03:10    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

طنز و مزاح

1639 0 0 00

کھلتا کسی پہ کیوں نہ - حرا قریشی

کھلتا کسی پہ کیوں نہ

"اف وردہ کس مصیبت میں ڈال دیا۔" ناجیہ نے بیچارگی سے کہتے ہوئے کتاب بند کی اور وردہ کی طرف رحم طلب نظروں سے دیکھا۔

"خبردار جو میرے بھائی کو مصیبت کہا۔" وردہ نے اسے گھورا تو وہ جلدی سے بولی تھی

"تمہارے بھائی کو کون کہہ رہا ہے۔ مگر یہ شاعری تو کسی مصیبت سے کم نہیں۔ مجھ سے یاد ہی نہیں ہو رہی۔ تم انہیں صاف صاف بتادو تم نے جھوٹ بولا تھا مجھے شاعری کا کوئی شوق ووق نہیں ہے۔ " ناجیہ نے اپنی طرف سے بہت اچھا حل بتایا تھا۔

"واہ واہ۔ کیا بات ہے محترمہ کی۔ یعنی میری محبت میں اتنا بھی نہیں کرسکتیں۔ صرف کچھ دن کی تو بات ہے۔ بس شادی ہو جائے پھر بے شک بھائی پر تمہاری اصلیت کھل جائے۔ پھر تم جانو اور بھائی جانیں۔ میری تو اس فوزیہ سے جان چھوٹ جائے گی نا۔" وردہ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کچھ ہمت بھی دلائی۔

"تمہاری اس فوزیہ سے جان چھوٹ جائے گی اور میری جان ہمیشہ کے لیے اس شاعری کی وجہ سے عذاب میں آ جائے گی۔" ناجیہ نے اسے گھورتے ہوئے ایک دفعہ پھر فرحت عباس شاہ کی "کہاں ہو تم" اٹھا لی تھی۔

"اچھا ایک آئڈیا ہے۔ " وردہ کو اس کی مسکین صورت پر ترس آ گیا تھا۔ "ایسا کرتی ہوں میں تمہیں کچھ مشہور اشعار، غزلیں وغیرہ اور کتابوں کے نام ایس ایم ایس کر دیتی ہوں۔ تم کل ایسے شو کرنا جیسے میسجز چیک کر رہی ہو اور جو یاد نہ ہو وہ دیکھ کر پڑھ لینا۔" وردہ نے داد طلب نظروں سے ناجیہ کی طرف دیکھا۔

"زبردست! یعنی اب یہ سب نہیں رٹنا پڑے گا۔ اف وردہ تم کتنی اچھی ہو۔ میری اتنی بڑی مشکل آسان کر دی۔ بس اب تمہیں اس فوزیہ سے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تمہاری ہونے والی بھابھی تمہارے ساتھ ہے۔ دیکھنا میں کیسے دھاک بٹھاتی ہوں۔ فوزیہ کی شاعری میرے سامنے پانی بھرتی نظر آئے گی۔" اتنی دیر سے ناجیہ جو وردہ کی تسلیاں سن کر بھی پریشان تھی مصیبت ٹل جانے پر جلدی جلدی اسے یقین دلانے لگی۔

* - * - *

ارے آپ اب تک ہماری پریشانی کی وجہ نہیں سمجھ سکے ؟ ابھی کچھ دن پہلے میں نے اپنے بھائی عالیان سے اپنی بچپن کی دوست ناجیہ کی انگیجمنٹ کروائی ہے۔ ویسے تو اب کوئی پریشانی کی بات نہیں مگر میری کزن فوزیہ اب بھی بھائی کے گرد منڈلاتی رہتی ہے۔ جس نے مجھ سمیت ناجیہ کی بھی نیندیں اڑا رکھی ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ میرے بھائی ایک مصروف ترین بزنس مین ہونے کے باوجود شاعری جیسے مرض میں مبتلا ہیں۔ ذرا فارغ وقت ملا اور وہ کوئی موٹی سی شاعری کی کتاب لے کر بیٹھے نظر آئیں گے۔ یہاں تک بھی بات ٹھیک ہے۔ انسان کو کسی چیز کا شوق ہے تو ہمیں بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔

شوق اپنے تک رہتا تو بات پریشان کن نہ تھی، مگر کچھ دن پہلے امی کے دل میں بھائی کی شادی کرنے کا ارمان جاگا۔ امی کے پوچھنے پر بھائی نے کہا کے ان کی صرف ایک خواہش ہے کہ ان کی ہونے والی بیگم شاعری سے شغف رکھتی ہوں۔ نہ صرف یہ بلکہ انہیں کافی با ذوق ہونا چاہیے۔ بھائی کی اس عجیب و غریب فرمائش پر جہاں مجھے غصہ آیا وہیں امی نے اپنے لاڈلے کی واحد فرمائش پوری کرنے کی ٹھان لی اور میرا وہ اپنی بچپن کی دوست ناجیہ کو بھابھی بنانے کا ہمیشہ کا خواب کھٹائی میں پڑتا دکھائی دیا۔ امی کے لیے بھی یہ بات پریشان کن تھی کہ آخر با ذوق بہو کیسے تلاشی جائے ؟ پھر بھائی اور امی کی پریشانی میں نے ناجیہ کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملا کر دور کر دی۔ بھائی کو اس کے شاعری کی شیدائی ہونے کی بڑی مشکلوں سے یقین دہانی کروائی کیونکہ ناجیہ اور ہمارا سالوں سے ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا۔ کیا سب اسے جانتے نہیں تھے ؟ جس نے کورس کی کتابوں کو بڑی مشکلوں سے ہاتھ لگایا ہو وہ بھلا شاعری کی کتابیں کہاں پڑھتی ہو گی۔ مگر میں نے ان دونوں کو اچھی طرح یقین دلا دیا کہ وہ اپنے فارغ وقت میں شاعری کے علاوہ کچھ پڑھتی ہی نہیں۔ بلکہ خالی پڑھتی ہی نہیں وہ تو خود شاعری کرتی بھی ہے۔ میں یہ بھول ہی گئی کہ جھوٹ بھی اس حد تک بولنا چاہیے جتنا نبھ جائے۔ میں بھی کیا کرتی۔ امی کی چہیتی بھانجی فوزیہ کا بھوت ہر وقت میرے سر پر سوار رہتا تھا۔ جو بات کا جواب بھی کسی کے شعر یا ایسی اردو میں دیتی تھی کہ میرا تو سانس اٹکنے لگتا تھا۔ اسے مستقل طور پر گھر لے آنے کا مطلب تھا کہ چلتے پھرتے اردو ادب کو سر پر سوار کر لیا جائے جو مجھے کسی طرح منظور نہیں تھا۔

میری اتنی تعریفوں پر یقین تو ان دونوں کو کسی نہ کسی طرح آ ہی گیا۔ پھر کیا تھا بھائی نے تو سب امی اور مجھ پر چھوڑ دیا اور ہم نے چٹ رشتہ اور پٹ منگنی کروا کر ہی دم لیا۔ میرا بس چلتا تو نکاح بھی پڑھوا دیتی مگر وہ کچھ ماہ بعد ہونا طے پایا تھا۔ اب بس مجھے ان کچھ ماہ بھائی اور ناجیہ کا سامنا نہیں ہونے دینا تھا۔ نہ بھائی کو ناجیہ کی شاعری سے لگاؤ کے جھوٹ کا پتا چلنے دینا تھا نہ ناجیہ کو بھائی کی اوٹ پٹانگ شرط کی خبر ہونے دینی تھی۔ مگر برا ہو میری قسمت کا۔ ہر کام میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ آ جاتی ہے۔ ابھی جب منگنی ہوئے کچھ ہی ہفتے گزرے تھے ناجیہ کی سالگرہ پر ہمیشہ کے خاموش، سیدھے سادھے لگنے والے ہمارے بھائی محترم کی اسے ڈنر پر لے جانے کی فرمائش نے میرے ہوش ہی اڑا دیے۔ مجھے پورا یقین تھا ناجیہ کے گھر والے اسے جانے کی اجازت نہیں دیں گے مگر حیرت کا جھٹکا تو تب لگا جب امی نے بتایا کہ میں بھائی اور ناجیہ کے ساتھ ڈنر پر جا رہی ہوں۔ وہ بھی ٹھیک دو دن بعد۔ پھر کیا تھا۔ مجھے جو بھی کرنا تھا ان دو دنوں میں کرنا تھا۔ ورنہ بھانڈا پھوٹتا تو میری خیر نہیں تھی۔

ایک گھنٹے بعد میں ناجیہ کے قدموں میں موجود تھی۔ پہلے اسے سچائی سے آگاہ کیا تو وہ آگ بگولہ ہی ہو گئی۔ بڑی مشکلوں سے اسے ٹھنڈا کیا۔ پھر اسے اپنے مشن میں شامل کرنے کے لیے پاپڑ بیلے۔ اگلے پچھلے سارے احسانات یاد دلانے سے وہ نہ مانی تو منتیں کر کے ، دنیا کی سب سے بے ضرر نند ہونے کے سہانے خواب دکھا کر راضی کیا۔ فوزیہ سے اسے بھی چڑ تھی اور ویسے بھی اب کوئی لڑکی بھائی کی طرف یا بھائی کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ لیتے تو ناجیہ اس کی جان کی دشمن ہو جاتی تھی۔ ماننا تو اسے تھا ہی آخر اس کی زندگی کا معاملہ تھا۔

* - * - *

دوسرے دن شام میں ہم نے ناجیہ کو اس کے گھر سے پک کیا اور بھائی کے فیورٹ ریسٹورینٹ پہنچ گئے۔ ناجیہ جو کل تک بہت نروس تھی اب اس کا کانفیڈینس دیکھنے والا تھا، بس اپنا موبائل کسی متاع کی طرح ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔ اورڈر دے کر ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔ میں شکر ہی کرتی رہی کہ بھائی کا شاعری کی طرف دھیان ہی نہیں جا رہا مگر شاید ناجیہ بی بی کو اپنی دھاک بٹھانے کا کچھ زیادہ ہی شوق تھا۔ خود ہی بھائی سے ان کے فیورٹ شاعر کا پوچھ بیٹھیں اور بھائی تو جیسے ان کے منہ سے شاعری کا ذکر سن کر کِھل اٹھے تھے۔ اچھی خاصی دیر پتا نہیں کون کون سے شعراء اور ان کی مشہور کتابوں کے نام لیتے رہے۔ میں نے ناجیہ کو گھورا جو چہرے پر مسکراہٹ سجائے ، اپنا سر ایسے ہلا رہی تھی جیسے سب سمجھ آ رہا ہو۔ جبکہ میں لکھ کر دے سکتی ہوں کہ آدھے سے زیادہ شعراء کا نام اس نے پہلے کبھی سنا ہی نہیں ہو گا۔

"آپ بھی تو بتائیں۔ آپ کس کا کلام پسند کرتی ہیں؟" بھائی کا یہ پوچھنا تھا اور میں نے ناجیہ کی طرف دیکھا۔ تیاری تو اس نے کافی کی تھی پھر بھی اگر کچھ یاد نہ رہتا تو موبائل ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا۔ اس لیے میں نے اطمینان سے ادھر ادھر بیٹھے لوگوں کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔

"مجھے تو فرحت عباس شاہ بہت پسند ہیں۔ ان کی شاعری میں اتنی خوبصورتی سے احساسات بیان کیے گئے ہوتے ہیں کہ انسان پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ " میں نے دل ہی دل میں ناجیہ کی ایکٹنگ کو داد دی۔

"بلکہ میں تو کہوں گی فرحت عباس شاہ میری فیورٹ شاعرہ ہیں۔" میں جو بڑے اطمینان سے لوگوں کا جائزہ لینے میں مصروف تھی اپنی کرسی سے گرتے گرتے بچی۔ "شاعرہ" میں نے آنکھیں پھاڑ کر فخریہ مسکراہٹ سجائے بیٹھی ناجیہ کو دیکھا۔ بھائی جو جوس کا سپ لے رہے تھے کھانس کھانس کر ان کی آنکھوں سے پانی نکل آیا۔ ناجیہ بھی کچھ گھبراگئی۔

"افوہ بھئی یہ کیا آپ دونوں شاعری کی باتیں لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ میں بور ہو رہی ہوں۔ اور بھائی ویٹر سے کہیں جلدی لائے بھوک کے مارے میرا تو حشر ہو رہا ہے۔ " میں نے بات ٹالنے کی کوشش کی مگر میں کیا کرتی ناجیہ خود ہی اپنی جان کی دشمن بنی بیٹھی تھی۔

"ارے وردہ اب دو با ذوق لوگوں میں تم بد ذوق بور ہی ہو گی۔" ناجیہ نے بڑے اسٹائل سے کہا تھا اور میرا دل چاہا اس کو کچا چبا جاؤں۔

"اچھا تو فرحت عباس شاہ آپ کی فیورٹ شاعرہ ہیں؟ ویسے ندا فاضلی کی شاعری کے بارے میں کیا خیال ہے ؟" عالیان بھائی نے اپنے اوپر بڑی دقتوں سے سنجیدگی طاری کرتے ہوئے پوچھا۔ اور میں ناجیہ کی بکواس پر جزبز کر کے رہ گئی۔ بھائی کے سوال پر وہ کچھ گڑبڑائی کیونکہ یہ نام تو اسے میں نے رٹایا ہی نہیں تھا۔ میری طرف مدد طلب نظروں سے دیکھا تو میں نے بھی غصے سے منہ دوسری طرف کر لیا۔ "اب بھگتیں محترمہ۔"

"ندا فاضلی۔۔ ۔ اوہ ہاں۔ وہ بھی کافی اچھی شاعری کرتی ہیں۔ بلکہ ان کی کئی غزلیں میں نے اپنی ڈائری میں لکھ رکھی ہیں۔"

"شاعری کرتی ہیں" سن کر میرا دل چاہا بال نوچ لوں۔ اپنے نہیں برابر میں بیٹھی ناجیہ کے۔ اس نے ایک اور شاعر کو شاعرہ بنا دیا تھا۔ مجھ سے مزید ہضم نہیں ہوا اس لیے وہاں سے اٹھ گئی۔

"میں ابھی امی کو کال کر کے آتی ہوں۔" میں نے باہر کی طرف دوڑ لگائی کے اسے ایس ایم ایس کر کے ہی بتاؤں کے اپنا شاعری نامہ بند کرے ورنہ پتا نہیں کیا ہونے والا تھا۔ مگر میرے مسلسل میسجز کرنے کے بعد بھی اس نے اپنے موبائل کی طرف نہ دیکھا تو میں پیر پٹختی واپس اپنی جگہ آ کر بیٹھ گئی۔ وہاں جیسے کوئی فرق ہی نہیں پڑا تھا۔

"وردہ تم نے بتایا نہیں ناجیہ شاعری کی اتنی زیادہ شوقین ہے اور تم ان کے ساتھ کافی دفعہ مشاعروں میں جا چکی ہو۔" میرے بیٹھتے ہی بھائی نے مجھ سے پوچھا تو میں نے اس جھوٹ پر ناجیہ کی طرف دیکھا مگر وہ میری طرف کب دیکھ رہی تھی۔ پٹر پٹر بولتی وہ اپنے با ذوق ہونے کے کتنے ہی ثبوت دیتی جا رہی تھی۔

"ارے خالی جاتے ہی نہیں ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ایک جگہ محسن نقوی بھی مدعو تھے۔ ان کی شاعری کا تو آپ کو پتا ہے۔ ایک دنیا دیوانی ہے۔ میں کتنے ہی ضروری کام چھوڑ کر صرف ان کی وجہ سے گئی تھی۔ اور خالی گئی ہی نہیں تھی ان سے آٹوگراف بھی لی تھی۔" ناجیہ تو لگتا تھا اپنی اعلیٰ کارکردگی پر بہت ہی خوش تھی۔ محسن نقوی جو اب اس دنیا میں ہی نہیں تھے ، یہ محترمہ ان سے نہ صرف ملی تھیں بلکہ ان سے آٹوگراف بھی لیا تھا۔ میں اپنی جگہ پہلو بدل کر رہ گئی۔ ناجیہ کو چپ کروانا اب میرے بس میں نہیں تھا۔ وہ ایک دفعہ شروع ہو جائے تو پھر ادھر ادھر دیکھے بغیر نان اسٹاپ بولتی ہے۔

"یہ تو کافی تشویش ناک بات ہے۔ " بھائی کی بڑبڑاہٹ میں نے تو صاف سنی تھی مگر شاید وہ نہیں سن سکی۔

"آپ تو شاعری کے بارے میں کافی معلومات رکھتی ہیں۔" بھائی نے امپریس ہونے کی اداکاری کی تو مجھے ان پر بھی غصہ آنے لگا۔ ناجیہ پرسکون بیٹھی تھی۔

"مجھے یاد ہے میں نے سب سے پہلے محسن نقوی کی شاعری کی کتاب لی تھی۔ شاید 9 کلاس میں تھا میں۔ آپ کب سے شاعری کی شوقین ہیں۔ سب سے پہلی کتاب کون سی لی تھی؟" بھائی تو لگتا تھا اس کا امتحان لینے بیٹھے تھے۔ خوب مزے لے رہے تھے۔

"میں نے۔ ۔۔" ناجیہ اٹکی۔۔۔ اسی وقت ویٹر ڈنر سرو کرنے لگا تو اس نے فوراً اپنے موبائل سے رجوع کیا۔ میں نے بھی شکر کا سانس لیا کے شاید اب کچھ عقلمندانہ جواب آ جائے۔ مگر اس نے اپنا فون غصے سے بیگ میں ڈالا تو یہ آس بھی ختم ہو گئی۔

"تو کیا کہہ رہی تھیں آپ؟" ویٹر کے جاتے ہی بھائی نے پھر پوچھا تھا۔

"وہ۔۔ میں نے۔ ۔ میں نے سب سے پہلی شاعری کی کتاب وصی شاہ کی "میرے ہو کے رہو" لی تھی میں بھی تب 9 کلاس میں تھی۔" ذہن پر زور دیتے ہوئے آخر کار ایک کتاب کا نام لے ہی لیا تھا۔ مگر افسوس۔ میں نے ٹھنڈی سانس بھری اور کھانا کھانا شروع ہو گئی۔ یہاں تو جو ہونا تھا وہ ہو کر رہے گا میں کیوں اس کے غم میں ڈٹ کر نہ کھاؤں۔

باقی کا وقت خاموشی سے کٹا۔ ناجیہ کو گھر ڈراپ کرتے وقت بھائی کی بات سن کر ناجیہ کے سارے کے سارے طبق روشن ہو گئے تھے۔

"وردہ نے بتایا تو تھا مگر مجھے آج سے پہلے یقین نہیں آیا تھا کہ آپ کو شاعری سے اس قدر لگاؤ ہے۔ " بھائی نے بات شروع کی تو ناجیہ کی مسکراہٹ دیکھنے والی تھی۔ وہ سمجھ رہی تھی سب بہت اچھا ہوا ہے۔

"کیا اعلیٰ ذوق پایا ہے۔ ۔۔۔۔ اپنی با ذوق دوست کے ارشادات تم بھی ذرا غور سے سن لو وردہ۔

فرحت عباس شاہ ان کی فیورٹ "شاعرہ" ہیں، شاعر نہیں" عالیان نے شاعرہ پر زور دیتے ہوئے کہا۔

" انہوں نے سات سال پہلے پہلی شاعری کی کتاب وصی شاہ کی "میرے ہو کے رہو" لی تھی۔ یعنی اس وقت جب وصی شاہ کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ یہ کتاب بھی چھپنی ہے۔ اور محفلِ مشاعرہ میں جانے کا جنون کی حد تک شوق رکھتی ہیں، کبھی کوئی مس نہیں ہوا۔ ابھی پچھلے مہینے "محسن نقوی" کے مشاعرے میں گئیں تھیں۔ اور نہ صرف یہ کے مشاعرے میں گئی تھیں بلکہ ان سے آٹوگراف بھی لے کر آئی ہیں۔ ویسے ایک بات پوچھ سکتا ہوں ناجیہ؟ یہ کون سے با ذوق لوگ ہیں جو شعراء کا قبرستان تک پیچھا کرتے ہیں۔ محسن نقوی کی عرصہ ہوا ڈیتھ ہو چکی ہے " عالیان نے بمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ہوئے بتایا تو ناجیہ کا دل چاہا کے وہاں سے اڑن چھو ہو جائے۔ ۔۔۔

"کیا کوئی گڑ بڑ ہو گئی وردہ؟" ناجیہ نے گھبرا کر سرگوشی کی تھی۔

"تم اب بھی پوچھ رہی ہو؟ یعنی اتنا زبردست کارنامہ کرنے کے بعد بھی؟" وردہ تو تپی بیٹھی تھی۔

"لو، اب میری کیا غلطی ہے کہ فون کی بیٹری ہی لو تھی۔ خبیث چل کر ہی نہ دیا۔ پھر مجھے جو جو یاد آیا بولتی گئی۔" اس نے معصومیت سے اپنا دفع کیا۔

"اور میں جو کھانس کھانس کر تمہیں ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی۔ مگر تم کسی طرف دیکھتیں تو کچھ سمجھتیں نا تم تو اپنی فیورٹ شاعرہ فرحت عباس شاہ کی غزلوں کے ٹائیٹلز گنوا رہی تھیں۔ ان میں سے بھی آدھے تو پروین شاکر کی غزلیں تھیں۔" وردہ نے طنزیہ انداز میں کہا۔

"میں نے تم سے پہلے ہی کہا تھا وردہ مجھ سے نہیں ہو گا یہ ڈرامہ۔ مگر تم پر تو بھوت سوار تھا۔ مجھے تو تمہارے بھائی ہی کچھ کھسکے ہوئے لگتے ہیں۔ اب آج کل کون پڑھتا ہے ایسی مشکل شاعری اور اگر پڑھنا ہے تو خود سو دفعہ پڑھیں بیچاری منگیتر کا کیا گناہ ہے کہ وہ بھی رٹے لگائے۔ اب ضروری تو نہیں نا ہر کسی میں بڈھی روح سمائی ہو۔" ناجیہ بھی جھنجھلا گئی تھی۔ اتنے گھنٹوں کی محنت اور ٹینشن کا یہ نتیجہ اس کے وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ وہ دونوں عالیان کی موجودگی فراموش کر چکی تھیں۔ اور وہ ان کی باتوں پر محظوظ ہو رہا تھا۔

"ہیں ہیں۔۔۔ جھوٹ کی حد ہے۔ میں نے کب فورس کیا تھا تمہیں؟ تم نے خود چیلنج قبول کیا تھا۔ میں نے صرف فوزیہ کا بتایا تھا کہ وہ شعر سنا سنا کر اپنے آپ کو بہت با ذوق ظاہر کرتی ہے تم بھی کچھ رٹ لو مستقبل میں کام آئیں گے۔ دھاک بٹھانے کا شوق تمہیں ہوا تھا۔ اور غلطی ساری کی ساری تمہاری ہی ہے۔ موبائل چارج نہیں کرسکتی تھیں؟ کیا فائدہ ہوا اتنی محنت کا جو لکھ لکھ کر میسجز سیو کیے تھے۔ " وردہ کو اب محنت ضائع ہونے کی فکر ہوئی۔

"بس رہنے دو۔۔۔ تمہارے میسجز بھی تمہاری ہی طرح بے وفا نکلے۔ عین وقت پر ساتھ دینے سے صاف انکار کر دیا۔ اب کیا میں چپ بیٹھی اسے آن کرنے کی کوشش کرتی رہتی۔ بیٹری لو ہو گئی تھی موبائل کی۔" ناجیہ نے وردہ کو جھاڑتے ہوئے نظریں اٹھائیں تو عالیان کو اپنی طرف دیکھتا پا کر گڑبڑا گئی۔ پھر دل کڑا کر کے بولنا شروع کیا۔

"دیکھیں مجھے شاعری کا کوئی شوق نہیں تھا۔ نہ ہی مجھے آپ کی کسی شرط کا علم تھا۔ یہ سب وردہ کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس نے میرے بارے میں سب جھوٹ کہا تھا آپ سے۔ نہ تو مجھے شاعری سے کوئی لگاؤ ہے ، نہ ہی کسی شاعر کو جانتی ہوں۔ آج جو سب میں نے کہا وہ کل وردہ کی منتیں کرنے پر رٹے مارے تھے۔ آپ کی بھی غلطی نہیں۔ انسان کو ایک دفعہ زندگی ملتی ہے اس میں اپنی مرضی کا ساتھی چننے کی پوری آزادی ہونی چاہیے اس لیے۔ ۔۔ اس لیے " آخر تک آتے آتے ناجیہ روہانسی ہو گئی تھی۔

"یہ تو کچھ اس قسم کا معاملہ لگتا ہے

کھلتا کسی پہ کیوں نہ میرے دل کا معاملہ

شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے "

عالیان کے شعر سنانے پر ناجیہ کو بھی ایسا ہی لگا۔ یہ ساری رسوائی اس شاعری کی وجہ سے ہی ہوئی تھی۔ اسے شاعری پر مزید غصہ آنے لگا۔

"بھئی جب آپ میرے لیے اتنا کچھ کرسکتی ہیں، تو میں ایک فضول سی فرمائش نہیں چھوڑ سکتا۔" عالیان نے اسے رونے کی تیاری کرتے دیکھ کر فوراً کہا تھا۔

"کیا! فضول سے فرمائش؟" وردہ خوشی سے چیخی تھی۔ "آپ کو ناجیہ کے بد ذوق ہونے پر کوئی اعتراض نہیں؟" عالیان نے نفی میں سر ہلایا اور ناجیہ نے اپنے آپ کو بد ذوق کہنے پر وردہ کو گھورا تھا مگر پھر وہ تینوں ہی ہنس پڑے تھے۔

٭٭٭

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔