11:55    , ہفتہ   ,   18    مئی   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

1770 0 0 10

ترتیب: اعجاز عبید

زبانِ اُردُو

علّامہ اقبال

ڈاکٹر وائٹ بر جنٹ صاحب نے جن کو السنہ مشرقیہ کے سَاتھ بالخصوص دلچسپی ہے۔ انگریزی زبان میں ایک مختصر سا مضمون اُردو زبان پر لکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کا علم و فضل ہماری تعریف کا محتاج نہیں۔ ان کی عالمانہ گفتگو اور وسیع ہمدردی کو اگر صیّاد خلق کہا جائے تو ہر طرح سے زیبا ہے۔ اس مضمون کے مطالعہ سے معلوم ہو گا کہ اُردو زبان کی بانکپن نے مغربی فضلاء کو بھی اپنا گرویدہ کر لیا ہے۔ ہماری درخواست پر ہماری دوست شیخ محمدؐ اقبال صاحب یم اے جنہیں اس مضمون کی کاپی ڈاکٹر صاحب موصوف نے تخقہً دی تھی۔اسے ناظرین کے لئے ترجمہ کر کے بھیجتے ہیں۔ (مخزن سپٹمبر ۱۹۰۴ء؁)

اردو زبان کی ابتداء شہنشاہ اکبر (۱۵۵۶۔۱۶۰۵) کے عہد سے ہوئی ہے ہمایوں کے عہد میں سلطنت مغلیہ پنجاب اور مضافاتِ دہلی و آگرہ تک ہی محدود تھی مگر اکبر کی ذکاوت اور اس کی قوتِ انتظام نے اس چھوٹے سے علاقے کو ایک عظیم الشان سلطنت بنا دیا جو کابل اور قند ہا ر کی سر حد سے شروع ہو کر اوڑیسہ اور حدودِ آسام تک پہنچی تھی اس کا دارالخلافت کبھی شہر دہلی ہو ا کرتا تھا اور کبھی آگرہ اور ان شہروں کے درمیان اضلاع کی زبان مغربی ہندی کی ایک شاخ تھی جس کو برج بھا شا کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ غالب خیال یہ ہے کہ اکبر کے عہد تک مسلمان بھی ہندوؤں کے ساتھ میل جول کرنے میں یہی برو ج بَھا شا بولا کر تے تھے۔ مگر شہنشاہِ مذکور کی زمانے سے اس تغیر کا آغاز ہو تا ہے جس کا نتیجہ بالآخر یہ ہوا کہ ضرورت نے ایک نئی زَبان پیدا کر دی۔ اکبر کے کئی وزراء بالخصوص وزیر صیغۂ مال ہندو تھے جن کو تقاضائے وقت کی وجہ سے اس وقت کی درَباری زبان یعنی فارسی سنین پڑ ی۔جس طرح انگلستان میں شاہانِ نارمن کے عہد سے انگلوسکسن اور نارمن فرینچ کی آمیزش سے انگریزی زبان کا آغاز ہو تا ہے۔ اسی طرح ہندوستان میں فاتحوں اور مفتوحوں کی زبانوں کی آمیزش سے یا یوں کہو کہ فارسی اور برج بھاشا کے ازدواج سے اُردو زبان پیدا ہوتی ہے۔فارسی بولنے والے مسلمان سپاہی روزمرہ کے کاروبار میں دہلی اور آگرہ کے باشندوں کے ساتھ برتاؤ کرنا پڑ تا تھا۔اس آمیزش کے اور بھی ممد ہوئے۔یہاں تک کہ ہندی مفری۔قشوں شاہی یعنے اُردوئے معلیّٰ کے نام پر اُردو کہلانے لگی۔

حکومتِ مغلیہ کی تو سیع کے ساتھ ساتھ شمالی اور کسی حد تک جنوبی ہندوستان میں بھی تعلیم یافتہ لوگوں میں اس زبان کی ترویج ہو تی گئی اور ہندوستانی مسلمان مصنفین کی فارسی تواریخ و اشعار کے ساتھ اس نئی زبان کا علم ادب بھی ترقی کر تا گیا۔دو صدیوں تک تو محمد یہ علم ادب صرف مذہبی اور عاشقانہ نظموں تک ہی محدود تھا۔جن کے مطالعہ سے زبان کی تدریجی نشو و نما کا سراغ ملتا ہے۔ لیکن سولہویں صدی کے اختتام سے پیش تر مسلمان شعراء کی طبع آزمائیاں شروع ہوتی ہیں۔ اگرچہ ان کا عروض اور ان کی زبان زیادہ تر ہندی اصل کی ہیں۔۱۶۰۰ء؁ کے قریب اُردو شعرا فارسی بحور کا استعمال شروع کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ فارسی الفاظ و محاورات اُردو زبان میں کثرت سے داخل ہو تے جاتے ہیں۔اٹھارویں صدی کے اختتام کے قریب (۱۷۹۰) اُردو نثر کا پہلا نمونہ یعنے شیخ عبدالقادر صاحب کا تر جمہ قرآن شریف شائع ہو تا ہے۔ مگر چوں کہ اس کے مصنف نے عربی محاورات و الفاظ و اشعار کی اندھا دھُند تقلید کی ہے اس واسطے یہ تر جمہ تصانیف ادبیہ میں شمار کئے جانے کا مستحق نہیں ہے۔

آخر انیسویں صدی کے شروع میں اُردو مصنفین نے یہ محسوس کیا کہ نثر اظہار خیالات و تاثرات قلبی کا ایک موزوں آلہ ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اُردو نثر کے نشو و نما میں ایک بے جا تعویق لاحق ہو ئی ہے۔تاہم یہ تعویق اپنے فوائد سے خالی نہیں رہی۔مسٹر بیمز فرماتے ہیں۔

’’بد قسمتی سے قریباً ہر ہندوستانی زبان کا یہی حال رہا ہے کہ جب مصنفین نے اس زبان میں لکھنا شروع کیا تو اُن کی طرزِ تحریر سے قدرتی رنگ معدوم ہو گیا اور تصنّع اور بناوٹ نے یہاں تک زور پکڑا کہ متاخرین نے متقدمین کی طرزِ تحریر کو بغیر کسی تبدیل کے اختیار کر لیا‘‘۔ لیکن اُردو زبان اس قید سے مستثنیٰ تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض فارسی تصنعات کی تقلید سے اسے نقصان پہنچا تا ہم یہ صحیح ہے کہ اُردو نثر نویسوں نے بالعموم ایسی طرز تحریر اختیار کیا جو وقت کے تقاضے سے خود بخود پیدا ہوئی۔اور جو بناوٹ سے آزادی ہو نے کی وجہ سے عوام کے فہم اور سمجھ کے عین مطابق تھے۔

موجودہ صدی میں اُردو نثر کی ترقی کے تین بڑ ے قوی اسباب ہوئے ہیں۔اوّل چھاپہ خانہ کی ترویج جو مسیح واعظوں بالخصوص سیرام پور کے واعظوں کی وساطت سے ہوئے۔ دوَّم زبانِ انگریزی نے تعلیم جو ۱۸۳۲ء؁ سے مسیحی واعظوں اور بالخصوص ڈف صاحب کے مساعی جمیلہ سے شروع ہو ئی۔اور جس نے ہندوستان کی زبانوں پر مغربی علمی خزائن کے دروازے کھول کر ان پروہ احسان کیا جو گم شدہ یونانی علم ادب کے دریافت نے یورپ کی زبانوں پر کیا تھا۔ مغربی علوم و فنون کی ہو ا نے اُردو زبان میں ایک نئی روُح پھونک دی ہے اور شائد ہندوستان کی کو ئی اور زبان اس مغربی اثر سے اس قدر متاثر نہیں ہو ئی جس قدر کہ یہ زبان ہوئی ہے۔سوئم اُردو زبان کا فارسی کے بجائے درباری زبان قرار دیا جانا۔اس واقعہ کے اثر نے پٹنہ اور پشاور کے درمیان ممالک کو اُردو کے زیر نگین کر دیا ہے۔ اور چونکہ دہلی اور آگرہ کو اب دارالخلافہ ہونے کا شرف نہیں رہا اس وَاسطے زبانِ مذکور کے ادبی تحریکات کے مرکز لاہور اور الہ آباد و قرار پا گئے ہیں۔

اُردو کا ماں یعنی برج بھا شاکا اثر تو دہلی اور آگرہ تک ہی محدود تھا مگر بانکی بیٹی کو خدا نے وہ شرف بخشا کہ آج شمالی ہندوستان میں تین لاکھ مرتع میل پر اس کا دَور دَورہ ہے بلکہ جنوبی اور مغربی ہندوستان کے بعض وَسیع اضلاع بھی اس کی حکومت سے آزاد نہیں۔اس کے علاوہ کئی مقامات میں مقامی بولیوں کے علاوہ اُردو گویا زبان ثانی تصوّر کی جَاتی ہے جس کی وجہ سے اُردو بولنے والو ں کی تعداد کا صحیح اندازہ کرنا نہایت مشکل ہے۔باوجود اس اشکال کے ہم گریرنسن صاحب کی تحقیقات کے مطابق زبانِ مذکور کے بولنے والوں کی تعداد درَج کر تے ہیں۔اور صاحب موصوف کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے ازرُوئے کرم ہمیں اپنا مسودہ عطا فرمایا۔

پنجاب ۵۸۹۶۱۱

صوبہ جَاتِ متحدہ اور اودھ ۳۴۸۶۳۶۰

بنگال ۱۶۷۲۴۸۸

راجپوتانہ وغیرہ ۵۲۹۰۸۹

ممالک متوسط ۱۵۵۰۱۴

حیدرآباد ۲۷۰۴۰۰

بمبئی ۱۳۰۱۲۲۲

میزان ۸۰۰۴۱۸۳

مدراس کے اُردو بولنے والوں کی تعداد اس تعداد میں کچھ بہت بڑ ا اضافہ نہیں کر سکتی لہذا مندرجۂ بالا تعداد کم و بیش ہندوستان کے خالِص اُردو بولنے والوں کی سمجھی جانی چاہئے۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ جزئی طور پر اُردو زبان کی وسعت ان حدود سے وسیع تر ہے۔مثلاً پنجاب کے ایک کروڑ مسلمان باشندوں اور ایک کروڑ ۵۵لاکھ مسلمان بنگالی بولنے والوں کے درمیان اُردو جزواً مروج ہے۔ مزید برآں مندرجۂ بالا ۸۰ لاکھ اُردو بولنے والوں میں غالباً لکھ پڑ ھ سکنے والوں کی تعداد شائد اس قدر ہے کہ کسی اور دیسی زبان کے بولنے والوں میں اس قدر نہ ہو گی۔یہی حال اُن لوگوں کا ہے جو اُردو کو بطور زبانِ ثانی استعمال کر تے ہیں۔ان لوگوں میں سے اکثر مثلاً اہل پنجاب نے اُردو مدرسوں میں پڑ ھ کر سیکھی ہے۔

بعض مغربی مصنفین کی رائے ہے کہ اُردو ہندی سے کوئی الگ زبان نہیں ہے کیوں کہ اس کی صرف و نحو کلیتًہ ہندی اصل کی ہے۔بمیز صاحب فرماتے ہیں کہ اُردو کو ہندی زبان سے متمیز تصور کر نا غلطی ہے۔ اگر چہ ہندی بولنے والے مقامات میں مقامی بولیوں کے درمیان بہت سا اختلاف ہے۔تاہم ایک عام مشترک بولی متعارف ہے جس کو تمام تعلیم یافتہ لوگ استعمال کرتے ہیں۔اس مشترک بولی کی ابتداء مضافاتِ دہلی سے ہوئی اور ہندی کی وہ شکل جو اس شہر کے گرد و نواح میں بولی جاتی تھی رفتہ رفتہ ایک نئی زبان سمجھ کر اختیار کر لی گئی‘‘۔ بمیز صاحب ٹھیک فرماتے ہیں مگر وہ اس امر کو نظر انداز کر تے ہیں کہ اس نئی زبان کا اختیار کیا جانا ہی گویا اُردو زبان کی ابتداء تھی۔اگر ایسا نہ ہو تا تو برج بھاشا شمالی مغربی ہندوستان کے ایک تھوڑ ے سے حصّہ تک ہی محدود رہتی اور اس کی حیثیت ایک معمولی مقامی بولی کی حیثیت سے بڑ ھ کر نہ ہو تی۔ ڈاکٹر ہارنل نے ٹھک کہا ہے کے اُردو برج بھاشا کی ایک تبدیل شدہ صورت ہے جس نے بھاشا کی گردانوں کے اُلجھاؤ سے اپنے آپ کو آزاد کر لیا ہے اور بعض صیغے جب پنجابی اور مارواڑ ی کے سَاتھ مختص ہیں رکھ لئے ہیں۔پس اُردو بلحاظ صرف و نحو کے ہندی الاصل ہے جس میں کچھ مارواڑ ی اور پنجابی اجزاء بھی شامل ہیں اور بلحاظ الفاظ و اصطلاحات کے اس کی اصل کچھ ہندی ہے اور کچھ فارسی و عربی وغیرہ بلکہ اس کے مصنفین نے کئی غیر ملکی محاورات کا ہندی تر جمہ کر کے اپنی زبان کے ذخیرہ محاورات کو زیادہ کیا ہے مثلاً محنت کھینچنا پھل لانا وغیرہ جو محنت کشیدن اور بار آورون کا تر جمہ ہیں۔کتابی ہندی کی تو ابتدا ہی اس صدی سے ہوتی ہے۔یہ گویا اس اثر کا نتیجہ ہے جو انگریزی تعلیم نے زمانہ حال کی ہندوؤں پر کیا ہے اگر چہ حقیقت میں یہ کتابی ہندی وہی اُردو ہے جس میں غیر ملی الفاظ و محاورات کی جگہ تصنّع سے ہندی محاورات اور سنسکرت کے الفاظ اِستعمال کئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندی زبان بولنے والے ممالک کے تعلیم یافتہ ہندو کتابی ہندی کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں اور بر ج بھاشا بولنے والے اس کے فہم سے عاری ہیں۔ ہمارے نزدیک ڈاکٹرہارنل نے جو اُردو مشرقی ہندی اور مغربی ہندی میں امتیاز کیا ہے بالکل صحیح ہے۔ اور اُردو مشرقی اور مغربی ہندی سے اس طرح متمزّہ ہے جس طرح انگریزی ڈچ اور جرمن سے۔

فی زمانا انگریزی ز بان کی طرز تحریر اُردو زبان پر بہت بڑ ا اثر کر رہی ہے۔موجودہ اُردو اخبارات اور تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کی بول انگریزی زبان کے الفاظ و محاورات سے معمور ہوتی ہے۔اگر چہ مستند اُردو مصنفین کی تحریروں میں انگریزی الفاظ و اصطلاحات کو چنداں دخل نہیں ہے۔تاہم بہت سے الفاظ آہستہ آہستہ اُن کی تحریروں میں آتے جاتے ہیں (مثلاً توبتہ النصوح کے مصنف نے الفاظ انٹرنس۔ البم۔فری مسین۔ ربڑ۔ پنسل۔ڈاکٹر وغیرہ کو اِستعمال کیا ہے ) اور ان کی طرز تحریر اور لکھنے کا ڈھنگ انگریزی طرز ادا سے متاثر ہو تا جاتا ہے۔اس اثر کا نتیجہ خود واضح ہو جائے گا۔ بیمز صاحب اس امر کے متعلق یوں پیش گوئی کرتے ہیں :۔

غالب گمان یہ ہے کہ ریلوں سڑکوں اور دیگر وسائل آمدورفت کی توسیع سے پنجابی اور راجپوتانہ کے دیگر مقامی بولیاں معدوم ہو جائیں گی۔ جس کا نتیجہ یہ ہو گا کے اٹک سے راج محل تک اور ہمالہ سے وندھیاچل تک ایک ہی زبان ہندی مفرس یعنے اُردو کا دَور دورہ ہو جائے گا۔اس وقت اس زبان کو بولنے والو ں کی تعداد دس کروڑ سے بھی زیادہ ہو گی اور یہ زبان اپنی عظیم الشان وسعت اور روز افزوں وقعت کے باعث اپنی ہمسایہ زبانوں پر بھی ایک بہت بڑ ا اثر ڈالے بغیر نہ رہے گی جوں جوں مقامی اتحاد کے وسائل اور ملک کے مختلف حصص کے تعلقات بڑھتے جائیں گے توں توں یہ سادی شستہ بانکی اور ہر قسم کے مطالب کو ادا کر سکنے والی اُردو زبان جو ہندوستان کے اکثر حصّوں میں بولی جاتی ہے اور جو حکمران قوم کو انگریزی زَبان کے ساتھ خاص تشابہ رکھنے کے باعث بالخصوص مرغوب ہے ہندوستان کی اکثر دیگر زبان پر غلبہ حاصل کرتی جائے گی اور بالآخر وہ وقت آ جاۓ گا جب کہ تمام آریا ہندوستان کی زبان ایک ہو جائے گی ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اُردو زبان اور انگریزی زبان کی تاریخ میں ایک عجیب و غریب مماثِلت ہے اور ولیم کوپر شاعر انگلستان کے دلفریب الفاظ دونوں پر صادق آ سکتے ہیں۔

اَے انگلستان اس مدت مزید کے بعد بھی تیری زبان پر تیرے فاتحین کا اثر نمایاں معلوم ہوتا ہے۔شستگی۔بانکپن اور لطفِ ادا اس کے خاص جوہر ہیں اور یہ خیالات و الفاظ کے ان گرانمایہ موتیوں سے دمک رہی ہے جو تیرے فاتحین پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔

٭٭٭

ماخوذ از مضامین اقبال مرتبہ تصدق حسین تاج

ترجمہ

تعلیماتِ اقبال

مولانا محمد علی جوہر

دسمبر 1918ء کا زمانہ تھا کہ ہمارے دوست (جو پیشہ اور علم کے اعتبار سے ڈاکٹر سر محمد اقبال ایم۔ اے ، پی ایچ ڈی بیرسٹر یٹ لا کے نام سے موسوم ہیں ) کے پاس سے یکے بعد دیگرے دو پتلی جلدیں وصول ہوئیں ۔ گو ان کی وصولی کا درمیانی وقفہ زیادہ نہ تھا، تاہم ایسی نادر اور پر اثر تصانیف کا انتظار میرے لیے صبر آزما تھا۔

دیگر لاکھوں ہندی مسلمانوں کی طرح ، جو واقف ہونے کے باوجود اقبال سے ناواقف تھے ، میں بھی برسوں سے ’’اقبال‘‘ کو جانتا تھا اور کچھ عرصہ سے جب کبھی مجھے کسی کام پر لاہور جانا پڑتا تو میں ان کا مہمان ہوتا، اور دیکھتا کہ وہ وکالت صرف اسی حد تک کرتے کہ ان کے حقہ کا معمولی خرچ نکل سکے ۔ باقی وقت وہ اپنے پسندیدہ ادبیات اور فلسفہ کے مطالعہ اور زیادہ تر اس پر اثر شاعری میں صرف کرتے جس کے ذریعہ وہ ہندی مسلمانوں کے دلوں کو مسخر کر رہے تھے ۔ جبکہ دوسروں کو اقبال کی نظامت و ذہانت سے آگاہی حاصل کئے برسوں گزر چکے تھے ۔ میں نے اقبال کا ایک شعر بھی نہ پڑھا تھا، البتہ میں اس بات کا دعویٰ کر سکتا ہوں کہ جب یکبارگی اقبال کے کلام نے مجھے مسحور کیا تو میں نے ایک حد تک اس کی تلافی کی اور اس طرح کہ اردو رسالوں اور اخباروں میں ان کا جو کلام شائع ہوتا اس کو بار بار پڑھتا اور میرا اخبار (ہمدرد) پڑھنے والے اقبال کا کلام پڑھ کر جو مسرت محسوس کرتے میں ان کی مسرت میں شریک ہوتا۔ میرؔ کو مستثنیٰ کئے بغیر غالب (جو غالباً اردو زبان کا سب سے بڑا شاعر ہے اور جو خود میرؔ کی برتری کا معترف ہے ) کے اشعار اردو صحافت میں کبھی اس قدر زیادہ نہیں پیش کئے گئے جتنا کہ کامریڈ میں لیکن اب کامریڈ اور ہمدرد کے کالم اقبال کے اشعار سے مزین ہونے لگے جو غالباً غالب کے انتقال کے بعد پیدا ہوئے ۔

بحیثیت شاعر اقبال بیسویں صدی کے ہند میں اسلامی نشاۃ الثانیہ کے علمبردار تھے اور اسلامی ہند اس پنجابی گوشہ نشین اور شرمیلے بیرسٹر سے زیادہ کسی اور کا ممنون نہیں ۔ اردو داں دنیائے اسلام کا کوئی گھر ایسا نہیں جو اقبال سے ناواقف ہو اور بلا شبہ میں ان کا قدردان اور عاشق تھا۔ اگر کسی نے اقبال سے عقیدت رکھنے میں مجھ سے برابری کی بلکہ مجھ سے بازی لے گیا وہ میرے بھائی (شوکت علی) تھے ، جو اپنی تقاریر میں اس والہانہ وارفتگی کے ساتھ، جو ان کو اقبال کے کلام سے تھی، ان کے اشعار اس کثرت سے استعمال کرتے کہ میں جذبۂ رشک کو دبانے کی تمام کوششوں کے باوجود ان کا مذاق اڑا تاکہ وہ اپنی بے جان فصاحت و بلاغت سے سامعین کے جوش و خروش کو بیدار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکتے اگر وہ اقبال کے اشعار اس کثرت سے استعمال نہ کرتے ۔

لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اس دفعہ اقبال نے اپنی مثنوی فارسی میں لکھی ہے جس کے لیے انہیں اور مجھے اس فارسی کی تحصیل کو تازہ کرنے کی ضرورت تھی جو ہم نے برسوں پیشتر اپنے لال داڑھی والے ملا صاحب سے رامپور میں سیکھی تھی۔ انہوں نے زور و شور کے ساتھ اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ بہرحال ہم نے اقبال کی اسرار خودی پڑھنی شروع کی اور بتدریج ان کا غصہ فرو ہونے لگا کیونکہ ہم نے محسوس کیا کہ اقبال کی یہ مثنوی ان کے گزشتہ کلام سے کہیں زیادہ بلند پایہ ہے اور اس کے ذریعہ وہ دنیائے اسلام کے ایک بڑے حصہ تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں جو اردو کے ذریعہ ممکن نہ تھا ان کے آتش فشانی اردو کلام کے مقابلہ میں ابتداً ان کی مثنوی بے جان اور سرد معلوم ہوئی لیکن جونہی ابتدائی باب ختم ہوا جس میں انہوں نے اپنے فلسفہ کا موضوع پیش کیا ہے اور اپنے مشرقی مطالعہ کنندگان کے آگے پرانی اصطلاحات کے نئے معنوں کی وضاحت کی ہے اور جس کے بعد وہ بجائے پی۔ ایچ ۔ ڈی کے شاعر کے روپ میں جلوہ گر ہوئے ہیں ۔ ہم نے محسوس کیا کہ مرمر کی مورتوں میں بھی زندگی کا سیل آتشیں دوڑنے لگا ہے ۔ کامریڈ کی ضمانت کے مقدمہ میں جب مجھے متعدد مرتبہ لاہور جانا پڑا تو میں نے ان کی زبان سے ان کے مثنوی کے بعض حصے سنے تھے جبکہ وہ لکھی جا رہی تھی لیکن جس طرح کہ قرآن مجید کے معاملہ میں ہوا تھا یہاں بھی میں نے سامنے کے درختوں کو دیکھ کر پیچھے کے عظیم الشان صحرا کا اندازہ لگا لیا تھا، لیکن جوں جوں میں آگے بڑھتا گیا بتدریج پورا خاکہ میری نظروں کے سامنے آتا گیا اور میری خوشی کی کوئی انتہاء نہ تھی جب میں نے دیکھا کہ یہ فلسفی شاعر اپنے انوکھے انداز میں اسلام کے انہیں بنیادی حقائق کو پیش کرتا ہے جن کا خود میں نے مشکل تمام ادراک کیا تھا۔

یہاں میں یہ واضح کر دوں کہ اسلامی ادبیات میں یہ چیز عام طور پر بیان کی جاتی ہے کہ اسلام کے معنی خدا کو کائنات کا حاکم مطلق تسلیم کرنا اور اس کی مرضی کے آگے اپنی گردن جھکا دینا ہیں ، لیکن ہمارے مفتیان دین کی نظر میں یہ بات اتنی معمولی تھی کہ وہ اسے درخور اعتنا نہ سمجھے نہ تھے اور ہم اس کی کنہ سے بالکلیہ لا علم ہونے کے باوجود یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ گویا پوری طرح واقف ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ اس کی حقیقت ہماری نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی اور ضرورت تھی کہ نئی قوت اور پورے زور کے ساتھ اس کی اصل حقیقت سے لوگوں کو واقف کرایا جائے ۔ اس امر کے لیے کہ مسلمان مقصد زندگی سے آگاہ ہو کر سچے مسلمانوں کی زندگی بسر کریں ، پورے منظر کو تبدیل کرنے کی ضرورت تھی اور یہی حقیقت تھی جس کا میں نے اپنے طور پر ادراک کیا تھا اور اسی نقطہ نظر کو لئے اقبال پھر ایک دفعہ مسلمانوں کے ذہنوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ حکومت الٰہیہ قائم ہو سکے ۔ پیش پا افتادہ اقدار میں تبدیلی کی ضرورت کا اندازہ اس وقت مشکل نہیں ہوتا جبکہ دوسری جلد (رموز بیخودی) میں اقبال حلف لے کر بیان کرتے ہیں کہ ان کا لفظ لفظ قرآنی تعلیمات پر مبنی ہے ، نہ کہ جرمنی فلسفہ پر ، جیسا کہ علماء نے خیال کرنا شروع کیا تھا۔

اقبال کی دوسری مثنوی رموز بیخودی اس شاہراہ کو نشان زد کرتی ہے جس کی زمین ہموار کرنے کا کام ان کی پہلی مثنوی اسرار خودی نے کیا تھا اور اب منزل مقصود کا پا لینا ایک اندھے کے لیے بھی دشوار نہ تھا، جب تک ایک متعین مقصد کے ذریعے راستہ صاف نہ کیا جائے اقبال کے نقطۂ نظر سے زندگی ایک صحرا ہے اور خود آگہی یعنی خودی کی حقیقت کو پا لینا گویا زندگی کے مقصد کو پا لینا ہے ۔یہی وہ مشیت الٰہی ہے جس کے لیے حکومت الٰہی کا کائنات پر ظہور ہوا جب ایک دفعہ آدمی مقصد حیات اور کائنات کی مخلوقات میں جاری و ساری مشیت الٰہی کو پا لیتا ہے تو درمیانی تمام مزاحمتیں تاراج ہو جاتی ہیں ۔ حقیقی انا (خودی) کا ادراک اور اقرار گویا غیر حقیقی انا کا نابود کرنا ہے اور زندگی کی الجینات اپنی ناگزیر جنگ جوئی اسلام کے دیرپا امن عامہ کے دامن میں عافیت پاتی ہیں ۔ اسلامی پیغام اور اس کے دستور اخلاق کے اہم خدوخال کی تشریح کرتے ہوئے اقبال نے بھی قومیت کی مذمت کی ہے جو انسانی ہمدردیوں کے حلقہ اثر کو محدود کر دیتی ہے اور نوع انسانی میں تفریق و تشتت کا باعث ہوتی ہے ۔

انگریزی سے ترجمہ:

احمد اللہ خان (ایم۔اے )

***

اقبال کے کلام میں ’’جبریل‘‘ اور ’’جبرئیل‘‘ اور ان سے وضع کی گئیں اصطلاحیں

محمد بدیع الزماں

جبرئیل:قرآن میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کا نام صرف ’’جبریل ‘‘وارد ہوا ہے۔ لغات کشوری میں جبرئیل اور جبریل کے علاوہ جبرائیل بھی ہے بمعنی نام مقرب و مشہور فرشتے کا اور ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی اردو انگلش ڈکشنری میں صرف جبریل اور جبرائیل ہے۔ مگر سبہوں سے مراد ان لغات میں صرف حضرت جبرئیلؑ ہیں۔اقبال نے اپنے کلام میں ’’جبرئیل‘‘ اور ’’جبریل‘‘ دونوں استعمال کیا ہے اور ان سے بھی اصطلاحیں بھی وضع کی ہیں۔

حضرت جبرئیلؑ کی ملائکہ میں عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں بھی آپؑ کا ذکر قرآن میں وارد ہوا ہے وہ زیادہ تر دیگر ملائکہ سے الگ وارد ہوا ہے۔

قرآن کی سورۃ النحل کی آیت ۲۔۱میں حضرت جبرئیلؑ کو ’’روح القدس‘‘ کے لقب سے نوازتے ہوئے رسول اللہ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ ان مشرکوں سے کہو کہ:

’’اسے تو روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے بتدریج نازل کیا گیا ہے (نزلہ روح القدس من ربک با لحق) تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پختہ کرے اور فرمانبرداروں کو زندگی کے معاملات میں سیدھی راہ بتائے اور انہیں فلاح و سعادت کی خوشخبری دے۔‘‘

’’روح القدس‘‘ کا لفظی ترجمہ ہے ’’پاک روح‘‘ یا پاکیزگی کی روح اور اصطلاحاً یہ لقب حضرت جبرئیلؑ کا ہے۔ اس آیت میں وحی لانے والے فرشتے کا نام نہ لے کر ’’روح القدس‘‘ کا لقب دیا گیا ہے۔

حضرت جبرئیل کو سورۃ المعارج کی آیت ۴، سورۃ النبا کی آیت ۳۸ اور سورۃ القدر کی آیت ۴ میں صرف ’’روح‘‘ بھی کہا گیا ہے۔

سورۃ النجم کی درج ذیل آیت ۴تا۶میں حضرت جبرئیلؑ کو ’’زبردست قوت والا‘‘ بھی کہا گیا ہے۔ فرمایا گیا:

’’یہ تو ایک وحی ہے جواس (رسول اللہ) پر نازل کی جاتی ہے۔ اسے زبردست قوت والے نے تعلیم دی ہے۔ (علمہ شدید القویٰ) جو بڑا صاحب حکمت ہے۔‘‘

سورۃ التکویر کی آیت ۱۹میں حضرت جبریل کو ’’رسول کریم‘‘ اور بڑی توانائی رکھنے والا بھی کہا گیا ہے۔ ارشاد ہے :

’’یہ قرآن فی الواقع ایک بزرگ پیغامبر کا قول ہے (انہ لقول رسول کریم) جو بڑا توانائی رکھتا ہے۔‘‘

سورۃ النجم کی متذکرہ بالا آیات میں زبردست قوت والے سے مراد بعض مفسرین نے اللہ کی ذات لی ہے لیکن مفسرین کی عظیم اکثریت اس پر متفق ہے کہ اس سے مراد حضرت جبرئیلؑ ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت ابوہریرہؓ، قتادہ، مجاہد اور ربیع بن انس سے بھی یہی منقول ہے۔ ابن جریر، ابن کثیر اور آلوسی وغیرہ حضرت نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ اور مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی اپنے ترجموں میں اسی کی پیروی کی ہے۔ خود قرآن مجید کی تصریحات سے بھی یہی ثابت ہے۔ سورۃ التکویر کی متذکرہ بالا آیت اور سورۃ البقرہ کی آیت ۹۷ کے ساتھ اگر سورۃ النجم کی متذکرہ بالا آیات کو پڑھا جائے تو اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ ’’زبردست قوت والے ‘‘ سے مراد حضرت جبرئیلؑ ہی ہیں۔

’’جبرئیل‘‘ کی اصطلاح سے اقبال کے کلام میں انیس اشعار ہیں۔ چند اشعار ذیل میں نقل کئے جا رہے ہیں جنہیں متذکرہ بالا آیات کی روشنی میں پڑھا جا سکتا ہے :

وہ نمود اختر سیماب پا ہنگام صبح

یا نمایاں بام گردوں سے جبین جبرئیلؑ

(’’بانگ درا‘‘۔’’خضر راہ‘‘ صحرا نوردی)

وہ حرف راز کو مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں

خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں

(’’بال جبریل‘‘۔غزل ۳دوم)

امین راز ہے مردان حر کی درویشی

کہ جبرئیلؑ سے ہے اس کو نسبت خویشی

(’’بال جبرئیل‘‘۔غزل ۲دوم)

یہیں بہشت بھی ہے ، حورو جبرئیل بھی ہے

تری نگہ میں ابھی شوخی نظارہ نہیں

(’’بال جبرئیل‘‘۔غزل ۲۱)

جبریل:’’جبریل‘‘ سے چند اشعار یہ ہیں :

محمدؐ بھی ترا، جبریل بھی، قرآن بھی تیرا

مگر یہ حرف شیریں ترجماں تیرا ہے یا میرا؟

(’’بال جبریل‘‘ غزل ۲۔اول)

نہ کر تقلید اے جبریل میرے جذب و مستی کی

تن آساں عرشیوں کو ذکر و شیخ و طواف اولیٰ

(’’بال جبریل ‘‘غزل ا۔دوم)

جبریل امیں :اقبال نے ’’امین‘‘ کی اضافت سورۃ التکویر کی درج ذیل آیت ۲۱سے اخذ کی ہے۔ فرمایا گیا:’’مطاع ثم امین‘‘ (وہ (حضرت جبریلؑ) با اعتماد ہے )

گرچہ خدا نے حضرت جبریلؑ کو ’’امین‘‘ کے لقب سے سورۃ الشعراء کی آیت ۱۹۳میں بھی نواز ہے ، جس کا ذکر ’’روح الامیں ‘‘ کی اصطلاح کے تحت آگے آ رہا ہے۔

’’جبریل امیں ‘‘ کی اصطلاح سے اقبال کے کلام میں صرف درج ذیل دو اشعار ہیں :

ہر سینہ نشیمن نہیں جبریل امیں کا

ہر فکر نہیں طائر فردوس کا صیاد

(’’بال جبریل‘‘۔’’آزادی افکار‘‘)

ہمسایۂ جبریل امیں بندۂ خاکی

ہے اس کا نشیمن، نہ بخارا نہ بدخشاں

(’’ضرب کلیم‘‘۔’’مرد مسلماں ‘‘)

روح الامیں :’’روح الامیں ‘‘ کی اصطلاح اقبال نے سورۃ الشعرآء کی آیت ۱۹۳سے اخذ کی ہے جس سورۃ کی آیات ۱۹۲تا ۱۹۶میں حضرت جبریلؑ کو اس لقب سے نوازتے ہوئے فرمایا گیا ہے :

’’یہ (قرآن) رب العالمین کی نازل کردہ چیز ہے ، (۱۹۲) اسے لے کر تیرے (رسول اللہؐ کے ) دل پر امانت دار روح اتری ہے۔(نزل بہ الروح الامین) (۱۹۳) تاکہ تو ان لوگوں میں شامل ہو جو(خدا کی طرف سے خلق خدا کو) متنبہ کرنے والے ہیں (۱۹۴) صاف صاف عربی زبان میں (۱۹۵) اور اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی یہ موجود ہیں۔(۱۹۶)‘‘

’’روح الامیں ‘‘ کی اصطلاح سے اقبال کے کلام میں صرف ایک ہی درج ذیل شعر ’’بانگ درا‘‘ کی نظم ’’طلوع اسلام‘‘ کے چوتھے بند میں ہے :

جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا

تو کر لیتا ہے یہ بال و پر روح الامیں پیدا

***

اقبال ایشیائی بیداری کا شاعر

پروفیسر عبدالحق

سابق صدر شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی ، دہلی

مطالعۂ اقبال کی مختلف اور متنوع تعبیریں ہمیں سرشار کرتی ہیں اور ہماری حیرتوں میں اضافے کا موجب بھی بنتی ہیں ۔ ہم اپنی سہولتوں اور سوچ کے مطابق اقبال کو زماں و مکان میں رکھ کر تفہیم کو آسان بنا لیتے ہیں ۔ اقبال بھی کئی استفہامیہ کا سبب بنتے ہیں ۔ وہ کبھی شاعرِ مشرق اور کبھی شاعر فردا پر اصرار کرتے ہیں وہ نغمہ سرایانِ ہند ہیں مگر آہنگِ حجازی کی ترجمانی کرتے ہیں وہ خیابانِ کشمیر کے پروردہ ہیں ۔ مگر روئے زمین کے کسی حصے سے کوئی تعلق نہیں رکھتے ۔ ہماری نظر ایشیا تک گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ان حدود سے آزاد ہیں ۔ امروز فردا یا ایشیا بلکہ اس خاکداں سے کنارا کشی کا وہ اعلان بھی کرتے ہیں ۔ حوروں و فرشتوں کو اسیر کرتے ہیں ۔

یزداں بکمند آور اے ہمتِ مردانہ

اس مستعار دنیائے دوں سے بھی آگے جہانِ قدس پر کمندیں ڈالتے ہیں وہ اس پر بھی مطمئن نہیں ہوتے نوائے شوق سے حریم ذات میں پرور قیامت برپا کرتے ہیں یہاں بھی استقرار حاصل نہیں ہوتا تو جہانِ ممکنات یا عالم نو جوا بھی پردۂ وجود میں ہے اس کی تعمیر اور ترجمانی کا ساز و سامان فراہم کرتے ہیں ۔ اس کہن سال معمورۂ دنیا کو خاکستر بنا دینے اور اہل نظر کو نئی بستیاں آباد کرنے کے لیے آمادہ کرتے ہیں ۔ خالق کون و مکاں سے ایک دوسری دنیا طلب کرتے ہیں ۔

جہاں وہ چاہئے کہ ہوا بھی نو خیز

غرض ان کی وسعت طلبی آفاق و امکان کی طرح بے پایاں ہے ۔ مردِ آزاد کے وجود میں آفاق اپنی تمام پنہائیوں کے ساتھ گم ہے ۔

سما سکا نہ دو عالم میں مرد آفاقی

اس حرفِ راز کے اظہار کے لیے نفس جبرئیل طلب کرتے ہیں ۔ ہم انہیں ایشیا کی بیداری کا بانگِ رحیل سمجھتے ہیں ۔ لیکن وہ اپنی پہلی فکری تخلیق کے ابتدائیہ میں اصرار کر کے اپنا تعارف اس طرح پیش کرتے ہیں کہ ان کی فکر کے ہر ثانیے میں سینکڑوں سورج طلوعِ فردا کے منتظر ہیں اور عالم ایجاد میں نمود کے لیے مضطرب ہیں، وہ عالم نا زاد سے نسبت رکھتے ہیں ۔

ذرہ ام مہرِ منیر آنِ من است

صد سحر اندر گریبانِ من است

خاکِ من روشن تر از جامِ جم است

محرم از ناز ادہائے عالم است

اقبال کو کئی ناموں سے یاد کیا گیا ہم نے اقبال کی بے کراں بصیرت سے چشم پوشی کی۔ یہ نہ جانا کہ اقبال کی فکر و نظر پردۂ وجود کو چیر کر تقدیر عالم کو بے حجاب دیکھتی ہے ۔ ان کی دروں بینی کائنات کے ماہ و سال کی تقویم ساز قوت رکھتی ہے اور وہ ارض و سماں کی پراسرار کیفیات کی راز دار ہی نہیں نگہداری بھی کرتی ہے ۔ وہ زمان و مکان کے طلسم کو خاطر میں نہیں لاتی۔ سو سال گزرنے کے باوجود ان کی مقبولیت اور معنویت میں متواتر اضافہ ہو رہا ہے ۔ ان کے اشعار و اقوال آج بھی ہمارے ذہنوں کی تازگی میں معاون ہیں ۔ عالم ناپید سے عالم آب و خاک کی طرف مراجعت کر کے یہاں کی پستی و پس ماندگی کے خلاف وہ روئے زمین کے تمام باشندوں کو خطاب کرتے ہیں ۔ اس عمومی آواز میں کسی تفریق کو دخل نہیں ہے ۔ انقلابی آواز کے مخاطب تمام انسان اور سبھی آفاقی جہات ہیں ۔

اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگادو

عالم ہمہ ویرانہ زچنگیزی افرنگ

چشمِ دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب

عظمتوں کی مالک دنیا کی سب سے بڑ ی آبادی اور سب سے بڑ ے براعظم کی زبوں حالی نے اقبال کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ یہ مسلم ممالک کا سب سے عظیم گہوارۂ تمدن بھی ہے ۔ یہی سرزمین ان کے دین و دانش کی امین اور جولاں گاہ رہی ہے ۔ اسلامی آثار و امصار کے لافانی نقوش یہیں موجود ہیں ۔ یہاں کے بیشتر ممالک مغرب کی غلامی پر مجبور ہیں ۔ یہ براعظم ہر طرح کے سیاسی و معاشی استحصال کا شکار ہے ۔ مغربی مدنیت نے جغرافیائی یا رنگ و نسل کے امتیاز سے ہمسایہ ملکوں میں خوں ریز جنگ جاری کی ہے ۔ دینِ مسیحی کی تبلیغ کے نام پر جبری تبدیلی مذہب کی مذموم کوشش سے بھی یہ زمین کشاکش سے دوچار تھی۔ مغرب کی غاصبانہ عیاری کے پردوں میں تہذیبی آویزش، عداوت کا باعث بن چکی تھی۔ اقبال کا مخاطب اول ایشیا انہیں اسباب سے ان کی فکر و نظر میں مرکزی توجہ کا طالب ہوا۔ ان کی خاور شناسی ان کے جذب و یقین سے ہم آہنگ ہے ۔

گفت مردے شاعرے از خاورست

فکر او باریک و جانشین درد مند

شاعرے یا ساحرے از خاور است

شعرِ او در خاوراں سوزے فگند

(جاوید نامہ)

نکتہ سنجِ خاوراں ہندی فقیر (مسافر)

اقبال کی شاعری کے دو ایسے منفرد پہلو ہیں جس کی نظیر عالمی ادب میں شاید ہی ملے ۔ ان ک کلام عصری واقعات اور حادثات کا جامِ جہاں نما ہے جس میں رنج و راحت کے کئی پہلو بہت نمایاں ہیں ۔ دوسری انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے اردو شعر و تخلیق کو عالمی معاملات و مسائل کی آگہی بخشی۔ اردو آفاقی وسعتوں سے ہم کنار ہوئی۔ جب کہ ملک کے دوسرے ادب محدود تصورات میں پابند زنجیر رہے ان کی تخلیقات میں تیرہ سو سے زائد آثار و اسماء و اماکن کے حوالے ہیں ۔ ایشیائی ملک و ملت کے علاوہ دنیا کے دوسرے ممالک کے نام بھی کلام میں موجود ہیں ۔ جیسے امریکہ، اندلس، انگلستان، جاپان ، جرمنی ، فرانس، مصر، ولایت، ہسپانیہ، یورپ، یونان وغیرہ کے ساتھ متعدد شہروں و مقامات کے نام درج ہیں ۔ ان ملکوں اور شہروں کی تاریخ و تحریک نیز عصری کوائف پر اقبال کی نظر ہمیں حیرت میں مبتلا کرتی ہے ۔ ان کے بیانات کا یہ عالمی منظر نامہ بھی ان کی بصیرت کے یقین کے لیے کافی ہے ۔ یہ ان کی وسعت نظر ہے کہ وہ پوری کائنات سے سروکار رکھتے ہیں ۔ یہ دوسری بات ہے کہ ان کے قلب و نظر کو اس براعظم سے جو شیفتگی ہے وہ کسی دوسرے خطہ ارض سے نہیں ہے ۔ یہ بدیہی بات ہے کہ اقبال اور ان کے اسلاف کا مسکن و مدفن ہونے کے ساتھ ان کی تاریخ و تہذیب کا عروج و زوال بھی اسی خاک وخمیر سے وابستہ رہا ہے ۔ ان کے سوز و ساز میں یہ ایشیا ہے جو روحِ جان و تن ہے ۔

سوز و ساز و درد وداغ از آسیاست

ہم شراب وہم ایاغ از آسیاست

پس چہ باید کر د میں جاوید کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں ؂

آسیاں آں مرزو بومِ آفتاب

غیر بیں از خویشتن اندر حجاب

نظم ’’بلال ؓ‘‘ میں اقبال ایشیا کی عظمت کا صدقِ دل سے اعتراف کر چکے تھے ۔

جولانگہ سکندر و رومی تھا ایشیا

گردوں سے بھی بلند اس کا مقام تھا

انہیں یورپ کے ہاتھوں ایشیا کا استحصال برداشت نہیں ۔ انگریز تاجرانہ عیاری سے تخت و تاج کے مالک بن گئے ۔ انہوں نے کشتِ دہقاں کے ساتھ دست کاری کے نایاب فن کو بھی تاراج کیا ہے ۔

تختۂ دکاں شریکِ تخت و تاج

از تجارت نفع از شاہی خراج

قالی از ابریشم تو ساختند

باز اورا پیش تو انداختند

یورپ میں تین سال کے مختصر قیام نے ایک نئی آگہی بخشی تھی ساتھ ہی مشرقی اقوام کے خلاف مغربی فکر و فسوں کی عیاری کے دل خراش مشاہدات سے بھی اقبال متنفر ہوئے تھے ، ہندوستانی ادبیات میں یورپ کے خلاف اقبال کا یہ پہلا اعلانیہ تھا۔ یہ ۱۹۰۷ء کی بات ہے

دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے

مغربی تہذیب ایشیائی اقدار کو قتل کرنے کے لیے خنجر بدست تھی ا قبال نے پر زور لفظوں میں آگاہ کیا تھا کہ خود انہیں کے اسلحوں سے مغرب میں قتل عام برپا ہو گا۔ جنگِ عظیم اول اور انقلابِ روس نے اس پیشین گوئی کو پورا کر کے دکھا دیا۔ اس خون خرابے سے ایشیا محفوظ نہ تھا۔ ایران کی شمالی سرحدوں پر روس کا جارحانہ قبضہ ہو چکا تھا۔ یونان ، اٹلی ، برطانیہ اور فرانس افروایشیا کے بڑ ے حصے کو غصب کر چکے تھے ۔ ترکی کا مردِ بیمار بھی جاں بلب تھا۔ ۱۹۱۲ء سے ۱۹۲۲ء کے درمیان نظام عالم دگر گوں ہو رہا تھا۔ اقبال کو تشویشناک صورتِ حال کا اندازہ ہو چکا تھا۔

ہورہا ہے ایشیا کا خرقۂ دیرینہ چاک

نوجواں اقوام نو دولت کے ہیں پیرایہ پو ش

انقلاب روس سے ایک آس بندھی تھی کہ بوسیدہ نظام یورپ کے خلاف بطن گیتی سے نیا آفتاب طلو ہوا ہے ۔ اس انقلاب کو آفریں کہنے والے اقبال ہندوستانی ادبیات میں پہلے شخص تھے ۔ جنہوں نے اپنی بصیرت سے محکوم ایشیائی اقوام کے لیے اسے نوید صبح آزادی سمجھا۔ اقبال کی دروں بینی دیکھئے کہ ’خضر راہ ‘‘ لکھ کر سب سے پہلے استقبال ہی نہیں کیا بلکہ اسے ایشیا کے محکوم مزدوروں کے لیے خواجگی سے نجات کا ساماں قرار دیا۔ حالات ذرا بہتر ہوئے ۔ قلبِمسلماں کا اضطراب بھی قدرے تھم گیا تھا۔ اب طلوع اسلام کی آمد آمد سے اقبال کو ذرا اطمینان حاصل ہوا وہ مسلمانوں سے اقوامِ زمین ایشیا کی پاسبانی کا مطالبہ کرنے لگے ۔طلوعِ اسلام کے یہ دو اشعار ملاحظہ ہوں :

یہ نکتہ سر گذشتِ ملتِ بیضا سے ہے پیدا

کہ اقوامِ زمین ایشیا کا پاسباں تو ہے

پھر اٹھی ایشیا کے دل سے چنگاری محبت کی

زمیں جولانگہ اَطلس قبایانِ تتاری ہے

وسط ایشیا کے تاتاری نوجوانوں کی جانبازی و جاں سپاری سے اقبال کو بڑ ی امیدیں تھیں ۔ انہیں یقین ہو چکا تھا کہ ایشیا سے فرنگیوں کا طلسم ٹوٹ چکا ہے اور ان کے عروج کا آفتاب بحر اوقیانوس میں غرق ہونے کو ہے کیونکہ ایشیائی باشندے بیدار ہی نہیں کفن بردوش ہو چکے ہیں ۔ خداوندانِ مغرب کا ابلیسی نظام تار تار ہو چکا ہے ۔

اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ

ٹوٹا ہے ایشیا میں سحر فرنگیانہ

ایشیائی بیداری کو اقبال نے محسوس ہی نہیں کر لیا بلکہ اسے مہمیز بھی کیا۔ ضربِ کلیم میں یہ اعتراف ملاحظہ ہو۔

عطا ہوا خس و خاشاکِ ایشیا مجھ کو

کہ میرے شعلے میں ہے سرکشی و بے باکی

دوسرے اشعار بھی صورِ سرافیل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔

رشکِ گردوں خاکِ پاک خاوراست (پس چہ باید کر د)

زمانہ با امم ایشیا چہ کر د و کند

کسے نہ بود کہ ایں داستاں فروخواند

ان کا یہ احساس کسی عارف کے قول سے کم نہیں ہے ۔

اک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو

لاہور سے تا خاکِ بخارا و سمر قند

’زبورِ عجم ‘ کے دوسرے حصے کی اٹھارہویں اور انیسویں غزلیں تخلیقی اعجاز و اختراع کی حیثیت سے ادبی نوادرات میں شامل ہیں ۔ انہیں غزل کہیں یا نظم ان میں ہیئت و موضوع اور اسلوبِ پیش کش کے سبھی انداز نرالے ہیں ۔ ان سب سے قطعِ نظر جو پیغام ہے وہ غلام اقوام کے لیے بیاضِ مسیحا کا نسخۂ شفا سے کم نہیں ہے ۔ دو مصرع ملاحظہ ہوں :

از ہندوسمرقند و و ہمداں خیز

یاخرقہ وسجادہ وشمشیروسناں خیز

از خوابِ گراں ، خوابِ گراں خوابِ گراں خیز

از خوابِ گراں خیز

ایشیائی بیداری کے تعلق سے اگر صرف دو نظموں کو پیش نظر رکھیں تو احوالِ عالم بھی ہم پر آشکار ہو جائے گا۔ یہ دونوں نظمیں فکر اقبال میں کمال و قوسین کی طرح ہیں ۔ خضرِ راہ اور طلوع اسلام ساکنان اراضی کے استحصال اور خوش آیند دنوں کے استقبال سے عبارت ہیں اقبال کے شعری اور فکری تصورات کی تفہیم میں دونوں تخلیقات کا سیاق و لحاق ایشیا کی بیداری کا بانگِ درا بن گیا ہے ۔ آتشِ نمرود میں اولادِ ابراہیم کی آزمایش ہے جس کے بعد خاکِ مشرق پر مثالِ آفتاب چمکنے اور بدخشاں و بخارا کو لعلِ گراں کی ارزانی بخشنے کی بات اقبال کی زبان سے بہت اچھی لگتی ہے ۔ ساتھ ہی نسل ، قومیت، کلیسا، سلطنت ، تہذیب، رنگ کی تحقیر اور ان کے خلاف اٹھ کھڑ ے ہونے کی بات بھی اعلانِ جنگ سے کم نہیں ہے ۔ یہ شعر آپ کی یادداشت میں محفوظ ہے :

ابھی تک آدمی صیدِ زبونِ شہر یاری ہے

قیامت ہے کہ انساں نوعِ انساں کا شکاری ہے

چند برسوں بعد اقبال کو محسوس ہونے لگا کہ اشتراکیت آمریت کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ دس سال پہلے جس اشتراکی نظام کو اقبال نے لبیک کہا تھا وہ سراب ثابت ہوا۔ اس اندوہ ناک صورت کو سامنے رکھ کر اقبال نے آگاہ کیا تھا۔

زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو تو کیا

طریقِ کوہ کن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی

نصف صدی بعد اشتراکی شیرازہ بکھر گیا۔ اور عالمی طاقت کا توازن بھی تبدیل ہو گیا۔ یہ ایشیائی بیداری کا دوسرا دور تھا۔ جسے اقبال نے قبل از وقت محسوس کر لیا تھا۔ وسط ایشیا کے باشندوں کی تقدیر شکن قوت نے ایک نئی کروٹ لی۔ اس پس منظر میں اقبال کے اس شعر کو دیکھئے ۔

حرم رسوا ہوا پیرِ حرم کی کم نگاہی سے

جوانانِ تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے

روس کی حکمرانی میں مجبور مسلمانوں کی بدحالی سے اقبال مایوس تھے ۔ یہ ان کی بصیرت تھی انہوں نے روس کے دوسرے انقلاب کو چشم دل سے دیکھ لیا تھا۔ یہ اشعار اسی عرفان نظر کے مظہر ہیں ۔

اگر محصور ہیں مردانِ تاتار

نہیں اللہ کی تقدیر محصور

خودی را سوز و تابے دیگرے دہ

جہاں را انقلاب دیگرے دہ

اس سے قبل اقبال سوز و تپش سے خالی سینۂ تاتار پر وحشت زدہ تھے ۔

رفت سوزِ سینۂ تاتار و کر د

یا مسلمان مرد یا قرآن بمرد

اقبال کا ولولۂ شوق انہیں حرکت و حرارت کے لیے آمادہ کرتا ہے ۔

سوئے آتش گامزن مثلِ خلیل

ان کا یہ پیغام رنگ لایا اور سیاسی پردۂ وجود پر ایک دوسرا سورج طلوع ہوا۔ وسط ایشیا کی بیداری نے نئی انگڑائی لی۔ تاتاریوں کی گردش تیز تر ہو گئی۔ اقبال کی دوسری خواہش بھی پوری ہونے کو ہے ۔

تا دمدصبحِ حجاز از شامِ کر د

تقدیرِ جہاں کے یہ اسرار تھے جسے قلندر نے بہت پہلے بتا دیا تھا۔ ہماری فکرِ نارسا ان راز ہائے گیتی کو سمجھنے سے قاصر رہی۔ مگر اقبال کی آگاہی میں کوئی نہ تھی۔ یہ محض شاعرانہ اظہار نہ تھا۔ انہوں نے خاک نشینوں کو راز لوندی کے گر سکھائے ۔

بنتے ہیں مری کار گہِ فکر میں انجم

اقبال جس وجدانی نظر کے مالک تھے اس کے انکشاف کے لیے کسی مرد غیب کا انتظار ہے ۔ ہماری تنقید و تحلیل اقبال کی در یابی کے لیے ابھی تک دست بھی نہیں دے سکی ہے ۔

بحر قلزم کے ساحلی ممالک ایک نئی چنگیزیت سے دوچار تھے ۔ یورپ کی چھوٹی سے چھوٹی ریاست بھی قہر باری میں پیشوائی کر رہی تھی۔ آس پاس کے مسلم علاقے ہدف بنے ہوئے تھے ۔ یونان اور اطالیہ کی پشت پر بڑ ی جابر طاقتیں تعاون میں سرگرم تھیں ۔ ہمسایہ ملک ترکی ہر طرح کے اندیشوں میں مبتلا تھا مگر اماں کے لیے اور نبرد آزما بھی تھا۔ عثمانی خلافت کا تارو پود بکھر چکا تھا۔

خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش

اقتدار سے زیادہ فرنگی سیاست نے یورپی تہذیب مسلط کرنے کی حکمت تیار کی اور ترکی کی سرزمین خون سے لالہ زار تو تھی ہی تہذیبی یلغار کے سامنے سپرد انداز ہو گئی۔ رہی سہی کسر مصطفی کمال پاشا نے پوری کر دی۔ خلاف کے زوال پر اقبال کو امید تھی ۔ طلوع اسلام میں اقبال نے ترکوں کے مستقبل کی تاریخ مرتب کی ہے ۔

اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے

کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

بند کے آخری شعر کی بشارت اور بلاغت دعوتِ فکر دیتی رہے گی ۔

نوا پیرا ہوائے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے

کبوتر کے تنِ نازک میں شاہیں کا جگر پیدا

نئے نظام کے ساتھ نئی فکر بھی افرنگ کی ہم آغوشی کے آداب لے کر نمودار ہوئی اقبال نے پرسوز لہجے میں آگاہ کیا تھا۔

نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی

کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

مصطفی کمال پاشا کی تجدید پسندی اور شعائر اسلام سے بے نیازی اور رضا شاہ پہلوی کی مغرب زدگی نے نئے فتنوں کو جنم دیا اور دونوں کے عبرتناک انجام سے بھی اقبال باخبر تھے ۔ ابدالی کی زبان سے سنئے :

آلِ عثمان در شکنج روزگار

مشرق و مغرب زخونش لالہ زار

ترک از خود رفتہ دست فرنگ

زہرنوشیں خوردہ از دستِ فرنگ

ترکوں کا ساز نئے آہنگ سے خالی ہے ۔ نئی مضرابی میں بھی فرنگیوں کی نوائے کہنہ کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ ان کے قید و بند سے وہ آزاد نہیں ہیں بلکہ ۔

ہنوز اندر طلسم اور اسیراست

ان نا رسائیوں کے باوجود اقبال کے خروش احساس میں ترکوں کی تازگی اور توانائی کا تموج پردۂ تقدیر کو اک کرنے کے لیے کافی تھا۔

نقاب از روئے تقدیرے کشادند

بہ ترکاں بستہ درہارا کشاوند

وسط ایشیا کے دوسرے ممالک بھی رزمِ شر میں جبراً گرفتار کئے گئے تھے ۔ فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کر کے یہودیوں کو ان کی سرزمین میں بسایا جانا بیسویں صدی کا سب سے سنگین اور بہیمانہ حادثہ تھا۔ ایشیائی اقوام کی ایسی بے بسی تصور نہیں جا سکتی تھی۔ اقبال کا دل بھی شوق ہو کر رہ گیا تھا۔ وہ اس حادثے سے بہت مایوس تھے ۔

ہو گیا مانندِ آب ازاں مسلماں کا لہو

مغربیوں کی جنگ آزمائی سے پیدا شدہ شعلوں کی لپک سے عراق وایران محفوظ نہ تھے ۔ اقبال نے چین کے ساحل سے تابہ خاک کاشغر بے سبب نہیں کہا تھا۔ گویا ایشیا مشرق سے مغرب تک مقتل بنا ہوا تھا۔ اقبال نے بڑ ی فکر انگیز بات کہی تھی۔ جو فلک عطارد سے مولانا جمال الدین افغانی کی زبان سے ادا کیا گیا ہے ۔

مشرق از سلطانی مغرب خراب

یہ وہی مولانا ہیں جن سے اقبال نے بہت کچھ کسبِ فکر و نور کیا ہے ۔ اقبال و جمال کی انقلابی فکر کے باہمی رشتوں میں جو ہم آمیزی ہے اس کا اعتراف کیا جانا ابھی باقی ہے ۔ اقبال نے افغانستان کے حوالے سے جاوید نامہ میں سید کے مقام اور مقاصد پر انتہائی فکر انگیز خیالات پیش کئے ہیں ۔ وہ معترف ہیں کہ عالم مشرق نے دو جان باز جیالے پیدا کئے ۔ سید جمال اور حلیم پاشا۔ جنہوں نے عصر حاضر کے مسائل کی مشکل کشائی کی ہے ان کی آواز پرسنگ و سفال بھی لبیک کہہ کر گویا ہوئے ہیں ۔

سید السادات مولانا جمال

زندہ از گفتارِ او سنگ وسفال

اقبال نے ایک خود آیند حقیقت کا اظہار کیا تھا۔ جس کا سلسلۂ شہادت اب تک جاری ہے ۔ دنیا نے جنگ و قتل کی اتنی لمبی تاریخ نہیں دیکھی ۔ جسے فلسطینی عوام انجام دے رہے ہیں ۔

خونِ اسرائیل آ جاتا ہے آخر جوش میں

توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسم سامری

دوسری بات بھی بہ سلسلۂ عراق قابل توجہ ہے ۔

بدن عراق و عجم کا ہے بے عروق و عظام

دمشق ہاتھ سے جن کے ہوا ہے ویرانہ

تیسری بات بھی کم اہم نہیں ہے ۔ جو طنز میں کہی گئی ہے ۔

وفدِ ہندوستاں سے کرتے ہیں سر آغا خاں طلب

کیا یہ چورن ہے پئے ہضمِ فلسطین و عراق

یہ باتیں ۱۹۲۴ء کی ہیں جب ان ملکوں کی تاریخ کا تاریک دور حاوی تھا اس سے قبل ’رموز بے خودی‘ میں اقبال مایوسی کا اظہار کر چکے تھے ۔

شوکتِ شام و فربغداد رفت

جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ مرا دل

اس طنز کو یوں ہی گرداننا کم نگہی ہو گی۔ ذرا آج کے سیاق میں تفکر کے ساتھ توجہ دیں تو شاید اقبال کی بات آپ کے دل میں اتر سکے ۔ چوتھی بات سب سے اہم ہے ۔ اسے بھی پون صدی بعد بھرپور معنویت حاصل ہوئی ہے ۔ اقبال نے کہا تھا کہ یہ سرزمین شہادتِ شبیریؓ کی منتظر ہے ۔ اور خونِ حسین ؓ کی طلب گار ہے ۔

ریگِ عراق منتظر کشتِ حجاز تشنہ کام

خونِ حسین ؓ باز دہ کوفہ و شامِ خویش را (زبور عجم)

اس سرزمین کے جیالوں نے جو پیمان وفا استوار کیا تھا اس کی بدولت یہ خطۂ اراضی کشت و خون سے لالہ زار بنی ہوئی ہے ۔ سوڈانی درویش کی زبان سے اقبال نے جاوید نامے میں حرمین شریفین کے محافظوں کو آگاہ کیا تھا۔ محسوس ہوتا ہے کہ اقبال کی بصیرت آج کی صورتِ حال کو بے پردہ دیکھ رہی تھی۔ اور غیرت دلا رہی ہے ۔ اس سے قبل ۱۹۲۴ء میں امیر فیصل کوسنوسی نے جو پیغام دیا تھا اسے ذہن میں رکھیئے ، کہ امیر صرف نام و نسب کا حجازی ہے دل سے نہ حجازی ہے اور نہ غازی۔ یہی شیخِ حرم ہے جو گلیمِ بوذرؓ اور چادرِ زہراؓ کو بیچ کھاتا ہے ۔

اے فواد اے فیصل اے ابن سعود

تاکجا برخویش پییدن چوں دود

زندگانی تا کجا بے ذوقِ سیر

تاکجا تقدیر تو در دستِ غیر

یعنی تو غیروں کی محتاجگی اور گداگری میں کب تک گرفتار رہے گا۔

اقبال نے امتِ عربیہ کے ضمیر کو للکارا تھا۔ انگریزوں کی فسوں ساز حکمتِ عملی سے باخبر رہنے کی تاکید کی تھی اور ان کے فریب سے بھی آگاہ کیا تھا۔ جس نے عربوں کی وحدت کو پارہ پارہ کر کے نفاق کا زہر سرایت کر دیا ہے ۔ مغربی فتنوں میں مستغرق قوم کو بیدار کرنا آسان نہ تھا۔ ۱۹۲۳ء میں ہاشمیوں کے ہاتھوں ناموسِ دین مصطفی ؐ کا سرِ بازار بکنا اقبال کو گوارا نہ تھا۔ ان کا یہ قول ضبر المثل بن گیا ۔

بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دین مصطفی ؐ

کچھ برسوں بعد اقبال نے ان کے ضمیر کو آواز دی۔ جو مردہ و افسردہ ہو چکی تھی۔ جمال عبدالناصر نے عرب قومیت کی بنیاد فراعنہ مصر پر رکھی۔ یہ لکڑ ی کا گھر ثابت ہوئی۔ ان کی منتشر قوتیں منظم نہ ہو سکیں ۔ درماندگی اور در یوزہ گری ہی شیخ و شہنشاہیت کی بختِ نا رسا بن گئیں ۔

اے زافسونِ فرنگی بے خبر

فتنہ ہا در آستینِ او نگر

حکمتش ہر قوم رابے چارہ کر د

وحدتِ اعرابیاں صد پارہ کر د

نقشِ نواندرجہاں باید نہاد

از کفن دزداں چہ امیدِ کشاد

اقبال نے عربوں کی لوحِ تقدیر کی تحریر بھی پڑ ھ لی تھی کہ قوت سے محروم قوموں کے مقدر میں ذلت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

رائے بے قوت ہمہ مکر و فسوں

یا۔ عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد

اس تلمیح کی معنویت اقبال نے منکشف کی ہے ۔ جو کسی دوسرے موقعکی ہے ۔ لیکن تیغِ ایوبیؔ کی تمثال اور تاکید کے مخاطب عرب ہی ہیں ۔

تیغِ ایوبی نگاہ بایزدی

گنج ہائے ہر دو عالم راکلید

عرب اقبال کے فیضانِ نظر سے محروم رہے ۔ مغربی آقاؤں کی غلامی سے نجات حاصل نہ ہو سکی۔ تھوڑ ی جنبش پیدا ہوئی س۔ شعرِ اقبال کے تراجم اور مختلف تحریروں نے ایک تحریک پیدا کی۔ اخوان بڑ ے ا اب و تاب سے میدان میں اترے ۔ سید قطب شہید کی قیادت ، عوامی حقوق کی بحالی نے روشنی دکھائی۔ ۱۹۳۳ء میں طارق بن زیاد کی دعا مستجاب ہوئی۔

عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے

نگاہِ مسلماں کو تلوار کر دے

شروع شروع میں یعنی ۱۹۲۳ء تک وہ ایران کی سرد مہری سے شاکی تھے ۔ کیوں ان کے دلوں میں تاب و تپش کی حرارت ناپید تھی۔

خاکِ ایراں ماند و ایرانی نماند

عراق و حجاز کی طرح اقبال کو ایران سے ایک گہری جذباتی وابستگی تھی۔ وہ مطمئن تھے کہ ان کا پیغام ایران میں پہنچ چکا ہے اور وہ برگ و بار لانے کو ہے ۔

نوائے من بہ عجم آتشِ کہن افروخت

اس سے بہتر اقرار بھی ملاحظہ ہو

عجم از نغمہ ام آتش بجان است

اس سے بھی بلند بات اقبال کے اعتراف میں موجود ہے ۔

عجم از نغمہ ہائے من جواں شد

زسود ایم متاع او گراں شد

ہجومے بود رہ گم کردہ دردشت

ز آوازِ درایم کارواں شد

وہ مزید اقرار کرتے ہیں کہ ایران میں ایک دوسری دنیائے جم کا ہنگامہ اقبال نے برپا کیا ہے ۔ اقبال کو ایران کے نوجوانوں سے بڑ ی توقعات تھیں وہ ایک نئے دور کے انقلاب کا آغاز کریں گے اور دنیا کو آشتی اور خیر سگالی کا پیغام پہنچائیں گے ۔

چوں چراغِ لالہ سوزم درخیابانے شما

اے جوانانِ عجم جانِ من و جانِ شما

یہی نہیں اقبال نے جو فکر انگیز بات کہی تھی وہ کسی مفکر یا مدبر کی زبان پر نہ آ سکی۔ اور نہ خیال میں پیدا ہو سکی۔ ہمیں معلوم ہے کہ اقبال عالمی امن کی خاطر جینوا میں اقوامِ متحدہ کے قیام سے مطمئن نہ تھے ۔ بلکہ کہا کرتے تھے کہ چند کفن چوروں نے قبروں کی تقسیم کے لیے ایک انجمن بنائی ہے ۔

من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدے چند

بہر تقوسیم قبور انجمنے ساختہ اند

یہ اقوام کی انجمن ہے ۔ یہاں وحدتِ آدم کی گنجایش نہیں ہے ۔ اقبال کی نظر میں وحدت اقوام کا تصور مہلک نتائج کا حامل ہے ۔ اس کی جگہ وحدتِ آدم کے لیے مجلس کا قیام ہونا چاہئے ۔ اس مرکزی عالمی انجمن کے قیام کے لیے اقبال کی نظر میں جینوا نہیں تہران سب سے بہتر جگہ ہے ۔ اگر ایسا ہو جائے تو کرۂ ارض کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔

تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جینوا

شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے

اقبال کی یہ بصیرت تھی جس کے مشاہدے میں ہم سب شریک ہیں ۔ اور مقر بھی ہیں کہ اس سے بہتر صورت ممکن نہیں ہے کیونکہ اقوام متحدہ مغربیوں کی جنگ زرگری کا بدتر نمونہ بن کر رہ گیا ہے ۔ ہمارے مشاہدے میں ہے کہ مولانا خمینی کے انقلاب کے زمانے میں شہروں اور شاہ راہوں پر جگہ جگہ بڑ ے بڑ ے تختوں پر اقبال کے انقلابی اشعار آویزاں تھے ۔ جن میں روزنِ زنداں سے شعاعِ آزادی کی بشارتیں اقبال نے دی ہیں ۔

کیا اس شعری قول اور الہامی آواز سے کوئی انکار کر سکتا ہے ۔ مولانا خمینی کے انقلاب آہنگ کی پوری بازگشت محسوس کی جا سکتی ہے ۔

مرد صحرائی بایراں جاں ومید

بازسوئے ریگ زارِ خودمید

افغانستان سے اقبال کو بڑ ا جذباتی تعلق خاطر تھا۔ اقبال نے جس جذب و شوق سے افغان اور اس کے متعلقات پر متوجہ ہیں وہ شاید کسی دوسرے ملک سے پیدا نہ ہو سکا۔ مرد حر کے تصور میں مردِ کہستانی کو بڑ ا دخل ہے ۔ اقبال کابل کو دہلی پر ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ دہلی محکوم و غلام ہے ۔ جب کہ کابل انگریز حکمرانوں کی مداخلت سے آزاد ہے ۔

کہ ایں زمیں زطلسمِ فرنگ آزادست

وہاں کے قبائل اور قبیلے کے نوجوانوں میں جاں بازی اور سرفروشی کی سرشاری مشرق و مغرب میں تلاطم پیدا کر سکتی ہے ۔ افغانستان سے یہی محبت ہے کہ ان کی شاعری میں قبیلے ، کہستاں ، کوہ ، قلندر، کہسار، کبوتر، شہباز، لالہ، صحرا کے استعارے اور علامتیں بڑ ی معنویت رکھتی ہیں ۔ خوشحال خاں کی وصیت کے دو اشعار پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں ۔:

قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم

کہ ہو نام افغانیوں کا بلند

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

اقبال کا پیغام بیداری خاص طور پر افغانستان سے کئی نوعیت سے اہمیت رکھتا ہے ۔ جمال الدین افغانی کی تحریک سے اقبال براہ راست متاثر تھے ۔ ۱۹۳۳ء میں والی افغانستان کی دعوت پر اقبال کا بل حاضر ہوئے انہوں نے اپنے ولولۂ انگیز خیالات پیش کئے ۔ مثنوی مسافر کے اشعار کی تر و تازگی اور موثرات کو آپ ہم آج بھی محسوس کر سکتے ہیں ۔ بلکہ دیدۂ بینا ہو تو شفاف دیکھ بھی سکتے ہیں ۔

ذکر و فکر نادری درخون تست

قاہری یا دلبری در خون تست

تازہ کن آئینِ صدیقؓ و عمرؓ

چوں صبا بر لالۂ صحرا گزر

ظاہر شاہ کو خطاب کرتے ہوئے اقبال نے دل کے سوز و ساز کے ساتھ حکیمانہ بصیرتوں کا بھی اظہار کیا تھا وہ بصیرت جوان کے حواس و شعور کو راست خیز کر رہی تھی۔ وادی و کہسار کی خوگر قوم کی پیشانی پر اقبال کچھ اور دیکھ رہے تھے ۔ افغانیوں کے لیے نئے سوز و تپش کی دعا مانگ رہے تھے تاکہ ان کے لیے صبح نو روز کے امکانات روشن ہو جائیں ۔ ان کی تقدیر کے اسرار سے اقبال آگاہ ہو چکے تھے ۔ افغانی نوجوانوں کی نگاہیں شہباز و شاہین کی نظر سے بھی تیز تر ہو رہی تھیں ۔ ملک و ملت کے مسائل پر نگہداری کی تاکید کرتے ہیں ۔

اے نگاہِ تو زشاہیں تیز تر

گردِ ایں ملکِ خدا دادے نگر

باز تو گویم اے جوان سخت کوش

چیست فردا؟ دخترِ امروز دودش

بازافغاں را ازاں سوزے بدہ

عصرِ اورا صبح نو روزے بدہ

اور نادرآں دانائے رمزِ اتحاد کا انکشاف بھی کیا تھا۔

آں شہیدانِ محبت را امام

آبروئے ہند وچین وروم و شام

نوبتِ اودرد دکن باقی ہنوز

ایک اور حقیقت بھی ملاحظہ ہو کہ افغان اقتدار کے سزاوار ہوں گے ۔

مقتدی تاتاروافغانی امام

افغانستان سے اقبال کی عقیدت اور فکری تعلق نے وہ حرفِ راز بھی کہلوا دیا جو نزولِ بشارت سے قریب تر ہے ۔ آج کے حالات کو ذہن میں رکھیں اور ان اشعار کے پس منظر کو بھی یاد رکھیں تو اقبال کا قول کسی مردِ خود آگاہ کی آوازِ درا سے کم نہیں ہے ۔ جاوید نامہ میں ابدالی کی زبان سے حقیقت ابدی کا انکشاف بڑ ی معنویت کا حامل ہے ۔

آسیا یک پیکر آب و گل است

ملتِ افغاں دراں پیکر دل است

از فسادِ او فساِ آسیا

در کشادِ او کشادِ آسیا

اتنی بلیغ اور نکتہ آفریں پیش گوئی اقبال کی زبان سے ہی ادا ہو سکتی تھی۔ آج پورا ایشیا جھلس رہا ہے ۔ ایشیا ہی کیا افغانستان کی وجہ سے پورا عالم اندیشہ ہائے مرگ میں مبتلا ہے ۔ عوام بہتر نظام کی آرزو کے لیے ہر امتحان سے نبرد آزما ہیں ۔ یہ آواز

رومی بدلے شامی بدلے بدلا ہندوستان

او غافل افغان تو بھی اپنی خودی پہچان

اقبال کی دعا درگاہ حق میں مستجاب بھی ہوئی:

خدا نصیب کرے تجھ کو ضربتِ کاری

کشمیر سے اقبال کو جذباتی تعلق ہے ۔ وہاں کی تحریکِ آزادی میں اقبال کے اقوال و اشعار کو شروع سے ہی بڑ ا دخل رہا ہے ۔ ان کی حیات میں ہی داعیانِ تحریک رہ نمائی حاصل کرتے رہے ہیں ۔ مختصراً عرض کروں کہ اقبال کے اثرات نے نئی جنبش پیدا کی۔ انگریزی اقتدار کے زمانے میں ہر ظلم و زیادتی کے لیے اقبال برسر پیکار رہے اور بغیر کسی مایوسی اور ہزیمت کے ۔ انہیں آتش چنار کی تمازت سے بڑ ی امیدیں تھیں ۔

جس خاک کے ضمیر میں ہو آتشِ چنار

ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند

دوسرے اقوال بھی غور طلب ہیں ۔

ضمیرِ جہاں اس قدر آتشیں ہے

کہ دریا کی موجوں سے ٹوٹے ستارے

ہمالہ کے چشمے ابلتے ہیں کب تک

خضر سوچتا ہے ولر کے کنارے

یا

آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر

کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر

یہ خطۂ زمین اقبال کے موثرات سے کیوں خر محروم رہ سکتا تھا۔ نتائج سامنے ہیں اس علاقے کی پستی اور محرومیوں سے اقبال خوب واقف تھے ۔ وہاں کی رعایا پر راجا کے مظالم انگریز کی آمریت سے کم نہ تھے ۔ اقبال نے تحریک آزادی کی تائید کی اور فکر و شعر اور مشوروں سے عوام کو متحرک کرتے رہے ۔

جاوید نامہ میں شاہ ہمدان سے سنے :

از غلامی جذبہ ہائے او بمرد

آتشے اندر رگِ تاکش فسرد

کوہ ہائے خنگ سارِ اونگر

آتشیں دست چنارِ او نگر

مجلس اقوام کی کار کردگی اور فیصلوں پر نظر ڈالئے تو اقبال کے ارشادات کا یقین ہو گا۔ بڑ ی طاقتوں کی اجارہ داری نے پس ماندہ ملکوں کو خوار و زبوں کرنے میں کوئی کسر نہیں رکھی اور اب ایک طاغوتی طاقت کی حکمرانی نے اس ادارے کو بے گور و کفن لاشے کی طرح انسانوں کی بستی کو تعفن سے مسموم بنا دیا ہے ۔ سبھی اقوام بے دست و پا ہیں ایک نئے طرز کی استبدادی آمریت نے جنم لیا ہے ۔ تاریخ عالم کی سراسیمگی کا اقبال کو بہت پہلے ادراک ہو چکا تھا۔ اگر یورپ کے ممالک کا اتحاد ممکن ہو سکتا ہے تو ایشیائی قوموں کا اجتماعی ارتکاز کیوں کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے ۔ اقبال کی ایشیائی بیداری کا یہ سب سے صحت مند اور دانشورانہ مشورہ تھا۔ جسے ہم محسوس نہ کر سکے ۔ اور نہ قبول کر سکے ۔ عملی اقدام تو دور کی بات ٹھہری۔ انجام کار ایشیا پر مغربی آمریت کی نئی حکمتِ عملی نافذ کر دی گئی ۔ جس کے خلاف ایشیائی عوام سرفروشی کے لیے میدان میں اتر پڑ ے ہیں ۔ یہ جنوں خیز مظاہرے اور مجاہدے اسی سر رشتہ بیداری کے سلسلے ہیں ۔ اقبال نے ۱۹۳۱ء میں ہی سید جمال الدین افغانی کی زبان سے جغرافیائی حدود کو مسمار کرنے کی تنبیہ کی تھی۔کیوں کہ یہ مغربی فسوں کا شاخسانہ ہے جو ایشیائی اتحاد کی راہ میں حائل ہے ۔

او بفکرِ مرکز و تودرنفاق

بگذر از شام و فلسطین و عراق

ایشیاء کے مرکزی نظام کو اقبال شفاف نظروں سے دیکھ رہے تھے اور شدت سے محسوس کر رہے تھے ۔ وسط ایشیاء یعنی شمال و مغرب سے لے کر جنوبی مشرقی ایشیا کو ایک رشتہ و پیوند میں منسلک کرنا ان کے عزائم میں شامل تھا۔

شام و عراق و ہند و پارس خو بہ نبات کردہ اند

خوبہ نبات کردہ راتلخی آرزو بدہ

’ارمغانِ حجاز ‘ پایانِ عمر کا حاصل ہے ۔جو ان کے انتقال ۱۹۳۸ء کے بعد شائع ہوا ۔کشمیر کے انقلاب آفریں کروٹ کو اقبال نے بہ چشم نم دیکھا تھا ۔اور آنے والے دور کے خواب کی تعبیر کا منظر بھی ان کے روبرو تھا ۔ یہ شعر اسی تعبیر کی تفسیر بیان کر رہا ہے ۔

چھپے رہیں گے زمانہ کی آنکھ سے کب تک

گہر میں آبِ ولر کے تمام یک دانہ

دلوں میں ولولۂ انقلاب ہے پیدا

قریب آ گئی شاید جہانِ پیر کی موت

اس علاقے سے ملی ہوئی سرحدوں کے مشرق چلئے اقصائے چینی نظر آئے گا ۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ چین ایک دور دراز اور ہم مشربوں کا ملک نہ ہونے کے باوجود اقبال اس کی آزادی کے ہم نوا تھے ۔ وہاں کے مکینوں کی لرزہ خیز انگڑائی کو لبیک کہتے رہے اور محسوس کر لیا تھا کہ اسے دیر سویر آزادی سے ہم کنار ہونا ہے ۔چنانچہ وہ بیداری کی بشارت دینے میں تمام ہندوستانیوں سے آگے تھے ۔ یہ بھی ایک بڑ ی حقیقت ہے کہ فکرِ اقبال میں چین کی بڑ ی معنویت ہے ۔ ان کے افکار میں چین سے بڑ ی قربتوں کا بر ملا اظہار ہوتا رہا ہے ۔ خواہ وہ ترانے ہوں یا تلمیحات تفکر ہو یا تحریر و تخلیق۔ زمانے کے حوادث نے ثابت کر دیا کہ چین سے اقبال کی نسب بے سبب نہ تھی ۔ جب کبھی ایشیائی ممالک یا مکینوں کا ذکر ہوتا ہے تو چین سے گریز ناممکن ہے ۔ بلکہ آغاز ہوتا ہے ۔

چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا

ہندی و چینی سفالِ جام است

رومی و شامی گلِ اندام است

از حجاز و چین و ایرنیم ما

شبنم یک صبحِ خندا نیم ما

دیدہ ام امریک دہم ژاپون وچین

بہرتحقیقِ فلزاتِ زمیں

باز تو گویم اے جوان سخت کوش

چیست فردا؟دخترِامروز دودش

باز افغاں را ازاں سوزے بدہ

عصرِ اور اصبح نو روزے بدہ

اور نادر آں دانائے رمزِ اتحاد کا انکشاف بھی کیا تھا

آں شہیدانِ محبت رام امام

آبروئے ہندو چین و روم و شام

نوبت او در دکن باقی ہنوز

ایک اور حقیقت بھی ملاحظہ ہو کہ افغان اقتدار کے سزاوار ہوں گے ۔

مقتدی تا تارو افغانی امام

افغانستان سے اقبال کی عقیدت اور فکری تعلق نے وہ حرفِ راز بھی کہلوا دیا جو نزولِ بشارت سے قریب تر ہے ۔آج کے حالات کو ذہن میں رکھیں اور ان اشعار کے پس منظر کو بھی یا د رکھیں تو اقبال کا قول کسی مردِ خود آگاہ کی آواز سے کم نہیں ہے ۔ جاوید نامہ میں ابدالی کی زبان سے حقیقت ابدی کا انکشاف بڑ ی معنویت کا حامل ہے ۔

آسیا یک پیکرِ آب و گل است

ملتِ افغاں دراں پیکر دل است

از فسادِاوفسادِ آسیا

در کشادِ او کشادِ آسیا

اتنی تبلیغ اور نکتہ آفریں پیش گوئی اقبال کی زبان سے ہی اد ا ہو سکتی تھی ۔ آج پورا ایشیا جھلس رہا ہے ۔ایشیا ہی کیا افغانستان کی وجہ سے پورا عالم اندیشہ ہائے مرگ میں مبتلا ہے ۔ عوام بہتر نظام کی آرزو کے لئے ہر امتحان سے نبرد آزما ہیں ۔یہ آواز

رومی بدلے شامی بدلے بدلا ہندوستان

او غافل افغاں تو بھی اپنی خود ی پہچان

اقبال کی دعا درگاہِ حق میں مستجاب بھی ہوئی

خد ا نصیب کرے تجھ کو ضربتِ کاری

کشمیر سے اقبال کو جذباتی تعلق ہے ۔ وہاں کی تحریکِ آزادی میں اقبال کے اقوال و اشعار کو شروع سے ہی بڑ ا دخل رہا ہے ۔ ان کی حیات میں ہی داعیانِ تحریک رہنمائی حاصل کرتے رہے ہیں ۔مختصراً عرض کر دوں کہ اقبال کے اثرات نے نئی جنبش پیدا کی ۔ انگریز ی اقتدار کے زمانے میں ہر ظلم و زیادتی کے لئے اقبال برسرِ پیکار رہے ۔ اور بغیر کسی مایوسی اور ہزیمت کے ۔انہیں آتشِ چنار کی تمازت سے بڑ ی امیدیں تھی ۔

جس خاک کے ضمیر میں ہوا آتش چنار

ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند

دوسرے اقوال بھی غور طلب ہیں

ضمیرِ جہاں اس قدر آتشیں ہے

کہ دریا کی موجوں سے ٹوٹے ستارے

ہمالہ کے چشمے ابلتے ہیں کب تک

خضر سوچتا ہے ولر کے کنارے

یا

آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر

کل جسے اہلِ نظر کہتے تھے ایرانِ صغیر

یہ خطۂ زمین اقبال کے موثر ات سے کیوں محروم رہ سکتا تھا۔ نتائج سامنے ہیں اس علاقے کی پستی اور محرومیوں سے اقبال خوب واقف تھے ۔ وہاں کی رعایا پر راجا کے مظالم انگریز کی آمریت سے کم نہ تھے ۔ اقبال نے تحریکِ آزادی کی تائید کی اور فکرو شعر اور مشوروں سے عوام کو متحرک کرتے رہے ۔

جاوید نامہ میں شاہ ہمدان سے سنے

از غلامی جذبہ ہائے اوبمرد

آتشے اندر رگِ تاکش فسرد

کوہ ہائے خنگِ سارِ اونگر

اتشیں دستِ چنارِ اونگر

مجلس اقوام کی کار کردگی اور فیصلوں پر نظر ڈالئے تو اقبال کے ارشادات کا یقین ہو گا ۔بڑ ی طاقتوں کی اجارہ داری نے پس ماندہ ملکوں کو خوارو زبوں کرنے میں کوئی کسر نہیں رکھی ہے ۔اور اب ایک طاغوتی طاقت کی حکمرانی نے اس ادارے کو بے گورو کفن لاشے کی طرح انسانوں کی بستی کو تعفن سے مسموم بنا دیا ہے ۔سبھی اقوام بے دست وپا ہیں ایک نئے طرز کی استبدادی آمریت نے جنم لیا ہے تاریخ عالم کی اس سراسیمگی کا اقبال کو بہت پہلے ادراک ہو چکا تھا ۔اگر یورپ کے ممالک کا اتحاد ممکن ہو سکتا ہے تو ایشیائی قوموں کا اجتماعی ارتکاز کیوں کر نظر انداز کیا جا سکتا ہے ۔اقبال کی ایشیائی بیداری کا یہ سب سے صحت مند اور دانشورانہ مشورہ تھا۔ جسے ہم محسوس نہ کر سکے ۔ اور نہ قبول کر سکے ۔ عملی اقدام تو دور کی بات ٹھہر ی ۔انجام کار ایشیا پر مغربی آمریت کی نئی حکمتِ عملی نافذ کر دی گئی ۔جس کے خلاف ایشیائی عوام سرفروشی کے لئے میدان میں اتر پڑ ے ہیں ۔ یہ جنوں خیز مظاہرے اور مجاہدے اسی سر رشتہ بیداری کے سلسلے ہیں ۔اقبال نے ۱۹۳۱ ء میں ہی سید جمال الدین افغانی کی زبان سے جغرافیائی حدود کو مسمار کرنے کی تنبی کی تھی ۔ کیوں کہ یہ مغربی فسوں کا شاخسانہ ہے جو ایشیائی اتحاد کی راہ میں حائل ہے۔

فکری اظہار یا اکتساب بھی ملاحظہ ہو جو ایک تشریح طلب مسئلہ بنا ہوا ہے

کہہ گیا چینی حکیم اسرارِ فن

تیسرا رخ بھی توجہ چاہتا ہے ۔اقبال آزادی چین کے نقیب بن کر نمودار ہوتے ہیں اور آنے والے دور کی تصویر دکھاتے ہیں ۔اکثر ان کی مستقبل شناسی ہماری حیرتوں میں اضافہ کرتی ہے ۔اور ہمیں ان کی شاعری کے پیغمبرانہ پہلوؤں کا اعتراف کرنا پڑ تا ہے ۔ساقی نامہ کا یہ شعر آزادی کے استقبال کا نغمۂ نو بہار ہے ۔

گراں خواب چینی سنبھلنے لگے

ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے

ضربِ کلیم کا یہ شعر ملاحظہ ہو

ندا آئی کہ آشوب قیامت سے یہ کیا کم ہے

گرفتہ چینیاں ، احرامِ مکی خفتہ در بطحا

ایک اور بات جو سب سے زیادہ حیرت خیز ہے ۔آج عالمی منڈی میں چین کی مصنوعات کی فراوانی اور ارزانی سے بڑ ے سے بڑ ے مقتدر ملکوں کا معاشی نظام درہم برہم ہو رہا ہے ۔پیرانِ خرابات تحفظ کی تدبیریں سوچنے پر مجبور ہیں ۔اقبال نے سینۂ کائنات کے اس راز کو بہت پہلے افشا کر دیا تھا۔

چیں رباید از بساطِ روزگار

ہر نگار از دستِ او گیرد عیار

اس موضوع سے ہٹ کر ذرا موجودہ سیاسی منظر نامے پر اقبال کی ۱۹۳۶ء کی خیال افروزی ملاحظہ ہو۔ ان کی پیشن گوئی تھی کہ ایک وقت آئے گا جب یہودی نظام فکر و عمل کی صورت میں ہر محاذ پر حاوی ہو گا۔ سب سے پہلے عیسائی اس کی زد میں ہوں گے ۔ کلیساؤں کے متولی یہود ہوں گے اور مقتدی عیسائی ہاتھ باندھ کر ان کی امامت قبول کریں گے ۔

شاید ہوں کلیسا کے یہودی متولی

فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہودی میں ہے

اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ آج دنیا کی سب سے بڑ ی جابر طاقت کی مہار دست یہود میں ہے ۔پورا نظامِ عالم درہم برہم ہو رہا ہے ۔اقبال نے ایشیائی بیداری کے لئے اس کے اتحا د کو ملزوم قرار دیا تھا ساحلِ چین سے بحر روم تک انسانوں کی ہیئت اجتماعیہ کا تصور انہیں اکثر تڑ پا تا رہا۔ یہ اضطراب کسی نہ کسی حد تک مؤثر ہوا۔ ۱۹۴۷ء کے بعد ترکی ایران اور پاکستان کے علاقائی تعاون کی تنظیم نے جنم لیا۔ مسلم ممالک اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کے متحدہ ہ اداروں کے قیام میں بیداری کی بازگشت سنی جا سکتی ہے ۔سارک ممالک کا اتحاد وجود میں آیا ۔ بعد ازاں جنوب مشرق کے ممالک میں تعاون کی انجمن قائم ہوئی ۔ روس نے اپنے حلیف ملکوں کی دولت مشترکہ قائم کی افرو ایشیائی ممالک کے باہمی اتحاد کی صورت بھی پیدا ہوئی ۔

یہ ایک عمومی تذکرہ ہے ۔جس میں عہدِ اقبال کی سیاسی صورتِ حال اور اقبال کے فکری ردِ عمل کے ساتھ ان کی پیامبرانہ شاعری پر سرسری نظر ڈالی گئی ہے ۔اقبال نے محکوم اقوام کے استحصال کے خلاف جس شدت سے نفرت کا اظہار کیا اور انہیں پیکارِ جنگ کے لئے آمادہ کیا۔ اس کی مثال بر صغیر یا بر اعظم ہی نہیں کرۂ ارض پیش کرنے سے قاصر رہی ہے اقبال اس حقیقت سے بہت اچھی طرح واقف تھے ۔وہ پیشن گوئی کے قائل نہ تھے ۔ لیکن ان کی بصیرتوں میں وجدان و الہام کے مشاہدات اور کرشمہ ساز فکر کسی طرح کم نہ تھی ۔

مرے گلو میں ہے اک نغمۂ جبرئیل آشوب

بچا کر جسے رکھا ہے لامکاں کے لئے

اقبال نے اپنے جہاں آشوب نغمے کو لامکاں کے لئے سنبھال کر رکھا تھا نہوں نے اس انتہائی درد مندی سے بر اعظم کی بیداری کے قافلے میں لٹا دیا۔ ان کی ایشیائی بصیرت انجم شناسی کو مات دے کر تاروں کی گردش تیز تر کر کے دلِ ہر ذرہ کو رست خیزی کے لئے سامان سر فراہم کر دی گئی ۔فردائے قیامت تک بیداری بخشنے والی آوازیں اقبال سے ہی منسوب کی جائیں گی ۔

پس چہ باید کر دائے اقوامِ شرق

باز روشن می شود ایامِ شرق

در ضمیرش انقلاب آمد پدید

شب گذشت و آفتاب آمد پدید

***

آفاق، آفاقی اور آفاق گیری کلام اقبال کی روشنی میں

محمد بدیع الزماں

’’آفاق‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور یہ افق کی جمع ہے ۔ اس کے لغوی معنی تو آسمان کا کنارہ ہے مگر اصطلاحاً معنی دنیا ہے ۔اردو زبان میں یہ واحد مستعمل ہے ۔ اسی سے لفظ ’’آفاقی‘‘ ہے جس کے لغوی معنی تو ساری دنیا کے ہیں مگر اصلاحاً اس کے معنی عالمگیر ہے ۔ اس سے ’’آفاق گیری‘‘ ہے جس سے لغوی اور اصطلاحی دونوں معنی دنیا پرچھا جانا ہے ۔

اقبال کے کلام میں یہ تینوں آفاق، آفاقی اور آفاق گیری الفاظ سے مشتق اصطلاحیں ہیں جن اصطلاحوں کو انھوں نے ایک مسلمان کے نصب العین اور اس نصب العین کے حصول کے لئے بلند حوصلگی اور بلند نگاہی کے معنوں میں استعمال کیا ہے ۔

’’آفاق‘‘ کی اصطلاح سے اقبال کے کلام میں صرف ایک ہی درج ذیل شعر ’’ضرب کلیم‘‘ کی نظم ’’کافر و مومن‘‘ کا ہے :

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے

مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق

اس شعر میں اقبال یہ نکتہ ذہن نشین کراتے ہیں کہ مومن یہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی طاقت اس پر حکمرانی نہیں کر سکتی اور اس طرح وہ خود کائنات پر حکمرانی کرتا ہے ۔وہ اطاعت الٰہی کی بدولت اپنی خودی کی مخفی طاقتوں کو مرتبۂ کمال تک پہنچاتا ہے ۔ اور جب خودی اپنے اصل مقام یعنی خلافت الٰہیہ پر فائز ہو جاتی ہے تو یہ ساری کائنات اس کی مطیع ہو جاتی ہے اور وہ زماں و مکان پر حکمراں ہو جاتا ہے اور اس طرح آفاق یعنی دنیا مومن کے اندر گم ہو جاتی ہے ۔ یعنی مومن کے مقابلہ میں آفاق کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ برعکس اس کے کافر کی حالت یہ ہے کہ آفاق کی طاقتوں کے سامنے اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔

اقبال نے ’’آفاق‘‘ سے دو تراکیب ’’بندۂ آفاق‘‘ اور’ ’صاحب آفاق‘‘ وضع کی ہیں جن سے اقبال کے کلام میں ایک ہی درج ذیل شعر ’’ضرب کلیم‘‘ کی نظم ’’بیداری‘‘ کا ہے :

اس مرد خدا سے کوئی نسبت نہیں تجھ کو

تو بندۂ آفاق ہے ، وہ صاحب آفاق

اس شعر میں یہ اظہار تاسف کرتے ہیں کہ تجھے ’’مرد خدا‘‘ یعنی ’’مرد مومن‘‘ سے کوئی نسبت اس لئے نہیں ہو سکتی کیونکہ تو ’’بندۂ آفاق‘‘ ہے ۔ یعنی زماں و مکاں کی قید میں گرفتار ہے اور تیری زندگی کا مقصد بہت پست یعنی صرف دنیا کا حصول ہے ۔ جبکہ ’’مرد مومن‘‘ صاحب آفاق ہے یعنی وہ زماں و مکاں کی قید سے آزاد ہے اور اس کا زاویہ نگاہ بہت بلند ہے اور اس کی ساری سعی اس بلند مقاصد کے حصول کی طرف ہے کہ دنیا میں حکومت الٰہیہ قائم ہو۔

لفظ ’’آفاق‘‘ سے نگاہ میں وسعت اور بلندی مراد لیتے ہیں جس سے انسان میں بلند نگہی اور عالی ظرفی کی صفات پیدا ہوتی ہیں اور دل بھی کشادہ ہو جاتا ہے دل میں پوری دنیا میں حکومت الٰہیہ قائم کرنے کے ولولے پیدا ہوتے ہیں ۔ اس کے لئے دل میں آفاقیت کا ہونا ضروری ہے ورنہ اگر نگاہوں میں آفاقیت نہ ہو تو دل بھی اس جذبہ سے خالی رہتا ہے ۔

’’آفاقی‘‘ کی اصطلاح کے اقبال کے کلام میں کل دو اشعار ہیں جن میں ایک شعر ’’آفاق گیری‘‘ کے ساتھ آگے آ رہا ہے ۔ دوسرا شعر ’’بال جبریل‘‘ کی غزل ۴۵کا درج ذیل ہے :

نہ چینی و عربی، نہ رومی و شامی

سما سکا نہ دو عالم میں مرد آفاقی

اس شعر میں اقبال یہ نکتہ ذہن نشین کراتے ہیں کہ مومن کا زاویہ نگاہ اس قدر وسیع ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کوکسی ملک یا خطہ ارض سے وابستہ نہیں کرتا اس لئے کہ عشق (جس سے اقبال کے کلام میں مراد عشق الٰہی (البقرہ، ۱۴۶) بہ توسط عشق رسولؐ(اٰلِ عمران، آیات ۳۱اور۳۲) ہے ) انسان کو زمان و مکان کے قیود سے بالاتر کر کے اس کے اندر آفاقی رنگ پیدا کر دیتا ہے ۔

’’آفاق گیری‘‘ کی اصطلاح سے اقبال کے کلام میں صرف ایک ہی درج ذیل شعر ’’بال جبریل‘‘ کی غزل ۳۶کا ہے جس میں اقبال دل اور آفاق گیری کے ربط کو اس طرح ذہن نشین کراتے ہیں :

دلوں میں ولولے آفاق گیری کے نہیں اٹھتے

نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو انداز آفاقی

اس شعر میں اقبال یہ نکتہ ذہن نشین کراتے ہیں کہ جب تک انسان کا زاویہ نگاہ آفاقی نہ ہو جائے اس کے دل میں آفاق گیری کا جذبہ پیدا نہیں ہو سکتا۔ اور یہ آفاقی انداز اس وقت پیدا ہو سکتا ہے جب مسلمان قرآنی تعلیمات پر عامل ہو جائیں ۔ ’’آفاق گیری‘‘ کے ولولے سے اقبال کی مراد یہ بھی ہے کہ ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کرے اور حکومت الٰہیہ قائم کرنے کی آرزو دل میں ہو۔

اقبال کے کلام میں ’’نگاہ‘‘ الفاظ میں مشق الگ ایک اصطلاح ہے جس سے بہت سارے اشعار ہیں اور ’’ضرب کلیم‘‘ میں خصوصی نظمیں ’’نگاہ‘‘ اور ’’نگاہ شوق‘‘ بھی ہیں ۔ نگاہ کا کام نہ تو صرف نظارہ کرنا ہے اور نہ پست مقاصد کے لئے استعمال کیا جانا ہے ۔ کیونکہ حقیقت میں نگاہ اس سے بلند تر کام انجام دیتی ہے۔ نگاہ انسان کو بلندیوں پر پرواز کرنا سکھاتی ہے ، معاملات کے سمجھنے میں مدد دیتی ہے اور نیک و بد کے پہچاننے کا سلیقہ سکھاتی ہے ۔

اقبال کے نزدیک نگاہ سے مراد مظاہر فطرت کی تحسین کا سلیقہ ہے ۔ یعنی فطرت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے صرف نگاہ کی ضرورت ہے لیکن ایسی نگاہ جو فطرت کے حسن و جمال کی قدر کر سکے ۔ ’’ضرب کلیم‘‘ کی نظم ’’نگاہ‘‘ میں اقبال کہتے ہیں :

نگاہ ہو تو بہائے نظارہ کچھ بھی نہیں

کہ بیچتی نہیں فطرت جمال و زیبائی

ان اصطلاحات سے اقبال یہ نکتہ ذہن نشین کراتے ہیں کہ انسان اپنی منزل کو آسمانوں سے بھی بلند تصور کرے اور اس کی نگاہ اسی منزل پر مرکوز رہے ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے ۔ اس حدیث کی روشنی میں ’’ارمغان حجاز‘‘ کی نظم ’’بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو‘‘ میں اقبال کا یہ شعر ہے :

تقدیر پر امم کیا ہے ؟ کوئی کہہ نہیں سکتا

مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا

مومن کی نگاہ سورج اور چاند کی محتاج نہیں ہوتی۔ اس کی نگاہ دل کے توہمات میں الجھنے کے بجائے مشاہدۂ حق سے بہرہ ور ہوتی ہے ۔

’’بانگ درا‘‘ کی نظم ’’تصویر درد‘‘ کے چھٹے بند میں اقبال کا یہ شعر ہے :

ترا نظارہ ہی اے بوالہوس مقصد نہیں اس کا

بنایا ہے کسی نے کچھ سمجھ کر چشم آدم کو

***

کلام اقبال میں صناعی

پروفیسر رحمت یوسف زئی

اقبال کے فکری پہلوؤں پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے ۔ شاعر اقبال کو نظر انداز کرکے فلسفی اقبال پر ہزاروں صفحات سیاہ کردیئے گئے ہیں۔ خود اقبال نے بھی متعدد جگہ اپنی شاعری کو صرف افکار کو پیش کرنے کا ذریعہ بتایا ......میری نوائے پریشاں کو شاعری نہ سمجھ یا ’’نغمہ کجا ومن کجا ساز سخن بہانہ ایست‘‘ کہہ کر اقبال نے بظاہر اپنی شاعری کو زیادہ اہمیت نہ دی....... لیکن یہ اقبال کا انکسار تھا۔

    مولاناسید سلیمان ندویؔ اور اقبال کے درمیان جو خط وکتابت ہوئی تھی اور اس میں زبان اور شعر کے مسائل پر جو بحثیں ہوا کرتی تھیں ان کی روشنی میں یہ بات حتمی طورپر کہی جاسکتی ہے کہ اقبال نہ صرف لفظ اور اس کے استعمال پر قدرت رکھتے تھے بلکہ زبان کے معاملے میں بھی وہ کافی محتاط تھے۔ وہ فارسی اور اردو شاعری کے کلاسیکی سرمایہ اور روایات سے کماحقہٗ واقف تھے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اقبال شاعری کی اثر انگیزی سے بھی آگاہ تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ شعر وادب اصلاح قوم کے لئے بہترین ذریعہ ہیں ۔ اس لئے شاعری کو انہوں نے اپنے افکار پیش کرنے کے لئے استعمال کیا۔ اقبال کی ابتدائی شاعری میں ، خصوصاً وہ کلام جو انہوں نے منسوخ کردیا صنائع اور بدائع کی بہتات نظر آتی ہے۔ لیکن انہوں نے شعری کمالات کو معراج شاعری نہ سمجھا ۔ استاذی پروفیسر گیان چند جین نے بڑی عرق ریزی سے اقبال کے ابتدائی عہد کا غیر متداول اور منسوخ کلام جمع کیا، جس کو دیکھنے کے بعد حیرت ہوتی ہے کہ اقبال صناعی ہر کس قسدر قادر تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ صناعی صرف وہ نہیں جو محض آرائش شعر کے لئے کی جایے ، کیونکہ صناعی مقصود بالذات نہیں ہوتی بلکہ وہ بات اہم ہے جو شاعر کہنا چاہتاہے ۔ اور اگر صناعی اس نکتہ پر غالن آجائے تو اصل بات دور جاپڑتی ہے۔ لیکن اگر صناعی محسوس طریقے پر شعر کی اثر آفرینی میں اضافہ کرکے تو یہی صناعی حسن بن جاتی ہے ۔ تاثیر شعر سے واقف ہونے کی وجہ سے اقبال نے اپنے افکار کی ترسیل کے لئے شعر کا وسیلہ تلاش کیا تھا اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے ۔چونکہ اقبال شعر کے فن سے واقف تھے اور تلمیحات ، استعارات ، علائم اور صنائع وبدائع کے استعمال پر بھی انہیں قدرت حاصل تھی، اسی لئے ان کی شاعری میں دل کو چھولینے والی کیفیت ملتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کی شاعری میں آورد نہیں آمد ہے ۔ اسی لئے اقبال ہاں جو صنائع ملتے ہیں وہ شعوری کوشش کا نتیجہ نہیں ۔ ویسے انہوں نے جہاں شعوری کوشش کی ہے ۔ ایسے اشعار کو خود ہی خارج کردیا ۔ عبدالواحد معینی نے باقیات اقبال میں تین شعر درج کئے ہیں:

دیکھ اے غافل! یہ دنیا جائے آسائش نہیں

اس ختن سے کرگیا ہے آہوئے آرام رم

 

ہائے اپنا ہی نظر آیا نہ کچھ انجام اسے

دیکھتا تھا جام میں ہر چیز کا انجام جم

 

دم میں جبتک دم ہے گردوں تک رسائی ہے محال

گلشن ہستی میں ہے سودا م کا اک دام دم

    ان اشعار کے قوافی پر غورکیجئے ۔ آرام ، رم ، انجام ، جم اور دام ،دم میں بالالتزام تجنیس ناقص رکھی گئی ہے ۔ (تجنیس ناقص میں ایک حرف کم کردیا جاتا ہے) اور یہاں صنعت ذوالقافیتین بھی موجودہے ......گویا لزوم مالا یلزم، تجنیس ناقص اور ذوالقافیتین تین صنعتیں اس میں موجود ہیں ...... پھر تیسرے شعر میکں ردالعجزعلی الصدر بھی ہے یعنی دم مصرعے کے آغاز میں ہے پھر قافیہ ہے طور پر بھی استعمال ہو اہے ۔ لیکن ان اشعار کو اقبال نے اپنے مجموعے میں شامل نہیں کیا، کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ ان اشعار میں صناعی غالب ہے اور جو بات کہنے کی تھی وہ صناعی کے پردے میں چھپ گئی ہے ۔ لیکن ذیل کے اشعار دیکھئے، ان میں صناعی ہونے کے باوجود گراں نہیں گزرتی ، شاید اسی لئے انہیں مجموعہ میں جگی دی گئی ہے:

آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا

دانہ تو، کھیتی بھی تو، باراں بھی تو ، حاصل بھی تو

 

آہ کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے

راہ تو، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو ، منزل بھی تو

 

کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا

ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو ، ساحل بھی تو

 

دیکھ آ کر کوچۂ چاک گریباں میں کبھی

قیس تو ، لیلیٰ بھی تو، صحراء بھی تو ، محمل بھی تو

 

وائے نادانی کے تو محتاج ساقی ہو گیا

مئے بھی تو، مینابھی تو، ساقی بھی تو ، محفل بھی تو

    ان اشعار میں لزوم مالایلزم ہے اور مراعات النظیر کے علاوہ صنعت جمع بھی مجود ہے۔ لکھنو اسکول نے تخلیق برائے صناعی کا تصور پیش کیا تھا ۔ اقبال اس کے خلاف تھے۔ وہ تو دلکشا صدا کے قائل تھے ۔ اسی لئے انہوں نے کہا تھا

نہ زباں کوئی غزل کی ، نہ زباں سے باخبر میں

کوئی دلکشا صدا ہو، عجمی ہو یا کہ تازی

    جب انہوں نے منکسرانہ انداز سے زبان سے اپنی بے خبری کا اعلان کیا تو اس کا مطلب یہی تھا کہ وہ تخلیق برائے صناعی کے قائل نہیں۔ لیکن وہ صناعانہ تخلیق کے ضرور قائل ہیں اور یہ تصور ان کے پورے نظام فکر سے ہم آہنگ نظر آتا ہے۔

    اقبال کی شاعری میں صناعی کا جائزہ لیتے ہوئے دو پہلو قابل غور ہیں۔ ایک متداول صنعتوں کا استعمال غیرمحسوس طریقے پر کیا گیا ہے اور دوسرے نظم یا غزل کی معنویت اور اندرونی ساخت کو ملحوظ رکھتے ہوئے مناسب صنعتوں کا انتخاب ہوا ہے ۔ یہ پہلو ایسا ہے جو ایک بڑے شاعر کو دوسرے شعراء سے ممیز کرتا ہے اور یہی پہلو اقبال کے ہاں غالب ہے ۔ اقبال کا یہ شعر نہ جانے کتنی مرتبہ پڑھا اور سنا گیا ہے لیکن اس شعر میں بھی صناعی نظر آئے گی۔:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

    اب اس شعر میں تین لفظوں پر غور کیجئے ، خودی ، خدا، خود .....ان سے جو مثلث بنتا ہے وہ اقبال کی فکر کا حاصل ہے ۔ لیکن اس سے قطع نظر خود اور خودی میں تجنیس زائد و ناقص ہے صرف ایک حرف کی کمی بیشی سے صنعت بھی پیدا ہو گئی اور بات بھی بلند ہو گئی ۔ علاوہ ازیں خدا اور بندے میں صنعت تضاد ہے ۔ خدا اور خودی میں شبہ اشتقاق ہے یعنی یہ شبہ ہوتا ہے کہ ان کا مادہ ایک ہی ہے ، جب کہ ایسا نہیں ہے ۔ اب اس شعر میں استعمال ہونے والے حروف کو دیکھئے ۔ ر، خ اور ق کا استعمال ایک خاص ترنم پیدا کرتا ہے ۔ شعر کا آخری حصہ سوالیہ ہے ’’بتا تیری رضا کیا ہے؟‘‘ ....... اس سوال میں تحکم نہیں بلکہ محبت کی کیفیت ہے ۔ اس میں قرآن سے بھی استفادہ موجود ہے ۔ سورۂ دہر کی یہ آیت دیکھئے۔ وَمَاتَشَاؤُنَ اِلّاَ أَن یَّشَائَ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیماً حَکِیماًoکچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو بعید از فہم ہوتی ہیں۔ خدا بندے سے کیوں پوچھے ، لیکن اس کی دلیل بھی دی گئی ہے کہ اگر خودی کو بلند کیا جائے تو یہ ممکن ہے اور اس طرح حضرت موسیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رب العزت سے کلام کرنے پر بھی مہر تصدیق ثبت ہوتی ہے اور دوسری طرف یہ بات بھی آشکارا ہوتی ہے کہ پیغمبری یا نبوت منصب ہے جسے اللہ نے عطا فرمایا ہے اس کے ساتھ ہی بندے میں اگر صلاحیت ہو تو وہ بلند منصب پر فائز ہوسکتا ہے۔ یہ صنعت مذہب کلامی ہے۔ یہ تو ایک مثال تھی ۔ کلام اقبال سے کوئی شعر اٹھایئے ، یہی صورت ہوگی کہ اس میں صناعی تو ہوگی لیکن اس قدر خفی کہ غور کرنے پر ہی پتہ چلے گا کہ اس میں صنعت موجود ہے ۔ یہ شعر دیکھئے :

 چپ رہ نہ سکا حضرت یزداں میں بھی اقبال

کرتا کوئی اس بندہ گستاخ کا منہ بند

    اس شعر میں بندہ اور بند پر غور کیجئے صنعت نکل آئے گی ۔ یہ تجنیس زائد و ناقص ہے ، اب ذرا یہ شعر بھی دیکھئے:

تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا

میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں

    کیا؟ اور کیا میں تجنیس تو ہے ہی ....... لیکن ایک بہت دلچسپ صنعت اس میں موجود ہے اور وہ ہے صنعت مقلوب...... ان دو لفظوں پر غور کیجئے ۔ ایک اور کیا ...... دونوں حروف یکساں ہیں صرف ترتیب الٹ گئی ہے یہ شعر بھی ہم نے کئی بار پڑھا ہے:

پھو ل کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر

    اب اگر اس شعر کو ایک خاص انداز سے پڑھا جائے تو مفہوم بدل جاتا ہے ۔ یہ صنعت متحمل الضدین ہے۔ پہلے مصرعے کو اثباتیہ انداز میں پڑھئے تو ایک مفہوم نکلتا ہے .....اور اگر سوالیہ انداز سے پڑھا جائے تو دوسرا مفہوم نکلتا ہے۔ یعنی اثباتی انداز سے پڑھا جائے ، تو یہ مطلب ہوتا ہے کہ پھول کی پتی نرم و نازک ہوتی ہے لیکن اس میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ ہیرے کا جگر بھی کاٹ سکتی ہے ، جبکہ مردِ ناداں پر نرم و نازک کلام کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اور اگر شعر کا پہلا مصرعہ سوالیہ انداز سے پڑھا جائے تو مفہوم نکلتا ہے کہ .....کیا پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کٹ سکتا ہے ۔؟ نہیں ......! اور جس طرح یہ بات ممکن نہیں ہے اسی طرح مردِ ناداں پر بھی نرم و نازک کلام کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔اب یہ شعر دیکھئے:

عشق کی گرمی سے معرکۂ کائنات

علم مقات صفات، عشق تماشائے ذات

    اس میں علم اور عشق کا تقابل ہے ۔ لیکن اس سے ہت کر بھی ایک صنعت ہے اور وہ ہے فو ق النقاط ۔ یعنی اس شعر میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جس مکے نقطے نیچے لگے ہوئے ہوں۔ (ماہرین کے نزدیک ’’ے‘‘ کو تحت النقاط حرف مانا گیا ہے۔ لیکن چونکہ یہ نقطے تحریر میں نہیں آتے اس لئے راقم الحروف کو اس بات سے اختلاف ہے۔)

    اس شعر میں کئی صنعتیں یکجا ہو گئی ہیں:

 

خودی کی جلوتوں میں مصطفائی

خودی کی خلوتوں میں کبریائی

    اس میں صنعت ترصیع ہے ۔ یعنی پہلے مصرعے کے ہر لفظ کے مقابلہ میں دوسرے مصرعہ میں لفظ موجود ہے ۔ اس کے علاوہ اس میں تجنیس خطی ہے۔ جلوتوں اور خلوتوں میں صرف نقطے کا فرق ہے اور اس میں ذوالقافیتین بھی ہے۔فن تاریخ گوئی میں صنعتیں مشکل ہوتی ہیں۔ جسٹس میاں شاہ دیں ہمایوں کی وفات پر اقبال نے اس مصرعہ سے تاریخ نکالی تھی

علامہ فصیح زہر چارسو شنید

علامہ فصیح کے اعداد ۳۳۴ ہیں۔ مصرعہ میں زہر چارسو شنید کا اشارہ موجود ہے یعنی اگر ۳۳۴ کو چار سے ضرب دیا جائے تو سال وفات ۱۳۳۶ھ برآمد ہوتا ہے۔ یہ صنعت ضرب یاتضارب ہے اور اس سے ماقبل کے کمالِ فن کا اندازہ ہوتا ہے۔

    لیکن اقبال کی عظمت اس میں ہے کہ انہوں نے شاعری کو صرف لفظوں کا گورکھ دھندہ نہیں بنایا بلکہ اس میں سوزو فکر کے امتزاج سے نوع انسانی کے لئے پیغام حیات بھی پیش کیا......... کیونکہ اقبال جانتے تھے کہ اعلیٰ شاعری کا کیا مقام ہے۔

یہ چیز وہ ہے کہ پتھر کو بھی گداز کرے

اِقبال اور ہم

رحمت یوسف زئی

اِقبالؔ کی وفات کو تقریباً 68 برس گزر چکے اور اس طویل عرصے کے بعد بھی جب ہم شاعرِ مشرق پر غور کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اقبالؔ آج بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے کل تھے ۔ سچ پوچھیے تو بیسویں صدی پوری کی پوری اقبالؔ کی صدی تھی اور اکیسویں صدی میں بھی اقبال کی اہمیت فزوں سے فزوں تر ہوتی رہے گی بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اقبال کا اثر آنے والی کئی صدیوں تک قائم رہے گا۔

          بیسویں صدی کا دوسرا نصف حصہ عالمِ انسانیت کے لیے اس وجہ سے زیادہ اہم ہے کہ سائنسی ترقیوں نے پورے کرۂ ارض کا احاطہ کر لیا، زندگی تیز رفتار ہوتی چلی گئی، الکٹرانک انقلاب نے دنیا کو مختصر سے مختصر ترین کر کے ایک طرف فاصلے کم کر دیے تو دوسری طرف امن کو عنقا بنا دیا، سامراجی طاقتوں نے تمام اقوام کو اپنی مٹھی میں کرنے اور ان کو اپنا دست نگر بنانے کے لیے جنگ کا ہتھیار استعمال کیا۔ آج یہ عالم ہے کہ ساری دنیا پر جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں ، عام امن پسند انسان کے ذہنوں پر جنگ کا خوف طاری ہے ۔ دوسری جنگ عظیم کی بنیاد نسلی برتری پر تھی۔ جس کے خلاف اتحادی طاقتوں نے ہتھیار اٹھائے لیکن اب یہی اتحادی قوتیں اسی نسلی برتری کے عمیق غار میں اترتی جا رہی ہیں ۔ اقبالؔ نے فاشزم اور نسل پرستی کے خلاف آواز بلند کی تھی کیوں کہ وہ اس عفریت کی تباہ کاریوں کو پہلی جنگ عظیم کے دوران محسوس کر چکے تھے ۔ آج اکیسویں صدی میں نسل پرستی کا خطرناک عفریت شدت اختیار کر رہا ہے ، فرقہ وارانہ نفرت کی آگ سے کوئی لک محفوظ نہیں ، اخلاقی معیارات اپنی آخری سطح کو چھو رہے ہیں ، مغرب کے دباؤ میں مشرقی اقدار چور ہوتی جا رہی ہیں اور یہ ایسا المیہ ہے جو ہر ایک کو متاثر کر رہا ہے ۔ اقبالؔ نے بھی ایک نظام کا خواب دیکھا تھا اور وہ نظام تھا عدل و انصاف کا، سماجی برابری کا، انسانیت سے محبت کا اور یہ خواہش اس وقت تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک کہ ایک اعلیٰ نظام حیات انسانیت کی رگوں میں جاگزیں نہ ہو، اسلام نے اسی نظامِ حیات کو پیش کیا تھا۔ لیکن ہم نے اپنے آپ کو مغرب کی چمک دمک کے حوالے کر دیا۔ انسانیت کی اعلیٰ قدروں کی پاسداری کی بجائے ہم نے ذاتی مفاد اور وقتی آسائش کو ترجیح دی، اقبالؔ آسائش سے کنارہ کشی کرتے ہوئے جہدِ مسلسل اور حرکت کی طرف متوجہ کرتے رہے ، لیکن ہم نے اس پیغام کو بالائے طاق رکھ دیا ہم نے اکیڈمیاں بنائیں ، اقبال ؔ پر عظیم الشان جلسے کیے ۔ اقبال کے فلسفۂ حیات اور ا سکے پیغام پر دھواں دھار تقریریں کیں ، مضامین لکھے ، کتابیں شائع کیں عمل کے معاملے میں ہم نے بخل سے کام لیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ذہنی افلاس کا شکار ہو گیا اور اس ذہنی افلاس نے ہمارے معاشرے کو بامعنی اور مقصدی زندگی سے کوسوں دور کر دیا۔

          بڑ ے شاعر کا کمال یہ ہے کہ اس کا پیام ہر دور کے لیے ہوتا ہے ، اقبالؔ کا معاملہ بھی یہی ہے وہ اپنے دور میں ایک اہم اور بڑ ے شاعر کی حیثیت سے تو جانے ہی جاتے تھے لیکن آج بھی اقبالؔ کی فکر اور قوتِ اظہار دہنِ انسانی کو اپنی گرفت میں لینے کی بے پناہ صلاحیت کی حامل ہے ۔ ایران کے انقلاب کے پس منظر کو ٹٹولا جائے تو اس میں فکِر اقبالؔ کی چنگاریاں جا بجا چمکتی نظر آئیں گی، خمین شریعتی اور کئی دوسرے رہنماؤں نے اقبالؔ کی فکر سے استفادہ کرتے ہوئے اس طرح لہو گر مایا کہ ایک نئے انقلاب کی راہیں ہموار ہو گئیں ۔

          اقبالؔ اس اعتبار سے بھی عظیم ہیں کہ انھوں نے انسانوں کو ذاتی مفاد سے آگے بڑ ھ کر پوری ملت کے مفاد کو مد نظر رکھنے کا پیام دیا تھا۔ مغرب سے اقبال ؔ اس وقت بھی نالاں تھے جب چہار دانگ عالم میں مغرب کا ڈنکا بج رہا تھا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی دور بین نگاہیں مستقبل کو دیکھ رہی تھیں اور انہیں صاف نظر آ رہا تھا کہ انسانیت کس راہ پر گامزن ہے ۔ اسی لیے انھوں نے مغرب کی مادہ پرستی کے خلاف آواز بلند کی اور اس فتنے کو کچلنے کے لیے سارے عالمِ انسانیت کو مشرق کی روحانی اقدار کو مستحکم کرنے کی طرف متوجہ کیا تھا۔ وہ مشرقی اقدار کو آفاقی اقدار میں ڈھالنے کے متمنی تھے ۔

          عظیم شاعری کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں معنی کی کئی جہتیں ہوتی ہیں ۔ اقبال کے ہاں یہ چیز بدرجۂ اتم موجود ہے اور شاید اسی لیے ان کی تفہیم آسان نہیں ۔ لیکن مشکل یہ بھی ہے کہ اقبالؔ کی فکر اور فن کے جِن کو ہر کوئی اپنی بوتل میں بند کرنا چاہتا ہے ۔ ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں نے انھیں اپنی بوتل میں بند کرنا چاہا اور اقبال کو مارکسی فکر سے متاثر قرار دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، پاکستان کے اربابِ حل و عقد نے انھیں نظریۂ پاکستان کا بانی قرار دے کر اپنا ٹھپہ لگا دیا اور ہندوستان کے دانشوروں نے اقبالؔ کو ہندوستان کا شاعر مانتے ہوئے ان کی انسان دوستی کو پاکستان سے الگ کر کے پورے برصغیر کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی۔ کبھی انھیں صرف مسلمانوں کا مفکر و شاعر ثابت کر کے ایک دائرے میں محصور کر دیا گیا۔ چلیے اگر ہم یہ مان لیں کہ اقبالؔ کی فکر کا منبع اور محور اسلام ہے تب بھی کیا کوئی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ اسلام کا پیغام صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ، کیا یہ ایک حقیقت نہیں ہے کہ اسلام کا پیغام ساری کائنات کے لیے ہے ۔

          کائنات کا سب سے اہم مظہر اضطراب ہے ، اضطراب ہی اس عظیم دھماکے (bigbang ) کا سبب بنا جو سائنسی نقطۂ نظر سے اس کائنات کی بنیاد مانا جاتا ہے اور چوں کہ انسان بھی اس کائنات کا ایک فرد ہے اس لیے اس میں بھی اضطراب کا عنصر لازمی طور پر موجود ہے ۔ یہ اضطراب ہی ہے جو انسان کو جہد مسلسل کی طرف مائل کرتا ہے اور جس کا نتیجہ آج کی مادی ترقی بھی ہے ، اور یہی اضطراب انسان کو مادی ترقی سے دور لے جانے اور اضطراب سے سکون کی طرف متوجہ کرنے کا سبب بن جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی سماج میں ہیپی ازم، گے ازم، لزبزم اور ایسی نہ جانے کتنی تحریکیں ہیں جو نام نہاد مہذب دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی طرف راغب کرتی ہیں ۔ یہی اضطراب، بے چینی ، تجسس ، جستجو اور خوب سے خوب تر کی تلاش انسان کو نئی دنیاؤں کی کھوج تک لے گئی۔ یہ سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا۔ اقبالؔ فطرتِ انسان کے اس اضطراب کو نہ صرف محسوس کرتے ہیں بلکہ وہ اسے ایک جہت دے کر عالمِ انسانیت کی بقا و بہبود کے لیے استعمال کرنے کی تلقین بھی کرتے ہیں ۔ وہ بظاہر غیر مضطرب سماج اور دورِ حاضر کے انسان کے ذہن میں اس اضطراب کی سونامی لہر کو بیدار کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کی فکر کا محور جملہ بنی نوع انسان اور پوری کائنات ہے ۔ میرے ایک دوست باقر باقری نے ایک بار اقبالؔ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ : اقبالؔ نے ماضی کے جھروکوں سے حال کے آئینے میں مستقبل کی تصویر دیکھی ہے اور اسی لیے انھیں متکلم ماضی، مبصر حال اور پیغمبر مستقبل کہنا چاہیے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات صد فی صد درست ہے ۔ اقبالؔ نے ماضی کے جھروکوں کو اس لیے نہیں کھولا کہ وہ ماضی پرست تھے ، بلکہ وہ حال اور مستقبل کو تابناک ماضی سے استفادہ کی دعوت دینا چاہتے تھے ۔ اقبالؔ کا پیام حرکت و عمل ہے اور ان کا خواب تمام انسانیت کے لیے اعلیٰ آفاقی اقدار کی تعمیر و تشکیل۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اقبالؔ کے خواب کی تعبیر کے لیے ہم حرکت و عمل کے ذریعے ذہن سازی کا اہم فریضہ انجام دیں۔

***

اقبال کی کہانی کچھ میری اور کچھ ان کی زبانی

ڈاکٹر ظہیر الدین احمد الجامعی

اپنے فقرِ غیور کے لئے اقبال کی ہستی شاید اسلامی تاریخ میں اپنی آپ مثال ہو گی۔ ایک دفعہ اقبال ڈے کے موقع پر سر اکبر حیدری صدرِ اعظم دولت آصفیہ حیدرآباد نے اقبال کی ذات سے پورے ملک کی عقیدت مندی اور اُس کی بلند خدمات کے اعتراف کے طور پر محکمہ تو شک خانہ عامرہ کے ذریعہ ایک بڑی رقم اقبال کو بھیجی لیکن اقبال نے اس بلیغ قطعہ کے ساتھ یہ رقم جوں کی توں سر اکبر حیدری کو واپس کر دی۔

تھا یہ اللہ کا فرماں کہ شکوۂ پرویز

دو قلندر کو کہ ہیں اس میں ملوکانہ صفات

مجھ سے فرمایا کہ لے اور شہنشاہی کر

حُسنِ تدبیر سے دے آنی و فانی کو ثبات

میں تو اس بارِ امانت کو اٹھاتا سر دوش

کامِ درویش میں ہر تلخ ہے مانندِ نبات

غیرتِ فقر مگر کر نہ سکی اس کو قبول

جب کہا اُس نے یہ ہے میری خدائی کی زکات!

حیدرآباد میں اقبال کا شاید آخری دورہ تھا اور اقبال کے اعزاز میں رچائی ہوئی مہاراجہ کی آخری بزمِ مشاعرہ۔ محبت کے دیوتا، کوہ وقار، مہاراجہ کے پہلو میں عارف اقبال بیٹھا ہوا تھا۔ شعراء جن کے فکرو خیال کی شادابی کی ضامن مہاراجہ کی دلنوازیاں ہوا کرتی تھیں ، باری باری سے اپنا کلام سنانے کے لیے صف آراء تھے ۔ یکے بعد دیگرے ایک ایک کے آگے شمع نے حرکت کرنی شروع کی۔ عام طور پر مہاراجہ کے مشاعروں میں شعراء دل کھول کر دادِ کلام حاصل کرنے اور تحسین و آفرین کے غلغلوں کے سننے کے عادی رہے تھے ۔ اس دلنوازی کا آغاز ہمیشہ مہاراجہ کی جانب سے ہوا کرتا تھا۔ اس دفعہ مشاعرہ کی اس عظیم تر مجلس پر ایک سناٹا طاری تھا اور تحسین و آفریں کا ایک لفظ بھی سنائی نہیں دیتا تھا۔ اقبال ایک عجیب قسم کے عالمِ استغراق میں ’’میانِ انجمن خلوت گزین است‘‘ کے مصداق بنے بیٹھے تھے ۔ مہاراجہ جو تہذیب و شائستگی کے بھی دیوتا تھے ، اقبال کی موجودگی میں داد و تحسین کی ابتداء کرنا خلافِ ادب سمجھ رہے تھے ۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اقبال کی خاموشی نے مہاراجہ کو چپ کر دیا اور جب مہاراجہ کسی کلام کی داد نہ دیں تو پھر اور کسی کی کیا جرات ہو سکتی تھی! تاریخ مشاعرہ میں پہلی مرتبہ ایک سناٹے اور خاموشی کے عالم میں شمع یکے بعد دیگرے شعراء کے آگے منتقل ہوتی رہی اور کسی ایک مصرع کے اعادہ کی خواہش کے بغیر انتہائی بدحواسی کے عالم میں وہ اپنا کلام سناتے رہے یہاں تک کہ شمع ہندوستان کے ایک ممتاز سنجیدہ فکر شاعر مولوی مسعود علی محویؔ کے آگے رکھی گئی۔ محویؔ اپنی فکرِ روشن بیس کے اس بیت القصید پر پہنچے ۔

درد دادی و بہ اندازۂ درماں دادی

آخر ایں درد بہ اندازۂ درماں تاکے

تو یکبارگی اقبال چونکے اور فرمایا’’ خوب کہا‘‘ ’’پھر فرمایئے ‘‘ اور اس طرح اقبال نے اپنی اس داد سے محوی کے اس زندۂ جاوید خیال پر خلود کی آخری مہر ثبت کر دی۔ مہاراجہ نے بھی پہلی دفعہ اپنی زبان کھولی اور اتنی کھولی کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اب تک کی خاموشی کا بار اتار دینا چاہتے ہیں ۔

اقبال کے انتقال سے کچھ پہلے میں لاہور میں تھا۔ اتفاق سے لاہور میں اقبال ڈے منایا جانے والا تھا۔ اس خیال سے کہ اقبال کے ہم وطنوں کی زبانی شاید اقبال کے متعلق کچھ پتے کی باتیں مل سکیں اور اب تک جو مایوسی ہوئی تھی اس کا بدل ہو جائے ، میں نے اس تقریب میں شرکت کے لیے لاہور میں اپنا قیام کسی قدر طویل کر دیا۔ جلسہ ہوا اور میں نے شرکت کی۔ لوٹا تو یہ محسوس کر رہا تھا کہ سابقہ تلخ تجربوں میں یہاں بھی ایک اور کا اضافہ ہوا۔ دوسرے روز رخصت ہونے کے لیے جب میں نے اقبال کی خدمت میں حاضری دی تو حسبِ معمول آرام کرسی پر دراز تھے ۔ حقے کے کش لے رہے تھے لیکن خلافِ عادت مضحلک اور مکدر اور کچھ گم سے دکھائی دے رہے تھے ۔ ان کو اس طرح دیکھ کر مجھ کو یہ اندیشہ ہوا کہ شاید قلبی دورے کا حملہ ہو چکا ہے یا ہوا چاہتا ہے سلام علیک کے بعد میں بیٹھ گیا۔ مزاج پرسی قصداً نہیں کی کہ ان کے مرض کے ذکر سے مجھ کو تکلیف ہوتی تھی۔ قریب میں ایک تپائی پر اخبارات کا پلندہ رکھا تھا، ایک کے سرِ ورق پر اقبال ڈے کی سرخی نے نادانستہ اور بلا قصد و ارادہ میرے لیے ایک موضوعِ گفتگو پیدا کر دیا۔ میں نے عرض کی ’’ڈاکٹر صاحب! کل والے جلسہ کی خبریں تو آپ نے پڑھ لی ہوں گی‘‘۔ بجائے اس کے میرے سوال کا جواب دیتے خود مجھ سے سوال کر بیٹھے کہ ’’کہیئے آپ نے بھی شرکت کی‘‘؟ میں نے کہا ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کے اس سوال نے مجھے ذرا تکلیف پہنچائی ہے ، میں لاہور میں رہوں اور اقبال ڈے منایا جائے اور میں شرکت نہ کروں ۔ کیا آپ کے نزدیک یہ قرینِ قیاس ہے ‘‘۔ فرمایا ’’نہیں میرا مقصد یہ تھا کہ آپ نے وہاں کیا سنا؟‘‘ محض ان کا دل بہلانے کے لیے میں نے کہا کہ ’’واقعہ تو یہ ہے کہ وہاں کی باتیں سن کر مجھ کو تو امام رازی کی تفسیر یاد آ گئی کہ سب کچھ ملے گا نہ ملے گا تو قرآن، ان سب تقریروں میں بھی سب کچھ تھا اور شکایت تھی تو اتنی کہ اقبال نہ تھا‘‘ ۔ بجائے اس کے کہ میں نے یہ کہہ کر اقبال کو خوش کیا ہوتا، یہ محسوس ہوا کہ اقبال کے تکدر ر میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے ۔ اس وقت کی ان کی ایک ٹھنڈی سانس مجھ کو یاد ہے اور ان کا ایک عجیب پر سوز انداز میں اس رباعی کا پڑھنا تو میں کبھی نہ بھلا سکوں گا۔

چو رختِ خویش بربستم ازیں عصر

ہمہ آں گفتند باما آشنا بود!

ولیکن کس ندانست ایں مسافر

چہ گفت و باکہ گفت و از کجابود!

اس واقعہ کے کچھ ہی عرصہ بعد جب میں نے اقبال کے وصال کی درد ناک خبر پڑھی تو ایسا محسوس ہوا کہ اپنی اس پر سوز رباعی کے ذریعہ ایک نئے مرحلہ شوق کے طے کرنے اور ایک نئی منزلِ تقرب کی راہ پر گامزن ہونے کی اطلاع دے کر درحقیقت انہوں نے مجھ سے وداعی ملاقات کی تھی۔

 

***

اقبالؔ کی شاعری میں قومی یکجہتی اور قدیم ہندوستانی تہذیب کی بازیافت

سید یعقوب شمیم

اقبال نے اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں جو1901ء سے لیکر1905ء تک کے عرصہ پر محیط ہے ‘ حب وطن اور قومی اتحاد کے موضوع پر جو نظمیں کہی ہیں اُن میں ’’ ہمالیہ‘‘ ، ’’پرندے کی فریاد‘‘، ’’صدائے درد ‘‘، ’’تصویر درد‘‘، ’’ترانۂ ہندی‘‘، ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ کے علاوہ ایک معرکۃ الآراء نظم ’’ نیا شوالہ‘‘ بھی شامل ہے ۔

اپنی قومی شاعری کے اس دور میں اقبال نے حب وطن قومی یکجہتی اور اتحاد کا پرچار اس بلند آہنگی سے کیا کہ نہ صرف ملک کے ذی شعور افراد‘ بلکہ عوام الناس بھی حب وطن کے جذبہ کی کسک اپنے دلوں میں محسوس کرنے لگے اور اس طرح اقبالؔ بحیثیت ایک قومی شاعر ہندوستان کی تحریک آزادی کے نقیب اول کے طور پر ابھر آئے ۔

اگرچہ اقبال نے اپنی شاعری کے اس دور میں ہندو مسلم اتحاد و یگانگت کے موضوع پر متذکرہ بالا سب ہی نظمیں کہی ہیں لیکن ان ساری نظموں میں ان کی نظم ’’ نیا شوالہ‘‘ کی سب سے بڑ ی خصوصیت‘ جو اس نظم کو ان کی دیگر نظموں سے ممتاز کرتی ہے وہ اس کی زبان ہے اس نظم میں انہوں نے ہندی ہی نہیں بلکہ سنسکرت آمیز الفاظ کا بڑ ی خوبصورتی کے ساتھ استعمال کیا ہے ۔

قارئین کرام کی توجہ اور دلچسپی کیلئے اُس نظم کا ایک ایسا اقتباس پیش خدمت ہیں جو ’’بانگ درا‘‘ میں شامل نہیں مگر اقبال کے اولین مجموعہ کلام کلیات اقبال میں شائع ہوا ہے ۔

سونی پڑ ی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی

آ اک نیا شوالہ اس دیس میں بنا دیں

دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ

دامان آسمان سے ا سکا کلس ملا دیں

پھر اک انوپ ایسی سونے کی مورتی ہو

اس ہر دوار دل میں لا کر جسے بٹھا دیں

زنار ہو گلے میں تسبیح ہاتھ میں ہو

یعنی صنم کدے میں شان حرم دکھا دیں

پہلو کو چیر ڈالیں درشن ہو عام اس کا

ہر آتما میں گویا اک آگ سی لگا دیں

ہندوستان لکھ دیں ماتھے پہ اُس صنم کے

بھولے ہوئے ترانے دنیا کو پھر سنا دیں

اقبال نے اپنی قومی شاعری کے تحت جن شعری تخلیقات کو موضوع بحث بنایا ہے ان کا تعلق براہ راست ہندوستان کی جغرافیائی وحدت‘ یہاں کی اُس دور کی سیاسی صورت حال اور اس کے پیش نظر اُن دنوں عوام کو در پیش مسائل سے تھا۔لیکن انہوں نے بعض ایسی نظمیں بھی کہی ہیں جو اگرچہ راست طور پر ہندوستانی سیاست سے متعلق تو نہیں کہی جا سکتی لیکن ان نظموں میں بھی ہمیں اس ہندوستانی عنصر کی کارفرمائی ملتی ہے جو اس ملک کے یکجہتی پسند مزاج کی نمائندگی کرتا ہے گویا ایک اعتبار سے اقبال کی یہ نظمیں قدیم ہندوستانی تہذیب کی بار یافت کی حیثیت رکھتی ہیں اور ان فکری اور تہذیبی اقدار کی نشاندہی کرتی ہیں جو اقبال کے لئے ایک متاع عزیز کا درجہ رکھتی ہیں ۔

فکر اقبال کے اس سلسلہ کی سب سے پہلی نظم ’’ آفتاب‘‘ ہے جو پہلی بار 1902ء میں اقبال کے ایک تمہیدی نوٹ کے ساتھ رسالہ ’’ مخزن‘‘ میں شائع ہوئی تھی۔ یہ نظم دراصل ہندوؤں کی مقدس کتاب رگ وید کی ایک نہایت قدیم اور معروف دعا’’ گائتری منترا‘‘ کا ترجمہ ہے ۔ اقبال کے اس طویل تمہیدی نوٹ کو جو انہوں نے اس نظم کے بارے میں لکھا تھا اس مختصر سے مضمون میں نقل کرنا مشکل ہے ہاں اس نوٹ میں اقبال نے اس نظم کی وجہ تخلیق کے بارے میں یہ لکھا تھا کہ ’’ اس قسم کی تحریروں کے مطالعہ سے انسان کی روحانی نمو کے ابتدائی مراحل کا پتہ چلتا ہے ‘‘ اس کے علاوہ انہوں نے اس نظم کے سلسلہ میں یہ بھی وضاحت کی تھی کہ ’’آفتاب کیلئے سنسکرت زبان میں لفظ ’’سوتر‘‘ کا استعمال ہوا ہے جس کے لئے اردو میں لفظ نہ مل سکنے کی وجہ سے لفظ آفتاب رکھا گیا ہے ‘‘لیکن پھر اس خصوص میں مزید وضاحت کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ ’’ یہاں لفظ آفتاب سے مراد وہ ہستی فوق المحسوسات یعنی ذات خداوندی ہے جس سے بظاہر نظر آنے والا یہ مادی آفتاب بھی کسب ضیاء کرتا ہے ‘‘

اقبال کی یہ نظم عقیدت کے جذبات سے سرشار ان الفاظ سے شروع ہوئی ہے ؂

اے آفتاب! روحِ روان جہاں ہے تو

شیرازہ بند دفتر کون و مکاں ہے تو

باعث ہے تو وجود و عدم کی نمود کا

ہے سبز ترے دم سے چمن ہت و بود کا

قائم یہ عنصروں کا تماشہ تجھی سے ہے

ہر شئے میں زندگی کا تقاضہ تجھی سے ہے

ہر شئے کو تری جلوہ گری سے ثبات ہے

تیرا یہ سوز و ساز سراپا حیات ہے

اے آفتاب! ہم کو ضیائے شعور دے

چشم خرد کو اپنی تجلی سے نور دے

ہے محفلِ وجود کا ساماں طراز تو

یزداں ساکناں نشیب و فراز تو

نے ابتداء کوئی نہ کوئی انتہا تیری

آزاد قید اول و آخر ضیاء تری

کیمبرج یونیورسٹی سے علامہ اقبال کو بی اے کی ڈگری

سعید درانی (کیمبرج)

15 تا 17 اکتوبر 1987 ء کو میونک میں وہ فائل دریافت کرنے کے بعد ، میں برمنگھم پہنچا تو ہفتے بعد ’’افکار‘‘ کراچی کا نومبر 1987 ء کا شمارہ مجھے موصول ہوا۔ اس کے بہرۂ خطوط ( یارانِ محفل میں معروف اقبال شناس پروفیسر جگن ناتھ آزاد کا ایک خط بھی شامل تھا، جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ: ’’افکار کے شمارۂ اپریل 87ء میں پروفیسر ممتاز حسین نے پروفیسر سعید اختر درانی کی کتاب ’’اقبال یوروپ میں ‘‘ پر اپنے مضمون میں یہ سوال اٹھایا ہے ۔ ’’اس سے زیادہ ایک سوال اخلاقی نوعیت کا اٹھتا ہے ۔ وہ یہ کہ کیا علامہ اقبال نے اپنے مقالے کی اس کیفیت سے میونک یونیورسٹی کو مطلع کیا تھا کہ میں نے اصلاً اس مقابلے کو کیمبرج یونیورسٹی میں بی اے کی ڈگری کے لیے پیش کیا تھا؟ اس کا جواب ڈاکٹر درانی سوال اٹھانے کے باوجود نہیں دے پائے ۔ لہذا اس مسئلہ کو وہیں چھوڑ دینا چاہئے ۔ (پھر پروفیسر آزاد اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں ) ۔ قرائن یہ بتاتے ہیں کہ میونک یونیورسٹی کے اساتذۂ فلسفہ ویگے ناسٹ، سینے شال، فرالین رین (نوٹ از مصنف ۔ یہ خواتین میونک یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ سے وابستہ نہ تھیں ۔ ان غلط فہمیوں کے لیے زیادہ ترمس عطیہ فیضی ذمہ دار ہیں ۔ درانی ) اور یونیورسٹی کی انتظامیہ سے وابستہ حضرات اس حقیقت سے بے خبر نہیں رہے ہوں گے ۔ (ورنہ) اس صورت میں تو ڈگری دینے کا سارا عمل ہی خلافِ ضابطہ ہو جاتا، بلکہ ناممکن العمل ہو جاتا۔ کیونکہ اقبال کے میونک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی حاصل کرنے میں مندرجہ ذیل تمام مراحل غائب ہیں : (1) عنوان کی تجویز اور اس کی منظوری (2) سپروائزر کا تقرر (3) تھیسس لکھنے کی مدت کا تعین (4) بیرونی ممتحنوں کا تقرر (5) تھیسس کا جائزہ (6) زبانی امتحان ( نوٹ از مصنف ۔ پروفیسر جگن ناتھ آزاد کی یہ ساری باتیں درست ہیں ۔ افکار میں مطبوعہ اپنے خط کے آخر میں جناب جگن ناتھ صاحب نے فرمایا کہ ۔ ڈاکٹر سعید اختر درانی نے اس ضمن میں بہت وقیع اور گراں قدر کام کیا ہے ۔ اس لیے میں ان سے گزارش کروں گا کہ وہ چونکہ ہم لوگوں کے مقابلے میں کیمبرج سے زیادہ قریب ہیں ، کیمبرج کی انتظامیہ سے وہ ربط قائم کریں ۔ ممکن ہے اس کا کوئی ریکارڈ نکل آئے کہ کیمبرج یونیورسٹی نے اقبال کے مذکورہ ڈسرٹیشن کے اعلیٰ معیار کے پیش نظر اور اپنے یہاں پی ایچ ڈی کی ڈگری نہ ہونے کے باعث، میونک یونیورسٹی کو لکھا کہ وہ اس ڈسرٹیشن کو پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے دیکھنا چاہیں تو انہیں یہ بھیجا جا سکتا ہے ۔ (نوٹ از مصنف: میرے خیال میں یہ قیاسات مبنی بر حقیقت نہیں ہیں ۔درانی) اگر اس قسم کے ریکارڈ کا کوئی سراغ مل جائے تو یہ تمام ٹوٹی پھوٹی کڑیاں جڑ جائیں ۔ اور تھیسس کی مکمل روداد ہمارے سامنے آ جائے ۔ ‘‘

جب جناب جگن ناتھ آزاد صاحب نے مدیر ’’افکار‘‘ کو یہ خط لکھا ہو گا کہ تو انہیں یہ گمان نہ گزرا ہو گا کہ میونک یونیورسٹی کے بارے میں ان کے اٹھائے ہوئے سوالات کے جوابات اس خط کی اشاعت سے پیشتر ہی مل چکے ہوں گے ، اور کیمبرج یونیورسٹی کے بارے میں ان کی فرمایش بھی کس قدر جلد پوری ہو جائے گی!

وہ یوں کہ اگر چہ ایک عرصہ سے میرے ذہن میں یہ خیال موجود تھا کہ کسی وقت کیمبرج یونیورسٹی کے ARCHIVES میں علامہ کے بارے میں پس انداختہ یا باقی ماندہ کاغذات اور دستاویزوں کی تلاش کرنی چاہئے ۔ (جہاں جون 1982 ء میں میں نے ان کے پی ایچ ڈی کے مقالے کی ہیئت نخستیں کا سراغ لگایا تھا جو انہوں نے مارچ 1907 ء میں کیمبرج سے بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے داخل کیا تھا۔) لیکن اس سلسلے میں میں نے تا حال کوئی عملی قدم نہ اٹھایا تھا۔ اب میونک یونیورسٹی والی فائل کی دریافت اور اس کے دو ہفتے بعد جناب جگن ناتھ آزاد کا ا س بارے میں خط پڑھ کر، میرے سمندِ شوق کو ایک اور تازیانہ لگا۔ اور میں نے فیصلہ کیا کہ اس ارادے کو عملی جامہ پہنایا جائے ۔ ایک مزید ’’قران السعدین‘‘ کا مثیل یہ امر ہوا کہ ان تمام باتوں کے چند ہی روز بعد ہماری اقبال اکیڈیمی( یو کے ) نے ( جس کا میں صدر نشین ہوں ) برمنگھم یونیورسٹی میں ایک بین لا اقوامی مذاکرہ بعنوان ’’اقبال اور تصوف ‘‘ (Iqbal and Mysticism) بروز ہفتہ 7! نومبر 1987ء منعقد کیا ۔ (اس کی پوری کار روائی حال ہی میں اقبال اکاڈیمی پاکستان کے انگریزی مجلے IQBAL REVIEW کے 1988 Winterکے شمارے میں چھپ چکی ہے ۔) اس مذاکرے کے مہمانِ خصوصی جناب ڈاکٹر محمد اجمل (سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ، اور وفاقی معتمد تعلیم تھے ، جو ہماری دعوت پر خاص طور پر لاہور سے تشریف لائے تھے ۔ مذاکرے کے بعد انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ کیمبرج یونیورسٹی کا دورہ بھی کرنا چاہیں گے ۔ چنانچہ میں نے 18! نومبر 1987 ء کو ان کے دورۂ کیمبرج کا انتظام کیا، اور وہاں کے چند اقبال شناسوں اور ماہرینِ فلسفہ و تصوف (Metaphysics) کے ساتھ ان کی ملاقات ٹھہرائی۔

کیمبرج یونیورسٹی لائبریری

ڈاکٹر اجمل کے متوقع ورود سے ایک روز پیشتر ، یعنی منگل 17! نومبر کو میں خود کیمبرج چلا گیا، جہاں مجھے کچھ اور کام بھی تھے اور اپنے پرانے کالج کیز(Caius) میں شب باش ہوا۔ منگل کو کیمبرج پہنچتے ہی دوپہر کے کھانے سے پہلے میں کیمبرج یونیورسٹی لائبریری میں جا نکلا، اور وہاں کی بے حد لائق ، اور عربی، فارسی اور کئی ایک اور مشرقی زبانوں کی ماہر خاتون، محترمہ JILL BUTTERWORTH کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان صاحبہ سے مجھے پہلے سے شرفِ نیاز حاصل تھا، کیونکہ تابستان 1986 ء کے دوران انہوں نے علامہ اقبال کے بارے میں کئی اہم نسخوں تک مجھے رسائی بہم پہنچائی تھی( مثلاً پروفیسر آر بری کا غیر مطبوعہ ترجمہ ’’گلشنِ راز جدید‘‘ از اقبال، جس پر ایک الگ مضمون میں تحریر کر چکا ہوں ، اگرچہ اس کے چھپنے کی تا حال نوبت نہیں آئی) میں نے ان کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا کہ کس طرح حال ہی میں علامہ کی میونک یونیورسی کی پی ایچ ڈی والی فائل کا سراغ میں نے نکالا ہے ۔ کیا یہ ممکن ہو گا کہ کیمبرج یونیورسٹی سے علامہ نے DISSERTATION(تحقیقی مقالہ) لکھ کر بی اے کی جو ڈگری حاصل کی تھی، اس کے تدریجی مراحل سے متعلق کاغذات کا بھی کھوج نکالا جا سکے ؟ انہوں نے اس سلسلہ میں میری مدد کرنے کی حامی بھری، اور کہا کہ وہ کیمبرج یونیورسٹی کے ARCHIVES کی نگران خاتون، محترمہ ڈاکٹر الزبتھ لیڈھم۔ گرین (DR

E.S.LEEDHAM-GREEN) کے ساتھ اس سلسلے میں بات کریں گی۔ میں نے انہیں تمام متعلقہ اطلاعات اور تاریخیں بہم پہنچا دیں جو میرے علم میں تھیں ۔ یعنی یہ کہ شیخ محمد اقبال اکتوبر 1905 ء میں ٹرنٹی کالج کیمبرج میں بطور ایک Advanced student کے داخل ہوئے تھے ، اور انہوں نے (Moral sciences ) (علوم اخلاق) کی فیکلٹی میں 1907ء کے اوائل میں اپنا تحقیقی مقالہ بہ عنوان DEVELOPMENT OF METAPHYSICS IN PERSIAداخل کر دیا ہو گا۔ جو یونیورسٹی نے 7!مارچ 1907ء کو منظور کر لیا، اور اس پر 13! جون 1907 ء کو انہیں بی اے کی ڈگری عطا کی گئی۔

دوپہر کے کھانے کے بعد میں واپس لائبریری میں پہنچا تو جل بٹرورتھ صاحبہ نے محترمہ لیڈھم گرین کے ساتھ میرا تعارف کرایا، اور میں نے دوبارہ انہیں مندرجہ بالا اطلاعات بہم پہنچائیں ۔ انہوں نے فرمایا کہ ان اطلاعات کی مدد سے وہ زیادہ دقت کے بغیر جناب اقبال کے بارے میں جو کاغذات اور تحریریں بھی یونیورسٹی کے محافظ خانے میں موجود ہوں گی، ان کو برآمد کر لیں گی۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ گھنٹے بھرکے بعد میں دوبارہ ان سے ملنے آؤں ۔

تو رہ نوردِ شوق ہے منزل نہ کر قبول

لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول

***

اقبال کو نوبل انعام کیوں نہیں ملا؟

عارف وقار

علامہ اقبال اور رابندر ناتھ ٹیگور ہندوستان کے دو عظیم ہم عصر شاعر تھے جن کا کلام ایک ہی زمانے میں مشہور ہوا۔

شاعری کی حدود سے نکل کر سیاسی اور سماجی میدان میں بھی دونوں شخصیات بیسویں صدی کے اوائل میں ایک ساتھ نمودار ہوئیں لیکن یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ عمر بھر دونوں کی ملاقات کبھی نہیں ہوئی۔

علامہ اقبالؔ کے مداحوں کو اس بات کا ہمیشہ قلق رہا ہے کہ ہندوستان کے اولین نوبل انعام کا اعزاز اقبال کے بجائے ٹیگور کو حاصل ہوا۔ شاید اس ’’ زیادتی‘‘ کی تلافی ہو جاتی اگر بعد کے برسوں میں اقبال کو بھی اس انعام کا مستحق قرار دے دیا جاتا لیکن 1913ء سے 1938ء تک کے 25 برسوں میں ایک بار بھی نوبل کمیٹی کی توجہ اقبال پر مرکوز نہ ہو سکی۔

چونکہ نوبل کمیٹی کی تمام دستاویزات اور خط و کتابت پر پچاس برس تک اخفاء کی پابندی رہتی ہے اس لئے سن ساٹھ کے عشرے تک یہ محض ایک راز تھا اور اس پر ہر طرح کی چہ می گوئیاں ہوتی تھیں۔ اسے ایک سوچی سمجھی سازش بھی قرار دیا جاتا تھا کہ علامہ اقبالؔ کو نوبل پرائیز سے کیوں محروم رکھا گیا تھا۔

1963ء میں پرانے دستاویزات کے سامنے آنے پر کھلا کہ کمیٹی نے کوئی سازش نہیں کی تھی اور نہ علامہ اقبال کی نامزدگی کا جھگڑا کبھی پیدا ہوا تھا۔ لیکن اگر بنگال کے شاعر رابندر ناتھ کا نام کمیٹی کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے تو اقبال کی نامزدگی میں کیا قباحت تھی؟ پرانے دستاویزات اس سلسلے میں کوئی واضح رہنمائی نہیں کرتے۔

سن 1914ء کے اوائل میں تیار ہونے والی ایک رپورٹ میں نوبل کمیٹی کے چیئرمین ہیرلڈ ہئیارن نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یورپ میں چھڑنے والی جنگ کی ممکنہ تباہ کاری کو دیکھتے ہوئے کمیٹی سوچ رہی تھی کہ نوبل انعام ایسے ہاتھوں میں نہیں جانا چاہئے جو جنگ اور تباہی کے پر چارک ہوں۔

کمیٹی کو احساس تھا کہ نوبل انعام حاصل کرنے والا ادیب راتوں رات شہرت کے آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔ ظاہر ہے ان تحریروں کا اثر دنیا کے سبھی باشندوں پر پڑتا ہے۔

ہیرلڈ ہئیارن نے مختلف ماہرین کے آراء پیش کرنے کے بعد رپورٹ میں خیال ظاہر کیا کہ ادب کا نوبل انعام دیتے وقت اس امر کو بطور خاص مد نظر رکھنا چاہئے کہ یہ انعام کسی قوم پرستانہ مصنف کونہ چلا جائے یعنی کسی ایسے قلم کار کو جو ایک مخصوص قوم کے ملی جذبات کو ابھار کر دنیا پر چھا جانے کی ترغیب دے رہا ہو۔

ظاہر ہے کہ اقبال کی شاعری کا بیشتر حصہ اسلام اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو یاد کرنے اور اسے بحال کرنے کی شدید خواہش کا مظہر ہے۔ اقبال اپنی ملت کو اقوام مغرب سے بالاتر سمجھتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں قوم رسول ہاشمی جن عناصر سے مل کر بنی ہے وہ دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں پائے جاتے۔

اگرچہ پہلی جنگ عظیم سے قبل بھی یورپ کے سلسلے میں اقبال کسی خوشی فہمی کا شکار نہیں تھے لیکن جنگ کے بعد یورپ کے بارے میں ان کی تلخی مزید بڑھ گئی۔

1970ء کی ایک غزل میں اقبال نے کہا تھا: دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان نہیں ہے۔

کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہی زر کم عیار ہو گا

نکل کر صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا

سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی

جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا

1914ء کی ایک رپورٹ میں نوبل کمیٹی کے چیئر مین خیال ظاہر کرتے ہیں کہ سیاسی اتھل پتھل ایک عارضی مرحلہ ہے۔ ادب کو ان وقتی مصلحتوں سے ماوراء ہو کر عالمی اور دائمی اقدار کا دامن تھامنا چاہیے۔

کم و بیش یہی وہ خیالات تھے جن کی بنیاد پر مہاتما گاندھی کے نوبل پرائز کا راستہ بھی عرصہ دراز تک رکا رہا لیکن گاندھی کے کیس میں کم از کم چار مرتبہ ان کا نام کمیٹی کے سامنے آیا اور اس پر خاص بحث بھی ہوئی بلکہ نئی تحقیق کے مطابق تو 1948ء میں انہیں انعام ملنے ہی والا تھا کہ ان کی ناگہانی موت واقع ہو گئی۔

علامہ اقبال کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔ 1913ء میں ٹیگور کو انعام ملنے کے ربع صدی کے بعد تک اقبال زندہ رہے لیکن نوبل کمیٹی نے کبھی ان کے نام پر غور نہیں کیا۔ اقبال کی شہرت کا سورج اس وقت نصف النہار پر تھا اور یہی وہ زمانہ تھا جب اقبال کو حکومت برطانیہ نے ’’سر‘‘ کا خطاب عطا کیا تھا، اگرچہ یہاں بھی ٹیگور انہیں مات دے گئے کیونکہ ٹیگور کو سرکا خطاب سات برس پہلے 1915ء میں ہی مل گیا تھا۔

ٹیگور مادری زبان کو مقدس سمجھتے تھے۔ ایک بار جب وہ اسلامیہ کالج لاہور کے طالب علموں کی دعوت پر پنجاب آئے تو طالب علموں نے ان کے استقبال کے لئے ان کا معروف بنگالی ترانہ گانا شروع کر دیا۔ ٹیگور نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے زیادہ خو شی ہو گی اگر آپ پنجاب کی کوئی سوغات پیش کریں۔ چنانچہ ٹیگور کی خدمت میں ہیر وارث شاہ کے چند بند، ہیر کی روائیتی طرز میں پیش کئے گئے۔ ٹیگور مسحور ہو کر رہ گئے اور محفل کے اختتام پر بولے میں زبان تو نہیں سمجھتا لیکن جتنی دیر ہیر پڑھی جاتی رہی میں مبہوت رہا اور مجھے یوں محسوس ہوتا رہا جیسے کوئی زخمی فرشتہ فریاد کر رہا ہو۔

ٹیگور کو اقبال سے بھی یہی شکوہ تھا کہ اس نے اپنی مادری زبان کے لئے کچھ نہیں کیا۔ بقول ٹیگور اگر اقبال نے فارسی اور اردو کی بجائے پنجابی کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا ہوتا تو آج پنجابی ایک پر مایہ زبان تو ہوتی۔

اقبال کے سلسلے میں ٹیگور کا یہ بیان ایک نوبل انعام یافتہ شاعر کا بیان بھی تھا۔ ایک ایسے شاعر کے بارے میں جو اس اعزاز سے محروم رہا۔

یہ بیان تھا ’سر‘ کا خطاب ٹھکرا دینے والے ایک شخص کا، اس شخص کے بارے میں جس نے انگریزی کے عطا کردہ اس خطاب کو عمر بھر سینت سینت کے رکھا۔

علامہ اقبالؔ کی شعری کائنات یقیناً ٹیگور کے شعری احاطے سے بہت بڑی تھی کیونکہ شعر اقبال کا ایک سرا اگر بطون ذات میں تھا تو دوسرا وسعت کائنات میں تھا۔

***

اقبال منزل۔۔۔۔تباہی و بربادی سے دوچار

اشفاق نیاز

شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی رہائش گاہ سیالکوٹ کے چوڑی گراں محلے میں واقع ہے۔ اس قومی ورثے کو اقبال منزل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اقبال منزل کو جانے والی سڑک کو اقبال روڈ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ عمارت علامہ محمد اقبال کے دادا شیخ محمد رفیق نے 1861ء میں ایک سو پچاس روپئے میں خریدی تھی۔ اب یہ محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام ہے۔ انتظامی غفلت کے باعث اقبال منزل نہایت خستہ حالی کا شکار ہے۔ اس قومی و تاریخی ورثے کے حوالے سے ایک خصوصی تحریر زیر نظر ہے۔

شاعر مشرق حضرت علامہ اقبالؒ کی پیدائش سے چند روز قبل ان کے والد شیخ محمد نور نے ایک خواب دیکھا تھا۔ ایک وسیع میدان میں تا حد نظر لوگ جمع ہیں جو اڑتے ہوئے ایک سفید کبوتر کو پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بالآخر وہ کبوتر شیخ محمد نور کی گود میں آ کر بیٹھ گیا۔ شیخ نور محمد نے اسے غیبی اشارہ سمجھتے ہوئے خواب کی تعبیر یوں لی کہ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہو گا جو اسلام کی خدمت کرے گا۔

جمعہ 3ذوالقعدہ 1294ھ م9 نومبر 1877ء کا مبارک دن تھا کہ سیالکوٹ کی فضاء میں اذان فجر بلند ہوئی۔ شیخ نور محمد کے چھوٹے سے گھر میں مغربی حصہ کے آخری جنوبی کمرے میں چراغ کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ شیخ نور محمد نے اپنے خواب کی نسبت سے اس نومولود کا نام محمد اقبال رکھا۔ محمد اقبال کی پیدائش کے وقت ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کی عمر 17 سال تھی۔ بہن فاطمہ بی بی، عطا محمد سے چھوٹی تھیں۔ چھوٹی بہن طالع بی بی سات سال کی تھیں۔ آپ کے چچا شیخ غلام محمد کے اہل و عیال بھی اسی گھر میں رہائش پذیر تھے۔ محمد اقبال پر اپنی والدہ امام بی بی المعروف ’’بے جی‘‘ کا سایہ قائم تھا جن کی تربیت سے ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوا۔ چار سال کی عمر میں محمد اقبال نے مولانا غلام حسن سے مسجد میں درس قرآن سے تعلیم کی ابتداء کی۔ درس قرآن کی تکمیل کے بعد کوچہ حسام الدین میں مولانا سید میر حسن کے مکتب میں پڑھنا شروع کیا۔

جس مکان میں محمد اقبالؒ پیدا ہوئے ، اسے ہم ’’اقبال منزل‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ اقبال منزل کو جانے والی سڑک کو اقبال روڈ کہا جاتا ہے۔ سیالکوٹ قلعہ کے جنوب مشرقی حصے کی طرف واقع محلے کو چوڑی گراں کہا جاتا ہے۔ اقبال منزل شہر اقبال کی ایک قدیم عمارت ہے۔ اقبال منزل کو دیکھنے کے لئے پوری دنیا سے لوگ آتے ہیں اور پاکستان کا تصور پیش کرنے والے عظیم مفکر کی جائے پیدائش کے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں۔ گذشتہ دو دہائیوں سے وہاں پر مقیم اس تاریخی عمارت کے انچارج سید ریاض حسین نقوی نے بتایا کہ اقبال منزل بلاشبہ ہمارا قومی اور تاریخی ورثہ ہے۔ یہ مکان فروری 1861ء میں ان کے دادا شیخ محمد رفیق نے ایک سو پچاس روپئے میں خریدا تھا۔ آپ کے والد شیخ نور محمد نے اس گھر سے ملحقہ مکان خرید کر اسے ایک منزلہ مکان میں تبدیل کر دیا تھا۔ علامہ اقبالؒ کی رہائش گاہ آج بھی قدیم ہونے کے باوجود سیالکوٹ جیسے ترقی یافتہ شہر کی پُر شکوہ عمارتوں میں سے ایک ہے اور محکمہ آثار قدیمہ کے زیر انتظام اس عمارت کو قومی یادگار کا درجہ دے دیا گیا ہے۔

اقبال منزل میں ایک لائبریری اور میوزیم بنایا گیا ہے جو قابل دید ہے۔ ہر روز ملکی اور غیر ملکی افراد یہاں آتے ہیں۔ اقبال منزل میں دار المطالعہ کے نام سے ایک وسیع کمرے میں قومی اخبارات بھی رکھے جاتے ہیں۔ علم کے متلاشی افراد اکثر اوقات یہاں ٹہلتے نظر آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہاں ہر وقت لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ سید ریاض حسین نقوی کے مطابق اقبال منزل کی موجودہ تعمیر 1913ء میں علامہ محمد اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے کروائی تھی۔ وہ ایک انجینئر تھے اس لئے مکان کا نقشہ انھوں نے تیار کیا تھا۔ اقبال منزل کا مرکزی دروازہ دراصل محلہ چوڑی گراں کی گلی میں کھلتا تھا جسے اب بند کر دیا گیا۔ اقبال روڈ عمارت کے عقب میں واقع ہے۔ اقبال منزل کے انچارج سید ریاض حسین نقوی نے گھر کا وہ کمرہ بھی دکھایا جو کہ سڑک کی جانب تھا اور اس میں شیخ نور محمد نے دکان بنا رکھی تھی۔ اس میں وہ برقعوں کی ٹوپیاں سینے کا کام کرتے تھے۔ اقبال منزل میں قائم میوزیم میں علامہ محمد اقبال کے زیر اہتمام رہنے والی اشیاء جن میں پلنگ، حقہ، مطالعہ کی میز، کرسیاں ، آتش دان، مسہری، صندوق، گھڑیال، برتن چار پائیاں اور دیگر اشیاء رکھی گئی ہیں۔ اقبال منزل کے تمام کمروں اور صحن میں علامہ اقبال کی تاریخی اور نادر تصاویر آویزاں کی گئی ہیں۔ محلہ چوڑی گراں میں کھلنے والا سابقہ صدر دروازہ قدیم طرز تعمیر کا نادر نمونہ ہے۔ تین منزلہ عمارت میں یوروپین طرز پر تعمیر کی گئی ہے۔

علامہ محمد اقبالؒ نے بچپن، لڑکپن اور جوانی کے ایام اس عمارت میں گزارے آپ کی پہلی شادی بھی اسی مکان میں ہوئی۔ افسوس کہ انتظامی نا اہلی کے باعث اقبال منزل کا مغربی حصہ انتہائی خستہ حالی کا شکار ہے۔ اس کی مرمت نہیں کی گئی ہے جو کسی وقت بھی حادثے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ اقبال منزل میں دس رہائشی کمرے ہیں۔ اس عمارت میں کچن، دو باتھ روم، سٹور، برآمدے ، گیلری اور پرانے طرز کی دو لیٹرین ہیں۔ مکان کے باہر جانے کے لئے چار راستے ہیں۔ اس کا اصل دروازہ محلہ چوڑی گراں کی طرف کھلتا ہے۔ اس کا دوسرا دروازہ گھر سے ملحقہ ممتاز دانشور پروفیسر راجہ راشد جاوید کے گھر کے صحن میں کھلتا ہے جس کو اب بند کر دیا گیا ہے۔ مکان کا کل رقبہ 2350 مربع فٹ ہے یعنی موجود سات منزلوں سے زیادہ ہے۔ چند سال قبل اقبال منزل میں ایک جدید ریسرچ سنٹر بنانے کا وعدہ کیا گیا لیکن وہ آج تک پورا نہیں ہو سکا ہے۔ اطراف میں پھیلا سیوریج کا پانی اور ٹریفک کا دھواں اقبال منزل کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یوم اقبال اور دیگر مواقع پر آنے والی شخصیات اور سیاحوں کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تجاوزات اور دکانوں کی وجہ سے اقبال روڈ سکڑ کر تنگ ہو گئی ہے جس کی وجہ سے یہاں آنے والے افراد کو بے ہنگم ٹریفک میں پھنس کر شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارا عظیم قومی ورثہ اقبال منزل کی ہنگامی بنیادوں کی مرمت اور حفاظت کی ضرورت ہے تاکہ اس عظیم شخصیت کی اس یادگار کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں محکمہ آثار قدیمہ اور شہری اہم کردار ادا کر سکتے۔

***

اقبال در حضور آدم

غلام دستگیر رشید

اقبال در حضور آدم

اصل تہذیب احترام آدم است

اقبال نے اپنے ایسے آثار چھوڑے ہیں کہ ان کی شخصیت بڑی حد تک ان میں جھلکتی ہے اور محرومی کا گلہ کسی قدر سرد ہو جاتا ہے ۔ ان کی صحبت میں ادب، حکمت، مذہب اور تاریخ کی بڑی بڑی حقیقتیں لطیف اور موثر شخصی کیفیتیں بن کر نکلتی ہیں ۔ آہستہ آہستہ صحبت آشنا کی آنکھیں کھلتی جاتی ہیں اور سرجھکتا جاتا ہے ۔ ان کا فلسفہ و کلام ، علم اور عشق کی دو آنکھوں کا ایک نور ہے ۔

ایک دن حضرت اقبال اپنی کوٹھی میں بیٹھے تھے ۔ ایک جرمن یا آسٹرین سیاح اور قریب ہمہ تن گوش ہو بیٹھا۔ اقبالؒ کی خدمت میں اپنی بیاض پیش کی جس میں ہر ملک و قوم کے بڑے بڑے لوگوں نے اپنے قلم سے کچھ نہ کچھ لکھا تھا۔ اس نے درخواست کی کہ ڈاکٹر صاحب بھی اس پر کچھ لکھیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک فارسی قہگو لکھ دیا۔ پھر اس سیاح نے پوچھا ’’آپ کس چیز کی تعلیم دیتے ہیں ‘‘۔؟ اقبالؒ نے جواب میں فرمایا میرے آبا و اجداد برہمن تھے ۔ انہوں نے اپنی عمریں اس سوچ میں گزار دیں کہ خدا کیا ہے ؟ میں اپنی عمر اس سوچ میں گزار رہا ہوں کہ انسان کیا ہے ‘‘؟ یہ نکتہ فکر اقبالؒ کی ایک کنجی ہے کہ؂

غلام ہمت آن خود پرستم

کہ از نور خودی بیند خدارا

انسانی تہذیب و تربیت کا نظام اقبالؒ نے پیش کیا ہے اس کی بنیاد یہی انسانیت کا احترام اور اس کی حفاظت ہے اپنے وصال سے پہلے لاہور ریڈیو اسٹیشن سے انہوں نے نو روز کے موقع پر جو پیام نشر کیا تھا وہ ان کے اسی خیال کی ترجمانی کرتا ہے ۔ ان کے الفاظ یہ ہیں ۔’’دور حاضر کو علوم عقلیہ اور سائنس کی عدیم المثال ترقیات پر بہت بڑا فخر و ناز ہے اور یہ فخر و ناز بلا شبہ حق بجانب ہے ۔ لیکن ان تمام ترقیات کے باوجود ملوکیت کے جبرو استبداد نے جمہوریت ، قومیت فسطائیت خدا جانے اور کیا کیا نقاب اوڑھ رکھے ہیں اور نقابوں کے نیچے دنیا بھر کے گوشوں میں و حریت اور شرفِ انسانیت کی وہ مٹی پلید ہو رہی ہے کہ تاریخ عالم کا ایک تاریک سے تاریک صفحہ بھی اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یاد رکھو انسان کی بقاء کا راز انسانیت کے احترام میں ہے ۔ جب تک تمام دنیا کی تعلیمی طاقتیں اپنی توجہ کو محض احترام انسانیت کے درس پر مرتکز نہ کر دیں گی۔ یہ دنیا بدستور درندوں کی بستی میں رہے گی۔ ان واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ قومی وحدت بھی ہر گز قائم و دائم نہیں ۔ وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے ۔ جو نسل ، زبان، رنگ و قوم سے بالاتر ہے جب تک اس نام نہاد جمہوریت اس نا پاک قوم پرستی اور اس ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو پاش پاش نہ کر دیا جائے گا۔ اس وقت تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے ’’الخلق عیال اللہ‘‘ کا قائل نہ ہو گا۔ جب تک جغرافیائی وطن اور نسل و رنگ کا امتیاز نہ مٹ جائے گا انسان اس دنیا میں فوز و کامرانی کی زندگی بسر نہ کر سکے گا اور اخوت ، حریت اور مساوات کے الفاظ کچھ شرمندہ معنی نہ ہوں گے ۔ آؤ اس نئے سال کو اس دعا پر ختم کریں کہ خدائے بزرگ و برتر باب حکومت و اقتدار کو انسان بنائے اور انہیں انسانیت کی حفاظت کرنا سکھائے ۔‘‘

اجتماعی زندگی میں انسانیت کی حفاظت بقاء اور ترقی کے حقائق اور اصول، اقبال نے اپنی کتاب ’’رموز بیخودی‘‘ میں بیان کئے ہیں ۔ اگر ہم ’’ اسرار خودی‘‘ پر غور کریں اور رموز بیخودی سے قطع نظر کریں تو فکر اقبال کا صرف ایک ہی پہلو سامنے ہو گا۔ رموز بیخودی، ہمیں اجتماع انسانی کی صحیح تنظیم کا یہ راستہ بتاتی ہے بقول اقبالؒ جماعتی زندگی اور ملی حیات کا کمال یہ ہے کہ افراد قوم (یا مختلف اقوام و ملل) ایسے آئین کی پابندی سے جو مسلم ہوں ، اپنے ذاتی جذبات، میلانات، اور مفادات کے حدود مقرر کریں تاکہ انفرادی اعمال یا قومی مفادات کا تناقص اور ان کی باہمی ٹکر مٹ کر اجتماعی انسانی کے لیے قلب مشترک پیدا ہو جائے ۔ مقید اور محدود خودی اعلیٰ انسانی مقاصد کی تکمیل میں محو ہو جائے اور انسان کی ’’اجتماعی انا‘‘ کا ظہور ہو سکے ۔ رموز بیخودی میں تفصیلی بحث ہے کہ وہ آئین مسلم کیا ہیں ۔ ان کا سرچشمہ کیا ہے ۔ ان کا عملی نمونہ کہاں پایا جاتا ہے ۔

اپنے ایک بلند پایہ خط میں اس حقیقت کی تشریح کے لیے ایک بلیغ مثال دی ہے کہ مسلمانوں کے انتہائی غلبہ اور طاقت کے زمانہ میں حبثہ کی آزادی محفوظ رہی۔ لیکن مسولینی نے حبشہ کو محض جوع الارض کی تسکین کے لیے پامال کیا تھا۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ مسولینی کی خودی کسی دین مسلم کی پابند نہ تھی اور دوسری صورت میں خودی قانون الٰہی اور اخلاق کی پابند تھی۔ انسانیت کے اجتماعی مفاد کی حفاظت اور اس کے احترام کی یہی راہ ہے ؂اصل تہذیب احترامِ آدم است!

***

اقبالؔ کی شوخیاں

ڈاکٹر سید تقی عابدی

مرزا غالبؔ کو حالیؔ نے حیوان ظریف کہا ہے جو بجا ہے اور یہی ظرافت غالبؔ کو اپنے ہم عصر شعر گو حیوانوں سے ممیز بھی کرتی ہے ۔ انسان اشرف المخلوقات کے ساتھ ساتھ اشرف حیوانات بھی شاید اِسی کمال کی وجہ سے ہو۔ ظرافت چونکہ داخلی اور ذاتی اپج ہوتی ہے اِس لئے یہ ہر حال اور ہر ماحول میں ظاہر نہیں ہوتی اگرچہ گاہی اوقات اس کی آمد اتنی شدید ہوتی ہے کہ وہ آتش فشاں لاوے کی طرح اُبلنے لگی ہے ورنہ عموماً اِس قوت تخلیقی سے صرف وہی افراد واقف ہوتے ہیں جو حضر و سفر درون و بیرون خلوت و جلوت داخل حرم اور محرم ہوتے ہیں ۔

جسٹس جاوید اقبال ’’زندہ رود‘‘ میں لکھتے ہیں ۔ ’’اقبالؔ کی طبیعت میں حاضر جوابی بذلہ سنجی اور ظرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور ان کی علامات بچپن ہی میں ظاہر ہو گئی تھیں ‘‘۔ مثلاً سکول میں دیر سے پہنچے استاد نے پوچھا کہ دیر سے کیوں آئے ہو؟ جواب دیا۔ اقبالؔ دیر ہی سے آتا ہے ۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ جب اقبالؔ اپنے استاد مولوی میر حسن کے ساتھ بازار گئے تو مولوی صاحب کے کسی عزیز کا چھوٹا بچہ جس کا نام احسان تھا ساتھ ہو گیا۔ احسان بہت موٹا تھا مولوی صاحب نے اقبالؔ سے کہا کہ بچے کو گود میں اُٹھا لو کچھ راستہ چل کر اقبالؔ نے اُسے دکان پر اُتارا اور تھکن دور کرنے لگے ۔ مولوی صاحب متوجہ ہوئے اور کہا اقبالؔ اس چھوٹے بچے کو بھی اٹھانا تمہارے لئے مشکل ہے ؟ اقبالؔ نے فوراً جواب دیا۔ ’’شاہ صاحب آپ کا احسان بہت سنگین ہے ‘‘۔

ہم نے اس مختصر تحریر میں علامہ کی ظریفانہ شاعری یا ظریف نثری نکات کو شامل نہیں کیا ہے جس پر علیحدہ مفصل گفتگو ہو سکتی ہے ۔ اس مضمون میں ہم نے صرف علامہ کی گفتگو کے دوران جو ظرافتی جملے یا پھبتیاں کسی جاتی تھیں ان کا ذکر کیا ہے ۔ افسوس کہ علامہ کو اپنے احباب میں کوئی ایکرمان نہ مل سکا اگر ان ظریفانہ مطالب کو قلم بند کیا جاتا تو شاید ایک ضخیم کتاب کا مواد حاصل ہو جاتا۔

مولانا ابو الاعلیٰ مودودی مطبوعہ 1938 رسالہ جوہر دہلی میں لکھتے ہیں ۔ ’’اقبالؔ کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ وہ فقط اعتقادی مسلمان تھے عمل سے ان کو کچھ سروکار نہ تھا۔ اس بد گمانی کے پیدا کرنے میں خود ان کی افتاد طبیعت کو بھی بہت کچھ دخل ہے جن کی بنا پر اپنی رندی کے اشتہار دینے میں انھیں کچھ مزہ آتا تھا۔ ورنہ در حقیقت وہ اتنے بے عمل نہ تھے ۔ قرآن مجید کی تلاوت سے ان کو خاصا شغف تھا اور صبح کے وقت بڑی خوش الحانی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے ۔ نماز بھی بڑے خشوع و خضوع سے پڑھتے تھے مگر چھپ کر‘‘۔

کتاب ’’آئینہ اقبال‘‘ؔ میں عبد الہ قریشی لکھتے ہیں کہ ایک دن اقبالؔ کے دوست دین محمد فوق اقبالؔ سے ملنے کے لئے آئے ۔ اقبالؔ اس وقت اپنے کتب خانے کے سامنے کھڑے ہو کر کچھ کتابوں کو الٹ پلٹ رہے تھے ۔ فوق نے اقبالؔ سے پوچھا۔ کیا ڈھونڈ رہے ہو؟ اقبالؔ نے فوراً جواب دیا ایک بوتل انگور کی شراب کی کتابوں کے پیچھے چھپایا تھا اُسے ڈھونڈ رہا ہوں کیوں کہ کل شمس العلما مفتی عبداللہ ٹونکی میرے پاس آئے تھے کہیں مفتی صاحب اُسے اٹھا کر نہ چلے گئے ہوں ۔ روایت اقبالؔ میں عبد اللہ چغتائی لکھتے ہیں کہ ایک بار میاں شاہ دین نے اپنے گھر ایک محفل ضیافت سجائی اور انگریز مہمانوں کے خورد و نوش کے لئے علیحدہ کمرے میں انتظام کیا تھا۔ خود میاں شاہ دین دروازے پر مہمانوں کا استقبال کر رہے تھے ۔ جب میاں صاحب نے اقبالؔ کو مرزا جلال الدین کے ساتھ آتے ہوئے دیکھا تو مسکرا کر کہا کہ میں نے آپ دونوں کے لئے علیحدہ کمرے میں انتظام کیا ہے ۔ اقبالؔ نے ہنس کر کہا ہم نے آپ سے صرف دو حرف سیکھے ہیں ۔ ایک یہ کہ چھپا کر پیو اور دوسرے اپنے گناہ میں کسی کو شریک نہ کرو۔ اس طرح کے کئی شوخیانہ اور طنزیہ جملوں کو سُن کر دشمن ا ور کینہ صفت افراد نے اقبالؔ کو مے گسار ثابت کرنے کی کوشش کہ جس کا اثر کچھ اقبالؔ کے نادان حامیوں پر بھی پڑا چنانچہ عبد المجید سالک ؔ نے ذکر اقبالؔ میں صفحہ (۷۱) میں لکھا ہے کہ اقبالؔ جوانی کے زمانے میں شراب پیتے تھے لیکن بعد میں اس کام سے توبہ کر لی اور پھر کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگایا۔ عبد المجید سالکؔ نے اپنے اس ادعا کے ذیل میں ۱۹۱۸ء؁ کے ایک مشاعرے کا ذکر کیا جو للّی لاج میں برگزار ہو ا تھا۔اقبالؔ اس مشاعرے میں سب سے پہلے پہنچ چکے تھے ۔ اقبالؔ نے سالکؔ کو دیکھ کر کہا کہ حقہ لاؤ۔ سالکؔ نے جواب دیا ڈاکٹر صاحب حقہ آپ کیوں نہیں چھوڑ دیتے ؟ اقبالؔ نے مسکرا کر کہا کہ ’’دوست عزیز شراب تو چھوڑ چکا ہوں اور اب چاہتے ہو کہ حقہ بھی چھوڑ دوں ‘‘۔ سالکؔ لکھتے ہیں کہ اس جملہ کا کوئی شاہد اور گواہ نہیں ہے ۔ کیونکہ اقبالؔ نے جب یہ جملہ کہا تو اُس وقت صرف میں ہی موجود تھا۔ بہر حال جس جملہ کا کوئی گواہ اور شاہد نہ ہو اور دوسری طرف ایک شوخیانہ طبیعت جو ہزار اشاروں میں بات کرنے کا فن جانتی ہے تو اہل فکر کے نزدیک یہ مسئلہ خود بہ خود مشکوک اور بے اساس ہو جاتا ہے ۔

جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ قیام یورپ کے دوران بھی اقبالؔ کی طبیعت پر طنز و مزاح کا عنصر غالب رہا وطن واپسی کے بعد چودھری سر شہاب الدین پر ان کی پھبتیاں یا ’’مدیر‘‘ اخبار وطن اور سر جوگیندر سنگھ وغیرہ سے متعلق لطیفے لوگوں کو یاد ہیں ۔ بذلہ سنجی کا یہ سلسلہ ان کی آخری عمر تک قائم رہا اور اقبالؔ نے مرتے دم تک ظرافت کو نہ چھوڑا۔

جن دنوں علامہ انار کلی میں رہتے تھے اخبار وطن کے ایڈیٹر مولوی انشاء اللہ خان علامہ کے ہاں اکثر آیا جایا کرتے تھے ۔ انار کلی میں کشمیری طوائفیں بھی رہتی تھیں جنھیں میونسپلٹی نے دوسری جگہ منتقل کر دیا تھا اور اس زمانے میں جب انشاء اللہ خان علامہ سے ملنے گئے تو ہر مرتبہ یہی معلوم ہوا کہ علامہ باہر گئے ہوئے ہیں ۔ اتفاق سے ایک دن جو گئے تو اقبالؔ گھر پر موجود تھے ۔ انشاء اللہ خان نے کہا اقبالؔ جب سے طوائفیں انار کلی سے اٹھوا دی گئی ہیں آپ کا دل بھی یہاں نہیں لگتا۔ اقبالؔ نے فوراً جواب دیا ۔ مولوی صاحب آخر وہ بھی تو ’’وطن‘‘ کی بہنیں ہیں ۔ اس گفتگو کا مزا اس لئے دو چند ہے کہ مولوی صاحب اخبار وطن کے ایڈیٹر تھے ۔ اقبالؔ کشمیری الاصل تھے اور طوائفیں کشمیری تھیں ۔

سید وحید الدین فقیر ’’روزگار فقیر‘‘ میں لکھتے ہیں ۔ میرے ایک قریبی رشتے دار سید واجد علی کو کتّے پالنے کا بڑا شوق تھا ایک دفعہ میں ان کے ساتھ بیٹھ کے ڈاکٹر صاحب سے ملنے گیا۔ موٹر مین ان کے کتّے بھی تھے ۔ ہم لوگ ڈاکٹر صاحب کے پاس جا بیٹھے اور کتّوں کو موٹر ہی میں چھوڑ دیا۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر صاحب کی ننھی بچی منیرہ بھاگتی ہوئی آئی اور کہنے لگی۔ ’’ابا جان موٹر میں کتّے آئے ہیں ‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے ہماری طرف اشارہ کر کے کہا۔ ’’نہیں بیٹا یہ تو آدمی ہیں ۔‘‘

مختلف معتبر ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبالؔ سر چودھری شہاب الدین کو دیکھتے ہی پھبتیاں کستے تھے ۔ بعض اوقات چودھری صاحب بگڑتے تو علامہ کہتے تھے ۔ ’’بھئی تجھے دیکھ کر لطیفوں کی آمد شروع ہو جاتی ہے ۔ خدا کے لئے مجھے لطیفوں سے نہ روکا کرو۔‘‘لطیفوں کے بیان سے پہلے چودھری سر شہاب الدین کا ایک مختصر سا تعارف یہاں خارج از محل نہ ہو گا۔

چودھری سر شہاب الدین ایک معمولی زمین دار کالے خان کے بیٹے تھے جو ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں ننگل میں 1865 میں پیدا ہوئے اور (84)سال کی عمر میں 1949 میں فوت ہوئے ۔ مالی مشکلات کی وجہ سخت محنت و مشقت کر کے 1900 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔اے کیا ، 1904 میں پنجاب کریمنل لا جنرل کے نام سے جاری کیا، اسلامیہ کالج لاہور میں تدریس کرتے رہے اور پھر1908 میں پنجاب کی قانون ساز اسمبلی کا انتخاب لڑا اور 1930تک اس کے صدر رہے ۔ چنانچہ حکومت برطانیہ نے ان کو 1930 میں سَر کا خطاب دیا۔ آپ پنجابی کے شاعر تھے ۔ آپ نے حالیؔ کے مسدس کا پنجابی میں ترجمہ بھی کیا ہے جس کی خود اقبالؔ نے تعریف کی۔ چودھری صاحب قوی بدن اور کالے رنگ کے مالک تھے ۔ اگرچہ اقبالؔ اور چودھری صاحب سیاسی نقطہ نظر سے اختلاف رکھتے تھے لیکن دونوں میں دوستی اور یارانہ تھا۔

مرزا جلال الدین بیرسٹر لا کہتے ہیں ۔ شاہد رہ میں ایک پارٹی میں چودھری شہاب الدین جو قوی ہیکل اور کالے تھے بالکل سفید کپڑے پہن رکھے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے انھیں دیکھتے ہی بے تکلف کہا ’’بھئی دیکھو دیکھو ! کپاہ وچ کٹاوڑگیا اے ‘‘ یعنی کپاس میں کتّا گُھس گیا ہے ۔

 

ایک دفعہ چودھری شہاب الدین کی کوٹھی میں افطار پارٹی تھی۔ چودھری صاحب نے پانی مانگا ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ بھائی! بالٹی لانا۔ چودھری صاحب پانی مانگتے ہیں ۔

ایک دفعہ مہتر چترال نے شہر کے ممتاز افراد کو دعوت دی۔ ضیافت میں چودھری شہاب بھی شامل تھے جیسے ہی اقبالؔ نے چودھری صاحب کو دیکھا تو ان کا تعارف کراتے ہوئے کہا ۔ ’’یہ ہیں چودھری شہاب الدین مہتر لاہور‘‘۔ ساری محفل کھل کھلا کر ہنس پڑی ۔ چودھری صاحب بہت چیں بہ جبیں ہوئے ۔ جب اقبالؔ ان کے قریب بیٹھ گئے تو کہنے لگے ۔ ’’دیکھو اقبالؔ تم موقع محل بھی نہیں دیکھتے اور میری بے عزتی کر دیتے ہو‘‘۔اقبالؔ نے کہا ’’بھئی اس میں بے عزتی کی کون سی بات ہے وہ مہتر چترال ہیں کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ وہاں کے بھنگی ہیں ؟ مہتر تو بڑے آدمی کو کہتے ہیں ‘‘۔

جب سر شہاب الدین نے اپنی نئی کوٹھی بنوا کر اقبالؔ کو دعوت دی اور ان سے کوٹھی کے نام رکھنے کا سوا ل کیا تو اقبالؔ نے کہا ’’اس میں کاوش کی کیا ضرورت ہے اس کا نام ’’دیو محل‘‘ رکھئے ۔ یہاں یہ نکتہ قابل لطافت ہے کہ سر شہاب الدین بڑے قوی بدن اور کالے رنگ کے بلند قامت شخص تھے ۔

۔۔۔ تشکر سردار علی، مدیر شعر و سخن ڈاٹ کام

زبور عجم کی افتتاحیہ دعا

علامہ اقبال

یا رب درون سینہ دل باخبر بدہ

دربادہ نشہ را نگرم آں نظر بدہ

ایں بندہ را کہ بانفس دیگراں نزیست

یک آہ خانہ زاد ‘ مثال سحربدہ

سلیم مرا بہ جوئے تنک مایۂ مپیچ

جولانگہے بہ وادی و کوہ و کمر بدہ

سازی اگر حریف یم بے کراں مرا

با اضطراب موج سکون گہر بدہ

شاہین من بہ صید پلنگاں گذاشتی

ہمت بلند و چنگل ازیں تیز تر بدہ

رفتم کہ طائران حرم راکنم شکار

تیرے کہ ناخدہ فتد کارگر بدہ

خاکم بہ نور نغمۂ داؤد برفروز

ہر ذرّہ مرا پر وبال شر ر بدہ

***

ترجمہ رؤف خیر

پہلو میں دل دیا ہے تو دل باخبر بھی دے

دیکھوں مزاج نشہ مئے وہ نظر بھی دے

سانسوں پہ دوسروں کی گزاروں نہ زندگی

یک آہِ خانہ زاد مثالِ سحر بھی دے

رکھیو نہ سیل فکر مرا جو ہڑوں میں قید

میداں بھی اس کو وادی و کوہ و کمر بھی دے

جب بحر بے کراں کے مقابل کیا مجھے

پھر موج مضطرب کو سکونِ گہر بھی دے

شاہین کو بنایا شکاری جو شیر کا

ہمت بلند پنجے ذرا تیز تر بھی دے

جاتا ہوں طائران حرم کے شکار کو

اب خوش نشان تیر مجھے کارگر بھی دے

چمکا دے نور نغمۂ داؤد سے مجھے

ٍ میرے روئیں روئیں کو شر ر بار کر بھی دے

***

اقبال

ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی

اقبالؔ کا کلام ہے اک نقش جاوداں

ہیں عالمی سطح پہ سبھی ان کے قدر داں

 

وہ مقصدی ادب کے تھے اک میر کارواں

ان کے نوادرات ہیں اک گنج شایگاں

 

اردو ادب جمود و تعطل کا تھا شکار

ان کی نگارشات سے یہ ہو گیا جواں

 

گلزار شاعری میں تھے مثل بہار وہ

آتے ہی ان کے ہو گئی فصل خزاں رواں

 

ملی شعور کے تھے ادب میں نقیب وہ

ہے روح عصر ان کے مضامین سے عیاں

 

جوفلسفہ ہے ان کا وہ ہے دعوت عمل

ان کا شعور فکرتھا فطرت کا راز داں

 

ضرب کلیم، بانگ درا اور پیام شرق

اقبالؔ کی فضیلت و عظمت کے ہیں نشاں

 

برصغیر ہی سے تعلق نہیں انہیں

جائیں جہاں ملیں گے وہاں ان کے مدح خواں

 

تھی فارسی زبان پہ بھی ان کو دسترس

اس طرح جیسے ان کی ہو یہ مادری زباں

 

اقبالؔ بے مثال تھے ہیں اب بھی بے مثال

’’اب دیکھئے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں‘‘

 

قاصر زباں ہے ان کے محاسن کے ذکرسے

توصیف ان کی برقیؔ ہے ناقابل بیاں

***

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 1 تبصرہ

خالد ندیم، استاد اردو زبان و ادب، سرگودھا یونیورسٹی سرگودھا
آپ جو خدمت کر رہے ہیں، اس کا سراہا جانا ضروری ہے۔ آپ نے مولانا محمد علی جوہر کے جس مضمون کا اردو شامل کیا ہے، اس کے انگریزی متن کی نشاندہی فرما دیجیے، تاکہ براہِ راست استفادے کی کوئی صورت ہو۔ چونکہ پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم نے شرح اسرار خودی میں اس کا جو ترجمہ کیا ہے، وہ اس سے قدرے مختلف اور قدرے مختصر ہے۔ اگر یہ عنایت ہو جائے تو اطمینان ہو۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔