03:07    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

4800 0 0 00

محمد ادریس رضویؔ ایم۔ اے

کوائف غلام مرتضیٰ راہیؔ

نام و تخلص.......................غلام مرتضیٰ راہیؔ

سنِ ولادت...................۱۹۳۷ء۔ شہر فتح پور( یوپی)

ولدیت.......................غلام مصطفیٰ خاں  غوری

تعلیم.........................بی، اے  

پیشہ.........................معاون مدیر، روزنامہ ’’سیاست جدید‘‘ کانپور

Accounts Officer, U.P.S.R.T.C.(Rtd)

تصانیف  شعری مجموعے :(۱)لامکاں (۱۹۷۱ء)(۲)لارَیب(۱۹۷۳ء)(۳)حرفِ مکرّر(۱۹۹۷) (۴) لاکلام (۲۰۰۰ء)(۵)سدابہارِ غزل(ہندی)(۲۰۰۳ء)  (۶) لاشعور(۲۰۰۶)

خود نوشت سوانح عمری: (۷)راہی کی سرگذشت

تبدیلئی رسم الخط، ترجمہ...........(۱)مثنویِ وقت (۲۰۰۱)مثنویِ رسول(ﷺ) (۲۰۰۲ء) شاعر:صفوت علی صفوتؔ

دیگر امتیازات ..........(۱) ’’راہیؔ حیات اور کارنامے ‘‘ پر، پی ایچ، ڈی، ریسر چ اسکالر۔ حَسن نظامی (نگراں  ڈاکٹر جلیل اشرف)

(۲)حرفِ باریاب(راہیؔ کی غزل کا تنقیدی مطالعہ)  مصنّف۔ عشرت ظفرؔ

(۳)کلامِ راہی اور صنائع و بدائع۔ مصنّف۔ (مولانا)محمّد ادریس رضویؔ (ایم، اے )

خصوصی گوشے۔ (۱)سہ ماہی ’’رنگ‘‘ (۲۰۰۴ء)(۲)سہ ماہی ’’اسباق‘‘ (۲۰۰۶ء)

(۳)دربھنگہ ٹائمز(۲۰۰۶ء)

انعام و اعزاز۔ (۱)اُتر پردیش اُردو اکاڈمی کا انعام(۱۹۷۳ء۔ ۲۰۰۱ء)

(۲)اُردو زبان و ادب کی مجموعی خدمات کے  اعتراف میں  آل انڈیا میر اکیڈمی کا ’’امتیازِ میر ؔ ایوارڈ‘‘ (۱۹۹۷ء)

(۳) بھارتیہ ساہتیہ کار سنسد(بہار)کا اعلیٰ قومی ادبی ایوارڈ(۱۹۹۸ء۔ ۲۰۰۲ء۔ ۲۰۰۴ء)

(۴)اُردو زبان و ادب کی گراں  قدر خدمات کے  لئے  ’’آل انڈیا ماجد ایوارڈ‘‘ (۲۰۰۵ء)

مستقل پتہ۔ راہیؔ منزل، محلّہ پَنی، فتح پور (یوپی)پِن کوڈ۔ ۲۱۲۶۰۱

ٹیلی فون:05180.222323  موبائِل9236590822

 

 

پروفیسرڈاکٹر کے  محمّد عبدالحمیداکبرؔ

ایم، اے۔ پی ایچ ڈی

صدر شعبۂ اردو وفارسی، گلبرگہ یونیورسٹی، گلبرگہ ۵۸۵۱۰۶ (کرناٹک)

تقریظ

’’کلامِ راہی اور صنائع و بدائع‘‘ مصنّفہ مولانا محمد ادریس رضویؔ ایم، اے۔ مصنّف کے  فر زند جلیل مولانا محمد کاشف رضا شادؔ مصباحی کے  بتوسط مجھے  موصول ہوئی۔ بالا اِستیعاب مطالعہ کیا، فن کے  حوالہ سے  بڑی عمدہ، معلومات افزا نایاب کتاب معلوم ہوئی، کتاب میں  جہاں  حضرت راہیؔ صاحب کے  کلام کے  اندر چھُپے  ہوئے  صنائع و بدائع کو بڑی خوبی کے  ساتھ اُجاگر کیا گیا ہے ،و ہیں  خود صنائع و بدائع پر بھی عمدہ روشنی ڈالی گئی ہے۔

غلام مرتضی راہیؔ کے  کلام میں  صنائع و بدائع تلاش کرنے  اور ان کی شناخت کروانے  کا کام اتنا آسان نہیں  ہے ، اس کام کے  لئے  تبحر علمی کے  ساتھ ساتھ شاعرانہ ذوق سلیم کی بھی ضرورت ہو تی ہے  شاعر کے  منشاء تک رسائی مشکل بھی ہے  اور آسان بھی، شاعر کی استعداد علمی کے  مطابق یا قریب مطابق قاری یا شارح کی صلاحیت واستعداد نہ ہو تو تفہیم وترسیل مشکل ہو جاتی ہے  ورنہ آسان، چنانچہ مولانا محمد ادریس رضویؔ ایم، اے  کی اس اہم علمی کوشش کو دیکھنے  سے  پتہ چلتا ہے  کہ موصوف گوناں  گوں  صلاحیت کے  حامل ہیں ، کلام راہیؔ میں  صنائع و بدائع کی تلاش میں  اپنی صلاحیتوں  کو بروئے  کار لا کر، انتہائی اہم کام انجام دیا ہے۔

مولانا محمدادریس رضویؔ ایم، اے  نے  کلام راہیؔ کے  مجموعہ ہائے  کلام (۱) لا کلا م ( ۲ ) لاشعور(۳)لامکاں (۴)  اور ’’ حرفِ مکرّر‘‘ سے  اشعار کا انتخاب کیا ہے۔ اسی طرح مولانا محمدا د ریس رَضویؔ ایم، اے  نے  ایک کوشش اس سے  قبل بھی کی تھی ’’کلام نوری میں  صنائع و بدائع‘‘ کے  عنوان سے  ’’پیغامِ رضا‘‘ ۱۹۹۷ء(مفتی اعظم نمبر) میں  شائع ہوا ہے۔ مذکورہ مضامین سے  ان کی فنی دلچسپی کا اندازہ بھی قائم ہوتا ہے۔

موصوف نے  ’’صنائع و بدائع‘‘ سے  متعلق الفاظ کے  معانی و مفاہیم کے  لئے  لغات اور معاون لغات کتابوں  سے  استفادہ کیا ہے ، پھر اس ایک ہی لفظ کے  معنی کس طرح مختلف جگہ مختلف مفاہیم پیش کرتے  ہیں  یہ دکھانے  کی کامیاب کوشش کی ہے ، نتیجہ شعر کی مقدور بھَر تفہیم و افہام کر نے  کی سعی کرتے  ہیں۔ منشائے  شاعر تک پہنچنے  کی کوشش اس دور میں  غنیمت معلوم ہوتی ہے  ورنہ آج اس طرح کا ذوق رکھنے  والے  بہت کمیاب ہیں  آخر میں  نتیجہ بھی اخذ کرتے  ہیں ججج قاری کے  سمجھنے  میں  معاون ثابت ہوتا ہے۔

صنائع و بدائع(لفظی و معنوی) کی تعریفات بیان کرتے  ہیں ، صنعت کی تعریف بیان کرتے  ہوئے  اسکی تعریف کے  فریم میں  کونسا شعر اوراس شعر میں  کونسا لفظ بیٹھتا ہے  یا بیٹھ سکتا ہے  اس کی شناخت کرتے  ہیں  اس کی تعریف شدہ فریم میں  ثابت کرنا یہ کوئی سادہ اورآسان کام نہیں  ہے  اس کام کے  لئے  تو بڑے  ریاض کی ضرورت ہے ، مولانا محمد ادریس رضوی ؔ صاحب نے  اس کا م کو بہتر طور پر نبھایا ہے ججج قابل ذکر بھی ہے  اور لائق صدتحسین بھی۔

تجنیس تام، زائد، ناقص، مذَیَّل، مضارع، کے  علاوہ تصدیر، صنعت قلب، صنعت تضاد، صنعت تلمیح، صنعت اِیہام، صنعت مراعاۃ النظیر، صنعت تجاہل عارفانہ، صنعت واسع الشفتین وغیرہ کے  تحت اہم اور موزوں  اشعار کا انتخاب فرمایا ہے ، انتخاب کے  ہر شعر میں  مذکورہ صنعتوں  کے  الفاظ کے  مفاہیم و مطالب بیان کر کے  شعر کی تشریح بھی کی ہے۔ کلام راہیؔ میں  صنعتوں  کے  استعمال کو اساتذۂ شعرا ء مثلاً میرؔ ، غالبؔ ، اقبالؔ ، رضاؔ بریلوی وغیرہ کے  اشعار سے  مستند و مزین کرنے  کی سعی کی ہے ،ججج لائق ستائش ہے۔

علم بیان و بدیع۔ تشبیہہ، استعارہ، کنایہ، مجاز مرسل کے  علاوہ پیکر تراشی، محاورے  اور تعلّی کے  اشعار کا حُسن انتخاب بھی شعری لوازم سے  ان کی دلچسپی اور ذوق سلیم پر دال ہے ، خصوصاً پیکر تراشی کے  حوالے  سے  آپ کی محنت تلاش وجستجو مستحق داد و دعا ہے۔ بصری پیکر، سماعی پیکر، لمسی پیکر، نوری پیکر، آتشیں  پیکر، جمالیاتی پیکر، لونی پیکر، بے  مثل پیکر، مخلوط پیکر، کو راہیؔ صاحب کے  کلام میں  بڑی خوبصورتی سے  ڈھونڈ نکالا ہے  اور افہام و تفہیم و وضاحت میں  کوئی کسر نہیں  چھوڑی ہے۔ محاورے  کے  ضمن میں  ایک بڑا ہی دل پذیر شعر پیش کیا ہے ؂

مدّتوں  کانٹے  بچھائے  راہ میں  ٭ایک دن آنکھیں  بچھا کر لے  گیا

تشریحات میں  ان کی زندگی کے  تجربات کو بھی تلاشا ہے  بلکہ شناخت کی ہے  اس سے  اندازہ قائم کرنے  میں  آسانی ہو جاتی ہے  کہ رضوی ؔ صاحب راہیؔ صاحب کی زندگی کا خاصا مطالعہ اور مشاہدہ بھی رکھتے  ہیں۔

شعری تعلّی:راہیؔ صاحب کے  یہاں  تعلّی کے  اشعار بھی ہیں  مثلاً یہ شعر دیکھئے ؂

میں  عندلیب ہوں  لیکن الگ ہے  نوا مری

چمن کو خاک نہ کر دے ’’سخن شرارہ‘‘ مرا

توجہ اہلِ نظر کی نہ منعطف ہوتی

 ضرور کچھ مرے  مجموعہ کلام میں  ہے  

مولانا ادریس رَضویؔ صاحب عالم و فاضل ہونے  کے  علاوہ شعری ذوق اور شعری لوا زم سے  گہرا شعور بھی رکھتے  ہیں  اس لئے  ان کا شمار اہل علم کے  ساتھ ساتھ اہل نظر میں  بھی ہوتا ہے ، اہلِ نظر ہونے  کے  ناطے  راہیؔ صاحب کے  مجموعہ کلام میں  کچھ نہیں  بہت کچھ ہے  کا انداز رَضویؔ صاحب کی اس تحقیق و تلاش نے  راہیؔ صاحب کی اس تعلّی کو تجلی بنا دیا کہ اس تجلی کے  ذریعہ کلامِ راہیؔ میں  مستور صنائع و بدائع منوّر و مجلّیٰ ہو گئے  ہیں ، حوالے  میں  (۱)یونیورسٹی اف میسور کے  نصاب(۲)اردو گرامر(۳)دُروس البلاغۃ(۴)فیروز اللغات(۵)بحر الفصاحت(۶) آئینۂ بلاغت(۷)لغات کشوری(۸)توضیح البلاغۃ، وغیرہ اور مختلف تفاسیر (۱)ضیاء القرآن ( ۲ ) تفسیر نعیمی(۳)ترجمۂ اعلی حضرت، اور اساتذۂ علم و فن کی مختلف کتابوں  سے  معاونت لی گئی ہے ، تصوّف کی جھلکیاں  بھی بعض اشعار میں  ملتی ہیں۔ صنعتوں  کے  مختلف اقسام کے  تحت راہیؔ صاحب کے  اشعار کا انتخاب لغوی وتحقیقی انداز میں  کیا گیا ہے ، اخذ مفہوم اور فنی تجزیہ، بحور و اوزان بھی پیش کئے  گئے  ہیں۔

مولانا ادریس رَضویؔ صاحب کے  بموجب راہیؔ کے  کلام میں  تجانیس کی صنعتوں  کے  گل بوٹے  جگہ جگہ ملتے  ہیں ، کسی کے  یہاں  التزام ہے  تو کسی کے  یہاں  آمد، لیکن راہیؔ صاحب کے  یہاں  صنعتوں  کے  یہ نقش و نگار آمد کے  زمرے  میں  ہیں ، راہیؔ صاحب کا اسلوب نہ صرف صوتی اور لفظی سطح پر انفرادی شان لئے  ہوئے  ہے  بلکہ نحوی سطح پر بھی ایک منفرد اسلوب ہے ،

اللہ تعالی اپنے  حبیب  ﷺ کے  طفیل حضرت مولانا ادریس رَضویؔ صاحب کے  قلم حق رقم میں  مزید طاقت و قدرت عطا فرمائے  اور ان کے  اس علمی شعری لوازم کی خدمات کو درجۂ قبولیت عطا فرمائے  اور ہم کو ان کے  اِس عظیم فن کار نامے  کے  مطالعے  کی توفیق مرحمت فرمائے ، آمین بحق طہٰ ویٰسین

عبدالحمید اکبر

۲۲/۷/۲۰۰۸ء

M.A. Hameed Akbar , H.No.5.408/25.B

Khaja colony Gulbarga 585104

 

پروفیسر ڈاکٹر وحید انجم

پی ایچ، ڈی۔ ایل، ایل، بی

صدر شعبۂ اردو، گورنمنٹ کالج، الند ضلع گلبرگہ (کرناٹک)

تقریظ

میرے  نوجوان دوست ڈاکٹر منظور احمد دکنی نے  یہ کہتے  ہوئے  ’’ڈاکٹر انجم صاحب آ پ کو اس کتاب پر تقریظ لکھنی ہے  ‘‘ میرے  ہاتھ میں  ایک کتاب تھما دی ’’کلامِ راہی اور صنائع و بدائع‘‘ میں  سوچتا رہ گیا۔ ان دنوں  تقریظ کا چلن مفقود ہو چلا ہے ، یہ دور تو پیش لفظ، تعارف، اور پیغامات کا ہے۔ تقریظ، تبصرہ اور پیش لفظ میں  نمایاں  فرق ہے  کہ تقریظ نگاری میں  صرف تعریفی پہلو غالب ہوتا ہے ، بیشتر کتابیں  پڑھنے  والے  مبصّر یا تقریظ نگار کی رائے  کو مقدّم جان کر کتاب کا مطالعہ کرتے  ہیں۔ بعض اوقات تنگیِ وقت کے  پیشِ نظر ریسرچ اسکالر اور دیگر ضرورت مند احباب صرف تقریظ یا پیش لفظ پرہی اکتفا کرتے  ہیں ، اس طرح اس کی اہمیت سے  انکار نہیں  کیا جاسکتا، روایت رہی ہے  کہ مصنّف یا مؤلّف کی خدمات کے  ذکر کے  بعد چند توصیفی جملے  کارِ خیر کے  طور پر لکھ دئے  جاتے  ہیں ، ظاہر ہے  کہ مجھے  بھی روایات کا اسیر ہونا پڑے  گا، جناب محمد ادریس رضویؔ ایم، اے ، کی کتاب ’’کلامِ راہی اور صنائع و بدائع‘‘ موضوع اور مواد کے  اعتبار سے  منفرد ہے ،ا س طرح کی کتابیں  میری نظر سے  بہت کم گزری ہیں ، دور حاضر میں  ایسی کتابوں  کا چلن مفقود ہو رہا ہے ، ایسی کتابیں  نایاب تو نہیں  کم یاب ضرور ہیں ، ظاہر ہے  کہ ایسی کتابوں  پر تقریظ یا پیش لفظ لکھنا دشوار نہیں  تو مشکل ضرور ہے۔

۲۸!برس قبل میں  ڈگری کالج میں  طلباء کو ’’صَرف و نحو‘‘ پڑھایا کرتا تھا مگر ان دنوں  ایسے  موضوع کی کتابیں  میرے  زیر مطالعہ کم رہی ہیں ، میں  نے  بہت سی کتب کے  پیش لفظ، تعارف، اور مقدّمے  لکھے  ہیں ، جن میں  بیشتر شعری اور افسانوی مجموعے  شامل ہیں ، میرے  پیش نظر ہمیشہ ’’ فن‘‘ ملحوظ رہا ہے ، شخصیت نہیں ، مختلف اخبارات ورسائل کے  توسط سے  کلامِ راہیؔ میری نظروں  سے  گزرتا رہا ہے ، البتہ کتاب کے  مصنّف کا نام بالکل اجنبی سات و نہیں  جانا پہچانا لگتا ہے  ان کی تحریر بتا رہی ہے ، ادریس صاحب یقیناً ناقدانہ اور دانشورانہ شخصیت کے  مالک ہونگے ، ان سے  گفتگو ہوتی تو ان کی شخصیت کے  کچھ مخفی گوشے  اُبھر کے  سامنے  آتے ، موصوف نے  جس موضوع کا انتخاب کیا ہے ، وہ انتہائی خشک اور غیر دلچسپ ہے ، ایک عام آدمی شاعری تو دلچسپی سے  پڑھتا ہے ، مگر فنی لوازمات کوسرسری بھی جاننے  کی کوشش نہیں  کرتا، البتہ فن سے  دلچسپی رکھنے  والے  اور شعرا حضرات کے  لئے  یہ کتاب کار آمد اور مفید ہے  اس موضوع کو سنجیدہ اور زندہ موضوع کی حیثیت حاصل ہے ، کتاب ہذا علمی و شعری ذوق کو نشو و نما دینے  اور واضح رہنما خطوط (شعری ) فراہم کرنے  میں  بے  حد معاون ثابت ہو گی، کتاب کی فہرست کافی طویل ہے ، جس میں  ۲۱ عنوانات شامل ہیں ، تجنیس تام اور (تجنیس کی قِسمیں )  تصدیر، صنعت کے  اقسام، تشبیہہ،ا ستعار ہ، کنایہ، مجاز مرسل، پیکر تراشی، محاورے  اور شعری تعلّی داخل ہیں ، اور ان تمام محاسن پر کلامِ راہی ؔ کے  حوالے  سے  بحث کی گئی ہے۔

کلامِ راہیؔ اس بات کا غماز ہے  کہ ان کا مطالعہ وسیع، فکر عمیق، اور مشاہدہ باریک ہے ،ا ظہار میں  نیا پن اور موضوعات میں  چونکا دینے  والی کیفیت ہے ، خیالات کے  دھارے  جدید اور زبان روایت کی پاسدار، الفاظ کا دروبست موزوں ، محاورے  اور روز مرّہ کی تشنگی، نکھرا نکھرا انداز ردیف قافئے  کا موزوں  ومناسب انتخاب سے  غزلوں  میں  غنائیت اور تغزل بدرجہ اتم در آیا ہے ، موضوعات کے  وسعت سے  راہیؔ کی شاعری ایک فنّی دستاویز بن گئی ہے۔

یہ بات طے  شدہ ہے  کہ شعر الفاظ اور آہنگ سے  بنتا ہے ، آہنگ کے  علاوہ شعر کو دلچسپ بنانے  کے  لئے  شاعر الفاظ کو بڑی خوبصورتی کے  ساتھ استعمال کرتا ہے ، الفاظ کو خوبصورتی سے  استعمال کرنے  کے  کئی طریقے  ہیں ، ان طریقوں  کو صنائع بدائع کہا جا ہے۔

علم عروض کے  موجد خلیل بن احمد بصری نے  موسیقی اور شاعری کے  زیر و بم میں  آہنگ کے  مشترک رشتہ کو نبھایا اور اس کی بنیاد پر افاعیل تفاعیل اور ان کے  مزاحف وضع کئے ، موصوف نے  پندرہ ’’بحور‘‘ ایجاد کیں ، اور چار بحریں  ابوالحسن اخفش کی وضع کی ہوئی ہیں ، اس طرح آج بھی انیس بحور میں  طبع آزمائی ہو رہی ہے ، ان میں  ہلکی سی تبدیلی ضرورتاً واقع ہوتی رہتی ہے ، راہیؔ کے  اشعار کے  حوالے  سے  مصنف نے ’’بحور و اوزان‘‘ اور مختلف صنعت کی وضاحت دلچسپی اور عرق ریزی سے  کی ہے ، جس سے  موضوع کی خشکی کم ہو کر ایک طرح کی دلچسپ فضا پیدا ہو گئی ہے۔

فہرست مضامین ہی سے  کتاب کے  کام کی افادیت اور اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ، اس کے  ذریعہ بلاشبہ علم عروض سکھانے  اور سیکھنے  میں  آسانی ہو گی، اُصولِ تقطیع کی مثالیں  عام فہم انداز میں  پیش کی گئی ہیں اور یہ احساس دلایا گیا ہے  کہ عروضیوں  کے  مقرر کردہ اُصولوں  کے  بغیر فن کے  مقصد تک نہیں  پہنچا جاسکتا، موصوف نے  راہی کے  اشعار کے  علاوہ ضرورتاً استاذِ سخن کے  اشعار بھی بطور مثال پیش کئے  ہیں ، محاورات، ضرب الامثال، تذکیر و تانیث، تضاد کے  تعلق سے  مدلل بحث کی گئی ہے ، علم بیان یعنی تشبیہ، استعارہ، علم بدیع، محاورے ، ضرب المثل اور روز مرّہ مقولے  کی تشریح و توضیح مصنّف کی فنّی و علمی مہارت کا ثبوت ہیں ، صنائع بدائع کے  متعلق یوں  بھی بہت کم لکھا گیا ہے ، اس کتاب کی اشاعت سے  رموزِ بلاغت کے  باب میں  اضافہ ہو گا،

اس کتاب کا موضوع ایسا ہے  کہ اس کے  پھیلاؤ یا مواد کے  اکٹھا کرنے  میں  مبالغہ آمیزی سے  کام نہیں  لیا جاسکتا، یہ عام روش سے  ہٹ کر ہے ، اس میں  دو جمع دو چار کا معاملہ ہے ، علم فصاحت و بلاغت میں  معانی بدیع و بیان کے  بنیادی علوم کی شمولیت با مقصد و بامعنی ہے ، اور علم صنائع و بدائع و بیان کی جزئیات پرسیرحاصل بحث کی گئی ہے ، راہیؔ کے  اشعار کی توضیح کے  حوالے  سے  قاری کو مطلب تک رسائی میں  دشواری نہیں  ہو گی، ان کی توضیح و تشریح میں  مصنف نے  اپنا زورِ قلم صرف کیا ہے ، راہیؔ کی شاعری نئی نسلوں  کے  لئے  یقیناً ایک سرمایہ ہے ،ججج علمی و عروضی دولت سے  ما لا مال ہے ، علم صنائع، بدیع، تشبیہ، استعارہ، تمثیل، تعلیل، اور خصوصاً ’’تعلّی‘‘ کے  اشعار کی شمولیت سے  کلام میں  اثر آفرینی آ گئی ہے۔

ادریس صاحب کی طرز فکر اور طریقۂ تحریر علمی اور دانشورانہ ہے ، کتاب ہر سنجیدہ قاری سے  مطالعے  کا مطالبہ کرتی ہے ،ججج اپنے  موضوع اور مواد کی بنا پر وقیع و معتبر ہے ، یہ ایک اہم قابلِ قدر اور لائقِ استفادہ کتاب ہے۔

فقط

ڈاکٹر وحید انجم

۱۶/جون ۲۰۰۸ء

گلبرگہ(کرناٹک) 

اپنی اور اپنوں کی باتیں

مارچ ۲۰۰۸ء کے  آخری عشرہ میں  اپنی رسم مناکحت کے  آغاز و ادائیگی اور ’’صبح طیبہ کانفرنس منعقدہ ۲۹/مارچ میں  شرکت کی غرض سے  اپنے  وطن مالوف (دربھنگہ )گیا۔ دربھنگہ کئی لحاظ سے  بڑا ہی تاریخی شہر ہے ، جہاں  آج بھی ایک طرف راجاؤں  مہاراجاؤں  کے  بلند و بالا قلعے ، میوزیم میں ر کھے  ان کے  نوادرات ان کی تعمیر کردہ یادگار عمارتیں  دعوتِ نظارہ دیتی ہیں  تو دوسری طرف اسلام کی روشن شعاعوں  سے  اس علاقہ کو منوّر کرنے  کے  لئے  دوسرے  ممالک سے  تشریف لائے  ہوئے  بزرگانِ دین کے  مقبرے  ان کی علمی، روحانی یادگار خانقاہیں  اپنے  بیگانے  سب کے  لئے  اطمینان قلب کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں ، اس سرزمین نے  جہاں  اپنی کوکھ سے  جلیل القدر، عظیم المرتبت علمی شخصیت، متقی وپارسا دین دار وخداترس علماء پیدا کئے  وہیں  ایک سے  ایک زبان داں ، مبلغ و خطیب، مصلح و ناصح اور ادیب قلم کار، مفکر و مدبر کو بھی جنم دیا، جنہوں  نے  ملک و بیرون ملک سماجی، معاشرتی، مذہبی، ادبی، صحافتی اور ان گنت اصلاحی کارناموں  کے  قابل تقلید نقوش چھوڑے  ہیں  اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ، ابّا حضور کی شخصیت بھی اسی سلسلہ کی ایک اہم کڑی ہے ، موصوف اور ا سی سر زمین کے  قابل فخرسپوت ہیں ، جن کی زندگی کے  شب روز نے  مجھے  امانتو دیانت،زہد و اتقا، خوف و خشیت، عجز وانکساری، اخلاص و للہیت، محبت و مروت، محنت و مشقت، مشغولیت و مصروفیت اور قومی، معاشرتی، سماجی، مذہبی، ادبی، صحافتی خدمات جیسی اہم خوبیوں  کو بڑے  قریب سے  مشاہدہ کرنے  کا موقع دیا، اپنے  سر پر مختلف ذمہ داریوں  کا بوجھ ر کھے  ہوئے  بھی آپ نے  تصنیف و تالیف جیسے  مشکل ترین کام کو بحسن و خوبی انجام دیا اور تسلسل کے  ساتھ یہ کام جاری ہے۔

متذکرہ بالاسفر کئی وجہ سے  میرے  لئے  یاد گار بن کر رہ گیا ہے ، بڑے  جیّد علمائے  کرام خصوصاً پیر طریقت، محسن قوم و ملّت حضرت قمر رضا خاں  بریلوی، برادر اصغر تاج الشریعہ علامہ اختر رضا خاں  ازہری دامت فیوضھما کی زیارت ان کی شفقت و محبت ان کی بے  شمار دعائیں  یہ میری زندگی کا بڑا حسین یادگار زمانہ اور عظیم سرمایہ رہے  گا، اسی سفرکے  دوران میں  اپنے  بہنوئی محترم ماہر لسان و بیان غازیِ الفاظ و زبان حضرت مولانا محمد قیصر علی مصباحی (حال مقیم ساؤ تھ افریقہ) کی معیت میں  ابّا حضور سے  آپ کی تصنیفات پر تبادلۂ خیالات کا موقع ملا دورانِ گفتگو بات آ گئی محترم غلام مرتضی راہیؔ صاحب کی تو ابّا حضور نے  حضرت راہیؔ کی شعری خدمات پر اپنی تصنیفِ لاجواب ’’ کلامِ راہیؔ اور صنائع و بدائع‘‘ کا تذکرہ کرتے  ہوئے  فرمایا کہ آپ کی نظر میں  کوئی صاحب ہیں  جواس کتاب پر تقریظ لکھ دیں ، شرط یہ کہ وہ صاحب اس فن سے  واقف ہوں ، کتاب کا نام سنتے  ہی میں  نے  بھانپ لیا کہ فن تو بڑا دلچسپ ہے  لیکن مشکل ہے ، شاعری کرنے  والے  تو بہت ہیں۔ لیکن اس فن کے  جاننے  والے  کم ہیں ، پھر بھی ایک دو چہرے  خیال میں  آ ہی گئے ججج اس کتاب پر کچھ لکھ دیں گے ، لہذا میں  نے  حامی بھر دی اور کلیان پہنچ کر کتاب کا مسوّدہ لے  کر گلبرگہ کے  لئے  روانہ ہو گیا، دورانِ سفر میں  ہی مَیں  نے  کتاب کی ناظرہ خوانی شروع کر دی، اس دلچسپی کا باعث بچپن سے  ہی غزلیہ اور انقلابی اشعار کا پڑھنا اور انہیں  ڈائری میں  لکھ کر محفوظ رکھنا، ان کی خوبی و خامی کو محسوس کرنا، ان کا حل نکالنا میرے  دلچسپ مشغلوں  میں  سے  رہا ہے ، پھر اس پر مستزاد یہ کہ کتاب کا نام ہی بتا رہا تھا کہ اس کے  اوراق پر حضرت راہیؔ کے  کلام کی خوبصورتی کوسجایا گیا ہو گا، لہذا کیوں کر دلچسپی کا باعث نہ بنتا؟

میں  حضرت راہی کو پہلے  بھی پڑھ چکا تھا اور اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ موصوف فکر و فن کے  زبردست نقیب و ترجمان ہیں ، جنہوں  نے  اپنی شاعری کے  ذریعہ اردو زبان و ادب کے  گیسو کو خوب سنوارا ہے ، کتاب کے  ابتدائی اوراق کے  مطالعہ نے  اس بات پر مجبور کر دیا کہ حضرت راہیؔ کے  کلام کو فنّی حیثیت سے  مطالعہ کئے  بغیر صرف کلام کا مطالعہ کر لیا جائے  کیوں  کہ ابّا حضور نے  کلامِ راہیؔ میں  جس حُسن انتخاب سے  کام لیا ہے  یہ انہیں  کا حصّہ ہے  کہ کوئی شعر دھڑکنوں  کو ٹوہ رہا ہے  تو کوئی دل کو موہ رہا ہے ، کوئی حالات سے  باخبر کرتا ہے  تو کوئی انقلابی جذبہ کو اُبھارتا ہے ، کوئی قارئین کو اپنے  محاسبہ کی دعوت دیتا ہے  تو کوئی معاشرہ میں  بڑھتی ہوئی بُرائیوں  کا محاکمہ کرتا ہے۔

اس فن پر اردو زبان میں  اتنی مدلل اور واضح کتاب پہلی مرتبہ میری نظر سے  گزری ہے اور بلا مبالغہ یہ مسوّدہ جن احباب کی نظروں  سے  گزرا سب نے  یہی کہا کہ اردو زبان میں  ایک شاعر کی شاعری پر اس فن میں  اتنی مبسوط کتاب پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہوں ، الّا ماشاء اللہ۔

اس کتاب کے  مطالعہ سے  میرے  علم میں  اضافہ ہوا ہے ، کتاب کی اشاعت کے  بعد طلبہ و اساتذہ سبھی اس سے  استفادہ کریں  گے ، کتاب کے  مطالعہ کرنے  کے  بعد اس بات کا اعتراف کئے  بغیر نہیں  رہ سکتا کہ اس فن کے  بعض پیچیدہ اور مغلق باریکیوں  کو اتنے  آسان وسہل انداز میں  واضح کیا گیا ہے  کہ اس کی تدریس کے  وقت بعض اساتذہ بھی شاگردوں  کے  سامنے  اندھیرا چھوڑ جاتے  ہیں۔

حضرت راہیؔ کے  اشعار میں  چھپے  ہوئے  صنائع و بدائع کو اُجاگر کرنے  کے  لئے  غزلیہ کلام کاہی انتخاب کیا گیا ہے  کیوں  کہ حضرت راہیؔ نے  اپنی طبع آزمائی اسی میں  فرمائی ہے ، اس کا اعتراف کرتے  ہوئے  کہ آنجناب حمد، نعت، منقبت وغیرہ بھی خوب مگر کم لکھتے  ہیں ، مجھے  اس کی خبر نہیں  ہے  کہ ان کے  حمدیہ و نعتیہ کلام ان کے  مجموعہ میں  شامل ہیں  یا نہیں یا صرف رسائل  و جرائد ہی تک محدود ہیں۔

اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے  کہ جناب راہی ؔ کے  کلام میں  چھپے  موتیوں  کی چمک دمک کو ظاہر کرنے  کے  لئے  ابا حضور نے  مجدّد اعظم الشاہ امام احمد رضا خاں  بریلوی اور مفتی اعظم ہند الشاہ مصطفٰی رضا نوریؔ کے  نعتیہ کلام کا بھی سہارالیا ہے  جس سے  آپ کی مذہبی دیانت داری، عشق نبی اور عاشق نبی سے  محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، دلچسپ بات یہ کہ ابّا حضور نے  اپنے  کلام میں  صرف حمد، نعت، منقبت ہی کہی ہیں ، غزل، ہزل وغیرہ سے  د ور ہی رہے  ہیں ، اس کے  باوجود غزلیہ اشعار کے  افہام و تفہیم کا حق ادا کر دیا ہے  اور شاید کہ جناب راہیؔ کے  ساتھ حق شاگردی ادا کرنے  کی کوشش کی ہے ، یہ بھی ایک حقیقت ہے  کہ صنائع و بدائع کے  جملہ اقسام کا اس کتاب میں  احاطہ نہیں  ہو سکا ہے ، جس کی امکانی وجہ یہی سمجھ میں  آ رہی ہے  کہ جناب راہیؔ کے  کلام میں ان اقسام کا نزول بِن بلائے  ہوئے  مہمانوں کی طرح نہیں  ہو سکا ہے۔

اخیر میں  ان قدردانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں  جن کے  پُر وقار چہرے  میرے  ذہن میں  دوران سفرجھلکے  تھے  کہ اس کتاب پر ان سے  تقریظ لکھنے  کی گزارش کروں  گا، جب میں  نے  ان کے  سا منے  گزارش رکھی تو انہوں  نے  قبول کر لی، یہ کوئی معمولی چہرے  نہیں  ہیں ، ان چہروں  میں  ایک چہرہ ہے  محترم پروفیسر ڈاکٹر کے  محمد عبد الحمید اکبر صاحب صدر شعبۂ اردو وفارسی گلبرگہ یونیورسٹی گلبرگہ کا  موصوف بہت ساری خوبیوں  کے  مالک ہیں ، آپ خوش الحان قاری بھی ہیں  اور حضرت خواجۂ د کن بندہ نواز گیسو دراز علیہ الرحمہ کے  چمن میں  چہکنے  والا مداح بھی، محققانہ فکر و نظر رکھنے  والے  مفکر بھی ہیں  شیریں  زبان مقرر بھی، گویا دینی و دنیاوی علوم و فنون کاسنگم ہیں۔ ان کے  چہرے  کی ملاحت، جسمانی ساخت کی کشش، شاہی لباس کی چمک امتیازی شان اور انداز گفتگو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے ، یہ ان کی بڑی خوبی نہیں ، بلکہ بڑی خوبی ان کے  اندر اپنائیت ہے ، اعلیٰ اخلاق ہے ، منکسرا لمزا جی ہے ، ضیافت کا جذبہ ہے ، دوسروں  کی قدر کرنے  کاسلیقہ ہے ، حوصلہ افزائی اور ترقی دلانے  کی خواہش رکھتے  ہیں ، علمی شخصیت کی قدردانی، دین کی خدمت کرنے والوں  کو سراہنا، یہ سب ان کی مثبت خوبیاں  ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے  تقریظ لکھنے  کے  لئے  تین ماہ کا وقت ضرور لیا لیکن اپنی مصروفیت و مشغولیت کی مضبوط دیوار میں  رہنے  کے  باوجود میری امّید و آرزو کی نازکی پر شادابی لائی یہی کیا کم ہے ؟اس پر میں  ان کا بے  حد شکر گذار ہوں۔

دوسرا چہراججج سنجیدگی ومتانت کا پیکر ہے ، اس کے  قلب کی نرمی چہرے  سے  عیاں  ہے ، انداز گفتگو یوں  کہ معلوم ہوتا ہے  کہ ہر بات ناپ تول کر ہی منھ سے  نکالتے  ہیں ، رہنمائی کرنے  میں  مخلص ہیں ، موصوف کا نام محمد منظور احمد دکنی ’’لکچرار گلبرگہ یونیورسٹی گلبرگہ‘‘ ہے ، آپ نے  کتاب کا مسودہ لیا کہ اس پر تاثرات لکھوں  گا، لیکن آپ کچھ ایسی پریشانیوں  میں  گھر گئے  کہ ایسے  وقت میں لکھنا مشکل ہو جاتا ہے ، انہوں  نے  وعدے  کی تکمیل کے  لئے  ایک صورت نکالی کہ اپنے  دوست پروفیسر ڈاکٹر وحید انجم صاحب سے  تقریظ لکھوا دی، ان دونوں  مخلصین کا میں  ممنون و مشکور ہوں۔

گلبرگہ کی ان شخصیتوں  سے  ملاقات کرانے  والے  محمد حامد رضا کاریگر ابن محمد جعفر بھائی  ایم، اے  سال آخری (گلبرگہ یونیورسٹی گلبرگہ ) کا بھی ممنون ہوں ، جنہوں  نے  اپنا قیمتی وقت دے  کر احباب سے  ملوایا، اللہ تعالی عزیزم کو ہر مقصد میں  کامیابی عطا فرمائے (آمین)

امید کرتا ہوں  کہ ابّا حضور کی اس کامیاب کوشش کو علماء، ادبا، شعرا اور طلباء حضرات قدر کی نگاہوں  سے  دیکھتے  ہوئے  علم و ادب کے  باب میں  اسے  مضبوط علمی اضافہ سمجھیں  گے ، اور ابّا حضور کی صحت، طمانیت، درازیِ عمر اور اضافۂ علم و عمل، مزید دینی، علمی، ادبی وسماجی خدمات کے  لئے  دعائیں  کریں  گے۔

 

 

فقط خطیب و امام ’’پیر بخاری مسجد‘‘ ،شہزادۂ مصنّف منصب دار، لے  آؤٹ، گلبرگہ

محمد کاشف رضا شاد ؔ مصباحی موبائیل ۹۹۰۲۳۷۱۲۳۱ 

مدرس:دارالعلوم رضائے  مصطفے  

احمد رضا کالونی، رِنگ روڈ، گلبرگہ

پن کوڈ ۵۸۵۱۰۴

اپنی باتیں

راقم کا ایم، اے  کی سند حاصل کر لینے  کے  بعد بعض مخلصین نے  مشورہ دیا کہ تم پی ایچ ڈی کر لو، عنوان کا انتخاب کرو، مواد کی فراہمی میں  ہم لوگ معاونت کریں گے ، مشورہ اچھا تھا، لہذا میں  نے  اپنے  طور پر ’’کلامِ نوری اور صنائع و بدائع‘‘ عنوان کا انتخاب کر کے  مقالہ لکھنا شروع کر د یا، چند مقالے  تیار بھی ہو گئے  تھے ، ان میں  سے  دو مقالے  ’’کلامِ نوری اور صنائع و بدائع‘‘ اور ’’ صنعت اقتباس‘‘ ’’پیغامِ رضا‘‘ ۱۹۹۷ء کے  مفتی اعظم نمبر میں  صفحہ ۳۰۶تا۳۲۷ پر شائع ہو چکے  ہیں  ’’کلامِ نوری اور زبانِ ریختی‘‘ عنقریب میرے  مقالات و مضامین کا مجموعہ ’’تجلیات قلم‘‘ میں  منظر عام پر آئے  گا، ان کے  علاوہ کچھ اور مقالے  اِدھر اُدھر پڑے  ہوئے  ہیں ، چند وجوہ کی بنا پر میں  پی ایچ ڈی کے  لئے  قدم آگے  نہیں  بڑھاسکا، جس کا افسوس ہے۔

جناب غلامِ مرتضی راہی لکھنے  لکھانے  کے  معاملہ میں  بڑے  متحرک ثابت ہوئے  ہیں ، ان کی زندگی میں  ہی ان پر پی ایچ ڈی ہو گئی ہے ججج بلاشبہ معاصرین ادب میں  موصوف کا طرۂ امتیاز ہے ، موصوف کی خواہش تھی کہ کوئی اہلِ علمججج صنائع و بدائع سے  واقفیت رکھتا ہو میرے  کلام پراس سے  متعلق لکھے ، موصوف کی جہاں  تک رسائی تھی اس فن کے  جاننے  والے  اپنے  دوستوں  اور ملاقاتیوں  سے  رابطہ کیا لیکن بات نہیں  بنی کہ شاید اس ٹیڑھی کھیر پر وقت صرف کرنے  اور دماغ کھپانے  سے  لوگ دامن بچا رہے  تھے ، راہیؔ صاحب صنائع بدائع سے  متعلق میرے  شائع شدہ مقالے  پڑھ چکے  تھے ، لہذا ایک خاص مقصد کے  تحت اپنے  کلام پر صنائع و بدائع سے  متعلق ۱۰تا۱۲ صفحے  کا ایک مضمون لکھنے  کے  لئے  کہا، میں  نے  حامی بھر لی اور لکھنا شروع کر دیا، راہی ؔ صاحب سے  گاہے  گاہے  موبائیل پر گفتگو ہوتی رہی، موصوف نے  ایک دفعہ گفتگو کے  دوران کہا کہ اگر صنائع و بدائع پرکم از کم ایک سو صفحے  لکھ دیں  تو کتابی شکل میں  شائع کرا دوں ، میں  وعدہ کر لیا، مقالہ لکھتا رہا کبھی ایک اور کبھی دو مقالے  جمع کر کے  ایک ساتھ راہیؔ صاحب کو بھیجتا رہا کہ آپ اپنے  اشعار کے  خالق ہیں  دیکھتے  جایئے  کہ اشعار کی تشریح و توضیح صحیح ہو رہی ہے  یا کہ نہیں ؟دوچار اشعار کی صرف توضیح و تشریح پر موصوف نے  قلم چلایا کہ اِن معنوں  میں  نہیں  بلکہ میں  نے  اِن معنوں  میں  یہ شعر کہا ہے ، گویا توضیح و تشریح کے  معاملہ میں  کتاب مستندہو گئی کہ صاحب کتاب کی حیات میں  یہ کتاب شائع ہو رہی ہے  اور شائع ہونے  سے  قبل صاحب کتاب نے  اس کتاب کو ملاحظہ فرما لیا ہے۔

’’کلامِ راہیؔ اور صنائع و بدائع‘‘ کی ضخامت جب ایک سو پچاس صفحات تک پہنچ گئی اور کمپوزنگ کی راہ سے  گزر گئی تو موصوف نے  کہا کہ پیش لفظ خود ہی لکھ لیجئے ، لیکن میرا اپنا فیصلہ تھا کہ اس فن کے  جاننے  والے  ایک دو اشخاص کی نگاہوں  سے  یہ کتاب گزر جا تی اور وہ حضرات اس کتاب کو پڑھ کر اس سے  متعلق کچھ لکھ دیتے  تو کتاب کو سند کا درجہ مل جاتا، لہذا اس کام کے  لئے  میر ے  لائق فرزند مولانا محمد کاشف رضا شادؔ مصباحی نے  گلبرگہ شریف کی زمین کا انتخاب کیا، جس کی تفصیل گذشتہ صفحات پر ملاحظہ کر چکے  ہیں۔

۲۲جولائی۰۰۸ ۲ء کو جب میں  گلبرگہ شریف جناب پروفیسر محمد منظور احمد دکنی ؔ صاحب کے  دو لت کدہ پر پہنچا اور ان سے  گفت و شنید ہوئی تو موصوف نے  کہا کہ آپ کو اس کتاب پر آسانی سے  ایم، فل کی ڈگری مل جائے  گی۔ محترم ڈاکٹر کے  محمد عبدالحمید صاحب صنائع و بدائع سے  بخوبی وا قف ہیں ، اس کے  لئے  موصوف کے  پی ایچ ڈی کا شائع شدہ مقالہ ’’شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد انوار اللہ فاروقی، شخصیت، علمی و ادبی کارنامے ‘‘ کو دیکھا جاسکتا ہے ، موصوف نے  بھی کتاب کو قدر اور استحسان کی نظر سے  ملاحظہ فرمایا ہے ، محترم جناب ڈاکٹر وحید انجم صاحب سے  ملاقات کا شرف حاصل نہیں  کر سکا کہ میرے  پاس وقت کم تھا اور معلوم ہوا کہ موصوف یہاں  سے  دور رہتے  ہیں ، کتاب کے  تعلق سے  موصوف کے  خیالات کو ان کی لکھی تقریظ میں  ملاحظہ کیجئے  کہ یہ  کتاب کیسی ہے  اور کتنی محنت سے  لکھی گئی ہے ، اس کا اندازہ اہل علم اور فنکار ہی کر سکتے  ہیں ، مذکورہ تمام لوگوں  کا میں  مشکور ہوں  کہ ان لوگوں نے  اس کتاب کو پسند کیا اور اپنے  پیش بہا خیالات کا اظہار فرمایا، اللہ تعالی اپنے  حبیب پاک  ﷺ کے  صدقے  میں  تمام معاونین کو دونوں  جہاں  میں  شاد رکھے۔

فقط محمدادریس رَضوی ایم، اے  

سنّی جامع مسجد، پتری پُل، کلیان، مہاراشٹر

کلام راہی اور صنائع و بدائع

شاعر کا تخیّل جب پرواز کرتا ہے  تو مختلف جہتوں  میں  مختلف چیزوں  کو دیکھتا، ٹٹولتا پرکھتا ہوا، ان میں  محلول کئے  گئے  اسباب سے  وہ چیزیں  کشید کر لیتا ہے ججج سطح بیں  نظرسے  پوشیدہ رہتی ہے۔ جب حُسن کی حقیقت کو دیکھتا ہے  تو ساتھ ہی ناز، نخرے  پر بھی نگاہ رکھتا ہے۔ چاند کی چاندنی سے  محظوظ ہوتا ہے  توسورج کی حدّت سے  متاثّر بھی، عیش و طرب کی روداد سُن کر شاد ہوتا ہے  تو د کھ درد کی کہانیوں  سے  ملول بھی، پہاڑ کی بلندیوں  کو ناپتا ہے  تو صحرا کی وسعتوں  کو بھی، ندیوں  اور جھیلوں  کو عبور کرنے  کی طاقت رکھتا ہے  تو سمندروں  کی گہرائیوں  میں  اُترنے  کی قوّت بھی، رنگ رنگ کے  پھولوں  کو دیکھ کر حیران ہوتا ہے  تو کبھی ان کی خوشبوؤں  میں  کھو بھی جاتا ہے ، کبھی عشق مجازی کی راہ اختیار کرتا ہے  تو کبھی عشق حقیقی کے  راستے  پر چلتا ہوا ایک خاص اصول کے  تحت جب اپنے  محسوسات کو شعر کے  قالب میں  اتارتا ہے  تو اس میں  بہت ساری اضافی خوبیاں  پیدا ہو جاتی ہیں  بعض اوقات جن کی خبر خود شاعر کو بھی نہیں  ہوتی ہے ، ان اضافی خوبیوں کو ادب کی زبان میں  صنائع و بدائع کہا گیا ہے ، کبھی یہ بُلائے  ہوئے  مہمان کی طرح دسترخوان پر بیٹھ کر میزبان کی عزّت بڑھاتا ہے  کبھی بِن بُلائے  ہوئے  کی مانند بھی۔

ادب کی بلند پایہ عمارت میں  یہ ہمیشہ بیل بوٹے  بن کر عمارت کے  حُسن کو بڑھاتا رہا ہے  اس کے  بہت سے  ظاہری روپ بھی ہیں  اور باطنی بھی، یہ جب زلف کی لٹوں  کوسمیٹتا ہے  تو بھی حَسین لگتا ہے  اور بکھراتا ہے  تب بھی پُر کشش ہی رہتا ہے ، یہ طرح طرح کے  نفیس لباس میں  آتا ہے ، کبھی نقاب اوڑھ کر آتا ہے  تو کبھی بے  حجابانہ بھی، کبھی ساتھیوں  کے  ساتھ آتا ہے  کبھی پہرے  داروں  کو لے  کر بھی، کبھی اکیلے  بھی آتا ہے۔ یہ ایسا مہمان ہے  کہ اس کے  آنے  سے  میزبان کا دل باغ باغ ہو جاتا ہے ، اس کی خوبیوں  کو دیکھ کر میزبان اس کی آمد کے  منتظر رہتے  ہیں  لیکن یہ چھبیلا ہے  جلدی لفظوں  کے  بندھن میں  بندھتا نہیں  ہے  اور جب بندھ جاتا ہے  تو انمول ہو جاتا ہے ، اس کے  ظاہری ایک روپ کو ’’تجنیس تام‘‘ یا ’’مفرد‘‘ مماثل اور کامل‘‘ بھی کہتے  ہیں۔

صنعتِ تجنیس تام

’’تجنیس تام‘‘ اس میں  ایک قسم کے  الفاظ مختلف معنی میں  استعمال ہوتے  ہیں۔ جیسے  آہنگ بمعنی آواز اور آہنگ بمعنی ارادہ۔ (فیروز الغات)

’’تجنیس تام یا تجنیس مفرد‘‘ اگر دو لفظوں  کے  حروف اعداد، ترتیب اور حرکات و سکنات میں  یکساں  ہوں ، لیکن معنے  مختلف ہوں ، یعنی ایک لفظ اسم، دوسرافعل یا ایک اسم اور دوسرا حرف۔۔ ایک لفظ فعل دوسراحرف ہو۔ 

(اردو گرامر اینڈ کمپوزیشن ص۲۵۵ سیفی بُک ایجنسی ممبئی۳)

’’تجنیس مماثل‘‘ کلا م میں  دو ایسے  لفظ لاناججج تلفظ میں  مشابہ ہوں  مگر معنی میں  مختلف ہو لیکن ضروری ہے  کہ وہ دونوں  اسم ہوں  یا فعل یا حرف۔

(رضا کوئز بُک ص۹۸۔ ۹۹۔ پروفیسر حافظ محمد شکیل اوج، استاد شعبۂ معارف اسلامیہ یونیورسٹی کراچی)

’’دو لفظججج ترتیب و اعداد حروف کے  اعتبار سے  نیز حرکات و سکنات میں  یکساں  ہوں  مگر معنی میں  مختلف ہوں  کسی شعر میں  آئیں  تو اسے  ’’تجنیس تام‘‘ کہتے  ہیں ،

(صنائع لفظی و صنائع معنوی ’’داخلِ نصاب میسور یونیورسٹی‘‘ مرتبہ ڈاکٹر محمد ہاشم علی سابق پروفیسر شعبۂ اردو میسور یونیورسٹی)

آیئے  دیکھتے  ہیں  غلام مرتضی راہیؔ نے  اس صنعت کو کیسے  کیسے  باندھا ہے  اور یہ راہیؔ کے  کلام میں  کہاں  کہاں  پر کیا کیا جلوے  دکھا رہی ہے۔

(۱)کہیں  خَلا میں  مُعَلّق نہ ہو کے  رہ جاؤں

کہیں  کا مجھ کو  نہ رکھَے مرا شعور کہیں (ص ۶۷  لا کلام)

اس شعر میں تین جگہ لفظ ’’کہیں ‘‘ استعمال ہوا ہے  اور تینوں  کے  معنی الگ ہیں۔ معانی پر غور کرنے  کے  بعد قاری پر وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے  کہ ’’تجنیس تام‘‘ کیججج راہ راہیؔ نے  نکالی ہے  سب سے  الگ ہے۔

’’کہیں ‘‘ کسی جگہ۔ جائے۔ جا۔ دوسری جگہ۔ اور جگہ۔ کسی طرف۔ کسی جانب۔ شاید۔ ایسا نہ ہو۔ (فیروز اللغات)

پہلا مصرع میں لفظ ’’کہیں ‘‘ کے  معنی ہیں ’’ ایسا نہ ہو‘‘ دوسرے  مصرع کے  پہلے  لفظ ’’کہیں ‘‘ کے  معنی ہیں ’’کسی جگہ۔ کسی جا‘‘ اور دوسرے  مصرع کے  دوسرے  لفظ ’’کہیں ‘‘ کے  معنی ہیں ’’ شاید‘‘ کام کیا گیا نہیں  ہے۔ علم و عقل، دانائی و حکمت کی بنیاد پر خلا میں  جانے  کا منصوبہ بنایا جا رہا تھا کہ درمیان میں  ہی شکوک دامن گیر ہو گئے  کہ مقصد کو عملی جامہ پہنانے  جاؤ گے  تو ’’ایسا نہ ہو‘‘ کہ خلا میں  معلق ہو کر رہ جاؤ نہ زمین کے  رہو نہ آسمان کے  شاعر کے  تخیّل نے  کہا مشورہ اچھا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے  تو میرا ادراک مجھ کو ’’کسی جگہ‘‘ کا نہ رکھّے  گا۔ شک پلٹ کر کہنے  لگاججج تم سوچتے  ہو وہ یقینی نہیں  ہے  مگر، شاید۔ ممکن ہے۔ ایسا ہو سکتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے  ۲۰۰۵ء میں  تھانے  ممبئی کے  ڈاکٹر کے  ڈ اکٹر وجے  پتھ سنگھا نیا خلا میں  گئے  تھے  تو ناسک کے  قریب معلّق ہوئے  تھے  اور ان کو گھنٹوں  کی جد و جہد کے  بعد نجات ملی تھی۔

 اس قبیل کا ایک اور شعر جوزہر اُگلتے  ہوئے  محسوس ہو رہا ہے۔

(۲)ہے  رنگ آسماں  نیلا تو زرد روئے  زمیں

کہیں میں زہر اُگلتا رہا تو آگ کہیں (ص۲۷  حرف مکرّر)

اس شعر کے  مصرع ثانی میں  دو جگہ اوّل اور آخر میں  لفظ ’’کہیں ‘‘ استعمال ہوا ہے ، پہلا لفظ ’’کہیں ‘‘ کا معنی ہے۔ ’’کسی جگہ‘‘ دوسرا لفظ ’’کہیں ‘‘ کا معنی ہے ’’دوسری جگہ‘‘ زہر اُگلنا۔ محاورہ ہے ، کسی کی نسبت بُری باتیں  کہنا، لگائی بجھائی کرنا، فتنہ انگیز باتیں کرنا، اظہار قہر  و غضب کرنا، جلی کٹی کرنا، (فروز اللغات)

(۳)مُندمل ہو جاتے  ہیں  گہرے  سے  گہرے  زخم بھی

دشمنی سے بھی  سوا ہے دو ستی میرے  یہاں (ص۳۱ لاشعور)

’’گہرا‘‘ عمیق، بے  تھاہ، ڈُباؤ، نہایت تیز، شوخ، گاڑھا، بھاری، پکّا، غار، گڑھا۔

(فروز اللغات)

شعر کو  مدِّ نظر رکھ کر لفظ ’’گہرے ‘‘ پر غور کرتے  ہیں  تو پہلے  ’’گہرے ‘‘ کا معنی ہے ’’عمیق‘‘  دوسرے ’’گہرے ‘‘ کا معنی ہے ’’بے  تھاہ‘‘

(۴)  رکھّے مجھے توفیق  سُبک بار  ہمیشہ

احسان کو احسان میں  ضم کرتا چلا جاؤں

اس شعر میں  لفظ ’’احسان‘‘ سے ججج جو دریا پیدا ہوئے  ہیں  وہ سب احسان کے  سمندر میں  مل کر تہ دار ہو کر ’’تجنیس مفرد‘‘ کا مرکز بن کر آواز لگا رہے  ہیں  کہ ’’نیکی کر دریا میں  ڈال‘‘ پہلے  احسان سے  نمودار ہونے  والے  دریا اس طرح سے  ہیں۔

’’احسان‘‘ نیکی، اچھّا سلوک، بھلائی مہربانی، برتاؤ، اچھّے  سلوک کا اعتراف، ممنونیت، یہ دریادوسرے  لفظ ’’احسان‘‘ ’’ معنی‘‘ عملِ خیر، کے  سمندر میں  مل گئے  ہیں ، ضم ہو گئے  ہیں۔

(۵)وہ  ایک  ضرب لگا کر نکل گیا اس پار

تڑپ کے  رہ گیا دریائے  نیل اپنی جگہ  (ص۲۷ لاشعور)

پہلے  لفظ ’’گیا‘‘ کا معنی ہے۔ چلا گیا۔ دوسرے  لفظ ’’گیا‘‘ کا معنی ہے۔ سابقہ

(۶)راستے  کی گہری گہری کھائیاں  ہیں  برقرار

پُل بنا کر آ رہے  ہیں  آدمی میرے  یہاں (ص ۳۲ لاشعور)

اس شعر میں  بھی تجنیس مماثل کی چنگاری دبی ہوئی ہے ، پھونک مارنے  کے  بعد واضح ہو جا تی ہے ، پہلے  لفظ ’’گہری‘‘ کو ’’راستے  کی‘‘ طرف سے  پھونکئے  تو ’’عمیق‘‘ کے  معنی میں چمکتا ہے۔ دوسرے  لفظ ’’گہری‘‘ کو کھائیاں  کی جانب سے  پھونکئے  تو ’’بہت زیادہ‘‘ کا معنی ظاہر ہوتا ہے۔ شعر کو پڑھئے  معانی پر غور کیجئے  مقصد ہاتھ آ جائے  گا ’’گہری‘‘ گہرا کی تانیث، عمیق، گاڑھی، بہت زیادہ، دور کی، (فیروز اللغات) 

(۷)  ساتھ  لایا  کیجئے اپنا  کوئی  مژدہ  ضرور

دوسروں  کی ہی خوشی میں  ہے  خوشی میرے  یہاں (۳۲ لاشعور)

اس کو سیا ست پر بھی محمول کر سکتے  ہیں ، دلجوئی پر بھی، مجبوری بھی کہہ سکتے  ہیں ، مصلحت بھی، شاعر تو مفعول، فِعل اور فاعل کے  تماشے  کا تماشائی بن کر پتھروں  کو خرادِ فن پر چڑھا کر نگینہ  بنا کر دنیا کے  سامنے  پیش کرتا ہے۔ راہیؔ نے  جہاں  بھی، جس کے  لئے ، جس طرح سے  پیش کیا ہے ، تجنیس مماثل کی عمدہ شاخ نمودار ہوئی ہے ، جس کے  لئے  نمودار ہوئی ہے ، اس کی مرضی کے  مطابق ہی راہیؔ صاحب اس کو خوشی دیتے  ہیں۔

دوسرے  مصرعہ کے  پہلے  لفظ ’’خوشی‘‘ کا معنی ہے ’’مرضی‘‘ دوسرے  لفظ، خوشی کا معنی ہے ، سرور، نشاط، شادمانی۔ ’’خوشی‘‘ سرور، نشاط، شادمانی، مرضی، جشن، شادی، (فیروز اللغات)

(۸)  وہ  سانحہ ججج  پڑوسی  کو کر یا برباد

گزر گیا ہے  مجھے  ہوشیار کرتے  ہوئے ( ص ۸۴لاشعور)

شعر کے  خالق نے  سانحہ کی صداقت کو دو بند میں  سمیٹنے  کے  لئے  قلم سنبھا لا تو تخیّل، فن کاری، تہہ داری سب نے  مل کر سچائی کو دو آتشہ کر کے  ایک تیر سے  دو شکار کر کے  دکھا دئے  اس قسم کا ایک شعر پہلے  مطالعہ کر چکے  ہیں ، جس میں  دو جگہ لفظ ’’گیا‘‘ آیا ہے۔ آپ کہیں  گے  کہ وہاں  بھی دو جگہ لفظ ’’گیا‘‘ ہے  اور یہاں  بھی تو اِس کو نقل کرنے  کی ضرورت کیا تھی، پہلے  شعر کا پہلا لفظ ’’گیا‘‘ اور اس شعر کا پہلا لفظ ’’گیا‘‘ کا معنی ایک ہی ہے ، لیکن دوسرے  ’’گیا‘‘ کا معنیججج وہاں  پر ہے ، یہاں  پر دامن جھٹک کر بالکل الگ ہو گیا ہے  اور ایک دوسرے  معنی نے  یہاں  پر قبضہ جما لیا ہے۔ اِس شعر میں  پہلا لفظ ’’گیا‘‘ کا معنی ہے ’’چلا گیا‘‘ اور دوسرا لفظ ’’گیا‘‘ کا معنی ہے ’’گزرتا جا رہا‘‘ ’’ گیا‘‘ رفتہ، سابقہ، گزشتہ، چلا گیا، گزرتا جا رہا، (فیروز اللغات)

(۹)رکھئے  راہیؔ کا م، اپنے  کام سے

نام ہونا ہو گا جب ہو جائے  گا (ص۹۰ لاشعور)

شاعر موصوف نے  شعر کی تخلیق کرتے  وقت کام کو کام سے  مربوط کر کے  اس قدر مضبوط کام کیا ہے  کہ کام کو کام سے  جدا کر کے  دیکھنا مشکل کام ہو گیا ہے  کہ کام اپنے  آگے  بھاری لشکر رکھّے  ہوئے  ہے ، کام کے  آگے  کام پر لگے  ہوئے  لشکریوں  میں  سے  اپنے  کام کے  لشکریوں  کو کام میں  لگا نا بھی ہمت کا کام ہے ، کام کے  معاون و مددگار پر ایک نظر ڈال کر دیکھئے  کہ کون کون، کام کے  کام کا ہے  

’’کام‘‘ کار، کاج، کاروبار، دھندا، فِعل، بیوپار، لین دین، بنج، بیوپار، کردار، ہنر، پیشہ، دستکاری، شغل، مصروفیت، مطلب، واسطہ، تعلق، غرض، جماع، مجامعت، روزگار، نوکر، خد مت، زردوزی، کارچوبی، نقّاشی، فرض، ڈیوٹی، چالاکی، ہوشیاری، عیاشی، ضرورت،

(فیروز اللغات)

سپہہ سالار’’ کام‘‘ کی فوجوں کی صفوں  میں  گھوم پھیر کر دیکھا تو راہیؔ کے  پہلے  کام کے  لئے  دو فوجی ’’شغل اور مصروفیت‘‘ کام کے  نکلے۔ دوسرے ’’کام‘‘ کے  لئے  چار جوانوں  ’’مطلب، واسطہ، تعلق اور غرض نے  حامی بھری، اب مطلع صاف ہو گیا کہ یہاں  پر پہلے ’’کام‘‘ کا معنی ہے  ’’ شغل، مصروفیت ’’دوسرے ’’کام‘‘ کا معنی ہے ، مطلب واسطہ، تعلق، غرض، اور ان چاروں  کو دوکی جگہ اور دونوں  کو چار کی جگہ لگا کر بھی کام نکالا جاسکتا ہے۔

(۱۰)عدم سے  عدم کے  تعلق میں  راہیؔ

وجودِ  بشر، درمیانی  کڑی ہے (۹۴ لاشعور)

مصرعۂ اولی میں  عدم، عدم کیججج تکرار ہے  وہ جلد مطلع کو صاف ہونے  نہیں  دیتی کہہ رہی ہے  پہلے  عدم کی گھٹا کو برس لینے  دو پھر تم کو سمجھ میں  آ جائے  گا کہ بارش کی بوندیں عدم سے  نکل کر زمان و مکان سے  گزر کر جب عدم میں  ناپید ہو جائیں  گی توسمجھ میں  آ جائے  گا کہ عدم سے  عدم کا کیا معاملہ ہے  اتنا سننے  کے  بعد میں  نے  پہلے  عدم سے  کہا، ٹھہرو ٹھہرو، سنوسنو، توٗ تُو وہ ہے ججج نہ تھا۔ ’’ عدم‘‘ معنی ’’نہ ہونا‘‘ مسکرا کر کہنے  لگا۔ اب میرے ، ہم آغوش، ہم آواز، ہم آہنگ، ہم بزم، ہم بغل، ہم پایہ، ہم پلّہ، ہم جلیس، ہم جنس، ہم دم، ہم دوش، ہم رتبہ، ہم رکاب، ہم رنگ، ہمرو، ہم سر، ہم سفر، ہم شان، ہم شکل، ہم قد، ہم قدم، کو پہچانوں دیکھا، غور کیا، پہچان لیا، میں  نے  کہا، تیرا ہم شکل ’’ عدم‘‘ معنی ’’نیستی‘‘ ناپید، ہے۔ کہا بالکل ٹھیک ہے ، وجودِ بشر کی کڑی ہم دونوں  سے  ملی ہوئی ہے ، اگر اب بھی کسی کو سمجھ میں  نہیں  آئے  تو عدم کا یہ شعر سنادینا۔

اگرچہ میں  تیری انجمن سے  چلا ہوں  کافی اُداس ہو کر

مگر  مجھے یہ  گمان سا ہے  کہ غالباً لوٹ آؤں  گا میں  

اگر اب بھی کوئی صاحب نہیں  سمجھ سکے  ہیں  تو عدم کا یہ مقطع پیش کر کے  بات ختم کر دینا۔

گناہِ ہستی  کی  اک فقط مختصر سی فرصت عطا ہوئی ہے  

عدم کی بستی سے  آ رہا ہوں  عدم کی بستی کو جاؤں  گا میں

(۱۲)غرق ہیں  جستجو میں  سب کے  سب

جا نے کس کو  ملے  گُہر سب کا (ص۶۰ لاکلام)

جستجو کے  دریا میں  لفظ ’’سب‘‘ جال سا پھیلا ہوا ہے  اور مقصد ’’گہر‘‘ (ہے )پرچھایا ہوا ہے ، اب جال کو اوپر کھینچے  بغیر یہ جاننا مشکل ہے  کہ کونسا جال کس مقصد کے  لئے  ڈالا گیا ہے ، آیئے  جال کو اوپر کھینچ کر اور پھیلا کر دیکھتے  ہیں۔

’’سب‘‘ سارا، کُل، تمام، ہرا یک، ہر طرح کا، پورا، سالم، کامل، شامل، مشترک،  بالکل، سراسر، یک قلم، میزان، مجموعی طور پر، عام لوگ، ساری دنیا۔ (فیروز اللغات)

جال کو پھیلانے  کے  بعد معاملہ اور زیادہ پیچیدہ ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے  کہ جال کے  دھاگوں  میں  سے  کونسادھاگا کس جال کا ہے ، اطمینان وسکون اور سنجیدگی سے  دھاگوں  کو سلجھا کرججج جہاں  کا تھا اس کو اس کی جگہ پر لگا دیا تو لگ کر مضبوط ہو گیا۔

(۱)  ’’سب‘‘ سارے ، کُل، تمام

(۲) ’’سب‘‘ ہر ایک

(۳) ’’سب‘‘ ہر طرح کا

ادب کی کشت میں  ایک طرح کے  لفظ کی فصل اُگا کر مختلف قِسموں  کی فصلیں  کاٹنا انہونی نہیں  ہے ، صرف فصل لگانے  کا ہنر چاہئے۔

(۱۳)غصے  میں  کیا کاغذ، کیا کاغذ کے  نوٹ

 سب  کو  پُرزہ پُرزہ کر کے  بیٹھ گئے (ص۶۳ لاکلام)

غصے  کی حالت میں  آدمی، توڑ تاڑ، توڑ پھوڑ، مار دھاڑ، مار پیٹ، جنگ و جدال، زد و کوب، لڑائی جھگڑے  جیسے  ہی کام کرتا ہے  اور کہتا ہے ، میں  نے  ایسا ایساکیا ہے ، لیکن کوئی شخص نوٹ کو غصّے  کی حالت میں  بھی پھاڑتا نہیں  ہے ، نوٹ کو پھاڑنے  کا مطلب ہے  کہ وہ شخص غصّے  میں  آپے  سے  باہر ہو گیا ہے ، راہیؔ نے  بھی غصّے  کی حالت میں  نوٹ کو پُرزہ پُرزہ کر دیا ہے ، لیکن فن کو ہاتھ سے  جانے  نہیں  دیا ہے ، بلکہ دو جگہ لفظ ’’کاغذ‘‘ کا استعمال کر کے  ’’تجنیس مماثل‘‘ کے  پودا کو ہرا کر دیا ہے۔

(۱)  ’’کاغذ‘‘ قرطاس، پَتر، رقعہ، چٹھّی، خط، ورق

(۲) ’’کاغذ‘‘ ہُنڈی، کاغذِ زر، (فیروز اللغات)

(۱۴)رسوائی کے  ڈرسے  ہم نکلے  نہ کبھی

گھر میں  گھر کا سودا کر کے  بیٹھ گئے (ص۶۲ لاکلام)

اس شعر میں  ’’تجنیس کامل‘‘ کا موتی دیکھنے  کے  لئے  پہلے  سیپ کو توڑنا پڑے  گا، کیوں  کہ اُوپر، نیچے  لفظ ’’گھر‘‘ کے  خول لگے  ہوئے  ہیں  اور اسی خول کے  اندر موتی چھپا ہوا ہے ، توڑا تو اس  کے  دونوں خول اس طرح سے  الگ ہوئے۔

(۱)گھر کا سودا کرنا

(۲)گھر میں  بیٹھ رہنا

مصرعہ کے  دوسرے  لفظ ’’گھر‘‘ کا معنی ہوا، مکان، خانہ، رہنے  کی جگہ، مسکن۔

مصرعہ کے  پہلے  لفظ ’’گھر‘‘ کا معنی ہوا، بھٹ، کھوہ، بِل ’’کنایۃ‘‘ گوشہ۔

 اس طرح تجنیس کا موتی صاف اور عیاں  ہو کر چمکنے  لگتا ہے۔

(۱۵) اک کھٹکاسا لگا رہتا ہے  ہر آن مجھے

جینے  کب دے  جینے  کا ارمان مجھے (ص۱۶ حرف مکرّر)

پہلا لفظ جینے  کا معنی، زندہ رہنے ، زندگی گزارنے ، کے  ہیں۔

دوسرالفظ جینے  کا معنی، زندگی، زیست، حیات، کے  ہیں۔

(۱۶) سمجھ کے  فرض تری ہاں  میں  ہاں  ملاتا ہوں  

تری  خوشی ججج  مجھے اجر  ہمنوائی دے (ص ۴۹ حرف مکرّر)

شعر میں  حاکمیت کے  طنطنے  و شکوے ، رعب و دبدبے ، وقار و تمکنت، شان و شوکت مخفی ہیں ، محکومیت کی بے  کسی و بے  بسی، مجبوری و لاچاری، عاجزی وانکساری، منت وسماجت عیاں  ہیں ، زبر دست کے  سامنے  زیردست کی اس سے  اچھی مثال کیا ہو گی، ہاں  میں  ہاں  ملانا محاورہ ہے ، شعر کی دونوں  ہاں  کو الگ الگ کر کے  دیکھئے  تو ایک سے  زور آوری کا رعب ٹپکتا ہے  تو دوسری سے  سر خم کئے  جانے  کا جذبہ سیل رواں  کا سماں  باندھے  ہوئے  ہے ، حاکم کے  بے  جا یا بجا، صحیح یا غلط حکم پراس کی خو شی کے  لئے  ہاں  کہنا اپنی خوشی کو قربان کرنا ہے۔

پہلا لفظ ’’ہاں ‘‘ حکم کا اشارہ، تاکید، تنبیہ

دوسرا لفظ ’’ہاں ‘‘ اچھّا، ہوں ، بھلا، ضرور، ٹھیک، بیشک، البتہ(فیروز اللغات)

(۱۷)معرکہ  سخت  تھا  لیکن  مجھے  سر کرنا تھا

جان پر کھیل گیا جان کے  ڈر سے  اب کے (ص۵۹ حرف مکرّر)

کچھ پانے  کے  لئے  کچھ کھونا پڑتا ہے ، یہاں  معاملہ برعکس ہے ، تھوڑا پانے  کے  لئے  بہت کچھ کھونا پڑا ہے ، یہ عشق ہے ، طالب و مطلوب کا معاملہ ہے ، عاشق و معشوق کی بات ہے ، عشق میں  آدمی جان کی بازی لگا دیتا ہے ، جاں  باز ہو جاتا ہے ، جان کو جوکھم میں  ڈال دیتا ہے ، جان پر کھیل جاتا ہے  اور یہ کہہ کر سرخرو ہوتا ہے ، جان جائے  پر آن نہ جائے ، شعر میں  استعمال ہوا لفظ ’’جان‘‘ سے  دوسرے ’’جان‘‘ کا معنی ہے ، معشوق، ایک معشوق کے  ڈر سے  کتنی چیزوں  سے  کھیلنا پڑا ہے ، شمار کیجئے۔

پہلا لفظ ’’جان‘‘ طاقت، قوّت، ہمّت، حوصلہ، تاب و تواں ، جوہر، لُبّ لباب، مغز۔

(فیروز اللغات)

پہلا لفظ ’’جان‘‘ جس کا معنے  ابھی آپ نے  پڑھا ہے  اس کو اپنی جگہ پر سلامت رکھ کر مصرعہ کے  دوسرے  لفظ ’’جان‘‘ کو ایک دوسرے  معنی کی روشنی میں  دیکھئے۔

’’جان‘‘ روح، آتما، زندگی، نہایت عزیز چیز، اب معنی ہو گیا کہ جان جانے  کے  ڈر سے  جان پر کھیل گیا۔

 تاب لائے  ہی بنے  گی غالبؔ

واقعہ سخت ہے  اور جان عزیز

(۱۸)بدن کی موج موج تھی چڑھاؤ پر

لباس  کا  حصار  ٹوٹتا رہا (ص۱۱۹ حرف مکرّر)

راہیؔ نے  بڑی سنجیدگی سے  موج کی منظر کشی کر کے  موج کو موج کے  حوالہ کر دیا ہے  تاکہ دونوں  آپس میں  گڈ مڈ ہوتی رہیں ، دیکھنے  والوں  کی آنکھیں  خطا کرتی رہیں ، تماشہ دیکھنے  والے  متحیّر ہو جائیں ، راہ چلنے  والے  رُک جائیں ، پرکھنے  والا پریشان ہو جائے ، من کی دنیا میں  اُبال آ  جائے ، لبوں  پر ہنسی آ جائے ، سوتا ہوا بیدار ہو جائے ، آنکھ چمک جائے ، کچھ دیر کے  لئے  پارسا بھی گنہگار ہو جائے۔

 وقت اور حالات نے  ہمارے  معاشرے  کو جس سانچے  میں  ڈھال دیا ہے ، اس سے پیدا ہونے  والی بیماریوں  نے  تہلکہ مچا کر رکھ دیا ہے ، شاعر موصوف نے  اسی کی عکاسی کی ہے ، تخیّل کی پرواز کو فنِ خراد پر چڑھا کر بات جس طرح سے  کہی ہے۔ حسین ہو گئی ہے۔ دونوں  لفظ ’’ موج‘‘ یکجا ہوتے  ہوئے  اپنے  اندر الگ الگ پہچان، الگ الگ جاذبیت، الگ الگ حسن، الگ الگ معنی رکھتی ہیں  بات پردے  میں  سلیقے  سے ، علم کی روشنی میں  ادب سے  کہی گئی ہے  بدن کی موج، مو ج تھی چڑھاؤ  پر۔

مصرع کا پہلا لفظ موج۔ امنگ۔ جوش۔ ولولہ۔

دوسرا لفظ موج۔ لہر۔ ترنگ۔ تلاطم۔

 موج کے تئیں  غالب کی موج دیکھئے ؂

ہے  یہ برسات وہ موسم کہ عجب  کیا ہے  اگر

موج ہستی کو کرے  فیض ہوا  موج  شراب

چار  موج  اٹھتی ہے  طوفان طرب سے  ہر سو

موج گل، موج شفق، موج صبا، موج شرا ب

موجۂ گل سے  چراغاں  ہے  گزر گاہِ خیال

ہے  تصور میں زبس جلوہ نما موج شراب

 

(۱۹)  آسماں  پر نگاہ تھی میری

اسی دوران پر نکل آئے (ص۱۲۸حرف مکرر )

 

پہلے  مصرعہ میں لفظ ’’پَر‘‘ کا معنی ہے  ’’او پر‘‘  فا صلہ ظاہر کرنے  کے  لئے  

 دوسرے  مصرعہ میں  ’’پر‘‘ کا معنی ہے ، پنکھ، بازو

 لفظ ’’پر‘‘ کو شعرا نے  کئی طریقوں  سے  باندھا ہے  چند نمونے  ملاحظہ فرمایئے ؂ 

لا زم ہے  رحم بلبلِ شیدا کی جان پر

فصلِ بہا رہے  نہ کَتر باغبان پر(اکبر )

 

کچھ لوگججج سوار ہیں  کاغذ کی ناؤ پر

تہمت تراشتے  ہیں  ہوا کے  دباؤ پر

 

موسم ہے  سرد مہر، لہو ہے  جماؤ پر

چوپال چپ ہے  بھیڑ لگی ہے  الاؤ پر  (احسان دانش )

 

(۲۰)کچھ ٹھیک نہیں  ہے  کہ ہم اس اندھے  سفر میں  

سر کو کہاں  رکھ دیں ، کہاں  تلوار اٹھا لیں(ص۱۱۶حرف مکرر )

دونوں  لفظ ’’کہاں  کہاں ‘‘ شکل و صورت میں  ایک ہیں ، ہم جنس ہیں ، معنی کے  اعتبارسے  جنسِ مخالف ہیں ، ایک کچھ بتا تا ہے  دوسرا کچھ اور بتا تا ہے ، دونوں  کی کیفیت، نوعیت دیکھ کر ڈوبتے ، ابھرتے  کا مزہ مل رہا ہے ، گرنے  اور سنبھلنے  کا تماشا ہو رہا ہے۔ بزدلی اور جواں  مردی کا رول ادا ہو رہا ہے ، دونوں  موقع ڈھونڈھ رہے  ہیں ، دونوں  موقع کی تاک میں  ہیں  ایک الگ تاک میں  ہے  دوسرا الگ تاک لگائے  ہوئے  ہے  ایک کہا ں ، کہاں  ہے ، دوسرا ’’ کہاں ‘‘ کہاں  پر ہے ؟ کہاں  کہاں  گھوم رہا ہے ، کہاں  تھا کہاں  چلا گیا، کہاں  ہے  کہاں  جائے  گا کہاں  پر جان کی با زی لگائے  گا، کہاں  پر جان گنوائے  گا، کہاں  کیا کرے  گا، اللہ جانے  مقابلہ کے  میدان میں  اترے  ہوئے  دونوں  ’’ کہاں ‘‘ کو الگ کر کے  دونوں  کو اپنی اپنی جگہ کھڑا کر کے  بتا دیا جائے  کہ تو کہاں  ہے  اور وہ کہاں۔

’’کہاں ‘‘ کس جگہ، کدھر، نہیں ، کب، دوری، فرقِ عظیم

پہلا لفظ ’’کہاں ‘‘ کس جگہ، کدھر، دوسرے  لفظ’’ کہاں ‘‘ کب، کے  معنی میں  استعمال ہوئے  ہیں۔

(۲۱)ہر بار اس سے  مل کر میں شاد کام آیا

ہر ماہ ایک شب وہ ماہِ تمام آیا (ص۱۱۹ لاشعور)

شعر کے  دونوں  مصرعہ میں  دو  جگہ پر ماہ استعمال ہوا ہے ، ظاہری جنس کے  اعتبار سے  دونوں  کی بناوٹ ایک ہے ، مگر معنوی اعتبار سے  دونوں  کے  معنے  میں  فرق ہے ، معنوی طور پر پہلے  ’’ماہ‘‘ کا معنی، مہینا، ماس، ہے۔

’’مہینا‘‘۔ ۲۸، ۲۹، ۳۰، یا۳۱ دنوں  کا عرصہ، ایک مہینہ ہوتا ہے ، عیسوی مہینہ کی طرح، بنگلہ، شک، اور بکرمی بھی، ۳۱ دنوں  کا مہینہ ہوتا ہے ، مثال کے  طور پر مئی ۲۰۰۷ء ۳۱دن کا مہینہ ہے  تو بیساکھ بنگلہ۱۴۱۴، بھی۳۱ دن کا مہینہ ہے ، بیساکھ ۱۴۲۹شک بھی ۳۱دن کا اور بیساکھ ۲۰۶۴ بکرمی بھی ۳۱ دن کا مہینہ ہے۔

سَن عیسوی ہو یا ہجری، سَن ابراہیمی ہو یا نوحی، سکندری ہو یا بکرمی، کل جگ ہو یا جلوس کسرائے  نوشیرواں ، سَن الہی ہویا سن جلالی(سن الہی کو اکبر بادشاہ نے  اور جلالی کو سلطان جلال الدین سلجوقی نے  ایجاد کیا تھا)کہ ہر ایک ماہ میں  ماہِ تمام آتا ہے۔

دوسرا ’’ماہ‘‘ چاند، قمر، ماہتاب۔

’’ماہِ تمام‘‘ مضاف الیہ کے  ساتھ، پورا چاند، ماہِ کامل، چودہویں  رات کا چاند، ماہِ نیم ماہ۔

 ہر ماہ میں  ماہ کا آنا اور ماہِ تمام کا ایک بار آنا قدرتی بات ہے  اور راہی صاحب کے  شعر میں  ماہ کے  ساتھ ماہِ تمام کا آنا(کنایۃً محبوب کا آنا)  بہت خوب ہے  کہ ماہ کے  ساتھ ماہِ تمام کے  آنے  سے  ایک حَسین اور دلچسپ تجنیس وضع ہوئی ہے

(۲۲)کڑی ایک میں ، دوسرا ایک ہے

کہ زنجیر  کا سلسلہ ایک ہے (ص۱۵۷حرف مکرّر)

پہلے  مصرعہ میں  دو جگہ ’’ایک‘‘ ہے  نمبر( ۱) پر ’’ایک‘‘ کا معنے  ہے ، واحد، اکیلا، نمبر(۲)کے  ’’ایک‘‘ کا معنے  ہے ، دوسرا، نمبر(۳)کے ’’ایک‘‘ کا معنے  ہے  متحد، لگاتار، ایک کڑی دوسرے  سے  مل کر زنجیر بنتی ہے ، کڑی اور زنجیر کی سراپانگاری کی اچھی منظر کشی ہے  ایک کڑی دوسرے  میں  پیو ست ہو کر زنجیر بن کر متحد ہو جاتی ہے ، شاید راہی ؔ صاحب اس اتحاد کا پیغام لوگوں  تک پہنچا کر لوگوں  کو اسی طرح متحّد ہونے  کا پیغام دے  رہے  ہیں۔

(۲۳) پڑھا گیا مری تقدیر کا لکھا کچھ اور

کچھ اور درد تھا میرا، ہوئی دوا کچھ اور(ص۱۵۵حرف مکرّر )

اس شعر میں  تین جگہ ’’اور‘‘ ہے  اور ہر تینوں  کا معنی اور ہے۔

پہلا ’’اور‘‘ کا معنے  ہے ، خلاف، برعکس،

دوسرا ’’اور‘‘ کا معنے  ہے ، دوسرا، مختلف،

تیسرا ’’اور‘‘ کا معنے  ہے ، بلکہ، علاوہ، ماسوا، برعکس،

تینوں  ’’اور‘‘ کے  الگ الگ معنے  سے  شعر میں ’’تجنیس مماثل‘‘ اُبھر کر سامنے  آئی ہے ، جس نے  شعر میں  سونے  پر سہاگہ کا کام کیا ہے۔

غلام مرتضی راہیؔ کے  کلام میں  بیشتر صنعت ہائے  لفظی و معنوی پائی جاتی ہیں۔ کلا م کی یہ اضافی خوبیاں  اپنے  اندر بے  پناہ جاذبیت رکھتی ہیں ، ان سے  کلام کاحُسن دوبالا ہو گیا ہے ، ہر چند کہ یہ موضوع عوام کے  لئے  نہیں  ہے۔ لیکن شدبد رکھنے  والے  مستفید ہو سکتے  ہیں۔ اہلِ علم اور طالب علم کے  لئے  اس علم کا جاننا ضروری ہو جاتا ہے  وہ دیگر علوم کی طرح اس علم کو بھی سیکھیں  اگر وہ اس علم کو پڑھیں  گے  نہیں  تو استاد پڑھائیں  گے  کیا، پھر یہ کہ طلبہ امتحان میں  کامیاب کیسے  ہوں  گے ؟

ار دو زبان کی طرح دیگر زبانوں  میں  بھی اس کا التزام برقرار رکھا گیا ہے۔ اس سے  شاعر بڑا نہیں  بنتا ہے  مگر بڑے  شاعروں  کے  یہاں  تجانیس کی صفتوں  کے  گُل بوٹے  جگہ جگہ دیکھنے  کو ملتے  ہیں ، کسی کے  یہاں  التزام ہے  تو کسی کے  یہاں  صرف آمد کی بات ہے  کہ خداداد صلاحیت کی بنا پر نقش و نگار بنتے  چلے  گئے  ہیں ، کچھ ایسی ہی بات راہیؔ صاحب کے  یہاں  بھی ہے  کہ شعر کہتے  وقت خود بخود مختلف قسم کے  پھول چمن کے  پیڑ پودوں  کی شاخوں  میں  کھلتے  چلے  گئے  ہیں ،ججج سر سبز و شاداب، چمن کے  برگ و ثمر کے  درمیان نظر جمانے  کے  بعد ہی نظر آتے  ہیں ، شاعری کی دنیا میں  راہیؔ کس مقام پر فائز ہیں ، راہیؔ شناسی کے  طور پر دو معتبر گوا ہوں  کی گواہی کا تھوڑا ساحصہ ملاحظہ کیجئے۔

’’اس شعر کیNessججج اکثرYouness اور Henessکے  ابعاد کا بھی زاویۂ مستقیم کے  طور پر احاطہ کرتی ہے ، لیکن شعوری طور پر پروپگنڈائی  Weness  سے  احتراز کرتی ہے  اور ذات و کائنات کے  اندر کے  کار فرما ہوش رُبا ڈرامہ کی ستیز، آویزش کی حسّی گرفت پر بھی قادر ہے  وہ کوئی اکتسابی چیز نہیں  بلکہ اس کی دیانت دار با شعور شخصیت کا جوہر اصل ہے ، جس کے  باعث ایک درّاک تہ دار Pointed  اسلوب بیان وجود میں  آیا ہے  جس کی صوتی، لفظی اور نحوی نہج چونکا دینے  کی حد تک فکر انگیز اور زبان و بیان کے  بے  پایاں  تخلیقی امکانات کا سمت نما ہے ‘‘

 (حرف مکرر ص۸۶نظام صدیقی)

’’غلام مرتضی راہیؔ کا شعری اسلوب نہ صرف یہ کہ صوتی اور لفظی سطح پر، بلکہ نحوی سطح پر بھی ایک منفرد اسلوب ہے ، راہی کے  کلام کے  لسانی تجزیے  سے  زبان و بیان کی بے  شمار خوبیاں  ہمارے  سامنے  آتی ہیں ‘‘ حرف مکرر ص۱۲

(ڈاکٹر مرزا خلیل بیگ)

 راہیؔ صاحب کا صوتی یا صرفی اسلوب دیکھئے۔

راہ میں  ٹھوکریں  کھاتا رہا پتھر کوئی

نہ گزرنا تھا نہ گزرا کبھی آزر کوئی(ص۳۲حرف مکر ر)

’’گزرنا‘‘ مصدر ’’گزرا‘‘ ماضی مطلق

نحوی طریقہ پر شعر دیکھئے۔

تجھ کو اے  میرے  ذوقِ نظر کیا ہوا

جس کے  سائے  میں  ہوں  وہ شجر کیا ہوا(ص۱۳۲حرف مکر ر)

’’ذوقِ نظر‘‘ ذوق، مضاف، نظر، مضاف الیہ

ایک آواز پہ سب دشت و جبل گونج اٹھے

اور ہم سن نہیں  پائے  کہ صدا کیسی  تھی(ص۱۳۷حرف مکر ر)

’’دشت و جبل‘‘ دشت، اسم، و، عطف، جبل، اسم۔ راہی ؔ کے  کلام میں  نحوی طریقے  نمایاں  طور پر واضح ہیں۔

راہی صاحب کے  کلام کے  اوصاف ایسے  ہیں  کہ ایک شخص سے  ایک راہی نے  پوچھا کہ فلاں  مقام تک جانے  کے  لئے  کونسا راستہ ہے ، شخص نے  کہا کہ اس مقام پر پہنچنے  کے  لئے  یہاں  دو را ستے  ہیں ، ایک دورو دراز کا ہے ، دوسرے  میں  نشیب و فراز ہے۔ یہ دونوں  کلمے  خوبصورت ہیں ا سی طرح سے  راہی صاحب نے  بڑی بحر میں  اشعار کہے  ہوں  یا چھوٹی بحر میں ، دونوں  کے  نقوش حَسین ہیں۔

٭٭٭

تجنیس زائد

’’تجنیس زائد‘‘ جس کے  ایک کلمہ میں  دوسرے  کلمہ سے  کوئی حرف زائد ہو جیسے ، جُود۔ وجُود، جود سے ، وجود، میں ’’ و‘‘ زیادہ ہے۔

’’تجنیس زائد‘‘ دو متجانس لفظوں  میں ججج ایک شعر میں  ہوں ، صرف ایک حرف کا ازدیاد، بشرطیکہ اشتقاق(مصدر)نہ ہو، تجنیس زائد کہلاتا ہے۔

(اسباق نمبر ۲۸ شاملِ نصاب، یونیورسٹی آف میسور)

’’تجنیس زائد‘‘ دو لفظوں  میں  پہلے  لفظ کا ایک حرف دوسرے  سے  کم یادوسرے  لفظ کا ایک حرف پہلے  لفظ سے  زائد ہو تو ’’تجنیس زائد یا ناقص کہتے  ہیں۔ اس کی تین صورتیں  ہیں۔

(۱)کوئی حرف ابتدا میں  زیادہ

(۲)کوئی حرف درمیان میں  زیادہ

(۳)کوئی حرف آخر میں  زیادہ ہو گا

جیسے  نبات اور بات، گُل اور گال، پیما اور پیمان

 (اردو گرامر اینڈ کمپوزیشن، سیفی بُک ایجنسی ممبئی ۳)

نوٹ۔ !مذکورہ کتاب ’’اردو گرامر‘‘ میں  ناقص اور زائد کو ایک ہی صنعت بتایا گیا ہے  جبکہ دوسرے  علمائے  ادب نے  زائد اور ناقص کو الگ الگ بیان کیا ہے ، یہاں  پر میں  تجنیس زائد کے  اشعار ہی تحریر کر رہا ہوں۔

(۱)  کوئی  اسے پہچان سکے تو پہچانے

سب میں  رہ کر سب سے  اس کی ذات الگ(ص۲۵لاکلام)

’’پہچان‘‘ سے  ’’پہچانے ‘‘ میں ایک حرف ’’ے ‘‘ زیادہ ہونے  کی وجہ سے  تجنیس زائد ہوئی ہے۔

(۲)دیوار کھڑی کرتے  ہوئے  راہ میں  راہیؔ

کہتا ہے  کہ سائے  کو  شجر آئے  نہ آئے (ص۳۸ لاکلام)

لفظ ’’راہ‘‘ سے  ’’راہی‘‘ کے  آخر میں  حرف ’’ی‘‘ کا ازدیاد۔

(۳)اُٹھ رہا ہے  زمین سے  اُوپر

اب جہاں  میرا آب و دانہ ہو  (ص۴۵لاکلام)

’’اب‘‘ سے  لفظ ’’اَاْب‘‘ کے  درمیان حرف ’’الف‘‘ زیادہ ہے۔

اس قسم کا ایک شعر اور دیکھئے  جس میں  راہ اور راہیؔ ایک الگ طریقے  سے  استعمال ہوا ہے۔

(۴)قصّہ اس شہرِ طلسمات کا سن کر راہیؔ

ہم نے  جب راہ نکالی تو کوئی گھر نہ ملا(ص۴۷لاکلام)

(۵)مجھے  مارتا خود بھی مَرتا ہُوا

کوئی مجھ سے  انصاف کرتا ہُوا  (ص۴۷ لاکلام)

’’ مَرتا‘‘ سے ’’مارتا‘‘ میں  ’’میم‘‘ کے  بعد ’’الف‘‘ کے  ازدیادسے  تجنیس زائد ہوئی ہے  اور شعر بھی حَسین ہو گیا ہے۔

(۶)متاعِ جاں  پہ مری چال چل رہا ہے  کوئی

دیا ہے  جس نے  مجھے  دِلا سے  دماغ مِلا(ص۸۸ لاکلام)

’’چال‘‘ اور ’’چل‘‘ میں  حرف ’چ ‘ اور ’ل‘ کے  درمیان ’’الف‘‘ کے  در آنے سے  تجنیس زائد کا پھول کھِلا ہے۔

(۷)ہمیشہ  کام  رکھّا ہے  غرض سے  ہم نے  راہی ؔ

دعائیں  دی ہیں  پھولوں  کو پھلوں  کے  آسرے  میں (ص۸۸)

پھولوں  کی وادی سے  گزر کر پھلوں  تک پہنچنے  میں  پھلوں  میں  ’’پھ‘‘ کے  بعد کا  ’’و‘‘  غائب ہو گیا، تب تجنیس زائد کا پھل ملا۔

مذکورہ بالا شعر میں  جمع کے  صیغہ سے  تجنیس برآمد ہوئی ہے  اب واحد کے  صیغہ سے  تجنیس پیدا کرنے  کی راہی کی صلاحیت دیکھئے۔

(۸)ہوں  رنگ، نسل، مہک۔ پھول، پھل جدا سب کے

 طرح  طرح  کے درختوں کی  ایک  قطار  ملے (ص۹۸لاکلام)

’’پھل‘‘ سے ’’پھول‘‘ میں ‘‘ واؤ‘‘ کا ازدیادتجنیس زائد کا باعث بنا ہے

(۹)اُبل پڑا ہوں  تو اب پتھروں  سے  داب مجھے  

 نہ  سوچ  کیسے کیا  تو نے دستیاب  مجھے (ص۱۲۴لاکلام)

شاعر موصوف خود کو  دابنے  کی دعوت دیتے  ہیں  اور فن ہے  کہ دبنے  کے  لئے  تیار نہیں  ہے  بلکہ پتھروں  کے  دائیں  اور بائیں  سبزہ کی طرح لہلہا رہا ہے۔ لفظ ’’اب‘‘ سے ’’ داب‘‘ میں  حرف  ’’ د‘‘ کا اضافہ تجنیس زائد کا سبب ہے۔

(۱۰)اس کو یوں  دیکھتا ہوں  مُڑ مُڑ کر

  جیسے  پہلے  کبھی  نہ  دیکھا  ہو (ص۱۴۷لاکلام)

لفظ ’’دیکھا‘‘ سے ’’دیکھتا‘‘ میں  حرف ’’ت‘‘ کے  اضافہ سے

(۱۱)دبا ہے  میرے  زمانے  کا شور و شر مجھ میں

 کھنڈر سمجھ کے  سکوں  مت تلاش کر مجھ میں (ص۴۳حرف مکرّر)

’’شور اور شر‘‘ ش۔ ر۔ کے  درمیان ایک حرف ’’و‘‘ کے  ازدیادسے  لفظ ’’شور‘‘ بن کر اس میں  معنویت کی نہر جاری ہو گئی ہے ’’شور‘‘ غُل۔ غوغا۔ شہرت۔ دھوم۔ کھاری نمک۔ عشق۔ جنوں۔ خفگی۔ غصہ

(۱۲)  ایسا  ملا  دیا  گیادریاسراب  سے

اب چونکتا نہیں  ہے  کوئی اپنے  خواب سے (ص۵۵حرف مکر ر)

’’سراب‘‘ دھوکہ دیتا، دھوکے  میں  ڈالتا ہے ، دھوکہ دینا اس کی عادت ہے ، اصل سے  اس کا کچھ تعلق نہیں  ہے ، اصل کی نقل کرتا ہے ، اصل کی ایک بوند بھی اس میں  نمایاں  نہیں  ہے ، اصل میں ججج ہے  وہ اصلی ہے ، سراب میں  نقلی، اصل دریا ہے ، سراب نقال ہے ، اگرچہ اس سے  دریا کو ملا دیا گیا ہے ، اسی لفظ ’’دیا‘‘ اور ’’دریا‘‘ میں  تجنیس نمایاں  ہے ’’دیا‘‘ سے ’’دریا‘‘ میں  ایک حرف ’’ر‘‘ ز یا دہ ہے۔

(۱۳)تھی پھلنے ، پھولنے  کی بڑی آرزو مجھے

  پالا  کیا  زمیں  کے  ٹکڑوں  پہ تو مجھے (ص۱۲۹حرف مکر ر)

پھلنے  سے  پھولنے  میں  ’’واؤ‘‘ زیادہ ہے۔

(۱۴)خطہ خطہ جنگ رہی ہے

دھرتی رنگارنگ رہی ہے (ص۱۳۵حرف مکرّر) 

رنگا اور رنگ میں  ایک حرف ’’الف‘‘ کا ازدیاد

(۱۵)قریب تھا کہ نتیجہ دکھائی دیتا مگر

  بساطِ شب سرِراہِ سحر اُلٹ ہی گئی(ص۱۴۰حرف مکرّر)

’’سر‘‘ سے ’’سحر‘‘ میں ایک حرف ’’ح‘‘ کا ازدیاد

(۱۶)مری رفعتیں  مجھے  یک بیک نہ سمجھ سکیں

 کہیں منکشف میں  ہوا نہیں  کہ غبار تھا(ص۱۴۱حرف مکرّر)

 ’’یک ’’سے ’’بیک‘‘ میں حرف ’’ب‘‘ کا زیادہ ہونا

(۱۷)خواب ٹھہر جاتے  ہیں  آنکھیں  کھلتے  ہی

  خوابوں کی  تعبیریں  چلتی رہتی ہیں (ص۱۵۶حرف مکرّر)

 ’’خواب‘‘ سے ’’خوابوں ‘‘ میں  ایک حرف ’’واؤ‘‘ زیادہ ہے۔

(۱۸)دریا نکل کے  جا نہیں  سکتے  کسی طرف

کیا چال چل گیا ہے  سمندر کہا نہ جائے (ص۱۵۸حرف مکرّر)

چال اور چل میں  ایک حرف’’ الف‘‘ کا ازدیاد ہے۔ راہی صاحب نے  لاکلام میں  بھی ایک شعر میں  چال اور چل کا استعمال کیا ہے ، وہ شعر اس مضمون کی ابتدا میں  درج ہو چکا ہے۔

(۱۹)سفر کی دھوپ سے  بچنے  کے  واسطے  راہیؔ

 غبارِ  راہ  کو ہی  سایہ  مان  لیتا ہے (۱۵۹حرف مکرّر)

پہلے  مصرعہ میں ’’راہی‘‘ دوسرے  مصرعہ میں  ’’راہ‘‘ سے  راہی میں  ایک حرف ’’ ی‘‘ زائد ہے۔

(۲۰)اسے  ہے  کام، رہنا ہے  یہاں  جس کو ہمیشہ

  کوئی اس کے  سوارہ کر ہمیشہ کیا کرے  گا(ص۳۴لاشعور)

پہلے  مصرعہ میں  ’’اسے ‘‘ دوسرے  مصرعہ میں ’’اس ’’سے ‘‘ اسے ’’میں  حرف‘‘

’’ے ‘‘ کا زیادہ ہونا۔

(۲۱)آنکھوں  نے  اتنے  اشک ندامت کئے  بہم

  سارے  گناہ دھُل گئے  ہم پاک ہو گئے (ص۴۱لاشعور)

پہلے  مصرعہ میں ’’بہم‘‘ اوردوسرے  مصرعہ میں ’’ہم‘‘ سے ’’بہم‘‘ میں ’’ب‘‘ کا زیادہ ہونا۔

(۲۲)جینا ہومراسارے  جہاں  کے  لئے  راہیؔ

  ہر ملک کا پرچم مرے  مَرنے  پر نگوں  ہو(ص۵۰لاشعور)

’’مرے ‘‘ اور ’’مَرنے ‘‘ کے  درمیان ایک حرف ’’ن‘‘ کا اضافہ۔

(۲۳)اسے  پاؤ گے  سر بسر اور ہی

  وہ نوعِ  بشر ہے  مگر اور ہی(ص۵۱لاشعور)

’’سر‘‘ سے ’’بسر‘‘ میں  حرف ’’ب‘‘ کا ازدیاد۔

(۲۴)خود کو کبھی آئینے  میں  دیکھا بھی نہیں  تھا

  جب دیکھنا چاہا تو وہ چہرہ بھی نہیں  تھا (ص۵۷لاشعور)

پہلے  مصرعہ میں ’’دیکھا‘‘ دوسرے  مصرعہ میں ’’دیکھنا‘‘ میں  حرف ’’ن‘‘ زیادہ ہے۔

(۲۵)بجھتیججج ذرا پیاس تو ہم کچھ  تو سمجھتے

سمجھے  تھے  سمندر جسے  قطرہ بھی نہیں  تھا  (ص۵۸لاشعور)

پہلے  مصرعہ میں ’’سمجھتے ‘‘ دوسرے  مصرعہ میں  ’’سمجھے ‘‘ کے  درمیان حرف ’’ت‘‘ کا اضافہ۔

(۲۶)تنگ  دستی  میں کئی  بار  وہ  موسم  آیا

جس میں  پھل پھول پرائے  تھے ، شجر تھا میرا  (ص۶۶لاشعور)

(۲۷)ایک اک کے  بجائے  آخر میں

 سب کی اک ساتھ آئے  گی باری  (ص۶۸لاشعور)

شعر نمبر۲۶میں  ’’پھل‘‘ سے ’’پھول‘‘ میں  ایک حرف ’’واؤ‘‘ کا ازدیاد۔

شعر نمبر ۲۷ کے  پہلے  مصرعہ میں ’’ایک‘‘ اور ’’اک‘‘ دوسرے  مصرعہ میں  بھی ’’اک‘‘ تو شعر میں  دو جگہ، اک، اک، اور ایک جگہ ’’ایک‘‘ میں  حرف ’’ی‘‘ کا زیادہ ہونا تجنیس زائد ہے۔

(۲۸)اُس کی فطرت نے  دیا ہے  اُسے  موسم کا مزاج

کبھی  چڑھتا  کبھی  گرتا ہوا پارہ  دیکھوں  (ص۷۰لاشعور)

پہلے  مصرعہ میں  ’’اُس‘‘ سے ’’اُسے ‘‘ میں  ایک حرف ’’ے ‘‘ کا ازدیاد۔

(۲۹)وہی تم سے  کاٹے  نہیں  کٹ رہیں  

جو راتیں  ہیں  میری گزاری ہوئی(ص۷۲لاشعور)

پہلے  مصرعہ میں  ’’رہیں ‘‘ دوسرے  مصرعہ میں ’’ہیں ‘‘ سے ’’رہیں ‘‘ میں حرف ’’ر‘‘ زیادہ

(۳۰)رہا ہمیشہ ہمیں  ایک دوسرے  کا خیال

اُسے  زمیں سے  مجھے  آسماں  سے  کام رہا (ص۸۷لاشعور)

پہلے  مصرعہ میں  ’’کا‘‘ دوسرے  مصرعہ میں  ’’کام‘‘ میں  حرف ’’میم‘‘ زیادہ، اور دوسرے  مصرعہ میں  ’’سے ‘‘سے ’’اسے ‘‘میں ’’ے ‘‘ زیادہ ہے۔  

(۳۱)تعمیر کے  لئے مجھے درکار  ایک عمر

تخریب کے  لئے  مجھے  اک لمحہ چاہئے (ص۱۱۵لاشعور)

 پہلے  مصرعہ میں ’’ایک‘‘ دوسرے  مصرعہ میں ’’اک‘‘ سے  ایک میں  حرف ’’ی‘‘ زیادہ

(۳۲) اُڑان میں  نے  وہ بھری کہ آسمان لے  اُڑا

 وہ مَیں  ہی تھاججج سر سے  اپنے  سائبان لے  اُڑا(۱۲۵لاشعور)

دونوں  مصرعے  کی ردیف میں  ’’اُڑا‘‘ اور پہلے  مصرعہ کی ابتدا میں ’’اُڑان‘‘ میں  حرف ’’نون‘‘ زیادہ۔

(۳۳) درد اک  اور مجھ کو مل جائے  

 زخم کا چاک تاکہ سِل جائے (ص۱۲۶لاشعور)

پہلے  مصرعہ میں  ’’اک‘‘ دوسرے  مصرعہ میں ’’ چاک‘‘ میں  حرف ’’چ‘‘ زیادہ۔

(۳۴)اک  دار  پر  ہے تو ایک در پر

 کاندھوں  پہ کوئی بھی سر نہیں  ہے (۱۳۶لاشعور)

پہلے  مصرعہ میں  ’’اک‘‘ سے ’’ایک‘‘ میں  حرف ’’ی‘‘ زیادہ اور اسی مصرعہ میں  ’’دار‘‘ اور ’’در‘‘ سے ’’دار‘‘ میں  حرف ’’الف‘‘ زیادہ ہے۔

(۳۵)  اگر  ہو  وجہِ تعلق  تو ہم سے دُور رہو

 کوئی بھی فاصلہ ہم درمیاں  نہ رکھیں  گے  (ص۱۴۴لاشعور)

پہلے  مصرعہ میں  ایک جگہ ’’ہو‘‘ دسری جگہ ’’رہو‘‘ میں  حرف ’’ر‘‘ زیادہ۔

(۳۶)ہر ایک  کام  وقت کا مرہون ہوتا ہے

جب سُرخ ہو سلاخ تبھی اس کو موڑیئے (ص۱۴۶لاشعور)

پہلے  مصرعہ میں  ’’کا‘‘ اور ’’کام‘‘ میں  حرف ’’میم‘‘ زیادہ۔

(۳۷)کیوں  نہ کڑیوں  کی طرح مل کے  رہو آپس میں

 ٹوٹنا  جس  کا  ہو  دشوار  وہ  زنجیر  بنو(۱۵۲لاشعور)

پہلے  مصرعہ میں  ’’رہو‘‘ اور دوسرے  مصرعہ میں  ’’ہو‘‘ میں  حرف ’’ر‘‘ زیادہ۔ غلام مرتضی راہیؔ کے  کلام سے  میں  نے  ۳۷ اشعار کو تجنیس زائد کے  تحت اخذ کیا ہے ، خوبصورت اشعار کے  ساتھ خوبصورت تجنیس زائد بھی ہے ،ججج پڑھنے  والوں  کو محظوظ کرے  گی اور مبتدیوں  کو راہ بتائے  گی۔

٭٭٭٭٭٭

تجنیس ناقص

صنعتِ تجنیس ناقص سے  متعلق واضح اختلاف پڑھنے  میں  آئے ، جس کا اشارہ تجنیس زائد میں  کر چکا ہوں کہ ’’اردو گرامر اینڈ کمپوزیشن‘‘ میں  زائد اور ناقص کو ایک ہی صنعت بتا کر ایک ساتھ لکھا ہے ، اس فاش غلطی پر ممبئی کے جناب عبدالحئی صاحب کا ایک مراسلہ بعنوان ’’ اردو قواعد کی ایک غلطی کی تصحیح ’’روز نامہ انقلاب میں  شائع ہوا تھا کہ‘‘سیفی بُک ایجنسی کی شائع کردہ کتاب ’’اردو گرامر اینڈ  کمپوزیشن‘‘ میں  صنعت تجنیس ناقص کی تعریف غلط بیان کی گئی ہے۔‘‘

متذکرہ کتاب میں  صنعت تجنیس ناقص ’’اور‘‘ تجنیس زائد‘‘ کو خلط ملط کر کے  پیش کیا گیا ہے ، لہذا ناچیز آپ کے  مؤقر اخبار کے  ذریعہ دونوں  صنعتوں  کی الگ الگ تعریف مع مثال واضح کرنا ضروری سمجھتا ہے ‘‘

’’صنعت تجنیس زائد‘‘ نویں  ایس ایس سی کے  نصاب سے  خارج ہے ، البتہ ’’صنعت تجنیس ناقص‘‘ نویں  اور ایس ایس سی کے  نصاب میں  شامل ہے ’’صنعت تجنیس ناقص کو‘‘ صنعت تجنیس مُحَرَّف‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

’’ صنعت تجنیس ناقص‘‘ دو لفظوں کے  حروف، اعداد، ترتیب میں  یکسانیت ہو، لیکن معنی اور اعراب میں  اختلاف ہو، مثال ؂

 کریں  مِس کو گر مَس تو وہ کیمیا ہو

 اگر خاک میں  ہاتھ ڈالیں  طلا ہو

 ’’مَس‘‘ بمعنی ’’چھونا‘‘ اور ’’مِس‘‘ بمعنی ’’تانبہ‘‘ ہے۔

صنعت تجنیس زائد۔ دو لفظوں میں  سے  کسی ایک لفظ میں  ایک حرف ابتدا میں  درمیان میں  یا آخر میں  زائد ہو اور دونوں  لفظوں  کے  معنی میں  اختلاف ہو۔ مثال  ؂

 اور بازار سے  لے  آئے ا گر ٹوٹ گیا

ساغرِ جم سے  مرا جامِ سفال اچھا ہے

یہاں ’جام‘ اور ’جم‘ میں  ایک حرف زائد ہے ، ان دونوں  صنعتوں کا شمار ’’صنائع لفظی‘‘ میں  ہوتا ہے۔ صنائع لفظی‘‘ تعداد میں  گیارہ ہیں ، صنعت تجنیس ناقص کے  علاوہ ’’صنعت تجنیس تام‘‘ جسے ’’تجنیس کامل‘‘ بھی کہا جاتا ہے ، یہ بھی نویں  اورایس ایس سی کے  نصاب میں  شامل ہے۔

 ۱۹ دسمبر ۱۹۹۵ء بروز منگل، روز نامہ’’ انقلاب‘‘ ممبئی

مراسلہ میں  نویں  اور دسویں  کے  نصاب میں  شامل اور خارج تجانیس کی باتیں  صرف مہاراشٹر کی حد تک ہے ، موصوف مراسلہ نگار نے ’’صنعت تجنیس ناقص اور زائد‘‘ کی صحیح اور در ست تشریح کی ہے ، لیکن اس کے  جواب میں  جناب مرزا امر اللہ آمر ایرانی کالینہ ممبئی کامراسلہ شائع  ہوا، وہ بھی پڑھ لیجئے۔ 

اردو قواعد کی تصحیح

انقلاب ۱۹ دسمبر کی اشاعت میں  جناب عبدالحئی صاحب کی اردو قواعد کی ایک تصحیح نظر سے  گزری اس ضمن میں  موصوف سے  عرض کرنا چاہتا ہوں  کہ صنائع لفظی ہی صنعت تجنیس کے  دو اقسا م ہیں ، صنعت تجنیس تام یا صنعت تجنیس کامل اسے  صنعت مفرد بھی کہتے  ہیں ، صنعت تجنیس مر کّب اب صنعت مرکّب کی بھی دس اقسام حسب ذیل ہیں۔  

(۱)صنعت تجنیس خطی(۲)صنعت تجنیس مذیّل(۳)صنعت تجنیس مضارع(۴ ) صنعت تجنیس مُحَرَّفْ(۵) صنعت تجنیس زائد(۶)صنعت تجنیس ناقص(۷)صنعت تجنیس اشتقاق(۸)صنعت قلب(۹)صنعت مہملہ یا غیر منقوطہ(۱۰)صنعت غیر مہملہ یا منقوطہ۔

صنعت تجنیس زائد اور ناقص چونکہ ملتی جلتی ہیں ، اس لئے  ان کی تعریف ایک ساتھ بیان کرنے  میں  کوئی مضائقہ نہیں ، اس طرح صنائع لفظی کی تعداد گیارہ بھی ہو سکتی ہے ، البتہ تجنیس ناقص کو تجنیس مُحَرّف سے  ملایا نہیں  جاسکتا یہ آپ ہی کی تحقیق ہے۔ کیونکہ تجنیس ناقص دو الفاظ ہی حروف کے  اختلاف یا ایک حرف کی کمی کو کہتے  ہیں اور صنعت مُحَرَّف صرف اعراب کی وجہ سے  دو مشکل الفاظ ہیں ، تلفّظ اور معانی میں  مُحَرّف ہو جانے  کا نام ہے۔

(۶جنوری ۱۹۹۶ء بروز سنیچر، روز نامہ ’’انقلاب‘‘ ممبئی)

 قابل غور بات

(۱)اردو گرامر اینڈ کمپوزیشن میں  ’’تجنیس زائد و ناقص‘‘ کو ایک ہی صنعت کہا گیا ہے۔

(۲)جناب آمر ایرانی بھی اسی بات پر مُصر ہیں  کہ ’’تجنیس زائد اور ناقص چونکہ ملتی جلتی ہیں ، اس لئے  ان کی تعریف ایک ساتھ بیان کرنے  میں  کوئی مضائقہ نہیں۔ ‘‘

(۳)جناب عبدالحئی اپنے  مراسلہ میں ’’تجنیس ناقص اور مُحَرَّفْ کو ایک ہی صنعت بتائے ہوئے  تحریر کیا ہے  کہ ’’صنعت تجنیس ناقص‘‘ کو ’’صنعت تجنیسِ مُحَرَّف‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

(۴)جناب آمر ایرانی اپنے  مراسلہ میں لکھتے  ہیں  کہ۔ ’’البتہ تجنیس ناقص کو تجنیس مُحَرَّفْ‘‘ سے  ملایا نہیں  جاسکتا،

(۵)فروز اللغات میں۔ تجنیس خطی۔ تجنیس مُحَرَّفْ، کو ایک ہی صنعت بتا کر اس کی تعریف اس طرح کی گئی ہے  کہ۔ ’’اس میں  الفاظ ایک قسم کے ، مگر اعراب اور نقطے  مختلف ہوتے  ہیں ، جیسے  خام، جام۔

(۶)مہاراشٹراسٹیٹ بورڈ کی گیارہویں  جماعت کی کتاب ’’یووک بھارتی‘‘ ص۱۶۸پر تجنیس خطی، کی تعریف اس طرح سے  ہے۔ ’’کلام میں  ایسے  دو لفظوں  کا استعمال جن میں  حروف تو یکساں  ہوں  لیکن نقطوں  یا اعراب کا فرق ہو جس سے  ان کے  معنی مختلف ہوں۔‘‘

 کریں  مِس کو گر مَس تو وہ کیمیا ہو

اگر خاک میں  ہات ڈالیں  طلا ہو

 جناب عبدالحئی نے  اسی شعر کو تجنیس ناقص کی مثال میں  استعمال کیا ہے۔

(۷)بورڈ کی مذکورہ کتاب میں ’’تجنیس زائد‘‘ کے  تحت لکھا گیا ہے  کہ تجنیس زائد، اسے  تجنیس مطرّف اور ناقص بھی کہتے  ہیں ، یعنی کلام میں  آئے  ہوئے  متجانس الفاظ میں  کسی بھی مقام پر صرف ایک حرف کی کمی بیشی مثلاً  ؂

نہ ہو اس کی خطا پوشی پہ کیوں  نازِ گنہ گاری

 نشانِ شانِ رحمت بن گیا داغ سیہ کاری

’’نشان‘‘ اور ’’شان‘‘ میں ’’نشان‘‘ کا پہلا ’’ن‘‘ زائد ہے۔

(۸)مذکورہ کتاب میں  تجنیس ’’مذّیل‘‘ کی تعریف میں  کہا گیا ہے  کہ۔  کلام کے  متجانس الفاظ میں  دو حروف زائد ہوں  تو اسے  تجنیس مذّیل کہتے  ہیں۔ مثلاً  ؂

اک تماشا ہے  یہ چلتی ہوئی کل

 عقل نے  جس کی نہ پائی اٹکل

’’کل‘‘ اور ’’ اٹکل‘‘ میں  ’’اٹ‘‘ زائد ہے۔

ان اختلافات میں  سے  چند اختلاف پر عبدالحئی اور مرزا امر اللہ ایرانی کے  درمیان مرا سلے  کی شکل میں  مباحثے  ہوئے  چنانچہ عبدالحئی صاحب کے  مراسلے  کے  جواب میں  مرزا صاحب کا مرا سلہ شائع ہوا تو اس کے  جواب میں  پھر جناب عبدالحئی کا مراسلہ ذیل کے  عنوان سے  شائع ہوا۔

اردو قواعد کی تصحیح

انقلاب کی ۶جنوری کی اشاعت میں  مرزا ایرانی کی اردو قواعد کی تصحیح نظر سے  گزری، موصوف نے  صنعت تجنیس ناقص کو دو الفاظ میں  حروف کا اختلاف یا ایک حرف کی کمی بتایا ہے ، اس ضمن میں  یہ وضاحت کرنا چاہتا ہوں  کہ ’’دو الفاظ میں  حروف کا اختلاف‘‘ ہرگز صنعت تجنیس ناقص نہیں  بلکہ صنعت تجنیس مضارع ہے ، جیسے ، سدا، صدا، رہا تحقیق کا سوال تو یہ عرض کر دوں  کہ آج سے  تیس بر س قبل اسماعیل یوسف کا لج جوگیشوری بمبئی، میں  اپنے  تعلیمی دور میں  ہمیں  پروفیسر منشی ار مانی صاحب، پروفیسر گائے  صاحب نے  صنعت تجنیس ناقص اور صنعت تجنیس زائد کو دو علیحدہ صنعتیں  ظاہر کرتے  ہوئے  ان دونوں  کی علیحدہ تعریف مع مثال بیان کی تھی۔ یہ میری تحقیق نہیں ، کی موصوف اپنے  بیان کردہ تمام گیارہ صنعتوں  کی تعریف مع مثال بیان کرنے  کی زحمت کریں  ؟ تاکہ میری علمی معلومات میں  اضافہ ہو سکے  اور میں  آپ کا ممنون رہوں۔ عبدالحئی بمبئی

( ۱ جنوری ۱۹۹۶ء بروز بدھ، روزنامہ’’ انقلاب‘‘ بمبئی)

اس کے  جواب میں  مرزا صاحب کا مراسلہ شائع ہواججج ذیل میں  تحریر کر رہا ہوں  

 صنائع لفظی

میرا گذشتہ مراسلہ ۶جنوری، غالباً طوالت یا میرے  خط شکستہ کے  باعث ٹھیک سے  شائع نہ ہو پایا، بہر حال عبد الحئی صاحب صنعت تجنیس ناقص کی تعریف ایک بار اور ملاحظہ فرما لیں ، صنعت تجنیس ناقص دو متشابہ الفاظ کے  تعداد حروف میں  اختلاف اور وہ بھی صرف کسی حرف کی کمی کی صورت ناقص کہلاتی ہے  اور حرف کی زیادتی اسی تجنیس کو زائد کہلواتی ہے ، ایک بار پھر اعادہ کر دوں کہ اگر طوالت کا اندیشہ نہ ہوتا تو ہر صنعت میں  قدیم و جدید شعرا کے  نیز اپنے  مجموعہ کلام سے  تقریباً دس دس شعر بطور حوالہ نذر کرتا، خدا کرے  اب تیس سال بعد عبدالحئی صاحب صنعت زائد کے  دوسرے  رخ کو صنعت ناقص کے  طور سے  سمجھ لیں  اور اپنے  بزرگ اساتذہ کی محنت کا حق ادا کریں۔

 ( مرزا امر اللہ آمریا یرانی ۴۰۳۔ اے !۲ کیلاش پربھات سی ایس ٹی روڈ کالینہ بمبئی

 ۱۷ جنوری ۱۹۹۶ء بروز بدھ، روز نامہ’’ انقلاب‘‘ بمبئی) 

مرزا صاحب کے  جواب میں  پھر عبد الحئی صاحب کا مراسلہ شائع ہوا۔

صنائع لفظی

مرزا امر اللہ آمر ایرانی کا ۱۷ جنوری کا مراسلہ نظر سے  گزرا، موصوف کی’’ صنعت تجنیس ناقص و زائد‘‘ کی خود ساختہ تعریف پھر کسی صنعت سے  ٹکڑا رہی ہے ، امر اللہ صاحب!صنائع لفظی کی تمام گیارہ صنعتوں  کی تعریف بہت معمولی اور باریک فرق کے  ساتھ قواعد اردو میں  درج ہیں ، اس لئے  ہر صنعت کی تعریف مع مثال بہت واضح ہونی چاہئے ، برائے  کرم اب کی بار کوئی عذر لنگ نہ پیش کیجئے ، دس دس شعر بطور حوالہ نذر کرنے  کی بجائے  ہر صنعت کی تعریف کے  ساتھ ایک ایک شعر بطور مثال پیش کر دیں  تو کافی ہے ، اخبار میں  طوالت کا اندیشہ ہے  تو میرے  پتہ پر رجوع کیجئے ، اپنی قابلیت کا بے  جا اظہار کرنے  سے  کیا فائدہ ؟آپ مذکورہ صنعت کی خود ساختہ تعریف کے  ساتھ ایک مثال بھی تو نہ پیش کر سکے  آپ خود ہی سوچئے۔ آئینہ دونوں طرف سے  آئینہ ہوتا ہے  کیا؟

عبدالحئی۳۳!۸مقبیٰ بلڈنگ، تیسرا منزلہ، تیسری سانکلی اسٹریٹ ممبئی

۲۹جنوری ۱۹۹۶ء بروز پیر۔ روزنامہ :انقلاب۔ ممبئی)

اس کے  بعد راقم الحروف کا ایک مراسلہ ذیل کے  عنوان سے  شائع ہوا

 صنعت تجنیس ناقص و زائد

انقلاب ۱۹ دسمبر ۱۹۹۵ء ۶، ۱۰، ۱۷، اور ۲۹ جنوری ۱۹۹۶ء کے  شماروں  میں  علی الترتیب عبدالحئی اور مرزا امراللہ آمری ایرانی کے  مراسلات اردو قواعد کی تصحیح اور صنائع لفظی کے  عنوانات سے  شائع ہوئے  ہیں ، بحث کا موضع صنعت تجنیس ناقص و زائد ہیں۔

مرزا صاحب نے  صنائع لفظی کی گیارہ صنعتوں  کا تذکرہ کیا ہے  اور ۱۷ جنوری کی اشاعت میں  تحریر کیا ہے  کہ اگر طوالت کا اندیشہ نہ ہوتا تو ہر صنعت میں  قدیم و جدید شعرا کے  نیز وہ اپنے  کلام سے  دس دس شعر بطور حوالہ نذر کرنے  کو تیار ہیں ، میری ادارہ انقلاب سے  گزارش ہے  کہ مرزا صاحب گیارہ صنعتوں  کی تعریف مع مثال اشعار کے  ادارہ انقلاب کو بھیجیں  اور آپ انقلاب کے  صفحہ پر اس کو شائع کر دیں  کہ ان صنعتوں  سے  دلچسپی رکھنے  والے  دوسرے  قارئین  بھی فائدہ اٹھا سکیں۔

محمّد ادریس رَضویؔ ، ایم، اے۔ جامع مسجد پتری پُل کلیان، پن ۴۲۱۳۰۶

اس کے  بعد نہ تو آمر ایرانی صاحب کا کوئی مراسلہ شائع ہوا نہ عبدالحئی صاحب کا، تجنیس زائد و ناقص کے  اس قضیے  کا تو کچھ فیصلہ نہیں  ہوا بلکہ معاملہ اور الجھ کر رہ گیا کہ ’’اردو گرامر اینڈ کمپوزیشن ’’ میں ‘‘ تجنیس زائد و ناقص‘‘ کو ایک بتایا گیا ہے  تو عبدالحئی صاحب نے  ناقص اور مُحَرَّف کو ایک بتایا، فیروز اللغات میں ’’تجنیس مُحَرَّف ْ اور خطی کو ایک بتایا ’’یووک بھارتی میں ’’تجنیس خطی‘‘ کو اکیلے  تعریف کی گئی ہے۔ مذکورہ کتاب میں ’’تجنیس زائد و ناقص اور مُطرَّف تینوں  کو ایک بتایا ہے ، اب ہم ان کو علی الترتیب دیکھتے  ہیں  تو ’’تجنیس زائد‘‘ ناقص ’’مُحَرَّف‘‘ خطی اور مُطَرَّف یہ پانچوں  صنعتیں  ایک صنعت بنتی ہیں ، جن کو پڑھ کر پڑھنے  والا الجھ کر رہ جاتا ہے ، اردو میں  استعمال ہونے  والی بیشتر صنعتیں  عربی زبان و ادب سے  لی گئیں  ہیں ، اور ’’دُرُوس الْبَلَاغَۃ‘‘ میں  بابِ علم بدیع کے  تحت ’’مُحَسّنات لفظیّۃ‘‘ میں  صنعت مُحَرَّفْ کی تعریف اس طرح سے  ہے۔

تلف لفظاہ فی ھیئۃالحروف فقط نحو قولہٗ جُبَّۃ الْبُرْ دِ جُنَّۃُالْبَرْدِ۔

 ترجمہ۔اسکو مُحَرَّفْ کہیں  گے  اگر اس کے  دونوں  الفاظ صرف حروف کی ہئیت میں  مختلف ہوں ، جیسے۔ 

محرف ان اختلف لفظاہ فی ہیئۃ الحروف فقط ای واتفقا فی النوع العدد والترتیب نحو قولہ جبّۃالبُرد، ای الجبّہ الماخوذۃ من البرُد، ای الصوف جُنَّۃ ای وقایۃ البرد فلفظہ البُرْد وا لبَرْدِ قد اختلفا فی ہئیۃ الحروف بسبب الا ختلاف فی حرکۃ الباء  لانہا فی الاوّل ضمۃ و فی الثانی فتحہ  مع کو نہما متفقین فی النوع والعدد والترتیب فسمی ھذا لتجنیس محرفا لانحراف ہئیۃ احدا للفظین عن ہیئۃ الآخر (شمُوس البراعۃ۔ للعلامۃ ابی الافضال محمّد فضل حق رامغوری)

محرف وہ جناس غیر تام ہے  جس میں  دونوں  لفظ نوع، عدد، ترتیب میں  تو متفق ہوں  لیکن ہیئت حروف یعنی حرکت وسکون و تشدید میں  مختلف ہوں ، جیسے  جُبَّۃُالْبُرْدِ جنَّۃ الْبَردِ مثال مذکور میں  ’’بُرْد‘‘ میں ’’با‘‘ کو ضمہ ہے  اور ’’بَرْد‘‘ میں  ’’با‘‘ کو فتحہ ہے  اور نوع، ترتیب اور عددِ حروف میں  یکسانیت ہے  (توضیح البلاغۃ، مولانا مصلح الدین قاسمی)

دُرُوْس الْبَلاغَۃْ اور اس کی شرح ’’شروح البلاغہ‘‘ شمو س البراعۃ‘‘ وتوضیح البلاغہ۔ ’’ میں  محرف کیججج تعریف ہے ، میسور یونیورسٹی کے  اسباق نمبر ۲۸ میں  وہی تعریف ’’تجنیس ناقص ’’کی ہے  کہ۔ ’’دو لفظوں  کاججج صرف حرکت وسکون میں  مختلف ہوں ، ایک شعر میں  موزوں  ہونا تجنیس ناقص کہلا تا ہے۔ مثلاً

مثال ۱ ؂  میں  بُلاتا تو ہوں  ان کو مگر اے  جذبۂ دل

ان پہ بَنْ جائے  کچھ ایسی کہ بِن آئے  نہ بنے  (غالب)ؔ  

 بَنْ۔ بِنْ 

 مثال  ۲؂

ختم  کر  لیجئے گَلے مل کر گِلے

 ہر کدورت قلب سے  دھوتی ہے  عید

گَلے۔ گِلے

 مثال ۳؂

 دیکھا تو وہ گُل ہَوا ہُوا ہے  

کچھ اور ہی گُل کھِلا ہُوا ہے ( نسیمؔ )

ہَوا۔  ہُوا

مثال۴؂  

گر دلّی ہو یا  لکھنؤ یا شہر  بَنارس

جس شہر میں  الفت نہ ہو ہے  وہ تو بِنارس

۱بنارس۲بِنارس

۔ ’’اردو مضمون نویسی و قواعد۔‘‘ مصنّف عبدالرشید صدیقی، مالیگا ؤں ، مذکورہ کتاب میں  تجنیس ناقص کے  تحت لکھتے  ہیں۔

تجنیس ناقص۔ جب شاعر اپنے  کسی شعر میں  دو ایسے  الفاظ استعمال کرتا ہے۔ جس میں  زیر زبر کا فرق ہو اور معنی جدا ہوں اسے  ’’ تجنیس ناقص‘‘ کہتے  ہیں۔

مثال۔ کریں  مِس کو گر مَس تو وہ کیمیا ہو

 اگر خاک میں  ہاتھ ڈالیں  طلا ہو

معلوم ہوا کہ محرّف اور ناقص ایک صنعت ہے  اور عبد الحئی صاحب نے  اپنے  اوّل مراسلہ میں ٹھیک کہا تھا کہ زائد اور محرّف ایک ہے۔ اب غلام مرتضی راہیؔ کے  کلام میں ’’تجنیس ناقص‘‘ ملاحظہ فرمایئے۔

(۱)نام کو رہ گیا شریک سفر

اِدھر آیا اُدھر گیا صحرا (ص۴۷ لاشعور)

اِدھر۔ کا معنی۔ اِس جانب، اِس طرف، ورے

اُدھر۔ کا معنی۔ اُس طرف، اُس جانب، پَرے

(۲)  بہت خون اِس مِیں  بہا خواہشوں  کا

 وہ اک جنگ دل سے ججج مَیں  نے  لڑی ہے (ص۹۳ لاشعور)

(۳)مَیں  تصویر بن کر اُسے  دیکھتا ہوں  

ججج دیوار مِیں  کیل خالی پڑی ہے (ص۹۳ لاشعور)

(۴)مَیں  جس کی آڑ مِیں  اُس کو نہ دیکھ سکتا تھا

 مری نظر مِیں  وہ سب سے  مہین پردہ تھا(ص۹۷ لاشعور)

(۵)رہتا ہوں  مَیں  خلائے  تخیّل مِیں  پھیل کر

  بھرنے  کو مجھ کو خالی جگہ کی کمی نہیں  (ص۱۲۲لاشعور)

(۶)حقیقت کو مَیں  پس منظر مِیں  رکھتا ہوں  

 کہ  دلچسپی ہے  دنیا کو  کہانی سے (ص۱۴۱ لاشعور)

 مَیں۔ کا معنی۔ اپنی ذات، خود آپ

مِیں۔ کا معنی۔ اندر، بھیتر

مذکورہ بالا چھ اشعار  کے  درمیان صرف لفظ مِیں  ’’ مَیں ‘‘ اور ’’ مِیں ‘‘ کے فرق سے  تجنیس ناقص پیدا ہوئی ہے۔

(۷)ترتیب سے  حُسن ہے  جہاں  کا

 اک چیز اِدھر اُدھر نہیں  ہے (ص۱۳۵ لاشعور)

اِدھر۔ اُدھر

’’لاشعور‘‘ کے  بعد اب جناب راہیؔ صاحب کے  ’’ لاکلام‘‘ پر ’’ تجنیس ناقص‘‘ سے  متعلق نظر دوڑاتے  ہیں  تو ذیل کے  اشعار ملتے  ہیں۔

(۸)اُس نے  اِس بار کوئی پہرا بٹھانے  کے  بجائے

 آب دریا میں  نہ رکھ کر مجھے  پیاسا رکھا(ص۲۲لاکلام)

اُس۔ اِس

(۹)اِدھر پڑی ہے  تاک میں  ساری رات الگ

اُدھر لگائے  بیٹھا ہے  دِن گھات الگ  (ص۲۵ لاکلام)

اِدھر۔ اُدھر

(۱۰)مَیں  جس کی بے  پناہی کی گواہی دے  رہا ہوں

 وہ  رہتا  ہے مری  فکر و نظر کے  دائرے  مِیں

 مَیں۔ مِیں

(۱۱)نہیں  تھا بوند برابر بھی مَیں  سمندر مِیں

شمار کچھ مرا، ترک تعلقات سے  تھا(ص۹۰لاکلام)

 مَیں۔ مِیں

(۱۲)زندگی بھر مَیں  سرابوں  مِیں  سفر کرتا رہا

 ریت پر چلتے  ہوئے  ناؤ مری پار ہوئی(ص۹۲ لاکلام)

مَیں۔ مِیں

(۱۳)میرے  آگے  نہ جلا اپنا چراغ

کہ اندھیرے  مِیں  نہیں  رہتا  مَیں (ص۱۰۰لاکلام)

مِیں۔ مَیں

(۱۴)گھِراججج رہتا ہوں  سب میں  تو ہے  یہ اندیشہ

 اِدھر  اُدھر  نہ  مرا  خیرخواہ  کوئی ہو (ص۱۱۲لاکلام)

اِدھر۔ اُدھر

(۱۵)آنکھوں  آنکھوں  مِیں  وضاحت سے  ہوا کیں  باتیں

چُپ  نہ  محفل  مِیں  وہ بیٹھا نہ  مَیں  خاموش رہا  (ص۱۴۹ایضاً)

 مِیں۔ مَیں

(۱۶)ہواؤں  نے  رکھا مجھے  ہوشیار

مَیں  فانوس مِیں  اپنے  جلتا رہا(ص۱۵۱لاکلام)

مَیں۔ مِیں

(۱۷)انسانوں  کا زمین پہ راہیؔ اِدھر ہجوم

تاروں  کا ازدحام  اُدھر آسمان  پر(ص۱۵۹لاکلام)

اِدھر۔ اُدھر

(۱۸)چھت  لے کے مجھے  بیٹھ بھی سکتی ہے  کسی دن

مَیں  جس کی امان مِیں  ہوں  وہ سفاک بہت ہے (ص۱۶۷ایضاً)

مَیں۔ مِیں

(۱۹)بچاتا پھرتا ہوں  دریا میں  اپنی کشتیِ جاں

 کبھی  اِس  پار ہے  کوئی کبھی اُس پار کوئی  (ص۱۷۸  لاکلام)

 اِس۔ اُس

( ۲۰) اَرض وسما کی وسعتیں  گُم سب اسی مِیں  ہے

جاؤں  کدھر نکل کے  مَیں  اپنے  حصار سے (ص۱۷۹لاکلام)

 مِیں۔ مَیں

(۲۱)مَیں  کھلونا ہوں  ترے  ہاتھوں  مِیں

 ہوش مِیں  ہوں  مَیں  سنبھل جا تو بھی(ص۱۸۴لاکلام)

دونوں  مصرعے  میں۔ مَیں  اور مِیں  کی تکرار سے

اسی طرح غلام مرتضی راہیؔ کی کتاب ’’ حرف مکرّر‘‘ میں  تقریباً۲۵تا۲۶ اشعار میں  ’’ مَیں ‘‘  اور ’’ مِیں ‘‘ کے  استعمال سے  ’’ تجنیس ناقص‘‘ پیدا ہوئی ہے۔ پانچ اشعار میں  لفظ ’’ اِدھر۔ اُدھر‘‘ کا استعمال ہوا ہے۔ تجانیس سے  متعلق راہیؔ صاحب کے  یہاں  آمد کی کیفیت ہے  التزام نہیں  ہے۔ التزامی طریقے  پر بھی اشعار کو سنوارا جا سکتا ہے ، تجنیس ناقص کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ کچھ مثالیں  الفا ظ و معنے  کے  ساتھ ملاحظہ فرمایئے۔

(۱)اَبَا۔ معنے  باپ(۲)اِبَا۔ انکار، نفرت، پرہیز، اختلاف، نافرمانی، اِبا کرنا، انکار کرنا

(۳)اَبْصَاْرْ۔ بصر کی جمع، آنکھیں ، نظریں (۴)اِبْصَاْرْ۔ دیکھنا، نگاہ، بصیرت، دانائی۔

(۵)اَبْطَالْ۔ بطل کی جمع، بہادر لوگ، بڑے  انسان، ہیرو۔

(۶)اِبْطَالْ۔ باطل کرنا، جھوٹا کرنا، غلط قرار دینا۔

(۷)اَحَدْ۔ ایک، اکیلا، یگانہ، لاشریک، خدائے  تعالی کا صفاتی نام۔

(۸)اُحَدْ۔ مدینہ منورہ کے  قریب ایک پہاڑ کا نام۔

(۹)اَخْرَاجْ۔ خرچ کی جمع، خرچ اخراجات(۱۰)اِخْرَاجْ۔ نکاس، خرچ، صَرف، شہر بدر کرنا، باہر کرنا، الگ کرنا۔

(۱۱)اَشْبَاْہْ۔ شبیہ کی جمع، شبیہیں ، شکلیں ، صورتیں۔ (۱۲)اِشْبَاْہْ۔ مشابہ ہونا، کسی چیز کی مانند ہونا۔

(۱۳)اَعْرَاب ْ۔ بدّو، عرب کے  صحرا نشیں۔ (۱۴)اِعْرَابْ۔ زبر، زیر، پیش کی علامتیں

(۱۵)اَفْہَامْ۔ فہم کی جمع، عقلیں ، سمجھیں۔ (۱۶)اِفْہْامْ۔ سمجھانا۔

(۱۷)اَقْدَامْ۔ قدم کی جمع۔ (۱۸)اِقْدَامْ۔ قدم بڑھانا، آگے  جانا، پیش قدمی کرنا، ارتکاب عمل، ارادہ، قصد۔

ان مثالوں  کی روشنی میں  کچھ تجانیسی اشعار ملاحظہ کیجئے۔

(۱)  اِ نْسْ۔ انسان، آدمی۔ (۲) ا نْسْ۔ محبت، پیار، اختلاف، رغبت، میل جول۔

ایک  ترے  رخ کی روشنی چَین ہے  دو جہان  کی

اِنْس کا اُنْس اُسی سے  ہے  جان کی وہ ہی جان ہے (حضرت احمد رضاؔ بریلوی)

(۳)بَنَا ْ۔ تخلیق ہوا، وجود میں  آیا۔ (۴)بِنَا ْ۔ بنیاد، جڑ، اصل، سبب، وجہ، باعث۔

غایت و علّت سبب بہر جہاں  تم ہو سب

 تم  سے بَنَا  تم بِنَا تم پہ کروروں  درود (حضرت احمد رضا)ؔ

(۵)جَلَا ْ۔ جَلا ہوا۔ (۶)جِلَا ْ۔ صفائی۔ روشنی، چمک، صیقل۔

جِلَا دے  دیں ، جَلَا دے  کفر و الحاد

کہ تو محییٖ ہے  تو قاتل ہے  یا غوث (حضرت احمد رضاؔ )

(۷) خَلْقْ۔ پیدائش، خَلقت، دنیا کے  لوگ۔ (۸) خُلْقْ۔ خُو، عادت، خصلت۔

خلق تمہاری جمیل، خُلْقْ تمہارا جلیل ٭ خَلْقْ تمہاری گدا تم پہ کروروں  درود

(حضرت احمد رضا)ؔ

(۹) گِل۔ مٹّی، کیچڑ، دلدل۔ (۱۰) گُل۔ پھول۔

تری  شمع  دل  آرا کی  تب و تاب

 گُل و بلبل کی آب و گِل ہے  یا غوث(حضرت رضا)ؔ

(۱۱)مَظْہَرْ۔ ظاہر ہونے  والا۔ مَظْہَرِ حَق۔ حق نے  تم کو ظاہر کیا۔

(۱۲)مُظْہَرْ۔ ظاہر کرنے  والا۔ مُظْہَر حَق۔ تم نے  حق کو ظاہر کیا۔

مَظْہَرِ حَق ہو تمہیں ، مُظْہَرِ حق ہو تمہیں

تم میں  ہے  ظاہر خدا تم پہ کروروں  درود(حضرت رضاؔ )

(۱۳)مَیْلْ۔ کیچ، کیچڑ، چیکٹ، فضلہ، گاد، زنگ، کدورت

(۱۴)مِیْلْ۔ ایک چیز کی دوسری چیز میں  ملاوٹ۔

سونے  کو تپائیں  جب کچھ مِیْل ہو یا کچھ مَیل

 کیا کام جہنم کے  دھرے  کو کھرے  دل سے۔ حضرت رضاؔ

مذکورہ بالا اشعار کی مثال سے  قارئین پر واضح ہو گیا ہو گا کہ تجنیس ناقص یا مُحَرَّف کا دائرہ بہت وسیع ہے  اور یہ بھی عیاں  ہو گیا ہو گا کہ تجنیس مُحَرّف یا ناقص ایک ہی صنعت ہے  اردو والوں  نے  مُحَرّف کو ہی ناقص کا نام دیا ہے۔ مُطَرَّف کو مُحَرَّفْ یا ناقص سے  ملایا نہیں  جاسکتا ہے  بلکہ مُطَرَّف کو زائد کہہ سکتے  ہیں  کہ اردو والوں  نے  زائد کی تعریف میں  یہ لکھا ہے  کہ پہلے  یا درمیان میں  یا بعد میں  ایک حرف زیادہ ہو اور مُطَرَّف کی تعریف اس طرح سے  کی گئی ہے۔

’’  مُطَرَّفْ‘‘ وہ جناس غیر تام ہے۔ جس میں  دو لفظ صرف تعداد حروف میں  مختلف ہوں  اور زیادتی متجانس کے  شروع میں  ہو، مطلب یہ ہے  کہ دو لفظوں  میں  سے  ایک میں  زائد اور دوسرے  میں  کم ہو یہ زیادتی اگر شروع میں  ہے  تو اسی کا نام مُطَرَّف ہے ، جیسے !

 

اِن کان فراقنا مع اکصبح بدا

 لا اسفر بعد ذالک صبح ابدا

چند سطور کے  بعد۔۔ ’’شعر مذکور میں  محل اشتشہاد ’’بدا‘‘ اور ’’ابدا‘‘ ہے  بایں  طور کے  پہلے  مصرعہ کا آخری لفظ ’’بدا‘‘ ہے  اور دوسرے  مصرعہ کا آخری لفظ ’’ابدا‘‘ ہے ، جس میں  ’’الف‘‘ زائد ہے۔ اور زیادتی شروع میں  ہے۔ دوسری مثال آیت قرآنی ہے۔ ’’وَالْتَفَّتِ السَّاق بِالسَّاقِ اِلٰی رَبّکَ یَوْ مَئِذِن الْمَسَاق۔‘‘ اور ایک پنڈلی دوسرے  پنڈلی سے  لپٹ جاتی ہے۔ اس دن تیرے  پرور د گار کی طرف جانا ہوتا ہے۔‘‘ اس آیت میں ’’ساق‘‘ کے  مقابلے  میں ’’مساق‘‘ میں  ایک حرف ’’ میم‘‘ شروع میں  زائد ہے۔‘‘ (توضیح البلاغۃ)

 

تجنیس ناقص۔ نام میں  ناقص، کام میں  کامل ہے  کہ متجانس لفظوں  پر اعراب کی علامتیں  ظاہر کر دی جائیں  تو اردو بولنے  والوں  میں  غلطی کا امکان کم ہو جائے  گا، اور اردو پڑھنے  والوں  میں  رو انی برقرار رہے  گی۔ مثلاً!مَہر، مِہر، مُہر، عوامی طبقہ تینوں  کو ایک ہی طرح سے  پڑھتا اور سمجھتا ہے۔ اسی طرح، مَلک، مِلْک، مُلک کے  پڑھنے  میں  اکثر آدمی غلطی کرتے  ہیں۔ وَلایت اور وِلایت کے  فرق کو نہیں  سمجھتے  ہیں۔ غَم زَدہ اور غم زُدہ، مُمْتحَن اور مُمتحِن، قَدم اور قِدم، مخاطَب اور مخاطِب میں  تفریق  نہیں  کر پاتے  ہیں۔ بَلا، بِلا، بُلا، طَور، طُور، مَنّت، مِنّت، مُذکّر، مُذکِّر، عِلم، علَم، قَسم، قِسم، نَقش، نَقص، حَسن، حُسن، حِکم، حُکم، رَخت، رُخت پر اعراب نہ ہونا بھی مسئلہ بنا رہتا ہے۔ ایسے الفاظ پر اعراب ضرور ظاہر کر دینا چاہئے ، تاکہ لوگوں  کو پڑھنے  میں  آسانی پیدا ہو جائے۔

٭٭٭٭

تجنیس مُذَیَّلْ

عربی ادب کی مشہور کتاب۔ ’’دُرُوْس الْبَلَاغۃ۔‘‘ میں  مُذَیَّل کی تعریف اس طرح سے  ہے۔ ’’وَمُذَیَّلُٗ اِنْکَانَتَ الزَّیَا دَۃُاٰخِراً نَحْو۔‘‘

یَمُدَّوْنَ مِنْ اَیْدِ عَوَاصِِ عَوَاصِمٖ

تَصُوْل بِاسْیَافِ قَوَاضِِ قَوَاضِبٖ

دروس البلاغۃ کی شرح ’’توضیح البلاغۃ‘‘ میں  اس کا خلاصہ اس طرح پر کیا گیا ہے  کہ۔ ’’مُذَیَّل وہ جناس غیر تام ہے  جس میں  دو لفظ صرف تعداد حروف میں  مختلف ہوں  اور زیادتی آخر میں  ہو۔ جیسے  ابو تمام کا شعرججج اوپر درج ہوا ہے۔ شعر مذکور میں  محل اشتشہاد ’’عَوَا صِِ وعَوَاصِمٖ اور قَوَاضِِ وقَوَاضِبٖ‘‘ ہے  ’’عواصم‘‘ کے  آخر میں  ایک حرف ’’میم‘‘ عواصِِ کے  مقابلے  میں  زائد ہے۔ ایسے  ہی ’’قواصبٖ‘‘ کے  آخر میں  ایک حرف ’’ب‘‘ قواضِِ کے  مقابلے  زیادہ ہے۔‘‘ اردو والوں  نے  اوّل یا آخر میں  دو حرفوں  کا اضافہ کر کے  اس کی تعریف اس طرح سے  کی ہیں  کہ۔ ’’دو متجانس لفظوں  میں  دو حرف کا اضافہ ہے  اور ایک شعر میں  موزوں  ہو جائیں  تو یہ تجنیس مُذَیَّل کہلاتا ہے۔

مثال۔ محفل میں  شور قلقل مینائے  مل ہوا

 لا ساقیا پیالہ کہ  توبہ کا قل ہو ا(ذوقؔ )

 قل سے  قلقل میں  دو حرف زیادہ ہے

 مثال۔ پھول کر کچھ پھول کہتے  ہیں  ہم فخر چمن

بیکلی سی دیدنی ہے  ہر کلی کے  نام سے (سرور مرزائی)

 کلی سے  بیکلی میں پہلے  دو حرف کا ازدیاد ہے۔

(اسباق ۲۸ میسور یونیورسٹی میسور)

تجنیس مُذیَّل۔ دو لفظوں  سے  ایک لفظ کے  آخر میں  دو حرف زیادہ ہوں ، جیسے  قل اور قلقل۔ مانگ اور مانگتی۔ ترس اور ترستی وغیرہ۔

مانگ سے  اس کی مانگتی ہے  بھیک

مہ  کا  کاسہ  لئے  شبِ تاریک (مصحفیؔ )

 (اردو گرامر اور کمپوزیشن، مصنّف سبطِ حسن)

ان مثالوں  کی روشنی میں  دو حرف کے  ازدیاد کے  ساتھ جناب راہیؔ صاحب کا ایک شعر حالاتِ حاضرہ کا ترجمان بن کر دعوتِ فکر دے  رہا ہے۔ دیگر ممالک کے  بازاروں  کی طرح ہندو ستان کے  بازار میں  ہر جنس کی فراوانی ہے۔ ہر نایاب چیز کی بہتات ہے۔ لیکن ساتھ ہی آسمان کو چھوتی ہوئی گرانی، کمر توڑ دینے  والی مہنگائی لوگوں  کو ان چیزوں  کے  قریب ہونے  نہیں  دیتی ہے۔ غریب اور متوسط طبقے  کے  آدمیوں  کے  لئے  وہ چیزیں  خواب بن جاتی ہیں۔ ان باتوں  سے  متاثر ہو کر راہیؔ صاحب نے  ایک شعر کہا ہے۔ جس میں  تجنیس مذیّل نے  بھی اُتر کر شعر کو حَسین بنا دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائے  راہیؔ کا یہ شعر ؂

(۱)نایاب چیز کون سی بازار میں  نہیں

بَس قوّت خرید، خریدار میں  نہیں (ص۲۹ لاکلام)

’’خرید‘‘ سے  خریدار میں  دو حرف ’’الف‘‘ اور ’’ر‘‘ کا اضافہ تجنیس مذیّل کا باعث ہے۔

تعلیم عام ہے  لیکن تعلیم پر جہالت حاوی ہے۔ اونچ نیچ، امیری غریبی، ذات پات کے  جھگڑے  برقرار ہیں۔ جھوٹی انا کے  لئے  ہمہ دانی، شیخی اور پدرم سلطان بود کے  نعرے  بھی جاری ری ہیں۔ اس تعلق سے  معاشرے  کے  ترجمان راہیؔ کہتے  ہیں  ؂

(۲)پہلے اپنے قد کو  ہم نے  کم کیا

تب کہیں  ہم آپ کے  ہمسر بنے (ص۱۹لاکلام)

ہم سے  ہمسر میں ’’س ر‘‘ دو حرف کا ازدیاد تجنیس مذیّل کا سبب بنا ہے۔

(۳)غرقاب بستیوں  کو اُبھر جانا چاہئے

دریا کو بام ودرسے  اُتر جانا چاہئے (ص۲۳ لاکلام)

در سے  دریا میں  دو حرف ’’ی‘‘ اور ’’الف‘‘ زائد سے  تجنیس مذیّل پیدا ہوئی ہے۔راہیؔ صاحب اپنے  کلام میں  تصوف کے  باب کھولنے  اور معرفت کے  رنگ میں  خود کو رنگنے  کی سعی کی ہے۔ دنیا کی چیزوں  کو آنکھیں  کھول کر دیکھا جاتا ہے ، مگر تصوّف میں  آنکھیں  بند کر کے ، اس طرح سے  دیکھنے  کو صرف دیکھنے  والا ہی جانتا ہے  کہ اس نے  کیسے  اور کس طرح سے  دیکھا ہے ، موصوف کہتے  ہیں  ؂

(۴)دبیز پردے  پڑے  ہوں  گے  میری آنکھوں  پر

 کرے گا  وہ  مجھے بابِ وصال  پر مامور (ص۸۰ لاکلام)

’’پر‘‘ سے  ’’پردے ‘‘ میں  ’’د‘‘ اور ’’ے ‘‘ کے  ازدیاد سے  تجنیس مذیّل نمودار ہوئی ہے۔

ہنر والوں  میں  ہنر دکھانے  کا شوق، دیکھنے  والوں  میں  دیکھنے  کا جذبہ، سنانے  والوں میں  سنانے  کا ذوق، سننے  والوں  میں  سننے  کی تڑپ کے  ساتھ، دکھانے  اور سنانے  والوں  کے  سامنے  مجمع اور بھیڑ ہو تو ان کا ذوق و شوق بڑھ جاتا ہے۔ راہیؔ صاحب ایسے  ہی موقع کے  لئے  کہتے  ہیں  ؂

(۵)کھڑے  ہیں  ہم تجھے  گھیرے  ہوئے  جب تک کھڑے  ہیں  

تماشائی  نہ  جب  ہوں گے تماشا  کیا کرے  گا (ص۳۴ لاشعور)

’’تماشا‘‘ سے  ’’تماشائی‘‘  میں  دو حرف ’’ء‘‘ اور ’’ی‘‘ کے  ازدیاد سے  تجنیس مذیّل کے  پھول کھلے  ہیں۔

زندگی فانی ہے ، پانی کا بُلبلہ ہے ، دنیا آدمی کے  لئے  سرائے  خانہ ہے ، آدمی اس میں  مسافر ہے ، موت کا فرشتہ کبھی بھی آ کر روح قبض کر سکتا ہے ، اس کے  باوجود فانی، فانی چیزوں  کی محبت میں  ایسا ڈوبا ہوا ہے  کہ باقی کو بھول گیا ہے۔ صوفیائے  کرام کہتے  ہیں  کہ۔ ’’آدمی تین قسم کے  ہوتے  ہیں۔ ایک حریص لالچی، دوسرے  تائب مبتدی، تیسرے  عارف منتہی، حریص لالچی موت کو یاد نہیں  کرتا، اور کبھی یاد کرتا بھی ہے  تو اس لئے  کہ اپنی دنیا کے  چھوٹ جانے  پر افسوس کرے  اور دنیا ہی کی بھلائی میں  مشغول رہے ، ایسے  شخص کو موت کی یاد بھی خدا سے  دور کر دیتی ہے ، لیکن تائب مبتدی موت کو اس لئے  یاد کرتا ہے  کہ اس کے  دل میں خوف و خشیّت پیدا ہو اور وہ پوری طرح توبہ پر استقامت حاصل کرے۔ عارف منتہی ہمیشہ ہر آن موت کو یاد کرتا ہے  کیونکہ موت لقائے  دوست، وعدہ گاہ ہے  اور عاشق کبھی دوست کی وعدہ گاہ کو فراموش نہیں  کرتا۔‘‘

(مکتوبات صدی، مکتوب ۹۷۔ مخدوم جہاں  حضرت شیخ شرف الدین علیہ الرحمہ)

اس نظریے  کے  تناظر میں  راہیؔ  کا مندرجہ ذیل کا شعر یاد کرنے  کے  قابل ہے  ؂

(۶)اسے  ہے  کام، رہنا ہے  یہاں  جس کو ہمیشہ

 کوئی اس کے  سوا رہ کر ہمیشہ کیا کرے گا (ص۳۴ لاشعور)

دوسرے  مصرع میں ’’رہ‘‘ اور پہلے  مصرع میں  ’’رہنا‘‘ میں  ’’ن ا‘‘ دو حرف کے  اضافہ  تجنیس مذیّل ہوئی ہے۔

(۷)کبھی امید ہمدردی کی ایسے  سے  نہ رکھیں

 اَڑا ہے  بن کے ججج دیوار سایا کیا کرے  گا( ص۳۴ لاشعور)

’’سے ‘‘ سے  ’’ایسے  ‘‘ میں دو حرف ’’اے ‘‘ کا از د یادتجنیس مذیّل کا باعث ہے۔

سائنس کا علم بتاتا ہے  کہ سورج سے  روشنی کشید کر کے  چاند چمکتا ہے ، چاند کی روشنی ذاتی نہیں  بلکہ سورج سے  مستعار لی ہوئی ہے ، سورج کی روشنی کو چاند دن بھر اپنے  اندر جذب کرتا رہتا ہے  پھر اسی کے  سہارے  رات میں  منوّر رہتا ہے۔ راہیؔ صاحب نے  ان باتوں  کو اچھوتے  انداز میں  شعر کے  قالب میں  اُتارا ہے۔

(۸)تمازت چاند سے  دن بھر چھنی ہے

 شعاعِ مہر، شب میں  چاندنی ہے (ص۳۹ لاشعور)

’’چاند‘‘ سے ’’چاندنی‘‘ میں  دو حرف ’’ن ی‘‘ زائد ہیں۔

کھُلے  دل کے  ساتھ اپنا حالِ دل بتاتے  ہوئے  راہی صاحب کہتے  ہیں ؂

(۹)آئینہ  میرا مکدّر  نہیں ہوتا راہیؔ

 کوئی صورت ہو خرابی کی عیاں  رکھتا ہے (ص۸۶لاشعور)

دوسرے  مصرع میں  ’’ہو‘‘ اور پہلے  مصرع میں ’’ہوتا‘‘ میں  ’’ت ا‘‘ کے  ازدیاد سے  تجنیس مذیّل نمایاں  ہوئی ہے۔

اور ایک الگ انداز و فکر کا شعرججج راہیؔ صاحب کے  تخیّل سے  اتر کر راہیؔ کے  آشیانہ پر پہرا دے  رہا تھا  ؂

(۱۰)جب آشیاں  پہ مرے  بجلیوں  کا پہرا تھا

 ہر  ایک  تنکا  مرا  روشنی  میں  آتا تھا  (ص۹۷لاشعور)

پہلے  مصرع میں  ایک جگہ ’’پہ‘‘ اور دوسری جگہ ’’پہرہ‘‘ میں  حروف ’’ر‘‘ اور ’’ہ‘‘ کے  زائد ہونے  سے۔

پہلے  دیہی علاقوں  میں  عام طور پر اور اب بھی اکثر جگہوں  پر گھروں  میں  عورتیں  کجلوٹی میں  کاجل تیار کرتی ہیں  اور بچوں  کو پہناتی ہیں۔ ایک خاص حکمت سے  پیدا کئے  گئے  دھواں  سے  تیار کاجل کا تذکرہ ذرا سا ہٹ کر راہیؔ صاحب یوں  کرتے  ہیں ؂

(۱۱)طاق پر رکھے  چراغوں  کا دھواں

 بَن چکا ہے  آنکھ کا کاجل کبھی(ص۱۱۳لاشعور)

پہلے  اور دوسرے  مصرعہ میں  ایک ایک جگہ ’’کا‘‘ اور دوسرے  مصرعہ میں  ’’کاجل‘‘ میں ’’ج ل‘‘ دو حرف زیادہ ہونے  کی وجہ سے  تجنیس مذیّل پیدا ہوئی ہے۔

حالات اور وقت کے  ساتھ آدمی کار ہن سہن، طور طریقہ، کھانا پینا، چلنا پھرنا، رہائش و زیبائش سب کچھ بدل چکا ہے۔ بیل گاڑی کی جگہ موٹر کار نے ، چراغ و لالٹین کی جگہ بجلی کے  بلب نے  لے  لی ہے۔ ہزاروں  سال سے  جلنے  کی انتہا کر چکے  چراغوں  کو قمقموں  کے  دور میں  بھی جلتے  ہوئے  دیکھ کر راہیؔ متعجّب ہو کر پوچھتے  ہیں ؂

(۱۲)دَور میں  قمقموں  کے  اب کس لئے  جل رہے  ہیں  یہ

 جلنے کی  اپنے کر چکے پہلے ہی انتہا  چراغ (ص۱۲۸، ایضاً)

پہلے  مصرعہ میں ’’جَل‘‘ سے  دوسرے  مصرعہ میں  ’’جلنے ‘‘ میں  ’’ن ے ‘‘ زیادہ۔

محنت فرض شناسی کی عادت آدمی کو بامِ عروج پر پہنچا دیتی ہے۔ ایسا شخص ہر دل عزیز ہوتا ہے۔ کوتاہی، کاہلی عزّت کیا دے  گی۔ آدمی کو اس کے  منصب پر بھی نہیں  رہنے  دیتی ہے۔ ملازمت پیشہ لوگوں  کو راہیؔ صاحب کا یہ شعر ازبر کر لینا چاہیے ؂

(۱۳)میرا  افسر کبھی  ناراض  نہیں ہوتا ہے

شام سے  پہلے  کبھی سَر میں  اٹھاتا ہی نہیں (س۴۶حرف مکرّر)

دوسرے  مصرعہ میں ’’سر‘‘ اور پہلے  مصرعہ ’’افسر‘‘ ’’سر‘‘ سے ’’افسر‘‘ میں  دو حروف ’’ا ف‘‘ کے  اضافہ سے  تجنیس مُذَیَّل وجود میں  آئی ہے۔

ادب برائے  زندگی، ادب برائے  جذبہ، ادب برائے  شوق، ادب برائے  محبّت ادب برائے  عشق، ادب برائے  ضرورت، ادب برائے  اتّصال کو ادب برائے  ادب کے  توسط سے  ملاحظہ فرمائیں  ؂

(۱۴) اپنی  اپنی  حد  میں رہ  کر

مل جاتے  ہیں  دونوں  سرحد پر (ص۶۶ حرف مکرّر)

پہلے  مصرعہ میں  ’’حد‘‘ دوسرے  مصرعہ میں  ’’سرحد‘‘ میں  دو حروف ’’س ر‘‘ کے  ازدیاد سے  تجنیس مُذَیَّل نکلی ہے۔

تجنیس مذیّل کے  ساتھ ایک شعر کے  مطالعہ سے  ذہن اس واقعہ کی طرف مڑ جاتا ہے  کہ حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ میدانِ جنگ میں  مورچہ سنبھالے  ہوئے  یا آرام کر رہے  تھے ، تبھی دشمن کے  کچھ لوگ پہاڑ پر چڑھ کر پتھر کی چٹان سرکا کر ان لوگوں  کو زخمی یا ختم کرنا چاہتے  تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ منوّرہ میں  جمعہ کا خطبہ پڑھ رہے  تھے  آپ نے  خطبہ کے  دوران فرمایا ’’اے  ساریہ پہاڑ کے  اوپر دیکھو‘‘ حضرت ساریہ اور آپ کی فوج اس آواز سے  ہوشیار ہو گئے۔ یہ حضرت فاروق اعظم کی کرامت تھی، جناب  راہیؔ کہتے  ہیں ؂

(۱۵)دشمن  نہ  مرا  کوئی  بیٹھا  ہو  بلندی  پر

 سرکائے  ہی جاتا ہے  چٹانوں کو پربت سے (ص۷۶ حرف مکر ر)

پہلے  مصرعہ میں  ’’پر‘‘ دوسرے  میں  ’’پربت‘‘ سے  تجنیس مذیّل ہویدا ہوئی ہے۔

راہیؔ صاحب کے  کلام میں  تجنیس مُذَیَّلْ کے  اور بھی اشعار ہیں  لیکن میں  نے  صرف ۱۵۔ اشعار پر اکتفا کیا ہے۔  

٭٭٭٭٭

تجنیس مُضَارع

عربی ادب میں  ’’مُضارع‘‘ کی تعریف اس طرح سے  ہے۔ ’’وَمُضَارِع انِ خْتَلَفَا فِیْ حَرْ فَیْنِ غَیْرَ مُتَبَادِی الْمَخْرَجِ نَحْو یَنْھَوْنَ وَیَنْئَوْنَ۔‘‘ ’’دروس البلاغۃ‘‘

’’توضیح البلاغۃ‘‘ میں  اس کی تشریح اس طرح سے  ہے۔ ’’مضارع‘‘ وہ جناس غیر تام ہے ، جس میں  دونوں  الفاظ کے  حروف مختلف ہوں۔ لیکن وہ دونوں  مختلف لفظ قریب المخرج ہوں ، بعید المخرج نہ ہوں ، جیسے !ینھون وینؤن، اس میں  ’’ھا‘‘ اور ’’ہمزہ‘‘ دو مختلف جنس کے  حروف ہیں  اور قریب المخرج ہیں۔ چنانچہ دونوں  کا مخرج اقصی حلق یعنی حلق کا پچھلا حصہ ہے ، سینے  کی طر ف۔ ‘  اردو ادب میں  قریب المخرج کی قید سے  آزاد ہو کر اس کی تعریف اسطرح سے  کی گئی ہے۔ ’’تجنیس مضارع۔ دو لفظوں  میں  سے  کسی لفظ کا صرف ایک حرف مختلف ہو۔ جیسے !ہمزہ اور حمزہ، بتلا اور پتلا، پرسوں  اور برسوں ، صلاح اور سلاخ  وغیرہ  ؂

ہو گئی پرسوں  کی برسوں  اور نہ آئے  کیا سبب

 آپ  نے اچھّا کیا  وعدہ  وفا اچھے تو ہو

 (اردو گرامر اور کمپوزیشن۔ سبطِحسن)

اردو گرامر اینڈ کمپوزیشن، سیفی بُک ایجنسی، میں  بھی یہی تعریف ہے ، بلکہ مثال بھی حرف بہ حرف، لفظ بلفظ ہے ، بحر حال اردو ادب والوں  کی تقلید کرتے  ہوئے  ’’تجنیس مضارع‘‘ کے  تئیں ، غلام مرتضی راہیؔ کے  کلام کو دیکھتے  ہیں  کہ موصوف ’’مضارع‘‘ کے  تعلق سے  کتنے  کامیاب ہیں ؂

۱(آ)عمر سے  آگے  نکل آئے  ہیں

سا تھ بچّوں  کے  شرارت نہ رہی(ص۳۹لاکلام)

 آگے۔ آئے  

’’آگے ‘‘ اور ’’آئے ‘‘ کے  درمیانی حروف ’’گ‘‘ اور ’’ہمزہ‘‘ متضاد ہیں۔ اسی تضاد کی بنیاد پر ’’تجنیس مضارع‘‘ ہے

۲(اُ)غرقاب بستیوں  کو اُبھر جانا چاہئے

دریا کو بام و در سے  اُتر جانا چاہئے (ص۲۳لاکلام)

  اُبھر جانا۔ اُتر جانا

ابھر جانا اور اتر جانا۔ میں ’’بھ‘‘ اور ’’ت‘‘ کی تبدیلی سے  تجنیس پیدا ہوئی ہے۔

۳(ہ)کوئی اپنی ہستی کا دم بھر رہا

 (ب)کوئی ساری بستی پہ مرتا ہُوا(ص۷۹لاکلام)

بستی۔ ہستی

بستی اور ہستی۔ کے  درمیان ’’ب‘‘ اور ’’ہ‘‘ کے  فرق سے  شعر حَسین ہو گیا ہے ، اور اسی تفریقِ عمل سے  بہترین تجنیس عمل میں  آئی ہے۔

۴(بھَ)زندگی بھَر مَیں  سرابوں  مِیں  سفر کرتا رہا

(پ)ریت  پر  چلتے  ہوئے  ناؤ مری پار ہوئی(ص۹۲لاکلام)

 بھَر۔ پَر

بھر اور پر۔ کے  درمیان ’’بھ‘‘ ’’پ‘‘ کے  بدلنے  سے  تجنیس کا عمل ہوا ہے۔

۵(پ)اے  عمر دراز!اس میں  نہیں شک کہ ابھی تک

اِک پَل کا بھی تجھ پر میں  بھروسا نہیں  رکھتا(ص۱۳۴ لاشعور)

پَل۔ پر

’’ل‘‘ اور ’’ر‘‘ میں  تبدیلی سے

۶(پھَ)توڑتے بنتا  نہیں تھا  پھل کبھی

(ش)اس میں  ہو جاتے  تھے  بازو شَل کبھی(ص۱۳لاشعور)

پھَل۔ شَل

۷(ت)کوئی موسم ہو تری رہتی ہے

 (ہ)  شاخِ  امّید ہری  رہتی ہے  (ص۶۳ لاشعور)

تری۔ ہری

۸(ٹ)مجھے  ملے  گا وہ لیکن کہاں  بٹھاؤں  گا

(پھ)کہ ٹوٹ پھوٹ چکی ہو گی کائنات مری(ص۱۱۳حرف مکرّر)

 ٹوٹ۔ پھوٹ

 ۹(ج)اب  بھی  قا نون  وہی جنگل کا

(م)وہی جنگل میں  ہے  منگل اب تک(ص۱۳۹ لامکاں )

 جنگل۔ منگل

۱۰(ح)زہر کب ہوتا تھا اِس میں  حَل کبھی

(ج)پیاسے  کو امرت  تھا گنگا  جل کبھی  (ص۱۱۳ لاشعور)

حَل۔ جل

۱۱(ی)میدان سے  آ جائے  مری فتح کا مژدہ

(ب)لشکر  کی  مرے  خیر و خبر آئے  نہ آئے (ص۳۷لامکاں )

 خیر۔ خبر

۱۲(ر)اِدھر پڑی ہے  تاک میں  ساری رات الگ

(گھ) اُدھر لگائے  بیٹھا ہے  دن، گھات الگ

رات۔ گھات

۱۳(ز)تلوار  پر ججج  خطرہ  نظر آیا  زنگ کا

(ج)کوئی بہانہ ڈھونڈ لیا اُس نے  جنگ کا  (ص۷۷لاشعور)

 زنگ۔ جنگ

۱۴ (ش)کسی  شے سے  اِس کا تعلق نہیں

 (س)بسا ہے  مرے  دل میں  ڈر اور ہی (ص۵۱ لاشعور)

شے۔ سے

۱۵(ع)عَلَم کی طرح لیے  جا رہی تھی کوئی سپاہ

 (ق)قلم کیا ہوا دست ہنر اٹھائے  ہوئے (ص۸۴لامکاں )

 عَلَم۔ قلم

۱۶(ف)اُڑنے  کو کوئی فرش کوئی عرش نہ رہ جائے

(ع)انسان کے  پُتلے  میں  ابھی خاک بہت ہے (ص۱۶۷لامکاں )

 فرش۔ عرش

۱۷ (ک) گردش میں  چاکِ وقت کی بیشی کمی نہیں

 (ن)مٹّی میں ہی  ہماری  ضروری  نمی نہیں (ص۱۲۲لاشعور)

 کمی۔ نمی

۱۸(م)درد اک اور مجھ کو مِل جائے

(س)زخم کا چاک تاکہ سِل جائے  (ص۱۲۶لاشعور)

 مِل۔ سِل

۱۹(ن)دنیا نے  میری گریہ و زاری نہ کی قبول

(ی)یہ دیکھ کر، لباس مرا ماتمی نہیں (ص۱۲۲لاشعور)

نہ۔ یہ

 ۲۰(و)یہ غیب  سے مرے  دشمن پہ وار کیسے  ہُوا

(پ)میں  ایک جست میں  دریا کے  پار کیسے  ہُوا(ص۷۳لامکاں )

وار۔ پار

۲۱(و)وہ، وہاں  سے  بھی آ رہا تھا نظر

(ج)دیکھنے  ہم جہاں  سے  آئے  ہیں (ص۱۲۴لاشعور)

 وہاں۔ جہاں

۲۲(ن)رکھئے  راہیؔ کام اپنے  کام  سے

 (گ)نام ہونا ہو گا جب ہو جائے گا (ص۹۰لاشعور)

ہونا۔ ہو گا

۲۳(ہ)ملے  تلوؤں  کو ٹھنڈک جلن آنکھوں  کی جائے

(ن)چلیں  ہم پا برہنہ جہاں  تک گھاس نم  ہے (ص۵۶لاشعور)

ہم۔ نم

یہ ہیں  غلام مرتضی راہیؔ کے  غزل کے  باغ میں  کھِلے  کھلائے  تجنیس مضارع کے  پھولوں میں  سے  چند پھولوں  کے  نمونے ، بنے  بنائے  غزل کے  محل کی دیواروں  میں  چمکتے  دمکتے  آبگینے ، بنی بنائی، بسی بسائی، بستیاں  ویران وسنسان نہیں  بلکہ بھَری پُری ان بستیوں  میں  ہستیاں  رہتی ہیں۔ججج زندگی سے  جوجھتی، لڑتی، سرابوں  میں  سفر کرتی، ریت پر ناؤ چلاتی، جفا کشی کے  محور پر گھومتی رہتی ہیں۔ اعلی سوجھ بوجھ سے  لیس، اپنے  آپ سے  مخاطِب ہو کر کہتی ہیں  کہ اس زندگی پر ایک پَل کے  لئے  بھی بھروسہ نہیں  کیا جاسکتا کہ موت آنی اور جان فانی ہے۔ باغ کے  مالک نے  مالی کو باغ کی سیر کی اجازت کے  ساتھ زندگی فانی ہے  کی نصیحت سے  بھی نوازا ہے۔ آگے  مالی کی مرضی کہ نصیحت کو گرہ میں  باندھے  یا چھوڑے۔

باغ میں  پھل توڑنے  کے  لئے  اینٹ پتھر پھینکتے  پھینکتے  بازو شل ہو جانے  کی منظر کشی بھی ہے ، پھل توڑ لینے  کے  بعد جی جان ہری ہو جانے  کا اعلان بھی، نہیں  توڑ پانے  پر مایوسی کے  غار میں  بیٹھ نہیں  جاتے  بلکہ شاخِ امّید کو ہری رکھ کر کام میں  لگے  رہنے  کی منادی بھی، امّید ہی نہیں  یقین ہے  کہ محبوب ملے  گا، مطلوب کا دیدار ہو گا، مقصد رو برو ہو گا، مدّعا سامنے  آئے  گا، تعظیم کروں گا، ادب کروں  گا، خوشی سے  دل باغ باغ ہو گا، لیکن فکر بھی کھائے  جا رہی ہے  کہ اپنے  حاصل کو کہاں  کس جگہ بٹھاؤں  گا کہ اس دن تو  کائنات ٹوٹ پھوٹ چکی ہو گی، اسی کا نام ادب برائے  زندگی، ادب برائے  مقصد ہے ، اعلی ادب میں  اعلی بات ہے۔ ادب مقصد سے  مقصد ادب سے  ہم کنار ہو گیا ہے ، ایسے  ادب کو دوا م حاصل ہوتا ہے۔

حَجّاج بن یوسف نے  اپنے  دورِ حکومت میں  ایک دفعہ، ایک قانون کا نفاذ کرتے  ہوئے  اعلان کروایا کہ رات میں  لوگ اپنے  گھروں  سے  نہ نکلیں۔ گھروں  سے  باہر نکل کر باتیں  نہ کریں ، اکٹھّا ہو کر کسی جگہ پر باتیں  نہ کریں ، قانون شکنی کرنے  والوں  کو سخت  سزائیں  دی جائیں  گی۔ ایک شب تین نوجوانججج آپس میں  ایک دوسرے  کے  دوست تھے ، ایک جگہ بیٹھ کر گفتگو کر رہے  تھے۔ پہرے  دار نے  تینوں  کو پکڑ کر کے  حَجّاج کے  سامنے  پیش کر دیا۔ حَجّاج نے  ایک نوجوان سے  مخاطِب ہو کر کے  پوچھا تم کون ہو تمہارا باپ کون ہے ؟نوجوان نے  ادب سے  سر جھکا کر کہا میرا باپ وہ ہے ججج روزانہ سیکڑوں  آدمی کو کھانا کھِلاتا ہے۔ حَجّاج سن کر مرعوب ہوا اورسمجھا کہ یہ کسی سخی باپ کا بیٹا ہے۔ دوسرے  نوجوان سے  وہی سوال کیا۔ دوسرے  نے  کہا کہ میں  اس باپ کا بیٹا ہوں  کہ میرے  باپ کے  سامنے  بڑے  بڑے  لوگ سر جھکاتے  ہیں ، حَجّاج نے  خیال کیا کہ یہ کوئی با وقار امیر کا بیٹا ہے۔ تیسرے  نوجوان نے  کہا میں اس باپ کا بیٹا ہوںججج ہر دن پچاسوں  آدمیوں  کو کپڑے  پہناتا ہے۔ حَجّاج نے  گمان کیا کہ یہ کوئی دولت مند کا فرزند ہے۔ حَجّاج نے  تینوں  کے  ناموں و پتے  درج کر کے  ہدایتیں  کی اور چھوڑ دیا، بعد میں  مخبر بھیج کر تینوں کے  حالات و کوائف معلوم کروایا تو معلوم ہوا کہ پہلا نوجوان ایک باورچی کا، دوسرا نائی کا اورتیسرادرزی کا بیٹا ہے۔ حَجّاج نے  یہ سن کر دربار میں لوگوں  کو اکٹھا کر کے  کہا کہ لوگو تم اپنے  بچّے  کو ادب سکھاؤ، ادب بتاؤ، ادب پڑھاؤ کہ ان تینوں  کی ادبی زبان نے  ان کی جان بچا دی۔

 انہیں  ادبیات کے  پیرائے  میں ادب پروان چڑھتا رہا، معاشرے  کو وقار، تہذیب و تمدن کو اقدار، علما کو اقتدار تمکنت بخشتا رہا۔ جب یہ شجرِ بسیط بن گیا تو اسکو بے  ادبوں  کی نظر لگ گئی۔ اس کو عریاں  کر دیا گیا، اس کی ادبیت کا لباس اس سے  چھین کر اس کو شہوات و تلذّذ کی دہلیز پر بیٹھا دیا گیا تو پھر ادب نوازوں  کو کہنا پڑا  ؂

نئی غزل میں  شاید کچھ  ہو راہیؔ

کون مگر جائے  کوڑے  کرکٹ پر

سفر پر جانے  والے  مسافر کا اصل مقصد اس کی منزل ہوتی ہے۔ لیکن راستے  میں  وہ مختلف چیزوں  سے  مستفید ہوتا اور عجیب و غریب چیزوں  کو دیکھتا ان سے  محظوظ ہوتا ہوا آگے  بڑھتا چلا جاتا ہے ، کچھ ایسا ہی حال شاعروں  کا ہے  کہ وہ حالات و واقعات کو شعر کے  قالب میں  ڈھالتے  ہیں  تو اس میں  صنعت وتجانیس کی عجیب و غریب کونپلیں  نکلتی جاتی ہیں۔ راہی صاحب تجنیس مضارع کے  تئیں  بھی کامیاب ہیں ، مضارع کے  تحت ان کے  یہاں  اچھی مثال قائم ہوئی ہے۔

 

 ٭٭٭

تَصْدِیْر

تصدیر کو ’’رَدَّالْعَجْز علَی الصَّدْر‘‘ بھی کہتے  ہیں۔ عربی اور اردو دونوں  زبانوں  میں  اس کی تعریف ایک ہی ہے۔ رَدَّالْعَجْز کی حسب ذیل قِسمیں  ہیں۔  

( ۱)رَدَّالْعَجْز علی الصّدر(۲)رَدَّالْعَجْزعلَی العروض(۳)رَدَّالْعَجْزعلی الابتدا (۴)رَدَّالعجز علی الحشو۔

مثمن۔ آٹھ رکنی شعر کو مثمن کہتے  ہیں۔ مصرع اولی کے  پہلے  رکن کو ’’صدر‘‘ درمیان کے  دو رکن کو ’’حشو‘‘ اور آخری ر کن کو ’’عروض‘‘ کہتے  ہیں۔

مصرعہ ثانی کے  پہلے  رکن کو ’’ابتدا‘‘ درمیانی دو رکن کو ’’حشو‘‘ آخری رکن کو ’’عجز یا ضرب  کہتے  ہیں۔

مسدّس۔ چھ رکنی شعر کو مسدّس کہتے  ہیں۔ پہلے  مصرعہ کے ر کن کو ’’صدر‘‘ دوسر ے  رکن کو ’’حشو‘‘ تیسرے  رکن کو ’’عروض‘‘ کہتے  ہیں۔

دوسرے  مصرعہ کے  پہلے  رکن کو ’’ابتدا‘‘ دوسرے  رکن کو ’’حشو‘‘ تیسرے  رکن کو ’’عجز یا ضرب‘‘ کہتے  ہیں۔

مربع۔ چار رکنی شعر کو مربع کہتے  ہیں۔ پہلے  مصرعہ کے  پہلے  رکن کو ’’صدر‘‘ آخری مصرعہ  کو ’’عروض‘‘ کہتے  ہیں۔ دوسرے  مصرعہ کے  پہلے  رکن کو ’’ابتدا‘‘ دوسرے  اور آخری رکن کو ’’عجز یا ضرب‘‘ کہتے  ہیں۔ مثمن کی مثال رَدَّالْعَجْز علی الصدر کے  ساتھ  ؂

 

(۱)مثالِ  سنگِ ملامت  پڑا  ہوں  رستے  میں  

تو اپنے  ذہن میں  رکھ لے  مجھے  برائے  مثال۔ ص۲۲حرف مکرر

 مفا علن  ف عل اتن  مفا علن  ف علن !ف عل ان

 صدر حشو حشو عروض

تقطیع۔ م ث ال سن  گِ ملا متپ ڑا  ہر ست ے  مِ ے  

 مفا علنف عل اتنمفا علنف عل ان

ابتدا حشو حشو عجز یا ضرب

تٗ اَپْن ذہ ن مِ رَکھل ے م ج ے بر اے  م ث ال

اس شعر کے  پہلے  مصرعہ کے  پہلے  رکن ’’صدر‘‘ پرججج لفظ ہے  وہی لفظ دوسرے  مصرعہ کے  آخری رکن عَجز پر ہے۔ اس کو ’’ردَّالعجز علی الصدر‘‘ کہتے  ہیں۔ اسی طریقے  پر مسدَّس اور مربع کو بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ دروس البلاغہ میں  رَدَّ العجز کی مثال ذیل کے  شعر سے  دی گئی ہے۔

سَرِیْعُٗ اِلٰی ابْنِ العَمَّ یَلْطِم وَجْھَہٗ

وَلَیْسَاِلٰی داعِیِ النَّدٰی بِسَرِیْعٖ

ردَّالعجز علی الصدر تجنیس زائد کے  ساتھ ؂

 (۲) پڑا ہے  مجھ پر تنہائی کا وہ رن

 دم نکلا جاتا ہے  ہر آہٹ پر۔ ص۳۷ حرف مکر ر

صدر پر ’’پڑا‘‘ عجز پر ’’پر‘‘ سے  پڑا میں  ایک حرف ’’الف‘‘ زائد ہے۔

ردَّالعجز علی الصدر تجنیس مضارع کے  ہمراہ  ؂

تھے  کئی  ہاتھ قتل کے  پیچھے

میرا دامن بھی خون میں  تر تھا۔ ص۶۱حرف مکرّر

صدر پر ’’تھے ‘‘ عجز پر ’’تھا‘‘ تھے  اور تھا میں  حرف ’’ی اور الف‘‘ دو مختلف قسم کے  حروف کی وجہ سے  تجنیس مضارع کا عمل ہوا ہے

 ردَّالعجز علی الصدر تجنیس مذیّل کے  ساتھ  ؂

(۴)آخر کو شگاف آنا ہی تھا وقت کاا س میں  

 اے  میری صدا، گنبدِ بے  در  سے  نکل آ۔ ۱۳۷لاکلام

عجز یا ضرب پر ’’آ‘‘ اور صدر پر ’’آخر‘‘ میں  دو حرف ’’خ ر‘‘ زیادہ ہونے  سے  تجنیس مذیّل ردَّالعجز علی الصدر ہے ، اور پہلے  مصرعہ کے  دوسرے  رکن ’’حشو‘‘ میں ’’آنا‘‘ کی وجہ سے  ’’ ردّا لعجز علی الحشو‘‘ تجنیس مذیّل ہے  کہ رکن عجز پر ’’آ‘‘ اور حشو پر ’’آنا‘‘ میں  حرف ’’ن ا‘‘ زیادہ ہے۔

 میں  خیر مناتا ہوں  تری شر سے  نکل آ

آزر کا بھرم توڑ کے  پتھر سے  نکل آ

(۵) دستک پہ نہ دے  زور کہ نازک ہے  زمانہ

 آتی ہوئی آہٹ پہ مری گھر سے  نکل آ۔ ص۱۳۷لامکاں

 بحر ہزج مثمن اخرب محذوف 

 

تقطیع۔ مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن 

م ے  خیرمن اتا ہت ری شر سِ ن کل اَاْ

اَ  اْ ز ر کَبھر متو ڑ کِ پت تھر سِن کل اَاْ 

د ستک پَ ن د ے ز ور کِنا زک  ہَز  م ان ا

 اَ اْ ت ی  ہٗیِ اَاْ ہ ٹ پَ م ری گھ ر  سِ ن کل اَاْ 

 

پہلے  شعر کے  دوسرے  مصرعہ کے ر کن ’’عجز‘‘ پر ’’آ‘‘ اور رکن ’’ابتدا‘‘ پر ’’آزر‘‘ میں دو حرف ’’ز ر‘‘ کی ازدیاد کی بنا پر تجنیس مذیّل رَدَّ العجز علی الابتدا ہے  تو دوسرے  شعر کے  دوسرے  مصرعہ میں  عجز پر ’’آ‘‘ اور ’’ابتدا‘‘ پر ’’آتی‘‘ کی وجہ تجنیس مذیّل ردَّالعجز علی الابتدا ہے  اور دوسرے  رکن حشو میں  ’’آہٹ‘‘ میں  دو حرف ’’ہ ٹ‘‘ کی بنا پر تجنیس مذیّل ردّالعجز علی الحشو ہے۔ اور پہلے  شعر میں  ردّالعجز علی العروض بھی ہے  کہ دونوں  مصرعوں  کے  آخر میں ’’آ‘‘ ہے۔

 (۷)جب صاف گزر آیا مَیں  ہر موڑسے  ہو کر

آ تو، بھی  کسی  دشت کسی در سے  نکل آ۔ ص۱۳۸لاکلام

دوسرے  مصرعہ کے  آخری رکن عجز میں  ’’آ‘‘ اور پہلے  مصرعہ کے  دوسرے  رکن حشو میں  ’’آیا‘‘ کی بنا پر ردَّالعجز علی الحشو ہے  اور ساتھ ہی تجنیس مذیّل بھی اور عجز کے  ساتھ دوسرے  مصرع کے  پہلے  رکن ’’ابتدا‘‘ میں  بھی ’’آ‘‘ کی وجہ سے  رَدّالعجز علی الابتدا ہے

ایک ہی غزل کے  گملا میں  تصدیر کی شاخوں  میں  مختلف قسم کے  پھول کھِلنے  سے  اشعار کا حُسن بڑھ گیا ہے  اور تجانیس کی وجہ سے  سونے  پر سہاگہ کا مزہ مل رہا ہے۔ اسی قسم کا ایک نمونہ اور دیکھئے  کہ ایک غزل کے  تین اشعار میں  اسی طرح کی کونپلیں  پھوٹتی ہیں۔

(۸) رہا اس کا عالم وہی کا وہی

 سِوا اِس کے  سب کچھ بدلتا رہا

(۹)وہ لاوا رہا ہو کہ چشمہ کوئی

 اُبلنے لگا  تو اُبلتا رہا

 (۱۰)رہا  سکّہ  رائج الوقت  وہ 

 وجود اُس کا سانچوں  میں  ڈھلتا رہا(ص۱۵۲ لامکاں )

پہلے  شعر کے  پہلے  مصرعہ کے  پہلے  رکن صدر پر ’’رہا‘‘ دوسرے  مصرعہ کے  آخری رکن عَجز پر بھی ’’رہا‘‘ سے  رَدَّالعجز علی الصدر ہے۔ دوسرے  شعر میں  رکن حشو پر ’’رہا‘‘ اور دوسرے  مصرعہ میں  عَجز پر ’’رہا‘‘ کی وجہ سے  رَدَّالعجز علی الحشو ہے۔ تیسرے  شعر میں  ردّالعجز علی الصدر ہے۔

(۱۱)ہمارا  دن  ڈھلنے  کو ججج  آیا

جَلانے  ہم چراغِ شام آیے۔ ص۱۲۸لاکلام

پہلے  مصرعہ کے  رکن عروض پر ’’آیا‘‘ دوسرے  مصرعہ کے  رکن عجز یا ضرب پر ’’آیے ‘‘

تجنیس مضارع ردّالعجز علی العروض ہے

(۱۲)اُڑ رہی ہے  روشنائی پھڑپھڑاتا ہے  وَرق

 کوئی  حرفِ معتبر، نا معتبر  ہونے  کو ہے۔ ص۹۴ لاکلام

بحر رمل مثمن محذوف

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن  فاعلن

تقطیع۔ اُڑ رہیہ ے رو شنا ای  پھ ڑپھ ڑات اہ ے  ور ق

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن  فاعلن

کو ایح رف ے  مع تب رن امع تبر ہون ے  کہ ے

پہلا مصرع۔ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

صدر حشو  حشو  عروض

دوسرا مصرع۔ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن

 ابتدا حشو حشو عجز یا ضرب

رکن عروض میں  ’’ہے ‘‘ اور رکن عجز میں  بھی ’’ہے ‘‘ کی نسبت سے  ردَّ العجز علی العروض ہے  اور ردَّ العروض علی الصدر کے  ساتھ ردَّالعجز علی الصدر بھی ہے۔

(۱۳)کیوں  جاں  کا مری بنا ہے  دشمن

تھوڑا سا ترا  لہو بہت ہے

(۱۴)دابے  سے  کہیں  دبا ہے  سبزہ

اِس میں  زورِ نمو بہت ہے۔ ص۱۰۰لاشعور

بحر ہزج مسدّس اخرب مقبوض محذوب

 صدر  حشو عروض

 مفعول مفاعلن  فعولن

کِ و جا کَمر یبن اہَ د ش من

ابتدا  حشو  عجز یا ضرب

 مفعول  مفاعلن فعولن 

تھو ڑا سَتر ال ہوب ہتہ ے

 

مذکورہ دونوں  شعر کے  رکن عروض میں ’’ہے ‘‘ اور عجز میں ’’ہے ‘‘ کی بنا پر دونوں  شعر میں  ردَّالعجز علی العروض ہے۔

(۱۵)جانے  کا ہے  احتمال ہر دم

 رہ جائے ججج آبرو بہت ہے۔ ص۱۰۰لاشعور

 اس شعر میں  ردالعجز علی الحشو ہے

 (۱۶)ہم فراری نہیں  قیدی ہیں

پوچھ کر پاسباں  سے  آئے  ہیں۔ ص۱۲۴لاشعور

رکن عجز پر ’’ہیں ‘‘ کی مناسبت سے  رکن عروض پر بھی ’’ہیں ‘‘ ہے  اور رکن حشو پر بھی ’’ہیں ‘‘ ہے  تو رَ دَّالعجز علی العروض کے  ساتھ ردّالعجز علی الحشو بھی ہے

(۱۷) میرے  ہر باب میں  نکلتا ہے

 اک نہ اک حرف معتبرسب کا۔ ص۶۰ لاکلام

فاعلاتن مفاعلن فعلن

 صدر حشو عروض

 می رِہ رب اب م ےن کل ت اہ ے

 فاعلاتن مفا علن فعلن

 ابتدا  حشو عجز

 اکنہ اک حر  ف مع تبرسبک ا

رکن عجز میں  ’’ کا‘‘ اور رکن ابتدا میں  دو ’’اک‘‘ ہے ’’کا‘‘ ’’اک‘‘ کا قلب ہے  اس مناسبت سے  یہاں  ردّالعجز علی الابتدا تجنیس قلب ہے۔

(۱۸)تھا خطرۂ جاں  میرے  کمالات میں  شامل

دیکھا ہے ججج تم نے  وہ تماشا بھی نہیں  تھا۔ ص ۵۷ لاشعور

ردَّالعجز علی الصدر ہے  کہ عجز پر بھی اور صدر پر بھی ’’تھا‘‘ ہے

 (۱۹) ذرا بھی اس کی حقیقت کا ہم کو علم نہیں  

مگر اسی کے  خیالوں  میں  کھوئے  بیٹھے  ہیں۔ ص۴۶لاشعور 

’’نہیں ‘‘ اور ’’ہیں ‘‘ تجنیس زائد کے  ساتھ ردالعجز علی العروض ہے  کہ عجز پر ’’ہیں ‘‘ اور عروض پر ’’نہیں ‘‘ ہے۔

 (۲۰)سمیٹا ہاتھججج میں  نے  تو آئینہ کیا تھا

 دیا تو سنگ کو بھی حُسن بے  مثال دیا۔ ص۷۳ حرف مکرّر

ردالعجز علی الابتدا ہے  کہ عجز پر ’’دیا‘‘ ہے  تو ابتدا پر بھی ’’دیا‘‘ ہے۔

 (۲۱)کچھ دُور میرے  ساتھ چلو تو پتہ لگے

گرتا نہیں  ہوں میں  کہ سنبھلتا نہیں  ہوں  میں۔ ص ۱۱۸ حرف مکر ر

دو لفظوں  ’’میں ‘‘ اور ’’ہوں ‘‘ کے  ساتھ ردالعجز علی الحشو ہے۔

مذکورہ شعر۔  بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف، میں  ہے۔

وزن۔ مفعول۔ فاعلات۔ مفاعیل۔ فاعلن۔ ہے

غلام مرتضی راہیؔ کے  اشعار میں  تصدیر کی شاخوں  میں  چاروں  قِسموں  کے  پھولوں  کی یہ چند مثالیں  ہیں۔ ورنہ ان کے  کلام میں اس صنعت کے  پھول جگہ جگہ مسکرا رہے  ہیں ، کلام میں  ایسی خوبیاں  اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ جس طرح تناور، ہرے  بھرے ، سایہ دار درختوں  میں  پھل پھول سے  اُن کی قدر بڑھ جاتی ہے  اسی طرح صنائع لفظی و معنوی کے  استعمال سے  کلام کاحُسن بڑھ جاتا ہے ججج پڑھنے  والوں  کو لطف اندوز کرتا اور ادب کی معنویت کو بڑھاتا، کلام کو حسین کرتا، ادب اور ادیب کو با وقار بنا کر صفِ اوّل میں لا کھڑا کرتا ہے۔

 

 ٭٭٭٭

صنعتِ قلب

دو لفظ ایسے  ہوں  کہ ایک کو اَوندھا کر دیں  یا اُلٹ دیں  تو الگ معنی دینے  والا لفظ بن جائیگا۔ جیسے  ’’خاک‘‘ بمعنی  مٹّی اسے  پلٹ دیں  تو لفظ ’’کاخ‘‘ ہو گا، کاخ کے  معنی ’’محل‘‘ محل کو پلٹنے  سے ’’لحم‘‘ محل بمعنی موقع یا خاص عمارت ’’لحم‘‘ بمعنی  گوشت جیسے  تار سے  رات وغیرہ۔

 دنیا میں  ہے  خزانہ لڑائی کا گھر سدا

 ازروئے  غور نج کو اُلٹو تو جنگ ہے

اردو گرامر اینڈ کمپوزیشن، سیفی بک ایجنسی ممبئی ۳

مذکورہ بالا مثال میں  ’’خاک‘‘ کا قلب ’’کاخ‘‘ ہے ، محل کا قلب لحم ہے ، شعر میں گنج کا قلب جنگ ہے ، شعر میں لفظ گنج اور جنگ کی مثال سے  یہ بھی واضح ہوا کہ لفظ اور قلب کا عمل ایک شعر یا ایک مصرعہ میں  ہونا چاہیئے ، یہاں  اُلٹ، پھیر کا عمل مصرعہ میں  ہوا ہے۔ شعر کے  ذریعہ بھی ملاحظہ کیجئے۔

قلب۔ لغوی معنی اُلٹنا۔ اس صنعت سے  یہ مطلب ہے  کہ حروفِ الفاظ کی تقدیم و تاخیر میں  فرق کر دیا جائے۔ انشا کی ایک غزل کے  دو اشعار مثالاً درج ذیل ہیں۔

مجھے  مار کیوں  نہ ڈالے  تری زلف اُلٹ کے  کافر

کہ سکھا دیا ہے تو نے  اسے  لفظ رام اُلٹا

 فقط اک لفافہ پر ہے  کہ خط آشنا کو پہنچے  

تو لکھا ہے  اس نے  انشا یہ ترا ہی نام اُلٹا

اسباق نمبر ۲۸ شامل درس میسور یونیورسٹی میسور۔ مرتب ڈاکٹر محمد ہاشم علی پروفیسر شعبۂ

اردو یونیورسٹی میسور۔ بحوالہ۔ بحر الفصاحت(۲)آئینۂ بلاغت(۳)لمعات  و ظلمات

پہلے  شعر کے  پہلے  مصرعہ میں  لفظ ’’مار‘‘ کا قلب دوسرے  مصرعہ میں  ’’رام‘‘ ہے ، دوسرے  شعر میں  لفظ ’’آشنا‘‘ کا قلب دوسرے  مصرعہ میں ’’انشا‘‘ ہے۔ قلب کی دو قِسموں  میں  سے  ایک قِسم ’’ مقلوب کل‘‘ ہے  اسی صنعت کے  تحت اُوپر کی مثالیں  ہیں۔ انہیں  مثالوں  کی روشنی میں  غلام مرتضی راہیؔ کے  اشعار کو دیکھتے  ہیں  کہ قلب کے  عمل نے  آپ کے  کلام میں  کس طرح ورود کیا ہے۔

 (۱)اب کے  اک ایسی ہی ٹھوکر سے  مرا سامنا ہے  

ججج سنبھالے گا مجھے  وہ بھی سنبھلنے  کا نہیں (ص۲۶لاشعور)

(۲)یہ وقت کا التفات کتنا

مِلتا ہے  یہ تا حیات کتنا۔ ص ۲۹لاشعور

(۳)نہ ہو تو بھاؤ ہی بازار کا لیتا چلوں  میں

کہ جس کی جیب خالی ہے  وہ سودا کیا کرے  گا(ص۳۴لاشعور)

(۴)نقد و نظر کے  نام پہ کیا کچھ نہیں  روا

 عالم میں  ایک روز مجھے  انتخاب لکھ  (ص۳۶لاشعور)

پہلے  شعر کے  پہلے  مصرعہ میں  لفظ ’’اک‘‘ ہے ، دوسرے  مصرعہ میں  لفظ ’’کا‘‘ دونوں  کے  درمیان مقلوبی عمل ہونے  سے ’’اک‘‘ ’’کا‘‘ بنا ہے۔

دوسرے  شعر کے  پہلے  مصرعہ میں  لفظ ’’یہ‘‘ ہے ، اوردوسرے  مصرعہ میں  لفظ ’’ہے ‘‘ اوراس کے  بعد پھر ’’یہ‘‘ ہے ، پہلے ’’یہ‘‘ کو مقلوب کرنے  سے ’’ہے ‘‘ بنا ہے  اور ’’ہے ‘‘ کو مقلوب کرنے  سے ’’یہ‘‘

تیسرے  شعر کے  پہلے  مصرعہ میں  لفظ ’’ہو‘‘ ہے ، ہو کو مقلوب کرنے  سے  دوسرے  مصرعہ میں  لفظ ’’وہ‘‘ ہوا ہے۔ .

چوتھے  شعر کے  پہلے  مصرعہ میں  لفظ ’’کیا‘‘ ہے ، کیا کو مقلوب کرنے  سے  ’’ایک‘‘ بنتا ہے ، دوسرے  مصرع میں  لفظ ’’ایک‘‘ موجود ہے۔

(۱) بچھڑ گئی  تھی یہ ملنے  کے  بعد ہی ہم سے

 ہم اپنی زندگی کو روئے دھوئے  بیٹھے  ہیں (ص۴۶لاشعور)

(۲) جانے  کا ہے  احتمال ہر دم

 رہ جائے ججج آبرو بہت ہے  (ص۱۰۰لاشعور)

(۳)تکمیل کی نہ صورت نکلی مری کہیں  بھی

ہر آئینے  میں رہ کر میں ناتمام آیا(ص۱۲۰لاشعور)

پہلے  شعر کے  پہلے  مصرعہ میں  لفظ ’’یہ‘‘ پلٹ کر ’’ہی‘‘ بنا ہے۔ دوسرے  اور تیسرے  شعر میں  ایک ہی لفظ ’’ہر‘‘ سے ’’رہ‘‘ اور ’’رہ‘‘ سے  ’’ہر‘‘ بنا ہے۔

(۱) کھوٹ کچھ لگا مجھے  اس کے  التفات میں  

آڑ میں  وہ پھول کی خارساچبھو گیا (ص۱۳۷لاشعور)

پہلے  مصرعہ کا لفظ ’’اس‘‘ پلٹ کر دوسرے  مصرعہ میں ’’سا‘‘ بنا ہے۔

 (۱)مرے  سالہا سال ناکام ٹھہرے

 کیا ایک پَل نے  مرا نام روشن۔ ص۵۳لاکلام

(۲)کیوں  نہ رکھنے  دیا قدم اُس نے

کون سا  آسماں ہِل  جاتا۔ ص۵۴لاکلام

پہلے  شعر کے  دوسرے  مصرعہ میں  لفظ ’’کیا‘‘ کو مقلوب کرنے  سے  لفظ ’’ایک‘‘ بنا ہے۔

دوسرے  شعر کے  پہلے  مصرعہ میں  لفظ ’’اُس‘‘ کو پلٹنے  سے  لفظ ’’سا‘‘ بنا ہے۔

راہیؔ کے  کلام میں ، وہ، ہو، اور، ہو، وہ، کی تکرار کئی جگہوں  پر ہے  ایسی تکرار کو چھوڑ رہا ہوں  کہ سمجھنے  کے  لئے  نقل کئے  گئے  چند اشعار کافی ہیں۔

موصوف کی کتاب ’’حرف مکرّر‘‘ میں  بھی کہیں  کہیں  پر اسی قسم کے  الفاظ اتر کر قلب کی صنعت میں  تبدیل ہو گئے  ہیں ، صرف چار شعر پیش نظر کر رہا ہوں۔

(۱)سو گنا ہوں  سے  مری جان بچی

ایک  نیکی کا صلہ کم ہے  کیا۔ ص۵۲ حرف مکرّر

(۲)کھُلا نہیں  ہے  ابھی میری تیغ کا جوہر

 گُلو خلاصی کا اک اور اہتمام سہی۔ ۵۶  !!

(۳)اک خواب وہی تو تھاججج ٹوٹ گیا آخر

پَل بھر میں  گنوا بیٹھا اک عمر کا حاصل تھا۔ ص۱۷۱  !

(۴)اس خطۂ احساس کے  بارے  میں  نہ پوچھو

 شعلہ سا لپک جائے ججج ہم روشنی ڈالیں۔ ص۱۱۶  !!

پہلے  شعر کے  دوسرے  مصرعہ میں  لفظ ’’ایک‘‘ اور لفظ ’’کیا‘‘ ہے ، ایک کو پلٹ دینے  سے  ’’کیا‘‘ بنا ہے۔

دوسرے  شعر کے  پہلے  اور دوسرے  مصرعوں  میں  دو جگہ پر ’’کا‘‘ ہے۔ اور ایک جگہ پر ’’اک‘‘ ہے ، ’’کا‘‘ کو پلٹنے  سے ’’اک‘‘ بنا ہے۔

تیسرے  شعر کے  دونوں  مصرعوں  میں  لفظ ’’اک‘‘ ہے۔ اک کو پلٹنے  سے ’’کا‘‘ بنا ہے ججج دوسرے  مصرعہ میں  موجود ہے۔

چوتھے  مصرعہ میں  لفظ ’’اُس‘‘ ہے ،ججج پلٹ کر ’’سا‘‘ بن کر دوسرے  مصرعہ میں  ظاہر ہوا ہے۔

 قلب کی دوسری قِسم

قلب کی دوسری قسم ’’مقلوب مستوی‘‘ ہے  یہ صنعت غلام مرتضی راہیؔ صاحب کے  کلام میں  مجھے  نظر نہیں  آئی، بلکہ اردو کے  قدماء کے  کلام میں  بھی شاذ ہی ملتی ہے۔ یہ ایسی صنعت ہے  کہ اس سے  کھیلنا، دل بہلانا، اس کو اپنی گرفت میں  لینا، اس سے  کلام کو مزیّن کرنا، سب کے  بس کی بات نہیں  ہے۔ یہ قدماء کے  یہاں  کمیاب رہی ہے  تو اب نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ اس صنعت میں  لفظ کو نہیں  بلکہ جملوں  اور مصرعوں  کو پلٹنا پڑتا ہے۔ مصرعہ کو ابتدا سے  انتہا تک پڑھ کر انتہا سے  ابتدا کو پلٹئے  تو مصرعہ اپنی جگہ پر قائم رہے  گا، کبھی مصرعہ دو حصّوں  میں  تقسیم ہو کر اپنی جگہ سلامت رہتا ہے۔ چنانچہ مولانا شرر مصباحی صاحب لکھتے  ہیں  کہ۔ ’’کسی نے  ایک عالم سے  کہا۔ ’’مرادے  دارم۔‘‘ عالم نے  جواب دیا۔ ’’برآید یا رب۔‘‘ دونوں  جملوں  کو اوّل سے  آخر تک یا آخر سے  اوّل تک پڑھئے  جملہ وہی رہے  گا، حضرت امیر خسرو کا یہ شعر مقلوب مستوی کی صنعت میں  ہے۔

 شکر بترازوے  وزارت بر کش

شوہمرہِ بلبل  بلبِ ہر مہوش

دونوں  مصرعوں  کو الگ الگ شروع سے  آخر تک یا آخر سے  شروع تک پڑھئے  مصرعہ جوں  کا توں  رہے  گا۔ درج ذیل عربی شعر پورا کا پورا مقلوب مستوی کی صنعت پر مشتمل ہے۔

 مودتہ تدوم لکل ھول

 وھل کل مودتہ تدوم

’’ نعت رنگ‘‘ کراچی۔ شمارہ۱۸۔ دسمبر ۲۰۰۵ء

مقلوب مستوی کے  یہ گلدستے  حَسین ہیں ، خوبصورت ہیں ، ادب کے  کشت زار میں  کم یاب پھولوں  میں  اپنا قد بلند کئے  ہوئے  ہیں ، ان پھولوں  کے  اُگانے  والے  بھی لائق داد ہیں ، منظوم ادب کے  ان پھولوں  میں  مقلوب مستوی کی خوشبو بھرنے  کے  لئے  تخیّل نے  پرواز کیا ہے ، ذہن نے  اپنی طاقت صرف کی ہے ، فکر نے  خون پسینہ ایک کیا ہے  جب جا کر کے  یہ پھول معطر ہوئے  ہیں ، منفرد مقام پر ٹھہرنے  کے  لائق بنے  ہیں ، آسمانِ ادب پر پہنچے  ہیں  تو چاند کی طرح چمک رہے  ہیں ، ستاروں  کی طرح جگمگا رہے  ہیں ، ادب کے  گلستاں  کی آبیاری و باغبانی کرنے  والے  اب ان کو تک رہے  ہیں ، مسکرا  رہے  ہیں ، داد دے  رہے  ہیں ، دعائیں  دے  رہے  ہیں  ؂

تم سلامت رہو ہزار برس 

 ہر بر س کے  ہوں  دن پچاس ہزار

اردو زبان میں  بے  شمار الفاظ ایسے  ہیں  کہ ان کو مقلوب کر کے  قلب بنایا جاسکتا ہے۔ مقلوبی عمل کی کچھ مثالیں  پیش کر رہا ہوں۔

مقلوب کل قلب مقلوب کل قلب مقلوب کل قلب 

اوسسوا  تال لاتشاللاش

ابر  ربا  تام مات شورروش

اور  رَوا جاتتاج طرففرط

اکبررب کاجار راج طوللوط

آلام مالا حورروح  طِببط

آہ آہ ہاہا حرججرح  عرششرع

بات تابخلا الخعقرب  برقع

باد  دابراز زارغالببلاغ

بار  رابروگگورغادداغ

بان ناب رم  مرفرصت تصرف

بہارراہبسر رسفرششرف

تار رات سننسقاششاق

تیر ریت شیرریش  قد دق

مقلوب کل قلبمقلوب کل قلبمقلوب کلقلب 

کوننوک کان ناکلوگگول

لاممال  ملاالم  مچ مچ  چم چم

ماماامامنم  من  نہررہن 

نسسنوہ  ہوہارراہ

ہوا  اوہ ہممہیاررایے  

یہہے

 

شعرا اپنے  اشعار کو صنف قلب سے  مزیّن کرنے  کے  لئے ’’مقلوب کل‘‘ کی طرح ’’مقلوب مستوی‘‘ میں  محنت کریں  تو اردو زبان میں  مقلوب مستوی کا دور دورہ ہو سکتا  ہے۔

 مقلوب بعض

قلب کی تیسری قِسم ’’مقلوب بعض‘‘ ہے ، مقلوب بعض، وہ صنعت ہے  جس میں  کہیں  کے  حروف کہیں  ملا کر عبارت موزوں  کر لیں۔ یعنی درمیان کے  حروف کو پہلے  یا آ خر کے  حروف سے  یا آخر کے  حروف پہلے  حروف سے  یا پہلے  حروف کو آخر کے  حروف سے  ملا کر لفظ بنانے  کا نام ’’مقلوب بعض‘‘ ہے۔ اس کی کچھ مثالیں۔ جیسے !

آنچ سے  ناچ۔ ابن سے  بنا۔ بحر سے  حرب۔ برابرسے  باربر۔ پورا سے  روپا۔ تارا سے  اترا۔ ٹال سے  اٹل۔ جنم سے  نجم۔ محل سے  حمل۔ خست سے  سخت۔ شرب سے  بشر۔ صابر سے  ابرص۔ دُور سے  وِرد۔ رہا سے  ہرا۔ ستارہ سے  راستہ۔ جمع سے  عجم۔ غبار سے  راغب۔ لخت سے  تلخ۔ سایا سے  ایسا۔ لطف سے  طفل۔ کمال سے  اکمل سے  کلام۔ مرا سے  رام۔ نام سے  امن۔ وقت سے  قوّت۔ قسمت سے  مسقت۔ وار سے  اور۔ نہر سے  ہنر۔ ھما سے  اھم۔ ہرن سے  رہن۔ کاٹ سے  اٹک۔ ناتا سے  تانا۔ وغیرہ جیسے  الفاظ کو شعر میں  پرو کر مقلوب بعض بنایا جاسکتا ہے۔ مقلوب بعض کے  تئیں  راہیؔ صاحب کے  یہاں  چند نقوش اُبھرے  ہیں۔

دکھا یا دن نے  مجھے  ایک وقت ایسا بھی

 رہا نہ پاس  مرے  میرا  اپنا سایا بھی

 ’’ایسا‘‘ مقلوب بعض‘‘ ہو کر ’’سایا‘‘ بنا ہے۔

 مرا  گھبرا  کے گھر سے  نکلنا بھی ہوا تو

 نہ اب صحرا میں  وحشت، نہ آہو میں  وہ رَم ہے

 ’’ہوا‘‘ مقلوب بعض‘‘ ہو کر ’’آہو‘‘ بنا ہے۔

 ٭٭٭٭

صنعتِ معنوی

صنعتِ تضاد

ایک شعر میں  ایسے  الفاظ کا آناججج ایک دوسرے  کی ضد ہوں  اور معنوی تضاد سے  مضمون پیدا ہو۔

مثال۔

یاں  کے  سفید وسیہ میں  ہم کو دخلججج ہے  سو اتنا ہے

رات کو رو رو کے  صبح کیا اور دن کو جوں  توں  شام کیا۔ میرؔ

عمل سے  زندگی بنتی ہے  جنّت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں  نہ نوری ہے  نہ ناری۔ اقبالؔ

کلبۂ افلاس  میں دولت کے  کاشانہ  میں  موت

دشت و در میں ، شہر میں  گلشن میں  ویرانہ میں  موت۔ غالبؔ

میرؔ کے  مذکورہ شعر میں ، سفید وسیہ میں  تضاد، رات اور دن میں  تضاد، صبح و شام میں تضاد، اقبالؔ کے  شعر میں ، جنّت و جہنم میں  تضاد، نوری و ناری میں  تضاد

غالبؔ کے  شعر میں ، کلبۂ افلاس و دولت کے  کاشانہ میں  تضاد، دشت و شہر میں  تضاد، گلشن و ویرانہ میں تضاد

یہ شمس و قمر یہ شام وسحر یہ برگ و شجر یہ باغ و ثمر

یہ تیغ وسِپر یہ تاج و کمر یہ حکم رواں  تمہارے  لئے۔ احمد رضاؔ

شمس و قمر میں  تضاد، شام وسحر میں  تضاد، برگ و شجر میں  تضاد، باغ و ثمر میں  تضاد، تیغ وسِپر میں  تضاد، تاج و قمر میں  تضاد۔

صنعت تضاد آسان ہے ، اس کے  استعمال سے  شعر خوبصورت اورحسین ہو جاتا ہے اور معنوی خوبیاں  پیدا ہو جاتی ہیں ، شاعر کے  موزونیِ طبع کی روانی مختلف و تضاد لفظوں  اور جملوں  کو لے  کر شعر کے  گلدستے  تیار کرتی ہے ججج پڑھنے  اور سننے  والوں  پر وجدانی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ غلام مرتضی راہیؔ نے  اپنے  اشعار میں  تضادِ الفاظ کے  خوب موتی پروئے  ہیں۔ راہی صاحب کے  شعر کہنے  کا انداز نرالا ہے ، منفرد لب و لہجہ کے  اس شاعر کے  یہاں  صنعت تضاد کے  گُل بوٹے  کی نفاست اپنی طرف مائل کرتی ہے ، اپنی انفرادیت جتاتے  ہوئے  راہیؔ کہتے  ہیں۔

 مَیں  عندلیب ہوں  لیکن الگ نوا ہے  مری

چمن کو خاک نہ کر دے  سخن شرارہ مرا 

تضاد بنیاد ہے ، تضاد پر دنیا قائم ہے ، تضاد قدرت کا عطیہ ہے ، تضاد بندے  کی دولت ہے ، متضاد قِسموں  کی مخلوق کے  لئے ، متضاد قسموں  کی چیزوں  کا ہونا ضروری ہے ، یہ مشیّت کا انتظام ہے ، زمین کے  فرش پر آسمان کے  شامیانہ سے  تمام مخلوقات مستفید ہوتی ہے ، ذی روحوں  کے  لئے  پانی ضروری ہے  تو ہوا لازمی، قدرت کے  عجائبات میں  طرح طرح کی تضاد چیزیں  ہمیں  غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں ، شاعر مصوّر ہوتا ہے ججج اپنے  ذہن و تخیّل کی پرواز کے  سہارے  الفاظ و جملے  میں  رنگ بھرکر تصویر کشی کرتا ہے ، کبھی کبھی یہ اُڑان اتنی اونچی ہوتی ہے  کہ دیکھنے  والے  دنگ رہ جاتے  ہیں ، بعضوں  کے  لئے  روح کی غذا بن جاتی ہے ، اسی کے  ذریعہ بعضوں  کے  عشق و محبت کے  باب وا ہو جاتے  ہیں ، اس میں  آپ بیتی بھی ہوتی ہے ، جگ بیتی بھی، اپنی روداد بھی ہوتی ہے  دوسروں  کی کہانی بھی، وصل و قرب کے  تذکرے  بھی ہوتے  ہیں ، ہجر و فراق کی داستانیں  بھی، گزرے  ہوئے  دنوں  کی یادیں  بھی ہوتی ہیں ، مستقبل کے  خوابوں  کی تعبیریں  بھی، ظالموں  کے  ظلم کی حکایتیں  بھی ہوتی ہیں ، مظلوموں  کے  فریادوں  کی سرگزشتیں بھی، بعض غزل کو غزل کی زبان سے  سننا پسند کرتے  ہیں  تو بعض دھُن کی دَھن کے  ساتھ فدا ہو کر اس پر دَھن لٹانا پسند کرتے  ہیں ، یہ اپنے  ظاہری معنے  کے  ساتھ گھر گرہستی، کھیت کھلیان اور بازاروں  تک رسائی رکھتی ہے  تو باطنی معنے  کے  اعتبار سے  خاص کی محفلوں  کی دلہن رہی ہے ، اس کے  متضاد روپ ہیں  یہ لوگوں  کو متضاد طریقے  سے  متاثر کرتی ہے ، یہ دوا بھی ہے  بیماری بھی، یہ زندگی کاسامان بھی ہے  موت کا بہانہ بھی، یہ تلخ بھی ہے  شیریں  بھی، اس میں  سراب کا دھوکا بھی ہے ، دریا کی حقیقت بھی، اس سے  ملک بھی فتح کئے  جاتے  ہیں مال بھی جان بھی جسم بھی، اس میں  تسخیر کی قوّت بھی ہے ، تلوار کی کاٹ بھی، یہ راہبر بھی ہے  راہی بھی، آیئے  اب تضاد چیزوں  کا نظارہ کرنے  کے  لئے  راہیؔ کے  کلام کی طرف چلتے  ہیں  اور دیکھتے  ہیں  کہ راہیؔ نے  تضاد کا تذکرہ کیسے  کیسے  کس کس طرح سے  کیا ہے۔

(۱) میری نیندوں  کو چُرانے  کی غرض سے  راہیؔ

 اُن دنوں  نے مِری راتوں  میں  ٹھہرنا  چاہا۔ ص۱۶ لاکلام

دنوں  اور راتوں  میں  تضاد 

 بحر رمل مخبون محذوف

 فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن

مِیْرٖ  نیندو ک چرانے کٖ غرض سے راہی

فاعلاتن فعلاتن فعلاتن  فعلن

 اُن دنو نے مِ رٖ رات ومِ ٹھہر ناچاہا

 

دن اور رات کا وجود، تضاد کی صفت، قدرت کا استخراج ہے۔ ان پر نہ کسی کی حکومت ہے  نہ حکمرانی، ان کی پیہم گردش اور ان کے  گھٹنے  بڑھنے  میں  صرف رب کی مشیت کار فرما ہے۔ ’’وَخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ۔‘‘ رات دن، ان کا آپس میں  ذاتی اختلاف کہ رات تاریک، دن نورانی، رات سیاہ، دن سفید، رات سرد، دن گرم، دونوں  ایک دوسرے

کے  دشمن، مگر ان میں ایسا اتفاق کہ کبھی رات اپنا ایک حصّہ دن کو بخش دے  اور خود گھٹ کر اسے  بڑھا دے ، کبھی اس کے  عوض دن اپنا کچھ حصّہ رات کو عطا کر کے  اُسے  بڑھا کر  خود گھٹ جائے ، پھر کہیں  چھ ماہ کا دن اور چھ مہینے  رات اور کہیں  کئی کئی روز آفتاب ندارد، دونوں  آپس میں  ایک دوسرے  کے  مخالف مگر دونوں  مل کر خلقِ خدا کے  خدمت گار، رات سب کو سُلا کر موت کا نمونہ قائم کرے ، دن سب کو جگا کر زندگی بعد موت کا  مزہ چکھائے ، یہ تمام باتیں  بغیر قادر مطلق کے  ناممکن۔ (اشرف التفاسیر)

رات دن کے  اختلاف و تضاد کی ہلکی سی جھلک ملاحظہ فرمانے  کے  بعد شعر کی معنوی  خوبی کی طرف توجہ کرتے  ہیں  تو معلوم ہوتا ہے  کہ شاعر کے  گزرے  ہوئے  دن ان کی راتوں  میں  ٹھہر نا چاہتے  ہیں  اور یہ بات علم و عمل اور عقل کے  خلاف ہے۔ دن کا رات میں  ٹھہرنے  کے  لئے  دونوں  کا ایک وقت میں  موجود ہونا ضروری ہے  اور ایسا ہونا محال ہے ، تو پھر شاعر کہنا کیا چاہتے  ہیں ؟معنی سے  پُر تہہ دار باتیں  کہی گئی ہیں ، یہی معنوی خوبی ہے۔

دن کے  معنے  کئی ہیں  ان میں  سے  ایک معنی ہے  ’’واقعات‘‘ یعنی گزرے  ہوئے  واقعات ماضی کی تلخ یا شیریں  باتیں ، خوشی کے  لمحات، غم کی گھڑی، یاججج بھی ہو آدمی کے  حال اور مستقبل میں  داخل ہونے  کی قوّت رکھتی ہے ، حادثات و واقعات اکثر دن میں  ہوتے  ہیں  اور رات کی پُرسکون زندگی و ماحول میں  داخل ہو کر آدمی کو تڑپاتے ، رلاتے ، ہنساتے  ہیں ، ایسی ہی کھٹی میٹھی یادوں  سے  بھرے  پُرے  دنوں  نے  شاعر کی راتوں  میں  آ کر، ٹھہر کر اس کی نیندوں  کو اڑانا چاہا، چُرانا چاہا اور یہ کوشش بار بار دہراتی جاتی رہی۔

(۲)کب سے  آنکھوں  میں  ترا خواب لئے  بیٹھا ہوں  

 اک ذرا ارض وسما سے  مجھے  غافل کر دے۔ ص۳۱لامکاں

 ارض وسما میں  تضاد

بحر رمل مثمن مخبون محذوف

 

فَاْعِلَا تُن ْ  فِعِلَاتُن ْفِعِلَاتُن ْفعلن

کب سِ آکھومِ ترا خاب لیے  بیے ٹھا ہو

 فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن

اک ذرا ار ض سما سے مُجھِ غافل کر دے

 

زمیں  کے  اوپر اور زمین کے  نیچے  ہزاروں  ایسی چیزیں  ہیں ججج انسانوں  کو لبھائے  ہوئے  ہیں ، انسان ان کی محبت میں  کھویا ہوا ہے۔ دنیا ہی د نیا کے  نعرے  بلند کئے  ہوئے  ہے۔ کچھ لوگ آسمانوں  میں  کھوئے  ہوئے ہیں ، چاند، سورج اور ستارے  کی تحقیق ہی ان کا مشغلہ اور پیشہ ہے ، چاند کے  اوپر مریخ تک پہنچنے  کا اعلان کر چکے  ہیں  دونوں میں  تضاد ہے ، ایک اوپر ہے ، دوسری نیچے ، زمین آسمان کی محتاج ہے۔ آسمان دیتا ہے ، زمین لیتی ہے ، زمین بارش اور دھوپ کی محتاج، آسمان پر رنگ برنگ کے  تارے ، زمین پر طرح طرح کے  پیڑ پودے ، بِیل بوٹے ، آسمان پر مختلف تاروں  کی مختلف تاثیریں ، زمین پر مختلف پھلوں  کے  مختلف ذائقے ، آسمان سورج اور ستاروں  کی آماجگاہ، زمین حیوانات، جمادات اور نباتات کی جائے  اماں۔

شعر میں  تصوف کا ایک گوشہ اجاگر ہوا ہے ، شوق ہے ، خواہش ہے ، تمنا ہے ، آرزو ہے ، ارمان ہے  کہ ترا خواب لئے  بیٹھا ہوں ، کس کا؟ زمین وآسمان بنانے  والا کا، واحد و یکتا کا، خواب کیا ہے ؟اس کو دیکھنے  کا، اور بغیر ارض وسما سے  غافل ہوئے  اس کا دیکھنا ممکن نہیں  ہے ، غافل کر دے ، یعنی فنائیت کے  درجے  میں  پہنچا دے  کہ تجھے  دیکھ لوں ، تیرا دیدار کر لوں۔ ’’اِنَّ فِیْ خَلْقَ السَّمٰوٰاتِ وَالْاَرْضِ۔‘‘ کے  تعلق سے  صوفیائے  کرام کہتے  ہیں کہ ’’روح، دل اور عقل مختلف آسمان ہیں۔ نورِ معرفت و ظلمت، حجابِ رات دن کا اختلاف ہے ، بدن خاص کشتی ہے ، جسم مطلق دریا ہے ، جسمانی اعمال وہ تجارتی مال ہے ججج اس کشتی کے  ذریعہ منتقل ہوتا ہے۔ آسمانِ روح سے  رب نے  علم کا پانی برسایا جس سے  زمینِنفس زندہ ہوئیججج جہالت کی خشک سالی میں  مر چکی تھی، پھر اس زمین میں  مختلف حیوانی قوتوں  کے  جانور پھیلائے۔ ’’وَتَصْرِیْفِ الرِّیَاح۔‘‘ خدائی کام مختلف قسم کی ہوائیں  ہیں  اور روح ونفس کے  درمیان ربّانی تجلیّاں  مسخّر بادل ہیں۔ ان سب چیزوں  میں  دلائل قدرت موجود، مگر اسکے  لئے  عقل ضروری ہے ،ججج نورِ شریعت و طریقت سے  منور اور وہم سے  خالی ہو۔ (تفسیر نعیمی جلد دوم ص:۔ ۱۲۹)

(۳)سامنے  لاکھوں  کے  ٹھہرا یا مجھے  اُس نے  خراب

 پَر، کروڑوں  کے  مقابل مجھے  اچھّا رکھّا۔ ص۱۲ لامکاں

مذکورہ بحر و اوزان میں  

اچھّا کی ضد خراب۔ اس شعر کو دنیا پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے۔ دین و آخرت پر بھی، عزّت و ذلت پر بھی، غربت و نعمت پر بھی۔ کسی کی دنیا اچھی تو کسی کی خراب، کسی کا دین عمدہ تو کسی ناقص، کسی کی آخرت بھلی ہو گی تو کسی کی برباد، کوئی عزّت کے  مسند پر براجمان ہے  تو کوئی ذلّت کے  غار میں  پڑا ہوا ہے ، کوئی نعمت پر اترا رہا ہے  تو کوئی اپنی غربت پر رو رہا ہے۔ججج اپنی خرابی پر افسوس کرتا ہے  وہ پیچھے  مُڑ کر دیکھتا ہے  تو کروڑوں  کے  مقابلے  میں  اپنے  کو اچھّا پاتا ہے۔ حضرت شیخ سعدی رحمۃاللہ علیہ کو اپنے  پاؤں  میں  جوتا نہ  ہونے  کا افسوس تھا کہ جوتا سے  محروم ہوں۔ ایک مقام پر ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے  دونوں  پاؤں  کٹے  ہوئے  ہیں  اور وہ چلنے  پھرنے  سے  محروم ہے ، کہنے  لگے  رب تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے ، میں  جوتے  لئے  ترس رہا ہوں  اور یہ بندہ پاؤں کے  لئے  تڑپ رہا ہے۔ ’’پر، کروڑوں  کے  مقابل مجھے  اچھا رکھّا۔‘‘

(۴) چھُپا ہوا تھا کوئی مہر و ماہ انجم میں  

کسی طرح بھی مگر روشنی میں  آنہ سکا۔ ۲۰ حرف مکرّر

مہر و ماہ میں  تضاد۔ ماہ و انجم میں  تضاد

 بحر مثمن مخبون محذوف

 مفاعلن  فعلاتن  مفاعلن فعلن

 چھُپا  ہوا تھَک ای مہ  ر ماہ ان  جم مِے

مفاعلن فعلاتن مفاعلن  فعلن

 کسی طرحبھٖ مگر  رو شنی مِ اَاْنَ سکا

 

مہر و ماہ  و انجم تینوں  روشن منوّر تاباں  مگر تینوں  کی روشنی اس کی تاثیر، رفتار، مقام میں  اختلاف و تضاد ہے۔ مہر کی کرن میں  گرمی، چاند کی چاندنی میں  ٹھنڈک، چاند سے  انجم کی روشنی ہلکی، مہر پور ے  دن کو منور رکھتا ہے ، ماہ شروع مہینے  میں رات کے  پہلے  کو اور ۱۴ تاریخ کے  بعد پچھلے  حصہ کو منور کرتا ہے۔ ماہ و انجم سورج سے  روشنی لیتے  ہیں لیکن ماہ زیادہ انجم کم۔ انہیں مہر و ماہ و انجم میں  چھُپا ہوا تھا، ہے۔ کون؟

عیاں بھی تو ہی تو، نہاں بھی تو ہی تو  ٭ہر اک دل میں جلوہ نُما تو ہی تو

بشر کی بصر میں ، قمر کی ضیا میں ٭ضیا بار میرے  خدا تو ہی تو

مہکتی فضا میں ، برستی گھٹا میں ٭ نظارہ کوئی ہو  چھُپا  تو ہی تو

محمد ادریس رضویؔ

راہیؔ صاحب نے  شعر میں  جن خیالات کا اظہار کیا ہے ، وہ اصطلاحِ صوفیہ میں  وحدت الوجود کی طرف اشارہ ہے۔ راہیؔ اسی بات کو ایک جگہ دوسرے  طریقے  سے  باندھا ہے  ؂

ؔ مہ و مہر و انجم میں  ڈھونڈو اسے ٭  انہیں  چند روشن مثالوں  میں  تھا۔ (ص۲۴ حرف مکرّر)

 ٭٭

(۵)لو اب یہ چاند ستاروں  میں  بھی نکل آئے

یہ آئینوں  میں  کہاں  سے  سما گئے  پتھر۔ ص ۹۶ لا شعور

 چاند اور ستاروں  میں  تضاد

 بحر مثمن مخبون محذوف مسکن

 

مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن

ل اب یہ چادستارومِ بھی نکل  اَاْ  اِے

 مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن

 یِ اَاْیِ  نُومِ کہا سے سما  گئے پتھر 

 

چاند ستاروں  میں ، نکل آئے  اور سما گئے  میں  تضاد، جدید سائنس کی تحقیق پر جدید نظریے  کی تنقید بھی معنی خیز ہے۔ سائنسدانوں  کی تحقیق کے  مطابق۔ ’’چاند بالکل ہماری زمین کی طرح مٹّی پتھّر کے  مجموعے  کا نام ہے  اس کی سطح اونچی نیچی ہے۔ اس پر پہاڑ ہیں ، میدان ہیں ، بڑے  بڑے  غار ہیں ، دوربین سے  شمال کی طرف ترچھا ایک سلسلہ کوہ صاف نظر آ رہا ہے۔ غار اتنے  بڑے  ہیں  کہ بعض کے  دہانے  پچاس ساٹھ میل اور بعض کے  سو میل سے  بھی چوڑے  ہیں۔ پوری سطح پر ایک قسم کی راکھ پائی جاتی ہے۔ یہ راکھ منجمد لاوا کے  سفوف کے  مثل ہے ، کہیں  کہیں  دراڑیں  ہیں۔ جس میں  بعض دو دو میل چوڑی ہیں۔ اس کے  بعض غاروں  کے  دہانوں  سے  لکیر دار شعاعیں  نکلتی ہیں ججج میلوں  پھیل جاتی ہے۔ چاند پر دن میں  گرمی اتنی پڑتی ہے  کہ الاماں  الاماں ، انسان جانبر نہ ہو سکے  اور رات میں  سردی ایسی کہ جاندار ٹھٹھر کر رہ جائے ، درجۂ حرارت صفر سے  بھی دوسودرجہ کم، پانی یا نمی یا ہوا بالکل نہیں ، اسی لئے  زمینی جانداروں کا وہاں  جینا محال ہے ، وہاں  کسی قسم کے  نباتات یا سبزی یا مخلوق کا کوئی وجود نہیں  ہے۔ الخ(اسلام اور چاند کا سفر، مفتی شریف الحق امجدی)

اس اقتباس کو پڑھنے  سے  معلوم ہوا کہ چاند پر مٹّی بھی ہے ، پتھّر بھی ہے ، پہاڑ بھی ہیں ، اس پر حیرت کا اظہار کرتے  ہوئے  راہیؔ صاحب کہتے  ہیں

 لو اب یہ چاند ستاروں  میں  بھی نکل آئے۔ 

دوسرا مصرع بھی حیرت میں  ڈوبا ہوا ہے

یہ آئینوں  میں  کہا سے  سما گئے  پتھر

چاند ستاروں  کی مناسبت سے ’’آئینوں  ‘‘ جمع کے  ساتھ کا استعمال بھی خوب ہے  کہ قرآن پاک میں  ہے۔ وَجَعَلَ فِیْھَاسِرٰ جاًوَّ قَمَرًمُّبِیْنَا۔  اور ان میں  چراغ (آفتاب)رکھا اور چمکتا چاند۔ ‘‘

(۶)موت کو ہر جگہ ہے  استحکام  ٭زندگی کو کہیں  ثبات نہیں۔ ص۱۷۱، لاکلام

موت اور زندگی میں  تضاد

بحر خفیف مسدّس مخبون مسکّن مقصور

 فاعلاتن مفاعلن فعلن/فعلان

موت کو ہر جگہ ہَ استحکام

فاعلاتن مفاعلن فعلن

 زندگی  کو کہیں  ثبات نہیں  

موت کا زندگی سے  گہرا تعلق ہے ، موت کبھی بھی، کسی وقت بھی، کسی ساعت، کسی لمحہ میں ، کسی کی بھی زندگی کا چراغ گُل کر سکتی ہے۔ جتنے  وقت، جتنے  دن، جتنے  سالججج زندہ رہتا ہے۔ وہ اس کی عمر کہلاتی ہے۔ عمر کی اکیس منزلیں  ہیں  اور ہر منزل کے  الگ الگ نام ہیں ، چنانچہ بچپن، بلوغت اور جوانی میں  مرنے  والا تمام منزلوں  کو نہیں  پا سکتا۔

تفسیر روح البیان نے  انسانی عمر کے  حسب ذیل نام گنائے  ہیں۔

جَنِیْن۔ بچّہ جب تک رحمِِ مادر میں  رہے ٭وَلید۔ جب پیدا ہو جائے

إَضیع۔ جب تک دودھ پئے  ٭فطیم۔ جب دودھ چھوڑا دیا جائے

دارج۔ جب کچھ چلنے  پھرنے  لگے ٭ضماسی۔ جب دودھ کے  دانت نکل آئیں  

شُغُوْر۔ جب دودھ کے  دانت اکھڑنے  لگیں

مشغر۔ جب دوسرے  دانت نکل آئیں  

مِترعرع۔ جب دس سال کا ہو جائے

یافِع یامُراھِق۔ جب بلوغ کے  قریب ہو جائے

خرور۔ جب بالغ ہو جائے

فَتَایا شارخ۔ جب مونچھ چمکے  

مجتمع۔ جب داڑھی پو ری نکل آئے

شاب۔ تیس سے  چالیس سال کا درمیانی عرصہ

کَہَل۔ چالیس سے  ساٹھ سال کا درمیانی عرصہ

شاخ۔ ساٹھ سال کی عمر کے  بعد جب بال سیاہ اور سفید مخلوط ہوں

پھر کِبَرْ

پھر حرم

پھر دلف

پھر  خَرِفْ(دیوانہ بڈھا)

پھر میّت

بحوالہ تفسیر نعیمی جلد سوم

’’موت کو ہر جگہ ہے  استحکام‘‘ ہر جگہ کا معنی بہت وسیع ہے۔ شاہراہ،  صحرا، مکان بازار، کھیت کھلیان کہیں  بھی موت آ سکتی ہے۔ اس لئے  شاعر نے  اس کو استحکام سے  منسوب کیا ہے۔ زندگی کی مذکورہ منزلوں  میں  اس کا کھٹکا لگا رہتا ہے۔ اس لئے  اس کو استحکام حاصل ہے۔ ’’زندگی کو کہیں  ثبات نہیں۔‘‘ موت کو جب استحکام ہے  تو زندگی کو ثبات کیسے  حاصل ہو سکتی ہے۔

(۷)کس پائے  کا فقیر تھا وہ جس کے  سامنے

رتبہ  کسی  امیر کا  اعلی نہ ہو سکا۔ ص۱۶۳لاکلام

 فقیر اور امیر میں  تضاد

 بحر مضارع مثمن اخرف مکفوف محذوف 

 مفعول  فاعلات مفاعیل فاعلن

کس پایے کا فقیر  تھَ وہ جا کِسامنے

 مفعول فاعلات مفاعیل  فاعلن

رتبہ کِ سی امیرکَ اعلین  ہو سکا

عمیق اور وسیع مطالعہ، گہری اور راست فکر، درست سوجھ بوجھ، کائنات کے  صحیح مطالعے ، ما دّی اور روحانی زندگی کو پرکھنے  کے  بعد ہی غزل کی بساط پر ایسے  خیالات ابھر تے  ہیں۔ مادّی دنیا کے  لوگ فقیروں  پر امیروں  کو فوقیت دیتے ، عزّت کی نظر سے  دیکھتے  اور قدر کرتے  ہیں۔ لیکن روحانی زندگی گزارنے  والے  کو فقیر ہی کہا جاتا ہے  ایسے  فقیروں  کے  سا منے ، امراء، حاکم، با شاہ سبھی اپنی جھولیاں  پھیلاتے  ہیں ، ایسے  فقیر بھیک مانگنے  والے  فقیروں  کے  جیسے  نہیں  ہیں  بلکہ بھیک مانگنے  وا لوں  کو یہ بھیک عطا کرتے  ہیں۔ ان کے  رتبہ کو امیر اور بادشاہ نہیں  پاسکتے۔ اس تعلق سے  بے  شمار واقعات تاریخ کے  صفحات پر شاہد ہیں ، ایک مشہور و معروف واقعہ درج کرتا ہو ں۔ حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ۔ ’’ایک دن دریا کے  کنارے  بیٹھے  ہوئے  کپڑا سی رہے  تھے ،ا یک شخص نے  آ کرسوال کیا کہ بلخ کی سلطنت چھوڑ کر آپ کو کیا ملا؟آپ نے  اپنی سوئی دریا میں  ڈال دی اور حکم کیا کہ سوئی لاؤ یہ کہتے  ہی ہزاروں  مچھلیاں  اپنے  منھ میں  سونے  کی سوئیاں  لے  کر باہر نکل آئیں۔ آ پ نے  فرمایا مجھے  اپنی لوہے  کی سوئی درکار ہے ، ایک کمزور مچھلی ان کی سوئی لے  کر باہر آئی۔ آ پ نے  اس شخص سے  فرمایا یہ ہے  کمترین مرتبہججج میں نے  سلطنت چھوڑ کر پایا ہے  اس سے  زیادہ دیکھنے  کی تو طاقت نہیں  رکھتا۔ (مرأۃ الاسرار)

یہ ہے  اللہ کا فقیر جس کے  سامنے  کسی امیر کا رتبہ بلند نہیں  ہو سکا۔ فقیر و امیر میں  تضاد صفتیں  ہیں ، امیر کیججج صفتیں  ہیں  وہ فقیر کی نہیں  ہوتیں۔ لیکن اللہ کے  فقیر کے  اوصاف کو  امیر نہیں  پاسکتے ، راہیؔ صاحب کے  مذکورہ شعر کو اللہ کے  ہر فقیر کی تربت پر بطور کتبہ کے  لگا  یا جاسکتا ہے ، اگر امیروں  کو بُرا نہ لگے  تب!

(۸)قیامت ہے  وہ جب ہمالہ کوئی٭اُڑے  روئی کا جیسے  گالا کوئی۔ ص۱۳۱لاکلام

 ہمالہ اور گالا میں  تضاد

بحر متقارب مثمن محذوف

 فعولن فعولن فعولن فعل

قیامتہ وہ جبہمالہ ک ای

فعولن فعولن فعولن فعل

اُڑے  رُویٖ کا جے سِ گالا  ک ای

 

ہمالہ، ہمالیہ اسم خاص، منجمد، ٹھوس، ایک پہاڑ کا نام،ججج ہندوستان وپاکستان کے  شمال میں  واقع ہے۔ بلند قامتی میں  مشہور، دنیا کا سب سے  اونچا پہاڑ ہے۔ پہاڑ، ہوا، آندھی یا طوفان سے  نہیں  اڑتا، اس کا اڑنا قدرت اور عقل کے  خلاف ہے۔

گالا۔ دھُنی ہوئی روئی کا چھوٹا ساگپھا، ہلکا، سبک، برف کی مانند سفید، صفت میں  پہاڑسے  تضاد، شعر کا مفہوم یہ ہے  کہ ہمالہ پہاڑ قیامت کے  دن ایسے  اڑے  گا جیسے  روئی کا ’’گالا‘‘ اڑتا ہے۔ قادر مطلق اپنی قدرت سے  قیامت کے  دن پہاڑ کی صفت کو بدل دے  گا، یہ کب ہو گا، جب پہلی بار صور پھونکا جائے  گا تو نظام کائنات درہم برہم ہو جائے  گا۔ وَاِذَالْجِبَالُسُیِّرَتْ‘‘ اور جب پہاڑ چلائے  جائیں ، یعنی غبار کی طرح ہوا میں  اڑتے  پھریں۔ اس طرح کشش ثقل فنا کر دی جائے  گی۔ پہاڑوں  کا وزن باقی نہیں  رہے  گا۔ ہوا کے  جھونکے  روئی کے  گالوں  کی طرح انہیں  اڑانے  لگیں  گے۔

قرآن پاک میں  اس ہولناک دن کے تذکرے  متعدد جگہوں  پر ہوئے  ہیں۔

(۹)آسودہ میرا قلب ہے  تشنہ مری نگاہ

 جتنا قریب اُتنا ہی وہ دور کس لئے۔ ص ۵۵ لاکام

قلب اور نگاہ میں  تضاد۔ قریب اور  دور میں  تضاد۔ آسودہ و تشنہ میں  تضاد

 بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف

مفعول  فاعلات مفاعیل فاعلات

آسودمیرَ قلبہَ تشنہ  مِ  ری نگاہ

مفعول  فاعلات مفاعیل فاعلن

جِتنا ق  ریب  اُتنَ  ہٖ وہ  دور کس لیے  

 

شعر میں  جس ذات اقدس کے  تئیں  جن باتوں  کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس سے  تصوف کا مسئلہ واضح ہوتا ہے  کہ ’’نَحْن اَقْرَب مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْد‘‘ مَیں  تمہارے  گلے  کے  رگوں  سے  بھی زیادہ قریب ہوں۔ اور مومن کا قلب میرا عرش ہے۔ جب قلب عرش ہے  تو پھر قلب کو آسودہ ہونا ہی چاہئے۔ صوفیائے  کرام کہتے  ہیں  کہ اللہ تعالی کو نہ صحرا میں  ڈھونڈو نہ جنگل میں ، نہ میدان میں ، نہ مسجد میں ، نہ حرم میں ، نہ کعبۃ اللہ میں ، وہ تو تمہارے  دل میں  ملے  گا۔ دل کو پاک وصاف کرواس کا جلوہ قلب پر چمکے  گا۔ جس طرح کسی چیز کو صیقل کرتے  ہیں  تو اس شے  میں  سب سے  پہلے  صیقل گر کی صورت نظر آتی ہے۔ اسی طرح ذاکر جب ذکر کے  ذریعہ قلب کو صیقل کرتا ہے  تو پہلے  ذکر کی تصویر اُبھرتی ہے  پھر قلب پر مذکور کا جلوہ ہوتا ہے ، یہ تو خاص کی بات ہے ، عوام کی رسائی وہاں  تک نہیں  ہے ، ان باتوں  پر ان کا یقین کامل ہی ان کے  قلب کو آسودہ رکھتا ہے ، مگر ایک جھلک دیکھنے  کے  لئے  نگاہ تشنگی کی شکار ہے ، اس معاملہ میں  خاص کی نگاہ بھی تشنہ ہے ، آسودہ اور فیضیاب وہی ہوئے  جس پر فضل ہوا، اس کی رحمت ہوئی، وصال کے  مزے  لئے ، قرب و بعد کے  فرق کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے  کہ کوئی چیز قریب رہ کر بھی نظر نہیں  آتی تو گویا وہ دور ہی ہے  اور دور کی نظر آ جائے  تو گویا وہ قریب ہے ، قرب و بعد کا معاملہ ایک سر بستہ راز ہے ،ججج سب پر عیاں  نہیں  ہوتا ہے ، بہر حال شعر میں  اچھے  خیال کا اظہار ہوا ہے  اور معنوی طور پر تضاد کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ راہیؔ صاحب کے  کلام میں  اس قسم کے  تصوفانہ اشعار اور بھی ملتے  ہیں۔ ایک شعر اور ملاحظہ کیجئے ؂

اگر ہے  دل میں  تو پھر ہو گا وہ ضرور کہیں ٭قریب ہوکے  وہ رہتا ہے  مجھ سے  دور کہیں

 (۱۰)دماغ والے  !تجھے  کچھ خیال ہے  اُس کا

عروج ایک فقط لازوال ہے  اس کا۔ ص۱۵لاشعور 

 بحر مثمن مخبون محذوف مسکّن

 مفاعلن فعلاتن  مفاعلن فعلن

 دماغ  وا ل تجھے  کچھخیال ہے  اس کا

مفاعلن  فعلاتن مفاعلن  فعلن

 عروج اے ک  فقط لازوال ہے  اس کا

 

عروج و زوال دو متضاد صفتیں  ہیں۔ دونوں  کو ایک دوسرے  کا خوف رہتا ہے۔ عروج کے  شباب کی تاک میں  زوال کی ہوا رہتی ہے  کبھی زوال کو ختم کرنے  کیلئے  عروج آگے  بڑھتا ہے۔ فرد و افراد، قوم و ملت، خاندان و قبیلے  پر اقبال و زوال کی ہوائیں  چلتی رہتی ہیں۔ ماضی میں  کوئی مسکرا رہا تھا حال میں  رو رہا ہے ، کوئی ماضی میں  اشک بہا رہا تھا حال میں ہنس رہا ہے ، حال میں  ایک شخص پر عروج کی ہوا چل رہی ہے۔ مستقبل میں  زوال کی ہوا اس کو اپنے  شکنجے  میں  لے  سکتی ہے۔ مگر ان صفتوں  کو وجود بخشنے  والی ذات کو عروج ہی عروج ہے۔ ’’کُلَّ یَوْ مِِ ھُوَفِیْ شَانِِ۔‘‘ ترجمہ!وہ ہر روز ایک نئی شان سے  تجلّی فرماتا ہے۔‘‘

اس آیت کے  تحت علامہ قرطبی لکھتے  ہیں  کہ۔ ’’کسی بادشاہ نے  اپنے  وزیر سے  اس آیت کا  مفہوم پوچھا، وہ نہ بتا سکا اور ایک دن کی مہلت طلب کی اور بڑا افسردہ و پژمردہ گھر آیا۔ اس کا ایک سیاہ فام غلام تھا اس نے  پوچھا میرے  آقا آپ پریشان کیوں  ہیں ؟اس نے  پریشانی کی وجہ بتائی، غلام نے  کہا آپ مجھے  سلطان کے  پاس لے  چلیں ، میں  اسے  اس آیت کا مفہوم بتاؤں  گا۔ وہ غلام جب سلطان کے  سامنے  پیش کیا گیا تو وہ گویا ہوا۔ اَیّھُا الامیر!شانہ ان یولج اللیل فی النھار ویولج النھار فی اللیل ویخرج الحئیّ من المیّت ویخرج المیّت من الحئیّ۔ الخ۔ یعنی اے  بادشاہ !اللہ تعالی کی شان یہ ہے  کہ وہ رات کو دن میں  اور دن کو رات میں  داخل کرتا ہے  اور زندہ کو مردہ سے  اور مردہ کو زندہ سے  نکالتا ہے ، وہ بیمار کو صحت یاب اور صحت یاب کو بیمار کرتا ہے۔ آرام و عافیت والے  کو مصیبت میں  مبتلا کرتا ہے  اورججج مصیبت میں  ہے  اس کو آرام وسکون عطا فرماتا ہے۔ وہ ذلیل کو عزت بخشتا ہے  اور عزت والے  کو ذلیل کرتا ہے۔ وہ غنی کو فقیر اور فقیر کو غنی بناتا ہے۔ بادشاہ یہ سن کر اسے  قلمدانِ وزارت سونپ دیا۔ غلام نے  کہایا مولائی!ھذامن شان اللہ تعالی، میرے  آقا یہ بھی میرے  اللہ تعالی کی ایک شان ہے (تفسیر  ضیاء القرآن جلد پنجم)

(۱۱)بلند قامتی میں  وہ، پرے  مری نگاہ سے  

زمیں  پہ آسمان کا وسیلۂ نزول وہ۔ ص۱۶لاشعور

 زمین اور آسمان میں  تضاد

بحر ہزج مثمن مقبوض

 مفاعلن مفاعلن  مفاعلن مفاعلن

 بلند قامتی مِ وہ پرے  مری  نگاہ سے

مفاعلن  مفاعلن مفاعلن مفاعلن

 زمیں  پہ اَ  اْ  سمان کا  وسی لیے نزول وہ

زمین وآسمان کے  درمیان، خالق و مخلوق کے  بیچ میں  رابطے  کے  لئے  اللہ تعالی نے  اپنے  حبیب پاک جناب محمّد الرسول اللہﷺ کو مبعوث فرمایا تاکہ خالق سے  مخلوق کا، اللہ تعالیٰ سے  بندوں  کا رابطہ برقرار رہے۔

خود رہے  پردے  میں  اور آئینہ عکسِ خاص کا

 بھیج کر انجانوں  سے  کی راز داری واہ واہ (حضرت احمد رضا)ؔ

’’صوفیا ء فرماتے  ہیں  کہ آیات قرآنیہ عرشی تھیں  اور ہم فرشی، نہ ہم کو عرش تک رسائی نہ آیتیں  ہم پر آ سکتی تھیں ، حضور وہ ہیں  جنہیں  عرشیوں  سے  عرشی چیزیں  لینا آتا ہے  اور فرشیوں  کو دینا آتا ہے ، اگر زبان مصطفوی کا واسطہ نہ ہوتا تو تم آیاتِ الہیّہ نہ پاتے۔ پھر حضور انور شریعت کے  پانی سے  ہمارے  جسموں  کو اور طریقت کے  پانی سے  ہمارے  دلوں  کو معرفت کے  پانی سے  ہمارے  خیالات کو حقیقت کے  پانی سے  ہماری روح کو پاک فرماتے  ہیں ، ناپاک کو پانی جب ہی پاک کرتا ہے  جب کوئی پاک کرنے  والا ہاتھ بھی درمیان میں  ہو یہ چاروں  پانی ہماری چار گندی چیزوں  کو حضور کے  کرم سے  پاک کریں  گے۔ (تفسیر نعیمی جلد ۲)

غلام مرتضی راہی کے  کلام میں  صنعت تضاد کا دائرہ ہمہ جہت ہے  اور ذات و کائنات کے  پوشیدہ حقائق کو اجاگر کر نے  میں  کامیاب  ہے ، عام تجربات سے  گزری ہو ئی باتیں  لوگوں  کے  ذ ہن میں  مقید ہو جاتی ہیں ، گاہے  گاہے ز بان کی و ساطت سے  بو جھل بن کر بے  ترتیب دوسروں  کے  سامنے  آتی ہیں  مگر شاعر ان باتوں  کو  مہذب اور اچھے  انداز میں  پیش کر تا ہے  تو معلوم ہو تا ہے  کہ یہ باتیں  دنیا کے  لئے  نئی ہیں  یا پہلی بار اس انداز کی گفتگو سننے  کو مل رہی ہے  مثلاً  ؂  

دھرتی کے  نیچے  کا پانی کھینچا ہوا٭روٹھ گئی ہے  اوپر سے  برسات الگ(راہیؔ )

اس میں  ندرت اور نیا پن کا احساس ہو تا ہے  اس طرح کے  دیگر تجربات راہی کے  یہاں  کثرت سے  پائے  جا تے  ہیں۔

 

 ٭٭٭٭٭

صنعتِ تلمیح

تلمیح۔ کے  معنی ہیں ’’سُبک نگاہ کرناکسی چیز کی طرف۔ اصطلاح اہل معانی میں  اشارہ کرنا اپنے  کلام میں  کسی قصّہ کی طرف۔ یا اصطلاحات نجوم یا موسیقی کا لانا۔ یا اپنے  کلام  میں  آیات قرآن شریف یا احادیث کا لانا۔‘‘ لغات کشوری

صنائع معنوی میں  یہ صنعت بہت ہی زیادہ استعمال ہوتی ہے  کوئی شاعر ایسانہیں  جس کے  کلام میں یہ صنعت موجود نہ ہو، مذہبی، تاریخی، سماجی اور ثقافتی روایات واقعات میں  سے  کسی ایک قصّہ یا واقعہ کی طرف شعر میں  اشارہ کرنا تلمیح ہے  جیسے ؂

 کیوں  جنابِ بوہریرہ تھا وہ کیسا جامِ شِیر

جس سے  ستّرصاحبوں  کا دودھ سے  منھ پھِر گیا۔ رضاؔ بریلوی 

 مولا احمد رضا کی نعتیہ شاعری۔ ص۲۴۴

مذکورہ بالا شعر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ و دیگر ستّر اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے  ساتھ گزرے  ہوئے  واقعہ پر مشتمل ہے۔ واقعہ کی تفصیل یہ کہ۔ ’’ مجاہد کا بیان ہے  کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے  !اللہ وہ ہے  جس کے  سوا کوئی معبود نہیں  مگر وہی۔ بھوک کے  باعث میں  زمین پر پیٹ کے  بَل لیٹ جاتا اور کبھی بھوک کے  سبب اپنے  پیٹ پر پتھر باندھ لیتا۔ ایک روز میں  لوگوں  کی عام گزر گاہ پر بیٹھ گیا تو حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) گزرے  تو میں  نے  ان سے  قرآن کریم کی ایک آیت پوچھی، میں  نے  سوال اسی لئے  کیا کہ مجھے  کھانا کھلا دیں ، لیکن وہ گزر گئے  اور ایسا نہ کیا، پھر میرے  پاس سے  حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) گزرے  تو میں  نے  ان سے  بھی کتاب الہی کی ایک آیت پوچھی اور ان سے  بھی کھانے  کے  باعث سوال کیا۔ چنانچہ وہ بھی گزر گئے  اور انہوں  نے  ایسا نہیں  کیا۔ پھر میرے  پاس حضرت ابوالقاسم ﷺ گزر ے  اور مجھے  دیکھ کر تبسم فرمایا کیونکہ آپ نے  میری دلی خواہش اور چہرے  کی حالت کو جان لیا تھا۔ چنانچہ فرمایا:۔ اے  ابو ہرّ! عرض گزار ہوا:۔ یا رسول اللہ!حاضر ہوں۔ فرمایا کہ آگے  آؤ، اور آپ چل دیئے  تو میں  بھی آپ کے  پیچھے  رہا۔ چنانچہ آپ اندر داخل ہوئے  اور مجھے  اجازت مرحمت فرمائی پس میں  اندر داخل ہوا۔ چنانچہ آپ نے  پیالے  میں  دودھ پایا تو فرمایا کہ یہ دودھ کہاں سے  آیا؟گھر والوں  نے  جواب دیا کہ فلاں  مرد یا فلاں  عورت نے  بطور ہدیہ آپکے  لئے  پیش کیا۔ فرمایا کہ اے  ابو ہرّ!عرض گزار ہوا کہ یا رسول اللہ(ﷺ) میں  حاضر ہوں۔ فرمایا کہ اہل صُفّہ کے  پاس جاؤ اور انہیں  میرے  پاس بلا لاؤ(ایک دوسری روایت میں  ہے  کہ اس وقت اہل صُفّہ کی تعداد ستّر تھی)حضرت ابو ہریرہ کا بیان ہے  کہ اہل صفّہ اللہ کے  مہمان تھے ، اہل و عیال، مال اور کسی شخص کے  پاس نہیں  جاتے  تھے۔ جب آپ ﷺ کے  پاس صدقہ آتا تو ان کے  لئے  بھیج دیتے  اور خود اس میں  سے  ذرا بھی تناول نہیں  فرماتے  اور جب آپ کی خدمت میں  ہدیہ پیش کیا جاتا تو اس میں  اہل صفّہ کو بھی شامل فرما لیتے ، مجھے  یہ بات اچھّی نہ لگی اور اپنے  دل میں  کہا کہ یہ دودھ اہل صفّہ کو کیا بنائے  گا؟جبکہ اس کا زیادہ حقدار میں  ہوں  اگر یہ دودھ مجھے  عطا فرما دیا جائے  اور میں  اسے  پی لوں  تو کچھ جان میں  جان آئے۔ پس جب وہ آئیں  جیسا کہ مجھے  حکم فرمایا ہے  اور میں  انہیں  دوں تو غالب گمان ہے  کہ یہ دودھ مجھ تک پہنچے  گا ہی نہیں۔ لیکن اللہ اور اس کے  رسول کا حکم مانے  بغیر چارہ ہی نہیں۔ پس میں  گیا اور انہیں  بلا لایا۔ چنانچہ وہ آئے  پھر انہوں  نے  اجازت مانگی تو انہیں  اجازت دے  دی گئی اور وہ گھرکے  اندر بیٹھ گئے۔ فرمایا کہ اے  ابو ہرّ:۔ عرض گزار ہوا کہ یارسول اللہ! حاضر ہوں ، فرمایا اسے  لے  کر انہیں  دو، ان کا بیان ہے  کہ میں  نے  پیالہ پکڑ لیا اور ایک آدمی کو دیا، چنانچہ جب وہ شکم سیر ہو گیا تو اس نے  پیالہ مجھ کو واپس کر دیا، پھر دوسرے  پیالہ مجھے  دے  دیا، اس طرح میں  نبی کریم ﷺ تک پہنچ گیا اور اصحاب صفّہ سب شکم سیر ہو چکے  تھے ، چنانچہ آپ نے  پیالہ لے  لیا اور اسے  اپنے  دستِ کرم پر رکھا پھر میری طرف دیکھ کر تبسم فرمایا، ارشاد ہوا، اے  ابوہرّ:۔ عرض گزار ہوا کہ یارسول اللہ !میں  حاضر ہوں۔ فرمایا کہ اَب مَیں  اور تم باقی رہ گئے ، میں  نے  عرض کی کہ  یارسول اللہ آپ نے  سچ فرمایا، ارشاد ہوا بیٹھ جاؤ اور پیو، چنانچہ مَیں  بیٹھ گیا اور میں  نے  پیا پھر فرمایا کہ پیو، لہذا میں  نے  پھر پیا، آپ برابر یہی فرماتے  رہے  کہ اور پیو یہاں  تک میں  نے  انکار کرتے  ہوئے  کہا، قسم ہے  اس ذات کی جس نے  آپ کو حق کے  ساتھ مبعوث فرمایا ہے ، مجھے  اب کوئی گنجائش نظر نہیں  آتی فرمایا کہ مجھے  دکھاؤ، چنانچہ میں  نے  پیالہ پیش کر دیا، پس آپ نے  اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کی اور بسم اللہ پڑھ کر بچا ہوا دودھ نوش فرمایا۔ (صحیح بخاری شریف۔ باب کتاب الرقاق۔ ترجمہ!فاضل شہیر مولانا عبد الحکیم خان اختر شاہجہا نپوری )

(۱)  جب اس نے  دروازہ مجھ پر بند کیا

 مجھ پر اس کی محفل کے  آداب کھُلے۔ ص۴۲لاکلام

اس شعر میں ججج واقعہ پنہاں  ہے ، وہ راہیؔ کے  ساتھ گزرا ہے ، اس تعلق سے  اگر موصوف تفصیل سے  نہیں  لکھتے  تو واقعہ تک پہنچنا مشکل تھا۔ راہیؔ صاحب کا آبائی وطن فتح پور اور سسرال کانپور میں  ہے۔ آپ جس زمانے  میں  علی گڈھ میں  ملازمت کرتے  تھے  اکثر اپنے  سسرال کانپور جایا کرتے  تھے  موصوف کے  محکمہ کے  موصوف سے  اعلی عہدہ پر فائز ایک ملازم موتی لال سریوا ستوا تھے۔ انہوں  نے  راہی صاحب سے  لال املی کا ایک کمبل لانے  کا ارادہ ظاہر کیا، اب آگے  کی کہانی راہیؔ کی زبانی ملاحظہ فرمایئے۔

’’اگلی مرتبہ جب میں  نے  موتی لال سے  کانپور جانے  کے  لئے  اجازت مانگی تو سر گوشی کے  انداز میں  کہا کہ وہاں  کی لال املی مِل کے  کمبل کا بڑا نام ہے ، واپسی میں  اچھّی کوالٹی کا ایک کمبل لیتے  آیئے  گا، اس زمانے  میں  لال املی کانپور کا عمدہ کمبل ڈھائی سو روپے  تک میں  مل جاتا تھا۔ حالانکہ بفضلہ تعالی آج اس رقم سے  میری پنشن کوئی تیس گُنا  زیادہ ہے ، لیکن تب یہی رقم میری نصف تنخواہ کے  برابر تھی۔ چنانچہ مرتا کیا نہ کرتا میں  اپنے  باس سے  پیشگی کا سوال کر بیٹھا، جواب میں  وہ ایک معنی خیز مسکراہٹ کے  ساتھ خاموش رہے ، کمرے  میں  بوقت ضرورت قیام کرتے  تھے ، ورنہ وہ آگرہ سے  روزانہ آتے جاتے  تھے ، دفتر میں  پیشگی رقم نہ ملنے  پر شام کو مَیں  ان کے  کمرے  پر دستک دینے  جا پہنچا دروازہ کھُلا اور وہ انگوچھا (تولیہ) میں  لپٹے  ہوئے  برآمد ہوئے  راقم ایک بار پھر ان سے  کمبل کے  لئے  کچھ پیشگی کا خواستگار ہوا، جواب ملا، میاں  جایئے ، حاکم سے  پیشگی ویشگی کا سوال نہیں  کیا جاتا، اتنا کہہ کر موصوف نے  دروازہ بند کر لیا‘‘

(سہ ماہی ’’رنگ‘‘ دھنباد۔ اپریل تا جون ۲۰۰۷ء)

دیکھا آپ نے  کہ بند کمرہ میں  دو آدمیوں  کے  درمیان کتنا رازدارانہ، کڑیل، اڑیل، گاڑھا اور تعفن دار واقعہ وقوع پذیر ہو کر شعر کے  قالب میں  ڈھلا ہے۔ اگر شاعر موصوف اس عقدہ کو حل نہیں  کر تے  تو قارئین  ہاتھ پاؤں  مارتے  رہ جاتے  مگر حقیقت تک شاید نہیں  پہنچتے۔

(۲) آج پھر لکھنا اک اک حرف کو تختی پر مرا

 پھر وہی کل کے  لئے  سب کو مٹا کر رکھنا۔ص۱۶۶لاکلام

شعر میں ججج واقعہ پیش کیا گیا ہے  وہ تاریخ کا ایک باب بن گیا ہے  یا بنتا جا رہا ہے  آج  سے  ۳۵۔ ۴۰ سال پہلے  مکتب ومدرسہ میں  طلباء و طالبات کو لکڑی کی تختی پر حروفِ ابجد اور املا لکھنے  کا مشق کرایا جاتا تھا تاکہ حروف خوش خط ہو جائیں ، لکھنے  کے  کئی طریقے  تھے  ایک طریقہ تو یہ تھا کہ تختی پر مٹٔی لگا دی جاتی اور جب وہ نیم خشک ہو جاتی تو استاد اس پر سرکنڈہ یا کسی دوسری لکڑی کے  قلم سے ا ب ت ث  الخ لکھ دیتے  اور طلباء و طالبات کو اسی پر مشق کرنے  کے  لئے  کہتے ، دوسرا طریقہ یہ تھا کہ استاد چوک سے  تختی پر لکھ دیتے  اور ان حروف پر مشق کرنے  کے  لئے  کہتے ، تیسرا طریقہ یہ تھا کہ کمہار برتن بناتے  وقت ایک چھوٹی ہانڈی میں  پانی رکھتے  ہیں  اس سے  چاک کی مٹی کو نرم کرتے  اور اس مٹی سے  نکلنے  والے  برتن کو صاف کرنے  کے  لئے  بار بار ہانڈی میں  ہاتھ ڈالتے  اور ہاتھ میں  لگی مٹی کو ہانڈی میں  صاف کرتے  ہیں  وہ مٹی سوکھ جانے  کے  بعد، بعض علاقوں  میں  گا بس کہلاتی ہے۔ اس مٹّی کو دوات میں  گھول کر سرکنڈہ کے  قلم سے  لکھتے  تھے۔ چوتھا طریقہ یہ تھا کہ چاول یا کوئی دوسرے  اناج کو تَوا پر جَلا کر روشنائی بنا کر اس سے  لکھا جاتا تھا۔ یہ سبھی طریقے  ایسے  تھے  کہ لکھنے  یا مشق کرنے  کے  بعد تختی کو صاف کر لیا جاتا اور کل ہو کر پھر وہی عمل دہرا یا جا تا، ہو سکتا ہے  کہ یہ طریقے  شاید آج بھی کسی علاقے  میں  رائج ہوں۔ راہیؔ نے  اپنے  شعر میں  انہیں  طریقوں  کا تذکرہ کیا ہے۔

(۳) ہزار دل ہزار جان سے  ہمیں  قبول وہ

 بِنائے  خلق کائنات، آخری رسول وہ۔ ص۱۶لاشعور

حضورﷺ سببِ کائنات ہیں ، اللہ تعالی نے  سب سے  پہلے  آپ کو بنایا اور آپ کے  لئے  کائنات کو بنایا اور تمام نبیوں  اور رسولوں  کے  بعد سب سے  آخر میں  آپ کو مبعوث کیا طہ ویٰسٓ کے  لقب سے  یاد فرمایا اور کہا کہ اگر آپ کو پیدا کرنا مقصود نہیں  ہوتا تو کائنات کی کسی چیز کو نہیں  بنا تا ’’لَوْلَا ْکَ  لَمَاخَلَقْت الْاَفْلَاک‘‘ اگر آپ نہ ہوتے  تو میں  آسمان کو پیدا نہ کرتا، سب کچھ آپ ﷺ کے  باعث ہیں۔

 زمین و زماں  تمہارے  لئے  مکین و مکاں  تمہارے  لئے

 چنین و چناں  تمہارے  لئے  بنے  دوجہاں  تمہارے  لئے (اعلی حضرت)

راہیؔ صاحب کے  شعر کے  آخری مصرعہ میں  اسی واقعہ کا اظہار ہوا ہے۔

(۴) ہمسری اُن سے ججج کرنا چاہے

 اُس کو سولی پہ چڑھا دیتے  ہیں (ص۲۲لاشعور)

شعر میں  واحد کے  لئے  جمع کا صیغہ اور جمع کے  لئے  واحد کا صیغہ کے  عیب کے  باوجود واقعہ سے  بھر پور شعر کو صنعت تلمیح نے  اپنی صف میں  کھینچ لیا ہے ، محبت و عشق کے  راز کو فاش کرنا جرم ہے ، کہا جاتا ہے  کہ عشق حقیقی کا راز فاش کرنے  کے  جرم میں  حضرت خواجہ ابن منصور کو سولی پر چڑھایا گیا، حضرت شمس تبریزی کی کھال کھینچی گئی، حضرت سرمد کو شہید کیا گیا۔ شعر میں  حضرت خواجہ حسین بن منصور کے  قصّے  کی طرف اشارہ ہے  کہ انہوں  نے  ھُوَالحق کے  بجائے  انا الحق کہا تھا اور وہ سو لی پر چڑھائے  گئے ، خواجہ حسین کی کنیت ابوا لمغیث ہے ، آپ کا وطن بیضا ہے ججج فارس کا ایک شہر ہے ، آپ خواجہ عمر بن عثمان مکّی کے  مرید تھے ، صاحبِ ریاضات  و کرامات، بلند ہمّت اور رفیع القدر تھے ، اٹھارہ سال آپ اپنے  پیر و مرشد کی صحبت میں  رہے ، حضرت خواجہ جنید بغدادی سے  بھی سلوک و خلوت کی تعلیم حاصل کی، بغداد، حجاز مقدس، خراسان، سیستان،ا ہواز، بصرہ، مکّہ معظّمہ، مدینہ منورہ، بلادِ روم، ہندوستان، چین، ماوراء النہر وغیرھم ملکوں  میں  پہنچ کر لوگوں  کو تصوف کی تعلیم دی، روزانہ چار سو رکعت نفل ادا کرتے  تھے۔ پچاس سال تک ہر نماز کے  لئے  غسل کرتے  تھے۔ انا الحق کی صدا لگانے  کی پاداش میں  خلیفہ معتقد کے  حکم سے  قید خانہ میں  بند کر دیا گیا۔ تقریباً ایک سال پانچ مہینے  قید خانہ میں  رہے ، قید خانہ میں  روزانہ ایک ہزار رکعت نفل پڑھتے  تھے  لوگوں  نے  کہا آپ کہتے  ہیں  کہ میں  حق ہوں  پھر یہ نماز کس لئے  پڑھتے  ہیں ، فرمایا ہم جانیں  اور ہمارا کام، بادشاہ نے  حکم دیا  پہلے  اس کو لکڑی سے  مارو اگر باز آ جائے  تو ٹھیک ورنہ قتل کر دو۔ جب آپ کے  جسم پر لکڑی گرتی تھی تو صاف آواز سنائی دیتی تھی ’’لاتَخَفْ یا ابن منصور‘‘ اے  منصور ڈرو مت، آپ نے  اپنے  خادم کو وصیت کی کہ مجھ کو سولی پر چڑھا نے  کے  بعد لوگ میری نعش کو جلائیں  گے  اور راکھ کو دریائے  دجلہ میں  ڈالیں  گے  اس وقت دریا میں  جوش پیدا ہو جائے  گا۔ جس سے  شہر بغداد غرق ہو جائے  گا۔ اس وقت میرا خرقہ دریا پر لے  جانا جس سے  دریا کا جوش ختم ہو جائے  گا۔

جب آپ کودار پر لے  جایا گیا تو ہزاروں آدمیوں  کا مجمع موجود تھا،ججج شخص بھی آنکھ اٹھا کر آپ کو دیکھتا تھا، بے  اختیار اس کی زبان سے  حق حق انا الحق کی صدا بلند ہو جاتی تھی، دار پر کھڑا کر کے  پہلے  آپ کو پتھر مارے  گئے  پھر ہاتھ پاؤں  کاٹے  گئے ، آنکھیں  نکالی گئیں ، پھر سولی دی گئی، آپ کے  جسم سے ججج خون کا قطرہ زمین پر گرتا تھا اس سے  خود بخود زمین پر ’’حق‘‘ نقش ہو جاتا تھا پھر اس نقش سے  اناالحق کی آواز آتی تھی، ۳۰۹ھ؁ میں  یہ واقعہ ظہور پذیر ہو کر تاریخ کا باب بن گیا ہے (ماخوذ مرأت الاسرار، مولف شیخ عبدالرحمٰن، ترجمہ!مولانا واحد بخش سیال چشتی)

 (۵) ایک ہستی مری عناصر چار

 ہر طرف سے  گھری سی رہتی ہے (ص۷۲لاشعور)

اللہ تبارک و تعالیٰ نے  انسان کے  قالب کو چار عناصر مٹّی، پانی، ہوا اور آگ سے  بنا یا ہے۔ حیرت کی بات ہے  کہ چاروں  آپس میں  ضدّین ہیں  مگر چاروں  ایک جگہ رہ کر بدن کے  نظام کو قائم رکھّے  ہوئے  ہیں۔ اس پر حیرت کا اظہار کرتے  ہوئے  حضرت حسنؔ رضا بریلوی کہتے  ہیں ؂

چار اضداد کی کس طرح گرہ باندھی ہے

 ناخنِ عقل سے  کھُلتا نہیں  عقدہ تیرا

مشیت نے  ان چاروں  ضدّین کے  مطابق چار طبائع کو پیدا فرمایا، حرارت، رطوبت، برودت، یبوست، جب اللہ تعالی کی مشیت بدن کے  مزاج کو اعتدال پر رکھنا چاہتی ہے  تو معدے  کی تمام طبائع اپنی متضاد اخلاط کو غذا سے  اخذ کر لیتی ہے  یعنی معدے  کی حرارت غذا سے  برودت کو اخذ کرتی ہے  اور رطوبت، یبوست کو حاصل کرتی ہے  اور جب اللہ تعالی کی مرضی ہوتی ہے  تو ہر طبع یعنی خلط، غذا سے  بجائے  مخالف جنس کے  ہم جنس کو اخذ کرتی ہے  ایسی صورت میں  مزاج درہم برہم ہو کر جسم کو بیمار کر دیتا ہے۔ انہیں  چاروں عناصر سے  جسم گھرا ہوا ہے۔ جس کا تذکرہ شعر میں  کیا گیا ہے  یہ قدرت کا نظام ہے  کہ یبوست میں  سوداکو، رطوبت میں  صفرا کو، حرارت میں  خون یا بادی کو، برودت میں  بلغم کو جگہ دی ہے۔ چار عناصر سے  انسان کی تخلیق کا واقعہ مذہبی دنیا میں  مشہور اور محیرالعقول ہے ، جس کا ذکر شعر میں  کیا گیا ہے۔

(۶)چاند پر رکھ چکا  قدم  راہی ؔ

 اب ہے  باری کسی ستارے  کی(ص۸۲ لاشعور)

شعر کے  پہلے  مصرعہ میں  سائنسدانوں  کے  چاند پر جانے  کے  واقعہ کی طرف اشارہ ہے ، بیسویں  صدی کا یہ حیرت انگیز واقعہ کہ پڑھنے  اور سننے  والے  مبہوت ہو گئے  تھے  کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے ؟کیونکہ قدیم فلاسفہ اہل یونان بطلیموس وغیرہ کا کہنا تھا ’’چاند پہلے  آسمان کے  ثخن میں  ہے  اور آسمان ناقابل خرق و التیام ہے۔ اس میں  کوئی دروازہ بھی نہیں  ہے ، اس لئے  انسان کا چاند پر پہنچنا ممکن نہیں  ہے ‘‘ لوگ اسی فلسفہ کو پڑھتے  اور سنتے  آ رہے  تھے۔ جدید فلاسفہ یورپ گلیلیو وغیرہ کا کہنا تھا کہ انسان کا چاند پر پہنچنا ممکن ہے  اور جب اس پر عمل ہونے  کا دعوی ہوا تو لوگوں  کا متعجب ہونا لازمی تھا، کہیں  حیرت کے  ساتھ خوشی، کہیں  خوشی کے  ہمراہ حیرت گلے  مِل رہی تھی، اس نئے  واقعہ نے  تحقیق کا باب کھُلوایا، پھر تحقیق پر تحقیق ہونے  لگی، کہیں  تحقیق پر تنقید کی ضربیں  لگنے  لگیں ، بعض نے  اس واقعہ کو کذب و افترا بتایا، بعض نے  لغو و فضول کہا، مذہب کی روشنی میں  محققین کی ایک جماعت نے  کہا کہ چاند آسمان میں  ہے ، یعنی آسمان سے  نیچے  توجاسکتا ہے ، اس پر تنقید کی شکل میں  یہ باتیں  سامنے  آئیں  کہ کرۂ ہوا کے  بعد کرۂ زمہریر اور کرۂ نار کو خلا بازوں  نے  کیسے  پار کئے ؟ان کا بھی مثت جواب لکھا گیا، راہیؔ صاحب کے  شعر کا دوسرا مصرعہ مستقبل کی پیشین گوئی کے  طور پر ہے  مگر وہ بھی پوری ہو چکی ہے  کہ مریخ پر پہنچے  کا دعوی ہو چکا ہے ، اس کے  آگے  جہاں  اور بھی ہے ، آگے  آگے  دیکھئے  ہوتا کیا ہے۔

آدمی چاہتا ہے  ابججج خلا میں  رہنا

دیکھیں بنیاد عمارت کی کہا ں رکھتا ہے (راہی)

 (۷)ایسی کہاں  کسی کو بلندی ہوئی نصیب

لینے  کو اک بشر کے  قدم آسماں  اُٹھا(ص۹۰لاشعور)

اس شعر میں  واقعۂ معراج النبی ﷺ کی جانب اشارہ ہے۔ کسی نبی، کسی رسول کو یہ بلندی نصیب نہیں  ہوئیججج ہمارے  آقا ﷺ کو نصیب ہوئی۔ رات کے  تھوڑے  سے  حصّے  میں  مسجد حرام سے  مسجد اقصیٰ پہنچ کر تمام انبیاء کرام کی موجودگی میں  امام بن کر نماز کی اما مت فرمائی، حضرت جبرائیل علیہ السلام براق پر سوار کر کے  ستّر ہزار فرشتوں  کی جھرمٹ میں  آپ کو لے  گئے ، پھر وہاں  سے  سدرۃ المنتہیٰ، ساتوں  آسمانوں ، جنت و دوزخ کی سیر، عرش وکرسی و دیگر چیزوں  کو دیکھتے  ہوئے  لامکاں  میں  خدائے  تعالی سے  ملاقات و گفتگو کا شرف حاصل فرمایا؂

 تبارک اللہ شان تیری تجھی کو زیبا ہے  بے  نیازی

کہیں تو وہ جوش لن ترانی کہیں  تقاضے  وصال کے  تھے

اے  اللہ تو بزرگ و برتر و بالا ہے۔ بے  نیازی تجھی کو زیب دیتی ہے۔ اے  صمد جلِّ جلا لہٗ،  موسٰی علیہ الصلوٰۃ و السلام کے  ربّ ارنی (اے  رب تو مجھے  اپنا جلوہ دکھا، دیدار کرا دے  ) کے  جواب میں  لن ترانی ’’تو ہرگز نہیں  دیکھ سکتا‘‘ فرماتا ہے۔ اپنے  محبوب ﷺ کو پیار سے  محبت سے  شوق سے  کہتا ہے  جیسا کہ شاعر نے  کہا ہے ؂

یہی ہے  وقت حصول مقصد خدا ہے  خود خواستگارآمد

وصال کا شوق ہے ججج بے  حد تو حکم پر حکم ہے  موکد

طلب پر تاکید کد پر ہے  کد کہ جلد آ اے  شہ ہوید

بڑھ اے  محمّد قریں  ہو احمد قریب آسرور مُمَجَّدْ

نثار جاؤں  یہ کیا ندا تھی یہ سماں  تھا  یہ کیا مزے  تھے

 (تضمین بر کلام احمد رضاؔ ، تضمین نگار مولانا محمّد حسن اثر بدایونی )

ایسی عزّت، ایسی توقیر، ایسی تمکنت، ایسی بلندی کسی کو نصیب نہیں  ہوئیں  کہ  ؂

 محیط و مرکز میں  فرق مشکل رہے  نہ فاصل خطوط واصل

 کمانیں  حیرت میں  سرجھکائے  عجب چکر میں  دائرے  تھے (احمد رضا)

’’محیط:۔ گھیرنے  والا۔ چکر:۔ دائرہ۔ مرکز:۔ درمیان، دائرہ کا سنٹر

’’فصل:۔ جدا کرنے  والے ، فرق کرنے  والے۔ خطوط:۔ لکیریں  سیدھی۔ اصل :۔ ملے  ہوئے۔ شامل۔ کمانیں :۔ بانس کو خم دے  کر بنا تے  ہیں  جس سے  تیر چلاتے  ہیں۔ حیرت :۔ تعجب، انوکھے۔ دائرے :۔ گول چکر

مطلب یہ ہے  کہ، جس نقطہ پر پرکار کو رکھتے  ہیں  اس کو مرکز کہا جاتا ہے ، اورججج دائرہ کھینچا جاتا ہے  اس کو محیط کہتے  ہیں۔ محیط محمّد رسول اللہ ﷺ، مرکز ذاتِ خدا تھی اور ان میں  کوئی فرق و جدائی نہیں  رہی تھی، ملنے  والے  خطوط میں  کوئی تفریق نہیں  رہی تھی وہ آپس میں  مل کر ایک ہو گئے  تھے۔ دونوں  کمانیں  حیرت کے  عالم میں  سرجھکائے  ہوئے  تھیں  اور دائرے  خود چکر میں  پڑ گئے  تھے۔ فرماتا ہے ’’فَکَاْن قَاْ بَ قَوْ سَیْنِ اَوْ اَدْنٰی‘‘ وہ دو کمانیں  یا اس سے  بھی کم فاصلے  پر تھے۔ عبد کی معبود میں  ایسی فنائے  کامل تھی کہ تفریق مشکل تھی ؂

من تو شدم تو من شدی من تن شدم تو جاں  شدی

 تا کس نہ گو ید بعد ازیں  من دیگرم تو دیگری

میں  توٗ ہو گیا تٗو مَیں  ہو گیا مَیں  جسم ہو گیا تٗو میری جان روح ہو گیا جب تک کوئی دوسرا نہ کہے  میں  اور ہوں  تو اور ہے  ہم دونوں  ایک ہیں۔ اسی لئے  اللہ تعالی نے  آپ کو اپنا ہاتھ فرمایا۔ آپ کی بیعت کو اپنی بیعت فرمایا صحابہ کے  ہاتھوں  پر حضور ﷺ کا ہاتھ تھا مگر اللہ  تعالی نے  یَدُاللّہِ فَوْ قَ اَیْدِیْھِمْ۔ اللہ کا ہاتھ ان کے  ہاتھوں  پر ہے  اور حضور ﷺ نے  فرمایا مَن رانی فقد راء الحق۔ جس نے  میری زیارت کی اس نے  اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا۔ اگر ایک قطرہ پانی سمندر میں گر گیا تو آپ اس کوسمندر ہی کہیں گے  حالانکہ قطرہ اس  میں موجود ہے  ایسے  ہی آپ فنا میں جا کر بقا حاصل کر چکے  تھے۔ نور، نور میں مدغم ہو گیا تھا۔

(سخن رضا مطلب ہائے  حدائق بخشش۔ مولانا صوفی محمد اول قادری رضوی سنبھلی)

ایک دفعہ پھر راہیؔ کا مذکورہ شعر پڑھ کر مزہ دوبالا کیجئے  کہ ایسی بلندی کسی کو نصیب نہیں  ہوئی  ؂

(۸)ہر قدم پھونک کے  رکھیئے  کہ سنا ہے  راہیؔ

 اب  ہدایت کو نہ آئے  گا پیمبر کوئی  (ص۳۲ حرف مکرّر)

شعر میں  ختم نبوت کا عقیدہ عیاں  ہے۔ اللہ تعالی نے  آپ ﷺ کو مبعوث فرما کر نبوت ورسالت کا سلسلہ بند کر دیا۔ آپ کی نبوت کے  بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی، آپ کا آخر الانبیاء ہونا قطعی اور قرآن پاک سے  ثابت ہے ’’وَلٰکِنْ رِّسُوْلَ اللّہِ وَخَاتَمَ النَبِیّٖنَ‘‘ ترجمہ!ہاں  اللہ کے  رسول ہیں  اور سب نبیوں  کے  پیچھے  ‘‘ اور صحاح کی بکثرت احادیثججج حد تواتر تک پہنچتی ہیں  ان سب سے  ثابت ہے  کہ حضور ﷺ آخرالانبیاء ہیں ، چنانچہ بخاری کتاب المناقب باب خاتم النبین میں  ہے  کہ حضور ﷺ نے  فرمایا کہ ’’میرا اور مجھ سے  پہلے  گزرے  ہوئے  انبیاء کی مثال ایسی ہے  جیسے  ایک شخص نے  ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی مگر ایک کونے  میں  ایک اینٹ کی جگہ چھُوٹی ہوئی ہے ، لوگ اس عمارت کے  اِرد گِرد پھرتے  اور اسکی خوبصورتی پر حیران ہوتے  مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے  کہ اس جگہ اینٹ کیوں  نہ رکھی گئی، تو وہ اینٹ میں  ہوں  اور میں  خاتم النبین ہوں ‘‘

مسلم، ترمذی اور ابن ماجہ کی روایت ہے  کہ ’’رسول کریم ﷺ نے  فرمایا مجھے  چھ باتوں  میں  انبیاء پر فضیلت دی گئی (۱) مجھے  جوامع الکلم سے  نوازا گیا، یعنی الفاظ مختصر اور معانی کا بحرِ بے  پیدا کنار (۲)رعب کے  ذریعے  میری مدد فرمائی گئی(۳)میرے  لئے  غنیمت کا مال حلال کیا گیا (۴) میر ے  لئے  ساری زمیں  کو مسجد بنا دیا گیا اور اس سے  تیمم کی اجازت دی گئی(۵)مجھے  تمام مخلوق کے  لئے  رسول بنایا گیا اور(۶)میری ذات سے  انبیاء کا سلسلہ ختم کر دیا گیا‘‘

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے  فرمایا اللہ تعالی نے  کوئی نبی نہیں  بھیجا جس نے  اپنی امت  کو دجّال کے  خروج سے  نہ ڈرایا ہو۔ اب میں  آخری نبی ہوں  اور تم آخری امّت ہو وہ ضرور تمہارے  اندر ہی نکلے  گا۔ ابن ماجہ ابو داؤد۔ کتاب الفتن میں  حضرت ثوبان سے  مروی ہے  کہ رسول اللہ ﷺ نے  فرمایا کہ ’’میری امّت میں  تیس کذّاب ہوں گے۔ جن میں  سے  ہر ایک یہ دعوی کریگا کہ وہ بنی ہے  حالانکہ میں  خاتم النبیین ہوں۔ میرے  بعد کوئی نبی نہیں ‘‘

 (بحوالہ تفسیر ضیاء القرآن جلد چہارم ص۷۰تا ص۷۱ سے  ماخوذ)

ان احادیث پاک کی روشنی میں  شاعر موصوف نے  بالکل سچ کہا ہے  کہ ’’اب ہدایت کو نہ آئے گا پیمبر کوئی‘‘ ہادی برحق حضور ﷺ نے  ہدایت کا مینارا کھڑا کر دیا، منبع جاری فرما دیا، آئینہ سامنے ر کھ دیا، کھرے  کھوٹے  کو الگ کر دیا، حق و باطل کی پہچان کرا دی، نیکی و بدی کی نشان دہی فر ما د ی، اللہ تعالی نے  آپ کے  توسط سے  دین کو مکمل کر دیا۔ صنعت تلمیح کے  تئیں  راہیؔ کا یہ اچھوتا اور اعلی درجہ کا شعر ہے  کہ ختم نبوت کے  عنوان پر اس شعر کو موضوع بنا کر طویل اور عمدہ مضمون رقم کیا جاسکتا ہے۔

(۹)راہ  پر آنے  کا انسان کے  امکان  تو ہے  

راستہ بھول گیا ہے  تو پریشان تو ہے (ص۴۸ حرف مکرّر)

شعر میں  جیتے  جاگتے ، چلتے  پھرتے ، عقل و خرد کے  پیکر انسان کے  اس قصّے  کا تذکرہ ہے ، جس کو چھوڑ دیا ہے  اورججج چھوڑنے  کی  چیز تھی اس کو اپنا لیا ہے  ’’راہ بھول گیا ہے ‘‘ کونسی راہ بھول گیا ہے ؟ فرض و واجب وسنن کی راہ، فکر و عمل کی را ہ، حق و دیانت و امانت کی راہ، راست گوئی و پاکبازی کی راہ، ادب و عقیدت کی راہ، انسان تو انسان ہے۔ جانور بھی راہ بھول جاتا ہے  تو وہ پریشان ہو جاتا ہے۔ اس تعلق سے  ایک حکایت ملاحظہ فرمایئے۔ ایک شیرنی نے  ایک بچّہ کو جنم دیا اور اس کے  چند دنوں  کے  بعد  وہ مر گئی۔ اب وہ بچّہ دودھ پینے  کے  لئے  پریشان تھا اسی جنگل میں  بکریوں  کا ریوڑ آ پہنچا، بچّہ بکریوں  کے  قریب پہنچا، انہیں  کے  ساتھ رہنے  لگا بکریوں  ہی کا دودھ پیتا، آ ہستہ  آہستہ بکریوں  کی بولی بولنے  لگا، بچپن سے  نکل کرججج انی میں  قدم رکھ دیا، اپنی شناخت بھول چکا تھا وہ اپنے  کو شیر نہیں  بلکہ بکری سمجھتا تھا، اتفاق سے  ایک روز ایک بوڑھا شیر اس طرف پہنچا، دیکھا میری قوم کا ایک نوجوان بکریوں  کے  ساتھ رہتا، انہیں  کی بولی بولتا انہیں  کے  ساتھ کھاتا پیتا سوتا جا گتا ہے ، یہ دیکھ کر بوڑھے  شیر کو افسوس ہوا، نوجوان شیر کو اپنے  قریب بلا کر کے  کہا کہ تم شیر ہو اور بکر یوں  کے  ساتھ بود و باش اختیار کئے  ہو آخر معاملہ کیا ہے  ؟نوجوان شیر نے  کہا تم کیسی باتیں  کرتے  ہو میں  شیر نہیں  بکری ہوں ، بوڑھا شیر تاسف کی حالت میں  واپس ہو گیا۔ مگر اپنی قوم کے  ایک فرد کی پستی پر سوچتا رہا آخر اس کے  ذہن میں  ایک بات آئی، دوبارہ نوجوان شیر کے  پاس پہنچا اور بو لا تم اپنے  کو بکری کہتے  ہو اور میں  تم کو شیر کہتا ہوں  اور تم شیر ہی ہو مگر تم میری بات نہیں  مانتے  ہو، چلو میں  تم کو آئینہ دکھاتا ہوں  تمہاری شکل میری شکل سے  مل گئی تو تم اپنے  کو شیر مانو گے  نا؟نوجوان تیار ہو گیا دونوں  ایک نہر کے  کنارے  پہنچے ، پانی میں  جھانک کر جب نوجوان نے  اپنی شکل کو بوڑھے  شیر کی شکل سے  ملا یا تو شکل مل گئی اور بول پڑا کہ میں  شیر ہوں ، وہیں  سے  چھلانگ لگا کر بکر یوں  کو شکار کر کے  اپنا لقمہ بنا لیا۔

انسان بھی اسی شیر کی طرح انسانیت، ہمدردی، محبت، اخوت، مذہب، تہذیب تمدن، کاراستہ بھول چکا ہے۔ کسی بڑے ، بوڑھے ، بزرگ کی بات ماننے  کیلئے  راضی نہیں ہوتا ہے۔ اسلاف کے  اخلاق و کردار، بزرگی وپارسائی کے  آئینے  میں دیکھنے  پر رضا مند نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ اپنی بد اخلاقی، بدکرداری اور بے  راہ روی کے  سانچے  میں دوسروں  کو اتارنے  کیلئے  کوشاں رہتا ہے ، ایسے  انسان کو کون سمجھائے ، کون سا آئینہ دکھلایا جائے ، وہ تو خود کوسب سے  بہتر آئینہ سمجھتا ہے۔۔ججج خود کو آئینہ نہیں سمجھتا ہے  اس کے  یہاں  حیلہ و حجت بہت ہیں۔ عقل و فکر و تخیل و دانائی کی قوت کو غلط را ستے پر لگا دینے  کے  نتیجہ میں معاملہ یہاں تک پہونچا ہے  کہ ’’خود کردہ را علاجے  نیست‘‘ اپنے  کیے  کا کو ئی علاج نہیں۔ تو پریشان توہے۔ مصرع کا یہ حصّہ بھی خوب ہے۔

اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابھُُمْ۔ کی تفسیر میں مفسر قرآن پیر محمد کرم شاہ صاحب رقم طراز ہیں کہ ’’

انسان کی فطرت سعید ہے  اس لئے  طبعاً وہ نیکی کو پسند کرتا ہے  اور حق کو قبول کر کے  اس کو اطمینان  اور خوشی ہوتی ہے۔ لیکن اگر غلط تربیت، بگڑے  ہوئے  ماحول یا حالات کے  تقاضوں  کے  پیشِ نظر وہ راہِ راست سے  بھٹک جاتا ہے  تو اس کی سعید فطرت بغاوت پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ اس کا  ضمیر اسے  سر زنش کرتا ہے  اور یہ سر زنش بڑی تلخ اور تیز ہوتی ہے۔ پھر یا تو انسان اپنی اصلاح کر لیتا ہے  اور اگر ایسا نہیں  کر سکتا تو پھر دل سے  اٹھنے  والی پیہم صدائے  احتجاج کو خاموش کرنے  کے  درپے  ہو جا تا ہے  اور اس کی طرف سے  غفلت برتنے  لگتا ہے۔ حتیٰ کے  وہ آواز خاموش ہو جاتی ہے  یا اس آواز کے  سننے  والے  کان بہرے  ہو جاتے  ہیں۔ اس طرح وہ گناہ میں  لذّت محسوس کرنے  لگتا ہے ،وہ دوسروں  کو اپنے  ظلم کی تلوار سے  تڑپتے  دیکھ کر لطف اندوز ہوتا ہے  اور غفلت ونسیان کا پردہ اتنا دبیز ہوتا ہے  کہ اس کی آنکھیں  انجام کی ہولناکیوں  کو بھی نہیں  دیکھ سکتیں۔ اس کی غفلت اس کے  لئے  بڑا سہارا ثابت ہوتی ہے  اور بڑے  اطمینان سے  ہر گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے  کہ کیا وہ غفلت اور خود فراموشی اسے  ہولناک انجام سے  بچاسکتی ہے۔ جب مہلت کی گھڑیاں  ختم ہو جائیں  گی تو کیا اسے  کوئی ایسا گوشہ مل سکے  گا، جہاں  وہ چھُپ جائے  اور اس کی کسی کو خبر نہ ہو۔ اس لئے  خیر خواہی کا تقاضا یہ نہیں  کہ آپ غفلت کی چادر تان کر سورہے  ہوں۔ خطرات کا گھیر تنگ ہو رہا ہو اور اس خیال سے  آپ کو جھنجھوڑا نہ جائے  کہ آپ کی آنکھ کھُلے  گی اور اپنے  ما حول کی سنگینی کا مشاہدہ کر کے  آپ پریشان ہون گے۔ بلکہ خیرخواہی کا تقاضا یہ ہے  کہ آپ کو جگایا  جائے ، آپ کو جھنجھوڑا جائے  اور اگر پھر بھی آپ کی آنکھ نہ کھولیں  تو غفلت کی چادر نوچ کر پھینک دی جائے  تاکہ بروقت ہوشیار ہو کر آپ اپنا بچاؤ کر سکیں (تفسیر ضیاء القرآن جلد سوم ص۱۵۱)

مذکورہ بالا مختصر سی تشریحات کی روشنی میں  ہر انسان یہ دیکھ سکتا ہے  کہ انسانیت و اخلاقیات کی باگ و ڈور اس کے  ہاتھوں  میں  ہے  یا چھوٹ گئی ہے ، اگر ہے  تو ٹھیک ہے  نہیں  ہے  تو تھامے ،ا  س کی پریشانی کا علاج یہی ہے۔ پھر شاعر موصوف کا گمان یقین میں  بدلے  گا کہ ’’راہ پر آنے  کاا نسان کے  امکان تو ہے۔

(۱۰)کاریگری دکھا کے  میں  ہو جاؤں  الگ

 لڑتا رہے  گا آخری  پتّا  ہواؤں  سے (ص ۱۵۴ حرف مکرّر)

ایک واقعہ کی طرف اشارہ ہے  جس پر ایک نوجوان مریض نے  یہ یقین کر لیا تھا کہ اس کے  سامنے  والی کھڑکی سے  لگا ہوا درخت کا آخری پتّا گرتے  ہی اس کی موت واقع ہو جائے  گی۔ چنانچہ اس کے  ایک جگری دوست نے  رات میں جب مریض محو خواب تھا اس درخت کے  آخری  پتّا(جو گرنے  ہی والا تھا)کی جگہ اسی سائز اور رنگ کا مصنوعی پتّا بنا کر آویزاں کر دیا تھاججج تیز  ہواؤں میں  بھی نہیں  گرا اور نوجوان مریض کو یقین ہو گیا کہ اس کی موت ابھی نہیں آنے  والی چنانچہ قوت مدافعت سے  اس کی صحت بحال ہو گئی۔

(۱۱)ابججج آزاد ہوئے  ہیں تو خیال آتا ہے۔۔

کہ ہمیں  قید بھلی تھی توسزاکیسی تھی( ص۱۳۷حرف مکر ر) 

ہندوستان کو آزاد ہوئے  ساٹھ برس ہو رہے  ہیں۔ انگریزوں  کی غلامی کو ہم قید سمجھتے  تھے  اور تھی قید، لیکن آزاد ہونے  پر ہماری حالت ایسی خراب اور ایسی دگردوں  ہو رہی ہے  کہ ہم سو چنے  لگتے  ہیں  کہ غلامی کی قید ہی اچھی تھی اور اگر قید ہمیں  بھلی تھی تو ہم سزا کس جرم کی کاٹ رہے  تھے  ؟ شعر میں  تاریخی، ملکی و ملی واقعہ کی جانب اشارہ ہے ججج حقیقت بر مبنی ہے۔

(۱۲)اب یہاں  میں  کسی گنتی میں  نہیں  ہوں  شاید

 ورنہ اس عالم ہوٗ میں  تنِ تنہا تھا کبھی(س۱۰۹ حرف مکرّر)

گنتی میں  نہ لانا!گنتی میں  نہ ہونا۔ محاورہ ہے ، یعنی حساب میں  نہ لانا، کنایتاً قدر نہ ہونا:۔ بنی آدم کیاس کثرت میں  ہماری نہ قدر ہے  نہ عزّت، ہم نے  اپنی شناخت چھوڑ دی تو غیروں  نے  ہمارا شمار  چھوڑ دیا ہے ، وسیع عریض زمین ہم پر تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ حالانکہ ہمارے  باپ حضرت آدم علیہ السلام جب زمین پر اتار ے  گئے  تو تنِ تنہا تھے ، تفکر و تردّد کے  عالم میں  روتے  تھے ، عالم ہوٗ میں گھبراتے  تھے ، لیکن زمیں  و آسمان، حور و ملک، شجر و حجر، بحر و بر اور عالم کا ذرہ ذرہ آپ کو قدر کی نگاہوں  سے  دیکھتے  تھے۔ اہم تاریخی واقعہ کے  ساتھ اپنی ذات کا تجزیہ اور محاسبہ کرنے  کے  لئے  عمدہ شعر ہے۔

(۱۳)  مری گرفت میں  ہے  طائرِ خیال مرا

مگر اڑائے  لئے  جا رہا ہے  جال مرا(ص ۱۰۶ حرف مکرّر)

صیاد کے  دام میں  گرفتار پرندے  مل کر جال لے  اڑتے  ہیں  اسی طرح سے  شاعر یہ کہنا چاہتا ہے  کہ میں  بحیثیت صیاد اور میرے  خیال یعنی پسند کا طائر میرے  خیال کی گرفت میں  ہے  مگر طائر ہے  کہ میرا جال اڑائے  لئے  جا رہا ہے۔

(۱۴) آنکھ ہی آنکھ نظر آتی ہے  ہر سمت مجھے

اب کہاں  چوک کے  جائے  گا نشانہ میرا(ص ۹۹ حرف مکرّر)

ارجُن کے  گرو جی (استاد)نے  جب ارجن کو مصنوعی چڑیا کی آنکھ پرتیر کا نشانہ سادھنے  کو کہا تو پوچھا تمہیں کیا نظر آ رہا ہے ، ارجن بولے۔ !مجھے  صرف آنکھ نظر آ رہی ہے۔ اس پر گرو جی نے  کہا،  چھوڑ تیر اب تمہارا نشانہ چوکنے  والا نہیں ہے۔ شاعر موصوف کو بھی صرف اپنی منزل اپنا مقصود و مراد نظر آ رہا ہے  اور ہر جانب یہی منظر دیکھ رہا ہے  کہ اب میرا نشانہ چوک کرکدھرجاسکتا ہے۔

 (۱۵)بُن دیا مشیّت نے  جال میری را ہوں  میں

اب پتہ نشاں  میرا کون پانے  والا ہے (ص حرف مکر ر)

غار ثور کے  واقعہ کی جانب ہے  کہ جب حضورﷺ کو ہجرت کا حکم ہوا تو حضور ﷺ نے  اپنے  بستر پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سونے  کا حکم فرمایا تاکہ لوگوں  کی امانتیں  ان کے  مالک تک پہنچا دیں۔ اور حضور ﷺ اپنے  گھر سے  شاھت الوجود فرماتے  ہوئے ، دشمنوں کی آنکھوں  میں  دھول جھونکتے  ہوئے  ان کے  درمیان سے  نکل آئے ، حضرت ابوبکر صدّیق رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیا اور غار ثور میں  قیام فرمایا، تھوڑی دیر کے  بعد دشمنوں  کی جماعت اسی پہاڑ پر پہنچی، اتنی ہی دیر میں اللہ  تعالی کی قدرت سے  غار کے  منھ پر مکڑی نے  جالا تان دیا اور کبوتری نے  انڈے  دے دیئے ، یہ دیکھ کر دشمنانِ حضور ﷺ نے  کہا اس غار کے  اندر اگر کوئی ہوتا تو یہ جالا اور انڈے  سلامت کیسے  رہ سکتے  تھے ، یہ مکڑی کا جا لا تحفظ کا قلعہ بن گیا۔ امام احمد رضا ؔ کہتے  ہیں ؂  

جان ہیں  جان کیا نظر آئے کیوں  عدو گردِ غار پھرتے  ہیں

 (۱۶)  بلّیوں  اُچھلا تھا جب چاند نے  ڈالی تھی نظر

میں  نے  پتھر بھیججج پھیکے  تو سمندر نہ اُٹھا(ص حرف مکرّر)

سمندر میں مد و جزر کا عمل چاند کے  جذب و حرکت سے  ہوتا ہے  اور سمندر بلیّوں  اچھلنے  لگتا ہے۔

اس سلسلہ میں  اعلی حضرت مولانا احمد رضا کی تحقیق ملاحظہ فرمایئے ’’ہر شبانہ روز میں  دو بار سمندر میں  مد و جزر ہوتا ہے  جسے  جوار بھاٹا کہتے  ہیں ، پانی گزوں  یہاں  تک کہ خلیج فوندی میں  نیز شہر بر ستول کے  قریب جہاں  نہر سفرن سمندر میں  گرتی ہے  ستّر فٹ تک اونچا اٹھتا پھر بیٹھ جاتا ہے  اور جس وقت زمین کے  اس طرف اٹھتا ہے  ساتھ ہی دوسری طرف بھی یعنی قطر زمین کے  دونوں  کناروں  پر ایک ساتھ مد ہوتا ہے  یہ جذب قمر کا اثر ہے  و لہذا جب قمر نصف النہار پر آتا ہے  اس کے  چند ساعت بعد حادث ہوتا ہے  (فوزِ مُبیں  دَرْ ردِّحرکت زمین ص۵۰) 

انہیں  باتوں  کو شاعر کا تخیل اپنی گرفت میں  لے  کر کہا ہے  کہ وہاں  چاند کے  ایک نظر پر سمندر بلیّوں  اچھلنے  لگتا ہے  اور میرے  پتھّر پھینکنے  پر وہ اسی طرح کیوں  حرکت نہیں  کرتا، مشتعل نہیں  ہوتا ہے۔ اس واقعہ کے  ضمن میں  راہیؔ کے  اس شعر کو بھی دیکھا جاسکتا ہے ؂

اگر وہ چاند ہے  تو آزما کر دیکھ لے  مجھ کو

 سمندر سے  نہیں  کچھ کم اشارہ چاہنے  والا(ص لاشعور)

٭

 (۱۷)مجھ  پر  نہ کوہکن ہوا  مامور کس لئے

 ہوں  جوئے  شیر پھر بھی ہوں  محصور کس لئے (ص لا کلام)

فرہاد کی کوہ کنی سے  جوئے  شیر برآمد ہوئی، شاعر کی شخصیت بھی جوئے  شیر کی طرح ہے ، مگر اسے  کوئی کوہ کن یا اہلِ ہنر میّسر نہیں  ہے ججج گمنامی کے  حصار کو توڑ کر اسے  منصۂ شہود پر لے  آئے۔

(۱۸)سامنے  جب کوئی لشکر آیا

 آئینہ  لے  کے  سکندر آیا (ص لاکلام)

سکندر نے  آئینہ ایجاد کیا، سکندر فاتح اعظم اورزبردست عسکری قوت کا مالک تھا، اس کے  مقابلے  پر کوئی ہیچ مداں  لشکر اگر آتا تو جواباًسکندر آئینہ لے  کر اس مقابل لشکر کو دکھا نے  آتا تاکہ وہ اپنی حیثیت کو اس آئینہ میں  دیکھ لے  اور سکندر کو پہچان لے  کہ وہ آئینے  کا موجد ہے  کوئی معمولی آدمی نہیں  ہے۔

(۱۹) پینے  والا ہو گا اب سقراط کوئی

ہم نے  اتنا زہر ندی میں  گھول دیا(ص ۱۱۰ لاکلام)

سقراط نے  زہر پیا تھا یہ جان کر کہ ایک دن موت کا واقع ہونا ضروری ہے ، آج کی ندیوں کے  پانی کو ہم نے  اس قدر گندہ، تعفن آمیز اور زہریلا بنا دیا ہے  کہ اس کو پی کر جاں  بر ہونا مشکل ہو گیا ہے۔ اب تو کوئی سقراط ہی ندی کے  زہریلے  پانی کو پی سکتا ہے  جسے  اپنی موت کا خوف نہ ہو، ماحولیات سے  متعلق عمدہ شعر ہے۔

 (۲۰) وہ ایک ضرب لگا کر گیا اس پار

تڑپ کے  رہ گیا دریائے  نیل اپنی جگہ(ص۲۷لاشور)

حضرت موسٰی والصلوۃ والسلام کو جب حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو لے  کر راتوں  رات ہجرت فرما جائیں  تو حضرت کلیم اللہ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے  مصر سے  نکلے ، دریائے  نیل کے  قریب آ کر رک گئے  کہ سامنے  بحرِ بیکراں  ہے  اس کی تند و تیز لہریں  ساحل سے  ٹکرا رہی ہیں۔ آپ کے  ساتھی یہ سب منظر دیکھ کر گھبرا گئے۔ اس منظر کو قرآن نے  یوں  بیان کیا ہے۔ ترجمہ!پھر جب آمنا سامنا ہوا دونوں  گروہوں  کا، موسی والوں  نے  کہا، ہم کو انہوں  نے  آ لیا، موسی نے  فرمایا نہیں ، بیشک میرا رب میرے  ساتھ ہے ، وہ مجھے  اب راہ دیتا ہے  (پارہ ۱۹ سورۃ الشعراء، آیت ۶۱۔ ۶۲)

اس واقعہ کو راہیؔ نے  یوں  نظم کیا ہے ؂

رُکے  ہوئے  ہیں  کئی کارواں  لبِ دریا

 کہ جیسے  اس میں  کوئی راستہ نکالے  گا

ایسی حالت میں  اللہ تعالی نے  موسی علیہ السلام پر وحی بھیجی۔ فَاَوْحَیْنَآمُوْسٰی اَنِ اضْرِبْ  بِعَصَاکَ الْبَحْر٭فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّٗ فِرْقِِ کَا الطَّوْدِ الْعَظِیْمِ٭سوہم نے  وحی بھجی موسی کی طرف کہ ضرب لگاؤ اپنے  عصا سے  سمندر کو، تو سمندر پھٹ گیا اور ہو گیا پانی کا ہر حصّہ بڑے  پہاڑ کی مانند‘‘ (پارہ ۱۹، الشعراء آیت ۶۳)

قرآن کے  ارشاد کے  مطابق حضرت موسٰی علیہ السلام نے  ضرب لگایا سمندر پر تو ’’سمندر کی اُچھلتی اور شور مچاتی ہوئی موجوں  پر سکتہ طاری ہو گیا، جیسے  کسی نے  سر کش گھوڑے  کے  منھ میں  لگام دے  دی ہو۔ سمندر میں  شگاف پیدا ہو گیا اور پانی کی لہریں  اونچے  اونچے  پہاڑوں  کی طرح جامد وساکت ہو کر کھڑی ہو گئیں  اور آپ اپنی قوم سمیت اس راستہ پر چل پڑے ‘‘

’’فرعون نے  سمجھا کہ یہ راستہ یوں  ہی بنا رہے  گا، لہریں  اسی طرح کھڑی رہیں  گی۔ چنانچہ وہ بھی اپنے  لاؤ لشکر سمیت سمندر میں  اُتر گیا۔ جب وہ اچھی طرح سمندر میں  داخل ہو گیا تو وہ پانی کے  پہاڑججج ایک لمحہ پہلے  چُپ چاپ کھڑے  تھے  متحرک ہو گئے  اور خاموش موجیں  گرجتی ہوئی ان کی طرف لپکیں  اور چشم زدن میں  ان سب کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے  گئیں  (ضیاء القرآن جلد سوم، ص ۳۹۵ تا ۳۹۶ سے  ماخوذ)

(۲۱) ہر چند گلے  گلے  تھا پانی

تھا خشک لبِ فرات کتنا(ص۳۰ لاشعور)

کربلا کے  تاریخی اور المناک واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ دریائے  فرات لبریز اور موجزن تھا مگر اس کا لب (بمعنی ساحل) کتنا سوکھا تھا کہ قریب ہی خیمہ زن پیاسوں  کو بوند بھر پانی فراہم نہ کر سکا۔ اس سانحہ کے  متعلق حکیم حامد تحسین کی عبارت سے  کا م و دہن شاد کیجئے ’’میں  صحرائے  کربلا کا ایک بے  تاب بگولہ ہوں ، میں  دریائے  فرات کی ایک بے  چین لہر ہوں ، میں  اس کی ایک بدنصیب بوند ہوں ججج حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے  خشک لبوں  کے  پیاسے  صحرا تک  پہنچنے  کو ترستی رہی، مچلتی رہی، تڑپتی رہی، میں حضرت امام حسین کے  خونِ شہادت کی خوشبو ہوں ، میں  اصغر کی پیاس ہوں ، میں  حضرت زینب کی ممتا ہوں ، میں  حضرت حر کی سر فروشی کی تمنّا ہوں ، میں  حق کی آواز ہوں ، میں  حقیقت کا آفتاب ہوں ، میں  باطل کی تاریکیوں  میں  ماہتاب ہوں ، میں  سچّائی کی روشنی ہوں ، میں  یزید کے  ظلم کے  لرزہ خیز واقعات کا معتبر گواہ ہوں ، میں  تاریخ شہادت کا ایک مہکتا لہو رنگِ ورق ہوں ، میرے  سینے  پر ۷۲ شہداء کی عظیم الشان قربانی کی تاریخ درج ہے ‘‘

حسین کی پیاس کی شدت کے  احساس نے  فرات کے  لب خشک کر دئے  تھے ، اس کی موجیں  تلوارِ بے  نیام بن کر یزیدی لشکر پر ٹوٹ پڑنے  کے  لئے  تڑپ رہی تھیں ، باد صرصر آہ و بکا میں  مصروف اور ماتم کناں  تھی۔ کیونکہ بھوکے  پیاسے  حق پرست شہدائے  کربلا کے  خون نے  صحرائے  کربلا کے  ہر ذرّے  کو سرخ کفن پہنا دیا تھا اور فرش تا عرش فضائیں  خونِ شہادت کی خوشبوؤں  میں  بسی مہک رہی تھیں ‘‘

گرداب پر تھا شعلۂ جوّالہ کا گماں ٭انگارے  تھے  حباب تو پانی شرر فشاں

منھ سے  نکل پڑی تھی ہر اک موج کی زباں ٭تہہ میں  تھیں  نہنگ مگر تھی لبوں  پہ جاں  

پانی تھا آگ گرمیِ روز حساب تھی ٭ ماہیججج سیخِ موج تک آئی کباب تھی

( روزنامہ ’’راشٹریہ سہارا‘‘ ممبئی۔ ۴!فروری۲۰۰۸ء ص۱۰کالم  ۱ ؂ اور ۵ سے  ماخوذ) 

(۲۲)بعض آدم خور ہوتے  ہیں  شجر

 دیکھ سن کر چھاؤں  میں  بیٹھا کرو(ص ۴۴لاشعور)

افریقہ کے  جنگلوں  میں  آدم خور درخت پائے  جاتے  ہیں ، ان کو انگریزی میں   Bloodsucker کہا جاتا ہے۔ ان کی چھاؤں  میں  دیکھ سن کر نہ بیٹھنا جان گنوانا ہے۔ اسی طرح بعض انسان اپنی کسی غرض کے  سبب دوسروں  پر احسان کا دام ٖ فریب بچھا کر ہمیشہ کے  لئے  بے  بس و مجبور کر دیتے  ہیں ، احسان کے  بوجھ تلے  محصور آدمی دب کر رہ جاتے  ہیں ، بعض ملازمت اور دوسرے  فوائد کا جھانسا دے  کر عزّت و دولت لوٹ لیتے  ہیں ، ایسے  لوگوں  کی ہمدردی آدم خور درختوں  کی چھاؤں  کی طرح ہوتی ہے۔

 کچھ آدم خور درخت کے  بارے  میں

اس طرح کے  پیڑ پودے  ہر جگہ نہیں  پائے  جاتے۔ یہ تو محض ان خطوں  میں  ملتے  ہیں  جہاں  کی  زمیں  میں  معدنی نمکیات اور نائٹروجن کی کمی ہوتی ہے ، اور انہیں  معدنی نمکیات اور نائٹروجن کی کمی پورا کرنے  کے  لئے  یہ پیڑ پودے  کیڑوں  مکوڑوں  کو کھانے  پر مجبور ہوتے  ہیں  اور ایسے  میں  اگر کوئی  انسان ہی انہیں  مل جائے  تو یہ اسے  بھی نہیں  چھوڑتے۔ مشہور سائنس داں  چارلس ڈارون کو اس طرح کے  پودوں  نے  بہت متاثر کیا تھا، اس نے  ان کا بڑی گہرائی سے  مطالعہ و تجربہ کر کے  دنیا کو ان کے  متعلق جانکاری پہنچائی تھی۔

گوشت کھانے  والے  پودوں  کی کئی قسمیں  ہوتی ہیں ، ان میں  کچھ بیل نما ہوتے  ہیں  اور کچھ کھڑے  پودوں  کی شکل میں  ہوتے  ہیں۔ کچھ مشہور گوشت خور پودوں  کے  نام یوں  ہیں ، سارسینیا، ڈراسیرا، ڈایونیا، ایلڈرونیڈا، پن گوئی کلا، ڈروسو فلم اور پنیتھیر وغیرہ وغیرہ۔ ان پودوں  کے  شکار کا طریقہ بالکل وہی ہوتا ہے  جیسا ایک شکاری کا جانوروں  کو شکار کرنے  کے  لیے  ہوتا ہے۔ یعنی گڈھا کھود کر اس کے  منھ کو گھاس پھونس اور پتوں  سے  بند کر دینا، یا مچان کے  نیچے  بکرے  کو باندھ دینا کہ جانور اپنی پسندیدہ غذا کھانے  کے  لئے  آئے  اور ہمارے  جال میں  پھنس جائے (روز نامہ راشٹریہ سہارا، ۱۷ فروری ۲۰۰۸ء اتوار ص۳ سنڈے  ایڈیشن)

(۲۳)ولیؔ کے  قبضے  میں  دو گز زمیں  تھی جس کے  لئے  

 روا ہوئی گڑے  مُردے  سے  انتقام کی چھوٹ (ص ۱۱۲ لاشعور)

شمس ولی اللہ۔ ولیؔ دکنی سے  مشہور، اردو کے  پہلے  بڑے  شاعر، صوفی اور بھا ئی چارہ کے  مبلغ تھے۔ ہند اور بیرونِ ہند میں  مشہور ہیں ، ولیؔ کے  دیوان کے  شمالی ہند میں  پہنچنے  کے  بعد اردو شاعری کا آغاز ہوا، ولیؔ اردو شاعری کے  بابا آدم کہے  جاتے  ہیں ، ولیؔ کی شاعری اور ان کی قد آوری کا اندازہ اس بات سے  لگا سکتے  ہیں  کہ مشہور فرانسیسی مستشرق گارساں  دتاسی نے  ولیؔ کا دیوان فرانس میں  بیٹھ کر مرتب کیا اور وہاں  کے  شاہی مطبع نے  شائع کیا، دتاسی نے  اپنے  دیباچہ میں  لکھا ہے۔

’’اس کے  ہم عصر اسے  اعلی درجے  کا شاعر مانتے  ہیں  اور اسے  ہندوستانی شاعری کا بابا آدم خیال کرتے  ہیں۔ چنانچہ وہ بابا ریختہ کے  لقب سے  مشہور ہے ‘‘

جمیل جالبیؔ ، مصحفی کے  حوالے  سے  لکھتے  ہیں۔ جب ولی کا دیوان۔۔۔۔ دلّی پہنچا اور وہاں کے  شعراء نے  اس میں  وہ رنگ و نور دیکھا جس کے  دیکھنے  کو ان کی آنکھیں  ترسی تھیں  تو انہوں  نے بھی فارسی کو چھوڑ کر اسی رنگ سخن کی پیروی شروع کر دی‘‘

لچھمی نارائن شفیقؔ نے  لکھا ہے  کہ ولیؔ نے  حج بھی کیا تھا اور حرمین شریفین کی زیارت بھی کی تھی

ولی ؔ کا غزل میں  بہت اونچا مقام ہے۔ اس نے  ہر صنف سخن پر طبع آزمائی کی ہے  مثال کے  طور پراس کے  یہاں  مثنویاں ، قصیدے ، رباعی، مخمس، قطعہ اور مستزادبھی ملتے  ہیں ، ولیؔ کے  چند اشعار کو دیکھئے ؂

(۱)شغل بہتر ہے  عشق بازی کا٭کیا حقیقی اور مجازی کا

(۲)فدائے  دلبر رنگیں ادا ہوں ٭شہیدِ شاہدِ گلگوں  قبا ہوں

(۳)عجب کچھ لطف رکھتا ہے  شب خلوت میں  گُل روسوں

 خطاب آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ

(۴)یک نقطہ ترے  صفحہ رخ پر نہیں  بے  جا

اس مکھ کوں  ترے  صفحۂ قرآں  سوں  کہوں  گا

(۵)مفلسی سب بہار کھوتی ہے  ٭مرد کا اعتبار کھوتی ہے

ڈاکٹر یوسف سرمست، ولیؔ کے  تعلق سے  لکھتے  ہیں  ’’ولیؔ شاید اردو کے  ان دو ایک شاعروں  میں  سے  ہیں  جن کے  کلام میں  رام لچھمن کے  قصّوں  کی گونج ملتی ہے  اور رازی و غزالی کے  فلسفے  کی آوازِ بازگشت بھی، ان کے  لئے  ’’کوچۂ یار عین کاشی‘‘ بھی ہے  اور ان کا دل نمازی بھی ہے۔ ان کے  معشوق کا ’’خال‘‘ جہاں  ’’ہندوے  ہردوار‘‘ ہے  اور اس کی زلف ’’موجِ جمنا‘‘ تل  ’’سنیاسی‘‘ گھر ’’دیول‘‘ ہے۔ وہیں  ان کے  معشوق کا مکھ ’’مشرقی‘‘ حسن ’’انوری‘‘ جلوہ ’’جمالی‘‘ نگہ ’’فیضی‘‘ سرشت ’’طالب و شیدا‘‘ ابرو ’’بے  دل‘‘ ہیں۔

(اسباق نمبر ۷۳ شامل درس میسور یونیورسٹی، میسور، سے  ماخوذ)

افسوس صد افسوس کے  ہندوستانی تہذیب و تمدّن و معاشرت کے  ایسے  پاسبان و محافظ کی اٹھارہویں صدی عیسوی کی ابتدا میں  بنی قبر کو ۲۰۰۲ء ؁ میں  فسادیوں  نے  ولیؔ کے  گڑے  مردے  سے  دو گز زمین بھی چھین کر اس کی قبر کو تہس نہس کر دیا، شاعر نے  اپنے  شعر میں  اسی بات کا اعادہ کیا ہے ’’گڑے  مُردے  اکھاڑنا‘‘ محاورہ ہے ، لیکن اس شعر میں  گڑے  مردے  کو لغوی معنی میں  نظم کیا گیا ہے۔

(۲۴)ہاتھ ہو جائیں  تو ہو جائیں  قلم

کوئی ایسا ہی ہنر رکھ لیجئے  (ص۱۴۹لاشعور)

واقعہ فرضی ہی سہی مگر مشہور ہے  کہ تاج محل بنانے  والے  کاریگر کے  ہاتھ کاٹ لئے  گئے  تھے  کہ تاج محل کا ثانی تعمیر نہ ہو سکے ، انسان اگر ہنر مند ہے  تو ایساہی ہنر سیکھے  کہ اس ہنر سے  کوئی لاثانی تخلیق کر سکے ، نتیجہ میں  ہاتھ ہی کیوں  نہ کاٹ دیئے  جائیں۔

 

٭٭٭٭

صنعتِ اِیہام

اِیہام کے  معنے  ہیں  وہم میں  ڈالنا۔ لیکن اصطلاح میں  اِیہام اس خوبی کو کہتے  ہیں  کہ ایک لفظ ایسا لائیں  جس کے  ایک معنے  قریب کے  ہوں۔ دوسرے  معنے  بعید یا دور کے  ہوں ، یعنی شاعر کا مفہوم کچھ ہو اور سمجھنے  والے  کچھ اور سمجھیں۔ اس کو توریہ بھی کہتے  ہیں ، توریہ کے  معنے  چھپانا۔(اردو گرامر اینڈ کمپوزیشن، سیفی بک ایجنسی ممبئی ۳)

 اِیہام۔ شک یا وہم میں  ڈالنا، اصطلاح شعر میں  وہ صنعت جس میں  شاعر اپنے  کلام میں  ایک ایسالفظ لائے  جس کے  دو معنی ہوں ، ایک اس مقام کے  قریب دوسرے  بعید لیکن شاعر بعید سے  مراد لے (فیروز اللغات)

 پتھروں  سے  نگینے  نکالنے۔ پھولوں  سے  خوشبو کشید کرنے ، دریاؤں  کو سمندر اور سمندر کو دریا کا محتاج بتانے ، تلواروں  اور طوائفوں  کی ایک جیسی خصلت دکھانے ، تجنیس مماثل کے  پھول کھلانے ، تجنیس زائد کے  بیل بوٹے  سجانے  والے ، غلام مرتضی راہیؔ کے  اشعار کو دیکھیں  کہ موصوف نے  اس صنعت اِیہام میں  کس کس کو کیسے  کیسے  پکڑ کر قریب کر کے  دُور پھینکا ہے۔

 (۱)لگے  تھے  راکھ کے  انبار میرے  چاروں  طرف

 عجب آگ تھی مجھ میں  کہ مَیں  دبا نہ سکا(ص۲۰ حرف مکرّر)

آگ :۔ قریب کے  معنی میں۔ آتش

لیکن شعر میں  لفظ ’’آگ‘‘ کے  پردہ سے ججج کچھ اُچھالا گیا ہے  وہ بہت کچھ ہے۔ دور چل کر ایک کے  قریب پہنچا تو دوسرا سامنے  آ گیا، تیسرے  کی جانب نگاہ اٹھی تو چوتھا مسکرانے  لگا اور یہ سلسلہ ایسا چل نکلا کہ کس کو تھاموں ، کس کو اٹھاؤں ، کس کو پکڑوں ، کس کو گلے  لگاؤں  والا معاملہ ہو گیا۔

آگ:۔ دور کے  معنی میں۔ کام کا شوق یا جذبہ، کو ہاتھ لگایا تو ’’پریم‘‘ کے  ساتھ ’’ محبّت‘‘ بھی آنکھوں  کو خیرہ کرنے  لگی ’’دھُن‘‘ کو اُٹھایا تو ’’شوق اور اشتیاق‘‘ بھی مچلنے  لگے ’’ عداوت‘‘ بھی آگے  بڑھنے  لگی۔ اِیہام نے  دور کی کوڑی لا کر اچھّے  اچھوں  کا تعلق آگ سے  جوڑ دیا۔

 (۲) بارِ احساں  نہ رکھ کہ میرا وجود

 اپنے  ہی بوجھ سے  دبا جائے  (ص۳۶ حرف مکرّر)

بوجھ:َکا قریبی معنی ہے۔ وزن، بار، بوجھا

دور کے  کئی معانی میں  سے  یہاں  معنے  ہے۔ فکر، خیال

(۳)رہ گیا گوشۂ تاریک میں  سوتا راہیؔ

 اپنے  اندر کبھی کہسار نے  جھانکا ہی  نہیں (ص۴۶حرف مکر ر)

لفظ ’’سوتا‘‘ وہم میں  ڈالتا ہے ، قرب و بُعد دونوں  کا آئینہ دکھاتا ہے ، قریب جاؤ تو دور بھاگتا ہے ، دوری پر دیکھو تو نزدیک میں  ملتا ہے ، دونوں  جانب ہاتھ پھیلائے  ہوا ہے ، اُدھر دیکھو تو اِدھر اشارہ کرتا ہے ، اِدھر دیکھو تو اُدھر بتاتا ہے ، یہ عیب نہیں ، خوبی ہے۔

قریب کے  معنی میں  ’’سوتا‘‘ منبع، معنی، پانی نکلنے  کی جگہ، پانی جاری ہونے  کا مقام، چشمہ، پانی کا خزانہ۔ نکلنے  کی جگہ، (فیروز اللغات)

دور کے  معنے  میں  ’’سوتا‘‘ سویا ہوا، خوابیدہ، شعر میں  ’’سوتا‘‘ دور کے  معنی میں  استعمال ہوا ہے۔

 (۴) ایک زمانہ پتھر کا گزرا ہے  

کھٹّا میٹھا تیشے  کا پھل تھا جب  (ص۱۰۷ حرف مکر ر) 

لفظ ’’پھل‘‘ قریب کے  معنے  میں۔ ثمر، میوہ، فروٹ، کسی درخت یا پودے  کی پیداوار۔  شعر میں  لفظ ’’پھل‘‘ دور کے  معنی میں  استعمال ہوا ہے۔ لفظ ’’تیشے ‘‘ کی روشنی میں  ’’پھل‘‘ کا معنی ہے۔ دھار، نوک، اَنی، بھالا۔ اور ’’کھٹّا میٹھا‘‘ کے  ساتھ ’’پھل‘‘ کا معنی ہے۔ اجر، عوض، حاصلِ قسمت۔

(۵)اُڑتی چنگاری پکڑ لی پھول نے

اور دامن میں  چھپا کر لے  گیا(ص۱۱۲ حرف مکرّر)

صنعت اِیہام میں  یہ شعر اعلی درجہ کا ہے ، اعلی ادب کا حامل ہے ، اعلی ذہن سے  تخلیق ہوا ہے ، اس میں  اعلی تخیّل کی اعلی پرواز شامل ہے ، اعلی ظرف میں  اعلی راز رکھّے  ہوا ہے ، ہزاروں  میں  ایک ہے ، ہزارہ سے  بڑھ کر حسین ہے ، پڑھنے  والا ہزار جان سے  فدا ہو جاتا ہے ، حَسین ہے ، حَسین نقاب ڈالے  ہوا ہے ، پھول ہے  لیکن نہ بیلا ہے  نہ جوہی، نہ چمپا ہے  نہ چنبیلی، نہ سنبل ہے  نہ لالہ، نہ گُلِ آفتاب ہے  نہ گلِ احمر، نہ گلِ برگ ہے  نہ گلِ بکاؤلی، پھر کیا ہے ؟اگر طبع خاطر پر گراں  نہ گزرے  تو ’’پھول‘‘ کے  معنی پر ایک نظر ڈال کر مقصد کی چیز حاصل کر لیجئے۔

’’پھول‘‘ رنگین پتیوں  کا وہ گچھّا جس سے  بعد میں  پھل یا بیج نکلیں ، گُل، پتنگا، شرارہ، نقش و نگار، ہندو مُردے  کی جلی ہوئی ہڈیوں  کی راکھ، ایک قسم کی مرکّب دھات کانسی، حیض کا خون، ہندوؤں  کا تیجا، مسلمان مُردوں  کی فاتحہ خوانی کی رسم، جسم پر سفید داغ، ساگ کے  سوکھے  ہوئے  پتّے ، شراب، ہلکا، سُبک، کسی پتلی چیز کے  جما کر سوکھے  ہوئے  ورق، نوک، دھار۔

(فیروز اللغات)

ایک ایک لفظ کو تولنے ، ٹٹولنے  کے  بعد ایک ہی لفظ ’’گُل‘‘ اپنے  مقصد کا نکلا ’’گُل‘‘ یعنی چراغ کی بتّی کا جلا ہوا یا جلتا ہوا سِرا، گلِ شمع، یہی گلِ شمع، پھول کا روپ دھار کر ’’ اڑتی چنگاری کو پکڑ کر اپنے  دامن میں  چھپا کر لے  گیا‘‘

خوش حال اُس حریف سیہہ مست کا کہ جو

رکھتا ہو مثل ساۂ گُل سرپہ پائے  گُل(غالب)

 

جس کف میں  وہ گُل ہو داغ ہو جائے

جس گھر میں  ہو گل چراغ ہو جائے (دیا شنکر نسیم)

راہیؔ فکر و فن کی راہ پر چلتے  ہوئے  ایسے  ایسے  نقوش چھوڑے  دیتے  ہیں  کہ دیکھنے  والا ششدر رہ جاتا ہے ، موصوف کے  مذکورہ شعر کے  مقابلہ میں  موصوف ہی کا ایک اور شعر پیش کرتا ہوں۔

 (۶)دشمن کی صف کو چیر کے  جانا تھاا س پار

آخر نکال لے گیا میرا لہُو مجھے  (ص۱۲۹ حرف مکرّر)

صنعت اِیہام میں  یہ شعر بھی اعلی پائے  کا ہے ، اِیہام کا دیا آنکھوں  کے  سامنے  جل رہا ہے  مگر تہ داری نے  دیا کو عمیق غار میں  اتار دیا ہے ، لوگوں  کو روشنی سے  مطلب ہے ، روشنی کا منبع کس جگہ، کہاں  ہے ، اس سے  کیا مطلب ہے ، منبع تک پہنچنے  اور دیکھے  بغیر ہی شعر قارئین کو بہت کچھ سنا دیتا، بتا دیتا اور دکھا دیتا ہے ، خوشی کا سامان، سرور کا نشہ، لطافت کی شیرنی فراہم کر دیتا ہے۔ لیکن منبع کی بات ہی کچھ اور ہے ، منبع تک پہنچ جانے  کے  بعد سب دوبالا، دو آتشہ ہو جاتا ہے ، منبع کا مرکز لفظ ’’لہو‘‘ ہے ، وہ لہو نہیںججج سرخ ہے ، وہ سرخ نہیں ججج خون ہے ، وہ خون نہیں ججج دم ہے ، وہ دم نہیں ججج جسم میں  رواں  ہے  ’’ لہو‘‘ کے  یہ سب قریبی سنگھی ساتھی ہیں۔ اِیہام دور کے  کاخوں  پر نظر رکھتا ہے۔ دوسرے  جس سے  منہ پھیر لیتے  ہیں  یہ اسی کو چاہتا ہے ، جس کو نظرانداز کر دیتے  ہیں  یہ اسی کو سینے  سے  لگا لیتا ہے ’’نکال لے  گیا‘‘ کے  کلمہ نے  نہ خون کو قریب آنے  دیا نہ سرخ رطوبت کو، دشمن کی صف سے  نکال کر لے  جانے  والا، دور سے  آیا اور اس پار لے  گیا، دور کے  معنے  میں  لفظ ’’لہو‘‘ کے  معنی ہیں۔ اپنا بیگانہ، ایک باپ دادا کی اولاد، اسی معنی میں  لفظ ’’لہو‘‘ استعمال ہوا ہے لہو کی حقیقت کا پتا مل جانے  کے  بعد خوشی کا دائرہ وسیع ہو جاتا، سرور کا نشہ بڑھ جاتا، لطافت کی شیرنی زیادہ ہو جاتی ہے۔

لہو:۔ لوہو کا مخفف، خون، دم، ایک خِلط، اپنا بیگانہ، ایک باپ دادا کی اولاد، کنایۃً۔ بہت سرخ

(فیروز اللغات)

شعر میں  اِیہام کا حُسن پوشیدہ ہے ، ایسے  حسن کے  لئے  شاعر نے  کہا ہے ؂ پ

حُسن اپنا گر دکھا نہیں  سکتا جہان کو٭آپ ہی کو دیکھ اور کر اپنے  پہ ناز تو(حالی)

(۷) ندی، جھیل، جھرنے ، ٹھِٹھر نے  لگے

ججج اس دفع کم برف باری ہوئی(ص۷۶لاشعور)

پھول اور لہو کے  بعد اب یہ تیسرا شعر کا ایک لفظ اپنے  اوصاف دکھانے  کے  لئے  بے  تاب ہو رہا ہے ، مچل رہا ہے ، وہ ایسا لفظ ہے  کہ اس کا ایک معنی زبان زد خاص و عام ہے ، دوسرا معنی یا تو اہلِ زبان کے  سینے  میں  بند ہے  یا لغات و معانی کی کتابوں  کے  اوراق میں  پڑا ہوا گہری نیند سو رہا ہے ، کوئی اس کو جگائے ، اپنے  پاس بلائے ، اپنا مہمان بنائے ، عزّت دے ، شہرت دے  جب تو وہ جاگے  گا اور کہے  گا کہ میرا رخ بھی ہے ، میرے  اس رخ کو بھی دیکھو کہ کتنا حسین، خوبصورت اور کس کے  لئے  ہے۔

راہی نے  اس کو جگایا اپنے  پاس بلایا، اس کو اس کے  مقام پر بٹھایا، اب دیکھنے  والے  ہکّا بکّا ہو کر اسے  دیکھ رہے  ہیں  اور کہہ رہے  ہیں  کہ ایسا بھی ہوتا ہے ؟سننے  والے  سن کر دانتوں  تلے  انگلی دباتے  ہیں کہ ایسا سننے  سے  کان ناآشنا تھے۔

راہیؔ مدّتوں  سے  صحرا کی خاک چھانتے ، جنگل جنگل پھرتے ، دریا اور سمندروں میں  

غوطے  لگاتے ، ندی اور جھیل اُلچتے  رہے  ہیں ، اس درمیان موصوف کو جوجو چیزیں  ہاتھ لگیں  ان کو شعر میں  پرو کر لوگوں  کو دکھاتے  رہے  ہیں اور لوگ حیرت میں  ڈوب کر دیکھتے  رہے  ہیں۔ اس شعر میں  تعجب کیججج بات ہے  وہ ہے  لفظ ’’ ٹھٹھرنے ‘‘ کے  معنی کا پس آئینہ، آدمی ٹھِٹھرتے  جاتے ، جانور ٹھِٹھر جاتے ، پیڑ پودے  ٹھٹھر جاتے  ہیں ،ججج سب جانتے ، بولتے ، دیکھتے  ہیں  لیکن راہی نے  ان میں  ندی، جھیل جھرنے  کے  ٹھٹھرنے  لگے ، کا اضافہ کر دیا ہے ، آیئے  دیکھتے  ہیں  کہ ندی، جھیل  جھرنے  کیسے  ٹھِٹھرتے  ہیں۔

ٹھٹھرنا۔ ٹھٹھرنا:۔ سردی سے  اکڑنا، ٹھنڈے  سے  اینٹھنا، سخت سردی لگنا، سردی کی وجہ سے  کپکپانا، لرزنا، ٹھنڈا ہو جانا، سردی کے  مارے  بے  حِس ہو جانا، بڑھنے  سے  رُک جانا، قوّت نامیہ کا ختم ہو جانا، سکڑنا، مرجھانا(فیروز اللغات)

ندی، جھیل، جھرنے  کے  ٹھٹھرنے  کے  معنے  ہیں۔ بڑھنے  سے  رُک جانا یعنی ان میں  پانی کا کم ہو جانا ہے ، یا پانی کم ہو جانا، پانی کا نیچے  کی طرف اُتر جانا، پانی کا بڑھاؤ رک جانا وغیرہ اور اس کی وجہ ہے  پہاڑوں  پر کم برف باری ہونا۔

 (۸) لَو، خاک کے  ذرّوں  سے  لگائے  ہیں  کہ شاید

صورت کوئی نکلے  تو ہم آنکھوں  سے  لگا لیں  (ص۱۱۶ حرف مکرّر)

اس شعر میں  صنعت اِیہام کے  دو الفاظ مصرعے  کی صفوں  میں  اُوپر، نیچے  یا آگے ، پیچھے  کھڑے  ہوئے  ادب کے  میدان میں  دودھاری تلواریں  چمکا رہے  ہیں ، پیش منظر اور پسِ منظر کے  آئینے  بھی دکھا رہے  ہیں ، قرب و بعد کے  پتے  بھی بتلا رہے  ہیں ، جنس کے  اعتبار سے  اہل لغت، اہل زبان اور زبان دانوں نے  دونوں  کو تانیث کے  طبقہ میں  شمار کئے  ہیں ، ایک لفظ دو حرفی ہے  دوسرا چار حرفی، پہلا لفظ ’’لَو‘‘ ہے۔

لَو:۔ نزدیک کے  معنی میں۔ شعلہ، لپَٹ، بھبوکا، لاٹ

لَو:۔ دور کے  معنی میں ، شعر کی مناسبت سے۔ آس، امّید، توقع

لَو:۔ کے  معنی۔ شعلہ، لپَٹ بھبوکا، لاٹ، دھیان، توجہ، خیال، یکسوئی، آس، امّید، توقع، شوق، محبّت، کان کی جڑ، کان کے  نیچے  کے  رُخ کی نوک کُچیا(فیروز اللغات)

دوسرا لفظ ’’صورت‘‘ ہے

صورت :۔ نزدیک کے  معنی میں :۔ شکل، چہرہ، منھ، مکھڑا

صورت :۔ دور کے  معنی میں  شعر کی مناسبت سے ، علامت، نشان

 (۹) اس خطۂ احساس کے  بارے  میں  نہ پوچھو

شعلہ سا لپک جائے ججج ہم روشنی ڈالیں (ص ۱۱۶ حرف مکرّر)

اِیہام پر روشنی ڈالنے  سے  پیشتر اس کے  مفعول پر نظر ڈالیں  تو اِیہام کا لطف دو بالا ہو جاتا ہے ، مصرعۂ اولی میں  لفظ ’’احساس‘‘ کو حواسِ خمسہ کے  ذریعہ محسوس کیا جاتا، جاسکتا ہے ، دیکھا نہیں  جاتا نہ دیکھا جا سکتا ہے ، اس کی شکل و صورت اور ہیئت پوشیدہ ہے  شعر میں  ’’احساس‘‘ کو نحوی قاعدے  کے  مطابق مضاف الیہ بنا کر پیش کیا گیا ہے ، احساس کا مضاف ’’خطہ‘‘ ہے ، یہاں  احساس کی طرح خطہ بھی پوشیدہ ہے۔ لا محدود ہے ، اس کی کوئی حد نہیں  ہے ، احساس کی طرح لفظ خطّہ کی بھی یہاں  پر کوئی شکل و صورت نہیں  ہے ، مگر اس خطّہ میں  بہت کچھ روپوش ہیں ، اسی خطہ میں  علم کے  نور کے  ساتھ عمل کا دریا بھی مخفی ہے ، خضوع و خشوع کا سمندر بھی، محبت کا سوتا یہاں  پھوٹتا ہے ، عشق کی آگ یہاں  سے  ہی پھیلتی ہے ، غم کی بجلیاں  یہاں  سے  کوندتی ہیں ، رنج کی ہوائیں  یہاں  سے  اٹھتی ہیں ، خوشی ومسرت کی لہریں  یہیں  سے  چلتی ہیں ، جنگ و جدال کے  شعلے  یہیں  سے  بھڑکتے  ہیں ، حرص وہوس کی آندھیاں  یہیں  سے  خرام بھرتی ہیں ، مکر و فریب کی لومڑی اس میں  چھپی ہوئی ہے ، ہمّت و جواں  مردی کا شیر اسی میں  روپوش ہے ، المختصر اس خطّہ میں  کیا نہیں  ہے ، سب کے  سب خطّہ میں  ہیں  اور سب کا سب خود خطّہ بھی ہے ، اس احساس کے  خطہ پر روشنی ڈالنے  سے  خطہ بیدار ہو جائے  گا، اس کو سورج، ستارے ، بجلی، چراغ اور لالٹین کی روشنی کی نہیں  بلکہ فہم وفراست، حکمت و دانائی، فکر و نظر کی روشنی کی ضرورت ہے۔

 (۱۰)سب یہی پوچھتے  ہیں  کہ سر کیا ہوا

 کیا بتاؤں  مرے  نام پر کیا ہوا(ص۱۲۳ حرف مکر ر)

سَر۔ سِر:۔ کھوپڑی، کسی چیز کا اوپری حصّہ، چوٹی، ابتدا، فکر، خیال، زور، قوّت، سردار،

خلاصہ، خواہش، ارادہ، کنارہ، عنوان، عشق، دماغ، برابر، بالکل

شعر میں  ’’سر‘‘ کا معنے  ہے ، چوٹی، بلندی، لوگ پوچھتے  ہیں  کہ آپ کی بلندی کو مجروح کس نے  کیا؟نامی گرامی، با کمال اور خدا کے  برگزیدہ بندوں  کے  سر جھکتے  نہیں  ہیں، قلم ضرور کر لئے  جاتے  ہیں  اور اس کے  لئے  ان کی بلندی کے  نام پر بڑے  بڑے  انعام مقرّر کئے  جاتے  ہیں۔ شاعر بھی ایک سر بلند اور نامور شخص ہے ، اس کے  سر پر بھی انعام مقرّر ہوا کہ اس کی بلندی کو  خاک میں  ملاؤ اور حرص وہوس کا کوئی بندہ اس کا بھی سر قلم کر لے  گیا، اب وہ سر بریدہ ہے ، مگر سینہ تانے  ہوئے  ہے ، لوگ اس سے  اس کے  سر کے  بارے  میں  سوال کرتے  ہیں ، تو اسکا جواب یہی ہوتا ہے  کہ اب میں  کیا بتاؤں  کہ میری شہرت اور ناموری کے  نام پر کون میرا سر قلم کر کے  لے  گیا اور اس کا کیا ہوا؟

ہر دور میں  اربابِ اقتدار نے  دولت اور طاقت کے  زور پر چاہا ہے  کہ ان کے  عہد کی نامور ہستیاں  اُن کے  آگے  سر تسلیم خم کریں ، جنہوں  نے  سر نہیں  جھکایا، ان کے  سر قلم ہو گئے  مگر وہ سر بلند رہے ، مگر جنہوں  نے  اپنی دستارِ فضیلت اتار کر اپنے  حاکموں  کی چوکھٹ پر رکھ دی، وہ بھی سر بریدہ ہو گئے ، ایک سر قلم ہونے  سے ، سر بریدہ ہوا، دوسراجبیں  سائی کرنے  سے  سر بریدہ ہوا، پہلا سر کٹا کر سر بلند ہو گیا، دوسراسر جھکا کر قعر مذلّت میں  جا گرا۔

(۱۱)رسن و دار پر نکل آئے ٭کس بلندی پہ سر نکل آئے (ص۱۲۸ حرف مکرّر)

یعنی دار، سولی پر چڑھنے  والے ، آنے  والے ’’سر‘‘ بلندی پر آ گئے  اوروں  سے  برتری پا گئے ، مرتبہ پا گئے ، معزّز، برتر، بزرگ ہو گئے۔

سر:۔ دور کے  معنی میں۔ سردار، جناب، جناب والا، مطلب یہ ہوا کہ سردار پھانسی کے  پھندے  پر آ گئے۔ نکل آئے ، جناب یا جناب والا، دار پر آ کر بلند مرتبہ پا گئے ، شہید ہو گئے ، شہادت کے  درجے  پر فائز ہو گئے ، محترم ہو گئے۔

سر کی تشریحَ ثانی یعنی بعید کے  معنی بھی ’’سر‘‘ سے  بخوبی رابطہ بنائے  ہوا ہے  اس بنا پر یہ سر بھی اِیہام کے  زمرے  میں  داخل ہے۔

 (۱۲) قریب تھا کہ نتیجہ دکھائی دیتا مگر

بساطِ شب، سرِراہِ سحر اُلٹ ہی گئی(ص۱۴۰حرف مکرّر)

یہاں  اِیہام سے  متعلق گفتگو نہیں  کرنی ہے  بلکہ شعر کا مصرعۂ ثانی نحوی طریقے  کے  ساتھ وجود میں  آیا ہے ، اس میں  اُلٹ پھیر، جیت ہار، فاتح مفتوح کی بات ربط کے  ساتھ کی گئی ہے۔ سحر فاتح ہے ، شب مفتوح، سحر پر شب فاتح نہ ہوئی ہے  نہ ہو گی، سحر دن سے  مات کھاتی ہے ، غلام مرتضیٰ  راہیؔ نے  اس مصرعہ کو جس طریقے  سے  تخلیق کیا ہے ، حسین ہو گیا ہے ’’بساطِ شب‘‘ میں  لفظ ’’ بسا ط‘‘ مضاف اور ’’شب‘‘ مضاف الیہ ہے ، بساط معنی، بستر، بچھونا، سرمایہ، حوصلہ، حیثیت، یہ ساری چیزیں  شب کی پونجی ہیں اور شب پر سحر غالب ہو کر شب کی ساری چیزوں  کو چھین لیتی ہے  تو شب کا وجود ختم ہو جاتا ہے ، آگے  بڑھیئے  تو یہ واقعہ کہاں  پیش آتا ہے ، ’’سرِراہِ سحر‘‘ لفظ ’’راہ‘‘ سر اور سحر دونوں  سے  رابطہ رکھے  ہوا ہے  کہ ’’سر‘‘ مضاف ’’راہ‘‘ مضاف الیہ اور ’’راہ‘‘ اپنے  مضاف الیہ ’’ سحر کا مضاف بھی ہے۔ یا مضاف اپنے  مضاف الیہ سے  مل کر مبتدا ہے  اورسحرخبرہے  کہ اس نے  شب کی بساط کو الٹنے  کی خبر دی ہے۔ اس مصرعہ میں  ایک دوسری تجنیس بھی ہے۔ جس کا تذکرہ اس کے  باب میں  ہو گا۔

(۱۳) کبھی امّید ہمدردی کی ایسے  سے  نہ رکھیں

 اڑا ہے  بن کے ججج دیوار سایاکیا کرے  گا۔ ص۳۴لاشعور

لفظ ’’دیوار‘‘ اور ’’سایا‘‘ دونوں میں ایہام ہے  ’’دیوار‘‘ قریب کے  معنی میں۔ اوٹ، پردہ،

پختہ پردہ، مکان یا چہار دیواری کا ایک پہلو، دور کے  معنی میں۔ حد، رکاوٹ، یہاں پر ’’دیوار‘‘ رکاوٹ دور کے  معنی میں استعمال ہوا ہے۔ سایا۔ قریب کے  معنی میں۔ پرچھائیں ، چھاؤ، پَرتو سایا۔ د ور کے  معنی میں۔ حفاظت، مدد، حمایت۔ شعر میں لفظ سایادور کے  معنی میں استعمال ہوا ہے۔

 

 ٭٭٭٭٭

صنعت مراعات النّظیر

کلام میں کسی امر اوراس کے  مناسب چیزوں کو جمع کرنا ہے۔ جن کے  درمیان نسبت تضاد نہ ہو جیسے  شاعر نے  کہا ہے  کہ

اِذَاصَدَق التجًدُّافْتَرٰی العَمّ لِلْفَتی

 مَکَارم لا تَخْفیٰ وَاِنْ کَذَبَ الْخال

اس شعر میں شاعر نے  جدّ، عمّ اور خال کو جمع کر دیا ہے۔ پہلے  سے  نصیبہ دوسرے  سے  عوام الناس اور تیسرے  سے  خیال مراد ہے (توضیح الیلا غۃ)

 جیسے  غالب نے  کہا:

رَو میں ہے  رخش عمر کہاں دیکھئے  تھمے

نے  ہاتھ باگ پر ہے  نہ پائے  رکاب پر

اس شعر میں  عمر کی تشبیہہ گھوڑے  سے  دی ہے  اوراسی مناسبت میں  الفاظ۔ رخش، تھمے ، باگ اور رکاب استعمال ہوئے  ہیں  (اسباق نمبر ۲۸ میسور یونیورسٹی میسور)

ایک چیز کی مناسبت اور رعایت سے  کئی چیزوں  کا ذکر کرنا، جیسے  چمن کے  بیان میں  گل  و بلبل و باغباں  وغیرہ کا ذکر کرتے  ہیں ؂

چشم بادام، دہن پستہ، زنخداں  ہے  سیب

کتنے  پھل ایک نہال قد جاناں  میں  ہیں

یہاں  (درخت)کی مناسبت اور رعایت سے  میووں  کا ذکر کیا گیا ہے۔

جبیں  والفجر ہے ، واللّیل گیسوئے  معنبر ہے

 خطِ رُخ سورۂ یوسف ہے  ان کے  مصحفِ رخ کا (خواجہ وزیر)

یہاں  مصحفِ رُخ کی رعایت ومناسبت سے  سورۂ والفجر، واللّیل اور یوسف کا ذکر کیا گیا ہے (اردو گرامر اور کمپوزیشن، سبط رضی)

غلام مرتضیٰ  راہیؔ کہتے  ہیں ؂

(۱)جھیل ہو، تالاب ہو، یا ہو کنواں ٭ڈوبنے  لائق انہیں  گہرا کرو(ص۴۴لاشعور)

ڈوبنے  کے  لئے  گہرائی کی مناسبت سے  جھیل، تالاب اور کنواں  جیسے  الفاظ استعمال کئے  ہیں

(۲) مشرق و مغرب و شمال و جنوب٭میری خاطر چہار دیواری(ص۶۸ لاشعور)

چہار دیواری کی مناسبت و رعایت سے  مشرق، مغرب، شمال، جنوب کا ذکر کیا گیا ہے۔

(۳) ہندو، مسلم، سِکھ، عیسائی٭کون نہیں  دیوانہ اس کا(ص۱۲۰لاشعور)

لفظ دیوانہ کی مناسبت سے  الفاظ ہندو، مسلم، سِکھ، عیسائی جمع کئے  گئے  ہیں۔

(۴) تمہاری دوریاں  مٹنے  کو ہیں  راہیؔ ٭مصوّر، زیب، عرفاں  اور بانی سے (ص ۱۴۲لاشعور)

فرد واحد راہیؔ نے  اشخاص کی منزلوں  کو چھونے  کے  لئے  مصوّرؔ ، زیبؔ ، عرفاں ؔ اور بانیؔ کو  اکٹھا کیا ہے۔

 (۵)تم کو شاعر ہیججج بننا ہے  تو پھر راہی ؔ کیوں

 کوئی غالب کوئی اقبال کوئی میر بنو(ص۱۴۲لاشعور)

تم (توکی جمع ضمیر مخاطب )کی مناسبت سے  مذکورہ مشہور شعرا کے  نام گِنائے  ہیں ، گویا قوم کے  ہونہاروں  کے  نام ایک طرح کا پیغام ہے  کہ ستاروں  سے  آگے  جہاں اور بھی ہے۔ صرف راہیؔ جیسا کیوں  بنو،غالبؔ و اقبال ؔ و میرؔ جیسے  بلکہ ان کے  آگے  اور ہیں  ان جیسے  بنو۔

(۶) وہ اپنے  بندوں سے  پردہ کرتا ہے ٭حور و ملائک، دیو پری جنات الگ (ص۲۵ لاکلام)

بندوں کی مناسبت سے  دیگر مخلوقات کو الفاظ کے  ذریعہ اکٹھا کیا گیا ہے۔ وہ اشارہ بعید ہے  اللہ تعالیٰ کی جانب، بندوں سے  اس کا پردہ ذاتی ہے۔ دیگر مخلوقات کا عطائی۔

(۷)رہ گیا تشنۂ تعمیر، صنم خانہ مرا٭کبھی آزر، کبھی تیشہ، کبھی پتھر نہ ملا(ص۴۷لاکلام)

مقصود صنم خانہ ہے۔ اس کی رعایت ومناسبت سے ، آزر، تیشہ اور پتھر کے  نہ ملنے  پر اس کے  ساتھ تشنۂ  تعمیر کا ذکر ہے۔

(۸)توپ، بندوق، سِنان، تیر کماں ، تیغ سِپر

 سب ملے  خاتمۂ جنگ پہ، لشکر نہ ملا(ص۴۷لاکلام)

مرکز جنگ ہے  اس کے  ساتھ جنگ میں  کام آنے  والے  آلات و ہتھیار، توپ، بندوق، سنان تیر و کمان، تیغ وسپر اور لشکر کا ذکر کیا گیا۔ مراعاتا لنظیر کے  تئیں  عمدہ شعر ہے۔

(۹)جب دھوپ میں  فصل پک رہی تھی

 ہر  آنکھ  چمک  دمک رہی تھی(ص۵۱لاکلام)

فصل کی مناسبت و رعایت سے  دھوپ، آنکھ، چمک اور دمک جیسے  الفاظ استعمال ہوئے  ہیں  

(۱۰)اے  مرے  پایاب دریا تجھ کو لے  کر کیا کروں

 ناخدا، پتوار، کشتی، بادباں رکھتے  ہوئے (ص۱۲لاکلام)

دریا کی رعایت ومناسبت سے ، ناخدا، پتوار، کشتی اور بادباں  جیسے  الفاظ بہت بہتر طور پر استعمال ہوئے  ہیں۔

(۱۱)ٹمپو، رکشہ، یکّہ، تانگہ، موٹر، کار ٭راہیؔ میرا پیدل چلنا مشکل ہے (ص۷۸لاکلام)

پیدل چلنے  کی مناسبت و رعایت سے  بحر کی سڑک پر اوزان کے  دائرے  میں  جتنی سواریاں کھڑی ہو سکتی تھیں ، راہیؔ نے  اتنی کھڑی کر کے  مُراعات النظیر کا بازار سجا دیا ہے ، جس میں  چھ طرح کی سواریاں  کھڑی ہوئیں  دعوت نظارہ دے  رہی ہیں۔

 (۱۲)ہوں  رنگ، نسل، مہک، پھول، پھل جدا سب کے

طرح  طرح کے  درختوں  کی اک قطار ملے (ص۹۸لامکاں )

اس شعر میں  درختوں  کی مناسبت سے  رنگ، نسل، مہک، پھول اور پھل کا تذکرہ کیا گیا ہے

 (۱۳)سبھی درندے ، چرندے ، پرندے  غائب ہیں

 اُگائیں  اک  نیا جنگل  تبھی شکار ملے (ص۹۹لاکلام)

جنگل کی مناسبت سے  درندے ، چرندے ، پرندے  کا ذِکر کیا گیا ہے  کہ جنگل میں  درندے ، چرندے  اور پرندے  ہی رہتے  ہیں۔

 (۱۴) ہیرا، موتی، مونگا، مچھلی کریں  تلاش

اس کے  سوا ہے  بھی کیا چارہ دریا میں (ص۱۲۲لاکلام)

مچھلی کی مناسبت و رعایت سے  ہیرا، مونگا  اور موتی جیسے  لفظ اکٹھّا کئے  گئے  ہیں ، یا دریا کی مناست سے  مچھلی، مونگا، موتی اور ہیرا کے  تذکرے  ہوئے  ہیں۔

(۱۵)راستہ ویسا ہی مسدود مر ا٭وہی کیچڑ وہی دلدل اب تک(ص۱۴۰ لاکلام)

راستہ کی مناسبت و رعایت سے  الفاظ مسدود، کیچڑ اور دلدل استعمال ہوئے  ہیں۔

(۱۶)وہی آنکھیں ، وہی آنسواُن میں ٭وہی بہتا ہوا کاجل اب تک(ص۱۴۰ لاکلام) 

آنکھوں کی مناسبت سے  آنسواورکاجل کا ذکر مراعات النظیر ہے۔

 (۱۷)تری خوشی ہے  تولا کاسۂ گدائی دے

 عجب نہیں  ترے  در تک یہی رسائی دے (ص۴۹حرف مکر ر)

لفظ در کی مناسبت سے  کاسہ، گدائی اور خوشی جیسے  الفاظ استعمال ہوئے  ہیں۔

 (۱۸)پہاڑ، دشت، سمندر، فضا، کھنڈر، بستی

 نہ روکے  کوئی کہ درپیش ہے  سفر مجھ کو(ص۸۹حرف مکر ر)

سفر کی مناسبت سے  پہاڑ، دشت، سمندر، فضا، کھنڈر اور بستی جیسے  الفاظ استعمال ہوئے  ہیں  کہ سفر میں  ان سب سے  واسطہ پڑتا ہے ، اور ان کو عبور کرنا پڑتا ہے۔

(۱۹)حیات، جبر، بغاوت، شکست، قید، صلیب

 نتیجہ  سامنے  ہے  امتحان  ختم ہوا (ص۹۸حرف مکرّر)

امتحان کی رعایت و مناسبت سے  حیات، جبر، بغاوت شکست، قید، صلیب کا تذکرہ ہے۔

(۲۰) دیو، پری، جنّات، فرشتے ٭عقل، ہماری دنگ رہی ہے (ص۱۳۵حرف مکرّر)

عقلی کی مناسبت سے  دیو، پری، جنات، فرشتے  کا ذِکر ہوا ہے  کہ عقل کی ساری زور آوری ان  کو سمجھنے  سے  عاجز ہے ، ہزاروں  مخلوقات کو ہم دیکھتے ، پکڑتے  ان سے  محظوظ ہوتے  ہیں  لیکن دیو، پر ی، جنّات اور فرشتے  کو نہ ہم دیکھ سکتے  ہیں  نہ پکڑسکتے  ہیں  نہ ان سے  گفتگو کر سکتے  ہیں ، اس بنا پر عقل دنگ ہے  کہ اللہ تعالی نے  ہمارے  لئے  ان کو عجیب بنایا ہے۔

غلام مرتضیٰ راہیؔ کے  کلام میں  مُراعات النّظیر کے  تحت مذکورہ ان بیس اشعار میں  امر کے  الفاظ ان کی مناسبت سے  استعمال ہوئے  لفظوں  کی تعداد کافی اور با معنی ہیں ، ان کا سلسلہ ایک دو سر ے  سے  کسا ہوا ہے ، پھلوں  کے  گچھے  اور پھولوں  کے  گلدستے  کی طرح حسین ہیں ، موصوف  نے  ایک جگہ دریا کی مناسبت سے  ناخدا، پتوار، کشتی، بادباں  کا استعمال تودوسری جگہ دریا کی منا سبت سے  ہیرا، موتی، مونگا  اور مچھلی جیسے  الفاظ کو اکٹھا کیا ہے ججج برمحل اور موضوع ہیں۔ دریا میں  مچھلی رہتی ہے  اور ہیرے  موتی اور مونگے  بھی پیدا ہوتے  ہیں۔ ان کا تعلق پانی سے  اور پانی میں یا سطح پانی سے  ہیں تو ناخدا، پتوار، کشتی اور بادباں کا تعلق پانی پر ہے  دریا مکان ہے  مچھلی کیلئے  اور مچھلی اس کی مکین ہے  تو مکین کی غذا ہیرا، موتی، مونگا ہیں اسی طرح میدان جنگ میں  کام آنے  وا لے  قدیم و جدید ہتھیار کے  تذکرے  میں  راہیؔ صاحب نے  الفاظ کے  ڈھیر لگا دیئے  ہیں  اگلے وقتوں  میں  تیر، کمان، سنان، تیغ وسپر لیکر مجاہد ین میدان میں اترتے  تھے  تو موجودہ دور میں توپ، بندوق لیکر سپا ہی اترتے  ہیں یا انہیں کے  جنس سے  بنے  ہتھیار بم بارود وغیرہ لہذا راہیؔ نے  بڑی اچھی تمثیل پیش کی ہے۔ اسی کے  مثل پیدل چلنے  کی مناسبت سے  راہیؔ نے  نئی و پُرانی سواریوں  کے  نا م گنائے  ہیں ججج سب کی سب سکّۂ رائج الوقت کی طرح آج بھی چل رہی ہیں ، اس لئے  پیدل چلنا مشکل ہے ، کا دلی اظہار بھی کر دیا ہے ، ایک دور تھا کہ آدمی پیسے  بچانے  کے  لئے  مشقّتیں  اٹھا تا تھا اب مشقّتوں  سے  بچنے  کے  لئے  پیسے  خرچ کرتا ہے ، پہلے  زمانے  میں  لوگ سفر کرتے  وقت پہاڑوں ، دریاؤں ، سمندروں  کو جس طرح سے  عبور کرتے  تھے  وہ مشکل کام تھا آج بھی عبور کرتے  ہیں  مگر بڑی آسانی سے ، مہینوں  کا سفر گھنٹوں  میں  طے  ہوتا ہے ، دنیا کی کہانی دنیا کے  سامنے  ہے ، کہیں  بغاوت کی آگ لگی ہوئی ہے  تو کہیں  جبر کے  پتھر برس رہے  ہیں ، کہیں  فتح کے  شادیانے  بجائے  جا رہے  ہیں  تو کہیں  سے  شکست کی خبریں  وجود لے  رہی ہیں ، مجرم و بے  گناہ دونوں  کو قید کر کے  سزائیں  دی جا رہی ہیں  کہ جن سے  انسانیّت شرمندہ ہے ، زندگی زندہ درگور ہو رہی ہے ، حیات  بلک رہی ہے ، راہیؔ نے  ان باتوں  کو شعر میں  اتار ہے ، جس میں  مُراعات النّظیر کی مثال قائم ہوئی ہے ؂

حیات، جبر، بغاوت، شکست، قید، صلیب٭نتیجہ سامنے  ہے  امتحاں  ختم ہوا

راہیؔ کی شاعری میں  مقصدیت تناور درخت کی مانند ہے  تو صفتیں  پھل پھول کی طرح سِوا ہیں ، صنائع و بدائع کلام کے  حُسن کا غازہ ہے  یا اسکے  جسم کا زیور، تو اس کی تاریخ بہت پُرانی ہے ’’ خلافتِ عبّاسیّہ کے  دور میں  نئی نئی ادبی تشبیہات واستعارات اور صنائع کو بدائع کہنے  لگے ،ا س کے  بعد یہ اصطلاح اپنے  وسیع تر مفہوم میں  ہر ادبی حُسن کے  لئے  استعمال ہونے  لگی، یہاں  تک کہ بدیع ایک علم کی حیثیّت سے  مرتّب ہوا اور ادبی دنیا میں  بلاغت کا ایک ایسا شعبہ قرار پایا جس کا تعلّق ادبی اُسلوب میں  حُسن پیدا کرنے  سے  رہا ہو۔

دوسری صدی ہجری میں  بشار اور مسلم بن ولید العتائی جیسے  عہد عبّاسی کے  شعرا نے  شعری صنعت گری کے  اس فن کو اس قدر وسعت دی کہ  صنائع کا استعمال وسیع پیمانے  پر ہونے  لگا، اس کے  بعد ابن المعتز نے  اس علم پر محققانہ کام کیا اور بدیع کو پانچ بڑی انواع میں  تقسیم کیا، یعنی استعار ہ، تجنیس، طباق و تضاد، رَدَّ الْعَجْزْ علی الصدر  اور لف و نشر، فن بدیع کو ان پانچ قسموں  میں  تقسیم کرنے  کے  باوجود ابن المعتزّ کو احساس ہوا کہ یہ تعداد کم و بیش بھی ہو سکتی ہے ، اس احساس کی بنا پر اس نے  بارہ محاسن کا اور اضافہ کیا اس کے  ایک صدی کے  بعد یعنی چوتھی صدی ہجری میں  ابو ہلال عسکری نے  فن بدیع کو ایک قدم اور آگے  بڑھایا اور اس کی چھتّیس انواع بیان کیں۔  

ابنِ رشیق نے  اپنی کتاب ’’العمدہ‘‘ میں  ’’المنزع والبدیع‘‘ کے  عنوان کے  تحت ساٹھ سے  زائد انواعِ بدیع کی توضیح کی ہے۔ بقول ابن خلدون مغربی ممالکِ اسلامیہ شمالی افریقہ اور اندلس میں  ابن رشیق کی ’’العُمدہ‘‘ بہت مقبول ہوئی، چنانچہ وہاں  علم بدیع کی بڑی قدر دانی اور ترویج ہوئی(مولانا احمد رضا بریلوی کی نعتیہ شاعری ص ۲۳۷۔ ۲۳۸۔ ڈاکٹرسراج احمد بستوی)

مذکورہ حوالہ میں  کہا گیا ہے  کہ ابن رشیق نے  ساٹھ سے  زائد بدیع کی قسمیں  بیان کی ہیں ، موصوف کی کتاب ’’العمدہ‘‘ اس وقت میرے  پاس نہیں  ہے  کہ دیکھوں  وہ ساٹھ کونسی قسمیں ہیں ، لیکن امّید ہے  کہ دیگر کتابوں  میں ججج قسمیں  ملتی ہیں ، وہی قسمیں  ’’العمدہ‘‘ میں  بھی ہوں  گی، دوسری کتابوں  میں ججج قِسمیں  بتائی گئی ہیں ، وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

 مُحسَّنات معْنویَّۃ (۱) التّورِیَّہ، توریہ کی دو قسمیں  ہیں  (۱)مجردہ(۲)مرشحہ ( ۳ ) اِبہام (۴)اِیہام(۵)توجیہ(۶)طباق(۷)مقابلہ(۸)تدبیج(۹)اِدماج(۱۰)استتباع( ۱ ۱)  مُرا عاۃ النّظیر (۱۲)اِسْتِخدِام(۱۳)اِسْتِطْراد(۱۴)افتِنَان(۱۵)جمع (۱۶)تفریق (۷ ۱ ) تقسیم (۸ ۱ ) الطَیّ والنَّشر ’’لف و نشر‘‘ (۱۹)اِرسال المَثَل(۲۰)کلام جامع (۲۱) مبالغہ، اس کی تین قسمیں  ہیں ، تبلیغ، اِغراق، غلو(۲۲)مُغَایَرَتْ(۲۳)تاکید المَدْح بِمَا یُشْبِہ الذَّمْ، اس کی دو قسم ہیں ، پہلی قسم یہ ہے  کہ ذم کی صفتِ منفیہ سے  صفتِ مدح کا استثناء کر لیا جائے  اور پھر یہ فرض کر لیا جائے  کہ مدح کی صفت، ذم کی صفت میں  داخل ہے۔

دوسری قسم یہ ہے  کہ کسی شے  کے  لئے  مدح کی صفت ثابت کی جائے  پھر اس صفت کے  بعد حرف استثناء لایا جائے ، اس کے  بعد مدح کی دوسری صفت لائی جائے ، جس کا سابقہ صفتِ مدح سے  استثنا کیا گیا ہو۔

(۲۴)تاکید الذم بِمَا یُشُبِہ المدح، اس کی بھی دو قسم ہیں ، پہلی قسم یہ ہے  کہ مدح کی صفتِ منفیّہ سے  صفت ذم کا استثنا کر لیا جائے  اور یہ فرض کر لیا جائے  کہ وہ صفتِ ذم مدح کی صفتِ منفیّہ میں  داخل ہے۔

دوسری قسم یہ ہے  کہ کسی شے  کے  لئے  ذم کی صفت ثابت کی جائے  اس کے  بعد کلمہ استثنا ء لایا جائے ، اس کے  بعد ذم کی دوسری صفت لائی جائے۔

 (۲۵) تجرید(۲۶)حُسْن التَّعْلِیْل(۲۷)ائتلاف اللفظ مع المعنی مُحسّنات لفظیّہ(۱)تَشَابَہ اَطْرَاف(۳)جناس، اس کی دو قسمیں  ہیں (۱)جناس تام (۲) جناس غیر تا م (۲)جناس تام کی چار قسمیں  ہیں  (۱) مماثل(۲)مستوفی(۳) متشابہ(۴)مفروق

(۳)جناس غیر تام کی چھ قسمیں  ہیں ( ۱) مُحَرَّفْ (۲)مُطَرَّفْ (۳)مُذَیَّلْ  ْ(۴) مُضَارِعْ(۵) لَاْ حِقْ(۶)جناس قلب

(۴) تصدیر اور رَدَّالْعَجْز عَلَی الصَّدر، اس کی دو شکلیں  ہیں (۱) دونوں  الفاظ کا مُشْتَقْ مِنْہ ایک ہو(۲)مُشْتَق منہ تو ایک  ہو مگر ایک ہونے  کے  مشابہ ہو۔

(۵) سَجَعْ، اس کی تین قسمیں  ہیں (۱) مُطَرَّف(۲) مُتَوازی(۳۰)مُرصع

(۶) مَالَا یَسْتَعْجِیُل با لاِنْعِکَاس(۷)العکس(۸)التَّثْرِیْعُ(۹)اَلْمُوارَبَہ(۱۰)  ائتَلاف اللفظ مع الفظ(دُرُوْس الْبلاغۃ وتوضیح البلاغۃ وشمُوس البراعۃ) 

ان کے  علاوہ اور بھی قسمیں  کتابوں  میں  دیکھنے  کو ملتیں  ہیں ، جیسے  لف و نشر مرتّب(۲) لف و نشر غیر مرتّب(۳) لف و نشر معکوس(۴) صنعت سوال و جواب وغیرہ۔

علم بدیع کے  قواعد و قوانین جس طرح عربی اورفارسی زبانوں  سے  اردو والوں  نے  مستعار یا قدرے  کہیں  پر تخفیف و ترمیم کے  ساتھ لئے  ہیں  اسی طرح دیگر زبان والوں  نے  انہیں  قواعد کے  ضابطے  سے  مستفید ہوئے  ہیں  مثال کے  طور پر انگریزی زبان والوں  نے  بھی اسے  برتا ہے۔ چنانچہ صنائع بدائع اور اس کے  اقسام کو انگلش میں  کیا نام دیئے  گئے  ہیں ، چند ایک کے  نام ملاحظہ فرمایئے۔

صنائع بدائع۔ کو انگریزی میں ، speech of Figures کہا گیا ہے

(۱)تشبیہ۔ کوsimile (سیمِیلی)(۲)استعارا۔ کوMetaphor (میٹفر)(۳)تجسیم، غالباً تجنیس کو تجسیم لکھا گیا ہے Personification (پرسنیفیکیشن)(۴)مبالغہ  Hyperbole (ہائپر بول)(۵)حُسنِ تعبیر(حسنِ تعلیل۔ کو ) Euphemism(یوفیمزِم)(۶)تضاد۔ کوAntithesis(اینٹی تھیسِس)(۷)طنز۔ کوIrony(آئرنی)(۸)اِیہام۔ کو Pun ) پَن)(۹)مجاز مرسل۔ کوMetonymy (میٹو نیمی)

(سیّد، ایم۔ اے۔ کی کتاب ’’کمپلیٹ اردو انگلش ٹیچر‘‘ سے  ماخوذ)

علم بدیع اپنی ابتدا ہی سے  ارتقا کی منزلوں  میں  قدم رکھ چکا تھا۔ اس کی ہر شاخ میں  خوشنما شاخیں نکلنے  لگی تھیں ، اس کی شاخ کا ہر پھول معطّر اور ہر پھل ذائقہ دار کے  طور پر مشہور ہونے  لگا، محققین، معلمین، مترجّمین، جب اس کے  گرویدہ ہو گئے  تو چھٹی صدی کے  تمام ہونے  پر اشّکا کی کی بدولت علم بلاغت میں اس کی الگ پہچان ہوئی۔ چنانچہ ڈاکٹر سراج احمد بستوی لکھتے  ہیں کہ۔ چھٹّی صدی ہجری کے  اواخراورساتویں  صدی ہجری کے  اوائل میں  اشکّا کی کی بدولت علم  بدیع کی تاریخ کا علم  البلاغت کی ایک جداگانہ شاخ کی حیثیت سے  نیا دور شروع ہوا۔ مولانا احمد رضاؔ بریلوی کی نعتیہ شاعری، اس کے  بعد تقریباً ایک صدی تک علم بدیع اسی طرح رواں دواں رہا۔ کوئی اس کی زلفیں  سنوارتا، کوئی اس کو سکھا تا، کوئی اس سے  علم کی پیاس بجھاتا، کوئی اس کی اشاعت کرتا کتابیں لکھتا، درسگاہیں سجاتا، شعرا اس کو باریک بینی سے  پڑھتے ، اپنے  کلام کو اس سے  سجاتے ، علما کی محفل میں  واہ واہ کی داد لوٹتے ، بادشاہوں سے  انعامات لیتے  رہے۔ با لا خر آٹھویں صدی ہجری میں علم بدیع کے  دو حصّے  بیان کئے  گئے  یعنی صنائع لفظی اور صنائع معنوی۔ پھر ان کی متعدد قسمیں اور صورتیں محقق ہوئیں۔ پس کلام کاحُسن اور شاعری کا جمال صنائع و بدائع معتدل استعمال قرار پایا(مولانا احمد رضاؔ کی نعتیہ شاعری)

علم بدیع کی اس مختصر سی تاریخ سے  اندازہ لگاسکتے  کہ یہ علم بتدریج عروج و ارتقا کی منزلیں  طے  کرتا رہا ہے۔ اردو والوں  نے  بھی اس کی کئی صورتیں  ایجاد کی ہیں ، اس کی زندہ مثال صنعتِ تلمیح  اور اس کی قِسمیں  مشکوفی  و محجوبی ہیں  یہ اردو والوں  کی اختراع ہیں ، اس کے  علاوہ اور دوسری قِسمیں  بھی ہیں ، پہلے  کے  دور میں  صنائع بدائع شاعری کی جان مانا جاتا تھا، اِس دور میں  صنائع بدائع تو دور کی بات ہے  بہت سارے ججج اپنے  کو شاعر کے  زمرے  میں  گنتے  ہیں  علم عَروض سے  بھی بالکل ناواقف ہیں ، ایسے  لوگ تُک بندی کر کے  مشاعرے  میں  خوب چہکتے  ہیں ، صنائع کا اندازہ اس سے  بھی لگا سکتے  ہیں  کہ جناب حسرت موہانی ایک رسالہ ’’نکاتِ سُخن‘‘ کے  نام سے  نکالتے  تھے ، جس کے  مضامین شاعری کے  فنّی لوازمات ہی ہوتے  تھے (ایّضاً)یہی وجہ ہے  کہ اُس دور کے  شعرا کے  کلام میں  ہر قسم کی صنعتیں  ملتی ہیں ، آج کی بنسبت ان کے  یہاں  صنائع بدائع کی حا لت بہتر تھی، ماضی میں  اکثر شعرا کے  یہاں  یہ عمل شعوری تھا آج اکثر کے  یہاں  لاشعوری ہے۔

٭٭٭٭٭

صنعتِ تجاہلِ عارفانہ

جان بوجھ کر انجان بننا، کسی معلوم بات کو نامعلوم کی طرح بیان کر کے  اس کی تمیز میں  اپنی حیرانی و عدم واقفیّت کا اظہار کرنا، ارادتاً نا واقفیت ظاہر کرنا(فیروز اللغات)

کسی بات کو جاننے  کے  باوجود کسی وجہ سے  انجان بننا تجاہل عارفانہ کہلاتا ہے ، تاہم ایسے  پیرایہ میں  اظہار کے  سامع کے  لئے  مخفی گوشوں  کی طرف رہنمائی اور اشارہ ضرور مستحسن ہے۔ 

(اسباق نمبر ۲۸ شامل درس میسور یونیورسٹی میسور)

صنعت تجاہل عارفانہ۔ یہ ایسا حَسین فن ہے  کہ شاعر سب کچھ جانتے  ہوئے  بھی انجان بن جاتا ہے ، آئینے  کی حقیقت کو جانتے  ہوئے  انجان بن کر آئینے  کی حقیقت پوچھنا ہے ،زمین، آ سمان، چاند، سورج، ستارے ، ابر، ہوا وغیرہ کو دیکھتے  ہوئے  اس کی حقیقت سے  ناآشنا ہو جا تا ہے ، اس تعلق سے  ایک واقعہججج دلچسپی سے  خالی نہ ہو گا، ملاحظہ کر لیجئے۔

میرے  ایک ملنے  والے ججج علمی لیاقت میں  مضبوط ہیں ، علم کی روٹی کھاتے  ہیں ، اپنے  فن میں  ماہر ہیں ، ڈاکٹر اقبال کے  عقیدت مند ہیں ، اشعار سننے  سنانے  کا شوق رکھتے  ہیں ، لیکن شاید ’’صنعت تجاہل عارفانہ‘‘ سے  واقف نہیں  ہیں ، چند سال پیشتر کی ایک ملاقات میں  شعر و شاعری سے  متعلق گفتگو کرتے  وقت ڈاکٹر اقبال کے  اشعار پڑھ کر ان کی خوبیاں  گِنانے  لگے ، غالب سے  بیزار سے  معلوم ہوتے  تھے ، کہنے  لگے  لوگ غالب کو بڑے  شاعروں  میں  شمار کرتے  ہیں ، پھر غالب کا ایک شعر پڑھ کر  ؂

 سبزہ و گُل کہاں  سے  آئے  ہیں ٭ابر کیا چیز ہے  ہَوا کیا ہے

پھر مخاطب کر کے  کہنے  لگے  بتایئے  جس کو یہ نہیں  معلوم کہ ابر کیا چیز ہے ، ہوا کیا ہے  وہ کیسے  بڑا شاعر ہو گیا؟میں  نے  کہا، محترم!یہ فن ہے  اس کو تجاہل عارفانہ کہتے  ہیں ، کبیدگی کا اظہار کرتے  ہوئے  گویا ہوئے  آپ لوگ عارفانہ، فارفانہ کی آڑ میں  ان کو بڑا ثابت کرنا چاہتے  ہیں ، اور چلتے  بنے۔ دیکھا آپ نے  کہ پڑھے  لکھّے  لوگوں  کو بھی تجاہل عارفانہ مغالطے  میں  ڈال دیتا ہے۔ جناب غلام مرتضی راہیؔ کے  کلام کے  متعلق جتنا لکھا گیا ہے ،ججج میں  پڑھ سکا ہوں ، وہ اگر زیادہ نہیں  تو کم بھی نہیں  ہے ، مگر ان میں  موصوف کے  کلام کے  اصناف سے  متعلق صرف نشان ہی ملتے  ہیں ، راہیؔ دیگر اصناف کی طرح تجاہل عارفانہ میں  بھی منفرد نظر آتے  ہیں  کہ راہ چلتے  چلتے  کہیں  کہیں  پر تجاہل عارفانہ کے  موتی لٹائے  ہیں  تو ایک صفحہ پر ایک پوری غزل کہہ کر تجاہل عار فا نہ کے  غنچے  ایک شاخ پر کھلا دیے  ہیں ، مجھے  محسوس ہوتا ہے  کہ موصوف شعر کہتے  ہوئے  در میان میں  ہی اپنے  تخیل کو لگام لگا دیتے  ہیں کہ ان کا کلام اکثر ۵تا۷ اشعارسے  آگے  نہیں  پڑھنے  پاتا ہے۔ موصوف کا یہ عمل احتیاط کے  طور پر ہوتا ہے  یا زیادہ کو وبال جان سمجھتے  ہیں۔ معلوم نہیں ؟ اگر آپ نے  تجا ہل عارفانہ والی غزل میں چند اور اشعار کا اضافہ کر دیا ہوتا تو شاید اس فن میں  آپ یگانہ ٹھہر تے۔ بہرحالججج کچھ ہے ، جتنا ہے  قیمتی ہے ، کسی کے  سامنے  یا مقابلہ میں  آنے  سے  جھجکے  گا نہیں  بلکہ سرا ٹھا کر، سینہ تان کر، زلف لہرا کر، حُسن دکھا کر، لوگوں  کے  دلوں  کو موہ لے  گا، نکتہ شناس سَراہ کر، د اد د ے  کر، انعام دے  کر، راہی کو یاد کریں  گے ؂

(۱) آ کے  سینے  سے  لگا جانے  کیا ٭تھی مرے  دل کی خطا جانے  کیا(ص۱۴۳حرف مکرّر)

آنے  اور آ کر لگنے  کی گواہی بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ .........جگہ اور مقام ’’سینہ‘‘ کی نشاندہی بھی ...... اپنے  دل کی خطا کا اقرار بھی.....واقفیت بھی ہے ...... عدم واقفیت بھی......تمیز بھی ہے .....حیرانی بھی........ سادگی کے  پردے  میں  جوش بھی ہے  روانی بھی ......دل کس کوچے  میں  کس گلی میں  بھٹک رہا ہے .......کیا کر رہا ہے  کی پہچان بھی.......لیکن عینی گواہ نے  سب پر پردہ پوشی کی چادر ڈ ال کر ایک ہی بات کہہ رہا ہے ......جانے  کیا......جانے  کیا۔

کیا یہ جھوٹ نہیں  ہے ؟.........کہنے  لگے  نہ یہ جھوٹ ہے  نہ فریب....... نہ یہ مکر ہے  نہ دغا........ نہ یہ مقدّمہ ہے  نہ عدالت.......یہ فن تجاہل عارفانہ ہے  اس میں  ایسا .......اسی طرح  کہا جاتا ہے .........کہنے  لگے  اور سنو گے .....سناؤں ؟.....اور دیکھو گے .....دکھاؤں ؟میں  نے کہاسنایئے ......دکھایئے۔

(۲)ڈھونڈ عالم میں  کوئی حرف شناس٭صاف لکھّا ہے ، خدا جانے  کیا

یہ تو پہلے  سے  بھی زیادہ پیچیدہ اور لاینحل معاملہ ہے ....کہ صاف لکھا ہونے  کے  باوجود کوئی پڑھ نہیں  پا رہا ہے ......ہمارے  ملک ہندوستان میں  ایک سے  بڑھ کر ایک حرف شناس .. . .. . . علم شناس.....نکتہ شناس.....ہونے  کے  باوجود شاعر موصوف کا پیغام ہے  کہ.....عالم میں  ڈھونڈو  .. ...دنیا میں  دیکھو.....کوئی حرف شناس ایسا مل جائے ......جو صاف لکھا ہوا کو پڑھ دے۔

 دل نے  کہا یہ کہیں  خطِ خضی یا خط نستعلیق تو نہیں  ہے  ......جو پڑھنے  میں  نہیں  آتا ہے .....عقل نے  کہا یہ دونوں  میں  سے  کوئی نہیں  ہے  یہ تو صاف لکھا ہوا ہے ......پہلے  والے  سے  زیادہ گٹھیلا..... مضبوط اور گرہ دار ہے  کہ پہلے  صرف جانے  کیا تھا.......اب ’’خدا جانے  کیا‘‘ ہے  . . ...دل نے  کہا یہی کلمہ ’’خدا جانے  کیا‘‘ تو نہیں  ہے ؟.....عقل نے  کہا یہی ہوتا تو پھر حرف شناس کو ڈھونڈنے  کی کیا ضرورت تھی......چلئے  چھوڑیئے  یہ راز کی بات ہے .....تجاہل عارفانہ کا معاملہ ہے  . .....خدا جانے  کیا ہے۔

(۳) گھومتا ہی رہا آنکھوں  میں  مری٭ایک چکّر سا چلا، جانے  کیا 

آنکھوں  میں  گھومنے  والا کوئی تو ہے ......دوست ہے  یا دشمن...... حریف ہے  یا رقیب... خوبصورت ہے  یا بد صورت......گورا ہے  یا کالا......وفادار ہے  یا بے  وفا.....محبوب ہے  یا نا محبوب .......فانی ہے  یا لافانی......زمیں  میں  رہتا ہے  یا آسمان میں  ......صحرا کی وسعتوں  میں  رہتا ہے  یا صحن کے  گوشوں  میں  ......کچھ پتا نہیں  چلتا.....اس لئے  کہ بہت حفاظت سے  آنکھوں  کی پتلی میں  چھپا کر رکھا گیا ہے .......راز عیاں  نہ ہونے  کی قسم کھا ئی گئی ہے ......شعر کے  خالق کے  علاوہ کوئی نہیں  جانتا ہے  کہ یہ دوستی کا چکّر ہے  یا دشمنی کا.......کچھ پانے  کا چکّر ہے  یا کھونے  کا.....درد کا چکّر ہے  یا دوا کا......حسن و عشق کا چکّر ہے  یا عاشق و معشوق کا......سر جھکانے  یا کٹانے  کا چکّر ہے  یا سر اُٹھانے  یا بچانے  کا.......دامن بچانے  کا چکّر ہے  یا دامن پر داغ لگا نے  کا  .....معلوم نہیں  . . . . . . جا نے  کیا.....کہہ کر مطلوب کو.....محبوب کو......مقصود کو.....مدّعا کو....معشوق کو.....مقصد کو .....نہ جا نے  زمیں  کی تہہ میں  چھُپا دیا ہے  یا آسمانوں  کی وسعتوں میں  کہ تلاش بسیار کے  بعد بھی کچھ اَتا پتا نہیں  چلتا ہے .......جو سینہ اپنے  اندر ایسے  رازوں  کو چھُپا کر رکھتا ہے ، سچّا عاشق کہلاتا ہے  اور جس شعر میں  ایسی باتیں  عیاں  ہوتی ہیں  وہ شعر تجاہل عارفانہ میں  شمار ہوتا ہے۔

 (۴)نامکمل سا لگا مجھ کو سفر٭راہ میں  چھوٹ گیا، جانے  کیا

 سیراب ہونے  کے  باوجود تشنگی باقی رہ گئی ہے ......اجالے  میں  پہنچ کر اندھیرے  کا خوف......منزل پر پہنچ کر ڈر....خوف....کسک....ٹیس....کا احساس بتلا رہا ہے  کہ کوئی حادثہ پیش آیا ہے .......اس بنا  پر مسافر کو اپنا سفر نامکمل سا لگ رہا ہے ....آخر ہوا کیا ہے ؟....کہنے  لگے ’’راہ میں  چھوٹ گیا ہے ... مگر کیا چھوٹ گیا ہے ؟...دوست...احباب...اپنا بیگانہ...خویش و اقارب . . . نوکر چاکر...تیغ و تبر..  مال و زر...کوئی قیمتی اثاثہ...لعل و گہر...بجائے  اثبات میں  سر ہلانے  کے  منفی جملوں  کی تکرار کرنے  لگے  ....جانے  کیا...جانے  کیا...میں  حیران ہو کر منھ تکنے  لگا کہ یا الہی یہ ما جرا کیا ہے .........مسکرا کر کہنے  لگے  اگر میں  راز کو عیاں  کر دوں  گا تو تجاہل عارفانہ کی جگہ پر کوئی دوسرا براجمان ہو جائے  گا... اور میں  نہیں  چاہتا کہ اس کی جگہ کوئی دوسرا لے۔

 (۵)ایک آواز کے  پیچھے  راہیؔ ٭ہر طرف شور ہوا، جانے  کیا

آواز کی خبر ہے  جسے  عام کیا گیا ہے ....لیکن آواز کس کی ہے  .... کیسی ہے ... . کیا ہے  ؟ ...

خوشی کی ہے  یا غم کی......رنج کی ہے  یا راحت کی......فاتح کی ہے  یا مفتوح کی......فتح کی ہے  یا شکست کی.....ردّ کی ہے  یا قبول کی.....انکار کی ہے  یا اقرار کی......امیر کی ہے  یا غریب کی..... عاشق کی ہے  یا معشوق کی....عورت کی ہے  یا مرد کی......ظالم کی ہے  یا مظلوم کی.....مدّعی کی ہے  یا مدّعا علیہ کی.....عالم کی ہے  یا جاہل کی.....شاعر نے  سب کو پردے  میں  چھُپا کر کہا ہے  کہ اس کے  پیچھے  ’’ہر طرف شور ہوا‘‘ .....پھر وہی منفی پہلو سامنے  آیا.....شور ہوا.....کیا شور ہوا؟.....کلمۂ تحسین کا یا کلمۂ تاسف کا.....واہ واہ کا یا ہائے  ہائے  کا.....طنز یا تعجّب کا.....زندہ باد کا یا مردہ باد کا.....فاتح کی فتح کا یا مفتوح کی شکست کا.....ظالم کے  ظلم کا یا مظلوم کی فریاد کا....؛پکڑو..مارو..پِیٹو کا یا چھوڑ دو..جانے  دو..رحم کھاؤ کا؟......سارے  سوالات کے  جواب میں  شاہد کی زبان سے  ایک ہی بات نکلتی ہے .....جانے  کیا.....اس طرح راہی کے  مسلسل پانچ اشعار پر مشتمل غزلججج تجاہل عارفانہ کا  فن لئے  ہوئی ہے .....اپنے  جوبن پر آ کر تشنگی باقی رکھ کر اختتام پذیر ہوتی ہے .....لیکن ابھی مایوس ہونے  کی ضرورت نہیں  ہے  ...شاعر موصوف نے  حیرت واستعجاب میں  ڈوبا کر سیراب کرنے  کے  لئے  چند جگہوں  پر اور بھی کنویں  کھودے  ہیں۔

(۶)شہر کا ہر آدمی پیچھا لئے  ہے ٭جانے  دیوانہ کسی کا کیا لئے  ہے (ص۱۴۱ حرف مکرّر)

شہر بھی واضح......شہر کا آدمیججج پیچھا کئے  ہوئے  ہے  وہ بھی واضح.....دیوانہ بھی واضح ہے ..... مطلب یہ ہوا کہ دیوانہ آگے  آگے  بھاگ رہا ہے ......لوگ اس کے  پیچھے  دوڑ رہے  ہیں  .. ...بات صرف اتنی سی ہے  کہ دیوانہ کسی کا کچھ لئے  ہوئے  ہے .....مگر کیا لئے  ہوئے  ہے  ؟ .. ...جانے  کسی کا کیا لئے  ہوا ہے .....نے  پردہ پوشی کر کے  شعر کو تجاہل عارفانہ کی صف میں  کھڑا کر د یا ہے۔

(۷)پتہ نہیں  کہ وہ پتھر تھا، پھول تھا کیا تھا

 جِدھر سے  آیا تھامیں  نے  اُدھر اُچھال دیا(ص۷۳ حرف مکرّر)

جدھر سے ججج آیا تھا اسی طرف اس کو پھینک دیا......اچھال دیا.....لوٹا دیا.....اور فاعل کو خبر تک نہیں  ہوئی..... حِس کو پتا تک بھی نہیں  چلا.......قوّتِ لامسہ کو احساس تک نہیں  ہوا کہ وہ پتھر ہے  یا پھول یا کوئی اور شے  ہے ؟....پتھر کی سختی پھول کی نرمی کا احساس ضرور ہوا ہو گا.....لیکن سب باتوں کو چھُپا کر لاعلمی اور عدم واقفیّت کا اظہار کیا جا رہا ہے .....تجاہل عارفانہ کی یہی صفت ہے ...  یہی پہچان ہے .....تجاہل عارفانہ کے  زمرے  میں  یہ بہترین   شعر ہے .......بات عمدہ طریقے  سے  کہی گئی ہے۔

شعر کا پہلا مصرعہ فقیرانہ...مجذوبانہ اور عارفانہ شان کا حامل ہے  کہ بعض خاصانِ خدا سلوک کی اس منزل میں  ہوتے  ہیں  کہ دنیا میں  رہ کر دنیا کی طرف دیکھتے  نہ دنیا کی چیزوں  کی جانب جھانکتے  ہیں ....نہ ان کو کام کے  بننے  کی خوشی ہوتی ہے  نہ بگڑنے  کا غم ہوتا ہے .....وہ اپنی راہ پرا س طریقے  سے  استوار ہوتے  ہیں  کہ وہ اپنے  دائیں  ....بائیں  بھی نگاہ نہیں  کرتے  ہیں  .... راستے  کے  سود و زیاں  سے  بے  پرواہ ہو کر اپنی منزل کی طرف بڑھتے  رہتے  ہیں ......ان کی تمام تر توجہ اللہ تعالی کی طرف ہوتی ہے .....ان کا شغل صرف اللہ تعالی کی یاد ہوتی ہے .....ایک بزرگ سے  کسی نے  پوچھا کہا سے  آ رہے  ہو؟......فرمایا.. ’’اللہ‘‘ پوچھا کہاں  جاؤ گے ؟...فرمایا.... ’’اللہ‘‘ پوچھا منزل کہاں  ہے ؟.....فرمایا.... ’’اللہ‘‘

مطلب یہ کہ جہاں  سے  چلا ہوں  .....اللہ تعالی کا نام لے  کر، اللہ تعالی کے  لئے  اللہ اللہ . . . ..کرتے  چلا ہوں ......جہاں  جاؤں  گا اللہ تعالی کے  لئے  .....اللہ اللہ....کہتے  ہوئے  جاؤں  گا.... . جہاں  قیام کروں  گا .....اللہ اللہ.....کہتے  ہوئے  ......اللہ تعالی کے  لئے  ٹھہروں  گا۔

اب ایک واقعہ پڑھیئے  اور جناب غلام مرتضی راہیؔ کے  مذکورہ شعر پر غور کیجئے  ’’احمد آباد کے  قطب عالم علیہ الرحمہ اپنے  معمول کے  مطابق ایک شب کو تہجّد کے  لئے  اٹھے  ........قریب ہی ایک لکڑی پڑی ہوئی تھی .......حضرت قطب عالم علیہ الرحمہ کو اس لکڑی سے  پاؤں  میں  ٹھوکر لگ گئی  بے  ساختہ آپ کی زبانِ مبارک سے  یہ الفاظ نکلے  کہ لوہا ہے ؟.....لکڑی ہے ؟.....کنکر ہے ؟.......  پتھّر ہے ؟.....نہ جانے  کیا ہے ؟ ......لوگوں  نے  صبح کو دیکھا تو اس میں  لوہا...لکڑی....کنکر...پتّھر، سب کچھ تھا.....اور اس میں  ایک ایسی چیز نمودار ہو گئی کہ کسی نے  اس کو نہیں  پہچانا اور سب نے  یہی کہا کہ.... ’’نہ جانے  کیا ہے ؟......آج بھی یہ لکڑی کا ٹکڑا احمد آباد سے  چند میل دور ’’بَٹْوَہ‘‘ میں  حضرت قطبِ عالم کے  مزار کے  قریب رکھا ہوا ہے  ......اور ہر دیکھنے  والا اس میں  ....لوہے ... لکڑی.. . کنکر . . .پتھر....کو پہچان لیتا ہے  .....مگر اس خاص چیز کو دیکھنے  والا دیکھ کر یہی کہتا ہے  کہ نہ جانے  کیا ہے ؟ . . . ..حد ہو گئی کہ اس کو کاٹ کر انگریز لندن لے  گئے .....اوراس کی لیبارٹری میں  جانچ پڑتال کرتے  رہے  اور آخر کار مجبور ہو کر ان لوگوں  نے  کہہ دیا کہ ’’نہ جانے  کیا ہے ؟ (نورانی تقریر۔ مولانا الحاج عبدالمصطفی اعظمی) 

اس واقعہ کی روشنی میں  جناب راہیؔ کے  شعر کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔

 ٭٭٭٭٭

صنعت واسع الشّفتین

صنائع کی قسموں  میں  سے  ایک قِسم واسع الشّفتین کی بھی ہے ، انوکھے  طرز کی صنعت ہے ، عرصہ ہوا اس صنعت میں  مولانا احمد رضا کی ایک طویل نعت پڑھنے  کو ملی تھی، نعت پاک کے  تماما شعار اسی صنعت میں  تھے  اس کے  بعد پھر ایسی کوئی نعت، غزل یا قصیدہ پڑھنے  کو نہیں  ملا۔ اس صنعت کی خوبی یہ ہے  کہ یہ لب سے  لب کو ملنے  نہیں  دیتی، اس صنعت کے  تحت شعر میں  ایسے  حروف استعمال ہوتے  ہیں ، جن کے  پڑھنے  سے  لب نہیں  ملتے  ہیں ، راہیؔ کے  یہاں  راہ چلتے  ہوئے  اس صنعت کے  نقوش کہیں  کہیں  ابھرے  ہیں ؂

 ہر سانس اک آہٹ سی لئے  جائے  گا کوئی

 جیتے  جی کوئی لوٹ کے  گھر آئے  نہ آئے

٭

 شہر کو چھوڑ کر وحشت نہ رہی٭دشت کی کوئی حقیقت نہ رہی

آج تک دل سے  آہٹیں  نہ گئیں ٭اتنے  نزدیک سے  وہ گزرا تھا

نظارے  وہی اس کی قدرت کے ہیں

نہیں دیکھنے سننے والا  کوئی

اکثر دروازوں کے  ہوتے  ٭گھر کھُلنے  سے  رہ جاتے  ہیں

جو نظر آ رہی ہے  اے  لوگو!٭کُل یہی اُس کی کائنات نہیں (۱)

( ۱) مذکورہ بالا اشعار کے  لئے  ’’لاکلام‘‘ صفحہ ۳۷، ۳۹، ۷۷، ۱۳۲، ۱۷۰، ۱۷۱ دیکھئے۔

ان کے  انصاف کا کہنا کیا ہے ٭دیکھئے  کس کو سزا دیتے  ہیں

 اس کے  لئے  تیرگی ہی اچھّی٭روشن تھا چاند رات کتنا

 ایسے  ہی آثار دکھائی دیتے  ہیں ٭دیکھو کیا ہونے  والا آیندہ ہے

 کہیں  اچھی تری تصویر، تجھ سے ٭اگر تھی دیدنی تو دیدنی ہے

 نظر آتی نہیں  ہے  راہ کوئی٭یہاں  تک چھاؤں  زلفوں  کی گھنی ہے

ستارے ، چاند، سورج کہہ رہے  ہیں ٭چلے  آؤ جہاں  تک روشنی ہے

مذکورہ بالا اشعار کے  لئے  ’’لاشعور‘‘ صفحہ ۲۲، ۳۰، ۳۸، ۳۹، ۴۰ ملاحظہ کیجئے۔

 

صنعت واسع الشّفتین کے  انہیں  اشعار پر اکتفا کرتا ہوں ، واسع الشفتین کی ضد واصل الشفتین ہے۔  

٭٭٭

تشبیہ

ایک چیز کو دوسری چیز کی طرف منسوب کر کے  اس کی مانند کہنا ’’تشبیہ‘‘ ہے۔ جیسے ’’ لب‘‘ کو ’’پھول‘‘ کی طرف ’’زلف‘‘ کو ’’رات‘‘ کی طرف ’’پاؤں ‘‘ کو ’’چاند‘‘ کی طرف یا، آئینے ‘‘ کی جانب ’’ذرّے ‘‘ کو ’’ستارے ‘‘ کی طرف ’’چاندنی‘‘ کو ’’چادر‘‘ کی طرف منسوب کر کے  ان کی طرح کہنا تشبیہ ہے۔

ارکان تشبیہ چار ہیں۔ مشبّہ(۲)مشبّہ بہٖ(۳)وجہ تشبیہ(۴)اور حرف تشبیہ ’’ دروس البلا غۃ‘‘ میں ارکان تشبیہ کی تعریف اس طرح سے  ہے۔ مثال کے  ساتھ۔ الْعِلْمُ کَا النوُّرِ فیِ الْھِدَایَۃِ۔ اَلْعِلْم۔ مشبّہ۔ وَالنُّوْرُ۔ مشبہ بہٖ۔ وَالْھِدَایَۃُ۔ وجہ تشبیہ  وَالْکَاف۔ حَرف تشبیہ۔

یعنی علم رہنمائی میں  روشنی کی طرح ہے  تو ’’علم‘‘ مشبّہ ہے  اور ’’نور‘‘ مشبّہ بہٖ‘‘ ’’ ہدایت‘‘ ’’وجہ تشبیہ‘‘ اور ’’کاف‘‘ حرف تشبیہ ہے۔

مطلب یہ ہوا کہ جسے  تشبیہ دیں  اس کو ’’مشبہ‘‘ کہتے  ہیں  جیسے  او پرکی عبارت میں  ’’ علم‘‘ مشبہ‘‘ ہے۔ جس چیزسے  تشبیہ دیں اس کو ’’مشبّہ بہٖ‘‘ کہتے  ہیں  جیسے  ‘‘  ’’نور‘‘ مشبّہ بہٖ ہے  جس وجہ سے  تشبیہ دیں  اسے ’’وجہ تشبیہ‘‘ کہتے  ہیں  جیسے  ’’ ہدایت‘‘ وجہ تشبیہ‘‘ ہے  تشبیہ ظاہر کرنے  والی علامتوں  کو حرف تشبیہ‘‘ کہتے  ہیں جیسے ’’والکاف‘‘ حرف تشبیہ ہے۔

اردو میں ’’کی‘‘ سی ’’گویا‘‘ ایسا ’’ویسا‘‘ جیساوغیرہ حرف تشبیہ کہے  جاتے  ہیں۔  

اقسام تشبیہ بھی چار ہیں۔ مشبّہ اور مشبّہ بہٖ کے  اعتبارسے (۱)مُفْرَدْکی تشبیہ مفرد سے ( ۲ ) مرکّب کی تشبیہ مرکّب سے (۳) مرکّب کی تشبیہ مُفْرد سے (۴)مُفْرَدْ کی تشبیہ مرکّب سے۔ مثال۔

(۱)میں  تو سورج کو بڑے  پیار سے  تکتا ہوں

وہ میری آنکھوں  میں  چُبھ جاتا ہے  نشتر کی طرح(ص۳۵حرف مکرّر)

سورج مُفْرَد مشبّہ، نشتر مُفْرَد مشبّہ بہٖ، آنکھوں  جمع وجہ تشبیہ، شعر میں  مُفرَد کی تشبیہ مُفْرد سے  ہے۔

(۲)اَنی برچھی کی اُس کی، مری نوکِ قلم ہے

اُتر جائے ججج دل میں  وہی ان میں  اہم ہے (ص۵۵لاشعور)

اَنی اور برچھی مرکّب مشبّہ، نوکِ قلم مرکّب مشبّہ بہٖ، دل وجہ تشبیہ، شعر میں  مرکّب کی تشبیہ مرکّب سے  ہے۔

(۳) لُو اب یہ چاند سورج میں  بھی نکل آئے

 یہ آئینوں  میں  کہاں سے  سما گئے  پتھر(ص۹۶ لاشعور) 

چاند اور سورج مرکّب مشبّہ، آئینوں  مرکّب مشبّہ بہٖ، پتھر وجہ تشبیہ، مر کّب کی تشبیہ مرکّب سے  ہے۔

(۴)اگر ہو زخم کھانے  والا کوئی

قلم کی نوک برچھی کی انی ہے (ص۳۸لاشعور )

 (۵) بجلیاں  اس کے  بدن میں  ہیں بھری

کوئی چھو لے  تو غضب ہو جائے  گا(ص۹۰لاشعور)

بجلیاں  مرکّب مشبّہ، بدن مُفْرَد مشبّہ بہٖ، چھونا وجہ تشبیہ، یہ مرکّب کی تشبیہ مُفْرد سے  ہے۔

(۶) چاندنی پھیلی رہی جسم پر چادر کی طرح

میں  پڑا سویا کیا اپنے  مقدّر کی طرح(ص۳۵حرف مکرّر)

چاندنی صفت مشبّہ مُفرَد، چادر مُفْرد مشبّہ بہٖ، سویاصفت مُفرد، مقدر مُفرد۔

شعر کے  پہلے  مصرعہ میں ، مشبّہ مفرد اور مشبّہ بہٖ مفرد ہے  اور دوسرے  مصرعہ میں  بھی، مشبّہ مفر د اور مشبّہ بہٖ مفرد ہے ، اس کو تشبیہ مفروق کہتے  ہیں۔

 

٭٭٭٭

استعارہ

استعارہ۔ وہ مجاز ہے ، جس میں  تشبیہ کا علاقہ ہو، اور معنیِ مجازی مراد لیتے  وقت معنیِ حقیقی مراد نہ لئے  جانے  پر کوئی قرینہ بھی موجود ہو جیسے۔ کِتٰبُٗ اَنْزَلْنٰاہ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسِ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْر۔ آیت مذکور میں  ’’ظلمات‘‘ (تاریکیوں ) سے  مراد ’’ضلال‘‘ ّگمراہی)ہے اور  ’’نور‘‘ (روشنی)سے  مراد ’’ھدایت‘‘ ہے ججج کہ اس کا اصلی معنی نہیں  ہے  بلکہ مجازی ہے ، لیکن معنیِ حقیقی اور معنیِ مجازی کے  درمیان تشبیہ کا علاقہ ہے  بایں  طور کہ جس طریقے  سے  نور سے  رہنما ئی حا صل ہوتی ہے  اسی طریقے  سے  ایمان سے  بھی ہدایت ملتی ہے  اور جس طریقے  سے  ’’ظلمات‘‘ یعنی تاریکیوں  سے  رہنمائی حاصل نہیں  ہو پاتی، اسی طرح ’’ضلال‘‘ یعنی گمراہی میں  بھی رہنمائی حا صل نہیں  ہوتی، اس لئے  ’’ضلال‘‘ کو ’’ظلمات‘‘ سے  اور ’’ہدایت‘‘ کو ’’نور‘‘ سے  تشبیہ دی گئی ہے ، اور یہی استعارہ ہے۔ (توضیح البلاغۃص۱۶۱)

(۱)  ندّی نالوں  سے  سُنا ہے  ہم نے

 کہ سمندر میں  سخاوت نہیں  رہی (ص۳۹لاکلام)

ندی نالوں۔ اپنے  اصلی معنی میں نہیں بلکہ مجازی معنی میں استعمال ہوئے  ہیں  ’’ندی نالوں  ‘‘ کے  معنی فقیر ‘گداگر‘یتیم‘مسکین‘غریب بھی ہو سکتے  ہیں اور حقیر و کم ظرف بھی، اسی طرح ’’ سمندر‘‘ اصلی معنی میں نہیں بلکہ مجازی معنی میں  استعمال ہوا ہے  یعنی اعلیٰ اور دولت مند لوگ۔

 (۲) یہ کرشمہ ہے  مرے  چاند کا ورنہ راہیؔ

 مہر کب مشرق و مغرب سے  نمودار ہوا(ص۵۷ لاکلام)

اس شعر میں چاند، دوست، محب، معشوق، دلدار، منظور نظر، دل رُبا کے  معنی میں اور ’’ مہر‘‘ چاہنے  والا، محبت کرنے  والا، پسندکرنے  والا، فریفتہ کے  معنی میں استعمال ہوئے  ہیں

(۳) آ مدد کو مری، چڑھتے  سورج٭گرتی دیوار کے  سائے  سے  بچا(ص۱۲۰ لاکلام) 

چڑھتے  سورج سے  مراد، طاقت و حکومت ہے ، جن کو مدد کے  لئے  بلایا گیا ہے ’’گرتی دیوار‘‘ زوال کی جانب لوٹتی ہوئی طاقت یا حکومت کو بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہے۔

(۴) نکالتی تھی اندھیرے  سے ججج کبھی مجھ کو

 کہیں  دکھائی نہ دی پھر وہ روشنی مجھ کو(ص۶۵لاکلام)

اندھیرے ، مجازی معنی میں ، بے  کار کام، فضول کام، واہیّات ’’روشنی‘‘ بڑے ، بزرگ، ولی، مرّبی، سرپرست کے  ہیں۔

(۵) کہنے  سننے  کا عجب دونوں  طرف جوش رہا

 شہر کی باتوں  میں  صحرا ہمہ تن گوش رہا(ص۱۴۹لاکلام)

کہنے  والا کہے  گا اور سننے  والا سنے  گا، شہر کہے  گا اور صحرا سنے  گا، لیکن شہر کو زبان اصلی نہیں ، صحرا کو گوش حقیقی نہیں ، پھر شہر کہے  گا کیسے ، صحرا سنے  گا کس چیز سے ، مجاز نے  اپنا رنگ بلند کیا ہے ، عاشق کو شہر اور معشوق کو صحرا، یا معشوق کو شہر اور عاشق کو صحرا بنا کر پیش کیا ہے ، یا اعلی عہدیداروں ، لیڈروں ، سیاستدانوں  کو شہر اور پبلک و رعایا اور عوام کو صحرا بنا کے  دکھا یا ہے۔

٭٭٭٭

کنایہ

کنایہ میں  لفظ کے  اصلی معنی بھی مقصود ہوتے  ہیں  اور اس سے ججج نتیجہ نکلتا ہے  وہ معنی بھی مراد ہوتا ہے  یعنی لازم ملزوم دونوں  معنی مقصود ہوتے  ہیں  ....اہل علم کہتے  ہیں  کہ اس کے  استعمال کے  لئے  بڑے  سلیقے  کی ضرورت ہوتی ہے۔

(مولانا احمد رضا کی نعتیہ شاعری ص۲۴۶۔ ۲۴۷)

راہیؔ کے  کلام میں  کنایہ کے  اچھّے  اچھّے  اشعار پائے  جاتے  ہیں ؂

(۱) سلام کرنے  لگے  سنگ و خشت اُٹھ اٹھ کر

 کسی گلی سے  ہوا جب  گزر دوبارہ مرا (ص۱۴لاکلام)

حضور ﷺ جب کسی گلی سے  گزرتے  تھے  تو پتھر آپ کو سلام کرتے  تھے  حضور ﷺ فرماتے  ہیں  کہ مَیں  ان پتھروں  کو پہچانتا ہوں ججج مجھے  سلام کرتے  ہیں۔

(۲) جب حدّ تعین سے  تجاوز مَیں کروں گا

قدموں کو مرے  روکنے  تلوار بڑھے  گی (ص۲۰لاکلام)

 (۳)آنسوکا اپنے  دیکھنارخسارپرؔ اثر

 شبنم سے  گُل کو نکھر جا نا چاہیئے

 (۴)بلندی کا نشہ سا ہے ا بھی سورج کو  راہی

ابھی ذرّوں پہ بھی طاری ہے  سرشاری سی کوئی(ص۲۸لاکلام)

 (۵)ایسے  آداب کئے  وضع کہ ہر محفل میں

 اس نے  اپنے  کو اکیلا مجھے تنہا رکھا

(۶)اگر ہے  دل میں تو پھر ہو گا وہ ضرور کہیں

 قریب ہوکے  وہ رہتا ہے  مجھ سے  دور کہیں (ص۶۶لاکلام)

کنایہ کے  تحت اس باب میں  مزید اضافہ کیا جاسکتا ہے ، اس سلسلہ میں  راہیؔ کے  یہاں  راستہ وسیع ہے  اور خوبصورت بھی، گل کی نکہت دور تک پھیلی ہوئی ہے ججج مسام جان کو معطّر کرتی ہے۔  

٭٭٭

مجاز مُرسل

مجاز مرسل وہ مجاز ہے  جس میں  تشبیہ نہ ہو بلکہ اس کے  علاوہ اور علاقہ ہو، اور کسی ایسے  قرینے  کا ہونا تو ضروری ہے ججج معنیِ حقیقی مراد لینے  سے  مانع ہو(توضیح البلاغۃ ص۲۷۲)

یہاں  لفظ اپنے  حقیقی معنی میں  مطلقاً استعمال نہیں  ہوتا، بلکہ اس کے  معنی ہمیشہ مجازی ہو تے  ہیں  مگر ان معنی مجازی اور لفظ مستعملہ میں  کوئی نہ کوئی قرینہ مراد ضرور ہوتا ہے  یعنی کبھی کُل بول کر جُز مراد لیتے  ہیں  اور کبھی جُز بول کر کُل، کبھی سبب بول کر مسبَّبْ اور کبھی مسبَّبْ بول کر سبب مرا د لیتے  ہیں ، کبھی ظرف بول کر مظروف اور کبھی مظروف بول کر ظرف، اسی طرح چند اور قرینے  بھی ہیں  لیکن شاعری میں  عموماً مذکورہ  بالا قرینے  ہی استعمال ہوتے  ہیں۔

 (مولانا احمد رضا کی نعتیہ شاعری ص۲۴۷)

دُرُوس البلاغۃ میں  اس کی آٹھ قِسمیں  بیان ہوئی ہیں۔ ان میں  محل بول کر حال اور حال بول کر محل کے  قرینے  کی بھی مثال ہے ، تفصیل کے  بجائے  صرف علاقہ درج کرتا ہوں  (۱)سَبَبِیبَّْ کا علاقہ(۲)مسبَّبِیَّتْ کا علاقہ (۳) جزئیَّت کا علاقہ(۴) کلّیت کا علاقہ  (۵)ماکان کا علاقہ ( ۶) مایکون کا علاقہ(۷)محلیّت کا علاقہ (۸)حالیّت کا علاقہ (دیکھئے  بیان۔ المجازا لمرسل)

مثال۔ فیض ہے  یا شہِ تسنیم نرالا تیرا٭آپ پیاسوں کے  تجسس میں ہے  دریا تیرا (رضا )ؔ

یہاں  ظرف بول کر مظروف یعنی دریا بول کرپانی مراد لیا ہے۔

 اتر کے  رہ گیا ہو جیسے  کوئی خنجر سا

 کھڑا ہے  دشت کے  پہلو میں اک شجر ایسا(ص۵۴حرف مکرر )

یہاں  نہ خنجر اپنے  اصلی معنی میں  ہے  نہ دشت نہ شجر، یہاں  خنجر کے  معنی درد یا تکلیف یا درد و  تکلیف دینے  والی چیز مراد ہے ، اسی طرح دشت اپنے  اصلی معنی میں  نہیں  ہے  بلکہ دشت سے  اپنی ہستی، شجر سے  اپنی ذات مراد ہے ، یہاں  مسبّب بول کر سبب مراد لیا گیا ہے۔

ہر ایک شے  عجیب آگ کی گرفت میں  ملی

سلگ رہی تھی دم بدم مگر کہیں  دھواں  نہ تھا (ص۶۵ حرف مکرّر)

ہر شے  کے  ساتھ آگ کا استعمال، آگ اپنے  اصلی معنی میں  نہیں  ہے ، سلگنا بھی اپنے  اصلی معنی میں  نہیں  ہے ، یہاں  سبب بول کر مُسبّب مراد لیا گیا ہے۔

٭٭٭٭

پیکر تراشی

شاعر ایک قِسم کا مصوّر ہے  اس کے  حواسِ خمسہ کے  قریب سے ججج چیزیں  یا باتیں  گزرتی

ہیں  چاہے  وہ داخلی ہوں یا خارجی وہ انہیں  نظم کر کے  شعر میں  پرو دیتا ہے  تو ان میں  پیکر نمایاں  ہو جا تے  ہیں۔ پیکر بے  کار کی چیز نہیں بلکہ شاعری میں  اہمیت کا حامل ہے۔ پیکر کو بعضوں  نے  عریاں  پیش کیا ہے  تو بعضوں  نے  نیم برہنہ کر کے ، بعضوں  نے  ہلکے  لباس میں  تو بعضوں  نے  پر د ے  سے  سنوار کر، بعضوں  نے  حَسین بنا کر تو بعضوں  نے  مشکل گرہ میں  باندھ کر، راہیؔ کے  یہاں  پیکر کے  میزانیہ کا انتخاب مشکل نہیں  ہے  توآسان بھی نہیں  ہے  پیکر کو مختلف زاویے  سے  دیکھا جا تا ہے ، مثال کے  طور پر بصری پیکر، سماعی پیکر، لمسی پیکر، مشامی پیکر، مذوقی پیکر، بے  مثل پیکر، مخلوط پیکر، نوری پیکر، جمالیاتی پیکر، آتشیں  پیکر، لونی پیکر وغیرہ۔

بصری پیکر

اس کا تعلق قوّتِ باصرہ یعنی آنکھ سے  ہے  کہ آنکھ دیکھ کر حالات و واقعات، رنگ و حرکت کو پیکر کے  سانچے  میں  ڈھالے۔

(۱)آنکھوں نے  اتنے  اشکِ ندامت کئے  بہم

سارے  گناہ دھُل گئے  ہم پاک ہو گئے (ص۴۱لاشعور)

(۱)محو ہو جاتے  ہو اپنی دید میں ٭آئینے  کا دھیان بھی رکھا کرو(ص۴۳لاشعور)

 (۳)انسان کی آنکھوں  میں  نہ چھایا ہو اندھیرا

 بجلی سی لپکتی ہو اگر سوزِ درُوں ہو  (ص۴۹لاشعور)

 (۴)مشکل میں تمہیں  دیکھ کے  پڑ جاتا ہے  ایمان

قدرت کا کرشمہ ہو کہ ساحر کا فسوں  ہو (ص۵۰لاشعور)

(۵)دیکھنا ہو تو محلّے  میں  مرے ٭دیو کے  ساتھ پری رہتی ہے (ص۶۴لاشعور)

آنکھوں کی حرکت اور فعل سے  اشکِ ندامت کا اکٹھا ہونا، اس سے  گنا ہوں  کا دھُل جانا اور  پاک ہو جانا، حالت یہ ہے  کہ اپنی ہی دید میں  محو ہو جا نا، آئینے  کا دھیان نہ رکھنا، اندھیرے  کا رنگ آنکھوں  پر نہ چھانا، بجلی کا لپکنا، سوزِ دروں  ہونا، واقعہ یہ ہے  کہ پری پیکر کو دیکھ کر ایمان کا مشکل میں  پڑ جانا، حیرت واستعجاب کے  عالم میں  پکار اٹھنا کہ قدرت کا کرشمہ ہویا ساحر کافسوں  ہو، حا لات و  واقعات نے  پریشان کر دیا تو دیکھے  ہوئے  کو دیکھنے  کی دعوت دینا کہ میرے  ہی محلّے  میں  دیو کے  ساتھ پری رہتی ہے ، یعنی بدصورتی کے  ساتھ خوبصورتی رہتی ہے۔

قوّت باصرہ نے  حالات و واقعات، رنگ و حرکت، فعل و مفعول پر نگاہیں  جما کرججج پیکر ترا شی کی ہے  اس سے ججج نقوش ابھرے  ہیں ، اس کو آنکھوں کے  سامنے  رکھ دئے  ہیں  کہ تم بھی دیکھو۔

سماعی پیکر

اس کا تعلق قوّت سامعہ سے  ہے  کہ کان کسی حالات و واقعات کو سن کر متاثر ہو اور حالات و واقعات کی پیکر تراشی کرے  اسے  سماعی پیکر کہتے  ہیں۔

(۱)روزِ اوّل سے  ہمیں  معلوم ہے ٭ختم آخر سب کا سب ہو جائے  گا(ص۹۰ لاشعور)

 (۲) سب فاصلہ ایک جست میں  لہروں  نے  کیا طے

 تم کہتے  تھے  گھر میرا سمندر سے  پرے  ہے (س۹۲لاشعور)

(۳)لو اب یہ چاند ستاروں میں  بھی نکل آئے

 یہ  آئینوں  میں کہاں  سے  سما گئے  پتھّر  (س۹۶لاشعور)

(۴) گونج اُس کی سب کی سب راہیؔ مرے  کانوں  میں  ہے  

بجتے بجتے ، بجتے بجتے ، سازِجاں  مدّھم ہوا(ص۱۰۴لاشعور)

(۵) پھِرا کیا ہے  یوں  نمرود آگ بھڑکاتا٭کہیں  رہے  نہ براہیم کو مقام کی چھوٹ(ص۱۱۲!!)

مسقبل بعید کی ایک خبر ہے ججج کچھ لوگ سُناتے  جاتے  ہیں  اور سب سُنتے  جا رہے  ہیں  کہ  دنیا اور دنیا کی ہر چیز ایک دن ختم ہو جائے  گی، خبر کو سُن کر قوت سامعہ نے  اثر لیا اور کہہ دیا کی روزِ اوّل سے  ہمیں  معلوم ہے  کہ سب کا سب ختم ہو جائے  گا لیکن اس بات کو شعر کے  پیکر میں  ڈھال کر آفاقی پیغام دے  دیا ہے  کہ لوگو! میں  نے  سنا ہے  تم بھی سن لو۔

کہنے  والے  کا کہنا، گھر کا سمند سے  دور ہونا، ضمیر جمع متکلّم کے  دل میں  خوف کا نہ ہو نا، بے  پرواہ رہنا، سنی ہوئی باتیں  ہیں ، مگر ایک دن سمندرکی لہروں  نے  ایک ہی جست میں  فاصلے  کو طے  کر لیا، گھر غرقاب ہو گیا، تو ضمیر جمع متکلّم کو مخاطب کیا جا رہا ہے  کہ تم کہتے  تھے  میرا گھر سمندر سے  پرے  ہے  تو اب حشر کیا ہوا؟ سنامی کی طرف اشارہ ہے ، خبر آئی کہ زمیں  کی طرح چاند اور ستاروں میں  بھی پتھر ہیں ، چاند ستاروں میں  پتھر کا ہونا، خبر کا آنا، لوگوں  کا سننا اور استعجاب و حیرت میں  پڑنا، پھر حیرت کے  عالم میں  ڈوب کر یہ کہنا کہ یہ آئینوں  میں  کہاں  سے  آ گئے  پتھر؟

جان کا ساز بُلانا، کانوں  کاسننا، ساری گونجوں  کو محفوظ کر لینا، ماضی بعید سے  اس کا بجتے رہنا، اس ساز کے  گواہ صرف کان ہیں۔

۲۰۰۲ء میں  گجرات کے  فسادات کی خبریں  سننا، یہاں  کے  نمرود کو مصر کے  نمرود سے  تشبیہ دینا، دشمنوں  کا آگ بھڑکانا، زمین پر ٹھہرنے  نہیں  دینا، انسانوں  کو ذبح کرنا، عصمت دری کر نا، ستا نا یہ سب سماعی پیکر ہے ججج سننے  سے  وجود میں  آیا ہے۔  

 

 

لمسی پیکر

اس کا تعلق قوّتِ لامسہ یعنی چھونے  سے  ہے ، کسی چیز کو چھونے  یا سر دی گرمی کے  احساسات سے  قوّتِ خیالیہ اس کو اخذ کر کے  پیکر بنائے۔

اُٹھ کر ترے  در سے  مجھے  جانا ہو جہاں  بھی

محسوس ترا لطف و کرم کرتا چلا جاؤں  (ص۱۹لاشعور)

بجلیاں  اُس کے  بدن میں  ہیں  بھری

 کوئی چھو لے  تو غضب ہو جائے  گا(ص۹۰لاشعور)

ہر  لمحہ  حیات کا دامن نچوڑیئے

 جب پیاس کا سوال ہو قطرہ نہ چھوڑیئے (ص۱۴۶لاشعور)

 مجھ کو اب اپنی اک نئی پہچان چاہیئے

 ٹوٹا، میں  جس طرح مجھے  ویسے  نہ جوڑیئے (ص۱۴۶لاشعور)

 بڑھا جب اس کی توجہ کا سلسلہ کچھ اور

 خوشی سے  پھیل گیا غم کا دائرہ کچھ اور(ص۱۴۷لاشعور)

درسے  اٹھ کر چلے  جانے  کا گمان رکھنا، نامعلوم سمت کی جانب جانے  کا خیال پایا جانا، لطف و کرم کا احساس کرتے  ہوئے  جانا، بدن میں  بجلیوں  کا بھرا ہونا، چھُو لینے  سے  غضب ناک ہو جانے  کا گمان ہونا، حیات کا دامن نچوڑنا، پیاس کا سوال ہونا، قطرہ نہ چھوڑنا، نئی پہچان چاہنا، جیسا ٹوٹنا یا ٹوٹا ہونا، ویسے  نہ جوڑنے  کی استدعا کرنا، توجہ کا سلسلہ بڑھانا، اس کو محسوس کر نا، خوشی سے  غم کا دائرہ پھیلنا یہ سب لمسی پیکر ہیں ، عیاں  اور نہاں  کو کشید کر کے  شعر کے  بندھن میں  باندھنا ہے۔

مشامی پیکر

اس کا تعلق قوت شامہ یعنی سونگھنے  سے  ہے  کہ خوشبو یا اس کے  لوازمات قوت مشام کو متاثر کرے  اور قوت شامہ اثر لے  کر پیکر بنائے۔

سانس لینا ہمیں  دشوار ہے  لیکن یارو

 وہ فضا ہے  کہاں  جس کو نہیں  مسموم کیا(ص۱۱۴لاکلام)

 آتی جاتی ہوئی سانسوں  کی مری آہٹ سے  

شمع کی لو کی طرح کانپتی تنہائی  مری(ص۱۳۳لاکلام)

بھری بہار میں  خالی ہے  باغ پھولوں  سے

لگا دیئے  گئے  خوشبو کے  کاروبار میں  سب(ص۱۳۵لاکلام)

نہ تھا بوئے  گل کو چمن سے  فرار

یہاں  تک مری پاسبانی رہی (ص۱۴۴لاکلام)

 حسرت ہے  ایسے  غنچوں کی مجھ کو کہ میرے  بعد

 آتی رہے  مہک مرے  اجڑے  دیار سے (ص۱۸۰لاکلام)

مسموم فضا نے  قوت شامہ کو متاثر کیا، سانس لینا مشکل ہو گیا تو یاروں  سے  گلہ کیا، اب ویسی فضا نہیں  رہ گئیججج مسموم نہ ہوئی ہو۔

سانسوں  کی آہٹ سے  شمع کی لَو کانپتی، تھرتھراتی ہے  مگر یہاں  تو تنہائی کانپ رہی ہے ، بہا رمیں  پھولوں  سے  باغ کا خالی ہونا، خوشبوؤں  کا نہ ملنا، گلہ کے  طور پریہ کہنا کہ باغ سارے  پھول خوشبوؤں کے  کاروبار میں  لگا دیئے  گئے ، مشام نے  بوئے  گُل سے  خوب فیض اٹھایا، اس طرح اس میں  غرق ہوا کہ چمن سے  فرار بھی نہیں  ہونے  دیا بلکہ مشام پاسبان بن گیا کہ چمن سے  نکلنے  نہیں  دونگا۔

غنچوں  کے  تئیں  حسرت کرنا، اپنے  بعد اس کے  حشر کے  بارے  میں  سوچنا، اجڑے  دیار کی مہک کی خواہش کو زندہ رکھنا، مشام نے  گُل و فضا و چمن کی مختلف خوشبوؤں ، مہکوں  اور بوؤں  کو  مختلف زاویے  سے  اثر لیا ہے ، مشامی پیکر کی گرہ خوبصورت اور قدرے  تہہ دار ہے۔

ایک خوشبو کے  واسطے  راہی٭ہم نے  چھوڑی نہ کوئی پھلواری(ص۶۸لاشعور)

مہک رچ بس گئی ہے  میری سانسوں  میں

تعلق ہے مرا پھولوں  کی رانی سے (ص۱۴۲ لاشعور)

نوری پیکر: 

نور کو جس چیز میں  اُجاگر کر دیا جائے ، اس کی جھلک دکھا دی جائے ، اس کو بیٹھا دیا جائے ، تشبیہ واستعارہ کے  ذریعے  بتا دیا جائے ، اس کے  جلوے  سمودیئے  جائیں  وہ نوری پیکر ہے۔

 یہ تیرے  رنگ و نور کے  ماخذ کا ہے  سوال

اے  میرے  ماہتاب !مجھے  آفتاب لکھ (ص۳۲لاشعور)

 ہار گلے  کا نور کا ہالہ  بنا ہوا

حُسن سے  اس کے  ہر موتی تابندہ ہے  (ص۳۸ لاشعور)

 تمازت چاند سے  دن بھر چھنی ہے  

 شعاعِ مہر شب میں  چاندنی ہے (ص۳۹ لاشعور)

ستارے  چاند سورج کہہ رہے  ہیں

چلے  آؤ جہاں  تک روشنی ہے  (ص۴۵ لاشعور)

 کس  بلندی  پہ مجھے  ٹھیس لگی

جوستارے  کی طرح ٹوٹا میں (ص۱۰۰ لاشعور)

رنگ و نور کو اخذ کر کے  محبوب کو ماہتاب اور خود کو آفتاب بننے  بنانے  کا خیال، گلے  کے  ہار کو نور کے  ہالہ سے  تشبیہ دینا، حُسن کے  نور سے  ہر موتی کو تابندہ بنانا، تمازت کو چاند سے  چھاننا، مہر کی شعاع کو رات میں  چاندنی بنانا حقیقت بھی ہے  نور کا تذکرہ اور نوری پیکر بھی، ستارے ، چاند اور سورج سبھی نوری پیکر ہیں ، نورانی پیکروں  کا روشنی کی دعوت دینا، بلندی پر ٹھیس لگنا پھر ستارے  کی طرح ٹوٹنا نوری پیکر کا اچھا خاکہ پیش کرتا ہے۔

مذوقی پیکر

اس کا تعلق قوّتِ ذائقہ سے  ہے  کہ قوّتِ خیالیہ کھٹے ، میٹھے ، ترش، تلخ و دیگر ذائقوں  کی پیکر تراشی کرتی ہے۔

کوئی اک ذائقہ نہیں  ملتا٭غم میں  شامل خوشی سی رہتی ہے (۷۱لاشعور)

سینے  میں  تڑپ ہے  تو مزہ جینے  کا٭امواج میں  دریا کو مگن دیکھتا ہوں (ص۷۴لاشعور)

 پھلوں  کی نعمتیں  کثرت سے  کیں  عطا اُس نے

 مگر وہ ذائقہ غالبججج ایک آم میں  ہے (ص۱۱۸ لاکلام)

چلا تھا مَیں کانٹوں  بھری راہ میں ٭نہ پھوٹا مگر میرا چھالا کوئی(ص۱۳۲ لاکلام)

 وہ کَرب دَر گزری کاججج ہے  طویل بہت

 وہ مختصر سی اذیّتججج انتقام میں  ہے (ص۱۱۸لاکلام)

غم کا ذائقہ الگ ہے  خوشی کا ذائقہ الگ، لیکن چونکہ ہر مایوسی میں  آس بھی شامل رہتی ہے  اس لئے  شاعر ایک قِسم کا ذائقہ نہیں  ملنے  کا گلہ ہے ، سینے  میں  تڑپ کے  ساتھ زندگی کا مزہ کچھ اور ہو تا ہے ، زندگی زندہ دلی کا نام ہے ، سینے  کو دریا سے  اور مزہ کو امواج سے  تشبیہ دیکر یہ کہا گیا ہے  کہ دریا یعنی سینہ کو مگن دیکھتا ہوں ، عمدہ مذوقی پیکر ہے ، کثرت میں  وحدت یعنی ایک کے  ذائقے  کو فوقیّت دینا، عمدہ بتانا، وہ بھی دوسروں  کے  حوالے  سے  جس نے  آم کی تعریف کی، ذائقہ میں  بھی تقلید کا باب کھول کر راہیؔ نے  شاعری کو ایک نیا زینہ عطا کیا ہے۔

کانٹوں  بھری راہ میں  چلنے  کے  باوجود چھالوں  کا نہ پھوٹنا، پھر بھی کانٹوں  پر چلنے  کا ذائقہ ملا ہے ، در گزری کا ذائقہ، کَرب کا ذائقہ، طوالت کا ذائقہ، اذیّت کا ذائقہ، انتقام کا ذائقہ، ایک شعر میں  ذائقوں  کی فوج کھڑی ہوئی ہے ، درگزری شیریں  ذائقہ ہے  تو کَرب تلخ ذائقہ، اذیّت ترش ذائقہ ہے  تو انتقام کھٹا ذائقہ، ایک خاکہ میں  کتنے  ذائقے  محسوس ہوتے  ہیں۔

آتشیں  پیکر

نوری پیکر اور آتشیں  پیکر میں  گہرا تعلق ہونے  کے  باوجود دونوں  کے  صفات اسی طرح کے  ہیں  کہ چاند اور سورج دونوں  منور ہیں  مگر دونوں  کی نورانیت میں  فرق ہے ،ا یک میں  جلال ہے  تودوسرے  میں  جمال، ایک کی روشنی آنکھوں  کو بھلی لگتی ہے  تو ایک کی چُبھ جاتی ہے ، آتشیں  اور نوری پیکر میں بھی اسی طرح کا فرق ہے۔

دی ہوا آنکھ موند کر جس نے ٭دیکھے  پرواز وہ شرارے  کی(ص۸۱لاشعور)

لکڑیاں  جلتی تھیں ، روشن ہوا کرتے  تھے  چراغ

اب تو مشکل سے  کوئی گھر میں  دھواں  رکھتا ہے (ص۵۸لاشعور)

ججج میں  جلانے  بجھانے  میں  صبح و شام  رہا

 میرے  سُپرد چراغاں  کا انتظام رہا(ص۷۸ لاشعور)

پتا چلا کہ تصادم میں  آگ ہوتی ہے

 رگڑ شدید جب آپس میں  کھا گئے  پتھر (ص۹۵ لاشعور)

 آگ کے  تیزی پکڑنے  سے  دھواں  مدّھم ہوا

روشنی پا کر حقیقت کی گماں مدّھم  ہوا(ص۱۰۴ لاشعور)

آنکھ موند کر ہوا دینا پھر شرارے  کی پرواز دیکھنا، آتشیں  پیکر کا اصل مرکز ’’شرارہ‘‘ ہے ، پروازاس کی صفت ہے ، ہوا اسکے  لئے  کوڑا ہے ، کوڑا چلانے  والا فاعل ہے۔ لکڑیوں  کا جلنا، اور چراغ کا روشن، دونوں  میں  دھُواں  کو مرکزیت حاصل ہے ، اور آج کے  عہد میں  یہ دھواں  گھروں  سے  ناپید  ہو چکا ہے ،ججج کبھی ہر گھر میں  ہو رہی روشنی کا غماز تھا، لکڑی اور چراغ کا جلنا آتشیں  پیکر ہے  مگر مستعار ہے۔

شام کو جلانا صبح کو بجھانا، چراغاں  کا انتظام کرنا، چراغاں  آتشیں  پیکر کا مرکز ہے ، پتھر میں  رگڑ شدید ہونے  پر تصادم کا ہونا، اس سے  آگ پیدا ہوئی، اس آتشیں  پیکر کا مرکز پتھر ہے۔

آگ کا تیزی پکڑنا، دھوئیں  کا مدّھم ہونا، روشنی کے  بعد حقیقت کے  گماں  کا مدّھم ہونا میں  ’’آگ‘‘ کو مرکزیّت حاصل ہے۔

جمالیاتی پیکر

اس کا تعلق کائنات کے  جمال کو دیکھنا، اس کے  رنگ و نور سے  متاثر ہو نا، جذب و کیف کی تصویر کھینچنا، ادا و انداز میں  گم ہونا، حرکات وسکنات پر نظر رکھنا، وفا و محبّت کے  گیت گانا، سُروتال اور دلکشی کو بیان کرنے  کو جمالیاتی پیکر کہتے  ہیں۔

پتھروں  کا وہ پہاڑوں  سے  سرکتے  رہنا

میرا رک رُک کے  وہ منھ راہ کا تکتے  رہنا (ص۶۱ لاشعور)

 ہر طرف سے  وہ سمندر سے  گھری رہنے  پر

 بیچ میں  آگ کا رہ رہ کے  بھڑکتے  رہنا (ص۶۱لاشعور)

 لنگر انداز ہے  منجدھار میں  کشتی میری

 کس طرف سے  مجھے  ملتا ہے  اشارہ دیکھوں (ص۶۹لاشعور) 

 اس کی فطرت نے  دیا ہے  اُسے  موسم کا مزاج

کبھی چڑھتا کبھی گرتا ہوا پارہ دیکھوں  (ص۷۰لاشعور)

چھت پہ بدلی جھکی سی رہتی ہے

 کب سے  بارش تھمی سی رہتی ہے (ص۷۱لاشعور)

پہاڑوں  سے  پتھروں  کا سرکنا، رُک رُک کر راستے  کا منھ دیکھنا، سمندر کے  بیچ میں  گھرنا، اس میں  رہ رہ کر آگ کا بھڑکنا، منجدھار میں  کشتی کا لنگر انداز ہونا، راستہ ملنے  کا انتظار کرنا، فطرت میں  موسم کا مزاج ہونا، پارے  کا چڑھنا اور گرنا، چھت پر بدلی کا جھکنا، بارش کا تھمی رہنا، یہ سارے  جمالیاتی پیکر ہیں۔

لونی پیکر

جمالیات سے  اس کا گہرا تعلق ہے۔ لیکن اس فرق کے  ساتھ کہ کسی بلند و رفیع چیز کو کسی چھوٹی چیز سے  مات دے  دینا، انہونی کو ہونی کر دینا یا ہو جانا، لونی پیکر کہلاتا ہے۔

وہ گُل کھلائے  اُس نے  مرے  دشتِ زار میں  

 باغ و بہار  بھی نہیں  آتے شمار میں (ص۱۰۵ لاشعور)

 اے  آفتاب!کہاں  سر چھپائے  اب کوئی

کہ سائبان میں  ہے  دھوپ کو قیام کی چھوٹ(ص۱۱۱لاشعور)

 آئینہ دِکھلاتا ہے  اک ایک چراغ

مغرب میں  سورج کا ڈھلنا مشکل ہے  (ص۸۷لاکلام )

دشت زار میں  ایسا گل کھلانا کہ اس کے  سامنے  باغ و بہار کی کوئی گنتی نہ ہونا، سائبان میں  دھوپ کا رہنا، چراغ کا سورج کو آئینہ دکھانا جس سے  اس کا مغرب میں  ڈھلنا مشکل ہو جانا، لونی پیکر ہے۔

بے  مثل پیکر

اس کا تعلق اپنی ذات، محبوب کی شخصیّت یا کائنات کی کسی چیز کو بے  مثل پیکر کے  سانچے  میں  ڈھالنا ہے۔

 مثالِ سنگ ہوں  میں  اس کی بے  رُخی کے  سبب 

 سراپا  آئینہ  اس کی توجہات سے  تھا

 جلوے  ہی جلوے  ہیں  میرے  پیشِ نظر

 پہلے  میں  پتھر تھا اب میں  آئینہ ہوں  (ص۳۸ لامکاں )

 بازاروں  میں  مجھ کو تنہا پاؤ گے

کثرت میں  وحدت کی صورت رہتا ہوں (ص۳۸ لامکاں )

 میں  حرفِ اوّل و آخر ہوں  ہر صحیفے  کا

اب اور اس سے  زیادہ نہ کچھ بتاتے  بنے  (ص۴۰لامکاں )

چمک دمک سے  مری، بند ہو گئیں  آنکھیں

کہا گیا اسی  عالم میں  آفتاب مجھے (ص۱۲۴ لاکلام)

عجیب کاٹ سی میری نظر میں  تھی راہیؔ

کسی کے  حُسن کا جادو اثر نہ کر پایا  (ص۵۶لاکلام)

پتھر کا آئینہ ہونا، کثرت میں  وحدت کی صورت رہنا، ہر صحیفے  کا حرفِ اوّل و آخر ہونا، بے  مثال چمک دمک کی بنا پر آفتاب کہا جانا، کسی کے  حُسن کا جادو اثر نہ کرنا، ان سے  بے  مثل پیکریّت ثا بت ہوتی ہے۔

مخلوط پیکر

اس میں  دو، تین، چار یا اس سے  زائد پیکر ابھر تے  ہوں ، ایک شعر یا مصرع میں  مختلف پیکروں  کا جھلکنا مخلوط پیکر کہلا تا ہے۔

 نہ ہو گی برف تو کوہِ ہمالہ کیا کرے  گا

گئی برسات تو دریائے  گنگا کیا کرے  گا(ص۳۳ لاشعور)

راہیؔ قلم دوات کا مصرف کچھ اور ہے  

 کاغذ سیاہ کرنا ہو تو بے  حساب لکھ (ص۳۶لاشعور)

ماضی !تجھ سے  حال مرا شرمندہ ہے

مجھ سے  اچھا آج مرا کارندہ ہے (ص۳۷ لاشعور)

ہر خطر ناک تجربے  کے  لئے  

اک سمندر ہے  دوسرا صحرا  (ص۴۷لاشعور)

پرواز تخیّلججج مری دیکھ رہے  ہو

کہسار سے ، صحرا سے ، سمندر سے  پرے  ہے (ص۹۲ لاشعور) 

پہلے  شعر میں  برف، کوہِ ہمالہ، برسات اور دریائے  گنگا۔ دوسرے  شعر میں  قلم، دوات اور کاغذ۔ تیسرے  شعر میں  ماضی، حال، خود اور کارندہ۔ چوتھے  شعر میں  سمندر اور صحرا۔ پانچویں  شعر میں  پروازِ تخیّل، کہسار، صحرا اور سمندر کے  تذکرے  سے  مخلوطی پیکر بنے  ہیں۔

راہیؔ نے  پیکر تراشی میں  بھی اپنی انفرادیت کا مجسّمہ نصب کر دیا ہے ، جس کو غور سے  دیکھنے  اور پرکھنے  کی ضرورت ہے ، بعض اشعار کھردرے  اور خشک معلوم ہوتے  ہیں  لیکن معنویت  کے  اعتبار سے  شیریں  اور ذائقہ دار ہیں ، ظاہری حُسن کی شعاعیں  مدّھم ہیں  تو باطنی حُسن کی لَو تیز  ہے ، بعض اشعار تجرباتی ہیں ، اس قسم کا تجربہ ماضی میں  بھی ہوا، حال میں  ہو رہا ہے  اور مستقبل میں  بھی  ہوتا رہے  گا۔ مثال کے  طور پر ’’دی ہوا آنکھ موند کر جس نے ‘‘ الخ، نا پختہ آگ کو پختہ بنانے  کے  لئے  منھ سے  پھونکنا پڑتا ہے  اور زور سے  پھونک مارنے  کے  لئے  آنکھیں  بند کرنی پڑتی ہیں  پھر آ گ پختہ ہو جاتی اور شرارے  بلند ہونے  لگتے  ہیں اور پھر اپنی پرواز سے  آبادیوں ، جنگلوں ، کھیتوں اور خرمنوں کو جلا کر خاکستربنانے  لگتے  ہیں  انسان نے  ہر دور میں  شراروں  کو ہوا دی ہے  اور انسان نے  ہی نقصان اُٹھایا ہے ، انسان کی عاقبت نا اندیشی کا یہ سلسلہ ہمیشہ سے  چلتا رہا ہے  اور چلتا رہے  گا۔

 ٭٭٭ 

محاورے

ادبی اور عوامی زبان میں  محاوروں ، کہاوتوں اور ضرب الامثال کو خاص اہمیت حاصل ہے ، عوامی زبان کے  لا تعداد محاورے ، کہاوتیں  اور ضرب الامثال کو لغات میں جگہ نہیں  مل سکی ہے  اور اب بھی ڈھونڈنے  سے  کہیں  کہیں  نشان مل جاتے  ہیں ، ان چیزوں  کا استعمال اپنے  حقیقی معنی سے ہٹ کر مجازی معنی میں  ہوتا اور برجستہ ہوتا ہے ، مثال کے  طور پر جب کوئی شخص کسی کا م کا پروگرام بناتا ہے  اور اس کام کے  تئیں  اس کی امّید یقین میں  بدلنے  لگتی ہے  کہ یہ کا م ہو کر رہے  گا تو کہاوت کہتے  ہیں  کہ ’’گاچھے  کٹہر (کٹہل کا بگڑا)ہونٹے  تیل‘‘ یا ’’پانی میں  مچھری نونو کُٹیا بکھرا‘‘ لغات و ادب کی کتاب میں  یہ مثل اس طرح سے  ملتی ہے ’’پانی میں  مچھلی نونو ٹکڑے  حصّۃ‘‘ ادب و عوام میں یہ مثل مشہور ہے  ’’اُتم کھیتی مدّھم بیوپار نکھد چاکری بھیک دوار‘‘ کاشتکاری سب سے  افضل ہے  اس کے  بعد تجارت اور نوکری تو بھیک ماننے  کے  برابر ہے۔ نثر میں  یہ سب من و عن استعمال ہو جاتے  ہیں  لیکن نظم میں  اس کے  حصّے  بکھرے  ہو جاتے  ہیں مثال کے  طور پر ’’ہتھیلی پر جان لئے  پھرنا‘‘ محاورہ ہے  مگر شعر میں  اس کا سالم استعمال ہونا مشکل ہے  تواب اس کے  الفاظ آگے  پیچھے  ہو سکتے  ہیں اور  یہ روایت زمانہ قدیم سے  ادبا و شعرا کے  یہاں  قائم ہے۔ اہل زبان اور اہل علم نے  اسے  قبول کیا ہے  لہذا اب کوئی شخص اس کو اس طرح استعمال کرے  کہ ’’جان ہتھیلی پر رکھنا یا رکھ کر چلنا یا چلتا ہوں  تو وہ محاورہ میں  ہی شمار ہو گا۔

ہتھیلی پر جان لئے  پھرنا:۔ جان کی پرواہ نہ کرنا، نڈر ہونا

راہیؔ نے  اس کو اس طرح سے  استعمال کیا ہے ؂

میں  اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کے  چلتا ہوں

 اب اس سے  بڑھ کے  کوئی اور مجھ سے  کیا لے  گا(لامکاں  ص۱۴)

 بات بڑھنا:۔ تکرار ہونا، حجت ہونا، جھگڑا ہونا؂

بات بڑھتی گئی آگے  مری نادانی سے

 کتنا ارزاں  ہوا مَیں  اپنی فراوانی سے  (ایضاً)

جل اٹھنا!جل جانا:۔ یکایک جلنے  لگنا، آگ لگ جانا، ناراض ہونا، حسد کرنا؂

خاک ہی خاک نظر آئی مجھے  چاروں  طرف

جل گئے  چاند ستارے  مری تا بانی سے  (ایضاً ص۱۵)

شعر کی مناسبت سے  یہاں  مجازی معنی ہے ، ناراض ہونا، حسد کرنا۔ چاند ستارے  سے  مراد ہے ، چمکتے  دمکتے ، مشہور و معروف لوگ۔ کسی بڑے  کے  سامنے  یا مشہور لوگوں  کے  پیش نظر جب کوئی چھوٹا یا  غیر معروف آدمی کوئی بڑا کارنامہ انجام دے  کر مشہور ہو جاتا ہے  تو دوسرے  حسد کرتے  ہیں ، ناراض ہو جاتے  ہیں ، اسی کو محاورہ کی زبان میں  کہتے  ہیں ، جل جانا۔

آرام سے  گزرنا:۔ چَین سے  بسر ہونا، فراغت سے  گزرنا  ؂

بے  تحاشا جئے  ہم لوگ ہمیں  ہوش نہیں

وقت آرام سے  گزرا کہ پریشانی سے  (ایضاً ص۱۵)

 کھٹکا لگا رہنا:۔ فکروتشویس رہنا، اندیشہ اور دغدغہ لگا رہنا، خطرے  میں  جان رہنا  ؂

 اک کھٹکا سا لگا رہتا ہے  ہر آن مجھے

جینے  کب دے  جینے  کا ارمان مجھے (ایضاً س۱۶)

بیڑا اُٹھانا:۔ ذمّہ لینا، عہد لینا، عزم بالجزم کرنا، آمادہ ہونا، مستعد ہونا؂

 نہ جانے  کون سا بیڑاا ٹھا لیا میں  نے

 قدم قدم پہ کوئی جیسے  آزماتا ہو(ایضاً ص۱۷)

 بلّیوں  اُچھلنا:۔ سخت ڈر یا گھبراہٹ ہونا، دل بہت دھڑکنا

 نظر ڈالنا:۔ نگاہ کرنا، دیکھنا، معاینہ کرنا، سرسری نظر سے  دیکھنا؂  

 بلّیوں اُچھلا تھا جب چاند نے  ڈالی تھی نظر

 میں نے  پتھر بھیججج پھینکے  تو سمندرنہ اٹھا(ایضاً ص۱۸)

 خاطر میں  نہ لانا:۔ خیال نہ کرنا، عزّت نہ کرنا، بات نہ پوچھنا، پرواہ نہ کرنا  ؂

 میرا وجود بھی کیا موج تہہ نشیں  ٹھہرا

ججج سطح بیں  مجھے  خاطر میں  اپنی لا نہ سکا(ایضاً ص۲۰)

نظر میں  رکھنا:۔ زیر نگرانی رکھنا، دھیان میں  رکھنا، نگاہ میں  رکھنا

تماشا دیکھنا:۔ سیردیکھنا، لطف دیکھنا، سزا پانا، مزہ چکھنا، نظارہ دیکھنا، ناٹک وغیرہ دیکھنا  ؂

نظر میں  رکھتے  ہیں  انجام ابتدا سے  ہی

تماشا دیکھنے  والوں  میں  اہلِ فن ہیں  بہت  (ایضاً ص۲۱)

 آستین میں  سانپ پالنا:۔ دشمن کی پرورش کرنا، اپنے  بدخواہ کو اپنے  پاس رکھنا  ؂

خود اپنی آستین میں  سانپ بن کے  پلتا رہوں  

کہ رفتہ رفتہ میں  اپنے  وجود کو ڈس لوں (ایضاً ص۲۳)

قدم پھونک کے  رکھنا:۔ احتیاط برتنا؂

جہت جہت مرے  چلنے  سے  خاک اُڑتی ہے

 کہاں  تک اپنے  قدم پھونک پھونک کر رکھوں  (ایضاً ص۲۳)

برس پڑنا:۔ گالیاں  دینا، مارنے  لگنا، بُرا بھلانا کہنے  لگنا، غصّے  ہونا، مینہہ کا یکا یک برسنا  ؂

ہر ایک ذرّے  سے  آتی ہے  العطش کی صدا

سمندروں پہ کسی روز میں  برس نہ پڑوں (ایضاً ص۲۳)

زہر اُگلنا:۔ کسی کی نسبت بُری باتیں  کہنا، لگائی بجھائی کرنا، فتنہ انگیز باتیں  کر نا، اظہارِ قہر و غضب کرنا، جلی کٹی کرنا؂

ہے  رنگِ آسماں  نیلا تو زرد روئے  زمیں  

کہیں  میں  زہر اُگلتا رہا تو آگ کہیں (ایضاً ص۲۷)

سایا بن کر ساتھ رہنا:۔ کسی وقت جدا نہ ہونا، ہر وقت ساتھ رہنا؂

جو مرے  ساتھ چلا کرتے  ہیں  سائے  بن کر

پھیل جائیں  گے  کسی وقت اندھیرے  بن کر (ایضاً ص۲۸)

خاک چھاننا:۔ آوارہ پھرنا، سرگرداں  پھرنا، تباہ و برباد ہونا، خوب تلاش کرنا  ؂

خاک چھانے  گی کتابوں  میں  ہماری منزل

ہم کسی موڑ پہ کھو جائیں  گے  رستے  بن کر  (ایضاً ص۲۸)

موتی رولنا:۔ موتیوں  کو سمیٹ کر جمع کرنا، خوب روپیہ کمانا، دولت گھسیٹنا، مفت کا مال اڑانا  ؂

 ذہن و تخیّل، لوح و قلم سب مل کر

کیسے  کیسے  موتی رول رہے  ہیں (ایضاً ص۳۳)

دم گھُٹنا:۔ سانس رُکنا، دم بند ہونا، گھبراہٹ ہونا، جی گھبرانا؂

 تو مرے  چاک پیراہن پہ نہ جا

 باوجود اس کے  دم گھٹا جائے

جن کی پنہائیاں  نہ ناپ سکوں

ان فضاؤں  میں  دم گھٹا جائے (ایضاً ص۳۶)

رن پڑنا:۔ جنگ ہونا، لڑائی ہونا، بہت سے  آدمیوں  کا مارا جانا

دم نکل جانا:۔ جان نکلنا، نزع میں  ہونا، ڈر جانا؂

پڑا ہے  مجھ پر تنہائی کا وہ رن

دم نکلا جاتا ہے  ہر آہٹ پر(ایضاً ص۳۷)

اَڑ جانا:۔ ہَٹ کرنا، ضد کرنا، جم جانا، تھم جانا، رُک جانا

کبھی امّید ہمدردی کی ایسے  سے  نہ رکھّیں

اَڑا ہے  بن کے ججج دیوار سایا کیا کرے  گا  (لاشعور ص)

بھاؤ چڑھنا:۔ قیمت بڑھنا، نرخ بڑھنا  ؂

ابن آدم کو چھوڑ کر راہیؔ

چڑھ رہا ہے  ہر ایک جنس کا بھاؤ  (لامکاں  ص۴۲)

سر کھپانا:۔ مغز مارنا، کوشش کرنا؂

 مری بساط ہی کیا ہے  مگر نہ جانے  کیوں

 کھپا رہا ہے  وہ مدّت سے  اپنا سر مجھ میں (ایضاً ص۴۳)

سر سے  پانی اونچا ہونا!گزر جانا:۔ انتہا ہو جانا، ناقابل برداشت حد تک پہنچ جانا ؂

پڑاججج پاؤں  تو سر سے  گزر گیا پانی

کہ فرش  راہ کی مانند سبز کائی تھی(ایضاً ص۴۵)

 دل کا غبار نکلنا:۔ کدورت دور ہونا  ؂

اک آبشار  لبِ کوہسار نکلا ہے  

اک ایک سنگ کے  دل سے  غبار نکلا ہے (ایضاً ص۴۸)

 راہ دینا:۔ آنے  جانے  کے  لئے  راستہ چھوڑنا، فال یا استخارے  کی اجازت دینا  ؂

 کہیں  کہیں  سے  اندھیروں  نے  راہ دے  دی ہے

کہیں  کہیں پہ  مجھے روشنی دکھائی دے (ایضاً ص۴۹)

سر اُٹھانا:۔ سر اوپر یا اونچا کرنا، شور کرنا، غُل کرنا، سر کو ہٹانا، گردن سر کانا، سرکشی یا بغاوت کرنا، فساد یا شر انگیزی کرنا، اِترانا، غرور کرنا، اکڑنا، ضد یا ہَٹ کرنا، متاثر ہونا، برابری کرنا، مہلت پانا  ؂

تخت  ہلتا  ہوا محسوس ہوا ہے  مجھ کو

 مملکت نے  مری سر اپنا اٹھایا تو نہیں (ایضاً ص ۵۰)

تماشا بن جانا:۔ ایسا ہو جانا کہ لوگ دیکھنے  لگیں ، قابل تضحیک ہو جانا؂

سب گھیر کر کھڑے  ہوئے  مجھ کو اور اس کے  بعد

حیران  رہ گئے  کہ تماشا نہیں  ہوں  میں (ایضاً)

آنکھ کھل جانا!کھلنا:۔ جاگ اٹھنا، نیند سے  بیدار ہونا، عبرت حاصل کرنا، حقیقت حال معلوم ہونا،

 کھُلی ہے  آنکھ تو بہتر دکھائی دیتا ہے

عجیب خواب سامنظر دکھائی دیتا ہے (ایضاً ص۵۳)

معرکہ سر ہونا:۔ مقابلے  میں  فتح حاصل ہونا 

 جان پر کھیلنا!کھیل جانا:۔ ایسا کام کرناجس میں  جان جانے  کا خطرہ ہو، کوئی مقصد حاصل کرنے  کے  لئے  مرنے  مارنے  پر آمادہ ہو جانا  ؂

 معرکہ سخت  تھا  لیکن مجھے  سر کرنا تھا

 جان پر کھیل گیا جان کے  ڈرسے  اب کے (ایضاً)

پلک جھپکنا:۔ پلک مارنا، آنکھ جھپکنا، آنکھ لگنا، نیند آنا، آنکھ بند ہونا

 عرصہ تنگ ہونا:۔ میدان تنگ ہونا، وقت کم ہونا، عاجز ہونا  ؂

جھپکنے  دیتا ہوں  مشکل سے  اپنی پلکوں  کو

ہے  کچھ حیات کا عرصہ ہی مختصر ایسا (ایضاً ص۵۴)

 آنکھیں  چرانا:۔ چشم پوشی کرنا، تجاہل عارفانہ کرنا، کترانا

 قصّہ تمام کرنا:۔ داستان پوری کرنا، کام تمام کرنا، مار ڈالنا ؂

میں  اپنی نیند سے  آنکھیں  چرا نہیں  سکتا

پلک  جھپکتے  ہی قصّہ مرا تمام سہی(لاریب۵۶)

دامن بچانا:۔ الگ رہنا، علیحدگی اختیار کرنا، بے  تعلق رہنا، سلامت روی؂

 اگر میں  حرفِ غلط ہوں  تو مٹا نے  دے  مجھے

اپنا دامن تو کسی طرح بچانے  دے  مجھے  (ایضاً ص۵۸)

آپے  سے  باہر ہونا:۔ بے  خود ہو جانا، غصّہ میں  بے  خود ہو جانا  ؂

اپنے  آپے  سے  اب کے  باہر تھا

پہلے  پانی کے منھ میں  پتھر تھا(ایضاً ص۶۱)

بال آنا:۔ شگاف پڑ جانا، شیشے  یا چینی میں  خط پڑنا، دراڑ پڑنا  ؂

کیا رکھتے  اپنی صورت حالات پر نظر

 ہر شیشے  میں  کہیں  نہ کہیں  کوئی بال تھا(ایضاً ص۶۴) 

دم بھرنا:۔ سانس چڑھنا یا پھولنا، ہر وقت کسی کی تعریف کرنا، محبّت کا دعوی کرنا، کبوتر کا بولنا، یقین کرنا، ایمان لانا  ؂

 رات دن مَیں  دم اپنی زندگی کا بھرتا ہوں

 سر بسر توقع کے  برخلاف پا کر بھی(ایضاً ص۶۸)

 دار پر چڑھانا:۔ سولی پر چڑھانا، سولی پر چڑھا کر قتل کرنا، پھانسی دینا  ؂

مذکورہ بالا محاورہ کے  لئے  موصوف کی کتاب ’’لامکاں ‘‘ کا صفحہ نمبر ۶۹ کے  پہلے  شعر کا پہلا،

د وسرے  شعر کا پہلا، تیسرے  شعر کا پہلا، اور چھٹے  شعر کا پہلا مصرعہ دیکھئے۔

رُخ پھیرنا !رخ بدلنا:۔ منھ نہ لگانا، کم توجہی کرنا، سمت بدلنا، دوسری طرف ہو جانا، رُکھائی کرنا  ؂

بدلتی نہیں  اپنا رخ جان لے

ہوا میری کشتی کو پہچان لے (ایضاً ص۷۲)

ہاتھ سمیٹنا:۔ ہاتھ سکیڑنا، ہاتھ بند کرنا، دینے  سے  ہاتھ روکنا، بخشش بند کرنا؂

 سمیٹا ہاتھججج میں  نے  تو آئنہ کیا تھا

 دیا تو سنگ کو بھی حُسن بے  مثال دیا(ایضاً ص۷۳) 

چراغ پا ہونا:۔ گھوڑے  کا الف ہونا، خفا ہونا، ناراض ہونا  ؂

کسی کا دست نگر ہوکے  زندگی کیا ہے  

 ہمیشہ ذرّوں  پہ سورج چراغ پا ہی رہا  (ایضاً ص۷۴)

آستین میں  سانپ پالنا:۔ (مثل)دشمن کی پرورش کرنا، اپنے  بدخواہ کو اپنے  پاس رکھنا

جس کے  ہاتھ میں  دیکھو زہر کا پیالہ ہے

آستین میں  ہر اک نے  جیسے  سانپ پالا ہے (ایضاً ص۷۷)

آسمانوں کا خدا حافظ ہے ٭دور تک جا کے  پتا کر آئے (حرف مکرّر) 

’’خدا حافظ‘‘ محاورہ ہے۔ یہاں لغوی اور اصطلاحی ہر  دو معنی میں  استعمال ہوا ہے ، یعنی ایک  تو آسمانوں  کی حفاظت کرنے  والا خدا ہے ، دوسرے  یہ کہ اب تو آسمانوں  کا خدا ہی حافظ ہے ، کہ سائنسدانوں  نے  مرّیخ تک جا کر مٹّی، پتھّر، پانی اور نہ جانے  کن کن چیزوں  کا پتا لگا آئے  ہیں ، آسمانوں  کو روند آئے  ہیں۔

مری پرواز دیکھی جا رہی ہے ٭زمیں  پیروں  سے  نکلی جا رہی ہے (حرف مکرّر)

’’زمیں  پیروں  سے  نکلنا‘‘ محاورہ ہے ، لیکن یہاں  محاورے  سے  قطع نظر ہے ، الفاظ کی رُوسے  معنی رکھتا ہے۔ یعنی جب انسان خلا میں  پرواز کرتا ہے  تو ظاہری زمین پیروں  سے  جدا ہو جا تی ہے ، جتنی بلندی اختیار کرے  گا، زمین اتنی ہی پیروں  سے  نکلتی یعنی دور ہوتی جائے  گی، اور محاورہ کے  سیاق میں  پرواز جتنی زیادہ ہو گی، گھبراہٹ، سراسیمگی، خوف، اندیشہ اتنے  ہی فزوں  ہوں  گے۔

پہلے  وہ اپنا ہاتھ چھڑاتا رہا مگر٭جب ڈوبنے  لگا تو مجھے  پار لے  گیا(حرف مکرّر)

ہاتھ چھڑا نا، دست بردار ہونا، ذمّے  داری سے  سبک دوش ہونا۔ ایک معنی یہ ہوئے  ! دوسر ے  معنوں  میں  ڈوب رہے  شخص سے  ہاتھ چھڑا نا محال ہو جاتا ہے ، لہذا پیراک کے  پاس اس کے  سوا کوئی چارہ نہیں  رہ جاتا کہ وہ ڈوب رہے  شخص کو اپنے  ساتھ دریا کے  پار لے  جائے ، اسی میں  خود اسکی جان کی امان بھی ہوتی ہے۔

کبھی اندھیرے  میں  رہتا نہیں  ہے  تُو راہیؔ ٭چراغ اپنا ترے  سامنے  جلاؤں  کیا (ایضاً)

(۱) اندھیرے  میں  رہنا اور(۲)اپنا چراغ جلانا۔ محاوروں  کے  طور پر بھی اور لغوی معنوں  میں  بھی نظم ہوئے  ہیں ،

تھی پھَلنے  پھولنے  کی بڑی آرزو مجھے ٭پالا کیا زمین کے  ٹکڑوں  پہ تُو مجھے

پھلنا پھولنا، اور ٹکڑوں  پہ پلنا، محاورہ ہے۔ محاوروں  کے  معنوں  میں  بھی شعر مکمّل اور لفظ لفظ کر کے  بھی معنی برآمد ہوتے  ہیں ، یعنی انسان کی آرزو ہوتی ہے  کہ خدا کی تخلیق کردہ کائنات میں  پلے  بڑھے ، کوئی قید یا قدغن نہ ہو، مگر انسان کا المیہ یہ ہے  کہ زمین پر بنائے  گئے  ملکوں ، صوبوں ، شہروں  یہاں  تک کہ گھروں  کی زمین کے  چھوٹے  چھوٹے  ٹکڑوں  پر پالا جاتا اور پلتا ہے۔

مدّتوں  کانٹے  بچھائے  راہ میں ٭ایک دن آنکھیں  بچھا کر لے  گیا(حرف مکرّر)

’’کانٹے  بچھا نا اور آنکھیں  بچھانا‘‘ دونوں  محاورے  ہیں۔

کانٹے  بچھانا:۔ ایذارسانی کا کام کرنا۔ آنکھیں  بچھانا:۔ بڑی خاطر مدارات کرنا، نہایت تعظیم و توقیر کرنا۔

ان دونوں  محاوروں  کی روشنی میں  شعر کا مطلب یہ ہوا کہ ایک شخص ایسا رہا کہ مدّتوں  تک ایذا رسانی کے  کام کرتا رہا، ستاتا رہا، تکلیفیں  دیتا رہا، عداوت کرتا رہا، لیکن ایک دن ایسا آیا کہ اپنی ساری عداوتوں  کو بھول کر دوستی پر ایسا آمادہ ہوا کہ ’’آنکھیں  بچھا کر‘‘ یعنی بڑی خاطر مدارات کے  ساتھ اپنے  گھر لے  گیا۔

مرے  سر سے  گزرتا جا رہا ہے ٭خدا کا نام پانی پر لکھا  ہے(حرف مکرّر)

پانی سر سے  گزرنا:۔ محاورہ ہے۔ شعر میں  محاورہ کا ہر لفظ الگ معنی پر بھی استعمال ہوا ہے ، یعنی میں  غرقاب ہو رہا ہوں ، میرے  وجود کا نقش غائب ہو رہا ہے ، میں  فانی ہوں ، فنا ہو جاؤں  گا، اللہ باقی ہے ، باقی رہے  گا، پانی پر کوئی نام لکھا نہیں  رہ سکتا ماسوئے  اللہ تعالی کے۔

دیکھ پتھر کا کلیجہ میرا٭یہ چمک تھی کہاں  خنجر پہ ترے (حرف مکرّر)

پتھر کا کلیجہ ہونا:۔ محاورہ ہے۔ یعنی سخت دل، بے  رحم ہونا، لیکن دوسرے  معنوں  میں  میرا کلیجہ گوشت پوست کا نہیں ، بلکہ واقعی پتھر کا بنا ہے  کہ میرے  سینے  میں  پیوست ہونے  سے  تیرے  خنجر میں  چمک آ گئی، پہلے  ایسی چمک نہیں  تھی، یہ چمک پتھر پر گھسنے  سے  آ سکتی ہے ؟

کوئی تدبیر اندھیروں  کی نہ چلنے  پائی٭اس نے  روشن مری قسمت کا ستارہ رکھا(لاکلام)

تدبیر چلنا:۔ تدبیر کا اثر ہونا۔ ستارہ روشن ہونا!ہو جانا:۔ ستارہ ظاہر ہونا، نتیجہ نکل آنا

کس ہوا میں  ہے  تو اے  ابر کرم٭اب برس یا نہ برس اب کیا ہے (لاکلام)

کس ہوا میں  ہو، کہاں  ہو، اِدھر دیکھو، میری فصل سوکھ گئی، فصل سوکھ جانے  کے  بعد تم برسویا نہ برسو، برابر ہے ، لہذا اے  مہربان ابر تو کہاں چلا گیا۔ ابر ہوا میں  رہتا ہے ، اس لئے  ہوا میں  ہونا محاورہ ہے۔

نکالا کانٹے  سے  کانٹا کبھی کبھی ہم نے ٭چبھے  تو دونوں  مگر ایک مہر باں ٹھہرا(لاشعور)

کانٹے  سے  کانٹا نکالنا:۔ محاورہ ہے۔ لیکن اس محاورہ کو نئے  معنی عطا کئے  گئے  ہیں ، یعنی محاورے  سے  ہٹ کر کانٹے  سے  کانٹا نکالنے  کے  عمل سے  بھی ایک مفہوم پیدا کیا گیا ہے۔

یہ اندھیراججج ہے  چراغ تَلے ٭کیسے  آئے  کوئی قریب مرے  (لاشعور)

چراغ تلے  اندھیرا:۔ محاورہ ہے۔ منصف و حاکم کے  قریب ظلم ہونا، غیروں  کو فائدہ پہنچانا اور اپنوں  کو محروم رکھنا۔ ایسے  لوگوں  کے  قریب لوگ نہیں  آتے  ہیں ، آنا بھی چاہے  تو کیسے  آئے  کہ یہاں  فیض کا دروازہ بند ہے ، اسی کو چراغ تلے  اندھیرا کہا گیا ہے۔

دی ہوا آنکھ موند کر جس نے ٭دیکھے  پرواز وہ شرارے  کی(لاشعور)

آنکھ موندنا:۔ آنکھ بند کرنا، آنکھ میچنا، بے  خبر ہونا۔ اس شعر کی تشریح پیکر تراشی میں  ہو چکی ہے

وہ گل کھلائے  اس نے  مرے  دشت زار میں ٭باغ  و بہار بھی نہیں  آتے  شمار میں (لاشعور)

گل کھلانا:۔ پھول کھلانا، فساد کھڑا کرنا، آفت لانا، کوئی عجیب و غریب اور انوکھا کام کرنا،

 شعر کی تشریح پیکر تراشی کے  تحت ملاحظہ کیجئے

کمال کس کا ہے  جس کو کبھی زوال نہیں ٭پڑا ہوا ہے ججج اوندھا وہ بُت تھا نصیب نہیں

اوندھے  منھ گرنا:۔ منھ یا پیٹ کے  بَل گرنا، اُلٹا گرنا، آگے  کو گرنا، زک اُٹھانا، ذلیل ہونا، مات کھانا،

اوندھے  منھ گرنے  والے  بت کو دیکھنے  والے  نے  دیکھا تو اوندھا پڑا دیکھا، کہ ہندوستان کے  آزاد ہونے  کے  بعد انگریزوں  کی مشہور ہستیوں  کے  اونچے  اونچے  مجسموں کو توڑ دیا گیا تھا، اور وہ  جہاں  اونچے  اونچے  چبوتروں  پر نصب تھے ، وہیں  اوندھے  منھ پڑے  تھے۔

٭٭٭٭٭

شعری تعلّی

شاعروں  کے  یہاں  شعری تعلّی کی رسم پُرانی ہے ، اس تعلّق سے  راقم السطور کا ایک تحقیقی مقالہ ’’’امام احمد رضا کی سخن ہائے  گفتنی کی حقیقت‘‘ کے  عنوان سے ’’پیغامِ رضا‘‘ جولائی ۱۹۹۶ء اوراس کا کچھ حصّہ ’’عالمی سہاراویکلی‘‘ ۸!مارچ ۲۰۰۸ء کے  شمارے  میں  شائع ہو چکا ہے۔

شعری تعلّی کا مطلب یہ نہیں  ہے  کہ شاعر اپنے  شعر کے  توسّط سے  شیخی بگھارتا اور ڈینگیں  مار تا ہے  بلکہ اپنے  کارناموں  اور اپنی صلاحیتوں  کے  تذکرے  کو اُجاگر کرتا، اپنا نظریہ بیان کرتا، اپنی ستائش کے  شہرہ کو شعری پیکر میں  ڈھالتا، فنّی لوازمات کے  التزام میں  ملنے  والی داد سے  باغ باغ ہو کر اپنی بلندی کے  باغ لگاتا، اپنی فکر اور بلند ہمّتی کے  قند کو شیریں  اور بے  مثال بنا کر دوسروں  کے  سامنے  رکھتا ہے  اس تگ و دو کے  درمیاں  تخیّل و خیالات کے  باریک سوتے  سے  مبالغہ کا در آنا، نا ممکن نہیں  ہے  لیکن اس کو ادب میں  عیب نہیں  مانا گیا ہے ، تعلّی سے  اگر کسی کی شخصیّت مجروح ہوتی اور کسی پر حملہ ہوتا ہے  تو یہ یقیناً معیوب ہے۔

راہیؔ کے  یہاں  بھی تعلّی کے  اشعار اپنی محفل سجائے  ہوئے  ترک بھڑک، رنگ و نکھار اور بے  مثالی کے  پیکر میں  ڈھلے  ہوئے  اپنی لَے  میں  اپنے  نظریے  کے  گیت گا رہے  ہیں ؂

مَیں  عندلیب ہوں  لیکن الگ نوا ہے  مری٭چمن کو خاک نہ کر دے ’’سخن شرارہ‘‘ مرا

عندلیبوں  کی جھرمٹ میں  رہنے  کا اقرار کر لینے  کے  باوجود تعلّی نے  اپنی برتری کو برقرار رکھتے  ہوئے  اپنی نوا کو سب سے  الگ بتا کر سب سے  الگ ہو گئی ہے ، اپنے  سخن شرارہ کے  ذریعے  سے  چمن کو خاکستر کر دینے  کی باز گشت بھی صاف سنائی دے  رہی ہے ، یعنی تفوّق برقرار ہے  تو اب دیکھنا یہ ہے  کہ یہ صرف تعلّی ہے  یا اس میں  کچھ حقیقت کا عنصر بھی شامل ہے  اور اگر ہے  تو کتنا ہے  کہ وہ الگ نوا کے  مالک ہیں ، کسی معتبر گواہ کی گواہی چاہئے ، ادب کو چھان پھٹک کر خالص ادب کے  تناظر میں  دیکھنے  والے  کسی قد آور کی تصدیق ہو تو راہیؔ کا دعوی حق ہو گا، پروفیسر شمیم حنفی کہتے  ہیں  ’’ان (راہیؔ )کی چند غزلیں  سننے  کے  بعد ہی یہ احساس ہونے  لگا تھا کہ نئے  شاعروں  کی بھیڑ میں  انہیں  آسانی سے  پہچانا جاسکتا ہے ، چند سطور کے  بعد لکھتے  ہیں  ’’لیکن اسی کے  ساتھ ساتھ ایک شخصی رنگ ان کے  شعروں  کو ہجوم میں  گُم ہونے  بچائے  رکھتا تھا(لاکلام کی جلد پر تاثر سے  ماخوذ)

بھیڑ میں  بلند ہو جانا، آگے  نکل جانا، دوسروں  پر فوقیّت لے  لینا، اپنی شخصیت کو منفرد بنا لینا ہی الگ نوا ہے ، اسی نوا کے  درمیان شاعر کی فکر میں  ایک امکان بھی پایا جاتا ہے  کہ مسقبل میں  اسکی نوا برقرار رہے  گی، اس پر خزاں  کا گمان نہیں ہے ، جب تو کہتے  ہیں ؂

رہے  گا آئینے  کی طرح آب پر قائم٭ندی میں  ڈوبنے  والا نہیں  کنارا مرا(۱۴لامکاں )

نہ ہوتا ہند میں  راہی اگر نیاز کے  بعد ٭ادب کے  نقشے  میں  ملتا نہ فتح پور کہیں (۶۷لاکلام)

فتح پور کے  مشہور ادیب نیاز فتحپوری کی وجہ سے  لوگ فتح پور کو جانتے  تھے ، جانتے  ہیں ، لیکن آ ہستہ آہستہ یہ لَو مدھّم ہو رہی تھی کہ اسی فتح پور کی زمین سے  راہیؔ کے  ادب کا سورج طلوع ہوا،ا س کی حرارتوں  سے  لوگ بیدار ہو گئے ، نئے  طرز کی صدا پر لوگوں  کے  کان کھڑے  ہو گئے ، اس سورج کی ادبیت نے  ادب کی راہ پر ادب کے  نئے  مجسمے  کھڑے  کئے ، نتیجہ میں  انعام ملا، ایوارڈ ملے ، نیاز کی مدھم ہوتی ہوئی لَو پھر تیز ہو گئی اور لوگ کہنے  لگے  راہیؔ اسی فتح پور کے  ہیں ، جہاں  کے  نیاز تھے  گویا نیاز کے  بعد فتح پور کو ادب کے  نقشے  میں  لانے  کا سہرا راہیؔ کے  سر بندھتا ہے  تو یہ تعلّی بھی سچ ہے ، اسی لئے  راہیؔ کہتے  ہیں ؂

توجہ اہلِ نظر کی نہ منعطف ہوتی٭ضرور کچھ مرے  مجموعۂ کلام میں  ہے (۱۱۸لاکلام)

دبے  قدموں ، چپکے  چپکے ، آہستہ آہستہ، مسکرا کر، قدرے  سر اُٹھا کر، تعلّی نے  تحدیث نعمت کے  طور پر اپنے  چہرے  کو بے  نقاب کیا ہے  کہ میرے  کلام میں  ضرور کوئی نئی بات، نئی راہ، عجیب و غریب آواز، لوگوں  کو لبھانے  والی صدا ہے  کہ اہلِ نظر، اہلِ علم، اہلِ سخن، اہلِ دل، اہلِ تحقیق نظر

منعطف کئے  ہوئے  ہے ، تو اس کا اعلان کر دینے  میں  قباحت کیا ہے۔

بنا دیا مجھے  حاتم مرے  تجسس نے ٭ہر اک سوال کا لانا پڑا جواب مجھے

چمک دمک سے  مری، بند ہو گئیں آنکھیں  ٭ کہا گیا اسی عالم میں  آفتاب مجھے

چُنا گیا ہے  اسی شرط پر مجھے  راہیؔ ٭بنانا ہے  کسی ذرّے  کو آفتاب مجھے (لاکلام ص۱۲۴)

تجسس کی وجہ سے  حاتم بننا یا بنا دینا، ہر سوال کا جواب لانا، فرد کی چمک دمک سے  افراد کی آنکھیں  بند ہو جانا، اسی عالم میں  آفتاب ہونا، اس شرط پر چنا جانا کہ تجھے  ذرّے  کو آفتاب بنانا ہے

جیسے  جملوں  سے  مستحکم بلبلے  کی شکل میں  تعلّی کا رنگ جھلملا رہا ہے۔

آئینہ میرا مکدّر نہیں  ہوتا راہیؔ ٭کوئی صورت ہو خرابی کی عیاں  رکھتا ہے (ص۸۶لاشعور)

گویا خیال بندی کی قدرِ مشترک سے  ٭غالب کا بن کے  راہیؔ قائم مقام آیا(۱۲۰ لاشعور)

چادر سے  کیوں  نکالتا ہے  راہیؔ اپنے  پاؤں ٭شہرت ہے  ملک گیر تری عالمی نہیں (۱۲۲!)

تخیّل کا آئینہ ہو چاہے  تخلیق کا، انفرادیّت شخصی کا آئینہ ہو چاہے  نئی راہ کا، تجسس کا آئینہ ہو چاہے  تحقیق کا، راہیؔ کا دعوی ہے  کہ وہ کبھی مکدر نہیں  ہوتا بلکہ صاف رہتا ہے ، سب نے  غالب کو قد آور، بڑا اپنے  دور کا اہم شاعر مانا ہے ، اس کی شخصیت کی ہمہ جہتی، بلند قامتی، اس کی سخن ہائے  گفتنی کو سراہا ہے ، غالب کی منزل اس کے  مرتبہ پر پہنچنے  کی ہمت سب نہیں  کرتے  ہیں ، راہیؔ نے  اپنے  اور غالبؔ کے  کلام میں  خیال بندی کی قدر مشترک کی بنیاد پر تسلیم کر لیا ہے  کہ وہ خیال بندی کی حد تک غالب کے  قائم مقام بن کر آئے  ہیں ، یعنی راہیؔ نے  غالبؔ کے  مقام مرتبے  کو ملحوظ خاطر رکھتے  ہوئے  صرف خیال بندی میں  قائم مقام سمجھا ہے۔ غالبؔ کی عظمت کا دارومدار صرف خیال بندی کی ایک خوبی پر نہیں  ہے۔

راہیؔ کا اعلان ہے  کہ اس کی شہرت ملک گیر ہے ، عالمی نہیں ، تعلّی بھی ہے  عدل و انصاف بھی، یعنی مدّعی بھی خود مدّعا الیہ بھی خود، اور خود ہی منصف بن کر فیصلہ بھی دے  دیا ہے۔

امّید کی کرن تابناک نظر آ رہی ہے ، خدا کرے  کہ راہیؔ کا فن قیامت تک زندہ جاوید رہے۔  

٭٭٭٭٭

 

جناب راہیؔ کے تشکر کے ساتھ جن کے توسط سے فائل کا حصول ہوا اور اجازت مل سکی۔

ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔