02:55    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

1464 0 0 00

جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید

حیدر قریشی کی گیارہ کتابوں کے مجموعہ‘’ عمرِ لاحاصل کا حاصل’‘ پر تاثرات

[حیدر قریشی کی گیارہ کتابوں کو یکجا کر کے عمرِ لاحاصل کا حاصل کے نام سے ۲۰۰۵ء میں عوامی ایڈیشن کے طور پر شائع کیا گیا تھا۔ تب اس کتاب کے حوالے سے جو مضامین/تاثرات لکھے گئے، انہیں یہاں یکجا کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اب ۲۰۰۹ء میں میگزین سائز کے ۶۱۶ صفحات پر مشتمل اسی کتاب کا لائبریری ایڈیشن مزید اضافوں کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ اس ایڈیشن کے استقبال کے طور پر یہ چند مضامین اور تاثرات پیش ہیں۔ ارشد خالد]

 

 ‘’عمرِ لاحاصل کا حاصل’‘ ایک انوکھی کتاب ہے جسے ممتاز ہمہ جہت ادیب حیدر قریشی نے یادوں، غزلوں، نظموں، ماہیوں، کہانیوں، انشائیوں، خاکوں اور سفر ناموں کی صورت میں رقم کیا ہے اور پھر ان جملہ جہات کو باہم مربوط کر کے ایک ایسی خود نوشت سوانح عمری میں ڈھال دیا ہے جو اپنی انفرادیت، گہرائی اور وسعت کے اعتبار سے ایک ’‘چیزے دیگر’‘ میں منقلب ہو کر سامنے آ گئی ہے۔ شاعری، احساس، متخیلہ اور خیال کے سفر کی داستان ہے اور انشائیہ تخلیقی سطح کی فکری یافت کا بیانیہ ہے۔ جبکہ کہانی زماں کے مختلف ابعاد کی تصویر کشی کرتے ہوئے باطن اور خارج کے منطقوں کو باہم آمیز کرنے پر قادر ہوتی ہے۔ خاکوں اور یادوں کے ذریعے انسان دوسروں سے اپنے تعلقِ خاطر کو منظرِ عام پر لاتا ہے اور سفر ناموں میں زندگی کے رواں مناظر کو شخصی زاویۂ نگاہ سے گرفت میں لیتا ہے۔ غور کیجئے کہ یہ سب خود نوشت سوانح عمری کی قاشیں ہیں جنہیں اگر بکھری حالت میں رہنے دیا جائے تو مختلف اصنافِ ادب کی صورت میں دکھائی دیتی ہیں لیکن اگر انہیں سلک میں پرو دیا جائے تو ایک ایسی خود نوشت سوانح عمری بن جاتی ہیں جوہر اعتبار سے منفرد اور دلکش ہوتی ہے۔ یہی کام حیدر قریشی نے انجام دیا ہے اور ایک ایسی کتاب لکھ دی ہے جسے اگر ایک زاویے سے دیکھیں تو یہ مختلف اصناف میں منقسم نظر آئے جب کہ دوسرے زاویے سے دیکھیں تو یہ ایک خیال انگیز، معنویت سے لبریز تصنیف کی صورت میں سامنے آ جائے۔ حیدر قریشی نے اپنی اس زندہ رہنے والی کتاب کو ’‘عمرِ لاحاصل کا حاصل’‘ کہا ہے۔ غور کیجئے کہ اس عنوان میں لاحاصل سے حاصل تک کا سفر ایک ایسی اوڈیسی ہے جو کم کم دیکھنے میں آئی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا۔ (لاہور، پاکستان)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 حیدر قریشی کی شاعری میں بے ساختہ پن اور روانی ہے۔ ایک بار پڑھنا شروع کیا تو جی چاہا پڑھتی ہی رہوں۔ دوسرا اہم وصف بے باکی اور وارفتگی کا ہے جو حیدر قریشی کی شاعری میں نمایاں ہے۔

 ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ۔ (جرمنی) Dr. Christina Oesterheld

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 حیدر قریشی کی کہانیاں کائناتی انسان، خدا، روح، ثقافت اور ثقافتی وراثت کے ازلی سوالوں کی کہانیاں ہیں۔ ایسی کہانیاں اردو میں بہت کم لکھی گئی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حیدر قریشی کی کہانیاں ایک نئی تخلیقی روایت کی ابتدا ہیں۔

دیوندر اِسّر۔ (دہلی، انڈیا)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 مجھے پہلے کی طرح آپ کے کام کی صلاحیت کے معجزے پر حیرت بھی ہے اور صد رشک بھی۔ سمجھ میں نہیں آتا ہے آپ 24 گھنٹوں کو48 گھنٹوں یا اس سے بھی زیادہ کس طرح بنا لیتے ہیں ؟۔ اگلی ملاقات ہو گی(انشاء اﷲ) تو آپ سے یہ منترسیکھنے کی کوشش کروں گی۔ ڈاکٹر لڈمیلاوسیلئیوا۔ (روس)Dr.Ludmila

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 میری مادری زبان اردو نہیں اور حیدر قریشی جیسی قد آور ادبی شخصیت کے فن کے بارے میں لکھنا غیر اردو پس منظر رکھنے والے طالب علم کے لیے قطعاً کوئی آسان کام نہیں۔ مگر میں نے ان کی قیمتی کتابیں پڑھ رکھی ہیں اور ان سے لطف اندوز بھی ہوتا رہتا ہوں۔ حیدر قریشی نے کئی ادبی اصناف میں قلم اُٹھایا اور یہ بھی ثابت کیا کہ وہ جدید ارد و ادب کے ایک بڑے ادبی شہسوار ہیں جنہوں نے اپنی جمالیاتی فتوحات کے ذریعے سے اردو زبان و ادب کو توسیع دینے کا کام کیا ہے۔ ان کی کتاب ’‘میری محبتیں ‘‘میری نظر میں اردو خاکہ نگاری میں ہی نہیں مجموعی اردو ادب کی بھی ایک بڑی اہم کتاب ہے۔ ہانی السعید۔ (مصر)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

Haider Qureshi is a breath of fresh air for our times. I am honoured to have his acquaintance. Cassandra Diane Rouson (U.S.A.)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 ‘’پرسوں کی شام میرے لیے بہت اہم اور خوش گوار تھی کہ میری ملاقات عباس رضوی صاحب سے ہوئی۔ عمرِ لاحاصل کا حاصل اور جدید ادب نے اُس رات بھی اور آج رات بھی صبح تک مجھے جگائے رکھا۔ ہمارے درمیان بہت کم ایسی ادبی شخصیات ہیں جنھوں نے ادب کے اتنے سارے منطقوں میں نہ صرف قدم رکھا بلکہ خوب خوب سیر کی اور اپنے تجربوں اور مشاہدات کو اپنے تخلیقی سفر کا حصہ بنایا۔

 میں آپ کی ان کاوشوں کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ یوں ہی ایک اور خیال آیا ہے کہ ‘’خان پور سے جرمنی تک’‘ کا احاطہ کیجیے۔ آپ جس ڈھنگ سے کردار بناتے ہیں اور اُن کرداروں کو ایک خاص ڈھب سے کہانیوں کے نشیب و فراز سے گزارتے ہیں بہت Realisticہیں۔ ‘‘خان پور سے جرمنی تک’‘ کی ان کئی دہائیوں میں ایسے بے شمار کردار ہوں گے اورایسے دلچسپ اور صبر آزما واقعات ہوں گے جو آپ کی تخلیقی اپچ کے محتاج ہوں گے۔ ’‘

 (اقتباس از مکتوب ایوب خاور بنام حیدر قریشی ۱۴؍ستمبر ۲۰۰۹ء)

٭٭٭

حیدر قریشی کی نثری و شعری کلیات عمرِ لاحاصل کا حاصل۔۔ جلوۂ صد رنگ کی عمدہ مثال

ڈاکٹر حامد اشرف

ریڈر و صدر شعبۂ اردو، ایم۔ یو۔ کا لج، اود گیر۔ مہاراشٹرا۔ (انڈیا )

(یہ مضمون کتاب مذکور کے عوامی ایڈیشن کے حوالے سے ہے)

 کل ہی ’‘عمرِ لاحاصل کا حاصل’‘ ملی۔ اپنی نوعیت کی مجھے پہلی ایسی کتاب لگی جسے افطار سے پہلے اور سحرکرنے کے بعد پڑھنے کو جی چاہے۔ سنا ہے کہ مخدومؔ کی کتاب’‘سُرخ سویرا’‘کو اُن کا کوئی پرستار ‘’رحل’‘ پر رکھ کر پڑھتا تھا۔ میں سحر اور افطار کے وقت ’‘عمرِ لاحاصل کا حاصل’‘ کی حقیقت جان رہا ہوں۔

(ڈاکٹر حامد اشرف (اودگیر، انڈیا) کی ایک ای میل بنام حیدر قریشی سے اقتباس)

 

           دنیا نے جن ابنائے زمانہ سے علمی و ادبی فیض اٹھا یا، جن کے نقد و نظرسے شعر و ادب کی کہکشاں منور ہوئی، جن کی جولانیِ قلم کی ایک دنیا پر ستار بنی، جن کے اذہانِ تخلیق و تحقیق نے یقیں محکم اور عمل پیہم سے اصنافِ شعر و ادب کی راہیں متعین کیں، ان اہلِ قلم میں ایک نام حیدر قریشی کا بھی ہے۔ جو، بیک وقت شاعر، ادیب، ناقد، صحافی، ماہیا نگار، سفر نامہ نگار، سوانح نگار، محقق، انشا پرداز و خاکہ نگار، یاد نگار و کالم نگار بلکہ، شبدیزِ فن کے شہسوار سمجھے جاتے ہیں ۔

 حیدر قریشی کا کل شعری و نثری سرمایہ بعنوان " عمرِ لا حاصل کا حاصل " بصورتِ کلیات و عوامی ایڈیشن شائع ہو چکا ہے۔ اس کی انفرادیت یہ ہے کہ اس میں حیدر قریشی کی شاعری، افسا نے، خاکے اور یا دیں، انشائیے، اور سفر نا مہ سے متعلق (۱۱) گیا رہ کتابوں کو یکجا پیش کیا گیا ہے، جس کی مجموعی ضخامت بارہ سو صفحات سے کسی طرح کم نہیں تھی۔ اردو ادب میں اس طرح کی پیشکش پہلی بار ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر انور سدید ( پاکستان ) کی رائے ملاحظہ ہو:

 " (حیدر قریشی ) کی پو ری زندگی کا تخلیقی اثاثہ "عمرِ لا حاصل کا حاصل" کے نام سے شائع ہوا ہے، جس میں پانچ شعری مجموعے (سلگتے خواب، عمرِ گریزاں، دعائے دل، درد سمندر اور محبت کے پھول )اور چھ نثری مجموعے (افسا نے: روشنی کی بشارت، قصے کہانیاں ) انشائیے (فا صلے قربتیں ) سفر نامہ (سوئے حجاز) خاکے (میری محبتیں اور کھٹی میٹھی یا دیں ) شامل ہیں، جسے اردو ادب کا نادر، انوکھا اور منفرد تجربہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ "

(اقتباس از تبصرہ، مطبوعہ روزنامہ نوائے وقت، لاہور، سنڈے میگزین، مورخہ ۲۱؍ اگسٹ ۲۰۰۵ء )

           حیدر قریشی کا تعارف راقم السطور سے معروف ادیب و شاعر و صحافی نذیر ؔ فتح پو ری اور انٹر نیٹ کی دین ہے۔ اردو دوست ڈاٹ کام، حیدر قریشی ڈاٹ کام، حیدر قریشی اسپیسس ڈاٹ لائیو ڈاٹ کام، جدید ادب ڈاٹ کام، جیسی ویب سائٹس نے یہ احساس دلایا کہ خانپور ( پاکستان ) کی سرزمیں سے ابھرنے والا قلمکار، جرمنی میں سکونت اختیار کرتے ہوئے اردو زبان و ادب کو نئی بلندیاں فراہم کرنے اور دنیا بھر میں اردو کی پہچان انٹرنیٹ سے کروانے میں دائمی کا میا بی حاصل کر چکا ہے۔ اس کارِ خیر کے علاوہ حیدر قریشی کی تحقیقی و تخلیقی تصانیف نے انہیں شہرت و عظمت کی نئی بلندیاں عطا کیں۔

          راقم السطور ادب کی دنیا کا نو آموز طالبِ علم ہے، اور حیدر قریشی صاحب کا قد ادب میں بہت اونچا ہے لیکن، مجھے یہ کہنے میں تامّل نہیں ہے کہ حیدر صاحب نے راقم سے جو رابطہ روا رکھا ہے، وہ محبانہ اور دوستانہ ہے۔ ادبی رسالہ اسباق، پونہ کے مدیر نذیر فتح پوری نے استاذی ڈاکٹر راہیؔ قریشی اور راقم السطور پر ایک گوشہ نکالنے کا اعلان کیا تو ناچیز کی حقیر خدمتِ زبان کے پیشِ نظر حیدر صاحب نے ایک خوبصورت تحریر ارسال کی، جو، ان کی سادہ لوحی اور نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کا بیّن ثبوت ہے۔

          حیدر صاحب کی شعری و نثری کلیات، بلا شبہ چمنستانِ ادب کا عطر بیز، مرقعِ حسن ہے، جس کے مطالعہ سے نہ صرف نزدیک و دور کے بے شمار اہالِ اردو کے قلب و ذہن معطر ہوتے ہیں بلکہ زندگی کے بہت سے اسرارو رموز بھی ان پر کھلتے ہیں۔ جس طرح ہر زبان کے ادب کی ابتداء شعر سے ہوئی ہے، اسی طرح حیدر صاحب اپنی کلیات میں بطورِ شاعر پہلے متعارف ہوتے ہیں۔ شاعری کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ وہ خود حسین ہوتی ہے اور حسن کو Represent کرتی ہے۔ حیدر صاحب کی سیرت و شخصیت میں حسن و عشق کے دو عظیم پہلو مو جود ہیں، اس لیے وہ ایک اچھے شاعر کے منصبِ عظیم سے عہدہ بر آ ہو سکے ہیں۔ مذکورہ با لا کلیات کے شعری مشمولات میں غزل، نظم، ماہیا، اور دو پدوں کے مطالعے سے قا ری اس کنفیوژن کا شکار ہو جاتا ہے کہ حیدر صاحب کو غزل کہنے میں مہارت ہے یا کہ نظم و ماہیا کی تخلیق پر! کیونکہ، شاعری جن لوازماتِ فن کا استعمال اور صرفِ خونِ جگر کا تقاضہ کرتی ہے، حیدر صاحب منجملۂ اوصافِ شاعری اس پر پورے اترتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری رو مان و حقیقتی"تفسیرِ غم"بن جاتی ہے۔ جہا ں غمِ جاناں و غمِ دوراں کا آفاقی اظہار بھی ہے اور محبوب کے حسن و جمال کا ایک میلہ بھی ! خصوصاً غزل کے باب میں حیدر صاحب کی افکار کی تابانی، تجربے کی شدّت، فکر کی رسا ئی، مشاہدے کی گہرائی، احسا سات کی کشادگی اور شیریں بیانی کی ایک دنیا قائل ہو چکی ہے، جو، شعرو ادب میں ان کا نام باقی رکھنے کے لیے کافی ہے۔ حیدر صاحب کی غزلوں کا سرسری مطالعہ بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ خدا نے انہیں چشمِ بصیرت عطا کی ہے۔ جس کا اندازہ ذیل کے سہل و خوبصورت اشعار اور رواں دواں زباں سے ہوتا ہے۔

غم تمہارا نہیں جاناں، ہمیں دکھ اپنا ہے

تم بچھڑتے ہو تو ہم خود سے بچھڑ جاتے ہیں

مرجھا چکے ہیں پھول تری یاد کے مگر

محسوس ہو رہی ہے عجب تازگی مجھے

دل کو تو بہت پہلے سے دھڑکا سا لگا تھا

پانا ترا شاید تجھے کھونے کے لیے ہے

پھر اس کے وصل میں کیا جانے کتنی لذت ہو

وہ جس کا ہجر بھی لطفِ وصال رکھتا ہے

چند لمحے وہ ان سے ملاقات کے

مری سا نسوں میں برسوں مہکتے رہے

نہیں ہے کوئی بھی امید، جس کے آنے کی

دل اس کے آنے کے سو سو قیاس رکھتا ہے

کر دیا ہے اس نے کن خوش فہمیوں میں مبتلا

اس کے خالی خط کے معنی ڈھونڈتا رہتا ہوں میں

وہ چاند، وہ گلاب، وہ پتھر، وہ آگ بھی

جیسی مثال دیجیے، بر حق مثال ہے

نہ پورا سوچ سکوں، چھو سکوں، نہ پڑھ پاؤں

کبھی وہ چاند، کبھی گل، کبھی کتاب لگے

اس کی چیخوں کی صدا آج بھی آتی ہے مجھے

میں نے زندہ ہی تری یاد کو دفنایا تھا

مرے ہی خواب کنوارے نہیں رہے اب تو

کہ آرزوئیں تری بھی بیاہیاں نہ گئیں

وہ پتھر دل سہی لیکن، ہمارا بھی یہ دعویٰ ہے

ہمارے لب جنہیں چھو لیں، وہ پتھر بول اٹھتے ہیں

شرطوں پہ محبت کی کوئی بات نہ کرنا

یہ تیرا طلب گار شہنشاہ نہیں ہے

صرف یہ عمرِ گریزاں ہی نہیں کرتی اداس

مرا ہنستا ہوا بچپن بھی رلاتا ہے مجھے

 حیدر قریشی کی ماہیہ نگاری بھی غم و نشاط کی مخصوص کیفیت کا برملا اظہار اور تاثر کا دوسرا نام ہے، یہاں بھی ان کی زباں صاف، رواں دواں اور سیدھی سادھی ہے۔ غزلوں کی طرح ماہیوں میں بھی ایہام کہیں نہیں ہے اور پونے تین مصرعوں کے ماہیوں میں بھی مو سیقیت کا عنصر صاف نظر آتا ہے۔ صنفِ ماہیا نگاری پر حیدر صاحب نے اردو میں ماہیا نگاری اردو ماہیے کی تحریک، اور اردو ماہیے کے بانی ہمت رائے شرما، جیسی تصانیف سپردِ قلم کر کے پو ری اردو دنیا سے خراجِ تحسین وصول کیا ہے اور اپنی کلیات میں (۲۹۲) ماہیے ندرتِ تخیل، بصیرت افروز مشاہدہ اور تفحصِ الفاظ کے سہارے ماورائے ذہن ہو کر تخلیق کیے ہیں، جو جینے کا سلیقہ اور مرنے کا ادب سکھاتے ہیں، چاہنے اور چاہے جانے کا درس دیتے ہیں۔ ان ماہیوں کے ذریعے حیدر صاحب نے اپنے پڑھنے والوں کو عشق و آگہی کی دولت عطا کرتے ہوئے ان کے قلب و ذہن کے مصفّیٰ ہو نے کا موقع فراہم کیا ہے۔

 

رخصت کی گھڑی آئی

دل ماں کا دھڑکا

آنکھوں میں جھڑی آئی

٭٭

 

ناکامی سے ڈرتے ہو

عشق بھی کرتے ہو

بدنامی سے ڈرتے ہو

٭٭

 

کچھ رشتے ٹوٹ گئے

برتن مٹی کے

ہاتھوں سے چھوٹ گئے

٭٭

 

کچھ من کی خرابی تھی

کچھ اس چہرے کی

رنگت بھی گلا بی تھی

٭٭    

 

جنموں کی اداسی ہے

جسم ہے آسو دہ

پر روح تو پیا سی ہے

٭٭

 

نیت تھی مری کھوٹی

تم بھی تھے آمادہ

اور کھلتی گئی چوٹی

٭٭    

 

 

تو کس کا سوا لی تھا

دامنِ دل جس کا

خود اپنا ہی خالی تھا

٭٭

 

نہیں، ہم نہیں روئے تھے

چاند کی کرنوں میں

کچھ موتی پروئے تھے

٭٭

 

          کہا جاتا ہے صحبت کے اثر سے آدمی کیا درو دیوار بدل جاتے ہیں۔ حیدر صاحب نے بھی نابغۂ روزگار ڈاکٹر وزیر آغا (پاکستان) کی علمی صحبتوں سے بہت کچھ سیکھاہے۔ وہ اپنی تصنیف ڈاکٹر وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت، میں رقمطراز ہیں کہ : ‘’الہٰیاتی مسائل، روح کی حقیقت، انسان کی مخفی قوتیں اور کائنات کی بے پناہ وسعتیں، ان موضوعات پر ان سے کھل کر باتیں کی ہیں۔ بعض ایسی باتیں جو اپنے آپ سے کرتے ہوئے بھی خوف محسوس ہوتا ہے، وزیر آغا سے بے خوف ہو کر کی ہیں اور ان کی گفتگو سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ ’‘

(وزیر آ غا۔ عہدساز شخصیت۔ ص ۴۔ نا یاب پبلی کیشنز، خان پور ۱۹۹۵ء)

 حیدر صاحب کی زمین و زماں کی معلومات ہی نثر و نظم میں ڈھل کر کلیات بن گئی ہیں۔ جس میں حیدر صاحب کی (۳۰) نظمیں، بہر حال اپنے حسن کا جادو جگاتی ہیں۔ موجودہ زمانے میں نظم کی کوئی ہیئت مقرر نہیں ہے۔ کوئی بھی خیال تسلسل اور واقعہ کے سا تھ پیش کیا جائے تو وہ نظم ہے۔ حیدر صاحب کی نظموں کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے اور ان کی نظموں کو ان کے ذ ہنی اور سوانحی حالات کی روشنی میں بآسانی سمجھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ پھاگن کی سفاک ہوا، ایبٹ آباد، دعا گزیدہ، میں پھر آنسوؤں کا گلہ گھونٹ دوں گا، مبارک باد اور پرسہ جیسی نظموں سے حیدر صاحب کی زندگی ایک کھلی کتاب بن جاتی ہے جس کی ہر سطر سے سادگی، فکر کی رسائی اور عزم کی بلندی کا اظہار ہوتا ہے۔ حیدر صاحب کی نظم نگاری پر ڈاکٹر سعادت سعید، شعبۂ اردو۔ انقرا یونیورسٹی، ترکی، کی رائے ملاحظہ کیجیے۔    

          حیدر قریشی اس امر سے آگاہ ہیں کہ صنفِ نظم میں ذاتی اور اجتماعی کیفیات متنوع پیرا یوں میں اجاگر ہو سکتی ہیں۔ اس میں جذبے، تخیل اور فکر کی ترکیبی وحدت کی بنیاد پر، پر قوت اظہار کے دریچے وا ہوتے ہیں۔ حیدر قریشی صنفِ نظم کی مطلوبہ و ملزمہ کلّی وحدت کا اہتمام اس طور سے کرتے ہیں کہ اس کے اجزاء کا حسن اور تاثر بر قرار رہتا ہے۔

(پیش لفظ۔ حیدر قریشی کی ادبی خدمات۔ پرو فیسر نذر خلیق۔ مطبوعہ میاں محمد بخش پبلشرز۔ خانپور۔ ۲۰۰۳ء)

          حیدر صاحب اپنی نظموں میں غمِ عشق سے زیادہ غمِ دنیا کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یعنی عشق بلائے جان ہے۔ مگر اس کی جان ( دنیا ) اس سے بھی زیادہ آفتِ ہوش و ایماں ہے۔ ذیل میں حیدر صاحب کی دو نظموں کے دو مختصر حصے بطورِ نمو نہ پیش ہیں۔

 ؎ذرا پھر دل کے دریا میں اتر کر

اپنی نم آنکھوں سے تھو ڑا مسکرا ؤ

اور پھر سو چو!      

زمیں، پانی، فضاؤں تک

جہاں بھی زندگی ہے

 اس ہوا کی حکمرانی ہے

ہوا نہ ہو اگر تو زندگی معدوم ہو جائے

ہوا نا گن سہی، ڈائن سہی، لیکن

 ہوا تو زندگی بھی ہے!!( نظم: ہوا )

٭٭٭٭

 

ڈرتا ہو ں تیرے قُرب سے پتھرا نہ جاؤں میں

میں چاہتا ہوں صرف تجھے سوچتا رہوں

جب جانتا ہوں دل ترا ہے پتھروں کا ڈھیر

پھر آئینۂ روح کیوں ٹکراؤں گا بھلا؟

تسخیر کر کے میں تجھے کیا پاؤں گا بھلا؟

اچھا ہے تجھ کو دور سے ہی دیکھتا رہوں

اچھا ہے تجھ کو دور سے ہی سوچتا رہوں !

(نظم چاند کی تسخیر کے بعد)

 حیدر صاحب کے دو افسانوی مجموعے بھی شاملِ کلیات ہیں۔ بیشتر افسانے غم کے ساتھ خوشی اور خو شی میں غم کی کیفیات پیش کرتے ہیں۔ ویسے بھی حیدر صاحب کی شاعری ہو کہ افسا نہ نگاری، انشائیے ہوں کہ خاکہ نگاری، سفر نامے ہوں کہ کا لم نگاری، سبھی ایک خاص ذہن کی پیداوار محسوس ہوتے ہیں۔ حیدر صاحب کی تحریر کی یہ خاصیت ہے کہ وہ ہنسنے میں رونے کو، چلنے میں ٹھہرنے کو، خاموشی میں آواز کو اور زندگی میں موت کو ڈھونڈتے ہیں اور ان کی تحریر کا سکوت بھی صدائے باز گشت بن جاتا ہے۔ حیدر صاحب نے زیرِ عنوان روشنی کی بشارت اور قصے کہانیاں، جملہ (۲۵) افسا نے تحریر کیے ہیں، جس میں چند ایک کے علاوہ سبھی افسانے ہماری توجہ مرکوز کرنے میں کامیاب ہیں اور بلا مبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان افسانوں کا مطالعہ کلاسکیت اور جدیدیت کا منفرد طرزِ اظہار ہے۔

 ادب کی ایک اہم صنف خاکہ نگاری بھی ہے۔ اردو میں یہ صنف اپنے لکھنے والوں کی جگر کاوی و جگر سوزی سے بے اعتنائی کے لیے گلہ گزار ہے۔ خاکہ نگاری طنز و مزاح کے ساتھ ساتھ خاکہ نگار کی ظرافت و فراست کا مطالبہ کرتی ہے۔ حیدر صاحب کی فطرت میں حسِ مزاح مو جود ہے، جس کی وجہ سے ان کی تحریر میں مزاح ایک تبسمِ زیرِ لب کا سا مان فراہم کرتا ہے۔ اس صنف کے بارے میں وہ خود یہ کہتے ہیں کہ:

‘’خاکہ نگاری نہ تو شخصیت کی خاک اڑانے کا نام ہے اور نہ شخصیت پر خاک ڈالنے کا نام ہے، بلکہ یہ تو پلِ صراط پر سے گزرنے کا عمل ہے، جبکہ ادیب نما صحافیوں کے خاکے سرکس کے رسّوں پر چلنے کا منظر دکھاتے ہیں۔ ’‘

( بلند قا مت ادیب، اکبر حمیدی۔ میری محبتیں، ص ۱۴۸۔ عمرِ لا حاصل کا حاصل۔ ۲۰۰۵ء)

 حیدر صاحب کی کلیات مذکورہ میں زیرِ عنوان میری محبتیں، (۲۰) خاکے ملتے ہیں، جس میں (۱۰) خاکے، اول خویش کی ذیلی سرخی کے سا تھ خون کے رشتوں والے ممدوحین پر اور (۱۰) خاکے بعدِ درویش کے عنوان سے علمی و ادبی شخصیتوں پر پیش ہوئے ہیں۔ سبھی خاکے زندگی کی حرارت اور زمانے کی نیرنگی کے ساتھ ساتھ حیدر صاحب کے افکار و فن اور نازک خیالی کا اظہار ہیں۔ بعض مقامات پر موصوف کی تحریر اس قدر کربناک ہو جاتی ہے کہ ان کے آنسوؤں کی نمی ہمیں اپنی آنکھوں میں محسوس ہونے لگتی ہے اور سادہ واقعات بھی اسلوبِ بیان کے باعث حقیقت نگاری کی شان حاصل کر لیتے ہیں۔

          حیدر صاحب نے بعنوان کھٹی میٹھی یا دیں، تصنیف کے ذریعے ایک نئی صنف " یاد نگاری" کی اردو میں بنا ڈالی ہے۔ جس میں (۱۳) مضامین مو جود ہیں، جو یہ ثا بت کرتے ہیں کہ ادب مسرت زائی کا سر چشمہ ہے۔ ان مضامین میں واقعات کی پیش کشی اور اسلوبِ نگارش کی شان پوشیدہ ہے، جس سے حیدر صاحب کے دل کی مخفی دھڑکنوں کا اظہار ہوتا ہے۔

          حیدر صاحب کی ایک انشائیہ تصنیف زیرِ عنوان’‘ فاصلے، قربتیں ‘‘ بھی مذکورہ کلیات میں شا مل ہے۔ جس میں جملہ دس انشائیے بیان ہوئے ہیں۔ جو لوگ سوچنے، سمجھنے کا سلیقہ اور منا سب و متوازن رائے قائم کرنے کا نظریہ رکھتے ہیں، وہ کسی بھی معاملے کی گہرائی اور گیرائی تک پہنچتے ہیں۔ انسان جس طرح مناظرِ فطرت اور چاند ستاروں سے متاثر ہوتا ہے، اسی طرح وہ اپنی گردو پیش کے اشیاء و مظاہر بھی متاثر ہوتا ہے۔ انہی اشیا ء و مظاہر کا حسین اظہار حیدر صاحب کے انشائیے ہیں۔

          سفرِ حج اور سات عمرے کی یاوری بھی حیدر صاحب کا قابلِ رشک نصیب ہے۔ زیرِ عنوان ‘’سوئے حجاز ‘‘ حیدر صاحب کی مکہ مکرمہ اور مدینہ شریف کے زیارتوں کا سفر نامہ تصنیف کیا ہے۔ یہ تصنیف موصوف کے شعری و نثری کلیات کا آخری حصہ ہے۔ جس میں حیدر صاحب نے مقاماتِ سفرِ حج اور سات عمروں کی ادائیگی کے تاثرات، طور طریقے، فرائض و سنن کو کائنات اور اپنی ذات کے تناظر میں دیکھا، محسوس کیا اور پیش کیا ہے اور یہ ایک ایسا وصف ہے، جو ارفع و اعلی ٰ احسا سات کے بغیر پیدا نہیں ہو تا۔ مذکورہ کلیات میں کعبہ شریف سے متعلق چند ماہیے، اور نعتِ شریف بھی قابلِ ذکر ہیں۔

 ما ریشس میں عالمی اردو کا نفرنس اور پروفیسر نذر خلیق کا حیدر قریشی سے مکالمہ بھی کلیاتِ بالا کی مشمولات ہیں۔ حیدر صاحب کی نثری و شعری کلیات یہ بتاتی ہے کہ اگر" عمرِ لا حاصل کا حاصل "چاہتے ہو تو اردو شعرو ادب کو اپنی زندگی کا ما حصل بنا لو۔ کیونکہ، اردو شعرو ادب صرف شعرو ادب نہیں ہے بلکہ، آبِ حیات ہے، جس کو پی لینے سے قوم مر نہیں سکتی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ حیدر صاحب نے نظم و نثرِ اردو کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ جرمنی کے ماحول میں ان کا مسلسل مصروفِ شعرو ادب رہنا موجبِ صد تحسین ہے اور ان کی عمرِ لا حاصل کا پیمانہ فکر و نظر کی دولت سے بھرا ہوا تہذیبی ورثہ ہے۔ ٭٭٭

         

 میں انہیں (حیدر قریشی کو)مغربی دنیا میں اردو کا سب سے بڑا ادیب مانتا ہوں اور ان کی صلاحیتوں کے سامنے اپنی ہیچ مدانی کا اعتراف کرتا ہوں۔ حیدر، ون مین ادبی رائٹنگ کی انڈسٹری ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے برخوردار ہیں۔ مجھ سے عمر میں دس برس کم، لیکن کام و صلاحیت میں سو سال بڑے۔ حیدر قریشی سے میرا سب سے بڑا رشتہ و تعلق یہ ہے کہ وہ میرے سب سے عزیز استاد اور دوست پروفیسر ناصر احمد کے بھانجے اور داماد ہیں۔ اسی رشتے نے مجھے ان کے پاس جرمنی پہنچایا۔ پھر ان کی علمی و ادبی فتوحات کے درجہ و دائرہ کو دیکھا تو ماننا پڑا کہ ہم تو ساری عمر گھاس ہی کاٹتے رہے ہیں۔

 (ڈاکٹر ظہور احمد اعوان کے کالم ‘’دل پشوری’‘سے اقتباس۔ مطبوعہ روزنامہ آج پشاور۔ یکم جنوری ۲۰۰۹ء)

٭٭٭

حیدر بھائی پر ایک ادھورا مضمون ‘’عمرِ لا حاصل کا حاصل’‘ کے تناظر میں

نصرت ظہیر

مدیر سہ ماہی ادب ساز، دہلی

حیدر بھائی سے میری پہلی سیدھی ملاقات اس وقت ہوئی جب ایشیا محو خواب تھا اور جرمنی جاگ رہا تھا۔

          اصولاً یہ وہ ساعت تھی جو شاعرِ مشرق کو میسر آتی تو وہ مردِ مومن کو جگانے کے لئے ایک اور معرکۃ الآرا نظم یا مثنوی کہہ ڈالتے۔ لیکن شکر ہے کہ ہم دونوں میں کوئی شاعرِ مشرق تو کیا شاعرِ شمال مشرق بھی نہیں تھا ورنہ اقبالیات کے ماہرین کو اپنی قابلیت جھاڑنے کیلئے ایک اور اقبالی تخلیق کا حوالہ دینا پڑ جاتا۔ ہم دونوں حضرات اس وقت اپنے اپنے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے تھے، اور کوئی نظم کہنے کی بجائے ایک دوسرے کو ای میل بھیج رہے تھے۔ انٹرنیٹ پر اس ملاقات کا سبب میرا وہ مضمون بنا، جو میں نے گوپی چند نارنگ صاحب کو پدم بھوشن کا اعزاز ملنے پر دئے گئے ایک استقبالیہ میں پڑھا تھا اور جسے سُن اور پڑھ کر نہ صرف نارنگ صاحب کے مداح خوش ہوئے تھے بلکہ ان کے مخالفین میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

          مداح اس لئے خوش ہوئے کہ اُنہیں اس میں صرف نارنگ صاحب کی تعریف نظر آئی۔ جب کہ مخالفین کو مضمون کا مزا اُن چٹکیوں میں آ یا جو بھری تو گئی تھیں ہنسانے کے لئے مگر اُنہیں ان میں اپنی پسند کے نارنگ مخالف رنگ زیادہ دکھائی دئیے۔ یعنی جس کی جیسی روح تھی اسے ویسے فرشتے نظر آئے۔ رہ گئے نارنگ صاحب، تو میرا خیال ہے وہ ابھی تک بھی طے نہیں کر پائے ہیں کہ اسے مدح کے زمرے میں رکھیں یا مذاق کے۔ جہاں تک خود میرا خیال ہے تو خدا گواہ ہے کہ میں نے وہ مضمون نیت باندھ کر ان کی مدح میں تحریر کیا تھا۔ البتہ عنوان نے کچھ کنفیوژن پیدا کر دیا۔ میں نے عنوان رکھا تھا ‘’نارنگ صاحب کا تخلیقی اسلوب‘‘۔ عنوان کے سنجیدہ پن سے اکثر ادبی رسائل کے مدیر دھوکا کھا گئے اور انہوں نے مضمون کو غیر مزاحیہ ابواب میں شائع فرما دیا۔ جس سے مزاح کا رنگ اور گہرا ہو گیا۔

          خیر، جب یہ معلوم ہوا کہ ایک اردو ویب سائٹ نے اسے انٹرنیٹ پر بھی چھاپ دیا ہے تو کمپیوٹر پر اپنا پہلا مضمون پڑھنے کا فطری اشتیاق مجھے جدید ادب ڈاٹ کوم تک لے گیا اور بس، وہاں حیدر قریشی صاحب سے میری ملاقات ہو گئی۔ ماشاء اﷲ وہ ڈجیٹل ملاقات اب بھی جاری ہے اور انشا اﷲ آگے بھی جاری رہے گی۔

 اس سے پہلے، بلکہ سب سے پہلے، حیدر بھائی مجھے’’ کتاب نما‘‘ کے ایک شمارے میں ملے تھے۔ یہ کئی برس پہلے کی بات ہے۔ اس ایک کتاب نما میں انہوں نے سال بھر کے کتاب نماؤں کا تفصیلی جائزہ اس سنجیدگی سے لیا تھا کہ میں چونک گیا۔ اس لئے نہیں کہ کسی اردو والے میں سنجیدگی کا پایا جانا بجائے خود ایک چونکا دینے والی بات ہے۔ بلکہ اس لئے کہ انہوں نے اس مضمون میں اردو ادیبوں کی پورے سال کی کارکردگی کا کچّا چٹھا اس سنجیدگی سے کھول کر رکھ دیا تھا جس طرح ہمارے بچپن کے زمانے کی گھر والیاں ہفتے بھر کے میلے کپڑے دھوبی کے سامنے رکھ دیا کرتی تھیں اور گھر میں موجود کسی اسکولی بچّے کو کاپی قلم تھما کر کہتیں کہ لکھو، کرتے بغیر بٹن کے تین عدد، قمیصیں چھوٹی بڑی مع آستین پانچ عدد، پائجامے آٹھ عدد پائنچوں سمیت اور دوپٹّے و بنیان ثابت اتنے عدد وغیرہ وغیرہ۔

          حیدر صاحب نے بھی کچھ اسی طرح حساب لگایا تھا کہ فلاں مصنف نے اس سال اتنے مضمون لکھے جن میں کمال یہ تھا کہ صفحے کے صفحے سیاہ کرنے کے باوجود کچھ نہیں کہا گیا۔ یا فلاں افسانہ نگار نے اتنی کہانیاں لکھیں جن میں سے ہر ایک پر کسی مضمون کا شبہ ہوتا تھا۔ یا پھر فلاں شاعر نے اس سال اتنی غزلیں اور اتنی نظمیں کہیں جن میں اتنے مصرعے بے وزن تھے اتنوں میں سکتہ پکڑا گیا نیز یہ کہ اس سال شتر گربہ اور ایطائے جلی و خفی کی ا تنی وارداتیں ہوئیں۔ اسی طرح نقادوں، تبصرہ نگاروں اور مزاح نگاروں وغیرہ کی بھی خبر لی گئی تھی۔ یہاں تک کہ مراسلہ نگاروں کو بھی نہیں بخشا گیا اور بتایا گیا تھا کہ فلاں صاحب نے اس سال اتنے مراسلے لکھے جن میں اتنے مراسلے کسی اور کے مراسلوں سے چوری کئے گئے تھے وغیرہ وغیرہ۔

          جب اس جائزے کا میں نے بغور جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اتنی محنت تو ادیبوں نے اپنی تخلیقات میں بھی نہ کی ہو گی جتنی موصوف نے تمام تر جزئیات کے ساتھ ان کا جائزہ لینے میں فرما دی تھی۔ مضمون پڑھ کر میرے منھ سے وہی جملہ نکلا جو کسی زمانے میں ملک راج آنند کی تقریرسن کر اسرارالحق مجاز کی زبان سے نکلا تھا۔ یعنی یہ کہ کوئی بڑا ہی قابل آدمی معلوم ہوتا ہے۔ پھر جب دھیرے دھیرے ان کی ادبی تخلیقات یہاں وہاں پڑھیں تو ان کے اور جوہر کھلتے گئے۔ اور حال ہی میں ان کی کلّیات کا مطالعہ شروع کیا تو خود اپنا جہل بھی کھل کر سامنے آ گیا کہ ایک شخص اتنے خلوص، وارفتگی، سنجیدگی، ایمانداری، محنت اور جانکاہی سے ادب تخلیق کرتا رہا، اور کاغذ کی زمین سے لے کر انٹرنیٹ کے آسمان تک ہر طرف دھومیں مچاتا رہا اور تمہیں اب تک خبر نہ ہوئی۔ یقین کیجئے ادب کے معاملے میں اپنی نا معلومات پراس وقت اتنی شرم آئی کہ دیر تک یوں محسوس ہوتا رہا جیسے میں کوئی عام قاری نہیں بلکہ کسی یونیورسٹی کا لیکچرر ہوں۔ پروفیسر اس لئے محسوس نہیں کیا کہ وہ پھر بھی تھوڑے پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔

          حیدر بھائی کی کلّیات ‘’عمر لا حاصل کا حاصل‘‘ یوں تو خود انہی کے بقول اُن کا اب تک کا، کُل اثاثہ ہے لیکن مجھے اس بیان پر شبہ ہے۔ کیونکہ جس رفتار سے ان کا ادبی سفر جاری و ساری ہے اسے دیکھتے ہوئے مجھے اندیشہ ہے کہ ایک دو سال میں انہیں ایک اور کلّیات کی ضرورت پیش آ جائے گی۔ بلکہ دو عدد کلّیات پر تو کام شروع ہو بھی چکا ہے۔ ایک تو ہے ماہئے کی تحقیق و تنقید پر مشتمل ان کی پانچ کتابوں کی کلّیات، جس کی ترتیب چل رہی ہے۔ اس کے علاوہ تحقیق و تنقید کے بہت سے مضامین ہیں جو اِدھر اُدھر بکھرے پڑے ہیں اور جن کی کلّیات الگ منصوبے کے تحت زیرِ ترتیب ہے۔ لہٰذا اس کا پورا خطرہ موجود ہے کہ جب یہ کلّیات شائع ہوں گی تو ہمیں چند سال بعد ان کی تمام کلّیات کی ایک جامع الکلّیات، بلکہ بالکلّیات چھاپنی پڑ ے گی۔

          اس سے ادب کی دنیا میں جو اضافہ ہو گا اس کی تو خیر ایسی کوئی فکر نہیں لیکن یونیورسٹیوں کے اردو لکچررز کے لئے یہ ضرور پریشانی کی بات رہے گی کہ انہیں اپنی نا معلوماتِ عامہ کی موجودہ سطح بر قرار رکھنے کے لئے مزید بے مطالعگی سے کام لینا پڑے گا۔ اس جملے کا آخری حصہ اگر آپ کی سمجھ میں نہ آیا ہو تو مرحوم ابنِ انشا کا وہ جملہ یاد کیجئے جو انہوں نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف، ’’ اردو کی آخری کتاب، کے دیباچے میں لکھا تھا۔ کتاب کے فلیپ پر تحریر تھا ‘’نا منظور شدہ از محکمۂ تعلیم‘‘ ۔ اس تعلق سے مصنف نے تحریر کیا تھا کہ ہمیں بہت سے اسکولوں ومدرسوں سے یہ درخواستیں مل رہی ہیں کہ انہیں یہ کتاب نہ بھیجی جائے، اور یہ آرڈر اتنے زیادہ ہیں کہ ہمیں ان کی تعمیل میں دشواری ہو رہی ہے۔

 کوئی کام نہ کرنا اپنے آپ میں خود کتنا بڑا کام ہے، اس بات کو کچھ وہی لوگ بہتر سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے کبھی کوئی کام نہ کیا ہو۔ ورنہ جو لوگ دن رات کام میں جٹے رہتے ہیں وہ کیا جانیں کہ خالی بیٹھنا کس قدر محنت طلب ہوتا ہے۔ اس پر عزیز دوست شجاع خاورؔ کا شعر یاد آ گیا :

 مصروف جو رہتے ہیں انہیں کچھ نہیں ملتا

بے کار پھرو گے تو کوئی کام ملے گا

          اگر اب بھی بات سمجھ میں نہ آئی ہو تو کبھی ہما رے دفتر آ کر دیکھئے جہاں لوگوں نے کوئی کام نہ کرنے کے ایسے ریکارڈ قائم کر رکھے ہیں کہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں بھی ان کی کوئی مثال نہیں ملے گی۔ بے چارے روزانہ اس قدر خالی بیٹھتے ہیں کہ آرام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں، اور تازہ دم ہونے کے لئے انہیں ڈیوٹی ختم ہونے سے عموماً ایک گھنٹہ پہلے ہی گھر چلے جانا پڑتا ہے۔

          لیکن صاحب، حیدر قریشی جس طرح کام کر رہے ہیں اسے واقعی سلام کرنا پڑتا ہے۔ ایسا فنا فی الادب اردو والا کم از کم اب تک کی عمر میں تو میں نے نہیں دیکھا۔ جب وہ پیدا ہوئے ہوں گے تو مجھ سے ایک ڈیڑھ سال چھوٹے رہے ہوں گے۔ لیکن اب جو حساب لگا کر دیکھتا ہوں تو پاتا ہوں کہ وہ اپنی ذات میں اردو ادب کا ایک دور بنتے جا رہے ہیں جب کہ میں ابھی پیدا بھی نہیں ہوا ہوں۔ یہ موازنہ آرائی قارئین کو کچھ بے موقع اور اٹ پٹی سی ضرور لگی ہو گی مگر کیا کروں جب بھی کسی ہم عمر کو بلندیوں پر دیکھتا ہوں تو اس سے اپنا موازنہ کئے بغیر نہیں رہ پاتا۔ ویسے اپنی اوقات اور جامے و پاجامے کو درست رکھنے میں یہ عمل خاصا مفید رہتا ہے۔ اس عمر میں حیدر صاحب ادب کی اتنی اصناف میں اتنا کام کر چکے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اور وہ بھی اس حالت میں کہ اچھی خاصی غربت میں پلے بڑھے، تعلیم مکمل کرنے سے پہلے، بلکہ اسے مکمل کرنے ہی کے لئے اور گھر بار کی خاطر بھی فیکٹری میں مزدوری کرنا پڑی، وہاں مزدوروں کے لئے لڑتے بھڑتے اور طرح طرح کے عذاب جھیلتے رہے، اس کے بعد شہر چھوٹا، دیس چھوٹا اور سمندرپار پردیس میں رہنے کو مجبور ہوئے۔ مگر مولانا حسرت ؔ کی طرح چکّی بھی چلاتے رہے اور مشقِ سخن بھی جاری رکھی۔

          یوں تو حیدر صاحب نے ادب کی تقریباً ہر صنف میں طبع آزمائی کر کے اردو والوں کا ذوق آزمایا ہے اور مجھ جیسے سخن نا فہموں کو آزمائش میں ڈالا ہے مگر شاعری کی شائد سب سے غیر معروف مانی گئی فوک فارم، ماہیا کو اردو میں جو قبولیت و مقبولیت انہوں نے دلائی ہے اس میں دور دور تک کوئی ان کا ہم سر نہیں ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے اچھا ماہیا کسی نے نہیں لکھا۔ بہتوں نے بہت عمدہ ماہیا نگاری کی ہو گی، اور آگے بھی کریں گے، لیکن اس صنف کو پاکستان اور ہندوستان میں اردو کے تقریباً ہر ادبی رسالے کا لازمی جزو بنوا دینے میں ان کی کاوش و جدوجہد کا بڑا، بلکہ سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ ماہیا، جس کے بارے میں ہماری معلومات مشہور فلمی گیت، ‘’تم روٹھ کے مت جانا، سے کبھی آگے نہیں بڑھی تھی، آج اردو شاعری کی سب سے بڑی دیسی صنف بن گئی ہے۔ پہلے یہ اعزاز دوہے کو حاصل تھا۔ مگر ماہیا اب لگتا ہے دوہے سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ اور یہ سب کیا دھرا، اﷲ معاف کرے، حیدر قریشی صاحب کا ہے۔

          کہنے والے کہتے ہیں حیدر صاحب کو ماہئے کا جنون ہے۔ ایک صاحب نے انہیں بابائے ماہیا تک کہہ ڈالا۔ ایک اور صاحب نے کہا وہ مجنوں ہیں اور ماہیا ان کی لیلیٰ۔ اور اب ان کی یہ کیفیت ہے کہ ماہیا ماہیا کہتے کہتے خود ماہیا ہو گئے ہیں۔ ایک قریبی دوست نے لکھا کہ اب جو اُن کے خط جرمنی سے آتے ہیں تو لکھتے ہیں کہ ماہیا کے لئے دعا فرمائیں۔ انہوں نے جواب میں لکھا کہ تم ماہئے کے لئے دعا کرتے رہو، میں تمہارے حق میں دعا کروں گا۔ شکر ہے کہ ان دعاؤں کے طفیل دونوں خیریت سے ہیں۔ ماہیا بھی اور حیدر بھائی بھی۔ اور اب یہاں کوئی کچھ بھی کہے، میں ان کے وہ ماہئے نقل کئے بنا نہیں رہوں گا جو انہوں نے مرد اور عورت کے مکالمے کی صورت میں کہے ہیں اور جو مجھے سب سے زیادہ اس لئے پسند ہیں کہ ان میں ماہئے کی فطری لَے کاری تو ہے ہی، لفظوں کی تال اور معنی کے سُرخوب جمے ہیں، جن سے انہوں نے بڑی سادگی کے ساتھ پوری ایک راگ مالا پرو کر رکھ دی ہے۔ سنئے اور سر دھنئے۔ ۔ ۔

                   مرد

                   کتنے بد نام ہوئے

                    پیار میں تیرے ہم

                   پھر بھی ناکام ہوئے  

 

                    عورت

                   ناکامی سے ڈرتے ہو

                   عشق بھی کرتے ہو

                   بد نامی سے ڈرتے ہو

 

                   مرد

                   اس حال فقیری میں

                   عمریں بیت گئیں

                   زلفوں کی اسیری میں

 

                   عورت

                   زلفوں سے رہا ہو جا

                   رب تیری خیر کرے

                   جا ہم سے جدا ہو جا

 

                   مرد

                   کیا لطف رہائی کا

                   دل جب سہہ نہ سکے

                   دکھ تیری جدائی کا

 

                   مرد+عورت

                   ملنا ہو تو ملتے ہیں

                   پھول محبت کے

                   پت جھڑ میں بھی کھلتے ہیں

 

          کہئے صاحب، کیا خیال ہے؟        

          ویسے، جن حضرات کو یہ ایک عام سا فلمی دو گانا محسوس ہوا ہو اُن سے میری درخواست ہے وہ کچھ دیر کے لئے مضمون ایک طرف رکھ دیں۔ اور جب طبیعت کچھ ٹھیک ہو جائے تو دوبارہ اسے ذرا ٹھہر ٹھہر کر پڑھیں۔ انشا اﷲ افاقہ ہو گا۔

          ماہئے کے علاوہ غزل سے بھی ان کا عشق مجھے کچھ کم نہیں لگتا۔ یہی کیفیت کسی قدر نظم میں ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے افسانے لکھے ہیں، انشائیے تحریر کئے ہیں، خاکہ نگاری کی ہے، تنقیدیں لکھی ہیں، مراسلہ بازی فرمائی ہے اور وہ سب لکھا ہے جو عام طور سے عام ادیب نہیں لکھتے۔ اور میری مشکل دیکھئے کہ میں نے پچھلے چند ہفتوں میں یہ سب پڑھا تو غزلوں سے زیادہ مجھے ماہئے اچھے لگے، ماہیوں سے زیادہ نظموں میں لطف آیا، نظموں سے زیادہ انشائیوں میں مزا پایا، انشائیوں سے زیادہ خاکوں نے لطف دیا، خاکوں سے زیادہ تنقیدی مضامین نے متاثر کیا، تنقیدی مضامین سے زیادہ غزلیں پسند آئیں، غزلوں سے زیادہ ماہئے اچھے لگے، ماہیوں سے زیادہ۔ ۔ ۔ و علیٰ ہذالقیاس۔ نہ وہ ٹھہرے نہ میں ٹھہرا۔ گھوم پھر کر دونوں وہیں واپس آتے رہے جہاں سے چلے تھے۔ میں نقاد تو نہیں ہوں کہ دعوے سے کوئی بات حیدر صاحب کے ادب اور فن کے بارے میں کہہ سکوں۔ جتنی سمجھ ایک کچے پکے نثر نگار کے طور پر پائی ہے اس کے برتے پر یہ بات ضرور کہوں گا کہ کثیر الازدواج شوہر تمام بیویوں سے اور کثیر الاصناف ادیب تمام اصناف سے ہر گز انصاف نہیں کر سکتا۔ لیکن حیدر قریشی نے بڑی حد تک یہ کام کر کے دکھایا ہے۔ انہوں نے سبھی اصناف میں تقریباً ایک سا معیار قائم رکھا ہے۔ چنانچہ یہ کہنا مشکل ہے کہ انہیں کیا کہا جائے۔ عمدہ شاعر، عمدہ افسانہ نگار، عمدہ انشائیہ نگار، عمدہ نقاد یا چاروں۔ میں انہیں پانچوں کہوں گا کیونکہ ان کی ایک اور بڑی خصوصیت میرے علم کے مطابق یہ ہے کہ وہ ایک بہت اچھے انسان ہیں۔ اور یہ خصوصیت وہ ہے جس کے بغیر وہ باقی چاروں میں سے ایک بھی نہ ہوتے۔

           یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ ان سے میری بالمشافہ ملاقات ابھی تک نہیں ہوئی ہے۔ صرف ایک بار ٹیلیفون پر بات ہوئی۔ ورنہ سب ملاقاتیں ای میل کی بدولت ہوتی ہیں۔ لہٰذا ان کی شخصیت کے کئی گوشے ایسے ہو سکتے ہیں جو ابھی میرے علم سے باہر ہیں۔ ہاں یاد آیا۔ انٹر نیٹ کی بات رہ گئی۔ میرے ذاتی علم کے مطابق حیدر قریشی اردو کے واحد سنجیدہ ادیب ہیں جو انٹر نیٹ پر سب سے زیادہ موجود ہیں۔ ان کا معیاری جریدہ ‘’جدید ادب‘‘ بھی اردو کا واحد ادبی رسالہ ہے جو کاغذ پر چھپنے کے ساتھ ساتھ پورے کا پورا انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ جدید ادب پہلے دو مرتبہ پاکستان میں چھپ کر بند ہو چکا ہے اور اب جرمنی سے شائع ہوا ہے تو نہایت پا بندی سے شائع ہو رہا ہے۔ بلکہ پہلے تو صرف کاغذ پر ہی چھپتا تھا اب آپ اسے انٹرنیٹ پر بھی پڑھ سکتے ہیں۔ لطف یہ کہ حضرت نے اچھے خاصے ضخیم رسالے کی قیمت بھی کچھ نہیں رکھی۔ مفت تقسیم شروع کر دی۔ ایک تو اردو والوں کو ادب پڑھنے کی عادت نہیں ہے۔ اس پر مفت کا ادب! لوگ شک کرنے لگے کہ کہیں القاعدہ یا امریکہ تو اس کے پیچھے نہیں ہے جو ہمیں مفت میں ادب پڑھوا کر ہماری عادتیں خراب کرنا چاہتا ہو۔ آخر ہیں تو دونوں ایک ہی سکّے کے دو رخ۔

          تنگ آ کر کچھ لوگوں نے ان کی منّت سماجت کی اور ہاتھ پیر جوڑے کہ بند ۂ خدا کچھ تو رسالے کی قیمت رکھ دو۔ چنانچہ حالیہ شمارے سے لوگوں کی یہ پُر زور درخواست منظور کرتے ہوئے انہوں نے از راہِ عنایت اس کی قیمت مقرر کر دی ہے ورنہ وہ تو اگلے شمارے سے ایک ‘’جدید ادب‘‘ بلا قیمت قبول کرنے والے کوساتھ میں ایک ‘’جدید ادب‘‘ مفت دینے کا ارادہ کئے بیٹھے تھے۔ اس طرح اردو کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے جب کسی اردورسالے نے پبلک کی پر زور فرمائش پر مجبوراً اپنی قیمت طے کی ہے۔ ادب کے رسیا اور لوگ بھی ہیں۔ ادبی جریدے شائع کرنے کی خالص خسارے والی ادبی خدمت اور بھی کئی لوگ کر رہے ہیں۔ لیکن اکثر معاملوں میں یہ خدمت ادب کی بجائے اپنی ذاتی شخصیت کو چمکانے کے لئے زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے حضرات کے ادبی جریدے ان کی اپنی شاعری، اپنی نثر اور اپنی تصویر سے شروع ہوتے ہیں اور اپنی تعریف میں لکھے گئے مضامین و مراسلات پر ختم ہو جاتے ہیں۔ البتّہ بیچ میں جگہ بچے تو اپنے گروپ کے لوگوں کی بھی کچھ تخلیقات شائع کر دی جاتی ہیں۔ اﷲ اﷲ خیر صلّا۔ اس کے برعکس جدید ادب کے تازہ شمارے میں ۵۰ سے زائد ادیبوں کی ۱۰۰سے زائد نگارشات کے بیچ حیدر بھائی کے صرف دو مضمون ہیں۔ اور وہ بھی میرا جی اور جوگندر پال کے بارے میں۔ آپ ہی بتائیے ایسے شخص کو فنا فی الادب نہ کہیں تو کیا کہیں۔

          حیدر بھائی کی زندگی میں انٹر نیٹ کا، بلکہ خود انٹر نیٹ کی زندگی میں حیدر بھائی کا اتنا عمل دخل ہو گیا ہے کہ جس اردو سائٹ پر جائیے وہاں وہ کسی نہ کسی روپ میں مل جائیں گے۔ سنا ہے گھر میں ان کا زیادہ تر وقت کمپیوٹر کے ساتھ ہی گزرتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی بیگم نے اسے اپنی سوت مان لیا ہے، اور بے چاری ہر دم بس کمپیوٹر کو ان سے خلع دلانے کی شرعی تدبیریں سوچتی رہتی ہیں۔ میں نے جب بھی حیدر بھائی کو ای میل کیا اس کا جواب فوراً لَوٹتے ای میل سے پایا ہے۔ کئی بار پریشان ہوتا ہوں، کوئی الجھن آتی ہے تو فوراً انہیں ای میل کرتا ہوں، کیونکہ مجھے یقین رہتا ہے کہ وہ فوراً جواب دیں گے۔ جب کہ اپنے بیوی بچوں سے مشورہ لینے کے لئے مجھے ان کے کچن ورک اور ہوم ورک کے ختم ہونے تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کہتے ہیں کہ کھانا بھی وہ کمپیوٹر کے پاس بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ کئی بار مجھے ان کے ای میل کے ساتھ بریانی اور شامی کباب کی خوشبو آ چکی ہے۔ واقعی، یقین کیجئے۔

 آج کل شاعری اور مضمون نگاری وہ کمپیوٹر پر ہی کرتے ہیں۔ لہٰذا اگر ان کا کمپیوٹر بھی ادب شناس اور ادیب مزاج ہو گیا ہو تو کچھ عجب نہیں۔ اس کا شبہ مجھے اس لئے ہے کہ خود میرا کمپیوٹر بھی خاصا اد ب فہم ہو گیا ہے۔ اس کا پتہ مجھے تب چلا جب ایک روز میں اس پر ایک غزل فی البدیہہ ٹائپ کرنے لگا۔ جیسے ہی مطلع کہہ کرسیو (save) کرنا چاہا فوراً سسٹم ہینگ (hang) ہو گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ مطلع نہ صرف دو لخت تھا بلکہ دوسرے مصرعے کی ردیف بھی گر رہی تھی اور کمپیوٹر کو ہر گز ایسی شاعری گوارا نہ تھی۔ اس حساب سے حیدر بھائی کا کمپیوٹر اور بھی زود فہم اور زود حس ہونا چاہئے کیونکہ ان کی تحریروں میں جو صفائی، جوکساوَٹ،  جامعیت اور درد مندی و شائستگی میں نے پائی ہے وہ ان کی عمر کے کسی اور ادیب یا نقاد کے یہاں کم از کم مجھے تو نہیں دکھائی دیتی۔ جو ادیب خود کو زیادہ پڑھا لکھا دکھانا چاہتے ہیں وہ قصداً ادق الفاظ والی ایسی پُر پیچ اور علامتی انداز کی زبان بولنے لگتے ہیں جس سے سننے والے کی کچھ سمجھ میں نہ آئے اور ان کی نیم حکیمی پر ایک حکیمانہ پردہ پڑا رہے۔ لیکن حیدر بھائی کی جو تحریر بھی میں پڑھتا ہوں وہ نہ صرف صاف سمجھ میں آ جاتی ہے بلکہ اس سے وہی سمجھ میں آتا ہے جو وہ کہنا چاہتے ہیں۔ یہ نہیں کہ وہ کہہ رہے ہیں ایران کی اور ہم سمجھ رہے ہیں طور ان کی۔ یہ دو ٹوک پن ادب میں میرے خیال سے بڑے کام کی چیز ہے۔

          یہاں جی چاہتا ہے کہ ان کی تحریروں، نظموں اور غزلوں وغیرہ سے اپنی پسند کے کچھ حوالے بھی ان کے کمالِ فن کے ثبوت کے طور پر پیش کر دوں۔ مگر پھر خیال آتا ہے کہ اس سے مضمون کو خواہ مخواہ طوالت دینے کے سوا کوئی اور مقصد ظاہر نہیں ہو گا۔ اس لئے فی الحال یہ ارادہ ترک کرتا ہوں۔ ویسے بھی میں نے تازہ تازہ ان کی کلّیات پڑھی ہے۔ اور اس میں اتنی ساری چیزیں مجھے پسند آئی ہیں کہ وہ مل کر تقریباً کلّیات کے ہی سائز کی ہو جائیں گی۔ لہٰذا قارئین ‘’عمرِ لا حاصل کا حاصل‘‘ کے ٹائٹل، فہرستِ مضامین اور اشتہارات کو چھوڑ کر باقی سبھی صفحات یہاں بطور حوالہ منسلک تصوّر فرما لیں۔ اور مجھے اجازت دیں۔

          لیکن واضح رہے۔ ابھی یہ مضمون ادھورا ہے۔ کیونکہ حیدر صاحب کو میں ابھی اتنا ہی جانتا ہوں۔ مزید واقفیت اور معلومات کے بعد مضمون کا باقی حصہ بھی پیش کروں گا۔ اگرچہ مجھے ابھی سے اندیشہ ہو رہا ہے کہ وہ بھی ادھورا رہ جائے گا۔ خیر اﷲ مالک ہے!

(بشکریہ سہ ماہی تادیب برطانیہ جلد:۴، شمارہ :۳۔ جولائی تا ستمبر ۲۰۰۶ء)

٭٭

 

 تخلیقی ادب میں کسی نئی یا غیر معروف صنف کو رائج کرا دینا اپنے آپ میں اتنی بڑی بات ہے کہ اسے تاریخ ہمیشہ ایک ادبی واقعے کے طور پر یاد رکھتی ہے۔ آزاد غزل کو متعارف کرانے میں جتنا مظہر امام کو یاد رکھا جائے گا شائد اس سے کہیں زیادہ ‘’ماہیے، کو پھر سے رواج اور قبولیت دلانے کے لیے حیدر قریشی کی یاد آئے گی۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ پچھلے کئی عشروں سے جرمنی میں خاموشی، مگر نہایت سرگرمی سے ادب کی تخلیق و ترویج میں مصروف یہ فنکار صرف ماہیے ہی نہیں لکھ رہا ہے بلکہ اس نے غزل، نظم، افسانے، انشائیے، خاکے اور سفرنامے لکھنے اور تنقید و تحقیق کے شعبے میں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے۔ ایسے قلم کار کی ادبی قدر و قیمت اور تخلیقی جہات کا اندازہ لگانے کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ اسے اور قریب سے دیکھا اور دکھایا جائے۔

 نصرت ظہیر مدیر ادب ساز دہلی۔ شمارہ نمبر ۶۔ ۷، جنوری تا جون ۲۰۰۸ء۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اردوستان میں آپ کا خبر نامہ نظر آیا، اچھا تھا۔ ۔ ۔ آپ کی سوچ اور باتوں میں بڑا توازن ملتا ہے، جس سے میں بھی کئی باتیں سیکھ رہا ہوں۔ نصرت ظہیر۔ حیدر قریشی کی کتاب خبر نامہ کے فلیپ سے

٭٭٭

‘’عمرِ لا حاصل کا حاصل ‘‘میں شامل افسانے

عبد اللہ جاوید۔ کینیڈا

حیدر قریشی کے افسانوں کی اوّلین خوبی یا خصوصیت یہ ہے کہ وہ افسانوں کے معیار پر پورے اترتے ہیں (علامتی ہونے کے باوجود ) اور وہ معیار یہی ہے کہ افسانہ قاری کی توجہ کو اپنی گرفت میں لے اور افسانے کے اختتام تک پکڑے رکھے۔ البتہ ایک اچھا افسانہ نگار اپنے افسانے کے اختتام کے بعد، بہت بعد تک۔ بعض اوقات ہفتوں، مہینوں اور برسوں کسی نہ کسی انداز میں قاری سے جڑا رہتا ہے۔ حیدر قریشی کا قاری افسانے کا ہی نہیں بلکہ حیدر قریشی کا ہو جاتا ہے اور پڑھتے سمے تو لازمی طور پر۔ اگر حیدر قریشی کے افسانوں کو علامتی افسانوں کے خانے میں رکھا جائے تو اس خانے کے کتنے افسانہ نگاروں کے کتنے افسانے اس معیار پر پورے اترتے نظر آئیں گے؟ گنتی کے چند۔ کسی کسی افسانہ نگار کا کوئی افسانہ بہت ممکن ہے علامتی افسانہ ہونے کے باوجود افسانوی ادب کا شاہ کار تسلیم کیا جا چکا ہو لیکن حیدر قریشی وہ واحد افسانہ نگار ہے جس کا قریب قریب ہر افسانہ، افسانے کی صنف کی متذکرہ خصوصیت کا حامل نظر آتا ہے۔ علامتی افسانہ (تحریک کی صورت میں ) ہمارے ادب میں اس طرح آیا جیسے تیز ہوا کا جھونکا۔ بیشتر افسانہ نگاروں نے اسے باہر کی چیز جان کر لیا اور باہر کی چیز کے طور پر پیش بھی کیا نہ تو اس کے فارم کو اپنا بنایا اور نہ ہی اپنی چیز کے طور پر اسے برتا۔ مجھے اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اردو کو چند ایک کامیاب علامتی افسانے ضرور ملے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تحریک سے ہٹ کر بھی چند علامتی افسانے بلکہ اعلیٰ افسانے بھی مل جاتے ہیں۔ پریم چند کے ‘’کفن، کرشن چندر کے ‘’غالیچہ، منٹو کے پھندنے، عصمت کے ‘’لحاف، غلام عباس کے ‘’ آنندی ‘’عسکری کے ‘’چائے کی پیالی، بیدی کے ‘’ اک چادر میلی سی، اشفاق حمد کے ‘’گڈریا، کو ہم ایسے افسانوں میں شمار کرسکتے ہیں۔ تحریک سے جڑے افسانوں میں البتہ فرائیڈین، یونگین، کرکیگارڈین، یا کافکائی عناصر کچھ زیادہ واضح صورت میں موجود ملتے ہیں۔ علامتی افسانے کی تحریک ختم نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے کیونکہ علامت شعر و ادب کی جان ہے بقول برک (Burke) ہر فن پارہ ممکنہ طور پر علامتی عمل کی شکل ہو سکتا ہے۔ ‘‘کولرج Coleridge کے خیال میں فن کار علامتوں کا تخلیق کار (خالق)ہوتا ہے۔ یوں بھی ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ لفظ ایک علامت یا ایک سے زائد علامات پر مبنی ہوتا ہے۔ لفظ تو رہا ایک طرف حرف بھی علامت کے سوا کچھ نہیں۔ علامتی افسانے کی تحریک کے آخری دنوں میں ایک اور تحریک ہمارے افسانوی ادب میں دبے پاؤں داخل ہوئی اور الٹے قدموں لوٹ گئی۔ اس تحریک کو ’‘ا کہانی ‘‘( نو اسٹوری) کا نام دیا گیا تھا۔ اس کی شانِ نزول غالباً یہ کہی جائے کہ جب علامتی افسانے اس طرح کے لکھے جانے لگے کہ افسانے سے افسانوی عنصر رخصت ہو گیا۔ تو اس کے نتیجے میں کہانی سے یکسر انحراف کی شکل ‘’اُکہانی، (نو اسٹوری) کا جنم ہوا۔ بات حیدر قریشی کے افسانوں کی ہو رہی تھی اور میں اپنے پڑھنے والوں کو ساتھ لے کر یہ سوچ رہا تھا کہ حیدر قریشی کا افسانہ علامتی ہونے کے باوجود اس خصوصیت کا حامل ہے کہ قاری کی توجہ کو اپنی گرفت سے نکلنے نہ دے اس نے علامتی افسانے کی افراط و تفریط سے اپنا دامن بچائے رکھا۔ شکر ہے ا س نے ‘’اکہانی، (نو اسٹوری) کو آزمانے کا خیال نہیں کیا۔

 افسانے کی دوسری خصوصیت اس کا پڑھنے کے لائق (Readable) ہونا ہے۔ حیدر قریشی کا ہر’‘ افسانہ ‘’پڑھنے کے لائق ہوتا ہے۔ اس کا پڑھنا گراں نہیں گزرتا۔ یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہم افسانہ پڑھ رہے ہیں کیونکہ ہم افسانہ پڑھتے نہیں بلکہ افسانے میں سے ہو کر گزرتے ہیں یا افسانے کو اپنے اندر سے گزارتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہم افسانہ نہیں پڑھتے بلکہ افسانے کے تجربے سے گزرتے ہیں ‘’۔ عمر لا حاصل کا حاصل، کے افسانے حیدر قریشی کی زندگی کے متنوع تجربات کا’’ ما حاصل‘‘ ہیں اور اپنے قاری کو اس’’ ماحاصل‘‘ سے گزارتے ہیں۔ پہلا افسانہ ‘’میں انتظار کرتا ہوں، جس کا ترجمہ 'And I wait' کے عنوان سے اسی ٹائٹل کے تحت چھپی ہوئی انگریزی کتاب میں موجود ہے۔ عنوان کے واسطے سے میرا ذہن ملٹن کی نظم ‘’آن ہِز بلینڈنس، کی جانب رجوع ہوتا ہے جس کے اختتامی مصرعوں میں ملٹن کہتا ہے:

"They also serve

Who stand and wait!"

 حیدر قریشی کی کہانی اس سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی اور ہونا بھی یہی چاہیے تھا۔ میں نے ‘’عمر لا حاصل کا حاصل، کے حیدر قریشی کو حرکت سے عبارت پایا۔ وہ رکنے یا ٹکنے والا بندہ بالکل نہیں لگتا۔ چنانچہ ’’میں انتظار کرتا ہوں، ایک ایسی کہانی ہے جس میں مناظر جلدی جلدی بدلتے ہیں اور ہزاروں برسوں کی زمانی قدر کے ساتھ ملکوں ملکوں کی مسافتوں پر مشتمل مکانی قدر پر محیط ہیں۔ یہ مناظر قدیم اساطیر، آسمانی صحائف، قدیم قصائص اور گزری ہوئی تہذیبوں سے متعلق ہیں۔ اس افسانے میں مکان و زماں کے ساتھ جو رویہ ملتا ہے وہ حیدر قریشی کی انفرادیت کا بھی ضامن ہے۔ یہاں انتظار حسین کی مثال پیش کرنے کی اجازت دیجئیے۔ انتظار حسین اساطیر، قدیم تاریخ، تہذیب و ثقافت کی اپنے افسانے میں پیوند کاری کرتے ہیں جو بعض اوقات دکھائی دینے لگتی ہے لیکن ان کے قلم کا جاد و پورے افسانے کو ایک کامل اکائی کا روپ دے کر غیر محسوس بنا دیتا ہے۔ حیدر قریشی پیوند کاری نہیں کرتا، شجر کاری کرتا ہے۔ وہ قلم نہیں لگاتا بلکہ اُگاتا ہے۔ زیر نظر افسانے ‘’میں انتظار کرتا ہوں، کی پیشانی پر وہ اپنا شعر درج کرتا ہے۔ ؎

خزاں رسیدہ سہی پھر بھی میں اگر چاہوں جہاں نگاہ کروں اک نئی بہار اُگے

اس شعر میں اگانے کا استعارہ استعمال ہوا ہے جو میرے متذکرہ خیال کو تقویت دے رہا ہے۔

حیدر قریشی کے نظریہ وقت پر بات کرتے ہوئے میں اس حقیقت کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ اس نے اپنے زیر مطالعہ افسانے میں ‘’مکان و زماں، کو آگے پیچھے ہچکولے دے کر ‘’لا مکاں و لا زماں‘‘ کی جانب دھکیل دیا ہے۔ یہ صورت حال اس افسانے تک محدود نہیں ہے۔ اس کے بیشتر افسانوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ تھامس ایکو نیا س نے خوب کہا ہے۔ ‘‘خدا وقت کو نہیں دیکھتا’‘

 حیدر قریشی کی اس ٹیکنیک کے بارے میں یہ کہنا غلط ہو گا کہ انتظار حسین سے تھوڑی بہت مماثل ہے اور نہ ہی اس کو شعور کی رَو سے جوڑا جا سکتا ہے۔ میں نے اس افسانے کو ‘’تجرید و تجسیم ‘‘ کے باہمی رد و بدل کی آماج گاہ پایا۔ یہ بھی ایک ایسی خصوصیت ہے کہ جو دوسرے افسانوں میں بھی موجود ہے۔ اس رد و بدل کے علاوہ کسی کسی افسانے میں (زیر نظر افسانے کے علاوہ بھی )شخصیات اور کردار بھی باہم مبدل دکھائی دیتے ہیں۔ یا بے حد گڈمڈ ملتے ہیں۔ ’’میں انتظار کرتا ہوں‘‘،میں حضرت اسمٰعیل ؑ، حضرت یوسف ؑ، سری رام اور بے شمار دوسرے کردار قاری کو حیران کر دیتے ہیں۔ یہ فہرست طویل تر ہو سکتی تھی۔ ان افسانوں میں بھی جو حقیقت نگاری کے مزاج کے حامل ہیں وہ صنعت موجود ہے جس کو مغرب کے نقادوں نے (Extended metaphor) وسعت یافتہ استعارے کا نام دیا ہے۔ یہاں میں یہ بھی کہوں گا کہ حیدر قریشی نے رمزیہ استعارے سے بھی کام لیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اپنے چاروں اور پھیلی ہوئی زندگی کو اپنی بصیرت (وژن) کی گرفت میں لے کر پڑھنے والوں کی خاطر کاغذ پر اتار دیا ہے۔ اس کی ساری تعجب خیزی، اسرار اور رمزیت کے ساتھ زندگی کی سطحیت، عمومیت اور بے معنویت کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے۔ معمولی میں غیر معمولی، غیر معمولی میں معمولی کو دیکھنا ادر دکھانا حیدر قریشی کی افسانہ نگاری کا امتیاز ہے۔ مشاہدہ حیات کی بات چل نکلی ہے تو اس پر بھی بات کر لیتے ہیں کہ حیدر قریشی کی نظر کسی بھی چیز کے ظاہر پر بھی ہوتی ہے اور باطن پر بھی اور وہ بیک وقت ظاہرو باطن کا تقابلی مشاہدہ کرنے والا افسانہ نگار ہے۔ اس کی اس عادت نے اس کو طنز کی صلاحیت سے نواز دیا ہے۔ اس ضمن میں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ طنز کا عنصر وہ پیدا نہیں کرتا۔ طنز تو زندگی اسے دیتی ہے اور وہ اس میں نمک مرچ کا اضافہ کئے بغیر جوں کا توں پیش کر دیتا ہے۔ اس کے ہاں طنز کا مشاہدہ کرنا ہو تو آپ کو ‘’دھند کا سفر، پڑھنا چاہیے۔ بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ حیدر قریشی کا افسانہ طنز کے تانے بانے سے تیار  ےہیئشدہ لگتا ہے۔ یہ اور بات کہ طنز افسانے پر مسلط کی ہوئی نہیں لگتی۔ اس کو افسانے سے الگ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ حیدر قریشی کے چند افسانوں میں وہ موضوع بھی جزئیاتی طور پر ملتا ہے جس کو مغربی ادب میں ما بعدِ ہیروشیما، کی اصطلاح کے تحت رکھا گیا ہے۔ البتہ اس کو برتنے کا انداز انفرادی ہے تقلیدی یا اکتسابی نہیں۔

‘’میں انتظار کرتا ہوں‘ کا انجام غیر متوقع ہے۔

 ‘’میں آگ کے مکمل طور بجھنے کا انتظار کرتا ہوں۔ میں انتظار کرتا ہوں جب تھوڑی دیر بعد میرے سارے سوتیلے عزیز مجرموں کی طرح میرے سامنے پیش ہوں گے اور میں اس وقت کے آنے سے پہلے ہی اپنا فیصلہ لکھنے بیٹھ جاتا ہوں۔ لا تثریب علیکم الیوم’‘

 حیدر قریشی کا قریب قریب ہر افسانہ اسی طرح کے قطعی غیر متوقع انجام کا حامل ہوتا ہے۔ یوں ان کی سعادت حسن منٹو سے مماثلت نکل آتی ہے۔

‘’گلاب شہزادے کی کہانی، جو روایتی ‘’چہار درویش، کے قصے سے اُگائی گئی ہے۔ ذاتی طور پر مجھے پسند ہے۔ اس میں بقول کیون بروک (Kevin Brockmeier)یہ کہانی ایک سابقہ کہانی سے نمو پاتی ہے۔ اس سبب سے وہ جو رویہ ماحول، صورتِ حال اور کرداروں سے اختیار کرتی ہے۔ بڑی حد تک قابلِ فہم لگنے لگتا ہے۔ یہ بات کیون نے ایڈورڈ پی جونس (Edward P.Jones)کی مشہور کہانی ’‘اولڈ بوائز، اولڈ گرلس’‘ پر تبصرے کے دوران لکھی تھی۔ اس کہانی (گلاب شہزادے کی ) میں پہلا درویش اپنی کہانی کو موخر کر دیتا ہے اور باری باری باقی درویش اپنی اپنی کہانی سناتے، پانی پیتے اور موت سے ہم کنار ہوتے جاتے ہیں۔ چوتھا درویش جو در حقیقت پہلا درویش ہوتا ہے پانی کو تیل سمجھ بیٹھتا ہے۔ ایٹمی جنگ کے بعد کی دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھتے ہوئے، پانی کو پانی کے بجائے تیل خیال کر کے پیاسا مر جاتا ہے۔ اس کہانی میں گلاب کی اس قلم کا بھی ایک کردار ہے جس کو پہلا درویش لگاتا ہے۔ اس میں کھلنے والا سرخ پھول ہر مرتبہ ایک نئی معنویت لے کر آتا ہے۔ اس کے علاوہ ہر درویش کی موت کو پانی سے جوڑ کر اور پہلے درویش کی موت کو پانی کے ساتھ تیل سے گڈمڈ کر کے حیدر قریشی نے پانی کے استعارے کو رمز سے مملو کر دیا ہے۔

‘’دھند کا سفر‘‘ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے طنزیہ افسانہ ہے۔ اگر آپ سے صرف اس ایک کہانی کی اساس پر اس کے مصنف کے بارے میں پوچھا جائے تو آپ یہی کہیں گے کہ اس افسانے کا مصنف طنز نگار ہے اور اس افسانے میں اس کی طنز نگاری عروج پر ہے۔ حیدر قریشی کی طنز کے بارے میں اس سے قبل جو عرض کر چکا ہوں وہ سب کا سب ‘’دھند کا سفر‘‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ طنز کے علاوہ اس افسانے میں ‘’دھند، سفر، غصہ، گالیاں، گالیوں کا بتدریج باقی قوم تک بہاؤ، یک چشم داڑھی والا، ٹرین کو روکنے کے لیے کھینچنے والی زنجیر اور اس کے نیچے لکھی ہوئی انتباہی تحریرسب کچھ علامتی بھی ہے اور حقیقی بھی۔ اس طرح کہانی واقعیت کی زبان میں بھی بات کرتی ہے اور استعارے کی زبان میں بھی۔ اس کا کلی تاثر لا یعنیت کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے۔ یوں اس کے اندر جدیدیت کے ساتھ ‘’ما بعد جدیدیت‘ بھی سما جاتی ہے۔ ‘’ما بعد جدیدیت کو آپ کوئی زمانی نسبت نہیں دے سکتے۔ وہ جدیدیت کے ساتھ جڑی ہے اور انیسویں صدی سے اکیسویں صدی میں داخل ہو رہی ہے۔ میرے نا چیز خیال میں جدیدیت کے خاتمے اور ما بعد جدیدیت کے آغاز کا نظریہ کسی اعتبار کا حامل نہیں ہے۔ اس مرحلے پر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ ہمارے شعرو ادب میں علامت کے جو عناصر پہلے سے چلے آ رہے تھے علامت کی تحریک کے دوران اور علامت کی تحریک کے خاتمے کے بعد بھی زندہ سلامت رہے۔ علامت کی تحریک کی آمد و رفت نے ان کا کچھ نہیں بگاڑا۔ یوں بھی علامت کا ختم ہونا اس طرح عمل میں نہیں آیا جیسے کسی نے جھاڑو پھیر دی۔ شعر و ادب میں کسی بھی تحریک کا مکمل خاتمہ ہوتا ہی نہیں۔ علامت ہی کو لیجیے۔ افسانوی ادب سے تو اس کا زور ٹوٹا لیکن شاعری اور خاص طور پر جدید نظم میں اس کا سکہ آج بھی چلتا ہے۔

اس سے قبل ایک بظاہر گنجلک سی بات لکھی تھی۔ ‘’اس رد و بدل کے علاوہ کسی کسی افسانے میں (زیر نظر افسانے کے علاوہ بھی ) شخصیات اور کردار بھی باہم مبدل دکھائی دیتے ہیں۔ یا بے حد گڈمڈ ملتے ہیں۔ ‘‘ اس مرحلے پر افسانہ ‘’میں انتظار کرتا ہوں‘‘ سے مثالیں پیش کی تھیں۔ افسانہ ‘’آپ بیتی‘‘ سے ایک اقتباس دیکھیے۔

‘’اس وقت رات کے آٹھ بجے ہیں اور میں نے لیٹے ہی لیٹے بائیں طرف کروٹ بدل کر خیال ہی خیال میں اس خوبصورت لڑکی کو اپنے پہلو میں سلا لیا ہے۔ میری سانسوں کی رفتار تیز ہو گئی ہے اور میں اس وقت جب میں کلائمکس پر پہنچنے لگا ہوں میں نے اس کا چہرا اپنے ہاتھوں میں تھام کر اس کے ہونٹوں کا بھر پور بوسہ لینا چا ہا مگر مجھے جیسے ایک دم کرنٹ لگ گیا ہے۔ میرے ہاتھوں میں جو چہرا ہے وہ ہو بہو میری بیٹی کا ہے۔ میری ننھی بچی جیسے ایک دم جوان ہو کر میرے ساتھ لیٹی ہو۔ ‘‘

آپ نے دیکھا دعوت عیش دینے والی لڑکی مبدل ہو رہی ہے بیٹی سے۔ اسی افسانے سے ایک اور اقتباس دیکھئے۔

‘’ وہ خوب صورت لڑکی میرے پہلو میں آ گئی ہے۔ ۔ یہ چہرا میری بیوی کا ہے۔ مجھے پھر کرنٹ لگتا ہے۔ میں نے اپنے آپ کو دیکھا تو میری جگہ کوئی اور تھا۔ ‘‘

افسانہ ‘’آپ بیتی، آویزش اور کشمکش کا افسانہ ہے۔ اس افسا نے کو بلا تامل کسی پس و پیش کے بغیر منٹو کے دائرہ عمل کے اندر رکھ کر دیکھوں گا لیکن آپ یہ سوال نہ کر بیٹھیں آیا یہ فرائیڈین ہے یا یونگین۔

افراد اور شخصیات کے مبدل ہونے کی صورت (تصوف کے رنگ میں )ان کی ‘’ایک کافر کہانی ‘‘ میں بھی ملتی ہے۔ اس کہانی کے بارے میں یہ عرض کروں گا کہ بظاہر بزرگانِ دین اور صوفیائے کرام کے واقعات پر مبنی یا ان سے ماخوذ معمول کی کہانی اور معمول کے سوال اٹھانے والی اس تحریر کو ایک تکونے چہرے والے اسٹین گن بردار کے ذکر سے ٹوئسٹ کر کے غیر معمولی بنا دیا گیا ہے میں نے غالباً پہلے بھی یہ عرض کیا ہے کہ غیر معمولی کو معمولی اور معمولی کو غیر معمولی بنا نا حیدر قریشی کا فن ہے۔ ‘’روشنی کی بشارت، ایک طاقت سے بھر پور افسانہ ہے۔ ذہن اور قلم کی تخلیقی توانائیوں کا مظہر۔ اس کو ایک سے زائد مرتبہ پڑھنے سے اس کے رمز آشکار ہوتے ہیں۔ جہاں تک ٹیکنیک کا تعلق ہے اس میں بہت کچھ وہی ہے جس پر میں آغاز میں بات کر چکا ہوں۔ خاص طور پر وقت کے ساتھ برتاؤ یعنی مکان و زماں کو آگے پیچھے کرتے رہنا اور لا مکاں و لا زماں کی جانب دھکیل دینا۔ اس افسانے کے مرکزی کردار کے چند فقرے ملاحظہ کیجئے۔

‘’میں بہت پہلے آ گیا ہوں میرا تعلق مستقبل سے ہے۔ ‘‘

‘’میں اپنے وقت سے سولہ سو برس پہلے آ گیا ہوں ‘‘

‘’مجھے یاد آتا ہے اس سے پہلے ایک دفعہ میں اپنے وقت سے پچاس برس پہلے آیا تھا اور جب پچاس برس بعد میں دو بارہ آیا تھا تو میں نے یہ دیکھا تھا کہ میں اپنے وقت سے ایک صدی پہلے آ گیا ہوں۔ پھر جب میں ایک صدی بعد آیا تو میری آمد اپنے وقت سے دو سو سال پہلے تھی۔ ۔ ۔ ۔ اور اب جب میں آٹھ سو سال بعد آیا ہوں تو مجھے یقین ہو گیا ہے کہ میں اپنے وقت سے سولہ سو سال پہلے آ گیا ہوں۔ ‘‘

 میں نے حیدر قریشی کے افسانے جستہ جستہ پڑھے ہیں۔ ‘’عمر لا حاصل کا حاصل، میں درج شدہ سارے افسانے پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ انہوں نے اردو افسانے کی مروجہ حدوں کو پار کرنے کی ہمت جٹائی ہے۔ اس سے قبل ہمت، جسارت اور بغاوت کے القاب ان افسانہ نگاروں کے لیے استعمال کیے جاتے رہے ہیں جو روایتی موضوعِ ممنوعہ یعنی جنس کو اپناتے تھے۔ جنس کے بعد سیاسی اور مزاحمتی موضوعات کا معاملہ آتا ہے۔ حیدر قریشی ان موضوعات کے دلدادہ نکلے جو مجذوبوں کو ساجتے ہیں۔ وہ ایسے سوالات کے جوابات کے متلاشی معلوم ہوتے ہیں جو قریب قریب لا جواب ٹھہرائے جاتے رہے ہیں۔ یہ بڑا کام ہے اور شاید اسی سبب سے ان کے مختصر لیکن ‘’بڑے افسانے، قاری کا تعاقب کرتے رہتے ہیں۔ آخری سطر پڑھنے پر بھی جان نہیں چھوڑتے سوچنے پر مائل اور دہرانے پر مجبور کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ حیدر قریشی کا افسانہ پڑھنا ایسا ہی ہے جیسے ذاتی زندگی کے کسی تجربے سے گزرنا۔ ا یسے تجربے سے جو سوچ، کشف اور بشارت سے عبارت ہے۔

٭٭٭٭٭

 

 ‘’جب میں چلنے کو تھا، آپ یعنی حیدر قریشی ‘’جسم اور روح’‘ پر بزبان تحریر بات کرتے مل گئے۔ موضوع میرا اپنا خاص اور بولنے والا اپنا خاص(جو بھی بھلا لگا وہ بڑی دیر سے ملا)، رُکنا ہی پڑا۔ یہ کیسا اسلوبِ بیان ہے کہ بات سے بات جُڑی ہوئی چل رہی ہے، کبھی خراماں خراماں، کبھی رواں، دواں، کبھی بہہ رہی ہے موج در موج، سیل در سیل، جیسے ہوا۔ اصل موضوع کا یہ حال کہ چلتے چلتے، بہتے بہتے بالکل غائب اور پھر غیر محسوس طریقے سے دوسری باتوں کے درمیان ایک بار پھر نمودار۔ ۔ خیال، فکر، احساس، ادراک، اپنے طور پر ہر قسم کی قید و بند سے آزادجیسے سب اپنے طور پر اپنے اپنے کاموں میں مصروف، باہم آمیز ہو کر بھی اور جدا جدا بھی ایک غیر محسوس اسلوب کے بنتوّں (ٹکسچر)میں بندھے ہوئے۔ بظاہر دھاگے الجھے الجھے اِدھر اُدھر نکلتے ہوئے اور پھر خودبخود جُڑتے ہوئے، جیسے کبھی اُدھڑے ہی نہ تھے۔ عرفانِ روح کے مذہب کے راستے کے علاوہ دوسرے راستوں کی نشاندہی نے مضمون کے دامن کو زیادہ معنی خیز بنا دیا لیکن موضوع کو تشنہ رہنا تھا، سو رہا۔ اصل لطف تو طفلانہ معسومیت، حیرانی اور تجسس کی تحت موجی نے دیا جو مجھ سے کم مایہ قاری سے بھی چھپی نہ رہ سکی۔ باتوں کا سلسلہ اس دوران آپ کی تحریر ’‘اپنے وقت سے تھوڑا پہلے’‘ کی سرحد میں داخل ہو چکا ہے۔ جسم اور روح سے بھی زیادہ گھمبیر اور گہرے معاملے سے ہم اور آپ دوچار ہیں لیکن لفظیات کا تانا بانا قطعی مختلف ہے۔ حیران کن۔ ۔ عجیب طرح کا ہلکا پھلکا پن، ایک مکمل سپردگی، ایک کامل تسلیم و رضا بلکہ راضی بہ رضا والی کیفیت کی فضا میں ایقان کو چھونے والا یہ احساس کہ انسان کی مساعی ہی قدرت کی پراسرار قوتوں کو مشکل کشائی، تعاون اور سرپرستی کی جانب راغب کرتی ہے۔ لاٹری۔ ۔ نوجوان، رقم سے معمور سوٹ کیس، پولیس۔ ۔ درمیان میں آپ پولیس کے نرغے میں۔ ۔ ٹرین سے چھوٹے بیٹے کا اترنا۔ ۔ تبدیلیِ شخصیت و شناخت۔ ۔ پراسرار معاملات۔ کشف کے، وجدان کے، جذب کے، ماہیت قلبی کے، جیسے کوئی شمسؔ تبریزکسی جلال الدین رومی کو قیل و قال کی پستی سے مرتبۂ حال کی بلندیوں پر لے جا رہا ہو۔ ’‘ (اقتباس از مکتوب عبداللہ جاوید

 مطبوعہ جدید ادب جرمنی شمارہ نمبر ۱۱۔ جولائی تا دسمبر۲۰۰۸ء۔ ص۲۶۷، ۲۶۸)

٭٭٭

Urdu Literature: His life's work

By Sohail Ahmed Siddiqui

Daily Dawn Sunday, 06 Dec, 2009

He bows to his wife and says:

استعارے تو کجا سامنے اس کے حیدر شاعری ایک طرف اپنی دھری رہتی ہے

Not just metaphors, the entire poetry of mine

Is set aside when she is present

 This is a somewhat unusual dedication of Sulagtay Khaab, the first collection of ghazals by Haider Qureshi, an active exponent of Urdu literature living in Germany.The 54-year old poet has published five anthologies of ghazals, nazm, and mahiya. His two collections of short stories, two collections of pen sketches, one book of inshaiya (light essays) and a travelogue of his pilgrimage to Makkah are ample proof of his being a prolific writer.

Eleven of his books along with some other writings have recently been gathered included in a literary journal titled Umre-La'haasil ka Haasil (The outcome of futile life),. Haider Qureshi was born on January 13, 1952 in Chenab Nagar, Punjab. The Seraiki-speaking poet's favourite subject in school was Urdu. His maternal uncle, Habibullah Sadique, is also a poet and while growing up Qureshi was greatly impressed by his melodious voice.By the time he was a student of class IX, Qureshi started writing his own verses.

 Soon after matriculation in 1968 he wrote his first romantic story. At the time he was also working at a sugar mill.Later he earned a Masters degree in Urdu. He wrote his first ghazal in 1971 which appeared in Weekly, Lahore, some time in 1972. He participated in his first mushaaira in 1974, under the auspices of Bazm-i-Fareed, Khan-pur.He later laid the foundation stone of Halqa-i-Arbab-i-Zauqu-i-Khanpur with Nazr Khaleeque, A.K. Majed and Jameel Mohsin.

Besides playing a dynamic role in regional literary activities he also participated actively in the Anjuman Insedaad-i-Shoara, Khanpur to unmask fake poets. He is still a deadly enemy of pseudo-poets.In 1978 he launched a literary journal called Jadeed Adab at the cost of his wife's ornaments which he sold one after another and continued the magazine until the last of the jewels went to the goldsmith.

However, he revived the journal from Germany after a lapse of several years.

A strong supporter of Urdu mahiya, Haider has gained not only friendship, but also enmity for his extraordinary efforts in the area.He is the pioneer of the mahiya on correct meter movement. To my surprise, he asked me to write an article in English on the history of Urdu mahiya.With his full support, I was able to pen an article titled Mahiya - Language of Love which was published in the daily Dawn of April 25, 2004.

Haider's poetry is a rich blend of traditional Urdu and the local lingo. In it one can find numerous examples of 'linguistic liberty'. He is perhaps the only living poet who deliberately uses an old Punjabi dialect in Urdu ghazal.

مِرے ہی خواب کنورے نہیں رہے اب تو کہ آرزوئیں تری بھی بیاہیاں نہ گئیں

Not only my dreams are left virgin,

but your wishes too, remain unfulfilled

He believes in Roe'be-Husn, the stunning impact of beauty:

اُس سے آنکھیں چار کرنے کا کہاں ہے حوصلہ جب وہ اپنے دھیان میں ہو تب اسے تم دیکھنا

I have no courage to look at her directly

Better gaze at her while she is lost in herself

The poet is well aware of the fact that notoriety is the fate of love:

دلوں کے کھیل میں پانسہ پلٹ کر رہ گیا کیسے ہمیں بے نام ہونا تھا، کسی کا نام ہونا تھا

How tables have been turned in love affairs!

We had to become nobody, for someone had to become famous

The dream viewer does have a complaint too:

بھر کے آنکھوں میں سلگتے خواب اس کی یاد کے مجھ کو سوتے میں بھی حیدر جاگتا رکھا گیا

Having filled my eyes with burning dreams of hers,

I was made awaken, even in the dreams

However, he knows very well how valuable dreams are:

آنکھ کس طرح کھلے میری کہ میں جانتا ہوں آنکھ کھلتے ہی سبھی خواب اجڑ جاتے ہیں

How can I open my eyes, as I know that

All dreams get decayed when eyes are open

When we seek a new diction with the novel use of old and much repeated words, phrases and metaphors, Haider does not let us down. Here is just one example of his creativity:

کترائے وہ کبھی تو کبھی میں جھجک گیا اک بھی کنول کھلا نہ حجابوں کی جھیل میں

She tried to avoid me sometime, so I showed reluctance as well

Not a single lotus bloomed in the 'lake of modesty'

The use of simple words, avoidance of complexity and creating a unique environment are praiseworthy. Be it ghazal, nazm or mahiya, the locale is visible in most of his poetry.

He is one of the few selected Urdu poets whose poetry has been translated into Arabic. An Iraqi admirer has posted a translation of one of his poems on an Iraqi website.

Short story writing is yet another form of catharsis for Haider. He mixes the ordinary narrative style with symbolic or somewhat abstract art.

One can see a galaxy of events, personal experiences and sharp observations in his two collections. Recently an Indian writer translated his short stories into English. One hopes to see the book appearing soon.

Pen sketches are a favourite pastime, as he proves his skill in it more briskly than he does in short stories.

Meri Mohabbatein, his first anthology of pen-sketches is full of lively expressions, deep observations and bittersweet memories. He openly admits his errors and blunders wherever they peep into his writing.

Through his writing, we are able to see a true picture of the late Mirza Adeeb who once asked him to let him visit the romantic land of Cholistan and never said, 'Oh, I'm the author of Sehra Navard ke Khutoot. Don't you tell me about its magic.'

He has contributed positively to the promotion of inshaiya in Urdu. Faaslay-Qurbatein, his collection of inshaiyas is full of interesting light essays on various topics.

His careful treatment of each subject is commendable. He has also authored a book on the patron of inshaiya, Dr Wazir Agha.

Six books including a research-oriented thesis for his M.A. have been published about the works of Haider Qureshi, besides five special sections dedicated to him in esteemed literary journals. Above all, he is the greatest supporter of premier Urdu literary websites.

.................................................................

 Haider Qureshi’’s splendid collection of short stories extends the range of contemporary Urdu writing available in English translation. Qureshi is a philosophical story teller who ranges from the Ramayana to ecological fables and reflections on the experience of immigrant workers in Germany.His is a singular voice which deserves a wider audience. These stories are thoughtful and full of interest.

Dr. Derek Littlewood, Birmingham City University

...........................................

 Haider Qureshi is a Person of exceptional abilitiy and mature intellect. His erudition is praiseworthy. As a creative writer, he has impressed me with the sweep of his imagination and the depth of his emotive stance.

Dr. Wazir Agha, Lahore,Pakistan

 

CDO_Editor: Is there any particular target market you are trying to reach, and what do you want them to get out of your work?

Haider: Mysticism has always attracted me and I am of the view that it wipes out fanaticism. I am a staunch believer in ideologies and I have been a laborer all my life. I have got a well-knit clan too and all these things are manifested in my writings. But there is one thing. I don't get carried away by castes and creeds and by mythologies and dogmas. Whatever I get from the innards of my soul I present it to the world for its perusal and this is my target. I don't get swayed, at least consciously, by the sectarian dogmas, that are holding the world-peace to ransom now a days. The truth lies in my conscious creativity.

CDO_Editor: Have you ever had writer's block and how do you overcome it?

Haider: It often happens that a lengthy stretch of time passes and nothing oozes out of my pen but being a multi-pronged writer my mind soon intervenes and doesn't allow it to last longer. If the block is for poetry I would write short stories and if it is for fiction then I take to caricatures and reportage. My creativity cannot sit idle for long. But if the block is for the creativity itself I still write this or that on matters more mundane and routine and it acts as a warm up or you can call it 'Foreplay' before a final plunge! I thank God that He has given me that much literary potentiality at least!

) From an INTERVIEW By: Omavi Ndoto (USA) Editor CDO(

٭٭٭

حیدر قریشی بحیثیت محقق و نقاد

ارشد خالد

تخلیقی حوالے سے حیدر قریشی کا کام اتنا زیادہ اور اہم ہے کہ بحیثیت محقق اور نقاد ان کے کام کی طرف زیادہ دھیان نہیں جا سکا۔ اگرچہ حیدر قریشی خود بھی تنقید کو تخلیق کار کے تخلیقی عمل کا ایک جزوی حصہ سمجھتے ہیں۔ تاہم اس میں شک نہیں کہ دوسری اصناف ادب کی طرح اپنے تنقیدی و تحقیقی مضامین میں بھی حیدر قریشی نے اپنے مجموعی ادبی معیار کو قائم رکھا ہے۔ ماہیا پر ان ان کی تحقیق و تنقید اب سند کا اعتبار حاصل کر چکی ہے۔ وزیر اور ہمت رائے شرما پر ان کی کتابیں محبت میں علمی معیار اور وقار کو قائم رکھنے کا ثبوت ہیں تو ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے سرقات کی نشاندہی کرتے ہوئے وہ مناظرہ و مجادلہ کی حالت میں بھی اپنے علمی معیار و وقار کو بدستور قائم رکھتے ہیں۔ مطالعۂ کتب کے دوران ان کی تنقیدی بصیرت اور نکتہ آفرینی اپنے نتائج خود اخذ کرتی ہے۔ ہرمن ہیسے کے ناول’’سدھارتھ’‘ کے حوالے سے اردو میں جتنے بھی نامور اور نئے لکھنے والے کوئی تبصرہ یا تذکرہ کر چکے ہیں، حیدر قریشی کے مطالعاتی مضمون میں ان سے بالکل ہٹ کر نئے انداز سے بات کی گئی ہے۔ بحیثیت نقاد حیدر قریشی کا سامنا کرتے ہوئے قارئین ادب انہیں روایتی سکہ بند نقادوں سے مختلف ہی نہیں پائیں گے بلکہ ان کے اندر کا تخلیق کار اپنے موضوعات کا سنجیدگی اور ایمانداری سے مطالعہ کرتا دکھائی دے گا۔ امید ہے حیدر قریشی کی ادبی شخصیت کا یہ زاویہ اہلِ علم کے لیے دلچسپی کا باعث بنے گا۔

 

حیدر قریشی کی اب تک کی تحقیق و تنقید کی کتب

۱۔ ڈاکٹر وزیر آغا عہد ساز شخصیت ۲۔ اردو ماہیے کے بانی۔ ہمت رائے شرما

۳۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت ۴۔ حاصلِ مطالعہ

۵۔ اردو میں ماہیا نگاری

۶۔ اردو ماہیے کی تحریک

۷۔ اردو ماہیا(پیش لفظ)

 ۸۔ ماہیے کے مباحث (مضامین چھپ چکے، کتب زیر ترتیب)

۹۔ اردو ماہیا۔ ۔ تحقیق و تنقید(ماہیا کی تحقیق و تنقید کی پانچوں کتابیں ایک جلد میں۔ زیر اشاعت)

٭٭٭

’’حاصلِ مطالعہ’‘

منشا یاد (اسلام آباد)

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ’’حاصلِ مطالعہ ‘‘ حیدر قریشی کے مطالعہ میں آنے والی کتب و رسائل پر غیر روایتی تنقیدی تبصرے ہیں۔ بنیادی طور پر وہ ایک شاعر اورافسانہ نگار ہیں لیکن ہر تخلیق کار کے اندر ایک نقاد بھی چھپا ہوا ہوتا ہے۔ حیدر قریشی کے اندر بھی ایک بہت اچھا نقاد چھپا ہوا ہے۔ انہیں بجا طور پر ایک ہمہ گیر شخصیت کہہ سکتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے اندر ایک نقاد کے علاوہ افسانہ نگار، شاعر، خاکہ نگار، کالم نگار اور ایک بہت لائق مدیر بھی موجود ہیں اور چھپے ہوئے بھی نہیں ہیں، ساری دنیا ان کی معترف ہے۔ ان کا مطالعہ وسیع اور وژن بسیط ہے اس لئے انہوں نے مختلف ادبی اور علمی موضوعات پر اپنے تاثرات اور انتقادی محسوسات کو بروئے کار لاتے ہوئے بھرپور اظہار خیال کیا ہے۔

 اس طرح ’’حاصلِ مطالعہ’‘ شعر و ادب کی تنقید، علمی و ادبی معاملات پر مکالمہ اور مختلف کتب ورسائل پر تبصروں کا ایک گلدستہ سابن گئی ہے۔ سپیشلائزیشن کے اس دور میں کسی ایک شخص میں اتنی بہت سی خوبیاں اور صلاحیتیں جمع ہو جانا غیر معمولی بات ہے۔ اور پھر انہوں نے ہر صنفِ ادب سے پورا پورا انصاف کیا ہے۔ انہوں نے بہت اچھے اوریادگارافسانے لکھے، خوب صورت شاعری کی اور ماہیے کی صنف سے رغبت تو ان کا اختصاص ہے۔ ماہیے کی تحقیق اور تنقید پر ان کی پانچ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

حیدر قریشی انٹرنیٹ میگزین ’’جدید ادب’‘ شائع کرتے ہیں  (www.jadeedadab.com )جو کتابی صورت میں بھی شائع ہوتا ہے اور انٹر نیٹ اور ادب کی دنیا میں بے حد وقیع رسالہ سمجھاجاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا شمار انٹرنیٹ کے ماہر ین میں ہوتا ہے۔ اور اس میں قطعاً کوئی مبالغہ نہیں کہ اپنے میگزین کی طرح وہ خود بھی اب ایک بین الاقوامی شخصیت ادبی بن چکے ہیں۔ ’’ حاصلِ مطالعہ’‘ دوسوچھپن صفحات پر مشتمل ایک بھرپور کتاب ہے اوراسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی نے نہایت اعلیٰ کتابت و طباعت کے ساتھ شائع کیا ہے۔

٭٭٭

حیدر قریشی:نقد و نظر

معید رشیدی (دہلی)

’’میں بنیادی طور پر تخلیق کار ہوں۔ تنقید کو ہمارے ہاں سکہ بند نقادوں کا فریضہ بنا کر نقاد کو ادب میں کسی مذہبی پیشوا سے ملتی جلتی حیثیت دے دی گئی ہے۔ ’‘ …حیدر قریشی

’تقریظی تنقید‘ میں ہمہ جہت شخصیت کے الفاظ اتنے عام ہیں کے ان سے اعتبار اٹھ چکا ہے۔ یہاں ہر ایرا غیرا ہمہ جہت بن جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جس کی شخصیت کا کوئی ایک جزو بھی مستحکم نہیں، اسے بھی یہاں ہمہ جہتی کی سند بہ آسانی دے دی جاتی ہے۔ بعض حضرات کثیر الجہات کہلانے کے شوق میں مختلف اصناف میں طبیعت آزمانا شروع کرتے ہیں اور جب طبیعت ساتھ دینے سے انکار کر دیتی ہے تو، ہاتھ مارنا، شروع کر دیتے ہیں۔ اس عمل میں جذبے کے بجائے عقل کا بہترین استعمال ہوتا ہے۔ اپنی کوششوں سے وہ ہمہ جہت کہلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن ایسی ہمہ جہتی کس کام کی جس پر فقط ماتم ہی کیا جا سکتا ہو، کہ کاش!ان حضرات کو یہ توفیق ملتی کہ وہ اپنی شخصیت کے کسی ایک پہلو پر زور دیتے۔ اس صنف پر زور آزماتے جس میں ان کے فن کا جوہر کھلتا ہو۔ اپنی ذات کے نہاں خانوں میں اترتے اور دیکھتے کہ زندگی کیا ہے اور اس کے اسرار کیا ہیں۔ سستی شہرت، سطحی ذہنیت اور معمولی/اشتہاری تحریروں سے ادب میں کسی کا مقام نہیں بنتا۔ آج جب میں حیدر قریشی کی ادبی خدمات پر نظر ڈالتا ہوں تو ان کی ہمہ جہتی کا قائل ہونا پڑتا ہے لیکن انھیں ہمہ جہت لکھتے ہوئے تھوڑا توقف ہوتا ہے کہ قارئین کو کیسے یقین دلایا جائے کہ یہ لفظ یہاں اپنے حقیقی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ میں نے کبھی ’تقریظی تنقید‘ نہیں لکھی اور نہ آئندہ لکھنے کا ارادہ ہے اور نہ ہی مجھے ہمہ جہتی کی سند بانٹنے کا شوق ہے۔ میں تو فقط حقیقت کو پانے کی کوشش اور اس کا اعتراف کرتا ہوں تاکہ میرے قارئین کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچے۔

حیدر قریشی نے شاعری کی اور متعدد مجموعے لے آئے۔ یہ مجموعے یوں ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں اچھی شاعری کے نمونے ہیں۔ اچھے اور منفرد شاعر کی حیثیت سے ان کا اعتراف کیا جا چکا ہے۔ آج بھی ان کا یہ شعر میری زبان پر رہتا ہے:

تمہارے دل کی بنجر سر زمیں سیراب کرنے کو

ہماری خشک آنکھوں ہی کو آخر جھیل ہونا ہے

 انھوں نے اردو میں ماہیے کے حوالے سے جو کچھ کیا، اس سے اردو دنیا واقف ہے۔ ان کے افسانے اور خاکے بھی مشہور ہو چکے ہیں۔ وہ مضامین اور تبصرے بھی لکھتے رہے ہیں، جن کا مجموعہ ’حاصلِ مطالعہ‘ کے نام سے چھپ کر بازار میں دستیاب ہے۔ انھوں نے متعدد شعری و نثری اصناف میں طبع آزمائی کی اور بہت لکھا لیکن اس کثرت کے باوجود ایک خاص سطح سے نیچے نہیں اترے۔ یہی ان کی بڑی کامیابی ہے۔ فی الحال مجھے ان کے مضامین پر گفتگو کرنی ہے جو ’حاصلِ مطالعہ‘ میں شامل ہیں۔ ان کی تحریروں کے مختلف ابعاد میں تنقیدی عناصر موجود ہیں، جو ان کی تحریروں کو اہم بناتے ہیں۔ ان کی شکایت بجا ہے کہ ہمارے ہاں تنقید کوتوالی/پیشوائی بن گئی ہے۔ ادبی تنقید میں قبیلہ پروری، جانب داری اور بے ایمانی کی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں۔ تنقید جب تقریظ/تنقیص بن جائے تو فن پارے کی شرح یا تعینِ قدر میں انصاف نہیں ہو سکتا۔ تنقید خوشہ چینی کا نام نہیں ہے۔ حیدر قریشی نے تخلیق کار کی حیثیت سے دوسروں کی تخلیقات کو پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ معائب اور محاسن دونوں پر نظر ڈالی ہے۔ معاصر تنقیدی رویوں /رجحانات کے افہام و تفہیم میں ان کا ذاتی شعور انھیں کمک پہنچاتا ہے۔ ادب کے قاری اور تخلیق کار کی حیثیت سے انھیں حق ہے کہ معاصر میلانات یا نظریات پر اپنی بے لاگ رائے کا اظہار کریں۔ ایسا کرنے پر انھیں کوئی نہیں روک سکتا، کیوں کہ جمہوری معاشرے میں فکری اظہاریے پر قدغن لگانا اہلِ علم کا شیوہ نہیں ہے۔ ان کے خیالات سے اتفاق کرنا یا نہ کرنا قارئین کا مسئلہ ہے۔ انھیں ذاتی رنگ دینا یا بغض و عناد کی عینک سے دیکھنا زیادتی پر مبنی ہے۔ علمی اختلاف ہی سے گرہیں کھلتی ہیں۔ ایسے اختلافات کا استقبال کرنا چاہیے۔ رد و قبول ہی کے ذریعہ کوئی بھی ادب آگے بڑھتا ہے۔ آنے والا وقت خود طے کر دے گا کہ کون سا ادبی رویہ باقی رہے گا اور کس رویے کو ختم ہو جانا ہے۔ ’مابعد جدیدیت اور عالمی صورتِ حال‘ پر جو مکالمہ ان کی کتاب میں شامل ہے، وہ نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ بحث کے لیے نئے در بھی وا کرتا ہے۔ بحث کا آغاز ’جدید ادب‘ کے اداریے سے ہواجس کی تعریف میں وزیر آغا نے لکھا جب کہ ناصر عباس نیر نے اختلاف کیا۔ دونوں تحریروں کی روشنی میں حیدر قریشی نے مضمون لکھا جس میں واضح طور پر تھیوری کے حوالے سے اپنے موقف کا اظہار کیا اوراس نتیجے پر پہنچے:

 ’’مابعد جدیدیت کے مثبت ادبی ثمرات کو ضرور سامنے لانا چاہیے، ویسے ہی جیسے ترقی پسندتحریک کے مثبت ثمرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا، تاہم جیسے اس تحریک کے پسِ پشت سیاسی قوتوں کو مطعون کیا گیا تھا ویسے ہی اس ڈسپلن کے پسِ پشت مخصوص مقاصد کے تحت کام کرنے والے امریکی ذرائع کے وجود یا عدم وجود پر بات کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔ اگر واقعی ایسا کچھ ہے تواسے سامنے آنا چاہیے، اگر ایسا کچھ نہیں ہے تو غلط فہمی دور ہونی چاہیے۔ اس لیے اس موضوع پر کھل کر گفتگو ہونی چاہیے۔ اس پر ناراض نہیں ہونا چاہیے’‘۔ (حاصلِ مطالعہ-ص:۲۳۰)

حیدر قریشی نے جو اداریہ لکھا اس کی تعریف وزیر آغا نے ان الفاظ میں کی…’’آپ کا اداریہ خصوصی طور پر قابلِ تعریف ہے۔ اس میں آپ نے ایک ایسا نکتہ اٹھایا ہے جس کے حوالے سے مجھے اپنے مضامین میں بہت کچھ لکھنے کی سعادت حاصل رہی ہے’‘۔ (حاصلِ مطالعہ-ص:۲۲۵)

 

ترقی پسند ادبی تحریک اردو کی سب سے منضبط اور بڑی تحریک تھی۔ اس کی بنیاد مذہبیت، علاقائیت اور لسانی عصبیت پر نہیں تھی۔ اردو کے غیر مسلم ادبا بھی اسی دھارے میں شریک تھے۔ اس تحریک کے زیرِ اثر رومان اور انقلاب کے امتزاج سے نیا فکری رویہ سامنے آیا۔ ’اٹھ مری جان مرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے‘ اور ’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘ جیسے مصرعے یا مجازؔ کا یہ شعر:

ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تواس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ چوما چاٹی یا سطحی رومانس کی شاعری اب نہیں چلے گی۔ اس تحریک نے زندگی کی سفاک حقیقتوں کا بہت قریب سے نظارہ کیا جس سے یہ ادراک حاصل ہوا کہ محبت کے سوا زمانے میں اور بھی دکھ ہیں جن سے پردہ پوشی نہیں کی جا سکتی۔ زمانہ جب انقلابات سے دوچار ہوتا ہے تو ادب پر بھی ان تغیرات کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اردو ادب نے نئے میلانات کو قبول کر کے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیا۔ ترقی پسند تحریک کی خدمات سے انکار حماقت ہی نہیں، ادبی بد دیانتی بھی ہے لیکن اس امر سے بھی انکار ممکن نہیں کہ کسی بھی تحریک/رجحان میں شدت پسندی کے عناصر غالب ہونے لگتے ہیں تو مخصوص قسم کی بازاریت/سطحیت در آتی ہے اور تخلیق ہو یا تنقید اشتہار کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ حیدر قریشی نے بہت صحیح لکھا ہے:

’’ترقی پسند تحریک نے لکھنے والوں میں ایک نئی روح پھونک دی، اردو ادب کو جتنے اعلیٰ پایے کے تخلیق کار ترقی پسند تحریک کے ذریعے نصیب ہوئے بعد میں کسی اور تحریک کے ذریعے اتنی تعداد میں نہیں مل سکے۔ اس میں شک نہیں کہ اس تحریک کے ذریعے مقصد کو ادب پر نہ صرف فوقیت دی جانے لگی بلکہ ادب کو محض آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا جانے لگا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اتنے بڑے فورم کی طرف سے بے شمار ٹریش بھی ادب کے نام پر پیش کیا جانے لگا۔ تاہم ترقی پسند تحریک نے ادب کے دھارے کا رخ تبدیل کر کے ایک انقلابی کارنامہ انجام دیا۔ بیسویں صدی کے ادب پر سب سے گہرے نقش ترقی پسند تحریک کے ہیں ـ’‘۔ (حاصلِ مطالعہ-ص:۱۴ )

 

یہ اقتباس ان کی کتاب کے پہلے مضمون ’یہ ایک صدی کا قصہ ہے‘سے ماخوذ ہے جس میں انھوں نے بیسویں صدی کے ادبی تغیرات پر اچٹتی سی نگاہ ڈالی ہے لیکن چار صفحے کے اس مختصر مضمون میں انھوں نے اہم ادبی/تاریخی حقائق کو نشان زد کیا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے بعد جدیدیت عصری مظہر کی صورت میں جلوہ گر ہوئی لیکن بعض معاملات اور رویوں میں کلیسے کے قانون جیسی صورت کی جھلک بھی نظر آئی۔ علامتی پیچیدگی اور تجریدی الجھاؤ کے شعوری اطلاق سے تحریر گنجلک ہوئی اور یقیناً قارئین کا دائرہ بھی مخصوص ہو گیا۔ لسانی شکستگی اور تجرید ہی کو جدیدیت سے مختص کر کے دیکھا گیا۔ اس عمل میں بھی وہی شدت پسندی کارفرما ہے جو آخر کلیسائی اصولوں کا درجہ پا لیتی ہے۔ جدیدیت نے انسان کے باطن /داخل میں اتر کر اس کی شناخت کی اور ان عناصر کو اہمیت دی جو داخلی بحران کو نمایاں کرتے ہیں۔ جدیدیت کے متوازن میلان نے یقیناً فکر کا دائرہ وسیع کیا اور نئے زاویے عطا کیے۔ حیدر قریشی نے اسی توازن کو نیک فال قرار دیا ہے:

’’معتدل اور متوازن جدیدیت ادب کے لیے نیک فال تھی لیکن پھر یہاں جدید علامتی پیرایے کی جگہ گہرے تجریدی بادل چھا گئے۔ ادب کی تخلیقی سحر انگیزی کی جگہ الفاظ کا مداری پن نمایاں ہوا۔ قاری ادب سے ہی بیزار ہونے لگا۔ خدا خدا کر کے یہ دور گذرا، اور اب بیسویں صدی کا آخری کنارہ ہے۔ اس دور کو مابعد جدیدیت کہہ لیں، چاہے جدیدیت کی توسیع کہہ لیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ادیبوں کی نئی نسل لفظ و معنی سے ہم رشتہ ہونے ہی میں اپنی ادبی بقا سمجھتی ہے اور اس میں ادب کی بقا بھی ہے’‘۔ (حاصلِ مطالعہ-ص:۱۵)

اپنی کتاب کے پہلے ہی مضمون میں حیدر قریشی نے یہ بنیادی سوال اٹھا یا ہے کہ اکیسویں صدی میں صرف اردو ادب ہی کا نہیں، دنیا بھر میں ادب کا مستقبل کیا ہو گا؟آج دنیا عالمی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ جدید ترین ایجادات نے اذہان کو چونکا کر رکھ دیا ہے۔ مادیت غالب آتی جا رہی ہے۔ معاشرے میں ہر شے کا رشتہ بازار کے بھاؤ سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اقدار کی پامالی اور رشتوں کے بحران میں ادب کی معنویت پر سوالیہ نشان قائم ہوا ہے۔ حیدر قریشی نے نہایت اہم مسئلے کی طرف توجہ مرکوز کی ہے لیکن اسی سوال پر انھوں نے مضمون ختم کر دیا ہے۔ اس امید پر کہ اہلِ ادب اس سوال پر سنجیدگی سے غور کریں گے۔ اگر وہ اس مسئلے کو پھیلاتے تو یقیناً نئے ابعاد پر نظر جاتی اور مختلف مسائل طشت از بام ہوتے۔ انھیں اچھی طرح علم ہے کہ وہ جن اہلِ ادب سے اس موضوع پر غور و فکر کرنے کا تقاضا کر رہے ہیں، شاید ہی ان میں سے کوئی سنجیدگی سے ایسے موضوعات پر قلم اٹھائے۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ گروہ بندی/دشنام طرازی اور ایک دوسرے کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش میں توانائی اور صلاحیتیں ضائع کی جا رہی ہیں۔ اس دوڑ میں سبقت حاصل کرنا اصل مقصد بنا ہوا ہے۔

اردو زبان و ادب کے مسائل پر حیدر قریشی کی نگاہ گہری ہے۔ ان کا خیال بالکل درست ہے کہ جب تک اردو لکھنے، بولنے اور سمجھنے والے موجود ہیں اردو ایک زبان کی حیثیت سے موجود رہے گی۔ اردو اپنے آغاز سے لے کر کئی ادوار سے گذری۔ اس دوران نہ صرف اس کی ساخت میں تبدیلی آئی بلکہ اسے مختلف ناموں سے بھی پکارا گیا…ہندوی/ہندی/ریختہ/لشکری/دکنی/ہندوستانی/اردو وغیرہ۔ لسانی تشکیل کے مراحل میں ۱۸۰۰ء کے بعد رسمِ خط کے مسئلے نے بھی سر اٹھایا۔ فورٹ ولیم کالج کے احاطے میں اسی زبان کو جسے ہم اردو کہتے ہیں محض رسمِ خط کی تبدیلی سے ایک نئی زبان ’کھڑی بولی ہندی‘ کی شکل دی گئی۔ اس موضوع پر مرزا خلیل احمد بیگ نے اپنی کتاب ’ایک بھاشا…جو مسترد کر دی گئی‘ میں سیر حاصل بحث کی ہے اور اس امر کا مدلل جواب دیا ہے کہ فورٹ ولیم کالج سے قبل دیوناگری والی کھڑی بولی ہندی (ایک الگ زبان کی حیثیت سے) کا وجود نہیں تھا۔ پھر کالج میں اس نئی زبان کا شعبہ کیسے قائم ہوتا اور اس میں کن متون کی تدریس ہوتی؟ حقیقت یہ ہے کہ ۱۸۰۱ء میں کالج کے ہندی طالب علموں کے لیے اردو شاعر عبداللہ مسکینؔ کا ایک مرثیہ دیو ناگری رسمِ خط میں شائع کیا گیا جو درس و تدریس کی بنیاد بنا۔ دیگر کئی اردو کتابیں بھی اسی مقصد کے تحت دیوناگری میں منتقل کی گئیں۔ کالج کا احاطہ لسانی تقسیم کی پہلی منزل تھا جب کہ تقسیمِ ہند نے ہندوستانی/اردو کو زبردست نقصان پہنچایا۔ اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھ لیا گیا اور ’ہندی، ہندو، ہندوستان‘ کا نعرہ بلند کیا گیا۔ حیدر قریشی کے بقول اردو کو یہ سزاقیامِ پاکستان کے جرم میں دی گئی اور پاکستان میں بھی اسے اس کا حق نہیں مل سکا۔ وہاں اشرافیہ کی زبان انگریزی ہی رہی۔ پھر رسمِ خط کی تبدیلی کی تجاویز پیش کی گئیں۔ کسی نے دیوناگری رسمِ خط کی حمایت کی اور کسی نے رومن کے حق میں رائے دی لیکن اس وقت سے لے کر آج تک اردو والوں کا بڑا طبقہ اسی بات پر قائم ہے جس کی طرف حیدر قریشی نے اشارہ کیا ہے:

’’اردو کی پہچان اس کے اصل رسم الخط ہی میں ہے کہ اس کے ساتھ اس کا پورا ثقافتی پس منظر جڑا ہوا ہے۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کی طرح زبانوں کو بھی عروج و زوال سے گذرنا پڑتا ہے’‘۔ (حاصلِ مطالعہ-ص:۲۰)

زبانوں کا بننا یا ختم ہو جانا تاریخی تسلسل پر مبنی ہے۔ قدیم اردو کی مثال ہمارے سامنے ہے لیکن کیا معلوم کہ آنے والے زمانے میں اس کی فطری شکل کیا ہو گی۔ زبان کے ساتھ ادب کا مسئلہ بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ مشاعرے پہلے تہذیبی ادارے ہوا کرتے تھے لیکن اب محض تفریح کا سامان بن چکے ہیں۔ یہاں حیدر قریشی کے اس جملے سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ یہ رویہ خود ادیبوں کی ادب سے بے رغبتی کو ظاہر کرتا ہے۔ زبان و ادب کی موجودہ صورتِ حال پر انھوں نے چار اہم مضامین سپردِ قلم کیے جن کے عنوان یہ ہیں …’یہ ایک صدی کا قصہ ہے‘، ’اردو زبان اور ادب کے چند مسائل‘، تیسرے ہزاریے کے آغاز پر اردو کا منظر‘، ’یوروپی ممالک میں اردو شعر و ادب-ایک جائزہ‘۔ ان تمام مضامین میں انھوں نے ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، مغربی ممالک، عرب ممالک اور ان سے ہٹ کر باقی ممالک اور جزائر میں اردو کے حالات پر نظر ڈالنے کی کوشش کی ہے اور وہاں کی لسانی/ادبی صورتِ حال کے احتساب کی سعی کی ہے۔ مغربی ممالک میں اردو زبان و ادب کی جو پوزیشن ہے اس سے وہ نہایت اچھی طرح باخبر ہیں۔ گاہے گاہے وہاں کے جعلی ادبا کا پردہ بھی انھوں نے فاش کیا ہے کہ انھیں قیمتاً لکھ کر دینے والے ہندوستان/پاکستان میں موجود ہیں۔ بعض اہم ادبا جو وہاں جا کر بس گئے ہیں ان کی شناخت ادب کے مرکزی دھارے سے ہے۔ وہ وہاں کے پروردہ نہیں ہیں۔ مغرب کے اردو ادیبوں کا اہم موضوع ہجرت یا جنس ہے لیکن ان موضوعات کو نبھا نے میں انھیں زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ بہ قول حیدر قریشی:

’’یہاں کے افسانہ نگاروں کا ایک اہم موضوع ہجرت یا ترکِ وطن ہے۔ اس موضوع پر بہت کہانیاں لکھی گئی ہیں۔ لیکن ہجرت کے موضوع پر ۱۹۴۷ء کے بعدپاکستان اور ہندوستان میں جس پایے کی کہانیاں لکھی جا چکی ہیں، مغرب کے ہمارے اردوافسانہ نگاراس سطح کو مس بھی نہیں کرسکے۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ۱۹۴۷ء کی ہجرت نے دلوں میں گہرے گھاؤ پیدا کیے تھے …سب دکھی تھے۔ جبکہ مغرب میں آبسنے والے وطن سے زیادہ آرام کی دنیا میں آتے ہیں۔ یہاں کا کھلا ماحول انھیں شاید ان کیفیات سے آشنا ہونے ہی نہیں دیتا جو تخلیقی کرب کا لازمہ ہے۔ مغربی چکا چوند میں جنس نگاری کی طرف رغبت فطری بات ہے لیکن اس میں بھی خرابی یہ ہوئی کہ منٹو، عصمت چغتائی اور ممتاز مفتی اس حوالے سے جتنا کچھ اردو کو دے گئے ہیں، اس کے بعد مغرب کے اردو افسانہ نگار جنسی لذت تو کشید کر لیتے ہیں لیکن فن کی اس سطح تک نہیں پہنچ پاتے جو ایک معیار کے طور پر پہلے سے اردو میں موجود ہے’‘۔ (حاصلِ مطالعہ-ص:۲۷)

حیدر قریشی نے انٹرنیٹ پر اردو کے فروغ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے۔ مضمون ’اردو نظم روایت سے جدیدیت تک ‘میں انھوں نے محمد حسین آزادؔ اور حالیؔ کی نئی نظم نگاری کی تحریک کا ذکر تصدق حسین خالدؔ، احمد ندیمؔ قاسمی، میرا جیؔ، ن۔ م۔ راشدؔ، فیضؔ، فرحتؔ نواز، سلیمؔاحمد، جیلانی کامرانؔ، غالبؔ احمد، اظہر جاویدؔ، مجید امجدؔ، وزیر آغا وغیرہ کو حوالہ بنایا ہے۔ ’اوراقِ گم گشتہ‘ کے عنوان سے انھوں نے ’دیوانِ ریختی عرف رنگیلی بیگم‘ مصنفہ محسنؔ خان پوری کا تحقیقی مطالعہ پیش کیا ہے جس میں تجزیاتی اسلوب کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے۔ ان کے دیگر مضامین تاثراتی/تبصراتی/تعارفی/شخصی نوعیت کے ہیں۔ غزل اور نظم کی انفرادی حیثیت پر بھی انھوں نے لکھا ہے۔ ’غزل بمقابلہ نظم‘ میں انھوں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ غزل کا نظم سے نہ کوئی مقابلہ ہے اور نہ مخاصمت۔ غز ل پر بے جا اعتراضات مناسب نہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ غزل کے نام پر جگالی کرنے والے شعرا سے لے کر مجروں جیسی مشاعرہ بازی (کرتب بازی)کرنے والوں تک کی سرکوبی کی جانی چاہیے۔ اپنی کتاب میں انھوں نے کئی معاصر ناولوں کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ مثلاً نا دید (جوگندر پال)، پار پرے(جوگندر پال)، کئی چاند تھے سرِ آسماں (شمس الرحمن فاروقی)، ایک دن بیت گیا(صلاح الدین پرویز)، مورتی(ترنم ریاض)، سفر جاری ہے(ثریا شہاب)۔ تین اہم شخصیات وزیر آغا، ہمت رائے شرما اور جوگندر پال سے انھیں دلی قرابت رہی ہے۔ ہمت رائے شرما اور جوگندر پال کے فکر و فن پر انھوں نے متعدد مضامین لکھے اور کئی جہات سے ان کا مطالعہ کیا۔ شخصی تحریروں میں ان کا خلوص صاف جھلکتا ہے۔

آخر میں پھر کہوں گا کہ حیدر قریشی کی شخصیت ہمہ جہت ہے۔ انھوں نے اپنی تنقید کے لیے کسی طرح کا دعویٰ نہیں کیا۔ وہ خود کو تخلیق کار کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور تخلیق ہی ان کا اصل میدان ہے۔ فن کار بھی اسی ماحول کا پروردہ ہوتا ہے جس میں وہ سانسیں لیتا ہے۔ اس کے سامنے بھی مسائل سر اٹھائے کھڑے رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں حیدر قریشی نے بھی معاصر صورتِ حال اور اپنے معاصرین کی تحریروں کو اپنی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے جس کا اعتراف انھوں نے اپنی کتاب کے ’ابتدائیہ‘ ہی میں کیا ہے۔

٭٭٭

 

 سب سے پہلے، حیدر بھائی مجھے’ کتاب نما ‘ کے ایک شمارے میں ملے تھے۔ یہ کئی برس پہلے کی بات ہے۔ اس ایک کتاب نما میں انہوں نے سال بھر کے کتاب نماؤں کا تفصیلی جائزہ اس سنجیدگی سے لیا تھا کہ میں چونک گیا۔ جب اس جائزے کا میں نے بغور جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اتنی محنت تو ادیبوں نے اپنی تخلیقات میں بھی نہ کی ہو گی جتنی موصوف نے تمام تر جزئیات کے ساتھ ان کا جائزہ لینے میں فرما دی تھی۔ مضمون پڑھ کر میرے منھ سے وہی جملہ نکلا جو کسی زمانے میں ملک راج آنند کی تقریرسن کر اسرارالحق مجاز کی زبان سے نکلا تھا۔ یعنی یہ کہ کوئی بڑا ہی قابل آدمی معلوم ہوتا ہے۔ پھر جب دھیرے دھیرے ان کی ادبی تخلیقات یہاں وہاں پڑھیں تو ان کے اور جوہر کھلتے گئے۔ اور حال ہی میں ان کی کلّیات کا مطالعہ شروع کیا تو خود اپنا جہل بھی کھل کر سامنے آ گیا کہ ایک شخص اتنے خلوص، وارفتگی، سنجیدگی، ایمانداری، محنت اور جانکاہی سے ادب تخلیق کرتا رہا، اور کاغذ کی زمین سے لے کر انٹرنیٹ کے آسمان تک ہر طرف دھومیں مچاتا رہا اور تمہیں اب تک خبر نہ ہوئی۔ یقین کیجئے ادب کے معاملے میں اپنی نا معلومات پراس وقت اتنی شرم آئی کہ دیر تک یوں محسوس ہوتا رہا جیسے میں کوئی عام قاری نہیں بلکہ کسی یونیورسٹی کا لیکچرر ہوں۔ پروفیسر اس لئے محسوس نہیں کیا کہ وہ پھر بھی تھوڑے پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ (نصرت ظہیر کے مضمون ’’حیدر بھائی پر ایک ادھورا مضمون’‘ سے اقتباس۔ مطبوعہ ’’تادیب’‘ بریڈ فورڈ، انگلینڈجولائی تا ستمبر ۲۰۰۶ء)

٭٭٭

وزیر آغا۔ ۔ ۔ عہد ساز شخصیت

صفدر رضا صفی (سرگودھا)

شخصیات کے عہد ساز ہونے یا نہ ہونے کا قطعی فیصلہ یقیناً وقت ہی کے ہاتھوں میں ہے لیکن ہر گزرتا ہوا لمحہ اپنے تئیں شخصیات سے متعلق کچھ مواد تاریخ کے سپرد کرتا رہتا ہے تاکہ آنے والے وقت کو فیصلہ کرنے میں دقت اور دشواری محسوس نہ ہو۔ اس گزرتے ہوئے لمحے کے فطری نظام کار میں بعض اوقات ارد گرد سے اڑائی جانے والی غیر مصدقہ افواہیں اور عدم واقفیت پر مبنی بیانات عارضی تعطل پیدا کر دیتے ہیں۔ لیکن اس زمانے کے فہیم اور زیرک اہلِ نظر فوراً تاریخ کے قدرتی بہاؤ میں پیدا ہونے والے اس غیر ضروری اور گمراہ کن بھنور کا ادراک کر لیتے ہیں اور اپنا فریضہ ادا کرتے ہوئے تاریخ دانوں اور دوسرے اہل علم تک اصل حقائق پہنچاتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ہر سطح پر بالعموم اور ادبی منظر نامے پر بالخصوص کم و بیش یہی صورت حال رہی ہے۔ ہر دور کسی ادیب یا شاعر کی تکذیب اور تعریف کے دوراہے پر کھڑا نظر آتا ہے۔ عہدِ حاضر میں ڈاکٹر وزیر آغا کو اسی صورت حال کا سامنا ہے۔ ان کی موافقت اور مخالفت میں جتنا کچھ لکھا جا چکا ہے وہ اس بات کو تو یقینی بناتا ہے کہ ان کی شخصیت نظر انداز ہر گز نہیں کی جا سکتی لیکن پھر بھی مخالفین کی طرف سے اڑائی جانے والی گرد کو صاف کرنے اور حقیقتِ حال کو اجاگر کرنے کے لئے دستاویزی ثبوت پیش کرنا ضروری ہو جاتے ہیں۔

 حیدر قریشی صاحب کی تازہ کتاب ’’وزیر آغا۔ عہد ساز شخصیت’‘ بھی ایک ایسے ہی دستاویزی ثبوت کی حیثیت رکھتی ہے، جسے نہ صرف آنے والا وقت ایک حوالے کے طور پر استعمال کرے گا بلکہ نسلِ نَو بھی بعض شخصیات کے علمی و ادبی قد کو متعین کرتے ہوئے اس کتاب سے مدد لے گی۔ حیدر قریشی صاحب نے کتاب کے عنوان کو بیان ہر گز نہیں بننے دیا۔ بلکہ اپنے عالمانہ مضامین سے یہ اثبات مہیا کیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے ادبی کام کے تناظر میں انہیں عہد ساز شخصیت قرار دینا بالکل درست ہے۔

قریشی صاحب نے وزیر آغا کی خود نوشت سوانح’’شام کی منڈیر سے’‘ سے لے کر ان کی نظموں کے تجزیاتی مطالعات، شعری کلیات، تنقید اور آغا صاحب کی غزلوں کا مطالعہ کرتے ہوئے جس اعلیٰ قرات کا ثبوت دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کتاب کا سب سے اہم مضمون ’’اردو انشائیہ اور اس کے بانی کی انشائیہ نگاری’‘ ہے۔ اس لئے کہ اس مضمون میں حیدر قریشی صاحب نے اردو انشائیہ کو اس صنف کے رائج کرنے والی اوّلین شخصیت کی ذاتی تخلیقات کی روشنی میں دیکھا ہے۔ اور یہ زاویۂ نگاہ یقیناً لائقِ تحسین ہے۔ کیونکہ آغا صاحب نے بذات خود جس سطح پر انشائیہ کے مزاج کو مس کیا ہے اسے منظر عام پر لایا جانا چاہئے تھا، تاکہ نئے انشائیہ نگار یا قارئین انشائیہ اس صنف کے محاسن کا صحیح ادراک کر سکیں۔

’’وزیر آغا۔ عہد سازشخصیت’‘ پڑھنے کے بعد قاری۔ ۔ ۔ حیدر قریشی صاحب سے ایک نیا تعارف حاصل کرتا ہے اور قریشی صاحب کا یہ تعارف ایک منجھے ہوئے اور متوازن ادبی نقاد کا تعارف ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ قریشی صاحب دیگر ادباء کے مطالعات سے بھی قارئین کو نوازیں گے۔

٭٭٭

حاصلِ مطالعہ

ڈاکٹر شفیق انجم (اسلام آباد)

چند روز قبل ڈاکٹر رشید امجد صاحب کی وساطت سے آپ کی کتابیں :’حاصلِ مطالعہ‘ اور ’ادھر ادھر سے‘ موصول ہوئیں۔ بہت بہت شکریہ۔ دونوں کتابیں مجھے بہت پسند آئیں اور جستہ جستہ دیکھنے پر بھی بار بار ایسا ہوا کہ مندرجات نے مجھے کھینچ لیا۔ تفصیلی مطالعے کے بعد زیادہ بہتر انداز میں کچھ کہنے کے قابل ہوں گالیکن فوری طور پر یہ کہنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ آپ کا مطالعہ وسیع اور تجزیہ بے لاگ ہے۔ آپ کی با خبری اور گہری بصیرت ان کتابوں سے واضح طور پر نمایاں ہے۔ سیاسی و سماجی حالات ہوں یا ادبی مکاشفات۔ ۔ ۔ آپ نے بڑی عمدگی سے صورتحال کو دیکھا دکھایا ہے۔ دونوں کتابوں میں ایک اور خوبی اسلوب اور اظہار و بیان کا فرق بھی ہے۔ صحافتی تجزیوں اور تبصروں اور ادبی تنقید و تفہیم میں آپ نے جو تفریق روا رکھی ہے، عموماً اس طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ آپ نے ہر دو کے لیے علیٰحدہ لحن کے انتخاب کے ساتھ ایک متوازن معیار کی پیش کش بھی ملحوظ رکھی ہے۔

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے۔ آمین۔ کتابیں عنایت فرمانے پر ایک بار پھر شکریہ قبول فرمائیے۔

٭٭٭

اردو کے سب سے بڑے سرقے کو بے نقاب کرنے والی کتاب ’ڈاکٹر نارنگ اور مابعد جدیدیت‘

شاہد الاسلام

نیوز ایڈیٹر، ’ہندوستان ایکسپریس‘(دہلی)

معروف شاعر اور ادیب حیدر قریشی کی تازہ ترین کتاب ’’ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور مابعد جدیدیت’‘ پیش نظر ہے۔ قبل اسکے کہ اس کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کروں، اس بات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب کیوں اور کن حالات میں مجھے دستیاب ہوئی!

 قصہ یہ ہے کہ آج سے تقریباً ایک سال قبل ممبٔی سے نکلنے والے سہ ماہی ادبی رسالہ ’’اثبات’‘ (شمارہ۳) پر ناگاہ میری نظر پڑ گئی۔ رسالہ اتنا دیدہ زیب اور پر کشش تھا کہ ادب سے لا تعلق رہنے والے مجھ جیسے صحافی نے بھی اس کی ورق گردانی شروع کر دی۔ اندر کے صفحات کی ترتیب و تنظیم بھی خاصی متاثر کن معلوم ہوئی۔ ابھی رسالے کی ظاہری خوبیوں کے سحر سے نکل بھی نہیں پایا تھا کہ اس میں شامل ایک سرخی پر نگاہ ٹک گئی۔ سرخی کچھ اس طرح تھی: ’’ جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۲ کی کہانی (ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کی مہربانی در مہربانی)’‘۔ حیدر قریشی کے تحریر کردہ اس مضمون کو میں نے پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا ہی چلا گیا۔ میں مضمون نگار کے نام سے مانوس تو تھا، تاہم ان سے متعلق میری معلومات نہیں کے برابر تھیں۔ چنانچہ مضمون پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ موصوف جرمنی میں مقیم ہیں اور وہاں سے ’’جدید ادب’‘ نام کا ایک رسالہ بھی نکالتے ہیں۔ اس مضمون میں انھوں نے جو کچھ تحریر کیا تھا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ’’جدید ادب’‘ کے شمارہ ۹، ۱۰ اور ۱۱ میں عمران شاہد بھنڈر کے جو مضامین ڈاکٹر نارنگ کی کتاب ’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘ سے متعلق شائع ہوئے تھے اور جن میں دلائل اور شواہد کے ساتھ یہ ثابت کیا گیا تھا کہ ڈاکٹر نارنگ بہت بڑے پیمانے پر سرقہ کے مرتکب ہوئے ہیں، اس کے نتیجے میں نارنگ صاحب نے رسالہ ’جدید ادب‘( جو دہلی کے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس کے زیر اہتمام شائع ہوتا ہے) کے شمارہ ۱۲ کی اشاعت میں رخنہ ڈالنے کی غرض سے پبلشر پر ہر طرح کا دباؤ ڈالا اور اپنے ذاتی اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس شمارے پر اپنی سنسر شپ عائد کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ اس معاملے کی پوری روداد لکھنے کے بعد صاحب مضمون نے کھلے ڈلے الفاظ میں یہ بھی تحریر کیا تھا کہ ’’ میں حکومت ہند سے درخواست کرتا ہوں کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک علمی کمیٹی بٹھائی جائے جو تحقیق کرے کہ نارنگ صاحب نے واقعی یہ شرمناک سرقے کیے ہیں یا ان پر بے جا الزام ہیں۔ اگر وہ پاک صاف ثابت ہوں۔ ۔ ۔ ۔ تومیں انڈیا کے قانون کے مطابق بخوشی ہر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں ’‘

یہ تفصیل پڑھ کر حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوا کہ اردو کا ادبی ماحول اتنا پست ہو گیا کہ ایک نامی گرامی صاحب قلم اپنے اوپر لگے سرقہ کے الزام کی تردید علمی سطح پر کرنے کے بجائے سرقہ کی بات سامنے لانے والوں کا ناطقہ بند کرنا چاہتا ہے۔ اس حیرت اور افسوس کی ملی جلی کیفیت میں، میں نے اس مضمون کو ’’ ہندوستان ایکسپریس’‘ کے ویب ایڈیشن میں شامل کر لیا۔ خیال تھا کہ علمی حلقوں سے اس متنازعہ مضمون پر جو رائے بھی آئے گی اسے صحافتی دیانتداری کے تحت نذر قارئین کر دیا جائے گا، ۔ ۔ ۔ مگر یہ کیا؟۔ نارنگ صاحب کی حمایت پر کمر بستہ ٹیم حرکت میں آ گئی اور’ ہندوستان ایکسپریس‘ کے ایڈیٹر احمد جاوید کو اس بات کے لیے آمادہ کر لیا گیا کہ اس مضمون کو ویب سائٹ سے ہٹا دیا جائے۔ چنانچہ ایڈیٹر موصوف نے اس’ کار خیر‘ کو انجام دینے کے لئے مجھے ہدایت جاری کر دی۔ گو کہ حفظِ مراتب کا تقاضہ تھا کہ ’فرمانِ مدیر‘ کو ’فرمانِ خدا ‘ سمجھ کر سرتسلیم خم کر دیا جائے لیکن میں نے بھی اپنے ذاتی استحقاق کو بطور ڈھال استعمال کیا اور جواباً یہ عرض کیا کہ آپ کا حکم اپنی جگہ، تاہم کسی مضمون کو میں ناجائز دباؤ کے تحت نہیں ہٹا سکتا۔ ۔ ۔ ۔ ویب ایڈیشن کے جملہ امور مجھ سے متعلق ہیں اور چونکہ آپ یا ادارہ کے دیگر افراد کی (ہندوستان ایکسپریس) ویب سائٹ کے حوالے سے کوئی عملی شراکت نہیں ہے، لہذا ویب سائٹ میں کیا چیزیں دینی ہیں اور کیا نہیں، اس تعلق سے کسی بھی مشورے کی مجھے ضرورت نہیں۔ ہاں ! یہ یقین دہانی میں نے ایڈیٹر کو ضرور کرائی کہ اس مضمون کی تردید میں اگرکسی گوشے سے کچھ موصول ہوا تو اسے بھی انٹر نیٹ ایڈیشن میں اسی اہتمام سے شامل کیا جائے گا جس طرح حیدر قریشی کی تحریر شائع کی گئی ہے۔ اس طرح نارنگ صاحب کے حامیوں کا غیر اخلاقی حربہ ناکام ہوا اور مدیر محترم خاموش ہو گئے۔

 نارنگ صاحب کے حامیوں کی طرف سے اس غیر متوقع دباؤ نے تھوڑی دیر کے لیے مجھے ذہنی خلجان میں ضرور مبتلا کیا تاہم اس کا یہ فائدہ ہوا کہ اس کے بعد حیدر قریشی کے مضمون کی حقانیت مجھ پر پوری طرح واضح ہو گئی اور ’ہندوستان ایکسپریس‘ کے ویب ایڈیشن میں اس کی اشاعت پر مجھے ایک طرح کی طمانیت کا احساس ہوا۔ اس دوران حیدر قریشی کو ’ہندوستان ایکسپریس‘ کے ویب ایڈیشن میں اپنے مضمون کی اشاعت کا علم ہوا تو ’شکریہ‘ پر مبنی ان کی ایک ای۔ میل ملی جس میں دیگر باتوں کے علاوہ اس خدشے کا اظہار بھی تھا کہ عجب نہیں آپ پر یہ دباؤ ڈالا جائے کہ ویب سائٹ سے اس مضمون کو ہٹا دیں، میں نے فوراً جواب دیا کہ خاطر جمع رکھیں، وہ مرحلہ آ کر گزر چکا ہے، آپ کی تحریر ویب سائٹ پر موجود رہے گی، انشا اللّٰہ۔ اس طرح برقی مراسلت کے ذریعہ حیدر قریشی صاحب سے جو رابطہ قائم ہوا تو اس کے نتیجے میں اسی سلسلے کی ان کی ایک اور تحریر ’’پرویزی حیلوں کی روداد’‘ ہندوستان ایکسپریس کے ویب ایڈیشن میں شائع ہوئی اور یہ اطلاع بھی ملی کہ نارنگ صاحب کے سرقوں کی بابت مدیر موصوف کی ایک کتاب عنقریب منظر عام پر آنے والی ہے جس کی ایک کاپی مجھے ارسال کی جائے گی اور مزید ایک کاپی ’ہندوستان ایکسپریس‘ کے پرنٹر و پبلشر پرویز صہیب احمد صاحب کے لیے بھیجی جائے گی کیونکہ اس میں بطور خاص ’ہندوستان ایکسپریس‘ کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر وہ کتاب ( بعنوان ڈاکٹر گوپی چند نارنگ اور ما بعد جدیدیت) مجھے بذریعہ ڈاک موصول ہو گئی۔ اس کے مشمولات پر ایک نظر ڈالی تو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اس کا نام مابعد جدیدیت سے کیوں جوڑا گیا جبکہ اس کا اصل اور واحد موضوع ڈاکٹر نارنگ کا ’سرقہ ‘ہے۔ ممکن ہے اس میں کوئی مصلحت دخیل رہی ہو۔ وہ جو کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ پھونک پھونک کر پیتا ہے، تو اس کی روشنی میں ایک گمان یہ گزرتا ہے کہ شاید اس ڈرسے یہ نام رکھا گیا ہو کہ ’سرقہ‘ کے عنوان سے چھپنے والی یہ کتاب کہیں نارنگ صاحب کے عتاب کا شکار نہ ہو جائے، اسلئے ایسا نام رکھا جائے کہ کتاب طباعت کے مراحل سے بعافیت گزر کر قارئین تک پہنچ جائے۔ بہرحال ’نام میں کیا رکھا ہے ‘ سوچ کر میں نے اس کے سارے مضامین پڑھ ڈالے، اور اندازہ ہوا کہ حیدر قریشی اس کتاب کے مصنف بھی ہیں اور مؤلف بھی، کیونکہ نارنگ صاحب کے سرقوں سے متعلق تحریر کردہ اپنے مضامین کے علاوہ اس موضوع پر سامنے آنے والے اور کئی مضامین بھی انھوں نے اس کتاب میں شامل کیے ہیں۔

 اس کتاب میں شامل تمام تحریروں کو پڑھنے کے بعد ’سرقہ‘ سے متعلق سارا قضیہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے کہ پھر کسی شک و شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ ڈاکٹر نارنگ کی کتاب ’ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات‘ سرقوں کا مجموعہ ہے۔ حیدر قریشی کی زیر نظر کتاب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لیے ڈاکٹر نارنگ کے حامیوں نے جو بے تکی باتیں سپرد قلم کیں، یا انتہائی بھونڈے انداز میں خود نارنگ صاحب نے جو دوسرے غیر علمی حربے استعمال کیے ان سے سرقوں کے الزام کی تردید تو خیر کیا ہوتی، ہاں اتنا ضرور ہوا کہ ان ساری چیزوں نے اس معاملے کو اور ہوا دی، یہاں تک کہ مجھ جیسے ادب سے بے تعلق شخص کو بھی اس کی پوری واقفیت ہو گئی ؎ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی، اور اس پر مستزاد نارنگ صاحب کی مسلسل خاموشی نے سرقے کی تحقیق کرنے اور اسے اردو عوام کے سامنے لانے والوں کا کام آسان کر دیا۔

 زیر تبصرہ کتاب سے ہمیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ نارنگ صاحب کے حامیوں نے کج بحثی سے کام لیتے ہوئے اس پورے قضیے کو نارنگ اور فاروقی کے مابین تنازعہ کا نام دینا چاہا تو کبھی یہ کہہ کر سرقوں کی حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ حیدر قریشی فلاں فلاں بات کی بنیاد پر نارنگ صاحب کے تئیں اپنے دل میں پرخاش رکھتے ہیں اور یہ سارا معاملہ اسی کدورت کی دین ہے وغیرہ وغیرہ۔ جب یہ سارے حربے غیر مؤثر ثابت ہوئے تو پھر اسے مذہبی تعصب کا نام دے کر یہ کہا گیا کہ ڈاکٹر نارنگ جیسے غیر مسلم ادیب کو کچھ متعصب قسم کے مسلمان خواہ مخواہ ہدف ملامت بنا رہے ہیں۔ لیکن ایک تجربہ کار مدیر اور زمانہ شناس ادیب حیدر قریشی نے معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس سارے قضیے کو کچھ اس خوش اسلوبی سے Manage کیا کہ سرقوں کا اصل معاملہ نظروں سے اوجھل نہ ہوسکا۔

 بلا شبہ سرقوں کی حقیقت کو سامنے لانے کی غرض سے عمران شاہد بھنڈر نے مغربی مفکرین کی متعلقہ کتابوں کو کھنگالنے میں جو عرق ریزی کی اور جو کلیدی رول ادا کیا اس کے لیے وہ ہمیشہ یاد کیے جائیں گے، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ ایک اردو کے طالب علم کے سامنے جب جب نارنگ صاحب کا نام آئے گا تو اس کے ساتھ اسے عمران شاہد بھنڈر کی یاد بھی ضرور آئے گی، تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ بھنڈرؔ کی یہ ساری کاوشیں اس مؤثر اور مدلل انداز میں شاید سامنے نہ آ پاتیں اگر انھیں حیدر قریشی جیسا تجربہ کار اور دھن کا پکا ادیب اور مدیر نہ ملتا۔ ڈاکٹر نارنگ کے حامیوں نے اپنی بساط بھر پوری کوشش اس بات کی کر لی کہ ادھر اُدھر کی باتوں میں الجھا کر اصل موضوع کو گول کر دیا جائے، لیکن حیدر قریشی نے پوری فہم و فراست سے کام لیا، اور ان الجھاووں سے بچتے بچاتے پوری حکمت اور تدبر کے ساتھ اپنی گاڑی آگے بڑھاتے رہے، یہاں تک کہ سرقہ بے نقاب ہو کر رہا اور ایک عام قاری سے لے کر اردو کے خاص الخاص ادیب کو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی تامل نہیں رہا کہ ’’عمران شاہد بھنڈر کے نشان زد کیے بے شمار صفحات۔ ۔ ۔ صاف بتاتے ہیں کہ پروفیسر نارنگ نے سو فیصد لفظی ترجمہ کر کے ’سرقہ‘ کیا ہے’‘ ( زبیر رضوی، سہ ماہی ’اثبات‘، شمارہ۵۔ ۴)۔

 

 نارنگ صاحب کے وہ مداح جو ان کی اس ’’شاہکار تصنیف’‘ کو حالیؔ کے’ مقدمہ شعرو شاعری‘ کے بعد اردو تنقید کا سب سے بڑا ’کارنامہ‘ کہہ رہے تھے ان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں ہو گی کہ اس ’شاہکار تصنیف‘ کو محض چند برسوں کے اندر عمران شاہد جیسا ایک نسبتاً غیر معروف لیکن ذہین اور محنتی محقق ایک جی دار مدیر کے تعاون سے( نارنگ صاحب کے ’مقام‘ و ’ مرتبہ‘ سے مرعوب ہوئے بغیر) سرقوں کا پلندا ثابت کر کے رکھ دے گا۔

 یہ کتاب ہمیں یہ بھی باور کراتی ہے کہ اس پورے دو ڈھائی سال کے عرصے میں جبکہ سرقہ والی بات موضوع سخن بنی ہوئی تھی، ڈاکٹر نارنگ کے حامیوں نے حیدر قریشی کو زیر کرنے کے لیے ہر حربے استعمال کیے، سر زمین ہند و پاک سے لے کر کناڈا، امریکہ اور انگلینڈ ہر طرف سے ان پر تابڑ توڑ حملے ہوئے لیکن انھوں نے اپنی جانب سے پوری بردباری کا ثبوت دیا، اپنے خلاف لکھی گئی بے سروپا باتوں کو پڑھ کر مشتعل نہیں ہوئے بلکہ ان باتوں کا مدلل جواب دھیرج کے ساتھ مختصر طور پر دیتے رہے، یہ سمجھتے ہوئے کہ اگر ان بے ہودہ باتوں کو طول دیا گیا تو سرقہ والی بات پس پشت چلی جائے گی۔ اپنے قلم کو غیر ضروری طور پر جذ باتی ہونے سے بچائے رکھا، نارنگ صاحب کا ذکر جب بھی کیا انکے مرتبے کا خیال رکھا۔ ہاں، جب نارنگ صاحب نے ’جدید ادب‘ کے شمارہ ۱۲ کی اشاعت میں انتہائی بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رخنہ اندازی کی تو اس کی روداد تحریر کرتے ہوئے حیدر صاحب کا قلم مضمون کے اخیر میں قدرے جذباتی ہو گیا۔ اسی طرح انگلینڈ کے طباطبائی نام کے کسی شخص نے جب ان کے خلاف اوٹ پٹانگ باتیں لکھیں تو اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی حیدر صاحب اپنی تحریر میں برہم نظر آتے ہیں، یہاں تک کہ اس شخص کا نام لینا بھی گوارا نہیں کرتے، لیکن یہ خفگی یا برہمی عین فطری ہے۔ جب کسی سے ناحق اذیت پہنچتی ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی تحریر میں کچھ نہ کچھ درشتی آ ہی جاتی ہے۔

 مختصر یہ کہ حیدر قریشی کی زیر تبصرہ کتاب نہ صرف یہ کہ ’مشرقی شعریات‘ کے حوالے سے نارنگ صاحب کے سرقوں کی قلعی کھول رہی ہے بلکہ لسانیات کے میدان میں بھی پروفیسر موصوف نے اب تک جو کام کیے ہیں ان کی اصلیت کو بھی مشکوک بتاتے ہوئے یہ اعلان کر رہی ہے کہ ’’ لسانیات پر نارنگ صاحب کا سارا کام بھی’ مشرقی شعریات‘ جیسا ہی نکل آیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب وہ سرقے بے نقاب ہوں گے تو اردو دنیا خود دیکھ لے گی’‘۔ یقین ہے کہ اردو ادب کے اب تک کے سب سے بڑے سرقہ کو سامنے لانے والی اس کتاب کا علمی حلقے میں بڑے پیمانے پر خیر مقدم ہو گا اور اس کا ذکر اس زبان کی ادبی تاریخ میں پورے اہتمام سے کیا جائے گا، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے مندرجات کی روشنی میں ڈاکٹر نارنگ کا مقام و مرتبہ نظر ثانی کا محتاج ہو گیا ہے۔

٭٭٭

حیدر قریشی کے نام

ایوب خاور (لاہور)

(نوٹ:حیدر قریشی کے شعری و نثری تخلیقی کام پر مشتمل گیارہ کتابوں کے مجموعہ’’ عمرِ لاحاصل کا حاصل’‘ کی اشاعت کے بعد ماہیا پر تحقیق و تنقید کی پانچ کتابوں کا مجموعہ ’’اردو ماہیا تحقیق و تنقید’‘ بھی منظرِ عام پر آ گیا ہے۔ دونوں کتابیں علمی و ادبی حلقوں میں زیرِ مطالعہ ہیں اور ان کے حوالے سے تدریجاً ردِ عمل بھی موصول ہو رہا ہے۔ ایوب خاور، نعیم الرحمن اور افضل چوہان کے تین نئے مضامین اسی حوالے سے ملے ہیں جو قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔ ارشد خالد)

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

   یہ 1981-82ء کی بات ہے جب میں کراچی سے لاہور ٹرانسفر ہوا۔ لاہور پیروں اور ولیوں کا شہر تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ ادیبوں اور شاعروں اور فن کاروں کا شہر بھی ہے۔ بڑے سے بڑے ادیب، شاعر، پینٹر، صحافی، پروفیسر، نقاد، موسیقار، مجسمہ ساز، گیت کار، گلوکار، فلم ساز، ہدایت کار، اداکار، سیکڑوں نام ہیں جن کی خوشبو لاہور کے گلی کوچوں میں آج بھی مہک رہی ہے۔ جب میں لاہور آیا تو میں بہت مسحورتھا، ٹی ہاؤس، گورنمنٹ کالج، اورئنٹل کالج، نیشنل کالج آف دی آرٹس، پنجاب یونی ورسٹی، لاہور ٹیلی وژن سینٹریہ وہ جگہیں تھیں جہاں ایسی ہی نابغہ ہائے روزگار شخصیات سے ملاقات کے نتیجے میں مجھے ایک ادبی ماہ نامے کا خیال آیا اور اپنے جنرل منیجر کو بصری ادبی جریدے کا آئیڈیا پیش کر دیا۔

  اس ادبی ماہ نامے میں مختلف فنون کے تخلیق کار تو ہوتے ہی تھے لیکن وہ نوجوان تخلیق کار جو اُس وقت اپنے سینئرز کی توجہ کا مرکز بن رہے تھے، اُنھیں بھی میں اس پروگرام کے ذریعے میں ٹیلی وژن دیکھنے والوں سے متعارف کروا رہا تھا۔ چناں چہ کئی نوجوان شعرا کے ساتھ ساتھ حیدر قریشی سے میری ملاقات اس ادبی ماہ نامے ہی کے پلیٹ فارم پر ہوئی۔ حیدر قریشی سے میرا تعارف دراصل محترم و مکرم ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کے موقر جریدے ’’اوراق’‘  کے صفحات میں چھپنے والی اس کی غزلوں اور نظموں نے کروایا تھا اور میں نے اُسے خان پور سے بلا لیا… حیدر قریشی کی شخصیت نے میرا دل موہ لیا۔ سو ٹیلی وژن پر ایک نئے شاعر اور ایک نئے پروڈیوسر ڈائریکٹر کا یہ عارضی رشتہ پر خلوص دوستی میں ایسے ڈھلا کے جیسے جیسے وقت گزرتا گیا یہ اور گہرا ہوتا چلا گیا۔ حیدر قریشی کا ’جدید اَدب‘ اِسی دہائی کی زندہ نشانی ہے جسے حیدر نے خان پور کی آب و ہَوا میں جیسے تیسے زندہ رکھا اور پھر وہ کب جرمنی چلا گیا مجھے معلوم نہ ہو پایا۔

 ابھی ایک سال پہلے حیدر کے ٹیلی فون نے مجھے چونکا دیا۔ آواز میں وہی تازگی، پہچان، دوستانہ اور تعلقِ خاطر… حیدر نے اپنا نام لیا تو میں ششدر رہ گیا۔ اور ہمارے بیچ میں سے ستائیس اٹھائیس سال چپکے سے سرک کر ایک طرف کوہو گئے۔ میں سمجھا کہ حیدر خان پور ہی سے بول رہا ہے اور جدید اَدب کے لیے کسی تازہ نظم کی فرمائش کرنے والا ہے… مگر وہ تو جرمنی سے فون کر رہا تھا مجھے… وہی ستائیس اٹھائیس سال جو ہمارے بیچ میں سے روئی کے گالے کی طرح اُڑ کر ایک طرف کو ہو گئے تھے، چند منٹ میں 13انچ موٹے شیشے کی دیوار کی طرح دھڑام سے ہمارے درمیان دوبارہ کھڑے ہو گئے، فاصلے کا احساس بھی کتنا خوف ناک ہوتا ہے۔

    حیدر اور اس کا ’جدید اَدب‘ ذہن سے محو تو ہرگز نہ ہوا تھا لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ پاکستان ٹیلی وژن کا ایک مصروف ترین اور مقبول ترین پروڈیوسر ڈائریکٹر بننے کے لیے جس طرح میں نے زندگی کے شب و روز کو اتھل پتھل کیا۔ اُس اتھل پتھل کے گرد و غبار نے شیشے کی اُس دیوار کو جس کے آر پار ہم بہت آسانی سے ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے۔ اتنا میلا ضرور کر دیا تھا کہ حیدر کے ساتھ ساتھ  اسکول، کالج، یونی ورسٹی کے کچھ اوردوست بھی تھے جن کے چہرے دھندلے ہو گئے تھے۔ زندگی ہے ہی کچھ ایسی کمینی چیز کہ انسان کو  اپنے گھیرے میں یوں جکڑ لیتی ہے کہ سانس کا ردھم بھی بعض اوقات ٹوٹنے لگتا ہے اور اب تو زندگی خود ایک ناگہانی کے گھیرے میں ہے۔ بہت ڈر گئی ہے، سہم گئی ہے۔ خودکش حملہ آوروں، دہشت گردوں، ڈاکوؤں اور لٹیروں کے محاصرے میں اس ڈری ہوئی زندگی کو اوڑھے ہوئے لوگوں کے کانوں میں اگر کوئی شناسا آواز پڑ جائے تو غنیمت ہے۔ لیکن حیدر کی آواز غنیمت نہیں بیش قیمت تھی۔ وہی خان پوریہ سا لہجہ… وہی خلوص، وہی شعر و ادب کا چسکا، وہی ’جدید ادب‘۔

 ’جدید اَدب‘ جو خان پورسے ایک چھوٹے سے چھاپہ خانے کی سیاہی سے روشن ہوتا تھا اب انٹرنیشنل ہو چکا ہے… جن بڑی شخصیات سے بات کرنے کا ہم خواب دیکھتے تھے وہ ادبی شخصیات اس جدید اَدب میں اپنی تخلیقات کے ساتھ جلوہ انداز ہوتے ہیں۔ حیدر کا رابطہ دنیا بھر کے اردو دان طبقے سے استوار ہے اور وہ خود نہ صرف یہ کہ غزل گو اور نظم گو ہے بلکہ افسانہ نگار ہے، انشائیہ نگار ہے۔ گمبھیر ادبی معاملات پر ایک ثقہ قسم کے نقاد کی طرح اس کی گہری نظر ہے، یادداشتیں، سوانحی خاکے، اپنی زندگی، اپنے پورے خاندان کے افراد کے ساتھ اپنے میل جول اور رشتوں کی تفسیرات، سفرنامے، حج بیت اللہ کی روداد، اپنے ذاتی روز و شب، اپنے قریب ترین شے یعنی بیوی بچوں کے بارے میں اپنے قاری کو اتنا کچھ اتنی آسانی سے بتا چکا ہے جیسے کھانے کی میز پر بیٹھے اپنے ذاتی دوستوں کو اپنے گھر کے در و دیوار میں لگی ایک ایک اینٹ کے بارے میں بتا رہا ہو۔ اس کی سینتیس سالہ ادبی زندگی گیارہ مختلف النوع  تخلیقی کتابوں میں سجی ہوئی ہے۔ اُس نے بہت اہتمام سے زندگی کو، زندگی کے معاملات کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو، رشتے ناتوں کو، کہانی، شعر، نظم اور تنقید کو آپ بیتی اور جگ بیتی کو ہمارے ادبی منظر نامے کا حصہ بنایا ہے۔

  قریباً ایک سال پہلے حیدر قریشی سے میرا رابطہ بحال ہوا۔ تب سے میری حیرانیوں کو سانس لینے کا موقع نہیں ملا۔ ایک تو اُس نے مجھے چھپنے چھپانے کے معاملے میں بہت Activeکر دیا ہے…  Activeتومیں پہلے بھی تھا لیکن اپنے آپ میں گم، ڈراما، میوزک، ادب، سب کو نئے رخ سے دیکھنے کی لگن اور دو نمبر منافقینِ ادب سے کوسوں دور اپنی کٹیا تک محدود رہنا میرا شیوہ تھا۔ اس شخص نے میرے دل و جان میں بجلی بھر دی۔ یہ شخص جب تک دو نمبر کو دو نمبر ثابت نہ کر دے چین کا سانس نہیں لیتا، یقین نہ آئے تو اپنے وقت کی معروف ترین شخصیت نارنگ صاحب سے پوچھیے۔ دوسری طرف ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ حیدر نے تب تک اپنے حلق سے نوالہ نہیں اتارا جب تک کسی جینوین ادیب یا شاعر کو اس کے حصّے کی داد نہ پہنچا دی۔ اور ان کاموں کو اس نے اپنا بہت سارا وقت دیا ہے۔ سوچتا ہوں اگر حیدر جرمنی نہ گیا ہوتا تو اتنے ڈھیر سارے کام کیسے کر لیتا… اس کی تحریریں پڑھتے ہوئے بار بار میرے اندر یہ سوال اٹھا کہ میں حیدر کو ادب کے کس خانے میں فِٹ کروں مگر شاعری میں، افسانہ نگاری میں، خاکہ نگاری، انشائیہ، تنقید، سبھی خانوں میں یہ فٹ ہے اور قابلِ تحسین ہے۔ تحقیق کے میدان کو بھی نہ چھوڑا اور اپنی سرزمین کی مٹی سے، اس کی آب و ہوا سے، اُس کے روز و شب سے، اس کی گرمیوں، سردیوں، کھیتوں کھلیانوں کی خوشبو سے صورت پذیر ہونے والی ایک شعری صنف ’ماہیا’‘  کی ہیئت، اس کے اوزان اور اس کے موضوعات کے حوالے سے ہندوستان اور پاکستان ہی کے نہیں یورپ و امریکا تک کے ادبی حلقوں کو بھی سرگرم کر دیا۔ اب حیدر قریشی کا نام ’’ماہیا’‘  لکھنے اور پڑھنے والوں میں اتنا ہی مقبول ہے جتنا خود حیدر قریشی۔ بلکہ جدید ادب کے ہر شمارے کے ٹائٹل پیج پر اس کا کوئی ’ماہیا‘ ضرور درج ہوتا ہے۔

  حیدر کی کلیات ’’عمرِ لاحاصل کا حاصل ‘‘ کو پڑھتے ہوئے مجھ پر کھلا کہ میری زندگی کا ابتدائی زمانہ اور حیدر قریشی کی زندگی کا ابتدائی زمانہ کس حد تک ایک دوسرے سے مشابہ ہے۔ حیدر نے مختلف جگہوں پر اپنی زندگی کے ابتدائی دور کی تفصیل بیان کی ہے۔ میں نے بھی بارہا اپنے انٹرویوز میں بلکہ اپنی پہلی کتاب گلِ موسمِ خزاں کے Prefaceمیں بھی لکھا ہے کہ میں پرائمری اسکول میں پڑھتے وقت ہر اتوار کو چکوال شہر میں مزدوری کیا کرتا تھا۔ میں نے اپنے ٹیچرز کے بچوں کو پڑھا کر اپنے اسکول کی فیس ادا کی ہے۔ میٹرک کے بعد میں نے بھی پرائمری اسکول میں مبلغ ساٹھ روپے ماہانہ تنخواہ کی بنیاد پر ملازمت کی ہے۔ حیدر کی ابتدائی زندگی بھی مزدوری کرنے میں گزری، فرق یہ کہ حیدر ایک فیکٹر ی میں مزدوری کیا کرتا تھا اور میں اپنے گاؤں کے پروفیشنل مزدوروں کے ساتھ اینٹ گارا ڈھویا کرتا تھا۔ ٹیچنگ اِس نے بھی کی، میں نے بھی کی۔ ابتدائی زندگی کی اس مماثلت نے بھی ہمارے درمیان دوستی کا یہ گل زار کھلائے رکھا ہے۔ اور یہ جو بہت طویل عرصے تک ہم ایک دوسرے سے نہ مل پائے تو یوں سمجھیے کہ زندگی کی تیز دھوپ سے بچنے کے لیے ہم نے اپنی اپنی دوستی کے اس گل زار کو اُن سبز چادروں سے ڈھانپ رکھا تھا جو عموماً گھریلو پودوں کو مرجھانے سے بچانے کے کام آتی ہیں اور ہم خود اپنی اپنی جگہ ایک نئی زمین کی گوڈی کرنے اور اس پر اپنی اپنی زندگی کا ایک نیا باغ تعمیر کرنے میں لگے رہے۔ اب جو اس دوستی کے گل زار پر سے وقت کی یہ سبزچادر ہٹی تو دیکھا کہ سارے کے سارے گملوں میں، سارے کے سارے پھول ویسے کے ویسے ہی تازہ ہیں۔

  حیدر قریشی کل بھی راضی بہ رضائے الٰہی تھا اور آج بھی۔ اس کے بہت سارے دوست ہیں اور یہ سب جانتے ہیں کہ حیدر نے کچھ عرصہ پہلے ایک خواب دیکھا تھا کہ اس کی موت واقع ہونے والی ہے۔ اس نے ہماری بھابی مبارکہ کو، بچوں کو اور سبھی دوستوں کو نہ صرف بتایا بلکہ اس خواب کے مطابق اپنی زندگی کے بہت سے معاملات کو عملی طور پر سمیٹنا بھی شروع کر دیا۔ اس عمل میں حیدر کی طرف سے خواب پرستی کا اشارہ کہیں نہیں ہے۔ حیدر کی یادداشتوں کا تازہ Chapterثابت کرتا ہے کہ زندگی کی بے ثباتی اور موت کے برحق ہونے پر حیدر کا یقینِ کامل کس درجے کا ہے۔ اس کی زندگی مسلسل محنت سے عبارت ہے اور اس خوف سے عاری ہے کہ نہ جانے کل کیا ہو گا۔ اسی درویشانہ سوچ کی برکت ہے کہ اس بے ثبات زندگی میں قدرت نے اس کو آلائشوں سے پاک اور بنیادی آسایشوں والی زندگی میں علم و اَدب کی خدمت اور دوستوں سے محبت کرنے کا موقع دے رکھا ہے۔ اللہ اِسے خوش رکھے۔

میں اس کی ساری کتابیں تفصیل سے تو ابھی نہیں پڑھ سکا لیکن سب کتابوں کو دیکھا ضرور ہے…مثلاً اس کی جو کہانیاں میں اب تک پڑھ سکاہوں اُن میں ’’میں انتظار کرتا ہوں ‘‘ ایک ایسی علامتی کہانی ہے جس میں ایک فردِ واحد کے ساتھ انسانی معاشرے کے عمومی رویّے کو انسانی تاریخ کے Perspectiveمیں دیکھا گیا ہے۔

ماں باپ کی آپس کی Relationshipاور بچے۔ اس مجموعی تعلق کو ایک ایسی تکون میں دیکھا گیا ہے جس کے تینوں زاویے وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ اپنی شکلیں بدلتے رہتے ہیں جیسے تینوں لائینیں نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے سے جڑی ہیں بلکہ ایک دوسرے کا پرتو بھی ہیں۔

’’کاکروچ’‘  حیدر کی ان کہانیوں میں سے ہے جو کہانی کے لیے نئے کرداروں کی تخلیق کی ایک ممکنہ جستجو ہے، اس کہانی کو پڑھ کر پتا چلا کہ اگر ایٹمی طاقتیں اس بیچاری دنیا کی انسانی آبادی کو قیامت سے پہلے ہی ختم کر دیں، کوئی انسان باقی نہ بچے تو مکھی کا ایک جوڑا یا کاکروچ کا جوڑا اس کرۂ ارض پر ایک نئی دنیا آباد کرے گا اگر ایسا ہوا تو قیامت کے دن کاکروچ… حیدر کی کہانی کے آخر میں دو جملے پڑھ کر مزید یہ بھی کہنے کو جی چاہ رہا ہے کہ اگر کسی ابتدائی زمانے میں انسان چوپایا ہوسکتا ہے تو کاکروچ اپنے ترقی یافتہ زمانے میں دو پایہ کیوں نہیں ہوسکتا۔ ’’انکل انیس’‘  اور ’’بابا جمال شاہ کا جلال ‘‘ بھی اپنی سادگی اور معنی خیزی کے حوالے سے بہت اچھی کہانیاں ہیں۔

 حیدر نے بے شمار دوستوں اور رشتے داروں اور ادیبوں کے خاکے لکھے ہیں لیکن جن دو خاکوں نے مجھے صحیح معنوں میں اسیر کر لیا وہ’’ برگد کا پیٹر’‘  اور ’’مائے نی میں کہنوں آکھاں ‘‘ دوایسے خاکے ہیں جن کا کوئی نہ کوئی پہلو ہر انسان کی زندگی میں موجود ہے۔

حیدر کے شعری مجموعوں میں جو نظمیں مجھے پسند آئیں اُن میں ’’درد’‘ ، ’’پھاگن کی سفاک ہوا’‘ ، ’’ ایبٹ آباد’‘ ، ’’منی پلانٹ’‘ ، ’’ایک  دراوڑکا پیغام آریانوں کے نام ‘‘ ، ’’تیامت ‘‘ ، ’’چلو اک نظم لکھتے ہیں ‘‘ اور بہت سے ’ماہیے‘ …نظمیں ساری کی ساری تو یہاں درج کرنا ممکن نہیں۔ حیدر کی غزلوں کے کچھ اشعار آپ سے ضرور شیئر کروں گا۔

روشنی  روشنی  سی  ہر سُو  ہے

یہ ترا دھیان ہے کہ خود تُو ہے

خود اپنے ہونٹوں پہ صدیوں کی پیاس رکھتا ہے

وہ  ایک  شخص جو  مجھ  کو  اداس رکھتا ہے

دلوں کا خون کرنے لگ گئے ہو

 بڑے سفاک ہوتے جا رہے ہو

اُس نے آنا ہی نہیں تھا اس محلے کی طرف

   ہم سجاتے ہی رہے بے سُود گھر کے راستے

ابرِ رحمت اب کے حیدر، بن گیا جیسے عذاب

کر دیے برسات نے مسدود گھر کے راستے

وہ  بھی   اپنے   آئینے   میں  دیکھتا   ہو گا   مجھے

جس  کو  اپنے  آئینے  میں  دیکھتا  رہتا  ہوں میں

دل کے دروازے پہ دستک دے کے چھپ جاتا ہے وہ

اور   اپنے  سامنے   حیدر  کھڑا  رہتا  ہوں  میں

ہوا  شہکار  جب  اس کا مکمل

وہ  اپنے خون میں ڈوبا ہوا تھا

شبِ تنہائی میں اک شخص دل پہ

 اُجالے  کی طرح پھیلا ہوا تھا

میرے،  اُس کے  درمیاں جو فاصلہ رکھا گیا

اس کے طے کرنے کو  بھی اک راستہ رکھا گیا

بھر کے آنکھوں میں سلگتے خواب اس کی یاد کے

مجھ  کو  سوتے  میں بھی  حیدر جاگتا رکھا گیا

وہ موم ہے اگر تو اُسے دھوپ سے بچا

    پتھر ہے اس کا دل تو اُسے پاش پاش کر

اُس میں مل جائے گا جا کر میرے اندر کا خلا

اور  بڑھ  جائے  گا  باہر کا خلا میرے بعد

کعبۂ دل  کو کہاں  چھوڑ چلے ہو حیدر

 تم تو کہتے تھے یہ ہجرت نہیں ہوئے والی

اے خدا ڈر ہے مجھے طے ہی نہ ہو جائے کہیں

 منزلِ  عشق  کو  دوچار قدم  رہنے دے

نہیں تو صرف مرے حال سے نہیں واقف

 وہ  بے خبر  جو  جہاں بھر کے راز رکھتا ہے

جب اس نے خاک اڑانے کا ارادہ کر لیا ہے

تو  ہم  نے  دل کے  صحرا کو کشادہ کر لیا ہے

اگلی نسلوں میں چلی  جائے  روانی اپنی

   زندگی!  ختم  نہیں  ہو گی  کہانی اپنی

آج اولاد کے آئینے میں حیدر ہم نے

    تازہ  کر لی  ہے ہر اک یاد پرانی اپنی

اب کے اُس نے  کمال کر ڈالا

 اک  خوشی  سے  نڈھال کر ڈالا

اک حقیقت کے روپ میں آ کر

 مجھ  کو  خواب  و  خیال کر ڈالا

٭٭٭

’’عمر لا حاصل کا حاصل’‘ ۔۔ حیدر قریشی کی ادبی کائنات

نعیم الرحمن (کراچی)

حیدر قریشی ایک ہمہ جہت شاعر و ادیب ہیں۔ شاعری میں نظم، غزل اور اردو ماہیا  اگر حیدر قریشی کی پہچان ہیں تو نثر میں افسانہ، انشائیہ، خاکے، تنقید، سفرنامہ اور کالم نگاری ہر طرز میں انہوں نے اپنی دھاک بٹھائی ہے۔ حیدر قریشی کی شاعری روایت اور دھرتی سے جڑی ہے، ان کی غزل میں پنجابی اورسرائیکی الفاظ کا استعمال انہیں ایک منفرد انداز دیتا ہے، پھر اردو ماہیے کے فروغ کے لئے تو انہوں نے بے پناہ کاوشیں کی ہیں۔ شاعر و ادیب کے علاوہ جرمنی سے ’’جدید ادب’‘ جیسابے مثال ادبی جریدے کے ذریعے حیدر قریشی نے مدیر کے طور پر بھی نہ صرف اپنی بے پناہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے بلکہ اردو دنیا سے دور اور انتہائی کم وسائل میں پرچہ کو باقاعدگی سے شائع کر کے اردو ادب سے اپنے لگاؤ کا ثبوت بھی پیش کیا ہے۔

1971 ء میں پہلی غزل کہنے والے اور خانپور میں ’’حلقہ ارباب ذوق’‘ کے بانی حیدر قریشی کی پانچ شعری اور چھ نثری کتب کا مجموعہ ’’عمر لاحاصل کا حاصل’‘ حال ہی میں دہلی سے شائع ہوا ہے۔ اس کلیات کی اشاعت کے ساتھ حیدر قریشی نے ایک بار پھر اپنی انفرادیت کا ثبوت دیا ہے۔ شعری کلیات کی اشاعت کی روایت تو کافی پرانی ہے، گذشتہ چند دہائیوں میں نثری کلیات بھی بڑی تعداد میں سامنے آئی ہیں، جن کی ابتدا اردو کے عظیم افسانہ نگاروں سعادت حسن منٹو، پریم چند وغیرہ کے ادبی سرمایے کو یکجا کرنے سے ہوئی پھر دور حاضر کے ادیبوں کی کلیات بھی شائع ہوئیں۔ حیدر قریشی نے نظم، غزل اور ماہیے پر مشتمل اپنی چار کتابوں ’’سلگتے خواب’‘ ، ’’عمر گریزاں ‘‘ ، ’’دعائے دل’‘ ’’دردسمندر’‘  اور ماہیے کے مجموعے ’’محبت کے پھول’‘ ، افسانوی مجموعوں ’’روشنی کی بشارت’‘ ، ’’قصے کہانیاں ‘‘ شخصی خاکوں اور یادوں کی کتابوں ’’میری محبتیں ‘‘ اور ’’کھٹی مٹھی یادیں ‘‘ انشائیوں کی کتاب ’’فاصلے اور قربتیں ‘‘ اور سفرنامہ حج ’’سوئے حجاز’‘ کو ایک ہی جلد میں مجتمع کر دیا ہے اور اس طرح لاحاصل سے حاصل کرنے کا ہنر بھی حیدر قریشی ہی کے حصے میں آیا، اس مجموعے میں انہوں نے اپنی گیارہ کتابوں کے بعد کی تحریریں بھی شامل کر دی ہیں۔ یوں بڑے سائزکے 616صفحات کی اس کلیات کے ذریعے حیدر قریشی کا  اب تک کا مکمل ادبی سفرقاری کے سامنے آ گیا ہے۔

اردو ماہیے کے فروغ میں حیدر قریشی نے غیر معمولی کردار ادا کیا ہے اور ان کے اپنے ماہیوں میں مٹی کی خوشبو الگ سے پہچانی جاتی ہے۔ ان ماہیوں میں حمد، عشق رسولؐ، دھرتی سے محبت، رشتوں کی اہمیت، داستانیں، شادی بیاہ کی رسوم، ذاتی اور اجتماعی دکھ اور جرمنی میں بیتے برسوں کا بیان، کیا کچھ نہیں ہے۔ اور ان ماہیوں کے ہر لفظ میں ایک جیتا جاگتا حیدر قریشی دھڑکتامحسوس ہوتا ہے۔

حیدر قریشی کی غزل روایتی کلاسیکی غزل سے وابستہ ہے اور اس میں پنجابی اور سرائیکی لہجہ اسے ایک نیا آہنگ دیتا محسوس ہوتا ہے اور یہ غزل اردو لفظیات میں کچھ دلکش اضافے بھی کرتی نظر آتی ہے۔ ان کی غزل میں عشق حقیقی اور عشق مجازی کے دوش بدوش غم دنیا اور غم روزگار اور دیگر مسائل بھی نمایاں ہیں۔ ان کی نظموں کے موضوعات ’’ایک اداس کہانی’‘ ، ’’درد’‘ ’’ایبٹ آباد’‘ اور ’’حاصل زندگی ‘‘ اپنے عنوانات ہی سے قاری کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لیتے ہیں اور ان میں عملی زندگی کی تصویریں نظر آتی ہیں۔ حیدر قریشی کی شاعری میں قنوطیت کے بجائے امید کا دیا جگمگاتا ہے۔ ڈاکٹر کرسٹینا اوسٹرہیلڈکا کہنا ہے کہ حیدر قریشی کی شاعری میں بے ساختہ پن اور روانی ہے ایک بار پڑھنا شروع کیا تو جی چاہا پڑھتی چلی جاؤں۔ دوسرا وصف بے باکی اور وارفتگی کا ہے۔

حیدر قریشی کے افسانے انسانی جذبات، احساسات سے بھرپور ہیں اور ان میں ہمارے اردگرد کی زندگی اور جیتے جاگتے کردار بکھرے نظر آتے ہیں۔ علامت کا استعمال وہ لایعنی انداز میں نہیں کرتے بلکہ بے معنی تجرید کے بجائے علامت بے حد جاندار انداز میں سامنے آتی ہے۔ دیوندراسر کے مطابق حیدر قریشی کی کہانیوں کی دنیا ایسے کرداروں سے آباد ہے، سچائی کا المیہ جن کی قسمت بن چکا ہے۔ یہ کہانیاں کائناتی انسان، خدا، روح، ثقافت اور ثقافتی وراثت کے ازلی سوالوں کی کہانیاں ہیں۔

    کھٹی مٹھی یادیں اور میری محبتیں کے خاکے دراصل حیدر قریشی کی عمر گذشتہ کا احوال ہے۔ جس میں قریبی رشتہ داروں اور احباب کا تذکرہ انتہائی جذبے اور خلوص سے کیا گیا ہے اورکسی شخصیت کے بیان میں کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی۔ سوئے حجاز حیدر قریشی کا سفرنامہ حج ہے جس میں سات عمرے اور ایک حج کا بیان کیا گیا ہے۔ اس سفرنامے میں تصوف کا رنگ، واردات قلبی اور روحانی تجربات کا ذکر قاری کو ایک نئی دنیا میں پہنچا دیتا ہے۔

عمر لا حاصل کا حاصل ایک ایسی کتاب ہے جس کا مطالعہ ہر ادب دوست قاری کو کرنا چاہئے اور میں حیدر قریشی کی اس خواہش کے پورے ہونے کی دعا کرتا ہوں کہ انہیں پاکستان میں بھی کوئی ایماندار پبلشر مل جائے تاکہ یہ کتاب پاکستان میں بھی شائع ہوسکے۔

٭٭٭

برگد مثال حیدر قریشی

افضل چوہان (مظفر گڑھ)

(جس طرح بعض لوگ دوسروں کے بارے میں تعصب و نفرت آمیز تحریر لکھتے ہیں، اسی طرح ادبی محبت رکھنے والے اپنے محب کے بارے میں محبت آمیز تحریر لکھتے ہیں۔ افضل چوہان کا یہ مضمون حیدر قریشی کے بارے میں ان کی ادبی محبت کا اظہار ہے۔ ارشد خالد)

 یوں تو ہر درخت جڑ، تنا، پتے، چھال اور پھل وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ حیدر قریشی سے رابطہ ہونے کے بعد میں نے جب بھی برگد کے درخت کے بارے میں سوچا یا دیکھا تو مجھے حیدر قریشی کی شخصیت برگد کے ایک پیڑ کی مانند لگی۔ حیدر قریشی کی ادبی قد آوری کی بات کی جائے تو برگد کا قد اس کا پھیلاؤ اور عاجزانہ جھکاؤ ان پر صد فی صد منطبق ہوتا ہے۔ جب ان کی ادب پروری اور اپنے جونیئرز کے ساتھ پیار بھرے روئیے اور حوصلہ افزائی کی بات کی جائے تو اس کی چھاؤں حیدر قریشی کی شخصیت کا مکمل احاطہ کرتی نظر آتی ہے۔ برگد کی چھاؤں کسی بھی اور درخت کی چھاؤں سے یوں بھی منفرد و ممتاز ہے کہ اس کی چھاؤں میں کوئی چھید تک محسوس نہیں ہوتا۔ دھوپ کی حدت اس سے چھن کر بھی نیچے تک نہیں پہنچتی کہ پتے اتنے گھنے ہوتے ہیں کہ دھوپ اپنی تمازت لئے اس کی چھتر چھاؤں کے اوپر ہی خیمہ زن رہتی ہے۔ برگد کی جڑ لکڑی چھال پتے شاخیں ہی نہیں اس کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا دودھ بھی انسان کے لئے مفید ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ برگد کا ایک ایک ذرہ حیات بخش اور تسکین آفریں ہے۔ ہزار ہا بیماریوں کا شافی علاج رب تعالی نے برگد میں سمو دیا ہے حیدر قریشی نے کس کس صنف میں طبع آزمائی کی انہیں ہم استعارتی طور پر برگد کے حصوں سے جوڑ سکتے ہیں۔

بنظر غائر اگر ہم اردو ادب کے موجودہ دور کے مشاہیر پر نظر ڈالیں توہم دیکھیں گے کہ غزل گو شعرا ء نظم کے پیرائے میں اپنے اظہارِ خیال پر وہ گرفت کھو دیتے ہیں جو غزل کے اشعار میں ان کی انفرادیت اور خاصہ شمار کی جاتی ہے۔ اسی طرح نظم گو شعراء غزل کے میدان میں وہ شہسواری نہیں دکھا پا تے جو ان کا طرہ امتیاز ہوتی ہے۔ نتیجتاً وہ کسی ایک صنف تک محدود ہو جاتے ہیں۔

اگر تحقیق و تنقید کے میدان میں نظر دوڑائیں تو نقاد اور محقق صرف اسی صنف تک محدود ہو کر رہ جاتے ہیں اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ اچھے اچھے شعروں کی درگت بنا کر اور اچھے اچھے کلام کے بخیے ٔ ادھیڑ کر انہوں نے شہرت کی بلندیاں حاصل کی ہوتیں ہیں اب اگر صاحب اسلوب شاعر یا مصنف کہلانا چاہتے ہوں تو انہیں نہایت عرق ریزی سے وہ کچھ تخلیق کرنا پڑتا ہے جس پر کم سے کم قلم رکھا جا سکے اور کم سے کم تنقید کا نشانہ بنے یہی وجہ ہے کہ ایسے نقاد اور محقق آپ کو ہزاروں مل جائیں گے۔ جن کی تنقید و تحقیق پر بیسیوں کتابیں ہوں گی مگر اپنا کلام یا تخلیق ایک آدھ کتاب سے آگے نہ بڑھا ہو گا مگر ایسے لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جو خود بھی بڑے تخلیق کار ہوں اور تنقید و تحقیق میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے ہوں۔ حیدر قریشی انہی چند گنے چنے ناموں میں سے ایک ہیں جنہوں نے1971ء میں صرف اٹھارہ سال کی عمر سے جو ادب کی خدمت شروع کی تو آج تک پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ہر لحظہ ہر ساعت نئی منزلیں تراشیں اور آنے والوں کے لئے مثالیں قائم کیں۔ حیدر قریشی کو غیر تخلیقی رویوں نے ہی ہر دور میں چھلنی نہیں کیا بلکہ ادبی زکوٰۃ پر پلنے والوں غیر سنجیدہ تخلیق کاروں نے ان کی راہ میں مخالفت و دشمنی کی کی رُکاوٹیں کھڑی کر کے انہیں سفر جاری رکھنے سے حتیٰ الامکان روکنے کی کوشش کی۔ مگر حیدر قریشی تو برگد تھا۔ جسے ہر حال میں بڑھتے رہنا تھا۔ اور اپنا قد اونچا کر کے ہزاروں آنے والوں کے لئے چھاؤں مہیا کرنا تھی، لہٰذا مخالفین کی کوششیں یکسر رائیگاں ہوتی گئیں اور خلوص نیتی کی ایک بار پھر جیت ہو گئی۔ حیدر قریشی نے اپنا سفر جاری رکھا کسی مخالف کی پرواہ کئے بغیر بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ دشمنوں کی دشمنی اور دوستوں کی دوستی کی پرواہ کیئے بغیر محوِ سفر رہے۔ دشمن تو مخالفت برائے مخالفت میں راہیں مسدودکرتے ہیں جبکہ دوست بے جا تعریف سے تخفیفِ سفر کا باعث بنتے ہیں۔ حیدر قریشی ہر دو سے بچتے ہوئے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہے اور آج اس مقام پر ہیں کہ انہیں رات کا چاند اور دن کا سورج کہا جا سکتا ہے۔ روشنی، نیکی اور محبت ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ اور تا قیامت موجود رہیں گے۔ ان کی مخالفت میں ایک زمانہ سازباز کر لے مگر ان کے ادبی کام کو مٹا دینا کبھی کسی کے بس میں نہیں رہا۔ روشنی کو اندھیرا کچھ وقت کے لئے اوجھل ضرور کرسکتا ہے مگر تا دیر اس کی راہ روکنا کبھی تیرگی کے بس میں نہیں رہا، یہی وجہ ہے کہ تیرگی کے لئے سمندر کو روشنی کی ایک کمزور کرن بھی پاٹ سکتی ہے۔ برائی نیکی کے سامنے ہر طور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور محبت نفرت کے مقابلے میں ناکام و نا مراد ہو ایسا نہ آج تک ہوا ہے اور نہ قیامت تک ہو گا، ان کی طاقت ہمیشہ مسَُلّم رہی ہے۔ یہ تینوں چیزیں ہمیشہ حیدر قریشی کے دائیں بائیں رہی ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ حیدر قریشی کی ہر مخالف طاقت، ہر دشمنی کو زیر کرنے میں روشنی، نیکی، اور محبت ہی ہتھیار ثابت ہوئے ہیں۔ اور یہ تینوں ہتھیار جسے رب تعالیٰ کی طرف سے ودیعت ہوئے ہوں۔ اس سا خوش نصیب تو پھر شاید ہی کوئی زمانے میں ہو۔

  حیدر قریشی کو جب ہم غزل کے حوالے سے دیکھتے ہیں تو ان کے اشعار میں نیا پن نظر آتا ہے ان کی شاعری زندگی کے بہتر رویوں کی طرف اشارہ ہے حیدر قریشی بد سے بد تر حالات سے مایوس نہیں ہیں جو کے انسان نے خود پیدا کئے ہیں بلکہ وہ اس امید سے بندھے ہیں کہ انسان کو کبھی نہ کبھی اپنی غلطی کا احساس ہو جانے پر انسانیت کی  معراج کی طرف لوٹ آنا ہے، اسی کو وہ یوں بیان کرتے ہیں

ابھی  کچھ اور  بھی الزام  وہ لگائے گا

پھر اس کے بعد اسے آب آب ہونا ہے

حیدر قریشی اپنے کلام کی روشنی میں ایک صوفی بھی ہیں جو روحانی طاقت کے دل سے قائل ہیں اور رب کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتے اور نیکی کی قوت کو ہر جگہ کارفرما دیکھتے ہیں

لاکھ صحرا  اور سمندر  بچھ گئے تھے  راہ میں

ان فقیروں کو جہاں سے پار ہونا تھا، ہوئے

ہر شاعر کی طرح حیدر قریشی بھی رومانیت پسند ہیں، انسانوں، چیزوں، مناظر اور رویوں میں خوبصورتی سے متاثر ہوتے ہیں اور اس کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں ان کی یہ شاعری پر اثر بھی ہے اور خوبصورت بھی

جسم  کا سحر، طلسم  آنکھ  کا، لب کے منتر

اس میں بھی کتنے فسوں ساز ہنر رہتے ہیں

تجھ  کو خدائے  حسن  تو ہم مان  ہی چکے

مت اس سے بڑھ کے حسن و جوانی پہ مان کر

واجب  حضور حسن  میں ہوتی ہے نذر بھی

اس بار گہ میں  پیش  تو  دل  کا  جہان کر

اسی طرح حیدر قریشی کی شاعری میں جا بجا بوسیدہ نظام اور اس کے پروردہ آقاؤں کے خلاف ایک نفرت ایک احتجاج بھی ملے گا۔ یوں حیدر قریشی نے  بے خوفی سے جبر کے خلاف بھی آواز بلند کی ہے اور معاشرتی ناہمواریوں خوب اظہار خیال کیا ہے

خدا  کے نام  پہ تم نے  بہت خدائی کی

تمہارے جبر کا اب احتساب ہونا ہے۔

    ماہیا ایک لوک گیت ہے جسے اردو میں غیر ضروری طور پر متنازعہ ادبی صنف بنا دیا گیا۔ اس کو پہلے پہل کس نے تحریر کیا کی بحث چھڑی اور اس کے وزن کے سادہ سے مسئلہ کو تختۂ مشق بنایا گیا۔ اور ان دو مباحث میں ماہیا کی خوبصورتی کو گہن لگنے کے ساتھ ساتھ اس پر جتنا کام ہونا تھا وہ بھی متاثر ہوا۔ کوئی بھی تخلیق کار کبھی نہیں چاہتا کہ وہ نہایت عرق ریزی سے کوئی تخلیق منظر عام پر لائے مگر وہ اس کی نیک نامی اور شہرت میں اضافے کی بجائے محض ایک بحث کا موضوع بن کر رہ جائے۔ ایسے حالات میں چند سر پھرے ایسے بھی ہوتے ہیں۔ جو ہمیشہ اپنا راستہ سنگلاخ چٹانیں تراش کر بناتے ہیں اور آسیبوں بھرے رستوں سے مردانہ وار ہر رکاوٹ کا مقابلہ کرتے ہوئے منزل پر پہنچنے کی خوشی ایک الگ ہی خوشی ہوتی ہے۔ اور ہر دور میں زیادہ نہیں تو چند لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو اس خوشی سے سرشار ہو کر منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ حیدر قریشی نے خود کو کبھی آسان راستے سے گزارنے کا گناہ نہیں کیا۔ ماہیا کا بانی کون ہے کی بحث ہو یا اس کے اوزان کا مسئلہ موضوعِ سخن ہو حیدر قریشی نے کسی سے پہلو تہی نہیں کی انہوں نے نہایت خندہ پیشانی سے ہر سوال کو سنا اور پھر برسوں کی محنت کے بعد اب تک ہونے والی تمام مباحث کو اپنی مدلّل تحاریر سے سمیٹ کر اب تک ہونے والی تمام تحقیق کو مدِ نظر رکھ کر ایک مثبت، قابل عمل اور قابل قبول حل پیش کر دیا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ماہیا سے متعلق ہر چھوٹی بڑی دلیل، مضمون، جملے، یہاں تک کہ ذاتی نوعیت کی خط و کتابت تک کو نظر انداز نہیں کیا اور نہایت محنت سے تمام کو کتابی شکل میں پیش کر کے اب تک دستیاب حقائق کی روشنی میں یہ دو مسئلے حل کر دیئے ہیں۔ ماہیئے کی تحقیق و تنقید کے ساتھ ساتھ اس کی تخلیق کی طرف بھی حیدر قریشی نے بہت توجہ دی اور ایک زود گو شاعر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے بیش قیمت ماہیئے نہ صرف تخلیق کئے بلکہ شائع کر کے انہیں ماہیا سے محبت کرنے والوں تک پہنچایا۔ کسی کا حق پہچاننا اور لوگوں تک پہنچانا ایک بہت بڑا کام ہے جو حیدر قریشی کے مزاج کا حصہ بھی ہے حیدر قریشی نے یوں انجام دیا کہ ماہیا نگاری کی ابتدا کے سلسلے میں غلط فہمی کی بنیاد پر جو نام لئے جاتے تھے۔ ان میں قمر جلال آبادی اور ساحر لدھیانوی شامل تھے جبکہ ماہیا نگاری کے حقیقی بانی ہمت رائے شرما ہیں۔ حیدر قریشی نے 1919ء میں ضلع سیالکوٹ کے مشہور قصبے نارووال میں پیدا ہونے والے ہمت رائے شرما کو مدلل اندازِ گفتگو سے ماہیئے کا بانی ثابت کیا۔ یوں ایک طرف تو ماہیا کی ابتدا کے بارے میں ہونے والی متنازعہ گفتگو سمیٹ دی تو دوسری طرف ہمت رائے شرما کو ان کا جائز مقام دلوا دیا جو شاعری کے علاوہ بھی گوں نا گوں صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ہمت رائے شرما کے ماہئے 1936ء میں صر ف سترہ سال کی عمر میں فلم ’’خاموشی’‘  کی زینت بنے اس کے علاوہ وہ نغمہ نگار، کہانی کار، آرٹ ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر تک کے ذمہ دارانہ فرائض خوش اسلوبی سے نبھاتے رہے۔

ماہیا کے ذیل میں حیدر قریشی نے ماہیا کے مزاج، پنجابی لوک گیت ماہیا، ماہیا کے اوزان، ماہیا کی ابتدا، اردو میں ماہیا نگاری، ماہیا اور چن ماہی، اردو ماہیا کی تحریک، ماہیا کی بحث، ماہیا کے فروغ میں خواتین کا حصہ، ماہیا کا جواز، ماہیا کے خد و خال، تمام پر سیر حاصل بحث کی ہے اور کوئی ایسا پہلو نہیں چھوڑا جو تشنہ رہا ہو۔

٭٭٭

تحقیقی مقالہ برائے ایم اے اردو، اقبالیات

بہ عنوان

جدید ادب میں شائع ہونے والے مباحث

حیدر قریشی کی ادارت میں اکتوبر ۱۹۷۸ء سے خان پور سے جاری ہونے والا ادبی رسالہ ’’جدید ادب’‘ دو وقفوں کے ساتھ تا حال شائع ہو رہا ہے۔ ۲۰۰۳ء سے ’’جدید ادب’‘ جرمنی سے جاری کیا جا رہا ہے۔ اس معیاری ادبی جریدہ کے بارے میں پاکستان سے  شازیہ حمیرا نے ایم اے سطح کا تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔ مقالہ کا عنوان ہے ’’جدید ادب میں شائع ہونے والے مباحث’‘   ۲۰۰۹ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور نے اس مقالہ کی منظوری دے دی ہے۔ یہ مقالہ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ باب اول ’’جدید ادب کا تعارف’‘ ، باب دوم ’’اردو ماہیے کی بحث’‘ باب سوم’’اردو ادب میں سرقہ اور جعلسازی کی بحث’‘ ، باب چہارم ’’اردو زبان کی بحث’‘  اور باب پنجم میں پورے مقالہ کا محاکمہ پیش کیا گیا ہے۔

 شازیہ حمیرا کے مطابق آخری مرحلہ میں شادی ہو جانے کے باعث ان کے لیے مقالہ کی تکمیل کچھ مشکل ہو گئی تھی لیکن انہوں نے ہمت سے کام لے کر اسے مکمل کر ہی لیا۔ اس مقالہ میں حیدر قریشی کی مدیرانہ صلاحیتوں کا فراخدلی کے ساتھ اعتراف کیا گیا ہے۔ مدیرانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ان کی تخلیقی، تحقیقی و تنقیدی خدمات کو بھی خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔

حیدر قریشی کے بارے میں یونیورسٹی سطح پر کیے جانے والا یہ دوسرا اعتراف ہے۔ اس سے قبل اسی یونیورسٹی کی جانب سے منزہ یاسمین نے تحقیقی مقالہ لکھا تھا ’’حیدر قریشی شخصیت اور فن’‘ ۔ یہ کتابی صورت میں بھی چھپ چکا ہے۔ اب اس مقالہ کی منظوری پر حیدر قریشی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اور ان کی ایسی مزید علمی و ادبی کامیابیوں کے لیے دل سے دعا کرتا ہوں۔

ارشد خالد (اسلام آباد)

یہ خبر اردو رائٹرز ایٹ یاہو گروپس داٹ کام سے ریلیز کی گئی۔

٭٭٭

 

ماخذ: عکاس، کتب ۱۰،  ۱۱،۱۳، ۱۴۔  مدیر: ارشد خالد

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔