کہنا چاہتا ہے پھر جب شدید داخلی اضطراب اور تصادم کا شکار ہوتا ہے تو اس رنگ کو گل کا نالۂ خونچکاں کہتا ہے:

گل غنچگی میں غرقۂ دریائے رنگ ہے

اے آگہی، فریبِ تماشا کہاں سنیں

--------

جو تھا سو موجِ رنگ کے دھوکے میں مرگیا

اے وائے نالۂ لبِ خونیں نوائے گل

          یہ آگہی سچائی یا حقیقت کا عرفان ہے، اس میں حسنِ خیال اور حسنِ ادا کے ساتھ باطن میں مایوسی کی لہروں کا ایک مجرد احساس بھی ہے۔ ’فریبِ تماشا‘ سے زندگی کی ٹریجیڈی کی ایک تصویر بن گئی ہے۔ نشاطِ زیست کے ساتھ غمِ زیست بھی ہے۔انجامِ زیست کے خیال نے فریبِ تماشا کی اصطلاح سے دریائے رنگ کی حقیقت واضح کر دیا ہے۔ اس اصطلاح سے ’المیہ کا حسن‘ اور ’حسن کا المیہ‘ دونوں سامنے آ گئے ہیں۔ غالبؔ کی ٹریجیڈی میں ایمائی اندازِ بیان کو زیادہ اہمیت حاصل ہے، المیہ کر دار ایک تماشائی ہے اور حسن، فریبِ تماشا، غالبؔ نے اس حقیقت کو ایک جمالیاتی رمز بنا دیا ہے۔ ایمائی اندازِ بیان میں اس رمز کی المیہ صورت کی پہچان مشکل نہیں ہوتی۔

          دوسرا شعر حسن کے المیہ اور پھر المیہ کے حسن کو شدّت سے اُبھارتا ہے، جس رنگ کے سب عاشق ہیں وہ رنگ، گل کا نالۂ خونچکاں ہے۔ آواز اور رنگ کی وحدت نے المیہ کے جمال کا احساس اس لمحے دیا ہے جب جمال کے المیہ کی تصویر باطن کے خونیں عکس سے مکمل ہو گئی ہے۔ یہاں بھی فریبِ تماشا ہے۔ رنگ گل کو لہو کے امیج میں اس طرح جذب کر کے غالبؔ نے المیہ تجربوں میں بڑی تہہ دار معنویت پیدا کی ہے اور ظاہر اور باطن کی صورت کی ایک نئی تصویر بنائی ہے۔

          مندرجہ ذیل چند اشعار سے اس بنیادی المیہ رجحان کی پہچان ہو جاتی ہے۔ داخلی اضطراب اور باطنی تصادم کے ساتھ موجود کیفیت بھی سامنے آ جاتی ہے:

باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر

ہر گلِ تر ایک چشم خوں فشاں ہو جائے گا

-------

درماندگی میں غالبؔ کچھ بن پڑے تو جانوں

جب رشتہ بے گرہ تھا، نان گرہ کشا تھا

-------

زہرہ گر ایسا ہی شامِ ہجر میں ہوتا ہے آب

پرتوِ مہتاب سیلِ خانماں ہو جائے گا

--------

بیاں کیا کیجیے بیداد کاوش ہائے مژگاں کا

کہ ہر اِک قطرۂ خوں دانہ ہے تسبیح مرجاں کا

--------

ہے خونِ جگر جوش میں دل کھول کے روتا

ہوتے جو کئی دیدۂ خوں نابہ فشاں اور

--------

دردِ دل لکھوں کب تک، جاؤں ان کو دِکھلا دوں

انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا

--------

رگ و پے میں جب اُترے زہر غم، تب دیکھئے کیا ہو

ابھی تو تلخیِ کام و دہن کی آزمائش ہے

--------

غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل

خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا

--------

جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آبجو

یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خون ناب تھا

--------

گر نگاہِ کرم فرماتی رہی تعلیمِ ضبط

شعلۂ خس میں، جیسے خوں رگ میں، نہاں ہو جائے گا

--------

          ’موجود کیفیت‘ اور گزرتے ہوئے لمحوں کی شدید چبھن اور داخلی تصادم اور ہیجانات کے یہ تجربے غور طلب ہیں، افسردگی اور مایوسی بھی ہے اور آنے والے لمحوں کی گہری تاریکی کا احساس بھی ہے۔ پہلے شعر میں المیہ کر داروں کے پورے وجود کی تصویر چھپی ہوئی ہے۔ ردّ عمل سے اس تصویر کے نقوش تجریدی لکیروں میں مختلف ذہنوں میں مختلف انداز سے اُبھریں گے۔ ہر ذہن میں زخمی روح اور زخمی اور لہولہان پیکر کی صورت الگ ہو گی۔ ’موجود کیفیت‘ کا اثر باغ کے ہر گل پر ہوتا ہے۔ فرد کی باطنی کیفیت خارجی حسن سے ایک پراسرار رشتہ رکھتی ہے۔

          دوسرے شعر میں المیہ کر دار کی بے بسی ملتی ہے۔ ناخن میں گرہ کشائی کی طاقت باقی نہیں رہی جبکہ زندگی میں ہر لمحہ ایک گرہ پڑتی جا رہی ہے، ماضی کی آسودگی کی یاد درماندگی کے شدید احساس کے ساتھ اُبھری ہے، غالبؔ کے المیہ تجربوں میں جدائی اور ہجر کے تجربوں کو نمایاں حیثیت دینا چاہیے۔ غزل کے اس روایتی لفظ میں غالبؔ نے تہہ دار معنویت پیدا کی ہے اور اپنے المیہ تجربوں میں اس لفظ کو نئے مفاہیم عطا کر کے جانے کتنے احساسات کو روشن کیا ہے۔ ہجر، داخلی کشمکش اور بے پناہ بے چینی اور اضطراب اور میکانیت اور جذباتیت کے تصادم کا اشارہ ہے جس سے شوق اور آرزوؤں کی کیفیت کے ساتھ وحشتِ آتشِ دل اور آرزوؤں کی شکست کے تماثیل (Images) بھی سامنے آئے ہیں۔

          میرؔ کے شعر میں غم، کرب، درد اور داخلی اضطراب کی کیفیت کو سمجھانے کی کوشش کی ہے، خوف اور خواہش دونوں ایک دوسرے میں جذب ہیں۔ باطنی کیفیتوں کا اثر پورے معاشرے اور خارجی عناصر اور مظاہرِ فطرت پر ہوتا ہے۔ اندیشہ اور ڈر سے جس نشاطِ غم کو محسوس کیا گیا ہے وہ تحت الشعور میں موجود ہے۔ چاندنی کے طوفان اور سیلاب کا ’امیج‘ غیر معمولی ہے۔ اپنے غم اور اس غم کے ردّ عمل کو شاعر کس طرح اور کہاں کہاں اور کس انداز سے دیکھ رہا ہے اس پر غور فرمائیے۔ المیہ کر دار کو اپنے وجود کے پھیلاؤ اور اپنی انفرادیت کا احساس ہر وقت رہتا ہے، اس خیال کے پیشِ نظر ایسے اشعار پر غور کرنا چاہیے، چاند اس کے وجود میں ہے، یہ خود اس کا وجود بھی ہے اور اس کا آئینہ بھی۔ اس کے پگھل جانے کے احساس اور چاندنی کے سیلاب یا طوفان کے ’امیج‘ سے المیہ کر دار کے وجود کا تصور وابستہ ہے۔ چوتھے شعر میں نشاطِ غم کی تصویر اچھوتی ہے۔ لمحوں کی چبھن بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے اور المیہ کر دار کے اضطراب کی بھی پہچان ہو جاتی ہے۔ ہر قطرۂ خوں میں سوراخ کرنے کا مسلسل عمل جاری ہے۔ شاعر اس کیفیت میں بھی نشاط کا ایک پہلو پالیتا ہے، ہر قطرۂ خون دانۂ مرجاں کی طرح قیمتی بھی ہو گیا ہے۔

          ’موجود حالت‘ یا ’موجود کیفیت‘ اور شکست و ریخت کی ان تصویروں سے ایک المیہ رجحان واضح ہوتا ہے۔ اس رجحان سے غالبؔ کے ’وِژن‘ نے ٹریجیڈی کی جمالیات کے جانے کتنے پہلوؤں کو روشن کیا ہے۔ زمانے کی شکست و ریخت، عشق کے کچوکے، انسان کی تاریخ میں ٹریجیڈی کی کیفیت-- ان کے پیشِ نظر ان اشعار کا تجزیہ کیجیے تو غم ایک محیط اور ہمہ گیر حقیقت نظر آئے گا اور یہ بھی معلوم ہو گا کہ غم کے عرفان نے نشاطِ زیست اور مسرت آمیز بصیرت کو کس طرح پیدا کیا ہے۔ غم کے عرفان اور نشاطِ زیست میں ٹریجیڈی کا حسن ملتا ہے۔ رنگوں، آوازوں اور حرکتوں کی اس خوب صورت دُنیا کے عشق کے یہ تجربے ہیں جو المیہ کے جمال کے ساتھ اُبھرے ہیں۔ غالبؔ نے یہ نہ کہا ہوتا:

جلوے کا تیرے وہ عالم ہے کہ گر کیجیے خیال

دیدۂ دل کو زیارت گاہِ حیرانی کرے

--------

گردشِ ساغر صد جلوۂ رنگیں تجھ سے

آئینہ داری یک دیدۂ حیراں مجھ سے

--------

بخشے ہے جلوۂ گل، ذوقِ تماشا غالبؔ

چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا

--------

زباں پہ بارِ خدایا ! یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے

--------

آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز

پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں

-------

ہے رنگ لالہ و گل و نسریں جدا جدا

ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے

-------

تو ایسے المیہ تجربے بھی پیش نہ ہوئے ہوتے، کائنات، زندگی اور محبوب سے محبت کرتے ہوئے جب وہ اجنبی اور اذیت ناک لمحوں سے گزرتے ہیں تو یہ حسّی المیہ شعری تجربے سامنے آتے ہیں۔ المناکی حد درجہ بڑھ جاتی ہے تو المیہ تجربوں میں بڑی شدت، ہمہ گیری اور تہہ داری پیدا ہو جاتی ہے:

کوہ کے ہوں بارِ خاطر، گر صدا ہو جائیے

بے تکلف، اے شرارِ جستہ ! کیا ہو جائیے

-------

باغ پاکر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے

سایۂ شاخِ گل، افعی نظر آتا ہے مجھے

-------

مدعا محوِ تماشائے شکستِ دل ہے

آئینہ خانے میں کوئی لیے جاتا ہے مجھے

-------

دل خوں شدۂ کشمکش حسرتِ دیدار

آئینہ بہ دست بتِ بدمست حنا ہے

-------

در ہجر طرب بیش کند تاب و تبم را

مہتاب کف مارِ یاہ مست شبم را

-------

          ہر ’امیج‘ ذوقِ نظر اور ’وِژن‘ کی صنم سازی کا عمدہ اور عظیم تر نمونہ ہے۔ آخری شعر کے ’امیج‘ کی مثال خود غالبؔ کے کلام میں اور کہیں نہیں ملتی۔ غالبؔ کے ’وِژن‘ نے سرخ رنگ کو اکثر اتنا گاڑھا کر دیا ہے کہ ’سیاہ رنگ‘ کے پیکروں کی تخلیق ہوئی ہے اور بات صرف ’زلف‘ تک نہیں رہی ہے۔ ’افعی‘ کے پیکر نے علامیہ بن کر جانے کتنے حسّی تجربوں کی لہروں کا احساس اُبھارا ہے اور انھیں بیدار کیا ہے۔ یہ بھی نہ بھولئے کہ سانپ ایک قدیم علامت ہے اور اجتماعی لاشعور میں مختلف صورتوں اور پیکروں میں موجود ہے۔ سانپ کے پیکر نے ان کے مجرد احساساتی جمالیاتی رجحان کو اور واضح کر دیا ہے۔ مغلوں کے زوال اور ایک بڑے نظامِ زندگی کی ویرانی کو ایک کھنڈر تصور کیجیے اور یہ شعر پڑھتے ہوئے غالبؔ کے ’وِژن‘ پر غور فرمائیے:

باغ پاکر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے

سایۂ شاخِ گل، افعی نظر آتا ہے مجھے

تو یہ محسوس ہو گا کہ شاعر کا باطن ہی ایک کھنڈر ہے جہاں سایۂ شاخِ گل افعی نظر آ رہا ہے۔ معاشرے کا المیہ باطن سے علیٰحدہ نہیں ہے۔ اسی طرح کہ جس طرح کل سانس کی خوشبو اور نکہتِ گل میں ایک ہی بات تھی۔ المیات میں جکڑ جانے کے بعد المیہ کر دار میں ڈر اور خوف بھی پیدا ہو گیا ہے۔ اس المیہ رجحان کا یہ ایک لطیف پہلو بھی ہے۔ غالبؔ کے حسّی تجربوں میں یہ بات بھی ہے، خارجی عناصر مختلف صورتیں تبدیل کر کے اس المیہ کر دار کو ڈراتے بھی ہیں، یہ عناصر جانتے ہیں کہ یہ خوف زدہ ہو جائے گا، اس خیال کے پیشِ نظر اس شعر کو پھر پڑھئے:

باغ پاکر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے

سایۂ شاخِ گل، افعی نظر آتا ہے مجھے

اور المیہ کی شدت اس شعر میں اور بڑھ گئی ہے:

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

فارسی کے شعر میں حسن، محبوب، معاشرہ یا زمانہ اور خود اپنی ذات سے جدائی کا تاثر اُبھارا ہے:

در ہجر طرب بیش کند تاب و تبم را

مہتاب کف مار سیاہ مست شبم را

          مہتاب یا چاندنی سامانِ عیش و طرب ہے، فراق یا ہجر میں سامانِ عیش سے باطن میں بے چینی اور تپش اور بڑھ جاتی ہے۔ کل چاندنی یا مہتاب نے لذت آمیز لمحے عطا کیے تھے اس سے احساسِ لذت اور بڑھ جاتا تھا، ایک داخلی تحرک لذت پیدا ہوتا تھا۔ آج ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے مہتاب یا چاندنی میری تاریک رات بن گئی ہے، مارِ سیاہ کے پھن کی طرح یہ چاندنی میری رات میں آئی ہے۔ کفِ مارِ سیاہ کا ’امیج‘ غالبؔ کے ’وِژن‘ کا ایک غیر معمولی ’امیج‘ ہے۔ ٹریجیڈی کی شدّت میں اس لمحے اضافہ ہو جاتا ہے، جب سارتر (Sartre) کے الفاظ میں ’’المیہ ہیرو اپنی ذات کو خود پسند کرتا ہے‘‘ المیہ زندگی کو اپنی باطنی زندگی سے علیٰحدہ نہیں سمجھتا اور تاریکیوں اور کھنڈروں میں اُتر کر اپنے باطن کے آئینے کو چمکاتا ہے۔ غالبؔ کے ایسے المیہ تجربوں کو صرف کسی خاص پس منظر میں نہ دیکھئے بلکہ انسانی زندگی کی سچائیوں کی ابدی کشمکش اور تصادم میں بھی پہچانئے۔ غالبؔ کو اپنی اذیت ناک زندگی اور مظلومی کا احساس اس طر ہوا تھا کہ درد سے خونِ جگر اس طرح اُبلے کہ حاکم داد رس کی پلکوں سے ٹپکنے لگے:

وقت ست کہ خونِ جگر از درد بجوشد

چند آنکہ چکد از مژۂ داد رس مرا

(غالبؔ)

          غالبؔ وجدِ ذوق میں زخم سے گرتے ہوئے نمک کو پلکوں سے چنتے ہیں، بلاشبہ غالبؔ نے تغزّل کو منفرد المیہ رجحان عطا کیا ہے اور ٹریجیڈی کی ایک نئی ڈِکشن بھی دی ہے۔ تمام المیہ تجربوں میں خود کو تماشا بنایا ہے اور ہر تماشے سے لذت حاصل کی ہے اور مسرّت آمیز بصیرت عطا کی ہے۔ المیات میں جکڑ جانے اور تلخیوں میں گھر جانے کے بعد المیہ کر دار کے ایسے تجربے بھی متاثر کرتے ہیں:

بیضہ آسا، ننگ بال و پر ہے یہ کنج قفس

از سرِ نو زندگی ہو، گر رہا ہو جائیے

          شکستِ ذات کی یہ آواز بڑی جان لیوا ہے۔ محرومیوں نے جو گہری اُداسی دی ہے اور غم نے جو کچھ دیا ہے ان سے داخلی ویرانی کا اساس ہوتا ہے، نئی زندگی کا یہ خواب جمالیاتی کیفیتوں کو سمجھتا ہے۔ موجودہ کیفیت کو زندگی کی اس تصویر سے سمجھا جا سکتا ہے جو قفس کی علامت میں نظر آ رہی ہے، کسی لمحے یہ احساس ملتا ہے:

مثال یہ مری کوشش کی ہے، کہ مرغ اسیر

کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لیے

          غالبؔ نے اپنے اس بنیادی المیہ رجحان کو اس طرح بھی واضح کیا ہے کہ زمین اور آسمان دونوں ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہیں۔ تقدیر نے مجھے ان دونوں کے بیچ رکھ کر پیس دیا ہے:

دانم کے دوختند زمیں را بہ آسماں

آن گو نہ دادہ اند مرا درمیان فشار

)غالبؔ(

          بلندی اور پستی کے درمیان اس المیہ کر دار کے کرب کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ بلندی اور پستی کے بیچ فرد کے کچلنے کا یہ منظر نا پائیدار زندگی اور معاشرے کے عمل اور فرد کی داستان لے کر آیا ہے۔

          غالبؔ کا دوسرا بنیادی المیہ رجحان حسرت، خواہش، تمنا، شوق اور جنوں کا رجحان ہے:

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

          غالبیات میں المیات کا یہ رجحان بھی بہت اہم اور انتہائی معنی خیز ہے۔ زندگی سے بے پناہ محبت، حسن پسندی کے زبردست میلان، آزادی کی بے انتہا خواہش اور نشاطِ زیست کو حاصل کرنے کے بے پناہ شوق نے اس رجحان کو بڑی شدّت عطا کی ہے۔ غالبؔ کی جمالیات اور غالبؔ کے المیہ کے جلال و جمال کے دونوں پہلوؤں کے مطالعے کے لیے یہ موضوع انتہائی فکر انگیز ہے۔ حسرتوں، خواہشوں اور تمناؤں کی مختلف صورتوں سے المیہ کی گہرائی اور نشاطِ غم کا اندازہ ہو گا۔ حسرت لذت آزار سے تاریکیوں کے سفر (Dark Voyage) کے المناک تجربوں کی کیفیت معلوم ہوتی ہے:

حسرت لذت آزار رہی جاتی ہے

جادۂ راہِ وفا، جز دم شمشیر نہیں

          حسرت لذت آزار اور زمانے یا عشق کے مظالم کی کشمکش میں جمالیاتی جوہر ہے وہ توجہ چاہتا ہے۔ زندگی کی لذتوں کو حاصل کرنے کی آرزو زمانے یا عشق کی کشمکش سے حسرت لذت آزار پیدا ہوتی اور اسی حسرت آزار اور عشق یا زمانے کے تصادم سے تڑپ تڑپ کر اور سسک سسک کر مرنے کی آرزو کا خاتمہ ہوا جا رہا ہے۔

          اس المیہ رجحان نے جانے کتنے تجربوں کو جلال و جمال کو اُبھارا ہے اور پیش کیا ہے:

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دَم ہے

رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

--------

دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا

یاں آ پڑی یہ شرم کے تکرار کیا کریں

--------

سنبھلنے دے مجھے اے نا اُمیدی، کیا قیامت ہے

کہ دامانِ خیالِ یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے

--------

رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی

تو کس اُمید پہ کہئے کہ آرزو کیا ہے

-------

خوں ہو کے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ

رہنے دے مجھے یاں، کہ ابھی کام بہت ہے

-------

ناکر دہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد

یارب اگر ان کر دہ گناہوں کی سزا ہے

-------

طبع ہے مشتاقِ لذت ہائے حسرت، کیا کروں

آرزو سے ہے شکستِ آرزو مطلب مجھے

-------

پلا دے اوک سے ساقی ! جو ہم سے نفرت ہے

پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے، شراب تو دے

-------

کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یارب

اِک آبلہ پا وادیِ ُپر خار میں آوے

-------

جاتا ہوں داغِ حسرتِ ہستی لیے ہوئے

ہوں شمع کشتہ، درخورِ محفل نہیں رہا

-------

دل لگی کی آرزو بے چین رکھتی ہے ہمیں

ورنہ یاں بے رونقی سودِ چراغِ کشتہ ہے

-------

آتش کدہ ہے سینہ مرا رازِ نہاں سے

اے وائے، اگر معرضِ اظہار میں آوے

-------

خار خار الم حسرتِ دیدار تو ہے

شوق: گلستانِ تسلی نہ سہی

-------

مانگے ہے پھر کسی کو لبِ بام پر ہوس

زلفِ سیاہ رُخ پہ پریشاں کیے ہوئے

-------

چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو

سرمے سے تیز دشنۂ مژگاں کیے ہوئے

-------

اِک نوبہارِ ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ

چہرہ فروغِ مے سے گلستاں کیے ہوئے

--------

ان کے ساتھ جینے کی آرزو، نئی تخلیق کی خواہش اور شوق اور جنوں کے شعری تجربوں پر نظر رکھئے تو المیہ کے اس رجحان کی ہمہ گیری اور تہہ داری کا علم ہو جائے گا، حسرتوں اور تمنّاؤں کی دُنیا میں ایک ایسے المیہ کر دار کی پہچان مشکل نہیں ہو گی جو سسک سسک کر بھی زندہ رہنا چاہتا ہے، رنگوں اور روشنیوں کی اس دُنیا کا عاشق ہے۔ لذتوں کو حاصل کرنا چاہتا ہے، حس پر فریفتہ ہے، سینے میں جانے کتنے تجربوں کی آگ جلائے بیٹھا یہ سوچ رہا ہے کہ اگر ان کا اظہار ہو جائے تو ہر جانب آگ لگ جائے۔ جو سینے کے ہر داغ کو روشن دیکھ رہا ہے۔ شکست آرزو کے ساتھ اپنی شکست کی آواز بھی سن رہا ہے اور پھر بھی یہ چاہتا ہے کہ سارا حسن اس کے باطن میں سمٹ آئے، اپنے کھوئے ہوئے سائے کو پالے، وصل سے جس کی بے قراری اور بڑھ جاتی ہے:

(شوق است کہ درو صل ہم آرام ندارد)

ہوا وصال میں شوقِ دل حریص زیادہ

لب قدح بہ کف بادہ جوش تشنہ لبی ہے

جو یہ سمجھتا ہے کہ ایک خواہش کی تسکین بہت سی خواہشوں اور تمنّاؤں کو بیدار کرتی ہے اور جو وصل سے زیادہ حسرتِ وصل میں لذت پاتا ہے:

واماندۂ ذوقِ طرب وصل نہیں ہوں

اے حسرتِ بسیار، تمنّا کی کمی ہے

یہ المیہ کر دار نا کردہ گناہوں کی حسرت لیے سوچتا ہے کہ ان گناہوں کی سزا ملنی چاہیے جن کی حسرتیں دل میں رہ گئی ہیں--- انتظار کو تمنا اور آرزو کہتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں میں شوقِ گریہ دریا کی مانند یا اس کی شکل میں موجیں مار رہا ہے، اس کے لہو سے کانٹے شاخِ گل کی طرح سرخ ہو گئے ہیں اور صحرا گلستاں بن گیا ہے:

لخت جگر سے ہے رگ ہر خار شاخِ گل

تا چند باغبانیِ صحرا کرے کوئی

وہ اس قدر روتا ہے کہ اس کے لہو سے بیاباں لالہ زار بن جاتا ہے اور اسے دیکھ کر سوچتا ہے کہ ’’ہماری خزاں دامنِ صحرا کی بہار ہو گئی ہے۔‘‘

گرستیم آنقدر کز خونِ بیاباں لالہ زاری شد

خزان ما بہار دامن صحراست پنداری

جس کے شوقِ دیدار کا مدعا یہ ہے کہ گردن کٹ جانے کے بعد بھی گلِ شمع کی طرح نگاہیں پھیلی جاتی ہیں، حسن کو دیکھنے کا شوق اور بڑھ جاتا ہے، اس کے جنون کی کیفیت یہ ہے:

اثر آبلہ سے جادۂ صحرائے جنوں

صورت رشتۂ گوہر ہے چراغاں مجھ سے

اور داخلی اضطراب کی حالت یہ ہے:

سایہ میرا مجھ سے مثلِ دود بھاگے ہے اسدؔ

پاس مجھ آتشِ بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے!

حسرتوں اور آرزوؤں اور شوق اور اضطراب کے اس پیکر کے اس عقیدے کے پس منظر میں اس کے المیہ کو سمجھا جائے تو حسن اور رنگوں کی اس کائنات سے اس کے عشق کی وجہ بھی سمجھ میں آئے گی اور اس کی ٹریجیڈی کے حسن و جمال کا بھی احساس گہرا ہو گا:

از مہر تا بہ ذرّہ دل و دل ہے آئینہ

طوطی کو شش جہت سے مقابل ہے آئینہ

-------

بخشے ہے جلوۂ گل، ذوقِ تماشا غالبؔ

چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا

--------

صد جلوہ رو برو ہے جو مژگاں اُٹھائیے

طاقت کہاں کہ دید کا احساس اُٹھائیے

--------

ساغر جلوۂ سرشار ہے ہر ذرّۂ خاک

شوقِ دیدار بلا آئینۂ ساماں نکلا

--------

وہی اِک بات ہے جو یاں نفس واں نکہتِ گل ہے

چمن کا جلوہ باعث ہے مری رنگیں نوائی کا

زندگی کے حسن اور تمام رنگوں کے شدید احساس کے ساتھ غالبؔ نے اپنے المیہ پیکر کو ان رنگوں کے جمال سے علیٰحدہ کر کے بھی دیکھا تھا:

فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا

یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا

--------

جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جو

یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خون ناب تھا

--------

باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر

ہر گلِ تر ایک چشمِ خوں فشاں ہو جائے گا

          المیہ کر دار کے حسن کے تصوّر میں ان ہی باتوں کی وجہ سے بڑی تہہ دار معنویت پیدا ہو گئی ہے۔ اس کی انانیت، انتہاپسندی، آزادی، حسن پسندی اور حسن سے وابستگی، اس کی مجبوریاں، اس کی حسرتیں اور تصادم اور کشمکش کی کیفیتیں--- یہ سب غور و فکر چاہتی ہیں۔ اس لیے کہ ان ہی المیات کی جمالیاتی قدریں خلق ہوئی ہیں۔ غالبؔ کے اس دوسرے رجحان میں ایک بڑی اہم بات یہ ہے کہ المیہ کر دار نے کوئی راہ متعین نہیں کی ہے، وہ صرف ایک جانب نہیں دیکھ رہا ہے۔ ہر جانب دیکھ رہا ہے۔بہت سی راہوں پر گامزن ہے۔ ہر لمحے کا تاثر نچوڑ رہا ہے، اس کی دروں بینی متاثر کرتی ہے۔ اس کی سوچ کی مختلف لہریں متاثر کرتی ہیں، سوچ کی یہ لہریں انتہائی معنی خیز، بصیرت افروز اور مسرّت آمیز اور لذّت آمیز ہیں۔

          اس بنیادی المیہ رجحان کا ایک پہلو تو حسرتوں اور آرزوؤں کی دُنیا ہے اور دوسرا پہلو فرد کی آزادی کے احساس، نئی تخلیق کے شوق، باطن کے آتش کدہ کو روشن رکھنے اور خارج کو باطنی لہروں سے متاثر کرنے، مختصر زندگی کے احساس کے ساتھ ہر شے کو اپنے وجود کا آئینہ بنا لینے کی مسرّت آمیز اور بصیرت افروز داستان ہے، مذہب، اخلاقی نظام کے اقدار اور تصوّر کی روشنی میں اس پہلو میں موجود ہے۔

          غالبؔ کہتے ہیں کہ جس میں تھوڑا سا لہو دار کی رونق بننے کے لیے، اگر دار کی رونق نہ بنے تو یہ چلّو بھر خون خشک ہو جائے گا۔ شرطِ اضراب ایسی بھی ہے:

شب کہ برق سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا

شعلۂ جوالہ ہر اِک حلقۂ گرداب تھا

          دل کی تپش سے بادل کا جگر ٹوٹ کر پانی ہو جاتا ہے اور اس پانی میں جو بھنور پڑتے ہیں وہ شعلۂ جوالہ ہیں۔ گھومتے ہوئے مشعل کے حلقے کے اس ’امیج‘ سے دل کی آتشیں کیفیت کو سمجھا گیا ہے، اس شعر سے جینے کی آرزو اور ایک نئی روشنی کی تخلیق کے رجحان کا علم ہو گا:

دِکھاؤں گا تماشا، دی اگر فرصت زمانے نے

مرا ہر داغِ دل اِک تخم ہے سرو چراغاں کا

          باطن کے تمام تجربوں کی روشنی سے تماشا دِکھانے کی آرزو بھی ہے اور اس کا بھی احساس ہے کہ زمانے کا ظلم و ستم جاری ہے، یہ سلسلہ ختم نہیں ہو رہا، المیہ کر دار ہر لمحہ صلیب پر چڑھا ہوا ہے:

دل میں پھر گریے نے اِک شور اُٹھایا غالبؔ

آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا

--------

اسد وارستگاں با وصف ساماں بے تعلق ہیں

صنوبر گلستاں میں با دلِ  ازادہ آتا ہے

--------

مرا شمول ہر اِک دل کے پیچ و تاب میں ہے

میں مدعا ہوں تپش نامۂ تمنّا کا

--------

لالہ و گل دمداز طرف مزارش پس مرگ

تا چہا درد دلِ غالبؔ ہوس روئے تو بود

--------

غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس

برق سے کرتے ہیں روشن شمع ماتم خانہ ہم

--------

نہ ہو گا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا

حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا

--------

ساتھ جنبش کے بیک برخاستن طے ہو گیا

تو کہے صحرا غبارِ دامنِ دیوانہ تھا

--------

خوں ہوکے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ

رہنے دے مجھے یاں، کہ ابھی کام بہت ہے

--------

          ان اشعار سے اس بنیادی المیہ رجحان کے دوسرے پہلو کو سمجھا جا سکتا ہے۔ حسن کو سمجھنے کی آرزو دیکھئے کہ مرنے کے بعد قبر پر پھولوں کی صورت میں یہ آرزو اُبھر آئی ہے۔ شوق کی یہ تصویر، خواہش کا یہ آئینہ حسن کے عاشق کی داستان سنا رہا ہے۔

          اس رجحان کا مطالعہ شرربار آہوں اور گھٹ کر رہ جانے کی کیفیت کا مطالعہ بھی ہے۔ اس احساس کا مطالعہ بھی کہ المیہ کر دار آزاد ہے، زندہ رہنا چاہتا ہے، نئی تخلیق کا شوق لیے یہ کہہ رہا ہے کہ رہنے دے مجھے یاں کہ ابھی کام بہت ہے--- حالات پر گزرنے کی تمنّا لیے وہ تخیل میں حالات پر گزر بھی رہا، شمعِ ماتم خانہ کو برق سے روشن کر رہا ہے۔ اس کی رفتار تیز ہے۔ حباب موجۂ رفتار کو اپنا نقشِ قدم سمجھ رہا ہے۔

          غالبؔ کا تیسرا بنیادی المیہ رجحان یہ ہے:

فرصت کہاں کہ تیری تمنّا کرے کوئی

غالبؔ کو پڑھتے ہوئے جب اس رجحان تک آتے ہیں تو ایک عجیب المناک سنّاٹے کا احساس ہوتا ہے۔ یہ المیہ رجحان بھی غیر معمولی ہے۔ کل فرصت تھی، آج فرصت نہیں تھی! کچھ ہی دیر پہلے یہ المیہ کر دار یہ سوچ رہا تھا کہ کاش وہ دن لوٹ آئیں، فرصت کے وہ لمحے بھی نصیب ہو جائیں۔ جن لمحوں میں وہ تصورِ جاناں کیے بیٹھا ہے--- اور کچھ حاصل ہو یا نہ ہو، کم از کم وہ لمحے تو حاصل ہو جائیں کہ جن میں وہ اپنے خیال اور تصوّر سے لذت آمیز مسرت حاصل کرے:

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن

بیٹھے رہیں تصوّرِ جاناں کیے ہوئے

آج ان لمحوں میں کیفیت یہ ہے:

فرصتِ کاروبارِ شوق کسے

ذوق نظارۂ جمال کہاں

          حسن اور رنگوں، آوازوں اور حرکتوں اور رقص کا عاشق یہ کہتا ہے کہ اس میں نظارۂ جمال کا شوق باقی نہیں رہا ہے، یہ وہی المیہ کر دار ہے جو درسِ تپش دے کر اور ’جلوۂ زخم‘ دِکھا کر لذت حاصل کر رہا تھا جو جلوۂ برق کو ایک نظارۂ جمال سمجھ رہا تھا اور ساغر خورشید سے شراب پینا چاہتا تھا جو پروردۂ صد رنگِ تمنّا تھا اور عکسِ خیال قدِ یار پر ہی فریفتہ ہو گیا تھا، جو یہ پوچھ رہا تھا:

ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقش پا پایا

          اس رجحان کے پیدا ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے کہ تشنگی، کرب، اضطراب اور ناکامیوں اور محرومیوں میں ایسے لمحے بھی آئے جن کے پہلو میں بڑے سانحے تھے، شکست آرزو اور شکست ذات کا ایک ردِّ عمل یہ بھی ہے کہ نظارۂ جمال کا ذوق اب باقی نہیں رہا، المیہ کر دار تنہائی میں اپنے زخموں اور اپنی آرزوؤں کے گاڑھے لہو کو لیے بیٹھا ہے، اپنی شکست کی آواز سن رہا ہے۔ ایسے آئینہ خانے میں بیٹھا ہے جہاں صرف اس کی المناکی زندگی کی پرچھائیاں بڑھتی اور پھیلتی نظر آ رہی ہیں۔

          دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ مختصر زندگی کے کچھ ہی لمحے باقی رہ گئے ہیں، زندگی تیز رفتار ہے، کل جانے کتنے طوفان آئے اور ان کی زد پر اس المیہ کر دار نے بے پناہ لذّت حاصل کی، آج ان کی زد سے الگ ایک ایسے کنارے پڑا جہاں وہ ہے اور اس کی مجروح روح--- اور زندگی کی تیز رفتاری اور کاغذی پیرہن کا شدید اساس:

<                 مری تعمیر میں مضمر ہے اِک صورت خرابی کی

--------

<                 کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

--------

<                 خاک ہو جائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک

--------

پرتوِ خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم

میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک

--------

نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانئے

بے صدا ہو جائے گا یہ سازِ ہستی ایک دن

--------

رو میں ہے رخش عمر، کہاں دیکھئے تھمے

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

--------

ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام

مہر گردوں ہے چراغ رہگزارِ بادیاں

--------

رفتار عمر قطع رہ اضطراب ہے

اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے

--------

حیرت کاغذ آتش زدہ ہے جلوۂ عمر

تہہ خاکستر صد آئینہ پایا ہے مجھے

--------

تیری فرصت کے مقابل اے عمر

برق کو پابہ حنا باندھتے ہیں

--------

میں چشم کشادہ و گلشن نظر فریب

لیکن عبد کہ شبنم خورشید دیدہ ہوں

--------

ابر روتا ہے کہ بزم طرب آمادہ کرو

برق ہنستی ہے کہ فرصت کوئی دم ہے ہم کو

          موت کو زندگی کی محرک سمجھتے ہیں اور زندگی اور موت کو ایک ساتھ دیکھ کر پورے سفر کو بامعنی سمجھنا چاہتے ہیں:

ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا

نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا

--------

نظر میں ہے ہماری جادۂ راہِ فنا،غالبؔ

کہ یہ شیرازہ ہے عالم کے اجزائے پریشاں کا

          زندگی کی برق رفتاری سورج کے آہستہ آہستہ پگھلنے کا احساس، فنا کے تصوّر اور تعمیر میں تخریب کے ساتھ شدید داخلی سنّاٹے اور سنّاٹے کے باطن کے انتہائی شدید اضطراب پر غور کرتے ہوئے محبوب کی موت کا سانحہ بھی ذہن میں رکھئے، اس لیے کہ:

تھی وہ اِک شخص کے تصوّر سے

اب وہ رعنائیِ خیال کہاں

محبوب کے مرثیے میں بھی عمر کی ناپائیداری کی بات موجود ہے:

عمر بھر کا تو نے پیمانِ وفا باندھا تو کیا

عمر کو بھی تو نہیں ہے پائیداری ہائے ہائے

اس المیہ رجحان کو اس طرح سمجھئے:

عمر ہر چند کہ ہے برق خرام

دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی

--------

سر بر ہوئی نہ وعدۂ صبر آزما سے عمر

فرصت کہاں کہ تیری تمنّا کرے کوئی

--------

یک نظر بیش نہیں فرصت ہستی، غافل

گرمیِ بزم ہے اِک رقصِ شرر ہونے تک

--------

فرصتِ کاروبارِ شوق کسے

ذوقِ نظارۂ جمال کہاں

--------

آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی

--------

ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے

اِک شمع ہے دلیلِ سحر سو خموش ہے

--------

نے مژدۂ وصال، نہ نظارۂ جمال

مدت ہوئی کہ آشتی چشم و گوش ہے

--------

داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی

اِک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

--------

          یہ مختلف شعری تجربے شبِ غم کے جوش تک لے جاتے ہیں لیکن جلد ہی ویرانی اور سنّاٹے کا احساس پیدا کرکے عمر کی برق رفتاری اور شدید ناکامی اور مجبوری اور محرومی کو سمجھا دیتے ہیں اور المیہ کر دار کے اس بنیادی احساس کو ’’جو فرصت نہیں ہے‘‘ میں اُبھرا ہے، مختلف تجرباتی سطحوں پر اُبھارتے ہیں۔

          ’’فرصت نہیں ہے‘‘--- یہ ایسا اظہار بھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ المناک ماحول میں المیہ کر دار مناسب ذریعۂ اظہار پا نہ سکا ہے۔ یہ کر دار کی وہ ادا بھی ہے جس سے اس کی دبی ہوئی جذباتیت اور اس کی شکست کھائی ہوئی لیکن اپنے وجود کا احساس دلاتی ہوئی انفرادیت کی پہچان ہوتی ہے۔ غالبؔ ان لمحوں میں بھی ’’معاشرتی کٹھ پتلی‘‘ (Puppet) نہیں بنے اور یہ ان کی عظمت کی دلیل ہے۔ وہ ہیگل کے الفاظ میں آفاقی اور عالمگیر سچائی کی علامت بن جاتے ہیں۔ غالبؔ کی ٹریجیڈی میں آپ اسے المیہ کر دار کے ’زوال‘ (Fall) سے تعبیر کر سکتے ہیں لیکن ساتھ ہی اس کی دلفریب ادا کی بھی داد دیں گے۔ جس ادا سے اس نے اپنی محرومیوں اور شکستوں اور اپنے زوال کو چھپانے کی نہایت ہی فنکارانہ کوشش کی ہے۔ یہ میلان ’زوال‘ ہی نہیں ہے ایک دلفریب ’کلائمکس‘ بھی ہے۔ اس ’کلائمکس‘ میں ٹریجیڈی کا حسن زندگی کی برق رفتاری اور شکست کے احساس کے ساتھ مخصوص اندازِ بیان سے پیدا ہوا ہے۔

          ’بے دماغی‘ کو اسی میلان کے نزدیک دیکھئے، موج بوئے گل کا یہ عاشق یہ کہتا ہے:

محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے

کہ موج بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا

عدم میں قید و بند سے آزاد اور دُنیا کی مجبوریوں کا احساس بھی اس رجحان میں موجود ہے:

دیکھ کر درپردہ دامن افشانی مجھے

کر گئی وابستۂ تن میری عریانی مجھے

ان تینوں رجحانات کے مطالعے کے بعد اس رجحان کا مطالعہ کیجیے اور یہ دیکھئے کہ المناکی کے شدید ترین احساس کے ساتھ حیرت کے جذبے کو اُبھار کر اسے کتنی خوب صورت المیہ جمالیاتی قدر بنا دیا ہے:

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تصویر کا

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

-------

جبکہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں

غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟

شکن زلف عنبریں کیوں ہے

نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے؟

سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں

ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے؟ؔ

’عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے‘، ’ہرچند کہیں کہ ہے نہیں ہے‘--- ان حسّی تاثرات کو اسی رجحان اور میلان کی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔

          المیہ کے تجربوں اور ان تجربوں کے حسن و جمال پر اتنی ّمفصل گفتگو ہرگز نہیں کرتا اگر نام نہاد نئی تنقید کی انتہاپسندی نے گمراہی پھیلائی نہ ہوتی۔ اندازہ ہو گا کہ غالبؔ کا جمالیاتی شعری تجربہ کتنا قیمتی، کتنا اہم اور کس قدر بلند ہے، المیہ تجربوں میں بھی غالبؔ وہاں ہیں کہ جہاں اُردو کا کوئی شاعر پہنچ نہ سکا ہے۔ وہ میرؔ ہی کیوں نہ ہوں۔ اس طرح میرؔ کی بڑائی یا عظمت کم نہیں ہو جاتی، میرؔ غالبؔ کے پیش رو ہیں، غالبؔ نے ان سے استفادہ بھی کیا ہے۔ میرؔ نے تغزل کی آبیاری میں زبردست حصہ لیا ہے، شرنگار رس کے تجربوں کے ایک ممتاز شاعر ہیں،لیکن اور بھی سچائیاں ہیں مثلاً یہ کہ وہ اپنے تجربوں کو بار بار مختلف انداز سے دہراتے رہے ہیں، ایک ہی خیال کو مختلف انداز سے پیش کرتے ہیں، ان کی شاعری جہت دار اور پہلو دار نہیں ہے۔ درد و الم یا المیہ کے تجربوں میں غالبؔ نے ایک زبردست ڈراما پیش کر دیا ہے کہ جیسا ہم نے دیکھا ہے۔ شعور، تخیل، جذبہ، احساس سب مل کر شاعر کے وسیع اور تہہ دار ’وِژن‘ کے تئیں بیدار رکھتے ہیں۔ غالبؔ کے یہ تجربے میرؔ کے جذبوں کی طرح جمالیاتی ہیں لیکن ہیں بہت اعلیٰ، بلند اور ارفع، المیات کے تجربوں میں بھی وہ ’گریٹ ونڈر‘ (Great Wonder) کے شاعر کی طرح اُبھرتے ہیں، ایک انتہائی وسیع تناظر میں ایک نہایت وسیع ’وِژن‘ ڈراما پیش کرتا ہے۔

          میرؔ کے کلام میں ڈرامائی کیفیتیں تو موجود ہیں مگر وہ ڈراما نہیں ہے جو غالبؔ کے فن میں ہے۔ غالبؔ کے یہاں تو شاعری پہلے ڈراما بنتی ہے اور پھر فکشن بن جاتی ہے۔ یہ بڑی شاعری کی پہچان ہے۔ المیہ کے تعلق سے جو گفتگو کی گئی ہے اسے ایک بار پھر دیکھ لیجیے، ملاحظہ فرمائیے کہ ڈراما کس طرح خلق ہوا ہے اور پھر یہی ڈراما کس طرح ’فکشن‘ بن گیا ہے!

          جو لوگ غزل کی مخالفت کرتے ہیں وہ ’فارم‘ اور ’ہیئت‘ کے چکر میں زیادہ رہتے ہیں۔ ان کے لیے غالبؔ کی غزلیں ایک جواب کی صورت بھی ہیں اور ایک چیلنج کی صورت بھی، جو لوگ اپنے نظم نگاروں کی فہرست بناتے رہتے ہیں، یہ دعویٰ کر ہی نہیں سکتے کہ ان کا کوئی بھی نظم نگار عمدہ اور جمالیاتی تجربوں کے پیشِ نظر غالبؔ کے پاس کھڑا ہے یا ان کے کلام کا تاثر غالبؔ کے کلام سے بہتر ہوتا ہے۔ اُردو نظم میں اقبالؔ کے علاوہ تو ابھی تک کسی قد آور فنکار نے جنم ہی نہیں لیا ہے اور ادبی تنقید میں جب تجربوں کے پیشِ نظر آہنگ اور لفظوں کی شعاعوں کی کیفیتوں کا مطالعہ شروع ہو گا تب ہی سچائی کا زیادہ بہتر علم ہو گا۔

          غالبؔ پر کام کرتے ہوئے مجھے میرؔ کی یاد تو اکثر آئی لیکن میں نے میرؔ سے کسی قسم کے تقابلی مطالعہ کی ضرورت ہی نہیں سمجھی، لیکن آج جب میرؔ کا مطالعہ کر رہا ہوں غالبؔ کی یاد بار بار آ رہی ہے۔ اس کی وجہ اور واحد وجہ صرف یہ ہے کہ غالبؔ اُردو شاعری کے سب سے بڑے جمالیاتی معیار بنے ہوئے ہیں۔ ابھی نام نہاد نئی تنقید نے جو گمراہی پھیلانے کی کوشش کی ہے اس کے پیشِ نظر خاکسار نے ایک بار یہ بتا دینا ضروری سمجھا کہ غالبؔ شاعری کے جلال و جمال کا سب سے اعلیٰ معیار ہیں، جب بھی شاعری کی جمالیات پر گفتگو ہو گی، اس معیار کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔

 

          میر تقی میرؔ اُردو کی عشقیہ شاعری کے ایک ممتاز شاعر ہیں، ان کی حیثیت منفرد ہے، انھوں نے عشقیہ کیفیتوں کو انسان کے تمام احساسات اور جذبات پر فوقیت دی ہے اور باطن کے سانحے کو انتہائی پر اثر انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کی شاعری میں غالبؔ کی طرح پیچیدہ اور بھرپور شخصیت کی کیمیا گری نہیں ہے، اس کے باوجود شخصیت کی لطافت اور سرمستی متاثر کرتی ہے۔ عشقیہ کیفیات میں یہ لطافت اور سرمستی لطف پیدا کرتی ہے۔ میرؔ کی شاعری کا امتیاز یہ نہیں ہے کہ اس میں بلاغت، گہرائی اور بلندی ہے بلکہ یہ ہے کہ اس میں جو احساسات ہیں ان میں سچی چاندی کی چمک ہے۔ ایک بڑی واضح عمومی شاعری ہے کہ جس کی جمالیات مشاہدات کو محسوس بناتی ہے۔

          عشقیہ شاعری میں میرؔ صاحب نے جو لطیف پر اثر اور دلفریب فضا خلق کی ہے اس میں ان کے مدھم اور دلنشیں لہجے کی بڑی اہمیت ہے، اس لہجے میں کبھی کبھی برق کی سی جو لہر ملتی ہے وہ شخصیت کے سوز و گداز کی دین ہے، شرنگار رس لیے یہ شاعری عشقیہ تجربوں کا عرفان بخشتی ہے۔ میرؔ کی عشقیہ شاعری میں فراق کی اذیتیں ہیں، تمنّاؤں کے کچل جانے کے احساسات ہیں، سوز و گداز اور درون بینی ہے۔ خودفراموشی کی کیفیت ہے، وارداتِ قلب کا بیان ہے، ایسے تمام حسّی تجربوں میں عام انسانی تجربے ملتے ہیں، جمالیاتی عشقیہ تجربوں میں اکثر ایسی جدّت ملتی ہے جس کی تازگی متاثر کرتی ہے۔

          شرنگار رَس کے اس شاعر نے محبوب کے بدن کو پہلے اس طرح دیکھا:

کیا لطف تن چھپا ہے مرے تنگ پوش کا

اُگلا پڑے ہے جامے سے اس کا بدن تمام

پھر اس طرح:

جی پھٹ گیا ہے رشک سے چسپاں لباس کے

کیا تنگ جامہ لپٹا ہے اس کے بدن کے ساتھ

          پہلے شعر میں جو مسرّت اور انبساط (Pleasure and Delight) ہے وہ محبوب کے بدن کے حسن کے مشاہدے کی وجہ سے ہے۔ محبوب نے ایسا لباس پہنا ہے کہ اس کا تمام بدن ’اُگلا پڑے ہے‘، دلفریب گداز بدن اپنے حسن کے ساتھ جامے سے باہر اُگل پڑا ہے۔ انتہائی خوب صورت اور پیارا منظر ہے۔ حسن کاری غضب کی ہے، جنسی لذّت اندوزی کی یہ کیفیت بصری حسن کے تاثرات کو بڑی شدّت سے اُبھارتی ہے۔ شعر پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے جامے اور بدن کے اس دلکش اور دلنواز نظارے کو دیکھ کر عاشق میں سرمستی سی پیدا ہو گئی ہے۔ دوسرے شعر میں منظر یہ ہے کہ محبوب کے بدن کے ساتھ تنگ جامہ لپٹا ہوا ہے، جامہ بدن پر چسپاں ہے۔ اب جذبے کا رنگ کچھ اور ہو جاتا ہے، جنسی لذّت اندوزی کی کیفیت اور ہو جاتی ہے، خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ خود محبوب کا تنگ جامہ بن کر اس لباس کی طرح اس کے جسم سے چسپاں ہو جائے! آرزو کی شدّت متاثر کرتی ہے، لذّت آمیز مسرّت اور انبساط پانے کی یہ آرزو غیر معمولی ہے۔ رشک کا اتنا خوب صورت مضمون خود میرؔ کے یہاں شاید ہی کہیں اور نظر آئے۔ یہ بھی بصری حسن کے دلکش تاثرات ہیں، یہ تاثرات جذباتی جنسی ہم آہنگی یا وصل کی آرزو تک پہنچا دیتے ہیں۔ پہلے شعر کے پیشِ نظر دوسرے شعر میں جنسی آرزومندی اور لذّت اندوزی کے تاثرات گہرے ہو گئے ہیں پھر شرنگار رس کے اس فنکار نے یہ جمالیاتی تجربہ پیش کیا ہے:

تنگیِ جامہ ظلم ہے اے باعثِ حیات

پاتے ہیں لطف جان کا ہم تیرے تن کے بیچ

          محبوب کے بدن سے لذّت پانے کا یہ احساس بھی غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ محبوب کو تنگ لباس میں دیکھ کر کہا جا رہا ہے کہ یہ ظلم ہے۔ تیرے نازک اور لطیف جسم پر تنگ لباس کا دباؤ بڑا ظلم ہے، تیرے تن کے بیچ اپنی جان کو پاتے ہیں لہٰذا یہ سمجھ کہ تو ہے، تیرا جسم ہے، تیرا بدن ہے تو میں بھی ہوں، بدن اس طرح پوشیدہ رہے گا تو میری جان نکل جائے گی، تیرے تن کے بیچ میرے وجود کا آہنگ ہے، ظاہر ہے اگر محبوب یہ تنگ لباس اُتار دے اور بدن کے حسن کے ساتھ جلوہ گر ہو جائے تو میری جان بچ جائے۔ محبوب کے بدن کو دیکھنے کی آرزو سے یہ جمالیاتی تجربہ خلق ہوا ہے۔ اس شعر میں بھی وہی سادگی اور پرکاری ہے جو میرؔ کے بیشتر اچھے اشعار میں ہے۔ تجربوں کی زرخیزی کلامِ میرؔ کی ایک بڑی جمالیاتی خصوصیت ہے۔ اس شعر کا حسن اس جمالیاتی تاثر میں سمٹ آیا ہے کہ عاشق محبوب کے وجود میں جذب ہے اور وہ اس کیفیت کو پوشیدہ رکھنا نہیں چاہتا۔ محبوب بے لباس ہو جائے تو اس کے تن کے بیچ عاشق بھی نظر آنے لگے، غور کرتے جائیے تجربے کی زرخیزی متاثر کرتی جائے گی۔

          میرؔ اگر شرنگار رَس کے ممتاز شاعر ہیں تو اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری کا عاشق ان اشعار کے جمالیاتی تجربوں سے اور بھی آگے بڑھ کر محبوب کے جمال سے قریب تر ہو جاتا ہے۔ محبوب کا بدن، شرنگار رَس لیے، احساسِ جمال کا موضوع اس طرح بنا ہے:

بدن میں اس کے تھی ہرجائے دلکش

بجا بے جا ہوا ہے جا بجا دل

          محبوب کا انگ انگ حسن کا دلکش نمونہ ہے، حسن کو محسوس کرنے، دیکھنے، ٹٹولنے اور چکھنے کی باتیں جیسے یکجا ہو گئی ہیں۔ ’دل‘ عاشق کا علامیہ ہے۔ محبوب کے ہر عضو یا ہر انگ کو دیکھنے، چھونے، ٹٹولنے، چکھنے کے لیے دل کی بے قراری حد درجہ بڑھ جاتی ہے۔ عاشق بے قابو ہو جاتا ہے، کبھی ایک انگ یا عضو کے حسن کو دیکھتا، محسوس کرتا اور ٹٹولتا ہے اور کبھی دوسرے انگ یا عضو کو۔

          ’شرنگار رَس‘ کے ایسے تجربوں میں جہاں بصری حسن اور بصری تاثرات کے ساتھ حسِ حرکت اور حسِ حرارت کی اہمیت ہے وہاں لمسیت اور جنسی لذّت اندوزی کی اہمیت بھی کم نہیں ہے، ان سے بھی حسن کے تئیں بیداری پیدا ہوتی ہے اور جمالیاتی انبساط ملتا ہے، ان خصوصیتوں سے بھی اُردو غزل میں میرؔ کی جمالیات کو ممتاز درجہ حاصل ہوتا ہے۔

          ’شرنگار رَس‘ کے اس شاعر نے ابھینو گپت کے اس خیال کے پیشِ نظر بھی دلفریب اور لذید تجربے پیش کیے ہیں کہ ’شرنگار‘ ’شرنگ‘ (Srnga) سے نکلا ہے کہ جس کا مفہوم ہے جس کا گہرا اثر سیکس کی جبلت پر ہو!یعنی وہ تجربہ جو عشق کا حامل ہو اور ’سیکس‘ کی جبلت کو متاثر کرے وہی شرنگار ہے۔

          میرؔ نے تو تین مناظر پر مشتمل ایک ڈراما پیش کر دیا ہے:

منظر ایک:

ہے فروغ مہ تاباں سے فراغ کلی

دل جلے پرتوِ رُخ سے مرے مہتاب میں ہیں

منظر دو:

شب نہاتا تھا جو وہ رشکِ قمر پانی میں

تھی مہتاب سے اُٹھتی تھی لہر پانی میں

ساتھ اس حسن کے دیتا تھا دِکھائی وہ بدن

جیسے جھمکے ہے پڑا گوہرِ تر پانی میں

منظر تین:

پانی بھر آیا منہ میں دیکھے جنھوں کے یارب

وے کس مزے کے ہوں گے لب ہائے نامکیدہ

اب کچھ مزے پر آیا شاید وہ شوخ دیدہ

اب اس کے پوست میں ہے جوں میوہ رسیدہ

          رومانیت میں آہستہ آہستہ کب پھیلا آیا ہے غور کیجیے۔ حسّی تجربہ آہستہ آہستہ جنسی تجربہ بنا ہے، تیسرے منظر میں جنسی تجربہ غیر معمولی بن گیا ہے۔

          محبوب کے بدن اور اس کے پورے وجود کے تعلق سے احساسِ حسن شدّت سے متاثر کرتا ہے۔ میرؔ کی رومانیت ’’چاندنی کی ٹھنڈک‘‘ اور ’’پانی کی لہروں میں چاند کی کرنوں کی جذباتی کیفیت‘‘ میں اچھی طرح نمایاں ہوئی ہے۔ تیسرے منظر میں ’سیکس‘ کا تجربہ عروج پر پہنچ جاتا ہے۔

          شرنگار رَس کے اس شاعر نے حسن کو اس طرح بھی دیکھا اور محسوس کیا ہے کہ انسان کے وجود کے اندر ہی حسن کا مرکز اور سرچشمہ ہے۔ اپنے اندر دیکھ لے تو اسے اس سچائی کا علم ہو جائے۔ مسرّت آمیز بصیرت اسی وقت حاصل ہو گی جب گرداب کی طرح بحرِ حسن کی پہچان ہو جائے، دیکھئے گرداب خود اپنا دیوانہ بن گیا ہے۔ سبب یہی ہے کہ اس نے اپنے اندر بحرِ حسن کو دیکھ لیا ہے۔ رقص گرداب کی کیفیت غیر معمولی نوعیت کی ہے، اس کیفیت کی معنویت کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے:

اس بحر حسن کے تئیں دیکھا ہے آپ میں کیا

جاتا ہے صدقے اپنے جو لحظہ لحظہ گرداب

          رقصِ گرداب میں جو کیف و سرور ہے وہی کیف و سرور پیدا ہو جائے تو انسان بھی حسن کا نظارہ کر کے اور نظارہ کرتے ہوئے خود اپنے اوپر فریفتہ ہو جائے، حسن اس کے وجود کے اندر ہے، اس شعر میں تخیل کی شادابی ایسی ہے کہ حسن حقیقی انسانی وجود کا حصہ بنا نظر آنے لگا ہے، یہاں شاعرانہ نگاہ یا ویژن (Poetic Vision) شاعر کے تخیل کی زرخیزی کا احساس دلاتا ہے۔ ایسے اشعار میں جو ڈرامائی کیفیت پیدا ہوئی ہے وہ میرؔ کی جمالیات کا ایک بڑا وصف ہے۔

          شرنگار رَس کے اس شاعر کی رومانیت نے دل یا انسان کے وجود کو بڑی اہمیت دی ہے۔ یہ رومانی ذہن آزادی چاہتا ہے، کھلی فضا چاہتا ہے، اپنے وجود کو پھیلانا چاہتا ہے، یہ دُنیا اپنی دیواریں لیے ہر طرف گھیرے کھڑی ہے، رومانی ذہن بھلا ایسی دیواروں کے بیچ کیسے رہ سکتا ہے۔ وہ تو پرواز کی زبردست چاہت لیے ہوئے ہے، اس کا دل ابھی کھلا کہاں ہے، دیواروں کے درمیان بھلا اس کا دل کھلے بھی تو کیسے، یہاں تو آزادی کے احساس کے ساتھ سرمست دل لامکاں کی طرف صاف میدان چاہتا ہے:

صاف میداں لامکاں سا ہو تو میرا دل کھلے

تنگ ہوں معمورۂ دُنیا کی دیواروں کے بیچ

دل کے تحرک اور رقص کے لیے لامکاں کی وسعت چاہیے!

          میرؔ کی جمالیات میں اس رومانی ذہن کی بڑی اہمیت ہے جو آزادی کا دلدادہ ہے، اس ذہن میں وسعت کا رومانی تصوّر لامکاں کا تصوّر ہے۔ یہ دل گھٹن اور یکسانیت سے گریز کرتا ہے۔ یہ غیر معمولی اضطراب ہے، روح کا سوز اس اضطراب کو اور بڑھا دیتا ہے۔ یہ دلکش پیارا تجربہ بڑی سادگی سے پیش ہوا ہے۔

          شرنگار رَس کے اس شاعر نے جہاں محبت کے جذبے کو جمالیاتی تجربوں کی صورت دی ہے وہاں دُکھ اور لذت کے شدید احساس کو بھی جمالیاتی تجربوں میں ڈھالا ہے۔ دُکھ اور اس کی لذّت کا احساس اور شدید احساس بھی محبت کے جذبے ہی سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ دُکھ اور دُکھ کی لذّت کا احساس جب جمالیاتی تجربہ بنتا ہے تو ’کتھارسس‘ ہوتی ہے۔ یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

کوئی تو آبلہ پا دشتِ جنوں سے گزرا

ڈوبا ہی جائے ہے لوہو میں سر خار ہنوز

          رغبت جنوں سے ممکن ہے اور بھی بہت لوگ گزرے ہوں لیکن ’’آبلہ پا گزرنے والا‘‘ تو صرف ایک ہی ہے! شکر ہے کسی نے تو جنوں کی آبرو رکھ لی! خار کے چبھنے سے جو آبلے پیدا ہوئے انھیں لے کر وہ خار کے اوپر سے گزرا اور تب سے سر خار لوہو میں ڈوبتا ہی جا رہا ہے۔

          ’’کوئی تو گزرا‘‘ یعنی صرف ایک میں ہی گزرا!--- مجھ جیسے عاشق ہی نے زمانے کے آبلوں کو قبول کیا۔ المیہ پیدا ہوا لیکن اس المیہ کا جواب بھی ان ہی آبلوں نے دیا۔ خار کے اوپر سے عاشق یا ستم زدہ کیا گزرا کہ سر خار ابھی تک اس کے لہو میں ڈوبتا ہی جا رہا ہے۔

          میں نے ایسے ہی اشعار کے پیشِ نظر یہ کہا ہے کہ میرؔ صاحب کا فن وہاں عروج پر نظر آتا ہے کہ جہاں زندگی کے تعلق سے شاعر کے تخلیقی رجحان کا جھکاؤ حسن کی تخلیق کرتا ہے، یہاں شعر کے حسن کا جو آہنگ ہے وہ تخلیقی رجحان کو سمجھا دیتا ہے۔ شرنگار رَس کے اس شاعر نے تخیل اور ’فینسی‘ (Fancy) دونوں سے کام لے کر جمالیاتی آسودگی عطا کی ہے۔

          شرنگار رَس کے اس شاعر کے المناک تجربوں میں اکثر مشہور نغمہ ’’میری رُوح ماتم کرتی ہے‘‘ (My Soul Mourns) کا آہنگ کسی نہ کسی سطح پر سنائی دے دیتا ہے۔ یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:

لوہو میں شور بور ہے دامان و جیب میرؔ

بپھرا ہے آج دیدۂ خوں بار بے طرح

          لہو میں ڈوبا ایک پیکر آہستہ آہستہ اُبھرتا ہے جسے دیکھ کر حد درجہ اذیت برداشت کرنے کا ایک گہرا تاثر ملتا ہے۔ یہاں ’’حد درجہ اذیت‘‘ کا جو ردِّ عمل ہے وہ غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ لہو میں ڈوبا ہوا پیکر اور بھی لہولہان ہو گا۔ اس لیے کہ دیدۂ خوں بار بے طرح بپھرا ہوا ہے، دیکھ لینا دامان و جیب سب لہو میں ڈوب جائیں، مسلسل اذیت کا جو ردِّ عمل ہوا ہے، اس سے ایک نیا منظر سامنے ہو گا جو لہو لہو ہو گا۔ پورا وجود اور دامان و جیب سب لہو میں ڈوب جائیں گے، ’’بے طرح بپھرا ہوا دیدۂ خوں بار‘‘ خود اپنے وجود کو لہو سے نہلا دے گا۔ مسلسل اذیتوں کا جو داخلی ردِّ عمل ہوا ہے، وہ خارج کا منظر بن جائے گا۔ وجود بپھرتا ہے لیکن اس کا اثر خارج پر نہیں ہوتا، وجود ہی پر ہوتا ہے بپھرے ہوئے دیدۂ خوں بار کا جو ردِّ عمل ہو گا وہ بڑا لہو لہو منظر ہو گا۔ وہ صرف اپنے وجود ہی کو اذیت دے سکتا ہے۔ عجیب بے بسی ہے کہ وہ زندگی کے دُکھ اور المیے کا جواب خود اپنے وجود کو دُکھ تکلیف پہنچا کر ہی دے گا۔ شعر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اب جو اس پیکر کا نقش اُبھرے گا وہ حد سے زیادہ المناک ہو گا۔ اس شعر کے باطن میں جو ’’سنسیشن‘ (Sensation) ہے وہ جیسے کسی Pleasurable Sensation کو چھُو کر چلا آیا ہے۔ یہ میر تقی میرؔ کی جمالیات کا ایک اہم نکتہ ہے۔

          ’شرنگار رَس‘ کے اس شاعر کو شدّت سے محسوس ہوتا ہے کہ ہر جانب جو حسن پھیلا ہوا ہے اس کا سرچشمہ کہیں اور ہے۔ یہ جو صبح فلک پر اِک نور گرم جلوہ نظر آتا ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ رواق پر کوئی ماہ پارہ موجود ہے۔ صبح ہوتے ہی وہ نور اپنا جلوہ دِکھاتا ہے جو گرم ہے یعنی ہر درجہ پرکشش اور وجود میں گرمی پیدا کرنے والا، ہر درجہ دلفریب، لذیذ اور وجود کو تحرک بخشنے والا، صبح صبح اس نور کے جلوے کو دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ کوئی تو ماہ پارہ موجود ہے کہ جس کے جلال و جمال کی روشنی پھیلی ہوئی ہے۔ کہتا ہے:

اِک نور گرم جلوہ فلک پر ہے ہر سحر

کوئی تو ماہ پارہ ہے میرؔ اس رواق میں

          شرنگار رَس کے اس شاعر نے دُنیا کو ایک طلسم کی طرح محسوس کیا ہے کہ جہاں جانے کتنے طلسمی پیکر متحرک ہیں، بھانت بھانت کے چہرے ہیں، قدم قدم پر عجیب و غریب خیالات کے متحرک پتلے ہیں۔ یہ سب چہرے، یہ سب خیالات ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اس طلسم میں حیرت انگیز صورتیں، حیرت انگیز حرکتیں کرتی ہیں، یہ دُنیا اتنی سادہ نہیں کہ بس ایک نظر ڈالئے اور اسے پہچان لیجیے۔ اس کی تخلیق ہی طلسم سے ہوئی ہے، ہر جگہ ایک طلسم ہے یہاں زندگی بسر کرتے ہوئے قدم قدم پر طلسمی فضاؤں سے واسطہ پڑتا ہے:

سہل مت بوجھ یہ طلسمِ جہاں

ہر جگہ یاں خیال ہے کچھ اور

(میرؔ)

غالبؔ نے بھی دُنیا اور پوری زندگی کو داستانوں کے طلسم کی طرح محسوس کیا ہے، کہتے ہیں

عالم طلسم شہر خموشاں ہے سر بہ سر

یا میں غریب کشور بود و نبود تھا

(غالبؔ)

طلسم کے تصوّر سے اس احساس کا پیدا ہو جانا بھی فطری ہے کہ یہ طلسم داستانوں کے طلسم کی طرح ٹوٹ جائے گا! فریب افسوں اور فریب تماشا کو کون نہیں جانتا!

          میرؔ کہتے ہیں کہ اس طلسم کو ایک قلندر کی ہُو توڑ دے گی۔ یہ عالم جو آئینے کی مانند چمک رہا ہے قلندر کی ہُو سے سیاہ ہو جائے:

ہم ہیں قلندر آ کر اگر دل سے دم بھری

عالم کا آئینہ ہے سیہ ایک ہو کے بیچ

(میرؔ)

          ’شرنگار رَس‘ کا شاعر جب حقیقی حسن یا سرچشمۂ حسن سے رشتہ قائم کر لیتا ہے تو دراصل یہ آہنگ اور آہنگ کا رشتہ بن جاتا ہے۔ وہ قلندر بن جاتا ہے، قلندر کے باطن میں حسنِ حقیقی سرایت کر جاتا ہے لہٰذا جب وہ ہُو کرتا ہے تو یہ آہنگ باطن ہوتا ہے، اس میں اتنی توانائی ہے کہ ایک ہُو سے عالم کے آئینے کو سیاہ کر دے، سارا طلسم بھک سے اُڑ جائے!

          ’شرنگار رَس‘ کے اس شاعر نے کہا ہے:

ہر جزر و مد سے دست و بغل اُٹھتے ہیں خروش

کس کا ہے راز بحر میں یارب کہ یہ ہیں جوش

زندگی کے تعلق سے فنکار کے تخلیقی رجحان کے جھکاؤ نے حسن کی جو تخلیق کی ہے وہ اس شعر میں جلوہ بنا ہوا ہے۔

          ایک تمثیل سامنے ہے، منظر یہ اُبھرتا ہے کہ سمندر کی لہریں ایک دوسرے پر مسلسل چڑھتی نظر آ رہی ہیں، ٹکرا رہی ہیں، لہریں آ رہی ہیں، واپس جا رہی ہیں، یہ سلسلہ قائم ہے، ہر لمحہ لہروں کے ٹکرانے اور آنے جانے سے بار بار شور اُٹھ رہا ہے۔ جب لہریں ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں تو لگ رہا ہے جیسے ایک دوسرے میں جذب بھی ہوتی جا رہی ہیں، منظر یقیناً دلکش ہے، لہروں کی آوازوں سے ایک ہنگامہ خیز فضا قائم ہے۔ یہ تلاطم، یہ اضطراب، یہ کیفیت، یہ ولولہ، یہ سرمستی، یہ حرکت، یہ انرجی--- غیر معمولی نوعیت کی ہیں۔ یہ زندگی کی توانائی اور جوش و خروش کی علامت ہے۔ زندگی اسی طرح ٹھاٹھیں مارتی ہے، اسی قسم کا تصادم اور اسی قسم کا کشمکش زندگی میں بھی ہے اور پھر اسی قسم کی جذباتی آہنگی، جذبی کیفیت، جذب ہو کر گم ہو جانے والی زندگی کا تقاضہ ہے۔ یہ سمندر زندگی کا آئینہ ہے۔ زندگی کے اُتار چڑھاؤ اور لہروں کے اضطراب اور ان کے ایک دوسرے میں بار بار مدغم ہو جانے کے تماشے سمندر کے اس منظر میں موجود ہیں۔

          یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے یہ یوں ہی نہیں ہو رہا ہے، بحر کے اندر یقیناً کوئی راز ہے، زندگی کے اندر یقیناً کوئی اسرار پوشیدہ ہے، اسی اسرار کا یہ خوب صورت ردِّ عمل ہے کہ جس کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں، راز نہ ہوتا تو یہ جوش یہ خروش کہاں ہوتا۔ یہ کس کا راز ہے یارب؟ جو اب اس معصومانہ سوال کے اندر ہی ہے، یہ تیرا ہی اسرار ہے! یہ محبت اور پیار کا اسرار ہے! ساری لہریں جو آ رہی ہیں جا رہی ہیں، اُٹھ رہی ہیں، گم ہو رہی ہیں، شور کر رہی ہیں، ایک دوسرے میں جذب ہو رہی ہیں، سب ایک دوسرے سے محبت کو بھی سمجھا رہی ہیں! زندگی کی پراسرار وحدت اور اس کی لذّت سے آشنا کر رہی ہیں! زندگی کا عرفان اسی وقت حاصل ہو گا جب سمندر کے اس منظر کا مفہوم سمجھ میں آئے گا، یہ اسرار اے میرے رب تیری محبت کا ہے، میری محبت کا ہے، لہر لہر کی محبت کا ہے، یہ زندگی کا جنون ہے! اس جنون سے رازِ فطرت کی پراسراریت کو سمجھنے کی انتہائی عمدہ شاعرانہ کاوش ہے۔ حسِ حرکت اور حسِ حرارت لیے یہ منظر ذہن کو زندگی کے ظاہر اور پراسرار باطن کے اندر اُتار دیتا ہے۔

          شرنگار رَس کی اصطلاح کے متعلق یہ خیال بھی بہت اہم ہے کہ اس کا تعلق ’شر‘ (Sr) سے ہے، جس کے لغوی معنی ہیں ’مارنا، مار دینا، یعنی اس شخصیت کا خاتمہ کہ جسے عشق کا تجربہ حاصل ہوا، جس نے عشق کیا بس سمجھو اس کا قتل ہوا۔ اچھے عاشق کو اس بات کا یقین رکھتا ہے کہ راہِ عشق میں اس کا قتل ضرور ہو گا اور اس کے لہو کی خوشبو رہتی دُنیا تک موجود رہے گی۔ شرنگار رَس کے اس شاعر نے ایک پیارا سا بہت واضح صاف شعر کہا ہے:

شش جہت سے اس میں ظالم بُوئے خوں کی راہ ہے

تیرا کوچہ ہم سے تو کہہ کس کی بسمل گاہ ہے

          تیرے کوچے میں ہر جانب سے بُوئے خوں آ رہی ہے، اے میرے محبوب میرے قاتل یہ تو بتا کہ تیرا کوچہ کس کی بسمل گاہ بننے والا ہے؟ عاشق جانتا ہے کہ اسی کا قتل ہونا ہے لیکن معصومانہ انداز میں انتہائی پیار سے اپنی قربت کا احساس دلاتے ہوئے کہتا ہے ’’ہم سے تو کہہ‘‘ یہ کس کی بسمل گاہ ہے۔ اس انداز میں جو طنز چھپا ہوا ہے اسے بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات تو نئی نہیں ہے کہ عاشق کا قتل ہوتا ہے، جو محبت کرتا ہے اسے اپنی جان کی قربانی دینا پڑتی ہے، لیکن اس خیال میں لہو کی بُو سے جو بات پیدا ہوئے ہے اس سے تجربہ بڑا پرکشش بن گیا ہے۔ پہلے ہی سے لہو کی بُو ہر جانب سے آ رہی ہے، ظاہر ہے کسی کا قتل ہونا یقینی ہے، کون ہے وہ؟ عاشق جانتا ہے کہ قتل اسی کا ہو گا اس لیے کہ بُوئے خوں اجنبی نہیں ہے۔ پھر بھی بڑی معصومیت اور پیار سے کہتا ہے ’’ہم سے تو کہہ‘‘ تیرا کوچہ کس کی بسمل گاہ بننے والا ہے، میرؔ کا انداز شرنگار رَس لیے ہوئے ہے:

          شرنگار رَس کے اس شاعر کی رومانیت کا ایک پہلو اس طرح اُجاگر ہوتا ہے:

صاف میداں لامکاں سا ہو تو میرا دِل کھلے

تنگ ہوں معمورۂ دنیا کی دیواروں کے بیچ

اور دوسرا پہلو اس طرح ہے:

چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر

منہ نظر آتا ہے دیواروں کے بیچ

پہلے شعر میں رومانی ذہن اپنے دل کے کھلنے کے لیے لامکاں کی طرح وسعت چاہتا ہے، دل صرف حد درجہ گہرا ہی نہیں بلکہ حد درجہ وسیع بھی ہے۔ اس محدود دُنیا کے محدود دائرے میں بھلا اس کی وسعت کہاں سما پائے گی، دل گھٹن کا شکار ہے، معمورۂ دُنیا کی دیواروں کے درمیان اس کی گھٹن پریشان کر رہی ہے، وہ ان دیواروں سے باہر نکلنا چاہتا ہے، کائنات سے آگے تک پھیلنا چاہتا ہے، اس شعر میں رومانیت کی سیمابی کیفیت احساس کو چھو لیتی ہے۔ لامکاں جیسے صاف میدان ہی میں اس کے تحرک کی پہچان ہو گی، تحرک ہی سے تخلیق کا سچا عمل جاری رہے گا، نئی فکر جنم لے گی، تخلیق کا نیا سلسلہ قائم رہے گا۔

          دوسرے شعر میں شرنگار رَس کا یہ شاعر ایک دوسرے جمالیاتی رویے کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ احساس یہ ہے کہ اگر نگاہ ہو تو یہ دیکھ لینا مشکل نہیں کہ دہر آئینہ خانہ ہے۔ دُنیا ایک بڑے اور وسیع آئینہ خانے کی طرح روشن اور تابناک ہے، ہر جانب صورت نظر آ رہی ہے۔ پہلے شعر میں معمورۂ دُنیا کی دیواروں کے بیچ جو گھٹن تھی، یکسانیت سے گریز کا جو رومانی رویہ تھا وہ یکسر یہاں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ’مکاں‘ کی جانے کتنی دیواریں کھڑی تھیں کہ جن کے درمیان سے اپنے دل کو نکال لینے کی خواہش تھی۔ زندگی کے محدود دائرے سے نکل کر وسیع میدان میں آنے کی تمنّا تھی، ایسا وسیع صاف میدان جو لامکاں کی طرح ہو، مکاں اور اس کی چہار دیواری میں بھلا وجود کا مکمل اظہار کیسے ممکن ہے۔ دوسرے شعر میں یہ رومانی ذہن مکاں کی دیواروں کو بھی آئینے کی طرح دیکھتا اور پاتا ہے، ان دیواروں کے درمیان چہرہ نظر آتا ہے، ہر جانب وجود کا پیکر موجود ہے۔ خود کو دیکھنے، خود کو پانے اور خود کو جاننے کے لیے دہر کا آئینہ ہی کافی ہے۔ اسے اس طرح بھی واضح کیا ہے:

جی کو نہیں لاگ لامکاں سے

ہم کو کوئی دل مکاں بہت ہے

یہ شعر بھی سنئے:

گھر دل کا بہت چھوٹا پر جائے تعجب ہے

عالم کو تمام اس میں کس طرح سے گنجائی

          ’آتش‘ ایک قدیم کلاسیکی اور روایتی استعارہ ہے۔ آتش اور اس کے تلازموں کو اُردو شاعروں نے خوب استعمال کیا ہے۔ غالبؔ نے اس استعارے کو جمالیاتی آرچ ٹائپ کی صورت دے دی ہے اور آتش کے پیکروں اور علامتوں کے ساتھ بہت دُور نکل گئے ہیں۔ شرنگار رَس کے اس شاعر میرؔ نے بھی آتش کے استعارے کو استعمال کیا ہے۔ میرؔ کی شاعری میں آتش صرف آتش عشق ہے، ’محبوب‘ کی محبت نے آگ لگائی ہے اور باطن جل رہا ہے۔ اس استعارے کے ساتھ میرؔ صاحب نے بعض تجربوں کو کلاسیکی حیثیت دے دی ہے، مثلاً:

دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے

یہ دھُواں سا کہا سے اُٹھتا ہے

--------

چھاتی جلا کرے ہے سوزِ دروں بلا ہے

اِک آگ سی رہے ہے کیا جانئے کہ کیا ہے

          ’شرنگار رَس‘ کے اس ممتاز شاعر نے آتش، شعلہ، چنگاری، شرر، راکھ، دھواں وغیرہ کا استعمال کیا ہے۔ یہ عام روایتی اور رسمی تجربوں میں بھی چمک دمک پیدا کر دیتے ہیں۔ مثلاً:

محبت نے شاید کہ دی دل کو آگ

دھواں سا ہے کچھ اس نگر کی طرف

--------

کیا آگ کی چنگاریاں سینے میں بھری ہیں

جو آنسو مری آنکھ سے گرتا ہے شرر ہے

--------

دل سوختہ ہوں مجھ کو تکلیف حرف مت کر

اِک آگ کی لپٹ سی نکلے ہے ہر سخن سے

--------

اب دھواں یوں جگر سے اُٹھتا ہے

جیسے پر پیچ کوئی کاکل ہو

--------

ایک ڈھیری راکھ کی تھی صبح جائے میرؔ پر

برسوں سے جلتا تھا شاید رات جل کر رہ گیا

--------

متصل روتے ہی رہئے تو بجھے آتشِ دل

ایک دو آنسو تو اور آگ لگا جاتے ہیں

--------

بوئے کباب سوختہ آئی دماغ میں

شاید جگر کو آتشِ غم نے جلا دیا

--------

گرم مجھ کو سوختہ کے پاس سے جانا کیا تھا

آگ لینے مگر آئے تھے یہ آنا کیا تھا

--------

کل میں کہا وہ طور کا شعلہ کہاں گرا

دل نے جگر کی اور اشارت کی، یاں گرا

--------

کہا میں درد دل یا آگ اُگلی

پھپھولے پڑ گئے میری زباں میں

--------

گو بے کسی سے عشق کی آتش میں جل بجھا

میں جوں چراغِ گور اکیلا جلا کیا

--------

          یہ بھی محبت اور غم کے جذبات کے وہ جمالیاتی تجربے ہیں کہ جنھیں شرنگار رَس کے ممتاز شاعر نے اپنے دواوین میں پیش کیا ہے۔ آتش اور آگ کے تعلق سے اکثر تجربے رسمی اور روایتی بن گئے ہیں، بہت کم تجربوں میں تحیر کا رَس (اَد ُبھت رَس) ملتا ہے جو شرنگار رَس کی سب سے اعلیٰ صورت ہے۔

          اگرچہ غم کے احساس نے آتش اور اس کے تلازموں کو اُبھارا ہے، المیہ تجربوں کا معیار بہت بلند نہیں ہوا۔ اس پیتھوس (Pathos) کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ جو میرؔ صاحب کے بعض المیہ تجربوں میں موجود ہے۔ مثلاً:

پیدا ہے کہ پنہاں تھی آتش نفسی میری

میں ضبط نہ کرتا تو سب شہر یہ جل جاتا

--------

آنسو تو ڈر سے پی گئے لیکن وہ قطرۂ آب

اِک آگ تن بدن میں ہمارے لگا گیا

--------

آگ سی اِک دل میں سلگے ہے کبھو بھڑکی تو میرؔ

دے گی میری ہڈّیوں کا ڈھیر جوں ایندھن جلا

--------

کچھ نہ دیکھا پھر بجز یک شعلۂ پر پیچ و تاب

شمع تک تو ہم نے دیکھا تھا کہ پروانا گیا

--------

دل بہم پہنچا بدن میں تب سے سارا تن جلا

آ پڑی یہ ایسی چنگاری کہ پیراہن جلا

--------

          ایسے اشعار میں بے پناہ تاثیر ہے۔ اشعار کی دلآویزی اور نفاست بھی متاثر کرتی ہے۔ شعری تجربے زندگی کے احساسات تک پہنچا دیتے ہیں۔

          اُردو کی روایتی اور کلاسیکی شاعری نے ’گلشن‘، ’باغ‘ اور ’چمن‘ کو محبوب بنا کر رکھا ہے۔ یہ فارسی شاعری کی بہت بڑی دین ہے۔ اُردو شعراء نے اسے بار بار علامت، استعارہ اور پیکر بنایا ہے اور اس کے تلازموں کی مدد سے اپنا شعری تجربہ پیش کیا ہے۔ باغ، گلشن اور چمن کے علاوہ غنچہ، شگوفہ، رنگ، پتا، بوٹا، کلیاں، بہار، خزاں اور جانے کتنے پیکروں سے زندگی، محبوب اور حسن و عشق کے تجربوں میں چمک دمک پیدا کی ہے۔ میر تقی میرؔ کی جمالیات میں بھی ان پیکروں کی بڑی اہمیت ہے۔ شرنگار رَس کے شاعر نے گلشن اور باغ کو عزیز رکھا ہے اس لیے کہ یہ حسن و جمال کی علامت ہیں، زندگی کے حسن کا آئینہ ہیں، محبوب کے جمال کا عکس ہیں۔ میرؔ کے دواوین میں سینکڑوں اشعار ایسے ہیں جن میں باغ اور اس کے تعلق سے شعری تجربے ملتے ہیں۔ اس وقت میں نے ان کے کم و بیش ۱۰۲ ایسے اشعار کو سامنے رکھا ہے کہ جن میں باغ، گلشن اور ان کے تلازموں سے زندگی اور عشق کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ایسے اشعار میں شرنگار رَس کے پیشِ نظر یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ غم و الم اور جمالیاتی انبساط دونوں کے تجربے ہیں۔ محبوب، غم اور لہو کی طرح کلامِ میرؔ میں باغ اور گلشن بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کے حوالے سے بھی اپنے باطنی احوال و محرکات کو پیش کیا گیا ہے۔ غالبؔ نے باغ، گلشن، گل وغیرہ کے اصطلاحی استعاروں کو بڑی عظمت بخشی ہے۔ کہتے ہیں:

باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر

ہر گلِ تر ایک چشمِ خوں فشاں ہو جائے گا

(غالبؔ)

میں چشم و کشادہ و گلشن نظر فریب

لیکن عبث کہ شبنم خورشید دیدہ ہوں

(غالبؔ)

چمن چمن گلِ آئینہ در کنار ہوس

امید محو تماشائے گلستاں تجھ سے

(غالبؔ)

اسدؔ ! یہ موسمِ گل در طلسم گنج قفس

خرام تجھ سے، صبا تجھ سے، گلستاں تجھ سے

(غالبؔ)

نگہ گرم سے اِک آگ ٹپکتی ہے اسدؔ

ہے چراغاں خس و خاشاک گلستاں مجھ سے

(غالبؔ)

آئینہ خانہ ہے صحن چمنستاں یکسر

بس کہ میں بے خود وارفتہ و حیراں گل و صبح

          یہ تحیر کی ارفع جمالیات کی چند مثالیں ہیں۔ ’گریٹ ونڈر‘ (Great Wonder) کے اس شاعر نے گل، گلستاں اور گلستاں کے تلازموں میں جان پرور کیفیتیں پیدا کر دی ہیں۔ ’شرنگار رَس‘ کے منفرد شاعر میرؔ نے بھی باغ، گلشن اور ان کے تلازموں میں خوبصورت تجربے پیش کیے ہیں جو انھیں اُردو کی رومانی شاعری میں ممتاز درجہ عطا کرتے ہیں۔ اپنے چند پسندیدہ اشعار پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں:

گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگ گل سے میرؔ

بلبل پکاری دیکھ کے صاحب پرے پرے

--------

پتاّ پتاّ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

--------

کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے

اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے

--------

یاقوت کوئی ان کو کہے ہے کوئی گل برگ

ٹک ہونٹ ہلا تو بھی کہ ایک بات ٹھہر جائے

--------

کچھ موج ہوا پیچاں اے میرؔ نظر آئی

شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی

--------

گوندھ کے گویا پتی گل کی وہ ترکیب بنائی ہے

رنگ بدن کا تب دیکھو جب چولی بھیگے پسینے میں

--------

گل کو محبوب ہم نے قیاس کیا

فرق نکلا بہت جو باس کیا

--------

گل ہو، مہتاب ہو، آئینہ ہو، خورشید ہو میرؔ

اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو

--------

کچھ گل سے ہیں شگفتہ کچھ سرو سے ہیں قد کش

اس کے خیال میں ہم دیکھیں ہیں خواب کیا کیا

--------

کہا میں نے گل کا ہے کتنا ثبات

کلی نے یہ سن کر تبسم کیا

--------

اس گل زمیں سے اب تک اُگتے ہیں سرو جس جا

مستی میں جھکتے جس پر تیرا پڑا ہے سایہ

--------

میں بے دماغ عشق اُٹھا سو چلا گیا

بلبل پکارتی ہی رہی گلستاں کے بیچ

--------

اﷲ رے عندلیب کی آوازِ دل خراش

جی ہی نکل گیا جو کہاں ان نے ہائے گل

--------

: سمجھ کے چنیو کہ گلشن میں میرؔ کے

لختِ جگر پڑے ہیں نہیں برگ ہائے گل

میں انھیں اُردو شعریات میں اعلیٰ اور عمدہ تجربوں سے تعبیر کرتا ہوں۔

          میرؔ صاحب نے فارسی اور اُردو شعراء کی طرح باغ، گلشن کو دُنیا کا آئینہ بنایا ہے، باغ ان کے لیے بھی تجربوں کا ایک شہر ہے۔ انھوں نے بھی باغ گلشن کی رومان پرور فضا میں عشق اور اس کی خوشبو کے ذکر کو ضروری جانا ہے۔ گلشن کے جلوے محبوب کے جلوے ہیں، آتشِ گل سے عاشق پھنک جاتا ہے۔ ’گل‘ محبوب کا پیکر بھی ہے، اس سے مخاطب ہونا محبوب سے مخاطب ہونا ہے، کبھی گل کا جلوہ قریب کھینچتا ہے تو قریب جا کر محسوس ہوتا ہے اس میں وہ خوشبو نہیں جو محبوب کے بدن میں ہے۔ شرنگار رَس کے اس شاعر نے گلستاں کے تجربوں کی ایک دُنیا سامنے رکھ دی ہے۔

          کہتے ہیں سر پر سودا کا داغ ابھی تو غنچہ بنا ہوا ہے، یہ غنچہ کھلا کب ہے، جب دیوانگی بڑھے گی تو غنچہ پھول بنے گا، اس کی بہار آئے گی، دیوانگی کا سچا لطف حاصل ہو گا:

غنچہ ہے سر پہ داغ سودا کا

دیکھیں کب تک یہ گل بہار کرے

یہ خوبصورت شعر سنئے:

عرصۂ دشت قیامت باغ ہو جائے گا سب

اس طرح سے جو یہ چشم خوں فشاں میں لے گیا

          آنکھوں سے لہو جاری ہے، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو میں چشم خوں فشاں لیے ہی اس دنیا سے گزر جاؤں گا اور قیامت کے روز حشر کے میدان میں ہر جانب میرا لہو ہی بہتا نظر آئے گا۔ میدانِ حشر لہو لہو ہو جائے گا۔

          یہ کتنا دلفریب شعر ہے:

یاقوت کوئی ان کو کہے ہے کوئی گلِ برگ

ٹک ہونٹ ہلا تو بھی کہ ایک بات ٹھہر جائے

          محبوب کے ہونٹ کو کوئی یاقوت کہتا ہے اور کوئی گل برگ۔ یقین سا ہے جیسے کہ یہ یاقوت ہے اور نہ گل برگ، ان دونوں کے حسن و جمال سے کہیں آگے کوئی معجزہ ہے۔ یہ جلوہ ہی اور ہے، اس کا جمال اپنی پراسراریت کا احساس دلا رہا ہے۔ یاقوت یا گل برگ ہے تو اس میں حرکت یا جنبش ہی پیدا نہیں ہو گی، یقین سا ہے کہ یہ ہونٹ جنبش کرے گا، جب اس میں جنبش ہو گی تب ہی اس کا سحر یا معجزہ سامنے آئے گا۔ ’’ٹک ہونٹ ہلا‘‘ تاکہ قیاس آرائی ختم ہو اور سچا حسن سامنے آ جائے۔ یہاں گل برگ بھی یاقوت کی طرح حسن کا استعارہ ہے۔ لیکن اس استعارے سے بہت آگے بھی ایک دلکش پراسرار استعارے کا احساس پیدا کیا گیا ہے۔ ایک عام تجربے کو کتنا دلکش بنا دیا ہے:

چراغاں گل سے ہے کیا روشنی

گلستاں کسو کی قدم گاہ ہے

          گلستانِ گل کی روشنی سے چراغاں کی کیفیت کب پیدا کر سکتی ہے، یہ تو محبوب کے وجود کی روشنی کا کرشمہ ہے کہ جس سے گلستاں میں چراغاں ہو گیا ہے، گلستاں محبوب کی قدم گاہ ہے ورنہ پھولوں کا اپنا جلوہ کہاں ہوتا، پھولوں میں جو روشنی ہے وہ بھی محبوب کے وجود کی روشنی کا عکس ہے۔

          گلستاں اور اس کے تلازموں کے پیشِ نظر ان اشعار پر غور کیجیے:

کچھ موجِ ہوا پیچاں اے میرؔ نظر آئی

شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی

--------

سیر کی رنگیں بیاضِ باغ کی ہم نے بہت

سرو کا مصرع کہاں، وہ قامتِ موزوں کہاں

--------

اب کہ ہزار رنگ گلستاں میں آئے گل

پر اس بغیر اپنے تو جی کو نہ بھائے گل

--------

ناچار ہو چمن میں نہ رہئے کہوں ہوں جب

بلبل کہے ہے اور کوئی دن برائے گل

--------

کیا سمجھے لطف چہروں کے رنگ و بہار کا

بلبل نے اور کچھ نہیں دیکھا سوائے گل

--------

تھا وصف ان لبوں کا زبانِ قلم پہ میرؔ

یا منہ میں عندلیب کے تھے برگ ہائے گل

--------

کوئی بجلی کا ٹکڑا اب تلک بھی

پڑا ہو گا ہمارے آشیاں میں

--------

اب کے بہت ہے شورِ بہاراں ہم کو مت زنجیر کرو

دل کی ہوس ٹک ہم بھی نکالیں دھومیں ہم کو مچانے دو

--------

شہر چمن سے کچھ کم دشت جنوں نہیں ہے

یاں گل ہیں رستہ رستہ واں باغ دستہ دستہ

--------

کیا جانوں میں چمن کو ولیکن قفس پہ میرؔ

آتا ہے برگ گل کبھو کوئی صبا کے ساتھ

--------

لیتی ہے ہوا رنگ سراپا سے تمھارے

معلوم نہیں ہوتے ہو گلزار میں صاحب

--------

کچھ بات ہے کہ گل تر رنگیں وہاں سا ہے

یا رنگ لالہ شوخ ترے رنگ پاں سا ہے

--------

کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے

اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے

--------

جائے روغن دیا کرے ہے عشق

خون بلبل چراغ میں گل کے

--------

سرو لب جوالہ و گلِ نسرین و سمن ہیں شگوفہ ہے

دیکھو جدھر باغ لگا ہے اپنے رنگیں خیالوں کا

--------

پھول اس چمن کے دیکھتے کیا کیا جھڑے ہیں ہائے

سیل بہار آنکھوں سے میری رواں ہے اب

--------

گل لے گئے تھے یار ہمیں بھی چمن کے بیچ

اس کی سی بو نہ آئی گل و یاسمن کے بیچ

--------

گل کی تو بو سے غش نہیں آتا کسو کے تئیں

ہے فرق میرؔ پھول کی اور اس کی بو کے بیچ

--------

اس کے رنگ کھلا ہے شاید کوئی پھول بہار کے بیچ

شور پڑا ہے قیامت کا سا چار طرف گلزار کے بیچ

--------

یک رنگیوں کی راہیں طے کر کے مرگیا ہے

گل میں رگیں نہیں یہ، ہیں نقش پائے بلبل

--------

آئی بہار و گلشنِ گل سے بھرا ہے لیکن

ہر گوشۂ چمن میں خالی ہے جائے بلبل

--------

کر سیر جذب الفت گلچیں نے کل چمن میں

توڑا تھا شاخِ گل کو نکلی صدائے بلبل

--------

بہار آئی کھلے گل پھول شاید باغِ صحرا میں

جھلک سی مارتی ہے کچھ سیاہی داغِ سودا میں

--------

شاید بہار آئی ہے دیوانہ ہے جوان

زنجیر کی سی آتی ہے جھنکار کان میں

--------

گل و آئینہ کیا خورشید و مہ کیا

جدھر دیکھا تدھر تیرا ہی رو تھا

--------

صد گلستان تہہ یک بال تھے اس کے جب تک

طائر جاں قفس تن کا گرفتار نہ تھا

--------

جس چمن زار کا ہے تو گلِ تر

بلبل اس گلستاں کے ہم بھی ہیں

--------

صبح ہوئی گلزار کے طائر دل کو اپنے ٹٹولیں ہیں

یاد میں اس خود رو گلِ تر کی کیسے کیسے بولیں ہیں

--------

اچھی لگے ہے تجھ بن گلگشت باغ کس کو

صحبت رکھے گلوں سے اتنا دماغ کس کو

--------

تری گلگشت کی خاطر بنا ہے باغ داغوں سے

پر طاؤس سینہ ہے تمامی دست گل دستہ

--------

چلتے ہو تو چمن کو چلئے، کہتے ہیں کہ بہاراں ہے

پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں، کم کم باد و باراں ہے

--------

دل بند ہے ہمارا موجِ ہوائے گل سے

اب کے جنوں میں ہم نے زنجیر کیا نکالی

--------

پھر اس نے طرح کچھ جو دعوے کی سی ڈالی ہے

کیا تازہ کوئی گل نے اب شاخ نکالی ہے

--------

بھڑکے ہے آتشِ گل اے ابرِ تر ترحم

گوشے میں گلستاں کے میرا بھی آشیاں ہے

--------

کل تک ہم نے تم کو رکھا تھا سو پردے میں کلی کے رنگ

صبح شگفتہ گل جو ہوئے تم سب نے کیا نظارا آج

--------

اب کی بالیدن گل ہا تھا بہت دیکھو نہ میرؔ

ہمسر لالہ ہے خار سرِ دیوار ہنوز

--------

رنگِ گل و بوئے گل ہوتے ہیں ہوا دونوں

کیا قافلہ جاتا ہے جو تو بھی چلا چاہے

--------

کی سیر ہم نے سینۂ یکسر فگار کی

اس تختے نے بھی اب کے قیامت بہار کی

--------

شب گئے تھے باغ میں ہم ظلم کے مارے ہوئے

جان کو اپنی گل مہتاب انگارے ہوئے

--------

چراغاں گل سے ہے کیا روشنی

گلستاں کسو کی قدم گاہ ہے

--------

اُٹھا جو باغ سے میں بے دماغ تو نہ پھرا

ہزار مرغ گلستاں مجھے پکارے ہے

          ان اشعار میں احساسِ حسن بھی متاثر کرتا ہے اور افسردگی کا احساس بھی دل کو چھوتا ہے۔ بعض اشعار بہت لطیف اور دلنواز ہیں، جذبے کے کئی رنگ ملتے ہیں۔ یہ اشعار بھی سوز و گداز سے بھرے ہوئے ہیں۔ کہیں کہیں بڑی تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ بعض اشعار بیک وقت غم انگیز اور مسرّت بخش ہیں۔

          باغ، گلستاں یا چمن زندگی اور عشقیہ تجربوں کی ایک رنگین دُنیا ہے، میرؔ صاحب کی ’سائیکی‘ میں اس علامت کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ یہ شاعر کے تخلیقی عمل کا ایک اہم دائرہ ہے جہاں بہار، خزاں، رنگ، شگوفہ، پتا، بوٹا، گل، کلیاں، غنچہ، گل، موسمِ گل، ابرِ بہار، زنجیر، شاخ، پودے، رنگ گل، بلبل سب متحرک پیکر بنتے ہیں۔ اس کا ایک حسن جنوں پیدا کرتا ہے اور اس کا اپنا حسن محبوب کے سامنے ماند پڑ جاتا ہے اور اس کا اپنا کوئی حسن ہی نہیں ہوتا، وہ تو محبوب کا حسن ہے جو اسے حسین اور خوبصورت بناتا ہے۔ چمن، محبوب کے حسن کا آئینہ بھی ہے۔ شاعر کی سائیکی میں باغ یا گلشن المیہ تصادم یا المناک کشمکش کا مقام بھی ہے، میرؔ کے کلام میں جو المیہ جذبات اُبھرے ہیں ان کا رشتہ گلشن یا باغ کے وسیع دائرے سا قائم ہے۔ عاشق کی ذہنی کیفیتوں کے مطالعے میں ان جذبات کا مطالعہ بڑی مدد کرتا ہے۔ یہاں فرد کی اذیت ناک زندگی (Acute Suffering) کے تجربے بھی ہیں اور مسرت اور انبساط کے بھی۔ گلستاں وہ اسٹیج ہے کہ جہاں صرف دو مرکزی کر دار ہیں، عاشق اور محبوب، رقیب کا وجود محسوس ہی نہیں ہوتا۔ صرف دو کر داروں کے عمل پر پورے ڈرامے کا حسن منحصر کرتا ہے۔ گلستاں یا چمن میں عاشق کے جنوں کی سرمستی بھی کم نہیں ہے۔ اسی طرح حسن و جمال سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مستی بھی کم نظر نہیں آتی۔ ان اشعار میں بھی احساس اور تخیل دونوں اہمیت رکھتے ہیں۔ جذبوں سے لطف اندوز کرنے کی جو صلاحیت میرؔ صاحب میں ہے وہ کسی کو نصیب نہیں ہے۔ عشقیہ تجربوں کے آہنگ (Rhythm) اور ’ہارمونی‘ (Harmony) دونوں کا تاثر گہرا ہوتا ہے۔ چمن، گلستاں یا باغ کے تجربوں سے بھی ایک عمدہ جمالیاتی معیار سامنے آتا ہے۔

٭٭٭

مصنف اور  ان کی صاحبزادی شاہینہ  کے تشکر کے ساتھ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔