بہ صدف خلو ص و محبت
نعتیہ ادب کے فروغ و ارتقا میں اپنا نقشِ جاوداں مرتسم کرنے والی شخصیات
راجا رشیدؔ محمود
پروفیسر حفیظ تائبؔ
ڈاکٹر سید طلحہ رضوی برقؔ دانا پوری
ڈاکٹر سید شمیم گوہرؔ الٰہ آبادی
ڈاکٹر عبد النعیم عزیزی
ڈاکٹر سراج احمد بستوی
محمد شہزادؔ مجددی
اور
سید صبیح ؔرحمانی
کی خدماتِ جلیلہ کے نام
سیرت، قرآنیات، احادیث، نعتیہ شاعری، مذہبی ادب اور رضویات و نوریات کے ساتھ ساتھ شاعری، تحقیق و تنقید اور اردو ادب کی تاریخ و تذکرہ پر لکھی گئی کتب کا مطالعہ میرے خاص مشاغل میں سے ہے۔ مطالعہ و مشاہدہ کے دوران ایک بات جو بار بار کھٹکتی رہی وہ یہ کہ اردو ادب کے تذکرہ نگاروں اور ناقدین نے اپنی کتابوں میں اسلام پسند ادیبوں اور شاعروں نیز نعت جیسی مقدس اور پاکیزہ صنف کے فروغ و ارتقا میں اپنی قوتِ متخیلہ کو بروئے کار لا کر زبان و ادب اور لسانیات کی گراں قدر خدمت انجام دینے والے حضرات کا ذکر آخر کیوں نہیں کیا ؟جب مَیں نے ایک بہت بڑے نقّاد سے اس ضمن میں گفتگو کی تو انہوں نے کہا کہ یہ ہمارا میدان نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذہبیات پر لکھنا اور نعتیہ و مذہبی شاعری میں اپنے جوہر بکھیرنا یہ زبان و ادب اور لسانیات کی خدمت نہیں ہے ؟اس حقیقت کو بہ ہر حال تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان ادیبوں اور شاعروں نے اردو زبان و ادب کی ترقی میں جو کردار ادا کیا ہے اس میں ایسی وسعت اور رنگارنگی ہے کہ وہ یقیناً آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے۔
ہمارے ناقدین کی ان شاعروں اور ادیبوں سے گریز کی روش سے مجھ جیسے مذہب پسندادب کے طالب علم کا ذہنی کشمکش میں مبتلا ہونا فطری امر ہے۔ ادب اور فن کے وسیع کینوس پر نظر ڈالتے ہوئے ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ کے نظریہ کے مطابق:
’’ شاعر کا مقام و مرتبہ فن کے وسیع تناظر میں ہونا چاہیے‘‘۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہمارے ناقدین کو اپنے تنقیدی رویوں میں وسعت لاتے ہوئے نعتیہ ادب پر بھی خامہ فرسائی کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ لیکن اس سمت خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوئی۔ بل کہ آج بھی بعض نقّاد کے نزدیک نعت جیسی طاقت ور صنف ، اصنافِ سخن میں شمار کرنے کا استحقاق نہیں رکھتی۔ ان ہی عوامل نے میری فکر و نظر کو مہمیز لگائی اور میں نے حروف و الفاظ سے آشنائی پیدا کر کے الفاظ سے جملہ بنانے کا فن سیکھا اور جملے سے مضمون تحریر کرنے کے آداب سیکھ کر نعتیہ اور مذہبی ادب کے عروج و ارتقا میں حصہ لینے والے حضرات کی نگارشات پر مضامین قلم بند کرنے کا سلسلہ شروع کیا ،جس میں مجھے کافی حد تک کام یابی نصیب ہوئی۔ مختلف شخصیات پر الگ الگ مواقع پر تحریر کیے گئے یہ مضامین و مقالات اخبارات و رسائل کی زینت بنے، جن کی اہل ذوق نے کافی سراہنا کی۔ چند مخلص احباب نے مشورہ دیا کہ ان مضامین و مقالات کو علاحدہ کتابی صورت میں یک جا کر لیا جائے تو بہت بہتر ہو گا۔
پیشِ نظر کتاب ’’نعت کی خوشبو گھر گھر پھیلے‘‘ ان ہی مضامین و مقالات کا مجموعہ ہے۔ جسے برادرم نور محمد برکاتی زید علمہٗ نے ترتیب دیا ہے، اس کتاب میں ۱۶؍ نعت گو شعرا کی نعتیہ شاعری پر لکھے گئے مضامین شامل کیے جا رہے ہیں جن میں زیادہ تر مضامین مختلف اخبارات و رسائل کی زینت بن چکے ہیں۔ علاوہ ازیں سید آلِ رسول حسنین میاں نظمی مارہروی کی نعت گوئی پر راقم کا مرقومہ مقالہ ’’اقلیمِ نعت کا معتبر سفیر… نظمی مارہروی‘‘ علاحدہ سے کتابی صورت میں منظر عام پر آ کر خراجِ تحسین حاصل کر چکا ہے۔ اسی طرح شہزادۂ اعلا حضرت حضور مفتیِ اعظم قدس سرہٗ کی نعتیہ شاعری پر قلم بند کیے گئے تحقیقی مقالہ پر ناچیز کو ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونی ورسٹی اورنگ آباد نے پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کی با وقار ڈگری تفویض کی ہے، متذکرہ مقالہ بھی ان شآ ء اللہ طبع ہو کر اہل علم و دانش کی محفل میں پیش کیا جائے گا۔
یقین ہے کہ اہلِ نقد و نظر اور با ذوق حضرات راقم کی دیگر کاوشات کی طرح پیشِ نظر کتاب ’’نعت کی خوشبو گھر گھر پھیلے ‘‘کی بھی بھر پور پذیرائی فرمائیں گے۔
(ڈاکٹر)محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
۱۲؍ رمضان المبارک ۱۴۳۲/۱۳؍ اگست ۲۰۱۱ء بروز سنیچر
نعت اردو کی دیگر اصناف ِ سخن کے مقابلے میں سب سے زیادہ طاقت ور، معظّم، محترم اور محبوب و پاکیزہ صنف ہے۔ اس کا آغاز یومِ میثاق ہی سے ہو چکا تھا۔ قادرِ مطلق جل شانہٗ نے قرآنِ عظیم میں جا بجا اپنے محبوبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف و کمالات کو بیان فرما کر نعت گوئی کا سلیقہ و شعور بخشا ہے۔ صحابۂ کرام، ازواجِ مطہرات، اہلِ بیتِ اطہار، تابعین، تبع تابعین، ائمۂ مجتہدین، سلف صالحین، اغواث، اقطاب، ابدال، اولیا، صوفیہ، علما اور بلا تفریق مذہب و ملّت شعرا و ادبا کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جنہوں نے اس پاکیزہ صنف کا استعمال کرتے ہوئے بارگاہِ محبوبِ کردگار صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی عقیدت و محبت کے گل و لالہ بکھیرے ہیں۔
ہندوستان میں نعتیہ شاعری کے باضابطہ طور پر آغاز کے آثار سلطان شمس الدین التمش کے زمانے میں ملتے ہیں۔ طوطیِ ہند حضرت امیر خسروؔ کو ہندوستان میں نعتیہ شاعری کے میدان کا مستند شاعر کہا جاتا ہے۔ امیر خسروؔ فارسی زبان و ادب کے ماہر تھے۔ آپ کا کلامِ بلاغت نظام بھی فارسی ہی میں موجود ہے۔ بعد ازاں جب اردو زبان کا وجود ہوا تب ہی سے اردو میں نعتیہ شاعری کا بھی آغاز ہوا۔ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، فخرِ دین نظامی، غلام امامؔ شہید، لطف علی لطفؔ بدایونی، کفایت علی کافیؔ، کرامت علی شہیدیؔ، احمد نوریؔ مارہروی، امیر مینائی، بیدمؔ شاہ وارثی، نیازؔ بریلوی، آسیؔ غازی پوری، محسن کاکوروی اور امام احمد رضا بریلوی سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ استاذِ زمن علامہ حسن رضا خاں حسنؔ بریلوی تک پہنچا اور اردو نعت گوئی کا یہ نا ختم ہونے والامقدس سفر ہنوز جاری و ساری ہے۔
امام احمد رضا بریلوی بلا شبہہ بیسویں صدی کے سب سے عظیم نعت گو شاعر گزرے ہیں آپ حسّان الہند ہیں۔ نعتیہ شاعری کے سرتاج اور اس فن کی عزت و آبرو کے ساتھ ساتھ سخنورانِ عجم کے امام بھی …اسی طرح آپ کے برادرِ اصغر علامہ حسن رضا بریلوی کے دیوان کے مطالعہ کے بعد انھیں بھی بلا تردد اردو کا ممتاز نعت گو شاعر قرار دیا جا سکتا ہے۔ آپ کے نعتیہ دیوان ’’ذوقِ نعت‘‘ میں جہاں کلا سیکیت کے عناصر اور تغزّل کے رنگ کی بھر پور آمیزش ہے وہیں پیکر تراشی، استعاری سازی، تشبیہات، اقتباسات، فصاحت و بلاغت، حُسنِ تعلیل و حُسنِ تشبیب، حُسنِ طلب و حُسنِ تضاد، لف و نشر مرتب و لف ونشر غیر مرتب، تجانیس، تلمیحات، تلمیعات، اشتقاق، مراعاۃ النظیر وغیرہ صنعتوں کی جلوہ گری بھی…اس دیوان میں نعت کے ضروری لوازم کے استعمال سے مدحِ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی کامیاب ترین کوششیں ہیں۔ علامہ حسن رضا بریلوی کی بعض نعتوں کو اردو ادب کا اعلیٰ شاہ کار قرار دیا جا سکتا ہے۔ آپ کا پورا کلام خود آگہی، کائنات آگہی اور خدا آگہی کے آفاقی تصور سے ہم کنار ہے۔ مگر کیا کہا جائے اردو ادب کے اُن مؤرخین و ناقدین اور شعرا کے تذکرہ نگاروں کو جنھوں نے گروہی عصبیت اور جانبداریت کے تنگ حصار میں مقید و محبوس ہو کر اردو کے اس عظیم شاعر کے ذکرِ خیر سے اپنی کتابوں کو یکسر خالی رکھا نیز یہ شاعر جس قادر الکلام شاعر کی بارگاہ میں اپنے نعتیہ کلام کو زیورِ اصلاح سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے لیے پیش کرتا تھا اُس (یعنی امام احمد رضا بریلوی) کا بھی ذکرِ خیر اپنی کتابوں میں نہ کر کے اردو ادب کے ساتھ بڑی بد دیانتی اور سنگین ادبی جُرم کا ارتکاب کیا ہے۔ وہ تو بھلا ہو لالہ سری رام کا جنھوں نے ’’خمخانۂ جاوید‘‘ جلد دوم کے صفحہ ۴۵۰ پر علامہ حسن رضا بریلوی کا تذکرہ کر کے اپنے آپ کو متعصب مورخینِ اردو ادب سے جدا کر لیا ہے۔ موصوف لکھتے ہیں۔
’’سخنورِ خوش بیاں، ناظمِ شیریں زباں مولانا حاجی محمد حسن رضا خاں صاحب حسن ؔ بریلوی خلف مولانا مولوی نقی علی خاں صاحب مرحوم و برادر مولانا مولوی احمد رضا خاں صاحب عالمِ اہلِ سنت و شاگردِ رشید حضرت نواب فصیح الملک بہادر داغؔ دہلوی……نعت گوئی میں اپنے برادرِ بزرگ مولوی احمد رضا خاں سے مستفیض ہیں اور عاشقانہ رنگ میں بلبلِ ہندوستان داغؔ سے تلمذ تھا‘‘۔
یہاں یہ امر باعث ِ حیرت و استعجاب ہے کہ ’’خمخانۂ جاوید‘‘ جیسے ضخیم تذکرے میں امام احمد رضا بریلوی کا ذکر محض اس مقام کے علاوہ کہیں اور نہیں ہے جبکہ آپ کا ذکر بحیثیتِ شاعر الگ سے ہونا چاہیے تھا، یہاں پر آپ کا تذکرہ صر ف علامہ حسن رضا بریلوی کے بڑے بھائی کی حیثیت سے ہے اس موقع پر ماہرِ غالبیات کالیداس گپتا رضاؔ کی اس تحریر کو نقل کرنا غیر مناسب نہ ہو گا، گپتا صاحب رقم طراز ہیں۔
’’تاہم حیرت ہے کہ اس ضخیم تذکرے میں اِن (حسنؔ رضا بریلوی) کے بڑے بھائی ’’عالمِ اہلِ سنت اور نعت گوئی میں اُن کے استاذ جناب احمد رضا خاں کے ذکر نے جگہ نہ پائی۔ ‘‘(ماہنامہ قاری، دہلی، امام احمد رضا نمبر، اپریل ۱۹۸۹ ء، مضمون: امام احمد رضا بحیثیتِ شاعر، از: کالیداس گپتا رضا، ص ۴۵۶)۔
استاذِ زمن علامہ حسن رضا بریلوی کا کلامِ بلاغت نظام معنی آفرینی کے لحاظ سے جس قدر بلند و بالا ہے اس پر اس قدر کوئی قابلِ ذکر کام نہیں ہوا ہے۔ غالباً آپ کی شاعری پر پہلا مقالہ رئیس المتغزلین سید فضل الحسن قادری رضوی رزّاقی مولانا حسرتؔ موہانی علیہ الرحمۃ (م)کا تحریر کردہ ہے جو کہ ’’اردوئے معلی ‘‘ علی گڑھ کے شمارہ جون ۱۹۱۲ء میں اشاعت پذیر ہوا تھا۔ (سیرتِ اعلیٰ حضرت، از : فرزندِ استاذ زمن علامہ حسنین رضا خاں بریلوی، مطبوعہ، مکتبۂ مشرق، بریلی، ص ۱۳ سے ۱۷ تک مولانا حسرتؔ موہانی کا یہ مضمون درج ہے)۔
اس مسلمہ حقیقت سے قطعاً انکار ممکن نہیں کہ محبت و اُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم خانوادۂ رضا کا طرۂ امتیاز ہے۔ حدائقِ بخشش(از:امام احمد رضا بریلوی)اور ’’ذوقِ نعت‘‘ کے مطالعہ سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دونوں بھائیوں کو محبت و اُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھٹی میں گھول کر پلائی گئی ہے۔ ’’حدائقِ بخشش‘‘ محبت و اُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایسا میخانہ ہے جہاں کی پاکیزہ شراب سے آج ساری دنیا کے خوش عقیدہ مسلمان سیراب ہو رہے ہیں۔ اسی طرح ’’ذوقِ نعت‘‘ بھی محبت واُلفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حسیٖن مجموعہ ہے جس کا ورق ورق محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تابندہ و فروزاں اور سطر سطر میں تعظیم و ادبِ رسالت کی جلوہ گری ہے ؎
نام تیرا، ذکر تیرا تو ترا پیارا خیال
ناتوانوں بے سہاروں کا سہارا ہو گیا
یہ پیاری ادائیں، یہ نیچی نگاہیں
فدا جانِ عالم ہے اے جانِ عالم
یہ کس کے روئے نکو کے جلوے زمانے کو کر رہے ہیں روشن
یہ کس کے گیسوے مشک بو سے مشامِ عالم مہک رہا ہے
رہے دل کسی کی محبت میں ہر دم
رہے دل میں ہر دم محبت کسی کی
تیری عظمت وہ ہے کہ تیرا
اللہ کرے وقار آقا
علامہ حسن رضا بریلوی کا روئے سخن نعت گوئی سے قبل غزل گوئی کی طرف تھا۔ مگر جب آپ نے اپنے برادرِ اکبر امام احمد رضا بریلوی کے نعتیہ کلام کا مطالعہ کیا تو طبیعت میں انقلاب برپا ہو گیا، دل میں عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی دبی ہوئی چنگاری شعلۂ جوالہ بن کر اُبھر گئی اور آپ نعتیہ شاعری کے میدان کے ایک ایسے عظیم ترین شہسوار بن گئے کہ جلد ہی ’’اُستاذِ زمن‘‘ کے لقب سے دنیائے شعر و ادب میں پہچانے جانے لگے۔ امام احمد رضا بریلوی کی اس نظرِ عنایت کا انھیں بھی اعتراف ہے۔ ’’ذوقِ نعت‘‘ میں ایک مقام پر اپنے برادرِ معظّم کے حق میں یوں دعا کی ہے ؎
بھلا ہے حسنؔ کا جنابِ رضاؔ سے
بھلا ہو الٰہی جنابِ رضاؔ کا
میرے خیال میں ’’ حدائقِ بخشش‘‘ کے اشعارِ آبدار کے معنی و مفہوم کے فہم میں ’’ذوقِ نعت‘‘ کا مطالعہ نا گزیر ہے۔ حدائقِ بخشش جہاں فکر و تخیل کا ایک بحرِ بیکراں اور معنی آفرینی میں اپنی مثال آپ ہے وہیں ذوقِ نعت اس بحرِ بیکراں کی غواصی کے ذریعہ حاصل کردہ صدف سے نکالے گئے قیمتی موتیوں سے پرویا ہوا خوشنما ہار ہے اور اس کے اشعار فکرِ رضا کے سہل انداز میں شارح و ترجمان ہیں ؎
قرآن کھا رہا ہے اسی خاک کی قسم
ہم کون ہیں خدا کو ہے تیری گلی عزیز
کس کے دامن میں چھپے کس کے قدم پر لوٹے
تیرا سگ جائے کہاں چھوڑ کے ٹکڑا تیرا
ذات بھی تیری انتخاب ہوئی
نام بھی مصطفی ہوا تیرا
قمر اک اشارے میں دو ٹکڑے دیکھا
زمانہ پہ روشن ہیں طاقت کسی کی
وہی سب کے مالک انھیں کا ہے سب کچھ
نہ عاصی کسی کے نہ جنت کسی کی
علامہ حسن رضا بریلوی کا نعتیہ کلام شاعری کی بہت ساری خوبیوں اور خصوصیات سے سجا سنورا اور تمام تر فنّی محاسن سے مزین اور آراستہ ہے موضوعات کا تنوع، فکر کی ہمہ گیری، محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ جذبات کی فراوانی کے اثرات جا بجا ملتے ہیں۔ آپ کے کلام میں اندازِ بیان کی ندرت بھی ہے اور فکر و تخیل کی بلندی بھی، معنی آفرینی بھی ہے، تصوّفانہ آہنگ بھی، استعارہ سازی بھی ہے، پیکر تراشی بھی، طرزِ ادا کا بانکپن بھی ہے، جدت طرازی بھی، کلاسیکیت کا عنصر بھی ہے، رنگِ تغزل کی آمیزش بھی، ایجاز و اختصار اور ترکیب سازی بھی ہے، عربی اور فارسی کا گہرا رچاؤ بھی ؎
لبِ جاں بخش کی تعریف اگر ہو تجھ میں
ہو مجھے تارِ نفَس ہر خطِ مسطر کاغذ
کریں تعظیم میری سنگِ اسود کی طرح مومن
تمہارے در پہ رہ جاؤں جو سنگِ آستاں ہو کر
آستانہ پہ ترے سر ہو اجل آئی ہو
اور اے جانِ جہاں تو بھی تماشائی ہو
اونچی ہو کر نظر آتی ہے ہر اک شَے چھوٹی
جا کے خورشید بنا چرخ پہ ذرّہ تیرا
شاعری میں ایجاز و اختصار کلام کی ایک بڑی اور اہم خوبی ہے۔ اس میں علامہ حسن رضا بریلوی کو کافی ملکہ حاصل تھا۔ مشکل اور طویل مضامین کو سہل انداز میں ایک ہی شعر میں کہہ کر گزر جانا آپ کے مسلم الثبوت شاعر ہونے کی واضح اور روشن دلیل ہے ،مثالیں خاطر نشین ہوں ؎
گناہ گار پہ جب لطف آپ کا ہو گا
کِیا بغیر کِیا بے کِیا ہو گا
کیا بات تمہارے نقشِ پا کی
ہے تاج سرِ وقار آقا
بت خانوں میں وہ قہر کا کہرام پڑا ہے
مل مل کے گلے روتے ہیں کفار و صنم آج
گر وقتِ اجل سر تری چوکھٹ پہ جھکا ہو
جتنی ہو قضا ایک ہی سجدے میں ادا ہو
اسی طرح کم سے کم لفظوں میں مفہوم کی ادائیگی اور شعر میں بلاغت بھرنے کے لیے ترکیب سازی کی بڑی اہمیت ہے۔ شاعری میں محبوب یا ممدوح کے اوصافِ بلیغ کے اظہار میں تراکیب اہم رول ادا کرتی ہیں۔ علامہ حسن رضا بریلوی کے نعتیہ کلام میں جہاں تمام ادبی و فنّی محاسن موجود ہیں وہیں ترکیب سازی کے بہت ہی دل کش اور نادر نمونے ملتے ہیں ؎
اس مہک پر شمیم بیز سلام
اس چمک پر فروغ بار دُرود
زخم دل پھول بنے آہ کی چلتی ہے نسیٖم
روز افزوں ہے بہارِ چمنستانِ قفس
اے نظمِ رسالت کے چمکتے ہوئے مقطع
تو نے ہی اسے مطلعِ انوار بنایا
زمیں کے پھول گریباں دریدہ غمِ عشق
فلک پہ بدر، دل افگارِ تابِ حسن ِملیح
صبیح ہوں کہ صباحتِ جمیل ہوں کہ جمال
غرض سبھی ہیں نمک خوارِ بابِ حسنِ ملیح
اگر دودِ چراغِ بزمِ شہ چھو جائے کاجل کو
شبِ قدرِ تجلی کا ہو سرمہ چشمِ خوباں میں
علامہ حسنؔ رضا بریلوی کے کلام کی خصوصیات پر اگر قلم کو جنبش دی جائے تواس متنوع خوبیوں اور محاسن سے لبریز کلام کا احاطہ اس مختصر سے مقالے میں ناممکن ہے۔ کیوں کی آپ کی شعری کائنات کے کماحقہٗ تعارف کے لیے ایک عظیم دفتر درکار ہے۔ اسی لیے اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف اجمالی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
مالکِ کون و مکاں باعثِ کن فکاں صلی اللہ علیہ وسلم کو خالقِ مطلق جل شانہٗ نے مجبور و بے کس نہیں بل کہ مالِک و مختار بنا کر اس خا ک دانِ گیتی پر مبعوث فرمایا ہے۔ آقا و مولا صاحبِ اختیار ہیں اور آپ کے کمالات ارفع و اعلا ہیں، اس طرح کے اظہار سے ’’ذوقِ نعت ‘‘ کے اوراق مزین و آراستہ ہیں ؎
ملا جو کچھ جسے وہ تم سے پایا
تمہیں ہو مالکِ مِلکِ خدا خاص
وہی سب کے مالک انھیں کا ہے سب کچھ
نہ عاصی کسی کے نہ جنت کسی کی
کنجی تمہیں دی اپنے خزانوں کی خدا نے
محبوب کیا مالک و مختار بنایا
کیوں نہ ہو تم مالکِ مِلکِ خدا مُلکِ خدا
سب تمہارا ہے، خدا ہی جب تمہارا ہو گیا
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم افضل الانبیا و المرسلین ہیں۔ آپ کے اوصاف و کمالات، شمائل و فضائل اس قدر ارفع و اعلا، افضل و بالا ہیں کہ اس میں دوسرے انبیا آپ کے شریک نہیں اور خداوندِ قدوس سے آپ کو سب سے زیادہ قربت حاصل ہے ؎
شریک اس میں نہیں کوئی پیمبر
خدا سے ہے جو تجھ کو واسطہ خاص
تمام بندگانِ خدا ہر ہر کام میں اپنے خالق و مالک جل شانہٗ کی مرضی و مشیت کے طلب گار ہیں۔ مگر سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو مرضی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی بھی خوش نودی و رضا ہے۔ نقاشِ ازل جل شانہٗ نے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تابندہ پیشانی پر یہ بات بہ خطِّ قدرت ازل ہی میں تحریر فرمادی تھی ؎
قدرت نے ازل میں یہ لکھا ان کی جبیں پر
جو ان کی رضا ہو وہی خالق کی رضا ہو
ایک عاشق کی یہ سب سے بڑی آرزو اور خواہش ہوتی ہے کہ اسے محبوبِ رعنا ( صلی اللہ علیہ وسلم )کے روئے منور کی زیارت نصیب ہو جائے۔ علامہ حسنؔ رضا بریلوی جامِ روئے جاناں کی تشنگی رکھتے ہیں اور آپ کی یہ تشنگی اتنی فزوں تر ہے کہ اگر نزع کے وقت حورانِ خلد آ کر آپ کے آگے جام پر جام لنڈھائیں بھی تو آپ ان کی طرف نگہِ التفات کرنے کی بجائے اپنا رُ خ دوسری جانب پھیر لیں گے ؎
دے اس کو دمِ نزع اگر حور بھی ساغر
منھ پھیر لے جو تشنۂ دیدار ترا ہو
عاشق چاہتا ہے کہ سرورِ انس و جاں صلی اللہ علیہ وسلم کے جلووں سے دل منور و مجلا ہو جائے اور ہمہ وقت اس میں مدینے کی یاد رچی بسی رہے ؎
رہیں ان کے جلوے بسیں ان کے جلوے
مرا دل بنے یادگارِ مدینہ
لالہ و گل کی نکہتوں اور گلستانوں کے رنگ و بہار پر صحرائے مدینہ کو اس طرح فوقیت دی جا رہی ہے ؎
رنگِ چمن پسند نہ پھولوں کی بُو پسند
صحرائے طیبہ ہے دلِ بلبل کو تُو پسند
علامہ حسنؔ رضا بریلوی آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کے شہرِ پاک کی خواہش و تمنا کا اظہار کرتے ہوئے بارگاہِ ربِ ذوالجلال میں یوں دعا گو ہیں ؎
مرادِ دلِ بلبلِ بے نوا دے
خدایا دکھا دے بہارِ مدینہ
صحرائے مدینہ کے حصول کے بعد جنت اور بہارِ گلشن کی حیثیت پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے ان کو صحرائے مدینہ کے آگے یوں ہیچ بتایا ہے ؎
خلد کیسا کیا چمن کس کا وطن
ہم کو صحرائے مدینہ مل گیا
جب زاہد عاشق کو جنت کے باغوں کا پھول دے کر اسے اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ جنت کے لالہ و گل کو محبوبِ دل نواز ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے شہرِ رعنا کے خوش نما کانٹوں کے آگے بے وقعت سمجھتے ہوئے زاہد کو اس طرح خطاب کرتا ہے کہ ؎
گلِ خلد لے کے زاہد تمہیں خارِ طیبہ دے دوں
مرے پھول مجھ کو دیجے بڑے ہوشیار آئے
علامہ حسنؔ رضا بریلوی کو مدحتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی تڑپ اور لگن ہے کہ اس دنیا سے جاتے وقت بھی وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی زبان پر ترانۂ نعت جاری رہے ؎
خدا سے دعا ہے کہ ہنگامِ رخصت
زبانِ حسنؔ پر ہو مدحت کسی کی
موت کے بعد مدینۂ طیبہ کا غبار بننے اور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس کوچہ میں دفن ہونے کی ایمانی خواہش کا یوں اظہار کرتے ہیں ؎
مری خاک یارب نہ برباد جائے
پسِ مرگ کر دے غبارِ مدینہ
مٹی نہ ہو برباد پسِ مرگ الٰہی
جب خاک اڑے میری مدینے کی ہوا ہو
زمیں تھوڑی سی دیدے بہرِ مدفن اپنے کوچے میں
لگا دے میرے پیارے میری مٹی بھی ٹھکانے سے
عاشق کی نظر میں روزِ محشر کا انعقاد صرف اسی لیے ہو گا کہ اس دن محبوبِ خدا( صلی اللہ علیہ وسلم )کی شانِ محبوبی دکھائی جائے گی کیوں کہ آپ اس روز عصیاں شعاروں اور گناہ گاروں کی شفاعت فرمائیں گے ؎
فقط اتنا سبب ہے انعقادِ بزمِ محشر کا
کہ ان کی شانِ محبوبی دکھائی جانے والی
عاشق کہتا ہے کہ مجھے میدانِ محشر میں کوئی خوف نہیں ہو گا کیوں کہ یہ آقا و مولا میرا شفیع ہے ؎
خدا شاہد کہ روزِ حشر کا کھٹکا نہیں رہتا
مجھے جب یاد آتا ہے کہ میرا کون والی ہے
جب کہ اس کے برعکس منکرینِ شفاعت اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ ایک ایک کا منھ تکتے اِدھر اُدھر بھٹکتے رہیں گے ؎
حشر میں اک ایک کا منھ تکتے پھرتے ہیں عدوٗ
آفتوں میں پھنس گئے تیرا سہارا چھوڑ کر
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی محافل میں پڑھے جانے والے بہت سارے میلاد نامے ’’ذوقِ نعت‘‘ ہی کے ہیں وہ تمام کے تمام شعری کمال کے اعلا نمونے ہیں۔ چند اشعار خاطر نشین ہوں ؎
فلک پہ عرش بریں کا گمان ہوتا ہے
زمینِ خلد کی کیاری ہے بارہویں تاریخ
جھکا لائے نہ کیوں تاروں کو شوقِ جلوۂ عارض
کہ وہ ماہِ دل آرا اَب زمیں پر آنے والا ہے
وہ مہر مِہر فرما وہ ماہِ عالم آرا
تاروں کی چھاؤں آیا صبحِ شبِ ولادت
خوشبو نے عنادل سے چھڑائے چمن و گل
جلوے نے پتنگوں کو شبستاں سے نکالا
علامہ حسنؔ رضا بریلوی کایہ کمالِ شاعری ہے کہ آپ ایک لفظ کو ایک معنی پر ایک شعر میں اس پُرکاری اور ہنر مندی سے استعمال کرتے ہیں کہ تکرار کا نقص نہیں بل کہ تخیل کا حسن پیدا ہو جاتا ہے مثلاً ؎
ہمیں ہیں کسی کی شفاعت کی خاطر
ہماری ہی خاطر شفاعت کسی کی
رہے دل کسی کی محبت میں ہر دم
رہے دل میں ہر دم محبت کسی کی
نکالا کب کسی کو بزمِ فیضِ عام سے تم نے
نکالی ہے تو آنے والوں کی حسرت نکالی ہے
علامہ حسنؔ رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری میں کلاسیکیت اور تغزل کا رنگ حد درجہ غالب ہے۔ نعت کے اعلا ترین تقدس اور غزل کی رنگینیِ بیان دونوں کو یک جا کر کے سلامت روی کے ساتھ گذر جانا علامہ حسنؔ رضا بریلوی کی قادرالکلامی کی بیّن دلیل ہے۔ ذیل میں برنگِ تغزل آپ کے چیدہ چیدہ اشعار خاطر نشین فرمائیں ؎
مرے دل کو دردِ الفت، وہ سکون دے الٰہی
مری بے قراریوں کو نہ کبھی قرار آئے
کرے چارہ سازی زیارت کسی کی
بھرے زخم دل کے ملاحت کسی
روشن ہے ان کے جلوۂ رنگیں کی تابشیں
بلبل ہیں جمع ایک چمن میں ہزار صبح
ہوا بدلی گھرے بادل کھلیں گل بلبلیں چہکیں
تم آئے یا بہارِ بے خزاں آئی گلستاں میں
کیا مزے کی زندگی ہے زندگی عشاق کی
آنکھیں ان کی جستجو میں دل میں ارمانِ جمال
زینتوں سے ہے حسینانِ جہاں کی زینت
زینتیں پاتی ہیں جلوے تری زیبائی کے
جمال والوں میں ہے شورِ عشق اور ابھی
ہزار پردوں میں ہے آب و تابِ حسنِ ملیح
اپنا ہے وہ عزیز جسے تو عزیز ہے
ہم کو تو وہ پسند جسے آئے تو پسند
دل درد سے بسمل کی طرح لوٹ رہا ہو
سینے پہ تسلی کو ترا ہاتھ دھرا ہو
بے چین رکھے مجھ کو ترا دردِ محبت
مٹ جائے وہ دل پھر جسے ارمانِ دوا ہو
تمہاری ایک نگاہِ کرم میں سب کچھ ہے
پڑے ہوئے تو زرِ رہِ گذار ہم بھی ہیں
’’ذوقِ نعت‘‘ میں نعتیہ کلام کے علاوہ قابلِ لحاظ حصہ مناقب پر بھی مشتمل ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی مرتضیٰ، حضرت امام حسین و شہدائے کربلا رضی اللہ عنہم حضرت غوثِ اعظم، حضرت خواجہ غریب نواز، حضرت شاہ اچھے میاں و شاہ بدیع الدین مدار قدست اسرارہم کی شانِ اقدس میں منقبتیں جہاں ایک طرف شعری و فنی کمال کا نمونہ ہیں وہیں علامہ حسنؔ رضا بریلوی کی اپنے ممدوحین سے بے پناہ عقیدت و محبت کا مظہرِ جمیل بھی۔
علاوہ ازیں ’’ذوقِ نعت‘‘ میں شامل ایک نظم بہ عنوان ’’کشف ِرازِ نجدیت‘‘ لطیف طنز و ظرافت کا بے مثال فنی نمونہ ہے، اسی طرح اس دیوان میں مسدّس منظومات، نعتیہ رباعیات اور سلامیہ قصائد بھی موجود ہیں۔ جہانِ لوح و قلم اور دنیائے سنیت میں استاذِ زمن علامہ حسن رضا خاں حسن ؔبریلوی کے نام چند صفحات تحریر کر کے آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں ان کی وسیع تر شعری کائنات کے تعارف کا حق ادا کر رہا ہوں، بل کہ خدائے لم یزل کی طرف سے ملنے والی اس رحمتِ بے پایاں اور ثوابِ عظیم میں خود کو شریک کر رہا ہوں جوا ُلفتِ مصطفی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم میں ڈوبے ہوئے ’’ذوقِ نعت‘‘ کے اشعارِ آب دار کو پڑھ کر گناہ گاروں کی قسمت میں ارزاں کر دیا جاتا ہے۔
(ماہ نامہ کنزالایمان، دہلی جلد نمبر ۳، شمارہ نمبر ۱۱، ستمبر ۲۰۰۱ئ/جمادی الثانی ۱۴۲۲ھ، صفحہ۳۸/۴۲)
٭٭٭
اما م احمد ضا محدثِ بریلوی کی شخصیت اور ان کے فکر و فن پر کچھ خامہ فرسائی کرنا مجھ جیسے کم علم اور بے بضاعت کا کام ہرگز نہیں، ہاں ! آپ کے عقیدت مندوں کی صف میں شامل ہونا باعثِ صد افتخار سمجھتے ہوئے یہ چند سطریں سپردِ قرطاس کرنے کی طالب علمانہ کوشش کر رہا ہوں۔ امام احمد رضا محدث بریلوی کی نعت گوئی کے مختلف گوشوں کو اجاگر کرتے ہوئے کئی محققین نے پی۔ ایچ۔ ڈی۔ اور ایم۔ فل، جیسی با وقار ڈگریاں بھی حاصل کی ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ اعلا حضرت نے نعت گوئی کے میدان میں جو اجلے اور روشن نقوش ثبت فرمائے ہیں آج فضائے نعت میں اپنے شہبازِ فکر و نظر کو پرواز کرانے والے بیش تر شعرائے کرام محسوس یا غیر محسوس طور پر آپ کی کہیں نہ کہیں تقلید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ امام احمد رضا کی فکر رسا نے نعت گوئی میں ایسے خوب صورت اور دل کش گل بوٹے کھلائے ہیں کہ جس کی مثیل و نظیر کسی دوسرے نعت گو کے یہاں نہیں ملتی۔ مفخرِ موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کی عقیدت و محبت اور تعظیم و توقیر کے اعتبار سے تو آپ کے کلام کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہے اس کا کوئی جواب نہیں پیش کیا جا سکتا بل کہ اگر میں یہ کہوں کہ عشقِ رسالت پناہی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کا اسمِ شریف اب ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گیا ہے تو یہ مبالغہ آرائی نہ ہو گی۔ نعت گوئی میں عقیدے و عقیدت کی نور افزا پرچھائیوں کے ساتھ آپ کے کلام میں جہاں فکر و فن، جذبہ و تخیل اور متنوع شعری و فنی رچاو کے دل نشین تصورات ابھرتے ہیں۔ وہیں آپ کے نعتیہ نغمات میں اکثر اشعار مصطلحاتِ علمیہ اور تلمیحاتِ دینیہ سے ایسے مالامال ہیں کہ ان کو سمجھنے کے لیے عالمانہ فہم و فراست کی ضرورت ہے۔ آج جب کہ تعلیمی معیار بالکل گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے اور ہمارے تعلیمی اداروں میں سطحی تعلیم دی جا رہی ہے ایسے عالم میں امام احمد رضا بریلوی کے علمی و فنی خوبیوں سے آراستہ و مزین اشعار ہم جیسے کم علموں کی سمجھ سے ورا ہوتے جا رہے ہیں، مثلاً یہ شعر دیکھیں ؎
مہرِ میزاں میں چھپا ہو تو حمل میں چمکے
ڈالے اک بوند شبِ دے میں جو بارانِ عرب
اس کی ممکنہ تشریح و توضیح کے لیے ضروری ہے کہ ہم علم ہیئت سے واقف ہوں اور علم نجوم پر بھی گہری نظر ہو اور بروج و میزان اور حمل وغیرہ کے خواص سے آگاہی اور علمِ موسمیات کا بھی درک ہو تب ہی ہم اس شعر سے مکمل طور پر لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ اس شعر میں مہر- سورج، میزان- آسمان کے بارہ برجوں میں سے ساتواں برج، حمل - دنبے کی شکل کا ایک آسمانی برج، شبِ دے - اکتوبر کے مہینے کی رات … جیسی اصطلاحات کا استعمال کر کے امام احمد رضا کہتے ہیں کہ عرب ِ مقدس کی بارش اکتوبر کے مہینے کی رات میں اگر ایک قطرہ ہی گر ادے تو سورج اگر برجِ میزان میں چھپا ہو تو وہ وہاں سے نکل کر برجِ حمل میں آ کر چمکنا شروع ہو جائے گا اور خشک سالی کا نام و نشان مٹ جائے گاجو کہ عرب کے چاند سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبتِ پاک کی برکت کا ظہور ہی ہے، علاوہ ازیں یہ شعر خاطر نشین کریں ؎
بارہویں کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کا
بارہ برجوں سے جھکا اک اک ستارا نور کا
اس شعر کو بھی سمجھنے کے لیے علمِ نجوم کی اصطلاحات سے واقفیت حد درجہ ضروری ہے، اس شعر میں امام احمد رضا کے خامۂ گل رنگ نے رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف کے لیے علمِ نجوم کا استعمال کرتے ہوئے بارہ برجوں کا ذکر کر کے کہتے ہیں کہ جب بھی چاند کی بارہ تاریخ آتی ہے تو آسمان کا چاند بارہویں کے چاند یعنی رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت (۱۲؍ ربیع الاول) کی خوشی اور نسبت سے جھک جھک کر بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں آداب و سلامی بجا لاتا ہے اور نہ صرف چاند بل کہ دائرۂ فلک کے بارہ برجوں اسد، ثور، جدی، جوزہ، حمل، حوت، دلو، سرطان، سنبلہ، شرف، عقرب، میزان کا ہر ہر ستارا بھی جھک جھک کر حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سلام عرض کرتا ہے اور بہ زبانِ حفیظؔ جالندھری یوں کہتا ہے کہ ؎
ترے آنے سے رونق آ گئی گل زارِ ہستی میں
شریکِ حالِ قسمت ہو گیا پھر فضلِ ربانی
ترا در ہو، مرا سر ہو، مر اد ل ہو، تر ا گھر ہو
تمنا مختصر سی ہے مگر تمہیدِ طولانی
ہوسکتا ہے بعض حضرات یہاں معترض ہو اٹھیں کہ نعت جیسی صنف میں ان علمی اصطلاحات کا لانا کیا معنی ؟ تو اس ضمن میں عرض ہے کہ امام احمد رضا کے دور کا یہ مزاج تھا کہ شعرا اپنے اشعار میں جذبات و خیالات کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کے تجربے اور علمی اصطلاحات کو جگہ دیتے تھے اور اس عہد میں ایسے اشعار کو بہ آسانی سمجھنے والے لوگ بھی تھے جو کہ فی زمانہ مفقود ہیں۔ آج سوداؔ، ذوق ؔاور مومنؔ کے قصائد، عزیزؔ لکھنوی کے مناقب، حضرت محسنؔ کاکوروی کے نعتیہ قصیدے اور ان کی تشابیب، اور دبیرؔ کے مراثی اور ان میں پائی جانے والی تلمیحات اور مذہبی روایات آج ہمارے لیے معمہ اور چیستاں بن کر رہ گئی ہیں، جاننا چاہیے کہ اس کا سبب محض ہمارا سطحی نظامِ تعلیم ہے۔ اس لیے ایسے افکارِ عالیہ اور اصطلاحاتِ علمیہ سے سجے سنورے اشعار کو فہم نہ کر پانے کی بنیاد پر ایسا اعتراض کرنا کہ ان کو اشعار میں نظم کرنے کی کیا ضرورت تھی ادبِ عالیہ کے گراں قدر جوہر پاروں سے صرفِ نظر اور اپنی علمی بے مایگی پر پردہ ڈالنے کی سعیِ نا مشکور ہے۔
دراصل امام احمد رضا بریلوی نے اپنے کلام کے حوالے سے دنیا بھر کے علوم و فنون کا فن کارانہ اور عالمانہ استعمال کرتے ہوئے نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے قلم بند فرمائی ہے کہ آپ نے اپنی نعت گوئی سے علوم و فنون کو بھی نعتِ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم میں مصروف کر دیا ہے۔ مضمون آفرینی اور خیال آفرینی کاجو نت نئے اور جدت و ندرت سے مملو اظہاریہ آپ کے کلام میں ملتا ہے وہ باوجود تلاش و تفحص دیگر شعر اکے یہاں کم نظر آتا ہے یہ امر امام احمد رضا جیسے عاشقِ صادق کا امتیازی وصفِ خاص ہے۔
امام احمد رضا کی شاعری کا مقصد محبوبِ کردگار صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف وتوصیف اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات ادا کرنے والوں کی مذمت اور تردید کرنا ہے، چناں چہ ارشادِ عالی ہے کہ ؎
زمین و زماں تمہارے لیے مکین و مکاں تمہارے لیے
چنیں و چناں تمہارے لیے بنے دوجہاں تمہارے لیے
دہن میں زباں تمہارے لیے بدن میں ہے جاں تمہارے لیے
ہم آئے یہاں تمہارے لیے اُٹھیں بھی وہاں تمہارے لیے
دشمنِ احمد پہ شدت کیجیے
ملحدوں کی کیا مروت کیجیے
شرک ٹھہرے جس میں تعظیمِ حبیب
اس برے مذہب پہ لعنت کیجیے
اللہ جل شا نہ اور اس کے فرشتے رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے ہیں کائنات کا ہر ذرّہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہے حقیقت تو یہ ہے کہ جہاں جہاں ذکرِ خدا جاری ہے وہاں وہاں ذکرِ مصطفی بھی ہوتا ہے حضرتِ رضا بریلوی کا خامۂ گل ریز اور فکرِ عشق آمیز جب نعت نگاری کی طرف مائل ہوتی ہے تو آپ کا کمالِ علمی گہر افشانی کرتے ہوئے نعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نت نئے گل بوٹے اس شان سے کھلا تا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے، میدانِ نعت میں آپ کے علمی اصطلاحات سے آراستہ ومزین اشعار صفحۂ قرطاس پر ہماری مشامِ جان و ایمان کو معطر و معنبر کرنے لگتے ہیں۔ امام احمد رضا کی فکرِ رسا نے فضائے نعت میں پرواز کرتے ہوئے انوکھی معنی آفرینی اور جدت و ندرت کی لہلہاتی فصل اگائی ہے اس پر شرح و نقد کرنا مجھ جیسے کم علم کے بس کی بات نہیں ذیل میں کلامِ رضاسے علمی اصطلاحات پر مشتمل اشعار اور ان کے نیچے اس علم کا عنوان بلا تبصرہ درج کیا جا رہا ہے اہل علم ان اشعار سے لطف لے سکتے ہیں ؎
پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفی کہ یوں
کیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتا کیا کہ یوں
بے سہیم و قسیم و عدیل و مثیل
جوہرِ فردِ عزت پہ لاکھوں سلام
غایت و علت سبب بہر جہاں تم ہو سب
تم سے بَنا تم بِنا تم پہ کروروں درود
(علمِ فلسفہ)
وہ گراں سنگیِ قدرِ مِس وہ ارزانیِ جود
نوعیہ بدلا کیے سنگ و لآلیِ ہاتھ میں
(علمِ فلسفۂ نظری)
بارہویں کے چاند کا مجرا ہے سجدہ نور کا
بارہ برجوں سے جھکا اک اک ستار نور کا
سعدین کا قران ہے پہلوئے ماہ میں
جھرمٹ کیے ہیں تارے تجلی قمر کی ہے
دنیا، مزار، حشر، جہاں ہیں غفور ہیں
ہر منزل اپنے چاند کی منزل غُفر کی ہے
نبوی ظِل علوی برج بتولی منزل
حسنی چاند حسینی ہے چمکنا تیرا
(علم نجوم )
مہرِ میزاں میں چھپا ہو تو حمل میں چمکے
ڈالے اک بوند شبِ دے میں جو بارانِ عرب
ہیں عکسِ چہرہ سے لبِ گلگوں میں سرخیاں
ڈوبا ہے بدرِ گل سے شفق میں ہلالِ گل
سیاہی مائل اس کی چاندنی ہے
قمر کا یوں فلک مائل ہے یا غوث
طلائے مہر ہے ٹکسال باہر
کہ خارج مرکزِ حامل ہے یا غوث
(علمِ ہیئت)
زبانِ فلسفی سے خَرق و اِلْتِیام اسرا
بنایا دورِ رحمت ہائے یک ساعت تسلسل کو
محمد مظہرِ کامل ہے حق کی شانِ قدرت کا
نظر آتا ہے اس وحدت میں کچھ انداز کثرت کا
ممکن میں یہ قدرت کہاں، واجب میں عبدیت کہاں
حیراں ہوں یہ بھی ہے خطا، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
سراغِ اَین و متیٰ کہاں تھا، نشانِ کیف و اِلیٰ کہاں تھا
نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی نہ سنگِ منزل نہ مرحلے تھے
فرشتے خدم رسولِ حشم تمام امم غلام کرم
وجود و عدم حدوث و قدم جہاں میں عیاں تمہارے
( فلسفۂ مابعد الطبعیات)
محیط و مرکز میں فرق مشکل، رہے نہ فاصل خطوطِ واصل
کمانیں حیرت میں سر جھکائے عجیب چکر میں دائرے تھے
کمانِ امکاں کے جھوٹے نقطو! تم اوّل آخر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو، کدھر سے آئے کدھر گئے تھے
( فلسفۂ مابعد الطبعیات و علمِ ہندسہ)
کیا لکیروں میں ید اللہ خط سرو آسا لکھا
راہ یوں اس راز لکھنے کی نکالی ہاتھ میں
(علمِ ہندسہ)
ذرے مہرِ قدس تک تیرے توسط سے گئے
حدِّ اوسط نے کیا صغرا کو کبرا نور کا
تم سے خدا کا ظہور، اُس سے تمہارا ظہور
لِم ہے یہ وہ اِن ہوا تم پہ کروروں دُرود
سببِ ہر سبب، منتہائے طلب
علّتِ جملہ علّت پہ لاکھوں سلام
(علمِ منطق)
ترا منسوب ہے مرفوع اس جا
اضافت رفع کی حامل ہے یا غوث
(علمِ معانی و نحو)
درودیں صورتِ ہالہ محیطِ ماہِ طیبہ ہیں
برستا امتِ عاصی پہ اب رحمت کا پانی ہے
اشک برساؤں چلے کوچۂ جاناں سے نسیم
یا خدا! جلد کہیں نکلے بخارِ دامن
نبوی مینھ علوی فصل بتولی گلشن
حسنی پھول حسینی ہے مہکنا تیرا
(علمِ موسمیات)
نبوی خور علوی کوہ بتولی معدن
حسنی لعل حسینی ہے تجلا تیرا
کوہ سرمکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے
ہاتھ پڑتا ہی نہیں بھول کے اوچھا تیرا
(علمِ ارضیات و معدنیات)
رشحاتِ رضا بریلوی سے اس قبیل کے اور بھی درجنوں اشعار اخذ کر کے سجائے جا سکتے ہیں، اس مختصر سے مضمون میں اتنی ہی مثالوں پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔ وگر نہ علم و فضل کے اس بحرِ نا پیدا کنار کی کماحقہ شناوری کا حق ادا کرنا مجھ جیسے مبتدی کے لیے ہرگز ممکن نہیں۔ یہاں اشعار اور ان کے نیچے علوم و فنون کے نام درج کر دیے گئے ہیں تاکہ اہلِ علم و فہم اس کی گہرائی و گیرائی تک رسائی حاصل کر کے کلامِ رضا بریلوی میں علمی مصطلحات کی جو ضیا باریاں ہیں ان سے کیف و سرور حاصل کریں۔ حضرت امام ہی کے ایک شعر پر تشطیر کرتے ہوئے اس مضمون کا اختتام کرتا ہوں ؎
’’ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضاؔ مسلم‘‘
دنیائے علم و فن میں ہے شان تیری محکم
عشقِ شہِ دنا کے دریا بہا دیے ہیں
’’جس سمت آ گئے ہو سکے بٹھا دئیے ہیں ‘‘
۱۱؍ رمضان المبارک ۱۴۳۲ھ/ ۱۲؍ اگست ۲۰۱۱ء بروز جمعہ
٭٭٭
نعت و ہ مقدس و محترم، مکرم و محتشم اور پاکیزہ لفظ ہے جو اپنی اشاعتِ آفرینش سے ہی رسولِ رحمتﷺ کی توصیف و ثنا اور شمائل و خصائل کے اظہار و اشتہار کے لیے مختص و مستعمل ہے۔ نعت منشائے قرآن ہے۔ نعت تقاضائے ایمان ہے۔ نعت قلب و نظر کے لیے نور ہے۔ نعت روح و جگر کے لیے سرور ہے۔ نعت حریمِ جاناں میں اذانِ شوق ہے۔ نعت آبروئے فن اور معراجِ ذوق ہے۔ نعت ہر زبان کے شعر و ادب کی بلا شبہ عزت و آبروٗ اور عصمت و عفت ہے۔
برِ صغیر ہند و پاک میں فروغِ نعت کے تعلق سے اعلا حضرت امام احمد رضا قادری برکاتی محدثِ بریلوی اور ان کے تلامذہ، خلفا، مریدین، متوسلین اور معتقدین کا بہت بڑا حصہ ہے، امام احمد رضا محدثِ بریلوی کے دربارِ فیض بار کے صحبت یافتگان اور خوشہ چینوں میں ہر کوئی علم و فضل، زہد و تقوا، استقامت علیٰ الدین اور عشق و محبتِ رسول ﷺ میں اپنی مثال آپ تھا۔ ہر ایک نے امام احمد رضا کے پیغامِ عشقِ رسالت کو اکنافِ عالم میں عام کرنے کے لیے ہر ممکن قربانیاں پیش کیں۔ عشقِ رسالت مآب ﷺ کے فروغ و اشاعت کے لیے ان پاک باز افراد نے نعتیہ شاعری کو بھی اپنا شیوہ بنایا اور نعتیہ نغمات کی مشک بار خوش بُو سے اہل ایمان و اسلام کی مُشامِ جان و ایمان کو معطر و معنبر کیا۔ امام احمد رضا کے دامنِ کرم سے وابستہ حضرات نے نعتیہ شعرو ادب کے حوالے سے اردو ادب کی وہ گراں قدر خدمت انجام دی ہے کہ ’’دبستانِ دہلی ‘‘ اور ’’دبستانِ لکھنؤ‘‘ کی طرح آپ کے معتقدین کی ملکوتی اور کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی پاکیزہ شعری کائنات کو بلا شبہہ ’’دبستانِ بریلی‘‘ کے نام سے معنون کیا جا سکتا ہے۔
’’دبستانِ بریلی‘‘ کے اکثر و بیشتر شعرائے کرام صاحبِ دیوان شاعر ہیں۔ ہر ایک کا کلام اندازِ بیان کے لحاظ سے نہایت اعلا، شگفتہ و شیریں، شعری و فنی خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ، عشق و محبتِ رسول ﷺ کی تڑپ و کسک اور سوز و گداز لیے ہوئے ہے۔
نعتیہ شاعری جو کہ تلوار کی تیز ترین دھار پر چلنے کے متراد ف ہے اس میں اگر حد سے تجاوز کرتا ہے تو الوہیت کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے اور اگر کمی کرتا ہے تو شانِ رسالت میں تنقیص و گستاخی کا مرتکب قرار پا کر ایمان و اسلام کے دائرے سے خارج ہو جاتا ہے۔ اس خصوص میں امام احمد رضا محدثِ بریلوی اور ان کے پروردہ افراد کا کلام سب سے منفرد، سب سے اعلا، جملہ شرعی خامیوں اور لغزشوں سے پاک و صاف، افراط و تفریط، خیالات کی بے راہ روی اور تصنع و بناوٹ سے مبرہ و منزہ ہے۔ یہی و ہ انفرادی خوبی و خصوصیت ہے جس نے ’’دبستانِ بریلی‘‘ کے شعرائے کرام کو دیگر نعت گو شعرا سے ممتاز ترین کر دیا۔
اس سچائی اور حقیقت کا جلوہ پیشِ نظر نعتیہ دیوان ’’قبالۂ بخشش ‘‘ کے ورق ورق میں مسطور اور سطر سطر میں پنہاں ہے۔ مداح الحبیب علامہ جمیل الرحمن جمیلؔ قادری رضوی بریلوی، امام احمد رضا کی بابرکت اور فیض بخش صحبت کے خوشہ چیٖن اوراستاذِ زمن علامہ حسن رضا بریلوی (برادرِ اعلا حضرت)کے تلمیذِ ارشد تھے یہی وجہ ہے کہ علامہ جمیل الرحمن قادری رضوی بریلوی کے نعتیہ دیوان’’ قبالۂ بخشش‘‘ میں جا بجا انہی حضرات کے کلامِ بلاغت نظام کا عکسِ جمیل نظر آتا ہے نیز آپ کے کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے قبالہ ٔ بخشش‘‘…’’حدائقِ بخشش‘‘ اور ’’ذوقِ نعت‘‘ کے اشعارِ آب دار کا آسان اور سہل زبان میں شارح و ترجمان ہے۔ چند مثالیں خاطر نشین کریں ؎
مالک تجھے بنایا مخلوق کا خدا نے
اس واسطے لکھا ہے ہر شَے پہ نام تیرا
عجب نکہتِ جاں فزا ہے تمہاری
کوئی راہ بھٹکا نہ جُویا تمہارا
اسی سے ہوئے عنبر و مشک مشتق
ہے خوشبو کا مصدر پسینا تمہارا
رفعنا کا رکھا ہے تاج سر پر حق تعالیٰ نے
پھریرا عرشِ اعظم پر اڑا کس کا محمّد کا
دل کہتا ہے ہر وقت صفت ان کی لکھا کر
کہتی ہے زباں نعت محمّد کی پڑھا کر
بھول جائے باغ و گل کو چھوڑ دے سیرِ چمن
عندلیبِ زار دیکھے گر بیابانِ رسول
علامہ جمیل الرحمن قادری رضوی بریلوی کا کلام سوز و گداز، کیف و جذب اور رسول اللہ ﷺ کی محبت و الفت اور تعظیم و توقیر کی بادۂ ناب سے لوگوں کو مخمور و سرشار کرتا ہے۔ آپ کا کلام صنائع معنوی، صنائع لفظی، ایجاز و اختصار، ترکیب سازی، شاعرانہ پیکر تراشی، جدّتِ ادا اور طرزِ بیان کے علاوہ بہت ساری شعری و فنی خوبیوں کا اعلا ترین مرقع و نمونہ ہے ؎
خدا کے پیارے نبی ہمارے روف بھی ہیں رحیم بھی ہیں
شفیع بھی ہیں رسول بھی ہیں مطاع بھی ہیں قسیم بھی ہیں
مظہرِ ذاتِ خدا محبوبِ ربِّ دوسرا
بادشاہِ ہفت کشور رحمۃ للعالمیں
ہر ذرّہ میں ہے نورِ تجلائے مدینہ
ہے مخزنِ اسرار سراپائے مدینہ
آئینہ منفعل ترے جلوے کے سامنے
ساجد ہیں مہر و مہ ترے تلوے کے سامنے
محبت اس کو کہتے ہیں کہ مولائے ولایت نے
نمازِ عصر آرامِ محمد پر فدا کی ہے
جا کے صبا تو کوے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
لا کے سنگھا خوش بوئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
چاک ہے ہجرسے اپنا سینہ، دل میں بسا ہے شہرِ مدینہ
چشم لگی ہے سوے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
پُروئے جاتے ہیں مژگاں میں وقتِ ذکرِ نبی
بھرے ہیں درِّ عدن آب دار آنکھوں میں
زمینِ طیبہ نہ کیوں آسماں سے اونچی ہو
بنایا اس نے نبی کا مزار آنکھوں میں
آج عالمِ اسلام میں جہاں امام احمد رضا محدثِ بریلوی، علامہ حسن رضا بریلوی اور مفتیِ اعظم علامہ شاہ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی قدس سرہما کے نعتیہ کلام کی دھوم مچی ہوئی ہے، وہیں علامہ جمیل الرحمن قادری رضوی بریلوی کا کلام بھی نعت خوانی کی بابرکت محافل و مجالس میں خوش الحانی کے ساتھ نہایت ذوق و شوق اور محبت و الفت سے پڑھا اور سنا جاتا ہے ان نفوسِ قدسیہ کی نعتیں پڑھنے اور سننے میں ایک عجیب طرح کا لطف و سرور حاصل ہوتا ہے، طبیعت پر وجدانی کیفیت طاری ہوتی ہے، دلوں کو نور اور محبتِ رسول ﷺ کا ادراک ہوتا ہے ؎
یہ وہ محفل ہے جس میں احمدِ مختار آتے ہیں
ملائک لے کے رحمت کے یہاں انوار آتے ہیں
چلو ہے میزبانی جوش پر سرکارِ طیبہ کی
لیے رحمت کے خوانوں میں ملَک انوار آتے ہیں
وہ حسن ہے اے سیدِ ابرار تمہارا
اللہ بھی ہے طالبِ دیدار تمہارا
شاہِ کونین جلوہ نما ہو گیا
رنگ عالم کا بالکل نیا ہو گیا
منتخب آپ کی ذاتِ والا ہوئی
نامِ پاک آپ کا مصطفی ہو گیا
ایسی نافذ تمہاری حکومت ہوئی
تم نے جس وقت جو کچھ کہا ہو گیا
عاشقو ورد کرو صلِ علیٰ آج کی رات
میں پڑھوں شاہ کی کچھ مدح و ثنا آج کی رات
پردہ رُخِ انور سے جو اُٹّھا شبِ معراج
جنت کا ہوا رنگ دوبالا شبِ معراج
علامہ جمیل الرحمن قادری رضوی بریلوی کے بعض نعتیہ اشعار تو بے حد مشہور اور زباں زدِ خاص و عام ہیں۔ حتیٰ کہ بین الاقوامی شہرت یافتہ نعت خواں حضرات بھی آپ کے نعتیہ نغمات کو پڑھتے رہتے ہیں ؎
آنکھوں کا تارا نامِ محمد ﷺ
دل کا اجالا نامِ محمد ﷺ
سلطانِ جہاں محبوبِ خدا تری شان و شوکت کیا کہنا
ہر شَے پہ لکھا ہے نام ترا ترے ذکر کی رفعت کیا کہنا
یارسول اللہ آ کر دیکھ لو
یا مدینے میں بلا کر دیکھ لو
کُشتۂ دیدار زندہ ہو ابھی
جانِ عیسیٰ لب ہِلا کر دیکھ لو
میری آنکھوں میں تمہی ہو جلوہ گر
چلمنِ مژگاں اُٹھا کر دیکھ لو
نبی آج پیدا ہوا چاہتا ہے
یہ کعبہ گھر اس کا ہوا چاہتا ہے
علامہ جمیل کا یہ سلام تو مقبولِ خاص و عام ہے ؎
اے شہنشاہِ مدینہ الصلوٰۃ والسلام
زینتِ عرشِ معلا الصلوٰۃ والسلام
ربِّ ہب لی اُمّتی کہتے ہوئے پیدا ہوئے
حق نے فرمایا کہ بخشا الصلوٰۃ والسلام
بُت شکن آیا یہ کہہ کر سر کے بل بُت گر پڑے
جھوم کر کہتا تھا کعبا الصلوٰۃ والسلام
اور اس سلام کا مقطع اس قدر مشہور و معروف ہے کہ اسے ضرب المثل کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ شاید ہی کوئی صحیح العقیدہ مسلمان ایسا ہو گا جسے یہ شعر یاد نہ ہو ؎
میں وہ سُنّی ہوں جمیلِؔ قادری مرنے کے بعد
میرا لاشہ بھی کہے گا الصلوٰۃ والسلام
جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ علامہ جمیل الرحمن قادری رضوی بریلوی عاشقِ رسول امام احمد رضا بریلوی اور استاذِ زمن علامہ حسن رضا بریلوی کی آغوشِ تربیت کے پروردہ ہیں۔ حتیٰ کہ آپ کا مشہورِ زمانہ لقب ’’مدّاح الحبیب‘‘ امام احمد رضا بریلوی کا ہی عنایت فرمودہ ہے جس کا ذکر علامہ جمیلؔ ایک مقام پر اس طرح کیا ہے ؎
کر دیا تیرا لقب مرشد نے مدّاح الحبیب
کر جمیلِؔ قادری مدحت رسول اللہ کی
لہٰذا اس بات پر علامہ جمیل الرحمن قادری رضوی بریلوی کو بڑا ناز و تمکنت ہے اور ہونا بھی چاہیے کہ انھیں نفوسِ قدسیہ کے فیضانِ روحانی سے آپ کو چار دانگِ عالم میں شہرتِ دوام حاصل ہوئی۔ چناں چہ آپ نے ان دونوں حضرات کا ذکر اپنے کلام میں بہ جا کیا ہے ؎
شہرت ہے جمیلؔ اتنی تیری یہ سب ہے کرامت مرشد کی
کہتے ہیں تجھے مدّاحِ نبی سب اہلِ سنت کہا کہنا
دکھا دے فیضِ استاذِ حسنؔ حضّارِ محفل کو
جمیلِؔ قادری پھر ہو بیاں پُر لطف مدحت کا
جمیلؔ اپنے آقا کا مدحت سرا ہے
کرم ہے رضاؔ کی نگاہِ کرم کا
رضا کے ہاتھ سے پی ہے جمیلؔ نے وہ مَے
کہ جس کا روز بڑھے گا خمار آنکھوں میں
قبالۂ بخشش میں شامل نعتیہ کلام زیادہ تر غزل کے فارم میں ہے، دیگر اصناف جیسے مخمس(ترجیع بند) میں اور رباعی میں بھی آپ نے نعتیں قلم بند فرمائی ہیں۔ علاوہ ازیں میلاد نامے، سلام، مناقب، قصائد اور قطعات بھی ملتے ہیں۔ حضرت سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ کی شان میں کئی مناقب موجود ہیں جو فنی اعتبار سے بلند ہونے کے ساتھ حضرت غوثیت مآب رضی اللہ عنہ سے علامہ جمیل الرحمن قادری رضوی بریلوی کی بے پناہ الفت و عقیدت کی مظہر ہیں۔ نیز اپنے مرشدِ گرامی امام احمد رضا کی شان میں کئی قصائد بھی آپ نے ارقام کیے ہیں اس میں بھی محبت و خلوص کا دریا لہریں لے رہا ہے۔ ذیل میں بطورِ مثال اشعار ملاحظہ کیجیے ؎
خدا کے فضل سے ہم پر ہے سایا غوثِ اعظم کا
ہمیں دونوں جہاں میں ہے سہارا غوثِ اعظم کا
ہماری لاج کس کے ہاتھ ہے بغداد والے کے
مصیبت ٹال دینا کام کس کا غوثِ اعظم کا
نبی کے معجزوں کا تو ہے مظہر
بتاتے ہیں ترے آثار یا غوث
ان اشعار کے علاوہ ذیل کی منقبت جمیلؔ صاحب کی جملہ مناقب میں اسلوبِ بیان اور طرزِ اظہار کے اعتبار سے بھی بلند و بالا ہے اور مضمون آفرینی، سوزو گداز، رقت و کسک اور کرب و درد کا ایسا والہانہ آہنگ پایا جاتا ہے کہ قاری و سامع دونوں کی آنکھیں اس منقبت کی قراء ت کے دورا ن بے اختیار اشک با ر ہو جاتی ہیں۔ چند اشعار خاطر نشین ہوں ؎
جان و دل سے تم پہ میری جان قرباں غوثِ پاک
ہے سلامت تم سے میرا دین و ایماں غوثِ پاک
کب بلائیں اپنے در پر، کب رُخِ انور دکھائیں
کب نکالیں دیکھو میرے دل کا ارماں غوثِ پاک
آپ کا نامِ مقدس میرے دل پر نقش ہے
میری بخشش کے لیے کافی ہے ساماں غوثِ پاک
میری آنکھیں تیرا گنبد تیری چوکھٹ میرا سر
میرا لاشہ اور ہو تیرا بیاباں غوثِ پاک
ماہِ ربیع الآخر ۱۳۳۵ھ میں فتحِ مقدمۂ بدایوں کے موقع پر علامہ جمیل نے اپنے مرشدِ گرامی امام احمد رضا بریلوی کی شان میں جو قصائد لکھے وہ عقیدت و محبت کے مظہرِ جمیل ہونے کے ساتھ ساتھ شعریت اور فنی اعتبار سے بھی ارفع و اعلا ہیں، چند اشعار بطورِ مثال ذیل میں خاطر نشان فرمائیں ؎
آبروئے مومناں احمد رضا خاں قادری
رہِ نمائے گم رہاں احمد رضا خاں قادری
خاندانِ پاکِ برکاتیّہ کا چشم و چراغ
کہتے تھے نوری میاں احمد رضا خاں قادری
طبیعت آج کیوں ایسی رسا ہے
کہ خود اپنی زباں پر مرحبا ہے
صبا کیوں اس قدر اِترا رہی ہے
چمن میں کون سا غنچا کھلا ہے
یہ کیسے شادیانے بج رہے ہیں
یہ کیوں بابِ مسرت آج وا ہے
تحیّر جب بڑھا ہاتف پکارا
رضائے قادری دولہا بنا ہے
بریلی کا نصیبہ جگمگایا
کہ عبدالمصطفیٰ دولہا بنا ہے
علامہ جمیل الرحمن قادری رضوی بریلوی کا نعتیہ دیوان چند برسوں سے بالکل نایاب سا ہو گیا تھا۔ بہت عرصہ پہلے اسے رضا اسلامک مشن، بریلی شریف نے شائع کیا تھااس کے بعد کسی بھی ناشر نے اس کی اشاعت کی طرف توجہ نہ فرمائی۔ لہٰذا خوش عقیدہ مسلمانوں کے مابین اس کلام کی بے پناہ مقبولیت کے پیشِ نظر آل انڈیا سنّی جمعیۃ العلما شاخ مالیگاوں نے اسے جدید طرز پر، کمپیوٹر کمپوزنگ کے ذریعہ پاکٹ سائز میں منظرِ عام پر لایا ہے۔ یقینا یہ امر جملہ برادرانِ اہل سنت کے لیے فرحت و انبساط کا باعث ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ علامہ جمیل الرحمن بریلوی کی حیات و خدمات اور مکمل شعری سرمایوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کے شعری محاسن، رجحانات اور خیالات کو اجاگر کرنے کے لیے یونیورسٹی لیول کا کوئی تحقیقی مقالہ قلم بند کیا جائے تاکہ دیگر قد آور نعت گو شعرا میں آپ کے مقام و منصب کا تعین کیا جا سکے اور دنیائے ادب آپ کے شاعرانہ کمال سے کماحقہٗ واقف ہوسکے۔
٭٭٭
حضرت محدثِ اعظمِ ہند ابوالمحامد سید محمد اشرفی جیلانی کچھوچھوی نور اللہ مرقدہٗ دلِ درد مند رکھنے والے، ملت کے سچے بہی خواہ و ہم درد اور تحریک آفریں قائد تھے۔ حق پسند و حق جو اور حق شناس طبیعت کے حامل حضرت سید محمد اشرفی کچھوچھوی بہ یک وقت کئی خوبیوں اور محاسن کا حسین سنگم تھے۔ محدث و مفسر، مترجم و شارح، مفکر و مدبر، خطیب و ادیب، بے باک صحافی اور بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ کردار و گفتار میں آپ اپنے اسلاف کے پر تَو تھے۔ سیاسیات اور سماجیات کا بھی گہرا شعور رکھتے تھے۔ شریعت و طریقت اور تصوف و معرفت کے بھی کوہِ گراں تھے۔ امام احمد رضا محدثِ بریلوی (م ۱۳۴۰ھ / ۱۹۲۱ئ) کے چمنستانِ علمی کے ایک خوشہ چین اور آپ کے شاگردِ رشید اور خلیفۂ اجل تھے۔
حضرت محدث اعظمِ ہند کی ولادت ۱۵؍ ذولقعدہ ۱۳۱۱ھ / ۱۸۹۴ء کو نمازِ فجر سے قبل جائس ضلع رائے بریلی (یو۔ پی۔ ) میں ہوئی اور ۱۶؍ رجب المرجب ۱۳۸۱ھ / ۲۵؍ دسمبر ۱۹۶۱ء کو لکھنو میں وصال فرمایا اور آپ کی تدفین کچھوچھہ، ضلع فیض آباد(یو۔ پی۔ ) میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام حکیم سید نذر اشرف تھا۔ جو عابد و زاہد اور اپنے عہد کے بہترین طبیب تھے۔ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی زبان و ادب پر ملکہ رکھتے تھے اور زود گو و خوش گو شاعر بھی تھے۔
حضرت محدثِ اعظمِ ہند نے ابتدائی تعلیم والدِ ماجد سے حاصل کی۔ بعدہٗ مدرسۂ نظامیہ لکھنو جا کر مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے درس میں شریک ہوئے۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا لطف اللہ علی گڑھی، مولانا مطیع الرسول محمد عبدالمقتدر بدایونی اور مولانا وصی احمد محدث سورتی علیہم الرحمۃ جیسے جلیل القدر حضرات کا شمار ہوتا ہے۔ حضرت محدثِ سورتی سے آپ نے علمِ حدیث و اصولِ حدیث کا درس لیا۔ علاوہ ازیں امام احمد رضا محدثِ بریلوی کے حلقۂ درس میں بھی آپ نے شرکت کی اور امام احمد رضا سے فقہ اور اس کے جملہ متعلقات، افتا نویسی وغیرہ فنون میں مہارتِ تامہ حاصل کی۔ وطنِ عزیز ہندوستان کے آپ منفرد اور مایۂ ناز عالمِ حدیث مانے جاتے تھے۔ ہزارہا احادیث اسناد کے ساتھ آپ کو حفظ تھیں ، یہی وجہ ہے کہ آپ کو علمائے کرام کی ایک بڑی جماعت نے ’’محدثِ اعظمِ ہند‘‘ جیسے عظیم الشان لقب سے نوازا۔
آپ نے حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی میاں قدس سرہٗ (م ۱۳۵۵ھ) سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔ امام احمد رضا محدثِ بریلوی نے اپنی خلافت و اجازت سے نوازا، اسی طرح خلیفۂ اعلا حضرت مولانا سید احمد اشرف صاحب کچھوچھوی(م ۱۳۴۳ھ) نے بھی اپنی خلافت و اجازت عطا کی، واضح ہو کہ حضرت سید احمد اشرف کچھوچھوی علیہ الرحمہ، حضرت محدثِ اعظمِ ہند کے ماموں تھے۔
حضرت محدثِ اعظمِ ہند نے تعلیم و تربیت سے فراغت کے بعد دہلی میں ’’مدرسۃ الحدیث‘‘ کے نام سے ایک درس گاہ ِ حدیث قائم فرمائی۔ جہاں ایک کامیاب مدرس اور مشفق استاذ کی حیثیت سے طلبہ کو علومِ حدیث سے سرفراز کرتے رہے۔ آپ حسنِ باطنی اور حسنِ ظاہری دونوں کا حسین و جمیل مجموعہ تھے۔ آپ کا سراپا پُر کشش اور وجیہ و شکیل تھا، ہر دیکھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرتا، نظر ہٹانے کو دل نہیں چاہتا۔ علاوہ ان خوبیوں کے آپ ایک بے باک صحافی بھی تھے ، ۱۹۲۲ء میں کچھوچھہ سے ایک ماہ نامہ ’’اشرفی‘‘ جاری فرمایا۔ جس کی فائلوں کے مطالعہ سے آپ کی پاکیزہ صحافتی شخصیت نمایاں ہوتی ہے۔ آپ کی بے باک قائدانہ صلاحیتوں کے برِ صغیر ہندو پاک کے ممتاز علما و مشائخ قدر داں تھے۔ امام احمد رضا بریلوی کی قائم کردہ آل انڈیا جماعت رضائے مصطفیٰ کے مرکزی عہدۂ صدارت پر آپ تا حیات متمکن رہے۔ متعدد اداروں اور مدارس کی سرپرستی بھی فرماتے رہے۔ آل انڈیا سنی کانفرنس اور آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء سے بھی آپ گہری وابستگی اور محبت و انسیت رکھتے تھے۔
آپ نے آل انڈیا سنی کانفرنس بنارس(۲۷؍ تا ۳۰ ؍ اپریل ۱۹۴۶ء)، سنی کانفرنس بمبئی((۱۳؍ تا ۱۵؍ محرم الحرام ۱۳۷۷ھ / ۱۹۵۸ء)، سنی کانفرنس مالیگاوں، ناسک( ۲۲؍ تا ۲۴؍ مئی ۱۹۶۰ء )، جماعت رضائے مصطفیٰ کانفرنس گجرات( ۲۷؍ تا ۲۹؍ اپریل ۱۹۶۰ء)، آل انڈیا سنی کانفرنس اجمیر( ۷، ۸ ؍ جون ۱۹۶۴ء)، جشنِ یومِ رضا ناگ پور ( ماہِ شوال المکرم ۱۳۷۹ھ )، جیسی تاریخ ساز اور یادگار کانفرنسیس کی صدارت بھی فرمائی اور ان اجلاس میں جو تاریخی خطبۂ صدارت پیش فرمایا وہ آپ کی بالغ نظری اور دور اندیشی کے ساتھ ساتھ ملتِ اسلامیہ کے تئیں گہرے درد وکسک اور مسلکِ اعلا حضرت کی ترویج و اشاعت کے سچے جوش و ولولے اور امنگ کے آئینہ دار ہیں۔
حضرت محدثِ اعظمِ ہند درس و تدریس، خطابت و نظامت اور تبلیغ و ارشاد کے ساتھ ساتھ میدانِ فن اور ادب کے بھی شہ سوار تھے۔ آپ کے والد حکیم سید نذر اشرف بھی ایک عمدہ شاعر تھے۔ حضرت محدثِ اعظمِ ہند کو شاعری ورثے میں ملی، بچپن ہی سے شعر و سخن سے لگاؤ اور شغف تھا۔ گھریلو ماحول کی برکتیں اس پر مستزاد… آپ کا قلم نثر و نظم دونوں ہی میں یک ساں چلتا تھا۔ کئی نثری کتابیں آپ کی علمی یادگاریں ہیں۔ آپ نے بہاریہ شاعری بھی کی اور تقدیسی شاعری بھی … حمد و نعت، مناقب و سلام اور غزلیات و رباعیات پر مشتمل آپ کا خوب صورت اور د ل کش دیوان ’’فرش پر عرش‘‘ کے نام سے رضوی کتاب گھر دہلی سے شائع ہوکر داد و تحسین کی خراج وصول کر چکا ہے۔
حضرت محدثِ اعظمِ ہند کے دیوان میں نعتیہ کلام کے ساتھ ساتھ مناقب، سلام، مشہور اردو و فارسی شعرا کے کلا م پر تضامین، رباعیات اور غزلیات شامل ہیں۔ ’’فرش پر عرش‘‘ کے نعتیہ کلام نعت کے تقدس و طہارت کے ساتھ ساتھ ادب کی حُسن کاری اور نظافت سے آراستہ و مزین ہیں۔ مناقب اپنے ممدوح کے تئیں باہوش عقیدت و احترام کی عکاسی کرتی ہیں۔ غزلوں میں عشقِ حقیقی اور تصوف و معرفت کی روح پنہاں ہے اور بعض اشعار میں اخلاقِ حسنہ اور اصلاحِ امت کے موضوعات کی پرچھائیاں ابھرتی ہے۔ غرض یہ کہ عشق و عرفان کا ایک گنجینہ ’’فرش پر عرش‘‘ کے ورق ورق میں مسطورنظر آتا ہے۔ جذبات و احساسات کی ترجمانی میں صداقت اور سچائی، فکر و فن کی گہرائی و گیرائی اور فصاحت و بلاغت کے جو عناصر حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی کی نعتوں میں موج زن ہیں وہ انہیں نعت گو شاعروں میں ایک ممتاز حیثیت عطا کرتے ہیں ’’فرش پر عرش‘‘ سے چند اشعار نشانِ خاطر فرمائیں ؎
مدینے کے چرچے مدینے کی باتیں
یہی کام ہر دم کیے جا رہا ہوں
وہی مہرِ صبحِ اول وہی ماہِ شامِ آخر
وہ ازل کے رازِ پنہاں وہ ابد تک آشکارا
سلطنت اس کو کہا کرتے ہیں ماشآء اللہ
ماسوا اللہ کا سلطان ہے سلطانِ عرب
مبارک تجھ کو آزادی مبارک
اسیرِ زلف و گیسوئے محمد(ﷺ)
وہ اقتدار کہ بیٹھ آئے عرشِ اکبر پر
یہ شانِ فقر کہ لیٹے نہ نرم بستر پر
فلک پر کہکشاں صورت زمیں پر ضو فشاں صورت
سراپا نور ہیں گرد و غبارِ گنبدِ خضرا
حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی کے کلام سے جو تابندہ نقوش ذہن و دل پر ثبت ہوتے ہیں وہ فکر و نظر کو پاکیزگی اور طہارت عطا کرتے ہیں۔ آپ نے اپنے کلام کے حوالے سے سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و الفت اور تعظیم و توقیر کی ضرورت و اہمیت کا شاعرانہ اور ادیبانہ اظہار کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ طریقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا اور آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و الفت میں خود کو فنا کر دینا ہی دنیوی و اخروی نجات کا سبب ہے۔ اور کائنات ِ ارضی کی جتنی بھی چیزیں ہیں سب انہیں کے دم قدم سے قائم ہیں اور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم خدائے وحدہٗ لاشریک جل شانہٗ کے محبوبِ اکبر اور خلیفۂ اعظم ہیں ؎
نبی کا نام ہے ہر جا خدا کے نام کے بعد
کہیں درود کے پہلے کہیں سلام کے بعد
ان سے پڑی بِنائے خلق ان کے سبب قیامِ خلق
جان ہیں وہ جہان کی جان نہیں جہاں نہیں
مکاں سے لامکاں تک سب ہے ان کا
کہاں ملتی نہیں کوے محمد(ﷺ)
خدا مل گیا پا گیا تیرا در، جو شہنشاہ کہتے ہیں تیرے گدا کو
تری بھیک کھا کھا کے ہوتے ہیں خسرو، ترا جام پی پی کے ڈھلتے ہیں جامی
زمین و زماں کے لیے وہ ہیں رحمت، مکین و مکاں کے لیے ہیں ہدایت
نبیّوں کے بھی ہیں نبی یہ عمومِ رسالت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی کے کلام میں موضوعات کی طرح لفظیات میں بھی تنوع اور گہرائی ہے۔ آپ کا پیرایۂ بیان دل نشین ہے، طرزِ اظہار میں سلاست و روانی اور شگفتگی و شستگی پائی جاتی ہے، لوازماتِ شعری کا برمحل استعما ل ہوا ہے، شیرینی و حلاوت اور الفاظ کے دروبست نے آپ کے کلام کو دو آتشہ بنا دیا ہے۔ عشق و محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں والہانہ وارفتگی اور حزم و احتیاط کی جو جلوا گری ’’فرش پر عرش‘‘ میں دیکھنے کو ملتی ہے وہ آپ کے محتاط تخیل اور پاکیزہ تصور کی عکاسی کرتی ہے ؎
مقامِ عشق ہے قانون کی زد سے بہت بالا
یہاں ہر آنے والا عقل سے بے گانہ آتا ہے
مدینے کی زمیں بھی کیا زمیں معلوم ہوتی ہے
لیے آغوش میں خلدِ بریں معلوم ہوتی ہے
اللہ اللہ! آ پ کا دیدار ہے دیدارِ حق
آپ کا دربار ہے دربارِ باری یارسول
موت میں بھی زندگی بھر دی رسولِ پاک نے
جنّتیں لا کر بسادیں سایۂ شمشیر میں
ارے ہوش سیدِ پُر خطا، تو جہاں ہے آج کھڑا ہوا
یہ ادب کی جا ہے ادب کی جا، یہ حجاز ہے یہ حجاز ہے
زباں ترجمانِ کلامِ الٰہی، تبسم کو کہیے کہ برقِ تجلی
لبوں کی خموشی میں ہے کنزِ مخفی، جو بولے تو قرآن کے تیس پارے
حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی نے اس دیوان میں حروفِ ہجائیہ کا بھر پور لحاظ رکھتے ہوئے اپنا کلام پیش کیا ہے۔ اس التزام میں کہیں کہیں بڑی سنگلاخ اور ادق زمینیں منتخب کی ہیں۔ ردیفوں کی سختی اور مشکل بحروں کے انتخاب کے باوجود کلام کی روانی اور شستگی متاثر نہیں ہوئی ہے ، جن سے آپ کی قادرالکلامی مترشح ہوتی ہے۔ ذیل میں بہ طورِ مثال چند مطلعے نشانِ خاطر ہوں ؎
کعبۂ دل کی پاسبانی جھوٹ
بت کریں ایسی مہربانی جھوٹ
نہ رہی مجھ پہ وہی پہلی سی نظر کیا باعث
ہو گئے آپ کے انداز دگر کیا باعث
بے سبب دیتے نہیں دل کو وہ ہیں تیور آنچ
کبھی کندن نہ ہو کھا جائے نہ جب ستّر آنچ
عمل پر نہ ہے اتقا پر گھمنڈ
ہمیں ہے شہ انبیا پر گھمنڈ
خدا کی حمد ہے لیل و نہار کا تعویذ
درودِ پاک ہے روزِ شمار کا تعویذ
اے بوالہوس پہاڑ ہے یہ مرحلا پہاڑ
ہشیار باش! عشق ہے سب سے بڑا پہاڑ
مستیِ دید سے ہے لغزشِ رفتار ہنوز
شوخ ہے حشر میں بھی ان کا گنہگار ہنوز
گل بھی خاموش ہیں بلبل کا گلا بھی خاموش
دل کی خاموشی سے ہے ساری فضا بھی خاموش
حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی نے اپنے کلام کے ذریعہ اصلاحِ امت اور رشدو ہدایت کاکام لیا ہے، آپ کے اخلاقِ حسنہ اور پند و نصائح سے مملو اشعار ملتِ اسلامیہ کی اصلاح و تذکیر اور تزکیہ و صفائی کے ضمن میں آپ کے مخلصانہ سوزِ دروں کو نمایاں کرتے ہیں آپ نے خوابِ غفلت میں مست قومِ مسلم کو بیدار کرنے کا انقلابی پیغام دیا ہے ؎
سونے والو! جاگو جاگو اس نیند کی دنیا سے بھاگو
جو قوم کہ سوتی رہتی ہے تقدیر بھی اس کی سوتی ہے
آج عبادت و ریاضت میں خلوص کا اعلا جوہر مفقود ہوتے جا رہا ہے، ریا کاری کی جو تباہ کاریاں ہیں وہ اہلِ فہم پر روشن ہیں۔ جزا و سزا تو فقط رب العزت کی عطا پر منحصر ہے۔ بیش تر عبّاد و زُہّاد رضائے الٰہی کے بجائے لذّاتِ جنت کی طلب اور ہوس میں میدانِ عمل میں سرگرم دکھائی دیتے ہیں، ایسے افراد کا دل خانۂ خدا نہیں بل کہ صنم کدہ ہے، حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی کا اظہارِ صداقت دیکھیے ؎
کہاں ہے رند جو ممنونِ مدعا نہ ہوا
وہ رند ہی ہے کہ جو طالبِ جزا نہ ہو
وہ دل جو رکھتا ہے لذّاتِ خلد ہی کی ہوس
صنم کدہ تو ہوا خانۂ خدا نہ ہوا
نفسِ امّارہ کے دامِ فریب میں آنا آج اچھے اچھوں کا شیوا بنتا جا رہا ہے، سید محمد کچھوچھوی کہتے ہیں کہ جو نفس کو کچل ڈالے وہ تو غازی اور شہید کہلانے کا مستحق ہے۔ نفسِ امّارہ کو نفسِ مطمئنہ میں بدلنا حد درجہ ضروری ہے ؎
نفس کو جس نے قتل کر ڈالا
لقب اس کا شہید و غازی ہے
دنیا بھر میں مسلمان باہم دست و گریبان ہیں جب کہ دشمنانِ اسلام الکفر ملت واحدہ بن کر اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے کمر بستہ ہی نہیں بل کہ ہر ممکن حربے استعمال کرنے میں شب و روز مصروف ہیں ایسے حالات میں ایمان و عقیدے کی سلامتی کے ساتھ مسلمانوں کا اتحاد ضروری ہو جاتا ہے اور ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان سے محبت و انسیت اور امداد و اعانت بھی مزید فرض ہو جاتی ہے کہ یہی درس سیرتِ طیبہ میں بھی ملتا ہے اور اسلاف کے عمل سے بھی ؎
کفر سے کفر بغل گیر نظر آتا ہے
کیوں نہیں ہوتے مسلماں بھی مسلماں کے قریب
رخِ روشن سے داغِ دل کو روشن کر کے فرمایا
خدا نے فرض کی نصرت مسلماں کی مسلماں پر
حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی کہتے ہیں کہ پوری امتِ مسلمہ ایک جسم کے مانند ہے ہمارا حال تو یہ ہونا چاہیے کہ کہیں بھی کسی مسلمان کو تکلیف ہو تو ہمیں اس کا درد محسوس ہو اگر یہ احساس امت میں بیدار ہو جائے تو کوئی بھی قوم ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی ؎
قوم کا کوئی تڑپ جائے تو تڑپے سب قوم
جیسے جب پاوں جلا آنے لگی سر پر آنچ
ان اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی کے دل میں ملتِ اسلامیہ کا سچا درد تھا اور حقیقت بھی یہی ہے کہ آپ ایک دوٗر اندیش اور بالغ نظر سیاسی دیدہ وری کے حامل فرد تھے۔ آپ کا سیاسی نظریہ پاکیزہ اور تاب نا ک تھا۔ آپ سیاست پر مذہب کو قربان کرنے والوں میں سے نہیں تھے جیسا کہ آپ کے عہد میں کئی علما نے ایسا کیا۔ سیاست اصولاً بُری چیز نہیں ہے بل کہ بازی گرانِ سیاست نے اسے بُرا بنا ڈلا ہے۔ افسوس! تو یہ ہے کہ عصری سیاست دانوں کی طرح بعض ناعاقبت اندیش اور خدا ناترس علما بھی اپنے مقام و منصب کی پاکیزگی اور رفعت کو فراموش کرتے ہوئے گندی سیاست کے اسیر ہوتے جا رہے ہیں اور علما کی قدر و منزلت پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔ حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی کا تیور قابلِ ملاحظہ ہے ؎
سیاست بھی اور مولویت بھی سیدؔ
خطرناک ہیں آج کل کے اندھیرے
حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی علیہ الرحمہ ’’دبستانِ رضا‘‘ کے ہی ایک باکمال شاعر وادیب ہیں، آپ کے کلام میں بھی اس تقدیسی اور ملکوتی اوصاف کے حامل شعرائے نعت کی طرح جذبے کا التہاب اور تعظیم و توقیرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں صداقت پائی جاتی ہے۔ امام احمد رضا محدثِ بریلوی کی فیض بخش صحبت نے بھی آپ کی شاعرانہ اور ادیبانہ عظمتوں کو صیقل کیا۔ آپ کے کلام میں فکرِ رضا اور استاذِ زمن علامہ حسن رضا بریلوی کی شاعری کا تتبع نظر آتا ہے۔ ’’فرش پر عرش‘‘ میں جہاں دیگر شعرا کے کلام پر تضامین ہیں وہیں امام ِ نعت گویاں حضرت رضا بریلوی کی مشہورِ زمانہ نعت ’’ کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمہاری واہ واہ‘‘ پر تضمین بھی شامل ہے۔ امام احمد رضا کی اس لاجواب اور بے مثل نعت پر آپ نے جس خوب صورتی اور ہنر مندی سے تضمین قلم بند کی ہے وہ آپ ہی کا حصہ ہے۔ تضمین پڑھنے کے بعد پیوند کاری کا شائبہ تک نہیں گذرتا، دل کش علائم، تشبیہات واستعارات اور عمدہ لفظیات کی جو رعنائی کلامِ رضا پر لکھی گئی تضمین میں نظر آتی ہے وہ ہمیں دیر تک مسحور کیے رہتی ہے اور تضمین نگار کی ادیبانہ و شاعرانہ حیثیت کا معترف بھی کرتی ہے بہ طورِ مثال دو بند نشانِ خاطر ہوں ؎
پنجۂ قدرت ہے ہر انگشت بہرِ بحر و بر
جب پھریں سورج پھرا اُٹھّیں تو دو ٹکڑے قمر
جھک رہا ہے ان کے آگے ابرِ نیساں کا بھی سر
’’انگلیاں ہیں فیض پر ٹوٹے ہیں پیاسے جھوم کر
ندّیاں پنجابِ رحمت کی ہیں جاری واہ واہ‘‘
غنچۂ دل کیوں کھلا کیوں رو بہ صحت ہے مزاج
داغ سب گل بن کے کیوں مہکے، گیا کیوں اختلاج
کس کے کوچے کی ہوا نے کر دیا میرا علاج
’’کیا مدینے سے صبا آئی کہ پھولوں میں ہے آج
کچھ نئی بُو بھینی بھینی پیاری پیاری واہ واہ‘‘
حضرت سید محمد کچھوچھوی علیہ الرحمہ نے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی میں بھی کامیاب طبع آزمائی فرمائی ہے۔ ’’فرش پر عرش‘‘ میں کئی کلام عربی اور فارسی میں موجود ہیں جو آپ کے لسانی تنوع پر دال ہیں۔ کئی مشہورِ زمانہ فارسی شعرا کی غزلوں پر اردو تضمین بھی آپ کے فنّی علو کی غمازی کرتی ہیں۔
بہ ہر کیف! حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی علیہ الرحمہ کی شعری کائنات اپنے اندر پاکیزگی اور ملکوتی اوصاف لیے ہوئے ہے۔ جذبے کی صداقت و نظافت، محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار میں شعری و شرعی حُسن و طہارت، ملتِ اسلامیہ کی اصلاح و تذکیر کے لیے سچی تڑپ اور دیگر فنی محاسن آپ کی نعتوں کو ایک پُر کشش تاثیر عطا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نعت خوانی کی محفلوں میں آپ کے نعتیہ اشعار وجد و سرور کے ساتھ پڑھے اور سنے جاتے ہیں۔ قابلِ مبارک باد ہیں حضرت غلام ربانی فداؔ صاحب کہ جنہوں نے حضرت محدثِ اعظمِ ہند سید محمد کچھوچھوی علیہ الرحمہ کی نعت گوئی پر یہ عمدہ گوشہ جہانِ نعت کے حوالے سے آراستہ کیا ہے۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ربانی صاحب کی یہ مساعیِ جمیلہ شَرَفِ قبول حاصل کرے(آمین بجاہ الحبیب الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وصحبہٖ وبارک وسلم)۔
حضرت علامہ و مولانا محمد سعید اعجازؔ کامٹوی رحمۃ اللہ علیہ بجا طور پر فصیح اللسان، ساحر البیان اور قاریِ خوش الحان جیسے مہتم بالشان القاب کا استحقاق رکھتے تھے۔ آپ اپنے مخصوص، منفرد اور مترنم لب و لہجے میں جب قرآنِ پاک کی تلاوت فرماتے یا حمدِ باریِ تعالیٰ، نعت و سلام اور مناقب گنگناتے تو محفل پر ایک روحانی سماں چھا جاتا اور سامعین کیف و سرورکے عالم میں بے ساختہ جھوم جھوم اُٹھتے تھے۔ آپ کے وعظ و ارشاد کی نورانی و عرفانی مجالس کی روشن و تاب ناک یادیں اب بھی حاشیۂ ذہن و قلب میں تر و تازہ ہیں، آپ کی غنائیت اور نغمگی سے آراستہ و مزین آواز اب بھی کانوں میں رس گھولتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
حضرت مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی اپنے عہد کی ایک ممتاز اور ہر دل عزیز شخصیت کا نام ہے۔ آپ بہ یک وقت کئی خوبیوں اور صفات کا مجموعہ تھے۔ آپ عالم، حافظ، قاری، شاعر، ادیب، خطیب، طبیب، محقق، دانش و ر، مدرس، مصلح، مفکر، مدبر، تاجر، سیاح اور ان سب سے بڑھ کر پُر کشش شکل و صورت کے مالک ایک اچھے اور مقبول انسان تھے۔
مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی صاحب کی ان گوناگوں اور متنوع خوبیوں میں سے ایک نمایاں وصف آپ کی شعر گوئی ہے جو اس وقت راقم کی تبصراتی کاوش کا عنوان بننے جا رہی ہے۔ یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ زود نویسی اور زود گوئی میں آپ اپنے عہد کے شاعروں میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ آپ کے یہاں آمد آمد کا وہ چشمۂ جاری رواں دواں رہا کرتا تھا کہ بارہا مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ آپ کے اجلاس اگر ایک دن میں تین مختلف اوقات اور مقامات پر ہیں تو تینوں جگہوں پر آپ نیا نعتیہ کلام اور تازہ ترین سلام پیش فرمایا کرتے تھے۔ افسوس صد افسوس! کہ اب تک آپ کا کوئی وقیع شعری مجموعہ منصۂ شہود پر جگمگا نہیں سکا۔ ہاں ! چند نعتوں اور سلام پر مشتمل ایک مختصر سا کتابچہ تقریباً ۸۰ ؍ کی دہائی میں مدرسہ اہل سنت تجوید القرآن واقع دفتر آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء شاخ مالیگاؤں کے زیرِ اہتمام شائع ہو کر مقبول ہو چکا ہے۔ آپ کے متوسلین اور صاحب زادگان کو چاہیے کہ حضرت اعجازؔ صاحب کے نعتیہ کلام اور سلام و مناقب کو یک جا کر کے منظر عام پر لائیں تاکہ عوام و خواص آپ کی شاعرانہ خوبیوں اور کلامِ بلاغت نظام سے لطف اندوزہوسکیں۔
مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی تا عمر رسولِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف کے گن گاتے رہے۔ حتیٰ کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے منسوب تاج دارِ مدینہ کانفرنس، ممبئی میں درود و سلام اور ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہوئے ہی آپ کی طبیعت ناساز ہوئی اور آپ اس دارِ ناپائدار سے رخصت ہوئے۔ وصال سے دو روز قبل مالیگاؤں میں اولیا مسجد نہال نگر کے پاس منعقدہ ایک جلسۂ عام میں اپنی مخاطبت کے دوران آپ نے ایک قطعہ سنایا جسے اس مقام پر درج کرنا راقم مناسب خیال کرتا ہے ؎
خدانخواستہ پھر یہ گھڑی ملے نہ ملے
یہ نیک لمحہ تمہیں پھر کبھی ملے نہ ملے
نبی کی بزم ہے پڑھتے رہو دُرود و سلام
پھر اس مقام پہ یہ زندگی ملے نہ ملے
کسے خبر تھی کہ اب اہل سنت کا یہ فصیح اللسان اور ساحر البیان خطیب و شاعر اپنے مالکِ حقیقی سے ملنے والا ہے۔ حضرت مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی کے وصال کی خبر سُن کر بار بار یہ مصرعے ذہن و قلب میں گونجتے رہے اور یہ احساس پروان چڑھنے لگا کہ حضرت اعجازؔ صاحب کامٹوی کو اس امرِ ربی کا کسی نہ کسی درجے میں کشف ہو گیا تھا۔ حضرت اعجازؔ صاحب کی ذات میں جو عاجزی، انکساری، ملنساری، شفقت و محبت اور خلوص و للہیت تھی وہ اب خال خال ہی نظر آتی ہے۔ مدرسہ اہل سنت تجوید القرآن کے اجلاس میں آپ بارہا تشریف لاتے تھے۔ ناچیز وہیں تعلیم حاصل کرتا تھا جب جب مَیں نے اعلا حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی کے کلام کے بعد آپ کا مرقومہ کلام سنایا آپ نے حوصلہ افزائی اور پذیرائی فرماتے ہوئے انعام و اکرام اور دعاؤں سے نوازا۔ اعجازؔ صاحب کی طرح دیگر با وقار علمائے اہل سنت کی نوازشات کا صدقہ ہے کہ مجھ جیسا بے بضاعت اور کم علم دین کی خدمت کے لائق بن سکا۔
حضرت مولانا سعید اعجاز ؔ کامٹوی نے اپنے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اظہار کا وسیلہ نعت گوئی کو بنایا اور میدانِ شعر و ادب میں فکر و فن کے وہ اجلے اور روشن نقوش ثبت فرمائے کہ دل سے بے ساختہ سبحان اللہ ! کی داد نکلتی ہے۔ آپ نے اپنی نعتیہ شاعری کے ذریعہ امام احمد رضا محدث بریلوی کے مسلکِ حق و صداقت اور پیغامِ عشقِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے استحکام اور فروغ و ارتقا کا کام بھی لیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ وصال سے چند روز قبل مالیگاؤں میں اولیا مسجد کے پاس ایک جلسۂ عام میں آپ نے اپنے مخصوص لب و لہجہ میں ایک خوب صورت اور دل کش نعت پیش کی جس کا ایک شعر یوں تھا کہ ؎
مسلکِ حق کے تحفظ کی ضمانت ہے یہ نام
اس لیے دوستو! مَیں نامِ رضا لیتا ہوں
اسی طرح ایک قطعہ بھی ارشاد فرمایا جس میں مرکزِ اہل سنت بریلی شریف کا بڑی عقیدت و محبت سے ذکر کیا گیا ہے ؎
چراغِ عقیدت جلا کے تو دیکھو
اُجالے کی دنیا میں آ کے تو دیکھو
یہیں سے مدینہ نظر آئے گا
بریلی کا سرمہ لگا کے تو دیکھو
متذکرۂ بالا شعر اور قطعہ سے یہ امر ظاہر ہوتا ہے کہ کہ آپ نے اخیر عمر تک مسلکِ اعلا حضرت اور مرکزِ اہل سنت بریلی شریف سے اپنی گہری قلبی و فکری وابستگی کا برملا اظہار بھی کیا ہے جو لائقِ تحسین و آفرین ہے۔
حضرت مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی کے نعتیہ کلام کی عدم دست یابی کے سبب محض چند نعتوں اور سلام پر مشتمل پیشِ نظر مجموعہ اور حافظ محمد شاہد کاملی (خطیب و امام اولیا مسجد نہال نگر، مالیگاؤں ) اور حافظ محمد شاہد رضوی ابن قاری محمد سعید نوری(امام حاجی دوست محمد مسجد، مالیگاؤں )کے ذریعہ موصولہ چند کلام کو سامنے رکھ کر مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی کی سعادت افروز نعتیہ و سلامیہ شاعری پر یہ مختصر سا مضمون سپردِ قرطاس کر رہا ہوں وگر نہ آپ کی وسیع تر شعری کائنات طویل ترین تبصرے کی متقاضی ہے۔
مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی کی شاعری عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایسا دل کش اور دل نشین طرزِ اظہار اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جو قلب و نظر کو صیقل و مجلا کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ جذبات و خیالات اور محسوسات کی جو بلندی، شگفتگی اور پاکیزگی آپ کے کلام کی زیریں رَو میں پنہاں ہے وہ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں آپ کے مخلصانہ اور مومنانہ رویّوں کی غمازی کرتی ہیں، چند اشعار نشانِ خاطر فرمائیں ؎
کون کہتا ہے کہ مرقد میں اندھیرا ہو گا
وہ جو ہوں گے تو اُجالا ہی اُجالا ہو گا
صدر اس کے مرے سرکارِ دو عالم ہوں گے
اُن کے دیوانوں کا محشر میں بھی جلسہ ہو گا
غمِ دوراں کی کڑی دھوپ سے بچنے کے لیے
سایۂ گیسوے سرکار میں آلوں تو چلوں
مرے ذوقِ نظر پر ہو گئی رحمت محمد کی
مدینہ دور ہے آنکھوں میں ہے صورت محمد کی
جہاں ہوتی ہے انساں کو ندامت اپنے عصیاں پر
اسی منزل کا شاید نام ہے رحمت محمد کی
میرا دل بے نیازِ صلہ ہے، دل میں کوئی تمنا نہیں ہے
جب سے دیکھا ہے باغِ مدینہ، سر میں جنت کا سودا نہیں ہے
سعید اعجازؔ کامٹوی صاحب نے اپنے شعروں میں لفظ و بیان، جذبہ و تخیل اور فکر و فن کے جو جادو جگائے ہیں وہ اسلوبیاتی لحاظ سے بھی بڑی عمدگی اور نفاست کے حامل دکھائی دیتے ہیں۔ انوکھی لفظیات کے انسلاکات، تراکیب اور پیکرات کا فن کارانہ استعمال آپ کی قادرالکلامی کو عیاں کرتے ہوئے آپ کے ایک صاحبِ فکر و نظر اور لب و لہجے کے شاعر ہونے کا اشاریہ بھی ہیں۔ علم و فن کی گہرائی و گیرائی اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و سچائی سے مملو آپ کے نعتیہ اشعار میں جو دل آویز کیفیتیں پیدا ہو گئی ہیں وہ متاثر کن ہیں۔ خیال آفرینی اور مضمون آفرینی کی سطح پر بھی آپ کی شاعری ندرتِ اظہار اور جدتِ ادا کے جواہر پارے اپنے اندر سموئے ہوئے فصاحت و بلاغت کا دل کش مجموعہ بن گئی ہے ؎
ہیں محوِ خرام آقا اب میرے تصور میں
اے عمرِ رواں میری للہ ٹھہر جانا
بس عشقِ محمد کے شانے کی ضرورت ہے
مشکل نہیں گیسوئے دوراں کا سنور جانا
محفلِ نور شبِ غم میں سجا لیتا ہوں
دل کی آواز سے آواز ملا لیتا ہوں
صبح کے وقت بہ فیضانِ نسیمِ طیبہ
اپنے سرکار کے دامن کی ہَوا لیتا ہوں
شبِ غم نیند بھی آئی تو اِس امید پر آئی
کہ شاید خواب ہی میں دیکھ لوں صورت محمد کی
معجزانہ کرم کے تصدق، آپ کی ہر عنایت پہ قرباں
سر پہ امت کا سایا ہے لیکن، جسمِ انور کا سایا نہیں ہے
روحِ پیغامِ سرورِ عالم
عین میم اور لام کیا کہیے
جامِ کوثر کی آرزو نہ رہی
ان کی نظروں کا جام کیا کہیے
ان کے رندوں کے نام آتا ہے
زاہدوں کا سلام کیا کہیے
حالِ اعجازؔ سے ہیں وہ واقف
پھر کسی سے پیام کیا کہیے
مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی کی شاعری کی خصوصیات میں سے ایک قابلِ لحاظ پہلو یہ بھی ہے کہ آپ نے اردو زبان، محاورات اور روزمرہ کے استعمال کے ساتھ عربی، فارسی اور پوربی بولی کے انسلاکات سے اپنے کلام کو متنوع رچاؤ کا آئینہ دار بنا دیا ہے۔ کئی نعتیں تو مکمل پوربی بولی میں ہیں اور بعض نعتوں میں اردو اورفارسی لفظیات کے ساتھ پوربی بولی کی ادیبانہ آمیزش کی ہے، جو آپ کے پیرایۂ زبان و بیان کی ایک مخصوص لَے ہے۔ جاننا چاہیے کہ آپ نے جن بحروں کا انتخاب کیا ہے وہ اپنے اندر بلا کی نغمگی، غنائیت اور موسیقیت لیے ہوئے ہیں۔ آپ جب خود اپنے نعتیہ کلام کو مخصوص طرزِ ادا اور مترنم آہنگ کے ساتھ سناتے تھے تو مجمع پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی تھی لوگ دیر تک آپ کی متاثر کن ترنم ریزی کے سبب جھومتے رہا کرتے تھے۔ زبان و بیان کے متنوع رچاؤ اور پوربی بولی کے چند اشعار نشان خاطر فرمائیں ؎
جانے کیا بات ہے گل زار بہت مہکت ہے
پھول کا کیا کہوں ہر خار بہت مہکت ہے
تمہرا دیس تو سرکار سمندر وہی پار
پر یہوٗ پار بھی وہوٗ پار بہت مہکت ہے
ہائے سدھ بدھ نہ رہی ساری فکر بھول گیوں
اپنا گھر بھول گیوں اپنا نگر بھول گیوں
موری ای بھول پہ یادَن بھی نچھاور اعجازؔ
آیوں طیبہ میں تو نکلے کی ڈگر بھول گیوں
مورکھ ہے حیاتِ آقا میں کچھ شک جو کوئی دکھلاوت ہے
تیرہ سو برس کے بعد بھی اُوٗ امت پہ کرم فرماوت ہے
سرکار میں تم کا مان گیوں، مختار کا مطلب جان گیوں
ای چاند اُدھر جھک جاوت ہے جَے ہَے پور اشارا پاوت ہے
………
مدت سے یہ دل ہے بے تابِ ہجراں، بے تابِ ہجراں
سنسان دن ہے تو راتیں ہیں ویراں، راتیں ہیں ویراں
ایک ایک لمحہ ہے محشر بداماں، محشر بداماں
کیسے کٹے جیون کی لمبی ڈگریا
تم بِن اے آمنہ کے لال
چرخِ نبوت کے تم ماہِ اختر، تم ماہِ اختر
تم سے ہی چمکے ہیں مانندِ اختر، مانندِ اختر
صدیق و فاروق و عثمان و حیدر، عثمان و حیدر
چاروں رکھیں پلکن پہ تمہرا چرنوا
پائن عروج و کمال
سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں صلاۃ و سلام کا نذرانہ پیش کرنا اہلِ عقیدت و محبت کا شیوہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خود اللہ جل شانہٗ اور اس کے مقرب فرشتوں کا بھی یہ معمول ہے، چناں چہ ارشادِ پاک ہے : بے شک اللہ اور اس کے فرشتے دُرود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر تو اے ایمان والو! تم بھی دُرود بھیجو اور خوب سلام(سورہ احزاب)۔
اس آیۂ کریمہ کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو جملہ اعمال میں دُرودِ پاک کی فضیلت اور اہمیت ایمان و عقیدے کی سلامتی کے ساتھ اولیت کا درجہ رکھتی ہے۔ جب تک نعت نگار شاعر بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں نذرانۂ سلام پیش نہیں کرے گا وہ میرے نزدیک ناقص نعت گو شاعر کہلائے گا۔ اعلا حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا سلام ؎
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
تو آفاقی شہرت اور مقبولیت کا حامل ہے۔ بیش تر شعرائے گرامی نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں ہدیۂ سلام نچھاور کرتے ہوئے اپنی عقیدت مندی اور سعادت مندی کا ثبوت دیا اور اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کو صیقل کیا ہے۔ مولانا سعید اعجازؔ کامٹوی کا یہ انفرادی اور توصیفی پہلو ہے کہ آپ نے مختلف ہیئتوں اور ٹیکنک کا استعما ل کرتے ہوئے سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عظمت نشان میں صلاۃ و سلام کا تحفۂ خلوص و محبت لٹایا ہے۔ عقیدے اور عقیدت کی خوب صورت پرچھائیوں کے جِلو میں فکر و فن کے جو دل کش نقوش صنفِ سلام میں آپ نے اُبھارے ہیں ان سے بھی آپ کی شاعرانہ صلاحیتیں نکھر نکھر کر سامنے آئی ہیں۔
صنفِ سلام سے آپ کا والہانہ اور فطری لگاؤ قابل تحسین تھا۔ میرا بارہا مُشاہدہ رہا ہے کہ آپ ہر اجلاس میں ایک نیاسلام لے کر حاضر ہوا کرتے اور اپنی بھرپور مترنم آواز میں پڑھا کرتے تھے۔ آپ کی زنبیلِ شاعری میں ایسے نہ جانے کتنے سلام جگمگ جگمگ کر رہے ہوں گے اس کا حتمی علم نہیں۔ حضرت کے معتقدین کو چاہیے کہ آپ کے کلام کی اشاعت کی کوئی نہ کوئی ترکیب ضرور پیدا کریں۔ سعید اعجازؔ کامٹوی کے مرقومہ مختلف سلام سے بہ طورِ نمونہ ذیل میں کچھ بند خاطر نشین فرمائیں ؎
اے حبیبِ احمدِ مجتبیٰ دلِ مبتلا کا سلام لے
جو وفا کی راہ میں کھو گیا اُسی گم شدہ کا سلام لے
اے حبیبِ احمدِ مجتبیٰ دلِ مبتلا کا سلام لے
ترے آستاں کی تلاش میں، تری جستجو کے خیال میں
اے شہ زمن، دل و جانِ من، اے سراپا رحمتِ ذوالمنن
جو لٹا چکا ہے متاعِ دل، اُسی بے نوا سلا م لے
اے حبیبِ احمدِ مجتبیٰ دلِ مبتلا کا سلام لے
………
الصلاۃ والسلام
اے نبی اقصیٰ مقام
السلام
رہبرِ اعظم نورِ مجسم
آپ کا عالم، کیا کہیے کیا کہیے
قامتِ زیبا، روئے مصفّا
حُسن میں یکتا کیا کہیے کیا کہیے
آپ کا جلوہ جلوۂ حق
باطل کا چہرہ ہے فق
رحمتِ یزداں، زیست کے عنواں، درد کے درماں
اک نگاہِ فیضِ عام، لیجیے سب کا سلام السلام
الصلاۃ والسلام
اے نبی اقصیٰ مقام
السلام
………
ہے سارے غلاموں کی یہ صدا
السلامُ علیک رسول اللہ
ہم پر ہو نگاہِ لطف و عطا
السلامُ علیک رسول اللہ
اے آمنہ بی بی کے دل بر، یا نبی یا رسول
اے سارے غلاموں کے سرور، یا نبی یا رسول
اے جملہ رسولوں سے برتر، یا نبی یا رسول
معراج میں تھے مہمانِ خدا
السلامُ علیک رسول اللہ
………
صلِ علا سیدنا خیر الانام
میرے نبی پر ہو لاکھوں سلام
لطف و کرم کی آس لگی ہے
دھوپ ہے غم کی پیاس لگی ہے
بہرِ خدا اب ہو عطا کوثر کا جام
میرے نبی پر ہو لاکھوں سلام
صلِ علا سیدنا خیرالانام
میرے نبی پر ہو لاکھوں سلام
………
اے عرَبی ہاشمی آپ پہ لاکھوں سلام
آپ سے بگڑی بنی آپ پہ لاکھوں سلام
آپ ہی ذات پر آپ ہی کے نام پر
ختم ہوئی پیغمبری آپ پہ لاکھوں سلام
اے عرَبی ہاشمی آپ پہ لاکھوں سلام
………
اے شہِ انام لیجیے سلام عرض ہے سلام لیجیے سلام
وہ آدم و مسیح ہوں یا ذبیح ہوں یا خلیل ہوں
کلیمِ حق طراز ہوں کہ یوسفِ جمیل ہوں
وہ عالمِ ملائکہ کے صدر جبرئیل ہوں
سب کے آپ امام، لیجیے سلام
اے شہِ انام لیجیے سلام عرض ہے سلام لیجیے سلام
حضور اپنے گھر کی زندگی کا صدقہ دیجیے
حضور اپنے در کی روشنی کا صدقہ دیجیے
حسن حسین و فاطمہ علی کا صدقہ دیجیے
سب ہوں شاد کام، لیجیے سلام
اے شہِ انام لیجیے سلام عرض ہے سلام لیجیے سلام
………
مصطفی مجتبیٰ پہ کروروں سلام
سرورِ انبیا پہ کروروں سلام
چاند ٹکڑے ہوا، سورج اُلٹے پھرا
قدرتِ مصطفی پہ کروروں سلام
اس سے روشن ازل، اس سے روشن ابد
شمعِ غارِ حرا پہ کروروں سلام
………
آپ کا کہنا ہی کیا آپ ہیں خیرالانام
آپ پہ لاکھوں دُرود آپ پہ لاکھوں سلام
آپ شہِ مشرقین آپ شہِ مغربین
فاتحِ بدر و حنین جدِ امامِ حسین
آمنہ کے نورِ عین، قلبِ غریباں کے چین
تاجِ شہی آپ کے قدموں کی ٹھوکر کا نام
آپ پہ لاکھوں دُرود آپ پہ لاکھوں سلام
ہستیِ قطرہ کہاں، وسعتِ دریا کہاں
فرش کا ذرّہ کہاں، عرش کا تارا کہاں
میرا نصیبہ کہاں، آپ کا روضہ کہاں
آپ کی جالی کے پاس آپ کا ادنا غلام
آپ پہ لاکھوں دُرود آپ پہ لاکھوں سلام
نعت و سلام کے علاوہ سعید اعجازؔ صاحب نے مناجات و دعا اور مناقب بھی قلم بند فرمائے ہیں آپ کی زبانِ فیض ترجمان سے مختلف اجلاس میں مَیں نے بیش تر مناقب سماعت کی ہیں۔ آپ کی مرقومہ مناقب میں آپ نے اپنے اسلافِ کرام سے والہانہ محبت و الفت کا اظہار و ابلاغ شاعرانہ نزاکتوں اور عقیدت مندانہ لطافتوں کے ساتھ کیا ہے، جن سے آپ کی اپنے بزرگوں کے تئیں مخلصانہ شیفتگی اور وارفتگی ظاہر ہوتی ہے۔ آپ کے خامۂ مشک بار سے نکلی ہوئی ایک مناجات تو شہرت و مقبولیت کے افق پر پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہی ہے۔ اللہ جل شانہٗ کی بزرگی اور مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کا صدقہ طلب کرتے ہوئے بارگاہِ رب العزت میں استغاثہ و فریاد کا یہ انداز آپ کی خوش عقیدگی کا مظہر ہے۔ اعجازؔ صاحب کی مقبولِ خاص و عام مناجات ذیل میں ملاحظہ ہو ؎
یا خدا صدقہ کبریائی کا
صدقہ اُس نورِ مصطفائی کا
سیدھا رستہ چلائیو ہم کو
پیچ و خم سے بچائیو ہم کو
مرتے دم غیب سے مدد کیجو
ساتھ ایمان کے اُٹھا لیجو
جب دمِ واپسیں ہو یا اللہ
لب پہ ہو لااِلٰہ الا اللہ
حضرت مولانا سعید اعجاز ؔ کامٹوی علیہ الرحمہ کو سچا خراجِ عقیدت یہ ہو گا کہ ان کے متوسلین، معتقدین، منتسبین اور صاحب زادگان ان کے منتشر کلام کو یک جا کر کے منصۂ شہود پر جلوہ گر کر دیں اُن کے اس امر سے حضرت اعجازؔ صاحب کی روح کو یقیناً خوشی حاصل ہو گی۔
۱۵؍شعبان المعظم ۱۴۳۲ھ بمط ۱۸؍جولائی ۲۰۱۱ء بروز پیربعد نمازِظہر2:32
٭٭٭
مرحوم کلیمؔ شاہدوی شہر مالیگاوں کے صالح فکر و نظر کے امیٖن، ایک معتبر ومستند، زوٗد گو اور کہنہ مشق مقبولِ عام نعت گو شاعر گزرے ہیں۔ آپ کی ولادت ضلع دھولیہ کے شاہدہ میں ہوئی، تلاشِ روزگار کے سلسلے میں مالیگاوں آئے اور یہیں فروکش ہو گئے۔ ۱۹؍ مارچ ۲۰۰۲ء کو آپ نے اس دارِ فانی کو الوداع کہا۔ آپ کو شہرِ سخن مالیگاوں کے استاذ الشعرا جناب اخترؔ مالیگانوی سے شرفِ تلمّذ تھا۔
مرحوم کلیمؔ شاہدوی نے شاعری کی کئی مروّجہ اصناف میں بھر پور طبع آزمائی کی۔ ویسے آپ کی شناخت حمدیہ و نعتیہ شاعری، بزرگانِ دین کی شان میں مناقب و قصیدہ نگاری، گاگر، چادر اور سہرا نویسی سے ہوئی، علاوہ ازیں شہیدِ کربلا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت، اہلِ بیتِ اطہار، آپ کے رُفقا رضی اللہ عنہم اجمعین اور واقعاتِ کربلا پر مشتمل کلیمؔ صاحب نے مختلف ہئیتوں میں مراثی بھی قلم بند کیے۔ مذہبی و اصلاحی موضوعات پر آپ نے بڑی دل کش اور شان دار نظمیں بھی تحریر کیں جن میں بعض نظمیں زباں زدِ خاص و عام ہیں جیسے ؎
اے جانے والے مدینہ بستی مرے نبی سے سلام کہنا
یہی تمنا ہے چشمِ تر کی مرے نبی سے سلام کہنا
………
السلام اے مرے ہم وطن ہم نوا، ہم مدینہ چلے ہم مدینہ چلے
آ گیا ہے پیامِ حبیبِ خدا، ہم مدینہ چلے ہم مدینہ چلے
کلیمؔ صاحب کا واقعاتِ کربلا پر مبنی ایک مجموعہ ’’پیغامِ کربلا‘‘ متعدد بار شائع ہو کر اہلِ عقیدت و محبت سے خراجِ تحسین حاصل کر چکا ہے۔ ’’عرفانِ کلیم‘‘ کے نام سے حمد و نعت، مناجات و سلام وغیرہ پر مشتمل پاکیزہ اور قابلِ احترام مجموعۂ کلام بزمِ اکبر(محفلِ میٖلاد)، اسلام پورہ، مالیگاؤں نے ۱۹۸۸ء میں پہلی بار طبع کروایا۔ بعد ازاں اس مجموعہ کے بھی کئی ایڈیشن منظر عام پر آ چکے ہیں۔ جن سے کلیمؔ صاحب کے کلام کی عوامی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ’’عرفانِ کلیم‘‘ کے اوّلین ایڈیشن کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے یہ مقالہ ہدیۂ ناظرین ہے۔
’’عرفانِ کلیم‘‘ میں شامل بیش تر نعتیہ کلام آپ کی اعلا شعری بصیرت و بصارت، صالح فکر و تخیل، فنِّ شاعری سے گہری واقفیت، زبان و بیان پر قدرت کے ساتھ ساتھ سرورِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے بے پناہ اُلفت و عقیدت، محسنِ انسانیت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے شہرِ پاک مدینۂ منورہ سے والہانہ لگاو، سیرتِ طیبہ سے آگاہی اور تصوف و معرفت کے رموٗز و اَسرار کا آئینہ دار ہے۔ میٖلاد خوانی کی بابرکت محفلوں میں شہر مالیگاوں کے علاوہ مہاراشٹر اور مدھیہ پردیش کے دوٗر دراز علاقوں کی بیش تر میٖلاد خواں تنظیمیں زیادہ تر آپ ہی کے کلام کو پڑھتے ہیں، دراصل کلیمؔ صاحب کے کلام میں بلا کی موسیقیت اور نغمگی ہے۔ آپ نے انتہائی مترنم بحروں میں شاعری کی ہے، نیز آپ کا طرزِ اسلوب بھی متاثر کُن ہے۔ ذیل میں ’’عرفانِ کلیم‘‘سے چند اشعار نشانِ خاطر فرمائیں جن سے کلیمؔ صاحب کی اعلا شعری صلاحیت مترشح ہوتی ہے ؎
مدینے کی منزل قریب آ رہی ہے مسلسل نبی کا پیام آ رہا ہے
ادب سے جھکی جا رہی ہیں نگاہیں الٰہی یہ کیسا مقام آ رہاہے
جس جگہ ذکرِ خیرالورا ہو گا اُس جگہ پر ہی فضلِ خدا ہو گا
جس نے کلمہ نبی کا پڑھا ہو گا وہ بشر جنتی مرحبا ہو گا
گل زارِ مدینہ خلدِ بریں، ہر ذرّہ جہاں کا لعل و گہر
اور گنبدِ خضرا نورِ یقیں، روضہ کی سنہری جالی ہے
مرحبا کیا ہے شانِ محمد کوئی یہ شان والا نہیں ہے
سیکڑوں یوں تو آئے پیمبر عرش پر کوئی پہنچا نہیں ہے
جس سے کونین میں اجالا ہے
وہ مدینے کا رہنے والا ہے
کلیمؔ صاحب کے کلام کے موضوعات میں پاکیزگی و طہارت ہے۔ عقیدۂ توحید، عرفانِ خداوندی، رسولِ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا رتبۂ بلند، حضور ختمیِ مرتبت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اختیارات و تصرفات، عقیدے سے گہری وابستگی، تصوف و معرفت، فلسفہ وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود، شہرِ رسول(ﷺ)مدینۂ منورہ سے گہرا لگاؤ، زیارتِ مدینۂ منورہ کی شدید خواہش، فرقتِ مدینہ کا سوزِ دروٗں وغیرہ موضوعات آپ کے کلام کی زیریں رَو میں پنہاں ہیں، ذیل میں چند مثالیں خاطر نشین ہوں ؎
ترا جلوہ بر سرِ طور ہے ترا ہر چمن میں ظہور ہے
ترا ذکر کرتا ہے گلستاں تری شان جل جلالہٗ
حق کی گرہ نگاہ پہ کھلتی چلی گئی
توحید کا سراغ لگاتے چلے گئے
حُسنِ محمدی کا سہارا لیے ہوئے
پردہ حریمِ دل کا اٹھاتے چلے گئے
آپ نے چھلکا دیا جب ساغرِ وحدت کلیمؔ
ایک عالَم واقفِ اَسرارِ عرفاں ہو گیا
جیتے جی ایک نظر روضۂ اقدس دیکھوں
دل میں مدت سے ہے ارمان مدینے والے
جانے لگتا ہے کوئی جانبِ طیبہ جس دم
کچھ نہ ہو پھر بھی تو احساس مگر ہوتا ہے
وہ ظلمت خانۂ عالم میں چمکا دین کا سورج
کہ جشنِ عید میٖلاد النبی شمعِ ہدایت ہے
کلیمؔ صاحب کی لفظیات میں سادگی و صفائی ہے۔ روزمرہ محاورات، عربی و فارسی کی آمیزش اور ہندی بھاشا کا گہرا رچاؤ ہے،کہیں کہیں پورَبی بولی کا فن کارانہ استعمال بڑا لطف دے جاتا ہے۔ ان شاعرانہ محاسن سے آپ کے اسلوب میں ایک کیف آگیں بانکپن پیدا ہو گیا ہے۔ علاوہ ازیں آپ کے کلام میں جو سلاست و روانی، شگفتگی و پختگی، جذبے کی صداقت و سچائی، فکر ی بلندی، مضمون آفرینی، معانی کا عمل، اور بلا کی موسیقیت و نغمگی ہے وہ لائقِ صد آفرین ہے۔
آپ کا بیش تر کلام انتہائی مترنم اور موزوں بحروں پر مشتمل ہے بہ ایں سبب آپ کے کلام کو عوامی مقبولیت حاصل ہے۔ جب کوئی خوش الحان نعت خواں آپ کے کلام کو ترنم سے گنگناتا ہے تو سامعین جھوم جھوم اٹھتے ہیں اور ایسا کیف و سروٗر طاری ہونے لگتا ہے جس سے ذہن و قلب وجدانی کیفیت سے سرشار ہونے لگتے ہیں ؎
نورِ والشمس روئے منور، اور واللیل زلفِ معنبر
مرحبا آپ کا جسمِ اطہر نور ہے جس کا سایا نہیں ہے
جمالِ لاالٰہ سے ہو گئے چودہ طبق روشن
لیے جب مشعلِ لا تقنطوا عالی وقار آئے
توصیف کیا بیاں ہو رسالت مآب کی
پڑھ کر دروٗد پھیلے کرن آفتاب کی
پڑھ کے بسمِ اللہ چادر بنائی ہے
اِنّا اعطینا کی جھالر لگائی ہے
وحدت کے تاروں کی چادر بنائی
ایمان کے رنگ میں ہے رنگائی
اِنّا فتحنا سے خوب سجائی ہے
……
یاد نبی کی موہے جب آئے دن رات نیناں آنسوٗ بہائے
دھڑکے کریجوا چین نہ پائے دل مورا رہ رہ ڈوبا جائے
جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ کلیمؔ صاحب کو شہرِ رسول مدینۂ منورہ سے بے پناہ عقیدت و محبت تھی، اور آپ کے کلام میں فرقتِ مدینہ کا جا بہ جا ذکرِ جمیل ملتا ہے، آپ نے مدینۂ طیبہ جانے والے مسافروں سے جس گہرے درد و کرب اور سوزِ قلبی سے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں سلام عرض کرنے کا اظہار کیا ہے وہ آپ کی شہرِ مدینہ کے تئیں فداکارانہ سرشاری اور والہانہ وارفتگی کو عیاں کرتا ہے۔ بالخصوص کلیمؔ صاحب نے مسافرینِ مدینۂ طیبہ کی روانگی کے مقدس موقع پر جو نظمیں کہی ہیں انھیں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئیں۔ ہر سا ل زائرینِ حرمین شریفین کی الوداعی محفلوں میں خوش عقیدہ مسلمان ان نظموں کو ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ ان نظموں کا کربیہ آہنگ ہمیں خوشبوٗ اور نوٗر سے ہم کنار کرتا ہے اور وہ قاری و سامع کو اپنے ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے ،روح و قلب کی گہرائیوں میں اترتا چلا جاتا ہے، بے اختیار فرقتِ مدینہ کے تصور سے آنکھیں چھلک پڑتی ہیں، اور ایک کیف آگیں جذبات و احساسات کی چادر تن جاتی ہے۔ میرا وجدان کہتا ہے کہ ان شآء اللہ کلیمؔ صاحب کی یہ نظمیں آپ کو میدانِ محشر میں ضروٗر سرخروٗ کریں گی، چند اشعار نشانِ خاطر ہوں ؎
اے جانے والے مدینہ بستی مرے نبی سے سلام کہنا
یہی تمنا ہے چشمِ تر کی مرے نبی سے سلام کہنا
تجھے مبارک مدینے جانا، درِ مقدس سے فیض پانا
یہی صدا ہے دھڑکتے دل کی، مرے نبی سے سلام کہنا
رسولِ اکرم کا پیارا روضہ، جب اپنی نظروں سے دیکھ لینا
جھکا کے در پر جبین و دل بھی، مرے نبی سے سلا م کہنا
……………
السلام اے مرے ہم وطن ہم نوا، ہم مدینہ چلے ہم مدینہ چلے
آ گیا ہے پیامِ حبیبِ خدا، ہم مدینہ چلے ہم مدینہ چلے
اُٹھ رہے ہیں قدم سوئے طیبہ بہم، نعرہ اللہ اکبر کا ہے دم بہ دم
سر سے باندھے کفن لب پہ صلِ علا، ہم مدینہ چلے ہم مدینہ چلے
وہ دیارِ مدینہ کی رعنائیاں، اور نورانی گنبد کی پرچھائیاں
برسے شام و سحر رحمتوں کی گھٹا، ہم مدینہ چلے ہم مدینہ چلے
باوجود ان شعری محاسن اور خوبیوں کے کلیمؔ صاحب کے کلام میں بعض ایسے مضامین بھی نظم کیے گئے ہیں جو شریعتِ مطہرہ کے تقاضوں کے یک سرمنافی ہیں جن سے فنِ نعت گوئی کے آداب سے شاعر کی روگردانی ثابت ہوتی ہے، ایسے اشعار کا ایک اچھے مجموعۂ نعت میں شامل نہ ہونا ہی بہتر ہے۔ اسی طرح دیگر انبیائے کرام علیہم السلام سے رسولِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا تقابل کرتے ہوئے بھی غایت درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ کلیمؔ صاحب ایسے موڑ پر بھی راہِ اعتدال سے ہٹتے نظر آتے ہیں، مثلاً چند اشعار دیکھیں ؎
شکلِ احمد میں دیکھا اَحَد کا جمال
میم احمد کی جس دم ہٹائی ہے
فقط عین کا ہے پردا اے کلیمؔ رب اور عرب میں
وہی طور کا ہے جلوہ جو ہے جلوۂ مدینہ
نہ سمجھے تھے کلیم احمد احد میں میم کا پردا
وگر نہ طور پر شعلوں سے ٹکرانے کہاں جاتے
جلوۂ عرب ہی کا جلوہ تو ہے پردۂ عین اُٹھ جائے گر ہم نشیں
ہم تو جائیں گے طیبہ نگر سر کے بل، اے کلیمؔ آپ گر طور پر جائیں گے
جلوۂ طور گر دیکھنا ہے سر کے بل چلیے سوے مدینہ
اے کلیمؔ ہے ادب کی جگہ یہ وادیِ طورِ سینا نہیں ہے
٭٭٭
بادۂ حجاز کے سر مستوں اور آبلہ پایانِ راہِ محبتِ سرکار ﷺ نے بلا لحاظِ رنگ و نسل اور زبان و علاقہ اپنے آپ کو رسولِ کریم علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم کی تعریف و توصیف میں مشغول و مصروف رکھا۔ عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک نعتِ رسول ﷺ قلم بند کرنے کا پاکیزہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور ان شآء اللہ یہ سلسلہ تا قیامت چلتا ہی رہے گا۔ حضرت حسان بن ثابت، حضرت عبداللہ بن رواحہ وغیرہم اصحابِ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اکثر و بیش تر بارگاہِ مصطفوی میں آقائے دوجہاں ﷺکی مدحت سے مزین و مرصع کلام پیش فرمایا کرتے تھے۔ خود خدائے قدیر و جبار جل شانہٗ نے قرآن میں جابجا محبوبِ پاک صاحبِ لولاک ﷺ کی ایک ایک ادائے دل نواز کا تذکرۂ جمیل فرما کر امتِ محمدی کو آپ کی بارگاہ ِ عالی وقار کا ادب و احترام اور آپ کی تعریف و توصیف کا سلیقہ و شعور بخشا ہے۔
برصغیر ہندو پاک میں حضرت امیر خسروؔ، خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، غلام امام شہیدیؔ اور مولانا کفایت علی کافیؔ سے لے کر لطف ؔبدایونی، مرزا بیدلؔ اور بیدم ؔوارثی تک، امیر مینائی اور شاہ نیازؔ بریلوی سے لے کر ابوالحسین نوریؔ مارہروی اور محسنؔ کاکوروی تک، اقبالؔ و امام احمد رضا بریلوی اور حسن ؔرضا بریلوی سے لے کر حامد رضا و مصطفی رضا نوریؔ بریلوی اور جمیلؔ قادری بریلوی تک اور حفیظؔ جالندھری، عبدالحمید صدیقی سے لے کر قتیلؔ داناپوری، راز ؔ الٰہ آبادی، بیکل اُتساہی اور قوسؔ حمزہ پوری تک نعت گو شعرائے کرام کی ایک طویل ترین فہرست ہے جنھوں نے علاوہ دیگر اصناف کے قابل لحاظ انداز میں ذکرِ رسول اور نعتِ رسول ﷺ کے میدان میں اپنی فکر و نظر کے جوہر بکھیرے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان شعرائے کرام کے اسمائے گرامی مدحت گرانِ پیغمبرِ اعظم ﷺ کے طور پر لیے جاتے ہیں۔
عصرِ حاضر میں اپنے شعور و فکر کو نعتِ رسول اور ذکرِ رسول ﷺ کے لیے خود کو مصروف رکھنے والوں میں اختر رضا بریلوی، سید آلِ رسول نظمی مارہروی، بیکل اتساہی، اجمل سلطان پوری، صوفی حماد احمد صابر قادری، شبنم کمالی، راجا رشید محمود اور طلحہ رضوی برقؔ داناپوری وغیرہم کے نام سرِ فہرست ہیں۔ ان حضرات کی پیہم مساعیِ جمیلہ نے اردو نعتیہ ادب کو بامِ عروج پر پہنچا دیا ہے۔
عروس البلاد بمبئی کی مذہبی و ملّی اور علمی و ادبی حیثیت پوری دنیا پر مسلم ہے۔ یہ شہر ہمیشہ سے علم و ادب کی مختلف تحریکات کا مرکز رہا ہے۔ یہ شہر جہاں ایک طرف جرائم اور بے حیائیوں کی وجہ سے مشہور ہے تو وہیں دوسری طرف اصلاحِ معاشرہ اور تبلیغِ سنت کی مختلف النوع تحریکات کے مرکز کے طور پر بھی یہ شہر جانا پہچانا جاتا ہے۔ اصلاحِ معاشرہ کی غیر سیاسی تحریک سنی دعوتِ اسلامی کا بھی یہ شہر بین الاقوامی مرکز ہے۔ اس تحریک کے سربراہِ اعلا مولانا حافظ شاکر علی نوری بمبئی کے ایک میمن خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ دین و مذہب سے حد درجہ لگاؤ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ اقدس سے والہانہ محبت اور عشق ہے۔ موصوف عالمی سطح پر امام احمد رضا بریلوی کی تحریکِ عشقِ رسالت کے مبلغ اور داعی کی حیثیت سے اسلام و ایمان کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف و مشغول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے بھی دیگر علمائے کرام کی طرح اپنے عشقِ رسول ﷺ کے اظہار کے لیے نعتیہ شاعری کے میدان کو منتخب کیا۔ یوں تو آپ کی گھریلو زبان اردو نہیں لیکن پھر بھی آپ نے نعتیہ شعرو ادب کے لیے اردو کا استعمال بڑی کامیابی کے ساتھ کیا۔ جابجا آپ نے نعتوں میں زبان و بیان کے نت نئے تجربات بھی کیے، الفاظ کو اس طرح برتا کہ طبیعت کو اُکتاہٹ کی بجائے لطف و سرور حاصل ہونے لگا اور پوری فضا خوش گوار ہو گئی ؎
شاہِ مدینہ مجھ کو طیبہ بلا لیے ہیں
سوئی ہوئی تھی قسمت آقا جگا دئیے ہیں
قسمت پہ رشک میری کرتے ہیں سب فرشتے
پھر سے مدینے والے مہماں بنا لیے ہیں
زائرِ قبرِ منور کی شفاعت ہو گی
ہے یہی آپ کا فرمان رسولِ عربی
آیا ہوں بن کے سائل سلطانِ دوجہاں
رحمت ہو پھر سے مائل سلطانِ دوجہاں
گریاں ہے قلبِ شاکرؔ، کر دو کرم بھی وافر
اپنوں میں کر لو شامل سلطانِ دوجہاں
برِ صغیر ہندو پاک میں اردو کی شعری کائنات میں دو دبستان’’لکھنو و دہلی‘‘ بہت زیادہ مشہور ہیں ’’لکھنو‘‘ کی شاعری کا محور رقص و سرود اور مجازی محبوبوں کے ناز و ادا، عشوہ و غمزہ اور زلف و گیسوکا تذکرہ ہے تو ’’دہلی‘‘ کی شاعری کا محور شراب و شباب اور محبوب کی جفا کاریوں کا ذکر ہے۔ جب کہ ان دونوں تصورات سے بالکل پرے خالقِ حقیقی کے محبوبِ اکبر مصطفی جانِ رحمت ﷺکے عشق و ادب کا جلوہ بکھیرتی ہوئی نہایت پاکیزہ شاعری امام احمد رضا بریلوی اور ان کے معتقدین کی شاعری ہے جسے ہم ’’دبستانِ بریلی‘‘ کی ملکوتی شاعری کہہ سکتے ہیں یہاں کا تصور ِ عشق و فن، محبتِ رسول ﷺ ہے،کہ یہی مقصودِ قرآن ہے، یہاں کا محور عشق، رسولِ گرامی وقار ﷺ کی ذاتِ اقدس و اطہر ہے،کہ اِنہی کی محبت و الفت ایمان کی جان ہے اس محبت کے علاوہ دنیا کی محبت پریشانیوں میں اضافہ کی باعث ہے جب کہ عشقِ رسول ﷺ بے قرار دلوں کے لیے وجہِ طمانیت، مصیبتوں اور پریشانیوں کا علاج اور مداوائے ہر رنج و غم ہے یہی وجہ ہے کہ مولانا حافظ شاکر علی نوری بھی دنیا کی محبت کی بجائے سرکارِ دو عالم ﷺ کی محبت کے طلب گار ہیں۔ جذباتِ محبت کی سچائی، عاشق کی نیاز مندی اور طالبِ عشقِ رسالت کا عجز و انکسار خاطر نشیٖن کریں ؎
دل کی دنیا کو سجاؤ آقا
اپنی اُلفت میں جِلاؤ آقا
حُبِّ دنیا سے بچانا مجھ کو
مجھ کو اپنا ہی بناؤ آقا
غمِ دنیا میں نہ آنسوٗ نکلے
اپنی اُلفت میں رُلاؤ آقا
ساری کائنات کے مرکزِ عقیدت و محبت مدینۂ منورہ کی حاضری و زیارتِ قبرِ نبوی علیہ الصلوٰۃ والسلام ہر عاشقِ دل گیٖر کے لیے جان و جگر اور قلب و نظر کے لیے باعثِ سروٗر ہے۔ یہاں کی حاضری غمِ دنیا اور غمِ عقبیٰ سے یکسر آزاد کر دیتی ہے۔ اسی مقدس ترین دیار میں حاضری کے لیے سرکارِ ابد قرار ﷺ سے حافظ شاکر علی نوری یوں عرض کرتے ہیں اندازِ عرض بڑا ہی دل کش اور اچھوٗتا ہے ؎
میرے سرکار مدینے میں بلاتے رہنا
غمِ دنیا غمِ عقبیٰ سے بچاتے رہنا
نبھا لو تم نبھا لو تم نبھا لو یارسول اللہ
بلا لو اب مدینے میں بلا لو یارسول اللہ
دل تڑپتا ہے حضوری کو حضور
صدقے مرشد کے بلاؤ آقا
سرکارِ دو عالم ﷺ نے کرم فرمایا بارگاہِ خداوندی سے مدینۂ طیبہ کی حاضری کا اذن حاصل ہو گیا، اب اہلِ شوق کا مبارک کارواں سوئے طیبہ کوچ کر رہا ہے ایسے پُرمسرت موقع پر عاشق مچلتے ہوئے بڑے ناز و ادا کے ساتھ یوں کہتا ہے ؎
میں نے رُخ کر لیا مدینے کا
کیا بگاڑے کوئی سفینے کا
چشمِ رحمت پڑی ہے مجھ پر بھی
لطف آئے گا اب تو جینے کا
اور جب قسمت کی ارجمندی سے رسولِ رحمت ﷺ کے دربارِ گہر بار کی زیارت سے شادکامی حاصل ہو گئی تو پھر خوشی اور مسرت کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا، اس اعزازِ خسروانہ کا اظہار موصوف نے یوں کیا کہ ؎
میرے آقا نے مدینے میں بلایا مجھ کو
سایۂ گنبدِ خضرا میں بٹھایا مجھ کو
شاہِ مدینہ مجھ کو طیبہ بلا لیے ہیں
سوئی ہوئی تھی قسمت آقا جگا دیے ہیں
قسمت پہ رشک میری کرتے ہیں سب فرشتے
پھر سے مدینے والے مہماں بنا لیے ہیں
ہے کرم آپ کا سرکار رسولِ عرَبی
پھر دکھایا مجھے دربار رسولِ عرَبی
ایسے عاصی کو مدینے کا بنایا مہماں
جو ہے سرتاپا خطاکار رسولِ عرَبی
جس کے دل میں اُلفتِ سرکارِ دو عالم ﷺ ہے وہی کامیاب ترین فرد ہے کہ یہی محبت ایمان کی جان ہے،مولانا موصوف رسولِ رحمت ﷺ کے دربار میں پہنچ کر اسی محبت کی بھیک طلب کرتے ہیں۔ یہاں بھی طالبِ محبت کا عاجزانہ طرزِ اظہار قابلِ دید ہے ؎
اپنی اُلفت کا جام دو مجھ کو
مست کر دو مجھے مدینے کا
اُلفت میں مجھ کو اپنی ایسا گما دو آقا
خود سے رہوں میں غافل سلطانِ دوجہاں
روضۂ رسول ﷺ کی زیارت سے مشرف ہونے اور محبتِ رسول ﷺ کے انوار سے ظلمت کدۂ دل کو روشن کر کے ظاہر و باطن کو مزید تابندگی و درخشندگی کے لیے عاشق چاہتا ہے جمالِ جہاں آرائے سرکارِ دو عالم ﷺ کی زیارت کی سعادتِ عظمیٰ سے بھی سرفرازی حاصل ہو جائے۔ حافظ شاکر علی نوری ان جذباتِ قلبی اور تمنا ہائے ایمانی کا اظہار یوں کرتے ہیں ؎
شوقِ دیدار میں سوؤں جس شب
اپنا دیدار کراؤ آقا
سنہری جالیوں کے سامنے پہنچا ہوں میں آقا
مجھے اپنی زیارت تم کرا دو یارسول اللہ
شاکرِ رضوی کو طیبہ تو دکھایا لیکن
وقتِ رخصت رُخِ زیبا بھی دکھانا مجھ کو
فرمانِ رسول ﷺ کے مطابق روضۂ رسول ﷺ کی زیارت کرنے والے ہر اُمتی کی آپ شفاعت فرمائیں گے من زار قبری وجبت لہٗ شفاعتی کی تشریح کر کے بارگاہِ محبوبِ کردگار میں یوں عرض کرتے ہیں ؎
دیکھ کر آپ کے گنبد کا وہ حسیٖں منظر
نکلے دل کے سبھی ارمان رسولِ عرَبی
زائرِ قبرِ منوّر کی زیارت ہو گی
ہے یہی آپ کا فرمان رسولِ عرَبی
ہر عاشق یہ چاہتا ہے کہ جب وہ سرزمینِ طیبہ پر بہ فضلِ خدا رسائی حاصل کر لے تو اس کی روح بدن سے جدا ہو جائے اور اس مقدس خاک میں مل کر یہ بدن بھی خاک ہو جائے۔ طیبہ کی مقدس ترین زمین میں دفن ہونے کی خواہش موصوف یوں کرتے ہیں ؎
آخری وقت دفن ہونے کو
دے دو ٹکڑا مجھے مدینے کا
شاکرؔ صاحب نے چھوٹی بحروں میں بھی نعتیں قلم بند کرنے کی کامیاب ترین کوشش کی ہیں۔ مگر چھوٹی بحروں میں معانی کی کمی اور مبہم اندازِ بیان کی بجائے معانی کی فراوانی، لفظوں کا تناسب اور اندازِ بیان کی قدرت پائی جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ لب و لہجے میں بہترین سازو آہنگ اور نغمگی و موسیقیت بھی ہے ؎
جانبِ نار میں نہ جاؤں گا
میں نے رُخ کر لیا مدینے کا
میں مدینے میں آتا جاتا رہوں
بخت چمکائیے کمینے کا
جشنِ میٖلاد ہم منائیں گے
رب سے صدقہ نبی کا پائیں گے
دوٗر دل کی سیاہی کرنے کو
محفلِ نوٗر ہم سجائیں گے
دیکھ کر قبر میں حضور کو ہم
نعتِ صلِ علا سنائیں گے
مجھ کو طیبہ بلا ہی لیتے ہیں
مجھ کو اپنا بنا ہی لیتے ہیں
کوئی حُسنِ عمل نہیں پھر بھی
میرے آقا نبھا ہی لیتے ہیں
ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ اردو دنیا کے معروٗف ادیب اور مذہبی دنیا کے مشہور روحانی پیشوا حضرت سید محمد اشرف برکاتی مارہروی(انکم ٹیکس کمشنر، دہلی)کی زبان میں ’’لفظوں کا تناسب، معنی کی وسعت، جذبوں کی فراوانی، مضامین کی بلندی، عاشق کی نیاز مندی، طالب کا عجز اور اشعار میں جاری و ساری ایک خاص قسم کی محتاط وارفتگی‘‘ کے جلوے حافظ شاکر علی نوری کی درج ذیل نعت میں حد درجہ پنہاں ہیں۔ نعت پڑھتے وقت قلب میں سوز و گداز اور کیف و جذب پیدا ہوتا ہے، طبیعت میں وجدانی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے، جی چاہتا ہے کہ بار بار اس نعت کے اشعار کی تکرار کرتے رہیں ؎
سرکارِ دو عالم کی نظر مجھ پہ پڑی ہے
پہنچا ہوں وہاں خلدِ بریں کی جو گلی ہے
آیا جو مدینے میں تو قسمت نے پکارا
بگڑی ہوئی تقدیر یہاں آ کے بنی ہے
محشر کی کڑی دھوپ کا کھٹکا نہیں مجھ کو
چادر مرے سرکار کے گیسوٗکی تنی ہے
للہ! مجھے اپنا رُخِ انور تو دکھا دو
پلکوں میں مری دید کی خاطر تو نمی ہے
دے ڈالیے مجھ کو بھی غلامی کی سند اب
بخشش کو مرے شاہ یہ خیرات بڑی ہے
اللہ کو محبوب سے کتنی ہے محبت
ہاں طٰہٰ ویٰس میں اسرارِ جلی ہے
عالم میں مسلمان پریشاں ہیں پریشاں
بے چین نظر آپ کے ہی در پہ جھکی ہے
حضرت مولانا موصوف کی نعتیہ شاعری میں ’’دبستانِ بریلی‘‘ کے معاصر شعرائے کرام کی طرح سوز و گداز، کیف و جذب اور محبتِ رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچی تڑپ اور کسک پائی جاتی ہے آپ کی شاعری کے مضامین میں آورد نہیں بل کہ آمد آمد ہے۔ طرزِ ادا کا بانکپن، اظہارِ مدعا میں عاجزانہ پن، آسان اور سہل الفاظ میں بات کو پیش کرنا، افراط و تفریط سے مبرا، محتاط وارفتگی کے ساتھ شاعرانہ پیکر تراشی کا چابکدستی سے استعمال اور جانِ ایمان مصطفی جانِ رحمت ﷺ کی سچی محبت و الفت کا اظہار و اشتہار آپ کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ آپ کی مختلف نعتوں سے منتخب اشعار ذیل میں خاطر نشیٖن ہوں ؎
میرے آقا میرے سلطان مدینے والے
تم پہ سَو جان سے قربان مدینے والے
دردِ دل چاہیے چشمِ تر چاہیے
مجھ کو آقا کی پیاری نظر چاہیے
مرضِ عصیاں سے اب تو شفا ہو نصیب
سنتوں پر عمل عمر بھر چاہیے
کوئی مشکل نہیں ایسی جو نہ ٹالی تم نے
میرے داتا مری بگڑی کو بناتے رہنا
ہے مصائب میں گھری آپ کی اُمت آقا
ظلمِ ظالم سے اسے آپ بچاتے رہنا
وحشتِ قبر سے گھبرائے جو شاکرؔ آقا
تھپکیاں دے کے اُسے آپ سُلاتے رہنا
اخیر میں مولانا حافظ شاکر علی نوری کے اک شعر پر قلم کو روکتا ہوں ،یہ نہ صرف موصوف کی دلی خواہش ہے بل کہ ہر خوش عقیدہ مومن کی تمنائے قلبی ہے اور یہی میری بھی ایمانی آرزوٗ ہے ؎
نعت میں لکھتا رہوں نعت میں پڑھتا رہوں
ہو یہی زیست کا سامان مدینے والے
(سہ ماہی سنی دعوتِ اسلامی، ممبئی، جلد ۲؍شمارہ ۵، ص۴۰/۴۳)
٭٭٭
مولانا مفتی محمد توفیق احسنؔ برکاتی مصباحی ایک جواں سال زود گو نثر نگار، شاعر و ادیب اور محقق عالمِ دین ہیں۔ آپ کی ولادت بہنگواں، اعلاپور، ضلع اعظم گڑھ کے ایک علم دوست گھرانے میں ۱۲؍ جولائی ۱۹۸۴ء کو ہوئی۔ مقامی مدرسہ حنفیہ انوارالعلوم اور جامعہ عربیہ اظہارالعلوم، جہاں گیرگنج، فیض آباد میں ابتدائی اور متوسطات کی تعلیم ہوئی۔ اعلا دینی تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ اشرفیہ عربی یونی ورسٹی مبارک پور میں داخلہ لیا۔ جہاں سے عا لمیت و فضیلت کے ساتھ تحقیق فی الفقہ کا کورس مکمل کیا۔ فی الحال آپ ممبئی کی مشہور دانش گاہ ’’الجامعۃ الغوثیہ‘‘ میں تدریسی خدمات پر مامور ہیں۔ آپ کا موئے قلم زمانۂ طالبِ علمی ہی سے نثر و نظم دونوں میدانوں میں گل بوٹے کھلا رہا ہے۔ اتنی کم عمری میں آپ نے دنیائے سنیت کو کئی بیش بہا کتب و رسائل کا تحفہ پیش کیا ہے۔ لیکن جس انداز سے اس جواں سال قلم کار کی پذیرائی ہونی چاہیے وہ نہ ہوسکی۔ بہ ہر کیف !آپ کا تحقیقی، تصنیفی اور تالیفی سفر تیز رفتاری سے جاری و ساری ہے۔ مختلف ماہ ناموں اور اخبارات میں آپ کے تحقیقی مقالات اور کتب و رسائل پر تبصرے مسلسل شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اس وقت میرے مطالعہ کی میز پر آپ کا اوّلین نعتیہ مجموعہ ’’سخن کی معراج‘‘ سجاہواہے۔ جسے میں نے آج اپنی تبصراتی کاوش کا عنوان بنایا ہے۔
کہتے ہیں شاعری لفظ ’شعور‘ سے مشتق ہے، جب شاعر اپنے احساسات، جذبات، خیالات اور افکار و نظریات کے گل ہائے رنگا رنگ کو بحر و وزن کے دھاگوں میں پروتا ہے تو شعر بنتا ہے اور شعری نغمگی، موسیقیت، موزونیت اور برجستگی براہِ راست انسانی قلب و روح کو متاثر کر دیتی ہے کیوں کہ ؎
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
شاعری کی جملہ اصناف میں نعت کی اہمیت، عظمت اور رفعت و بلندی اپنی جگہ مسلم و مقدم ہے، نعت شاعری کی سب سے مکرم و معظم، مقدس و متبرک اور محترم و پاکیزہ صنف ہے، نعت اپنی ابتدا اور آغاز سے ہی ختمیِ مرتبت، مفخرِ موجودات، مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف و توصیف، مدح و ثنا، شمائل و خصائل اور اوصاف و فضائل کے اظہار و بیان کے لیے مختص و مستعمل ہے۔ حمد آسان اور سہل ہوتی ہے،جب کہ نعت انتہائی مشکل ترین فن ہے، وادیِ نعت میں گذرتے وقت نعت شاعر سے جس بات کا بار بار تقاضا کرتی ہے وہ ہے حزم و احتیاط … یہاں منصبِ الوہیت و رسالت اور عبد و معبوٗد کے واضح فرق کو ملحوٗظ رکھنا انتہائی اہم اور ضروٗری ہوتا ہے کہ اگر ایک طرف بال برابر بھی بڑھا تو شاعر شرک جیسے عظیم گناہ کا مرتکب قرار دیا جا سکتا ہے اور دوسری طرف بال برابر بھی کمی ہوئی تو شاعر بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا گستاخ و بے ادب قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ دونوں باتیں شاعر کے لیے نقصان و زیاں کا سبب ہیں ،لہٰذا وادیِ نعت میں زمامِ حزم و احتیاط کو اپنے ہاتھ میں تھام کر سنبھل سنبھل کر چلنا شاعر کی دنیوی و اُخروی نجات اور انعام و اکرام کے لیے از بس ضروری ہے، بقول توقیق احسنؔ ؎
نعت گوئی سہل نہیں احسنؔ
شرط ہے فکر کو لگام رہے
نعت گوئی کسبی نہیں بل کہ وہبی ہے ،کہ یہ خالص اللہ رب العزت کے فضل و کرم اور رسولِ رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جوٗد و عطا سے حاصل ہوتی ہے۔ نعت قلم بند کرنے میں طبیعت کی موزونی ہی سب کچھ نہیں ہے،بل کہ یہاں علم و فضل کے ساتھ ساتھ عشقِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی ضروری ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو مولانا توفیق احسنؔ برکاتی کے اندر یہ چیزیں بہ درجۂ اتم موجود ہیں۔ احسنؔ برکاتی صاحب موزوں طبیعت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ عالم و فاضل اور دانا و بینا ہیں اور امام عشق و محبت اعلا حضرت امام احمد رضا محدثِ بریلوی کے مسلکِ عشق و محبت کے داعی و مبلغ ہونے کے سبب عشق و محبتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی آپ کے نہاں خانۂ دل میں موجزن ہے۔ آپ کے اوّلین نعتیہ مجموعۂ کلام’’سخن کی معراج‘‘ کے مطالعہ و تجزیہ سے یہ روشن ہوتا ہے کہ آپ نے نعت گوئی کے جملہ لوازمات کو صحیح طور برتتے ہوئے کامیابی و کامرانی سے نعتیہ کلام قلم بند کیا ہے، ذیل میں چند مثالیں نشانِ خاطر فرمائیں ؎
دھیرے دھیرے ان سے دل کا رابطہ ہو جائے گا
جب دُروٗدوں کا زباں پر سلسلہ ہو جائے گا
رب نے ان کو بخش دی ہیں علم کی تابانیاں
آج بھی حقانیت کو کھولتا قرآن ہے
شان ان کی کیا لکھے کوئی بھلا، ممکن نہیں
ان کی رفعت دیکھ لو قرآن کے پاروں میں ہے
ہے نمونہ عالمِ انسانیت کے رو بروٗ
بچپنا ہو، یا بڑھاپا، یا جوانی آپ کی
بالیقیں ختم الرسل ہیں آپ ہی میرے نبی
آج بھی اعلان کرتی ہے نبوت آپ کی
طبیعت کی موزونی، علم و فضل اور زورِ عشق و محبتِ رسول(علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) جیسے عناصر نے مل کر احسنؔ صاحب کے کلام کو دلِ گداختہ عاشق کا کلام بنا دیا ہے۔ جس میں آمد آمد ہے۔ جذبات کا التہاب ہے۔ خیالات کی سچائی ہے۔ نظریات کی صداقت ہے۔ اور تعظیم و ادبِ رسول (ﷺ) کا پاس و لحاظ ہے ؎
شانِ محبوبی سکھانے کی غرَض ہے مومنو!
کس طرح دربار محشر کا سجا ہے دیکھ لو
زہے نصیب پسینہ نبی کا مِل جائے
جو مشک و گل سے بھی اعلا دکھائی دیتا ہے
ان کے بازار میں جب سے سودا ہوا
میری ہستی بڑی قیمتی ہو گئی
اپنے مولاسے جو سرکار کا در مانگتے ہیں
وہ تو جنت میں یقیناً کوئی گھر مانگتے ہیں
بخشا انھیں کو علم سب، پھر بھی دیا اُمّی لقب
یہ بھی ہے اک شانِ عطا، میرے نبی پیارے نبی
منگتوں کو خود کہتے ہیں ’’آ‘‘ ہرگز نہیں کہتے وہ ’’لا‘‘
دربار ہے عالی ترا، میرے نبی پیارے نبی
تیرے فرمان کو مانتے ہیں شجر، اور پڑھتے ہیں مٹھی میں کلمہ حجر
پورا قرآن اخلاق ہے آپ کا، معجزہ یہ جہاں کو بتا تے رہے
احسنؔ صاحب کی فکر پاکیزہ اور اندازِ بیان دل نشیٖن ہے۔ آپ کے اشعار میں طرزِ ادا کا بانکپن، ندرتِ بیان، شوکتِ الفاظ، خیال آفرینی، صنائعِ لفظی، صنائعِ معنوی، تلمیحات و تلمیعات، محاورات کااستعمال، شاعرانہ پیکر تراشی، ترکیب سازی اور دیگر شعری و فنّی محاسن کی جلوہ گری ہے ؎
جلوۂ روئے منور کی ضیا پاشی ہے
آسماں پر جو چمکتے ہیں سبھی کاہکشاں
ان کی مدحت کا عرفان ہے مان لو
سب سے بہتر جو یہ نغمگی ہو گئی
کہ جس کی قسمتِ عالی پہ پھول ہیں نازاں
نبی کے شہر کا ادنا سا خار ہوتا ہے
شبِ خموشِ لحد کا اندھیرا چھٹ جائے
چلو! حضور کی زلفِ دوتا کی بات کریں
ان کی جلوت، ان کی خلوت اور حُسنِ جاں فزا
نور والے رُخ کی نکہت دیکھ گل زاروں میں ہے
ڈوب کر ان کی محبت میں جو محوِ خواب ہو
بالیقیں اس کو رُخِ زیبا نظر آ جائے گا
میرے گل کا پسینہ جو ہم کو ملے
وہ مہکتا ہے مُشکِ ختن کی طرح
ظلمتِ شب کسی لمحہ نہ دکھائی دے گی
پاس آ جائے اگر ان کی عنایت کا چراغ
نعت گوئی تو یقیناً ہے سخن کی معراج
دل مچلتا ہے تو ہوتی ہے سخن کی معراج
آپ سے حُسنِ عقیدت کا یہی ہے اعجاز
دشمنِ دین بھی اب خونِ جگر مانگتے ہیں
احسنؔ صاحب نے کوثر وتسنیٖم سے دھلی ہوئی زبان کے حامل اس دبستانِ ادب سے اکتسابِ فیض کیا ہے، جس کا طرۂ امتیاز ہی محبت و الفتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور تعظیم و ادبِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے۔ دبستانِ بریلی کے اکابر نعت گو حضرات کے کلامِ بلاغت نظام کے مطالعہ و مشاہدہ نے آپ کے کلام کو خیالات کی بے راہ روی، تصنع و بناوٹ، مبالغہ، غلو و اغراق اور شرعی خامیوں سے منزہ و مبرہ رکھا ہے،احسنؔ کہتے ہیں ؎
احسنؔ رضا کی شاعری پیشِ نظر رکھو
ذی شان ہو گی مان لو مدحت حضور کی
تجھ کو احسنؔ یہ سبق میرے رضا خاں سے مِلا
کیا کہیں اس سے بھی اچھا کوئی شاعر دیکھا
اور احسنؔ یوں دُعا گو بھی ہیں کہ ؎
پیارے احسنؔ کو مِلے عشقِ رضا کا صدقہ
کوئی نہ کہہ دے ترا عشق ثمر بار نہیں
نبی سے عشق و الفت کا سلیقہ ہم کو آ جائے
ہماری زندگی میں جذبۂ احمد رضا کر دے
ہم کو احسنؔ مِلے عشقِ احمد رضا، خوش رہیں ہم سے ہر دم حبیبِ خدا
ان کی مدح و ثنا میں زبان و قلم، تادِ مرگ ہر پل چلاتے رہیں
غرضے کہ احسنؔ صاحب کا مجموعۂ نعت’’سخن کی معراج‘‘ واقعی معراجِ سخن ہے جو آپ کو میدانِ محشر مین ان شآء اللہ تعالیٰ معراج بخشے گا۔ احسنؔ صاحب کا کلام اس قابل ہے کہ اسے حرزِ جاں بنایا جائے۔ اللہ رب العزت سے دُعا ہے کہ مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے صدقہ و طفیل احسنؔ صاحب کے کلام کو قبولیتِ عامہ کا شرف بخشے اور موصوف کے لیے توشۂ آخرت اور سامانِ نجات بنائے۔ (آمین بجاہِ الحبیب الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)
٭٭٭
جناب مومن عبدالرشیدالمعروف ارشدؔ مینانگری شعری ادب کے ایک ہمہ جہت، پُر گو، زود نویس اور فعال و متحرک فن کار ہیں۔ ان کی فنی ریاضتیں اور مشقتیں نصف صدی کے لگ بھگ محیط ہیں۔ اپنے مخصوص لب و لہجے اور پاٹ دار آواز کے سبب مشاعروں کی دنیا میں آپ کی شخصیت ہر دل عزیز مانی جاتی ہے اور آپ کا شمار بھی مقبول ترین شاعروں میں ہوتا ہے۔ آپ کا فکری و فنی اور شعری و ادبی سفر مبدئِ فیاض کے ودیعت کردہ وجدان و شعور کی روشنی میں مسلسل جاری و ساری ہے۔ اردو کی مروجہ بیش تر اصنافِ سخن میں آپ کام یاب طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ حمد و نعت، مناجات و مناقب، سلام و دعا، قصیدہ، غزل، غزل نما، آزاد غزل، نظم، آزاد نظم، معرا نظم، مرثیہ، رباعی، قطعہ، گیت، دوہا، سانیٹ، ہائیکو، ثلاثی، مربع، مسدس، مخمس، ماہیے، کہہ مکرنی، سری چھند اور ٹپے وغیرہ اصناف میں آپ کے کلام بہ کثرت موجود ہیں۔ ارشد صاحب کا ذہن و فکر جس انداز سے دنیائے شعر و ادب کو اپنی گراں قدر شعری و دبی خدمات سے مالا کر رہا ہے وہ آپ کو تادیر زندہ رکھنے کے کافی ہے۔ اردو زبان و ادب کی معتبر اور جید شخصیات نے آپ کو فراخ دلی کے ساتھ سراہا ہے جو آپ کی مقبولیت کی بین دلیل ہے۔ احساس، نئے اُجالے، دھرتی کے تارے اور عید جیسی شعری تصانیف طبع ہو کر اپنی انفرادیت اور ہیئتی تنوع کا نقشِ جاوداں کائناتِ ادب پر مرتسم کر رہی ہیں۔
اردو میں حالیؔ، نظیرؔ، اکبرؔ اور اقبالؔ وغیرہ کے یہاں مختلف موضوعات پر اچھی اچھی نظمیں ہمیں شاد کام کرتی رہتی ہیں۔ لیکن ارشدؔ مینانگری کے یہاں موضوعاتی تجربات کا کینوس ایسا وسیع اور منفرد ہے کہ مختلف موضوعات پر آپ کے مکمل مجموہائے کلام مرتبہ ہیں جو آپ کے شعری امتیاز کی علامت ہیں۔ ’’عید‘‘ پر آپ کی شعری تصنیف میرے رو بہ رو ہے یہ کتاب ادب کے لیے ایک بہترین تحفہ ہے جس میں عید الفطر جیسے عظیم اسلامی تہوار کی معنویت اور افادیت کو کئی اصناف کا استعمال کرتے ہوئے اُجاگر کرنے کی کام یاب کوشش کی گئی ہے۔
اس مجموعہ میں شامل بیش تر کلام منظر نگاری، عصری حسیت اور احساسات کی بالغ ترجمانی کے ساتھ ساتھ نشاط و انبساط کا دل کش عکاس ہیں جو قاری و سامع کو کیف و سرور عطا کرتے ہیں۔ کئی نظموں میں رواداری، مفلسوں کی اعانت اور غربا کی ہم دردی کا اظہار جس کربیہ آہنگ کے ساتھ کیا گیا ہے وہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے کر چلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں بعض نظموں میں خیالات اور افکار کا اعادہ بھی ہمیں نظر آتا ہے لیکن پیرایۂ بیان میں جو نفاست ہے اُسے دیکھتے ہوئے ہم ایسے اشعار کو تکرار کے نقائص کا آئینہ دار نہیں قرار دے سکتے۔
منورؔ رانا کا ’’ماں ‘‘ پر لکھے گئے مختلف شعروں کا ایک انتخاب ’’ماں ‘‘ کے نام سے شائع ہو کر مقبول ہو چکا ہے، لیکن اُسے ’’ماں ‘‘ پر مستقل شعری تصنیف نہیں کہی جا سکتی۔ نوجوان شاعر و ادیب، عالم و مفتی محمد توفیق احسنؔ برکاتی مصباحی(ممبئی) کا ’’ماں ‘‘ پر مبنی ایک دل کش مجموعہ ’’ماں کے آنچل پہ شبنم ٹپکتی رہی‘‘ فروری ۲۰۱۰ء میں منصۂ شہود پر جلوہ گر ہو کر خراج تحسین حاصل کر رہا ہے۔ یہ سن کر مسرت ہوئی کہ ارشدؔ صاحب کا بھی ’’ماں ‘‘ جیسی مقدس ہستی کے مراتب و مناقب کو ظاہر کرتا ہیئتی تنوع اور فنی محاسن سے آراستہ ایک وقیع شعر ی مجموعہ عنقریب منظر عام پر آ رہا ہے۔ امید ہے کہ دیگر تصانیف کی طرح یہ بھی اپنی شناخت بنانے میں کام یاب ہو گا۔ اسی طرح قطعات کا ایک مجموعہ’’ بولتے پتھر‘‘ زیرِ طبع ہے اور شادی بیاہ کے موقع پر پڑھی جانے والی تہنیتی نظم جسے ’’سہرا ‘‘ کہا جاتا ہے اس مقبولِ عام صنف پر مبنی خوب صورت مجموعہ ’’ سہروں کے چہرے‘‘ بھی طباعت کے مراحل سے گذرنے والا ہے۔
ارشدؔ مینانگری کے سینے میں ایک درد مند دل دھڑکتا ہے جو محبت آشنا اور الفت ریز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کرتے ہوئے شاعری کے ذریعہ اصلاحِ اعمال کا کام لینے کی بھر پور کوشش کی ہے۔
اصنافِ ادب میں حمد و نعت، مناقب و سلام، مناجات و دعا ایسی اصناف ہیں جنھیں تقدیسی حیثیت حاصل ہے یہ وہ پاکیزہ اصناف ہیں جن پر طبع آزمائی کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں خصوصاً نعت گوئی کا فن تو خالص اللہ عزو جل کی عطا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمتوں سے شاعر کو میسر آتا ہے۔ اردو کا ہر چھوٹا بڑا شاعر خواہ و ہ مسلم ہو یا غیر مسلم اس نے تبرکاً حمد و نعت ضرور لکھی ہے۔ لیکن یہ سعادت بہت کم شعرا کے حصے میں آئی ہے کہ مکمل مجموعۂ کلام اور دواوین اس مقدس صنف پر مشتمل منظر عام پر آئے ہوں۔ امام احمد رضاؔ بریلوی، امیرؔ مینائی، محسن ؔکاکوروی، حسنؔ رضا بریلوی وغیرہم جیسے شعرائے کرام کے نعتیہ کلام تو آفاقی مرتبے کے حامل ہیں، آج ہمارے قلوب و اذہان کو ان کے کلام محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نورِ بصیرت عطا کر رہے ہیں۔ ان حضرات نے نعتیہ ادب کے فروغ و ارتقا میں جو کردار ادا کیا وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ یہ انھیں نفوسِ قدسیہ کی کوششوں کا حسین ثمرہ ہے کہ آج نعت جیسی محترم اور پاکیزہ صنف، ادب کے عصری منظر نامہ پر بے پناہ مقبول ہے۔ حتیٰ کہ بعض ناقدین اکیسویں صدی کو نعت گوئی کی صدی خیال کر رہے ہیں۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ دنیا نے وہ دور بھی دیکھا جب نعت کو بہ طورِ صنف تسلیم کرنا تو کُجا اسے شاعری سے ہی خارج کر دیا گیا تھا، انجمن ترقی پسند مصنفین اور حلقۂ اربابِ ذوق کے غلبے نے لاکھ کوشش کی کہ اس صنف کو پروان چڑھنے نہ دیا جائے لیکن آزادی کے بعد بعض جدید شعرا نے کائناتِ عالم کو اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منور و مجلا کرنے کا عزمِ مصمم کر لیا اور سببِ تخلیقِ کائنات اور وجہِ حیاتِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ، اخلاق و کردار اور شمائل و فضائل سے تاریک ذہنوں کو نورِ یقین عطا کرنا شروع کر دیا ان میں حفیظؔ میرٹھی، حسنینؔ رضا بریلوی، حافظؔ پیلی بھیتی، مصطفی رضا نوریؔ بریلوی، زائرِ حرم حمیدؔ صدیقی لکھنوی، ضیاؔ بدایونی، نعیمؔ صدیقی، یونس ؔقنوجی، ماہرؔ القادری، سید محمد اشرفی سیدؔکچھوچھوی وغیرہم کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ نعت گوئی کے ذریعہ شعور و فکر کی طہارت و پاکیزگی سے ہم کنار کرنے والوں میں علاوہ ان شعرا کے نعت گوئی کے فن کو وسعت دینے میں عمیقؔ حنفی، عبدالعزیز خالدؔ، شمسؔ بریلوی، رازؔ الٰہ آبادی، عثمان عارفؔ نقش بندی، حفیظؔ تائب، اعظمؔ چشتی، راجا رشیدؔ محمود، شبنم ؔ کمالی، قیصرؔ وارثی، اخترؔ الحامدی، مظفر ؔ وارثی، اجملؔ سلطان پوری، طلحہ رضوی برقؔ دانا پوری، سید شمیم گوہرؔالٰہ آبادی وغیرہم کی خدمات لائقِ قدر ہیں۔
یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ آج ہند و پاک میں کئی شعرا ایسے ہیں جنھوں نے اپنے آپ کو نعت گوئی کے لیے وقف کر رکھا ہے ان میں سید آلِ رسول حسنین نظمی مارہروی، اخترؔ رضا ازہری بریلوی، ابرار ؔ کرت پوری، خلیل ؔ وارثی، سید صبیح ؔ رحمانی وغیرہم نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ اور بعض شعر اایسے بھی ہیں جنھوں نے دیگر اصناف کے ساتھ ساتھ نعت گوئی کے فن سے بھی اپنا والہانہ رشتہ استوا رکھا اور مدحتِ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے گل بوٹے کھلائے۔ ایسے شعرا میں بیکلؔ اُتساہی، نادمؔ بلخی، حماد احمد صابر ؔقادری، علیم صباؔ نویدی، سید وحیدؔ اشرف کچھوچھوی، سلیم شہزاد، اشفاق انجم، ناوکؔ حمزہ پوری، ظہیرؔ غازی پوری، مناظر عاشق ہرگانوی وغیرہم کے شانہ بہ شانہ ارشدؔ مینانگری کا شمار بھی کیا جانا چاہیے کہ ان کے یہاں قابلِ لحاظ تعداد میں نعتیہ کلام موجود ہیں۔ مسرت و انبساط کی بات تو یہ ہے کہ ایک ایسے دور میں جب کہ نعت کو صنفی حیثیت دینے میں ناقدین پس و پیش میں مبتلا تھے ارشدؔ صاحب نے محض غزل کی ہیئت میں محصور نہ رہتے ہوئے اردو میں رائج کئی اصناف میں نعتیں قلم بند کیں اور یہ باور کرا دیا کہ نعت صرف ارادتِ اسلامی اور تقدس و طہارت کی بِنا پر ہی نہیں بل کہ ہیئتی اور صنفی تنوع کے لحاظ سے بھی ایک ایسی ہمہ جہت اور طاقت ور صنفِ سخن ہے کہ دوسری اصناف اس کے پاسنگ برابر بھی نہیں۔ ارشدؔ صاحب کے یہاں غزل، غزل نما، رباعی، قطعہ، ثلاثی، نظم، گیت، دوہا، ہائیکو، سانیٹ، مربع، مسدس، مخمس وغیرہ اصناف میں نعت گوئی کے کام یاب تجربات جلوہ فگن ہیں۔ نعت گوئی میں ایسا ہیئتی تنوع اور کثیر صنفی انداز دیگر شعرا کے یہاں خال خال نظر آتا ہے۔ ارشدؔ صاحب کی یہ کاوشیں فنِ نعت گوئی سے آپ کے مخلصانہ لگاؤ کا پتا دیتی ہیں۔ موصوف کے زیرِ طبع نعتیہ مجموعۂ کلام ’’رحمۃ للعالمین‘‘سے مختلف ہیئتوں میں قلم بند کیے گئے نعتیہ کلام خاطر نشین کریں ؎
رباعی
احساسِ تمنا ہے منور میرا
میں خود ہی نظر آتا ہوں ہم سَر میرا
سرکار کے در پر ہے جھکی میری جبیں
پہنچا ہے بلندی پہ مقدر میرا
قطعہ
اک بشر صاحبِ معراج بنا
عظمتوں کے جہاں کا راج بنا
آپ کا ہر قدم خدا کی قسم
عرشِ اعظم کے سر کا تاج بنا
دوہا
راحت خیز خزینہ ہے، شیوہ احمد کا
رحمت بیز نگینہ ہے، رستہ احمد کا
غزل(مطلع و شعر)
ذاتِ احمد اگر نہیں آتی
زندگی راہ پر نہیں آتی
دیدِ احمد میں جس کی آنکھ کھلی
نیند اُسے عمر بھر نہیں آتی
غزل نما( مطلع و شعر)
قدوم، عرشِ علا پہ جس کے، بلندیوں کا نصیب ہے وہ
عجیب ہے وہ، عجیب ہے وہ
عداوتوں کا مزاج بدلا ، خباثتوں کا بھی راج بدلا
محبتوں کا نقیب ہے وہ
نظم(ایک بند)
فخرِ کائنات مصطفی
عظمتِ حیات مصطفی
جن کو پَر نہیں تھے پَر دیے
بے بسی کو ختم کر دیے
دامنِ جہان بھر دیے
ان کے خالی ہاتھ مصطفی
فخرِ کائنات مصطفی
گیت(مکھڑا و بند)
مصطفی تمہیں تم ہو خلق کے نظاروں میں
مسکرائے تم ہی تم چاند میں ستاروں میں
شبنمی اُجالوں میں کون مسکراتا ہے
گوہروں کی جھل مل میں کون جگمگاتا ہے
ہیروں کی چمک بھر دی کس نے رہگذاروں میں
مصطفی تمہیں تم ہو خلق کے نظاروں میں
ثلاثی
خارزاروں کو لالہ زار کیا
مصطفی کی نگاہ نے ارشدؔ
جلتے صحرا کو برف بار کیا
ہائیکو
ہیں شاہِ لولاک
آپ کے قول و فعل سبھی
سر تا سر ادراک
سانیٹ
بے محل بندشوں کو توڑ دیا
بچھڑے ملنے لگے ہیں صحرا میں
پھول کھلنے لگے ہیں صحرا میں
فکر کو خوش گوار موڑ دیا
٭
خار بھی گُل صفت نظر آئے
جیسے یک سَر بدل گیا موسم
سر خوشی سے مچل گیا موسم
نخلِ امید میں ثمر آئے
٭
ہر سو اوجھل ہوئے ہیں اندھیارے
روشنی کا نصیب جاگ اٹّھا
زندگی کا نقیب جاگ اٹّھا
مسکرانے لگے ہیں اُجیارے
٭
مصطفی کے خلوص کی نکہت
زحمتوں میں بھی بن گئی رحمت
ارشدؔ مینانگری نے اپنے کلام کو عقیدت و ارادتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پُر اثر اظہاریہ بنانے کے ساتھ ساتھ رسولِ گرامی وقار صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلا اخلاق و کردار، اسوۂ حسنہ، پاکیزہ شب و روز، اصولِ امن و مساوات، عدل و انصاف، رحم و مروت، ایثار و قربانی اور نظم و ضبط کا بے دار کُن اشاریہ بھی بنایا ہے۔ آپ نے اپنی نعتوں میں اردو کے ساتھ ہندی بھاشا اور گیتوں کی لفظیات کے علاوہ تشبیہات، استعارات، محاورات، محاکات، پیکرات، ترکیبات، علامات، جمالیات، نئے امکانات، جدید تجربات اور ہیئتی تنوع وغیرہ شعری محاسن کو عمدگی سے فن کارانہ طور پر برتنے کی کام یاب کوشش کی ہے۔ جو تاثیر کے جوہر سے سجی ہوئی ہیں۔
ارشدؔ صاحب کی نعتوں میں مقصدیت اور معنویت پائی جاتی ہے، عالمی سطح پر اُمتِ مسلمہ کی روبہ زوال عظمت و شوکت کا المیہ پیش کرنے کی بجائے آپ نے براہِ راست اِس عظیم بیماری کے علاج و مداوا کی بات کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ سیرتِ طیبہ کا عامل کبھی بھی رسوا نہیں ہوسکتا، فنِ نعت گوئی کے لوازمات اور آدابِ نعت کا پاس و لحاظ بھی آپ کی نعتوں میں ملتا ہے۔ رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ سراسر قرآن کی تفسیر ہے اور آپ کے جملہ افعال و اعمال اور اقوال و فرامین وَمَا یَنطِقُ عنِ الھَویٰ اِن ہُوَا اِلا وَحْیُ یُّوحیٰ کے مصداق حق تعالیٰ کی طرف سے ہی ہیں۔ اِس اعتبار سے ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و منصب کتنا بلند و بالا ہے اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔ شاعر کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ نعت لکھتے وقت اس امر کو ملحوظ رکھے کہ وہ جس بارگاہِ عظمت نشان کے لیے قلم اٹھا رہا ہے وہ بارگاہ ممدوحِ خالقِ کائنات جل شانہٗ بھی ہے، یہاں ’’با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار‘‘ کی نازک ترین منزل ہمہ دم پیشِ نظر رہنی چاہیے۔
اِس تناظر میں ارشدؔ مینانگری کے نعتیہ مجموعۂ کلام ’’رحمۃ للعالمین‘‘ کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد یہ احساس ابھرتا ہے کہ آپ نے اپنے کلام کو رسولِ مختار صلی اللہ علیہ وسلم کی الفت و محبت کے تئیں مبالغہ و غلو سے پَرے قرآنی ادب کا مظہر بنانے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ ساتھ ہی آپ کے کلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کی طرف سے عطا کردہ نوازشات و انعامات، تصرفات و اختیارات اور عظمت و رفعت کا بالغ اقرار بھی ملتا ہے۔ غرض یہ کہ ارشدؔ صاحب نے اپنے مجموعۂ کلام کے نام ’’رحمۃ للعالمین ‘‘ کو اسم بامسمیٰ بنانے کے لیے اپنی نعت گوئی کے ذریعہ عقیدہ و عقیدت کے ساتھ کائناتِ ارضی پر بسنے والے جملہ انسانوں کو اُسوۂ حسنہ کا آفاقی پیغام دینے کی سعیِ بلیغ کی ہے جو لائقِ تحسین و آفرین ہے، ’’رحمۃ للعالمین‘‘ سے چند اشعار نشانِ خاطر ہوں ؎
اُس کا شعور حاصلِ عرفان و آگہی
یادِ نبی سے رشتہ ہے جس کے شعور کا
کانٹوں کو بھی پھولوں کا احساس دلا دینا
سنّت ہے محمد کی دشمن کو دعا دینا
ذاتِ احمد اگر نہیں آتی
زندگی راہ پر نہیں آتی
نقشِ پا آپ کا نظر آیا
خلد کا راستا نظر آیا
………
یہ ترے قدم کے فیوض ہیں یہ ترے قدم سے ظہور ہے
تری رہِ گزر میں جگہ جگہ کہیں عرش ہے کہیں طور ہے
………
ہم پھر گئے تعلیمِ رسولِ عرَبی سے
بو بکر و عمر حضرتِ عثمان و علی سے
مطلق ذلیل ہوکے پشیمان نہیں ہیں
صد حیف کہ ہم عاملِ قرآن نہیں ہیں
یوں دور ہوئے جذبۂ احساسِ خودی سے
ہم پھر گئے تعلیمِ رسولِ عرَبی سے
المختصر یہ کہ پیشِ نظر مجموعۂ کلام ارشدؔ مینانگری کی فکری و فنی گہرائی و گیرائی کا ایک دل کش اظہاریہ ہونے کے ساتھ ساتھ نعتیہ شاعری کے حوالے سے مختلف ہیئت اور اصناف کے بلیغ تجربات کا آئینہ دار بھی ہے۔ مختلف ہیئتوں اور اصنافِ سخن میں اتنی خوب صورت نعتیں لکھنے پر میں ارشدؔ صاحب کو صمیمِ قلب سے ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں۔ یقین ہے کہ موصوف کے دیگر مجموعہ ہائے کلام کی طرح نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی یہ خوب صورت نذرانۂ عقیدت بھی قبولیتِ عامّہ سے سرفراز ہو گا جو اِن شآء اللہ آپ کے لیے توشۂ نجات بنے گا۔ (۶؍ رجب المرجب ۱۴۳۲ھ / ۹؍ جون ۲۰۱۱ء بروز جمعرات)
٭٭٭
نعت ادب کی جملہ اصناف میں سب سے محترم و مکرم، محبوب و پاکیزہ اور تقدس مآب صنفِ سخن ہے۔ جو اپنی ابتدائے آفرینش سے سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف، اخلاق و کردار اور سیرتِ طیبہ کے اظہار و ابلاغ کا وسیلہ ہے۔ یوں تو نعت کی ابتدا روزِ میثاق النبیین ہی سے ہو گئی تھی لیکن باضابطہ اس مقدس صنف کا آغاز بعثتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوا۔ نعتیہ ادب کے جید محققین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ نعت گوئی میں اولیّت کا شرف جناب ابوطالب کو حاصل ہے۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے اولین نعت گو شاعر کہلائے۔ تاریخِ اسلام میں تین نعت گو اصحابِ رسول حضرت حسان بن ثابت، حضرت عبداللہ بن رواحہ اور حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہم ’’ شعرائے رسول الثقلین ‘‘ کے مہتم بالشان لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ ان حضرات کے علاوہ دوسرے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی مدحتِ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے خوب صورت گل بوٹے کھلائے جن کی خوشبوئیں مشامِ جان و ایمان کو معطر و معنبر کر رہی ہیں۔ دراصل ان اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم کی زبانِ فیض ترجمان نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جو بڑے بڑے سحر البیان فصحا اور خطبا سے ممکن نہ تھا، ان نفوسِ قدسیہ نے انسانی ادب کو نعت جیسی عظیم المرتبت اور با عظمت صنف سے نہ صرف آشنا کیا بل کہ صاحبِ قرآن کو پیشِ نظر رکھ کر قرآنی ادب کے ساتھ نعت گوئی کے لیے عقیدت و محبت اور تعظیم و توقیر کے آداب بھی ظاہر فرمائے۔
صحابۂ کرام اور تابعینِ عظام کے بعد اسلام جب رفتہ رفتہ اکنافِ عالم میں پھیلنا شروع ہوا تو نعت گوئی کے فن میں بھی وسعت ہونے لگی، عربی سے فارسی اور فارسی سے اردو میں نعت گوئی کا مقدس سفر جاری رہا۔ ذخیرۂ نعت میں دنیا کی بیش تر زبانوں میں نعتیہ کلام وافر مقدار میں موجود ہیں، راقم نے اپنے پی۔ ایچ۔ ڈی مقالہ’’ مصطفی رضا نوریؔ بریلوی کی نعتیہ شاعری کا تحقیقی مطالعہ‘‘ میں ۲۵؍ سے زائد زبانوں میں نعتیہ کلام بہ طورِ نمونہ پیش کیے ہیں۔ جس سے نعت کی آفاقیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اردو نعت گوئی میں کفایت علی کافیؔ، امام احمد رضا بریلوی، امیر مینائی، محسن کاکوروی، حسن رضا بریلوی، وغیرہ نے جو اُجلے نقوش مرتب کیے ہیں ان سے اربابِ علم و دانش بہ خوبی واقف ہیں۔ عصری ادب کے منظر نامہ پر نعت گوئی اس قدر مقبول ہے کہ سب سے زیادہ اب اسی صنف پر طبع آزمائی ہو رہی ہے۔ اس اعتبار سے اکیسویں صدی کو نعت گوئی کی صدی قرار دینا غیر مناسب نہ ہو گا۔
گہوارۂ علم و ادب مالیگاؤں کی علمی و ادبی اور مذہبی و سماجی حیثیت کو اک جہان نے تسلیم کیا ہے۔ یہاں بڑے بڑے علما، فقہا، حفاظ، قرا، ادبا اور شعرا نے جنم لیا اور مختلف میدانوں میں اپنی مخلصانہ خدمات کے ذریعہ شہر عزیز کے نام کو وقار بخشا۔ شاعروں اور ادیبوں کے اس شہر میں ادب کی جملہ اصناف پر مسلسل کام جاری ہے۔ کئی شعرا نے دیگر اصناف کے ساتھ ساتھ نعت گوئی کو بھی اپنا وطیرہ بنائے رکھا اور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا خوانی، اوصافِ جمیلہ، اخلاق و کردار، سیرتِ طیبہ اور اسوۂ حسنہ سے فضائے بسیط میں نور ِ یقین بکھیرنے کا کام انجام دیا اور دے رہے ہیں ان میں ایک نمایاں نام قاری تابشؔ مالیگانوی کا بھی ہے۔
محترم قاری تابشؔ صاحب مالیگاؤں کے مشہور و معروف، خوش الحان، کہنہ مشق اور بزرگ و محترم شاعر ہیں۔ آپ کی ولادت ۱۹۱۹ء کو مالیگاؤں کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی۔ صرف جماعت چہارم تک تعلیم حاصل کی۔ دینی تعلیم کا حصول کرتے ہوئے فن تجوید و قراءت میں وہ کمال حاصل کیا کہ شہر کے خوش الحان قرا میں شمار کیے جاتے ہیں۔ فنِ شعر گوئی میں مشہور شاعر وقار حیدری کی شاگردی اختیار کی۔ طبیعت مناسب اور موزوں تھی استاذِ محترم کی تربیت نے مزید کندن بنا دیا۔ مشاعروں اور شعری نشستو ں میں آپ اپنے مخصوص لب و لہجے اور دل آویز ترنم سے محفل پر ایک روحانی سماں باندھ دیتے ہیں جو قلب و روح کو متاثر کرنے کے ساتھ کیف و سرور سے ہم کنار کرتے ہیں۔ عمر کی جس منزل سے آپ گذر رہے ہیں اس میں آواز کے زیر و بم میں ارتعاش پیدا ہونے لگتا ہے، لیکن آپ کی غنائیت، نغمگی اور پاٹ دار لب و لہجہ اب بھی جوان اور ترو تازہ نظر آتا ہے جو آپ کی شخصیت کا اضافی اور توصیفی پہلو ہے۔
یوں تو تابشؔ صاحب نے شاعری کی کئی اصناف میں طبع آزمائی کے کام یاب جوہر دکھائے ہیں، آپ کی فکر رسا نے غزلیہ و بہاریہ شاعری کی لہلہاتی فصل بھی اگائی ہے۔ لیکن آپ نے نعت گوئی جیسی مقدس و محترم صنف کو بالخصوص بڑے پیمانے پر برتا ہے اور شہرو بیرونِ شہر یہی آپ کا شناخت نامہ بھی ہے۔ صنف نعت گوئی پر آپ کی نظر گہری ہے، اس فن کی نزاکتوں اور باریکیوں سے آپ بہرہ ور ہیں۔ آپ نے اس فن کو بہ حسن و خوبی نبھایا ہے۔ آپ نے نعتیں لکھیں اور خوب لکھیں۔ غرض یہ کہ نعت گوئی سے آپ کا لگاؤ اظہر من الشمس ہے۔ آپ کے فرزند محترم صالح صاحب بھی اسی وصف سے متصف کہلاتے ہیں۔
اس وقت میرے مطالعہ کی میز پر آپ کا مجموعۂ نعت’’ متاعِ تابش‘‘ سجا ہے اور جس نے مجھے اپنی گرفت میں لیا ہے لیکن میں سوچتا ہوں کہ مجھ جیسا ادب کا ادنا اور کم فہم طالب علم موصوف کے فکر و فن کی تہہ داری کو کیسے کھول سکتا ہے۔ بہ ہر کیف! سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا خوانی کے حوالے سے کچھ خامہ فرسائی کی جرأت کر رہا ہوں۔
نعت گوئی کا سب سے بڑا محرّک عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ہمارے شعرا نے اسی جذبۂ خیر کے اظہار و ابلاغ کے لیے نعت گوئی کو بہ طورِ وسیلہ استعمال کیا، لیکن جاننا چاہیے کہ نعت ادب کی سب سے نازک اور مشکل ترین صنف ہے اس میں زبان و بیان، افکار و موضوعات، خیالات و احساسات اور لفظیات کے انتخاب میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ یہاں شاعر بے ساختہ تیشۂ قلم چلاتے ہوئے وارداتِ قلبی کو زیبِ قرطاس نہیں کر سکتابل کہ نعت گوئی میں اس کے لیے یہ امر ضروری ہے کہ وہ کسی خیال کو فنی پیکر دینے سے پہلے نپے تُلے الفاظ میں حُسنِ خطاب اور حُسنِ بیان کے ساتھ اسے سوبار احتیاط کی چھلنی میں چھان لے۔ نعت گوئی میں افراط و تفریط اور بے جا خیال آرائیوں کی چنداں گنجایش نہیں، نعت حقیقتاً ’’اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں ‘‘ سے عبارت ہے۔ یہ فن انھیں خوش نصیب افراد کو حاصل ہوتا ہے جن پر فضلِ خداوندی اور عنایت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی موسلادھار بارش ہوتی ہے۔
قاری تابشؔ صاحب کے کلام کے مطالعہ کے بعد یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آپ نے فنِ نعت کی تمام تر قیود و آداب کی پاس داری کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنی کارگاہِ فکر میں اشعار کو ڈھالا ہے۔ موصوف کی بیش تر نعتیں غزلیہ فارم اور ٹیکنک میں ہیں۔ آپ کے نعتیہ کلام کے مطالعہ کے بعد یہ احساس دل پر منعکس ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی شاعری کو شاعری برائے شاعری نہیں بل کہ شاعری برائے بندگی سے آراستہ و مزین کرنے کی سعیِ مشکور کی ہے۔
نعتیہ شعری کائنات کے دیگر نعت گو شعرا کی طرح تابش ؔ صاحب کی نعتیہ شاعری کا محرک بھی عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جذبۂ نیک ہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں شاعر کی فکر و نظر جتنی مخلصانہ اور والہانہ ہو گی اس کے کلام میں اُتنا ہی زیادہ تاثیر کا جوہر جلوہ گر ہو کر قاری و سامع کو اپنی گرفت میں لے گا۔ تابشؔ صاحب کے کلام میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جو دل کش تابشیں ہیں وہ متاثر کن ہیں جن کے پُر خلوص ہونے سے ناقد کو انکار ممکن نہیں۔ عشق و محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں والہانہ مگر محتاط وارفتگی، اسوۂ حسنہ اور سیرتِ طیبہ کی آفاقیت و ہمہ گیری اور اسلام کے تفوق و برتری کا یقینِ کامل تابشؔ صاحب کے کلام کے خصوصی عناصر ہیں۔ تابشؔ صاحب نے اپنے کلام کے ذریعے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، خود شناسی، خدا شناسی اور عرفانِ نفس کے شانہ بہ شانہ معاشرے میں سرایت کردہ، مغربی افکار و نظریات، بد اعمالیوں اور سیرتِ طیبہ سے دوری کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو اجاگر کر کے ان کے اصلاح کی طرف توجہ مرکوز رکھی ہے ؎
حکیمِ دوجہاں کو چھوڑ کر غیروں کی حکمت سے
مریضِ قعرِ ذلت کا مداوا ہو نہیں سکتا
ان کی بتلائی ہوئی راہ سے ہٹ کر مت چل
سرخ کانٹے ہیں کہیں اور کہیں ہیں دلدل
ان کی ہر بات کو مضبوطی سے پکڑے رہنا
چھوٹ جائے نہ یہ رسی کہیں کھل جائے نہ بل
آپ نے اپنی شاعری کے ذریعہ یہ بتایا ہے کہ انسانیت کا کارواں اپنا علمی و فکری سفر صحیح سمت گامزن کرنے کے لیے جب تک سیرتِ طیبہ اور حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سنتوں کا عامل نہیں بنے گا کامیابی اس کے قدم نہیں چوم سکتی ؎
منزلیں بڑھ کے خود اس کا قدم لینے لگیں
جس نے جانی قدر و قیمت آپ کے پیغام کی
درسِ محبوبِ خدا بھول گئے بھول گئے
ورنہ بن جاتے ہر اک دور کی قسمت ہم لوگ
تابشؔ صاحب نے اپنی نعت گوئی کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ، سیرتِ طیبہ، رحمتِ عامہ، شانِ کریمی و رحیمی، جود و عطا، شفاعتِ کبریٰ، مساوات و اخوت، صبر و رضا، ایثار و قربانی، شانِ مسیحائی، ولادتِ باسعادت، فصاحت و بلاغت، اخلاق و کردار، قیادت و ہدایت اور عظمت و رفعت کی آفاقیت کا بیان شاعرانہ نزاکتوں اور ادیبانہ مہارتوں کے ساتھ کیا ہے۔ آپ نے سیدھی سادی اردو میں متاثر کن شعر کہے ہیں۔ زبان و بیان کی سادگی میں آپ نے الفاظ و معنی کی حرمت کا بھی بہت خیال رکھا ہے۔ لفظیات کے انتخاب میں محتاط رہ کر اپنا ما فی الضمیر ادا کیا ہے۔ سلیقہ مندانہ پیرایۂ اسلوب میں سلاست و روانی، شگفتگی و برجستگی، پختگی و شیفتگی، تشبیہات و استعارات، علامات و تلمیحات اور دیگر فنی محاسن کو ادیبانہ اور عالمانہ چابک دستی سے استعمال کرنے کی کامیاب ترین کوشش کی ہے، چند اشعار نشانِ خاطر ہوں ؎
دل کتنے خورشید ہوئے ہیں، ذرے بھی ناہید ہوئے ہیں
فیضِ پرتوِ نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وسلم
جس سے غیروں کی بھی دیکھی نہ گئی تشنہ لبی
اس قدر درد بھری جود و سخا کس کی ہے؟
اب بھی دنیا گوش بر آواز ہے
تھے عجب معجز بیاں میرے نبی
دیکھیے تاثیرِ خطباتِ خطیبِ دوجہاں
گوش بر آواز ہیں محراب و منبر آج بھی
ایک لمحہ بھی جو حضرت کی حضوری میں رہا
ننگِ انساں بھی یقیناً فخرِ انساں ہو گیا
بے جان کو جاں بخش دی پتھر کو زباں دی
انداز تو دیکھے کوئی اس چارہ گری کا
جواب ایسی کریمی کا دو عالم میں نہیں ملتا
کہ جس کے در پہ آ کر دشمنوں نے بھی اماں پائی
جو ظلم قدسیوں سے بھی دیکھا نہ جا سکا
وہ ظلم اور آپ کا صبر و قرار لکھ
کچھ بن سکی نہ بارشِ رحمت کے سامنے
بجھتی گئی ہر آتشِ برق و شرار لکھ
تابشؔ صاحب نے بحور کے انتخاب میں بڑی مشاقی دکھائی ہے۔ آپ کی ردیفیں دل کش، زمینیں جدت و ندرت کی آئینہ دار اور بحریں انتہائی مترنم اور نغمگی و موسیقیت سے معمور ہیں، آپ کے کلام میں سوز بھی ہے ساز بھی، جب آپ کا خوش الحان لب و لہجہ اپنے مخصوص ترنم میں نعتیں گنگناتا ہے تو سننے والے کیف آگیں جذبات سے سرشار ہونے لگتے ہیں۔ بزرگوں سے میں نے سنا ہے کہ مشاعروں میں تابشؔ صاحب کا طوطی بولتا تھا لوگ آپ کو سننے کے لیے گھنٹوں بیٹھے رہا کرتے تھے، جناب تابشؔ نے اپنے اس وصف کو رؤف و کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے کرم سے تعبیر کیا ہے ؎
اہلِ محفل کی زباں پر ہے جو تابشؔ تابشؔ
یہ انھیں کا ہے کرم ان کی عنایت اے دوست
تابشؔ صاحب کی شاعری کے خصوصی اوصاف میں ایک ہی لفظ کو شعر میں بار بار استعمال کرنے کے باوجود تکرارِ لفظی کے عیب کا نہ پایا جانا بھی ہے، آپ کے کلام میں کئی ایسے اشعار موجود ہیں جن میں ایک ہی لفظ کو آپ نے ایسی فن کارانہ مہارت سے استعمال کیا ہے کہ تکرار کے نقص کی بجائے پیرایۂ بیان کا حُسن، نغمگی اور دل کشی قاری و سامع کو متاثر کرتی ہے اور دل سے واہ وا! کی داد نکلتی ہے ؎
حسرت کو ئی حسرت ہے تو ہے حسرتِ دیدار
ارمانوں میں ارمان ہے ارمانِ مدینہ
یہ کرم کس کا عطا کس کی ہے کس کا فیض ہے
جوشکستہ دل بھی رشکِ طورِ سینا ہو گیا
وہ سکونِ بے سکوں ہے وہ قرارِ بے قرار
وہ نبی کا دردِ الفت ہے جو درما ں ہو گیا
ادھر آؤ جنت کی جنت تو دیکھو
کھلا سب کی خاطر ہے بابِ مدینہ
تابشؔ مجھے تو ان کی شفاعت پہ ناز ہے
یہ ناز ہے و ہ ناز جسے بار بار لکھ
اسی طرح تابشؔ صاحب کے خامۂ گل رنگ نے نت نئی ترکیباتِ لفظی کا نگارخانہ بھی اپنے کلام میں سجایا ہے، دو لفظی، سہ لفظی اور چہار لفظی تراکیب کے استعمال سے بلاغت کا کام لیا ہے اوروسیع مفہوم کا اظہار ان تراکیب سے کرتے ہوئے ان میں سماعی، مذوقی، شامّی، بصری، نوری، جمالیاتی پیکروں کی جھلملاہٹ سے اپنے کلام کو دو آتشہ بنا دیا ہے، یہ ترکیبیں اور پیکری بیانیہ لطف و سرور کو دوبالا کرتے اور جمالیاتی حِس کو محظوظ کرتے ہیں، بہ طورِ مثال چند ترکیبیں ملاحظہ کرتے چلیں اور براہِ راست اس مجموعہ سے اُن اشعار کا مطالعہ کریں جن میں یہ ترکیبیں چار چاند لگائے ہوئے ہیں :
’’تاثیرِ خطباتِ خطیبِ دوراں … غبارِ رہِ گذارِ مصطفی… شانِ فاقہ پروری … بلا نوشانِ حق و آگہی … آئینۂ حق و صداقت … رشکِ بادشاہت … رشکِ گہر … گنجینۂ رحمت … فیضانِ کلیمانہ … طلسمِ کفر و شر … مرغِ چمنستانِ مدینہ … شمعِ شبستانِ مدینہ … قاطعِ بیش و کم … کاشفِ پیچ و خم … منتہائے کرم … صریرِ قلم … مریضِ قعرِ ذلّت … شکوہِ جلوہ آرائی … فرازِ طور … امتیازِ گلشن و صحرا … اعجازِ مسیحائی … فیضِ تابِ گویائی … جفائے اہل طائف … فیضانِ نگاہِ لطف ِ سرور … مینائے دل … بوئے وفا … بہارِ حقیقت پیامِ محمد … گلستانِ رحمت کلامِ محمد … فیضِ پرتوِ نورِ مجسم … آتشِ برق و شرار وغیرہ۔
تابشؔ صاحب نے خالص غزلیہ لفظیات جیسے جام و مینا، شراب و ساقی، تارو رُباب اور مَے کش و مَے کدہ وغیرہ کو جس تقدیسی آہنگ کے ساتھ صحیح سیاق میں استعمال کیا ہے وہ لوازماتِ نعت سے آپ کی باخبری کی بین دلیل اور آپ کے قادر الکلام نعت گو شاعر ہونے کا عکاس ہے ؎
چلو مَے کشو! آؤ جی بھر کے پی لیں
کہ گردش میں ہے اب بھی جامِ محمد
عجب تھرتھراہٹ ہے تارِ نفَس میں
یہ کس دل نے چھیڑا رُبابِ مدینہ
یہ ہے روحِ کوثر یہ جانِ کوثر
شرابِ مدینہ شرابِ مدینہ
اسی سے نہ کیوں داغِ عصیاں کو دھولوں
ہے مینائے دل میں شرابِ مدینہ
جو منہ سے لگی تو نہ چھوٹے گی تابشؔ
وہ ہے روح پرور شرابِ مدینہ
اک جام میں کھل جاتے ہیں اسرارِ حقیقت
اعجاز ہے کیا مَے کدۂ مصطفوی کا
علاوہ ازیں مضمون آفرینی، خیال آرائی، شکوہِ لفظی، شوکتِ ادا، بندش و چستی، ندرتِ بیان، علوے فکر اور اوجِ تخیل جیسے عناصر کا استعمال غزل میں تو آسان ترین ہے لیکن نعت کے تنگنائے میں اس کو برتنے کے لیے بڑی دیدہ وری اور عرق ریزی کی ضرورت ہے۔ تابشؔ صاحب کے یہاں معانی آفرینی اور ندرتِ ادا کا کہیں کہیں ایسا اچھوتا اور نادر شعری اظہار ملتا ہے کہ بار بار سبحان اللہ !کہنے کے لیے دل مچلنے لگتا ہے، خاطر نشین کیجیے کلامِ تابشؔ سے معانی آفرینی کی دل نشین تابشیں ؎
میرا دل دل نہیں مدینہ ہے
اور ہیں خیرالورا مدینے میں
ایماں کی خیر ہو ارے ایماں کی خیر ہو
کا نٹوں کا ذکر اور مدینے کی راہ میں
ہوا سنگ سیماب اور آگ سونا
سنا جس نے ان کا بیاں پیارا پیارا
عیاں ہو گئے سب حقیقت کے جلوے
وہ سرمہ ہے نوری ترابِ مدینہ
اسی طرح بالکل اچھوتا اور نرالا خیال، جس میں بلا کی جدت و ندرت پنہاں ہے ؎
تمنا کی ہر تشنگی کو بجھا لوں
گر دیکھ پاؤں سَرابِ مدینہ
غزوۂ خندق کے موقع پر آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شکمِ ناز پر پتھر باندھ لیے تھے تاکہ بھوک کی سختی سے کچھ افاقہ ہوسکے شاعرِ محترم نے عشقِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے اجالے میں اس تاریخی واقعہ کوجس درجہ حسین و جمیل اور دل کش و دل نشین پیرایۂ بیان میں پیش کیا ہے وہ دیدنی و شنیدنی ہے، طرزِ اظہا ر کا یہ بانکپن اور جدت و ندرت کی نادرہ کاری تابشؔ صاحب کے اوجِ تخیل اور علوئے فکر کی غمازی کرتی ہے، ملاحظہ ہو گراں قدر جوہر پارہ ؎
پتھروں نے لپٹ کے پیار کیا
فاقہ پرور شکم پہ لاکھ سلام
نعت گوئی کی ایک مبارک روش سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجنا ہے کہ خود خداوندِ قدوس جل شانہ اور اس کے فرشتے صلاۃ و سلام میں مصروف ہیں، ہماری فضاؤں میں امام احمد رضا محدثِ بریلوی کا شہرۂ آفاق سلام ع
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
ایک مدت سے روشنیاں بکھیر رہا ہے، اس مقبولِ عام سلام کے تتبع میں بیش تر شعرا نے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ہدیۂ سلام پیش کیا ہے، تابش ؔ صاحب نے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے جو سلام بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں نذر کیا ہے، اس میں بلا کی نغمگی و موسیقیت، سلاست و روانی، معانی آفرینی، تراکیبِ لفظی اور پیکریت موج زن ہے، چند اشعار بہ طورِ نمونہ نشانِ خاطر کریں ؎
پاسبانِ حرم پہ لاکھ سلام
شانِ خیرالامم پہ لاکھ سلام
جس نے ذرے کو آفتاب کیا
اس نگاہِ کرم پہ لاکھ سلام
جو نہ بھولا ہمیں نہ بھولے گا
ایسے شاہِ امم پہ لاکھ سلام
دشمنِ جاں پہ رحم فرمایا
منتہائے کرم پہ لاکھ سلام
جینے مرنے کا راز سمجھایا
کاشفِ پیچ و خم پہ لاکھ سلام
جس نے نعتِ نبی پہ لب کھولا
اس صریرِ قلم پہ لاکھ سلام
مفخرِ موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ طیبہ کا شعری اظہار بھی نعت گو شاعروں کے نزدیک مرغوب و پسندیدہ ہے، ایسی نعتیہ غزلوں میں شعرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورودِ مسعود سے قبل کے حالات کی عکاسی کرتے ہوئے ولادتِ طیبہ کے بعد ظہور پذیر ہونے والی اصلاحی، انقلابی اور فکری تبدیلی کا بیان کرتے ہیں، تابشؔ صاحب کے یہاں بھی یہ اظہاریہ اپنی بھر پورآب و تاب کے ساتھ ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر جمیل کے نقوش کو ابھارتا ہے ؎
آمدِ مصطفی نور ہی نور ہے
جشنِ صلِ علا نور ہی نور ہے
بخش دی جو ہمیں زندگی کے لیے
وہ کتابِ ہدیٰ نور ہی نور ہے
حبیبِ کبریا آئے شہِ عالی مقام آئے
جہانِ رہبری میں رہبرِ ہر خاص و عام آئے
شیاطینِ جہاں کا ہر طلسمِ کفر و شر ٹوٹا
نویدِ خیر و برکت لے جب خیر الانام آئے
ہوئی جب رحمتِ کونین کی تشریف فرمائی
کھلا بابِ شفاعت، معصیت کوشوں کی بن آئی
مٹایا کس نے آ کر امتیازِ گلشن و صحرا
نہ تھی کونین میں جس کی مثال ایسی بہار آئی
اسی طرح واقعۂ معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن کا ایک شعر تو زباں زدِ خاص و عام ہے، جو آپ کی مقبولیت پر دلالت کرتا ہے ؎
شبِ اسرا نمازوں کی کمی بیشی بہانہ تھی
خدا خود چاہتا تھا میرا پیارا بار بار آئے
قاری تابشؔ صاحب کا یہ دل کش مجموعۂ نعت عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی فنی گہرائی و گیرائی کو نمایاں کرتا ہے، آپ نے اپنے کلام کو محتاط فکر و تخیل کے ذریعہ آراستہ و مزین کرتے ہوئے قرآنی ادب کا مظہر بنایا ہے اور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ اور حیاتِ طیبہ کی روشنی میں اہل اسلام کو زندگی گذارنے کا پیغام دیا ہے۔ فنِ نعت گوئی میں تابشؔ صاحب کی یہ دل کش تابشیں یقیناً لائقِ تحسین و آفرین ہیں۔ راقم شاعرِ محترم کے فکر و فن، جذبہ و تخیل، طرزِ اظہار، تراکیب و پیکرات، اور افکار و موضوعات وغیرہ شعری و فنی محاسن کو نمایاں کرنے کا یقیناً اہل نہیں ہے لیکن یہ محترم صالح ابن تابش صاحب کی محبت اور حُسنِ ظن ہے کہ انھوں نے مجھ جیسے بے بضاعت کو اس قابل سمجھا۔ بہ ہر کیف ! اس خوب صورت نعتیہ مجموعے کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ عزوجل اس کو شرفِ قبول عطا فرمائے ( آمین) تابشؔ صاحب ہی کہ ایک شعر پر قلم روکتا ہوں کہ ؎
تابشؔ اس فیضِ نعتِ نبی کے طفیل
میرے دل کی صدا نور ہی نور ہے
۲۲؍ رجب المرجب ۱۴۳۲ھ / ۲۵؍ جون ۲۰۱۱ء بروز سنیچر
٭٭٭
نوعمر و تازہ کارعالم و شاعر مولانا عبداللہ سرورؔ اعظمی نجمی کی تقدیسی شاعری کا اولین مجموعہ ’’زیست کا عنوان‘‘ پیشِ نظر ہے۔ اِس میں حمد و دعا، نعت و مناقب اور حضور تاج الشریعہ مفتی محمد اختر رضا قادری برکاتی ازہری میاں کی دو مشہور ِ زمانہ نعتوں پر خوب صورت تضامین شامل ہیں۔ یہ مجموعہ ذاتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت اور آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا ایک حسین گل دستہ ہے جس کے ایک ایک شعر سے شاعر کا والہانہ خلوص، فداکارانہ عقیدت، شریعتِ مطہرہ کا التزام، الفاظ کا مناسب رکھ رکھاو اور شعریت کے حُسن کی جھلکیاں صاف طور پر نمایاں نظر آتی ہیں۔ سرورؔ صاحب نے اپنی تقدیسی شاعری کو جن لفظیات سے آراستہ کرنے کی کوشش کی ہے، اُس میں دل کشی بھی ہے اور تازگی و طرفگی بھی۔ سرورؔ صاحب نے لسانی تعملات سے جن تراکیب کو طلوع کیا ہے اُن میں پیکریت اور امیجری بھی دکھائی دیتی ہے۔ ’’زیست کا عنوان‘‘ سے چند تراکیبِ لفظی ملاحظہ کریں تاکہ شاعر کی زباں دانی کا ایک ہلکا سا اشاریہ سامنے آ جائے :
’’مالکِ کل شہ دوسرا / شہنشاہِ ارض و سما / ضیائے ہر نظر / سیدِ خوباں / مذاقِ بندگی / ساقیِ سلسبیل/ بادۂ دید/ شبابِ فیض / زلف معنبر کا اُسارا/ محبوبِ ربِّ صمد / خوشۂ رحمت/ فزوں عرشِ معلا سے / ثریا سے فزوں مینار / رخِ انور تجلائے خدا کا آئینہ / قدومِ ناز / نغمۂ شوق / تجلائے خدا، جلوہ نبی کا / رشکِ بُستاں /خزاں رسیدہ خیاباں / زیست کا عنوان / غبارِ راہِ سرکارِ مدینہ / جامِ ولائے شاہِ بطحا / رشکِ قدس و زیبِ تاجِ قدسیاں / اے شہ دیں شفیع الورا / مالکِ کل خاتمِ پیغمبراں / اصفیا کے رُخِ زیبا کا غازہ / صدرِ بزمِ امکاں / ذوق افزا شہ کوثر کی شفاعت … وغیرہ وغیرہ،
نعت گوئی کا فن کوئی معمولی حیثیت کا حامل نہیں کہ ہر کس و ناکس اسے ریاضت کر کے سیکھ لے، یہ سعادت انھیں خوش بخت افراد کے نصیبے میں آتی ہے جن پر فضل الٰہی اور فیضانِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نورانی چادر سایہ کناں ہوتی ہے۔ اردو نعت گوئی کی تاریخ میں کفایت علی کافیؔ، محسن کاکوروی، امام احمد رضا بریلوی، حسن رضا بریلوی، نوریؔ بریلوی وغیرہم نے جو دل کش نقوش ابھارے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ علاوہ ازیں نعت گوئی کے فن کو وسعت دینے والے حضرات کی فہرست بڑی طویل ہے۔ جن میں ’’زیست کا عنوان‘‘ کے مصنف محمد عبداللہ سرورؔ اعظمی نجمی کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ موصوف نے صنفِ نعت میں کافی اچھے اور خوب صورت اشعار زیب قرطاس کیے ہیں۔
سرورؔ صاحب ابھی نوعمر ہیں۔ ایک مذہبی درس گاہ کے فارغ التحصیل عالم ہیں۔ نیک لوگوں کی صحبت پائی ہے۔ بچپن سے نعتیہ نغمات سنتے آئے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے نہاں خانۂ دل میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع روشن ہے۔ اسی جذبۂ عشق کے اظہار کے لیے آپ نے نعتیہ شاعری کو بہ طورِ وسیلہ استعمال کیا اور اس میدان میں کامیابی آپ کے قدم چومتی نظر آ رہی ہے۔ ’’زیست کا عنوان ‘‘ آپ کے موئے قلم کا اولین شعری سرمایہ ہے۔ جس میں آپ نے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و الفت کے گن گائے ہیں۔ طبیعت کی موزونی اور علمی پس منظر نے آپ سے صاف ستھرے شعر کہلوائے ہیں۔ کہیں کہیں آمد کے جِلو میں آورد کا اظہاریہ بھی ابھرتا ہے۔ مضامین کی تکرار بھی دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن کہیں کہیں ایسی پختگی پائی جاتی ہے کہ محسوس نہیں ہوتا یہ کسی نوعمر شاعر کا کلام ہے، چند شعر نشانِ خاطر ہوں ؎
جھکائیں کج کلہ سنگِ درِ جاناں پہ سر اپنا
جہاں دم توڑتی ہے سروروں کی سروری تم ہو
مالکِ کونین ہو کر سادگی بے انتہا
تختِ شاہی سے فزوں تیری چٹائی خوب ہے
گریباں چاک ہیں آنکھوں میں کم خوابی کا عالم ہے
تمہارے در پہ میرے دل کی سب حسرت نکل جائے
پڑھیں کلمہ حجر، دوڑیں شجر، مردے بھی جی اٹھیں
دمِ عیسا تمہارا ہے، یدِ بیضا تمہارا ہے
مدینے والے کی یادیں بسی ہوں جب دل میں
تو دل شگفتہ یہ مثلِ گلاب ہوتا ہے
کا میابی کے سب نصابوں میں
ان کی الفت کا باب داخل ہے
نعت گوئی کا محرک حقیقی عشقِ رسول ﷺ ہے۔ یہ عشق جتنا پر خلوص اور والہانہ ہو گا، فن کار کی شاعرانہ ریاضتیں اتنی ہی زیادہ تاثیر کے جوہر سے آراستہ و مزین ہوں گی۔ سرورؔ اعظمی نے جس تقدیسی و ملکوتی اوصاف کے حامل ’’دبستانِ بریلی‘‘ سے اکتسابِ فیض کیا ہے، اس کی محبت رسول ﷺ میں ’’محتاط وارفتگی ‘‘ اظہر من الشمس ہے۔ اس لحاظ سے اُن کے یہاں موضوعات میں تقدس، خیالات میں طہارت اور اظہارِ عشق میں اعتدال نظر آتا ہے۔ مبالغہ و غلو سے پَرے یہی نعت گوئی دراصل شاعر کے لیے اخروی نجات کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔ سرورؔ صاحب کی نعتوں کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد ناچیز اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ وہ نعت گوئی کے فن کی باریکیوں سے نہ صرف واقف ہیں بل کہ ان کو کامیابی سے برتنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ جس کی وجہ سے موصوف کا کلام بے جا خیال آرائیوں سے پاک و صاف دکھائی دیتا ہے۔ شاعر نے قدم قدم پر اپنے خیالات و محسوسات کو ادا کرنے میں سچائی اور صداقت کا پاس و لحاظ رکھا ہے۔
سرورؔ صاحب نے لفظیات میں تنوع لانے کے ساتھ ساتھ زمینوں اور بحروں کے انتخاب میں بھی عمدگی برتی ہے۔ بعض ردیفیں اور قوافی جدت و ندرت کی آئینہ دار ہیں ؎
ولائے مصطفی دل میں بسا کر آج تم نکلو
ثنائے مصطفی لب پر سجا کر آج تم نکلو
وہ نورِ کبریا جب انسان بن کے چمکا
جگ میں وہ نور رشکِ بستان بن کے چمکا
جن کا رخ مثل بدرِ کامل ہے
وہ جو سب خوبیوں کا حامل ہے
جس جگہ بھی رب تعالیٰ کی خدائی خوب ہے
مصطفی کی اس جگہ پر مصطفائی خوب ہے
جہاں پہ ذکر رسالت مآب ہوتا ہے
خدا کا لطف و کرم بے حساب ہوتا ہے
تیری مدحت جو کیا دہر میں محمود ہوا
تجھ سے رکھے جو عداوت وہی مردود ہوا
سرورؔ نے سہیل پیرایۂ زبان و بیان میں سادگی و سلاست، برجستگی و سادگی اور سلیقہ مندی کے ساتھ آدابِ نعت کا خیال رکھتے ہوئے معتبر مضامینِ نعت کو اشعار کے پیکر میں خوب صورتی سے ڈھالا ہے۔ فکر و فن کے لحاظ سے بھی سرور ؔ کی شاعری خوب ہے۔ صنائع لفظی، استعارات، تراکیب اور پیکریت کی مثالیں بھی ’’زیست کا عنوان‘‘ میں چار چاند لگائے ہوئے ہیں سرورؔ نے اپنے تخلص کی مناسبت سے کس درجہ خوبی کے ساتھ تجنیس تام کا کام لیا ہے، ملاحظہ ہو ؎
جو سرورؔ، سرورِ کونین کی نعتیں سناتا ہے
کوئی مچلے ولائے مصطفی میں کوئی جل جائے
اردو لفظیات کے ساتھ عربی، فارسی اور ہندی لفظیات کا حسین امتزاج سرورؔ کے اسلوبِ شاعری کو ایک اچھوتا بانکپن عطا کرتا نظر آ تاہے۔ ساتھ ہی ذیل کی مثالیں صنعتِ تلمیع اور صنعتِ اقتباس میں بھی شامل ہیں ؎
اشارہ یہ رفعنا میں ہے روشن
جہاں میں ذکر اونچا ہے نبی کا
( قرآنی آیت کا جز)
صفت ان کی عنتّم ہے تو کیسے؟
گدا ہو رنج سے دوچار ان کا
( قرآنی آیت کا جز)
اذہبوا غیری کی ہے جب کہ صدا چاروں طرف
عاصیوں کو اپنے دامن میں چھپانا خوب ہے
( حدیث پاک)
گزر گاہِ ارم پر و ہ کھڑے ہیں
صدا جب ربِّ سلم کی لگائے
(حدیث پاک)
عربی کے علاوہ ہندی اور فارسی لفظیات کی مثالیں ملاحظہ کریں ؎
پیوں میں جامِ ولائے شاہِ بطحا
مَیں اپنے دل کی دنیا کو سجاؤں
ہے روشن چاند سے چہرہ نبی کا
تجلائے خدا جلوہ نبی کا
جہاں میں تاج ور تم ہو
ضیائے ہر نظر تم ہو
سب مری اور بڑے رشک سے دیکھا کرتے
ساری دنیا کے لیے مثل نمونہ ہوتا
وہ نورِ کبریا جب انسان بن کے چمکا
جگ میں وہ نور رشکِ بستان بن کے چمکا
خالص ہندی لفظ ’’اُسارا‘‘ بمعنی سائبان کا فارسی ترکیب ’’زلف معنبر‘‘ کے ساتھ فن کارانہ استعمال تو بڑا لطف دے رہا ہے ؎
گرمیِ حشر کا پھر خوف نہ ہوتا مجھ کو
تو اگر زلف معنبر کااُسارا کرتا
علاوہ ازیں ذیل کا شعر تو بڑا ہی خوب صورت اور دل کش ہے، تصویریت کا حُسن اور منظر کشی کا جمال لائق دید و شنید ہے ؎
نبی کے رخ پہ ہیں زلفیں کچھ اس طرح سرورؔ
کہ جیسے ماہِ مبیں پر سحاب ہوتا ہے
مذکورہ زمین کے مزید دو شعر ملاحظہ کریں اور سلاست و روانی کی داد دیں ؎
نبیِ پاک کے روضے پہ دیکھ لو آ کر
خدا کے جلووں کا اٹھا حجاب ہوتا ہے
اگر ہوں آخری منزل مدینے کی گلیاں
تو زندگی کا سفر لاجواب ہوتا ہے
سرورؔ نے معجزات ِ نبوی علیہ السلام کا بیان بھی دل کش پیرایے میں کیا ہے جو صنعت تلمیح کے ضمن میں آتے ہیں، جن کی مثالیں ’’زیست کا عنوان‘‘ میں جا بہ جا دیکھی جا سکتی ہیں۔
اس مجموعہ میں شامل نعتِ پاک ’’کاش! مَیں نعلِ نبی کا کوئی ذرہ ہوتا ہے‘‘ میں سرورؔ صاحب نے جس ایمانی تمنا کا والہانہ اظہار کیا ہے، وہ قابل رشک اور ہر عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صدائے قلبی ہے، چند شعر پڑھیں اور لطف و سرور کو دو بالا کریں ؎
کاش! مَیں نعل نبی کا کوئی ذرہ ہوتا
اپنی قسمت پہ مَیں ہر آن مچلتا ہوتا
لعل و گوہر مری قسمت پہ فدا ہو جاتے
شاہِ کونین کے قدموں سے مَیں لپٹا ہوتا
ان کے قدموں کے مَیں جب چاہتا بوسہ دیتا
بالیقیں اوج پہ میرا بھی نصیبہ ہوتا
ان کے قدموں سے لپٹ کر مجھے ملتی عزت
اصفیا کے رخ زیبا کا مَیں غازہ ہوتا
اسی طرح ’’اے شہ دیں شفیع الورا‘‘- ’’ضیائے ہر نظر تم ہو‘‘- ’ ’ لامکاں تک سرورِ دیں کی رسائی خوب ہے‘‘- ’’اے مسیحا ترے قربان مسیحائی ہے‘‘- ’’بس چلے تو حشر ہی برپا کرے‘‘- ’’ ان کا مدحت سرا مرا دل ہے‘‘- ’’ آپ کی مدح سرائی مرا مقصود ہوا‘‘- ’’ کر دیا سب نے جبیں سائی ترے دربار میں ‘‘- جیسی نعتیں بہت خوب اور لائقِ مطالعہ ہیں۔
سرورؔ صاحب نے قاضی القضاۃ فی الہند حضور تاج الشریعہ علامہ ازہری میاں دام ظلہ العالی کی دو شہرۂ آفاق نعت ’’سنبل جا اے دل مضطر مدینہ آنے والا ہے‘‘ اور’’ مصطفائے ذاتِ یکتا آپ ہیں ‘‘پر تضمین بھی قلم بند کی ہے۔ جو عقیدے اور عقیدت کے ساتھ فکر و فن، جذبہ و تخیل اور زبان و بیان کے لحاظ سے بھی بلند معیار ہیں۔ دونوں تضمین سے ایک ایک بند خاطر نشین کریں ؎
ہے مہبط قدسیوں کا بالیقیں وہ روضۂ جاناں
دل عشاق کی ٹھنڈک ہے دیدِ جلوۂ جاناں
مرے دل میں ہے حسرت دیکھ لوں مَیں قبۂ جاناں
’’ مجھے کھینچے لیے جاتا ہے شوقِ کوچۂ جاناں
کھنچا جاتا ہوں مَیں یک سر مدینہ آنے والا ہے‘‘
رشکِ قدس و زیبِ تاجِ قدسیاں
جس سے روشن ہیں زمین و آسماں
مالکِ کل خاتمِ پیغمبراں
’’زیب و زینِ خاک و فخرِ خاکیاں
زینتِ عرش معلا آپ ہیں ‘‘
نعتیہ نغمات کے بعد سرورؔ صاحب نے اصحابِ بدر، حضرت عثمان غنی، حضرت علیِ مرتضیٰ، حضرت امام حسین، حضرت غوث اعظم، حضرت خواجہ غریب نواز، امام احمد رضا بریلوی رضی المولیٰ عنہم کی شان میں مناقب بھی نظم کی ہے۔ جو اِن بزرگوں کے تئیں آپ کی مخلصانہ محبت و عقیدت کی غمازی کرتی ہیں، سرورؔ صاحب نے ان مناقب میں تاریخی واقعات وغیرہ سے کام لے کر بعض اشعار کو صنعتِ تلمیح سے سجا دیا ہے۔
سرورؔ صاحب نے اتنی کم عمری میں جس مقدس شعری خزانے سے نعتیہ ادب میں ایک دل کش گل دستے کا اضافہ کیا ہے، اُس مجموعۂ کلام کی حوصلہ افزائی نہ کرنا انصاف کے خلاف ہو گا۔ موصوف اسی طرح نعت گوئی کے میدان میں اپنا اشہبِ قلم دوڑاتے رہیں اسی نیک خواہش کے ساتھ دعا ہے کہ روشن جذبات اور اجلے تخیلات کی یہ تقدیسی شاعری سرورؔ اعظمی کی ’’ زیست کا عنوان‘‘ بن کر میدانِ محشر میں ’’نجات کا سامان ‘‘بھی بن جائے۔ ( آمین)
۲۴؍ محرم الحرام ۱۴۳۳ھ/ 20/12/2012منگل صبح 09:30
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید