09:08    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

تحقیق و تنقید شاعری

6217 1 0 00

ذکا صدیقی

کلامِ غالب کا فنی و جمالیاتی مطالعہ

عرضِ مرتّب

عبد الرزّاق شاکرؔ کے نام ایک خط میں غالبؔ (پیدایش: ۲۷دسمبر ۱۷۹۷ ء ، وفات: ۱۵ فروری ۱۸۶۹ء) نے اپنے متعلق ایک پیشین گوئی کی ہے جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ لکھتے ہیں ’ نظم و نثر‘کی قلمرو کا انتظام ایزدِ دانا و توانا کی اعانت سے خوب ہو چکا۔ اگر اس نے چاہا تو قیامت تک میرا نام و نشان باقی و قائم رہے گا۔‘

            اپنے کلام کی بقا و دوام کے متعلق یہ پیشین گوئی کرنے والے غالبؔ خود اپنے عہد سے لے کر ہمارے عہد تک تو علیٰ کلِّ غالب ہیں ہی۔ اب رہا مستقبل تو بظاہرِ حالات اس امرِ خاص میں بھی شبہ کی کو ئی وجہ نظر نہیں آتی کہ قیامت تک ان کا نام و نشان باقی وقائم رہے گا۔ لہٰذا اگر وہ خود اپنی زبان سے اپنے آپ کو ’ غالبِ نام آور ‘ کہتے ہیں تو یہ خود ستائی انھیں زیب دیتی ہے ، اور جب وہ اپنے اشعار میں آنے والے ہر لفظ کو ’ گنجینۂ معنی کا طلسم ‘  کہتے ہیں تو اردو شاعری کے مزاج داں ہر قاری کی زبان سے آمنّا و صدّقنا کی صدائیں سنائی دیتی  ہیں۔

            چار جزو کا وہ دیوان جس میں سے کہیں کہیں مطلع و مقطع بھی غائب ہے، شہر اور دربارِ شاہی دونوں میں حریفوں کے سہامِ طعن و تشنیع کی آماج گاہ بنا رہتا تھا۔ یہ شاعر وہ تھے جن کے لیے سہ غزلے اور چو غزلے کہنا کوئی بات ہی نہیں تھی، یہاں غالبؔ کو طول طویل غزلیں سِرے سے نا پسند تھیں۔  تفتہ ؔ کو لکھتے ہیں : ’  ایک بات اور تمھارے خیال میں رہے کہ میری غزل پندرہ سولہ بیت کی بہت شاذ و نادر ہے۔ بارہ بیت سے زیادہ اور نو شعر سے کم نہیں ہوتی ‘۔حریف جن سے دربارِ شاہی اور شہربھرا پڑا تھا اس چھوٹے سے دیوان کو خاطر ہی میں نہ لاتے تھے۔ انھوں نے بادشاہ کو اپنی پُر گوئی اور غالبؔ کی کم گوئی کی طرف متوجّہ کیا۔ غالبؔ نے جھنجھلا کر اپنے اردو کلام کو خود ہی ’’ دژم برگ از نخلستانِ فرہنگِ من ‘ ‘ کہا اور دعویٰ کیا کہ یہ بے رنگ اردو شاعری کیا دیکھتے ہو ،یہ تمھارے لیے باعثِ فخر ہوگی ، میرے لیے توموجبِ ننگ ہے۔ دیکھنا ہے تو میرا فارسی کلام دیکھو     ؂  

نیست نقصان ، یک دو جزو است ار سوادِ ریختہ

 کاں دژم برگے ز نخلستانِ فرہنگِ من است

فارسی بیں ، تا بہ بینی  نقشہاے  رنگ  رنگ  

 بگذر از مجموعۂ اردو کہ  بے  رنگِ من است

راست می گویم من  و از راست سر نتواں کشید 

 ہر چہ در گفتار فخرِ تُست ، آن ننگِ من است

            لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان کے نخلستانِ فرہنگ کے اسی ’’ برگِ دژم ‘ ‘ کی مانگ اطرافِ ملک سے مسلسل آتی رہتی تھی اور غالبؔ کو اسی کی اشاعت نے زندگی بھر مصروف رکھا۔ ’منشی نولکشور کے تین آنے چھ پائی کے سستے نسخے سے ایک سو بارہ روپے کے چغتائی ایڈیشن تک ‘  (نسخۂ عرشی، ص ۷۳ ) ، اور پھر تین سو روپے کے ’ ’نسخۂ عرشی زادہ ‘‘ تک ، اس کے ہزاروں نسخے دنیا بھر میں پھیلے۔ اور مولانا حالیؔ مرحوم کی توضیحِ اشعار سے شروع کر کے مولانا غلام رسول مہرؔ کی تازہ شرحِ اشعارِ غالبؔ تک متعدد شرحیں اسی کی شائع ہوئیں۔

            مولانا حالی نے غالبؔ کی شاعرانہ خصوصیات کا جو تجزیہ کیا ہے اس کی تمہید کے طور پر لکھتے ہیں : جس قدر بلند اور عالی خیالات مرزا کے ریختے میں نکلیں گے اس قدر کسی ریختہ گو کے کلام میں نکلنے کی توقع نہیں ہے۔ البتہ ہم کو مرزا کے عمدہ اشعار کے جانچنے کے لیے ایک جدا گانہ معیار مقرر کرنا پڑے گا۔۔۔ (یادگارِ غالب ص۱۰۷ )

            علّامہ علی حیدر نظم طباطبائی کی شرح اس لحاظ سے نہایت اہم قرار پاتی ہے کہ ا نھوں نے یہی  ’ جدا گانہ معیار ‘ مقرر کر کے متداول دیوان غالبؔ کے سیکڑوں اشعار میں سے ہر ایک شعر پر گہری ناقدانہ نظر ڈالی ہے۔ اشعار کی شرح کے دوران میں ایسے ایسے نادر و نایاب ادبی ، علمی ، فنی نکتوں کی وضاحت کی ہے کہ اشعار کی تشریح تو ہو ہی جاتی ہے ، پڑھنے والا غالبؔ کے تفکّر، تصور اور تجربے کی تازہ کاری ، ان کے طرزِ گفتار اور اسلوبِ اظہار کی ندرت ، جذبہ و تخیّل کی گہری معنویت اور اِن سب کی مجموعی  ترکیب و پیشکش کے اُن اکثرطریقوں سے بھی متعارف ہو جاتا ہے جو غالبؔ نے سب سے الگ اپنے لیے اختیار کیے تھے۔

            علّامہ نظم طباطبائی دورِ آخر کے اُن علما میں سے ایک تھے جو فنِّ شعر و ادب کے کثیر الجہات پہلوؤں پر نہایت گہری نظر رکھتے تھے اور مکمل اعتماد اور وثوق کے ساتھ ان پر گفتگو کر سکتے تھے۔ شرحِ دیوانِ اردوئے غالبؔ ان کے علمی تبحّر اور اعلیٰ ذوقِ شعری کا ایک مظہر ہے۔

            اشعار کی تشریح کے دوران میں جو علمی و فنی نکات زیرِ بحث آئے ہیں وہ ضرورتاً پوری کتاب میں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔ مجھے خیال آیا کہ اگر ان نکات کو مختلف عنوانات کے تحت یک جا کیا  جائے تو ممکن ہے نہ صرف تفہیمِ غا لبؔ میں آسانی پیدا ہو جائے بلکہ قاری کو غالبؔ کی غیر معمولی اُپج اور انفرادیت کے نمونے ڈھونڈھنے میں بھی سہولت ہو۔ چنانچہ میں نے موضوع کے لحاظ سے کچھ عنوانات قائم کر کے ان کے ذیل میں ردیف وار صرف ۱یسے اشعار مع شرح اکھٹے کر دیے ہیں جن میں معانی ، بیان ، بدیع اور بلاغت وغیرہ کے متعلق نکات پر علاّمہ نظم نے بحث و تمحیص کی ہے۔ جہاں جہاں مناسب معلوم ہوا اور ضرورت محسوس کی ، ہر موضوع کی تعریف و توضیح کے لیے میں نے عَروض ، قواعدِ اردو اور معانی و بیان وغیرہ کی مستند کتابوں سے اقتباسات تشریحِ کلام کے افتتاح کے بطورنقل کر دیے ہیں تاکہ شرح میں واقع ہونے والی اصطلاحات کا ایک مختصر تعارف قاری کو ہو جائے۔ اب جسے مزید شوق اور توفیق ہو وہ تفصیل کے لیے مبسوط کتابیں ان فنون پر ضرور پڑھے۔ میرے مآخذ میں خصوصاً یہ کتابیں رہی ہیں : ’غیاث اللغات ‘ ( ملّا غیاث الدّین رامپوری ) ، قواعد العَروض (علّامہ قدرؔ بلگرامی ) ، قواعدِ اردو ( مولوی عبد الحق ) ، آئینِ اردو ( مولانا محمد زین العابدین فرجاؔد کوتانوی ) ،  ’تسہیل البلاغت‘ ( پروفیسر سجّاد مرزا بیگ دہلوی ) اور ’میزانِ سخن ‘  ( حمیدؔ عظیم آبادی)۔

            بعض اشعار کی تشریح کرتے ہوئے علّامہ نظم طباطبائی نے کسی نکتے کی وضاحت کے لیے کئی کئی صفحات میں اپنے عالمانہ خیالات کا بھی اظہار کیا ہے۔ یہ بظاہر زیرِ تشریح شعر سے کم ہی تعلق رکھتے ہوں لیکن بذاتِ خود اس قدر دل چسپ اور معلومات افزا ہیں کہ مناسب معلوم ہو اانھیں مستقل مقالات کی حیثیت سے الگ درج کیا جائے۔ ان مقالات کو  ’ اقسامِ کلام ‘ ،  ’ دہلی اور لکھنؤ کی زبان ‘ ، اور ’ مصرع لگانے کا فن ‘،  کے عنوانات کے تحت ملاحظہ فرمائیے۔

            با وجودے کہ اب دہلی و لکھنؤ کی زبان کی بحثیں ادبی منظر نامے کے مرکزی مقام کا حصّہ نہیں رہیں ، ان کی تاریخی و علمی حیثیت اپنی جگہ بر قرار رہے گی۔ علامہ نظم کے فرمودات کے جواب میں پروفیسر سجّاد مرزا بیگ دہلوی کے ارشادات ان کی کتاب ’ تسہیل البلاغت ‘ سے نقل کیے گئے ہیں۔  یقین ہے یہ بحث دلچسپی سے پڑھی جائے گی۔

            فنِ شعر پرعلّامہ نظم کے عبور اور زبان و بیان پر کامل دسترس کے نمونے شرح میں جا بجا نظر آتے ہیں۔ وثوق و اعتمادِ نفس کا یہ عالم ہے کہ غالبؔ کی اغلاط کی نہ صرف بے جھجھک نشان دہی کرتے ہیں بلکہ اپنی رائے ظاہر کرنے میں بھی تکلف نہیں کرتے کہ بجائے یوں کہنے کے ، اِس طرح کہنا چاہیے تھا۔

            وثوقِ علم اور عبورِ فن ہی نے انھیں وہ سب سے زیادہ اہم بات کہنے کا اعتماد بخشا ہے جو انھوں نے غالبؔ کی اس مشہور رباعی  کے سلسلے میں فرمائی ہے:

 دکھ جی کی پسند ہو گیا ہے ، غالبؔ

 دل رک رک کر بند ہو گیا ہے ، غالبؔ

 واللہ کہ شب کو نیند آتی  ہی نہیں

 سونا سوگند ہو گیا ہے ، غالبؔ

            لکھتے  ہیں :’ اس رباعی کے دوسرے مصرع میں دو حرف وزنِ رباعی سے زائد ہو گئے ہیں اور نا موزوں ہے۔۔۔   اب خیال کرو غالبؔ سا موزوں طبع شخص اور نا موزوں کہہ جائے بڑی دلیل ہے اس بات کی کہ جو عروض کہ فارسی و اردو کہنے والوں نے عربی کو ماخذِ علوم سمجھ کر اختیار کیا ہے یہ غرض عربی زبان ہی کے واسطے خاص ہے۔ اردو کہنے والوں کو پنگل کے اوزان میں کہنا چاہیے جو زبانِ ہندی کے اوزانِ طبعی ہیں۔ جانتا ہوں میرے اس مشورے پر شعراے ریختہ گو ہنسیں گے اور نفرت کریں گے مگر اس بات کا انکار نہیں کر سکتے کہ وہ ہندی زبان عربی کے اوزان میں ٹھونس کر شعر کہا کرتے ہیں ، اور ہندی کے جو اوزان طبعی ہیں اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ ...... جن اوزان کو ہم نے اختیار کر لیا ہے ان وزنوں میں بہ تکلف ہم شعر کہتے ہیں اور ہماری شاعری میں اس سے بڑی خرابی پیدا ہو گئی ہے جس کی ہمیں خبر نہیں۔غالبؔ سے شاعرِ منفرد نے عمر بھر مشق کر کے بھی ان اوزان پر قابو نہ پایا اور وزن غیر طبعی ہونے کے سبب سے دھوکا کھایا۔ ‘  ا نتہی۔ (تفصیل زیرِ عنوان ’’عروض‘‘  دیکھیے )

            ایک جگہ بری طرح جھنجھلا کر لکھا ہے: ’ فارسی کا ترجمہ کر لینے میں مصنف مرحوم کی جرأت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ ان کے کلام سے اردو کے محاورات کوئی نہیں سیکھ سکتا۔‘ ( ملاحظہ ہو شرحِ شعرزیرِ عنوان:’’ محاورہ اور روز مرّہ  ‘‘    ؂ 

 تیرے در کے کیے اسبابِ نثار آمادہ

 خاکیوں کو جو خدا نے دیے جان و دل و دیں

            غالبؔ نے اپنے کئی خطوں کے علاوہ کلیاتِ فارسی کے دیباچے میں صنایع لفظی سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔لیکن علامہ نظمؔ طباطبائی نے ایسی متعدد مثالیں غالبؔ کے کلام سے دی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ غالبؔ خصوصاً ضلع بولنے کا بڑا اہتمام کرتے تھے اور مناسباتِ لفظی کے لانے میں شعوری کوشش کرتے تھے یہ ایرادات اپنی جگہ ، لیکن جب علّامہ نظمؔ کسی شعر کی دا د دیتے ہیں تو نہایت کھلے دل سے دیتے ہیں۔ داد دینے کا یہ والہانہ انداز اُن متعدد اشعار کی شرح میں ملاحظہ کیجیے جو میں نے ’ متفرق خصوصیات ‘ کے عنوان کے تحت یکجا کیے ہیں۔کوئی خاص شعر قابلِ داد کیوں ہے اس کی تفصیل تو مقررہ مقام پر آپ پڑھ لیں گے ، چند اشعار کاد  علّامہ نے کس قدر خلوص ، محبت اور عقیدت سے دی ہے اِس جگہ اُس کے لطف میں آپ کو شریک کیے بغیر جی نہیں مانتا۔چند شعر ملاحظہ ہوں    ؂

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بری بلا ہے

  مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

’ خوبی اس شعر کی حدِّ تحسین سے باہر ہے ‘۔

 کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی

بجا کہتے ہو ، سچ کہتے ہو ، پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو

’ بندش اس کی سحر کے مرتبہ تک پہنچ گئی ہے۔‘

 آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی

اب کسی بات پر نہیں آتی

’ یہ وہ شعر ہے کہ میرؔ کو بھی جس پر رشک کرنا چاہیے۔‘

نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلّی ، نہ سہی

امتحان اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی

            ’ اس شعر پر اگر غالبؔ خداے سخن ہونے کا دعوےٰ کریں تو خدا گواہ ہے کہ زیبا ہے۔ پھر دیکھیے تو نہ فنِّ معانی کی کوئی خوبی ہے ، نہ فنِّ بیان کاکچھ حسن ہے ، نہ فنِّ  بدیع کے تکلفات ہیں۔‘

 ہے چشمِ تر میں حسرتِ دیدار سے نہاں

 شوقِ عناں گسیختہ ، دریا کہیں جسے

            ’ عناں گسیختہ ‘ اس شعر میں لفظ نہیں ہے الماس جڑ دیا ہے۔ جب دوسری زبان کی لفظوں پر ایسی قدرت ہو جب کہیں اپنی زبان میں اس کا لانا حسن رکھتا ہے۔ ‘

 ماہ بن ، ماہتاب بن ، میں کون

 مجھ کو کیا بانٹ دے گا تو انعام

            ’  اس سارے قصیدے میں عموماً اور اس شعر میں خصوصاً مصنف نے اردو کی زبان اور حسنِ بیان کی عجب شان دکھائی ہے ایک مصرع میں تین جملے جس کے مضمون سے رشک ٹپک رہا ہے اور دوسرا مصرع طنز سے بھرا ہوا ہے۔ چاروں جملوں میں حسنِ انشا ، پھرخوبیِ نظم و بے تکلفیِ ادا  !‘

 استادِ شہ سے ہو مجھے پر خاش کا خیال

یہ تاب ، یہ مجال ، یہ طاقت نہیں مجھے

            ’  اس قطعے میں جس جس پہلو سے معنیِ استعطاف کو مصنف نے باندھا ہے قابل اس کے ہے کہ اہلِ قلم اس سے استفادہ کریں۔ ایسے پہلو شاعر کے سوا کسی کو نہیں سوجھتے۔ یہ عرش کے خزانے سے نکلتے ہیں اور اس کی کنجی شاعروں کے سوا کسی کے پاس نہیں۔‘

 قسمت بری سہی پہ طبیعت بری نہیں

ہے شکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے

’یہ شعر مصنف کی بلاغت کی سند اور استادی کی دستاویز ہے۔‘

            دیوانِ غالبؔ کا ’’نسخۂ عرشی ‘ ‘ صحت متن اور کثرتِ حواشی میں جو بجا شہرت رکھتا ہے وہ محتاجِ تعارف نہیں۔ میں نے بعض اشعار کی تصحیح اور اکثر استدراکات کے لیے نسخۂ عرشی ( مطبوعۂ لاہور ، ۱۹۹۲ ع ) سے رجوع کیا ہے۔  استدراکات کے لیے کوئی علیٰحدہ  باب قائم نہیں کیا ہے ،  متعلقہ شعر کے ساتھ ہی استدراک بھی درج کر دیا ہے۔

             ’نسخۂ عرشی ‘ کے علاوہ ’ یادگارِ غالبؔ ‘ ( مولانا حالی ؔ) اور مرآۃ الغالب، ؔحضرتِ بیخودؔ دہلوی )سے بھی بعض استدراکات کے لیے استمدادکی گئی ہے۔

             جس زمانے میں انفارمیشن ٹکنالوجی کی بینڈ ویگن میں سوار ہونے کے لیے اندھا دھند دوڑ مچی ہوئی ہے نیز، اس سے پہلے سے ، اردو کی تعلیم و تعلّم کی طرف سے بے نیازی اور بے پروائی کا جو ہمارا مزاج بن چکا ہے اس میں یہ توقع کرنا عبث ہے کہ اس  شرح کا عام طور پر استقبال کیا جائے گا۔ لیکن اگریونیورسٹیوں میں اردو کی اعلیٰ جماعتوں کے طلّاب اور اساتذہ ہی اس کتاب سے فائدہ اٹھا لیں تو غنیمت سمجھا جائے گا۔               

                                    ذکا ٔ صدیقی

3, MeenakshiLakeParadise,

Karbala Road,

BHOPAL 462 001

جمعہ، ۱۲  اکتوبر  ۲۰۰۱ء

فن

اقسام کلام

۔۔۔ شیخ الرئیس لکھتا ہے کہ شعر کبھی فقط حیرت و تعجب پیدا کرنے کے لیے کہتے ہیں ، کبھی اغراض و معاملات کے لیے کہتے ہیں۔۔۔ شعراے غزل گو کی شاعری پہلی قسم کی ہے کہ موسیقی و مصوری کی طرح اس کی غایت بھی محض حظِ نفس و تغذیۂ روح کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی۔ لیکن دوسری قسم البتہ اہتمام و اعتنا کے قابل ہے۔ ہر ادیب و اہلِ قلم اس کا محتاج ہے اور پھر حظِ نفس و تعجیب سے بھی خالی نہیں۔نثار و معاملہ نگار کو ایسے مضامین کی بہت حاجت ہے جو اغراض سے تعلق رکھیں۔ غزل گویوں کو مضمون نگاری کی مشق نہ ہونے سے اچھی طرح نثر لکھنے کا سلیقہ نہیں ہوتا۔ کسی مطلب کو نثر میں دل نشیں نہیں کر سکتے۔ بلکہ ابنِ خلدون نے تو یہ دعویٰ کیا کہ شاعر سے نثر نہیں لکھی جاتی اور نثّار سے شعر نہیں کہا جاتا۔ میرے خیال میں اس کی لم یہی ہے کہ ابنِ خلدون کے زمانے میں عرب کی شاعری بھی اغراق و تصنع و تکلف سے بھر گئی تھی ، اغراض پر شعر کہنا بہت کم ہو گیا تھا۔ اس فن کو اہلِ نثر نے اختیار کر لیا تھا۔

            ۔۔۔۔۔۔ شعر میں اغراق و تکلف کرنا اور اغراض و مطالب سے خالی رکھنا یہاں تک پھیلا کہ اب عموماً ہم لوگوں کا یہ مذاق ہو گیا ہے کہ جو شعر کہ اغراض و مطالب کے لیے کہے جاتے ہیں ان کو شعر نہیں سمجھتے بلکہ جانتے ہیں شاعر نے رام کہانی ناندھی یا دکھڑا رویا۔ شعرا کے بر خلاف اہلِ نثر نے معاملہ نگاری میں غضب کا پھیکا پن اختیا رکیا۔ انھوں نے تکلف میں اس قدر افراط کی کہ معانی کو رو بیٹھے۔ انھوں نے اسقدر تفریط کی کہ تمام محاسنِ کلام سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

            ہمارے یہاں کلام کی تقسیم اس طرح مشہور ہے کہ :

( الف )          جس کلام میں وزن و قافیہ دونوں ہوں وہ نظم ہے۔

( ب )             جس میں دونوں نہ ہوں وہ نثرِ عاری ہے۔ اس نثر کی بڑی خوبی بیان کی بے ساختگی ہے ، لیکن اس میں بھی مجاز و کنایہ و تشبیہ و استعارہ و تحویلِ خبر بہ انشا و صنایعِ معنویہ و لفظیہ سے بہت کچھ حسن پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً یہ فقرہ :

( ۱ )    میں نے اسے بہت ڈھونڈھا مگر نہ ملا۔۔۔ ( اس ) فقرے میں خبر ہے اور سب لفظوں سے حقیقتِ معنی مقصود ہے۔

( ۲ )    میں نے کیسا کیسا ڈھونڈھا مگر وہ کب ملتا ہے۔۔۔اسی خبر کو انشاکی صورت میں ظاہر کیا ہے۔

( ۳ )    میں نے بہت خاک چھانی مگر وہ ہاتھ نہ آیا۔۔۔( اس ) فقرے میں خبر ہے مگر الفاظ میں مجاز ہے۔

( ۴ )    میں نے کیسی کیسی خاک چھانی مگر وہ کب ہاتھ آتا ہے۔۔۔( اس ) فقرے میں انشا و مجاز دونوں جمع ہیں۔

( ۵ )    میں ڈھونڈھ ڈھونڈھ کے تھکا مگر وہ تو عنقا ہے۔۔۔ ( اس ) میں مجاز کی جگہ تشبیہ ہے اور ڈھونڈھنے میں مبالغہ ہے۔

( ج )   اور سب سے بڑھ کر فقروں کا متشابہ ہونا لطف دیتا ہے۔ مثلاً جملۂ فعلیہ کا عطف فعلیہ پر ، اور اسمیہ کا اسمیہ پر۔ اور جیسی ایک فقرے میں فعل کی اور اس کے متعلقات کی ترتیب ہو ویسی ہی دوسرے فقرے میں ہو۔ جس کلام میں وزن نہ ہو اور قافیہ ہو، یعنی فقرہ ، دوسرے فقرے کا ، سجع ہو اس کا نام نثرِ مسجّع رکھا ہے۔ یہ نثر فقط زبانِ عربی کے ساتھ مخصوص ہے۔ اردو فارسی کی زبان اس کی متحمل نہیں ، اس سبب سے کہ اردو فارسی میں جملہ فعل پر تمام ہوتا ہے اور فعل کا سجع بہت کم ہاتھ آتا ہے۔ اسی وجہ سے عام آفت یہ پیدا ہوئی ہے کہ بہ تصنع و تکلف دو  دو  فقرے ایک ہی معنی کے اکثر لوگ لکھا کرتے ہیں اور اس تکرارِ مُخِل و اطنابِ مُمِل سے سجع کا لطف بھی جاتا رہتا ہے۔ مثلاً یہ مضمون:  میں نے سب حال سنا ، نہایت خوشی حاصل ہوئی۔اسے سجع کرنے کے لیے خواہ مخواہ اس طرح لکھنا پڑتا ہے : میں نے سب حال سنا ، دامنِ شوق میں گلہاے مضامیں کو چنا۔ نہایت خوشی حاصل ہوئی ، فکر و تشویش زائل ہوئی۔

پھر یہ بھی دیکھیے کہ فعل کا سجع مل بھی گیا تو اس میں وہ لطف کہاں جو اسم کے سجع میں ہوتا ہے اور وجدانِ صحیح اس بات کا شاہد ہے کہ افعال و روابط میں سجع کا وہ لطف نہیں جو اسم میں ہے۔ غرض کہ اردو فارسی میں عربی کی طرح  نثرِِمسجع لکھنا غیر کا منہ چڑھا کو اپنی صورت بگاڑنا ہے۔ ہاں ، اردو فارسی سجع اگر اچھا معلوم ہوتا ہے تومتعلقاتِ جملہ میں ، جیسے : فضلِ خدا سے اور آپ کی دعا سے خیریت ہے۔یا کہیں ایسا ہی بے تکلف محاورے میں پورا اتر جائے تو خیر ، جملے کا سجع جملہ ہی سہی، لیکن تمام عبارت میں اس کی پابندی تو عربی میں بھی مشکل سے نبھتی ہے۔ ابنِ عرب شاہ کی  ’’تاریخِ تیموری ‘ ‘اور ’ ’فاکہۃ الخلفا ‘‘ دونوں کتابیں آخر زٹل قافیہ ہو کے رہ گئیں۔

( د )    جس کلام میں قافیہ نہ ہو اور وزن ہو اس کا نام ’’ نثرِ مرجّز ‘‘  مشہور ہے۔گو ائمۂ فن نے اس کا ذکر کیا ہے اور اس کا  نام بھی رکھ لیا ہے مگر کسی نے اس پر قلم نہیں اٹھایا ہے۔ بے تکی نثر سمجھا کیے۔ سچ یہ ہے کہ میرا بھی خیال یہی رہا کہ جب وزن کے ساتھ قافیہ نہ ہو تو وہ ایسی  لَے ہوئی جس میں سُر ندارد۔ مگرمحققؔ نے ’’معیار ‘‘میں ذکر کیا ہے کہ کسی یونانی  شاعر نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں وزن ہے اور قافیہ نہیں۔ اور انگریزی میں بھی اس طرح کی تالیف کا رواج بہت ہے اور بے شک اس کی برجستگی وبے ساختگی کلامِ مقفےٰ سے کہیں بڑھی ہوئی ہے اس قسم کے کلام کو وہ لوگ نظم کے اقسام میں داخل کرتے ہیں۔ اور بات یہی ٹھیک ہے کہ موزوں کلام کو نظم کہنا چاہیے نہ کہ نثر۔

عَروض

عَروض:

              وہ علم ہے جس سے نظم یعنی کلامِ موزوں اور نثر یعنی کلامِ غیر موزوں کا فرق معلوم ہوتا ہے یہ علم خلیل بن احمد بصری (پیدایش   ۱۰۰؁ ہجری ، وفات  ۱۷۰؁ ہجری ؛ بقول علّامہ سیّد غلام حسنین قدرؔ بلگرامی ، مؤلف ’  قواعد العروض ‘ )نے فنِّ موسیقی کی بنیاد پر استخراج کیا تھا۔ جس طرح طبلے پر ضرب اور خالی سے مختلف ماترائیں اور ان ماتراؤں سے مختلف تال پیدا ہوتے ہیں اسی طرح علمِ عَروض میں حرکت (ضرب ) اور سکون  (خالی ) کے موافق خلیلؔ نے مختلف اوزانِ عروضی تراش لیے۔ اہلِ موسیقی کا مدار ’ ت ‘ اور ’ ن ‘ یعنی تن تن پر ہے تو اہلِ عروض کا  اعتبار ’ ف اور ’ع ‘ اور ’ ل ‘ او ر ’ ن ‘  یعنی فَعِلُن پر ہے۔ مختصر یہ کہ علمِ عروض کا موضوع وزنِ شعر ہے۔

وزن: 

            شاعری کی مقررہ بحروں میں سے کسی بحر کی میزان پر کسی کلام کو ناپنے تولنے کا نام ’ وزن ‘ ہے اہلِ عَروض کی اصطلاح میں اس ناپ تول یعنی دو کلموں کی حرکت اور سکون کے برابر ہونے کو تقطیع کہتے ہیں ( تقطیع کے معنی ہیں ٹکڑے ٹکڑے کرنا)  وزنِ شعر میں صرف انھیں حروف کا اعتبار ہے جو ملفوظ ہوں۔ اِس لحاظ سے ’ خواب ‘  کا  ’ و ‘  وزنِ شعر کے شمار  ( یا تقطیع ) میں نہیں آئے گا ، اسی طرح   ’ کیا ‘  اور ’ کیوں ‘ کی ’ ی ‘ بھی تقطیع میں نہیں آئے گی۔ گویا کہ یہ  ’ و ‘  اور ’ ی ‘ حروف نہیں ہیں۔

اجزا:

             جمع ہے جُز کی۔ تقطیعی اجزا کے باہم ملنے سے جو لفظ بنتا ہے اسے اصطلاحِ عروض میں ’ جز ‘ کہتے ہیں۔ علمِ عروض میں اجزاتین ہیں :  (۱ )  سبب ( ۲)  وتد اور ( ۳ )  فاصلہ۔( ان کی تفصیل علّامہ طباطبائی کے مقالے میں ملاحظہ ہو جو اس تعارف کے بعد آتا ہے۔ کچھ اور متعلقہ معلوما ت یہاں دی جاتی ہیں۔)

( ۱ )سبب: دو حرفی کلمہ کو سبب کہتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں :۔

( الف) سببِ خفیف:  وہ دو حرفی لفظ جس کا پہلا حرف متحرک اور دوسرا ساکن ہو ، جیسے : دِلْ ، چَلْ ،  گُلْ۔

( ب ) سببِ ثقیل:  وہ دو حرفی لفظ جس کے دونوں حروف متحرک ہوں ، جیسے :  دِلِ ، غَمِ ،شَبِ      ( تینوں میں آخری حرف بہ حالتِ اضافت )

(عروض کی بعض کتابوں میں ، اور خود علّا مہ نظم طَباطَبائی نے، سبب کی ایک اور قسم سببِ متوسط بھی بتائی ہے۔ لیکن اکثر علما کو اس سے اختلاف ہے۔)

( ۲ )  وتد:  سہ حرفی کلمہ کو وتد کہتے ہیں۔ اس کی بھی دو قسمیں ہیں :۔

( الف )  وتدِ مجموع یا مقرون:  وہ سہ حرفی کلمہ جس کا پہلا اور دوسرا حرف متحرک ہو اور تیسرا ساکن ، جیسے : خُدَاْ، وَطَنْ ، جِگَرْ۔

( ب )  وتدِ مفروق:   وہ سہ حرفی کلمہ جس کا پہلا حرف متحرک ، دوسرا ساکن اور تیسرا متحرک ہو، جیسے: دَرْدِ ،مُرْغِ ، صِدْقِ ( تینوں میں آخری حرف بہ حالتِ اضافت)

( سبب کی طرح وتد کی بھی ایک قسم وتدِ کثرت ہے۔ یہ چہار حرفی کلمہ ہے جس کے پہلے دو حروف متحرک اور بعد کے دو حرف ساکن ہوں ، جیسے:  زَبَاْنْ ، نَظِیْرْ ، شُمَاْرْ۔)

(۳ )  فاصلہ:  چہار حرفی کلمہ ہوتا ہے۔اس کی بھی دو قسمیں ہیں :۔

( الف )  فاصلۂ صغریٰ:  جس میں پہلے تین حروف متحرک ہوں اور چوتھا ساکن۔ گویا یہ اجتماع ہوتا ہے ایک سببِ ثقیل اور ایک سببِ خفیف کا۔  جیسے : صَنَمَاْ،  بَخُدَ اْ۔۔۔

( ب )  فاصلۂ کُبریٰ:  پنج حرفی کلمہ ہوتا ہے جس کے پہلے چار حروف متحرک ہوں اور پانچواں ساکن۔ یہ اجتماع ہوتا ہے وتدِ مجموع اور سببِ خفیف کا۔ جیسے:شِکَنَمَشْ

(نوٹ: اردو میں سببِ ثقیل ، وتدِ مفروق اور فاصلہ کی مثالیں نہیں ہیں ، اس لیے فارسی کی مثالیں دی گئی ہیں۔)

ُرکن :

             کم سے کم دو اجزا اور زیادہ سے زیادہ تین کے ملنے سے جو لفظ بنتا ہے اسے ُرکن کہتے ہیں۔ رُکن کی جمع ارکان ہے۔ ( ان کو افاعیل  یا امثال بھی کہتے ہیں ) انھیں تین اجزا ( سبب ، وتد اور فاصلہ ) کو مختلف طور پر ترتیب دے کر از روئے اصل آٹھ ارکان ، اور از روئے اعتبار دس ارکان قائم کیے گئے ہیں۔ اور انھیں ارکان سے مختلف بحریں بنائی گئی ہیں جن کی مجموعی تعداد اُنّیس ہے۔ ان میں سے چار بحریں عربی کے لیے مخصوص ہیں اور تین فارسی کے لیے۔ باقی بارہ بحریں ، فارسی اور عربی میں مشترک ہیں۔بارہ مشترک بحروں کے نام اور اوزان یہ ہیں :

( ۱ )   بحرِ متقارَ ب:   فَعُوْ لُنْ ،  فَعُوْ لُنْ،  فَعُوْلُنْ ،  فَعُوْلُنْ۔  (اِسی طرح دوسرا مصرع۔ کُل آٹھ بار )

 ( ۲ )   بحرِ متدارک:  فَاْعِلُنْ ،  فَاْعِلُنْ،  فَاْعِلُنْ،  فَاْعِلُنْ( ایضا ً)

( ۳ )   بحرِ ہزج :   مَفَاْعِیْلُن ،  مَفَاْعِیْلُن ،  مَفَاْعِیْلُن ،مَفَاْعِیْلُن(ایضاً )

( ۴ )   بحرِ رجز:   مُسْتَفْعِلُن، مُسْتَفْعِلُن ، مُسْتَفْعِلُن، مُسْتَفْعِلُن۔ ( ایضاً)

( ۵ )  بحرکامل:   مُتَفَا عِلُن، مُتَفَا عِلُن ،  مُتَفَا عِلُن ، مُتَفَا عِلُن۔ (ایضاً )

( ۶ )   بحرِ رمل:   فَاْعِلَاْتُنْ ،  فَاْعِلَاْتُنْ ،  فَاْعِلَاْتُنْ ،  فَاْعِلَاْتُنْ۔ ( ایضاً)

( ۷ )  بحرِ منسرح:  مُسْتَفْعِلُن مَفْعُوْلَاْتُ ، مُسْتَفْعِلُنْ  مَفْعُوْلَاْتُ۔( ایضاً)

 ( ۸ )   بحرِ سریع:  سْتَفْعَلُنْ مُسْتَفْعَلُنْ مَفْعُوْلَاتُ۔ ( اسی طرح دوسرا مصرع کُل چھ بار )

 ( ۹ )   بحرِ خفیف :   فَاْعِلَاْتُنْ ، مُسْ تَفْع لُن، فَاْعِلَاْتُن (ا یضاً۔۔۔ کُل چھ  بار)

( ۱۰ )  بحرِ مضارع :   مَفَاْعِیْلُنْ، فَاْعِ لَاْتُنْ، مَفَاْعِیْلُنْ فَاْعِ لَاْتُنْ (ایضاً۔۔۔ کُل آٹھ بار)

( ۱۱ )  بحرِ مقتضب :  مَفْعُوْلَاْتُ مُسْتَفْعِلُن، مَفْعُوْلَاْتُ، مُسْتَفْعِلُنْ (۔۔ایضاً۔۔ ایضاً)

( ۱۲ )  بحرِ مُجتَث:  مُس ْتَفْعِ لُنْ،  فَاْعِلَاْتُن،  مُس ْتَفْعِ لُن،  فَاْعِلَاْتُنْ (ایضاً۔۔ایضاً)

      بحرِ طویل :  یہ خاص عربی کی بحر ہے۔فعولن، مفاعیلن ،  فعولن، مفاعیلن (کُل آٹھ بار )۔ فارسی میں بہ تکلف کچھ شاعروں نے اس بحر میں بھی شعر کہے ہیں۔اردو کے مذاق میں یہ بحر بے کیف ہے اس لیے اس میں ہمارے یہاں کلام نہیں ملتا۔

 

تقطیع:

            یعنی ٹکڑے ٹکڑے کرنا۔ اصطلاحِ عروض میں شعر کے الفاظ کو اتنے ٹکڑوں یعنی ارکان میں تقسیم کرنا جتنے اس بحر کے ارکان ہیں جس میں وہ شعرکہا گیا ہے۔شعر کے حروف ارکان کے حروف سے اس طرح مطابق ہونے چاہییں کہ متحرک کے مقابل متحرک اور ساکن کے مقابل ساکن رہے۔تقطیع میں حرکات یعنی زیر ، زبر ، پیش کا فرق نہیں مانا جاتا چنانچہ بُلبُل ، دَلدَل ، جھِل مِل  یہ تینوں ایک ہی وزن ’  فِعْلُن ‘پر ہیں۔ مثلاً اس مصرع کی تقطیع : کروں حمدِ پروردگارِ قدیم۔۔۔ یوں ہوگی:۔       کرو حم : فعولن ! دِپرور: فعولن ! دِگارے:فعولن !  قدیم:فعول ۔۔۔یہ بحرِ متقارب کے ارکان ہیں اور آخری رکن میں زحاف کے نام کو ملا کر اس بحر کا پورا نام معلوم ہو سکتا ہے جو یہ ہے : بحرِ متقارب ہشت رُکنی ( یا مُثَمَّن ) مقصور۔

زحاف:

             سبب کے حرفِ دوم کو ، جو کہ ساکن ہوا کرتا ہے ، کسی رکن سے ساقط کر دیں تو اسے اصطلاح میں زحاف کہتے ہیں۔ گویا ارکانِ شعر میں سبب کے حرفِ دوم کو ساقط کر دینے سے جو تغیّرات ہوتے ہیں انھیں کا نام زحاف ہے۔ زحافات کے ناموں کی رعایت سے بحروں کے بھی  وہی  نام ہوتے ہیں۔ مثلاً جس بحر میں خُبْن کا زحاف آئے گا وہ  مَخبون کہلائے گی۔  زحافات یعنی تغیّرات کی تین صورتیں ہیں :

 (۱ِ ) رکن میں سے کسی حرف کو کم کر دینا ؛ ( ۲ ) کوئی حرف زیادہ کر دینا ؛ ( ۳ ) کسی حرفِ متحرک کو ساکن کر دینا۔

 

رباعی کے اوزان:

             رباعی کا وزن، مَفْعُوْلَ  مَفَاْعِلُنْ  مَفَاْعِیْل  ُ فَعُوْل،بحرِ ہزج کے ساتھ مخصوص ہے اور اصل میں فارسی والوں کا نکالا ہوا ایک وزن ہے ۔اس میں نو ( ۹ ) زحاف آتے ہیں ،جن کی وجہ سے چوبیس وزن ہو جاتے ہیں۔جو چار مصرعے ان چوبیس اوزان میں سے کسی وزن پر ہوں گے وہ رباعی ہے ورنہ ہر ایسے دو شعر جن کا پہلا، دوسرا ، چوتھا مصرع ہم قافیہ ہو رباعی نہیں ہے، اسے قطعہ کہیں گے۔

پِنگَل

سنسکرت اور برج بھاشا میں جو  علمِ عَروض ہے اسے پِنگل کہتے ہیں۔یہ علم ہندی شاعری کے اوزان و قواعد کا ضابطہ ہے۔ جس طرح عَروض میں سبب ، وتد ، فاصلہ وغیرہ اجزا ہیں اسی طرح پنگل میں بھی اجزا ہیں جن کی تعداد  دو ہے اور یہ  ’  لَگُھ‘  اور ’ گُرُ ‘  کہلاتے ہیں۔ جس طرح اجزاے عروضی سے ارکان بنتے ہیں اسی طرح لگھ اور گر سے گَنَ  مرتّب ہوتے ہیں۔

            لَگھُ :  ایک حرفِ متحرّک کو لگھ کہتے ہیں۔

            گُرُ:   ا ک حرف متحرک مع ایک ساکن کو گر کہتے ہیں ۔ گویا   ’ گر‘ سببِ خفیف ہوا۔

            گَن:  (اصل ’ گَنْڑ)  یعنی  ارکان۔

             چھنْد :   بحر اور اس کی اقسام کو کہتے ہیں۔

            چرن  یا  پَد:  ایک مصرع کو کہتے ہیں۔

             اَنُپَّراس :  قافیے کو کہتے ہیں۔

            تُکانُت :   ردیف ہے ۔ 

             پِرِتِّے :   وہ آٹھ کلّیے ہیں جن کے ادراک کے بغیر  چھندوں ( یعنی بحروں ) کے  اصول پر عبور نہیں ہوتا۔

            غرض پِنگل بھی علمِ عروض کی طرح ایک مبسوط و مکمّل اور محنت طلب علم ہے۔

                 مندرجۂ بالا معلومات کے لیے اِن کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے:۔

            ۔۔۔ قواعد العروض  مؤلفۂ  قدرؔ بلگرامی

            ۔۔۔ تلخیصِ عروض و قافیہ  مؤلفہ ٔ نظم طباطبائی

            ۔۔۔ میزانِ سخن  مؤلفۂ حمیدؔ عظیم آبادی

            ۔۔۔ قواعدِ اردو   مؤلفۂ  مولوی عبد الحق

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارشاداتِ طباطبائی

دکھ جی کی پسند ہو گیا ہے ، غالبؔ

 دل رک رک کر بند ہو گیا ہے ، غالبؔ

 واللہ کہ شب کو نیند آتی  ہی نہیں

 سونا سوگند ہو گیا ہے ، غالبؔ

            اس رباعی کے دوسرے مصرع میں دو حرف وزنِ رباعی سے زائد ہو گئے ہیں اور ناموزوں ہے۔ مختلف چھاپے کے سب نسخوں میں بھی ، اور جس نسخے کی کاپیاں خود مصنف مرحوم کی صحیح کی ہوئی ہیں اس میں بھی یہ مصرع اسی طرح ہے۔ اوزانِ رباعی میں سے جس وزن میں سببِ خفیف سب سے زیادہ ہیں وہ یہ مصرع  مشہور ہے،ع۔۔۔ یا می گویم نامِ تو یا می گریم۔  وزن پر اگر اس مصرع کو کھینچیں تو یوں ہونا چاہیے ، ع ۔۔۔ دل رک رک کر بند ہوا ہے غالب۔۔اور اس صورت میں زمین بدل جاتی ہے۔ غالباً اسی فارسی مصرع نے مصنف کو دھوکا دیا۔ اب خیال کرو غالبؔ سا موزوں طبع شخص اور نا موزوں کہہ جائے بڑی دلیل ہے اس بات کی کہ جو عروض کہ فارسی و اردو کہنے والوں نے عربی کو ماخذِ علوم سمجھ کر اختیار کیا ہے یہ غرض عربی زبان ہی کے واسطے خاص ہے۔ اردو کہنے والوں کو پنگل کے اوزان میں کہنا چاہیے جو زبانِ ہندی کے اوزانِ طبعی ہیں۔ جانتا ہوں میرے اس مشورے پر شعراے ریختہ گوہنسیں گے اور نفرت کریں گے۔ مگر اس بات کا انکار نہیں کر سکتے کہ وہ ہندی زبان عربی کے اوزان میں ٹھونس کر شعر کہا کرتے ہیں اور ہندی کے جو اوزان طبعی ہیں اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ویسا ہی ہے جیسے کوئی انگریزی قصیدہ بحرِ طویل میں کہے کہ کوئی انگریز اسے موزوں نہ کہے گا۔

            اس کے بر خلاف پِنگل کے سب اوزان ہم کو بھی موزوں معلوم ہوتے ہیں۔ وجہ اس کی یہی ہے کہ وہ سب اوزان ہمارے اوزان طبعی ہیں اور جن اوزان کو ہم نے اختیار کر لیا ہے ان وزنوں میں بہ تکلف ہم شعر کہتے ہیں اور ہماری شاعری میں اس سے بڑی خرابی پیدا ہو گئی ہے جس کی ہمیں خبر نہیں۔ میں نے انگریزی کا ایک فقرہ دیکھا جو ہزج میں موزوں معلوم ہوا:  

 pondor bank still on    Let us stand

لیکن جو لوگ اہلِ زبان ہیں ان کو سنایا تو انھوں نے کہا اس طرح موزوں نہیں ہے۔

            بعض لوگوں نے عربی کو فارسی والوں کے اوزان میں نظم کیا ہے ، مثلاً :

                        یا  صاحبَ  الجمالِ  وَ  یا  سیّدِ  البشر

            لیکن جو لوگ عربی اشعار سے مزہ اٹھانے والے ہیں ان سے پوچھو ، ان کے نزدیک یہ مصرع نا موزوں ہے۔ یا یہ سمجھو کہ وزن سے جو مزہ پیدا ہوجاتا ہے وہ اس میں نہیں پیدا ہوا۔ وجہ یہ کہ اوزانِ مطبوع میں شعر ہو تو اہلِ زبان اس شعر کو شعر سمجھیں۔ اور اوزانِ مصنوع کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ یہی حال پنگل والوں کی نظر میں اردو شاعری و اردو اشعار کا ہے کہ وزن سے جو مزہ آنا چاہیے وہ مزہ ان کو ہمارے شعر سے نہیں ملتا اور مختلف زبانوں کے مختلف اوزان ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہر زبان کا خاص لہجہ ہوتا ہے۔ اس کے اسماء و افعال کے خاص اوزان ہوتے ہیں ، وزنِ شعر بھی لا محالہ جدا ہوگا۔

            مثلاً انگریزی میں عروض کا دار و مدار لہجے کے شدّت و رَخا  پر ہے ، اعدادِ حروف و مطابقتِ حرکات و سکنات کو کچھ دخل نہیں۔ اس کے بر خلاف عربی کا عروض ہے کہ اس میں محض مطابقتِ حرکات و سکنات و شمارِ حروف پر عروض کی بنا ہے ، شدّت وَرخائے لہجہ سے وزن میں کچھ خلل پیدا نہیں ہوتا۔ ہندی میں اکثر الفاظ کے آخر میں حروفِ علّت ہوا کرتے ہیں۔  انھیں حرفوں کے مد و قصر و حذف و وقف پر پنگل کی بنا ہے۔قواعدِ پنگل میں اردو زبان کے لیے البتہ ایک دشواری ہے کہ ان لوگوں کے لہجے میں بعض حروف مثل‘ لام‘  و  ’را ‘  وغیرہ کے ایسے خفیف اور مخلوط سے ہیں کہ ان حرفوں کا شمار حروفِ صحیح میں نہیں بلکہ ایک قسم کا اعراب سمجھتے ہیں ، بر خلاف اردو کے لہجے کے کہ ’لام‘  یا ’رے‘ کو مثلاً تقطیعِ شعر میں شمار نہ کریں تو وزن ہی باقی نہیں رہتا اتنا اثر عربی و فارسی کا اردو کے لہجے پر رہ گیا ہے۔ میرے مزعوم پر ایک دلیل یہ ہے کہتفحص و استقراء کے بعد الفاظ اردو کے اجزا چارطرح کے پائے جاتے ہیں اور خود الفاظ پندرہ قسم کے:۔

( ۱ ) پہلا حرف متحرک ، اور دوسرا ساکن۔۔ جیسے چَل ، سُن۔عروض کی اصطلاح میں اسے سببِ خفیف کہتے ہیں۔

( ۲ ) پہلا حرف متحرک اور اس کے بعد دو ساکن۔۔۔ جیسے بات ، زور ، شور ، ایک ، نیک وغیرہ۔ اس کو اصطلاح میں سببِ متوسّط کہتے ہیں۔

( ۳ ) پہلے دو حرف متحرک ، اس کے بعد ایک حرف ساکن۔۔۔ جیسے کہا ، سنا ، لیا وغیرہ۔ عروضی اسے وتدِ مجموع کہتے ہیں۔

( ۴ )     پہلے دو حرف متحرک ، اس کے بعد دو حرف ساکن۔۔۔ جیسے نشان ، مکان ، امیر ، وزیر ، حصول ، وصول وغیرہ ۔ شعرا اسے وتدِ کثرت کہتے ہیں۔ اردو میں جتنے کلمات جس جس زبان کے پائے ہیں اور محاورے میں داخل ہیں یا تو وہ انھیں چار چیزوں میں سے کسی جزو کے وزن پر ہیں ، جیسے :  تم  یاد کرو  مثال۔۔۔ اور  یا انھیں چاروں جزوں سے مرکب ہوتے ہیں ، مثلاً:۔

(۵ )  کسی کلمہ میں دو سببِ خفیف ہیں ، جیسے : ماتھا

( ۶ )         کسی میں تین سببِ خفیف ہیں ، جیسے : پیشانی

( ۷ )         کسی میں پہلا جزو سببِ خفیف ہے اور دوسرا متوسط ،جیسے :  رخسار

( ۸ ) کسی میں عکس اس کا ، جیسے : کالبد

( ۹ ) کسی میں دونوں سببِ متوسّط ہیں ، جیسے :  خاکسار

( ۱۰ )       کسی میں پہلا جزو وتدِ مجموع ، اور دوسرا سببِ خفیف ، جیسے :  مسرّت

( ۱۱ )       کسی میں عکس اس کا ، جیسے :  تہنیت

( ۱۲ )       کسی میں پہلا جزو وتدِ مجموع ، اور دوسرا سببِ متوسّط ، جیسے :  خریدار

( ۱۳ )       کسی میں دونوں جزو وتدِ مجموع ہیں ، جیسے :  موافقت

( ۱۴ )       کسی میں پہلا وتدِ کثرت ہے اور دوسرا سببِ خفیف ، جیسے :  نیاریا

( ۱۵ )       کسی میں عکس اس کا ہے ، جیسے : اعتبار          بس ،کلماتِ اردو کے یہی پندرہ  وزن ہیں۔ تم کہوگے :  غَلَبہ اور دَرَجہ بھی تو ایک وزن ہے۔ اور حَیَوان و جَوَلان بھی تو وزن ہے۔  نہیں ، ایسے الفاظ میں دوسرے متحرک کو ساکن کر کے بولتے ہیں ، یعنی وزن ان کا نا مانوس و ثقیل سمجھ کر مہنّد کر ڈالتے ہیں۔ اور جب دوسرا حرف ساکن ہو گیا تو غلبہ و درجہ پانچویں قسم کے وزن میں اور حیوان و جولان ساتویں قسم کے وزن میں داخل ہو گیا۔ اس وجہ سے کہ اردو کی زبان توالیِ حرکات کی متحمل نہیں ہے۔ اور اسی وجہ سے(۱ )  سببِ ثقیل اور ( ۲ ) وتدِ مفروق اور( ۳ )  فاصلہ اردو کے الفاظ میں نہیں پایا جاتا۔ یہ تینوں جزو الفاظِ عربی کے لیے مخصوص ہیں۔ جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ الفاظِ اردو کے اجزا چار ہی طرح کے ہیں اور سببِ ثقیل و وتدِ مفروق و  فاصلہ کبھی اردو میں جزوِ کلمہ نہیں واقع ہوتا ، اور یہ بھی تم سمجھ گئے کہ تمام زبان بھر میں الفاظ کے پندرہ ہی وزن ہیں جس میں کہیں توالیِ حرکات نہیں پائی جاتی تو اب  اوزانِ عروض پر لحاظ کرو۔

            مثلاً ایک وزن ہے : فَعِلُنْ  فَعِلُنْ  فَعِلُنْ  فَعِلُنْ۔ کہ یہ سارا وزن محض فواصل سے مرکّب ہے۔

            اور ایک وزن ہے : مُتَفَاعِلُنْ  مُتَفَاعِلُنْ  مُتَفَاعِلُن  ْ مُتَفَاعِلُنْ۔کہ اس کے ہر رکن میں توالیِ حرکات موجود ہے۔

            اسی طرح  اور ایک وزن ہے جس میں قصائد و غزلیات و واسوخت و مراثی بکثرت ہم لوگ کہا کرتے ہیں :  فَعِلَاتُنْ  فَعِلَاتُنْ  فَعِلَاتُنْ  فَعِلَاتُنْ  اس کے بھی ہر رکن میں توالیِ حرکات موجود ہے۔

            اب خیال کرو کہ ایسے ایسے اوزان میں جب ہم اردو کے الفاظ باندھیں گے تو ان الفاظ کی کیا گت ہوگی اور کن کن تکلفات سے اس میں توالیِ حرکات پیدا کرنا پڑے گی۔ یہی وجہ ہے کہ عمر بھر شعر کہوجب بھی ان  اوزان میں فی البدیہہ کہنے کی قدرت نہیں حاصل ہوتی بخلاف عرب کے کہ ان کو یہ اوزان طبعی معلوم ہوتے ہیں اور ان کا فی البدیہہ کہنا مشہور و معروف بات ہے۔

            غرض کہ غالبؔ سے شاعرِ منفرد نے عمر بھر مشق کر کے بھی ان اوزان پر قابو نہ پایا اور وزن غیر طبعی ہونے کے سبب سے دھوکا کھایا۔ اس رباعی کی شرح میں جو کچھ میں لکھ گیا ہوں وہ کتاب کے مختصات و سوانح  و اوقات و مغتنمات میں سے ہے ،     و ھذا ممّا تفردت بہ۔۔۔

سہرے کا بھلا لگناذوقؔ نے اس طرح کہا ہے     ؂

 سر پہ طرّہ ہے مزیّن تو گلے میں بدّھی

کنگنا ہاتھ میں زیبا ہے تو منہ پر سہرا

’ کنگنا ‘ اس طرح باندھا ہے کہ فاعلن کے وزن پر ہو گیا اور محاورہ یوں ہے کہ نون و گاف مخلوط ہو کر ایک حرف ہو جاتا ہے اور فعلن کے وزن پر بولتے ہیں۔ اسی طرح اردو میں اکثر الفاظ ہیں جن کے نظم کرنے میں شاعر کو تشویش پیدا ہوتی ہے۔ کنگنے سے بڑھ کر رنگنے میں بکھیڑا ہے کہ یہ ایک ہندی مصدر فارسی لفظ سے بنا لیا ہے۔ فیصلہ یہ ہے کہ رنگنے میں ،  اور اس کے مشتقات میں ، جہاں جہاں گاف ساکن ہو وہاں دونوں طرح بولنا اور نظم کرنا درست ہے۔

            اور جہاں گاف متحرک ہو جائے وہاں ایک ہی صورت بس درست ہے۔ آتشؔ مرحوم کے اس مصرع میں ، ع(  رنگریز بن کے فکر نے رنگے ہزار رنگ )، رنگے کا لفظ بہ سبب اظہارِ نون کے خلافِ محاورہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں نون کا مخلوط رکھنا واجب ہے اور دوسرا اعتراض ناسخؔ والوں کا اس مصرع پر یہ بھی ہے کہ رنگریز فارسی لفظ ہے ، اس میں نون کو محاورۂ عوام کی بنا پر مخلوط کر دینا خلاف ہے۔لفظ رنگریز میں محاورہ یہی ہے کہ نون و گاف دونوں مخلوط رہیں اور خلط نہ کرنا خلاف ہے۔      اسی طرح بنگلہ اور انگیا میں بھی خلط ضرور ہے اور نون کا ظاہر کرنا خلافِ محاورہ ہے اس سبب سے کہ یہ ہندی الفاظ ہیں لیکن بہت سے اور ہندی لفظ ہیں امنگ ، النگ ،پتنگ ، ڈھنگ وغیرہ کہ اس میں نون   و گاف دونوں لہجے میں ہیں۔   ان الفاظ کو اس طرح نظم کریں کہ نون و گاف ایک حرف ہو جائے تو غلط ہوگا۔غرض ہندی لفظوں میں محاورہ  و لہجہ پر مدار ہے۔ اور کنگنا محاورہ میں فعلن کے وزن پر ہے ، نہ فاعلن کے وزن پر۔

            میر وزیر علی صباؔنے صیدیہ مثنوی میں یہ مصرع کہاتھا ، ع۔۔۔ پھر آیا بہادر جنگ اس کو خطاب۔۔۔   اس پر نا موزوں ہونے کا اعتراض ان کے معاصرین نے کیاتھا کہ موزوں کر کے پڑھو تو نون کا کچھ پتا نہیں رہتا۔ اور صباؔ  سے کچھ جواب نہیں بن پڑا۔ مگر انصاف کرنا چاہیے کہ بہادر جنگ نام ہے ، اس کا ذکر شعر میں اہم اور ضروری ہے۔ اور جس وزن میں مثنوی ہے اس وزن میں بہادر جنگ کا لفظ بے نون کے گرائے ہوئے کسی طرح سے آ ہی نہیں سکتا ، وزن ہی اس کا متحمل نہیں ہے تو ایسے وقت میں شاعر کیا کرے گا سوا  اس کے کہ تصرّف کرے۔۔۔۔  یہ سچ ہے کہ ضرورتِ شعر کے لیے جو جو تصرف عرب کر جاتے ہیں فارسی و اردو والوں نے وہ سب تصرفات غیر مقبول و نا جائز قرار  دیے ہیں۔ لیکن یہاں تو ضرورتِ شعر سے بڑھی ہوئی ایک وجہ موجود ہے۔ معترضین سے ہم کہتے ہیں کہ بہادر جنگ کو وہی موزوں کر کے دکھا دیں۔ سوا اس کے کوئی جواب ان کے پاس نہیں ہے کہ، ع۔۔۔ ملا دو بہادر سے تم لفظِ  جنگ۔۔۔ بھلا اس طرح نام کو توڑ پھوڑ ڈالنا اورعَلَمکی ترکیب میں تصرف کرنا کیونکرجائز ہو سکتا ہے۔  پھر اس سے ہزار درجے وہی اچھا ہے کہ ایک ذرا سے نون کو گرا دیں ، جیسا  صبا  ؔنے کیا ہے۔

             اسی طرح علم میں سے  ’ ع  ‘  ،  ’  ہ  ‘  ،  ’ ح ‘  کا گرانا بھی بہتر ہوگا بہ نسبت تصرف کرنے کے۔ جیسے آقا طوباے شوستری نے یہ مصرع کہا ہے ، ع۔۔۔

                                    در زمانِ حضرتِ محبوب علی شاہِ دکن۔

شرحِ کلامِ غالبؔ از طباطبائی

گریہ نکالے ہے تری بزم سے مجھ کو

ہائے کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے

            یہ وزن مانوس اوزان میں سے نہیں ہے۔ اس وجہ سے کاتب نے اپنے وزنِ مانوس کی طرف پہلے مصرع کو کھینچ لیا ہے۔ اور سب نسخوں میں ’ تری ‘  بغیر ’ یا ‘ چھپا ہوا ہے ، لیکن اس میں قباحت ہے کہ دوسرا رکن فاعلاتُ ہونا چاہیے تھا۔ اس کی جگہ پر مفتعلن ہو جاتا ہے۔ تو ضرور ہے کہ’ تیری ‘ کہا ہوگا مصنف نے ، اور اس صورت میں و ز ن مستقیم رہتا ہے کہ ’ تیری ‘ میں سے آخر کی ’ ی ‘ کو گرا دیں اور درمیان کی ’ ی ‘ باقی رکھیں۔

            ( استدراک :۔ ’ بحر کا نام ہے منسرح مطوی منحور۔ ’ چراغِ سخن ‘ میں زحافِ نحر کا ذکر ہے۔ یہ اصطلاح  ’ میزان الافکار ‘  اور ’ حدایق البلاغت ‘میں نہیں ملی۔ مگر بات صحیح ہے۔ دوسروں نے کچھ اور نام رکھا ہے۔ اس بحر کی اصل دایرے میں مستفعلن مفعولات چار بار ہے۔ مستفعلن زحافِ طی سے مفتعلن ہو گیا اور مفعولات زحافِ نحر سے فع رہ گیا۔ اس طرح وزن مفتعلن فع پیدا ہوا۔ اس کا نام ہوا بحر منسرح مطوی منحور،غالبؔ کے مصرع :گریہ نکالے ہے تری بزم سے مجھ کو ‘ پرنظمؔطباطبائی نے اپنی شرح میں مفصل نوٹ لکھا ہے۔۔۔۔  مطلب ان کا یہ ہے کہ دوسرے رکن میں فاعلات ُپیدا کرنے کے لیے ’ تیری ‘ کی آخری ’  ی  ‘  گرا کر  ’ تے رِ  ‘  پڑھنا چاہیے۔  یعنی اس طرح تقطیع کرو۔گری ن کا۔۔۔۔۔۔۔۔! مفتعلن۔ لے ہ تے رِ ! فاعلاتُ ۔ بزم سے مجھ ! مفتعلن۔ کو ! فع’ تیری ‘  پڑھنے سے جو وزن پیدا ہوتا ہے وہ ’ مفتعلن مفتعلن مفتعلن فع ، منسرح کا وزن نہیں ہے۔ یہ سب ارکان رجز کے ہو جاتے ہیں۔ یہ وزن مانوس ہے ، خوش آیند ہے ، غلط نہیں معلوم ہوتا۔ مگر قباحت یہ ہے کہ ساری غزل تو بحرِ منسرح میں ہے اور اسی کا ایک مصرع بحرِ رجز میں ‘۔ (حبیب الرحمٰن الصدّیقی میرٹھی ، ’ مکاتیبِ حبیب ‘ ، مکتوب بنام ذکاؔ صدّیقی ،ص ۸۴ )

 ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے

ہے اک شکن پڑی ہوئی طرفِ نقاب میں

            لکھنؤ اور دہلی کی زبان میں جو بعض الفاظ میں فرق ہے ان میں سے ’ تیوری ‘ کا لفظ بھی ہے۔ مصنف نے زبانِ دہلی کے موافق اسے موزوں کیا ہے اور لکھنؤ میں ’  ی  ‘ کو ظاہر نہیں کرتے۔ یعنی دہلی میں ’تیوری ‘ فاعلن کے وزن پر ہے اور لکھنؤ کی زبان میں فعلن کے وزن پر ہے۔

دی سادگی سے جان ، پڑوں کوہکن کے پانو

 ہیہات کیوں نہ ٹوٹ گئے پیر زن کے پانو

            کسی کی مصیبت پر جوشِ محبت میں کہتے ہیں کہ : ہے ہے ، میں اس کے  پاؤں پڑوں۔ اور یہ بڑے محاورے کا لفظ ہے۔ اور التجا کے لیے تو پاؤں پڑنا مشہور بات ہے۔ اس شعر میں مرزا صاحبؔ ہیہات کا لفظ ضلع کا بول گئے ہیں مگر کیا کرتے ، مصرع میں ایک رکن کم پڑتا تھا۔

  بتا ؤ اس مژہ کو دیکھ کر کہ مجھ کو قرار

 یہ نیش ہو رگِ جاں میں فرو تو کیونکر ہو

            اردو کے مذاق میں مژہ کی ’  ہ  ‘ کا گرنا برا معلوم ہوتا ہے۔ مصنف نے یہاں فارسی گویوں کا اتباع کیا ہے اس شعر میں نہایت تعقید ہے۔ اس کو نثر میں یوں کہیں گے کہ اس کی مژہ دیکھ کر یہ بتاؤ کہ ایسے نشتر رگِ جاں میں فرو ہوں تو قرار مجھ کوکیونکرہو۔

نشو و نما ہے اصل سے غالبؔ فروع کو

 خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے

            ’  خاموشی ‘ کی ’  ی  ‘ وزن میں نہیں سماتی۔ اس سے مصنف کا یہ مذہب ظاہر ہوتا ہے کہ فارسی لفظ کے بھی آخر میں سے نظمِ اردو میں حروفِ علّت کا گر جانا وہ جایز سمجھتے تھے۔ مگر سارے دیوان بھر میں ’’الف‘‘ کو یا ’’واو‘‘ کو مصنف نے لفظ فارسی سے نہیں گرنے دیا ہے۔

ہے وصل ہجر ، عالمِ تمکین و ضبط میں

 معشوق شوخ و عاشق دیوانہ چاہیے

             اگر اس( دوسرے ) مصرع کو دونوں اضافتیں چھوڑ کر پڑھیں تو مصرع جب بھی موزوں رہے گا، یعنی ’’فاعلاتُ مفاعیل‘‘ کی جگہ ’’ فاعلاتن مفعول ‘‘ آ جائے گا۔

 ہر چند ہر ایک شے میں تو ہے

 پر تجھ سی تو کوئی شے نہیں ہے

            ’ سی ‘ معنیِ تشبیہ کے لیے ہے یعنی تو تشبیہِ جسمانیات سے منزّہ ہے۔ سی کی ’  ی ‘  جس جگہ واقع ہوئی ہے یہ مقام حر فِ متحرک کا ہے، یعنی مفعولُ مفاعلن فعولن میں مفاعلن کے میم کی جگہ ’  ی ‘ واقع ہوئی ہے۔ او ر ’  ی ‘ ساکن ہے۔ تو گویا کہ مفاعلن کے میم کو مصنف نے ساکن کر لیا ہے۔ یعنی مفعولُ مفاعلن کے بدلے مفعولم فاعلن اب ہو گیا ہے جسے مفعولن فاعلن سمجھنا چاہیے۔ یہ زحاف گو اردو  فارسی میں نا مانوس معلوم ہوتا ہے مگر سب لایا کرتے ہیں۔ نسیمؔ لکھنوی کی مثنوی اسی وزن میں ہے اور جا بجااس زحاف کو لائے ہیں۔

  شاد دل شاد ، و شادماں رکھیو

 اور غالبؔ پہ مہرباں رکھیو

               رکھنا کے مقام پر رکھیو ابھی تک محاورے میں جاری ہے بلکہ فصحا کی زبان ہے۔ مونس  ؔ کہتے ہیں    ؂

 دیجو نہ سرکشوں کو ا ماں ،اے دلاورو

ا عدا سے چھین لیجو نشاں اے دلاورو

جیتے نہ پھریو ، صدقے ہو ماں اے دلاورو

جانوں پہ کھیل جائیو ہاں اے دلاورو

 میری تمھیں میں جان ہے گو بے حواس ہوں

  تم مڑ کے دیکھ لو کہ میں پردے کے پاس ہوں

پانچویں مصرع میں ’ ہے ‘ کے بعد ’ گو ‘  اور پھر ’ ے ‘ تقطیع میں گر گئی ، نہایت مکروہ لفظ پیدا ہوتا ہے۔ مونس  ؔ مرحوم سے بعید ہے۔  چوک جانے کی وجہ غالباً یہ ہوئی ہے کہ میر انیسؔ کے طرز میں پڑھتے وقت پانچویں مصرع کے درمیان میں ضرور وقف کیا کرتے ہیں اور جب  ’ ہے  ‘  پر وقف کر دو تو پھر نظر چوک جاتی ہے اور تقطیع میں جو قباحت ہو گئی ہے وہ چھپ جاتی ہے۔

قافیہ و ردیف

صرف ۱ُن چند اصطلاحات کامختصر تعارف جو تشریح کے دوران میں استعمال ہوئی ہیں

 

قافیہ :

            اصطلاحِ شاعری میں ایسے کلمات ایک دوسرے کا قافیہ کہلاتے ہیں جو متشابہ الاواخر ہیں ، جیسے: در اور بر ؛ چبانا اور دبانا ؛ کھولنا اور بولنا ؛ سردی اور زردی۔ جبر کا قافیہ صبر ہوگا لیکن فخر اور بکر نہیں ہوگا کیونکہ تشابہ مفقود ہے۔

حرفِ روی:

              قافیوں کا دارو مدار جس حرف پر ہوتا ہے اسے  ’روی‘ کہتے ہیں۔ در  اور  بر میں  ’  ر ‘  جوقافیے کے آخر حروف ہیں ، حروفِ اصلی ہیں ، اور مکرر آتے ہیں۔یہ ’  ر  ‘ حرفِ روی ہوئی۔  اسی طرح چبانا اور دبانا میں ’ انا‘  توزائد حروف ہیں لیکن  چب اور دب کی ’ ب ‘  حرفِ روی ہے۔ کھولنا اور بولنا میں ’ نا ‘  حروفِ زائدہ اور  ’ لام ‘  حرفِ روی ہے۔

قافیۂ معمولہ:

              بوستان اور ہندوستان میں ’ واو ‘ حرفِ روی ہے ،ما بعدِ روی چار حروف زائد ہیں۔ لیکن بوستاں کے ساتھ دوستاں کا قافیہ درست نہیں ہوگا۔ اسے قافیۂ معمولہ کہتے ہیں کیونکہ بوستاں میں   ’ واو ‘  اور دوستاں میں  ’ ت ‘  روی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ تکرارِ روی میں خلل آگیا ، اور اسے عیوبِ قافیہ میں شمار کرتے ہیں۔قافیۂ معمولہ کی دو قسمیں ہیں :۔

(۱ )قافیۂ معمولہ ترکیبی :

             ایک کلمے کے ساتھ دوسرا کلمہ بڑھا کر قافیہ بنانا۔ مثلاً پروانہ ہوا ، دیوانہ ہوا کے ساتھ  اچھانہ ہوا۔

( ۲ ) قافیۂ معمولہ تحلیلی:

             ایک لفظ کے دو ٹکڑے کریں ، پہلے کو داخلِ قافیہ کریں اور دوسرے کو ردیف میں شامل کر دیں ،مثلاً    ؂

 لپٹ جاتے ہیں وہ بجلی کے ڈر سے

 الٰہی ، یہ گھٹا دو دن تو برسے

۔۔۔ڈر سے  اور برسے قافیۂ معمولہ تحلیلی ہیں۔

توجیہ:

            حرفِ روی سے پہلے جو حرکت ( زیر ، زبر یا پیش ) ہوتی ہے اسے توجیہ کہتے ہیں۔اس حرکت کا اختلاف ناجائز ہے ، اسی کو اختلافِ  توجیہ کہتے ہیں ،۔نیز اسی عیب کو اقوا بھی کہتے ہیں۔ مثالیں : دِل کا قافیہ گُل، طُول کا قافیہ ہَول ، دَشت کا قافیہ زِشت  وغیرہ۔

ایطا:

            ہم جان چکے ہیں کہ روی حروفِ اصلی کا آخر ، اور زائد حروف سے پہلے ہوتا ہے۔  چنانچہ  ’ حاصلات ‘ اور ’واقعات‘  میں سے زائد حروف ،یعنی(  ’ات ‘ ) نکال دیں تو ’ حاصل‘  اور  ’ واقع ‘  باقی رہتے ہیں ،ظاہر ہے کہ یہ قافیہ نہیں ہیں۔اسی کو ایطا کہتے ہیں۔ اس کے بر خلاف ’حاصلات‘  اور ’فاضلات ‘ میں ’ل ‘ روی ہے۔ زوائد کو حذف کرنے کے بعد حاصل اور فاضل باقی رہتے ہیں اور یہ قافیہ ہیں ، اس لیے اس میں ایطانہیں ہے۔

 

            ایطا کی دو قسمیں ہیں :۔

( ۱ )    ایطاے خفی: جب متحد المعنی کلمۂ آخر کی تکرار بظاہر معلوم نہ ہو تو وہ ایطاے خفی ہے۔ جیسے:  دانا اور بینا ، حیراں اور سر گرداں ، آب اور گلاب۔

( ۲ )    ایطاے جلی: جب متحد المعنی کلمۂ آخر کی تکرار صاف ظاہر ہو تو وہ ایطاے جلی ہے۔ جیسے: درد مند اور حاجت مند میں کلمۂ  ’ مند ‘  یا جانا اور رونا میں کلمۂ  ’ نا ‘  یا ستمگر اور دادگر میں ’ گر ‘۔ اگر ان آخری کلمات کو الگ کر دیں تو قافیہ باقی نہیں رہتا۔زائد حروف کو اصلی حروف کے ساتھ قافیہ کرنا ہی قافیۂ شائگاں ہے۔ دیگر مثالیں : دلیران اور مردمان کو  جان  اور  زمان کے ساتھ قافیہ کرنا ؛ آہنین اور رنگین کو نسرین اور چین کے ساتھ قافیہ کرنا ، وغیرہ۔

ردیف۔:

            اصطلاحِ شاعری میں وہ کلمۂ مستقل ردیف کہلاتا ہے جو آخرِ مصرع میں قافیے کے بعد آتا ہے۔ردیف کا ایک ہی معنی میں مستقل لفظ کی حیثیت سے ہونا ضروری ہے ورنہ اس پر قافیے کا اطلاق  ہوجائے گا۔تاہم صرف تکرارِ لفظی ضروری ہے ، تکرارِ معنی لازم نہیں مثلاً غالبؔ کے یہ دو شعر دیکھیے:

وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں رو شناسِ خلق اے خضر

نہ تم کہ چور بنے عمرِجاوداں کے لیے

گدا سمجھ کے وہ چپ تھا ، مری جو شامت  آے

اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے

دونوں شعروں میں ردیف دو مختلف معنوں میں آئی ہے۔

            شعر میں ردیف کا لانا ضروری نہیں ، لیکن قافیے کا ہونا ضروری ہے۔گویا قافیہ رکنِ شعر ہے اور ردیف مستحسنات میں ہے۔ فارسی اور اردو میں ردیف تال اور سَم کا کام دیتی ہے۔ جس طرح راگ میں تال نہ ہو تو بد مزہ ہے ، یہی حالت اردو شعر کی ہے۔ البتہ ردیف کے التزام کے لیے بہت بڑا قادر الکلام ہونا ضروری ہے۔ ورنہ ردیف کے التزام کے ساتھ آمد اور بے ساختگی قائم نہیں رہتی ، لیکن اگر یہ خوبی ہاتھ سے نہ جانے پائے تو ردیف سے شعر چمک جاتا ہے۔

 

            مندرجۂ بالا معلومات اِن کتابوں سے اخذ کی گئی ہیں :۔

             تلخیصِ عروض و قافیہ مؤلفۂ علّامہ نظم طباطبائی

             جانِ سخن  مؤلفہ مولوی سید غضنفر حسین عروجؔ بھرتپوری

             میزانِ سخن  مؤلفۂ حمیدؔ عظیم آبادی

            موازنۂ انیسؔ و دبیرؔ مؤلفۂ مولانا شبلی نعمانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شرحِ کلامِ غالبؔ از طباطبائی

شور پند ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا

 آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا

ؒ         مزہ اور شور، . نمک کے مناسبات میں سے ہیں۔ مصنف نے ’مزہ ‘ کو قافیہ کیا اور ہاے مختفی کوالف سے بدلا۔ اردو کہنے والے اس طرح کے قافیے کوجائزسمجھتے ہیں وجہ یہ ہے کہ قافیہ میں حروفِ ملفوظہ کا اعتبار ہے۔ جب یہ  ’ہ ‘  ملفوظ نہیں  بلکہ  ’ز‘  کے اشباع سے الف پیدا ہوتا ہے تو پھر کون مانع ہے اسے حرفِ روی قرار دینے سے۔ اسی طرح سے فوراً  اور دشمن قافیہ ہو جاتا ہے گو رسم خط اس کے خلاف ہے۔ لیکن فارسی والے مزہ اور دوا کا قافیہ نہیں کرتے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ ہاے مختفی کو کبھی حرفِ روی ہونے کے قابل نہیں جانتے۔

 دل گذر گاہِ خیالِ مے و ساغر ہی سہی

 گر نفس جادۂ سر منزلِ تقویٰ نہ ہوا

            تار اور رشتہ اور خط اور جادہ نفس کے تشبیہات میں سے ہے۔قافیہ ’تقوےٰ ‘ میں فارسی والوں کا اتباع کیا ہے کہ وہ لوگ عربی کے جس جس کلمے میں ’ی ‘ دیکھتے ہیں اس کو کبھی الف اورکبھی ’ی‘ کے ساتھ نظم کرتے ہیں۔ تمنی و تمنیٰ ،  تجلی وتجلّیٰ،  تسلی وتسلّٰی،  ہیولی و ہیولیٰ اور  دنیی و دنیا بکثرت ان کے ٖکلام میں موجود ہے۔

   رہ  زنی ہے کہ دل ستانی ہے

لے کے دل ، دل ستاں روانہ ہوا

            ’ روانہ ‘ میں ’روا ‘ قافیہ ہے اور ’ نہ ‘  جزوِ ردیف تھا جو یہاں لفظ ’ روانہ ‘ کا جزو واقع ہوا ہے۔ اصطلاح میں ایسے قافیے کو قافیۂ معمولہ کہتے ہیں۔ قواعدِ قافیہ میں اسے عیب لکھتے ہیں لیکن اب تمام شعرا اسے صنایع لفظیہ میں جانتے ہیں اور بے تکلف استعمال کرتے ہیں۔ حق یہ ہے کہ قافیۂ معمولہ سے شعر سست ہوجاتا ہے۔ نیز دیکھیے:

کہوں کیا خوبیِ اوضاعِ ابنائے زماں غالب

            بدی کی اُس نے ، جس سے ہم نے کی تھی بار ہا  نیکی  ( ص۱۴۴)

 یہ غزل اپنی مجھے جی سے پسند آتی ہے آپ

ہے ردیفِ شعر میں غالبؔ ز بس تکرارِ دوست

            جو لفظ کہ آخرِ شعر میں قافیے کے بعد مکرر آئے اسے ردیف کہتے ہیں۔ قافیوں میں باہم دگر تشابہ ہوتا ہے اور ردیف میں تکرار ہوتی ہے اور قافیہ رکنِ شعر ہے اور ردیف مستحسنات میں ہے۔ عرب و فارس و ہند میں شعرا تعریفِ شعر میں کلامِ موزوں کو مقفّیٰ کہتے ہیں اور اہلِ منطق کلامِ مخیّل کو شعر کہتے ہیں خواہ وزن و قافیہ نہ ہو۔ شعرا کی اصطلاح میں ہر کلامِ موزوں با قافیہ شعر ہے خواہ تخییل نہ ہو۔ وجہ اختلاف کی یہ ہے کہ منطق یونانی سے ترجمہ ہوئی ہے اور یونانیوں میں شعر کے لیے قافیہ ضرور نہ تھا اور اگر تخییل میں وزن ہے تو اسے شعر سمجھے اور جو وزن نہ ہو تو قضیۂ شعر کہتے تھے۔ ہند و ایران کے شعرا وزنِ بے قافیہ کو نثرِ مرجّز کہتے ہیں۔

حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے

 آخر گناہ گار ہوں ، کافر نہیں ہوں میں

            لفظ ’ کافَر ‘ میں اہلِ زبان ’ ف ‘ کو زیر پڑھتے ہیں لیکن عجم کا محاورہ زبر ہے۔ اسی سبب سے اس کو ساغر کے ساتھ قافیہ کرتے ہیں۔ ایک یہ لفظ اور ایک لفظ ’ ظاہر ‘ کو قا آنیؔ  نے ’ساغر ‘ کے ساتھ قافیہ کیا ہے اورروی  ( یعنی رے ) متحرّک ہے اور اسی طرح ایک شعر یہ مشہور ہے۔

 آدمی را آدمیت لازم است

 عود را گر بو نباشد ہیزم است

 اس شعر میں بھی میم جو کہ حرفِ روی متحرک ہے اس سے یہ استنباط نہ کرنا چاہیے کہ جہاں روی متحرک ہو جائے وہاں اختلافِ توجیہ یعنی حرکت     ما قبلِ روی کا اختلاف درست ہے اور یہ بھی خیال نہ کرنا چاہیے کہ ضرورتِ قافیہ کے لیے مکسور کو مفتوح کر لینا درست ہوگا بلکہ یہی الفاظ مخصوص سمجھنا چاہیے اس حکم کے لیے۔

 مجھے جنوں نہیں غالبؔ ولے بقولِ حضور

’ ’ فرا قِ یار میں تسکین ہو تو کیونکر ہو ‘‘

            دوسرا مصرع حضور(بہادر شاہ ظفرؔ) کا ہے اور زمین فرمایشی ہے جس میں قافیہ ندارد۔ مصنف نے کمال کیا کہ اس زمین میں فرمایش کو پورا کیا لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ استادِ کامل کے لیے سب کچھ روا ہے ورنہ  ’ گفتگو ‘  اور  ’ کہو ‘  اور  ’ دو ‘  اور  ’ دیدار جو ‘  اور  ’ غالیہ مو ‘  وغیرہ قافیوں سے احتراز کرنا بہتر ہے۔

نکتہ چیں ہے ، غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے

کیا بنے بات جہاں  بات  بنائے نہ بنے

            اس مطلع کے قافیے ’ سنانا ‘ اور ’ بنانا ‘ کو ایطا کہتے ہیں اس وجہ سے کہ دونوں لفظوں میں الف زاید ایک ہی طرح کا ہے۔ یعنی معنیِ تعدیہ کے لیے ہے اور ساری غزل میں ستائے نہ بنے ، اور آئے نہ بنے ، اور بلائے نہ بنے کے سب قافیے شائگاں ہیں یعنی سب میں الف تعدیہ ہے۔ حاصل یہ کہ ساری غزل بھر میں چارہی قافیے ہیں جس میں ایک شائگاں ہے جو سات جگہ بندھا ہے۔

 دل  لگاکر آپ بھی غالبؔ مجھی سے  ہو گئے

 عشق سے آتے تھے مانع میرزا صاحَب مجھے

            آپ بھی یعنی وہ خود بھی۔ ’ آپ ‘ یہاں محل خطاب میں نہیں ہے۔ میرزا صاحب طعن سے غالبؔ کو کہا ہے۔ یہاں مصنف نے ’ صاحب ‘ کو’ مطلب ‘  کا قافیہ عام محاورے کی بنا پر کیا ہے کہ محاورے میں  ’ ح ‘  کومفتوح بول جاتے ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ عربی وفارسی لفظوں میں محاورۂ عام کا تتبع کرنا خطا ہے ، نہیں تو یہ مصرع بھی درست ہو جائے گا ، ع۔۔   سَخَت دل کو اپنے نَرَم کیجیے۔  تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس شعر کو مصنف نے اپنا قول نہیں قرار دیا ہے  بلکہ دوسرے شخص کی زبانی ہے اور شوخی یہ کی ہے کہ اس کا کلام بعینہ نقل کر دیا ہے۔ ورنہ غالبؔ پر یہ گمان کرنا کہ لفظ  ’ صاحب ‘ کے کسرہ سے ناواقف تھے خطا ہے۔ البتہ فارسی دیوان میں یہ شعر مصنف کا    ؂

  نامہ بنازد بہ خویش ، کز اثرِ فیضِ مدح

 نقطہ ز بس روشنی تابشِ نیّر گرفت

اختر گرفت ، و اخگر گرفت کی زمین میں کوئی تاویل عیبِ اقوا سے بری ہونے کی نہیں رکھتا ، اس سبب سے کہ اور سب قافیوں میں حرکتِ توجیہ زبر ہے۔ اور ’  نیّر‘  میں زیر ہے۔ اساتذہ. اہلِ زبان جو عربی داں گذرے ہیں انھیں ایسا دھوکا ہو جائے ممکن نہیں۔ ہاں جو زبانِ عربی سے نا آشنا ہیں اگر ان کے کلام میں نےّر کہیں اختر کے ساتھ آ بھی گیا ہو تو قابلِ استناد نہیں ہو سکتا اس سبب سے کہ عربی میں لفظِ عجم کا تصرف نامقبول ہے سوا چند محاوروں کے کہ وہاں حکم عجمہ پیدا ہو گیا ہے ، جیسے کافر ہے۔

            ( استدراک:۔ ’ مولانا نجم الغنی خاں نے بحر الفصاحت۔ ص ۲۵۵ ) میں لکھا ہے :ِِ توجیہ کے اختلاف کا نام اقوا ہے۔جیسے  ’گل‘  کا قافیہ  ’چل‘  بالفتح سے کر نا۔ اور یہ عیوبِ قافیہ میں شمار ہوتا ہے۔ اس طرح کا قافیہ لانا ناروا ہے جیسے عندلیبِ عجم ،  مرزا غالبؔ کے کلام میں ایک جگہ واقع ہوا ہے۔ لکھتے ہیں : عشق سے آتے تھے مانع میرزا صاحب مجھے۔ لفظ۔۔۔۔... صاحب کی حاے حطی باعتبار قواعدِ صرف کے مکسور ہے او ر  ’ لب  ‘  ’ یا رب ‘  میں  لام  اور  رے  مفتوح۔(لب اور یا رب اس غزل کے دیگر قوافی ہیں۔۔ذکا ) ...اور راقم نے ( ۱۳۰۲ ھ میں ) نواب مرزا خاں صاحب داغؔ سے اس باب میں استفسار کیا تو جواب دیا کہ غالبؔ نے مقولۂ غیر بیان کیا ہے ، اور مثال میں یہ شعر ناظم   ؔ کا پڑھا   ؂ 

غلطی غیر کی گفتار کی دیکھی ناظم

 واں میں جاتا ہوں تو کہتا ہے:  نواب آتے ہیں  

اور حق یہ ہے کہ اب روز مرّہ. اردو میں ’ صاحب‘  اعلام  کے ساتھ بفتحِ حاے حطّی بیشتر مستعمل ہے۔ ہم کو اس سے کیا مطلب کسی زبان میں کچھ ہو۔۔۔ جو الفاظ ہم لوگوں کی زبان پر جاری ہوں گے ، وہ  ہی صحیح سمجھے جاویں گے۔ ہاں ، جس وقت عربی عبارت میں لکھیں ، یا تلفظ کریں ، اس وقت ان کی زبان کی پابندی لازم ہے۔ البتہ صحتِ لفطی ضرور ہے۔       ( بہ حوالہ نسخۂ عرشی ، ص ص ۲۷۳  و ۲۷۴ )

 آمدِ سیلاب طوفانِ صدائے آب ہے

 نقشِ پا جو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے

            اس مصرع میں : نقشِ پا جو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے۔۔۔ یہ ضرور ہے کہ’ دال ‘کو زیر دیں اور ’ جادے سے ‘ کہیں۔ اس لیے کہ سے ، میں ، پر ، تک ، کو ، نے ، کا ، یہ سات حروفِ معنویہ زبان اردو میں ایسے ہیں کہ جس لفظ میں ہاے مختفی ہو اسے زیر دیتے ہیں۔ غرض کہ اس مصرع میں تو ’ جادہ ‘ کی دال کو زیر ہے ، اور اس کے بعد کا جو شعر ہے اس میں  کہتے ہیں ، ع    شیشے میں نبض پری پنہاں ہے موجِ بادہ سے۔۔۔۔یہاں بادہ اضافتِ فارسی کی ترکیب میں واقع ہے اور موج کا مضاف الیہ ہے۔ اب اس پر ترکیبِ اردو کا اعراب یعنی  ’ سے ‘ کے سبب سے زیر نہیں آ سکتا۔ اس لیے کہ اگر ’ موجِ بادے سے ‘ اسے پڑھیں تو یہ قباحت ہوگی کہ لفظ ’ بادہ ‘ میں ہندی تصرف کر کے اور اسے ہندی لفظ بنا کر ترکیب اضافت فارسی میں داخل کیا ،   بعینہ جیسے کو ئی کہے ’ عشقِ بتوں میں یہ حال ہوا ‘۔ اور یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کیونکہ لفظ ’ بت ‘ میں ہندی تصرف کیا ہے اور ہندی جمع کی علامت اس میں بڑھائی ہے۔ اب وہ ہندی لفظ ہو گیا۔ پھر ہندی لفظ کی طرف عشق کی اضافت کیونکر درست ہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ ’ سے ‘  کا عمل اگر ہے تو لفظِ موج پر ہے یعنی مطلب یہ ہے کہ     ’  موج سے بادہ کی ‘۔ پھر ’ سے ‘  کے سبب سے بادہ کی دال کو زیر کیوں ہونے لگا۔ غرض کہ جادہ کی دال کو زیر ہے اور بادہ کی دال کو زبرہے اورقافیے تہ و بالا ہیں۔ اگر یوں کہو کہ ہم  بادہ اور جادہ  کی  ’ ہ ‘  کو حرفِ روی لیتے ہیں تو اختلافِ توجیہ کے علاوہ ایک عیب یہ پیدا ہوگا کہ شعر بے قافیہ کے رہ جائے گا ، اس سبب سے کہ  ’ و ‘  وزن سے گرگئی ہے۔ جیسے حکیم مومن خاں صاحب  ایک مثنوی میں دونوں کے باہمدگر عاشق ہو جانے کے بیان میں کہتے ہیں    ؂

 اس کا ہوش اپنے رنگ کا پیرو

اپنا  صبر اس کے رنگ کا پیرو

اس شعر میں ’  اس کے ‘  اور  ’ اپنے ‘ کو قافیہ کیا ہے اور حرفِ روی یعنی ’ ے ‘  وزن میں نہیں سماتی۔ اب   ’  اسک  ‘  اور  ’  اپن  ‘ قافیے کی جگہ رہ گیا۔ میر حسنؔ نے بھی یہ دھوکا کھایا ہے    ؂  

 تو کہنے لگی مسکرا اس کو وہ

گرا اس طرف سے قدم پر جو وہ

 ہمیں پھر ان سے امید اور انھیں ہماری قدر

 ہماری بات ہی پوچھیں نہ وو تو کیونکر ہو

            یعنی ہمیں امید کیونکر ہو اور انھیں قدر کیونکر ہو۔ بندش میں تعقید ہے اور ’ وہ ‘ کی ’ ہ ‘ کو قافیے کے لیے  وا و  بنا  لیا ہے اس لیے کہ یہ ’ ہ ‘ تلفظ میں نہیں ہے بلکہ اظہارِ حرکتِ ما قبل کے لیے ہے جیسی  ’ ہ  ‘  لالہ و ژالہ و نہ و کہ وغیرہ میں ہے تو دوسر ا واو محض اشباعِ حرکت سے پیدا ہو ا ہے اور وہی یہاں حرفِ روی ہے جس طرح دریا کا قافیہ ’ لا ‘ کریں اورحرکتِ لام کے اشباع سے جو الف پیدا ہو وہی حرفِ روی قرار دیں۔ لیکن میرؔ کی زبان پر  ’ وہ ‘  کا لفظ بفتحِ واو تھا۔ اور ’  ہ  ‘  ملفوظ تھی۔ یہ شعر ان کا شاہد ہے    ؂

کہتا ہے کون تجھ کو یاں یہ نہ کر تو وہ کر

 پر ہوسکے تو پیارے دل میں بھی ٹک جگہ کر

 

کہوں کیا خوبیِ اوضاعِ ابنائے زماں ، غالب ؔ

 بدی کی اس نے جس سے ہم نے کی تھی بارہا نیکی

            اس غزل کے سب شعروں میں ’ کی‘ جز وِردیف تھا اور اس شعر میں جزوِِ قافیہ ہو گیا ہے۔ قواعدِ قافیہ میں اس قسم کے قافیے کو معمول کہتے ہیں اسے عیوبِ قافیہ میں شمار کیا ہے۔  ( اس سے پہلے صفحہ۱۳۹  پر یہی عیب مصرع:  لے کے دل ، دل سِتاں روانہ ہوا۔۔۔ میں ملاحظے سے گذر چکا ہے۔) لیکن شعراے تصنّع پسند اسے ایک صنعت سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اہلیؔ شیرازی نے ساری مثنویِ ’سحر حلال‘ میں ہر ہر شعر میں قافیۂ معمولہ کا بھی التزام کر لیا ہے۔ اور اسی طرح مفتی میر عباس مغفور نے عربی کی مثنوی  ’ مرصع ‘  میں قافیۂ معمولہ کی قید کو لازم کر لیا ہے۔

 وفائے  دلبراں ہے اتّفاقی  ، ورنہ  اے ہمدم

 اثر  فریادِ  دلہائے حزیں کا کس نے دیکھا ہے

            اس شعر میں ’ دیکھا ‘ قافیۂشائگاں ہے  یعنی الف اصلی نہیں ہے بلکہ علامتِ فعلِ ماضی ہے۔ اسے مفت کا قافیہ کہتے ہیں اور سست سمجھتے ہیں۔

 

بے طلب دیں تو مزہ اس میں سوا ملتا ہے

 وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال  اچّھا ہے

            غزل اور قصیدے میں اس کا خیال رکھنا اچّھا ہے کہ مطلع کے بعد پھر دونوں مصرعوں میں ایسا تشابہ نہ ہونے پائے جیسا مصنف کے اس شعر میں ہو گیا ہے کہ جس نے اور شعر نہ سنے ہوں وہ مطلع سمجھے اسے بھی۔یعنی ’ ملتا ‘ اور ’ اچّھا ‘ یہ دونوں لفظ قافیہ معلوم ہوتے ہیں اور ’ ہے ‘ ردیف۔ جس کو مذاقِ صحیح ہے وہ ضرور اس نکتے کی قدر کرے گا کہ اس سے شعر کی بندش میں سستی پیدا ہوتی ہے اس وجہ سے کہ مطلع کے بعد دونوں مصرعوں کا مبا ین ہونا شرط ہے اور اس میں شک نہیں کہ زمین کے اعتبارسے اس شعر میں بھی مباینت بقدرِ کافی ہے۔ لیکن اگر اتنی مشابہت بھی نہ ہوتی تو اور بھی اچھا تھا۔

 

 

 

(قصائد)

 

 

  مجھ پہ فیضِ تربیت سے شاہ کے

 منصبِ مہر و مہ و محو ر کھلا

            اس شعر میں ’ اختر ‘ کو چھوڑ کر ’ محور ‘  قافیہ لائے ہیں ، بے لطف و بے ربط معلوم ہوتا ہے اس سبب سے کہ محور اجرام و اجسام میں سے کوئی شے نہیں ہے بلکہ ایک فرضی و موہومی لکیر کا نام اہلِ ہیئت نے محور رکھ لیا ہے۔ یعنی کرۂ متحرکہ کے درمیان میں ( کذا ) جو ایک ساکن لکیر قطبینِ کرہ کے بیچ میں موہوم ہوتی ہے وہ لکیرمحور ہے۔ بھلا اس کو مہر و ماہ کے ساتھ کیا ربط ہے۔ لیکن مصنف کو مناسبتِ لفظی جومہ و مہر و محور میں ہے باعث ہوئی کہ اسی کو قافیہ بنایا۔

 

 ہات سے رکھ دی کب ابرو نے کماں

کب کمر سے غمزے کے خنجر کھلا

             اس شعر میں ہاتھ کو ہات لکھا ہے۔ یہ فقط اپنی بات کی پچ ہے کہ رات اور ذات کے ساتھ جو ہاتھ کو قافیہ کر دیا ہے تو محض اس کے نباہنے کے لیے رسمِ خط ہی بدل دیا۔ اہلِ لکھنؤ اور تمام اردو زبان والے ہاتھ ہی لکھتے ہیں اور ہاے مخلوط کو تلفظ میں داخل سمجھتے ہیں۔ اور بات اور سات کے ساتھ اس کا قافیہ غلط سمجھتے ہیں ، بلکہ ہاتھ کا قافیہ ساتھ لاتے ہیں۔

            (استدراک :۔  نسخۂ عرشی میں ’ ہات ‘ کے بجاے ’ ہاتھ ‘ ہے ، اور دوسرے مصرع  میں ’ کی ‘   بجاے ’ کے ‘ ہے۔)

 

(قطعہ)

پیچھے ڈالی ہے سرِ رشتۂ اوقات میں گانٹھ

 پہلے ٹھونکی ہے بنِ ناخنِ تدبیرمیں کیل

ہندی قافیہ کس حسن سے باندھا ہے۔

 قبلۂ کون و مکاں ، خستہ نوازی میں یہ دیر

 کعبۂ امن و اماں ، عقدہ کشائی میں یہ ڈھیل

            اسی قطعے میں یہ دوسرا ہندی قافیہ کیا ہے۔ عقدہ کشائی سے ڈھیل دینے کو کس قدر مناسبت ہے کہ تعریف نہیں ہو سکتی یعنی یہ سچ ہے کہ بے ڈھیل دیے گرہ نہیں کھل سکتی لیکن اس قدر ڈھیل کوئی دیتا ہے ؟

مصرع لگانے کا فن

علّامہ نظمؔ طباطبائ نے  غالبؔ کے دو ا شعار    ؂

آتا ہے میرے قتل کو ،پَر  جوشِ رشک سے

مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار  دیکھ کر

اور   ؂                     لکھتے  رہے جنوں کی  حکایاتِ خوں  چکاں

ہر چنداس میں  ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

کی شرح کے ذیل میں مصرع لگانے کے فن پر الگ  الگ بہت تفصیلی گفتگو فرمائی ہے ۔  اس کی افادیت کے پیشِ نظران دونوں مضامین کویکجا کر کے یہاں ایک مستقل مقالے کی حیثیت سے نقل کیا جا رہا ہے۔۔۔ ذکا صدّیقی )

ارشادات طباطبائی

آتا ہے میرے قتل کو ،  پَر جوشِ رشک سے

 مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر

            دوسرا مصرع اس مضمون کو مانگتا ہے کہ وہ اس ادا سے میرے قتل کو آتا ہے کہ میں مرتا ہوں۔۔۔ الخ ( غالبؔ )  مرحوم نے معنیِ رشک کے اتنے پہلو نکالے ہیں کہ ان کی تعریف حدِّ امکان سے باہر ہے۔ لیکن یہ قاعدہ ہے کہ جب ایک ہی مطلب کو بار بار کہوتو اس میں افراط و تفریط ہو جاتی ہے۔ اس غزل کے دو شعر اس سبب سے سست رہے۔ ایک تو یہ شعر کہ معشوق کے ہاتھ میں تلوار کو دیکھ کر تلوار پر رشک آتا ہے ، دوسرے عاشق کے طوطی پالنے سے معشوق کو طوطی پر رشک آنا۔ شعر یہ ہے    ؂

 کیا بد گماں ہے مجھ سے کہ آئینے میں مرے

 طوطی کا عکس سمجھے ہے  زنگار  دیکھ کر

دونوں امر غیر عادی ہیں اور بے لطف ہیں اور اسی سبب سے یہاں مصرع نے ربط نہیں کھایا۔ اس بات کو بہ وجہِ بصیرت سمجھنے کے لیے یہ سن لینا چاہیے کہ شعر الٹا کہا جاتا ہے یعنی پہلے شاعر کا یہ کام ہوتا ہے کہ قافیہ تجویز کرے جو کہ آخرِ شعر میں ہوتا ہے ، دوسری فکر یہ ہوتی ہے کہ جس قافیے کو تجویز کیا ہے اسے دیکھے کہ یہ کسی صفت کے ساتھ؛  یا کسی مضاف کے ساتھ ؛ یا کسی اور قید کے ساتھ ؛  یا کسی اور محاورے کے ساتھ ؛  یا اپنے کسی عامل کے ساتھ؛  یا معمول کے ساتھ مل کر ایک مصرع ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر نہ ہوا تو کوئی لفظ گھٹا بڑھا کر یا مقدم موخر کر کے اسے پورا کرے۔ یہ دوسرا مصرع ہوا۔  مثلاً اسی زمین میں جب مصنف نے دیدار دیکھ کر ، آزار دیکھ کر نظم کر لیا تو پہلے یہ تجویز کیا کہ’ تلوار دیکھ کر‘ کہنا چاہیے۔ دوسری فکر میں تلوار کے ساتھ یہ قید لگائی کہ ’ اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر ‘ اور مصرع کے پورا کرنے کے لیے ’ مرتا ہوں ‘ بڑھایا تو پہلے یہ دوسرا مصرع موزوں ہوا ؛ مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر۔ دوسرا مصرع کہہ چکنے کے بعد تیسری فکر میں اس بات کے وجوہ سوچے کہ اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر کیوں مرتا ہوں۔ یہاں مصنف نے اس توجیہ کو اختیار کیا کہ جوشِ رشک سے مرتا ہوں اور پہلے مصرع میں ’ جوشِ رشک سے ‘ ایسا لفظ ہیکہ اگر آخرِ مصرع میں نہ ہوتا تو کسی طرح یہ لفظ اپنے فعل سے مرتبط نہ ہوتا۔ اس سے ظاہر ہے کہ پہلے مصرع کا یہ آخری ٹکڑا پہلے معیّن کر کے صدر مصرع اس پر بڑھایا اور شعر کو تمام کیا ہے۔  اور جو شعر کی ابتدا ہے وہی فکر کا منتہیٰ ہے اور حرکاتِ فکر کے منازل میں سے بڑی منزل یہی ہے کہ دوسرا مصرع کہہ چکنے کے بعد اس پر مصرع ایسا لگائے کہ وہ مرتبط ہو جائے اور دست و گریبان کا حکم پیدا کرے اور یہ ظاہر ہے کہ معشوق کے ہاتھ میں کوئی چیز دیکھ کر اس چیز پر رشک کرنا عادت کے خلاف ہے ، محض تصنع ہے اور نا مربوط ہے۔

            اتنالکھنا اور یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہر زمین میں ووسرے مصرع کا نظم کر لینا آسان ہے ،  مثلًا اسی زمین میں ، ’تلوار دیکھ کر‘  تقریباً آدھے مصرع کے برابر ہے۔ جو صاحبِ طبعِ موزوں ہے وہ کچھ الفاظ بڑھا کر اسے پورا کر سکتا ہے اور جو الفاظ کہ بڑھائے جائیں گے وہ بھی گویا کہ معیّن ہیں یعنی اکثر وہی پہلو شعرا اختیار کرتے ہیں جو اوپر بیان ہوئے۔ قافیے کی صفت،  اضافت ، قید،  عامل یا معمول فعل وغیرہ مثلاً کھینچی ہوئی تلوار دیکھ کر ،  یا اوپی ہوئی تلوار دیکھ کر ،  یا ہلال سی تلوارر دیکھ کر ،  یا حلق پہ تلوار دیکھ کر ،  یا ترک کی تلوار دیکھ کر ،  یا اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر ، یا دانت سے تلوار دیکھ کر۔۔۔غرض کہ دوسرا مصرع کہنے میں شاعر مجبور ہے کہ قافیہ و ردیف کے متعلقات کو پورا کرے اور اس مصرع کے کہنے میں بس یہی خوبی ہے کہ ایسے پہلو تلاش کرے کہ توارد نہ ہونے پائے اور مصرع لڑ نہ جائے۔  ہاں ، دوسرا مصرع کہہ چکنے کے بعد اس پر مصرع لگانا بڑے وسیع میدان کا طے کرنا ہے جس میں صدہا  راہیں ہیں۔  اور مصرع لگانے کی مشق کا بہت مفید و آسان طریق یہ ہے کہ کسی شاعرِ خوشگوار کا دیوان کھولے تو داہنے ہاتھ کی طرف سب اوپر کے مصرع ہوں گے اوربائیں طرف سب نیچے کے مصرع ہوں گے۔  اوپر کے مصرعوں کو کسی کاغذ سے چھپا دینا چاہیے اور نیچے کے ہر ہر مصرع پر یہ فکر کرے کہ اس کے ساتھ کون سا مضمون ربط کھاتا ہے۔ جب مضمون ذہن میں آجائے تو کاغذ سرکا کر دیکھے کہ شاعرنے کیا کہا ہے۔ غرض کہ شعر کا سحر ہو جانا اور شاعر کا ماہر ثابت ہونا اکثر مصرع لگانے پر موقوف اور منحصر ہے میر تقی میرؔ، مصحفیؔ کو کہا کرتے تھے کہ یہ صحاف ہیں ، لیئ لگا کرمصرع کو چپکا دیا کرتے ہیں یعنی مصرع اچھا لگانا نہیں جانتے۔

 لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں

ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

            ایسی باتیں بہت سی ہو سکتی ہیں جس کے سبب سے ہاتھ قلم ہوں۔ اس مقام پرغزل کہنے والے کو یہ مشکل پیش آتی ہے کہ اتنے پہلوؤں میں سے کس پہلو کو اختیار کرے۔ اس لیے کہ قصیدہ و مثنوی وغیرہ میں غرض شاعر کی معین ہوتی ہے اور جو پہلو اس غرض کے مناسب ہوتا ہے ایسے مقام پر وہ اسی کو اختیار کرتے ہیں غزل میں کچھ تعیین نہیں۔ ایک شعر کو دوسرے شعر سے تعلق نہیں۔ ہر شعر خود  جملۂ تامّہ ہے اور ایک کلام مفید ہے۔ غزل کی وضع اس واسطے ہے کہ ہر ہر قافیہ ردیف کے ساتھ جس طرح ربط کھائے اسی طرح اسے ربط دو۔ یعنی قافیہ و ردیف جس مضمون کی طرف لے جائے اس طرف جاؤ۔ کسی شعر میں معاملۂ عاشقانہ ہے ، کسی میں مضمونِصوفیانہ ، کہیں ترانۂ رندانہ، اس میں ذکر صراحی و قلقل ، اس میں سوزِ پروانہ و شورِ بلبل ، پھر ایک شعر میں خبر ہے۔ دوسرے میں انشا۔ غرض کہ اس صورت میں شاعر نے یہ قصد کیا کہ ’ قلم ہوئے‘ باندھنا چاہیے۔ یعنی قافیہ ’ قلم کو ہوئے کے ساتھ کیونکر ربط ہو اور ’ قلم ہوئے ‘  کا فاعل کسے بنائیں۔ محاورے کو خیال کیا تو درخت قلم ہوئے اور ہاتھ قلم ہوئے بولتے ہیں۔ یہاں مصنف نے دوسرا پہلو اختیار کیا اور یہ مصرع کہا :   ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے۔

            اب جو دیکھا تو ہاتھ سے صدہا فعل سر زد ہوتے ہیں۔ ان میں سے مصنف نے لکھنے کو اختیار کیا اس لیے کہ قلم کا ضلع نہ جانے پائے اور ایسے مقام پر جہاں بہت سے مضمون ربط کھاتے ہوں شاعر ضلع بولنے پر مجبور ہوتا ہے کہ جب دوسرے مضمونوں میں کوئی معنی حسن کا بڑھا ہو ا نہیں ہے تو جس مضمون میں لفظی مناسبت ہو اسے کیوں چھوڑے۔ اس سبب سے کہ شاعر کی طبیعت میں تناسبِ موسیقی فطری ہوتا ہے۔  اس سے ترجیح بلا مرجّح ہونا محال ہے اور اتنا ہی ضلع خیال رکھنا حسنِ کلام ہے کہ دو مصرعوں میں یا فقروں میں ربط پیدا ہو جائے۔ اس سے زیادہ حرص کرنا معنی کو خراب کرتا ہے۔ علماے ادب کی ایک وصیت مشہور چلی آتی ہے کہ معنی شاہدِ کلام کی جان ہے ،  اور محاورہ اس کا جسمِ نازنیں ہے ، اور گہنا  اس کا بیان و بدیع ہے۔  تو جو شاعر کہ معانی کو خلق نہیں کر سکتا۔ فقط بیان و بدیع کے گڑھنے کی مشق کیا کرتا ہے ، وہ بازارِ ادب میں سنار کا کام سیکھتا ہے۔ اگر کہیں صنایع و بدایع و مناسبات کے پیچھے محاورہ بگڑ گیا تو گہنا کریہہ منظر و بد صورت عورت کے گلے میں ہے۔  اور اگر ان  تکلفات کے چلتے معنی ہی گئے گذرے تو وہ زیور جسمِ بے جان میں ہے۔  بر خلاف اس کے معانیِ لطیف محاورۂ سلیس میں اگر ادا ہو گئے، گو تشبیہ و استعارہ صنعتِ لفظی و معنوی کچھ بھی نہ ہو تو وہ ایک حسین نازنین ہے جس کی سادگی میں بھی ہزاروں بناؤ نکلتے ہیں اور یہ شخص محشرستانِ معانی کا خدا ہے۔ اس شعر میں مصنف نے کسی قدر اپنے طرز کے خلاف کیا کہ ضلع کے پہلو کو اختیار کیا۔ اس لیے کہ یہاں بعض معانی ایسے چسپاں ہیں کہ لفظ کے لیے تناسبِ لفظی ڈھونڈھنے کی ضرورت نہ تھی۔  اس کے علاوہ ہاتھ کا استعارہ شاخ کے (لیے ) سامنے کا مضمون تھا۔

            اور ضلع کے پہلو سے جو لوگ کراہیت رکھتے ہیں اور اسے صنعتِ مبتذل سمجھتے ہیں وہ اکثر ضلع کو چھوڑ کر ایسے مقام پر استعارہ و تشبیہ کے پہلو کو اختیار کرتے ہیں کہ یہ اس سے بہتر ہے۔ مگر مصنف نے خلافِ عادت یہاں اس پہلو کو بھی ترک کیا ور ضلع کو بھی اگر دیکھیے تو لکھنے کا بھی قلم ہوتا ہے ، مہندی کی بھی قلم ہوتی ہے ، گلاب کی قلم، اور شراب کی قلم ، اور رخسار کی قلمیں اور پھر ہاتھ قلم ہونا دو معنی رکھتا ہے۔ ایک قطع ہونا ، دوسرے یہ کہ دیوانہ وار انگلی سے خاک پر جو کوئی کچھ لکھے اس کے ہاتھ بھی قلم ہوئے۔  ان سب پہلوؤں کا مصرع مصنف کے ساتھ دیکھا   ؂

 

 

 

            ( استدراک :حضرتِ  بیخودؔ دہلوی کا تبصرہ ان مصرعوں پر:   ’ ایک شارح صاحب (مراد ہیں علّامہ نظم طباطبائی ) نے میرزاؔ کے اس مصرعِ ثانی پر اپنی جودتِ طبع دکھانے کے لیے سترہ مصرعے لگائے ہیں مگر اس ہیچ مداں کی رائے میں میرزاؔ کا مصرعِ اولیٰ سب پر سبقت حاصل کیے ہوئے ہے۔۔۔ مرآۃ الغالب ، ص ۲۵۳ )ؔ

            ابتداے مشق کا ذکر ہے کہ سید باقر صاحب ایک شخص تھے ، انھوں نے یہ مصرع :۔۔۔’’کہ پانچ انگلیوں میں دس ہلال رہتے ہیں ‘‘   طرح کا دیا۔ پھر خود ہی اس پر مصرع لگایا    ؂

حنا نے گھُٹ کے کیا ناخنوں کا دونا حسن

 کہ پانچ انگلیوں میں دس ہلال رہتے ہیں

مایلؔ نے ان کا مصرع اور ادّعاے تفرد کا ذکر سن کر یہ مصرع لگایا    ؂

 بلائیں رات کو پیہم جو لی ہیں ابرو کی

 تو پانچ انگلیوں میں دس ہلال رہتے ہیں

 

ایک دوست  نے مجھ سے بھی فرمایش کی اور میں نے یہ مصرع لگایا    ؂

 لکھا جو کرتا ہوں میں ان کے ناخنوں کی ثنا

 تو پانچ انگلیوں میں دس ہلال رہتے ہیں

لکھنؤ میں ایک دفعہ یہ مصرع :

 اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں

۔ شعرا کے مطرحِ نظر تھا۔ ایک صاحب نے یہ مصرع لگایا      ؂

 ایک سے جب دو ہوئے پھر لطفِ یکتائی نہیں

 اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں

کسی نے یہ مصرع لگایا     ؂

میں ہوں مشتاقِ سخن اور اس میں گویائی نہیں

 اس لیے تصویرِ جاناں ہم نے کھنچوائی نہیں

میں نے بھی مصرعے لگائے تھے    ؂

 

 

            میر انیسؔ مرحوم کے سامنے ایک صا حب نے یہ مصرع  پڑھا :

            چیختے چیختے بلبل کی زباں سوکھ گئی ،    میر صاحب نے مصرع لگایا     ؂

 عرقِ گل ہے مناسب اسے دینا صیّاد

 چیختے چیختے بلبل کی زبان سوکھ گئی

اس کا چرچا لکھنؤ میں ہوا۔ اکثر لوگوں نے طبع آزمائی کی۔ مجھے اپنا مصرع یاد ہے    ؂  

خار کو گل کے قریں دیکھ کے میں یہ سمجھا

چیختے چیختے بلبل کی زباں سوکھ گئی

مٹیا برج میں ایک دفعہ صحبتِ ا حباب میں میرا گذر ہوا۔  ایک صاحب نے فرمایش کی کہ اس پر مصرع لگاؤ :

            جھومتی قبلے سے گھنگھور گھٹا آتی ہے۔۔۔

  بیٹھے بیٹھے میرے خیال میں یہ مصرع آگیا    ؂

لطف جب ہے کہ برسنے لگے مے خانے پر

 جھومتی قبلے سے گھنگھور گھٹا آتی ہے

اس کے بعد میں نے فکر کی تو ایک مصرع اور ذہن میں آ گیا    ؂

کیا عجب ہے کہ صراحی بھی کرے سجدۂ شکر

 جھومتی قبلے سے گھنگھور گھٹا آتی ہے

ایک صاحب سلام کی فکر میں تھے۔ مجھ سے کہنے لگے میں نے ایک مصرع کہا ہے :ع

             وہ اک زمانے کی آنکھوں میں ہیں سمائے ہوئے

میں نے یہ مصرع لگا دیا

 نہیں ضریح کے محتاج بیکسوں کے مزار

    وہ اک زمانے کی آنکھوں میں ہیں سماے ہوئے

کہنے لگے : تم نے میرا مصرع چھین لیا۔

یہاں حیدر آباد میں بندگانِ عالی خلد اللہ ملکہ کا ایک مصرع .۔۔۔   ہزار بار بلایا تو ایک بار آیا

 ایک دوست نے میرے سامنے پڑھا۔ میں نے یہ مصرع لگایا      ؂

یہ ناز تھا ملک الموت کو بھی ہجر کی رات

ہزار با ر بلایا  تو ایک با ر آیا

            یہ نقل مشہور ہے کہ لکھنؤ کے ایک شیخ زادے جو اُمرا میں سے تھے ،  مرزا رفیع سوداؔ سے     بر سبیلِ امتحان طالب ہوئے کہ اس مصرع پر مصرع لگادیں :  اے سنگ ،نازکی میں توکامل نہ ہو سکا۔  سوداؔ نے یہ مصرع لگایا     ؂

شیشہ گداز ہو کے بنا ، دل نہ ہو سکا

 اے سنگ، نازکی میں تو کامل نہ ہو سکا

اور یہ نقل بھی ان کی طرف منسوب ہے کہ کسی نے یہ مصرع :  اک نظر دیکھنے سے ٹوٹ نہ جاتے ترے ہاتھ

 سوداؔ کے سامنے پڑھا۔  انھوں نے یہ مصرع :  لیلیٰ اتنا تو نہ تھا پردۂ محمل بھاری۔۔۔۔لگایا۔

            اس میں شک نہیں کہ مصرع لگانا بڑا فن ہے اور مشقِ شعرا کا بڑا ذریعہ ہے۔ خواجہ حیدر علی آتشؔ کا طرزِ سخن مصرع لگانے ہی پر منحصر ہے اور لکھنؤکے شعرا کو انھیں نے اس طرف مایل کیا۔ ورنہ اکثر لوگ موزوں طبع غزل کہہ لیا کرتے تھے مگر مصرعوں کے نا مربوط و دو لخت ہونے سے بے خبر رہتے تھے۔ خدا بخشے آغا حجو شرفؔ کو، وہ ذکر کرتے تھے کہ میر وزیر علی صباؔ ایک غزل استاد کو دکھانے لائے۔ میں بھی اس وقت موجود تھا۔ ایک شعر صباؔ نے پڑھا    ؂

 فصلِ گل میں مجھے کہتا ہے کہ گلشن سے نکل

 ایسی بے پر کی اڑاتا تھا نہ صیّاد کبھی

آتشؔ نے یہ شعر سن کر کہا کہ بے پر کی اڑانا تم نے باندھ لیا اور مصرع لگانے میں اس کا خیال نہ رکھا ، یوں لکھ لو    ؂

 پر کتر کر مجھے کہتا ہے کہ گلشن سے نکل

 ایسی بے پر کی اڑاتا تھا  نہ صیّاد کبھی

            ( استدراک :۔  پروفیسر محمد سجاد مرزا بیگ نے  اس نقل پریہ تبصرہ کیا ہے :  ’ اب ذرا دیکھو شیخ حجو شرفؔ ،  وزیر علی صبا  ؔ اور خود خواجہ صاحب سب ہی تو محاورے کے معنوں سے ناواقف تھے۔ ’ بے پر کی اڑانا ‘ بے اصل بات کہنے ، گپ اڑانے کو کہتے ہیں ، لیکن پہلے مصرع میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ پر کتر کر بے پر بنا دیا۔ شعر با معنی رہے یا بے معنی ہو جائے ‘۔۔۔تسہیل البلاغت ، ص ۲۰۲ )

            لیکن تجربے سے معلوم ہوا کہ بعض طبیعتیں جودتِ خدا داد رکھتی ہیں۔وہ ایک ہی دفعہ سارا شعر کہہ لیتے ہیں اور دونوں مصرع مربوط و دست و گریبان ہوتے ہیں۔ جن کو خدا نے یہ وصف عطا کیا ہے انھیں اس طرح مشق کرنے کی ضرورت بہت کم ہے اور جو شعر دونوں مصرعوں سمیت ایک ہی دفعہ ٹھیک پڑتا ہے اس میں آمد کی شان اور بے تکلفیِ بیان ایسی ہوتی ہے کہ وہ  بات ہرگز فکر کر کے مصرع لگانے میں نہیں حاصل ہوتی۔

زبان

دہلی اور لکھنؤ کی زبان

علّامہ نظم طباطبائی اور سجاد مرزا بیگ کے درمیان ایک فکر انگیز ’مناظرہ‘

( علّامہ نظم طباطبائی نے غالبؔ کے شعر   ؂

مستانہ طے کروں ہوں رہِ وادی ِخیال

 تا باز گشت سے نہ رہے مدّعا مجھے

کی شرح کے ذیل میں دہلی کی زبان اور اس کی فصاحت وغیرہ کے باب میں جو کچھ فرمایا ہے ( شرحِ دیوانِ اردوے غالبؔ : صفحات ۱۵۸ تا ا۶ا )  وہ ایک مختصر سے مقالے کی حیثیت رکھتا ہے ، اس لیے اسے وہاں سے ہٹا کر ایک مستقل مضمون کی صورت میں یہاں نقل کیا جاتا ہے۔ اس ’مقالے‘ کا ردّجناب محمد سجاد مرزا بیگ دہلوی پروفیسر، نظام کالج، حیدر آباد،نے اپنے لکچروں کے مجموعے ’تسہیل البلاغت ‘  میں لکھا تھا۔ علّامہ نظم ؔ طباطبائی کے مقالے کے بعد پروفیسر سجّاد مرزا بیگ کا ردّ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ یقین ہے اس سے بھی بہت روشنی ملے گی۔۔۔ ذکاؔ صدّیقی )

ارشادات طباطبائی

میر محمد حسین صاحب آزادؔ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ، کروں ہوں اور مروں ہوں ،دہلی میں بھی عرصے سے غیر فصیح سمجھتے ہیں۔ پھر ایک جگہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اساتذۂ دہلی کے کلام میں آئے ہے ، جائے ہے اکثر ہے مگر اخیر کی غزلوں میں انھوں نے بھی بچاؤ کیا ہے۔ اسی طرح  ’ کروں ہوں اور پھروں ہوں ‘  جیسا مصنف نے کہا ہے ،  یا تم آؤہو ، جاؤ ہو : یا ہم کھائے ہیں اور پیے ہیں یہ سب محاورے البتہ غیر فصیح ہیں اور اہلِ لکھنؤ تو کیا تمام ہندوستان کے کان اس کے سننے کے متحمل نہیں۔ مگر دلّی کی زبان پر باقی ہیں۔۔۔’’ ریاض الاخبار ‘ ‘ ( گورکھپور ) میں دلّی کی آئی ہوئی ایک غزل شایع ہوئی کہ مصنف اس کے ذوقؔ مرحوم کے نواسے ہیں۔ اس کا مطلع یہ ہے

  کہے ہے برقِ تجلّی لُٹا لُٹا کے مجھے

 یہی ہیں دیکھنے والے نظر اٹھا کے مجھے

            مگر بقولِ آزادؔاکثر اب یہی ہے کہ اہلِ دہلی اپنے شعر کو اس سے بچاتے ہیں اور عجب نہیں کہ اس کا سبب یہ ہو اہلِ لکھنؤ کا کلام کثرت سے دیکھا اور سنا تو اس کا اثر یہ پڑا۔ نواب فصیح الملک بہادر مرزا داغؔ صاحب ایک دفعہ فرماتے تھے کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ’ سانس ‘ اور ’  فکر  ‘ کا لفظ دلّی میں مذکّر ہی بولتے سنا۔ مگر استاد ذوقؔ نے جب ’سانس ‘ کو نظم کیا مؤنّث نظم کیا اور یہی فرمایا کہ میرؔ کی زبان پر بھی یہ لفظ مؤنث ہی تھا ، اور مرزا غالبؔ نے مجھے یہ ہدایت کی ہے کہ فکر کو بھی مؤنث ہی نظم کیا کرو۔ اس سے یہ ظاہر ہے کہ قدما کے جو الفاظ لکھنؤ میں باقی رہ گئے ہیں اہلِ دہلی اس میں تذکیر و تانیث کا تصرف کرنے کے مجاز نہیں ہیں لکھنؤ کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے محاورے میں بہت ہی نازک فرق ہے۔ مثلاً ہندو کہتے ہیں ’  مالا جپی اور پوجا کی ‘  اور مسلمان کہتے ہیں ’ مالا پہنا اور پوجا کیا ‘۔ یہی فرق قدیم سے چلا آتا ہے۔ میر حسنؔ کہتے ہیں    ؂   

 وہ موتی کے مالے لٹکتے ہوئے

 رہیں دل جہاں سر پٹکتے ہوئے

مگر اب دلّی میں مالا اور پوجا مؤنث بولا جاتا ہے۔

            مرزا غالبؔمرحوم کی تحریروں میں ،میں نے محاورۂ لکھنؤ کے خلاف چند الفاظ دیکھے۔ اس کے بارے میں نواب مرزا خاں داغؔ صاحب سے تحقیق چاہی۔ انھوں نے لکھ دیا کہ یہ غلط ہیں۔ مثلاً دایاں ہاتھ کہنا غلط ہے ، داہنا ہاتھ کہنا چاہیے۔ چھٹویں تاریخ غلط ، چھٹی صحیح ہے۔ ان کا اردو غلط ، ان کی اردو کہنا چاہیے۔ کرسی پر سے کھسل پڑا خلافِ محاورہ ہے۔ ’ غیر کیا ، خود مجھے نفرت مری اوقات سے ہے ‘۔ اس کو بھی غلط کہا۔ ’ اپنی اوقات ‘ کہنا چاہیے تھا۔ میں نے ورے اور پرے کے باب میں بھی تحقیق چاہی۔ کہا : آپ لوگوں کی خاطر سے میں نے ان لفظوں کو ترک کر دیا۔ اس کے علاوہ بعض خاص محاورے دہلی کے مثلاً ،ٹھیک نکل جانا ،پکھنڈکرنا ،ٹوپی اوڑھنا ، مکان سجانا ، پترے کھولنا ، جالا پورنا وغیرہ مرزا داغؔ صاحب کے کلام میں اور قدماے دہلی کے دیوانوں میں بھی نہیں پائے جاتے۔

            غرض کہ جو لوگ دہلی کے فصحا و نقاد و مالکِ زبان و قلم ہیں ان کا کلام لکھنؤ کی زبان سے مطابقت رکھتا ہے کس وجہ سے کہ جب سے میرؔ و سوداؔلکھنؤ میں آکر رہ پڑے اسی زمانے سے دلّی گوش بر آوازِ لکھنؤ ہو گئی تھی۔ پھر انشأ اللہ خان و جرأت کے کلام نے ان کی توجّہ کو ادھر سے پھیرنے نہ دیا۔ ان کے بعد آتشؔ و ناسخؔ کے مشاعروں نے متوجّہ کر لیا۔ بلکہ شاہ نصیرؔ و ذوقؔ نے کلام کا رنگ ہی بدل دیا۔ آخر میں میر( انیس ؟ ) صاحب کے مرثیوں نے خاص  اور عام سب کی زبان پر اثر ڈال دیا۔ اسی زمانے میں نواب مرزا شوقؔ کی تینوں مثنویاں گھر گھر پڑھی جانے لگیں کہ لوگوں کو حفظ ہو گئیں۔ امانتؔ بھی انھیں دنوں میں  ’ اندر سبھا ‘ کہہ کر اردو میں ڈراما کے موجد ہوئے۔ اس کے علاوہ ’’ نامۂ قلق‘ؔ ‘  اور ’’واسوختِ امانتؔ‘ ‘  اور شہروں کی طرح دلّی کی گلیوں میں بھی لوگ گاتے ہوئے پھرنے لگے۔ زبان کی شہرت کے اسباب پر جب غور کیجیے تو یہی لوگ معلوم ہوتے ہیں جن کے نام گذرے اور ان کے کلام کی شہرت نے اس زبان کو مانوس کر دیا۔ یہاں تک کہ دلّی اور لکھنؤ کی زبان تقریباً ایک ہو گئی۔

            اس دعوے پر آزاد سلّمہ اللہ کی شہادت کافی ہے۔ پانچویں دور کی تمہید میں لکھتے ہیں :  اب وہ زمانہ آتا ہے کہ انھیں یعنی اہلِ لکھنؤ کو خود اہل زبانی کا دعوےٰ ہوگا اور زیبا ہوگا ، اور جب ان کے اور دلّی کے محاورے میں اختلاف ہوگا تو اپنے محاورے کی فصاحت اور دلّی کے عدمِ فصاحت پر دلایل قایم کریں گے ،  بلکہ انھیں کے بعض بعض نکتوں کو دلّی کے اہلِ انصاف بھی تسلیم کریں گے۔ ان بزرگوں نے بہت قدیمی الفاظ چھوڑ دیے جن کی کچھ تفصیل  چوتھے دیباچے میں لکھی گئی  اور اب جو زبان دلّی اور لکھنؤ میں بولی جاتی ہے وہ گویا انھیں کی زبان ہے

             اور میر مہدیؔ کے اس مصرع پر  ع۔۔۔ میاں یہ اہلِ دہلی کی زباں ہے۔  غالبؔ لکھتے ہیں :  اے میر مہدی ؔتجھے شرم نہیں ، ارے اب اہلِ دہلی یا ہندو ہیں یا اہلِ حرفہ ہیں ؛ یا خاکی ہیں یا پنج آبی ہیں یا گورے ہیں۔ ان میں سے تو کس کی زبان کی تعریف کرتا ہے۔ لکھنؤ کی آبادی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ ریاست تو جاتی رہی لیکن ہر فن کے کامل لوگ موجود ہیں۔ اللہ اللہ ، دلّی نہ رہی اور دلّی والے اب تک یہاں کی زبان کو اچھا کہے جاتے ہیں ‘ انتہیٰ ۔

            اب خیال کرنا چاہیے کہ میر محمد حسین صاحب آزادؔ لکھتے ہیں اب جو زبان دلّی اور لکھنؤ میں بولی جاتی ہے وہ گویا ایک ہی زبان ہے ، اصل یہ ہے کہ  اہلِ لکھنؤ کی زبان دونوں جگہ بولی جاتی ہے ، جس کو دہلی کے تمام اُمرا و شرفا اپنے ساتھ لے کر لکھنؤ میں آئے تھے اور دلّی میں گنتی کے ایسے لوگ رہ گۓ تھے جو صاحبِ زبان تھے۔ ان کی نسل پر بھی غیر قوموں کی زبان نے تو کم مگر لہجے نے بہت اپنا اثر ڈالا اور اس کی کسی کو خبر بھی نہ ہوئی، لیکن لکھنؤ میں وہ زبان سب آفتوں سے محفوظ رہی یعنی زوالِ سلطنتِواجد علی شاہ جنت آرام گاہ تک لکھنؤ کی زبان خاص دہلی کی زبان تھی اور ترقی کر رہی تھی اس سبب سے کہ چاروں جانب لکھنؤ کے صدہا کوس تک شہروں میں ملکی زبان اردو ہے ، اور گاووں میں زبان شیریں بھاکا مروّج ہے بخلاف دہلی کے کہ جن لوگوں سے دہلی، دہلی تھی وہ لوگ تو نہ رہے اور غیر لوگ جو اطراف سے آئے اور آرہے ہیں وہ سب اہلِ پنجاب ہیں۔ اسی سبب سے دیکھیے غالبؔ میر مہدیؔ کو فہمایش کر رہے ہیں کہ دلّی کی زبان کو لکھنؤ پر ترجیح نہ دو اور اس کے علاوہ ذوقؔ کے کلام میں زبانِ لکھنؤ کا تتبع  پایا جاتا ہے۔ مثلاً فکر بتانیث ذوقؔ نے نظم کیا ہے۔ سانس کو بھی بہ تانیث باندھا ہے۔  اس پر بھی بعض نا واقف کہہ اٹھتے ہیں کہ دلّی کی زبان لکھنؤ سے بہتر ہے۔ اس کلمے سے جو لوگ باہر والے ہیں وہ دھوکا کھا تے ہیں اور بہک جاتے ہیں۔ یہ علمی مسٔلہ ہے اس میں انصاف و راستی سے نہ گذرنا چاٖہیے۔

            دلّی میں ’ نے ‘ کا استعمال عجیب طرح سے اب ہونے لگاہے۔ آزادؔ     ؂

 طرّے اعزاز کے جن لوگوں نے ہیں پائے ہوئے

بالیں گیہوں کی وہ شملے میں ہیں لٹکائے ہوئے

ایک جگہ ’ قصصِ ہند ‘ میں لکھتے ہیں : ’ تم نے مجھے بادشاہ سمجھا ہوا تھا ‘  جو بیچارے محض تتبع کرتے ہیں ان کی تحریروں میں تو اس طرح کا ’ نے ‘ بہت افراط سے دیکھنے میں آتا ہے لیکن ذوق و مومنؔ و ممنونؔ کا کلام ہمارے پاس موجود ہے اس میں کہیں ایسا  ’نے ‘  نہیں ہے۔

            حقیقتِ امر یہ ہے کہ لکھنؤ کی جو زبان ہے یہ دلّی ہی کی زبان ہے۔ ۱۱۵۲ ھ؁ سے ۱۱۷۰ھ؁ تک اٹّھارہ برس کے عرصے میں تین دفعہ دلّی تاراج و برباد ہوئی۔ وہاں کے لوگ فیض آباد و لکھنؤ میں صفدر جنگ و شجاع الدولہ کے ساتھ آ بسے۔ پھر اس کے بعد دلّی ایک کیا تمام ہندوستان خاص مرہٹوں کا جولاں گاہ ہو گیا۔ لکھنؤ کے سوا کہیں امن نہ تھا۔ یہاں آصف الدولہ کے عہد سے واجد علی شاہ کے زمانے تک یہ زبان جلا پاتی رہی اور دلّی میں غیر قوموں کے خلط نے یہ اثر کیا کہ لہجہ تک بدل گیا کہ اب پنجاب کے لہجے میں اردو  بولی جاتی ہے۔

ارشادت سجاد مرزا بیگ دہلوی

مولوی علی حیدر صاحب طباطبائی نے یہ تو تسلیم کیا ہے کہ لکھنؤ کی زبان دلّی ہی کی زبان ہے مگر وہ ایک پیچ دار طریقے سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ دلّی میں لکھنؤ کی زبان کا تتبع کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ بعض ناواقف اس بیان سے غلطی میں پڑ جائیں اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب موصوف کے بیان پر ایک تنقیدی نظر ڈالی جائے۔ ملاحظہ ہو شرحِ دیوانِ غالبؔ ، صفحہ ۱۵۸ ۔ ’جو لوگ دہلی کے فصحا و نقاد و مالکِ زبان و قلم ہیں ان کا کلام لکھنؤ کی زبان سے مطابقت رکھتا ہے کس وجہ سے کہ جب سے میرؔ و سوداؔلکھنؤ میں آکر رہ پڑے اسی زمانے سے دلّی گوش بر آوازِ لکھنؤ ہو گئی تھی۔ پھر انشأ اللہ خان و جرأت کے کلام نے ان کی توجّہ کو ادھر سے پھیرنے نہ دیا۔‘

            میر صاحب کے نزدیک میرؔ و سوداؔ ، جرأتؔ و انشاؔاگر لکھنؤ چلے گۓ تو ان کی زبان بھی لکھنؤ کی ہو گئی۔ اگر ان کے کلام سے اہلِ دہلی کا کلام مطابقت رکھتا ہے تو وجہ ظاہر ہے کہ یہ لوگ خود دلّی کے تھے ، مطابقت نہ ہوگی تو کیا ہوگا۔ دلی و لکھنؤ کی زبان کا فرق ہم نے مختصر طور پر بیان کیا ہے۔ دہلی کاکون سا اہلِ قلم ہے جو اس کا اتباع کرتا ہو۔ 

            علّامہ نظم :  ’’ اس کے بعد آتشؔ و ناسخؔ کے مشاعروں نے متوجّہ کر لیا بلکہ شاہ نصیرؔ وذوقؔ کے کلام کا تو رنگ ہی بدل  دیا ‘‘۔  جو لوگ زبان و کلام کے لطف سے واقف ہیں اور اس میں تمیز و تنقید کر سکتے ہیں وہ اس فقرے کو پڑھ کر کیا کہیں گے۔ آتشؔ و ناسخؔ ، نصیرؔ و ذوقؔ کے کلام اب بھی موجود ہیں۔ سخن کے جوہری جانتے  ہیں کہ آتش و ناسخ رعایتِ لفظی کی بندشوں میں پھنس کر رہ جاتے ہیں لیکن نصیرؔ و ذوقؔ کا طایرِ خیال معانی کے آسمان پر اڑتا چلا جاتا ہے۔

            علّامہ نظم :  ’’  اصل یہ ہے کہ لکھنؤ کی زبان دونوں جگہ بولی جاتی ہے جس کو دہلی کے تمام امرأ و شرفأ اپنے ساتھ لے کر لکھنؤ آئے تھے اور دلی میں گنتی کے ایسے لوگ رہ گئے تھے جو صاحبِ زبان تھے ‘ ‘  عجیب مغالطہ ہے۔ دلی کے امرأ و شرفأ اپنی زبان لے کر لکھنؤگئے۔ لکھنؤ میں دلی کی زبان بولی گئی یا دلی میں لکھنؤ کی؟ رہی یہ بات کہ دلی میں اہلِ زبان رہے ہی نہیں ، خلافِ واقعہ ہے۔ اوّل تو سارے شہر کا خالی ہو جانا خلافِ عقل ہے۔ دوسرے اس زمانے میں جو سلطنتِ دہلی کے زوال کا زمانہ تھا دہلی میں ایسے ناظم و نثّار پیدا ہوئے کہ لکھنؤ ان کا مثل نہیں دکھا سکتا۔

            علّامہ نظم :   ’ ’ ان کی نسل پر بھی غیرقوموں کی زبان نے تو کم مگر لہجے نے بہت اپنا اثر ڈالا۔ غیر قوموں کے خلط نے یہ اثر کیا کہ لہجہ تک بدل گیا کہ اب پنجاب کے لہجے میں اردو بولی جاتی ہے ‘ ‘  اللہ اکبر، زمانے کا انقلاب دیکھیے کہ قانونِ قدرت تک بدل گیا۔ لہجے پر مرز و بوم کا اثر ہوتا ہے۔ چاہیے تھا کہ پنجاب کے لوگوں کا دلی میں آکر لہجہ بدل جاتا۔ مولوی صاحب کے نزدیک اس کے بر عکس دلی والوں کا لہجہ بدل گیا۔ شاید کسی نو وارد پنجابی کو وہاں باتیں کرتے سنا ہوگا ، سمجھے کہ یہی دلی کا لہجہ ہے۔

            خیر یہ شکر ہے کہ ان کے نزدیک بھی زبان پر اس کا اثر کم پڑا۔ لیکن شیر علی افسوسؔ کے اس فقرے کا کیا جواب ہے کہ وہ خود لکھنؤ کی نسبت یہ لکھتا ہے کہ : ’ ’با وجود اس کے بھی لہجے میں تفاوت بہت رہ گیا ‘ ‘( آرایشِ محفل )  یعنی اس کے نزدیک لکھنؤ کا لہجہ اہلِ زبان کا سا نہیں ہے۔

ارشاداتِ مزید :۔

            ’’  اگرچہ دلی کے اکثر اچھے اچھے شاعر بلکہ دوسرے صاحبِ کمال بھی لکھنؤ چلے گئے تھے لیکن آخر ساری دلی تو خالی نہیں ہو گئی تھی۔ یہاں کا ہر چھوٹا بڑا ؛ عالم ہو یا جاہل ، شریف یا  رذیل ، اہلِ زبان تھا  بلکہ خواص بھی عوام ہی سے زبان سیکھتے تھے۔ اس لیے چند لوگوں کے چلے جانے سے زبان میں کوئی فرق نہ آتا تھا۔ جو شہرزبان کے مرکز ہیں وہاں کے جہّال اور عورتوں کی زبان علمأ کی زبان سے زیادہ مستند ہوتی ہے بر خلاف دوسرے شہروں کے کہ وہاں کے پڑھے لکھوں کی زبان تو صاف ہوتی ہے اور باقی عوام اپنی اپنی بولیاں بولتے ہیں دلی کی جامع مسجد کی سیڑھیاں وہ مدرسہ تھیں کہ میرؔ جیسے استاد وہاں جاکر زبان سیکھتے تھے ‘‘۔    ( ص ص ۳۶، ۳۷ )

            ’’  ایسی حالت میں ناسخؔ و آتشؔ کے دیوان ، نواب مرزا شوقؔ کی مثنویاں ، امانتؔ کی ’ اندر سبھا ‘ ان کی زبانوں پر کیا اثر ڈالتیں۔ دلّی میں آتشؔ و ناسخؔ کے ہم عصر شاہ نصیرؔ ، ذوقؔ ، غالبؔ وغیرہ ہیں۔ اہلِ انصاف دونوں شہروں کے صاحب کمالوں کے کلام کا مقابلہ کریں۔ آتشؔ و ناسخؔ زبان کے میدان میں پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں اور بڑی احتیاط یہ کرتے ہیں کہ قریب المرگ الفاظ کو بھی اپنے کلام میں نہیں آنے دیتے۔ لیکن پھر بھی لطفِ زبان اور لطافتِ بیان میں د لّی والوں کی گرد کو نہیں پہنچتے۔ اہلِ دہلی کے ہاں مضامین کی بلندی ، زبان کی سلاست و فصاحت ، کلام کی شیرینی ، الفاظ کی عمدہ بندش ، محاوروں کا صحیح استعمال، روز مرّہ کی صفائی ،تشبیہات اور استعارات کی خوش نمائی بہت زیادہ ہے۔ اس لیے دلی کے صاحبِ کمال شاعروں پر تو لکھنؤ کے اہلِ قلم کا کیا اثر پڑتا ، عوام بھی ہمیشہ مستغنی رہے ‘‘۔  ( ص۳۹ )  

چند ایسی خصوصیات جو دلی اور لکھنؤ والوں کی زبان میں ما بہ الامتیاز ہیں :

            ’ مہتم بالشان یہ ہیں : ( ۱ ) الفاظ کا ترک کرنا ؛ ( ۲ ) صحتِ تلّفظ ؛ ( ۳ ) صنایع کا استعمال ؛  ( ۴ )  محاورات و روز مرّہ کا اختلاف ؛  ( ۵ ) وحدت و جمع ؛ ( ۶ ) بعض الفاظ کی تذکیر و تانیث کا فرق۔

( ۱ )  الفاظ کا ترک کرنا :۔

            ترکِ الفاظ دلی کی زبان میں بھی ابتدا سے ہوتا رہا ہے اور اب بھی جاری ہے۔ ولیؔ اور حاتم ؔکی زبان اور ذوقؔ و مومنؔ کی زبان دیکھ لو۔ میرؔ کے دیوان پڑھو۔  ( محمد حسین آزاد  ؔ صاحب     ’ آبِ حیات ‘ میں لکھتے ہیں کہ ) اکثر الفاظ جو میرؔ صاحب پہلے دوسرے دیوان میں کہہ گئے ہیں وہ چوتھے پانچویں میں نہیں ہیں۔جو دوسرے تیسرے میں ہیں وہ پانچویں چھٹے میں نہیں۔۔۔۔  لیکن یہ تغیّر بہ تصنع نہیں بلکہ قدرتی طور پر ہوا۔ اہلِ لکھنؤ نے اپنی عادت کے موافق اس میں بھی تصنع برتا۔ آتشؔ و ناسخؔ نے تو اتنا ہی کیا کہ جو الفاظ قریب المرگ تھے ان کو عمداً ترک کر دیا۔ترکیب نئی تھی ، لوگوں کو پسند آئی۔ دوسروں نے ان الفاظ کو بھی ترک کرنا شروع کر دیا جو روزمرہ میں جاری تھے۔  مولوی علی حیدر صاحب طباطبائی لکھتے ہیں کہ لکھنؤ میں ایک صاحب میر علی اوسط رشکؔ تھے جنھوں نے چالیس پینتالیس لفظ شعر میں باندھنے ترک کر دیے تھے اور اس پر ان کو بڑا ناز تھا۔ اپنے شاگردوں کے سوا کسی کو نہیں بتاتے تھے اوروصیت کر گئے تھے کہ یہ ودیعت سینہ بہ سینہ میرے ہی تلامذہ میں رہے ، کسی کو بے مٹھائی نہ بتانا۔ مگر تفحص سے معلوم ہوا کہ سب اسی طرح کی باتیں ہیں : دکھلانا اور بتلانا نہ باندھا کرو۔ دکھانا اور بتانا اختیار کرو۔ پہ کی جگہ پر اور تلک کی جگہ تک،مرا کو میرا ، ترا کو تیرا کہنا چاہیے۔ سدا کی جگہ ہمیشہ باندھو ، علےٰ ھٰذہ القیاس۔ کوئی کام کی بات نہیں۔ شیخ حجو شرفؔ ، میر علی اوسط سے بھی بڑھے ہوئے تھے۔ انھوں نے اسّی بیاسی لفظ چھوڑ دیے۔ سبحان اللہ ، کیا اچھی اصلاح ہے۔ کوئی اور ایسا صاحبِ کمال نہ پیدا ہوا ورنہ وہ زبان کے سارے الفاظ ترک کر کے اشاروں سے باتیں کرنی سکھاتا۔۔۔ اگرچہ قریب المرگ الفاظ اہلِ لکھنؤ نے بہ تکلّف چھوڑ دیے پھر بھی نہ بچ سکے  (آتشؔ ، ناسخؔ، امیرؔ مینائی کے کلام سے تلک ؛  زور ؛آئیو ؛جائیو؛ ہوجیو ؛  بل بے ؛ خوباں ؛ عزیزاں ،دولت بجائے بدولت ؛ کون بجائے کون سا ، کون سی ، کون سے کی مثالیں۔۔۔ ’  تسہیل البلاغت ‘ کے ص ۴۳ و ۴۴ پر ملاحظہ ہوں۔)

            عجیب بات یہ ہے کہ ترکِ الفاظ کے شوق میں بعض ایسے الفاظ بھی ترک کر دیے جو زیادہ فصیح تھے یا وسیع معنی رکھتے تھے۔ مثلاً دستِ راست کے معنوں میں اہلِ دہلی داہنا اور دایاں دونوں بولتے ہیں۔ جب چَپ و راست سے مراد ہو تو دایاں بایاں کہیں گے کیونکہ دونوں الفاظ  جب ساتھ آئیں توزیادہ فصیح معلوم ہوتے ہیں۔ لکھنؤ میں داہنا بایاں کہتے ہیں جو کم فصیح ہے۔  ورے اور پرے کو سرے سے زبان سے نکال ہی ڈالا۔ اگر ایک خطِ مستقیم میں کئی چیزیں ہوں تو اہلِ زبان قریب کے لیے ورے اور بعید کے لیے پرے کہتے ہیں۔ ان لفظوں کی بجاے اِدھر اُدھر ، دور نزدیک خواہ کوئی بھی لفظ رکھ دو ایک سیدھ میں ہونے کا مفہوم جو ورے اور پرے میں ہے نہیں پیدا ہوتا۔

( ۲ )  صحتِ تلفّظ:۔

              اہلِ دہلی جب غیر زبان کا لفظ اپنی زبان میں لیتے ہیں تو اس کے تلفظ میں کچھ تصرف کرتے ہیں ، خصوصاً اعراب میں۔۔۔  اہلِ لکھنؤ اصل زبان کے موافق تلفظ کرتے ہیں اور اس کو صحتِ زبان کا معیار قرار دیتے ہیں۔ مولانا حالیؔ اس کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ ’ فی الحقیقت یہ ایک غلطی ہے جو اکثر ہمارے عربی دانوں کو علم اللسان کی ناواقفیت سے پیش آتی ہے۔ ان کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ایک زبان کے الفاظ دوسری زبان میں منتقل ہو کر کبھی اپنی اصلی صورت پر قایم نہیں رہ سکتے ،      الّا ما شأ اللہ۔۔۔  ‘

( ۳ ) محاورات و روز مرّہ کا اختلاف :۔

            .............................یہ فرق بہت زیادہ نہیں ہے مثلاً

( الف ) بعض الفاظ اور محاورے اہلِ لکھنؤ کی زبان میں نہیں ہیں ، جیسے ؛  ٹھیک نکل جانا ، پکھنڈ مچانا ،  پترے کھولنا ،  جالا پورنا ، وغیرہ۔

 ( ب )  اہلِ دہلی کے ہاں بعض مصادر مجہول معنوں میں استعمال ہوتے ہیں ، جیسے سِلنا ، دُھلنا۔ اہلِ زبان کہتے ہیں : زید کی شیروانی سِل گئی ، ٹوپی دُھل گئی۔ اہلِ لکھنؤ کہیں گے : زید کی شیروانی سی گئی،  ٹوپی دھوگئی۔ امیرؔ فرماتے ہیں    ؂

چار آنسو جو ندامت سے بہے

 دھو گیا  نامۂ عصیاں  میرا

 دل  تو پہلو سے ہمارے کھو گیا

دردِ پہلو  ہائے تو کیا ہو گیا

اہلِ زبان کھویا گیا کہتے ہیں۔ اسی طرح تمسک لکھ گیا بجائے لکھا گیا۔

( ج ) اگر کسی جملے میں فعل ، فاعل و مفعول تینوں ہوں تو تذکیر و تانیث کے لحاظ سے فعل ، مفعول کا تابع ہوتا ہے۔ اسی طرح مجہول افعال بھی مفعول ہی کے تابع ہوتے ہیں ، جیسے زید نے روٹی کھائی۔ روٹی کھائی جاتی ہے۔ اگر کسی جملے کے بعد ( جو اسم و فعل سے مرکّب ہو ) کوئی دوسرا فعل ایسا آئے کہ پہلا جملہ اس دوسرے فعل کا فاعل واقع ہو تو اہلِ دہلی پہلے فعل کو اسم کی تذکیر و تانیث کا تابع رکھتے ہیں۔ اور اہلِ لکھنؤ پہلے فعل کو مذکّر یا بحالتِ مصدر استعمال کرتے ہیں ، جیسے :  بات کرنا مشکل ہے۔... ...دو موقعے ایسے ہیں کہ اہلِ دہلی بھی علامتِ مصدر کو نہیں بدلتے۔ ایک تو یہ کہ مصدر امر کے معنی میں ہو : دیکھو ٹھوکر نہ کھانا۔ دوسرے یہ کہ مبتدا اور خبر کے درمیان حرفِ اضافت ہو : نادر شاہ کا آنا قیامت کا آنا تھا۔

( د ) روز مرّہ میں بھی بعض بعض جگہ اختلاف ہے۔ امیر    ؂

 وہ  دشمن آبرو کا ہے میں آبرو پسند

دیکھوں کہ میرے یار کے کیونکر نباہ ہو

 اہلِ زبان  ’ میرا یار کا نباہ ‘ ،  ’ آپ کا ہمارا نباہ ‘  کہتے ہیں۔امیرؔ

 قاصد کو اس نے قتل کیا نامہ دیکھ کر

 مارا  پڑا غریب ہمارے گناہ میں

اہلِ زبان  ’ مارا گیا ‘ کہتے ہیں۔

( ۴)  وحدت و جمع :۔

            الفاظ کی وحدت و جمع میں بھی ذرا سا اختلاف ہے۔ مثلاً الفاظِ ذیل کو اہلِ زبان جمع استعمال کرنا زیادہ فصیح خیال کرتے ہیں چھوٹے میاں کے ختنے ہو گئے۔ اس کے مرادف الفاظ بھی جمع ہی بولے جاتے ہیں : مسلمانیاں ، سنّتیں۔۔۔ جاڑے گرمیاں : اب کے جاڑوں کے موسم میں رخصت لینے کا ارادہ ہے۔ گرمیاں بھی گذر گئیں لیکن تم نہ آئے۔ لفظ کی جمع یا تو لفظ ہی آتی ہے یا الفاظ۔ اہلِ لکھنؤ لفظیں بھی کہتے ہیں جو غیر فصیح ہے۔ دام بہ معنی قیمت ہمیشہ جمع استعمال ہوتا ہے۔

            بعض الفاظ  اہلِ دہلی کی زبان پر نہیں ہیں اور خاص لکھنؤ کی زبان سے تعلق رکھتے ہیں۔اہلِ دہلی نے غیر اہلِ زبان کے پوربی الفاظ و محاورات لینے پسند نہیں کیے۔[ چند الفاظ یہ ہیں ]۔۔۔ کَھلنا ( نا گوار معلوم ہونا) ؛  بیہڑ ( نا ہموار زمین )  ؛ پھلیندا (موٹی جامن ) ؛ لاڑھیا ( فریبی ، جعل ساز ) ؛  بریٹھا ( دھوبی )؛  بر ( بھڑ ) ؛  حلوا نکل جانا ( بے حال ہونا )۔

            بعض الفاظ مختلف ہیں۔ دہلی میں : دھکیلنا، لکھنؤ میں ڈھکیلنا ( دال ثقیلہ )؛ دہلی میں :  اُڑسنا، لکھنؤ میں گُھڑسنا ؛دہلی میں گھُرکنا، لکھنؤ میں گُھڑکنا ( راے ثقیلہ ) ؛ دہلی میں : جیسا، جیسے؛    لکھنؤ میں کے ایسا ، کے ایسے ؛ دہلی میں : بانسری، لکھنؤ میں بانسلی ؛ دہلی میں : تیرنا، لکھنؤ میں پیرنا ؛ دہلی میں : کواڑ، لکھنؤ میں کواڑا ؛  دہلی میں :  سب سے پہلے، لکھنؤ میں سب کے پہلے ؛ دہلی میں : ڈلی ( کسی ٹھوس چیز کا چھوٹا سا ٹکڑا )، لکھنؤ میں ڈلی (چھالیہ ) ؛دہلی میں : کندھا، لکھنؤ میں کاندھا  وغیرہ۔

( ۵ ) بعض الفاظ کی تذکیر و تانیث کا فرق :۔

            دہلی میں : اُف مونّث، لکھنؤ میں آتشؔ نے مذکر باندھا ہے ؛  دہلی میں : التماس مذکّر، لکھنؤ میں مونّث؛ دہلی میں :سانس مذکّر،  لکھنؤ میں مونّث ؛دہلی میں : دست پناہ  مذکّر، لکھنؤ میں مونّث؛       دہلی میں : زنّار مذکّر، لکھنؤ میں مونّث؛ دہلی میں : رسم مونّث، لکھنؤ میں مذکّر ؛دہلی میں : دسترس مونّث، لکھنؤ میں مذکّر ؛دہلی میں : فاتحہ مونّث، لکھنؤ میں مذکّر ؛دہلی میں : گیند مونّث، لکھنؤ میں مذکّر۔

            پیشہ وروں کے نام کے آخر میں اگر یاے معروف کے علاوہ کوئی اور حرف ہو تو اہلِ دہلی ایسے الفاظ کے آخر میں یاے معروف بڑھا کر تانیث بناتے ہیں لیکن لکھنؤ میں ’ ن‘ بڑھا کر مونّث بناتے ہیں :۔

            لفظ      دہلی    لکھنؤ  لفظ      دہلی    لکھنؤ

            جلاہا  جلاہی            جلاہن سُنار   سناری             سنارن

            کہار   کہاری            کہارن            بھٹیارا            بھٹیاری    بھٹیارن

            دہلی میں مونّث عربی الفاظ کی جمع مونّث بولتے ہیں مگر اہلِ لکھنؤ تمام عربی الفاظ کی جمع خواہ وہ مونّث ہی ہوں ، مذکّر استعمال کرتے ہیں۔مثلاً مسجد مونّث ، مساجد مذکّر ؛ حرکت مونّث ، حرکات مذکّر۔ مولوی عبد الحق صاحب بی۔اے اپنی  ’قواعدِ اردو‘  میں لکھتے ہیں کہ بعض متاخرینِ اہلِ لکھنؤ کا یہ قول ہے کہ ہر لفظ کی عربی جمع مذکّر ہی ہوتی ہے۔ یہ قاعدہ تو بہت اچھا ہے مگر اس کا کیا علاج کہ اہلِ زبان یوں نہیں بولتے۔ اہلِ دہلی بجز مستثنیات کے ہمیشہ مونّث کی جمع مونّث اور مذکّر ہی استعمال کرتے ہیں۔ ( ’ تسہیل البلاغت ‘ مطبوعہ غالباً ۱۳۳۹؁ ھ ، ص۳۲، ۳۳،۳۹ تا  ۵۵  )

 

(۶ )  صنایع کا استعمال :۔

            صنایع لفظی ہوں یا معنوی ، جب تک کلام میں اس طرح بے تکلفانہ نہ آئیں کہ کلام کی صفائی اور معنی کی لطافت کو نقصان نہ پہنچے تو با مزہ معلوم ہوتے ہیں۔۔۔ ۔ اہلِ دہلی۔۔۔ بھی تشبیہ و استعارہ اور دیگر صنایع کا استعمال کرتے ہیں لیکن اس طرح کہ حسنِ کلام بڑھ جائے اور معنی زیادہ واضح اور روشن ہو جائیں برخلاف اہلِ لکھنؤ کے کہ وہ صنایعِ لفظی کے پیچھے معنی کی پروا نہیں کرتے۔

۔۔۔  ( آتشؔ ،  ناسخ،  امیرمینائیؔ کے کلام سے مثالیں  ، تسہیل البلاغت:  صفحات ۴۸ تا ۵۰ پر ملاحظہ ہوں۔)

صَرف و نحو

ذیل میں علمِ صَرف و نحو کی صِرف اُن ا صطلاحات کا مختصر تعارف کرایاجاتا ہے جو علّامہ نظم طباطبائی نے غالبؔ کے اشعار کی تشریح کرتے ہوئے استعمال کی ہیں۔ تفصیل کے لیے وہ مبسوط کتابیں دیکھنی چاہییں جوان علوم پر لکھی گئی ہیں۔

            ۔۔یہ اقتباسات مندرجہ  ذیل کتابوں سے اخذ کیے گئے ہیں :۔

            ۔۔غیاث اللغات ( ملّا غیاث الدین رامپوری )

            ۔۔قواعدِ اردو : مولوی عبد الحق

            ۔۔آئینِ اردو : مولانا زین العابدین فرجاؔد کوتانوی

            ۔۔تسہیل البلاغت : پروفیسر سجّاد مرزا بیگ دہلوی

.......................

           

             جس طرح  ہر شے کا ظاہر اور باطن ہوتا ہے اسی طرح الفاظ کا بھی ظاہر باطن ہوتا ہے۔ظاہر وہ ہے جس کا تعلق صَرف سے ہے ، یعنی اس میں صِرف صورت کی تبدیلی وغیرہ کا ذکر ہوتا ہے۔لفظ کا باطن اس کا مفہوم اور معنی ہیں۔با معنی لفظ کو کلمہ کہتے ہیں۔جن کلمات سے کلا م مرکّب ہوتا ہے اُن کلمات کے باہمی تعلق ، ترتیب ، مناسبت اور عمل سے ( یعنی ان کے معنی کے لحاظ سے ) علمِ نحو میں بحث کی جاتی ہے۔ صَرف و نحو سے الفاظ کا اشتقاق اور ان کا جملوں میں صحیح طور پر ترتیب دینا آتا ہے۔

            مرکّبِ تام (یا مرکّبِ مفید یا جملہ) : جب دو یا دو سے  زیادہ کلمے باہم اس طرح ملا کر( مرکّب کر کے )  بولے جائیں کہ کہنے والے کی غرض اورمدّعا سننے والے پر پورے طور سے ظاہر ہو جائے تو ایسے مرکّب کو کلام کہیں گے،جیسے: خالد بڑا نیک مرد ہے۔

            مرکّبِ ناقص:  جس مرکب سے کہنے والے کی غرض و مدّعا پورے طور پر سننے والے کو معلوم نہ ہو سکے  ایسے مرکب کو مرکّبِ ناقص کہیں گے ، جیسے: زید کا گھوڑا۔

            اسناد : مرکّبِ تام ( یا مرکّبِ مفید ، یا کلام ، یا جملہ ) میں اسناد کا ہونا لازم ہے۔مرکبِ تام کے اجزا کا وہ تعلق جو سننے والے کو کہنے والے کے مدّعا پرمکمل طور سے آگاہ کردے اسناد کہلاتا ہے۔

            مبتدا یا مسند الیہ:  جس چیز کا تعلق کسی دوسری چیز سے ظاہر کیا جاتا ہے اس کو مبتدا ،یا، مسند الیہ کہتے ہیں۔ اردومیں اکثر مسند الیہ پہلے آتا ہے۔

            خبر یا مسند:  جس چیز سے کسی دوسری چیز کا تعلق قائم کیا جاتا ہے اس کو خبر، یا ، مسند کہتے ہیں۔ اردو میں مسند ،مسند الیہ کے بعد بولا جاتا ہے۔مثلاً : زید انسان ہے۔ اس مرکبِ تام میں زید کا تعلق انسان ہونے کے ساتھ ظاہر کیا گیا  ہے  اس لیے ’ زید ‘ مبتدا ،یا مسند الیہ ہے۔ اور انسان ہونے کے ساتھ یہ تعلق قایم ہے اس لیے ’ انسان ‘  خبر یا مسند ہے۔ اوروہ تعلق جو زید کا انسان ہونا ظاہر کر رہا ہے اسناد ہے۔

            مسند الیہ بجاے اسم کے کوئی ضمیر بھی لا سکتے ہیں۔ ( ایسے موقعوں پر مسند الیہ معرفہ یعنی کو ئی شخصِ معیّن ہوتا ہے ) مثلاً:  میں کتاب پڑھتا ہوں  !  ہم کتاب پڑھتے ہیں۔

            اسمِ خاص یا اسمِ معرفہ : ایسا نام جس سے خاص شخص یا خاص چیز اکیلی سمجھی جائے  جیسے  اُسامہ ، بھوپال ، غالبؔ۔۔۔

            اسمِ عام یا اسمِ نکرہ :  ایسا نام جو کسی ایک شخص یا چیز یا کئی شخصوں یا چیزوں کے لیے خاص نہ ہوبلکہ اس کا اطلاق ایک نوع یا جنس کی ہر فرد پر ہو سکتا ہو۔۔۔اُسامہ اسمِ معرفہ یعنی شخصِ معیّن کا نام ہے لیکن انسان اسمِ نکرہ ہے۔ اسی طرح ہمالیہ اسمِ معرفہ ، اور پہاڑ اسمِ نکرہ ہے۔

            ضمیر:  ایسا کلمہ جوکسی شخص یا چیز کے نام کے عوض بولا جائے اور بولنے میں ایک ہی نام کو بار بار دہرانا نہ پڑے، جیسے : زید آیا تھا ،وہ کہتا تھا میں جلدی میں ہوں اور میری طبیعت بھی درست نہیں۔۔۔ اس کلام میں زید اسم ہے اور الفاظ وہ ، میں ، میری ضمیر ہیں جو بجاے اسمِ زید آئے ہیں۔

            ضمیرِ نکرہ:  وہ ضمیر ہے جو غیر معیّن شخص یا چیز کے لیے بولی جائے ، جیسے :کوئی آرہا ہے۔کچھ بیٹھے ہیں ، کئی چلے گئے ضمیرِ نکرہ کے لیے اکثر یہ الفاظ بولے جاتے ہیں : کوئی ، کچھ ، کئی، بعض ،سارا (جیسے: سارا کھا گیا ) ، سب ، کُل ، تمام  وغیرہ۔

            حصر:   ’ ہر ‘  اور  ’ جو ‘  حصر کے واسطے آتے ہیں اور جو لفظ ان کے بعد آتا ہے وہ جنس کا حکم رکھتا ہے۔ ’ جو پیدا ہوا ہے مرے گا ‘  تمام پیدا ہونے والے ایک جنس میں ہیں۔

            ضمیرِ موصولہ:  ایسی ضمیر جو کسی اسم یا ضمیر کی جگہ بیانیہ جملے میں آئے ، ضمیرِ موصولہ کہلاتی ہے۔ یہ دو فقروں میں ربط پیدا کرتی ہے۔ ضمیرِ موصولہ صِرف  ’ جو ‘  ہے جس کی مختلف حالتیں یہ ہیں : جس ، جن ، جنھوں۔کبھی ’ کہ ‘ بطور ضمیر موصولہ کے استعمال ہوتا ہے ، جیسے ،  ع۔۔۔

’میں کہ آشوبِ جہاں تھا پہلے ‘  جس اسم کے لیے  یہ ضمیر آتی ہے اسے  مرجع  کہتے ہیں۔

            صلہ:   ضمیرِ موصولہ کے بعد کا فقرہ ’ صلہ‘ کہلاتا ہے اور’ موصول‘ اور’ صلہ‘ مل کر جملے کا پورا جزو ہوتے ہیں۔صلہ کی مثال :  وہ قلم جو تم نے دیا تھا کھویا گیا۔۔۔ جو کل آیا تھا وہ چلا گیا۔۔۔

            جزا:  اگر ضمیرِ موصولہ میں شرط کے معنی پائے جائیں تو اس کے بعد کے فقرے کو جزا کہتے ہیں۔  جزا کی مثال:  جو تم کہتے تو میں جاتا۔ جو تم بلاتے تو میں آتا۔۔۔

            اضمار قبل الذکر:   پہلے ضمیر استعمال کرنا اور اس کے بعد مرجع کا نام لینا۔ اس سے مقصد سامع کا مشتاق کرنا ہوتا  ہے۔

            ضمیرِ مُستَتِر: (یعنی پنہاں ، چھپی ہوئی)  جیسے: ’ آ ہستہ آ ہستہ چل‘  ( اس میں ’ تو ‘ ضمیرِ فعلِ مستتر ہے )۔: ’ کدھر سے آنا ہوا ‘ (ا س میں  ’ آپ کا ‘ یا ’ تمھارا ‘ ضمیرِ فاعلِ مستتر ہے۔)

            فعل :  ایسا کلمہ ہے جس سے کسی شے کا ہونا یا کرنا ظاہر ہوتا ہے۔ جیسے: تماشا شروع ہوا ، اس نے خط لکھا ، ریل چلی۔

            معنی کے لحاظ سے فعل کی تین قسمیں ہیں : ( ۱ )  لازم  ( ۲ )  متعدی  اور ( ۳ )  ناقص۔

            فعلِ لاز م تام:  ایسا فعل جو فاعل سے مل کر پورا مطلب ظاہر کردے۔ مگر اس کا اثر صرف کام کرنے والے یعنی فاعل تک رہے اور بس۔ جیسے : احمد آیا۔ پپیہا  بولا۔

            فعلِ متعدی:   وہ ہے جس کا اثر فاعل سے گذر کر مفعول تک پہنچے۔جیسے : احمد نے خط لکھا۔ یہاں ’ لکھا‘ فعل ہے ،’ احمد‘ اس کا فاعل اور’ خط ‘

( جس پر لکھنے کا فعل واقع ہوا ہے ) مفعول ہے۔

            فعلِ ناقص:  وہ ہے جو کسی پر اثر نہ ڈالے بلکہ کسی اثر کو ثابت کرے۔ جیسے احمد بیمار ہے۔ اس جملے میں فعل کا کرنا نہیں بلکہ ہونا پایا جاتا ہے۔ احمد، جو یہاں فاعل ہے ، کام کرنے والا نہیں بلکہ فعل کا  سہنے والا ہے، اور بیمار خبری حالت میں ہے۔افعالِ ناقص اکثر یہ آتے ہیں : ہونا ، بننا ، نکلنا ، رہنا ، پڑنا ، لگنا ، نظر آنا ۔

            جملہ اسمیہ:  اصلی جملے کو ’ خاص جملہ ‘ اور اس کے ما تحت جملے کو تابع جملہ کہتے ہیں۔ جملۂ اسمیہ تابع جملہ ہوتا ہے جو بجائے خود ایک اسم کا کام دیتا ہے اور جملے کی ترکیب میں بجائے ایک اسم کے ہوتا ہے۔، جیسے: میرا ایمان ہے کہ خدا ایک ہے۔ یہاں ’ خدا ایک ہے ‘ بجائے ایک اسم کے ہے۔ یعنی ہم اس کے بجائے یوں کہہ سکتے ہیں کہ ’ توحید میرا ایمان ہے ‘۔

            جملہ اسمیہ دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک وہ جو اصل جملے کے فعل سے مبتدا کا تعلق رکھتا ہو یا جو مبتدا کا بدل ہو۔ دوسرا وہ جواصل جملے کے فعل کو یا خبر کے کسی تابع کو محدود کرے یا اس پر اثر ڈالے۔

            تمام اسمی جملوں کی ابتدا حرفِ ’ کہ ‘ سے ہوتی ہے ، جیسے:یہ صاف ظاہر ہے کہ وہ اس کا کام نہیں ہے  ( یہاں تابع جملہ مبتدا  ’ یہ ‘  کا بدل ہے  )۔

            اسمی جملہ جس کا تعلق خبر سے ہوتا ہے وہ جملے کے فعل کا مفعول ہوتا ہے ، جیسے : اس نے کہا کہ تم گھبراؤ نہیں۔۔۔ تم دیکھ کر آؤ کہ سامنے کون چلا جا رہا ہے۔

            حالیۂ معطوفہ :  اس کا تعلق ہمیشہ جملے کے اصل فعل سے ہوتا ہے۔ یہ ہمیشہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ جملے کے اصل فعل سے جس کام کا اظہار ہوتا ہے اس سے پہلے ایک کام ہو چکا ہے۔ چونکہ حرفِ عطف کے معنی اس میں شریک ہوتے ہیں اس لیے حالیۂ معطوفہ کہلاتا  ہے۔ایسے موقع پر حرفِ عطف  ’ اور ‘ عموماً استعمال کیاجاتا ہے ، چنانچہ غالبؔ ، ع لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔

            اسمِ فاعل:   یہ وہ اسم ہے جو فعل سے بنتا ہے اور اس کے معنی کام کرنے والے کے ہوتے ہیں۔مثلاً زید آیا۔ یہاں زید فاعل ہے جس سے آنے کا فعل صادر ہوا ، اور آنے کی نسبت سے جو زید کا نام رکھا جائے یعنی ’ آنے والا ‘ تو اس نسبتی نام کو اسمِ فاعل کہیں گے نہ کہ فاعل۔ اسی طرح  ’ اس نے کھایا ‘ میں ضمیر ( اُس ) فاعل ہے ، اور ’ کھانے والے نے کھایا ‘ میں کھانے والا اسمِ فاعل ہے۔کبھی صرف مصدر سے اسمِ فاعل کے معنی لیے جاتے ہیں : پھسلنا پتّھر ، رونا بچّا وغیرہ۔۔۔ کبھی صرف ’ والا‘ کسی اسم پر بڑھا دیں گے : زور والا ، محبت والا، رحم والا۔۔۔غرض اسمِ فاعل بنانے کے متعدد قاعدے ہیں۔

            اسمِ فاعل ترکیبی:  اسم کے ساتھ امر یا دوسرا اسم اضافہ کرنے سے بنتا ہے۔ جیسے : بخشن ہار ، ہونہار ، مرن ہار ، جان ہار۔۔۔ان مثالوں میں مثلاً ’ جانہار ‘ کا لفظِ ’ جان ‘ اسم نہیں بلکہ مصدر ’ جانا ‘ کا الف گرا کر ’ جان ‘ کر لیا ہے۔جان ہار میں اگر جان کو اسم اور ہار کو امر مانا جائے تو یہ اسمِ فاعل ترکیبی ہوگا۔   اسم فاعل ترکیبی کی دیگر مثالیں : بٹ مار ، چرواہا ، دودھ پیتا ، راہ چلتا ، کھٹ بُنا، چغل خور ، بے چین ، بے قرار ، بے جوڑ وغیرہ۔

            اسم فاعل سماعی:  اسی طرح فارسی اسم فاعل جو اردو میں مستعمل ہیں ، مثلاً راہرو ، راہبر ، راہ گیر ، کار ساز ، دل کشا ، جاں نواز ، غم گسار ، طاقتور ، دانشمند ، بینا ، توانا وغیرہ یہ سب اسمِ فاعل سماعی ہیں۔

            اسم مفعول: جس اسم یا ضمیر پر فعل واقع ہو اور اس واقع شدہ فعل کی نسبت سے جو اس اسم یا ضمیر کا نام رکھیں اس کو اسمِ مفعول کہتے ہیں نہ کہ مفعول، جیسے لایا ہوا ، بلایا ہوا ، منگائی ہوئی ، لائے ہوئے وغیرہ۔اسم مفعول ہمیشہ فعلِ متعدی سے آتا ہے۔ یعنی اصل فعل متعدی ہوتا ہے۔

            اسمِ مفعول ترکیبی:  نکٹا ، کَن پھٹا ، بیاہتا ، دل پسند ، ناز پروردہ ، چشم دیدہ ، دست گرفتہ  وغیرہ۔۔

            تشابہ :  یہ ہے کہ بعض اوصاف میں دو چیزیں متحد ہوں لیکن تمام اوصاف میں متحد ہونا ضروری نہیں۔قلم کئی طرح کے ہوتے ہیں ؛ نیزے کے قلم ، آہنی قلم ، سرمئی قلم ، پر کے قلم۔ لکھنے کی صفت میں سب میں یہی تشابہ ہے لیکن سب کے جوہر مختلف ہیں۔

            مجاز:  الفاظ کا اپنے حقیقی اور وضعی معنوں کے علاوہ اپنے معنیِغیر موضوع لہ میں بھی استعمال ہوتا ہے ،  اس کومجاز کہتے ہیں۔جب الفاظ اپنے غیر حقیقی معنوں میں استعمال کیے جاتے ہیں تو بعض دفعہ ان غیرحقیقی معنوں میں استعمال کرنے کا کوئی قرینہ ہو اکرتا ہے ، جس سے یہ سمجھ میں آ جاتا ہے کہ متکلم نے ان الفاظ کو وضعی معنوں میں استعمال نہیں کیا۔ ’ زید کا ہاتھ کھلا ہوا ہے ‘ یعنی زید مسرف ہے یا سخی ہے۔ قرینہ اس میں یہ ہے کہ اگر ہاتھ میں روپیہ ہو اور اس کو خرچ کرنانہ چاہیں تو مٹھی بند رکھتے ہیں اور دیتے وقت کھول دیتے ہیں۔ تو جس شخص کا ہاتھ ہر وقت کھلا رہے وہ زیادہ سخی ہے علمِ بیان کی اصطلاح کے موافق ایسی دلالتِ غیر وضعی کو ، جس میں قرینہ پایا جاتا ہے ، مجاز کہتے ہیں۔  مجاز میں غیر حقیقی معنی لینے کا جو قرینہ پایا جاتا ہے وہ قرینہ کبھی علاقہ تشبیہ کا ہوتا ہے۔ اس کو استعارہ کہتے ہیں۔

            کبھی سوا تشبیہ کے اور قرینے بھی ہوتے ہیں۔ اس کو مجازِ مرسل کہتے ہیں۔

            استعارہ اور مجازِ مرسل میں الفاظ کے وضعی معنی لینے سے کلام مہمل ہو جاتا ہے۔

            کنایہ :  ایسی دلالتِ غیر وضعی جس میں قرینہ نہ پایا جائے ، کنایہ کہلاتی ہے۔’’ احمدکا دستر خوان بہت وسیع ہے‘ ‘۔دستر خوان کی وسعت مہمانوں کی کثرت پر دلالت کرتی ہے تو خواہ  یہ مراد لی جائے کہ احمد مہمان نواز شخص ہے یا یہی کہ وہ کپڑا جو کھانا کھاتے وقت احمد کے سامنے بچھایا جاتا ہے بہت لمبا چوڑا ہے۔ یہ کنایہ ہے۔

            علّت و معلول :  ایک شے یا ایک واقعہ دوسری شے یا واقعے کا سبب ہو۔پہلی شے یا واقعہ علت ہے اور دوسرا معلول۔

            تعقید:  اگر کلام کی دلالت معانی پر صحیح اور واضح نہ ہو بلکہ تامل و غور کے بعد مطلب ظاہر ہو سکے تو اسے تعقید کہتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں : تعقیدِ لفظی اور تعقیدِ معنوی۔

            تعقیدِ لفظی :  الفاظ کی تقدیم و تاخیر یا حذف وغیرہ کی وجہ سے مطلب ظاہر نہ ہو تو یہ تعقیدِ لفظی ہے ، جیسے ناسخؔ     ؂

 نہیں آتا نظر مرہم لگائے کس جگہ کوئی

 دہانِ یار گویا منہ ہے میرے زخمِ پنہاں کا

الفاظ کی ترتیب نے معنی ہی بدل دیے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دہانِ یار کو زخمِ پنہاں کے منہ سے تشبیہ دی ہے اور دہانِ یار پر مرہم لگانا چاہتا ہے۔ درانحالے کہ شاعر کا مطلب یہ ہے کہ میرا زخمِ پنہاں دہانِ یار کی طرح پنہاں ہے ، نظر نہیں آتا۔ اس وجہ سے اس پر مرہم نہیں لگایا جاسکتا۔

            تعقیدِ معنوی:  اگرکلام میں بہت سے بعید لوازم اور کثیر واسطے ہوں لیکن وہ کلام میں مذکور نہ ہوں اور ان کے سمجھنے کے لیے بہت غور و تامل کرنا پڑتا ہو، تو یہ تعقیدِ معنوی ہے۔غالبؔ کا شعر ہے    ؂

 نظر لگے نہ کہیں ان کے دست و بازو کو

 یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں

لوازم اس شعر میں یہ ہیں کہ زخم کاری لگاہے جس سے یار کے دست و بازو کی قوت ظاہر ہوتی ہے۔ لوگ زخم کی گہرائی دیکھ کر عش عش کریں گے جس سے اس کے دست و بازو کو نظر لگنے کا اندیشہ ہے۔

            غالبؔ نے قاضی عبد الجلیل جنونؔ بریلوی کو تحریر کیا ہے : ’ عربی میں تعقیدِ لفظی و معنوی دونوں معیوب ہیں۔ فارسی میں تعقیدِ معنوی عیب اور تعقیدِ لفظی جائز ہے ، بلکہ فصیح اور ملیح۔ ریختہ تقلید ہے فارسی کی ‘۔

شرحِ کلام غالبؔ از نظم طباطبائی

فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا

 یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا

            یعنی وہاں رنگ و عیش کی رنگ رلیاں ہو رہی تھیں  اور ہم یہاں جل رہے تھے۔ ’ سوختن  کے باب سے ماضی و حال و مستقبل کی تصریف مراد ہے۔ نزاکت یہ ہے کہ اس امتدادِ زمانہ کو جوتصریف میں سوختن کے ہے مصنف نے امتدادِ مکانی پرمنطبق کیا ہے۔ دوسرا پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ یہاں کا زمین و آسمان آگ لگا دینے کے قابل تھا۔

 غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ بچیں کہاں کہ دل ہے

 غمِ عشق گر نہ ہوتا غمِ روزگار ہوتا

            ’ پہ ‘ بہ معنی ’ مگر ‘ اور ان معنی میں ’ پر ‘ فصیح ہے۔ اور آخرِ مصرع میں ’ ہے ‘ تامہ ہے اور پہلا ’ ہے ‘ ناقصہ۔

 کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بری بلا ہے

مجھے کیا  برا تھا مرنا ا گر ایک بار ہوتا

            ’ کیا ہے ‘  میں ضمیر مستتر ہے ، مرجع اس کا شبِ غم ہے جو دوسرے میں ہے کہ اگر اس شعر میں اضمار قبل الذکر اور ضمیر کو مستتر نہ لیں بلکہ ’ ہے ‘ کا فاعل ’ شبِ غم ‘ کو کہیں تو لطفِ سجع جاتا ہے تاہم خوبی اس شعر کی حد تحسین سے باہر ہے۔

ہو ائے سیرِ گل آئینۂبے مہریِ قاتل

 کہ اندازِ بخوں غلتیدنِ بسمل پسند آیا

پہلے مصرع میں سے فعل محذوف ہے۔

یک الف بیش نہیں صیقل ِآئینہ ہنوز

 چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا

        ’  بیش نہیں ‘  بیانِ حصر کے لیے ہے مگر اردو کی نحو اس کی متحمل نہیں۔ یہ فارسی کا ترجمہ ہے۔

 بخشے ہے جلوۂ گل ذوقِ تماشا ، غالبؔ

 چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا

            یعنی باغ میں رنگ رنگ کے پھول کھلتے ہوئے دیکھ کر یہ ذوق پیدا ہوتا ہے کہ اسی طرح ہر رنگ میں آنکھ کو وا کرنا چاہیے اور ہر طرح کی سیر کرنا چاہیے۔ ’ بخشے ‘ کا فاعل ’ جلوۂ گل ‘ ہے اور مفعول بہ ’ ذوقِ تماشا ‘ ہے اور دوسرا مصرع ذوقِ تماشا کی تفسیر ہے۔

ہے جنوں اہلِ جنوں کے لیے آغوشِ وداع

 چاک ہوتا ہے گریباں سے جدا میرے بعد

            ’ ہے ‘  کا محل وداع کے بعد تھا لیکن ضرورتِ شعر کے سبب سے مقّد م کر دیا ورنہ نحوِ اردو میں فعل کو تمام متعلقات کے بعد ذکر کرتے ہیں۔ البتہ مقامِ استفہام میں کہتے ہیں ؛ ہے کوئی ایسا جو میری اعانت کرے۔

 سر پھوڑنا وہ غالبِ شوریدہ حال کا

  یاد آگیا مجھے تری دیوار دیکھ کر   

 مصنف نے عاشق کی جگہ غالبؔ کہا اورنکرہ کے بدلے معرفہ کو اختیار کیا اور اس سبب سے شعر زیادہ  مانوس ہو گیا۔

 ہے خونِ جگر جوش میں ، دل کھول کے روتا

 ہوتے جو کئی دیدۂ  خوننابہ فشاں اور

            ’ ہے خونِ جگر جوش میں ‘  جملۂ خبریہ ہے اور اس کے بعد آخرِ شعر تک تمنّا ہے اور یہ تمنّا مبنی ہے خبرِ سابق پر کہ تمنّا کرنے کی وجہ جوشِ خون ہے۔ اسی سبب سے مصنف نے یہاں انشا کے ساتھ خبر کو جمع کیا اور شعر میں بہ نسبت خبر کے انشا زیادہ لطف دیتی ہے۔

 

لیتا ، نہ اگر دل تمھیں دیتا ، کوئی دم چین

 کرتا، جو نہ مرتا ، کوئی دن آہ  و فغاں اور

            دونوں مصرعوں میں شرط جزا کے درمیان میں (کذا ) واقع ہوئی ہے اور دونوں مصرعوں کی ترکیب میں مشابہت اور معادلت ہے اور حسنِ بندش ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر دل تمھیں نہ دے دیا ہوتا تو کوئی دم چین لیتا ، اگر نہ مر جاتا تو کچھ دنوں آہ  وفغاں کرتا۔۔۔

            (ا ستدراک :۔  غالبؔ نے قاضی عبد الجلیل جنونؔ بریلوی کو ایک خط میں لکھا ہے :  یہ بہت لطیف تقریر ہے۔ ’ لیتا ‘ کو ربط ہے ’ چین ‘سے۔ ’ کرتا ‘ مربوط ہے ’ آہ و فغاں ‘ سے۔ عربی میں تعقیدِ لفظی و معنوی دونوں معیوب ہیں۔ فارسی میں تعقیدِ معنوی عیب اور تعقیدِ لفظی جایز ہے ، بلکہ فصیح اور ملیح۔ ریختہ تقلید ہے فارسی کی۔ حاصلِ معنیِ مصرعین یہ کہ اگر دل تمھیں نہ دیتا تو کوئی دم چین لیتا۔ اگر نہ مرتا تو کوئی دن اور آہ و فغاں کرتا ‘۔۔۔  نحو کے اعتبار سے پہلے مصرع میں ’ لیتا ‘ کا محل آخرِ مصرع ہے اور دوسرے مصرع میں بھی ’ کرتا ‘ آخر میں ہونا چاہیے تھا لیکن معنی کے اعتبار سے یہاں ترتیبِنحوی کی مخالفت ہی چاہیے اور ’ لیتا ‘ اور ’ کرتا ‘ کا مقدّم کر دینا ہی ضروری ہے کہ ان دونوں فعلوں کے مقدّم کر دینے سے معنی میں کثرت پیدا ہوگئی۔ اب ترتیبِ الفاظ ان معنی پر دلالت کرتی ہے جیسے معشوق نے اس سے کہا ہے کہ تو کوئی دم چین نہیں لیتا اور اب تو آہ و فغاں کرنا بھی تو نے کم کر دیا۔ اس کے جواب میں یہ شعر ہے کہ ہاں ، لیتا میں چین اگر دل تجھے نہ دیا ہوتا ، کرتا کچھ دنوں اور آہ و فغاں ( اگر ) مر نہ گیا ہوتا۔اور اس میں شک نہیں کہ کثرتِ معنی سے کلام میں حسن پیدا ہوتا ہے اور حسنِ ایجاز کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ سوال کو مقدّر کر کے فقط جواب ایسے الفاظ میں ادا کرے کہ اس سے ساری عبارت سوال کی مخاطب کی سمجھ میں آ جائے اور اصطلاح میں اسے  دفعِ دخلِ مقدّر کہتے ہیں اور یہ طریقہ ایسا شایع ہے بلکہ ایک ا  مرِ فطری ہے کہ روز مرّہ کی بول چال میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً جس شخص سے خلفِ وعدہ  ہوا ہو وہ کہتا ہے : میں کل نہ آ سکا ، مجھے ایک کام ہو گیا۔ اور چھوٹتے ہی یہ بات کہہ اٹھنا ان معنی پر دلالت کرتا ہے جیسے مخاطب نے اس سے کہا ہے کہ تم نے وعدہ خلافی کی یا تساہل کیا ، یعنی اعتراضِ مقدّر کا جواب ہے۔  

فنا کو سونپ گر مشتاق ہے اپنی حقیقت کا

 فروغِ طالعِ خاشاک ہے موقوف گلخن پر

            یعنی فنا فی اللہ ہو کر فروغِ معرفت حاصل کر۔ اس شعر میں لفظ ’ حقیقت ‘ میں دو عالموں کا تنازع ہے : ایک فعل ، دوسری اضافت۔ یعنی لفظ ’ سونپ ‘ یہ چاہتا ہے کہ حقیقت مفعول بہ ہو اور علامتِ مفعول یعنی’ کو ‘ اس میں ہونا چاہیے اور لفظ مشتاق جو حقیقت کی طرف مضاف ہے وہ چاہتا ہے کہ ’ کا ‘ علامتِ مضاف الیہ اس میں ہو اور نحو اردو یہ ہے کہ عاملِ ثانی کو عمل دینا چاہیے۔ جیسا کہ اس شعر میں ہے۔

 

 ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچّھے

کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور

            ’ کہتے ہیں ‘ کا فاعل حذف کر نے سے یہ معنی پیدا ہوئے کہ یہ بات عام ہے اور مشہور ہے۔

 

گذری نہ بہر حال یہ مدّت خوش و  نا خوش

  کرنا تھا جواں مرگ گذارا کوئی دن اور

’ نہ ‘ استفہامِ انکاری کے لیے ہے اور جواں مرگ منادی ہے۔

 ہرایک ذرّۂ عاشق ہے آفتاب پرست

 گئی نہ خاک ہوئے پر ہواے جلوۂ ناز

            ’ ہوا ‘ کی لفظ میں یہ ابہام ہے کہ ذرہ ہوا میں ہوتا ہے۔ ’ ہوئے ‘ ماضی ہے مگر جب اس کے ساتھ حروفِ متّصل ہوتے ہیں تو مصدر کے معنی ہو جاتے ہیں۔ مثلاً کسی کے کہے سے کیا ہوتا ہے۔ ان کے آئے کو دو دن ہوئے۔ سورج نکلے تک میں آؤں گا۔ یہ دن چڑھے کا ذکر ہے۔ اور حروف میں سے دو حروف جو باقی رہ گئے یعنی ’ نے ‘ اور ’ میں ‘ یہ دونوں حرف اس صیغے سے کبھی نہیں ملتے۔ ’ نے ‘ اس سبب سے نہیں ملتا کہ یہ علامتِ فاعل ہے اور یہ سب  صیغے متعلقاتِفعل سے ہوا کرتے ہیں اور ’میں ‘ اس سبب سے نہیں ملحق ہوتا کہ اس قسم کے اکثر متعلقات میں خود معنی ظرفیت کے ہوتے ہیں جیسے ’ کہتے ہیں : رات گئے یہ بات ہوئی اور دن چڑھے یہ واقعہ ہوا۔ لیکن یہ سب مواقعِ استعمال سماعی ہیں ، اس پر اور افعال کا قیاس کرنا صحیح نہ ہوگا۔

نہ پوچھ وسعتِ مے خانۂ جنوں ، غالبؔ

 جہاں یہ کاسۂ گردوں ہے ایک خاک انداز

            ’ ایک ‘ کا لفظ اردو میں تنکیر کے لیے ہوتا ہے اور یہاں تنکیر سے تحقیر مقصود ہے کہ تنکیرکے ایک معنی یہ بھی ہیں۔

 تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ

واقعہ سخت ہے اور جان عزیز

            ’ اور ‘ اس شعر میں فع کے وزن پر ہے ، وسط میں سے واو گر گیا اور وسط میں سے کوئی حرف کبھی نہیں گرتا اور یہ حرفِ عطف ہے اور حروف جتنے ہیں ان سب میں اختصار ہی اچھا ہوتا ہے اس سبب سے کہ وہ محض روابط اور صلات ہوتے ہیں۔

 کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں

 ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں

’ کی ‘ کا فاعل معشوق ہے۔

ہے تجلّی  تری سامانِ وجود

 ذرّہ بے پرتوِ خورشید نہیں

            ’ ہے ‘ کا اس طرح سے مقدّم کر دینا  شعر کے لیے مخصوص ہے۔ عبارت میں کسی فعلِ ناقص کو اسم و خبر پر خصوصاً اسم پر مقدّم کرنا نہیں درست۔ اردو میں افعالِ ناقصہ یہ ہیں : نہیں ،  ہے ،  تھا ،  ہوا ،  رہا ،  ہو گیا ،  بن گیا۔ اور ترا  اورتری اور مرا اور مری میں ’ ی ‘ کا حذف بھی شاعری ہی کے لیے ہے ، کسی اور عبارت میں ہو تو غیر فصیح ہے۔

 

 تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر

 آنے کا وعدہ کر گئے آئے جو خواب میں

            اس شعر میں معشوق کی شوخی کا بیان کیا ہے۔ اس کوچے کی طرف خوش فکر غزل گو بہت دوڑتے ہیں اور جس شعر سے کوئی شوخی معشوق کی نکلے وہی شعر غزل کا اچھا شعر ہوتا ہے۔ مصنف نے یہاں ’ وہ ‘ کا لفظ ترک کیا اور اس ترک سے معنیِ لطیف یہ پیدا ہوئے کہ جیسے سب جانتے ہیں کہ اس کے سوا ہم کسی کا ذکر ہی نہیں کرتے یا یوں سمجھو جیسے دل سے معشوق کی باتیں کرتے کرتے یہ بات منہ سے نکل گئی۔اور ضمیر دل ہی میں رہ گئی۔کلامِ فصحا میں حذف و ترکِ ذکر کے بہت سے سبب ہوا کرتے ہیں لیکن یہاں یہی دونوں سبب ہوسکتے ہیں جو بیان ہوئے۔

 قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں

 میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں

            یہ شعر بہت بلیغ ہے۔ اپنا معاملاتِ عشق میں صاحبِ تجربہ اور معشوقوں کا مزاج داں ہونا اور معشوق کا بد عہد و حیلہ جو ہونا یہ سب معنی اس سے سمجھ میں آتے ہیں۔ یہاں ’ آتے آتے ‘ کے معنی ’ جب تک قاصدآئے آئے۔ جیسے رندؔ نے کہا ہے     ؂

 سانس دیکھی تنِ بسمل میں جو آتے جاتے

 اور چرکا دیا جلّاد نے جاتے جاتے

یعنی جب تک جائے جائے اور چرکا لگا دیا اور کبھی فعل کو محض تکرارِ معانی کے بیان کے لیے اس طرح مکرّر بولتے ہیں  جیسے : ’لکھتے لکھتے ہاتھ دکھ گیا ‘  اور کبھی مسند الیہ کی حالت کے بیان میں مکرّر لاتے ہیں  جیسے : تم روتے روتے ہنسنے کیوں لگے۔ اور کبھی شروعِ فعل کے معنی تکرار سے ظاہر ہوتے ہیں جیسے : ’ تم دیتے دیتے رہ گئے ‘۔

ہیں آج کیوں ذلیل ، کہ کل تک نہ تھی پسند

گستاخیِ  فرشتہ  ہماری  جناب  میں

  جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دمِ سماع

 گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں

            یہاں استفہام اس غرض سے نہیں کیا ہے کہ جواب کا خواہاں ہے ، بلکہ سامع کا تنبیہ کرنا فقط مقصود ہے

 قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے د ر یا ، لیکن

  ہم کو تقلید تنک ظرفیِِ منصور نہیں

قطرہ مضاف ہے اور اپنا مضاف الیہ۔ اور اضافت یہاں بیانیہ ہے۔

 کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت غالبؔ

  تم کو بے مہریِِیارانِ وطن یاد نہیں

            نحوِ اردو کے دقایق میں سے ایک یہ مسٔلہ ہے کہ ’ تم کو ‘ یہاں ترکیب میں کیا ہے اور ’ یاد ‘ کیا ہے۔اگر یوں کہیں کہ ’ نہیں ‘  فعلِ ناقص ہے۔ اسم اس کا ’بے مہریِ یارانِ وطن ‘ہے اور خبر اس کی     ’ یاد ‘ہے تو اس صورت میں ’ تم کو‘  کو مفعول نہیں کہہ سکتے۔ اس لیے کہ فعلِ ناقص لازم ہوا کرتا ہے۔ اگر یوں کہیں کہ ’ نہیں ‘ اس مقام میں تامّہ ہے اور ’بے مہریِ یارانِ وطن ‘فاعل اور ’ تم کو ‘ مفعول ہے تو اس صورت میں ’ یاد ‘ ترکیب میں کیا ہے۔ اور ’ نہیں ‘ تامّہ ہوا تو متعدی کیوں ہوگیا۔ یہ دونوں اشکال اس طرح رفع ہو سکتے ہیں کہ یوں کہیں کہ پہلی صورت میں ’تم کو ‘ کو ہم مفعول بہ نہیں کہتے بلکہ متعلقِفعل ہے ، اس لیے کہ ’ کو ‘ مفعول بہ کے لیے خاص نہیں ہے۔ مفعول لہ کے لیے بھی ہوتا ہے جیسے کہتے ہیں ’حج کو گئے‘ ، اورمفعول فیہ کے لیے بھی ’ کو ‘ آتا ہے جیسے کہتے ہیں :’منگل کو روانہ ہوئے‘۔ ’ طرف ‘ کے معنی پر بھی آتا ہے جیسے پوچھتے ہیں : ’قافلہ کدھر کو گیا‘۔ اس کے علاوہ جس طرح ’ کو‘ مفعول  بہ کے لیے خاص نہیں ہے اسی طرح مفعول بہ بھی ’ کو ‘ کے لیے خاص نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ :  ’خط پڑھا اور زید کو بھی پڑھایا‘۔ یعنی مفعول بہ اگر ذوی العقول میں سے ہو تو وہ ’ کو ‘ کے ساتھ بولا جاتا ہے اور افعال قلوب میں بھی یہی ضابطہ رہتا ہے۔  جیسے’ زید کو احمق سمجھا ‘۔

            اور اسی طرح جن فعلوں کے دو مفعول ہوتے ہیں وہاں بھی فقط دونوں میں جو اشرف ہے اسی کے ساتھ ’ کو ‘ استعمال کرتے ہیں ، جیسے : ’گھوڑے کو دانہ دیا‘۔ اور دوسری صورت میں یہ کہیں گے کہ  ’ یاد ‘ کو ہم متعلقات میں نہیں شمار کرتے بلکہ جزو فعل ہے یعنی یاد ہونا فعلِ متعدی ہے اور ’ ہم کو ‘ مفعول بہ ہے اور اس طرح کے فعل اردو میں بہت ہیں جن میں ایسی ترکیب واقع ہوئی ہے۔ مثلاً’ دعا قبول ہوئی‘ اور’ کہنا قبول ہوا‘ کہ اس مثال میں ’ قبول ہونا‘ایک فعلِ مرکّب ہے اور ’قبول‘ معمول فعل نہیں ہے، نہیں تو مقبول ہونا چاہیے تھا۔ یا ’ راز افشا ہوا ‘ کہ اگر’ افشا ‘کو معمول فعل لیں تو افشا بہ معنی افشا شدہ ہونا چاہیے تھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ افشا ہونا خود فعل ہے اور افشا جزوِ فعل ہے۔یا جیسے مطلب حصول ہوا کہ اس میں حصول کو اگر جزوِ فعل نہ قرار دیں تو حصول کی جگہ حاصل کہنے کا موقع تھا۔  یا جیسے کہتے ہیں : ہمیں یہ بات تسلیم نہیں۔ یہاں ’ تسلیم ہونا‘ فعلِ مرکّب ہے ، تسلیم فعل سے خارج اور ا س کے ساتھ متعلق ہو یہ بات نہیں ورنہ مسلّم کہنا چاہیے تھا۔جب یوں کہتے ہیں کہ وہ خوش ہے تو اس میں ’ ہے ‘  فعلِ ناقص ہوا کرتا ہے اور اسم و خبرلفظ ’ وہ ‘ اور لفظ ’ خوش ‘ ہے۔ اور جب یوں کہتے ہیں کہ اس کو خوشی ہے تو اس مثال میں ’ ہے ‘ تامّہ ہے اور خوشی فاعل ہے اور ’اس کو ‘  مفعول بہ ہے لیکن بہ نظرِ دقیق ’ اس کو ‘ متعلق ہے اور ’ کو ‘  اس میں صلہ ہے ، علامتِ مفعول بہ نہیں ہے۔

            اس قیاس پر ان مثالوں کو سمجھنا چاہیے جیسے وہ  رنجیدہ ہے اور اس کو رنج ہے ، وہ ملول ہے ، اور اس کو ملال ہے ، وہ خبر دار ہے اور اس کو خبر ہے۔ لیکن ان مثالوں میں ’ اس کو ‘ کس قسم کا تعلق فعل سے رکھتا ہے  ؟ یہ تعلق ویسا ہے جیسا محل کو حال کیساتھ ہوتا ہے۔

 

 جو آؤں سامنے ان کے تو مرحبا نہ کہیں

 جو جاؤں واں سے کہیں کو تو خیر باد نہیں

            بے التفاتی کی شکایت ہے۔ اور ’ کو ‘ طرف کے معنی پر ہے اور زاید اسے نہ سمجھنا چاہیے۔ اس زمانے کے شعرا اکثر اس مغالطے میں ہیں کہ ’ اِدھر کو اوراُدھر کو اور کہیں کو ‘ میں ’ کو ‘  زاید سمجھتے ہیں اور اس کے استعمال سے احتراز کرتے ہیں۔ اسی طرح سے ’ اس طرح سے ‘کہنے میں ’ سے ‘ کو زاید کہتے ہیں اس کو ترک کیا ہے اور یہ خیال غلط ہے۔

غلطیہاے مضامیں مت پوچھ

لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں

            یعنی ہم کو تجربہ حاصل ہے کہ نالے کو کبھی رسائی نہیں ہوتی۔ یہ تو ظاہر معنی ہیں اور ایہام ایک معنی کی طرف ہے کہ اگر رسا ہوتا تو باندھتے کسے۔ اس کا بندھ جانا ہی دلیلِ واماندگی و نا رسائی ہے۔

            لفظِ ’ غلط ‘ میں یاے مصدری لگانا غلط در غلط ہے۔ فارسی میں کسی نے ایسا تصرّف نہیں کیا  بلکہ قدیم اردو میں بھی ’ ی ‘ نہیں بڑھائی گئی تھی۔ میرؔ    ؂ 

غلط اپنا کہ اس جفا جو کو

 سادگی سے ہم آشنا سمجھے

            ہاں اب محاورہ ہندیوں کا یہی ہے۔ اس سبب سے غلطی کا لفظ ہندی سے فارسی ترکیب میں اس کو لانا ،فارسی کی جمع بنانا اور فارسی اضافت اس کو دینا صحیح نہیں۔ خود مصنف نے لفظ ’ انتظاری ‘ کے باندھنے کو ایک خط میں منع کیا ہے۔

 اہل ِ تدبیر کی  وا  ماندگیاں

 آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں

            پہلے مصرع میں سے خبر محذوف ہے اور مقامِشماتت میں خبر کا حذف محاورے میں ہے۔ جیسے کہتے ہیں : ’ تقدیر ‘۔۔۔ یعنی تقدیر کی برائی دیکھو۔’ نا فہمی ‘۔۔۔یعنی نافہمی کا نتیجہ دیکھو۔

 سادہ  پُرکار ہیں خوباں غالبؔ

ہم سے پیمانِ وفا باندھتے ہیں

ِِ     ’ ہم ‘ کو خاص لہجے میں پڑھنا چاہیے جس سے یہ معنی نکلیں گے کہ کوئی اور بھی نہیں : ہم ! یہی وجہ ہے سادہ کہنے کی کہ وہ جانتے ہیں کہ ہم ان کے فریب میں آ جائیں گے اور پُر کار اس وجہ سے کہا کہ فریب دینے کا قصد رکھتے ہیں۔

            ’ خوباں ‘ خوب کی جمع ہے اور آج کل کی اردو میں الف نون کے ساتھ ہر ایک لفظ کو جمع بنا لینا نہیں درست ہے۔ اس باب میں دکن کے محاورے میں بہت توسیع ہے اور یہ لوگ کلیۃً ہر لفظ کو اس طرح جمع بناتے ہیں لیکن اردوئے معتبر جو سمجھی جاتی ہے اس میں جمع بنانے کا یہ ضابطہ ہے کہ اگر لفظ حروفِ معنویہ میں سے کسی حرف کے ساتھ متصل ہے تو واو نون کے ساتھ جمع کریں گے۔ اور حروفِ معنویہ سات ہیں :  نے ، کو ، میں ، پر ، تک ، سے ، کا ۔ جیسے ؛ مردوں نے ، عورتوں کو الخ۔ اور اگرمنادی ہے تو فقط واو سے جمعٔبنا ئیں گے جیسے ؛ یارو ، لوگو۔ لیکن بولنے میں حالتِ ندا میں بھی نون ہے۔ کچھ رسم ایسا ہی ہو گیا ہے کہ یارو اور دیکھو قافیہ کرتے ہیں اور بغیر نون کے لکھتے ہیں۔ اور اگر لفظ ندا سے اور حروفِ معنویہ سے مجرّد ہے تو یا تو مذکّر ہے یا مؤنث۔ اگر مذکر ہے اور اس کے آخر میں ہاے مختفی یا الفِ تذکیر ہے تو فقط امالہ کر کے جمع بناتے ہیں۔ جیسے ؛ حوصلہ اور حوصلے۔ لڑکا اور لڑکے۔ اور اگر یہ دونوں حرف آخر میں نہیں ہیں تو مفرد و جمع میں مذکر کے کچھ امتیاز نہیں کرتے۔  جیسے ایک مرد آیا۔کئی مرد آئے۔ اور اگر لفظ مؤنث ہے اور آخر میں اس کے کوئی حرفِ علّت یا ہاے مختفی نہیں ہے تو  ’ ی ، نون ‘ سے جمع  بناتے ہیں ، جیسے :  راہیں ، آنکھیں۔ اور اگر آخر میں الف تصغیر ہے تو فقط نون سے جمع بنتی ہے جیسے لٹیاں ، بڑھیاں۔  اور اگر آخر میں ہاے مختفی یا الف اصلی یا واو ہے تو ہمزہ ، ی ، نون بڑھا کر جمع بنائیں گے۔ جیسے ؛ خالائیں ، بیوائیں  گھٹائیں ، آرزوئیں ، آبروئیں۔ اور اگر آخر میں ی ہے تو اس صورت میں البتّہ الف نون کے ساتھ جمع کرتے ہیں ، جیسے : لڑکیاں ، بجلیاں۔

 دل کو نیازِ حسرتِ دیدار کر چکے

 دیکھا تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں

            ’ دیکھا ‘ یہاں افعالِ قلوب میں سے ہے اور دونوں معمولوں سے متعلق ہے۔

 

اس سادگی پہ کون  نہ مر جائے اے خدا

 لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

’ اور ‘ اس شعر میں حالیہ ہے۔

 ہوئے اس مہر وش کے جلوہ ٔ تمثال کے آگے

 پر افشاں جوہر آیینے میں مثلِ ذرّہ روزن میں

’ ہوئے ‘ کا اسم جوہر ہے ، اور خبر ’ پر افشاں ‘ ہے۔

 ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ

 کھلا کہ فایدہ عرضِ ہنر میں خاک نہیں

            ’  کھُلا ‘ کے فاعل کا حذف اس نظیر کے سبب سے شاید شعر میں درست ہو جائے تو ہو جائے ، ورنہ محاورہ  تو یہ ہے کہ ’ یہ حال کھلا ‘۔  بولنے میں کبھی لفظِ ’ حال ‘ کو حذف نہیں کرتے۔

 

آئے وہ  یاں خدا کرے ، پر نہ کرے خدا کہ یوں

 رات کے وقت مے پیے ، ساتھ رقیب کو لیے

            خداکرے کہ وہ آئے لیکن خدا نہ کرے کہ یوں آئے کہ رات کے وقت مے پیے الخ۔ اس شعر کی بندش میں تعقید ہے مگر یہ زمین ہی ایسی ہے۔ ’مے پیے ‘ اور ’ ساتھ لیے ‘ حال ہے۔ اصل میں مے پیے ہوئے اور رقیب کو ساتھ لیے ہوئے تھا۔ ’ ہوئے ‘ کالفظ اکثر ترک کر تے ہیں۔

 

غیر سے رات کیا بنی، یہ جو کہا تو دیکھیے

 سامنے آن بیٹھنا  او ر یہ دیکھنا کہ یوں

            اکثر معتبر لوگوں نے ’ آن ‘کے لفظ کو ترک کر دیا ہے۔ ’ آن ‘ کے  بدلے ’ آ کر ‘ اور ’ آن بیٹھنا ‘ کے مقام پر’ آ بیٹھنا ‘ فصیح سمجھتے ہیں۔ دلیل ان کی یہ ہے کہ آنا ، جانا ، کھانا ، پانا وغیرہ بہت سے الفاظ ہیں۔ ان میں ’ نا ‘ علامتِ مصدر ہے اور جب فعل ان سے مشتق ہوتا ہے تو کہتے ہیں ؛ پا کر ، کھا کر ، جا کر۔ اسی طرح آکر بھی ہونا چاہیے ، اس میں نون کہاں سے آ گیا۔ نون اگر تھا تو علامتِ مصدر تھا وہ فعل میں کیوں باقی رہنے لگا۔ لیکن تمام فصحا کی زبان پر آن کا لفظ ہے اور محاورے میں قیاسِ نحوی کو کوئی دخل نہیں۔

 اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسدؔ

 اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو

            گو قیامت میں سب کا اٹھنا ضرور ہے لیکن ہم اب نہ اٹھیں گے۔ ’ اب نہ اٹھیں گے ‘ اور ’ اب نہیں اٹھتے ‘ اس طرح کے فعلوں میں مطلب دونوں فعلوں کا ایک ہی ہوتا ہے۔ لیکن دوسرے فعل میں تاکید بھی نکلتی ہے کہ وہ پہلے میں نہیں ہے۔

 

 کیا وہ بھی بے گنہ کُش و حق نا شناس ہیں

مانا کہ تم بشر نہیں خورشید و ماہ ہو

            ردیف و قافیہ شاعر کو مجبور کرتا ہے کہ پہلے نیچے کا مصرع کہہ لے۔ اسی سبب سے ’ وہ ‘ کی لفظ میں اضمار قبل الذکریہاں ہو گیا ہے۔ یہ ضمیر خورشید و ماہ کی طرف راجع ہے۔

 

حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی

 دل جوشِ گریہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی

            ’ آرزو خرامی ‘ سے مصنف کی مراد ’ خرام حسبِ آرزو و مراد ‘ ہے۔ لیکن عبرت کرنا چاہیے نہ کہ تقلید۔ ایسی ترکیبوں کے واہیات ہونے میں شک نہیں۔ پھر اسے منادی بنا کر اور بھی ستم کیا۔۔۔۔  اس شعر میں  ’ہاتھ دھونا ‘ اور ’ ڈوبنا ‘ جوشِ گریہ کے ضلع کی لفظیں ہیں ، اور خرام کے واسطے بیٹھ کا لفظ لاۓہیں۔

بیٹھا ہے جوکہ سایہ ٔ دیوارِ  یار میں

فرماں  روائے کشورِ  ہندوستان ہے

            ہندوستان کی تخصیص یہ ہے کہ سایہ میں تیرگی ہوتی ہے اور ہندوستان بھی کالاملک ہے۔اس شعر میں مصنف نے ہندوستان کو باعلانِ نون نظم کیا ہے۔ میر انیسؔ مرحوم کے اس مصرع پر۔ع۔۔۔۔ مسکن چھٹا  ُہماے سعادت نشان سے۔۔۔لکھنؤ میں اعترض ہوا تھا کہ حرفِ مدّ کے بعد جو نون کہ آخرِ کلمہ میں پڑے فارسی والوں کے کلام میں کہیں باعلان نہیں پایا گیا ہے۔ تو جب اردو میں ترکیبِ فارسی کو استعمال کیا اور کشورِ ہندوستان کہہ کر مرکّبِ اضافی بنایا ، ہماے سعادت نشان باندھ کر مرکّبِ توصیفی بنایا تو پھر نحوِ فارسی کی تبعیّت نہ کرنے کا کیا سبب۔ اگر لفظ ہندوستان یا نشان باندھ کر مرکّبِ توصیفی بنایا توشاعر کو،ا علان کرنے نہ کرنے کا اختیار تھا۔ لیکن ترکیبِ فارسی میں نحوِ فارسی کا اتّباع ضرور ہے۔ اور اس طرح کا اعلان لکھنؤ کے غزل گویوں میں ناسخؔ کے وقت سے متروک ہے۔

 

 مشکیں لباسِ کعبہ علی کے قدم سے جان

 نافِ زمین ہے نہ کہ نافِ غزال ہے

’ جان ‘  اس شعر میں  ’ بداں ‘  کا ترجمہ ہے یا اعلم کا۔

            زمین ترکیبِاضافی فارسی میں ہے اور اعلانِ نون کے ساتھ ہے۔ حالانکہ نحوِ فارسی کے یہ خلاف ہے۔ اس لیے کہ جب زمین میں اعلانِ نون کیا تو وہ مہنّد لفظ ہو گیا۔ پھر اس کی طرف اضافتِ فارسی کیونکر صحیح ہوگی ، جیسے سوداؔ کا یہ مصرع ؛  تن پر اگر زباں ہو بجائے ہر ایک مو۔۔۔کہ اس میں ترکیبِ فارسی میں ’ ایک ‘ کا لفظ آگیا ہے اور ایک مہنّد ہے یک کا۔

 

 مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم

 تو نے وہ گنجہائے گراں مایہ کیا کیے

            ’ وہ ‘ کا اشارہ مبہم رہ گیا اور یہ عیبِ تعبیر ہے۔ مراد وہی لوگ ہیں جو دفن ہیں۔

 

گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با ایں ہمہ

 ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے

            مسند الیہ جو کہ عمدۂ جملہ ہوتا ہے وہ یہاں بہت پیچھے رہ گیا۔ یعنی لفظ ’ ذکر ‘۔  ا ور اس کا سبب وہی ہے کہ پہلے نیچے کا مصرع کہہ لیا ہے ، اس کے بعد مصرع لگایا ہے۔

نالے عدم میں چند ہمارے سُپرد تھے

 جو واں نہ کھنچ سکے سو وہ یاں آکے دم ہوئے

            اس شعر سے اس بات کا بھی پتا لگا کہ ناسخؔ کی طرح مصنف کی زبان پر ’ جو ‘ کے جواب میں ’ سو ‘ لانا ضرور ہے۔ اس وجہ سے کہ اگر مصرع میں سے ’ سو ‘ نکال ڈالیے اور یاں کی جگہ ’ یہاں ‘ پڑھیے ، اس طرح : جو واں نہ کھنچ سکے  وہ یہاں آکے دم ہوئے۔ جب بھی مصرع موزوں ہے اور مصنف کا مرتبہ تو بڑا ہے ، جو شخص نظمِ الفاظ میں مشق رکھتا ہے اس سے فکرِ شعر کے وقت ایسی باتیں چھپی نہیں رہتیں۔ پھر واں اور وہاں ، یاں اور یہاں گو دونوں طرح درست ہے لیکن باتفاق واں سے وہاں اور یاں سے یہاں فصیح ہے۔ مصنف نے اگر ’ سو ‘ کو ترک کیا ہوتا تو یہ فایدہ بھی تھا کہ ’ یاں ‘ کی جگہ ’ یہاں ‘ہو جاتا مگر انھوں نے ’ سو ‘ کے لانے کے لیے ’ یاں ‘ کا رکھنا بھی گوارا کیا اور بندش شہادت دے رہی ہے کہ یہ امر بالعمد ہے۔ اس شعر میں ’ دم ہوئے ‘  اچھا نہیں لیکن مضمون نہایت لطیف ہے۔

 چھوڑی اسدؔ نہ ہم نے گدائی میں دل لگی

 سایل ہوۓ  توعاشقِ اہلِ کرم ہوئے

            ’ تو ‘ اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ اس کے پہلے جو جملہ ہے اس میں سے ’ جو ‘ یا ’ جب ‘ یا ’ اگر ‘محذوف ہے ، یعنی یہ جملہ شرطیہ ہے۔ اور حذف نے بہت لطف دیا۔ نحوِ اردو میں یہ قاعدہ کلیہ سمجھنا چاہیے کہ جملہ شرطیہ میں حرفِ جزا مذکور ہو تو حرفِ شرط کا حذف حسن رکھتا ہے۔

 

ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے

اک شمع ہے دلیلِ سحر سو خموش ہے

            ( استدراک:۔ خود غالبؔ نے اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے عبد الرزّاق شاکرؔکولکھا ہے :ع   ’ اک شمع ہے دلیلِ سحر سو خموش ہے ‘  یہ خبر ہے۔ پہلا مصرع : ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے ، یعنی اندھیرا ہی اندھیرا۔ ظلمت غلیظ۔ سحر ناپیدا۔ گویا خلق ہی نہیں ہوئی۔ ہاں ایک دلیل صبح کے وجود پر ہے ، یعنی، بجھی ہوئی شمع ، اس راہ سے کہ شمع و چراغ صبح کو بجھ جایا کرتے ہیں۔ لطف اس مضمون کا یہ ہے کہ جس شے کو دلیلِ صبح ٹھہرایا ہے وہ خود ایک سبب ہے منجملۂ اسبابِ تاریکی کے۔ پس دیکھا چاہیے ، جس گھر میں علامتِ صبح مویّدِ ظلمت ہوگی وہ گھر کتنا تاریک ہوگا ‘۔

            اس مطلب پر شاکرؔکے کوئی دوست معترض ہوے.ٔ۔ انھوں نے مرزاؔ صاحب کے پاس وہ اعتراض لکھ بھیجا۔ اس کے جواب میں لکھتے ہیں :۔۔۔۔۔۔ ’ جو صاحب یہ فرماتے ہیں کہ مجموع پہلا مصرع مبتدا نہیں ہو سکتا ، ان سے پوچھا چاہیے کہ کیا آپ اسی پہلے مصرع میں سے ’ ظلمت کدے میں میرے ‘  اس کو مبتدا او ر  ’ شبِ غم کا جوش ہے ‘  اس کو خبر ٹھہراتے ہیں ؟ پس اگر یوں ہے تو بھی مدّعا حاصل ہے۔ دوسرا مصرع دوسری خبر سہی آخر یہ بھی تو مسلّماتِ فنِ نحو میں سے ہے کہ ایک مبتدا کی دو بلکہ زیادہ خبریں ہو سکتی ہیں۔ ہاں ، ایک قاعدہ اور ہے۔ یعنی ، جملۂ فعلیہ کے ما قبل جو عبارت ہوتی ہے اس کو مبتدا نہیں کہتے۔ اس مطلع کا مصرعِ ثانی جملۂ اسمیہ ہے ، اپنے ما قبل مبتدا کو قبول کرتا ہے۔ اگر ہم نے نظر اس دستور پر مصرعِ اوّل کو مبتدا کہا تو بھی قباحت لازم نہیں آتی۔ بہر حال جو وہ صاحب اس پہلے مصرع کو قرار دیں وہ مجھے قبول ہے۔ مگر شعر میرا مہمل نہیں۔ زیادہ اس سے کیا لکھوں ‘۔۔ بہ حوالۂ نسخۂ عرشی ، ص  ۳۰۲ و ۳۰۳ )

 دیدار بادہ ، حوصلہ ساقی ، نگاہ مست

 بزمِ  خیال  میکدہ ٔبے خروش ہے

            پہلے مصرع میں کہیں اضافت نہیں ہے۔ بزمِ خیال کا نقشہ دکھلاتے ہیں کہ وہاں دیدار شراب ہے ، نگاہ میخوار ہے ، حوصلہ ساقی ہے۔

   ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق

 وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھّا ہے

            اس شعر کی خوبی خود ایسی ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر بیان نہیں ہو سکتی۔ ایک نحوی قاعدہ یہاں یہ ہے کہ مصدر کے بعد جب کوئی حرف معنوی ہو تو نون کو گرا دینا بھی محاورہ ہے۔ ’ دیکھے سے ‘ اصل میں ’  دیکھنے سے ‘  تھا۔ ’ سے ‘ کے سبب سے نون گر گیا۔ اسی طرح کہتے ہیں : ان کے کہے پر عمل کیا ، اور ان کے مرے کو عرصہ ہوا ، اور ان کے آئے تک انتظار کیا ، آنکھ کے دیکھے کا یقین ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے مصادر ہیں جن میں ایسا تصرف ہو سکتا ہے۔ مگر سماعی ہیں۔ ہر مصدر میں ایسا قیاس کر لینا صحیح نہ ہوگا۔

( استدراک :۔  ’ نسخۂ عرشی ‘  میں پہلا مصرع یوں ہے : ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے رونق منہ پر۔۔۔ ص ۳۱۸ )

 عشرتِ صحبتِ خوباں ہی غنیمت سمجھو

 نہ ہوئی غالب  ؔ اگر عمرِ طبیعی نہ سہی

            گو عشرت و صحبت کے ایک ہی معنی ہیں لیکن فارسی والوں نے عشرت کو خوشی و نشاط کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ اس سبب سے یہ اضافت صحیح ہو جائے گی اور طبیعی کو طبیعت سے اسمِ منسوب بنا لیا ہے۔ لیکن قاعدہ یہ ہے کہ فعیلہ کے وزن پر جو لفظ ہو اس کا اسم منسوبِ فعلی ہوتا ہے۔ جیسے حنیفہ سے حنفی ہے۔ اسی طرح طبیعہ سے طبعی ہے۔ مگر فارسی گو توالیِ حرکات کو ثقیل سمجھ کر ’ ب ‘ کو ساکن کر دیتے ہیں۔ غرض کہ طبعی کو بعض شعراے لکھنؤ صحیح نہیں سمجھتے۔ اس وجہ سے کہ نہ تو یہ مضاعف ہے ، جیسے حقیقی ، نہ اجوف ہے ، جیسے طویلی۔ پھر کیوں ’ ی ‘ کو نہ گرائیں۔

 جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا

 کریدتے ہو جو اب راکھ ، جستجو کیا ہے

            اردو والوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو کتب بلاغت کو دیکھ سکیں اور سمجھ سکیں ، مگر خود ہی کچھ عیوب شعر کے اپنے مذاق کے موافق ٹھہرا لیے ہیں جن کی بنا جُگت پر ہے۔ مثلاً اگر کسی نے یہ نظم کیا  ’ منہ تمھارا دیکھ کر ‘  تو یہ پہلے نکالیں گے کہ ’ موت  مارا دیکھ کر ‘۔ یا اگر کسی نے یوں کہا کہ  ’ میرا خط نہ پھاڑے ‘  تو اس کا مطلب یہ لیں گے کہ ’ میرا ختنہ پھاڑے‘۔ میر ضامن علی جلالؔ نے کیا اچھا مطلع

کہا تھا    ؂             سب ترے ناز ہیں گو ، زندہ ہی کرنے والے

                        ڈھونڈھ لیتے ہیں بہانہ کوئی مرنے والے

اس پر اعتراض ہوا تھا ’ گوزیدن ‘ کا اسمِ فاعل گوزندہ ہے۔ یہ سن کر انھوں نے مصرع کو یوں بدل دیا : گو ترے نازہیں سب زندہ ہی کرنے والے۔۔۔  یا : گو ہیں سب ناز ترے زندہ ہی کرنے والے۔ایک تہمت یہ مشہور ہے کہ مرزا دبیرؔ مرحوم نے تلوار کے ذکر میں شاید کہا تھا ، ع

 جو رو پہ چڑھا اس کا گلا تیغ سے کاٹا۔۔ اس پر انیسیوں کا مشہور اعتراض ہے کہ  ’جو رو پہ چڑھا ‘  واہیات ہے ،  ’جو منہ پہ ‘  چڑھا کہنا چاہیے۔ غرض ایسے دقیقہ سنج جو لوگ ہیں وہ مصنف کے اس شعر میں ضرور کہیں کہ کیا مرغی ہے جو راکھ کریدتی ہے۔

            معنی شعر کے یہ ہیں کہ سوزِ غم سے میں جل کر راکھ تو ہو گیا، دل بھی جل گیا ہوگا۔ تمھیں شیوۂ دلربائی و دلبری نے اس وہم میں ڈالا ہے کہ اس کا دل نہ جلا ہوگا۔ اسے ڈھونڈھ کر جلانے کے لیے لے جانا چاہیے اور یہ مضمون سراسر غیر ہے اور امورِ عادیہ میں سے نہیں ہے۔ اس سبب سے بے مزہ ہے۔ شعر میں بیتی زیادہ مزہ دیتی ہے۔

 متقابل ہے مقابل میرا

رک گیا ، دیکھ روانی میری

            استدراک۔ شاکرؔ کوایک خط میں میرزا صاحب ( غالب ؔ ) نے اس شعر کا مطلب اس طرح لکھا ہے : تقابل و تضاد کو کون نہ جانے گا۔ نور و ظلمت ، شادی و غم ، راحت و رنج ، و وجود و عدم۔ لفطِ ’ مقابل ‘ اس مصرع میں بہ معنیِ مرجع ہے۔ جیسے حریف کہ بہ معنیِ دوست بھی مستعمل ہے۔مفہومِ شعر یہ کہ ہم اور دوست ، از روے خو ے و عادت ، ضدہمدگر ہیں۔ وہ میری طبع کی روانی دیکھ کر رک گیا‘ ( بہ حوالۂ نسخۂ عرشی ، ص ۳۰۴ )

            علّامہ نظم طباطبائی :  رک گیا یعنی خفا ہو گیا۔ ان کی حاضر جوابی و بذلہ سنجی اسے ناگوار گذری۔

ہے وصل، ہجر ، عالمِ تمکین و ضبط میں

 معشوقِ شوخ و عاشقِدیوانہ چاہیے

            یعنی معشوق کے مزاج میں تمکین و خودداری اور عاشق کی طبیعت میں ضبط و صبر ہو تو وصل میں بھی ہجر کی سی بے لطفی ہے۔ مزہ تو جب ہے کہ وہ شوخ و بیباک ہو اور یہ دیوانہ و گستاخ۔ دوسرے مصرع میں اگرمعشوق کی لفظ کو اضافت نہ ہوتی تو بندش بے تکلف تھی۔ اگر اس مصرع کو دونوں اضافتیں چھوڑ کر پڑھیں تو مصرع جب بھی موزوں رہے گا، یعنی فاعلاتُ مفاعیل کی جگہ فاعلاتن مفعول آ جائے گا ۔ لیکن اس صورت میں ’ شوخ ‘ کے بعد بھی ’ چاہیے ‘ کو مقدّر لینا پڑے گا اور واو سے جملے کے جملے پر عطف ہوگا۔ مگر جملے دونوں ہندی کے ، اور حرفِ عطف فارسی کا۔ ایسا ہی ہو جائے گا جیسے کو ئی یہ کہے : میں ہو ا سوار  و  روانہ ہوا۔ گویہاں سوار اور روانہ دونوں فارسی لفظیں ہیں لیکن  ’واو ‘  ان دونوں مفردوں کے عطف کے لیے نہیں ہے، بلکہ جملے کے جملے پر عطف دینے کے لیے ہے اور جملے دونوں ہندی ہیں تو حرفِ عطف بھی ہندی ہی چاہیے۔ غرض کہ دوسرے مصرع میں معشوق و عاشق دونوں لفظوں کو باضافت پڑھنا ضرور ہے۔

 اسدؔ خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں  پھول  گئے

 کہا جو اس نے ذرا میرے پانو داب تو دے

            ’ دابنا ‘ متعدی ہے ، لازم اس کا دبنا ہے۔ الفِ تعدیہ آخر میں اکثر ہوتا ہے۔ جیسے دبنے سے دبانا  وغیرہ۔ اور کبھی الف کو درمیان میں بھی لاتے ہیں جیسے دابنا۔ یا نکلنا اور نکالنا اور سنبھلنے سے سنبھالنا اور تھمنے سے تھامنا اور گڑنا سے گاڑنااور اسی طرح کٹنا اور کاٹنا وغیرہ۔

 بہ طوفاں گاہِ جوشِ اضطرابِ شامِ تنہائی

 شعاعِ آفتابِ صبحِ محشر تارِ بستر ہے

            پہلے مصرع میں چار اضافتیں پے در پے اور دوسرے میں تین ہیں۔ اردو میں اضافت خود ہی ثقل رکھتی ہے۔ نہ کہ اتنی اضافتیں متوالی۔تین اضافتوں سے زیادہ ہونا عیب میں داخل ہے۔

  خطر ہے رشتۂ الفت رگِ گردن نہ ہو جائے

 غرورِ دوستی آفت ہے ، تو دشمن نہ ہو جائے

            ’ خطر ہے ‘ یعنی مجھے یہ خطر ہے۔ ’ یہ ‘ کا حذف اس مصرع میں بلا شبہ برا معلوم ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد کافِ بیان بھی محذوف ہے۔

 

 قیامت ہے کہ ہووے مدّعی کا ہم سفر، غالبؔ

 وہ کافر، جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے

            اس شعر میں جس مقام پر مصنف نے ’ نہ ‘ کہا ہے یہاں ’ نہیں ‘ کہنا چاہیے تھا  ، یا ’ ہے ‘ کو ترک کیا ہوتا اس سبب سے کہ ’ نہ ‘ کے ساتھ فعل منفی میں ’ ہے ‘ بولنا خلافِ محاورہ ہے اور قدیم اردو میں بھی ایسانہیں دیکھنے میں آیا۔ مثلاً’ مجھ سے مارے ضعف کے نہ بولا جاتا ہے ‘غلط ہے۔ اور ’ نہیں بولا جاتا ہے ‘ صحیح ہے۔ ہاں ، جہاں ’ نہ ‘ عطف کے لیے ہو وہاں ’ ہے ‘ کے ساتھ جمع کرنا درست ہے۔ جیسے ’ نہ پوچھا جائے ہے اس سے نہ بولا جائے ہے مجھ سے۔ یا جیسے :’ نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے ‘۔ اورعطف کے مقام پر ’ نہیں ‘ کہنا خلافِ محاورہ ہے۔ مثلاً: نہیں بھاگا جاتا ہے مجھ سے، نہیں ٹھہرا جاتا ہے مجھ سے غلط ہے۔ اور نہ کے ساتھ ہے کو جمع کرنا اس سبب سے غلط ہے کہ ایسے مقام پر نہیں محاورے میں ہے اور نہیں ، نہ اور ہے ،فعلِ ناقص، سے مرکب ہے اور نہیں کے ساتھ جب ’ہے ‘ بولتے ہیں تو وہ فعلِ تام ہو تا ہے۔

 اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسدؔ کی نعش

 دشمن بھی جس کو دیکھ کے غمنا ک ہو گئے

            کس رنگ سے اٹھائی؟۔۔۔آیا تشہیر کی ، یا نعش کی توقیر کی کہ خود کاندھا دیا ،یا خود سوگ رکھا۔۔۔ ان دونوں معنوں میں کسی کی تعیین نہ ہونا یہ سبب ہے جو شعر سست معلوم ہوتا ہے۔شاعر کے لیے ایک فائدے کی بات یہ بھی یہاں ہے کہ اس کو سمجھ لے۔ ’ ی ‘ کا گرنا اردو لفظوں میں سے جائزہے لیکن جہاں فعل میں سے یاے معروف گرتی ہے ثقل وزن میں ضرور ہو جاتا ہے۔اگرایک مصرع میں یاے معروف و یاے مجہول دونوں جمع ہوں اور ان میں سے ایک کا گرانا کافی ہو تو یاے مجہول کو گرانا چاہیے۔ اور یاے معروف کو باقی رکھنا چاہیے۔ مثلاً مصنف کا یہ مصرع : اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسدؔ کی نعش۔۔۔ اس کو یوں کہنا بہتر تھا ، ع ۔۔۔اس رنگ سے کل اس نے اٹھائی اسدؔ کی نعش۔

 

 دل مدّعی و دیدہ بنا مدّعا علیہ

 نظّارے کا مقدّمہ پھر روبکار ہے

            دل نے آنکھ پر یہ نالش کی ہے کہ نہ یہ نظارہ کرتی نہ میرا خون ہوتا۔ دیدہ آنکھ کو کہتے ہیں لیکن ہر جگہ آنکھ کے بدلے دیدہ کہنا برا ہے اس سبب سے کہ اردو کے محاورے میں ڈھیٹھ اور بے شرم آنکھ کو دیدہ کہتے ہیں۔  (محاورے سے متعلق مزید تفصیل ’محاورہ ‘ کے ذیل میں ملاحظہ ہو )

            دوسری بحث اس شعر میں یہ ہے کہ فارسی کا واو، اردو میں جب ہی استعمال کرتے ہیں جب مفرد کا مفرد پر عطف ہو اور دونوں فارسی لفظ ہوں۔۔۔۔  یہ مصرع : دل مدعی  و  دیدہ  بنا مدعا علیہ۔۔۔ اصل میں یوں ہے کہ دل مدعی بنا ، دیدہ مدعا علیہ بنا اور دو ہندی جملوں میں فارسی کا حرفِ عطف لائے ہیں۔

 ابھی آتی ہے بو بالش سے اس کی زلفِ مشکیں کی

 ہماری دید کو خوابِ زلیخا عارِ بستر ہے

            یعنی زلیخا کی طرح خواب میں دیدار ہونا میرے لیے ننگ اور میرے بستر کے لیے عار ہے ، اس سبب سے کہ یہ وہ بستر ہے کہ ’ بسی ہے بو ابھی تکیوں میں اس زلفِ معنبر کی ‘۔ یعنی کل ہی تو شبِ وصل تھی۔ ایک بات یہ بھی لحاظ کے قابل ہے کہ ’ بالش سے ‘ کی جگہ ’ تکیوں سے ‘ اگر کہتے تو وزن میں کچھ خلل نہ تھا۔ مگر مصنف مرحوم نے تکیہ چھوڑ کر بالش کہا حالانکہ تکیہ محاورے کا لفظ ہے۔ اس سے ان کا طرزِ انشا ظاہر ہوتا ہے کہ فارسی لفظ کو ہندی محاورے پر شعر میں ترجیح دیتے ہیں۔

            ایک فائدے کی بات یہ بھی ہے کہ ’ اس کی زلفِ مشکیں کی ‘ یعنی ’ کی ‘ ثقل سے خالی نہیں۔ اس کو نہ عیب کہہ سکتے ہیں نہ غلط کہہ سکتے ہیں۔ کوئی شاعر اس سے نہیں بچا۔ لیکن جہاں ایسی صورت ہو کہ دو لفظ مؤنث جمع ہو جائیں اور اضافت ہو، جیسے یہاں  ’ بو ‘ بھی مؤنث  ’ زلف ‘ بھی مؤنث ‘  تو وہاں ممکن ہو تو دونوں میں سے ایک کو  لفظ بدل کر مذکّر کر دیں۔ اور یہاں لفظ کا بدلنا ممکن تھا۔  جیسے ’ ابھی آتی ہے بو بالش سے اس گیسوے مشکیں کی ‘ یا  ’ بالش سے اپنے اس کے گیسو کی ‘ دوسری صورت ثقل کے دفع کرنے کی یہ ہے کہ ادیب کو چاہیے ایسے موقع پر ایک اضافت فارسی کی لے آئے۔ یعنی ’ اس کی زلف کی بو ‘ کے بدلے ’ بوے زلف اس کی ‘ کہے۔اور شاعر کے لیے ایک صورت اور بھی ہے ، یعنی دو ’ کی ‘  جمع ہوں تو ایک ’ کی ‘ کو اس طرح نظم کرے کہ ’ ی ‘ گر جائے۔ یہ بھی کسی قدر بہتر ہوگا اور ثقل کم ہو جائے گا۔ اور ’ کی ‘ کے بہ نسبت ’ کے ‘ میں ثقل کم ہے۔ اور یہ کلیہ ہے کہ تکرار ہر لفظ کی ثقیل ہے

 ہے چشمِ تر میں حسرتِ دیدار سے نہاں

 شوقِ عناں گسیختہ ، دریا کہیں جسے

            ’ عناں گسیختہ ‘  اس شعر میں لفظ نہیں ہے الماس جڑ دیا ہے۔ جب دوسری زبان کی لفظوں پر ایسی قدرت ہو جب کہیں اپنی زبان میں اس کا لانا حسن رکھتا ہے۔ اور ’ شوقِ عناں گسیختہ ‘ سے جوشِ اشک مجازاً مقصود ہے کیونکہ شوق سبب ، گریہ مسبب کے محل پر سبب کو مجازاً استعمال کیا ہے۔

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب

 آؤ نہ، ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی

            اس شعر میں ’ نہ ‘ عجب محاورے کا لفظ مصنف نے باندھ دیا ہے۔ بولتے سب ہیں مگر کسی نے نظم نہ کیا تھا۔ لیکن اس ’ نہ ‘ کے کیا معنی ہیں اس کا جواب مشکل ہے۔ قیاسِ نحوی تو یہ کہتا ہے کہ’ آؤ نہ‘  اور ’دیکھو نہ‘  وغیرہ کیوں نہ آؤ اور کیوں نہ دیکھو کا مخفف ہے کہ بے اس کے حرفِ نفی کے کچھ معنی نہیں بن پڑتے۔

غالبؔ گر اس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں

 حج کا  ثواب نذر کروں گا حضور کی

            ایک عجب نحوی طلسم زبان اردو میں یہ ہے کہ مصنف نے جہاں پر ’ کی ‘ کو صَرف کیا ہے یہاں محاورے میں ’ کے ‘ بھی کہتے ہیں  ، مگر قیاس یہی چاہتا ہے کہ ’ کی ‘ کہیں۔ اسی طرح لفظ ’ طرف ‘ جب اپنے مضاف الیہ پر مقدم ہو تو ’ کی ‘ کہنا صحیح نہ ہوگا۔ مثلاً ع پھینکی کمندِ آہ طرف آسمان کے۔اس مصرع میں ’ کی ‘ کہنا خلافِ محاورہ ہے اور پھر لفظِ طرف مؤنث ہے۔ اگر اس لفظ کو مؤخر کر دو تو کہیں گے آسمان کی طرف۔ اور اگر مقدّم کر دو تو کہیں گے : طرف آسمان کے۔ غرض کہ ایک لفظ جب مقدم ہو تو مذکر ہوجائے ، مؤخر ہو تو مؤنث ہو جائے۔ اسی کی نظیر ’ نذر کرنا ‘ بھی ہے۔

 دیا ہے خلق کو بھی تا اسے نظر نہ لگے

 بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لیے

            ’ دیا ہے خلق کو بھی ‘ اس جملے میں سے فاعل یعنی ’خدا نے ‘  اور مفعولِ ثانی یعنی ’ عیش‘  محذوف ہے۔ لفظِ عیش میں دو فعل یعنی   ’ دیا ہے ‘ اور ’ بنا ہے ‘ تنازع رکھتے ہیں۔

 

 

قصائد

 

 کفِ ہر خاکِ بگردوں شدہ  ،قمری پرواز

 دامِ ہر کاغذِ آتش زدہ، طاؤس شکار

            لفظِ ’ خاک ‘ کو بکسرۂ توصیفی پڑھنا چاہیے اس لیے کہ ’ بگردوں شدن ‘ اس کی صفت ہے نہ خبر۔۔۔۔  حاصل یہ کہ فیضِ بہار نے ہر شے میں جان ڈال دی ہے کہ ہر کفِ خاک قمری بن گئی اور ہر شعلہ طاؤس بن گیا۔

وہ شہنشاہ کہ جس کی پئے تعمیرِ سرا

 چشمِ جبریل ہوئی قالبِ خشتِ دیوار

            اس شعر کی بندش میں نہایت خامی ہے کہ مطلب ہی گیا گذرا ہوا۔ غرض یہ تھی کہ :ڈھیلے جبریل کی آنکھوں کے ہیں خشتِ دیوار۔۔۔موصول کو اگر ’ پئے ‘ کا مضاف الیہ لو تو ’ جس کے ‘ پڑھو۔ اور اگر ’سرا ‘ کی اضافت لو تو ’ جس کی ‘ پڑھنا چاہیے۔ اس قسم کی ترکیبیں خاص اہلِ مکتب کی زبان ہے۔ شعرا کو اس سے احتراز واجب ہے۔

 سبزۂ  نُہ چمن و یک خطِ پشتِ لبِ بام

 رفعتِ ہمتِ صد عارف و یک اوجِ حصار

            ’ سبزۂ  نُہ چمن ‘  استعارہ نو آسمانوں سے ہے اور حرفِ عطف دونوں مصرعوں میں معنیِ مساوات کے لیے ہے اور اس شعر میں بلندیِ قصر کی تعریف مقصود ہے۔

 صرفِ  اعدا  اثرِ شعلہ و  دود ِ دوزخ

 وقفِ  احباب گل  و سنبلِ  فردوسِ  بریں

             رنگینیِ گل کا شعلے سے اور پیچ و تابِ سنبل کا دھوئیں سے مقابلہ کرمقصودہے۔  صَرف و وقف کاسجع اور اعدا و احباب و دوزخ و فردوس کا  تقابل بھی لطف سے خالی نہیں۔ 

 

    ایک میں کیا کہ سب نے جان لیا

 تیرا   آغاز   او ر   ترا    انجام

            اس شعر میں ’ کہ ‘ کی توجیہ اشکال سے خالی نہیں۔ لیکن ’ کہ ‘  اس مقام پر محاورے میں  بول بھی جاتے ہیں۔۔۔۔  اور کاف یہاں تعلیل کے معنی پر ہے۔

 پانو  سے تیرے مَلے فرقِ ارادت اورنگ

 فرق سے تیرے کرے کسبِ سعادت اکلیل

            سرِ ارادت و جبینِ نیاز و دستِ دعا و پاے طلب و چشم امید و لبِ سوال و دندانِ آز و بازوے جہد و انگشتِ حیرت و گردنِ طاعت و کمرِ خدمت و زانوے ادب و کفِ افسوس وغیرہ میں ویسی ہی اضافت ہے جیسی ادناے ملابست کافی ہو گئی ہے۔اگر یوں کہتے کہ: ’  پانؤ پر تیرے رکھے فرقِ ارادت اورنگ‘  تو معنی الٹے ہو جاتے ہیں۔ اس سبب سے کہ اورنگ پر پاؤں ہوتا ہے نہ کہ پاؤں پر اورنگ سر رکھے۔ مصنف نے اورنگ کا پاؤں کے نیچے ہونا ملحوظ رکھا ہے۔

 فکر میری گہر اندوز ِ اشاراتِ کثیر

 کلک میری رقم آموزِ عباراتِ قلیل

            آموختن لازم و متعدی دونوں معنی کے لیے آتا ہے۔ یہاں رقم آموز میں معنی لازم اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ یعنی لکھنا سیکھنے والا۔  اورمتعدی کے معنی اگر لیں تو رقم آموز کو اسمِ مفعول ترکیبی سمجھنا چاہیے ، یعنی جسے لکھنا سکھایا گیا ہے۔ جیسے مرغ کو دست آموز کہتے ہیں۔

 اور میں وہ ہوں کہ گر جی میں کبھی غور کروں

 غیر کیا ، خود مجھے نفرت مری اوقات سے ہے

            ’ مجھے میری اوقات سے نفرت ہے ‘ محاورۂ اردو کی رو سے محض غلط ہے۔ نہ لکھنؤ کی یہ زبان ہے نہ دلّی کی۔ اکبر آباد کی ہو تو ہو۔ اصل میں محاورہ یہ ہے کہ’ مجھے اپنی اوقات سے نفرت ہے‘۔ رہ رہ کے یہی تعجب ہوتا ہے کہ غالبؔکی زبان سے یہ لفظ کیونکر نکلا۔ جن لوگوں کی اردو درست نہیں ہے ان کو اس طرح بولتے سنا ہے۔:میں نے میرا قلم پایا ، تم نے تمھارا قلم پایا۔  ’ اپنے ‘ کے استعمال میں بس وہی لوگ دھوکا کھاتے ہیں۔ اہلِ زبان کبھی بہک کے بھی  ’ اپنے ‘ کی جگہ  ’ میرا ، تیرا ‘ نہ کہیں گے۔ ضابطۂ کلیہ یہ ہے کہ جو فاعل یا مشبہ فاعل ہو اس کی ضمیر مضاف الیہ ہو کر متعلق نہیں ہو سکتی۔ ایسے موقعوں پر ’ اپنے‘ کو استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً : ’ زید اس کی زندگی سے بیزار ہے ، مجھے میری زندگی سے نفرت ہے ‘۔ ان دونوں صورتوں میں یوں کہنا چاہیے کہ زید اپنی زندگی سے بیزار ہے ، مجھے اپنی زندگی سے نفرت ہے۔

            (نحو کے متعلق بعض نہایت مفید مطالب’ محاورہ ‘  کے ذیل میں نقل کیے گئے ہیں ، ان اشعار کے تحت ملاحظہ ہوں    ؂

رات کو آگ اور دن کو دھوپ

بھاڑ میں جائیں ایسے لیل و نہار

 میری  تنخواہ   کیجے    ماہ  بماہ 

تا  نہ ہو  مجھ کو زندگی دشوار

خبر اور انشا

کلامِ تام (یا  مرکّبِ مفید ، یا جملہ )  یا تو کسی واقعے کی خبر دیتا ہے کہ اس کے کہنے والے کو جھوٹا یا سچا کہہ سکتے ہیں ، مثلاً ’ زید امتحان میں کامیاب ہو گیا ‘ .... یا اس سے متکلّم کی کوئی خواہش یا آرزو وغیرہ ایسے امور ظاہر ہوتے ہیں جس کے کہنے والے کو جھوٹا یا سچا نہیں کہہ سکتے۔

            اگر جملے سے کوئی خبر ظاہر ہو تو وہ  جملۂ خبریہ، کہلاتا ہے۔

            اگر سواے خبر کچھ آرزو یا خوا ہش یا تعجب یا استفہام یا امر و نہی  یا  ندا  یا  دعا  وغیرہ ظاہر ہو تو ایسے جملے کو  جملۂ انشائیہ کہتے ہیں۔

  ( ماخوذ و منقول از ’ تسہیل البلاغت ‘ مؤلفۂ سجاد مرزا بیگ دہلوی)

.....................................

 

شرحِ کلامِ غالبؔ از طباطبائی

 

 یہ مسایلِ تصوّف یہ ترا بیان غالبؔ

 تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

            یہ نکتہ ضرور سمجھنا چاہیے کہ خبر سے انشا میں زیادہ مزہ ہوتا ہے۔ پہلا مصرع اگر اس طرح ہوتا کہ غالبؔ تیری زبان سے اسرار تصوف نکلتے ہیں۔۔ الخ ، تو یہ شعر جملۂ خبریہ ہوتا۔ مصنف کی شوخیِ طبع نے خبر کے پہلوکو چھوڑ کر اسی مضمون کو تعجب کے پیرائے میں اداکیااوراب یہ شعر سارا جملہ انشا ئیہ ہے۔

بلائے جاں ہے غالبؔ اس کی ہر بات

عبارت کیا ، اشارت کیا ، ادا کیا

            ’ کیا ‘ اس شعر میں حرفِ عطف ہے جسے معطوف و معطوف علیہ میں بیانِ مساوات کے لیے لاتے ہیں۔

اے  ترا  غمزہ  یک قلم  انگیز

 اے  ترا  ظلم  سر بسر   انداز

            دونوں مصرعوں میں سے منادی بھی محذوف ہے اور فعل بھی۔ یعنی اے نازنین ، تیرا غمزہ یک قلم انگیز ہے۔ اے ظالم تیرا ظلم سر بسر اندازِ معشوقانہ ہے۔ ان دونوں جملوں کی صورت خبر کی ہے۔ مگر شاعر کو قصد انشا ہے۔ اور منادی کا محذوف ہونادلیل ہے اس بات پر کہ خبر نہیں ہے۔

 بیٹھنا اس کا وہ آکر تری دیوار کے پاس

 مر گیا پھوڑ کے سر غالبِ ؔوحشی ، ہے ہے

            ۔۔۔ خبر سے زیادہ انشا میں لطف ہے یعنی انشا ادفع فی القلب ہے۔ اسی سبب سے جو شاعر مشّاق ہے وہ خبر کو بھی انشا بنا لیتا ہے۔ اس شعر میں مصنف نے خبر کے پہلو کو ترک کر کے شعر کو نہایت بلیغ کر دیا یعنی دوسرا مصرع اگر یوں ہوتا : بیٹھا کرتا تھا جو آ کر تری دیوار کے پاس ، یا اس طرح ہوتا :  ابھی بیٹھا تھا جو آکر تری دیوار کے پاس ، یہ دونوں صورتیں خبر کی تھیں۔ اور ’ ہے ہے ،  بیٹھنا اس کا وہ آکر تری دیوار کے پاس‘ ، جملۂ انشائیہ ہے۔ اور ’ وہ ‘ کا اشارہ اس مصرع میں اور بھی ایک خوبی ہے جو اُن دونوں میں نہیں ہے۔

غالبؔ ندیمِ دوست سے آتی ہے بوئے دوست

مشغولِ حق ہوں  بندگیِ بو تراب میں

            اس مضمون کا ایک شعر ناسخؔ کا بہت مشہور ہے     ؂     

بیعت  خدا سے ہے مجھے بے واسطہ نصیب

دستِ خدا ہے نام مرے دستگیر کا

            ناسخؔ نے پہلے مصرع میں ادّعا کیا ہے اور دوسرے مصرع میں توجیہ۔ اور مصنف نے دلیل کو دعوے پر مقدّم کر دیا ہے ، لیکن دعوے میں ابہام ہوتا ہے اور دلیل میں انکشاف ہوتا ہے۔ اس سبب سے آدابِ انشا میں دعوے کو دلیل پر مقڈّم رکھنا بہتر ہے کہ ابہام کے بعد انکشاف لذیذ تر ہوتا ہے۔

 تم ان کے وعدے کا ذکر ان سے کیوں کرو غالبؔ

یہ کیا کہ تم کہو اور وہ کہیں کہ یاد نہیں

            معشوق کی بد عہدی و وعدہ خلافی کو جو لوگ الٹ پلٹ کر کہا کرتے ہیں وہ اس شعر میں تامل کریں کہ اس مضمونِ کہن کو کیا آب و رنگ دیا ہے۔ مطلب تو یہ ہے کہ میں جب انھیں وعدہ  یاد دلاتا ہوں وہ کہتے ہیں : یاد نہیں۔ مگر اس مطلب کو ملامت گر کی زبانی ادا کیا ہے یعنی خبر کے پہلو کو ترک کر کے اس مضمون کو انشا کے سانچے میں ڈھالا ہے۔

 

کیا غم خوار نے رسوا ، لگے آگ اس محبت کو

  نہ لاوے تاب جوغم کی وہ میرا راز داں کیوں ہو

            محبت سے غم خوار کی شفقت مراد ہے۔ اس شعر میں مصنف کی انشا پردازی داد طلب ہے۔ کیا جلد خبر سے انشا کی طرف تجاوز کیا ہے۔  ’ کیا غم خوار نے رسوا ‘  بس اتنا ہی جملہ خبریہ ہے اور باقی شعر انشا ہے یعنی  ’ لگے آگ اس محبت کو ‘  کوسنا ہے اور دوسرا مصرع سارا ملامت و    سر زنش  ہے۔دوسرا امر وجوہِ بلاغت میں سے مضمون سے تعلق رکھتا ہے یعنی اپنے غمِ دل کی حالت بہ کنایہ ظاہر کی ہے۔

 ڈھونڈھے  ہے اس مغنی ِّ آتش نفس کو جی

جس کی صدا ہو جلوۂ برقِ فنا مجھے

            یعنی ایسے سماع کو جی چاہ رہا ہے جس کے سننے سے وہ حال آئے کہ فنا فی الذات ہو جاؤں۔ مگر اس شعر میں یہ کہنا کہ ایسا ہو ، ویسا ہو ، شعر کو سست کر دینا ہے۔ اس کے بر خلاف اگر اس مضمون کو انشا میں ڈھالا ہوتا اور یوں کہتے کہ ع ’ تیری صدا ہے جلوۂ برق ِفنا مجھے ‘۔۔۔ تو زیادہ لطف دیتا۔

 مارا زمانے نے اسد اللہ خاں تمھیں

وہ ولولے کہاں ، وہ جوانی کدھرگئی

            پہلا مصرع انشاے تاسف کے لیے ہے اور دوسرا استفہام ہے۔ غرض یہ کہ سارا شعر انشا ہے۔ دوسری خوبی  پورا  نام لقب سمیت آنے سے پیدا ہوئی۔ لفظ خان سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ کسی زمانے میں قوت و سطوت تھی جسے پیری نے مٹا دیا۔

 آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں

 سوزِ غمہاے نہانی اور ہے

            ’ کہاں ‘ کے بدلے  ’نہیں ‘ کا لفظ بھی آ سکتا تھا۔ مگر اس صورت میں جملہ خبریہ ہوتا۔ اور اب استفہامِ انکاری نے انشائیہ کر دیا اور انشا خبر سے بہتر ہے۔

 ہوا ہے شہ کا مصاحب ، پھرے ہے اتراتا

 وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے

            ذرّے کو آفتاب اور قطرے کو دریا کر دینا اور ادنیٰ کو اعلیٰ بنا دینا ایک مبتذل مضمون ہے جسے جملۂ خبریہ میں لوگ کہا کرتے ہیں۔ مصنف کی انشا پردازی کا زور دیکھیے کہ اسی پرانے مضمون کو جملۂ انشائیہ میں ادا کیا ہے۔ 

 بوسہ دینے میں ان کو ہے انکار

 دل کے لینے میں جن کو تھا ابرام

شعر میں انشاے تعجب ہے۔ ابرام ضد کرنے کے معنی پر ہے۔

حروف

(صِرف انھیں حروف کا مختصر تعارف جو شرحِ کلامِ غالبؔ کے دوران میں استعمال ہوئے ہیں۔)

 

            حروف وہ غیر مستقل الفاظ ہیں جو تنہا بولنے یا لکھنے میں کوئی خاص معنی پیدا نہیں کرتے جب تک کسی جملے میں یا دوسرے الفاظ کے ساتھ استعمال نہ ہوں ،  جیسے کو،  تک ،  جب وغیرہ۔

             اردو میں حروف کی چار قسمیں ہیں :۔ ربط ( جار ) ،  عطف ،  تخصیص  اور  فجائیہ۔

            حروفِ ربط یا حروفِ جار:  یہ ایک لفظ کا تعلق کسی دوسرے لفظ سے ظاہر کرتے ہیں۔ کا، کی ، کے ، نے ، کو ، تئیں ، سے ، میں ، تک ، پر۔۔۔ حروفِ ربط ہیں۔یہ حروفِ ربط اسم ، ضمیر ، اسمِ صفت ، فعل اور تمیزکے بعد آتے ہیں اور ان کی حالت کا پتا دیتے ہیں ، جیسے: احمد تک خبر پہنچ گئی، بد سے بچو ،  نیک سے  ملو ،  اس کے سننے میں فرق ہے (فعل کے بعد ) ، آہستہ سے نکل جاؤ  (تمیز کے بعد )۔

            حروفِ عطف:  ایسے حروف ( یا کلمے )ہوتے ہیں جو مفرد کلموں یا مرکب جملوں کو ایک حالت یا ایک حکم میں جمع کر دیں۔ جن کلموں یا جملوں کے مابین حروف ِعطف آتے ہیں ان میں سے پہلے کو معطوف علیہ اور دوسرے کو معطوف کہتے ہیں۔ حروفِ عطف یہ ہیں : اور ،نیز ، کر ، کے ، پھر ، حرفِ واو۔حروفِ عطف کی کئی قسمیں ہیں ، مثلاً حروفِ تردید ، حرفِ بیان ، حروفِ علّت ،حروفِ شرط ، حروفِ جزا ، حروف ندا  وغیرہ۔

            حروفِ تردید:   ایسے کلمے ہیں جن سے کلام میں تردُد یا دُبدا پیدا کی جائے۔ وہ حروف یہ ہیں : یا ، کہ ، یا تو ، خواہ ، چاہے ، چاہو۔

            حرفِ بیان:  یعنی ایسا حرف کہ وہ اس جملے کی ابتدا میں آئے جو اپنے سے پہلے جملے کی وضاحت کرتا ہو پہلے جملے کو مبیّن ( بفتح یاے مشدّدہ ) کہتے ہیں اور دوسرا جملہ جس کی ابتدا میں حرفِ بیان ہے ’ ’ عطفِ بیان ‘ ‘کہلاتا ہے۔  بیان کے لیے صرف فارسی حرف ’ کہ ‘ ہے جو اردو میں بھی مستعمل ہے ، جیسے: تم جانتے ہو کہ میں تمھارا مخالف نہیں ہوں۔

            حروفِ علّت:  ایسے کلمے ہیں جو سبب اور علّت کے ظاہر کرنے کے لیے بولے جاتے ہیں۔ کہ ، کیوں ، اس لیے ، اس واسطے ، تا ، لہٰذا۔ غالبؔ کے اس شعر میں ’ کہ ‘ کافِ تعلیل ہے     ؂

 ایک  میں کیا کہ سب نے جان لیا

 تیرا  آغاز   اور    ترا   انجام

            کلمات: جب کسی ایک بات کو دوسری بات پر منحصر کرنا چاہیں تو جو کلمات حصر کرنے کے لیے لائے جائیں وہ کلماتِ شرط و جزا کہلاتے ہیں ، جیسے: اگر تم مدرسے جاؤگے تو میں بھی جاؤں گا۔ یہاں ’’اگر ‘‘  اور  ’ ’ تو ‘‘  کلماتِ شرط و جزا ہیں۔

            کلماتِ شرط:  جس بات پر حصر کیا جائے اس پر حصر کرنے کے لیے جو کلمات آتے ہیں ان کلمات کو کلماتِ شرط کہتے ہیں اور اُس بات کو موقوف علیہ۔ وہ کلمات یہ ہیں :  جو  ، جب ،  چونکہ ،  ا گرچہ ،  ہرچند ،  گو ، تا وقتیکہ ، کیوں نہ ،  نہیں تو ،  ورنہ ،  وگرنہ ،  با وجودیکہ ،  اگر ،  بسکہ۔۔۔

            کلماتِ جزا:  جس بات کو دوسری بات پر منحصر کیا جائے اس پر منحصر کرنے کے لیے جو  کلمات  لائے جائیں  ان کو کلماتِ جزا اور اُس بات کو موقوف کہتے ہیں۔کلماتِ جزا اکثر یہ ہوتے ہیں : مگر ، لیکن ، اِ لّا ،  تاہم ،  اس لیے ،  اسی لیے ،  تب ،  سو ،  پھر بھی ،  تو( بضم اؤل و  واوِ مجہول )۔

            کلماتِ ندا:  وہ کلمات ہیں جو پکارنے کے وقت بولے جائیں۔ جس کو پکارا جاتا ہے اس کو منادیٰ کہتے ہیں۔ وہ کلمات جو منادیٰ سے پہلے بولے جاتے ہیں یہ ہیں : اے ، او ، اجی ، ارے ، یا (’ ’ یا رب ‘ ‘ میں )۔ 

اضافت:

            جب کسی اسم یا ضمیر کو کسی دوسرے اسم یا ضمیر کی طرف نسبت دی جائے تو جس اسم کو نسبت دی گئی ہے اسے مضاف  کہتے ہیں۔ اور جس اسم یا ضمیر کی طرف منسوب کیا جائے اسے مضاف الیہ کہتے ہیں ، جیسے : اُسامہ کاگھر ، میری لڑکیاں۔ ان مثالوں میں گھراور لڑکیاں مضاف ہیں ، اور اُسامہ اور میری مضاف الیہ ہیں۔ اردو میں مضاف الیہ پہلے آتا ہے اور مضاف اس کے بعد۔ علامتِ اضافت کا ،  کی ، کے ،  را ،  رے ،  ری (میرا ، میرے ،  میری ، تمھاری ،  ہماری )  اپنا ،  اپنے، اپنی۔ ’اُسامہ کا گھر‘ ، میری لڑکیاں ‘ مرکبِ اضافی کہلاتے  ہیں۔۔۔ اضافت کی کئی قسمیں ہیں ،  ان میں سے چند یہ ہیں :۔

            اضافتِ حقیقی یا تملیکی: ایسی اضافت جس میں مضاف کی تخصیص کا سببِ نسبت مِلک یا قبضہ ہو ، جیسے اُسامہ کا گھر۔

            اضافت بہ ادنیٰ ملابست:  ایسی اضافت جو تھوڑے سے لگاؤ کی وجہ سے مضاف کی تخصیص کرے ، جیسے ہمارا شہر۔

            اضافتِ بیانیہ :  جس میں وجہ تخصیص قبضہ یا نسبت یا تشبیہ وغیرہ نہ ہو ،  جیسے پینے کا پانی ،  پہاڑ کی چوٹی۔۔۔

            کافِ بیان: ’ کہ ‘  حرفِ بیانیہ ہے اور ہمیشہ دو جملوں کے ملانے کے لیے آتا ہے ، جیسے :  میں سمجھا کہ تم آرہے ہو۔

              یہ اقتباسات مندرجہ  ذیل کتابوں سے اخذ کیے گئے ہیں :۔

             غیاث اللغات: ملّا غیاث الدّین رامپوری ، ۔۔قواعدِ اردو : مولوی عبد الحق

            آئینِ اردو : مولانا زین العابدین فرجاؔد کوتانوی،۔۔تسہیل البلاغت : پروفیسرسجاد مرزا بیگ دہلوی

شرحِ کلامِ غالبؔ از طباطبائی

بوے گل نالۂ دل دود چراغِ محفل

 جو تری بزم سے نکلا وہ پریشاں نکلا

            پہلے مصرع میں سے فعل اور حرفِ تردید محذوف ہے۔ یعنی پھولوں کی مہک ہو یا شمعوں کا دھواں ہو یا عشاق کی فغاں

 بلاے جاں ہے غالبؔ اس کی ہر بات

عبارت کیا ، اشارت کیا ، ادا کیا

            ’ کیا ‘ اس شعر میں حرفِ عطف ہے جسے معطوف و معطوف علیہ میں بیانِ مساوات کے لیے لاتے ہیں

تاب لائے ہی بنے گی غالبؔ

واقعہ سخت ہے اور جان عزیز

            ’ اور ‘  اس شعر میں فع کے وزن پر ہے ، وسط میں سے واو گر گیا اور وسط میں سے کوئی حرف کبھی نہیں گرتا اور یہ حرفِ عطف ہے اور حروف جتنے ہیں ان سب میں اختصار ہی اچھا ہوتا ہے اس سبب سے کہ وہ محض روابط اور صلات ہوتے ہیں مثلاً  ’ جو ‘ اور ’تو‘  شرط و جزا میں اگر اس طرح سے موزوں ہو کہ واو تقطیع سے گر جائے تو زیادہ فصیح معلوم ہوتا ہے بر خلاف اس کے کہ دونوں کا واو وزن میں محسوب ہو اور اشباعِ تام ہو کہ وہ برا معلوم ہوتا ہے لیکن ’ اور ‘کی لفظ میں فصیح یہی ہے کہ فاع کے وزن پر ہو اور اختصار اس کا بخلاف اور حروف کے برا معلوم ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وسط میں سے واو ساقط ہوتا ہے اور بعض شعرا نے اس لفظ کو ایسا مختصر کیا ہے کہ ’ و ‘ کو بھی گرا دیا ہے اور یہ صورت عموماً آج کل سب اہلِ قلم غلط سمجھتے ہیں جیسے یہ مصرع : ع۔۔دیکھ ٹک آن کر یہ دل اورجگر۔..... اس مصرع میں ’ واو‘  اور  ’رے‘ دونوں گرگئے،’ اور‘  میں سے فقط ’ الف ‘  رہ گیا ہے لیکن حقیقتِ امر یہ ہے کہ بول چال میں تینوں طرح ’اور ‘کو  بولتے ہیں۔ ایک صورت یہ کہ تینوں حرف وزن میں داخل رہیں یعنی ملفوظ ہوں۔ دوسری صورت یہ کہ واو گر جائے فقط  ’ اَر ‘  رہ جائے اور جب بول چال میں تینوں طرح ہے تو پھر غلط کہنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اسی طرح لفظ ’ کوئی ‘ بھی چار طرح سے بولا جاتا ہے ؛ فعلن و فاع و فعل کے وزن پر فصیح ، اور فع کے وزن پر غیر فصیح ہے۔

 یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخِ مکتوب

 مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا

            ’ تو اور پاسخِ مکتوب ‘ یعنی تو اور جواب لکھے ممکن نہیں۔ تقدیر اس کی یہ ہے ؛ کہاں تو اور کہاں پاسخِ مکتوب‘ کہاں کی لفظ محذوف ہے اور لفظ پاسخ سے نوشتنِ پاسخ یا فرستادن و دادنِ پاسخ مراد ہے اور قاعدہ یہ ہے کبھی فعل و فاعل میں اظہارِ استبعاد کے لیے حرفِ عطف کو فاصل کیا کرتے ہیں مثلاً آگ اور نہ جلائے یعنی یہ بات مستبعد ہے اور کبھی مبالغہ کے لیے عطف کرتے ہیں جیسے آگ اور دہکتی ہوئی۔ اسی طرح اور متعلقاتِ فعل میں بھی فصل کر دیتے ہیں۔

منصبِشیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا

 ہوئی معزولیِ انداز و ادا میرے بعد

            ’ کے ‘  اس شعر میں اضافت کے لیے نہیں ہے ورنہ ’ کا‘ہوتا جیسے کہتے ہیں کوئی اس منصب کا مستحق نہیں رہا، بلکہ یہ ’کے ‘ ویسا ہے جیسا میر انیسؔ مرحوم کے اس مصرع میں ہے ؛ سرمہ دیا آنکھوں میں کبھی نورِ نظر کے ‘۔اس مصرع پر لوگوں کو شبہ ہوا تھا کہ میر صاحب نے غلطی کی یعنی ’ کی ‘ کہنا چاہیے تھا۔ اسی طرح کہتے ہیں ؛ ان کے مہندی لگادی۔ جو لوگ نحوی مذاق رکھتے ہیں وہ اس بات کو سمجھیں گے کہ ایسے مقام پر ’ کے ‘  حرفِ تعدیہ ہے اور اسی بنا پر میں برقؔ کے اس مصرع کو غلط نہیں سمجھتا جو مرثیے میں انھوں نے کہا تھا اور اعتراض ہوا تھا ؛ ڈاڑھی میں لال  بال تھے اس بد نہاد کے۔ اور اسی دلیل سے انیسؔ کا مصرع بھی صحیح ہے اورمیرؔ کا یہ مصرع بھی ؛ آنکھوں میں ہیں حقیر جس تس کے ....  غلط نہیں ہے۔ اور آتشؔ کا یہ شعر بھی صحیح ہے۔    ؂

معرفت میں اس خداے پاک کے

 اڑتے ہیں ہوش و حواس ادراک کے

 

 وہ بھی دن ہو کہ اس ستم گر سے

 ناز کھینچوں بجاے حسرتِ ناز

            اس جملے میں کہ اس ستمگر سے ناز کھینچوں ، ’ سے ‘  اچھا نہیں معلوم ہوتا مگر ’ سے ‘ کا تعلق حسرت کے ساتھ ہے یعنی جس طرح اس ستمگر سے میں حسرتِ ناز کھینچ رہا  ہوں وہ بھی دن آئے اسی طرح ناز کھینچتے۔ اور ’ سے ‘  اس شعر میں معنیِ سبب کے لیے ہے۔

 

 اے  ترا  غمزہ  یک قلم  انگیز

 اے  ترا  ظلم  سر بسر   انداز

            دونوں مصرعوں میں سے منادی بھی محذوف ہے اور فعل بھی۔ یعنی اے نازنین ، تیرا غمزہ یک قلم انگیز ہے۔ اے ظالم ، تیرا ظلم سر بسر اندازِ معشوقانہ ہے۔ ان دونوں جملوں کی صورت خبر کی ہے۔ مگر شاعر کو قصد انشا ہے۔ اور منادی کا محذوف ہونادلیل ہے اس بات پر کہ خبر نہیں ہے اس وجہ سے کہ محل انشا میں منادی کو حذف کرتے ہیں جیسے دعا کے محل میں :  اے تو جیے۔ کوسنے کے مقام پر: اے تو مرے۔ تعجّب میں : اے واہ۔ اے لو۔ تمنّا کے لیے : اے وہ دن  خدا کرے۔ امر میں : اے، یہاں آؤ۔ نہی میں : اے یہ بات نہ کرنا۔ استفہام کی جگہ پر : اے بتاؤ۔ قسم میں : اے تمھاری جان کی قسم۔ عرض کے لیے : اے یہاں نہیں آتے کہ باتیں کریں۔ ترجی میں : اے شاید وہ آیا۔ لوم کے لیے : اے لعنت ہے ۔تخصیص کے لیے : اے تو بھی جواب نہیں دیتا۔ وجہ یہ ہے کہ ’ اے ‘ حرفِ ندا ہے اور ندا انشا ہے اس سبب سے اس کا استعمال انشا ہی میں ہوتا ہے اس صورت سے کہ منادی محذوف ہو۔ اگر جملۂ خبریہ میں حرفِ ندا واقع ہو تو منادی کا ذکر ضرور ہے کہ وہ منادی سے مل کرجملۂ انشائیہ ہو جائے اورجملۂ خبریہ کا جزو نہ واقع ہو۔

 اسد  اللہ  خاں  تمام  ہوا

 اے دریغا  وہ  رندِ شاہد باز

            دوسرے مصرع میں ندبہ و نوحہ ہے اور ندبہ اقسامِ انشا میں ہے اور مقامِ انشا میں ’ تھا ‘ حرفِ ندا کو لانا اور منادی کو محذوف کر دینا محاورہ ہے جیسا آگے بہ تفصیل بیان ہوا۔ لیکن اہلِ نحو ایسے مقام پر دریغ کو منادی کا قایم مقام سمجھتے ہیں۔

نشو و نما ہے اصل سے غالبؔ فروع کو

 خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے

            ’ خاموشی ‘ کی ’ ی ‘ وزن میں نہیں سماتی۔ اس سے مصنف کا یہ مذہب ظاہر ہوتا ہے کہ فارسی لفظ کے بھی آخر میں سے نظمِ اردو میں حروفِ علّت کا گر جانا وہ جایز سمجھتے تھے۔ مگر سارے دیوان بھر میں الف کو یا واو کو مصنف نے لفظ فارسی سے نہیں گرنے دیا ہے۔ اس مسٔلے میں لکھنؤ کے شعراے معتبر اختلاف کرتے ہیں اور فارسی گویوں کی طرح ’ ی ‘ کا گرانا بھی جایز نہیں سمجھتے۔ اور ناسخؔ کے زمانے سے یہ امر متروک ہے ۔

            قولِ فیصل اس باب میں یہ ہے کہ جب بر وقتِ محاورہ اوراثناے گفتگو میں بہت جگہ حروفِ علّت کا تلفظ میں سے گرا دینا ضرور ہے کہ جو امر فارسی والوں کی زبان پر ثقیل ہے وہ اردو میں بھی ثقیل ہو اور یہی وجہ ہے کہ خواجہ حیدر علی آتشؔ مرحوم اور میر انیسؔ مغفور نے اس کی پابندی نہیں کی اور حروفِ علّت کے گرانے میں لفظ فارسی و اردو کا امتیاز نہیں کیا۔

             مگر یہ امر البتہ عجیب ہے کہ مصنف نے الف اور واو میں تو پابندی کی اور ’ ی ‘ کو گرا دیا۔ حالانکہ یاے معروف کا اور اسی طرح واوِ معروف کا خواہ لفظ فارسی میں ہو خواہ کلمۂ ہندی میں ہو وزن میں سے گر جانا زبانِ اردو پر ثقیل ہے۔ اور واو اور یاے مجہول کا گرانا ثقیل نہیں ہے۔ بلکہ روابط میں سے گرانا تو فصیح ہے۔ اور الف کے گرانے نہ گرانے کا مدار محاورے پر ہے۔ جو ’ ی ‘ اور’  واو ‘ کہ ما قبل مفتوح ہیں ان کا گرانا بشہادتِ محاورہ اردو میں ثقیل ہے جیسا کہ فارسی میں ثقیل ہے۔ واوِ مجہول کو فارسی والے بھی اکثر لفظوں سے گراتے ہیں۔ لیکن یاے مجہول کو وہ اس سبب سے نہیں گراتے کہ  ’ ی ‘ کے گرنے سے اور زیر کے باقی رہ جانے سے اضافت کے ساتھ التباس ہو جاتا ہے اور ہماری زبان میں ویسی اضافت نہیں ہے اس سبب سے یاے مجہول کا گرانا ہمار ی  زبان میں ثقیل نہیں ہے البتہ اگر منادی میں یاے مجہول ہو اور حرفِ ندا محذوف ہو تو اسی ’ ی ‘ کا گرنا برا معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً جرأت کے اس شعر میں    ؂

کس مزے سے یہ باظہارِ وفا اس نے کہا

 مت بنا بات نہیں اب تری جھوٹی وہ آنکھ

اگر ’ ی ‘ کو گرا دیں اور مصرع کو یوں کر دیں ،ع  مت بنا بات نہیں اب ہے تری جھوٹی وہ آنکھ..... دیکھو کیا برا معلوم ہوتا ہے۔

 ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں

 نہ سہی عشق ، مصیبت ہی سہی

            مصیبت سہی دونوں معنوں کے ساتھ یہاں درست ہے ، خواہ سہی کو فعل لو خواہ حرف۔

 ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے

 بے نیازی تری عادت ہی سہی

            بہ لفظِ استقبال یہ کہنا کہ خو ڈالیں گے اس معنی پر یہ کنایہ دلالت کرتا ہے کہ ابھی طبیعت کو بے نیازی کی برداشت نہیں ہے۔ اور عادت بگڑی ہوئی ہے ، یکایک طبیعت کے بدل جانے کی بھی امّید نہیں ہے۔ رفتہ رفتہ بے نیازی کو انگیز کر لیں گے۔یہاں حرفِ استقبال میں تراخی و تاخیر بھی مصنف کو مقصود ہے اور اسی سے معنی میں کثرت پیدا ہوتی ہے۔

 اے  ساکنانِ کوچۂ دلدار دیکھنا

تم کو کہیں جو غالبِؔ آشفتہ سر ملے

            عبارت تو یہ ہے کہ وہاں کہیں غالبؔ اگر مل جائے تو دیکھنا۔ اور مطلب یہ ہے کہ خیال رکھنا شاید غالبؔ وہاں کہیں مل جائے۔ یہ مطلب اس عبارت سے ’ جو ‘ کے سبب سے نہیں نکلتا۔ ’ جو ‘ کی لفظ نے جملے کو شرطیہ کر دیا اور شرط مقصود نہیں۔ اس لیے کہ شرط سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ اگر غالبؔ کہیں ملے تو دیکھنا۔ حالانکہ جو ملے اس کا نہ دیکھنا کیا معنی۔ غرض کہ شرط یہاں کچھ معنی نہیں رکھتی۔ اس جملے کی صورت شرط کی ہے۔ مگر قصد شرط نہیں ہے۔ اور ’ جو ‘  یا  ’ اگر ‘  اس محاورے میں زاید ہوا کرتا ہے۔ معنیِ مقصود یہی ہوا کرتے ہیں کہ دیکھنا یعنی خیال رکھنا شاید فلاں شخص کہیں مل جائے۔ لیکن محاورہ یوں نہیں جاری ہے کہ اس معنی کو جملۂ شرطیہ کی صورت میں ادا کرتے ہیں جیسا کہ مصنف نے کیا ہے اور یہ مسٔلہ نحوِ اردو کے نوادر میں سے ہے۔

 

چھوڑی اسدؔ نہ ہم نے گدائی میں دل لگی

 سایل ہوۓ  توعاشقِ اہلِ کرم ہوئے

            ’  تو ‘ اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ اس کے پہلے جو جملہ ہے اس میں سے ’’ جو ‘ ‘ یا ’’ جب ‘‘ یا ’’ اگر ‘‘  محذوف ہے ، یعنی یہ جملہ شرطیہ ہے۔ اور حذف نے بہت لطف دیا۔ نحوِ اردو میں یہ قاعدہ کلیہ سمجھنا چاہیے کہ جملہ شرطیہ میں حرفِ جزا مذکور ہو تو حرفِ شرط کا حذف حسن رکھتا ہے۔

سبزۂ  نُہ چمن و یک خطِ پشتِ لبِ بام

 رفعتِ ہمتِ صد عارف و یک اوجِ حصار

            ’ سبزۂ نُہ چمن ‘ استعارہ نو آسمانوں سے ہے اور حرفِ عطف دونوں مصرعوں میں معنیِ مساوات کے لیے ہے اور اس شعر میں بلندیِ قصر کی تعریف مقصود ہے۔ یعنی سبزۂ نُہ فلک و سبزۂ پشتِ لبِ بام برابر ہے۔ اور بلندیِ ہمتِ عارف اور اس قصر کا اوج یکساں ہے۔ اس طرح کا عطف معنیِ مساوات کے لیے فارسی سے اردو میں آیا ہے۔ ورنہ خاص اردو میں یعنی مساوات کے لیے حرفِ نفی سے عطف کرتے ہیں۔ میر انیسؔ مرحوم فرماتے ہیں ، ع 

گورے نہ ان کے پاؤں نہ روئے مہِ منیر۔۔۔۔۔۔  یعنی ان کے گورے تلوے اور چاند کا منہ برابر ہے۔

محاورہ اور روز مرّہ

ارشا داتِ سجاد مرزا بیگ دہلوی:۔

            حقیقت ، یا دلالت وضعی ، کے مطابق کلام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ متکلّم لفظوں کے صحیح معنی اور محلّ۱ستعمال، اور زبان کے محاورات اور روز مرّہ سے پوری واقفیت رکھتا ہو۔تحریر و تقریر میں سب سے زیادہ اہم اور ضروری کام الفاظ کا انتخاب کرنا ہے۔ ہر مطلب اوّل سے آخر تک الفاظ ہی سے ظاہر ہوتا ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ ادائے مطلب کے لیے با معنی ، صحیح اور بر محل الفاظ تلاش کیے جائیں۔ اچھے مضمون نگار اور شاعر ہمیشہ لفظوں کی بہت چھان بین کیا کرتے ہیں۔

 

محاورہ:

            الفاظ کے معنی کی دو قسمیں ہیں : حقیقی اور مجازی۔جب کوئیکلام ایسے دو یا دو سے زیادہ الفاظ سے مرکّب ہو جو اپنے معنی غیر موضوع لہ پر استعمال ہوتے ہوں تو وہ کلام محاورہ کہلاتا ہے۔جیسے ٹھیک بنانا ، سزا دینا ، ابر کا برس کر کھل جانا وغیرہ۔محاورے کی ایک قسم یہ ہے کہ کلمہ ایک اسم اور ایک فعل سے مرکب ہو اور فعل اپنے حقیقی معنی میں نہیں بلکہ مجازی معنی میں استعمال ہوا ہو، ایسے محاوروں میں ہر اسم کے لیے خاص خاص افعال مقرر ہیں۔ اگر ایک فعل کی جگہ دوسرا فعل رکھ دیں ، یا فعل کو اس کے حقیقی معنی میں لیں تو کلام غلط ہو جاتا ہے۔ مثلاً نقل اتارنا کے بجاے نقل بنانا، طرارے بھرنا کے بجاے طرارے کرنا ، رنگ میں رنگنا کے بجاے رنگ میں کھینچنا وغیرہ۔

            کس موقعے پر کون سے الفاظ برتنے چاہییں اس کے لیے کوئی قاعدہ کلیہ مقرر نہیں۔ یہ کلیہ صرف مستند ادیبوں اور شاعروں کے کلام پڑھنے ، لایق اہلِ زبان کے صحبت میں بیٹھنے اور خود غور و فکر کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے۔اخباروں ، رسالوں اور کم لیاقت ادیبوں اور شاعروں کے     من گھڑت الفاظ زبان کو خراب کرتے ہیں۔ محاورات اور الفاظ کی سند ہمیشہ مستند مصنفوں اور عالموں کی زبان سے لینی چاہیے۔ الفاظ کو رواج پانے کے لیے بھی مدّت گذرنے کی ضرورت ہوتی ہے  اور جب تک کسی لفظ کو قبولیت اور پسندِ عام کا رتبہ حاصل نہ ہو وہ عالمانہ اور ثقہ تحریروں میں استعمال کے قابل نہیں ہوتا۔ جس طرح ثقہ و مہذب اور بازاری و غیر مہذب آدمیوں کے اوضاع و اطوار میں فرق ہوتا ہے اسی طرح ان کی زبان اور گفتگو میں بھی فرق ہوا کرتا ہے۔  بازاری الفاظ اگرچہ بہت مروج ہوتے ہیں لیکن مہذب تحریروں اور تقریروں میں ان سے بہت بچنا چاہیے۔

            زبان کا با محاورہ ہونا اس کی لطافت کو زیادہ کرتا ہے۔ ہر زبان کا محاورہ اسی کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے۔ دوسری زبان میں اس کا ترجمہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ان کا صحیح استعمال زبان دانی کی دلیل ہے اور زبان دانی کی سادگی اور اصلی حسن بھی محاورے ہی سے ظاہر ہوتا ہے۔محاورے کی غلطیاں کئی طرح کی ہوتی ہیں : ایک تو یہ کہ محاورہ جن معنیِ غیر موضوع لہ پر استعمال ہوتا ہے نا واقفیت کی وجہ سے اس کے سوا دوسرے معنوں میں اس کا استعمال کیا جائے۔ یا یہ کہ محاورے کے الفاظ بدل دیے جائیں یا محاورے کے الفاظ کے حقیقی معنی لیے جائیں۔ مثلاً ناسخؔ کا شعر ہے     ؂

 دیکھ کر طاقِ حرم کو جو چڑھاتا ہے بھویں

عشق ہے مجھ کو دِلا اس صنمِ بے دیں کا

محاورہ ’ ناک بھَوں چڑھانا ‘ ہے ، ’ بھویں چڑھانا ‘ نہیں۔۔۔ خواجہ آتش کا شعر ہے    ؂ 

 وہم و خیال کے بھی نہ ہاتھ آئے وہ کمر

  حجت کا اس دہن کی کسی کو دہن نہ ہو

’ کسی کو دہن نہ ہو ‘  خلافِ محاورہ ہے۔ ’ کس کا منہ ہے ‘  یا  ’ منہ نہیں ‘ محاورہ ہے۔

روزمرہ:

            روز مرہ اس بول چال اور اسلوبِ بیان کو کہتے ہیں جو خاص اہلِ زبان استعمال کرتے ہیں۔ اس میں قیاس کو دخل نہیں۔ صرف سماعت پر دار و مدار ہے۔در حقیقت روز مرہ فصاحت ہی کا ایک فردِ خاص ہے۔

روز مرّہ کی غلطیاں بھی عام ہیں۔مثلاً آتش  ؔ    ؂

 موسیٰ کو تیرے حکم سے دریا نے راہ دی

 فرعوں کو تو نے غرق کیا رودِ نیل کا

’ رودِ نیل میں ‘ صحیح روز مرہ ہے۔

 کس کس کو خاک میں نہیں ملوایا آپ نے

 کشتہ ہے کون کون تمھارے غرور کا

دوسرے مصرع میں بھی حرفِ نفی ہو نا چاہیے تھا ، کیونکہ عطف کا قاعدہ یہ ہے کہ جب دو فقروں کو حروف نفی کے ساتھ عطف کرتے ہیں تو دونوں فقروں میں حروفِ نفی لاتے ہیں ، مثلاً ’ نہ یار آیا نہ قرارآیا ‘۔

کیا چشمِ مستِ یار سے تشبیہ دیجیے

 کیفیتِنگاہ نہیں جام کے لیے

روز مرّہ کے مطابق  ’ جام میں ‘ کہنا چاہیے تھا۔

۔۔۔ماخوذ و منقول از ’ تسہیل البلاغت ‘، مؤلفہ سجاد مرزا بیگ دہلوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارشاداتِ طباطبائی

رہا گر کوئی تا قیامت سلامت

 پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت

            ’ ہے ‘ اس شعر میں اور ہی معنی رکھتا ہے۔ یہ معنی فرض و وجوب پر دلالت کرتا ہے لیکن مصدر کے ساتھ ان معنی پر زیادہ آتا ہے۔ کہتے ہیں مجھے ایک خط لکھنا ہے اورکئی خط لکھنے ہیں اورکتاب لکھنی ہے اور کتابیں لکھنی ہیں۔ اور لکھنؤ کے بعض شعرا جودعویٰ تحقیق رکھتے ہیں مصدر کو قابلِ تعریف نہیں سمجھتے اور اس کے افراد اور جمع و تذکیر و تانیث کو غلط سمجھتے ہیں وہ یوں کہتے ہیں مجھے ایک خط لکھنا ہے اورکئی خط لکھناہیں اور کتاب لکھنا ہے اور کتابیں لکھنا ہیں لیکن یہ محاورے میں قیاس ہے جو قابلِ قبول نہیں۔ ہے یہ کہ وہ بھی صحیح ہے اور یہ بھی صحیح ۔ دونوں طرح  بولتے ہیں۔

دَھول دھپاّ اس سرا پا ناز کا شیوہ نہ تھا

 ہم ہی کر بیٹھے تھے غالبؔ پیش دستی ایک دن

’ ہم ہی ‘ اور ’ تم ہی ‘  کی جگہ ’ ہمیں ‘  اور ’ تمھیں ‘ محاورہ ہے۔  میرؔ کہتے ہیں     ؂

 آخر کو ہے خدا بھی تو اے میاں جہاں میں

 بندے کے کام کچھ کیا موقوف ہیں تمھیں پر

’ زمیں ‘  اور ’ نگیں ‘  قافیہ ہے۔ مصنف نے ضرورتِ شعر کے سبب سے    ’ ہم ہی ‘  باندھ دیا۔ نثر میں اس طرح کہنا ہرگز نہیں درست لیکن اس کے تتبع میں اکثر لوگ زبان کو خراب کر بیٹھے۔ اور سنو!  محاورے میں قیاس نہیں درست ورنہ یہیں اور  وہیں کو بھی یہاں ہی اور وہاں ہی کہا کرو۔

 کی ہم نفسوں نے اثرِ گریہ میں تقریر

 اچھے  رہے آپ اس میں مگر ہم کو ڈبو آئے

            محاورہ یہ ہے کہ ہم کو اس امر میں کلام ہے یعنی ہم اسے نہیں مانتے۔ مصنف نے یہ تصرف کیا کہ کلام کی جگہ تقریر کہا اور محاورے میں تصرف کرنے سے وہ معنی باقی نہیں رہتے۔

            آزادؔ لکھتے ہیں ایک دن میں اوجؔ سے ملا اور استاد مرحوم کے مطلع کا ذکر آیا      ؂

 مقابل اس رخِ روشن کے شمع گر ہو جائے

 صبا  وہ دَھول لگائے کہ بس سحر ہو جائے

کئی دن کے بعد جو رستے میں ملے تو دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے اور کہا    ؂

یاں جو برگِ گلِ خورشید کا کھڑکا ہو جائے

 دَھول دستارِ فلک پر لگے تڑکا ہو جائے

ٔاور کہا کہ دیکھا ، محاورہ یوں باندھا کرتے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ یہ طنز کرتے ہیں کہ سحر ہوجائے جو استاد نے باندھا یہ جائزنہیں۔ مگر تجاہل کر کے میں نے کہا کہ حقیقت میں پات کے کھڑکے کا آپ نے خوب ترجمہ کیا اور استعارے میں لا کر۔ میری طرف دیکھ کر ہنسے اور کہا : بھئی واہ ، آخر شاگرد تھے ، ہماری بات ہی بگاڑ دی۔

            اس نقل سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوگئی کہ لکھنؤ میں جس معنی پر صبح ہو جانا بولتے ہیں دلّی میں تڑکا ہو جانا محاورہ ہے اور ’ سحر ہو جانا ‘  دونوں جگہ خلافِ محاورہ ہے۔

 

اس نزاکت کا برا ہو ، وہ بھلے ہیں تو کیا

 ہاتھ آویں تو انھیں ہاتھ لگائے نہ بنے

             لفظِ ’ نزاکت ‘ کے غلط ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اس وجہ سے کہ نازک فارسی لفظ ہے ، اس کا مصدر نزاکت عربی کے قیاس پر بنا لیا ہے۔ لیکن اساتذۂ فارس کی یہ گڑھت ہے جن کی تقلید آنکھ بند کر کے ارد و  والے کرتے ہیں۔ اسی طرح اردو میں بھی چاہنے کا اسمِ مصدرچاہت اور رنگ سے رنگت ، اور ا سی طرح  بادشاہت  بنا لیا ہے اور محاورے نے اور اساتذہ کے استعمال نے ان سب لفظوں کو صحیح بنا دیا ہے۔

 غالبؔ گر اس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں

حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی

            ایک عجب نحوی طلسم زبان اردو میں یہ ہے کہ مصنف نے جہاں پر ’ کی ‘ کو صَرف کیا ہے یہاں محاورے میں ’ کے ‘ بھی کہتے ہیں ، مگر قیاس یہی چاہتا ہے کہ ’ کی ‘ کہیں۔ اسی طرح لفظ ’ طرف ‘ جب اپنے مضاف الیہ پر مقدم ہو تو  ’ کی ‘  کہنا صحیح نہ ہوگا۔ مثلاً ع۔۔  پھینکی کمندِ آہ طرف آسمان کے۔اس مصرع میں ’ کی ‘ کہنا خلافِ محاورہ ہے اور پھر لفظِ طرف مؤنث ہے۔ اگر اس لفظ کو مؤخر کرد و تو کہیں گے، آسمان کی طرف۔ اور اگر مقدّم کر دو  تو کہیں گے : طرف آسمان کے۔ غرضکہ ایک لفظ جب مقدم ہو تو مذکر ہوجائے ، مؤخر ہو تو مؤنث ہو جائے۔ اسی کی  نظیر ’ نذر کرنا ‘ بھی ہے۔

 آم  کا  کون  مردِ  میداں  ہے

 ثمر و  شاخ گوے  و  چوگاں  ہے

 تاک کے جی میں کیوں رہے ارمان

 آئے ،  یہ گوے ،  اور  یہ  میدان

            لفظ، ’ تاک ‘ کو مصنف مرحوم نے بتذکیر باندھا ہے۔۔۔۔  ضابطہ یہ ہے کہ فارسی یا عربی کا جو لفظ کہ اردو میں بولا نہ جاتا ہو ، ا وّل اس کے معنی پر نظر کرتے ہیں۔ اگر معنی میں تانیث ہے تو بتانیث اور اگر تذکیر ہے تو بتذکیر اس لفظ کو استعمال کرتے ہیں دوسرے اس کے ہم وزن اسما جو اردو میں بولے جاتے ہیں اگر وہ سب مؤنث ہیں تو اس لفظ کو بھی مؤنث سمجھتے ہیں۔ اگر اس وزن کے سب اسما مذکرہیں تواس لفظ کو بھی بتذکیربولتے ہیں۔ اسی بنا پر لفظِ ابرو ، کہ محاورۂ اردو میں داخل نہیں ہے شعرا اکثر مذکّر باندھا کرتے ہیں اس لیے کہ آنسو اور بازو اور چاقو وغیرہ جس میں ایسا واوِ معروف ہے سب مذکر ہیں۔ لیکن ابرو کے معنی کا جب خیال کیجیے تو بھوں مؤنث لفظ ہے۔ اس خیال سے مؤنث بھی باندھ جاتے ہیں۔ اب لفظ تاک کے معنی کا لحاظ کیجیے تو بیل مؤنث ہے ، تاک کو بھی مؤنث ہونا چاہیے۔ اس سے مشابہ و ہم وزن جو اسما اردو میں ہیں وہ بھی مؤنث ہیں ، جیسے خاک ، ناک ، ڈانک ، ہانک ، راکھ ، آنکھ۔ قیاس بھی یہی چاہتا ہے کہ لفظ ’ تاک ‘ کو مؤنث بولنا چاہیے۔

 اور میں وہ ہوں کہ گر جی میں کبھی غور کروں

 غیر کیا ، خود مجھے نفرت مری اوقات سے ہے

            ’ مجھے میری اوقات سے نفرت ہے ‘ محاورۂ اردو کی رو سے محض غلط ہے۔ نہ لکھنؤ کی یہ زبان ہے نہ دلّی کی۔ اکبر آباد کی ہو تو ہو۔ اصل میں محاورہ یہ ہے کہ’ مجھے اپنی اوقات سے نفرت ہے‘۔ رہ رہ کے یہی تعجب ہوتا ہے کہ غالبؔکی زبان سے یہ لفظ کیونکر نکلا۔ جن لوگوں کی اردو درست نہیں ہے ان کو اس طرح بولتے سنا ہے۔:میں نے میرا قلم پایا ، تم نے تمھارا قلم پایا۔ ’ اپنے ‘ کے استعمال میں بس وہی لوگ دھوکا کھاتے ہیں۔ اہلِ زبان کبھی  بہک کے بھی  ’ اپنے ‘  کی جگہ ’  میرا ، تیرا  ‘ نہ کہیں گے۔ ضابطۂ کلیہ یہ ہے کہ جو فاعل یا مشبہ فاعل ہو اس کی ضمیر مضاف الیہ ہو کر متعلق نہیں ہو سکتی۔ ایسے موقعوں پر ’ اپنے‘ کو استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً : ’ زید اس کی زندگی سے بیزار ہے ، مجھے میری زندگی سے نفرت ہے ‘۔ ان دونوں صورتوں میں یوں کہنا چاہیے کہ زید اپنی زندگی سے بیزار ہے ، مجھے اپنی زندگی سے نفرت ہے۔

 رات کو آگ ، او ر دن کو دھوپ

 بھاڑ میں جائیں ایسے لیل و نہار

 آگ تاپے کہاں تلک انساں

 دھوپ کھاوے کہاں تلک جاں دار

 دھوپ کی  تابش ، آگ  کی گرمی

 وقنا    ربّنا     عذابَ     ا  لنّار

            تینوں شعروں میں آگ اور دھوپ کا لفظ ہے اور لطف سے ہے۔ لیل و نہار کو مصنف نے جمع کر کے باندھا ہے ، مگر اکثر مفرد استعمال کرتے ہیں۔مثلاً اگر یہی لیل و نہار رہا تو زندگی کیوں کر ہوگی ؛ لب  و  لہجہ اچھا ہے ؛  شعر و سخن سیکھا ؛ بات کا سر پیر نہ ملا ؛ منہ ہاتھ ٹوٹ گیا ؛ لہو پانی ایک ہوا۔

            دونوں لفظ مؤنث ہوں تو وہ بھی اسی طرح مفرد ہی بولے جاتے ہیں ، جیسے: خیر و عافیت معلوم ہوئی؛ اس کی آنکھ ناک اچھی ہے۔

             نہایت عجیب بات یہ ہے کہ ایک لفظ مؤنث اور دوسرا مذکّر اسے بھی مفرد بولتے ہیں اور اس کے فعل کی تذکیر و تانیث محاورے پر موقوف رہتی ہے۔ مثلاً:  اس عورت کا کمر کولا اچھا ہے ؛ بول چال اچھی ہے؛ آسمان و زمین ایک کر دیا ؛ زمین آسمان دوسرا ہو گیا۔

            اکثر ایسے بندھے ہوئے محاورے ہیں کہ جمع  بول ہی نہیں سکتے اور نحوِ اردو میں غیر ذوی العقول کے لیے اکثر مواقع میں جمع بولنا متروک ہے۔

            ہر زبان میں یہ بات ہے کہ جس طرح ادنیٰ درجے کے لوگوں کی زبان اچھی نہیں ہوتی اسی طرح لکھے پڑھے ہوئے لوگ بھی بعض الفاظ کا خلط کرتے ہیں ، بعض محاورات کی تصحیح کرتے ہیں اور زبان کو خراب کر ڈالتے ہیں۔بعض اشخاص محاورے میں نحوی یا لغوی قیاس کو دخل دے کر خرابی کرتے ہیں۔۔۔۔  اور علما کی زبان تو سب سے زیادہ بگڑی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ علوم و فنون کے اصطلاحات اپنے محاورات میں داخل کرتے ہیں اپنی زبان کی نحو و ترتیب کلمات کو بھول جاتے ہیں۔ لفظی ترجمہ کرتے کرتے غیر زبان کی نحو اپنی زبان میں جاری کرنے لگتے ہیں۔

            اہلِ ادب کا اتفاق ہے اس بات پر کہ جس تقریر و تحریر میں اصطلاحات کا زیادہ خرچ ہو اس سے بڑھ کر کوئی مکروہ زبان نہیں ہو سکتی اور اہلِ فن کا یہ حال ہے کہ اس قدر اصطلاحات وضع کیے ہیں کہ ان کی ایک نئی زبان ہو گئی ہے کہ اصطلاحات یاد کرنے میں ادب سے محروم رہ جاتے ہیں۔

شرحِ کلامِ غالب از طباطبائی

میں عدم سے بھی پرے ہوں ورنہ غافل بارہا

 میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا  جل گیا

            ’پرے ‘  کا لفظ اب متروک ہے۔ لکھنؤ میں  ناسخ ؔکے زمانے سے روزمرہ میں عوام الناس کے بھی نہیں ہے۔ لیکن دلّی میں ابھی تک بولا جاتا ہے اور نظم میں بھی لاتے ہیں۔ میں نے اس امر میں نواب مرزا خان داغ ؔسے تحقیق چاہی تھی۔ انھوں نے جواب دیا کہ میں نے آپ لوگوں کی خاطر سے   ( یعنی لکھنؤ والوں کی خاطرسے ) اس لفظ کو چھوڑ دیا مگر یہ کہا کہ مومن خاں صاحب کے اس شعر میں       ؂   

 

چل پرے ہٹ ، مجھے نہ دکھلا منھ

اے شبِ ہجر تیرا کالا منھ

اگر پرے کی جگہ ادھر کہیں تو برا معلوم ہوتا ہے۔ میں نے یہ کہا کہ’ پرے ہٹ‘  بندھا  ہوا محاورہ ہے اس میں پرے کی جگہ اُدھر کہنا محاورے میں تصرف کرتا ہے اس سبب سے برا معلوم ہوتا ہے ورنہ پہلے جس محل پر  ’چل پرے ہٹ‘  بولتے تھے اب اسی محل پر ’دور بھی ہو‘  محاورہ ہو گیا ہے۔ اس توجیہ کو پسند کیا  اور مصرع کو پڑھ کر الفاظ کی نشست کو غور سے دیکھا  ع۔۔ ’ دور بھی ہو مجھے نہ دکھلامنھ ‘  اور تحسین کی۔(سجاد مرزا بیگ دہلوی کے بموجب ’ ورے ‘ اور ’ پرے ‘ دونوں لفظ اہم ہیں اور ہرگز قابلِ ترک نہیں۔ الفاظ کے ترک و اختیار کی بحث آپ مقالہ ’’ دہلی اور لکھنؤ کی زبان ‘ ‘ میں پڑھ آئے ہیں۔ یہاں متعلقہ اقتباس کا اعادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔

             سجاد بیگ فرماتے ہیں :۔ ’’ورے اور پرے کو سرے سے زبان سے نکال ہی ڈالا۔ اگر ایک خطِ مستقیم میں کئی چیزیں ہوں تو اہلِ زبان قریب کے لیے ورے اور بعید کے لیے پرے کہتے ہیں۔ ان لفظوں کی بجاے اِدھر اُدھر ، دور نزدیک خواہ کوئی بھی لفظ رکھ دو ایک سیدھ میں ہونے کا مفہوم جو ورے اور پرے میں ہے نہیں پیدا ہوتا۔‘‘  )

 شوق ہر رنگ رقیب سروساماں نکلا

 قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

            ’ ہر رنگ ‘ کے معنی ہر حال میں اور ہر طرح سے۔ اگر یوں کہتے کہ شوق ہر طرح رقیب سروساماں نکلا یا شوق بے طرح رقیب سرو ساماں نکلا جب بھی مصرع موزوں تھا لیکن تصویر کے مناسبات میں سے رنگ گو سمجھ کر ’ہر رنگ ‘ کہا اور ہر طرح و بے طرح کو ترک کیا۔ مناسبت کے لیے محاورے کا لفظ چھوڑ دینا اچّھا نہیں۔

 نا لۂ دل نے دیے اوراقِ لختِ دل بباد

 یادگارِ نالہ اک دیوانِ بے شیرازہ تھا

’ بباد  دادن ‘   فارسی کا محاورہ ہے ، ارد و میں برباد کرنا کہتے ہیں۔

 پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا

دل جگر تشنہٗٔ فریاد آیا

            دوسرے مصرع میں ’آیا ‘  ’ ہوا ‘ کے معنی پر ہے۔ فارسی کا محاورہ ہے ، اردو میں اس طرح محاورہ نہیں بولتے۔

سادگی ہائے تمنّا یعنی

 پھر وہ نیرنگِ نظر یاد آیا

            پہلے مصرع میں سے ’  دیکھو  ‘ محذوف ہے۔

 عذرِ  واماندگی اے حسرتِ دل

 نالہ کرتا تھا ، جگر یاد آیا

            ’ قبول کر ‘پہلے مصرع میں محذوف ہے۔ اور اس قسم کے محذوفات فارسی میں ہوتے ہیں۔ اردو کی زبان اس کی مساعد نہیں۔ حذف سے شعر میں حسن پیدا ہوجاتا ہے مگر اُسی جگہ جہاں محاورہ میں حذف ہے۔

پیشے میں عیب نہیں ، رکھیے نہ فرہاد کو نام

 ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا

            ’ ہم ہی ‘  اور  ’ تم ہی ‘  اور  ’ اس ہی ‘  اور  ’ ان ہی ‘  کی جگہ پر ہمیں ، اور تمھیں اور اسی اور اُنھیں اب محاورے میں ہے اور یہ کلمات اپنی اصل سے تجاوز کر گئے ہیں۔

میں اور اک آفت کا ٹکڑا وہ دلِ وحشی ، کہ ہے

عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا

            ’ ہوں ‘ محذوف ہے ، یعنی ’ میں ہوں ‘ اور وہ دل جو دشمنِ عافیت ہے۔ ظاہر ہے کہ آفت کوئی ایسی شے نہیں ہے جس کا ٹکڑا بھی ہو مگر محاورے میں قیاس کو دخل ہی نہیں۔ اسی طرح پری کا ٹکڑا، حور کا ٹکڑا بھی محاورہ ہے۔ چاند کا ٹکڑا البتہ معنی رکھتا ہے اور پہلے بھی محاورہ تھا ، اس کے بعد پری کا ٹکڑا اور حور کا ٹکڑا اور آفت کا ٹکڑا اسی قیاس پر کہنے لگے اور اب سب صحیح ہیں۔

گرنہیں نکہتِ گل کو ترے کوچے کی ہوس

کیوں ہے گردِ  رہِ  جولانِ  صبا  ہو جانا

            یعنی پھر فعل اس کا کیوں ہے کہ صبا کی گردِ راہ بن جاتی ہے یعنی صبا کے ساتھ تیرے کوچے میں آنے کی ہوس  رکھتی ہے۔ ردیف محاورے سے گری ہوئی ہے۔

 نفس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ

 ا گر شراب نہیں انتظارِ ساغر کھینچ

            یعنی آرزو کا دم بھرے جا ، اس سے علٰحدہ نہ ہو۔ اگر شراب کھینچنے کو نہیں ملتی تو اس کا انتظار ہی کھینچ۔ ’ کھینچ ‘ کی لفظ شراب اور انتظار دونوں سے تعلّق رکھتی ہے لیکن انتظار کھینچنا تو اردو کا بھی محاورہ ہے ، شراب کھینچنا فارسی کا محض ترجمہ ہے کہ مے کشیدن وہ لوگ شراب پینے کے معنی میں بولتے ہیں۔ اسی طرح سے دو شعروں کے بعد مصنف نے کہا ہے ؛   ع۔۔بکوریِ دل و چشمِ رقیب ساغر کھینچ۔ اور یہ بھی محاورۂ اردو کے خلاف ساغر کشیدن کا ترجمہ ہے اور ساغر کا پینا مراد لیا ہے۔

  مرے قدح میں ہے صہبائے آتشِ پنہاں

 بروئے سفرہ کبابِ دلِ سمندر کھینچ

            یعنی جب شراب چھپی ہوئی آگ کی ہے تو کباب بھی سمندر کے دل کا چاہیے کہ دل بھی باطنی شے ہے۔ کباب نے یہاں کچھ مزہ نہ  دیا۔ ’ کھینچ ‘  ترجمہ ہے ، دستر خوان پر چن دے یا لگا دے محاورۂ اردو ہے۔

 حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد

 بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد

            چھٹنا اور چھوٹنا ایک ہی معنی پر ہے ، الف تعدیہ بڑھانے کے بعد  ’ ٹ ‘  کا  ’ ڑ ‘  کر دینا فصیح ہے یعنی چھڑانا فصیح ہے اور  چھٹانا غیر فصیح۔ اور چھوڑنا اور چھڑانا دونوں متعدی ہیں ۔ چھوٹنا سے چھوڑنا متعدی بیک مفعول ہے جیسے پھوٹنا سے پھوڑنا اور ٹوٹنا سے توڑنا اور چھڑانا متعدی بہ دو مفعول ہے۔ بعض متبعینِ زبانِ دہلی کے کلام میں چھٹوانا دیکھنے میں آیا ہے ، اہلِ لکھنؤ اس طرح نہیں کرتے۔

 جگر ِ تشنۂ آزار ، تسلّی نہ  ہوا

  جوئے خوں ہم نے بہائی بُنِ ہر خار کے پاس

’ جگر تسلّی نہ ہوا ‘  خلافِ محاورہ ہے۔

 فروغِ حسن سے ہوتی ہے حل ہر مشکلِ عاشق

 نہ نکلے شمع کے پا سے نکالے گر نہ خار آتش

            شمع کے ڈورے کو خارِ شمع کہتے ہیں اور اس خار کا نکالنے والا شعلۂشمع ہے۔ اور’ حل ‘ کو بتانیث باندھا ہے ، شاید ’  مشکل ‘ کے ہمسایہ میں ہونے سے دھوکا کھایا ورنہ محاورہ یہ ہے کہ میں نے اس کتاب کا حل لکھا۔

 سر کھجاتا ہے جہاں زخم پھر اچھا ہو جائے

 لذّتِ  سنگ   باندازۂ  تقریر   نہیں

            ’ جہاں ‘ اس شعر میں ’ جس وقت ‘ کے معنی پر ہے اور اصل میں یہ لفظ ’ جس جگہ ‘ کے معنی کے لیے موضوع ہوا ہے مگر محاورے میں معنی  ’جہاں ‘ کے لیے بھی بول جاتے ہیں۔ باندازۂ تقریر نہ ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ جس قدر بیان کو وسعت ہے لذتِ سنگ اس سے کہیں زیادہ ہے۔

غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول، ناسخؔ

 آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِمیرؔ نہیں

            غالبؔ اور میرؔ دونوں بزرگ اکبر آبادی ہیں یعنی زبان آنے کی عمر دار السلطنت اکبر آباد میں گذری۔ نواب مصطفیٰ خاں شیفتہؔ، غالبؔ مرحوم کو لکھتے ہیں : ’ سابقاً مستقر الخلافۃ اکبر آباد  از استقرارش سر گرمِ ناز بود ، اکنوں دار الخلافۃ شاہ جہاں آباد بدیں نسبت غیرت افزاے صفاہاں و شیراز ‘۔۔۔۔۔ اور میر محمد حسین صاحب آزادؔ میر محمّد تقی میرؔ کو لکھتے ہیں : باپ کے مرنے کے بعد(اکبر آباد سے ) دلّی میں آئے۔ اور ’گلشنِ بے خار ‘  میں ہے: ’ میرؔ از اہلِ اکبر آباد است۔ در بدوِ حال بہ شاہجہاں آباد آمد ، تمتع نیافتہ ناکام برگشتہ در لکھنو ٔ می گزرانید و ما یحتاج از سرکار نواب وزیر المما لک بہادر یافت۔ ہم دراں جا بسیرِ ملکِ عدم شتافت ‘۔اب اگر غالبؔ کو دہلوی کہو تو میرؔ کو لکھنوی کہنا ضرور ہے مگر ان دونوں استادوں کی زبان یہ کہہ رہی ہے کہ نہ وہ دہلوی ہیں نہ یہ دہلوی ہیں۔ اور اردو زبان کا حال ایک لفظ سے معلوم ہوجاتا ہے ، زیادہ تفحص کرنے کی ضرورت نہیں۔ میرؔ مرحوم کے محاورے میں سارے دیوان میں جا بجا ’ اور ‘ کا لفظ  ’طرف ‘ کے معنی پر ہے حالانکہ دہلی کی زبان میں یہ لفظ کبھی نہ تھا۔ مرزا غالبؔ مغفور فرماتے ہیں :  ایک دل تس پر یہ نا امّید واری ہاے ہاے ۔ ایک خط میں لکھتے ہیں ’ پارسلوں کا چھٹویں ساتویں دن پہونچنا خیال کر رہا ہوں ‘۔ ایک جگہ لکھتے ہیں : پلنگ پرسے کھسل پڑا کھانا کھا لیا۔۔۔ حالانکہ ان کے معاصرین میں کسی کی زبان پر دہلی و لکھنؤ میں یہ الفاظ نہ تھے۔ انصاف یہ ہے کہ یہ دونوں زبانِ اکبر آباد کے لیے مایۂ فخر و ناز ہیں۔ دو ایک لفظوں کے نامانوس ہونے سے ان کی زبان پر حرف نہیں آ سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔  جن باتوں پر کہ اب دارو مدار استادی کا آرہا ہے وہ عروضِ سیفی اور غیاث اللغات کی صفحہ گردانی ہے۔ یہ دونوں بزرگ محاورے کے آگے نہ غلطی کی پروا کرتے تھے نہ قواعد کا خیال رکھتے تھے۔۔۔۔۔۔ غرض کہ قدر شناسیِ فن اور محبتِ وطن دونوں امر اس بات کے مقتضی ہوئے کہ غالبؔ نے ناسخؔ کے ساتھ اس عقیدے میں اتفاق کیا کہ، ع۔۔    آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں ‘۔

 

 دل آشفتگاں ، خالِ کنجِ دہن کے

 سویدا میں ، سیرِ عدم دیکھتے ہیں

            ’ سیر ‘ عربی لفظ ہے اور چلنے کے معنی پر عربی میں مستعمل ہے لیکن فارسی و اردو میں تماشے کے معنی پر مستعمل ہے۔ مصنف نے یہاں اہلِ عجم کے مذاق کے موافق نظم کیا ہے اور اس سبب سے لفظِ سیر کی اضافت درست ہے۔

 تماشا کہ اے محوِ آئینہ داری

 تجھے کس تمنّا سے ہم دیکھتے ہیں

            فارسی والے کہتے ہیں :  مددے ،یعنی مدد کر ؛ نگاہے یعنی نگاہ کر ؛ تماشائے یعنی تماشا دیکھ ؛ زخمے یعنی زخم لگا ؛ دستے یعنی ہاتھ پکڑ۔ اسی مذاق کے موافق مصنف نے یہاں فعل کو محذوف کیا ہے۔۔۔ لیکن اردو میں خالی ’ تماشا ‘ کہہ دینا محاورہ نہیں ہے۔

 

 میں اور حظِّ وصل ، خدا ساز بات ہے

 جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں

       یعنی مجھ کو اور حظِّ وصل حاصل ہو ! ایسے غیر مترقب امر پر اظہارِ تعجّب میں فعل کا حذف محاورے میں ہے۔ اسی طرح مقامِ مبالغہ میں بھی فعل کو حذف کرتے ہیں۔ جیسے : یہ ہاتھ اور ایسی تلوار۔ ’دینی ‘ مصدر مؤنث ہے۔

 شاہدِ ہستیِ مطلق کی کمر ہے عالم

 لوگ کہتے ہیں کہ ہے ، پر ہمیں منظور نہیں

            مصنف نے لفظ ’ منظور ‘ کو یہاں مبصر و مرئی کے معنے پر استعمال کیا ہے۔ محاورہ اس کے مساعد نہیں۔

عشق و مزدوریِ عشرت گہِ خسرو، کیا خوب

 ہم کو تسلیم نکو نامیِ فرہاد نہیں

            ہم کو تسلیم نہیں یعنی ہمارے نزدیک مسلّم نہیں یعنی مصدر کو    بہ معنیِ مفعول استعمال کیا ہے اور عربی کے مصدر اکثر اردو میں اس طرح  لوگ استعمال کیا کرتے ہیں ، جیسے کہتے ہیں : مطلب حصول ہوا یعنی حاصل ہوا۔؛ راز افشا ہوا یعنی فاش ہوا۔ لیکن جو لوگ عربی داں ہیں وہ ایسی عبارت سے احتراز کرتے ہیں اور محاورہ بگاڑ لیتے ہیں۔

 

زمانہ سخت کم آزار ہے بجانِ اسدؔ

 وگرنہ ہم تو توقّع زیادہ رکھتے ہیں

            ’  سخت  ‘ کا استعمال بہت کے معنی پر فارسی کا محاوہ ہے ، اردو میں بہت کم مستعمل ہے۔

 

پنہاں تھا دام سخت قریب آشیان کے

 اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے

            ’ سخت قریب ‘  محاورہ فارسی میں بہت قریب کے معنی پر ہے۔

 حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے

 آخر گناہ گار ہوں ، کافر نہیں ہوں میں

            لفظ ’ کافر ‘ میں اہلِ زبان ’ ف ‘ کو زیر پڑھتے ہیں لیکن عجم کا محاورہ زبر ہے۔ اسی سبب سے اس کو ساغر کے ساتھ قافیہ کرتے    ہیں۔یہ  خیال نہ کرنا چاہیے کہ ضرورتِ قافیہ کے لیے مکسور کو مفتوح کر لینا درست ہوگا بلکہ  ( یہ لفظ)‘مخصوص سمجھنا چاہیے اس حکم کے لیے۔

 

دی سادگی سے جان ، پڑوں کوہکن کے پانؤ

 ہیہات کیوں نہ ٹوٹ گئے پیر زن کے پانؤ

کسی کی مصیبت پر جوشِ محبت میں کہتے ہیں کہ : ہے ہے ، میں اس کے  پاؤں پڑوں۔ اور یہ بڑے محاورے کا لفظ ہے۔ اور التجا کے لیے تو پاؤں پڑنا مشہور بات ہے۔

 

واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو

 صد رہ آہنگِ زمیں بوسِ قدم ہے ہم کو

            لفظ ’ پیہم ‘ باضافت و بلا اضافت دونوں طرح صحیح ہے لیکن اردو کا محاورہ یہی ہے کہ اس لفظ کو بے اضافت بولتے ہیں۔ فارسی عربی کے جتنے لفظ ذو وجہین ہیں ان میں محاورۂ اردو کا اتباع کرنا ضرور ہے ورنہ مخلِّ فصاحت ہوگا۔

گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہو

 کہے سے کچھ نہ ہوا ، پھر کہو تو کیونکر ہو

            اس غزل کے اکثر شعروں میں ’ کیونکر ہو ‘  لکھنؤ کے محاورے سے الگ ہے۔ یہاں ’کیونکر ہو ‘  مصنف نے اہلِ دہلی کی طرح  ’کیا  ہو ‘ کی جگہ پر کہا ہے۔

 

 ادب ہے اور یہی کشمکش تو کیا کیجے

 حیا ہے اور یہی گو مگو تو کیونکر ہو

     اس شعر میں ’  کیونکر ہو  ‘ کی جگہ ’  کیونکر بنے  ‘ محاورے میں ہے۔

 

 الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ

 جو تم سے شہر میں ہوں ایک د و  تو کیونکر ہو

     یہاں بھی ’ کیونکر ہو ‘ مصنف نے’ کیونکر بنے ‘ کی جگہ پر کہا ہے۔

 

 بساطِ عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی

 سو رہتا ہے باندازِ  چکیدن سر نگوں وہ بھی

            اردو کی زبان متحمل نہیں ہے کہ ’ چکیدن ‘ کا لفظ اس میں لائیں مگر مصنف پر فارسیت غالب تھی ، اس سبب سے وہ نامانوس نہ سمجھے۔

 

نہ کرتا کاش نالہ ، مجھ کو کیا معلوم تھا ہمدم

کہ ہوگا باعثِ افزایشِ دردِ دروں وہ بھی

            پہلا مصرع محاورے میں ڈھلا ہوا ہے لیکن دوسرے مصرع پر فارسیت بے طرح غالب آتی ہے۔ ہمدم کا لفظ نالہ کے مناسب ہے ورنہ یہاں ’  پہلے  ‘ کا لفظ  یا  ’  ناصح  ‘  کا لفظ بھی کھپ سکتا تھا۔

 نہ لائی شوخیِ اندیشہ تابِ رنجِ نومیدی

 کفِ افسوس ملنا عہدِ تجدیدِ تمنّا ہے

            یہاں مصنف نے تفنّنِ کلام کی راہ سے ’ تجدیدِ عہدِ تمنّا‘  کے بدلے ’ عہدِ تجدیدِ تمنّا ‘ کہا ، گو محاورے سے الگ ہے لیکن معنی درست ہے۔  اور یہ بھی احتمال ہے کہ دھوکا کھایا۔ جیسے ’ اصلاح ذات البین ‘ کے مقام پر ایک خط میں ’ اصلاح بین الذاتین ‘ لکھ گئے ہیں۔ وہ فقرہ یہ ہے؛ اگر خدا نخواستہ مجھ میں اور مولوی صاحب میں رنج پیدا  ہوتا تو آپ بہت جلد اصلاح بین الذاتین کی طرف توجہ کرتے۔

 میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی

اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی

            ’ ’اے وہ ‘ ‘ کا لفظ اس میں بہت رکیک ہے۔ اہلِ زبان ہی اس کو سمجھیں گے۔

کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو

    کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کیے

             تہمت ہونا ، تہمت کرنا ، تہمت دھرنا ، تہمت باندھنا ، تہمت بنانا ، تہمت لگانا یہ سب محاورے میں ہے مگر تہمت تراشنا مصنف نے فقط آرے کی رعایت سے کہہ دیا۔

 ضد کی ہے اور بات ، مگر خو بُری نہیں

 بھولے سے اس نے سیکڑوں وعدے وفا کیے

            اب دلّی کی زبان میں بر خلاف لکھنؤ کے سیکڑوں کی لفظ میں نون بھی داخل ہو گیا ہے۔ سیکڑوں کو سینکڑوں کہنے لگے ہیں۔ اسی طرح پراٹھے کو پرانٹھا کہتے ہیں۔

 مینائے مے ہے سرو نشاطِ بہار سے

 بالِ تدرو جلوۂ موجِ شراب ہے

            شعرا کی عادت ہے کہ سرو کے ساتھ قمری کا ذکر کرتے ہیں۔ مصنف نے تدرو کو باندھا اور قمری کو چھوڑ دیا۔ فقط فارسیت مصنف کو اس طرف لے گئی کہ مصطلحاتِ فارسی میں بالِ تدرو ، لکۂ ابر کو بھی کہتے ہیں۔

گرچہ ہے طرزِ تغافل پردہ دارِ رازِ عشق

 پر ہم ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ وہ پا جائے ہے

            اس کے سامنے جا کر ہم ایسے کھوئے جاتے ہیں یعنی از خود رفتہ ہو جاتے ہیں کہ وہ پا جاتا ہے یعنی سمجھ جاتا ہے کہ اس پر جادو چل گیا ، اگرچہ وہ تغافل کا انداز رکھتا ہے تاکہ رازِ دل کا کچھ پردہ رہ جائے۔یہ یاد رہے کہ کھوئے جانا ( ’ ے  ‘ کے ساتھ ) از خود رفتگی کے معنی پر ہے۔ اگر کھو جانا کہیں تو یہ معنی نہ پیدا ہوں گے۔

سایہ میرا مجھ سے مثلِ دود بھاگے ہے اسدؔ

  پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے

            یعنی میری وہ حالت ہے کہ سایہ تک ساتھ نہیں دیتا۔ یہ سارا مضمون تو محاورہ ہے لیکن مصنف نے اسے تشبیہات سے رنگاہے۔

 رنجِ رہ کیوں کھینچیے  وا ماندگی کو عشق ہے

 اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے

            اس شعر میں معلوم ہوتا ہے ’ کا ‘ کی جگہ ’ کو ‘  کاتب کا سہو ہے۔ اور اس صورت میں معنی صاف ہیں۔ لیکن عجب نہیں کہ ’ کو ‘ ہی کہا ہو تو معنی ذرا تکلف سے پیدا ہوں گے یعنی وا ماندگی کو میرے قدم سے عشق ہو گیا ہے اور وہ نہیں چھوڑتی کہ میں منزلِ مقصود کی طرف جاؤں۔ شعر میں مصنف نے منزل سے راہِ منزل مراد لی ہے۔ چنانچہ ’ میں ‘ کا لفظ اس پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی محاورے میں منزل کو جب ’ میں ‘ کے ساتھ بولیں تو راہِ منزل اس سے مراد ہوتی ہے اور جب ’ پر ‘ کے ساتھ کہیں تو خودمنزلِ مقصود مراد ہوتی ہے اور فارسی والوں کے محاورے میں عشق بہ معنی سلام و نیاز بھی ہے۔ اور اس صورت میں ’ کو ‘ صحیح ہے۔ یعنی ہم واماندگی کے نیاز مند ہیں کہ اس کی بدولت : اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے۔( بیخودؔ دہلوی : ’ واماندگی کو ہم سے عشق ہو گیا ہے۔ یعنی نا کامی و نا مرادی ہم پر عاشق ہے۔ ‘مرآۃ الغالب، ص ۲۳۵)

            (عرضِ مرتّب :۔نواب مرزا جعفر علی خاں اثرؔ لکھنوی نے پروفیسر آلِ احمد سرورؔ کو بتایا تھا کہ ’’ عشق ہے‘ ‘  کے معنی ’’ آفرین‘ ‘ کے ہیں ۔(’ خواب باقی ہیں ‘ از پروفیسر آلِ احمد سرور ، ص ۱۵۰) اس صورت میں شعر کے معنی یہ ہونے چاہییں کہ وا ماندگی کو آفریں ہے کہ اس کی بدولت رنجِ راہ کھینچنے کی طاقت ہم میں نہیں رہی۔ اس لیے اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے۔۔میرؔ کی ایک غزل کی ردیف ہی ’ عشق ہے ‘  ہے اور ہر جگہ ’آفریں ہے ‘ کے معنی میں ہے۔ فرماتے ہیں    ؂  

شب شمع پر پتنگ کے آنے کو عشق ہے

  اس دل جلے کی تاب کے لانے کو عشق ہے

 سر مار مار سنگ سے دیوانہ مر گیا

 فرہاد کے جہان سے جانے کو عشق ہے

ایک اور جگہ فرماتے ہیں     ؂

عشق اُن کی عقل کو ہے جو ما سوا ہمارے

 ناچیز جانتے ہیں ، نا بود جانتے ہیں

۔۔۔..ذکا صدّیقی )

 اے ساکنانِ کوچۂ دلدار دیکھنا

 تم کو کہیں جو غالبِؔ آشفتہ سر ملے

            عبارت تو یہ ہے کہ وہاں کہیں غالبؔ اگر مل جائے تو دیکھنا۔ اور مطلب یہ ہے کہ خیال رکھنا شاید غالبؔ وہاں کہیں مل جائے۔ یہ مطلب اس عبارت سے ’ جو  ‘ کے سبب سے نہیں نکلتا۔ ’ جو ‘ کی لفظ نے جملے کو شرطیہ کر دیا اور شرط مقصود نہیں۔ محاورہ یوں نہیں جاری ہے کہ اس معنی کو جملۂ شرطیہ کی صورت میں ادا کرتے ہیں جیسا کہ مصنف نے کیا ہے اور یہ مسٔلہ نحوِ اردو کے نوادر میں سے ہے۔

 کوئی دن گر زندگانی اور ہے

 اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے

            بندش کی خوبی اور محاورے کے لطف نے اس شعر کو سنبھال لیا ورنہ غالبؔ سا شخص اس بات سے بے خبر نہیں ہے کہ جی کی بات جی ہی میں رکھنا المعنی فی بطن الشاعر کہلاتا ہے۔ اس شعر سے سبق لینا چاہیے کہ بندش کے حسن اور زبان کے مزے کے آگے اساتذہ ضعفِ معنی کو بھی گوارا کر لیتے ہیں۔

 ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار

 یا الٰہی ، یہ ماجرا کیا ہے

            دوسرا مصرع جس محاورے میں مصنف نے کہا ہے جو شخص اس کے محلِ استعمال کو نہ جانتا ہوگا اس کی نظر میں شعر سست اور مصرعے بے ربط معلوم ہوں گے۔ محلِ استعمال اس کا یہ ہے کہ جب کسی کے پھیکے غمزوں پر استہزا یا تشنیع یا اظہارِ نفرت مقصود ہوتا ہے جب اس طرح کہتے ہیں۔ اور اسی مناسبت سے مصنف نے مصرع لگایا ہے اور معشوق پر استہزا کیا ہے۔

ظاہرہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں گے فرشتے

 ہاں ، منھ سے مگر بادۂ دوشینہ کی بو آئے

            استہزا کی راہ سے کہا ہے کہ ( نہ ) بھاگیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ بھاگ جائیں گے اور بادۂ دوشینہ رات کی شراب۔ محاورے میں واوِ مجہول کے ساتھ بد بو کے معنی پر بولتے ہے۔ منہ سے بو آنے کا مضمون نظم کرنے کے قابل نہ تھا۔

 پھر جگر کھودنے لگا ناخن

 آمدِ فصلِ لالہ کاری ہے

            ناخن سے ناخنِ غم مراد ہے۔ مگر ناخن سے کریدنا محاور ہ ہے ، ناخن سے جگر کھودنا محاورے سے گرا ہو ا ہے۔

    ہستی ہماری اپنی فنا پر دلیل ہے

 یاں تک مٹے کہ آپ ہم اپنی قسم ہوئے

            محاورہ ہے کہ ہمارے پاس فلاں شے قسم کھانے کو بھی نہیں یا نام کو بھی نہیں۔ بِنا اس محاورے کی اس بات پر ہے کہ اگر وہ شے نام کو بھی ہوتی تو ثبوتِ قسم کے لیے کافی تھی اور یہ ظاہر ہے کہ ا س طرح کی ہستی جو قسم کھانے کے لیے ہو اور براے نام ہو وہ فنا و نیستی کی دلیل ہے اور یہ بھی محاورہ ہے کہ ’  ہمیں فلاں شے کی قسم ہے  ‘۔ یعنی اس سے کچھ تعلق نہیں۔

            ( استدراک :۔ غالبؔ نے اس شعر کا مطلب مجروحؔ کو یہ بتایا ہے : ’ پہلے یہ سمجھو کہ قسم کیا چیز ہے ، قد اس کا کتنا لمبا ہے ، ہاتھ پانو کیسے ہیں ، رنگ کیسا ہے ، جب یہ نہ بتا سکوگے تو جانوگے کہ قسم ، جسم و جسمانیات میں سے نہیں۔ ایک اعتبارِ محض ہے وجود اس کا صرف تعقل میں ہے۔ سیمرغ کا سا اس کا وجود ہے۔ یعنی یہ کہنے کو ہے ، دیکھنے کو نہیں۔ پس شاعر کہتا ہے کہ جب ہم آپ اپنی قسم ہو  گئے تو گویا اس صورت میں ہمارا ہونا ہمارے نہ ہونے کی دلیل ہے ‘۔۔۔۔   [ بحوالہ نسخۂ عرشی ، ص ۲۹۶] )

 

ہم سے عبث ہے گمانِ رنجشِ خاطر

 خاک میں عشّاق کی غبار نہیں ہے

            مطلب مصنف کا یہ ہے کہ عشاق کی طینت میں غبار نہیں ہے ، لیکن طینت کی جگہ خاک کہنا محاورے سے گرا ہوا ہے اس مقام پر طینت ، سرشتِ آب و گِل کو  بولتے ہیں۔ خاک کا لفظ لانے سے ادائے مطلب میں خلل پیدا ہو گیا۔اور اب اس شعر کے یہ معنی ہیں کہ عشاق گو مر کر خاک ہو گئے لیکن ان کی خاک میں بھی غبار نہیں ہے۔ اور یہ محض ادّعاے شاعرانہ ہے جس کے لیے تعلیل کی ضرورت ہے۔

 جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے

 جاں کالبدِ صورتِ دیوار میں آوے

            ’ گفتار میں آنا‘  بات چیت کرنے کے معنی پر اردو کا محاورہ نہیں ہے ، ترجمہ ہے۔

 سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر

 تو اس قدِ دلکش سے جو گلزار میں آوے

            ’ سے ‘ کا لفظ اس شعر میں عجب لطف رکھتا ہے اور بڑے محاورے کا لفظ ہے۔ اور مصنف پہلے شخص ہیں جس نے اس مقام پر ’ سے ‘ کو استعمال کیا۔ اور سب شاعر اس طرح نظم کیا کرتے ہیں ع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس قد کو اگر لے کے تو گلزار میں آوے

 بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ

 جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچّھا ہے

            دل کا بوسے پر بِکنا مبتذل مضمون ہے ، لیکن یہاں محاورے کی خوبی اور بندش کی ادا نے اس مضمون کو تازہ کر دیا ہے۔

 قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے

 کام اچّھا ہے وہ جس کا کہ مأل اچّھا ہے

            قطرہ و دریا کی تمثیل اہلِ تصوف کی نکالی ہوئیہے لیکن شعرا کو بھی پسند آ گئی ہے ، کسی نے اسے نہیں چھوڑا۔ یہاں تک کہ یہ مضمون مبتذل ہو گیا۔ اب جو کوئی اسے نظم کرتا ہے تو شعر ہی بے مزہ ہو جاتا ہے۔ مصنف نے بھی اس مضمون کو کئ جگہ کہا ہے ، اور یہ شعر    ؂

دلِ ہر قطرہ ہے سازِ انا البحر

 ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا

اس سبب سے اچھا نظم ہوا ہے ہے کہ محاورے کی چاشنی نے پھیکے مضمون کو چٹ پٹا کر دیا۔

مے پرستاں ، خُمِ مے منہ سے لگائے ہی بنے

 ایک دن گر نہ ہوا بزم میں ساقی ، نہ سہی

            ’ مے پرستو ‘  چھوڑ کر  ’ مے پرستاں ‘  کہنا حال کی زبان میں نہیں جائز۔ اور ’ لگائے ہی بنے . کے معنی یہ کہ اس میں زیادہ لطف ہے اور جی بھر کر پینا یونہیں بن پڑتا ہے۔ ساقی ہوتا تو ایک ایک گھونٹ کر کے پلاتا۔

 دل و جگر میں پرافشاں جو ایک موجۂ خوں ہے

  ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے

            کہتے ہیں : جسے ہم سانس سمجھے ہوئے تھے وہ ایک موجِ خوں کی پر افشانی ہے۔ یعنی غم نے دل و جگر کو لہو کر دیا ہے۔ طبیب کہیں گے کہ جگر میں سانس کہاں جاتی ہے ، دل و ریہ کہا ہوتا اور ریہ کو فارسی میں شش اور اردو میں پھیپڑا کہتے ہیں۔ لیکن یہ تینوں لفظ کسی شاعر نے نہیں باندھے کہ غیر فصیح ہیں۔ یہ عجب سؤ اتفاق ہے کہ اردو کا لفظ جب غیر فصیح معلوم ہوتا ہے تو اس وقت میں شاعر فارسی یا عربی سے لفظ لیتا ہے۔ یہاں عربی و فارسی میں بھی لفظ شش و ریہ لینے کے قابل نہیں۔ دیکھو ، اس مصرع میں ، ع :  دل و ریہ میں پر افشاں جو ایک موجۂ خوں ہے ،  ’ ریہ ‘  کا لفظ کیسا رکیک اور غریب معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ مصرع ۔۔۔دل اور شش میں پر افشاں جو ایک موجۂ خوں ہے۔۔۔ کیسا واہیات ہے۔ اسی طرح دیکھو ، ع:   یہ پھیپڑے میں پر افشاں جو ایک موجۂ خوں ہے۔۔۔ شاعر کی زبان نہیں معلوم ہوتی ہے۔ یہی اشکال واقع ہونے کے سبب سے مصنف نے پھیپڑے کا نام بھی جگر رکھ لیا کہ محض اندرونِ شے کو بھی جگر کہتے ہیں۔

رات پی زمزم پہ مے ، اور صبحدم

 دھوئے دھبّے جامۂ احرام کے

            یعنی رات کو پی۔ ’ کو ‘  ترک کرنا اب محاورے میں نہیں ہے لیکن مصنف کے اوایلِ عہد تک دلّی و لکھنؤ میں دونوں جگہ بغیر ’ کو ‘ بولتے تھے۔ ناسخؔ کہتے ہیں ، ع.

                                    . رات اہلِ بزم کی کثرت کا احساں ہو گیا۔

 

 اس لب سے مل ہی جاے گا بوسہ کبھی تو،  ہاں

 شوقِ فضول و جرأتِ رندانہ چاہیے

            قدما کی اردو اس طرح کی تھی کہ کہتے تھے  ’ تجھ گلی میں ‘  اور مطلب یہ ہوتا تھا کہ تیری گلی میں۔ اور ’ مجھ خاک پر ‘  یعنی میری خاک پر ، اور ’ اُس زلف سے ‘  یعنی اس کی زلف سے۔اور اب جو ’اس زلف سے ‘  یا ’ اُس لب ‘ سے کہتے ہیں تو اس کا اشارہ زلف یا لب کی طرف مقصود ہوتا ہے۔ لیکن ایسا اشارہ بھی خلافِ عادت ہونے کے سبب سے اچھا نہیں معلوم ہوتا۔  مثلاً خواجہ آتشؔ کہتے ہیں : ع   کب تک وہ زلف دیتی ہے آزار دیکھیے۔۔۔یہاں ’ اس کی زلف ‘ کہنا تھا ، ضرورتِ شعر کے سبب سے  ’ وہ زلف ‘  کہہ دیا  اور یہی حال اب تمام شاعروں کا ہے کہ اسے جائزسمجھ لیا ہے اورنظم کرتے ہیں لیکن تکلف سے خالی نہیں۔

 صحبت  رنداں سے واجب ہے حذر

 جائے مے اپنے کو کھینچا  چاہیے

            یعنی مے کو نہ کھینچ ، اپنے کو صحبتِ مے سے کھینچ۔ اور مے کے کھینچنے سے پینا مراد ہے ، یعنی مے کشیدن کا ترجمہ کر لیا ہے۔ اور شاید مصنف کی رائے میں فارسی کا ترجمۂ لفظی ہندی میں کر لینا درست ہے گو خلافِ محاورہ ہو۔ تجربے سے ثابت ہے کہ جوشاعر دوسری زبان میں بھی شعر کہے اس کی اپنی زبان بگڑ جاتی ہے۔ ایک انگریز شاعرجس کا نام ڈرایڈنؔ تھا حسرت کرتا تھا کہ میں نے کیوں لاطینی پڑھی اور اس میں شعر کہا کہ میری اپنی زبان بگڑگئی۔

 غافل ، ان مہ طلعتوں کے واسطے

 چاہنے والا بھی اچھا چاہیے

            ’ چاہیے ‘ کا لفظ اہلِ لکھنؤ کے محاورے میں جمع و مفرد دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ لیکن دلّی میں محاورہ اب یہ ہو گیا ہے کہ ’ اتنی چیزیں چاہییں ‘۔

 غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ اگر

کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے

            اردو کے شاعروں نے رقیب کا نام غیر رکھ لیا ہے اور اس قدر ان معنی پر یہ لفظ مشہور ہوا ہے کہ حکمِ علم ا س پر ہو گیا ہے اس اعتبار سے مصنف کا یہ مصرع : غیر پھرتا ہے لیے یوں۔۔۔ الخ صحیح ہے۔ ورنہ محاورے میں ’  غیر ‘  اسمِ صفت ہے اور رقیب کے لیے بھی کچھ خاص نہیں ہے اور بول چال میں ہمیشہ صفت ہو کر بولا جاتا ہے ، جس طرح ’ اپنا ‘  اسمِ صفت ہے کہ بے موصوف کے نہیں بولتے۔

 

 خطِّ عار ض سے لکھا ہے زلف کو الفت نے عہد

یک قلم منظور ہے ، جو کچھ پریشانی کرے

            ’ یک قلم ‘ کے لفظ میں دوہری رعایت رکھی ہے۔ ایک تو رخسار پر قلمیں ہوتی ہیں ، دوسرے خط بھی قلم سے لکھتے ہیں۔ یہ شعر بھی تصنعِ بے مزہ سے خالی نہیں۔

اسدؔ خوشی سے مرے ہات پانو پھول گئے

 کہا جو ا س نے ذرا میرے پانو داب تو دے

            ’ تو ‘ اس شعر میں زاید ہے۔ زاید سے یہ غرض نہیں کہ بھرتی کا ہے۔ بلکہ اس مقام پر زاید بولنا محاورے میں داخل ہے۔

 کہا ہے کس نے کہ غالبؔ برا نہیں ، لیکن

  سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے ، کیا کہیے

            یعنی جو دیوانہ ہو اس کا کہنا ہی کیا۔ ’ سوا ‘ عربی لفظ ہے۔ اور الف مقصورہ ہے۔ اضافت کی حالت میں فارسی والے اس میں ’ی‘  بڑھاتے ہیں اور اردو میں لفظ سوا اور مع عامیانہ محاورے میں اکثر باضافت بولتے ہیں اور پھر مضاف الیہ میں ’ کے ‘ بھی لگاتے ہیں۔ کہتے ہیں : سوائے خدا کے کون ہے اور مع عیال کے روانہ ہوا۔ لیکن جو لوگ لکھے پڑھے ہیں وہ یوں کہتے ہیں کہ سوا خدا کے کون ہے ، اور مع عیال روانہ ہوا۔

            مصنف مرحوم نے یہاں عام محاورے کے موافق لفظ ’ سوا ‘ کو اضافت دی ہے اور پھر ہندی لفظ کی طرف اضافت دی ہے۔!  اور مضاف الیہ میں ’ کے ‘  بھی لگایا ہے۔ یہ پا لغزِ قلم ہے۔ اسی طرح ایک خط میں لکھتے ہیں : بیڑی کو زاویۂ زندان میں چھوڑ مع دونوں ہتکڑیوں کے بھاگا اور اپنے نام کا خط مع ان اشعار کے یوسف علی کے حوالے کیا ‘۔

  جو مدّعی بنے ، اس کے نہ مدّعی بنیے

 جو نا سزا کہے اس کو نہ نا سزا کہیے

            اس شعر میں ’ بنیے ‘  کا نام آ جانا مذاقِ اہلِ لکھنؤ میں گراں گذرتا ہوگا ، اور البتہ برا معلوم ہوتا ہے۔

 رسوائے دہر گو ہوئے آوارگی سے تم

 بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے

            طبیعتوں کا چالاک ہونا محاورہ ہے۔ اس مقام پر جمع اور مفرد  دونوں طرح بولتے ہیں لیکن مصنف پہلے شخص ہیں جنہوں نے جمع کے ساتھ نظم کیا ۔ اور تازگیِ لفظ اسی کو کہتے ہیں۔

 غم آغوشِ بلا میں پرورش دیتا ہے عاشق کو

 چراغِ روشن اپنا قلزمِ صر صر کا مرجاں ہے

            پرورش و تربیت کے ایک ہی معنی ہیں لیکن پرورش کرنا اور تربیت  دینا  محاورہ  واقع ہوا ہے ۔ ’ پرورش دینا ‘  خلافِ محاورہ ہے۔

 دل مدّعی و دیدہ بنا مدعا علیہ

نظّارے کا مقدّمہ پھر روبکار ہے

            دل نے آنکھ پر یہ نالش کی ہے کہ نہ یہ نظارہ کرتی نہ میرا خون ہوتا۔ دیدہ آنکھ کو کہتے ہیں لیکن ہر جگہ آنکھ کے بدلے دیدہ کہنا برا ہے اس سبب سے کہ اردو کے محاورے میں ڈھیٹھ اور بے شرم آنکھ کو دیدہ کہتے ہیں ۔ اور دیدہ کا لفظ عورتوں کی زبان کے ساتھ خاص ہو گیا ہے ، جیسے ’ دیدے پھوٹیں ‘ ، اور ’ دیدوں کے آگے آئے ‘ اور ’ غضب کا دیدہ ہے ‘۔ لیکن فارسی میں دیدہ مطلق آنکھ کے معنی پر دیکھ کر اکثر لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں ، جیسے ناسخؔ کہتے ہیں    ؂

 

ہر گز مجھے نظر نہیں آتا وجودِ غیر

 عالم تمام ایک بدن ہے میں دیدہ ہوں

اس شعر میں آنکھ کی جگہ دیدہ کہہ کر ڈھیلا کھینچ مارا ہے۔ اس کی خرابی اندھے کو بھی سوجھتی ہوگی۔ مگر مضمون شعر کا بہت عالی ہے۔

 

 شبنم بہ گلِ لالہ نہ خالی ز ادا ہے

 د اغِ دلِ بیدرد نظر گاہِ حیا ہے

            پہلے مصرع میں ’ ہے ‘ کے ساتھ ’ نہ ‘ خلافِ محاورہ ہے۔ ’ نہ ہے ‘ کے بدلے ’ نہیں ‘ کہنا چاہیے۔

 شعلے سے نہ ہوتی ہوسِ شعلہ نے جو کی

 جی کس قدر افسردگیِ دل پہ جلا ہے

            جی جلنا اردو کے محاورے میں ناگوار ہونے کے معنی پر ہے۔ یہاں یہ معنی مقصود نہیں ہیں بلکہ جی جلنے سے کُڑھنا مقصود ہے۔ اور یہ مصنف نے اپنی عادت کے موافق ’ دل سوختن ‘  کا ترجمہ کر لیا ہے۔ فارسی میں کہیں گے :  بر بے کسیش دلم می سوزد ‘۔ لیکن اردو میں یہ کہنا کہ اس کی بیکسی پر دل جلتا ہے اچھا نہیں ہے۔ افسردگیِ دل سے اس کا شعلۂ عشق سے خالی ہونا مراد ہے۔

اے پرتوِ خورشیدِ جہاں تاب ، ادھر بھی

سائے کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے

            یعنی ادھر بھی کرم کر۔ وقت پڑنے کا محاورہ جس محل پر مصنف نے صَرف کیا ہے اس کی خوبی بیان نہیں ہو سکتی۔

 بیگانگیِ خلق سے بیدل نہ ہو غالبؔ

 کوئی نہیں تیرا تو مری جان، خدا ہے

            یعنی خدا تیرا ہے۔ اور فقط ’ خدا ہے ‘ بھی محاورہ ہے۔ ’ ہے ‘ کو خواہ تامّہ لو خواہ  ناقصہ۔

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب

 آؤ نہ، ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی

اس شعر میں ’ نہ ‘ عجب محاورے کا لفظ مصنف نے باندھ دیا ہے۔ بولتے سب ہیں مگر کسی نے نظم نہ کیا تھا۔ لیکن اس ’ نہ ‘ کے کیا معنی ہیں اس کا جواب مشکل ہے۔ قیاسِ نحوی تو یہ کہتا ہے کہ آؤ نہ اور دیکھو نہ وغیرہ کیوں نہ آؤ اور کیوں نہ دیکھو کا مخفف ہے کہ بے اس کے حرفِ نفی کے کچھ معنی نہیں بن پڑتے۔

 غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوشِ اشک سے

 بیٹھے ہیں ہم تہیّۂ طوفاں کیے ہوئے

            مصنف نے یہاں طوفان کے معنی طوفان برپا کرنے کے لیے ہیں۔ اس کی سند ملنا مشکل ہے۔

نویدِ امن ہے بیدادِ دوست جاں کے لیے

رہی نہ طرزِ ستم کوئی آسماں کے لیے

            لفظِ طرز پہلے مؤنث تھا ، اور دلّی میں اب بھی مؤنث ہے۔ مگر لکھنؤ میں عام محاورہ اس کی تذکیر کا ہے۔ ہاں ، چند غزل گو جو زبان میں قیاس کیا کرتے ہیں وہ اب بھی مؤنث باندھتے ہیں لیکن خلافِ محاورہ معلوم ہوتا ہے کانوں کو۔ میرا شعر ہے     ؂

 طرز دکھلادے اس کی قامت کے

 پانوں پڑتا ہوں میں قیامت کے

 

 کفر سوز اس کا وہ جلوہ ہے کہ جس سے ٹوٹے

رنگِ عاشق کی طرح رونقِ بتخانۂ چیں

            رنگ کا ٹوٹنا اور رونق کا ٹوٹنا اردو محاورہ نہیں ہے۔ مصنف مرحوم نے اپنی عادت کے موافق فارسی کا ترجمہ کر لیا ہے۔ ٹوٹے کی جگہ اُڑ جائے پڑھنا چاہیے۔ ’وہ ‘  اس شعر میں ایسا کے معنی پر ہے ، اور بندش میں گنجلک  ہو گئی ہے۔

 تیرے در کے کیے ، اسبابِ نثار ، آماد

 خاکیوں کو جو خدا نے دیے جان و دل و دیں

            اس شعر میں اسباب کا آمادہ کرنا محاورۂ اردو کے خلاف ہے۔ اسباب کا مہیا کرنا محاورہ ہے اور آمادہ کرنا اردو میں ترغیب  دینے کے محل پر بولتے ہیں۔ فارسی کا ترجمہ کر لینے میں مصنف مرحوم کی جرأت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ ان کے کلام سے اردو کے محاورات کوئی نہیں سیکھ سکتا۔

  طبع کو الفتِ دُلدُل میں یہ سر گرمیِ شوق

 کہ جہاں تک چلے اس سے قدم اور مجھ سے جبیں

            دوسرے مصرع کا مضمون فارسی سے ماخوذ ہے لیکن اردو کے محاورے میں بھی کیا پورا اترا ہے کہ تعریف نہیں ہو سکتی یہاں فارسیت کلام کا زیور ہو گئی۔

 سوزِ دل کا کیا کرے بارانِ اشک

آگ بھڑکی ، مینہ اگر دم بھر کھلا

            جس مقام میں ’ کا ‘ کہا ہے یہاں ’ کو ‘ زیادہ محاورے میں ڈوبا ہوا ہے۔ اور فیصلہ اہلِ زبان کے ہاتھ ہے۔

خامے نے پائی طبیعت سے مدد

 بادباں بھی اٹھتے ہی لنگر ، کھلا

            یعنی  خامہ اٹھاتے ہی طبیعت اس کی مدد کرنے لگی جیسے لنگر اٹھتے ہی بادبان بھی کھلا۔’ کھلنے ‘ کا لفظ طبیعت کے ساتھ بھی بولا جاتا ہے۔ بس اتنی مناسبت طبیعت کو بادبان فرض کرنے میں کافی ہے۔ لیکن مصرعِ ثانی کی بندش اچھی نہیں۔ ’ بادباں بھی ‘  اِس سرے پر ہے اور ’ کھلا ‘ اُس سرے پر۔

شاد دل شاد ، و شادماں رکھیو

 اور غالبؔ پہ مہرباں رکھیو

            شاد  و   دل شاد  و  شادماں تینوں لفظ ایک ہی معنی کے ہیں مگر  اس محل میں تکرارِ معنی کیا ، تکرارِ لفظی بھی ہوتی تو بے جا نہ تھی۔ گویا مطلب یہ ہے شاد رکھیو ، شاد رکھیو ، شاد رکھیو۔۔۔ اور باوجود تکرارِ لفظ کے بھی بُرا نہیں معلوم ہوتا۔ اور جب کہ لفظ میں ذرا ذرا تصرّف کر دیا تو اور بھی لطف ہو گیا۔ رکھنا کے مقام پر رکھیو ابھی تک محاورے میں جاری ہے بلکہ فصحا کی زبان ہے۔

گئے وہ دن کہ نا دانستہ غیروں کی وفا داری

  بس اب بگڑے پہ کیا شرمندگی ، جانے دو ،  مل جاؤ

 کیا کرتے تھے تم تقریر ، ہم خاموش رہتے تھے

 قسم لو ہم اگر یہ بھی کہیں : کیوں ہم  نہ کہتے تھے

            یہ قطعہ ایسا بے تکلّف نظم ہوا ہے کہ نثر بھی ایسی نہیں ہو سکتی۔ مگر ایک تو تعقیدِ معنوی ہو گئی ہے کہ اوپر والے شعر میں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہم خاموش رہتے تھے۔ اور دوسرے شعر میں کہتے ہیں : کیوں ہم نہ کہتے تھے۔ دوسرے یہ کہ تم غیروں کی وفاداری تقریر کیا کرتے تھے ، خلافِ محاورہ ہے۔ جس جگہ لفظِ تقریر کو صَرف کیا ہے محاورے میں یہاں لفظ ’ بیان ‘ ہے یا ’ اظہار ‘۔

 صبر آزما  وہ ان کی نگاہیں ، کہ حف نظر

 طاقت ربا وہ ان کا اشارا ، کہ ہاے ہاے

            ’ ہف نظر ‘  چشمِ بد دور کے معنی پر اردو کا محاورہ ہے لیکن یہ لفظ ہندی معلوم ہوتا ہے ، فارسی میں کہیں نہیں ہے اور عربی میں بھی ’ حف ‘  ان معنی پر نہیں ہے۔ غرض کہ ’ ح ‘ سے اس کو نہ لکھنا چاہیے۔

            ( استدراک:۔’ حف نظر ‘ کے معنی چشمِ بددور ہیں۔ اس محاورے کاپہلا لفظ ’ حف ‘ بھی عربی ہے۔ کسی کو بری نظر لگ جائے تو کہا جاتا ہے: ’ حفّ الرجلُ ‘۔ اس صورت میں ’ حف نظر ‘ سے مراد  ہوگی ’ نظرِ بد لگنے کے قابل‘  جس نے  رفتہ رفتہ  ’   نظرِ بد نہ لگے ‘ کا  مفہوم ا ختیار کر لیا ‘۔ ’ نسخۂ عرشی ‘ ، ص ۱۳۳ )

 خوش ہو اے بخت ، کہ ہے آج ترے سر سہرا

 باندھ شہزادہ جواں بخت کے سر پر سہرا

            مصنف نے پہلے مصرع میں جو محاورہ باندھا ہے یہی ’ سر سہرا ‘ ذوقؔ نے بھی اپنے مطلع میں باندھا ہے    ؂

 اے جواں بخت ، مبارک تجھے سر پر سہرا

 آج ہے یُمن و سعادت کا ترے سر سہرا

مصنف سے یہ محاورہ پورا نہ بندھا اور ذوقؔ سے پورا اترا۔ محاورہ یہ ہے کہ ترے سر شاعری کا سہرا ہے ؛ تیرے سر فضیلت کا سہرا ہے ؛ تیرے سر سعادت کا سہرا ہے ۔ خالی ’ سہرا ‘ کوئی نہیں کہتا  جس طرح مصنف نے  ’ بخت کے سر سہرا ‘ کہا ہے جس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ سچ مچ کا سہرا مراد ہے۔ اور ذوقؔ نے پہلے مصرع میں اصلی سہرا مراد لیا ہے اور دوسرے مصرع میں سعادت کا سہرا شہزادے کے سر باندھا ہے۔ غرض کہ ’ سر سہرا ہونا ‘ جو محاورہ ہے وہ خالی نہیں کہا جاتا بلکہ’ آج ‘ کا لفظ بھی محاورے میں داخل ہے۔ اور محاورے میں تصرف کرنا کسی طرح نہیں درست۔اس میں اچھے اچھے لوگ دھوکا کھاتے ہیں۔ مثلاً خون ہو جانے سے قتل کا واقع ہونا ، نام ہو جانے سے مشہور ہو جانا ، دل آجانے سے عاشق ہو جانا جو مراد لیتے ہیں تو یہ معنی محض اصطلاح و محاورۂ  اردو کے باعث سے سمجھے جاتے ہیں۔ یوں کہنا کہ خونِ تمنا ہو گیا یا نامِ قاتل ہو گیا یا دلِ بیتاب آگیا ، یعنی ترکیبِفارسی کا استعمال کر کے محاورے میں تصرف کرنا درست نہ ہوگا ، اس لیے کہ فارسی میں خون شدن سے قتل اور دل آمدن سے عشق اور نام شدن سے شہرت نہیں سمجھ میں آتی کہ یہ ان کا محاورہ نہیں۔ اسی طرح مثلاً اردو کا محاورہ ہے ’ تمھارا طوطی بولتا ہے ‘ ، ’ سب تمھارا دم بھرتے ہیں ‘۔ برقؔ نے اس کو یوں نظم کیا ہے ،ع۔ کیا بولتا ہے طوطیِ شیریں مقالِ یار۔۔ اور مومنؔ نے یوں باندھا ہے ، ع۔ کون کہتا ہے دمِ عشق عدو بھرتے ہیں۔اسی طرح ’ قبا شدنِ لباس ‘ فارسی کا محاورہ ہے۔ کپڑوں کا دھجّیاں ہو جانا مراد ہے۔ عشق نے اس کو اس طرح باندھا ہے ، ع۔                   بالکل قبا لباسِ عروسِ چمن ہوا

             محاورے میں یہ سب تصرّفات نا درست ہیں اس سبب سے کہ مطلب خبط ہو جاتا ہے۔  ( مزید ’عروض ‘ کے تحت دیکھیے اختلاطِ حروف، مثلاً کنگنا اور رنگنا وغیرہ  پر مفید بحث ، ذوقؔ کے مندرجۂ ذیل شعر کے سلسلے میں    ؂

سر پہ طرہ ہے مزیّن تو گلے میں بدّھی

کنگنا ہاتھ میں زیبا ہے تو منہ پر سہرا

 اپنے پہ کر رہا ہوں قیاس اہلِ دہر کا

سمجھا ہوں دل پذیر متاعِ ہنر کو میں

            اپنے اوپر محاورہ ہے ، اور اپنے پر تو لکھنؤ میں نہیں بولتے۔  عموماً اہلِ قلم تئیں اوراوپر کا لفظ لکھنے میں احتیاط کرتے ہیں۔

  گرچہ از روئے ننگِ بے ہنری

ہوں خود اپنی نظر میں  اتنا خوار

کہ گر اپنے کو میں کہوں خاکی

جانتا ہوں کہ آئے خاک کو عار

            پہلے لوگ ’ کو ‘ کے مقام پر ’  تئیں  ‘ زیادہ خرچ کیا کرتے تھے : زید کے تئیں مارا ؛ میرے تئیں پکارا ،  پھر تئیں سے کراہیت پیدا ہو گئی اس سبب سے کہ زید کو مارا ، مجھ کو پکارا بھی وہی بات ہے اور محاورہ بھی ہے مگر اپنے تئیں اور اپنے اوپر آج تک زبان ز د و عین محاورہ رہا  ، اس سبب سے کہ اپنے کو اور اپنے پر صحیح اردو کا محاورہ نہیں ہے۔ اہلِ زبان نے اسے قبول نہ کیا  اور اپنے کے ساتھ تئیں بولے جاتے ہیں۔ مگر شعرا اس قیاس پر عمل کر کے کہ ’  تئیں  ‘  ا و ر  ’ کو ‘ ایک ہی معنی پر ہیں ’  اپنے کو  ‘باندھ جاتے ہیں مصنف نے بھی یہی قیاس کیا ہے۔ ورنہ عام محاورہ اپنے تئیں ہے۔ اور محاورے میں قیاس کو دخل دینا بے جا ہے۔ کہتے ہیں اپنے تئیں آپ خراب کیا۔ اور یہی صحیح ہے۔ اپنے کو آپ خراب کیا ، یا آپ کو آپ خراب کیا۔۔۔ یہ سب صورتیں خلافِ محاورہ ہیں۔

 میری تنخواہ کیجے ماہ بماہ

 تا نہ ہو مجھ کو زندگی دشوار

            جو لوگ فارسی پڑھے ہوئے نہیں ہیں وہ کبھی اردو میں ’ تا ‘ نہ بولیں گے بلکہ یوں کہیں گے:   کہ نہ ہو مجھ کو زندگی دشوار۔

تازگیِ لفظ

غالبؔ کہتے ہیں :

 یا یہ ہوگا کہ فرطِ رافت سے 

   باغبانوں نے  باغِ جنت سے

 انگبیں کے ، بحکمِ ربّ النّاس

 بھر کے بھیجے ہیں سر بمہر گلاس

            ’ ربّ النّاس ‘ بھرتی کا لفظ ہے۔ قافیے کی ضرورت رفع کرنے کے لیے یہ تکلف کیا ہے۔ عربی و فارسی کے الفاظ جو محاورۂ اردو میں جاری نہیں ہیں اور غریب معلوم ہوتے ہیں اکثر فصحا کے کلام میں موجود ہیں لیکن وہاں تازگیِ لفظ ان کو منظور ہوتی ہے اور اس کے لیے خاص مقامات ہیں۔ کسی کو یہ دھوکا نہ کھانا چاہیے کہ ہمیں بھی اسی طرح کا غریب لفظ باندھنا درست ہے۔ یہاں ایک نکتۂ باریک ہے کہ بیان نہیں ہو سکتا۔ تاہم اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ فصحا جہاں پر کسی ایسے لفظ کو استعمال کرتے ہیں وہ لفظ معلوم ہوتا ہے کہ نگینہ جڑ دیا ہے۔ بات یہ ہے کہ بعض مقامات کا مقتضا یہ ہوتا ہے کہ ادیب چاہتا ہے آسمان سے تارے توڑ لائے اور لفظ کے بدلے یہاں لگادے مثلاً کبھی فرطِ محبت کے مقام پر جدّتِ الفاظ کی ضرورت پڑتی ہے۔ جیسے آتشؔ کہتے ہیں    ؂  

ان انکھڑیوں میں ا گر نشۂ شراب آیا

 سلام جھک کے کروں گا جو پھر حجاب آیا

اظہارِ شان و شوکت کے مقام پر میر انیسؔ کہتے ہیں ، ع۔۔  حلّے انھیں استبرق و سندس کے ملیں گے۔۔۔ مبالغے کے مقام پر غالبؔ نے جدتِ لفظ کیا خوب کی ہے ، ع  شوقِ عناں گسیختہ ، دریا کہیں جسے۔۔۔

            جو شخص تازگیِ الفاظ کے مقامات کو پہچانتا ہے اور الفاظِ تازہ ڈھونڈھ لیتا ہے؛ خبر کو انشا کی صورت میں ادا کر سکتا ہے؛حقیقت کی جگہ مجاز ، اور تصریح کے مقام پر کنایہ کے استعمال پر قدرت رکھتا ہے ؛ اور تشبیہِ متحرک بہ متحرک معنی صیرورت کے ساتھ لا سکتا ہے؛اور محاورے میں ڈوب کر لکھتا ہے ، اور مطلب دل نشین کر دیتا ہے بس اسی کا قلم سحر طراز ہے۔ ابنِ رشیقؔ کہتے ہیں :  جس کی طبیعت معنی آفریں نہ ہو ، جس کے الفاظ میں تازگی نہ ہو یا اور لوگ جس بات میں اداے معانی سے قاصر رہ جاتے ہیں ادیب اس میں معنی زیادہ نہ کر سکے ، یا یہ کہ جس بات میں غیر ضروری الفاظ وہ بول جاتے ہیں شاعر و ادیب اس میں لفظ نہ کم کر سکے یا ایک بات کو پھیر کر دوسری طرف نہ لے جا سکے ، اسے ادیب و شاعر نہیں کہہ سکتے۔

            لیکن لفظ کی تازگی و ابتذال کو پہچاننا فطری امر ہے ، جیسے ہرن  اور چیتل کا خوش نگاہ ہونا اور گرگ و شغال کا بد نظر ہونا بحکمِ فطرت ہے۔ جو شخص اس ودیعتِ فطری سے محروم ہے وہ یہ بات نہیں سمجھ سکتا کہ ( غالبؔ کے) اس  قطعے ( در صفتِ انبہ )  میں ’ انگبیں ‘  کا  لفظ تازہ ہے اور  ’ربّ النّاس ‘ غریب ہے۔ ’ سربہ مہر ‘  خوبصورت ہے اور لفظِ  ’ رافت ‘  کریہہ۔

             ابنِ ا ؔثیر لکھتے ہیں  :کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جولفظ کے حسن و قبح کے منکر ہیں اور قائل ہیں کہ واضع نے جو لفظ بنایا ہے اچھا ہی ہے ، ان کی یہ مثال ہے جیسے کوئی نازنینِ سہی قد و نازک اندام میں اور ایک حبشن میں کچھ فرق نہ کرے۔

            معنی و لفظ کے متعلق جو مباحث فنِّ بلاغت میں مذکور ہیں اس کا ذکر یہاں لطف سے خالی نہیں۔ بڑے بڑے فصحاے ماہرین و ائمۂ فنِ بلاغت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ معانی ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں ، فقط لفظ و بندش و طرزِ ادا کاتب و  ادیب کا کمال ہے۔ ماہیتِ انسانی سب میں ایک ہی ہے ، انفعالات سب طبیعتوں میں ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں۔ پھر مضامین کہاں سے الگ الگ آئیں گے۔ اور لفظ کا غلبہ معانی  پر ظاہر ہے۔ مثلاً یوں کہیں گے کہ تو آفتاب ہے ، اور یوں نہیں کہہ سکتے کہ تو سورج ہے۔ اس سبب سے علما نے معانی کے مباحث کی طرف بہت کم توجّہ کی۔ فقط اقسام بیان کر کے رہ گئے۔ یعنی : مدح و تشبیب ، ہجا و رثا ، اعتذار و استعطاف ، زجر و عتاب ، فخر و وصف ، شکر و شکایت۔ بس آگے آئی آیت۔ اور الفاظ کے مباحث اور اداے معانی کے طریقے بیان کرنے میں پانچ فن منضبط کیے ہیں : صَرف ، نحو ، معانی ، بدیع، بلکہ فنِ لغت و مصطلحات بھی اس میں شامل ہے۔

            ابنِ رشیق کہتے ہیں :  اکثر لوگوں کی راے یہی ہے کہ خوبیِ لفظ میں معانی سے زیادہ اہتمام چاہیے۔ لفظ قدر و قیمت میں معنی سے بڑھ کر ہے اس سبب سے کہ معنی خلقی طور سے سب کے ذہن میں موجود ہیں۔ اس میں جاہل و ماہر دونوں برابر ہیں لیکن لفظ کی تازگی اور زبان کا اسلوب اور بندش کی خوبی ادیب کا کمال ہے۔ دیکھو ، مدح کے مقام میں جو کوئی تشبیہ کا قصد کرے گا وہ ضرور کرم میں ابر ، جرأت میں ہزبر ، حسن میں آفتاب کے ساتھ ممدوح کو تشبیہ دے گا۔ لیکن اس معنی کو اگر لفظ و بندش کے اچھے پیرائے میں نہ ادا کر سکا تو یہ معنی کوئی چیز نہیں۔  غرض کہ یہ مسلّم ہے کہ معانی میں سب کا حصہ برابر ہے اور سب کے ذہن میں معانی بحسبِ فطرت موجود ہیں۔ایک ، دوسرے سے معنی کو ادا کرتا رہتا ہے۔ کسی کاتب یا شاعر کو معنی آفریں یا خلّاقِ مضامین جو کہتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ جو معانی کسی قلم سے نہ نکلتے تھے وہ اس نے بیان کیے ۔

            اور یہ شبہ کرنا کہ ہر مضمون کے چند محدود پہلو ہوتے ہیں جب وہ تمام ہو چکتے ہیں تو اس مضمون میں تنوّع کی گنجائش نہیں رہتی۔ اب بھی اگر اس کی چتھاڑ کیے جائیں گے تو بجاے تنوّع ، تکرار و اعادہ ہو نے لگے گا ،  صحیح نہیں۔ تفنن و تنوّع کی کوئی حد نہیں۔

ِ         مثلاً دو لفظوں کا ایک مضمون ہم یہاں لیتے ہیں :  وہ حسین ہے۔اس میں ادنیٰ درجے کا تنوع یہ ہے کہ لفظ حسین کے بدلے اس کے مرادف جو الفاظ مل سکیں انھیں استعمال کریں ، مثلاً: وہ خوبصورت ہے ، وہ خوش جمال ہے ، وہ خوش گلو ہے ، وہ سندر ہے ، اس کے اعضا میں تناسب ہے ، حسن اس میں کوٹ کوٹ کے بھرا ہے وغیرہ وغیرہ۔

            اس کے بعد بدلالتِ قرینۂ مقام ذرا معنی میں تعمیم کر دیتے ہیں ، مثلاً وہ آشوبِ شہر ہے ، کوئی اس کا مدِّ مقابل نہیں ، اس کا جواب نہیں ، اس کا نظیر نہیں ، وہ لاثانی ہے ، وہ بے مثل ہے ، وغیرہ۔پھر اس مضمون میں ذرا تخصیص کر دیتے ہیں لیکن ویسی ہی تخصیص جو محاورے میں قریب قریب مرادف کے ہوتی ہے، کہتے ہیں :  وہ خوش چشم ہے ، وہ خوب رو ہے ، وہ موزوں قد ہے ، وہ خوش ادا ہے ، وہ نازک اندام ہے ، وہ شیریں کار ہے ، وغیرہ وغیرہ۔پھر اس مضمون کو تشبیہ میں ادا کرتے ہیں اور کہتے ہیں : وہ چاند کا ٹکڑا ہے ، اس کا رخسارہ گلاب کی پنکھڑی ہے ، اس کا رنگ کندن سا چمکتا ہے۔۔۔ وغیرہ

            پھر اسی مضمون کو استعارہ میں ادا کرتے ہیں۔ مثلاً آفتاب سے اس طرح استعارہ کرتے ہیں :  اس کے دیکھے سے آنکھوں میں چکا چوند آ جاتی ہے۔ ( اسی طرح چاندسے ، چراغ سے ، شمع سے ، برقِ طور سے آئینے سے استعارہ کرتے ہیں۔)

            پھر اسی مضمون کو کنایہ میں بیان کرتے ہیں۔  رنگ کی صفائی سے کنایہ کرتے ہیں کہ وہ ہاتھ لگائے میلا ہوتا ہے۔ تناسبِ اعضا سے کنایہ کرتے ہیں کہ وہ حسن کے سانچے میں ڈھلا ہے، خدا نے اسے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے۔ رنگ کی چمک سے کنایہ کہ اس کے چہرے کی چھوٹ پڑتی ہے۔ چہرے کی روشنی سے کنایہ کہ اس کے عکس سے آئینہ دریاے نور ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

            اس کے بعد تازگیِ کلام کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ خبر کو انشا کر دیں : اللہ رے تیرا حسن، تو اتنا خوبصورت کیوں ہوا ، سچ بتا تو انسان ہے یا پری ، کہیں حور تو نہیں۔ حور نے یہ شوخی کہاں پائی ، تو خدائی کا دعویٰ کیوں نہیں کرتا وغیرہ وغیرہ۔

            پھر دیکھیے مرادفات میں کس قدر تنوع ہے اور کس قدر تازگیِ لفظ و محاورہ کو اس میں دخل ہے۔تعمیم کے کتنے مراتب ہیں۔ تخصیص کے کس قدر درجے ہیں۔تشبیہ کی کتنی صورتیں ہیں۔ استعارے کے کتنے انداز ہیں۔ کنایہ کی کتنی قسمیں ہیں۔ انشا کے کس قدر اقسام ہیں۔ پھر ان سب کے اختلافِ ترتیب و اجتماع کو کسی مہندس سے پوچھیے تو معلوم ہو کہ ایک حسن کے مضمون میں تقریباً لا تعد و لا تحصےٰ پہلو نکلتے ہیں۔

            یہ چند مثالیں فقط لفظ، ’ حسین ‘ کے بعض تنوعات کی تھیں جو گذریں۔ اسی پر قیاس کر لینا چاہیے کہ اگر مضمون طولانی ہو تو کس قدر اس میں تنوع کی گنجائش ہوتی ہے۔۔۔۔   ایک ہی معنی کے لیے طرزِ بیان بھی ہر شخص کا الگ الگ ہے۔  پھر زمینِ شعر اسی لیے طرح کی جاتی ہے کہ اداے معانی کے لیے تازہ پہلو ہاتھ آئیں  ( مثلاً یہ شعر )    ؂

 رسوائے دہر گو ہوئے آوارگی سے تم

 بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے

طبیعتوں کا چالاک ہونا محاورہ ہے۔ اس مقام پر جمع اور مفرد  دونوں طرح  بولتے ہیں لیکن مصنف پہلے شخص ہیں جنہوں نے جمع کے ساتھ نظم کیا ۔ اور تازگیِ لفظ اسی کو کہتے ہیں۔( اور ایک شعر ہے)     ؂   

 

 خامہ میرا کہ وہ ہے باربدِ بزمِ سخن

 شاہ کی مدح میں یوں نغمہ سرا ہوتا ہے

            ( اس ) شعر میں لفظ ’ باربد ‘ ایسا دلکش ہے جیسے تارِ رباب پر نغمہ۔ یہاں سامنے کے الفاظ مطرب و نوا سنج وغیرہ تھے۔ انھیں مصنف نے چھوڑ دیا اور باربد کو استعمال کیا۔ دیکھو ، مجاز میں حقیقت سے زیادہ حسن ہے اور لفظ کے تازہ کرنے کا پہلو جو مصنف نے یہاں نکالا ہے یاد رکھنے کا ہے۔ یعنی یوں کہنا کہ تو ظالم ہے اس سے یہ بہتر ہے کہ توچنگیز ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے : ع ۔۔۔۔

                        لفظے کہ تازہ است بہ مضموں برابر است

            ہاں ، مضمون کی تکرار اس نہج سے کہ دوسرے میں وہی طرزِ بیان اور وہی پہلو ہو جو اوّل میں تھا بے شک سمع خراش ہے۔ جیسے میر ممنونؔ مرحوم کا دیوان ہے کہ چند لطیف مضمون اور چند اغراق کے پہلو ہیں کہ کوئی غزل اور قصیدہ اس سے خالی نہیں۔ برخلاف ان کے غنیؔ کشمیری نے اس قدر آسیا کے مضامین اپنے دیوان میں بھرے ہیں کہ لکھنؤ میں اس کا نام بیکا ر  ’ پسنہاری والا ‘  مشہور ہو گیا لیکن ہر مضمون الگ الگ ہے کہ اسے تکرارِ مضمون نہیں کہہ سکتے۔ غالبؔ کے یہ دونوں شعر    ؂

 مُند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالبؔ

 یار لا ئے مرے بالیں پہ اسے پر کس وقت

 مُند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ، ہے ہے

 خوب وقت آئے تم اس عاشقِ بیمار کے پاس

تکرارِ بے مزہ سے خالی نہیں۔ ہاں ، معشوق کے رشک و بد گمانی کا مضمون غالبؔ نے ایک عجیب و غریب پہلو سے ادا کیا ہے    ؂

 بد گماں ہوتا ہے وہ کافر ، نہ ہوتا کاشکے

 اس قدر ذوقِ نوائے مرغِ بستانی مجھے

 پھر اسی بد گمانی کے مضمون کو اسی پہلو کے ساتھ تشبیہ کا رنگ دے کر کہتے ہیں   ؂

 کیا بد گماں ہے مجھ سے کہ آئینے میں مرے

 طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر

اب اگر ان دونوں شعروں میں مرغِ بستانی و طوطی پر رشک کرنے کومضمون سمجھ لو اور یہ کہو کہ اس میں تکرارِ معنی ہو گئی ہے تو یہ نزاع لفظی ٹھہرے گی۔اصل امر یہہے کہ مرغِ بستانی و طوطی پر معشوق کا رشک کرنا معنیِ رشک کے ادا کرنے کا ایک پہلو ہے اور تکرارِ پہلو کے سبب سے بے مزگی پیدا ہوئی ہے۔۔۔ اور پہلو بھی وہ پہلو جو مقتضاے عادت کے خلاف ہے۔ اس میں تکرار نہ بھی ہوتی تو بھی بے مزہ تھا۔ غرض کہ ان دونوں شعروں میں بھی تکرارِ معنی کے سبب سے بے مزگی پیدا نہیں ہوئی ہے۔جس پہلو سے معنی کو ادا کیا ہے وہ پہلو بے لطف ہے اور تکرار سے اس کی اور بھی زیادہ بے لطفی اور بے مزگی پیدا ہوئی۔

            اس مثال سے یہ نکتہ سمجھ لینا چاہیے کہ اداے معانی کا پہلو یا پیرایہ یا طرز وہ چیز ہے کہ اس کی تکرار نا گوار ہوتی ہے کہ وہ اصل میں تکرارِ لفظ ہے ، نہ تکرارِ معنی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نئی تراکیب و متروکات

ارشادات مولانا الطاف حسین حالیؔ:۔

             ’مرزا ( غالبؔ ) کے ابتدائی ریختے میں۔۔۔ جیسے خیالات اجنبی تھے ویسی ہی زبان غیر مانوس تھی۔ فارسی زبان کے مصادر ، فارسی کے حروفِ ربط اور توابعِ فعل جو کہ فارسی کی خصوصیات میں سے ہیں اُن کو مرزا اردو میں عموماً استعمال کرتے تھے۔اکثر اشعار ایسے ہوتے تھے کہ اگر ان میں ایک لفظ بدل دیا جائے تو سارا شعر فارسی زبان کا ہو جائے۔ بعض اسلوبِ بیان خاص مرزا کے مخترعات میں سے تھے جو نہ ان سے پہلے اردو میں دیکھے گئے نہ فارسی میں۔ مثلاً ان کے موجودہ اردو دیوان میں ایک شعر ہے     ؂

 قمری کفِ خاکستر و بلبل قفسِ رنگ

 اے نالہ نشانِ جگرِ سوختہ کیا ہے

میں نے خود اس کے معنی مرزا سے پوچھے تھے ؛ فرمایا کہ ’ اے ‘ کی جگہ ’ جز ‘ پڑھو؛ معنی خود سمجھ میں آجائیں گے۔۔۔۔۔ہاں جس معنی میں مرزا نے  ’ اے ‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ظاہرا انھیں کا اختراع ہے۔۔۔۔  مرزا چونکہ معمولی اسلوبوں سے تا بمقدور بچتے تھے اور شارعِ عام پر چلنا نہیں چاہتے تھے اس لیے وہ بہ نسبت اس کے کہ شعر عام فہم ہو جائے اس بات کو زیادہ پسند کرتے تھے کہ طرزِ خیال اور طرزِ بیان میں جدّت اور نرالا پن پایا جائے۔۔۔۔  اس میں شک نہیں کہ اس سے ان کی اَریجنلٹی اور غیر معمولی  اُپچ کا خاطر خواہ سراغ ملتا ہے اور یہی ان کی ٹیڑھی ترچھی چالیں ان کی بلند فطرتی اور غیر معمولی قابلیت و استعداد پر شہادت دیتی ہیں۔

            ’ بہر حال مرزا ایک مدت کے بعد اپنی بے راہ روی سے خبردار ہوئے۔۔۔۔  گو ان کا ابتدائی کلام جس کو وہ حد سے زیادہ جگرکاوی اور دماغ سوزی سے سر انجام کرتے تھے مقبول نہ ہوا؛ مگر چونکہ قوتِ متخیّلہ سے بہت زیادہ کام لیا گیا تھا اور اس لیے اس میں ایک غیر معمولی بلند پروازی پیدا ہو گئی تھی ، جب قوتِ ممیّزہ  نے اُس کی باگ اپنے قبضے میں لی تو اس نے وہ جوہر نکالے کہ کسی کے وہم و گمان میں نہ تھے۔‘  انتہی

             ’ یادگارِ غالبؔ ‘  (  مطبوعہ مطبع ریاضِ ہند ، علی گڑھ ،  ص ص۱۰۲ تا ۱۰۷ )

 

ارشادات مولانا وحید الدینسلیمؔ:۔

            ’ غالبؔ زبان کے عام محاورات کی پروا نہیں کرتے۔ وہ خیال کو مقدّم سمجھتے ہیں اور اس کے لیے زبان خود تیار کرتے ہیں۔ عام بول چال کا لباس اپنے خیال کو پہنانا نہیں چاہتے۔ ان کے قدیم انداز میں فارسیت غالب ہے اور خیال بند شاعروں کی ترکیبیں بار بار آتی ہیں۔ اضافتوں کی بھر مار ہے۔ مگر جب وہ اس طرز کو ترک کرتے ہیں اور صاف بیانی پر آمادہ ہوتے ہیں تو پھر بھی ذوقؔ کی طرح محاورے اور بول چال کو اپنی شاعری کا مقصد نہیں بناتے۔ ان کا ہر خیال خود بخود ایک مناسب اور موزوں سانچے میں ڈھل جاتا ہے اور جو زبان اس طرح پیدا ہوتی ہے وہ عام لوگوں کی بول چال سے جدا گانہ نظر آتی ہے۔‘

            ( افاداتِ سلیم ‘ (بہ تصحیح و ترتیب: ڈاکٹر خلیق  انجم، ؔ مکتبۂ جامعہ ایڈیشن ، ۱۹۷۲؁  ، ص ۱۸۸ )

شرحِ غالبؔ از طباطبائی

زخم نے داد نہ دی تنگیِ دل کی یارب

 تیر بھی سینۂ بسمل سے پر افشاں نکلا

   تیر کے پر ہوتے ہیں اور اڑتا ہے۔ اس سبب سے پر افشانی جو کہ صفتِ مرغ ہے ،  تیر کے لیے بہت مناسب ہے۔ مصنف مرحوم لکھتے ہیں : یہ ایک بات میں نے اپنی طبیعت سے نئی نکالی ہے جیسا کہ اس شعر میں ،

 نہیں ذریعۂ را حت جراحتِ پیکاں

وہ زخمِ تیغ ہے جس کو کہ دل کشا کہیے

یعنی زخمِ تیر کی توہین بہ سبب ایک رخنہ ہونے کے اور تلوار کے زخم کی تحسین  بہ سبب ایک طاق سا کھل جانے کے۔

 نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا

 حبابِ موجۂ رفتارہے نقشِ قدم میرا

            ذوق سے صحرا نوردی مراد ہے اور رفتار کو موج اور نقشِ قدم کو حباب کے ساتھ تشبیہ دینے سے مطلب یہ ہے کہ جس طرح موج کا ذوقِ روانی کبھی کم نہیں ہوتا اسی طرح میرا بھی ذوق کم نہیں ہوگا۔ ’یک بیاباں ماندگی‘ خواہ ’صد بیاباں ماندگی‘ کہو مراد ایک ہی ہے یعنی ماندگیِ مفرط۔ یک بیاباں ماندگی کہہ کر ماندگی کی مقدار بیان کی ہے گویا بیابا ں کو پیمانہ اس کا فرض کیا ہے

 منھ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں

 زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منھ پر کھلا

            اس شعر میں ’ کھلنا ‘ زیب دینے کے معنی پر ہے۔ دیکھو معنی ردیف میں جدّت کرنے سے شعر میں کیا حسن ہو جاتا ہے۔

 

 اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہر آرزو

 توڑا جو تو نے آئینہ تمثال دار تھا

            ’ یک شہر آرزو  ‘ میں ویسی ہی ترکیب ہے جیسی ’ یک بیاباں ماندگی ‘  و  ’ یک قدم وحشت ‘ میں ہے۔

 گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی

 درو دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا

            ’  ٹپک رہا ہے ‘ یعنی ظاہر ہو رہا ہے او رٹپکنے کی لفظ گھر کے لیے اور گریہ کے ساتھ بھی بہت ہی مناسبت رکھتی ہے  ع    لفظے کہ تازہ است بمضموں برابر است

 

یک قدم وحشت سے درسِ دفترِ امکاں کھلا

 جادہ اجزاے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا

            ’  یک قدم وحشت  ‘سے وحشت کا مرتبۂ ادنیٰ مقصود ہے اور  ’ اجزاے دو عالم دشت ‘  بمنزلۂ اجزائے عالم عالم دشت یا اجزائے دو صد دشت ہے جس سے مراد کثرتِ ویرانی ہے۔ ’  دوعالم دشت  ‘ کی ترکیب میں مصنف نے دشت کی مقدار کا پیمانہ عالم کو بنایا ہے جس طرح ماندگی کی مقدار کا پیمانہ بیاباں کو اور تأمل کی مقدارکا  پیمانہ زانو کو اور آرزو کا پیمانہ شہر کو قرار دیا ہے۔

 

 جا ں در ہواے یک نگہِ گرم ہے ، اسدؔ

 پروانہ ہے وکیل ترے داد خواہ کا

            معشوق سے خطاب ہے کہ تیرا داد خواہ یعنی اسدؔ جان در ہواے یک نگہِ گرم ہے اور اسد  ؔ

 ’  جان در ہوا  ‘ ہے۔ یہ ویسی ہی ترکیب ہے جیسے کہیں فلاں سر بکف ہے یا پا در رکاب ہے۔

کیا آبروئے عشق جہاں عام ہو جفا

 رکتا ہوں تم کو بے سبب آزار دیکھ کر

            ’ بے سبب آزار ‘ترکیب فارسی ہے۔ حکیم مومن خان صاحب نے اس قسم کی ترکیبیں بنانے میں بہت افراط کی ہے۔ایک جگہ فرماتے ہیں ؛ رحمے بحالِ بندہ خدایا نگاہ تھا۔البتّہ تازگیِ لفظ اور ترکیب کلام میں بڑا حسن پیدا کرتی ہے لیکن یہ یہاں سمجھنا چاہیے کہ دوسری زبان پر جب تک اچھی طرح قدرت حاصل نہ ہو اس میں تصرّف و ارتجال کا ہر ایک کو حق نہیں ہے۔ یہاں جفا کے عام ہونے سے یہ مراد ہے کہ رقیب جس میں سببِ جفا یعنی عشق نہیں پایا جاتا اس پر بھی تم جفائے معشوقانہ میری طرح کرتے ہو۔

 فنا تعلیمِ درسِ بے خودی ہوں اس زمانے سے

کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوارِ دبستاں پر

            فنا اور تعلیم دونوں لغت تازی ہیں اور ترکیب دونوں لفظوں میں فارسی ہے یعنی فنا تعلیم اسمِ صفت بن گیا ہے جس کو فنا کی تعلیم ہوئی ہو وہ مراد ہے اور یہ درس جس نے دیا ہے وہ بے خودی ہے اور مصنف نے ( الف بے ) کو چھوڑ کر لام الف اس سبب سے کہا کہ یہ دونوں حروف مل کر لا ہو جاتے ہیں اور ’ لا‘ نیستی و فنا کے مناسب ہے۔

بیمِ رقیب سے نہیں کرتے وداعِ ہوش

 مجبور، یاں تلک ہوئے ، اے اختیار ، حیف

            لفظ ’ تلک ‘ کو آج کل کے شعرا نے اتّفاق کر کے ترک کر دیا ہے اور اس کو غیر فصیح سمجھتے ہیں۔ تلک کی جگہ ’ تک ‘ کہتے ہیں۔ لیکن ہر زبان میں معیارِ فصاحت محاورہ ہے اور محاورے میں تلک اور تک دونوں موجود ہیں ، پھر اس کے ترک کرنے کی کوئی وجہِ وجیہ نہیں۔ بلکہ ایک وجہ سے تلک بہ نسبت تک کے افصح ہے وہ یہ کہ جن اہلِ تحقیق نے حروف کے مخارج و صفات پر نظر کی ہے انھوں نے چھ حرف ایسے پائے ہیں کہ جس کلمہ میں ان میں کا کوئی   حرف ہو اس کلمہ کو سلیس و فصیح سمجھتے ہیں۔ ان حرفوں کا مجموعہ ’مزبنفل ‘ مشہور ہے۔ غرض یہ کہ تلک میں ’ مزبنفل ‘  کا لام ہے اور تک میں اس کا کوئی حرف نہیں۔

کیجیبیاں سرورِ تبِ غم کہاں تلک

 ہر مو مرے بدن پہ زبانِ سپاس ہے

            تک اور تلک کے باب میں شعراے حال نے تلک کو متروک اور تک کو اختیار کیا ہے۔ لیکن قدما کے کلام کو دیکھنے سے یہ پتا لگتا ہے کہ لفظ تک اور تلک دونوں مستحدث ہیں۔ اگلے زمانے میں کہاں تلک کی جگہ کہاں تیۓں اور کہاں لگ بولتے تھے۔ اس سے تلک بنا یعنی تیۓں میں سے  ’ ت ‘ کو لے لیا اور لگ میں گاف کو کاف کر دیا۔ اس کے بعد تلک میں بھی تخفیف کر کے’ تک‘ کہنے لگے۔ لیکن تلک کا لفظ بھی ابھی تلک محاورے سے خارج نہیں ہے۔ اس کا ترک بلا وجہ ہے۔

 مجھ کو ارزانی رہے ، تجھ کو مبارک ہوجیو

 نالۂ بلبل کا درد اور خندۂ گل کا نمک

اس شعر میں ہوجیو بہت مکروہ لفظ ہے اور متروک ہے۔

 بیخودی بسترِ تمہید فراغت ہو جو

  پُر ہے سائے کی طرح میرا شبستاں مجھ سے

            ’  ہوجیو  ‘ خود ہی واہیات لفظ ہے۔ مصنف مرحوم نے اس پر اور طرّہ یہ کیا کہ تخفیف کر کے ’  ہوجو  ‘ بنایا۔

 لاکھوں لگاؤ ایک چُرانا نگا ہ کا

 لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں

            جملوں کی ترکیب میں تماثل اور لفظوں کی نشست میں حسنِ تقابل ہونا اس کی مثال میں یہ آیت مشہور ہے ۔۔۔ :  انّ الابرار لفی نعیم و انّ الفجّار لفی جحیم۔ لیکن اردو میں یہ شعر بھی یہاں شاید زیبا ہے۔

 بیٹھا ہے جو کہ سایہ ٔ دیوارِ  یار میں

 فرماں روا کشورِ  ہندوستان ہے

            ہندوستان کی تخصیص یہ ہے کہ سایہ میں تیرگی ہوتی ہے اور ہندوستان بھی کالا ملک ہے۔اس شعر میں مصنف نے ہندوستان کو باعلانِ نون نظم کیا ہے۔ میر انیسؔ مرحوم کے اس مصرع پر  ع مسکن چھٹا  ُہماے سعادت نشان سے۔۔۔لکھنؤ میں اعترض ہوا تھا کہ حرفِ مدّ کے بعد جو نون کہ آخرِ کلمہ میں پڑے فارسی والوں کے کلام میں کہیں باعلان نہیں پایا گیا ہے۔ تو جب اردو میں ترکیبِ فارسی کو استعمال کیا اور کشورِ ہندوستان کہہ کر مرکّبِ اضافی بنایا ، ہماے سعادت نشان باندھ کر مرکّبِ توصیفی بنایا تو پھر نحوِ فارسی کی تبعیّت نہ کرنے کا کیا سبب ؟  اگر لفظ ہندوستان یا نشان باندھ کر مرکّبِ توصیفی بنایا تو شاعر کو،ا علان کرنے نہ کرنے کا اختیار تھا لیکن ترکیبِ فارسی میں نحوِ فارسی کا اتّباع ضرور ہے۔ اور اس طرح کا اعلان لکھنؤ کے غزل گویوں میں ناسخؔ کے وقت سے متروک ہے۔

رندانِ درِ میکدہ گستاخ ہیں ، زاہد

 زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں سے

            کسی سے ’ طرف ہونا ‘ اب متروک ہے۔ میرؔ کے زمانے کا محاورہ ہے۔

دل ہی تو ہے ، سیاستِ درباں سے ڈر گیا

 میں ، اور جاؤں در سے ترے بِن صدا کیے؟

            ’  بن  ‘ کا لفظ بھی نظم و نثر سے اب لوگوں نے ترک کر دیا ہے اور اس کا ایسا اثر پڑا کہ اب گفتگو سے بھی ترک ہوتا جاتا ہے۔ لیکن ابھی تک سننے میں ثقیل نہیں معلوم ہوتا اور اس کا ترک بھی بے وجہ ہے۔بِن اور  ’بِنا‘  ہندی لفظ ہے اور ’بے ‘  لفظ فارسی ہے۔ ہندی لفظ چھوٹ کر فارسی لفظ اس کی جگہ داخل ہو گیا۔

ساقی گری کی شرم کرو آج ، ورنہ ہم

 ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مے جس قدر ملے

            یعنی آج تم ساقی بنے ہو ، آج تو چھکا کر پلا دو۔ اور ’ساقی گری‘ کا لفظ ویسا ہی ہے جیسے منشی گری اور مولوی گری اور آدمی گری۔ یہاں یہ بحث ہے کہ لفظِ ’ گر ‘ افادہ  بہ معنی فاعلیت کے لیے ہوتا ہے ، جیسے ستمگر ، داد گر اور جادو گر ، شعبدہ گر اور زر گر ، شیشہ گر۔ اور لفظِ ’ ساقی ‘ میں خود معنیِ فاعلیت موجود ہیں۔ اس کی ترکیب ’ گر ‘ کے ساتھ کیونکر صحیح ہوگی۔ اس کا جواب میلیؔ کے شعر سے ہو سکتا ہے      ؂

گفتی ز رہِ لطف کہ میلیؔ سگِ ماست

 شرمندۂ آدمی گری ہائے توام

اور ملّا طغراؔ کہتے ہیں    ؂   

 کند حقِصوفی گری را ادا

بہ یک چشم بیند بہ شاہ و گدا

 ہو رہا ہے جہان میں اندھیر

 زلف کی پھر سرشتہ داری ہے

 پھر دیا  پارۂ جگر نے سوال

 ایک فریاد و آہ  و زاری ہے

  پھر ہوئی ہیں گواہِ عشق طلب

 اشک باری کا حکم جاری ہے

دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا

 آج پھر اس کی روبکاری ہے

            اس قطعے میں عدالت و فوجداری و سرشتہ داری اور سوال دینا اور مقدمہ اور روبکاری یہ سب اصطلاحیں ابھی تک فصحا کی زبان پر مکروہ ہے۔ کراہیت کی وجہ یہ ہے کہ اہلِ زبان کی بنائی ہوئی اصطلاحیں یہ نہیں گو بہ مجبوری یہ لفظ سبھی کو بولنا پڑتی ہیں لیکن ابھی تک ان کا قوام نہیں درست ہوا اور زبانِ اردو نے انھیں قبول نہیں کیا۔اور اگر زبان میں ان کو داخل بھی سمجھو تو ان معنیِ خاص پر یہ سب لفظ ہندی ہیں۔ ترکیب ِفارسی میں ان کا لانا صحیح نہ ہوگا مثلاً عدالت دار القضا کے معنی پر، اور فوجداری احتساب کے معنی پر اگر ہیں تو ہندی لفظ ہیں۔ پھر درِ عدالتِ ناز اور بازارِ فوجداری کہنا بہ ترکیبِ فارسی کیونکر درست ہوگا  آتشؔ کے اس شعر پر اعتراض چلا آتا ہے    ؂ 

 کسی کی محرمِ آبِ رواں وہ  یاد آئی

 حباب کے جو برابر کوئی حباب آیا

            یعنی گو لفظِ محرم ہندی نہیں ہے لیکن انگیا کے معنی پر ہندی ہے۔ پھر اسے اضافتِ فارسی کیوں دی۔ حالانکہ محرم کے لیے فارسی وعربی میں کوئی   لفظ نہیں ہے۔ شاماکچہ و درع و مجول اور وضع کے لباس ہیں کہ اس کی وضع میں اور محرم میں ضرور فرق ہے۔ اور محرم فصحا کا بنایا ہوا لفظ ہے برخلاف عدالت اور فوجداری کے کہ ان معنی کے لیے دار القضا و احتساب موجود ہے۔ اور فصحا کے بنائے ہوئے یہ الفاظ نہیں ہیں بلکہ یہ الفاظ ایسے خرف لوگوں کے بنائے ہوئے ہیں جو کہ جایداِ دمقروقہ ،  اسامیِ مفرور ، مثلِ مقدمہ ، جائدادِ متدعویہ وغیرہ بے تکلف لکھتے پڑھتے ہیں۔

            دوسرے شعر میں مصنف نے زلف کو سر اور رشتہ کی مناسبت سے سر رشتہ داری دی ہے لیکن عامیانہ لہجے کے بموجب رشتہ کاری حذف کر دیا ہے۔ جس طرح فردوسیؔ نے سپید دیو میں سے دیو کی دال کو حذف کر کے ’ سپیدیو ‘ باندھا ہے۔مگر اس سے حکمِ کلّی کسی نے نہیں نکالا ہے۔ سوال، نالش کے معنی اور مقدمہ خصوصیت کے معنی میں ہندی لفظ ہیں۔ ان کو بھی ترکیبِفارسی میں کوئی  باندھے تو غلط ہوگا۔ یہ مصرع :  ایک فریاد و آہ  و زاری ہے ۔۔اس میں ایک نہ عدد کے لیے ہے نہ تنکیر کے لیے ہے بلکہ یہاں ایک سے معنیِ کثرت کا افادہ ہوتا ہے۔ یہ بڑے محاورے کا لفظ مصنف نے باندھا ہے۔ اور گواہِ عشق سے آنسو مقصود ہے۔

 اس شمع کی طرح سے ، جس کو کوئی بجھا دے

 میں بھی جلے ہوؤں میں ہوں داغِ نا تمامی

            میں ’ داغِ نا تمامی ‘  ہوں یعنی مجھے اپنے نا تمام رہ جانے کا داغ ہے۔ جو لوگ کہ زبانِ اردو کے تنگ کرنے پر کمر باندھے ہوئے ہیں اور فنِّ معانی سے بہرہ نہیں رکھتے ان کی رائے میں ’ سے ‘ کا لفظ اس شعر میں  براے بیت ہے اور ’ طرح ‘ کے بعد ’ سے ‘ کا لفظ بولنا اور لکھنا اور نظم کرنا انھوں نے چھوڑ دیا ہے۔ لیکن یہ محاورے میں تصرّف ہے یا قیاس ہے۔ اور دونوں نا جایز ہیں۔ میرؔ     ؂   

 داغ ہوں رشکِ محبت سے کہ اتنا بے تاب

کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تو باہر نکلا

یعنی مجھے رشکِ محبت کا داغ ہے۔

کیوں ڈرتے ہو عشّاق کی بے حوصلگی سے

 یاں تو کوئی سنتا نہیں فریا د کسو کی

            یعنی بے حوصلگی و بے صبری سے اگر وہ تمھار ی فریاد بھی کر بیٹھیں تو کون سنتا ہے۔

            ’ کسو ‘  اور  ’ کبھو ‘  یہ دونوں لفظ ناسخؔ کے زمانے سے لکھنؤ میں نہیں نظم ہوئے ، مگر دلّی میں اب ترک ہوئے۔  ظفر ؔ    ؂  

 گلہ ظفرؔ نہ کرو ان سے آشنائی کا

کہ آشنا ہوئے وہ کبھو کسو کے نہیں

 شکایتیں ہمیں غمّاز اور عدو سے نہیں

 گلہ ہے دوست سے اپنے فقط ، کسو سے نہیں

 ذوق    ؔ؂

 فلک کا رنگ جو اب تک سیاہ ہے اس پر

  پڑا تھا سایۂ بختِ سیہ کبھو میرا

 مزے جو موت کے عاشق بیاں کبھو کرتے

 مسیح  و خضر بھی مرنے کی آرزو کرتے

مومنؔؔ     ؂

 نہ دل میں نہ ان کی زباں پر کبھو

 رضائے الٰہی سوا آرزو

جو دیوان کہ خود مصنف مرحوم کی تصحیح سے چھپا ہے اس کے خاتمے میں لکھتے ہیں : ’ ایک لفظ میری منطق کے خلاف نہ ایک جگہ بلکہ سو جگہ چھاپا گیا۔ کہاں تک بدلتا ، ناچار جا بجا یوں چھوڑ دیا۔ یعنی ’ کسو ‘ بکافِ مکسور و سینِ مضموم و واوِ معروف۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ لفظ صحیح نہیں ، البتہ فصیح نہیں۔ قافیے کی رعایت سے اگر لکھا جائے توعیب نہیں ورنہ فصیح بلکہ افصح ’ کسی ‘ ہے ، واو کی جگہ یاے تحتانی۔ میرے دیوان میں ایک جگہ قافیہ کسو بہ واو ہے اور سب جگہ بہ یاے تحتانی ہے۔ اس کا اظہار ضروری تھا ، کوئی  یہ نہ کہے کہ یہ آشفتہ بیانی ہے۔ اللہ بس ما سویٰ ہوس ‘  انتہیٰ۔جس جگہ کا مصنف نے اعتراف کیا ہے وہ یہی شعر ہے :کیوں ڈرتے ہو۔۔۔ الخ۔ مگر اب یہ طے ہے کہ قافیے کی ضرورت سے بھی ان لفظوں کو باندھنا صحیح نہیں۔

 انھیں سوال پہ زعمِ جنوں ہے ، کیوں لڑیے

 ہمیں جواب سے قطعِ نظر ہے ، کیا کہیے

            زعمِ جنوں سے یہ مراد ہے کہ میرے سوال پر وہ یہ کہتے ہیں کہ تجھے جنون ہوا ہے اور قطعِ نظر سے یہ مراد ہے کہ ان کی اس بات کا میں کیا جواب دوں۔ یہ مضمون خوبیِ شعر کا سبب نہں ہے بلکہ دونوں مصرعوں کی بندش میں ترکیب کے متشابہ ہونے نے شعر میں حسن پیدا کیا۔

 شورشِ باطن کے ہیں احباب منکر ورنہ یاں

 دل محیطِ گریہ و لب آشنائے خندہ ہے

            یعنی گو ظاہر ہمارا رندانہ ہے لیکن باطن خضوع و خشوع سے بھرا ہوا ہے۔ ’ آشنا ‘ کا لفظ ’ محیط ‘ کے مناسبات میں سے ہے۔ آشنا پیراک کو کہتے ہیں ، اور محیط کو فارسی والے دریا کے معنی پر باندھا کرتے ہیں۔ اصلی معنی اس لفظ کے گھیرنے والے کے ہیں اور سمندر کو بحرِ محیط وجہ سے کہتے ہیں کہ برِّ اعظم کو گھیرے ہوئے ہے۔ مگر تمام فارسی والوں نے دھوکا کھایا۔ وہ یہ سمجھے کہ محیط نام ہے یعنی جیسے بحرِ قلزم نام ہے ، اور اضافت بیانیہ ہے۔اسی طرح وہ سمجھے کہ بحرِ محیط میں بھی اضافت عام کی خاص کی طرف محض بیان کے لیے ہے اور یہ خیال غلط ہے۔ بلکہ یہاں اضافتِ توصیفی ہے۔جو کہ قید واقع ہوئی ہے بحر کی۔ یہاں لفظِ بحر کو ترک کر کے فقط محیط پر اکتفا کر لینا درست نہ تھا مگر اس میں مصنف کی تخصیص نہیں ہے۔ جو فارسی والے حقیقتِ الفاظِ عربی سے نا آشنا ہیں وہ بے تکلف لفظ محیط کو دریاے شور کے معنی پر باندھتے ہیں اور ان کا باندھنا مصنف کے لیے سند ہے۔

 شرع و آئین  پر مدار سہی

 ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی

            جو بے تلوار قتل کرتا ہے۔ واو عطف پہلے مصرع میں فارسی کا ہے اس سبب سے لفظ آئین ترکیبِ فارسی میں ہے۔ اورپھر اعلان نون ہے۔ مصنف مرحوم کا اس بات میں یہی مذہب معلوم ہوتا ہے کہ اردو کلام میں ایسے مقام پر وہ اعلانِ نون کو درست جانتے ہیں اور فارسی کلام بھر میں ان کے  ،کہیں اس طرح اعلانِ نون نہیں دیکھا۔ یعنی فارسی کلام میں اہلِ زبان کا اتّباع کرتے ہیں اور اردو میں نہیں کرتے۔

 ہوئی یہ کثرتِ غم سے تلف کیفیّتِ شادی

 کہ صبحِ عید مجھ کو بد تر از چاکِ گریباں ہے

’  یہ ‘  کا لفظ ’ اس قدر ‘ کے معنی پر تمام شعرا باندھا کرتے ہیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ قابلِ ترک ہے۔

 

قصائد

 

 کفِ ہر خاکِ بگردوں شدہ  ،قمری پرواز

 دامِ ہر کاغذِ آتش زدہ، طاؤس شکار

            لفظِ ’ خاک ‘ کو بکسرۂ توصیفی پڑھنا چاہیے اس لیے کہ ’ بگردوں شدن ‘ اس کی صفت ہے نہ خبر۔۔۔۔  حاصل یہ کہ فیضِ بہار نے ہر شے میں جان ڈال دی ہے کہ ہر کفِ خاک قمری بن گئی اور ہر شعلہ طاؤس بن گیا۔

 وہ  شہنشاہ کہ جس کی پئے تعمیرِ سرا

 چشمِ جبریل ہوئی قالبِ خشتِ دیوار

            اس شعر کی بندش میں نہایت خامی ہے کہ مطلب ہی گیا گذرا ہوا۔ غرض یہ تھی کہ : ڈھیلے جبریل کی آنکھوں کے ہیں خشتِ دیوار۔۔۔موصول کو اگر ’ پئے ‘ کا مضاف الیہ لو تو ’  جس کے ‘ پڑھو۔ اور اگ  ’ سرا ‘ کی اضافت لو تو ’  جس کی  ‘ پڑھنا چاہیے۔ اس قسم کی ترکیبیں خاص اہلِ مکتب کی زبان ہے۔ شعرا کو اس سے احتراز واجب ہے۔

ذرّہ اس گرد کا خورشید کو آئینۂ ناز

 گرد اس دشت کی امّید کو احرامِ بہار

            دونوں مصرعوں کی ترکیب کا متشابہ ہونا اور مصرعوں کے درمیان خورشید و امید کا سجع آنا باعثِ حسنِ شعر ہوا۔ پھر لفظِ ’ گرد ‘ کی تکرار اور بھی آئینے کو جِلا دے گئی۔

 جوہرِ دستِ دعا آئینہ ، یعنی تاثیر

  یک طرف نازشِ مژگاں و دگر سو غمِ خار

            ’ جوہرِ دستِ دعا آئینہ ‘ کی ترکیب اردو تو کیا فارسی میں بھی غریب ہے۔دستِ دعائے ممدوح کو آئینہ فرض کیا ہے اور آئینۂ دستِ دعا کو بہ قلبِ اضافت دستِ دعا آئینہ کہا ہے۔۔۔ بندش کی خامی اور مضمون کی نا تمامی سے یہ شعر خالی نہیں۔

جاں پناہا  !  دل و جاں فیض رسانا ! شاہا  !

 وصیِ ختمِ رُسُل تو ہے بہ فتوائے یقیں

            ’  دل و جاں فیض رسانا ‘ یعنی دل و جاں کو فیض پہنچانے والے۔ اردو تو اردو ایسی ترکیبیں فارسی میں بھی لانا خلافِ فصاحت ہے۔

 دلِ الفت نسب و سینہ توحید فضا

 نگہِ جلوہ پرست و نفسِ صدق گزیں

            دل کی صفت الفت نسب اور سینے کا وصف توحید فضا دونوں ترکیبیں ایسی مہمل ہیں کہ خدا ہی ہے جو اس کے معنی کچھ بن سکیں۔ دوسرا مصرع بہت خوب کہا ہے۔

جس کا ہر فعل صورتِ اعجاز

 جس کا ہر قول معنیِ الہام

            فعل اور قول کا اور صورت و معنی کا مقابلہ ، اعجاز و الہام کا تناسب ، پھر دونوں مصرعوں کی ترکیب کا تشابہ، خوبیِ شعر کا باعث ہے۔

چشمِ بد دور خسروانہ شکوہ

 لوحش اللہ ، عارفانہ کلام

            لوحش اللہ ماشاء اللہ کے محل پر فارسی والے بولتے ہیں۔ مگر عربی میں یہ جملہ کہیں دیکھنے میں نہیں آیا  نہ لوحش اللہ کوئی لفظ عربی ہے۔ اور میں اس کا استعمال فارسی و اردو میں غلط سمجھتا ہوں۔

آسماں کو کہا گیا کہ کہیں

گنبدِ تیز گرد و نیلی فام

حکمِ ناطق لکھا گیا کہ لکھیں

 خال کو دانہ اور زلف کو دام

            ’ کہا گیا کہ کہیں ‘  اور  ’ لکھا گیا کہ لکھیں ‘  ان دونوں فقروں کی ترکیب تازگی سے خالی نہیں۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فصاحت و بلاغت

ارشاداتِ کشن پرشاد شادؔ:

            ضلع ‘  عربی میں پہلو کو کہتے ہیں۔ اردو زبان میں تلازمہ  و  رعایتِ لفظی کے معنی میں مستعمل ہے۔ ’ بولنا ‘ اس کا صلہ آتا ہے ، جیسے ’ ضلع بولتے ہیں ‘  یا  ’ ضلع باز  ہیں ‘  یعنی رعایتِ لفظی کے ساتھ بولنے میں مشّاق ہیں۔۔۔از ’ ضلع جُگَت ‘ مؤلفۂ  مہاراجہ کشن پرشاد شادؔ  )

 ارشاداتِ طباطبائی:

             رعایت اسے کہتے ہیں کہ ایک لفظ ایسا استعمال کریں جسے کسی اور لفظ کے ساتھ کچھ تعلق اور مناسبت محض لفظی ہوجیسے اس شعر میں    ؂

 یک قلم کاغذِ آتش زدہ ہے صفحۂ دست

 نقشِ  پا  میں ہے  تپِ گرمیِ رفتار ہنوز

 لفظ’  یک قلم ‘  معنی کے اعتبار سے’ سر تا سر‘  کے معنی پر ہے لیکن  لفظ کے اعتبار سے قلم کو صفحہ سے ایک تعلق ہے۔ یا جیسے اس فقرے  میں کہ زبان تلوار کا کام کرتی ہے۔ یہاں کام کے معنی فعل کے ہیں اور لفظ کے اعتبار سے کام و زبان تناسب رکھتے ہیں۔ یا جیسے سید امانتؔ کا یہ شعر     ؂

 عاشق کو زہر ، غیر کو مصری کی ہو ڈلی

 اس طرح  کی نبات  زباں سے نکالیے

 ’ نہ  بات نکالیے ‘  اس مطلب کے لیے ہے کہ بات نہ نکالیے اور نبات اور مصری کو باعتبار لفظ با ہمدگر تعلق و تناسب ہے۔ یا جیسے میر انیسؔکے کلام میں ہے ؛ موت ہنستی ہے ، کہ مراد تو موت کا ہنسنا ہے اور موت و ہستی  با ہمدگر تعلق و تضاد رکھتے ہیں۔ غرض کہ اس میں شک نہیں کہ اسے رعایت کہیں یا ضلع کہیں ، بعض بعض مقام میں اچھا معلوم ہوتا ہے مگر اس میں اس قدر افراط کو دخل دے دیا ہے کہ اس ضلع کے خیال سے حسنِ معنی و سلاستِ الفاظ تک کا خیال نہیں رکھتے۔ جیسے امانتؔ نے ایک مرثیے میں کہا ہے ، مصرع :  شامی کباب ہو کے پسندِ اجل  ہوئے

            اس سبب سے فصحا کو اب اپنے کلام میں ضلع  بولنے سے کراہت آ گئی ہے  اور بے شبہ قابلِ ترک ہے کہ یہ بازاریوں کی نکالی ہوئ صنعت ہے۔ اہلِ ادب نے کہیں اس کا ذکر ہی نہیں کیا ہے۔ شہر کے لونڈے جب ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں تو ضلع بولتے ہیں۔ ایک کہتا ہے تمہاری چکنی چکنی باتوں نے چھالیا۔ یعنی چکنی ڈلی اور چھالیا۔ دوسرا جواب دیتا ہے :  میں تیر ا یار کد تھا، یعنی کتّھا۔ وہ کہتا ہے : آنکھ پر پنجہ رکھ کر کیوں بات کرتے ہو۔ یہ پنجہ کی رعایت سے جواب دیتا ہے کہ مت ٹوک رے۔ یعنی جھاڑو، پنجہ اور ٹوکرا۔ انہیں لوگوں نے مشاعروں میں اور مجلسوں میں شعرا کو ایسی ایسی رعایتوں پر داد دے دے کر اپنے رنگ پر کھینچ لیا ہے۔

 

شرحِ کلامِ غالب از طباطبائی

 

 شور پند ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا

    آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا      

مزہ اور شور . نمک کے مناسبات میں سے ہیں۔

دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ  لذتِ درد

 کام یاروں کا بقدرِ لب و دنداں نکلا

کام کا لفظ لب و دنداں کے ضلع کا ہے۔

 جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جو

 یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا

’ آب جو ‘ کے بعد ’ کو ‘ کا لفظ حذف کر دینا کچھ اچھا نہیں معلوم ہوتا۔

 

  اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سروپا ہیں

 کہ ہے سر پنجۂ مژگانِ آہو پشت خار اپنا

اسداور آہو کا تقابل تو ظاہر ہے۔ گدا کی لفظ پشت خارکی مناسبت کے لیے ہے۔ بے سروپا کہنے سے یہ مقصود ہے کہ پشت خار تک میرے پاس نہیں ہے ، اگر ہے تو مژگانِ آہو ہے۔

 نہ دے نامے کو اتنا طول غالبؔ مختصر لکھ  دے

کہ حسرت سنج ہوں عرضِ ستم ہائے جدائی کا

            ’ سنجیدن ‘ فارسی میں وزن کرنے اور موزوں کرنے کے معنی پر ہے۔ نوا سنج و نغمہ سنج و زمزمہ سنج و ترانہ سنج و نکتہ سنج۔ سب مانوس ترکیبیں ہیں اور فصحا کی زبان پر ہیں لیکن متأخرِینِ اہل زبان اور ان کے متبعین آرزو سنج و حسرت سنج و شکوہ سنج بھی مثل بیدلؔ وغیرہ کے بے تکلّف نظم کرنے لگے ہیں اور تصنع سے خالی نہیں ہے۔

 بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہائے گل

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

            مصنف نے لفظ ’ حالِ زار ‘ کو چھوڑ کر’ کاروبار ‘ اس وجہ سے کہا کہ کار بہ معنی زراعت و بار بہ معنی ثمر بھی ہے اور یہ گل کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔

یک الف بیش نہیں صیقل آئینہ ہنوز

 چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا

            ’ گریبان ‘  تعلّقاتِ دنیا سے استعارہ ہے اس وجہ سے کہ یہ۔انسان کے گلوگیر ہیں۔ سینہ پر الف کھینچنا آزادوں کا طریقہ ہے اور یہ مضمون فارسی  والے کہا کرتے ہیں۔

  شرحِ اسبابِ گرفتاریِ خاطر مت پوچھ

 اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا

            شرح کے لغوی معنی کھولنے کے ہیں۔ لفظ ’ تنگ ‘ کی مناسبت سے مصنف نے یہ لفظ باندھا ہے اور تنگیِ خاطر و انشراحِ خاطر میں بھی تقابل ہے اور گرفتگیِ خاطر کے مقام پر گرفتاریِ خاطر لفظ ’ زنداں ‘ کی رعایت سے اختیار کی ہے۔

 دل دیا جان کے کیوں اس کو وفادار ، اسدؔ

غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا

دل و جان کا ضلع اس میں بول گئے ہیں۔

 

ذرّہ ذرّہ ساغرِ میخانۂ نیرنگ ہے

 گردشِ مجنوں بہ چشمک ہائے لیلیٰ آشنا

            یعنی عالم کا ہر ذرّہ  جو گردش و انقلاب میں مبتلا ہے  یہ نیرنگِ فلک کے اشارے سے ہے۔ یہاں لفظ ’ ساغر ‘ سے معنیِ گردش نے تراوش  کی اور اسی رعایت سے نیرنگ کو میخانے سے تعبیر کیا ہے۔ اس کے بعد بر سبیلِ تمثیل کہتے ہیں کہ مجنوں کی گردش لیلیٰ ہی کے اشارے سے ہے۔

یک قلم کاغذِ آتش زدہ ہے صفحۂ دشت

 نقشِ پا میں ہے تپِ گرمیِ رفتار ہنوز

            یعنی میرے نقشِ پامیں میری گرمیِ رفتار کا اثر ابھی تک ایسا باقی ہے کہ صفحۂ دشت کاغذ آتش زدہ ہو گیا ہے۔ اس شعر میں مصنف نے یک قلم کا لفظ صفحہ کی رعایت سے استعمال کیا ہے۔

 زبانِ اہلِ زباں میں ہے مرگ خاموشی

 یہ بات بزم میں روشن ہوئی زبانیِ شمع

            اس شعر میں زبان و اہل و مرگ و خاموشی و بزم و روشن زبانی یہ سب شمع کے ضلع کی لفظیں ہیں مگر بہت بے تکلّف صَرف ہوئیں۔

 صاف دُردی کشِ پیمانۂٔ جم ہیں ہم لوگ

واے وہ بادہ کہ افشردۂ انگور نہیں

            یعنی میکشی بھی ہماری  بڑے رتبے کی ہے ، وہ شراب بے نصیب ہے جو انگوری نہ ہو کہ ہم اسے منہ نہیں لگاتے اس لیے کہ یہ تقلیدِ جم کے خلاف ہے۔ یہاں مرزا صاحب ضلع بول گئے ہیں ۔ یعنی دُرد کے واسطے صاف کا لفظ شعر میں لائے ہیں حالانکہ ضلع سے کمال نفرت رکھتے تھے۔۔۔      مرزا غالبؔ سے بہت پیشتر جو اساتذہ گذرے ہیں ان کا بھی یہی حال تھا کہ ضلع و رعایت کو بہت ہی مبتذل سمجھتے تھے۔

نفی سے کرتی ہے اثبات تراوش گویا

 دی ہے جائے دہن اس کو دمِ ایجاد  نہیں

            یعنی اس کے دہن کا وجود اگر ہے تو التزام ہے ، محض تصور میں ہے ، ورنہ خارج میں اسے بجائے دہن ’ نہیں ‘ ملی ۔۔۔لفظ ’ اثبات ‘ مصنف نے یہاں مؤنّث باندھا ورنہ افعال کے وزن پر جتنے الفاظ ہیں سب بہ تذکیر مستعمل ہیں۔۔۔۔  مصنف نے خود بتذکیر کہا ہے :  ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے۔یہاں تراوش کے قرب نے دھوکا دیا۔

            جو لوگ ضلع پسند کرتے ہیں ان کو اس شعر میں گویا کا لفظ بہت لطف دیتا ہوگا ، مگر یہ لفظ مبتذل ہو گیا ہے۔

 تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہ گئے

 تیرا پتا نہ پائیں تو ناچار کیا کریں

اس شعر میں ’ دو چار ‘ ، ’ نا چار ‘ کے ضلع کا لفظ ہے۔

 

غالبؔ  مرے کلام میں کیونکر مزا نہ ہو

 پیتا ہوں دھو کے خسروِ شیریں سخن کے پانو

شیریں سخن  ، خسر و کے ضلع کا لفظ ہے۔

 پیکرِ عشّاق سازِطالعِ ناساز ہے

 نالہ گویا گردشِ سیّارہ کی آواز ہے

            لفظِ عشّاق اس مقام پر ساز کے ضلع کا لفظ ہے۔ اہلِ فارس کی موسیقی میں مقامِ عشّاق ایک راگ کا نام ہے۔

دستگاہِ دیدۂ خونبارِ مجنوں دیکھنا

یک بیاباں جلوۂ گل فرشِ پا انداز ہے

            دستگاہ اس شعر میں پا انداز کے ضلع کا لفظ ہے اور بہ تکلّف داخل کیا ہے۔ اور پھر دونوں لفظوں میں فاصلہ بھی ہاتھ بھر کا ہے۔

اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں

 بارے اب اے ہوا ، ہوسِ بال و پرگئی

            یہ ظاہر ہے کہ ہوا کی طرف خطاب کرنا بے مزہ ہے۔ لیکن ہوس کی مناسبت سے مصنف نے صبا کو چھوڑ کر ہوا کو باندھا ہے۔ اسی طرح  بال و پر کی مناسبت یہ چاہتی ہے کہ کوئے یار کے بدلے صحنِ باغِ یار میں خاک اڑاتی ہوتی۔ اس کے علاوہ یہ مضمون اس قدر کہا گیا ہے کہ مبتذل ہو گیا ہے۔ غرض کہ یہ شعر غالبؔ کے کلام کے مرتبے سے بہت گرا ہوا ہے۔

 بیخودی بسترِ تمہیدِ فراغت ہو جو

  پُر ہے سائے کی طرح میرا شبستاں مجھ سے

            کہتے ہیں : بیخودی کو بسترِ تمہیدِ فراغت ہونا نصیب رہے کہ اس کی بدولت میرا شبستاں اس طرح مجھ سے پُر ہے جیسے سایہ اپنی چیز پر افتادہ ہوتا ہے۔ یعنی بھلا ہو بیخودی کا جس کے سبب سے میں سائے کی طرح بے حس پڑا ہوا ہوں۔

            تمہید کے لغوی معنی بچھانے کے ہیں اور یہ بستر کے مناسبات میں سے ہے۔ اور اصطلاح میں تمہید اسے کہتے ہیں کہ کسی کام سے پہلے کچھ ایسی باتیں کرنا جن پر وہ کام موقوف ہے۔ یہی معنی مصنف کو مقصود ہیں یعنی بیخودی حصولِ فراغت کی تمہید ہے فراغت کے لغوی معنی خالی ہونے کے ہیں اور یہ پُر ہونے کے مناسبات میں سے ہے اور اصطلاح میں راحت کے معنی پر ہے اور یہی معنی یہاں مقصود ہیں۔

  خطِّ عار ض سے لکھا ہے زلف کو الفت نے عہد

 یک قلم منظور ہے  ،  جو کچھ  پریشانی کرے

            ’ یک قلم ‘ کے لفظ میں دوہری رعایت رکھی ہے۔ ایک تو رخسار پر قلمیں ہوتی ہیں ، دوسرے خط بھی قلم سے لکھتیہیں۔ یہ شعر بھی تصنعِ بے مزہ سے خالی نہیں۔

ہے چشمِ تر میں حسرتِ دیدار سے نہاں

شوقِ عناں گسیختہ ، دریا کہیں جسے

            ’ عناں گسیختہ ‘  اس شعر میں لفظ نہیں ہے الماس جڑ دیا ہے۔ جب دوسری زبان کی لفظوں پر ایسی قدرت ہو جب کہیں اپنی  زبان میں اس کا لانا حسن رکھتا ہے۔ اور ’ شوقِ عناں گسیختہ ‘ سے جوشِ اشک مجازاً مقصود ہے کیونکہ شوق سببِ گریہ؛   مسبب کے محل پر سبب کو مجازاً استعمال کیا ہے۔

 

دیدہ تا دل اسد ؔ آئینۂ یک پرتو ِشوق

فیضِ معنی سے خطِ ساغرِ راقم سرشار

             خط کا لفظ محض معنی کی مناسبت سے لائے ہیں۔ اور لفظِ ’ راقم ‘ بہت  ہی مبتذل  لفظ ہے۔ ان معنی پر ’ راقم ‘  شعرا کی زبان نہیں۔

اُڑ کے جاتا کہاں کہ تاروں کا

 آسماں نے  بچھا  رکھا تھا  دام

            ہلال کو مچھلی سے بھی تشبیہ دیا کرتے ہیں اور مچھلی تڑپ کر اڑتی ہے۔ اُڑنے کا لفظ بھی مناسب واقع ہوا ہے۔

    پہلے دارا کا نکل آیا ہے نام

 اس کے سر ہنگوں کاجب دفتر کھلا

 روشناسوں کی جہاں فہرست ہے

 واں لکھا ہے  چہرۂ قیصر کھلا

            پہلے شعر میں دارا کی تخصیص بے جا ہے ، اور دوسرے شعر میں قیصر کی۔ ایک طرح کا تناسب جو شعرا کی طبیعت میں فطری ہوتا ہے اس کا مقتضی یہ تھا کہ وہاں دارا کا ذکر تھا تو یہاں قیصر کے بدلے یوں کہتے ع   واں لکھا ہے نامِ اسکندر کھلا۔ یا اگر قیصر کو رکھنا منظور تھا تو دارا کے بدلے خاقان کہنا مناسب تھا اس سبب سے کہ دارا و اسکندر دونوں عَلَم ہیں اور خاقان و قیصر دونوں لقب ہیں۔

            اس کے علاوہ دوسرے شعر میں ’ کھلا ‘ مکرر ہونا چاہیے تھا۔ کہتے ہیں  ’ کھلا کھلا کھرا ہے ‘  اور یہاں تکرار ضروری ہے۔

مبالغہ

کسی شخص یا کسی شے میں کسی وصف یا کیفیت کا بیان ، خواہ بطورِ تعریف ہو یا بطورِ مذمّت ؛اس طرح کرنا کہ حقیقت میں وہ وصف اُس حد تک نہ پایا جاتا ہو، مبالغہ کہلاتا ہے۔ مبالغے کی تین قسمیں ہیں :۔

( ۱ )    تبلیغ:  ایسا مبالغہ جو عادت اور عقل کے مطابق ہو۔ مثلاً غالبؔ کا شعر ہے   ؂  

  نہ کھاتے گیہوں ، نکلتے نہ خلد سے ہرگز

 جو کھاتے حضرتِ آدم یہ بیسنی روٹی

( ۲ )    اِغراق:  ایسا مبالغہ جو عقل کی رو سے ممکن ہو لیکن عادت کے خلاف ہو۔ مثلاً غالب  ؔ؂

 وا حسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ

 ہم کو  حریف ِ لذّتِ  آزار  دیکھ کر

(۳ )     غلو: ایسا مبالغہ جو نہ عقل کی رو سے ممکن ہو نہ عادت کے موافق ہو۔ جیسے   ؂

 تو آب سے گر سلب کرے طاقتِ سیلاں

 تو آگ سے گر دفع کرے تابِ شرارت

 ڈھونڈے نہ ملے موجۂ  دریا  میں روانی

 باقی  نہ رہے آتشِ سوزاں میں حرارت

            تبلیغ بہت پسندیدہ اور مرغوب صنعت ہے۔ اغراق نہ اچھی ہے نہ بری۔ لیکن غلو کو تمام اربابِ کلام نا پسند کرتے ہیں کیونکہ غلو کلام کی تاثیر کھو دیتا ہے۔تاہم شاذ و نادر ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو صاحبِ کمال زبان پر قدرت رکھتا ہے وہ غلو کو بھی با مزہ کر دیتا ہے ، وہ اس طرح کہ کوئی لفظ یا قرینہ ایسا بڑھا دیتا ہے جس سے غلو امکان کے قریب ہو جائے ، یا اس میں کوئی لطافت پیدا ہو جائے۔جیسے اکبر شاہ ثانی کی مدح میں ذوقؔ کہتے ہیں    ؂

 

 نام کو اللہ اکبر کیا ترے توقیر ہے

 داخلِ ہر خطبہ ہے اور شاملِ تکبیر ہے

                        ( ماخوذ از  ’ تسہیل البلاغت ‘  مؤلفۂ پروفیسر سجّاد مرزا بیگ دہلوی )

شرحِ کلامِ غالبؔ از طباطبائی

سمجھ اس فصل میں کوتاہیِ نشو و نما غالبؔ

 اگر گل سرو کی قامت پہ پیراہن نہ ہو جائے

            کیا پوچھنا اس مبالغے کا کہ مبالغے کے ضمن میں ایک دلکش نقشہ بھی دکھا دیا۔ لیکن قامتِ سرو پر گل کے پیراہن ہو جانے سے یہ مراد نہیں ہے کہ ایک گل اتنا بڑا ہو جائے کہ سرو کا پیراہن ہو۔ بلکہ مصنف کی غرض یہ ہے کہ شاخہاے گل کو اس قدر نمو ہو کہ سرو کے گرد لپٹ کر پھولوں کی قبا  اسے پنہا دیں۔ اور اس مبالغے میں یہی خوبی ہے کہ کوئی محال بات نہیں لازم آتی اور گل سے ایک گل مراد لیں تو مبالغۂ محال کی طرف منجر ہوتا ہے اور یہ امر عیب ہے مبالغے میں ، اور ہمیشہ سے اس عیب کو عیب لکھتے آئے ہیں۔ مگر فارس و ہند کے شعرا شاید اسے صنعت سمجھے ہوئے ہیں کہ احتراز نہیں کرتے۔ اس عیب میں سبھی سَنے ہوئے ہیں۔ خود مصنف مرحوم کو بھی محال گوئی سے احتیاط نہیں ہے۔ مثلاً یہ شعر گذر چکا ہے   ؂

ابھی ہم قتل گہ کا دیکھنا آساں سمجھتے ہیں

  نہیں دیکھا شناور بحرِ خوں میں تیرے توسن کو

یعنی وہ ایسا خون ریز ہے جس کا گھوڑا دریاے خون میں پیرتا ہے ، یہ محض مبالغۂ محال ہے۔خواجہ وزیرؔ کہتے ہیں    ؂  

 تو نہا کر جو پھرا ، غم سے سمٹ کر دریا

 آ گیا دیدۂ گرداب میں آنسو ہو کر

اس شعر میں مبالغۂ محال ہے اور اس کے ضمن میں آنکھ اور آنسو کا نقشہ دکھایا ہے۔ مگر یہ نقشہ ویسا دلکش نہیں ہے جیسا کہ سرو کے گل پوش ہونے کا مصنف نے دکھایا ہے۔ اور کسی کا شعر ہے۔

 بادیہ گردی میں فکرِ برہنہ پائی نہیں

 بن گیا پا پوش پا ، اتنا پھپھولا بڑھ گیا

اس شعر میں مبالغہ تو محال عادی نہیں ہے مگر پاؤں میں پاپوش ہونے کی صورت کچھ کیفیت نہیں رکھتی۔ناسخؔ ؔکہتے ہیں   ؂

مرتبہ کم حرصِ رفعت سے ہمارا ہو گیا

 آفتاب  ا ونچا  ہوا اتنا کہ تارا ہو گیا

اس شعر میں آفتاب کے بلند ہونے میں ( مبالغہ ) کیا ہے اور اس کا تارا ہو جانا ایک صورت دکھاتا ہے۔ لیکن معمولی صورت ہے۔ اور سرو کا گل پوش ہونا شکلِ بدیع ہے۔ لیکن بات یہ ہے  شیخ ناسخ نے یہاں آفتاب سے مرتبہ کو مراد لیا ہے۔ اسے مبالغۂ غیر عادی نہ سمجھنا چاہیے۔ پھر

کہتے ہیں   ؂

ا ک درہم اور داخل گنجِ قاروں میں ہوا

 پست ایسا میرے طالع کا ستارا ہو گیا

اس شعر میں بے شک مبالغۂ غیر عادی ہے اور ایک روپیے کا بہت سے روپوں میں مل جانا بھی کوئی کیفیت نہیں رکھتا۔ لیکن گنجِ قاروں میں ایک درہم اور بڑھ جانا البتہ امرِ بدیع ہے۔ پھر کہتے ہیں    ؂

 یہ صفائی ، یہ لطافت ، جسم میں ہوتی نہیں

 تم نے جو دل میں چھپایا آشکارا ہو گیا

اس شعر میں دو  وجہوں سے محال ہے۔ ایک تو جسم میں ایسی لطافت کا ہونا کہ جو شے دل میں ہو وہ  باہر سے دکھائی دے۔ دوسرے راز کا دکھائی دینا کہ وہ دیکھنے کی شے نہیں ہے۔

            غرض کہ گو ائمۂ فن نے مبالغہ غیر عادی کو عیوبِ بلاغت میں لکھا ہے مگر کوئی مانتا نہیں اور نہ کوئی عمل کرتا ہے ، خصوصاً قصیدے میں تو سواے مبالغۂ غیر عادی کے اور کوئی مضمون ہی نہیں باندھتے ہیں جسے سن کر ممدوح اپنی ہجو سمجھتا ہے۔ ادیب کو یہ بات نہ بھولنا چاہیے کہ مبالغہ کلام کا حسن ہے لیکن مبالغہ میں افراط ، کہ مضمون غیر عادی و محال پیدا ہو جائے ، باتفاقِ ائمۂ فن عیبِ قبیح ہے جس کا نام انھوں نے اغراق و غلو رکھا ہے۔ مبالغہ جبھی تک حسن رکھتا ہے جب تک واقعیت و امکان اس میں پایا جائے۔ مثلاً کسی زخمی کو کہنا کہ ’ خون کا دریا بہ گیا ‘، اغراق ہے۔ او ر ’ لہو کا پر نالہ چل گیا ‘ مبالغۂ مقبول ہے۔ میر انیسؔ کے ایک اصلاحی مرثیے میں ہے ،   ع۔۔۔۔       بہہ کر لہو جگر کا رکابوں تک آگیا

دیکھو مبالغہ اور کیسا واقع سے مطابق ہے۔ مونس  ؔ کہتے ہیں    ؂

 برچھوں اُڑ جاتا ہے دب دب کے فرس رانوں سے

 آنکھ لڑ جاتی ہے دریا کے نگہبانوں سے

ایک مرثیے میں تلوار کی مدح میں ہے ، ع۔

                        ڈورا وہ کہ چھو جائے تو الماس ترش جائے۔۔   یا

                        ع۔۔۔ کَس ایسا تیغ میں کہ کمر سے لپیٹ لو

            ان مبالغوں کا جواب کا ہے کو ہے۔ اور جہاں مبالغہ کرنے بعد کوئی نقشہ کھنچ جاتا ہے وہ مبالغہ زیادہ تر لطیف ہوتا ہے ، خصوصاً جہاں وہ نقشہ بھی معمولی نہ ہو بلکہ نادر و بدیع شکل پیدا ہو۔ مصنف ( غالبؔ )  کے اس ( مندرجۂ بالا) شعر میں دونوں خوبیاں جمع ہیں۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

قصائد

 

سبز ہے جامِ زمردکی طرح داغِ پلنگ

 تازہ ہے ریشۂ نارنج صفت روئے شرار

دونوں تشبیہیں نہایت بدیع ہیں۔

 شکل طاؤس کرے آئینہ خانہ پرواز

 ذوق میں جلوے کے تیرے بہوائے دیدار

آئینہ خانہ و طاؤس کی تشبیہ بہت ہی بدیع ہے۔

 

دشمنِ آلِ نبی کو بہ طرب خانہ ٔ دہر

 عرضِ خمیازۂ سیلاب ہو طاقِ دیوار

            انگڑائی کو موج سے مشابہت ہے۔ اس سبب سے خمیازۂ سیلاب کو موجِ سیلاب کا استعارہ سمجھنا چاہیے۔

دیدہ تا دل، اسدؔ ، آئینۂ یک پرتوِ شوق

فیضِ معنی سے خطِ ساغر ِ راقم سرشار

ساغر دیدہ  و  دل سے استعارہ ہے۔

اُڑ کے جاتا کہاں کہ تاروں کا

 آسماں نے بچھا رکھا تھا دام

            ہلال کو مچھلی سے بھی تشبیہ دیا کرتے ہیں اور مچھلی تڑپ کر اڑتی ہے۔ اُڑنے کا لفظ بھی مناسب واقع ہوا ہے۔

 ہات سے رکھ دی کب ابرو نے کماں

 کب کمر سے غمزے کے خنجر کھلا

            ابرو کو کمان سے اور غمزے کو خنجر سے تشبیہ دیا کرتے ہیں۔ لیکن ابرو کو کمان دار اور غمزے کو خنجر گزار کہنا زیادہ لطف دے گیا۔

            ( استدراک :۔  نسخۂ عرشی میں ’ ہات ‘ کے بجاے ’ ہاتھ ‘ ہے ، اور دوسرے مصرع میں ’ کی ‘ بجاے ’ کے ‘ ہے۔)

تیرا اندازِ سخن شانۂ زلفِ الہام

 تیری رفتارِ قلم جنبشِ بالِ جبریل

دوسرے مصرع میں جو تشبیہِ بدیع پیدا کی ہے الہامی مضمون ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیان

ٰؓ     ( ذیل میں صرف  اُن اصطلاحات کا مختصر تعارف پیش کیا  جاتا

   ہے جو علّامہ نظم طباطبائی کی شرحِ غالبؔ میں واقع ہوئی  ہیں۔)

 

ارشاداتِ سجاد مرزا بیگ دہلوی

مجاز

الفاظ کا اپنے حقیقی اور وضعی معنوں کے علاوہ اپنے معنی غیر موضوع لہ میں بھی استعمال ہوتا ہے، اس کو مجاز کہتے ہیں۔ جب الفاظ اپنے غیر حقیقی معنوں میں استعمال کیے جاتے ہیں تو بعض دفعہ ان غیر حقیقی معنوں میں استعمال کرنے کا کوئی قرینہ ہوا کرتا ہے، جس سے یہ سمجھ میں آجاتا ہے کہ متکلم نے ان الفاظ کو وضعی معنوں میں استعمال نہیں کیا۔ ’  زید کا ہاتھ کھلا ہوا ہے‘  یعنی زید مسرف ہے یا سخی ہے۔ قرینہ اس میں یہ ہے کہ اگر ہاتھ میں روپیہ ہوا اور اس کو خرچ کرنا نہ چاہیں تو مٹھی بند رکھتے ہیں اور دیتے وقت کھول دیتے ہیں۔ تو جس شخص کا ہاتھ ہر وقت کھلا رہے وہ زیادہ سخی ہے۔ علمِ بیان کی اصطلاح کے موافق ایسی دلالتِ غیر وضعی کو، جس میں قرینہ پایا جاتا ہے، مجاز کہتے ہیں۔

کنایہ

ایسی دلالتِ غیر وضعی جس میں قرینہ نہ پایا جائے، کنایہ کہلاتی ہے۔  ’ احمد کا دستر خوان بہت وسیع ہے ‘۔ دستر خوان کی وسعت مہمانوں کی کثرت پر دلالت کرتی ہے تو خواہ یہ مراد لی جائے کہ احمد مہمان نواز شخص ہے یا یہی کہ وہ کپڑا جو کھانا کھاتے وقت احمد کے سامنے بچھایا جاتا ہے بہت لمبا چوڑا ہے۔ یہ کنایہ ہے۔

تشبیہ

تشبیہ کے معنی ہیں کسی خاص لحاظ سے ایک شے کو کسی دوسری شے جیسا ظاہر کرنا۔تشبیہات کے لیے ضروری ہے کہ شاعر کا مشاہدہ وسیع اور اسکو حقائقِ اشیا سے اچھی واقفیت ہو تاکہ وہ مختلف چیزوں میں صحیح وجہِ شبہ دریافت کر سکے ، اور یہ بھی اس کو معلوم ہو کہ کون کون سی چیزیں باہم تشبیہ دینے کے قابل ہیں ورنہ وہ نئی تشبیہات نہیں پیدا کر سکے گا اور جو تشبیہات استعمال کرے گا ان میں بھی غلطیاں کرے گا۔

             میر انیسؔ نے اس شعر میں ا وس کے قطروں کو موتیوں سے تشبیہ دی ہے    ؂

 کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا

تھا موتیوں سے دامنِ صحرا بھرا ہوا

            جس چیز کو کسی دوسری چیز سے تشبیہ دیں وہ  مشبّہ کہلاتی ہے۔ اس شعر میں اوس کے قطرے مشبہ ہیں۔

            جس سے تشبیہ دی جائے وہ مشبّہ بہ کہلاتی ہے۔ یہاں موتی مشبہ بہ ہیں۔

            جو معنی مشبّہ اور مشبّہ بہ میں مشترک ہوں وہ وجہِ شبہ کہلاتے ہیں۔ اوس کے قطروں اور موتیوں میں آب و تاب ایسی چیزہے کہ دونوں میں پائی جاتی ہے ، یہی وجہِ شبہ ہے۔

            اگرکسی تشبیہ میں وجہِ شبہ صرف ایک صفت ہوتو وہ تشبیہِ مفرد کہلائے گی۔ مثلاً   ؂

 ہر سنگ ریزہ نور سے دُرِِّ خوش آب تھا

 لہریں جو تھیں کرن تو بھنور آفتاب تھا

سنگریزوں کو دُرِّ خوش آب سے ، لہروں کو کرن سے اور بھنور کو آفتاب سے تشبیہ دی ہے۔ سب میں وجہِ شبہ صفائی ہے ، لہٰذا تشبیہِ مفرد ہے۔

             اگر کئی اوصاف اس طرح ملے ہوئے ہوں کہ ان سے وجہِ شبہ کی ایک مجموعی ہیئت تصور کی جاسکے تو وہ  تشبیہِ مرکب  ہے۔مثلاً    ؂  

 اک گھٹا چھا گئی ڈھالوں سے سیہ کاروں کی

 برق ہر صف میں چمکنے لگی تلواروں کی

ڈھالوں کی اس قدر کثرت تھی کہ جب فوج کے سپاہیوں نے ان کو بلند کیا تو ایسی تاریکی ہو گئی جیسے ابرِ سیاہ کے چھا جانے سے ہوتی ہے اور جس طرح ابر میں بجلی چمکتی ہے اسی طرح ڈھالوں کے سائے میں تلواریں چمکتی تھیں گویا وجہِ شبہ مرکب ہوئی۔

            وجہِ شبہ کا زیادہ مرکب ہونا تشبیہ کو زیادہ غریب و بعید بنادیتا ہے اور اس قسم کی تشبیہ زیادہ بلیغ خیال کی جاتی ہے ، وہمی و عقلی تشبیہ میں عموماً یہی ہوتا ہے۔ مثلاً ذوقؔ کا شعر ہے     ؂ 

ہوا پہ دوڑتا ہے اس طرح سے ابرِ سیاہ

 کہ جیسے جائے کوئی فیلِ مست بے زنجیر

            غرضِ تشبیہ:   مشبّہ کی رفعتِ شان یا حُسن یا تحقیر و تذلیل یا رعب و ہیبت وغیرہ صفات ظاہر کرنا غرضِ تشبیہ ہوتی ہے۔انیسؔ کے شعر میں اوس کے قطروں کی خوش نمائی اور چمک دمک ظاہر کرنا غرضِ تشبیہ ہے۔اور ذوقؔ کے شعر میں سیاہ دَل بادل کا آسمان کی وسعت میں اڑتے پھرنا غرضِ تشبیہ ہے۔

            تشبیہ کو ظاہرکرنے کے لیے کلام میں یہ الفاظ لاتے ہیں : مانند ، مثل ، سا ، جیسا ، برابر وغیرہ۔۔یہ حرو فِ تشبیہ کہلاتے ہیں۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی لفظ کلام میں استعمال نہیں کرتے لیکن تشبیہ ظاہر ہو جاتی ہے ، جیسے انیسؔ کے شعر میں ہم نے دیکھا۔

            مشبّہ  اور  مشبّہ بہ کو اطرافِ تشبیہ کہتے ہیں۔

            اطرافِ تشبیہ ، وجہِ شبہ ، غرضِ تشبیہ ، حروفِ تشبیہ یہ سب ارکانِ تشبیہ کہلاتے ہیں۔

            اطرافِ تشبیہ: ( یعنی مشبّہ و مشبّہ بہ )جب ایسے ہوں کہ وہ یا ان کا مادّہ حواسِ خمسۂ ظاہری کے ذریعے سے معلوم ہو سکے تو ان کو حسّی کہے ہیں۔ (حواسِ خمسۂ ظاہری یعنی پانچ قوتیں یہ ہیں : قوتِ باصرہ ، قوتِ سامعہ ، قوتِ شامّہ ، قوتِ ذائقہ اور قوتِ لامسہ)۔حسّی تشبیہات زیادہ پُر اثر ہوتی ہیں کیونکہ ان کا تصوّر ذہن میں جلد آ جاتا ہے اور مشبّہ کی صورت آنکھوں کے سامنے پھِر جاتی ہے۔

             بہت سی چیزیں ، خصوصاً غیر مادّی اشیا ایسی ہیں کہ وہ حواسِ ظاہری سے معلوم نہیں ہو سکتیں۔ زندگی ،موت ، علم ، جہل ، الم ،خوشی ، بھوک ،پیاس ، محبت ، نفرت یہ سب غیر حسّی چیزیں ہیں۔ ان کو عقلی ( یا غیر حسّی ) کہتے ہیں اور یہ بھی اطرافِ تشبیہ بن سکتی ہیں۔ 

            ذہنی قوأ میں سے واہمہ وہ قوت ہے جو فی الواقع غیر موجود اشیا  کا تصور کر سکتی ہے۔ جب ایسی چیزوں سے ، جو قوتِ واہمہ کی اختراع ہیں ، مشبّہ و مشبّہ بہ بنائے جائیں تو وہ وہمی کہلائیں گے۔مثلاً    ؂  

 نحوست بھی سعادت ہوگئی سودا میں زلفوں کے

گلیمِ تیرہ بختی سر پہ ہم ظلّ ہُماسمجھے

            ’ گلیمِ تیرہ بختی ‘  کو ’  ظلِّ ہُما ‘ سے تشبیہ دی ہے۔ مشبّہ ’  تیرہ بختی‘  غیر حسّی یعنی عقلی ہے اور     ’  ظلِّ  ہُما ‘ مشبّہ بہ وہمی ہے۔

            تشبیہِ معکوس:  یہ ہے کہ مشبہ کو مشبہ بہ قرار دیں ، مثلاً    ؂

میں ہوں لاغر تری کمر کی طرح

  ہے کمر تیری جیسا میں ہوں نزار

            تمثیل:وہ تشبیہ ہے جس میں وجہِ شبہ کئی امور سے حاصلہو ، لیکن وصفِ حقیقی نہ ہو بلکہ اعتباری ہو ، جیسے تشبیہِ مرکب میں ہوتا ہے

جو ناتواں نہ کریں دستگیریِ دُشمن

 توخار و خس نہ کرے شعلے کو کبھی برپا

فتادگی میں یہ عزت ہے ، دیکھ اے سر کش

 کہ نیک  و بد نے کیا نقشِ پا کو راہ نما

 

            اضافتِ تشبیہی : اس کی ترکیب تو فارسی ہے لیکن اردو میں بھی مروّج ہے ، چنانچہ ’ مارِ زلف ‘ ، ’ کمانِ ابرو ‘ ’گلِ رخسار ‘ وغیرہ۔ اضافتِ تشبیہی میں مشبہ بہ کو اوّل لاتے ہیں اور ایک اضافتِ حرفِ تشبیہ،  وجہِ شبہ ، حرفِ ربط کا کام دیتی ہے۔

استعارہ

استعارہ کے لغوی معنی عاریت طلب کرنا ہیں۔ اصطلاح میں مراد وہ لفظ ہوتا ہے جو غیر وضعی معنوں میں استعمال ہو اوراس کے حقیقی و مجازی معنوں میں تشبیہ کا علاقہ ہو۔استعارے میں مشبہ یا مشبّہ بہ کو حذف کر کے ایک کو دوسرے کی جگہ استعمال کرتے ہیں لیکن کوئی ایسا قرینہ بھی ساتھ ہی ظاہر کرتے ہیں جس سے معلوم ہو جائے کہ متکلم کی مراد حقیقی معنوں کی نہیں ہے۔

معنیِ مشبّہ کو مستعار لہ ( یعنی مانگا ہو ا اُس کے واسطے ) کہتے ہیں۔

معنیِ مشبّہ بہ کو مستعار منہ ( مانگا ہو ا اُس سے ) کہتے ہیں۔

اس لفظ کو جو مشبّہ بہ کے معنی پر دلالت کرے مستعار کہتے ہیں۔

وجہِ شبہ کو  وجہِ جامع  کہتے ہیں۔ مثال    ؂

 نہیں ممکن کہ کلکِ فکر لکھّے شعر سب اچھے

 برستا ہے بہت نیساں ، گہر ہوتے ہیں کم پیدا

’ فکر ‘  کو منشی سے تشبیہ دی ہے۔’ منشی ‘  مستعار منہ ،  قوتِ فکر مستعار لہ ،  لفظِ  ’ فکر ‘  مستعار اور انشا کی قوت وجہِ جامع ہے۔

            اضافتِ استعارہ: اضافتِ تشبیہی کی طرح اضافتِ استعارہ بھی ہے۔ وہ اس طرح کہ کسی لفظ کے مجازی معنوں کے لوازمات سے کچھ لے کر اس کو اصل لفظ کی طرف مضاف کرتے ہیں۔ مثلاً دستِ عقل، پائے فکر۔ عقل اور فکر کو انسان فرض کیا ہاتھ اور پاؤں انسان کے لوازمات میں سے ہیں ، ان کو عقل و فکر کی طرف مضاف کیا اور دستِ عقل اور پاے فکر کہہ دیا۔

            اضافتِ تشبیہی اور اضافتِ استعارہ میں یہ فرق ہے کہ اضافتِ تشبیہی میں اگر مضاف ، مضاف الیہ کو الٹ کر بیچ میں حرفِ تشبیہ ڈال دیں تو مطلب ٹھیک رہتا ہے۔ لیکن  اضافتِ  استعارہ  میں مطلب بگڑ جاتا ہے۔ ’ مارِ زلف ‘ کو فارسی میں زلف ہمچو مار اور اردو میں سانپ جیسی زلف کہہ سکتے ہیں۔لیکن ’دستِ عقل ‘ کو عقل ہمچو دست کہنا غلط ہوگا۔

صنعتِ استخدام

کلام میں اوّل ایک ایسا لفظ لائیں جس کے دو معنی ہوں اور ان دونوں معنی میں سے ایک معنی مراد لیں۔ پھر ایک ضمیر لائیں جو اس لفظ کی طرف راجع تو ہوتی ہو لیکن ضمیر کی مراد اس دوسرے معنی کی طرف ہو جو پہلے نہیں لیے گئے    ؂

 سایہ فگن ہو میں نے کہا ہم پہ ، اے پری

 بولا کہ اس کے سائے سے پرہیز چاہیے

’ پری ‘  بہ معنی معشوق۔  دوسرے پری حقیقی۔ ضمیر ’ اس ‘ کی حقیقی پری کے معنی ظاہر کرتی ہے کیونکہ اس کے سائے سے پرہیز کیا کرتے تھے۔

                                    (منقول از تسہیل البلاغت مؤلفہ سجاد مرزا بیگ)

 

 

 

ارشاداتِ طباطبائی

           

( ۱ )  پھبتی ایک قسم کی تشبیہ ہے جس میں مشبہ پر استہزا کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جیسے کسی سیاہ فام چہرے پر چیچک کے داغ ہوں تو اسے کوچا ہوا کریلا کہتے ہیں یا یہ کہ گوبر میں اولے پڑے۔ ائمۂ فن نے تشبیہ کی ایک غرض یہ بھی لکھی ہے کہ مشبہ کو بد نما کردے۔ لیکن ایسی تشبیہ کا انھوں نے کوئی نام نہیں رکھا ہے اور اردو میں اس کے لیے نام موجود ہے کہ اسی کو پھبتی کہتے ہیں۔ میر ممنونؔ کہتے ہیں    ؂

 قدر کیا ہو چرخ پر اختر کی ، مطبخ سے ترے

 چند اخگر ہیں بروے تودۂ خاکسترے

اور اس قسم کی تشبیہ سہل ہے۔

            ( ۲ )  ہاں ، جس تشبیہ میں یہ غرض ہو کہ بد نما شے کو خوش نما کر دے وہ زیادہ مشکل ہے۔ جیسے ایک عرب نے غلامِ سیاہ فام کے چہرے کو ہرن کا چشم و چراغ کہہ کر روشن کر دیا ہے۔

            ( ۳ )  ان دونوں تشبیہوں سے زیادہ اس تشبیہ کا استعمال ہے جس میں یہ غرض ہو کہ مشبہ کی نسبت جو دعوےٰ کیا جاتا ہے وہ ممکن ہے۔ مرزا بیدلؔ کا  یہ مطلع:

نہ با صحرا سرے دارم نہ با گلزار سودائے

 بہ ہر جا می روم از خویش می جوشد تماشائے

اس میں نرا ادّعاے شاعرانہ تھا۔ مرزا رفیع سوداؔ نے اس پر مصرعے لگاے اور گرہ میں تشبیہ دے کر اس ادّعا کو ثابت کر دیا    ؂

 نہ بلبل ہوں کہ اس گلشن میں سیرِ گل مجھے بھائے

 نہ طوطی ہوں کہ دل میرا فضاے باغ لے جائے

 میں ہوں طاؤسِ آتش بار ، کیسی ہی بہار آئے

 نہ با صحرا سرے دارم نہ با گلزار سودا ئے

 بہ ہر جا می روم از خویش می جوشد تماشائے

 بیدلؔ کا مقطع یہ ہے

من بیدلؔ حریفِ سعیِ بے جا نیستم زاہد

 تو وقطعِ منازلہا ، من ویک لغزشِ پائے 

زاہد سے کہتے ہیں : تو منزلیں طے کیا کر ، مجھے فنا فی اللہ ہونے کے لیے ایک لغزشِ پا کافی ہے۔ سوداؔ نے اس ادعا کو ثابت کیا ہے    ؂

نگاہِ دیدۂ تحقیق تو ، اور اشک ہم ، زاہد

 تو و قطعِ منازلہا ، من وِ یک لغزشِ پائے

یا جیسے میر انیس کہتے ہیں ، ع۔۔۔تم جان ہو ، پھر جان کی رخصت تو ہے دشوار

اردو کی اصطلاح میں ایسی تشبیہ کو ثبوت دینا کہتے ہیں۔

( ۴ )  اسی طرح کبھی نا ممکن ہونے کا ثبوت بھی تشبیہ سے دیتے ہیں ، جیسے مصنف کا ایک شعر گذرا

 دل سے مٹنا تری انگشتِ حنائی کا خیال

 ہو گیا گوشت سے ناخن کا جدا ہو جانا

( ۵ )  کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مشبہ کے لیے جو ادعا کیا ہے اس میں کچھ ایسا استبعاد نہیں ہے لیکن تشبیہ سے غرض زیادتیِ ثبوت ہے۔ جیسے میر ممنونؔ کہتے ہیں    ؂  

 ابروے کج نے کیا ملک دلوں کا تسخیر

 راست ہے: ملک اُسی کا ہے کہ جس کی شمشیر

اور اس طرح کی تشبیہ بہت کہی جاتی ہے۔

( ۶ )  اس سے ادنیٰ مرتبہ اس تشبیہ کا ہے جس میں کوئ غرض نہ ہو محض غرابت و ندرت ہو ،  جیسے شیخ ناسخؔ کہتے ہیں    ؂

 مسی آلودہ لب پر رنگِ پا ں ہے

تماشا ہے تہِ آتش دھواں ہے

اور یہ تشبیہ بہت سہل اور بہت مستعمل ہے۔

 

( ۷ )  کبھی بتصنع و تکلف ایک بات بنانے کے لیے تشبیہ دیتے ہیں۔ جیسے میر ممنونؔ کہتے ہیں   ؂

 واہ گردوں سیر یاں اس رخش کی ہے آفتاب

 یوں رکاب اس کی میں جیسے لعل اور انگشتری

 چلبلاہٹ سے کھنچے نقشہ کب اس کا ، ہاں مگر

 کوند بجلی کی ہو صفحہ ، خامہ موجِ صرصری

یہ تشبیہ کسی قدر اس تشبیہ سے بہتر ہے جس میں محض ندرت ہی ندرت ہو۔ اور لکھنؤ کے شعرا اس طرف بہت مایل ہیں۔

( ۸ )  اور کبھی اس تشبیہ دینے سے وجہِ شبہ کی مقدار کا بیان کرنا مقصود ہوتا ہے ، جیسے میر انیسؔ    ؂

 گھوڑے پر اس طرح سے شہِ انس و جن چڑھے

جس طرح نکلے ابر سے خورشید دن چڑھے

یعنی ممدوح کو آفتاب سے تشبیہ تو دی ، لیکن کس آفتاب سے ؟ جو دن چڑھے دکھائی دے۔ اس بیت میں اور بھی لطایف ہیں جو تشبیہ کے علاوہ ہیں اور جسے میرصاحبؔ کی معجز بیانی کہنا چاہیے ورنہ بیانِ مقدار کے لیے جو تشبیہ ہوتی ہے وہ اس قدر بدیع نہیں ہوتی۔

( ۹ )  کبھی تشبیہ سے یہ غرض ہوتی ہے کہ ایک نا معلوم شے کی کیفیت دوسروں کی سمجھ میں آ جائے،  جیسے رند ؔ    ؂

 بہار تک ہم اسیروں کی زندگی معلوم

 جو پچھنے دل پہ یونہیں موسمِ خزاں دے گا

 ’ اندوہِ خزاں ‘ کو ’ پَچھنے لگنا ‘سے استعارہ کیا ہے۔ یہ تشبیہ اداے مطلب میں بہت کام آتی ہے اور ہر ادیب کو نظم و نثر میں اس قسم کی تشبیہ کی ضرورت پڑتی ہے۔

( ۱۰ )  کبھی تشبیہ کوالٹ دیتے ہیں اور اس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ مشبّہ اتم و اکمل ہے۔ جیسے رندؔ    ؂

  چشم و ابرو بھی اگر تیرے سے ہوتے اس کے

    ہو چکا تھا رخِ خورشید  پہ دھوکا  تیرا

یعنی آفتاب کو معشوق سے تشبیہ دی ہے اور مشہور ( مقصود ؟ ) ہے اس کا عکس۔

( ۱۱ )  ایک اور بھی صنعت یہ آجکل کہی جاتی ہے کہ ایک لفظ جوکئی معنی میں مشترک ہو اس کے ایک معنی کو دوسرے معنی سے تشبیہ دیتے ہیں اور اسی اشتراکِ لفظی کووجہِ شبہ سمجھ لیتے ہیں ، مثلاً ( میر علی اوسط صاحب رشکؔ کے ایک شاگرد )  ہلالؔ کہتے ہیں   ؂

پیٹوں سر سن سن کے گانا اس بتِ بے پیر کا

 دایرہ بجنے لگے حرفِ خط تقدیر کا

یعنی دایرہ ایک باجا ہے اور حرف کے دامن کو بھی دایرہ کہتے ہیں۔ اس وجہ سے دائرۂ حرف کو باجے سے تشبیہ دی ہے۔ اس رنگ کے کہنے والے جو شعرا ہیں ان کی رائے یہ ہے کہ ناسخؔ کے دیوان بھر میں بس ایک ہی شعر نئے مضمون کا ہے۔ شعر    ؂

دانے ہیں انگیا کی چڑیا کو جگت کی چکّیاں

 چلتی ہے بالے کی مچھلی موتیوں کی آب میں

یعنی چڑیا بالاشتراک طاۓر کو بھی کہتے ہیں اور دونوں کٹوریوں کے درمیان کی سیون کو بھی کہتے ہیں ۔ اسی اشتراکِ لفظی کے سبب سے بغیر کسی وجہِ شبہ کے کٹوریوں کی سیون کو طایر سے تشبیہ دی اور اسی قسم کی تشبیہ یہ بھی ہے کہ زلف کو لیلیٰ سے اور خطِ رخسار کو خضر سے تشبیہ دیتے ہیں یعنی لیلیٰ و خضر دونوں عَلَم بھی ہیں اور لیل و خضرت سے صفتِ مشتق بھی ہیں اور اشتراک کو وجہِ شبہ قراردے کر یوں کہتے ہیں کہ لیلیِ زلف دلِ عاشق کی محمل میں رہتی ہے یا جیسے خضرِ خط کا چشمۂ حیوان دہنِ معشوق ہے یعنی پہلے تو زلف و خط کو لیلی و خضر معنیِلغوی کے اعتبار سے کہا کہ زلف میں شبگونی اور خط میں سبزی ہوتی ہے۔ اس کے بعد ان معانی سے تجاوز کیا اورمحمل و چشمۂ حیوان کا ذکر کر کے دونوں لفظوں میں معنی علمیت مراد لیے جس کا حاصل یہ ہوا کہ زلف و خط کو لیلیِ محمل نشیں اور خضرِ ظلمات گرد سے تشبیہ دے دی حالاں کہ کوئی وجہِ شبہ نہیں ہے۔ اسے صنعتِ استخدام کہہ سکتے ہیں لیکن اتنی بات بڑھی ہوئی ہے کہ دونوں معنوں میں تشبیہ بھی مقصود ہوتی ہے اور استخدام میں تشبیہ نہیں ہوتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(منقول از شرح کلامِ غالب از طباطبائی)

شرحِ کلامِ غالب از طباطبائی

واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال

 یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نا یاب تھا

            یعنی تارِ نگہ میں اس کثرت سے آنسو پروے ہوئے تھے کہ وہ خود پوشیدہ  و مفقود ہو گیاتھا جس طرح دھاگے کو موتی چھپا لیتے ہیں۔ دیکھو پوری تشبیہ پائی جاتی ہے مگر تازگی اس بات کی ہے کہ تشبیہ دینا مقصود نہیں ہے۔ شاعر دو متشابہ چیزیں ذکر کر رہا ہے اور پھر تشبیہ نہیں دیتا ہے۔

یاد کر وہ دن کہ ہر اک حلقہ تیرے دام کا

 انتظارِ صید میں اک دیدۂ بے خواب تھا

            ’ حلقۂ دام ‘ کو ’ دیدۂ بے خواب ‘ سے تشبیہ دی ہے۔ وجہِ شبہ یہ ہے کہ دیدۂ بے خواب کی طرح حلقۂ دام کھلا رہتا تھا۔

 اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سروپا ہیں

 کہ ہے سر پنجۂ مژگانِ آہو پشت خار اپنا

            پنجہ میں اور مژگاں میں اور پشت خار میں وجہ شبہ جو ہے وہ ظاہر ہے یعنی شکل تینوں کی ایک ہی سی ہے۔ مژگاں کو پہلے پنجے سے تشبیہ دی ، پھر پنجے کو پشت خار سے تشبیہ دی۔

 نازہ نہیں ہے نشّہ فکرِ سخن مجھے

 تریاکیِ قدیم ہوں دودِ چراغ کا

دود بہ معنی فکر اور چراغ استعارہ ہے کلامِ روشن سے۔

 اہلِ بینش نے بہ حیرت کدۂ شوخیِ ناز

 جوہر آئینہ کو طوطیِ بسمل باندھا

            سبزۂ باغ و سبزۂ خط و سبزۂ زنگار و سبزیِجوہر کو طوطی سے تشبیہ دیتے ہیں اورآئینۂٔ فولادکے جوہروں کی سبزی ہر ایک رخ سے قایم نہیں ہوتی اس سبب سے اسے طوطیِ بسمل سے تشبیہ دی کہ اس میں حرکت معلوم ہوتی ہے اور متحرک کی متحرک سے تشبیہ جس میں وجہ شبہ بھی حرکت ہو نہایت لطیف و بدیع ہوتی ہے غرض  یہ ہے کہ اس کے آئینۂ فولاد میں جوہروں کی سبزی جو بعض رخ سے دکھائی دے جاتی ہے یہ طوطیِ بسمل ہے جسے شوخیِ ناز نے بسمل کر دیا ہے۔اور غنیمتؔ کا مصرع:

 ع۔۔۔۔۔۔ چمن بے تاب چوں طاؤسِ بسمل ‘۔۔۔۔  اسی قسم کی تشبیہ رکھتا ہے۔

 کوئی ویرانی سی ویرانی ہے

 دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

            یہاں دشت کی ویرانی میں مبالغہ اس لیے کیا کہ گھر کی ویرانی میں زیادتی لازم آئی ، یعنی دشت میں ایسی ویرانی جیسے بعینہ میرے گھر میں تھی۔ تشبیہِ معکوس ہے۔

  سرمۂ مفتِ نظر ہوں ، مری قیمت یہ ہے

کہ رہے چشمِ خریدار پہ احساں میرا

             لذّتِ نظر کو سرمۂ مفت سے تشبیہ دی ہے اور سرمۂ مفت کی اضافت نظر کی طرف تشبیہی  ہے۔

  بزمِ قدح سے عیش تمنّا نہ رکھ ، کہ رنگ

  صیدِ ز دام جستہ ہے اس دام گاہ کا

            بزمِ قدح یعنی بزمِ شراب۔ رنگ یعنی عیش۔ دام گاہ دنیا سے استعارہ ہے۔ ’ عیش تمنّا نہ رکھ ‘ ترجمۂ فارسی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عیش کی تمنّا نہ رکھ۔

 جاں در ہواے یک نگہِ گرم ہے ، اسدؔ

 پروانہ ہے وکیل ترے داد خواہ کا

             جان کو ’ در ہواے نگہِ گرم ‘ میں ہونے کی وجہ سے پروانے سے تشبیہ دی ہے۔

 

حریف ِجوششِ دریا نہیں خودداری ساحل

 جہاں ساقی ہو تو باطل ہے دعویٰ ہوشیاری کا

            ساقی کو دریاے پر جوش سے تشبیہ دی ہے اور ساحل کو اپنے آغوش سے۔

ہے مجھے ا  برِ بہاری کا برس کر کھلنا

 روتے روتے غمِ فرقت میں فنا ہو جانا

            یعنی روتے روتے مر جانا میرے لیے باعثِ مسرّت ہے۔ میں اسے یہ جانتا ہوں کہ جیسے ابر برس کر کھل گیا اور باعثِ نشاط ہوا۔ خوبی اس میں تازگیِ تشبیہ کی ہے۔

 

پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موجِ شراب

 دے بطِ مے کو دلِ دوست شنا موجِ شراب

            شراب کا شہپرِ موج سے پرواز کرنا استعارہ ہے جوشِ شراب سے۔

 

ہے یہ برسات وہ موسم کہ عجب کیا ہے اگر

 موجِ ہستی کو کرے فیضِ ہوا موجِ شراب

            ہواے بہار سے جو ایسے ایسے انقلاب ہوتے ہیں کہ جہاں دی و بہمن میں چٹیل میدان تھے وہ سبزہ زار بن جاتے ہیں۔ جن مقاموں میں جھاڑ جھنکاڑ اور خار زار تھا  وہاں جوشِ لالہ و گل دکھائی دیتا ہے تو اس انقلاب و کون و فساد و جوش و نشوونما کے بیان میں شعرا ہمیشہ صنعتِ اغراق کو استعمال کرتے ہیں ۔ جیسے عرفی  ؔ  ع

                        اخگر از فیضِ ہوا سبز شود در منقل

یعنی انگیٹھی میں دا نۂ ا خگر سے اکھوے پھوٹتے ہیں۔ یا سوداؔ جیسے اسی زمین میں کہتے ہیں۔ ع۔۔۔۔

                        شاخ سے گاوِ زمیں کے نکل آئی کوپل

            وجہ اس کی یہ ہے کہ شعر میں معنی صیرورت یعنی کسی شے کا کچھ سے کچھ ہو جانا بڑا لطف دیتا ہے۔ دوسرا سبب اس مضمون پر شعرا کے توجہ کرنے کا یہ ہے کہ جب تشبیہ میں حرکت وجہِ شبہ ہو تو وہ تشبیہ ہی بہت بدیع ہوتی ہے اور یہاں چنگاری میں سے اکھوے پھوٹنا  یا شاخِ گاؤ میں سے کوپل نکلنا حرکت سے خالی نہیں۔ غرض کہ مصنف نے بھی فیضِ ہوا کے بیان میں یہاں اغراق کیا ہے کہ ہستیِ گذراں کو موج سے تشبیہ دی اوراس موج کو فیضِ ہوا سے موجِ شراب بنا دیا نشاط آور ہونے کی مناسبت سے۔

چار موج اٹھتی ہیں طوفانِ طرب سے ہر سو

  موجِ گل، موجِ شفق ، موجِ صبا ، موجِ شراب

            جوشِ طرب کو دریاے طوفاں خیز سے تشبیہ دی جس کی موجیں دوسرے مصرع میں بیان کی ہیں اور اس تشبیہ میں بھی وجہِ شبہ حرکت ہے۔

موجۂ گل سے چراغاں ہے گذر گاہِ خیال

ہے تصوّر میں ز بس جلوہ نما موجِ شراب

            اس شعر میں موجِ شراب کو پہلے موجِ گل سے تشبیہ دی ہے پھرچراغاں سے تشبیہ دی اور چراغاں کی مناسبت سے خیال کو گذرگاہ سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی خیالِ موجِ شراب کیا ہے موجِ گل ہے ، موجِ گل کیا ہے گذر گاہِ تصور میں چراغاں ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ موجِ شراب کو موجِ گل سے تشبیہ دیں توکوئی وجہِ شبہ نہیں ہے ہاں ،موجِ شراب کو موجِ گل سے تشبیہ دیں تو وجہِ شبہ رنگ دونوں میں موجود ہے اور موجِ گل کو چراغاں سے تشبیہِ تام ہے یعنی ہر ہر گل کی افروختگی شعلۂ چراغ سے مشابہ ہے۔  حاصل یہ کہ موجِ گل کو چراغاں سے مشابہت ہے اور موجِ شراب کو موجِ گل سے مشابہت ہے تو تصورِ موجِ شراب سے گذرگاہِ خیال میں چراغاں ہو رہا ہے۔ اس سبب سے کہ مشابہ کا مشابہ بھی مشابہ ہوتا ہے لیکن ایک مشبہ بہ سے دوسرے مشبہ بہ پر تجاوز کرنے میں وجہِ شبہ مفرد ہے اور موجِ گل و چراغاں میں وجہِ شبہ مرکّب ہے۔

   مقصد ہے ناز و غمزہ ، ولے گفتگو میں کام

چلتا نہیں ہے دشنہ و خنجر کہے بغیر

            دشنہ و خنجر سے ناز و غمزہ کی تشبیہ محسوس سے معقول کی تشبیہ ہے اور معقول کا فہم ہر ایک کونہیں ہوتا اس لیے اسے محسوس فرض کر کے کام نکالتے ہیں یعنی ان کی تاثیر کو سمجھا دیتے ہیں۔

 

گرنی تھی ہم پہ برقِ تجلّی ، نہ طور پر

دیتے ہیں بادہ ظرفِ قدح خوار دیکھ کر

            بڑے پلّے کا مصرع لگایا ہے اور تجلّی کو شراب سے اور طور کو میخوارِ تنگ ظرف سے تشبیہ دی ہے اور تنگ ظرف ہونا اس سے ظاہر ہے کہ وہ تجلّی کا متحمّل نہ ہو سکا۔

 نہ چھوڑی حضرتِ یوسف نے یاں بھی خانہ آرائی

 سفیدی دیدۂ یعقوب کی پھرتی ہے زنداں پر

            زنداں پر سفیدی پھرنا اور آنکھوں کا سفید ہو جانا دونوں میں حرکت فی الکیف ہے اور یہاں بھی  وجہِ شبہ میں حرکت ہے۔

نہیں اقلیمِ الفت میں کوئی طومارِ ناز ایسا

 کہ  پشتِ چشم سے جس کے نہ ہووے مّہر عنواں پر

            ناز و ادا کو طومار کہنا تو ایک وجہ رکھتا ہے لیکن الفت جو ایک ادنیٰ مرتبہ عشق کا ہے اسے اقلیم و قلمرو سے تعبیر کرنابلا وجہ ہے  اس لیے کہ مشبّہ و مشبّہ بہ میں اضافت کرنے میں وجہِ شبہ ظاہر ہونا شرط ہے ، نہیں تو وہ اضافت ایسی ہی ہوگی جیسے کہیں کہ آسمانِ رخ کا ستارہ خال ہے یا دریاے دہن کے موتی دندان ہیں اور ان اضافتوں کا غلط ہونا اہلِ ادب کے  مذاق میں ظاہر ہے۔

            دوسرے مصرع کی بندش میں گنجلک بہت ہو گئی ہے۔ مطلب مصنف کا یہ ہے کہ دیوانِ حسن میں کوئی طومارِ ناز ایسا نہیں جس کے عنوان پر پشتِ چشمِ معشوق کی مُہر نہ ہوئی  ہو۔اور پشتِ چشم سے مّہر ہونا معشوق کی آنکھ چرانے اور آنکھ پھیر لینے اور کنکھیوں دیکھنے سے اشارہ ہے اور مّہراور آنکھ میں وجہِ شبہ سیاہی ہے۔ مصنف نے اس اضافت کو اور بندش کی اس گنجلک کوجس خوبیِ شعر کے لیے گوارا کیا ہے البتّہ اس خوبی کے مقابلے میں بندش کا عیب کچھ بھی نہیں وہ یہ ہے کہ عنوان پر نقش بٹھا کر فوراً مہر کا پشت پھیر لینا اور عاشق سے آنکھ ملا کر فوراً معشوق کا آنکھ پھیر لینا تشبیہِ بدیع ہے اور وجہِ شبہ حرکت ہے اور حرکت بھی وہ جو نہایت محبوب ہے۔

 مجھے اب دیکھ کر ابرِ شفق آلود یاد آیا

 کہ فرقت میں تری آتش برستی تھی گلستاں پر

شفق کی ابرِ آتش بار سے تشبیہ نہایت بدیع ہے۔

   ابرو سے ہے کیا اس نگہِ ناز کو پیوند

 ہے تیر مقرر مگر اس کی ہے کماں اور

            ابرو کو کمان اور نگاہ کو تیر کہنا پرانی تشبیہ ہے۔ مصنف نے فی الجملہ اسے تازہ کر کے کہا ہے۔ یعنی نگاہ کا تیر ابرو کی کمان میں سے نہیں آتا ہے ، دل فریبیِ حسن اسے پرتاب کرتی ہے۔

 برنگِ کاغذِ آتش زدہ نیرنگِ بیتابی

  ہزار آئینہ دل باندھے ہے بالِ یک تپیدن پر

            پہلے مصرع میں سے ’ ہے ‘ محذوف ہے۔ کہتے ہیں : نیرنگِ بیتابی مثلِ کاغذِ آتش زدہ ہے کہ دل نے ایک بال تپیدن پر ہزار ہزار آئینے  باندھے ہیں۔ اس شعر میں آئینۂ متحرک کی تڑپ کو اس شعلے سے تشبیہ دی ہے جو کاغذِ آتش زدہ سے بلند ہو۔

 نہ لیوے گر خسِ جوہر طراوت سبزۂ خط سے

 لگادے خانۂ آئینہ میں روے نگار آتش

            آئینے میں عکس پڑنا اور آگ لگ جانا ان دونوں میں وجہِ شبہ حرکت ہے۔اور نہایت بدیع ہے یہ تشبیہ اس سبب سے کہ وجہِ شبہ بہت ہی لطیف ہے۔ مطلب یہ کہ جوہرِآئینہ کو معشوق کے سبزۂ خط سے طراوت پہنچ جاتی ہے نہیں تو شعلۂ رخسار کے عکس نے خانہ آئینہ میں آگ لگا دی ہوتی۔

ترے خیال سے روح اہتزاز کرتی ہے

 بجلوہ ریزیِ باد و بہ پر فشانیِ شمع

            دوسرے مصرع میں  ’ بہ ‘  دونوں جگہ قسم کے لیے ہے۔ اس شعر میں مصنف نے تشبیہ کو بہ تفنّنِ عبارت ادا کیا ہے۔ یعنی یہ نہیں کہا کہ جس طرح ہوا سے پر فشانیِ شمع ہوتی ہے بلکہ مشبہ بہ کی قسم کھائی یعنی قسم ہے ہوا کے آنے اور شمع کے جھلملانے کی کہ ترے خیال سے روح پھڑکنے لگتی ہے۔

محفلیں برہم کرے ہے گنجفہ بازِ خیال

 ہیں ورق گردانیِ نیرنگِ یک بت خانہ ہم

            اس شعر میں گنجفے کی ورق گردانی سے محفلِ نشاط کی برہمی کو تشبیہ دی ہے اور تازہ تشبیہ ہے۔

مہرباں ہو کے بلا لو مجھے  چاہو جس وقت

میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھرآبھی نہ سکوں

ضعف  میں طعنہ اغیار کا شکوہ کیا ہے

 بات کچھ سر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں

 زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو  ستمگر  ، ورنہ

 کیا قسم  ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں

            ان تینوں شعروں میں یہ صنعت ہے کہ ایک فعل جو دو معنوں میں مشترک ہے اسے وجہِ شبہ قرار دیا ہے لیکن ’ خضر و سبزہ ‘ کی طرح یہاں محض اشتراکِ لفظی وجہِ شبہ نہیں ہے۔ اسی سبب سے یہ اشعار بہت بدیع ہیں۔مومنؔ خاں بھی اس طرز پربہت دوڑے ہیں اور ایک واسوخت میں کئی بند اسی طرح کے کہے ہیں۔ آتش ؔکا بھی ایک شعر اسی صنعت میں مشہور ہے    ؂

 ایسی وحشت نہیں دل کو کہ سنبھل جاؤں گا

 صورتِ پیرہنِ تنگ نکل جاؤں گا

مجھے ایک شعر اپنا یاد آیا     ؂

 راز ہے کیا گرہِ زلف جو کھل جائے گا

 کوئی مضموں ہیں جو بندھ جائیں گے بازو میرے

 

آخرکے مصرع میں غضب کا تنافر ہے تین کاف متحرّک پے در پے جمع ہوگئے ہیں ،   ع               کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں

 

ہے مشتمل نمودِ صور پر وجودِ بحر

 یاں کیا دھرا ہے قطرۂ موج و حباب میں

            یعنی قطرہ و موج و حباب کے لیے کچھ ہستی ہی نہیں ہے ، ان کی نمودِ بے وجود بحر کے ضمن میں ہے۔ غرض اس تمثیل سے یہ ہے کہ ممکنات کی ہستی وجو دِ  واجب کے ضمن میں ہے۔ اگر یہ غرض نہ ہو تو شعر بے معنی رہا جاتا ہے۔ اور یہ طرزِ بیان کہ فقط تمثیل کو ذکر کریں اور ممثل کوترک کریں اس بیان سے بلیغ تر ہے جس میں تمثیل و ممثل دونوں مذکور ہوں۔ جس طرح استعارہ بلیغ تر ہوتا ہے بہ نسبت تشبیہ کے ، لیکن جس طرح استعارہ میں یہ شرط ہے کہ مشبّہ کی طرف جلد ذہن منتقل ہو جانا چاہیے ، اسی طرح تمثیل بھی ایسی ہو نی چاہیے کہ اسے سن کر ممثل کی طرف انتقالِ ذہن ہو جائے۔ مثلاً یوں کہیں کہ : جیسابیج بوؤگے ویسا پھل کھاؤگے۔ اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ جیسا کروگے ویسا پاؤ گے۔ اور ممثل کا ترک کر نا اس سبب سے بہتر ہوتا ہے کہ ایسا ابہام جس کے بعد انکشاف فوراً ہو جائے ذہنِ سامع کو لذّت بخشتا ہے۔ اور یہ لذّت اس لذت سے بڑھی ہوئی ہے جو ذکرِ ممثل سے حاصل ہوتی۔  

آرایش جمال سے فارغ نہیں ہنوز

 پیشِ نظر ہے آئینہ دایم نقاب میں

            ’ نقاب ‘ استعارہ ہے حجابِ قدس سے ، اور آئینہ اس میں علمِ ما یکون و ما کان ہے ، اور آرایشِ جمال سے فارغ نہ ہوناتفسیر کلُّ یومٍ ھو فی شانَ ہے۔

 

ہیں زوال آمادہ ، اجزا آفرینش کے تمام

 مہرِگردوں ،ہے چراغِ رہگذارِ باد ، یاں

            ’ باد ‘ استعارہ ہے زمانے کے تجدّد و مرور سے۔ غیر محسوس کومحسوس سے تشبیہ دی ہے اور پھر وجہِ شبہ حرکت ہے۔ اس سبب سے یہ استعارہ بہت ہی بدیع ہے۔

 یارب ، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے

 لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرر نہیں ہوں میں

            مضمون تو یہ ہے کہ اپنے مٹنے کو حرفِ غلط کے مٹنے سے تشبیہ دی ہے۔ لیکن اگر یوں کہتے کہ زمانہ مجھے حرفِ غلط کی طرح مٹائے دیتا ہے تو اس قدر بلیغ نہ ہوتا جس قدر کہ اب بلیغ ہے ، اور بلاغت کی وجہ زیادتیِ معنی ہے۔ یعنی اب اتنے معنی اور بڑھے ہوئے ہیں کہ باوجودیکہ میں حرفِ مکرر نہیں ہوں اور کوئی وجہ میرے مٹانے کی نہیں ہے زمانہ مجھے مٹا رہا ہے۔ اس شعرسے یہ نکتہ سمجھنا چاہیے کہ ایک تشبیہِ مبتذل میں زیادتیِ معنی پیدا کرنے کا کیا طریقہ ہے ،  اور پھر زیادتیِ معنی سے کس قدر بلاغت بڑھ جاتی ہے۔

 بسکہ روکا میں نے اور سینے میں ابھریں پے بہ پے

 میری آہیں بخیۂ چاکِ گریباں ہوگئیں

            اس شعر میں آہ کے بار بار ابھرنے کو اور بار بار ضبط کرنے کو رشتۂ بخیہ گرکی حرکت سے تشبیہ دی ہے ، یعنی متحرک کی متحرک سے تشبیہ ہے اور وجہِ شبہ حرکت ہے۔ لیکن آہ کے لیے ایسی حرکت محض ادّعاے شاعرانہ ہے اس سبب سے یہ تشبیہ ویسی بدیع نہیں ہے جیسے اور شعر تشبیہِ متحرک کے گذر چکے ہیں اور باعتبار مضمون کے شعر بے معنی ہے۔ فارسی و اردو کے شعرا آنکھ بند کر کے ایسے مضمون کہا کرتے ہیں۔ یہاں بخیہ اور سینہ میں جو ضلع  بول گئے ہیں لطف سے خالی نہیں۔

بقدرِ حسرتِ دل چاہیے ذوقِ معاصی بھی

 بھروں اک گوشۂ دامن گرآبِ ہفت دریا ہو

            عاصی کو تر دامن کہنا اصطلاحِ فارسی ہے ، آبِ ہفت دریا سے کثرتِ معاصی کا استعارہ ہے۔

 نہ نکلا آنکھ سے تیری اک آنسو اُس جراحت پر

کیا سینے میں جس نے خوں چکاں مژگانِ سوزن کو

            سوزن سے سوزنِ غم مراد ہے جس کا مقام سینے کے اندر ہے اور سوزن سے یہ استعارہ نہ لیں تو شعر عامیانہ ہو جائے گا جیسے نا فہم شعرا غیر واقعی باتیں نظم کر دیا کرتے ہیں۔ ہاں اگر سینہ کی جگہ سینا سمجھو تو استعارہ کی ضرورت نہیں۔

شہادت تھی مری قسمت میں جو دی تھی یہ خومجھ کو

جہاں تلوار کو دیکھا جھکا دیتا تھا گردن کو

            تلوار استعارہ ہے ناز و ادا و جور و جفا سے ، اور گردن جھکانا کنایہ ہے گوارا کرنے سے اور شہادت سے خونِ آرزو مراد ہے۔اور اگر معنیِ حقیقی پر ان لفظوں کو لیں تو شعر کا کوئی محصل نہیں رہتا۔

 

 مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے

 بھوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات چاہیے

            آنکھ کی میخانہ سے اور بھوں کی محرابِ مسجد سے تشبیہ مشہور ہے۔ مصنف نے یہاں جدت یہ کی ہے کہ اس تشبیہ کا عکس لیا ہے۔ قبلۂ حاجات مسجد کے ضلع کا لفظ ہے لیکن بڑے محاورے کا لفظ ہے۔ اور بات یہ ہے کہ جہاں محض ضلع بولنے کے لیے محاورے میں تصرف کرتے ہیں وہاں ضلع برا معلوم ہوتا ہے اور جب محاورہ پورا اترے تو یہی ضلع بولنا حسن دیتا ہے اور ہر صنعتِ لفظی کا یہی حال ہے۔

 

خیالِ مرگ کب تسکیں دلِ آزردہ کو بخشے

 مرے دامِ تمنّا میں ہے اک صیدِ زبوں وہ بھی

            ’ بخشیدن ‘ فارسی مصدر ہے۔ اس سے اردو میں بخشنا بنا لیا ہے ، جیسے بخشنا اور تجویزنا اور خریدنا۔ مگر ایسے لفظ کے استعمال کو کسی قدر غیر فصیح سمجھتے ہیں۔ اس شعر میں تمنّا کی تشبیہ حال سے اور خیالِ مرگ کی تشبیہ ایک مریل شکار سے محسوس کی غیر محسوس سے تشبیہ ہے۔ اور پھر وجہِ شبہ مرکّب۔ اس سبب سے تشبیہ بدیع ہے 

نہ  اتنا   بر شِ  تیغِ جفا  پر ناز  فرما ؤ

 مرے دریائے بے تابی میں ہے اک موجِ خوں وہ بھی

            موج کی تشبیہ تلوار سے مبتذل ہے۔ اسے دریاے بیتابی کی موجِ خوں کہہ کر جدّت پیدا کی ہے۔

ہے کاینات کو حرکت تیرے ذوق سے

 پرتو سے آفتاب کے ذرّے میں جان ہے

            اس شعر میں ذرّے کے جان دار ہونے نے بڑا لطف دیا یعنی اس کو ذی روح سے تشبیہ دی اور وجہِ شبہ حرکت ہے۔

 مری ہستی  فضائے حیرت آبا دِ  تمنّا ہے

 جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے

            اپنی ہستی کو فضا سے تشبیہ ، زماں کی مکان سے تشبیہ ہے اور وجہِ شبہ امتداد ہے جو دونوں میں پایا جاتا ہے۔

 

رحم کر ظالم ، کہ کیا بودِ چراغِ کشتہ ہے

 نبضِ بیمارِ وفا دودِ چراغِ کشتہ ہے

            پہلے مصرع میں چراغِ کشتہ استعارہ ہے بیمارِ وفا سے۔ اور دوسرے مصرع میں معنیِ حقیقی پر ہے۔ نبض کو دودِ چراغِ کشتہ  سے تشبیہ متحرک با متحرک ہے۔ وجہِ شبہ میں حرکت ہے یعنی سرد ہونا ، کمزور ہونا ، بتدریج کم ہوتے جانا وغیرہ۔جتنے یہ سب صفات بجھے ہوئے چراغ کے  دھوئیں میں ہیں وہ سب دم نکلتے وقت نبضِ بیمار میں ہوتے ہیں۔ انصاف یہ ہے کہ متحرک کی تشبیہ میں مصنف کو یدِ طولیٰ ہے۔اطبّا اس وقت کی نبض کو  ’ دودی ‘ کہتے ہیں یعنی کیڑے کے رینگنے سے تشبیہ دیتے ہیں کہ عربی میں دود کیڑے کو کہتے ہیں۔ ( اس وقت کی نبض کو’  نملی ‘ بھی کہتے ہیں۔ مرآۃ الغالب : بیخود دہلوی ص ۲۲۲ ) دونوں تشبیہوں کے مقابلے سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کی تشبیہ اس سے زیادہ تر بدیع ہے۔

ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے

 صبحِ وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے

            یعنی حالتِ آرمیدگی و ترکِ ہرزہ گردی میں نکوہش و سر زنش کا میں سزاوار ہوں کہ وطن میں صبح مجھے نہیں ہوتی بلکہ میری حالت پر خندۂ دنداں نما ہوتا ہے۔ خندۂ صبح مشہور استعارہ ہے۔

 ڈھونڈھے ہے اس مغنی ِّ آتش نفس کو جی

جس کی صدا ہو جلوۂ برقِ فنا مجھے

            یعنی ایسے سماع کو جی چاہ رہا ہے جس کے سننے سے وہ حال آئے کہ فنا فی الذات ہو جاؤں۔  ’ آواز کی روشنی ‘  اور  ’زمزمے کا لہرا ‘  مل کر وجہِ شبہ مرکّب ہوئی اور ترکیب وجہِ شبہ پہلی خوبی ہے اس تشبیہ کی۔ بعد اس کے یہ ترقی ہے کہ حرکت بھی وجہ میں داخل ہے۔ پھر طرفینِ تشبیہ کو دیکھیے : ایک مسموع ہے ، دوسرا مبصرہے گو دونوں محسوس ہیں۔ لیکن ایسا یوں بعید ہے کہ تشبیہ محسوس بہ معقول کا لطف پیدا ہے۔ مگر اس شعر میں یہ کہنا کہ ایسا ہو ، ویسا ہو ، شعر کو سست کر دینا ہے۔ اس کے بر خلاف اگر اس مضمون کو انشا میں ڈھالا ہوتا اور یوں کہتے کہ ’ تیری صدا ہے جلوۂ برقِ فنا مجھے ‘ تو زیادہ لطف دیتا۔

 نظّارہ کیا حریف ہو اس برقِ حسن کا

 جوشِ بہار، جلوے کو جس کی نقاب ہے

جوشِ بہار ظہورِ عالم سے استعارہ ہے۔

  ہاتھ دھو دل سے ، یہی گرمی گر اندیشے میں ہے

 آبگینہ تندیِ صہبا سے پگھلا جائے ہے

دل کو آبگینہ سے تشبیہ دی ہے۔

 سایہ میرا مجھ سے مثلِ دود بھاگے ہے اسدؔ

 پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے

            یعنی میری وہ حالت ہے کہ سایہ تک ساتھ نہیں دیتا۔ یہ سارا مضمون تو محاورہ ہے لیکن مصنف نے اسے تشبیہات سے رنگاہے۔ اپنے تئیں آتش بجاں کہا ہے یعنی اپنے اضطراب و بے چینی کو اس شخص کے تڑپنے سے تشبیہ دی ہے جو آگ میں گرپڑا ہو اور سایہ کودُھویں سے تشبیہ دی ہے۔ ان تشبیہوں کے علاوہ اس شعر میں اس توجیہ نے بڑا لطف دیا کہ دُھویں کے اٹھنے کو آگ سے بھاگنا قرار دیا۔

  وہ بادۂ  شبانہ کی سر مستیاں کہاں

 اٹھیے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سحرگئی

            اس شعر کے الفاظ معنیِ حقیقی پر محمول کریں تو کچھ لطف نہیں۔غالباً مصنف کو استعارہ مقصود ہے۔ یعنی بادۂ شبانہ سے نشۂ شراب اور سحر سے پیری کا استعارہ ہے ، اور اٹھیے کا خطاب اپنے نفسِ غافل کی طرف ہے۔

 نظارے نے بھی کام کیا واں نقاب کا

 مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھرگئی

            نگاہ کو تار سے اور رشتے سے تشبیہ مشہور بات ہے۔ تازگی یہاں یہ ہے کہ رشتۂ نگاہ  کے تا ر تار کھل کر ان سے نقاب بن گئی۔ اور جس تشبیہ میں اس طرح کے معنی صیرورت ہوں جو وجہِ شبہ کے گھٹانے سے یا بڑھانے سے پیدا ہو گئے ہوں وہ تشبیہ نہایت لذیذ ہوتی ہے اور سننے والے کے ذہن میں استعجاب کا اثر پیدا کرتی ہے۔ ’ ہر ‘ کا لفظ یہاں پورانقاب بنانے کے لیے مصنف نے صَرف کیا ہے۔ مطلب شعر کا یہ ہے کہ تیرا رخ دیکھ کر ایسی از خود رفتگی ہوئی کہ لذّتِ دید سے سب محروم ہو گئے۔

 

 دل ، ہواے خرامِ ناز سے پھر

 محشرستانِ بے قرا ری ہے

وجہِ مناسبت یہ ہے کہ خرام کو محشر سے تشبیہ دیا کرتے ہیں۔

جو نہ نقدِ داغِ دل کی کرے شعلہ پاسبانی

 تو فسردگی نہاں ہے بہ کمینِ بے زبانی

             شعلہ کی تشبیہ زبان سے مشہور ہے۔۔۔۔  ’ داغ ‘ کو نقد کہا یعنی روپیے اشرفی سے اسے تشبیہ دی۔۔۔   یہ تشبیہیں نہایت لطیف ہیں

گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے

  جو  لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے

لفظ کی تشبیہ طلسم سے نہایت بدیع ہے۔

 اچّھا ہے سر انگشتِ حنائی کا تصوّر

دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی

            انگشت کا مہندی سے لال ہوکر لہو کی بوند ہو جانا کیا اچھی تشبیہ ہے۔ دیکھو تشبیہ سے مشبّہ کی تزیین و تحسین اکثر مقصود ہوتی ہے۔ یہ غرض یہاں کیسی حاصل ہوئی کہ سر انگشت کی خوبصورتی آنکھ سے دکھا دی۔ دوسری خوبی اس تشبیہ میں یہ ہے کہ جس انگلی کی پور لہو کی بوند برابر ہو وہ انگلی کس قدر نازک ہوگی اور کنایہ ہمیشہ تصریح سے زیادہ بلیغ ہوتا ہے۔ پھر یہ حسن کہ وجہِ شبہ یہاں مرکب بھی ہے۔ یعنی بوند کی سرخی اور بوند کی شکل ان دونوں سے مل کر وجہِ شبہ کو ترکیب حاصل ہوئی ہے اور ترکیب سے تشبیہ زیادہ بدیع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ادا ۃِ تشبیہ کے حذف و ترک سے تشبیہ کی قوت بڑھ جاتی ہے۔ مصنف نے بھی حذف ہی کیا ہے سب سے بڑھ کر یہ نئی تشبیہ ہے۔ کسی نے نہیں نظم کی۔ پھر یہ شانِ مشّاقی دیکھیے کہ نئی  چیز پا کر اس پر اکتفا نہ کی۔  اسی تشبیہ میں سے ایک بات یہ نکالی کہ دل میں ایک بوند تو لہو کی دکھائی دی۔  پھر کجا تصور ، کجا لہو کی بوند ، دونوں میں کیسا بیّن بُعدہے۔  اور تباینِ طرفین سے تشبیہ میں حسن اور غرابت زیادہ ہو جاتی ہے۔ ’ تو ‘ کی لفظ نے مقامِ کلام کو کیسا ظاہر کیا ہے۔ یعنی یہ شعر اس شخص کی زبانی ہے جس کا لہو سب خشک ہو چکا ہے۔ وہ اپنے دل کو ایک خیالی چیز سے تسکین دے رہا ہے۔ترکیبِ وجہِ شبہ کے متعلق یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ جس طرح بوند کے معنی میں ٹپک پڑنا داخل ہے یہی حال تصور کا خیال سے اتر جانے میں ہے۔ یعنی حرکت وجہِ شبہ میں داخل ہے۔ گو طرفینِ تشبیہ متحرک نہیں ہیں۔ غرضکہ یہ نہایت غریب و بدیع و تازہ تشبیہ ہے۔

 کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے

 پردہ چھوڑا ہے وہ  اس نے کہ اٹھائے نہ بنے

            ’ پردہ چھوڑنا ‘  استعارہ ہے عالمِ امکاں سے، اور اسی استعارے نے مضمونِ شعر کو جلوہ دیا ہے۔

 

ہے شکستن سے بھی دل نومید یارب ، کب تلک

 آبگینہ کوہ پر عرضِ گراں جانی کرے

            کوہ استعارہ ہے سختی و شدّتِ غم کا اور دل کو شیشے سے تشبیہ دی ہے۔ لفظ ’ شکستن ‘ نے شعر کو کھنکھنا کر دیا۔ ترکیبِ اردو میں فارسی کے اور الفاظ لے لیتے ہیں لیکن فارسی مصدر کا استعمال سب نے مکروہ سمجھا ہے۔ اور مصنف مرحوم کے سوا اور کسی کے کلام میں نظم ہو یا نثر ، ایسا نہیں دیکھا۔

 

 دیکھ کر در پردہ گرمِ دامن افشانی مجھے

کر گئی  وا بستۂ تن  میری عریانی مجھے

            اس شعر میں مضمونِ تصوف ہے۔ عریانی استعارہ ہے تجرد سے۔ اور دامن افشانی تنفس سے۔

 

نالہ سرمایۂ یک عالم و عالم کفِ خاک

 آسماں بیضۂ قمری نظر آتا ہے مجھے

            آسمان پر بیضۂ قمری کی پھبتی کہی ہے کہ جس میں کفِ خاک کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس مٹّھی بھر خاک کی قسمت میں بھی عمر بھر کی نالہ کشی لکھی ہوئی ہے۔ اگر یہ کہو کہ بیضۂ قمری کیوں کہا ، بلبل بھی ایک مشتِ خاک ہے کہ نالہ کشی کے لیے پیدا ہوئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ فارسی والے قمری کو کفِ خاکستر باندھا کرتے ہیں ، اس لیے کہ اس کا رنگ خاکستری ہوتا ہے۔ صائبؔکہتے ہیں   ؂

گر نمی خواہد کہ در پائے تو ریزدرنگِ عشق

 سرو از قمری بکف چوں مشتِ خاکستر گرفت

اور خاک اور خاکستر میں کچھ ایسا فرق نہیں ہے۔ ہاں بہ نظرِ دقیق یہ کہہ سکتے ہیں کہ نالہ کا سرمایہ عالم ، اور عالم کا مشتِ خاک ہونا مقامِ عبرت و حسرت ہے۔ اور ایسے مقام پر پھبتی اور دل لگی بے محل ہے۔

 

 آمد بہار کی ہے کہ بلبل ہے نغمہ سنج

 اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی

            یعنی نغمۂ بلبل بہار کی اڑتی ہوئی خبر ہے۔ یہ تشبیہ نہایت بدیع ہے اور انصاف یہ ہے کہ نئی ہے۔

گر واں نہیں تو واں کے نکالے ہوئے تو ہیں

کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی

            ضابطہ یہ ہے کہ بتوں کا ذکر اسی شعر میں اچھا معلوم ہوتا ہے جہاں حسینوں سے استعارہ ہو۔ نہیں توکچھ بھی نہیں۔ ( بتوں کا ذکر حقیقی معنوں پر ) ہمیشہ بے لطف ہوتا ہے۔

متفرق محاسن و معایب

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا

 کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

            اس شعر میں مصنف کی غرض یہ تھی کہ نقشِ تصویر فریادی ہے ہستی بے اعتبار و بے توقیر کا ، اور یہی سبب ہے کاغذی پیراہن ہونے کا۔ ہستی بے اعتبار کی گنجایش نہ ہو سکی ، اس سبب سے کہ قافیہ مزاحم تھا اور مقصود تھا مطلع کہنا۔ ہستی کے بدلے شوخیِ تحریر کہہ دیا اور اس سے کوئی قرینہ ہستی کے حذف پر نہیں پیدا ہوا۔ آخر خود ان کے منھ پر لوگوں نے کہہ دیا کہ شعر بے معنی ہے۔

 

عرض کیجے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں

 کچھ خیال آ یا تھا صحرا کا کہ صحرا جل گیا

            عرض کو لوگ جوہر کے ضلع کا لفظ سمجھتے ہیں حال آں کہ جوہر کے مناسبات میں سے عرض بتحریک ہے نہ بسکون۔

 دل نہیں تجھ کو دکھاتا ورنہ داغوں کی بہار

 اس چراغاں کا کروں کیا کار فرما جل گیا

            لفظ ’ چراغاں ‘ کو چراغ کی جمع نہ سمجھنا چاہیے۔

 

زخم نے داد نہ دی تنگیِ دل کی یارب

 تیر بھی سینۂ بسمل سے پر افشاں نکلا

            تیر کے پر ہوتے ہیں اور اڑتا ہے۔ اس سبب سے پر افشانی جو کہ صفتِ مرغ ہے تیر کے لیے بہت مناسب ہے۔ مصنف مرحوم لکھتے ہیں ؛ یہ ایک بات میں نے اپنی طبیعت سے نئی نکالی ہے جیسا کہ اس شعر میں :

 نہیں ذریعۂ را حت جراحتِ پیکاں

وہ زخمِ تیغ ہے جس کو کہ دل کشا کہیے

یعنی زخمِ تیر کی توہین بہ سبب ایک رخنہ ہونے کے اور تلوار کے زخم کی تحسین بہ سبب ایک طاق سا کھل جانے کے۔

 شمارِ سبحہ مرغوبِ بتِ مشکل پسند آیا

 تماشائے بیک کف بردنِ صد دل پسند آیا

            احتمال ہے کہ مصنف نے’بیک کف بردنِ صد دل ‘ میں حساب عقد انامل کی طرف اشارہ کیا ہو اور عقدِ صد کی یہ شکل ہے کہ چھونگلیا کے سر کو انگوٹھے کی جڑ میں لگا کر انگوٹھا سارا اس کی پشت پر جما دیتے ہیں۔ عرب میں اس حساب کا رواج تھا۔ رسولِ خدا ﷺ نے جس حدیث میں فتنۂ چنگیز و ہلاکو و تیمور وغیرہ کی زینب بنتِ جحش سے پیشینگوئی  کی ہے اس میں ذکر ہے حضرت ایک دن ڈرے ہوئے ان کے پاس آئے اور فرمایا : لا الٰہ الا اللہ ویل للعرب من شر قد اقترب فتح الیوم من روم یاجوج و ماجوج مثل ھٰذہ  یہ کہہ کرآپ نے کلمے کی انگلی کو انگوٹھے سے ملا کر حلقہ بنایا۔ وھیب اور سفیان بن عینیہ نے اس حدیث کو روایت کر کے عقدِ تسعین کی شکل دونوں انگلیوں سے بنائی یعنی کلمے کی انگلی کا سر انگوٹھے کی جڑ میں سے لگا کر انگوٹھے کو اس کی پشت پر جما دیا۔ فتنۂ تتار سے کئی سو برس پیشتر کی کتابوں میں (مثل)بخاری وغیرہ کے یہ حدیث موجود ہے۔ خوارزم شاہ نے جب دیوارِ ترکستان کو کھدوا ڈالا جبھی سے چنگیز و ہلاکو و تیمور کو راہ  ملی اور سلطنت عرب کو تباہ کر ڈالا۔ اس زمانے میں شاہِ خوارزم قطب الدین سلجوقی تھے۔

دل گذر گاہِ خیالِ مے و ساغر ہی سہی

 گر نفس جادۂ سر منزلِ تقوی نہ ہوا

            تار اور رشتہ اور خط اور جادہ نفس کے تشبیہات میں سے ہے۔

            قافیہ ’تقوےٰ ‘ میں فارسی والوں کا اتباع کیا ہے کہ وہ لوگ عربی کے جس جس کلمے میں ’ی‘ دیکھتے ہیں اس کو کبھی الف اورکبھی ’ی‘ کے ساتھ نظم کرتے ہیں۔ تمنی و تمنیٰ  و  تجلی و تجلیٰ  و  تسلی و تسلیٰ  و  ہیولی و ہیولیٰ   و دنیی و دنیا بکثرت ان کے ٖکلام میں موجود ہے۔

 ستایش گر ہے زاہد اس قدر جس باغِ رضواں کا

 وہ اک گل دستہ ہے ہم بے خودوں کے طاقِ نسیاں کا

            یہاں گل دستہ کے لفظ نے یہ حسن پیدا کیا ہے کہ گل دستہ کو زینت کے لیے طاق پررکھا کرتے ہیں ؛ دوسرے یہ کہ باغ کومقامِ تحقیر گل دستہ سے تعبیر کیا ہے۔ یہ بھی حسن سے خالی نہیں۔ لیکن یہ حسن بیان و بدیع سے تعلق رکھتا ہے ، معنوی خوبی نہیں ہے۔

 نہ آئی سطوتِ قاتل بھی مانع میرے نالوں کو

 لیا دانتوں میں جو تنکا ہوا ریشہ نیستاں کا

            دستور ہے کہ کسی کے رعب و سطوت کے اظہار کرنے کے لیے جو مرعوب ہو جاتا ہے وہ اپنے دانتوں میں گھاس پھونس اٹھا کر دبا لیتا ہے تاکہ وہ شخص اسے اپنا مطیع و مغلوب سمجھے اور قصدِ قتل سے باز آئے۔

کیاآئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے

  کرے جو پرتو ِخورشیدِ عالم شبنمستاں کا

آئینہ خانے کی تشبیہ شبنمستاں سے تشبیہِ مرکّب  ہوئی۔

خموشی میں نہاں خوں گشتہ لاکھوں آرزوئیں ہیں

 چراغِ مردہ ہوں میں بے زباں گورِ غریباں کا

            خاموش آدمی کو بے زبان کہتے ہیں ، اور چراغ کی لو کو زبان سے تشبیہ دیتے ہیں تو بجھے ہوئۓ چراغ کو بے زبان آدمی کے ساتھ مشابہت ہے اور اسی طرح سے خون گشتہ آرزوؤں کو گورِ غریباں سے مشابہت ہے۔

 نہ ہوگا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا

 حبابِ موجۂ رفتارہے نقشِ قدم میرا

            ذوق سے صحرا نوردی مراد ہے اور رفتار کو موج اور نقشِ قدم کو حباب کے ساتھ تشبیہ دینے سے مطلب یہ ہے کہ جس طرح موج کا ذوقِ روانی کبھی کم نہیں ہوتا اسی طرح میرا بھی ذوق کم نہیں ہوگا۔ ’یک بیاباں ماندگی‘ خواہ ’صد بیاباں ماندگی‘ کہو مراد ایک ہی ہے یعنی ماندگیِ مفرط۔ یک بیاباں ماندگی کہہ کر ماندگی کی مقدار بیان کی ہے گویا بیابا ں کو پیمانہ اس کا فرض کیا ہے۔

 سراپا رہنِ عشق و نا گزیرِ الفتِ ہستی

عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا

            عشق کو برق اور ہستی کو خرمن سے تشبیہ دی ہے۔ پہلے مصرع میں فعل ’  ہوں ‘  محذوف ہے۔ حاصل کے معنی خرمن۔ ’ ناگزیرِ الفتِ ہستی‘ ہوں یعنی جان کو عزیز رکھنے پر میں مجبور ہوں۔ جس طرح یہ کہتے ہیں کہ فلاں امر ناگزیر ہے یعنی ضرور ہے اسی طرح فارسی میں یوں بھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص از فلاں نا گزیر است۔

 منھ نہ کھلنے پر ہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں

زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے منھ پر کھلا

            اس شعر میں ’ کھلنا ‘ زیب دینے کے معنی پر ہے۔ دیکھو معنی ردیف میں جدّت کرنے سے شعر میں کیا حسن ہو جاتا ہے۔

 واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال

 یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نا یاب تھا

            یعنی تارِ نگہ میں اس کثرت سے آنسو پروئے ہوئے تھے کہ وہ خود پوشیدہ و مفقود ہو گیاتھا جس طرح دھاگے کو موتی چھپا لیتے ہیں۔

 جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جو

 یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا

            ’ آب جو ‘ کے بعد ’ کو ‘  کا لفظ حذف کر دینا کچھ اچھا نہیں معلوم ہوتا۔

 فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا

 یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا

            یعنی وہاں رنگ و عیش کی رنگ رلیاں ہو رہی تھیں  اور ہم یہاں جل رہے تھے۔ ’ سوختن  کے باب سے‘  ماضی و حال و مستقبل کی تصریف مراد ہے۔ نزاکت یہ ہے کہ اس امتدادِ زمانہ کو جوتصریف میں سوختن کے ہے مصنف نے امتدادِ مکانی پرمنطبق کیا ہے۔ دوسرا پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ یہاں کا زمین و آسمان آگ لگا دینے کے قابل تھا۔

 

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بری بلا ہے

 مجھے کیا برا تھا مرنااگر ایک بار ہوتا

خوبی اس شعر کی حد تحسین سے باہر ہے۔

  یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخِ مکتوب

 مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا

’  تو اور پاسخِ مکتوب  ‘ یعنی تو اور جواب لکھے ممکن نہیں۔

 

باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل

 ابرِ بہار خم کدہ کس کے دماغ کا

            پہلے مصرع میں سے ’ ہے ‘  محذوف ہے۔۔۔ دوسرے مصرع میں سے ’  ہو ا ‘  محذوف یعنی ابرِ بہار بھی تیرے ہی دماغ میں نشہ پیدا کرنے کے لیے ایک خم کدہ ہے۔ یہ تجنیس بساط و نشاط صنایعِ خطیہ میں سے ہے۔

 پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق

 آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا

            ’  ہمارا  ‘ کے بعد ’  بھی  ‘ کے لانے کا محل تھا مگر ضرورتِ شعر سے اسے آخر میں کر دیا ہے۔

 ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ

 یارب، اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا

            ’ یا رب ‘ اس شعر میں ندا کے لیے نہیں ہے بلکہ اظہارِ استعجاب کے لیے ہے۔

 موجِ خوں سر سے گذر ہی کیوں نہ جاے

 آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا

’  کیا  ‘  دوسرے مصرع میں تحقیر کے لیے ہے۔

 دے بطِ مے کودل و دست شنا موجِ شراب

 پھر ہوا وقت کہ ہو بال کشا موجِ شراب

            شراب کا شہپرِ موج سے پرواز کرنا استعارہ ہے جوشِ شراب سے ، اور ’ وقت ‘ سے فصلِ بہار مراد ہے جس کی حرارت سے غلیان و جوش  شراب میں پیدا ہوتا ہے۔ اور بطِ مے کو  دل و دست شنا دینے سے یہ مراد ہے کہ خود شرابِپر جوش اس کا دل ہوگی۔ اور دستِ ساقی اس کے لیے دست شنا ہوگا یعنی اس کے ہاتھ سے حلقۂ رنداں میں وہ شنا کرے گی۔ خود شیشے کو بھی دل سے تشبیہ دیتے ہیں۔

   بسکہ دوڑے ہے رگِ تاک میں خوں ہو ہو کر

  شہپرِ رنگ سے ہے بال کشا موجِ شراب

            لفظ ’  خون  ‘  میں نون کا اعلان فصیح سمجھتے ہیں اور بعض بعض شعرا  بغیر اعلان اس لفظ کو استعمال بھی نہیں کرتے۔

کمالِ گرمیِ سعیِ تلاشِ دید نہ پوچھ

 برنگِ خار مر ے آئینے سے جوہر کھینچ

            حسرتِ دید ایک آئینہ ہے جس میں جوہروں کے بدلے کانٹے ہیں اور یہ کانٹے تگا پو و جستجوے دیدار میں گڑے ہیں۔ اس شعر کے پہلے مصرع میں چار معنویہ اضافتیں ہیں اور تین اضافتوں سے زیادہ ہونا عیبِکلام ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اضافت ایک سے زیادہ ہوئی اور بندش میں سستی پیداہو گئی، نہ کہ چار اضافتیں ہوں اور وہ بھی معنویہ۔

بہ نیم  غمزہ ادا کر حقِ ودیعتِ ناز

 نیامِ پردۂ زخمِ جگر سے خنجر کھینچ

            نیام میں سے خنجر یعنی الف کے نکال ڈالنے سے نیم تو بنا مگر اس خنجر سے معنی کا بھی خون ہو گیا۔

چھوڑوں گا میں نہ اس بتِ کافر کا پوجنا

 چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر

             ’چھوڑنے ‘ کا لفظ دونوں مصرعوں میں قابلِ توجّہ ہے کہ اس لفظ کی تکرار نے حسنِ کلام کو بڑھا دیا۔ یہ بھی ایک صنعت ہے صنایعِ  لفظیہ میں سے گو اہلِ فن نے اس کا ذکر نہیں کیا۔

 آتا ہے میرے قتل کو، پر جوشِ رشک سے

 مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر

            دوسرا مصرع اس مضمون کو مانگتا ہے کہ وہ اس ادا سے میرے قتل کو آتا ہے کہ میں مرتا ہوں۔۔۔ الخ  مصنفِمرحوم نے معنیِ رشک کے اتنے پہلو نکالے ہیں کہ ان کی تعریف حدِّ امکان سے باہر ہے۔ لیکن یہ قاعدہ ہے کہ جب ایک ہی مطلب کو بار بار کہوتو اس میں افراط و تفریط ہو جاتی ہے۔ اس غزل کے دو شعر اس سبب سے سست رہے۔ ایک تو یہ شعر کہ معشوق کے ہاتھ میں تلوار کو دیکھ کر تلوار پر رشک آتا ہے ، دوسرے عاشق کے طوطی پالنے سے معشوق کو طوطی پر رشک آنا۔ دونوں امر غیر عادی ہیں اور بے لطف ہیں اور اسی سبب سے یہاں مصرع نے ربط نہیں کھایا۔

 ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں

 جی خوش ہوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر

            یعنی اس شعر میں مصنف نے آبلوں کی طرف اشارہ کر کے مخاطب کو زیادہ متوجہ کر لیا۔ اگر ’ ان ‘ کی جگہ پر ’ کیا ‘ ہوتا تو یہ لطف نہ حاصل ہوتا۔ اشارے نے جس شعر میں زیادہ تر لطف دیا ہے  وہ  یہ شعر ہے    ؂

صحبتِ  وعظ تو تا دیر رہے گی قائمؔ

یہ ہے مے خانہ ابھی پی کے چلے آتے ہیں

 

 گرنی تھی ہم پہ برقِ تجلّی ، نہ طور پر

دیتے ہیں بادہ ظرفِ قدح خوار دیکھ کر

            بڑے پلّے کا مصرع لگایا ہے اور تجلّی کو شراب سے اور طور کو میخوارِ تنگ ظرف سے تشبیہ دی ہے اور تنگ ظرف ہونا اس سے ظاہر ہے کہ وہ تجلّی کا متحمّل نہ ہو سکا۔

سر پھوڑنا وہ غالب ؔشوریدہ حال کا

 یاد آ گیا  مجھے تری دیوار دیکھ کر

             مصنف نے عاشق کی جگہ غالبؔ کہا اورنکرہ کے بدلے معرفہ کو اختیار کیا اور اس سبب سے شعر زیادہ  مانوس ہو گیا اور دوسرا لطف یہ ہے کہ مصرع پورا کرنے کے لیے جو الفاظ بڑھائے ہیں وہ بہت ہی پُر معنی ہیں۔ ایک تو غالبؔ کی صفت شوریدہ حال بڑھا دی جس سے سر پھوڑنے کا سبب ظاہر ہو گیا ، دوسری لفظ ’ وہ ‘ بڑھا دی اور اس نے کثیر المعنی ہونے کے سبب سے شعر کا حسن ایک سے ہزار کر دیا۔

 مجھے اب دیکھ کر ابرِ شفق آلود یاد آیا

کہ فرقت میں تری آتش برستی تھی گلستاں پر

            ’  اب  ‘  کا لفظ اس شعر میں کثیر المعنی ہے۔ یعنی یہ کہنا کہ ’ اب یاد آیا ‘  اس سے ،بالتزام یہ نکلتا ہے کہ پہلے بھولا ہوا تھا اور صدمۂ مفارقت کے اس طرح بھول جانے سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ معشوق کو دیکھ کر انتہا کی محویت و مسرت غالب ہو گئی ہے اور یہ معنی نکلتے ہیں کہ جیسے شکوۂ ہجر کچھ بیان کیا تھا اور کچھ باتیں اب یاد آتی جاتی ہیں۔ غرض کہ ایک لفظ میں اتنے معنی انتہاے بلاغت ہے اور پھر شفق کی ابرِ آتش بار سے تشبیہ نہایت بدیع ہے۔

 نہ لڑ ناصح سے غالبؔ کیا ہوا گر اس نے شدّت کی

 ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر

    کیا گریبان پھاڑنے سے بھی تسکین نہ ہوگی۔ کیا خوب شعر کہا ہے۔

 اسد ؔ بسمل ہے کس انداز کا ، قاتل سے کہتا ہے

 تو مشقِ ناز کر، خونِ دو عالم میری گردن پر

            ’  کس  ‘  یہاں استفہام کے لیے نہیں ، استعجاب کے لیے ہے۔ اس شعر کی تعریف    حدِّ امکان سے باہر ہے۔

 مجھ کو پوچھا  تو کچھ غضب نہ ہوا

 میں غریب ، اور تو غریب نواز

            اس شعر میں ’ کچھ غضب نہ ہوا ‘ کثیر المعنی ہے۔ اگر اس جملے کے بدلے یوں کہتے کہ : ’ مہربانی کی‘تو لفظ و معنی میں مساوات ہوتی، ایجاز نہ ہوتا ؛اور اگر اس کے بدلے یوں کہتے کہ :  ’ مرا خیال کیا ‘ تو مصرع میں اطناب ہوتا لطفِ ایجاز نہ ہوتا۔

یعنی اس مصرع میں :  ’ مجھ کو پوچھا مرا خیال کیا ‘  اطناب ہے۔

 اور اس مصرع میں  :  ’ مجھ کو پوچھا تو مہربانی کی‘  مساوات ہے۔

اور اس مصرع میں :  ’ مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا ‘  ایجاز  ہے۔

            اس سبب سے کہ یہ جملہ کہ ’  کچھ غضب نہ ہوا  ‘ معنیِ زاید پر دلالت کرتا ہے۔ اس جملے کے تو فقط یہی معنی ہیں کہ ’کوئی بیجا بات نہیں ہوئی ‘ لیکن معنیِ زاید اس سے یہ بھی سمجھ میں آتے ہیں کہ معشوق اس سے بات کرنا امرِ بیجا سمجھے ہوئے تھا یا اپنے خلافِ شان جانتا تھا اور اس کے علاوہ یہ معنی بھی پیدا ہوتے ہیں کہ اس کے دل میں معشوق کی بے اعتنائی و تغافل کے شکوے بھرے ہوئے ہیں مگر اس کے ذرا بات کر لینے سے اس کو اب امّیدِ التفات پیدا ہوگئی ہے اور ان شکووں کو اس خیال سے ظاہر نہیں کرتا کہ کہیں خفا نہ ہو جائے۔اس آخری معنی  پر فقط لفظ  ’  غضب  ‘ نے دلالت کی کہ اس لفظ سے بوئے شکایت آتی ہے اور اس کے دل کے پُر  شکوہ ہونے کا حال کھلتا ہے۔ بخلاف اس کے اگر یوں کہتے کہ مجھ کو پوچھا تو مہربانی کی۔۔۔ تو یہ جتنے معنی زاید بیان ہوئے ان میں سے کچھ بھی نہیں ظاہر ہوتے۔ فقط’  مہربانی کی  ‘ میں جو معنی ہیں وہ البتہ نئے ہیں جیسے کہ وہ لفظ نئے ہیں۔

             اور اگر یوں کہا ہوتا کہ’ مجھ کو پوچھا مرا خیال کیا ‘تو نہ تو کچھ معنی زاید ظاہر تھے نہ کوئی او رنئے معنی بڑھ گئے تھے۔یعنی ’  مرا  خیال کیا ‘ کے وہی معنی ہیں جو ’  مجھ کو پوچھا  ‘ کے معنی ہیں ، یا دونوں جملے قریب المعنی ہیں۔ غرض کہ ’  مرا خیال کیا  ‘  لفظ  نئے ہیں اور معنی نئے نہیں۔

             اس کے علاوہ دونوں مصرعوں میں شرط و جزا مل کر ایک ہی جملہ ہوتا ہے۔ اور اس مصرع میں دو جملے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اس مصرع میں کثیر اللفظ و قلیل المعنی ہونے کے سبب سے اطناب ہے۔اور مصنف کے مصرع میں قلیل اللفظ اور کثیر المعنی ہونے کے سبب سے ایجاز ہے۔ اور جو مصرع باقی رہا اس میں لفظ و معنی میں مساوات ہے۔

     اس جگہ یہ نکتہ بیان کر دینابھی ضرور ہے کہ یہ شعر مصنف کا    ؂

مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا

میں غریب اور تو غریب نواز

مقامِ فہمایش میں ہے اور یہ دونوں شعر    ؂         

 مجھ کو پوچھا تو مہربانی کی

 میں غریب اور تو غریب نواز

 مجھ کو پوچھا مرا خیال کیا

 میں غریب اور تو غریب نواز

مقامِ شکر میں ہیں۔ یعنی اس شعر میں معشوق کا فہمائش کرنا مقصود ہے اور ان دونوں شعروں میں اس کا اداے شکر مقصود ہے۔ غرضیکہ اس کی غایت ہی اور ہے اوراُن کی غایت ہی اور ہے۔  اور جب مقام میں اختلاف ہوا تو مقتضائے مقام بھی الگ الگ ہو گیا لیکن ان دونوں شعروں میں غایت ایک ہی ہے ۔

             دونوں شعر مقامِ شکر میں ہیں اور مقامِ شکر کا مقتضی یہ ہے کہ اداے شکر کرتے وقت احسان کو طول دے کر بیان کرنا حسن رکھتا ہے اور اسی سبب سے جس مصرع میں اطناب ہے وہ مقتضائے مقام سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے بہ نسبت اس مصرع کے جس میں مساوات ہے۔یعنی اس مقام میں اطناب والا مصرع بلیغ ہے اور مساوات والا غیربلیغ۔

            ان دونوں شعروں کے مقابلے سے غرض یہ ہے کہ مقامِ اطناب میں مساوات ہونا حسنِ کلام کو گھٹا دیتا ہے۔

 رخِ  نگار سے ہے سوزِ جاودانیِ شمع

 ہوئی ہے آتشِ گل آبِ زندگانیِ شمع

            اسے ادّعاے شاعرانہ کہتے ہیں کہ پہلے یہ ٹھہرا لیا کہ شمع رخِ معشوق کو دیکھ کر جل رہی ہے ، پھر اسی بنا پر یہ مضمون پیدا کیا کہ آتشِ گل جو کہ چہرۂ معشوق میں ہے وہ شمع کے لیے آبِ حیات ہے اور اس سبب سے کہ محاورے میں بجھی ہوئی شمع کو شمعِ کشتہ کہتے ہیں ، جلتی ہوئی شمع کو شعرا زندہ فرض کرتے ہیں۔

 غم اس کو حسرتِ پروانہ کا ہے اے شعلہ

 ترے لرزنے سے ظاہر ہے نا توانیِ شمع

     یعنی پروانے کے غم نے اسے نا تواں کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے شعلے کے تھرتھرانے کی۔ شعلے کی طرف خطاب کرنا یہاں بے لطفی سے خالی نہیں۔

 آتا ہے داغِ حسرتِ دل کا شمار یاد

 مجھ سے مرے گنہ کا حساب اے خدا نہ مانگ

            ’ داغ ‘  اور  ’ گنہ ‘  دونوں یہاں اسمِ جنس ہیں اور اس وجہ سے جمع کے حکم میں ہیں۔

شرمندہ رکھتے ہیں مجھے بادِ بہار سے

میناے بے شراب و دلِ بے ہواے گل

            یہ شعر ایک سوال مقدّر کا جواب ہے۔ یعنی میرا شراب پینا اور باغوں کی سیر کرنا لوگ برا سمجھتے ہیں مگر ایسا نہ کروں تو مجھے بادِ بہار سے شرمندگی ہوتی ہے۔

تھی وہ اک شخص کے تصور سے

  اب وہ رعنائیِخیال کہاں

            یہاں  ’اک شخص ‘  کا لفظ بہت بلیغ ہے۔ اگر اس کے بدلے  ’ اک شوخ ‘ کہا ہوتا تو معشوق کی تعریف نکلتی اور اس سے یہ ظاہر ہوتا کہ ابھی تک ذوق و شوق باقی ہے جو معشوق کو ایسی لفظ سے تعبیر کیا ہے اور یہ مقتضاے مقام کے خلاف ہوتا۔

 ضعف سے اے گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیں

 رنگ ہو کر اڑ گیا جو خوں کہ دامن میں نہیں

    ’ گریہ ‘ کی طرف خظاب کرنا نہایت تصنع ہے اور تکلّفِ نا مقبول ہے۔

زخم سلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن

 غیر سمجھا ہے کہ لذّت زخمِ سوزن میں نہیں

            یعنی زخم میں ٹانکے دلوانا اس لیے نہیں ہے کہ اس کا اچھا ہو جانا منظور ہو بلکہ زخمِ سوزن کی لذّت اٹھانا مقصود ہے۔مضمونِ شعر یہی ہے جو گذرا لیکن اس مضمون کو مصنف نے رقیب کی غلط فہمی پر تشنیع کر کے حسن میں دہ چند کر دیا۔

لے گئی ساقی کی نخوت قلزم آشامی مری

موجِ مے کی آج رگ مینا کی گردن میں نہیں

غرور کو رگِ گردن سے تعبیر کرتے ہیں اور اس تعبیر میں مجازِ مرسل ہے۔ 

 تھی وطن میں شان کیا غالبؔ کہ ہو غربت میں قدر

بے تکلّف ہوں وہ مشتِ خس کہ گلخن میں نہیں

لفظِ ’ بے تکلّف ‘ اس شعر میں تکلّف سے خالی نہیں۔

میں اور صد ہزار نواے جگر خراش

 تو، اور ایک وہ نہ شنیدن کہ کیا کہوں

اس شعر سے یہ دھوکا نہ کھانا چاہیے کہ غالبؔ سا شخص اور اس طرح اردو اور فارسی میں خلط کرے جسے ایک مبتدی سا مبتدی اور گنوار سا گنوار بھی صحیح نہیں سمجھتا۔ مقامِ طنز میں تفنّنِ الفاظ اچھا معلوم ہوتا ہے یہ سمجھ کر مصنف نے یہاں ’  نہ شنیدن ‘ کہا ہے لیکن یہ تاویل مستبعد ہے ، اس میں شک نہیں

  گردشِ رنگِ طرب سے ڈر ہے

 غمِ محرومیِ جاوید نہیں

            اس شعر میں سے ’  مجھ کو ‘ یا ’ تجھ کو ‘ محذوف ہے۔ اگر ’ مجھ کو ‘  محذوف سمجھیں تو مطلب یہ ہے کہ حصولِ طرب کے بعد زوالِ طرب ہونا ایسا جانکاہ ہے کہ اس سے محرومیِ جاوید بہتر ہے۔ اور اگر ’ تجھ کو ‘  محذوف لیں تو مطلب یہ کہ تجھے عیشِ دو روزہ جو دنیا میں حاصل اس کے زوال کا تو ڈر ہے اور آخرت کی محرومیِ جاوید کا کچھ خیال نہیں۔ یہ شعرایک مثال  اس کی ہے کہ محتمل دو معنی پر یا زیادہ پر ہونا شعر کے لیے کوئی خوبی کا باعث نہیں ہوتا۔ خوبی کثرتِ معنی سے پیدا ہوتی ہے نہ احتمالاتِ کثیر سے۔ اسے سمجھو ۔

کل کے لیے کر آج نہ خسّت شراب میں

 یہ سوئے ظن ہے ساقیِ کوثر کے باب میں

            شاعر کی نظر میں کل جو آنے والا ہے وہ فرداے قیامت ہے۔ اور کل جو گذر گیا وہ روزِ الست ہے اور اوپر کا لفظ جو آئے گا تو فلک الافلاک پر خیال پہنچے گا اور نیچے کے لفظ سے تحت الثریٰ کی طرف ذہن منتقل ہوگا۔ جام کے ساتھ جمشید کا تصوّر کرے گا اور خُم کا لفظ آتے ہی فلاطون یاد آ جائے گا۔ عصا اگر تھا تو موسیٰؑ ہی کے پاس تھا ، اور زرہ اگر ہے تو داؤد ہی کے لیے ہے۔ انگوٹھی پر سلیمان ہی کا نام کھدا ہوا ہے اور آئینہ سکندر ہی کے سامنے لگا ہوا ہے۔ دنیا میں اگر کوئی  دیوار ہے تو سدِّ سکندر ہے اور طاق ہے تو طاقِ کسریٰ ہے۔ غرض کہ شاعر کا موضوعِ کلام وہی ہونا چاہیے جو بہت مشہور ہے۔

 ہے کیا جوکَس کے باندھیے ، میری بلا ڈرے

کیا جانتا نہیں ہوں تمھاری کمر کو میں

            اس شعر میں ’ میں ‘ کی لفظ کو ذرا لہجے میں ممتاز رکھنا چاہیے اور اس سے معنیِ زاید پیدا ہوں گے کہ:’ کوئی   اور بھی نہیں ، میں ‘ اور پھر اسی معنی کو ایک اور معنی کے ساتھ ملازمت ہے کہ اس کی تصریح کو قلم انداز کرنا بہتر ہے۔

 

کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہلِ بزم

 ہو غم ہی جاں گداز تو غم خوار کیا کریں

شمع کا ذکر محض تمثیل ہے ، غرض اپنے حال سے ہے۔

 

قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشتِ قیس میں آنا

تعجّب سے وہ بولا : یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں ؟

            یعنی لیلیٰ کے اس فعل پر اس نے تعجب کیا ، اور تعجب کرنے کو یہ معنی لازم ہیں کہ شرم و حیا کے خلاف سمجھا، اور اس فعل کو شرم و حیا کے خلاف سمجھنے سے یہ معنی لازم آئے کہ لیلیٰ پر اس نے تشنیع کی، اور تشنیع کرنے سے یہ بات لازم آئی کہ عاشق کی خبر لینے میں خود اس کو شرم و حجاب مانع ہے۔ غرض کہ اس شعر میں بلاغت کی وجہ یہی سلسلۂ لزوم ہے۔ حاصل یہ ہوا : قیامت ہے کہ عاشق کی خبر گیری میں بھی وہ حجاب کرتا ہے۔

نظر لگے نہ کہیں اس کے دست و بازو کو

 یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں

            یعنی اس کی ناوک فگنی  و قدر اندازی کونظر نہ لگے۔ اور اس شعر کی خوبی بیان سے باہر ہے۔ بڑے بڑے مشاہیر شعرا کے دیوانوں میں اس کا جواب نہیں نکل سکتا۔

 

کبھی جو یاد بھی آتا ہوں میں تو کہتے ہیں

 کہ آج بزم میں کچھ فتنہ و فساد نہیں

            ’  بزم  ‘ کا لفظ اس شعر میں مقتضائے مقام سے گرا ہوا ہے۔ اس سبب سے کہ مصرع معشوق کی زبانی ہے اور اس کے محاورے کی نقل ہے ،  اور لفظ ’  بزم ‘ اس کے محاورے کا لفظ نہیں ہے۔ لیکن اصل یہ ہے کہ محاورے میں اس قدر احتیاط کوئی نہیں کرتا۔

 علاوہ عید کے ملتی ہے اور دن بھی شراب

 گداے کوچۂ مے خانہ نامراد نہیں

            پہلا مصرع فقیروں کا لہجہ ہے کہ بھئی وہاں جمعرات کے سوا اور دن بھی کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے۔

جہاں میں ہو غم و شادی بہم ، ہمیں کیا کام

دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کہ شاد نہیں

            دنیا میں غم و شادی کا بہم ہونا اس مقام پر ذکر کرتے ہیں جہاں دنیا کی سرور و خوشی سے نفرت ظاہر کرنا۔منظور ہو۔ اس شعر میں مصنف نے تازگی یہ پیدا کی ہے کہ غم و شادی کے بہم ہونے پر حسرت ظاہر کی ہے۔ کہتے ہیں  : ’ ہمیں کیا کام ‘ یعنی ہم تو محروم ہیں ، ہم کو تو کبھی ایسی خوشی بھی حاصل نہیں ہوئی جو غم سے متصل ہو۔ اور شادی مخلوط بہ غم کی حسرت کرنے سے یہ معنی نکلتے ہیں کہ شاعر کو انتہا کی غم زدگی ہے کہ ایسی ہیچ  و ناکارہ خوشی کی تمنا ّ رکھتا ہے۔ اور یہی وجہِ بلاغت ہے اس شعر میں۔

 

سب کہاں ، کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں

   خاک میں کیا صورتیں ہوں گی جو پنہاں ہوگئیں

            دوسرا مصرع اصل میں یوں ہے کہ کیا صورتیں ہوں گی کہ خاک میں پنہاں ہو گئیں۔ ضرورتِ شعر کے لیے متعلق اور اس کے فعل میں اجنبی کو فاصل لائے ہیں۔مطلب یہ ہے کہ لالہ و گل انھیں حسینوں کی خاک ہے جو خاک میں مل  گئے۔

            (استدراک:۔ اگست ۱۸۵۲؁ ع میں مرزا نور الدین بہادر متخلص بہ شاہیؔ نے لال قلعے میں مشاعرہ منعقد کیا تھا۔ اس میں مرزا صاحب(غالبؔ) نے (یہ ) بے نظیر طرحی غزل پڑھی تھی۔ اور منشی نبی بخش حقیرؔ کو اس کی نقل روانہ کرتے ہوئے لکھا تھا :  ’ بھائی،  خدا کے واسطے غزل کی داد دینا۔ اگر ریختہ یہ ہے تو میرؔ و مرزاؔ کیا کہتے تھے ؟ اگر وہ ریختہ تھا تو پھر یہ کیا ہے ؟‘۔۔ نسخۂ عرشی ص ۵۱۔۔ )

 یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں

 لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہوگئیں

            اس شعر میں ’  بھی  ‘ کا لفظ دیکھنے کا ہے۔ یہ دو حرف کا لفظ اگر اس شعر سے نکال ڈالا جائے تو کس قدر معنیِشعر میں کمی ہوجاتی ہے۔ اور اس ایک لفظ سے کتنے معنیِ زاید کی طرف اشارہ نکلتا ہے۔ وہ معنیِ زاید یہ ہیں کہ : جس طرح تم لوگ رنگا رنگ جلسے کیا کرتے ہو کبھی ہم کو بھی ان صحبتوں کا شوق تھا لیکن اب ہمارا حال دیکھ کر تم کو عبرت کرنا چاہیے کہ شباب کو قیام نہیں ہے۔

 تھیں بنات النّعشِ گردوں دن کو پردے میں نہاں

 شب کو ان کے جی میں کیا آئی جو عریاں ہوگئیں

            تاروں کے کھلنے کی کیفیت بیان کرتے ہیں اور اس کو عریاں ہو جانے سے تعبیر کیا ہے۔ بنات النعش اُتّر کے طرف سات ستارے ہیں ، چار ستارے ان میں جنازہ ہیں اور تین جنازہ کے اٹھانے والے ہیں  ’ بنات ‘ کی لفظ سے یہ دھوکا نہ کھانا چاہیے کہ عرب ان کو لڑکیاں سمجھتے ہیں بلکہ بات یہ ہے کہ جنازہ اٹھانے والے کو عرب ابن النعش کہتے ہیں اور ابن النعش کی جمع بنات النعش ان کے محاورے میں ہے جس طرح ابن آوےٰ ا ور ابن العرس ، جب جمع کریں گے بنات آوےٰ اور بنات العرس کہیں گے۔ اسی طرح  بیر بہٹی کو مثلاُ ابن المطر کہیں گے اور اس کی جمع بنات المطر بنائیں گے اور عربی میں یہ ضابطہ کلیہ ہے۔ ایسی بہت سی لفظیں ہیں اور ان کے جمع کا بھی یہی خاص طریقہ ہے۔ لیکن بدرؔ چاچ نے بھی اس لفظ میں تسامح کیا ہے۔ کہتے ہیں ، شعر   ؂                                                                                                                                 

در سیاست گاہِ قہرش بر فضاے کاینات

 قطب را دایم جنازہ برسرِ سہ دختر است

 

نیند اس کی ہے ، دماغ اس کا ہے ، راتیں اس کی ہیں

تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہوگئیں

            زلفوں کے پریشان ہونے سے کنایہ کیا ہے جوشِ اختلاط و کثرتِ بوس و کنار کی طرف۔ اس میں شک نہیں کہ یہ شعر بیت الغزل ہے اور کار نامہ۔

جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا

سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگِ جاں ہوگئیں

            ’  گویا  ‘ کا لفظ اکثر اشعار میں بھرتی کا ہوا کرتا ہے لیکن اس شعر میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں سے اگر یہ لفظ نکال ڈالا جائے تو مبالغہ حدِ امکان سے تجاوز کر جائے اور مطلب یہ ہو کہ لکیریں سچ مچ  رگِ جاں بن گئیں۔ اور قواعدِ بلاغت میں ایسا مبالغہ جو حد امکان سے بڑھ جائے اسے غیر ممدوح سمجھتے ہیں۔ لیکن اکثر شعرا اس زمانے میں بے تکلف ایسے مبالغے اور اغراق کہا کرتے ہیں بلکہ اسے صنعت سمجھتے ہیں۔ مصنف نے یہاں مبالغے کے گھٹانے کے لیے ’ گویا ‘ کا لفظ صَرف کیا ہے جو کہ ظن و تخمین و اشتباہ پر دلالت کرتا  ہے۔  نہیں تو مصرع یوں پورا ہو سکتا تھا ، مصرع: سب لکیریں ہاتھ کی اس کے رگِ جاں ہوگئیں۔

 ہم موحد ہیں ، ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم

 ملّتیں جب مٹ گئیں اجزاے ایماں ہوگئیں

            ہم موحد ہیں یعنی وحدتِ مبدٔ کے قایل ہیں اور اس کی ذات کو واحد سمجھتے ہیں۔ یہی سبب سلبیات کہ ان کے اعتقاد سے اور سب ملّتیں باطل ا ور محو ہو جاتی ہیں عین اجزائے توحید ہیں۔

 

دیر نہیں ، حرم نہیں ، در نہیں ، آستاں نہیں

 بیٹھے ہیں رہگذر پہ ہم ، غیر ہمیں اٹھائے کیوں

اس شعر کی تعریف کے لیے الفاظ نہیں مل سکتے۔

 

واں وہ غرور و عزٍ و ماز۔ یاں یہ حجابِ پاسِ وضع

راہ میں ہم ملیں کہاں ، بزم میں وہ بلائے کیوں

لف و نشر مرتّب ہے۔

 ہوا چرچا جو میرے پاؤں کی زنجیر بننے کا

 کیا بیتاب کاں میں جنبشِ جوہر نے آہن کو

لفظ  کان  ‘ میں اعلانِ نون نہ ہونا یہاں برا معلوم ہوتا ہے۔

دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پانو

 رکھتا ہے ضد سے کھینچ کے باہر لگن کے پانو

            آج کل کے رسمِ خط میں پاؤ ں میں نون واو سے موخر لکھا جاتا ہے اور یہ غزل اس اعتبار سے نون کی ردیف میں ہونا چاہیے تھی۔ لیکن بعض شعراے دہلی کو اس میں اصرار ہے کہ پاؤں میں نون ، واو سے مقدم ہے۔ مگرقائم  ؔکے اس شعر میں عجب طرح سے پاؤں کا لفظ موزوں ہو گیا ہے   ؂    

 تو کرتا ہے پاؤں سے سر کی تمیز

ہے اپنی جگہ پاؤں سر سے عزیز

اب پہلے مصرع میں اگر’  پانو  ‘لکھیں تو موزوں نہیں رہتا۔

بھاگے تھے ہم بہت ، سو اسی کی سزا ہے یہ

 ہو کر اسیر دابتے ہیں راہ زن کے پانو

            اس شعر کے جو معنی کہ حقیقی ہیں وہ تو شاعر کا کلام نہیں معلوم ہوتے ، ہاں اگر یہ سب باتیں استعارہ سمجھو تو وہ بھی صاف نہیں ہے۔

شب کو کسی کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں

  دُکھتے ہیں آج اس بتِ نازک بدن کے پانو

            نزاکت کے بیان میں اغراق ہے کہ خواب میں جانے سے پاؤں دُکھتے ہیں۔

ہمیں پھر ان سے امید اور انھیں ہماری قدر

 ہماری بات ہی پوچھیں نہ وو تو کیونکر ہو

            یعنی ہمیں امید کیونکر ہو اور انھیں قدر کیونکر ہو۔ بندش میں تعقید ہے اور ’  وہ  ‘ کی ’  ہ  ‘ کو قافیے کے لیے  وا و  بنا  لیا ہے اس لیے کہ یہ  ’  ہ  ‘ تلفظ میں نہیں ہے بلکہ اظہارِ حرکتِ ما قبل کے لیے ہے۔

 وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ، ہم اپنی  وضع کیوں چھوڑیں

 سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو

            اس نظم نے وہ بندش پائی ہے کہ نثر میں بھی ایسے بر جستہ فقرے نہیں ہو سکتے۔

  وفا کیسی ؟کہاں کا عشق؟ جب سر پھوڑنا ٹھہرا

 تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو

            یہ شعر رنگ و سنگ میں گوہرِ شاہوار ہے۔ ایک نکتہ یہ خیال کرنا چاہیے کہ یہاں مخاطب کے لیے دو لفظوں کی گنجایش وزن میں ہے۔ ایک تو ’ بے وفا ‘  دوسرے ’ سنگ دل ‘۔ اور بے وفا کا لفظ بھی مناسبت رکھتا ہے، معنی ً اور لفظاً۔۔ اس سبب سے کہ اولِ شعر میں ’ وفا ‘ کا لفظ بھی گذر چکا ہے اور سنگ دل کا لفظ بھی معنی ً وہی مناسبت رکھتا ہے اور لفظاً بھی ویسی ہی مناسبت ہے۔ اس سبب سے کہ آخرِ شعر میں  ’سنگِ آستاں ‘ کا لفظ موجود ہے۔ لیکن مصنف نے لفظ’ بے وفا ‘ کو ترک کیا اور ’ سنگ دل ‘ کو اختیار کیا۔ باعثِ رجحان کیا ہوا؟ باعثِ ترجیح یہاں نزدیکی ہے اور لفظ ’بے وفا‘ کو’ وفا ‘سے بہت دوری تھی۔

 

قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم

 گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو؟

            اس قدر معانی ان دو مصرعوں میں سما گئے ہیں !۔۔۔ علاوہ اس کثرتِ معانی کے اُس مضمون نے جو دوسرے مصرع میں ہے تمام واقعے کو کیسا دردناک کر دیا ہے۔.. غرض کہ یہ شعر ایک مثال ہے دو بڑے جلیل الشّان مسٔلوں کی جو کہ آدابِ کاتب و شاعر میں اہم اصول ہیں۔ ایک مسٔلہ تو یہ کہ      خیر الکلام ما  قلّ  و دل  اور  دوسرا  مسٔلہ یہ کہ  الشعر کلام ینقبض بہ النّفس و ینبسط  اور یہاں انقباضِ خاطر کا اثر پیدا ہوا ہے۔

 یہ کہہ سکتے ہو’ ہم دل میں نہیں ہیں ‘ پر یہ بتلاؤ

 کہ جب دل میں تمھیں تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو؟

            ’  یہ  ‘ پہلے مصرع میں استفہامِ انکاری ہے ، یعنی یہ توتم نہیں کہہ سکتے کہ ہم دل میں نہیں ہیں۔

کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی

 بجا کہتے ہو ، سچ کہتے ہو ، پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو

            فقط خاطر سے ’ کیوں ہو‘  اس مقام پر مصنف نے استعمال کیا ہے ورنہ ایسے مقام پر یوں کہتے ہیں کہ ’ رسوائی کیوں ہونے لگی ‘۔ تاہم بندش اس کی سحر کے مرتبہ تک پہنچ گئی ہے۔

 رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو

ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

            ’ اب ‘ کا لفظ یہ کہہ رہا ہے کہ جو لوگ ہمدم و ہم سخن اور ہمسایہ و ہم وطن ہیں ان سے رنج پہنچاہے۔

 ہے سنگ پر براتِ معاشِ جنونِ عشق

یعنی ہنوز مِنّتِ طفلاں اٹھائیے

فرمان اور حکم نامہ وغیرہ کو برات کہتے ہیں۔

( ’ برات تنخواہ کی چٹھی کو کہتے ہیں ‘  مرآۃ الغالب از سید وحید الدین بیخودؔ دہلوی )

 

   دیوا ر بارِ منّتِ مزدورسے ہے خم

 اے خانماں خراب نہ احساں اٹھائیے

            دیوار کا خم ہونا اور پھر بارِ احسان سے ، دونوں باتوں میں صنعتِ ادّعاے شاعرانہ ہے۔

  سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری

 تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے

مصوری کنایہ ہے شاعری سے۔

    مۓ عشرت کی خواہش ساقیِ گردوں سے کیا کیجے

لیے بیٹھا ہے اک دو چار جامِ واژگوں وہ بھی

’ اک، دو ، چار ‘۔۔۔ سات آسماں ہوئے۔

 ہے دورِ قدح  وجہِ پریشانیِ صہبا

  یک بارلگادو  خمِ مے میرے لبوں سے

            کثرتِ مے خواری میں مبالغہ کرنا شعرا کی عادت قدیم سے چلی آتی ہے۔ مصنف نے بھی تقلیداً کہہ دیا ورنہ یہ مضمون کوئی لطف نہیں رکھتا۔

            (استدراک:۔ اساتذۂ فن کے مذاقِ شعری کا اختلاف بھی دلچسپ اور سبق آموز ہوتا ہے۔ یہی شعر جس کے لیے علّامہ نظمؔ طباطبائ نے لکھا ہے کہ ’ یہ مضمون کوئی لطف نہیں رکھتا ‘  حضرتِ بیخودؔ دہلوی کے نزدیک لایقِ داد ہے۔ فرماتے ہیں :۔۔۔  ’اپنے مطلب کی بات اس خوبی سے اور دلیل کے ساتھ بیان کرنی لطف سے خالی نہیں ‘۔[مرآۃ الغالب ، ص ۲۰۹  ] ذکا صدّیقی )

 

 تا ،ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا

 سن لیتے ہیں ، گو ذکر ہمارا نہیں کرتے

            اس شعر میں مصنف نے معشوق کے مزاج کی اس حالت کو نظم کیا ہے جو انتہائی درجے کے بگاڑ میں ہوتی ہے یعنی خفگی بھی نہیں ظاہرکرتاکہ معذرت کریں ، نفرت بھی نہیں ظاہر کرتا کہ شکایت کریں ، اظہارِ ملال بھی نہیں کہ منا لیں۔ گویا کہ ہمارے اس کے کبھی کی ملاقات ہی نہ تھی۔

            اس قسم کی حالتوں کا نظم کرنا اوقع فی النفس ہوا کرتا ہے اور یہ بڑی مرتبے کی شاعری ہے۔ گو کہ بیان اور بدیع کی کوئی خوبی اس میں نہیں ہے۔ شیخ الرۓس نے ’ ’شفا ‘‘ میں شعر کے لذیذ ہونے کا سبب وزن کے علاوہ محاکات یعنی شاعر کے نقشہ کھینچ دینے کو لکھا ہے۔۔۔۔  شاعری وہی اچھی ہے جس میں مصوّری کی شان نکلے۔ بہت بڑھا ہو ا  وہی شعر ہے جس میں معشوق کے کسی انداز یا کسی ادا کی تصویر کھینچی ہوئی ہو۔ بلکہ معشوق کی کیا تخصیص ہے۔ دیکھو خور شید  ؔمرحوم نے طیور کا نقشہ دکھادیا ہے    ؂

چٹکی کلی تو رہ گئے پر تو لتے ہوئے

 پتی ہلی تو مل کے اڑے بولتے ہوئے

            اس بیت میں طیور کی ادا ہے معشوق کی بھی نہیں مگر محاکات پائی جاتی ہے ، اس سبب سے کس قدر لذیذ ہے۔

 غالبؔ، ترا احوال سنا دیں گے ہم ان کو

 وہ سن کے بلا لیں یہ اجارہ نہیں کرتے

            شعر تو بہت صاف ہے لیکن اس کے وجوہِ بلاغت بہت دقیق ہیں۔  بیچ والوں کا کہنا ہے  ’ سنا دیں گے ہم ان کو ‘  اس فقرے نے عاشق کے اصرارِ بے تابانہ کی تصویر کھینچی ہے۔ ایک تو کلام کا کثیر المعنی ہی ہونا وجوہِ بلاغت میں سے بڑی وجہ ہے ، پھر اس پر یہ ترقّی کہ ادھر معشوق کی تمکنت و ناز ، اِدھر عاشق کی بیتابی و اصرار کی دونوں تصویریں بھی اس شعر میں سے جھلکی دکھلا رہی ہیں۔

 

حالانکہ ہے یہ سیلیِ خارا سے لالہ رنگ

 غافل کو میرے شیشے پہ مے کا گمان ہے

            پتھر کی چوٹ سے شیشے کا ٹوٹنا سب باندھتے ہیں ، چوٹ کھا کر سرخ ہو جانا خلافِ واقع ہے۔ اس شعر میں صدرِ کلام میں لفظِ ’ حالانکہ ‘ خبر دیتا ہے کہ مصنف نے پہلے نیچے کا مصرع کہہ لیا ہے اس کے بعد مصرعِ بالا بہم پہنچایا ہے۔

 

 ہستی کا اعتبار بھی غم نے مٹا دیا

 کس سے کہوں کہ داغ ، جگر کا نشان ہے

            ۔۔۔ کبھی ہم بھی جگر رکھتے تھے اور اس کی نشانی داغ اب تک موجود ہے تو کسی کومیرے کہنے کا اعتبار نہیں آتا۔ یہ مضمون بہت نیا اور خاص مصنفِ مرحوم کا نتیجۂ فکر ہے۔

 پینس میں گذرتے ہیں وہ کوچے سے جو میرے

 کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے

            کندھا اور کاندھا دونوں طرح بولتے ہیں۔ بدلنے کے ساتھ کندھا کہتے ہیں اور دینے کے ساتھ کاندھا محاورہ ہے۔

خزاں کیا ، فصلِ گل کہتے ہیں کس کو ، کوئی موسم ہو

 وہی ہم ہیں ، قفس ہے  ،اور ماتم بال و پر کا ہے

            اس شعر کی بندش میں یہ حسن ہے کہ چھ جملے دو مصرعوں میں آ گئے ہیں۔ اور اداے معانی میں یہ حسن ہے کہ بلبل کی زبانی شکایتِ اسیری ہے۔ اور شکایت میں اطناب لطف دیتا ہے تو معنیِ قلیل کو الفاظِ کثیر میں یہاں مصنف نے ادا کیا ہے۔ اور اطناب کا زیادہ لطف اسی میں ہوتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے جملے بہت سے ہوں نہ یہ کہ ایک طولانی جملہ ہو۔ گویا اس میں الفاظ زیادہ تر ہوں مگر اطناب کا لطف نہیں پیدا ہوتا۔

   مستانہ طے کروں ہوں رہِ وادیِ خیال

 تا باز گشت سے نہ رہے مدّعا مجھے

            یعنی چاہتا ہوں کہ اپنے خیال میں ایسا غرق ہوں کہ پھر نہ اُبھر سکوں۔

شوق کو یہ لت کہ ہر دم نالہ کھینچے جائیے

 دل کی وہ حالت کہ دم لینے سے گھبرا جاۓہے

            ’ لت ‘ کہتے ہیں بد عادت اور بری علّت کو۔ یہ لفظ فحش سے خالی نہیں ، اور یہ اس کا محلِّ استعمال نہ تھا مگر مصنف نے لفظ حالت کے سجع کو خیال کیا۔

 

ہو کے عاشق وہ پری رخ اور نازک بن گیا

 رنگ کھلتا جائے ہے جتنا کہ اڑتا جائے ہے

            عشق میں رنگ سفید ہونے کو رنگ کے کھلنے سے تعبیر کیا ہے۔

 غنچہ تا شگفتن ہا برگِ عافیت معلوم

  با وجودِ دل جمعی خوابِ گل پریشاں ہے

            یعنی کلی جب تک کھلے کھلے ساز و برگِ عافیت کا حاصل ہونا یعنی آفت سے اس کا محفوظ رہنا کہاں سے معلوم ہے۔ جب یہ حال ہوا تو گل کو با وجود دل جمعی پریشانی ہے۔ اور غنچہ کو دل سے تشبیہ ہے اور جمعیتِ دل کی صورت بھی اس سے ظاہر ہے۔ اسی طرح گلِ شگفتہ کی پنکھڑیوں کا بکھرا ہوا  ہونا پریشانی کی صورت ظاہر کر رہا ہے ،  اور گل کی خاموشی و بر جا ماندگی خواب کا عالم دکھا رہی ہے  غرض کہ یہ تینوں حالتیں گل پر طاری رہتی ہیں تو باوجودِ دل جمعی خوابِ گل پریشاں رہتا ہے اور سبب پریشانی کا یہ ہے کہ اسے اندیشہ ہے کہ دیکھیے ساز و برگِ عافیت اس دارِ بلا میں ممکن ہے یا نہیں۔

 اُگ رہا ہے در و دیوار پہ سبزہ غالبؔ

 ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہارآئی ہے

            اس شعر میں بیان و بدیع کی کوئی خوبی نہیں ہے ، لیکن صاف صاف لفظوں میں حالتِ دیوانگی کی ایسی تصویر کھینچی ہے کہ جواب نہیں۔

آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی

 اب کسی بات پر نہیں آتی

            یہ وہ شعر ہے کہ میرؔ کو بھی جس پر رشک کرنا چاہیے۔ افسردگیِ خاطر کو کس عنوان سے بیان کر دیا ہے اور کیا خوب شرح کی ہے۔

  مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی

 موت آتی ہے پر نہیں آتی

            پہلا مرنا مجاز ہے کثرتِ شوق کے معنی پر ، اور دوسرا مرنا معنیِ حقیقی پر ہے۔

دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے

 آخر اس درد کی دوا کیا ہے

            استفہام یہاں اس غرض سے نہیں ہے کہسائل حال سے ناواقف ہے ، دریافت کرنا چاہتا ہے۔ بلکہ استفہام سے یہاں محض زجر و ملامت مقصود ہے۔

 

 کہتے تو ہو تم سب کہ بتِ غالیہ مو آئے

یک مرتبہ گھبرا کے کہو کوئی کہ وو آئے

            انصاف تو یہ ہے کہ بادشاہ کا مطلع اس سے کہیں بڑھا ہو ا ہے    ؂

 

یا آئے اجل ، یا صنمِ عربدہ جو آئے

  ایسانہ ہو یا رب کہ نہ یہ آئے نہ و وآئے

            ( استدراک :۔ مرزا صاحب نے منشی نبی بخش حقیرؔ کو ایک خط میں یہ غزل لکھ کر بھیجی ہے اور لکھا ہے: ’ ’داد دینا کہ اگر ریختہ  پایۂ سحر یا اعجاز کو پہنچے ، تو اس کی یہی صورت ہوگی یا اور کچھ شکل؟‘ ‘  بحوالۂ نسخۂ عرشی ، ص ۳۱۶ )

  رگِ لیلیٰ کو خاکِ دشتِ مجنوں ریشگی بخشے

اگر  بووے  بجاۓ دانہ  دہقاں  نوک نشتر کی

            اس شعر میں لیلیٰ کی فصد کھلنے کا اور مجنوں کی رگِ دست سے خون جاری ہونے کا جو قصہ مشہور ہے اس کی طرف تلمیح ہے۔ اور احتمالِ غالب یہ ہے کہ مصنف نے خاکِ دستِ مجنوں کہا ہے۔ کاتب نے نقطے دے کر دشت بنا دیا۔ بہر حال حاصل یہ ہے کہ اگر دستِ مجنوں میں دانے کے بدلے نوکِ نشتر کو بوئیں تو وہاں سے رگِ لیلیٰ اُگے۔ اس قدر اتحاد عشق نے عاشق و معشوق میں اور نشتر و رگ میں پیدا کر دیا ہے۔ ( استدراک :۔  نسخۂ عرشی میں دوسرے مصرع میں ’ بو دے ‘ ہے بجاے ’ بووے ‘  ص ۲۶۳ )

کروں بیدادِ ذوقِ پر فشانی  عرض ، کیا قدرت

کہ طاقت اڑگئی  اڑنے سے پہلے میرے شہپر کی

            یعنی پھڑک نہیں سکتا اس سبب سے کہ شہپر میں طاقت نہیں۔ یہ شعر بر سبیلِ تمثیل ہے۔

لکھتے رہے جُنوں کی حکایاتِ خوں چکاں

 ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

            کسی امر کی سزا میں ہاتھ قلم ہونا یہ مضمون دوسرے مصرع کا ہے۔ اور پہلے مصرع میں شاعر کے ذمّے یہ بات ہے کہ اسے بیان کرے جس سبب سے ہاتھ قلم ہوئے۔

            ( اس شعر کی تشریح کے ذیل میں علّامہ نظم  ؔ طباطبائی نے مصرع لگانے کے فن پر نہایت مفید اور دلچسپ گفتگو کی ہے۔ اس کی افادیت کے پیشِ نظر وہ پوری گفتگو ایک مستقل مضمون کی صورت میں اس کتاب کے شروع میں درج کر دی گئی ہے۔ ذکاؔ )  

 

اہلِ ہوس کی فتح ہے ترکِ  نبردِعشق

 جو پانو اُٹھ گئے وہی ان کے علم ہوئے

            پاؤں اٹھنے کو علم اٹھنے سے تعبیر کرنا نہایت تکلف ہے۔ اس مضمون کو یوں کہنا تھا : اٹّھا وفا سے ہاتھ تو اونچے علم ہوئے۔

جو نہ نقدِ داغِ دل کی کرے شعلہ پاسبانی

 تو فسردگی نہاں ہے بہ کمینِ بے زبانی

             شعلہ کی تشبیہ زبان سے مشہور ہے۔۔۔۔  ’ داغ ‘ کو نقد کہا یعنی روپیے اشرفی سے اسے تشبیہ دی۔۔۔   یہ تشبیہیں نہایت لطیف ہیں لیکن حاصل شعر کا دیکھو تو کچھ بھی نہیں۔’ جو نہ نقد داغ ‘ میں دونوں متعاقب عیبِتنافر رکھتے ہیں۔اور دو دالیں بھی جمع ہوگئی ہیں۔ یہ بھی ثقل سے خالی نہیں۔ اس کا معیار  ائمّۂ. ادب نے مذاقِ صحیح کو قرار دیا ہے۔ بعض لوگوں کو تنافر نہیں محسوس ہوتا۔ یہاں د و’  نون ‘  جمع ہونا تنافر رکھتا ہے اور دو دالیں متعاقب اس قدر بری نہیں معلوم ہوتیں۔ اگر مصرع یوں ہوتا:  ع ۔۔        کرے نقدِ داغِ دل کی جو نہ شعلہ پاسبانی ۔۔۔  تو پھر تنافر نہ تھا۔ 

 یا شب کو دیکھتے  تھے کہ ہر گوشۂ بساط

 دامانِ  باغبان و کفِ گل فروش ہے

 لطفِ خرامِ ساقی و ذوقِ نواے چنگ

 یہ جنتِ نگاہ ،  وہ  فردوسِ گوش ہے

 یا  صبحدم جو دیکھیے آ کر تو بزم میں

نے وہ سرور وسوز نہ جوش و خروش ہے

 داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی

 اک شمع رہ گئی ہے ، سو وہ بھی خموش ہے

            رات کی وہ چہل پہل اور دل لگی اور چہلیں ، صبح کی یہ اداسی اور سنّاٹا اور ہو کا عالم۔۔۔ دو متضاد کیفیتیں ہیں۔ اُس سے سننے والے کو انبساط اور اِس سے انقباض ہوتا ہے۔ اُس سے واشد اور اسِ سے گرفتگی پیدا ہوتی ہے۔ اس قطعے میں آخر کے دو شعر اسی سبب سے زیادہ بلیغ ہیں کہ ان کا اثر گرفتگیِ خاطر ہے اور وہ گرفتگی جو  بعد واشد کے ہو اثرِ قوی رکھتی ہے۔

 

رفوئے زخم سے مطلب ہے لذّت زخمِ سوزن کی  

 سمجھیو مت کہ پاسِ درد سے دیوانہ غافل ہے

            ’  مطلوب  ‘ کے مقام پر مصنف نے ’  مطلب ‘ کو استعمال کیا ہے بہ ضرورتِ شعر۔

 دے مجھ کو شکایت کی اجازت، کہ ستمگر

کچھ تجھ کو مزہ بھی مرے آزار میں آوے

            یعنی شکایت اور فریاد میں کروں گا تو تجھے مزہ آوے گا اورلطف اُٹھے گا۔ اس زمین کا حاصل اس شعر میں آ گیا۔

 اُس چشمِ فسوں گر کا  اگر پائے  اشارہ

 طوطی کی طرح آئینہ گفتار میں آوے

             لفظ ’ سخن گو ‘ کو ترک کر کے اس کے بدلے فسوں گر اس وجہ سے کہا کہ آئینے کا باتیں کرنا خرقِ عادت و افسوں ہے۔

 دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض

 اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچّھا ہے

بہت صاف شعر ہے اور اچھا  شعر ہے۔

ہم سخن تیشے نے فرہا د کو  شیریں سے کیا

 جس طرح کا کہ کسی میں ہو کمال اچّھا ہے

         پہلے مصرع میں گنجلک ہے اور دوسرے میں تنافر۔ اور دونوں مصرعوں میں ربط بھی خوب نہیں ، اور مضمون بھی کچھ نہیں۔

 نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلّی ، نہ سہی

 امتحان اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی

            اس شعر پر اگر غالبؔ خداے سخن ہونے کا دعوےٰ کریں تو خدا گواہ ہے کہ زیبا ہے۔ پھر دیکھیے تو نہ فنِّ معانی کی کوئی خوبی ہے نہ فنِّ بیان کا کچھ حسن ہے ، نہ فنِّ بدیع کے تکلفات ہیں۔

 نفسِ قیس کہ ہے چشم و چراغِ صحرا

 گر نہیں شمعِ سیہ خانۂ لیلی ، نہ سہی

            لیلیٰ کے گھر کو سیہ خانہ نفرت کی راہ سے کہا ہے۔ یعنی جب قیس کو اس میں بار نہ ہو تو وہ گھر کیسا ؟ اس کے علاوہ نام بھی لیلیٰ ہے اور سنتے ہیں کہ سیاہ خیمے میں رہتی بھی تھی۔

 نالہ جاتا تھا پرے عرش سے میرا اور اب

 لب تک آتا ہے جو ایسا ہی رسا ہوتا ہے

            ’  میرا  ‘ اس شعر میں بے ضرورت ہے اور بیکار ہے۔ اس لفظ کی جگہ ’  پہلے ‘ کا لفظ ہوتا تو ’  اب  ‘ کے ساتھ مقابلہ کا حسن شعر میں زیادہ ہوجاتا اور مصنف کو یہاں مقابلہ ہی مقصود ہے۔

 درسِ عنوانِ تماشا بہ تغافل خوشتر

ہے نگہ رشتۂ شیرازۂ مژگاں مجھ سے

            ’ عنوان ‘ کا لفظ مبالغہ پیدا کرنے کے لیے لاۓہیں یعنی سارا تماشا تو ایک طومار ہے۔ اس کے دیکھنے کاکسے دماغ ہے۔ یہاں عنوانِ تماشا کے بھی دیکھنے سے تغافل ہے۔

غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ اگر

کوئی پوچھے کہ یہ کیا ہے تو چھپائے نہ بنے

            معشوق پر طعن کرتے ہیں کہ تونے جو غیر کو نامۂ شوق لکھا ہے وہ اس کے چھپانے میں احتیاط نہیں کرتا ، تجھے رسوا کرے گا۔ یہ مضمون بہت نیا اور سچاہے۔ ( لفظِ ’ غیر‘ کی تفصیل ’محاورہ ‘  کے ذیل میں ملاحظہ ہو )

 بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ اٹھے

کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے

            ایک تو مضمون نہایت اچّھا ، دوسرے دونوں مصرعوں کی ترکیب کو متشابہ کر کے اور بھی شعر کو برجستہ کر دیا۔

عشق پر زور نہیں ، ہے یہ وہ آتش غالبؔ

 کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

            ساری غزل مرصّع کہی ہے اور یہی رنگ غزل خوانی کا ہے۔

میکدہ گر چشمِ مستِ ناز سے پائے شکست

 موئے شیشہ دیدۂ ساغر کی مژگانی کرے

            جو چشم کہ شرابِ ناز سے مست ہو رہی ہے اس کے مقابلے میں اگر میخانے کو شکست ہو جائے تو شیشہ میں جوبال پڑ یں وہ دیدۂ ساغر کے لیے پلکیں بن جا ئیں اور ساغر اس آنکھ سے اس کی چشمِ مست کو دیکھ کر حیران ہو جائے۔۔۔ اس قدر تصنع اور مضمون کچھ نہیں !

وہ آ کے خواب میں تسکینِ اضطراب تو دے

 ولے مجھے تپشِ دل مجالِ خواب تو دے !

            پہلے مصرع میں ’ تو ‘ امکان کے معنی رکھتا ہے یعنی اس کا خواب میں آنا ممکن ہے۔ اور دوسرے مصرع میں خواب کو مہتم بالشان کرنے کے لیے ’ تو ‘ کا لفظ ہے ، یعنی خواب ہی کا آنا بڑی چیز ہے۔

    سمجھ اس فصل میں کوتاہیِ نشوونما غالبؔ

 اگر گل سرو کی قامت پہ پیراہن نہ ہو جائے

            کیا پوچھنا اس مبالغے کا کہ مبالغے کے ضمن میں ایک دلکش نقشہ دکھا دیا۔ لیکن قامتِ سرو پر گل کے پیراہن ہو جانے سے یہ مراد نہیں ہے کہ ایک گل اتنا بڑا ہو جائے کہ سرو کا پیراہن (ہو جائے )  بلکہ مصنف کی غرض یہ ہے کہ شاخہاے گل کو اس قدر نمو ہو کہ سرو کے گرد لپٹ کر پھولوں کی قبا اسے پنہا دیں۔اور اس مبالغے میں یہی خوبی ہے کہ کوئی محال بات نہیں لازم آتی۔۔۔۔  جہاں مبالغہ کرنے کے بعد کوئی نقشہ کھنچ جاتا ہے وہ مبالغہ زیادہ تر لطیف ہوتا ہے ، خصوصاً جہاں وہ نقشہ بھی معمولی نہ ہو بلکہ نادر و بدیع شکل پیدا ہو۔ اور مصنف کے اس شعر میں دونوں خوبیاں جمع ہیں۔

 کیوں نہ ہو چشمِ بتاں محوِ تغافل ، کیوں نہ ہو

 یعنی اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے

            اس بیمار کو یعنی چشمِ بتاں کو۔ ایک بات یہ بھی یہاں غور کرنے کی ہے کہ لفظِ تغافل پر مطلب تمام ہو گیا تھا مگر مصرع تمام ہونے میں کچھ بڑھانے کی ضرورت تھی۔ اور ایسی ضرورت پر جو لفظ  بڑھائے جاتے ہیں وہ اکثر بھرتی کے بے مزہ ہوتے ہیں۔ مثلاً کوئی کم مشق ہوتا  وہ یہاں پر   ’ ہر گھڑی ‘  کا لفظ یا ’  رات دن  ‘ کا لفظ ،’  ہم نشیں  ‘  وغیرہ کہہ دیتا اور یہ لفظ گودڑ کی طرح بھرے ہوئے بد نما معلوم ہوتے لیکن مصنف نے کس خوبی سے مصرع کو پورا کیا۔ یعنی ’  کیوں نہ ہو  ‘ کو مکرر لے آئے اور اس سے اور حسن بڑھ گیا۔

حسد سزاے کمالِ سخن ہے ، کیا کیجے

 ستم بہاے متاعِ ہنر ہے ، کیا کہیے

            اس شعر میں بھی حسن فقط تشابہِ ترصیع کے سبب سے ہے۔ کیا کیجے  اور کیا کہیے عاجز آنے کے مقام پر کہتے ہیں۔

  دل لگا کر آپ بھی غالبؔ مجھی سے ہو گئے

عشق سے آتے تھے مانع میرزا صاحب مجھے

            آپ بھی یعنی وہ خود بھی۔ ’ آپ ‘ یہاں محلِ خطاب میں نہیں ہے۔میرزا صاحب طعن سے کہا ہے یہاں مصنف نے صاحب کو مطلب کا قافیہ عام محاورے کی بنا پر کیا ہے کہ محاورے میں ’ ح ‘ کو مفتوح بول جاتے ہیں۔

 وہ آیا بزم میں ، دیکھو ، نہ کہیو پھر کہ غافل تھے

 شکیب  و  صبرِ اہلِ انجمن کی آزمایش ہے

            مضمون اصل میں مردہ ہے،فقط مصرع لگا کر اس میں جان ڈال دی۔ مصرع کے تین ٹکڑے کرو: وہ آیا بزم میں ، جیسے کہتے ہیں : وہ چاند ہوا۔ دیکھو :  یعنی ہشیار ہو جاؤ ،  دلوں کو سنبھال لو۔  نہ کہیو پھر کہ غافل تھے۔ یہ جملہ بھی وہی معنی رکھتا ہے جو دیکھو کی لفظ میں ہیں۔ یعنی یہ جملہ اس جملے کی تاکید ہے۔ اور حسن شعرمیں اسی تاکید سے بہت پیدا ہو گیا ہے اور ’ وہ ‘ کے اشارے سے۔

اُدھر وہ بد گمانی ہے، اِدھر یہ ناتوانی ہے

نہ پوچھا جائے ہے مجھ سے نہ بولا جائے ہے مجھ سے

            اس شعر میں ترکیب کے تشابہ اور الفاظ کے تقابل سے حسن بہت پیدا ہو گیا ہے۔

 جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور

 جز وہم نہیں ہستیِ  اشیا مرے آگے

            یعنی عالم کا نام ہی نام ہے۔ صورت اس کی مرئی و مبصر نہیں۔ منظور عربی لفظ ہے لیکن جس معنی پر مصنف مرحوم نے اسے باندھا ہے اس معنی پر عربی میں اس کا استعمال نہیں ہے ایک شعر نون کی ردیف میں گذر چکا ہے      ؂

 شاہدِ ہستیِ مطلق کی کمر ہے عالم

 لوگ کہتے ہیں کہ ہے ، پر ہمیں منظور نہیں

 مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے

 تو دیکھ کہ کیا  رنگ ہے تیرا مرے آگے

            ’  تیرا مرے آگے ‘ کی جگہ اگر ’  میرا ترے آگے ‘  ہوتا تو شعر کا حسن بہت زیادہ ہو جاتا مگر زمین خلاف ہونے سے مصنف نے اُلٹ دیا اور اس میں بھی ایک معنی پیداہوئے کہ تو اپنی بے اعتنائی یا حسن کو میری آنکھ سے دیکھ اور اسی پر قیاس کر لے کہ تیری مفارقت میں میرا کیا حال ہوتا ہوگا۔

خوش ہوتے ہیں ، پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے 

  آئی شبِ ہجراں کی تمنا ّ مرے آگے

            یہ شعر اس زمین میں بیت الغزل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ شبِ ہجراں میں جو میں نے مرنے کی تمنا کی تھی آج وہ بڑا بول میرے آگے آیا کہ وصل کی خوشی میں مر گیا۔ وصل کی خوشی میں مر جانا اور لوگ بھی باندھا کرتے ہیں مگر یہ بات ہی اور ہے اور ساری کرامات محاورے اور زبان کی ہے جس نے مرنے کے مضمون کو زندہ کر دیا۔ فکرِ غالبؔ کے کارناموں میں یہ شعر بھی شمار کرنا چاہیے۔

گو ہاتھ کو جنبش نہیں ، آنکھوں میں تو دم ہے

 رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

            یہ شعر بھی مصنف کے جیّد اشعار میں مشہور ہے مگر ’  تمنّا ‘  والے شعر کو نہیں پہنچتا۔

 کرنے گئے تھے اس سے تغافل کا ہم گلہ

 کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہو گئے

 ’ کرنا ‘  اُس سرے پر ، اور ’  گلہ  ‘ اِ س سرے پر ثقل سے خالی نہیں۔

عرضِ نازِ شوخیِ دنداں برائے خندہ ہے

 دعویِ جمعیتِ احباب جائے خندہ ہے

            دانتوں کو اپنی شوخی و خوبی پر ناز ہے۔ اس کا ظاہر کرنا ہنسی ہی کے لیے ہو اکرتا ہے۔ مطلب یہ کہ ہنسنے ہی کے وقت دانت کھلتے ہیں۔ دوسرے مصرع کا مطلب یہ ہے کہ جمعیت واتفاقِ احباب پر بھروسا کرنا قابل ہنسی ہی کے ہے اور ربط یہ ہے کہ دانتوں کے چوکے کو مجمعِ احباب سے شعرا تشبیہ دیا کرتے ہیں۔ توالیِ اضافات و رکیک تکلفات اس شعر میں بھرے ہوئے ہیں۔ شوخیِ دنداں نہایت مکروہ  لفظ ہے۔ مصنف کی شوخیِ طبیعت نے ’  خوبی  ‘ کو سامنے کا لفظ سمجھ کر چھوڑ دیا ، ورنہ وہ بہتر تھا۔

ہے عدم میں غنچہ محوِ عبرتِ انجامِ گل

  یک جہاں زانو تأمل در قفائے خندہ ہے

            تأمّل و تفکّر سر بزانو ہونے سے تعلق ( رکھتا ) ہے تو تأمل کے لیے پیمانۂ مقدار مصنف نے زانو کو فرض کیا اور یہ کہا کہ غنچہ ہنسنے کے بعد اس سوچ میں ہے کہ گُل کا انجام کیا ہوگا۔۔۔  اور یہ جو کہا کہ عدم میں غنچہ ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ غنچہ جب ہنسا یعنی کھلا تو وہ گل ہو گیا اور غنچہ نہ رہا ۔۔۔  اس قسم کے شعر کو محض کلامِ موزوں اور چیستاں یا معمّےٰ وغیرہ کہہ سکتے ہیں اور انصاف یہ ہے کہ جادۂ مستقیم سے خارج ہے۔

 رونے سے اے ندیم ملامت نہ کر مجھے

 آخر کبھی تو عقدۂ دل وا کرے کوئی

            ’ سے ‘  اس شعر میں فارسی کا ترجمہ ہے۔ محاورۂ اردو کے اعتبار سے یہ ’ پر ‘ کا مقام ہے۔

چال جیسے کڑی کمان کا تیر

 دل میں ایسے کے جا کرے کوئی

            کڑی کمان کا تیر بہت تیز پرواز ہوتا ہے۔ معشوق کی بے اعتنائی کی چال کو اس سے تشبیہ دی ہے۔ اور اس شعر کا پہلا مصرع سارے کا سارا محاورہ ہے۔ اوردوسرے مصرع میں استفہام انکاری ہے یعنی ایسے کے دل میں کہیں جگہ ہو سکتی ہے ؟

 بات پر واں زبان کٹتی ہے

 وہ کہیں ، اور سنا کرے کوئی

’  کہیں  ‘ کے معنی گالیاں دینا۔

 

نہ سنو گر برا کہے کوئی

 نہ کہو گر برا کرے کوئی

 روک لو گر غلط چلے کوئی

 بخش دو گر خطا کرے کوئی

            دونوں شعروں میں تشابہِ ترکیب سے بندش میں حسن پیدا ہوا ہے اور پہلے شعر میں ’ کہنے ‘کی لفظ میں تکرار ہونا بھی لطف سے خالی نہیں۔

کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند

 کس کی حاجت  رو ا کرے کوئی

            یعنی اپنا کام نہ نکلے تو کسی کی شکایت کرنابے جا ہے۔ ہر شخص کو اپنی اپنی پڑی ہے ، دوسرا پہلو یہ ہے (کہ) سبھی حاجت مند ہیں ، کس کس کی حاجت روائی کیجیے۔ یہ نکتہ یاد رکھنے کا ہے کہ کلام میں کئ پہلو ہونا کوئی خوبی نہیں ہے بلکہ سست و نا روا ہے۔ ہاں ، معانی کا بہت ہونا بڑی خوبی ہے ، اور ان دونوں باتو ں میں بڑا فرق ہے۔

جب توقّع ہی اٹھ گئ غالبؔ

کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

     اس کی تعریف کیا کرے کوئی۔ نہایت عالی مضمون ہے جس کی تعریف نہیں ہو سکتی۔ مطلب یہ ہے کہ جس شخص سے امید منقطع ہو گئی ہو پھر اس کا گلہ کیوں کریں کہ فائدہ  تو کچھ ہوگا نہیں اور نفرت و دشمنی پیدا ہوگی۔

جوہرِ تیغ ، بہ سر چشمۂ دیگر معلوم

 ہوں میں وہ سبزہ کہ زہراب اُگاتا ہے مجھے

            مصنف مرحوم نے غفلت کی کیوں کہ ایران میں زہراب اہلِ زبان پیشاب کو بھی کہتے ہیں ، اس لفظ سے بچنا چاہیے تھا۔

نالہ سرمایۂ یک عالم و عالم کفِ خاک

آسماں بیضۂ قمری نظر آتا ہے مجھے

            آسمان پر بیضۂ قمری کی پھبتی کہی ہے کہ جس میں کفِ خاک کے سوا کچھ بھی نہیں اور اس مٹّھی بھر خاک کی قسمت میں بھی عمر بھر کی نالہ کشی لکھی ہوئی ہے۔ اگر یہ کہو کہ بیضۂ قمری کیوں کہا ، بلبل بھی ایک مشتِ خاک ہے کہ نالہ کشی کے لیے پیدا ہوئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ فارسی والے قمری کو کفِ خاکستر باندھا کرتے ہیں ، اس لیے کہ اس کا رنگ خاکستری ہوتا ہے۔صائبؔ کہتے ہیں     ؂

گر نمی خواہد کہ در پائے تو ریزدرنگِ عشق

 سرو از قمری بکف چوں مشتِ خاکستر گرفت

اور خاک اور خاکستر میں کچھ ایسا فرق نہیں ہے۔ ہاں بہ نظرِ دقیق یہ کہہ سکتے ہیں کہ نالہ کا سرمایہ عالم ، اور عالم کا مشتِ خاک ہونا مقام عبرت و حسرت ہے۔ اور ایسے مقام پر پھبتی اور دل لگی بے محل ہے۔

 آمدِ سیلاب طوفانِ صدائے آب ہے

 نقشِ پا کو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے

            سچ پوچھو تو یہ شعر بے معنی ہے اور اس سبب سے شرح سے مستغنیٰ ہے مگر تاویل میں بڑی وسعت ہے۔

 پھونکا ہے کس نے گوشِ محبت میں اے خدا

 افسونِ انتظار ، تمنّا کہیں جسے

            استفہام سے سچ مچ پوچھنا نہیں مقصود ہے بلکہ اظہارِ تعجب یا توجع منظور ہے۔

  ہے چشمِ تر میں حسرتِ دیدار سے نہاں

 شوقِ  عناں گسیختہ ،  دریا کہیں  جسے

            ’ عناں گسیختہ ‘  اس شعر میں لفظ نہیں ہے الماس جڑ دیا ہے۔ جب دوسری زبان کی لفظوں پر ایسی قدرت ہو جب کہیں اپنی زبان میں اس کا لانا حسن رکھتا ہے۔ اور ’  شوقِ عناں گسیختہ  ‘ سے جوشِ اشک مجازاً مقصود ہے کیونکہ شوق سبب ، گریہ مسبب کے محل پر سبب کو مجازاً استعمال کیا ہے۔

 نا کردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد

 یارب ، اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے

            اس شعر کی دادکون دے سکتا ہے۔ میر تقی کو بھی حسرت ہوتی ہوگی کہ یہ مضمون مرزا نوشہ کے لیے بچ رہا !

 بیگانگیِ خلق سے بیدل نہ ہو غالبؔ

کوئی نہیں تیرا تو مری جان، خدا ہے

            یعنی خدا تیرا ہے۔ اور فقط ’ خدا ہے ‘ بھی محاورہ ہے۔ ’ ہے ‘ کو خواہ تامّہ لو خواہ  ناقصہ۔

 اک خوں چکاں کفن میں ہزاروں بناؤ ہیں

 پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حور کی

            یہ شعر بھی ایسا کہا کہ کروروں میں ایک آدھ ایسا نکلتا ہے۔ آج کل کی جو زبان دلّی میں ہے اس کے بموجب کڑوڑوں پڑھنا چاہیے۔

 واعظ ، نہ تم پیو ، نہ کسی کو پلا سکو

کیا  بات ہے تمھاری شرابِ طہور کی

            ایک شخص سے خطاب کر کے فوراً جمع کی طرف ملتفت ہو جا نا نئی صورت التفات کی ہے اور نہایت لطف دیتی ہے۔

  غم کھانے میں بودا دلِ ناکام بہت ہے

 یہ رنج ، کہ کم ہے مئے گلفام ، بہت ہے

            ایک ہی مصرع میں رنج اور اس کی تفسیر ، پھر کم اور بہت کا تقابل ، جذبِ مضمون کے علاوہ یہ خوبی ہے۔

کہتے ہوئے ساقی سے حیا  آتی ہے ورنہ

ہے یوں کہ مجھے دُردِ تہِ جام بہت ہے

            شراب کی حرص کے بیان میں شعرا نے خم خالی کیے ہیں مگر ہمیشہ یہ مضمون بے کیفیت رہا۔ اس شعر کو دیکھیے کہ اس کا مضمون کیسا ہوش ربا ہے کہ اس سے بڑھ کر حرصِ مے کا بیان نہیں ہو سکتا۔

ہیں اہلِ خرد کس روشِ خاص پہ نازاں

 پا بستگیِ رسم و رہِ عام بہت ہے

            جس طرز کا یہ شعر ہے اس روشِ خاص پر مصنف کو ناز ہو تو زیبا ہے۔

گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئی

اُٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے

            اس شعر نے ایسی بندش پا ئی ہے کہ جواب نہیں۔(  یادگارِ غالب ،مطبوعہ مطبع ریاضِ ہند ، علی گڑھ ،ص ۱۴۹  اور نسخۂ عرشی ، ص ۱۱۳ ، میں پہلا مصرع :  گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئے )

 زمانہ عہد میں اس کے ہے محوِ آرایش

 بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے

            ممدوح کا نام تجمّل حسین ہے۔ اسی سبب سے زمانہ اس کے عہد میں صَرفِ تجمل و آرایش ہے۔

 

قصائد

 

 

 سامعِ زمزمۂ اہلِ جہاں ہوں لیکن

 نہ سر و برگِ ستایش نہ دماغِ نفریں

            زمزمہ کا لفظ طعن سے کہا ہے۔سر و  برگِ ستایش ، سرِ ستایش کے محل پر کہہ دیا ہے۔ یہ تکلف سے خالی نہیں۔

 نسبتِ نام سے اس کے ہے یہ رتبہ کہ رہے

 ا بداً  پشتِ  فلک  خم  شدۂ  نازِ  زمیں

            ۔۔۔ وہ حضرت ؓ  اہلِ زمیں میں سے ہیں اس سبب سے زمین کا احسان فلک پر ہوااور بارِ احسان و نازِ زمین اٹھاتے اٹھاتے پشتِفلک خم ہو گئی۔۔۔۔ حضرت کی کنیت ابو تراب ہے۔ اس سبب سے زمین فلک پر ناز کر رہی ہے کہ تراب زمین پر ہے۔ لیکن جب ابو تراب کا لفظ ذہنِ شاعر ہی میں رہ گیا تو کیونکر اس شعر کو بامعنی کہہ سکتے ہیں

 دلِ الفت نسب و سینۂ  توحید فضا

 نگہِ جلوہ پرست و نفس ِ صدق گزیں

             نگاہ کی صفت جلوہ پرست اور نفس کا وصف صدق گزیں خاتم  و نگیں کا حسن دے رہا ہے۔

 صرفِ اعدا اثرِ شعلہ و دودِ دوزخ

 وقفِ احباب گل و سنبلِ فردوسِ  بریں

            رنگینیِ گل کا شعلے سے اور پیچ و تابِ سنبل کا دھوئیں سے مقابلہ کرنا مقصود ہے۔ صَرف  و  وقف کا سجع اور اعدا  و احباب  و  دوزخ  و  فردوس کا تقابل بھی لطف سے خالی نہیں۔

 ماہ بن  ، ماہتاب بن  ، میں کون

 مجھ کو کیا بانٹ د ے گا تو انعام

            اس سارے قصیدے میں عموماً اور اس شعر میں خصوصاً مصنف نے اردو کی زبان اور حسنِ بیان کی عجب شان دکھائیہے  ایک مصرع میں تین جملے جس کے مضمون سے رشک ٹپک رہا ہے اور دوسرا مصرع طنز سے بھرا ہوا ہے۔ چاروں جملوں میں حسنِ انشا ، پھرخوبیِ نظم و بے تکلفیِ ادا !

 ہے مجھے آرزوئے بخششِ خاص

 گر تجھے ہے امید ِ رحمت ِ عام

            لفظ’ آرزو ‘ کسی قدر مقتضائے مقام سے الگ ہے۔ آرزو میں اس کے پورے ہونے کا اعتقاد نہیں ہوتا اور امید وار کو اپنی امید بر آنے کا اعتقاد ہوتا ہے۔

 مے ہی پھر کیوں نہ میں پیے جاؤں

غم سے جب ہو گئی ہو زیست حرام

            لطیفہ اس میں یہ ہے کہ مے بھی حرام ہے اور غم سے زیست بھی حرام ہے۔ پھر مے کیوں نہ پیوں کہ اس سے غم تو غلط ہو جاتا ہے۔ یعنی اگر مے کو حرام سمجھ کر اس سے پرہیز کروں تو غم کے ہاتھوں زیست حرام ہوئی جاتی ہے۔ نہایت لطیف مضمون ہے۔

  ہے ازل سے روائیِ آغاز

 ہو ابد تک رسائیِ انجام

            دعائیہ شعر ہے۔ ’ روائی ‘ بہ معنی جواز و امکان ہے۔ یہ لفظ مصنف نے فقط ’ رسائی ‘ کا سجع پیدا کرنے کے لیے بنا لیا۔ شارح کی نظر میں یہ قصیدہ،خصوصاًاس کی تشبیب،ایک کارنامہ ہے مصنف مرحوم کے کمال کا، اور زیور ہے اردو کی شاعری کے لیے۔ اس زبان میں جب سے قصیدہ گوئی شروع ہوئی ہے اس طرح کی تشبیب کم کہی گئی۔

 نقشِ پا کی صورتیں وہ  دل فریب

 تو کہے بت خانۂ آذر کھلا

            آذر فارسی قدیم میں آگ کو کہتے ہیں۔ بت خانۂ آذر سے آتش کدۂ مجوس مراد ہے لیکن آتش کدے میں سنا ہے کہ بت نہیں ہوتے ، پھر اسے بت خانہ کہتے نہیں بن پڑتا۔مگر اساتذۂ قدیم نے بھی بت خانۂ آذر باندھا ہے۔ شاید کسی آتش کدے میں زمانہ ٔ قدیم کے بت بھی ہوں گے۔ آذر بت تراش کی طرف نسبت نہیں ہو سکتی اس سبب سے کہ املا بدلا ہوا ہے۔

 ہو جہاں گرمِ غزل خوانی نفس

 لوگ جانیں  طبلۂ عنبر کھلا

            قصیدے میں شعرا غزل بھی کہہ جاتے ہیں لیکن تشبیب و تمہید میں۔ یہاں مصنف مرحوم نے مدح کہتے کہتے غزل شروع کر دی۔ غزل کے بعد پھر مدح گوئی شروع کی۔ یہ ایجاد ہے۔

 نامے کے ساتھ آگیا پیغامِ مرگ

 رہ گیا خط میری چھاتی پر کھلا

            شادی مرگ ہو جانے کا مضمون کیا خوب کہا ہے۔ یہ شعر بیت الغزل ہے۔

 مدح سے ممدوح کی دیکھی شکوہ

 عرض سے یاں رتبۂ جوہر کھلا

            ’ جوہر ‘ کا لفظ یہاں گوہر کی طرح چمک رہا ہے۔ دو معنوں کی تڑپ اس میں دکھائی دے رہی ہے۔ ایک تو محل عرض ، جو فلسفے کی اصطلاح ہے ، اور دوسرے معنی حسنِ ذاتی و خوبیِ فطری کے جو عرف میں زبان زد ہیں۔

 تیرا اقبالِترحم مرے جینے کی نوید

 تیرا اندازِ تغافل مرے مرنے کی دلیل

        یہاں ’ اقبال ‘ کے معنی رخ کرنے کے اور ملتفت ہونے کے ہیں۔

 

 دُرِ معنی سے مرا صفحہ  لقا کی داڑھی

 غمِ گیتی سے مرا سینہ امر کی زنبیل

            جس طرح لقا کی داڑھی میں موتی پروئے گئے تھے اسی طرح میرے اشعار عقدِ گوہر ہیں لیکن فکرِ دنیا کی سمائی میرے سینے میں اس قدر ہے کہ عمرو بن امیہ ضمری مہاجر کی زنبیل میرا سینہ ہو گیا ہے۔ یہاں عمرو کو مصنف نے الف سے لکھا ہے۔اور میم کو متحرک نظم کیا۔ دونوں باتیں غلط ہیں۔ ( استدراک: دیوانِ غالبؔ کے چوتھے ایڈیشن ، مطبوعہ مطبعِ نظامی ،کانپور ، ۱۸۶۲ ع ، میں ’ امر ‘ ہے ، لیکن’ مجموعۂ سخن ‘ میں ’ عمرو ‘ ہی ہے۔بہ حوالۂ نسخۂ عرشی ،  مقدمہ :ص ۱۳۵ )

            اصل امر یہ ہے کہ داستان گویوں نے مغازیِ سرورِ عالم ﷺ سن سن کر خود بھی ویسے ہی قصے بنانا چاہے تو موضوعِ داستان انھوں نے حضرت حمزہ ، عمِ رسالتمآبﷺ ، کو قرار دیا اور عمرو بن امیہ صحابی کو ان کا عیّار مقرر کیا اس سبب سے کہ حضرت حمزہ بڑے شجاع تھے اور عمرو بڑے عیّار تھے۔ ان کو آں حضرت ﷺ نے جاسوسی کے لیے مشرکینِ مکہ میں بھیجا تھا اور مشرکین نے خبیب صحابی کو سولی پر چڑھا دیا تھا۔ عمرو ان سب کی آنکھ بچا کر خبیب کو سولی پر سے چّرا لے گئے۔ اس سبب سے ان بے چارے کے لیے عیاری کا عہدہ داستان گویوں نے تجویز کیا۔ غرض کہ حمزہ اور عمرو یہ دونوں نام مغازی میں سے لیے گئے ہیں۔میں نے خود سنا ہے داستان گویوں کو اس طرح کہتے ہوئے  ’ عیّارِ عیّاراں عمرو بن امیہ ضمیری ‘ یعنی عمرو کے باپ کا اور خاندان تک کا نام داستان میں ذکر کرتے ہیں ، مصنف کو یہ دھوکا ہوا کہ جس طرح قصہ فرضی ہے ، نام بھی بے اصل ہوگا ،  عمرو نہیں امر سہی۔

 

مسی آلودہ سر انگشتِ حسیناں لکھیے

 داغِ طرفِ جگرِ عاشقِ شیدا کہیے

            بیچ کی انگلی کے بعد( چھنگلی کی طرف ) جو انگلی ہے اس کا نام عورتوں نے’ مسی کی انگلی ‘ رکھ لیا ہے اور اسی انگلی سے مسی لگانے کا دستور بھی ہے۔ یہاں محلِ مدح میں داغ سے تشبیہ کچھ بے جا نہیں ہے اس لیے کہ اگر سر انگشتِ مسی آلود حسینوں کے لیے باعثِ زینت ہے تو داغِ جگر عشّاق کے واسطے سبب ِتز ئین ہے۔

   استادِ شہ سے ہو مجھے پر خاش کا خیال

 یہ تاب ، یہ مجال ، یہ طاقت نہیں مجھے

            اس قطعے میں جس جس پہلو سے معنیِ استعطاف کو مصنف نے باندھا ہے قابل اس کے ہے کہ اہلِ قلم اس سے استفادہ کریں۔ ایسے پہلو شاعر کے سوا کسی کو نہیں سوجھتے۔ یہ عرش کے خزانے سے نکلتے ہیں اور اس کی کنجی شاعروں کے سوا کسی کے پاس نہیں۔

 

قسمت بری سہی پہ طبیعت بری نہیں

ہے شکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے

یہ شعر مصنف کی بلاغت کی سند اور استادی کی دستاویز ہے۔

صادق ہوں اپنے قول میں غالبؔ خدا گواہ

کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

            ’ کہ ‘ اس مصرع میں یا بیان کے واسطے ہے۔۔۔یعنی کہتا ہوں سچ یہ بات کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے۔۔۔یا توجیہ و تعلیل کے واسطے ہے۔۔ یعنی جو کچھ میں کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں ، جھوٹ کی مجھے عادت نہیں یعنی سچ بولنے کی  وجہ اور علّت یہ ہے کہ جھوٹ کی عادت نہیں۔ اور دونوں معنی میں سے یہی معنی مصنف کو غالباً مطلوب ہیں۔

 کیا ہی اس چاند سے مکھڑے پہ بھلا لگتا ہے

 ہے ترے حسنِ دل افروز کا زیور سہرا

            قرینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوقؔ مرحوم نے اس شعر کی چوٹ پر کئی شعر کہے ہیں۔  ’ مکھڑے ‘  کو انھوں نے بھی  باندھا ہے      ؂  

 وہ کہے صلِّ علےٰ ، یہ کہے سبحان اللہ

 دیکھے مکھڑے پہ جو تیرے مہ و اختر سہرا

سہرے کا بھلا لگنا انھوں نے اس طرح کہا ہے     ؂

سر پہ طرّہ ہے مزیّن تو گلے میں بدّھی

 کنگنا ہاتھ میں زیبا ہے تو منہ پر سہرا

پھر اس پر بھی ترقی کی      ؂

 ایک کو ایک پہ تزئیں ہے دمِ آرائش

 سر پہ دستار ہے ، دستار کے اوپر سہرا

اس میں شک نہیں کہ غالبؔ نے بے مثل شعر کہا تھا ، مگر ذوقؔ نے جواب دیا اور خوب جواب دیا۔ شعر کا جواب تو ہو گیا لیکن زیور کا قافیہ غالبؔ ہی کے حصے میں آ گیا۔ذوقؔ نے استادی کی کہ اس قافیے پر ہاتھ نہیں ڈالا۔

 ہے چار شنبہ آخرِ ماہِ صفر ، چلو

 رکھ دیں چمن میں بھر کے مئے مشکبو کی ناند

            تشبیب اس قطعے میں فقط مدح کی تمہید ہے ، ورنہ آخری  چہارشنبہ کوئی خوشی کا دن نہیں ہے۔( استدراک:۔ ’ اس قطعے میں جس رسم کی طرف اشارہ  ہے اس کی اصل یہ ہے کہ ماہِ صفر کے آخری چہار شنبے کو رسولِ پاک ﷺ بیمار ہوئے تھے۔ مسلمانوں نے اس دن دعا و استغفار اور صدقہ و خیرات کرنا شروع کیا اور باغوں میں جاکر پند و موعظت کے جلسے کرنے لگے۔ امراخیر خیرات کے علاوہ اپنے عزیزوں اور متوسلوں کو سنہری اور روپہلی چھلّے بھی تقسیم کیا کرتے تھے۔ طامس مٹکاف نے اپنی ڈائری( شائع کردہ خواجہ حسن نظامی، ص ۲۹ ،  میں جمعہ ، ۲۶ جنوری ۱۸۴۹ء ، کو اس رسم کی تفصیل لکھی ہے) نسخۂ عرشی ، ص ص ۱۴۲۔۱۴۳ )

 خانہ زاد او ر مرید اور مداح

 تھا ہمیشہ سے یہ عریضہ نگار

            لفظ ’ عریضہ ‘  مولدین کی گڑھت ہے۔ عربیِ صحیح میں ان معنی پر نہیں آیا۔

 نہ کہوں آپ سے تو کس سے کہوں

 مدّعائے ضروری الاظہار

            ’ضروری الاظہار ‘ بھی عجیب ترکیب ہے۔ ایک تو مقتضاے ترکیب یہ تھا کہ ’ ی ‘ پر تشدید ہو۔ دوسرے لفظ ’ ضروری ‘  ان معنی پر عربی میں ہے ہی نہیں۔ ایسے الفاظ پر ہندی کا حکم ہے۔ اور ترکیب میں لانا منع ہے  اور اہلِ ادب احتراز کرتے ہیں۔

کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش

 جسم رکھتا ہوں ، ہے اگرچہ نزار

            لفظ ’ پوشش ‘ اردو کے محاورے میں داخل ہے لیکن شیشہ آلات و ظروف و صندوق و منبر وغیرہ کے غلاف کو پوشش کہتے ہیں ، انسان کے لباس کو پوشش اردو کے محاورے میں نہیں کہتے۔ گو فارسی میں درست ہو یہاں پوشاک کے لفظ سے مصنف مرحوم نے اس لیے اعراض کیا کہ پوشاک میں امتیاز نکلتا تھا جو مقتضاے مقام کے خلاف ہے اور پوشش کا لفظ اختیار کیا جو انسان کے لیے ادنےٰ درجے کا لباس ہے اور یہی مقتضاے مقام و عین بلاغت ہے۔ گویابہ کنایہ اس مطلب کو ادا کیا ہے کہ         جسمِ نزار ایک ہڈّیوں کا ڈھانچاہے ، اسے پوشش درکار ہے نہ پوشاک۔

بسکہ لیتا ہوں ہر مہینے قرض

اور رہتی ہے سود کی تکرار

میری تنخواہ میں تہائی کا

ہو گیا ہے شریک ساہو کار

            ’  سود کی تکرار  ‘ سے سود در سود ہونا مقصود ہے۔  اردو میں لفظِ ’ تکرار ‘ بحث کے معنی پر بھی بولتے ہیں۔ وہ معنی یہاں نہیں مراد ہیں ورنہ تنخواہ کی تہائی سود میں نہیں لگ سکتی۔

 بزم کا التزام گر کیجے

 ہے قلم میری ابرِ گوہر بار

            مصنف مرحوم کی زبان پر ’ قلم ‘ بتانیث تھا ۔۔۔  مگر اصل یہ ہے کہ لکھنؤ و دہلی میں بتذکیر سب بولتے ہیں۔ فخرِ شعراے دہلی نؤاب مرزا خاں داغؔ کا کلام دیکھ لو۔ تعجب یہ ہے کہ ایک جگہ خود مصنف بھی ’ قلم ‘ کو بتذکیر باندھ چکے ہیں ، ع   فقط خراب لکھا ، بس ، نہ چل سکا قلم آگے۔

 آپ کا بندہ ، اور پھروں ننگا

 آپ کا خادم ، اور کھاؤں ادھار

            اُدھار کا لفظ اہلِ اعتبار کی زبان پر نہیں ہے۔ نوکر چاکربولا کرتے ہیں۔ اسی لیے مصنف نے لفظِ ’ نوکر ‘ مصرع میں باندھا۔ غیر لفظ کے استعمال کا یہ بہت دقیق طریقہ ہے۔ ہاں ، کسی پرادھار کھانا ، البتہ محاورہ ہے۔

احوالِ مرتب

ذکاء صدیقی(پیدائش ۱۳!ستمبر۱۹۳۷ ء۔وفات ۱۶! جون۲۰۰۳ء )بھارت کے شہر امراؤتی (مہاراشٹر)کے ایک علمی اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔آپ کے وا لدِ ماجد حضرت حبیب الرحمٰن الصدیقی ایک بلند پایہ عالم ،شاعر اور ادیب تھے اور مولانا فرجاد کوتانوی کے شاگرد تھے۔مولانا اسمٰعیل میرٹھی ،ذکاء صاحب کے پردادا کے چھوٹے بھائی تھے۔

            ذکاء صاحب نے بی۔اے امراؤتی کے کنگ ایڈورڈ کالج سے کیا جبکہ ناگپور کے مور س کالج سے فارسی میں ایم۔ اے کیا۔ آپ دو سال تک بریلی کالج (بریلی) میں فارسی کے لیکچرر رہے ،بعد ازاں رضا پوسٹ گریجویٹ کالج رامپور کے صد رِ شعبہ فارسی کی حیثیت سے ، ۲!اکتوبر ۱۹۶۳ ء سے ۳۱! دسمبر ۱۹۷۶ ء تک خدمات انجام دیں۔ جہاں ماہرِ غالبیات مولانا امتیاز علی عرشیؔ ،تاریخِ اسلا م کے بہت بڑے نکتہ سنج و محقق اور ’’دو تقویمی نظریہ‘‘ کے بانی مولوی اسحٰق النبی علوی، اور اسلامی فلسفے کے عالم، مدرسہ عالیہ کے پرنسپل مولوی عبدالسلا م جیسے منتخب روزگار علماء و فضلاء کی خدمت میں مستقل حاضری کے مواقع نصیب ہوئے۔‘  مرحوم اکبر علی خاں عرشیؔ زادہ آپ کے خاص دوستوں میں تھے۔

            ذکاء صدیقی بذاتِ خود ایک بلند پایہ شاعر ،ادیب اور ناقد تھے۔انتہائی کم عمری میں ہی انہوں نے ادبی دنیا میں اپنی پہچان بنا لی تھی اور ہندوستان بھر کے تمام بڑے مشاعروں میں ان کو مدعو کیا جاتا تھا۔چند سال وہ تسلسل کے ساتھ مشاعرے پڑھتے رہے لیکن بعد ازاں ’’پیشہ ور ‘‘ شاعروں کی خفیف حرکات کی وجہ سے انہوں نے مشاعروں میں جانا چھوڑ دیا۔ انہوں نے باقاعدہ موسیقی کی تعلیم حاصل کی تھی۔اور مختلف ساز وں پر دسترس رکھتے تھے۔  ۱۹۷۷ء ؁ میں آپ بسلسلۂ ملازمت کنگ فہد یونیورسٹی آف پیٹرو لیم اینڈ منرل ، ظہران (سعودی عرب)میں آگئے۔  ۱۹۹۹ ء ؁میں جب آپ اپنی سالانہ رخصت پر ہندوستان گئے تو ان دنوں ان کی طبیعت ناساز تھی وہاں تشخیص پر پتا چلا کہ خون کے سرطان میں مبتلا ہیں ،پھر وہ واپس نہیں آئے وہیں سے اپنا استعفیٰ بھیج دیا۔  ۱۶!جون۲۰۰۳ ء کو آپ اس جہانِ فانی سے رخصت فرما گئے۔آپ کی وفات پر پاکستان اور ہندوستان کے تمام مؤقر ادبی رسائل اور جرائد نے تعزیّت کے پیغامات شایع کیے۔جن میں فنون ، بیاض ، مکا لمہ (پاکستان)،اردو نیوز(سعودی عرب)اور شاعر ، شب خون ، ترسیل ، منصف، سیاست،(ہندوستان) شامل ہیں۔ 

            آپ کا پہلا مجموعۂ کلام ’’ آمد نامہ ‘‘  ۱۹۹۴ ء ؁میں ادارہ بیاض لاہور سے چھپا۔آ پ نے اپنے وا لدِ محترم کے خطوط ’’ مکاتیبِ حبیب ‘‘ کے نام سے شایع کیے۔اس کے علاوہ کلیّات ذکاء  ’’آج کی شب پھر سنّاٹا‘‘ کے نام سے ان کی وفات کے بعد’ کتب نما‘ لاہور، سے شایع ہوئی۔       یہ کتاب جو آپ کے ہاتھوں میں ہے۔انہوں نے اپنی بیماری کے ایّام میں تالیف کی تھی ،اسے ان کی حیات میں چھپ جانا چاہیے تھا لیکن بعض ناگزیر وجوہات کی وجہ سے ٹاخیر ہوتی چلی گئی۔

            ہم اس کتاب کی اشاعت میں تعاون کے لیے لواحقِ ذکا ء صدیقی صاحب اور پروفیسر یوسف حسن (گندھارا بکس) کے انتہائی ممنون ہیں۔                                                        

                                                  طارقؔ بٹ ، اقبال احمد قمر                                                                        تلامذۃ ذکاء صدیقی مرحوم

                                                            (سعودی عرب)

 

فائل کے حصول کے لئے طارق بٹ سے تشکر کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔