سوات کی تاریخ پر کتابوں کی کمی نہیں۔ لیکن جو کتابیں موجود ہیں، وہ کافی ضخیم ہیں او ر ان میں بیشتر کتابیں اب نایاب ہی نہیں ناپید بھی ہو چکی ہیں۔ سوات کی تاریخ سے نہ صرف اہلِ سوات کو بے پناہ دلچسپی ہے بلکہ ملک کے دوسرے حصوں سے آنے والے سیاحوں ، طالب علموں اور تحقیق و تاریخ کے شعبہ سے وابستہ افرا د کو بھی ہمیشہ سوات کی قدیم و جدید تاریخ پر مشتمل کتابوں کی طلب رہتی ہے۔
اس ضرورت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے میں نے سوات کی قدیم و جدید تاریخ کو بہت سادہ اور عام فہم انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ تاریخِ سوات سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کو سوات کی قدیم اور جدید تاریخ ایک مختصر سی کتاب میں نہایت مفصل اور مدلل انداز میں، تدریجی ارتقائی تاریخی تسلسل کے ساتھ مل سکے۔ کیوں کہ آج کے تیز رفتار دور میں کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ اپنے پسندیدہ موضوع کے لیے ضخیم کتابوں کا مطالعہ کرے اور تاریخ کے جزئیات اور تفصیلات میں بھٹکتا پھرے۔
میں نے زیرِ نظر کتاب کی قدیم تاریخ بہت سی ضخیم کتابوں سے اخذ کی ہے اور اسے اختصار لیکن جامعیت کے ساتھ کتاب ہذا میں شامل کیا ہے۔ جدید تاریخ کے سلسلے میں خود تحقیق کی ہے اور ان بزرگوں سے معلومات حاصل کی ہیں جن کا تعلق ریاستی دور سے کسی نہ کسی طور پر گہرا رہا ہے اور انہوں نے ریاستِ سوات کا جدید دور خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور سمجھا ہے۔
اس سلسلے میں، میں اپنی نہایت ہی مہربان اور بزرگ ہستی جناب سراج الدین سواتی کے مشفقانہ تعاون کے لیے تہ دل سے ممنون ہوں۔ جناب فضل محمود روخانؔ اور پیارے"خانہ بدوش انکل"(کالام و کافرستان) کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے اس کتاب کی نوک پلک سنوارنے میں میری مدد کی۔
اگر چہ میں نے سوات کے تاریخی تسلسل اور اس کی صحت میں نہایت احتیاط سے کام لیا ہے لیکن " انسان خطا کا پُتلا ہے" کے مصداق اگر مجھ سے نادانستگی میں کہیں بھول چوک یا غلطی سر زد ہوئی ہو تو اس کی نشان دہی اور اصلاح کے لیے اپنے قارئین کا از حد ممنون ہوں گا۔ شکریہ
فضل ربی راہی
28 فروری 2000ء
وادئ سوات اپنی فطری خوب صورتی، دل کشی اور رعنائی کی وجہ سے بِلا شبہ پاکستان کا ایک حسین ترین خِطہ ہے۔ اس کے قدرتی مناظر، شفاف ندیاں، طلسماتی جھیلیں، بلند آبشار، پُر شور دریا اور با رونق میدانی علاقے ہر شخص کا دِل موہ لیتے ہیں۔
سوات کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو اس خطۂ ارضی کا ذکر قدیم ترین کتابوں میں بھی نظر آتا ہے۔قدیم کتب میں اُسے اودیانہ (Udyana) کے نام سے پکارا گیا ہے جو سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں باغ یا گلستان ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علاقہ زمانۂ قدیم ہی سے اپنی خوب صورتی اور زرخیزی کے لحاظ سے منفرد حیثیت کا حامل رہا ہے اور اس کی یہ خوب صورتی اور دل رُبائی ہی حقیقتاً بیرونی حملہ آوروں کو اس طرف کا رُخ کرنے کی رغبت دلاتی رہی اور اس کی دل کشی خود اس کے لئے وبال جان بنی رہی۔ایرانیوں نے اُسے لتاڑا تو کبھی یونانیوں نے اس پر یلغار کی۔ بدھ مت کے پیروں کاروں کو بھی یہ علاقہ نہایت مرغوب رہا اور مہاتما بدھ کی کئی روایات کو اس سرزمین سے وابستہ کر دیا گیا۔
سکندرِ اعظم کے دور میں یونانی مؤرخین نے اس علاقہ کا ذکر اس کے دریا کی نسبت سے کیا تھا جو موجودہ دور میں دریائے سوات اور عہدِ قدیم میں سواستو (Sawastu) پکارا جاتا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لفظ سویتا (Sweta) سے نکلا ہے جس کے معنی سفید یا شفاف پانی کے ہیں۔ اس علاقہ کو اس کے صاف و شفاف پانی سے بھرپور ندی نالوں ہی کی وجہ سے سواستو یا سویتا پکارا گیا ہوگا جو بعد میں سواد اور پھر سوات بن گیا۔
اپنی تمام تر دل کشی اور تاریخی اہمیت کے با7وجود تاریخ کے کسی دور میں وادئ سوات میں کسی دیرپا حکومت کے قیام کا پتہ نہیں چلتا۔ تاہم یہاں کسی منظم حکومت کے قیام کا دھندلا سا عکس بُدھ مت کے دور میں دِکھائی دیتا ہے۔ اس وقت اس علاقہ میں سڑکوں کی داغ بیل ڈالی گئی تھی، نئی نئی آبادیاں وجود میں لائی گئی تھیں اور ایک بھرپور تہذیبی، سماجی اور مذہبی زندگی کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس کے بعد تھوڑے عرصہ کے لئے ہندو شاہیہ نے اس سرزمین پر ایسے وقت اپنا پرچم لہرایا جب قبیلہ یوسف زئی موجودہ علاقوں سے بہت دور افغانستان کے علاقوں میں رہائش پذیر تھا۔ تاہم ہندو شاہیہ کا چراغ یہاں زیادہ دیر تک روشن نہ رہ سکا اور سلطان محمود غزنویؒ کی فوجوں کے ہاتھوں اُسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گُل ہو جانا پڑا۔
سوات کی سرزمین ایسے ہی حالات سے ہم کنار ہوتی رہی۔ وقت گزرتا گیا، مغل، درانی، سکھ اور انگریز ہر ایک نے اپنی طاقت آزما کر دیکھی لیکن ان میں کوئی ایک حملہ آور بھی اس علاقہ پر اپنی سیادت قائم نہ کر سکا۔ بالآخر 1850ء میں سید اکبر شاہ نے باقاعدہ طور پر ایک شرعی حکومت قائم کی لیکن ان کی وفات کی وجہ سے سوات پھر قبائلی دور میں چلا گیا تا آنکہ 1914ء میں سید عبدالجبار شاہ کو ریاستِ سوات کی باگ ڈور تھما دی گئی لیکن قادیانی مسلک سے تعلق رکھنے کی بناء پر اُنہیں معزول کیا گیا اور 1917ء میں حضرت عبد الغفور اخوند صاحبِ سوات کی اولاد سے میاں گل عبدالودود نے ایک منظم حکومت کی بنیاد ڈالی۔ جس نے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے ایک جدید فلاحی ریاست کی شکل اختیار کی۔ ان صفحات میں قارئین کرام کو قدیم سوات کی ایک جھلک دکھانے کے ساتھ ساتھ انہیں جدید ریاستِ سوات کی ایک مختصر لیکن جامع خاکہ دکھانا مقصود ہے۔
سوات کا تذکرہ بہت قدیمی کتب میں آیا ہے۔ ہندوؤں کی مقدس مذہبی کتاب رگ وید میں اُسے پہلی بار اودیانہ کے نام سے پکارا گیا ۔ پھر جب واقعات اور حالات کو ضبط تحریر میں لانے کا رواج ہوا تو قدیم سوات کے حالات تاریخ میں محفوظ ہونے لگے ۔ اس کی باقاعدہ ابتداء یونانیوں نے کی اور انہی کی تحریروں سے یہ پتہ چلا ہے کہ زمانہ قبل از تدوینِ تاریخ میں سکندرِ اعظم سے بہت پہلے ایرانی اور یونانی اس سرزمین کا رُخ کر چکے تھے۔ چناں چہ سکندر اعظم نے ان تاریخی شواہد کی روشنی میں یہاں کا رُخ کیا تھا۔
326 قبل مسیح میں جب سکندر اعظم افغانستان کی طرف سے ہندوستان پر حملہ کرنے کے لئے گیا تو اس وقت سوات، دیر، بونیر، جندول اور باجوڑ کے باشندے بدھ مذہب کے پیروکار تھے۔
سکندر مقدونی نے افغانستان سے روانگی کے وقت یونانی لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ لشکر کے ایک حصہ نے درّہ خیبر کے راستہ پشاور کی راہ لی۔ جس کی راج دھانی اس وقت پیوکی لوتیس (Peaukelootis) پکاری جاتی تھی۔جسے بعد ازاں "پشکلاوتی" کے نام سے بھی پکارا گیا اور جس کے معنی" کنول کے پھول" کے ہیں۔ محققین نے اسے موجودہ "چار سدہ" قرار دیا ہے۔ جب کہ لشکر کا دوسرا حصہ سکندر اعظم کی قیادت میں کنڑ کے راستہ آگے بڑھنے لگا۔ یہ راستہ بہت مشہور ہے اور زمانۂ قدیم میں زیادہ تر آمد و رفت اسی راستہ سے ہوا کرتی تھی۔
وادئ کنڑ (افغانستان) سے نکل کر سکندر علاقہ باجوڑ (موجودہ پاکستان) میں داخل ہوا ۔ یہاں کے باشندے جو تاریخ میں اسپائینز (Aspasians) پکارے جاتے ہیں، مقابلہ کے لئے موجود تھے۔ "اریگائن" (Arigaion) جو محققین کے خیال میں باجوڑ یا سوات کے ناؤگئی کے قریب کوئی آبادی تھی، کے مقام پر شدید جنگ لڑی گئی۔ مورخین کے خیال میں سرزمینِ پاکستان پر یہ سکندرِ اعظم کی پہلی باقاعدہ جنگ تھی۔ سکندرِ اعظم کی منظم اور جنگ جُو فوج کے سامنے مقامی باشندے ٹھہر نہ سکے اور قریباً نو مہینے کی شدید جنگ کے بعد انہوں نے شکست تسلیم کی۔ اس کے بعد سکندرِ اعظم کو سوات کی ایک اور مضبوط طاقت اساکینیوں سے مقابلہ کرنا پڑا۔ شدید جنگ لڑی گئی۔ باجوڑ کے بعد سکندرِ اعظم دوسری بار یہاں زخمی ہوا۔ شروع میں تو اس نے تازہ زخم کو کوئی اہمیت نہ دی لیکن جب خون کی گرمی کم ہوئی اور درد کی شدت نے اُسے بے قرار کیا تو وہ چِلا اُٹھا کہ لوگ اُسے مشتری دیوتا کا بیٹا پکارتے ہیں لیکن اب اُسے احساس ہو رہا ہے کہ اس کی حیثیت ایک عام انسان کی سی ہے۔
اساکینی قبیلہ کو شکست دینے کے بعد سکندر مساگا کی طرف بڑھا۔ مؤرخین نے موجودہ منگلور کو مساگا[1]* قرار دیا ہے۔ منگلور سوات کا ایک مشہور گاؤں ہے جو منگورہ سے مدین بحرین جاتے ہوئے سڑک کے دائیں طرف پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہے۔ یہاں بہت سے آثارِ قدیمہ دریافت ہوئے ہیں۔ جس میں سکندر اعظم کے دور کے سکے وغیرہ بھی ملے ہیں۔ مساگا میں شدید لڑائی کے بعد جنگ بندی ہوئی اور سکندر اپنی شرائط منوا کر یہاں سے اورا (Ora) اوربازیرہ (Bazira) نامی دو چھوٹی چھوٹی ریاستوں پر حملہ آور ہوا۔ یہ ریاستیں ایک دوسرے سے متصل تھیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مدد و اعانت پر یقین رکھتی تھیں۔ ریاست بازیرہ کے باشندوں نے سکندر کی افواج کا جواں مردی سے مقابلہ کیا لیکن جب وہ یونانیوں کی فوجی چال بازیوں کا شکار ہو کر اپنی محفوظ پناہ گاہوں سے نکل کر میدان میں مقابلہ کے لئے نکل آئے تو وہ یونانی فوج کا مقابلہ نہ کر سکے۔ دوسری طرف سکندر نے "اورا" پر حملہ کر کے اُسے قبضہ کر لیا تو مذکورہ دونوں ریاستوں کے باشندوں نے شکست کے باوجود اعانت قبول نہ کی اور بھاگ کر کوہِ ارنس کی طرف چل دیئے۔ محققین کے مطابق بازیرہ موجودہ" بری کوٹ" اور" اورا" بری کوٹ سے چند کلومیٹر دور اوڈی گرام کے مقام پر آباد تھا۔ اس کے بعد سکندر اعظم نے "کوہِ ارنس" کی طرف پیش قدمی کی۔ جہاں اِس نے راجہ ارنس کو شکست دی اور پھر پنجاب سے ہوتے ہوئے 326 قبل مسیح عازمِ ہندوستان ہوا۔ مشہور محقق سر اولف کیرو کے مطابق کوہِ ارنس (نیا نام پیر سر) شانگلہ کے مشہور علاقہ چکیسر میں واقع ہے۔ جس پر حال ہی میں بی بی سی لندن نے بھی سکندر اعظم کے حوالہ سے ایک دستاویزی فلم بنائی ہے جس سے اس بات کی مزید توثیق ہوتی ہے کہ تاریخ میں سکندرِ اعظم کے حوالے سے جس کوہِ ارنس کا تذکرہ موجود ہے، وہ شانگلہ کے چکیسر نامی علاقہ میں واقع ہے ۔
سکندرِ اعظم کے حملہ کے بعد 304 قبل مسیح میں جب اس کے مشہور جرنیل سیلوکس نے ہندوستان پر دوبارہ حملہ کیا تو اس نے دریائے سندھ کے اس پار مفتوحہ علاقے جن میں سوات، بونیر وغیرہ کے علاقے بھی شامل تھے، ہندوستان کے راجہ چندر گپتا کے حوالے کر دیئے۔ چندر گپتا نے ان علاقوں کے باشندوں کو پوری مذہبی آزادی دی تھی اور ان پر بے جا پابندیاں عائد کرنا پسند نہیں کیا تھا۔
چندر گپت موریہ نے بدھ مت قبول کر لیا تھا اور اپنے وقت کا مشہور ترین حکمران سمجھا جاتا تھا۔ اس نے بدھ مت کی تبلیغ میں نمایاں حصہ لیا لیکن اس کی زیادہ توجہ ہندوستان کے دوسرے علاقوں کی طرف رہی اور گندھارا کے علاقہ(سوات، باجوڑ،بونیر، مردان، چارسدہ ،ٹیکسلا وغیرہ) میں بدھ مت کی کسی غیر معمولی سرگرمی کا پتہ نہیں چلتا۔ چندر گپتا کے بعد اس کے بیٹے"بندوسرا" نے 297 قبل مسیح سے 272 قبل مسیح تک اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کامیابی سے حکومت کی ۔ اس نے بھی ہندوستان میں بدھ مت کی تبلیغ پر خصوصی توجہ دی اور سندھ پار گندھارا کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی۔
اس کے بعد چندر گپتا کے پوتے اور تاریخِ ہند کے مشہور ترین حکمران اشوک کی باری آئی۔ اس نے 274 قبل مسیح میں مسندِ اقتدار پر براجمان ہو کر اپنے آپ کو بدھ مت کی ترقی و تبلیغ کے لئے وقف کر دیا۔ بدھ مت کو ان کے عہدِ حکومت میں بہت عروج حاصل ہوا۔ ان ہی کے زمانے میں بُدھ مت کو گندھارا میں مقبولیت حاصل ہوئی اور ان ہی کے دورِ حکومت میں بُدھ مت کو ہندوستان سے نکل کر افغانستان ،سیلون اور دوسرے دور دراز کے ملکوں تک پہنچنے کا موقع ملا تھا۔ اشوک کے زمانہ میں ملک کے دور دراز کے علاقوں میں کتبے نصب کئے گئے جن میں علاقہ یوسف زئی کا کتبہ شاہبازگڑھی (مردان) کے مقام پر کافی شہرت رکھتا ہے۔237 قبل مسیح میں ہندوستان اور سلطنت گندھارا کا یہ مشہور حکمران دنیا سے رخصت ہوا۔
مہاراجہ اشوک کے بعد بدھ مت کا زوال شروع ہوا۔ ہندوؤں نے پھر سر اُٹھایا۔ یونانی حکمران جو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو چکے تھے، دوبارہ اپنی حکومت کے قیام کے لئے تگ و دو کرنے لگے۔ اس دوران وسط ایشیاء کے قبائل نے اس علاقے کا رُخ کیا تو قبیلہ ساکا اور کشان وغیرہ گندھارا میں دکھائی دینے لگے۔
سوات نے عہدِ قدیم میں اس وقت نمایاں ترقی کی، جب یہاں بدھ مت کو عروج حاصل تھا۔ چینی سیاح ہیون سانگ نے اس وقت اس علاقہ کا رقبہ پانچ ہزار لی ظاہر کیا ہے جو اندازاً 833 میل کے برابر بنتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علاقہ اس وقت موجودہ سوات کے علاوہ دریائے سندھ کے مغرب کی طرف کی پہاڑیوں اور درد(انڈس کوہستان) کے علاقوں تک پھیلا ہوا تھا۔ دوسرے چینی سیاح فاہیان 400 عیسوی کے مطابق اس علاقے میں بدھ کے پانچ سو معبد پجاریوں سے بھرے ہوئے نظر آتے ہیں اور پھر جب 630ء میں ہیون سانگ نے بدھ مت کے دور زوال میں اس علاقہ کو دیکھا تو اس کی چودہ سو خانقاہیں(جن میں اٹھارہ ہزار بھکشو رہائش پذیر تھے) ویران دکھائی دیتی ہیں۔ بُدھ مت کے جس قدر آثار سوات میں ملے ہیں، اتنے آثار پاکستان کے کسی اور علاقہ میں نہیں ملے ہوں گے۔ بدھ مت دور کے بہت سے آثار دریافت کئے گئے ہیں جب کہ ان سے کہیں بڑھ کر زمین کے سینے میں پوشیدہ ہیں۔ 1956ء میں ریاستِ سوات میں اٹلی کے مشہور ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر ٹوچی کی زیر نگرانی ایک پوری جماعت نے سوات کے آثارِ قدیمہ کی کھدائی کی تھی جس میں بہت سے آثار ظاہر ہوئے اور ان سے بے شمار قیمتی نوادرات برآمد ہوئے۔جن میں کچھ نوادرات تو معاہدہ کے مطابق حکومتِ اٹلی کودے دیئے گئے اور کچھ نوادرات کوسوات میوزیم میں محفوظ کر لیا گیا۔سوات میں بُدھ مت کے مشہور آثار بٹ کڑا، نجی گرام، اوڈی گرام، بری کوٹ اور جہان آباد وغیرہ کے مقامات پر دریافت ہوئے ہیں۔
بدھ مت کا زوال شروع ہوا تو ساتویں صدی کے وسط میں ہندوؤں نے بڑے منظم طریقہ پر ہندو دھرم کی تبلیغ شروع کر دی اور بُدھ مت کو مٹا دینے میں کوئی کسر باقی نہ رہنے دی گئی۔ سفید ہن(جنہوں نے بدھ مت کے آثار بڑی بے دردی سے مٹا دیئے تھے) کی آمد کے بعد یعنی اندازاً 500ء سے 1000ء تک پھر کسی بیرونی حملہ آور کا پتہ نہیں چلتا۔
ہندوؤں نے مختلف علاقوں میں اپنی راجدھانیاں قائم کر لیں۔ گندھارا کے علاقہ پر وقتاً فوقتاً اقتدار بدلتا رہا۔ کبھی یہ علاقہ بالکل آزاد رہا اور کبھی کسی طاقت ور حکمران کے زیرِ اقتدار دکھائی دینے لگتا۔ بالآخر دسویں عیسوی میں ہندو شاہیہ نے اس علاقہ پر اپنا پرچم لہرایا تو اس کا اقتدار موجودہ صوبہ سرحد سے نکل کر سوات اور لغمان (افغانستان) تک دکھائی دینے لگا۔ چناں چہ بری کوٹ (سوات) سے جو ایک کتبہ دریافت ہوا ہے اس پر سنسکرت زبان میں مرقوم ہے کہ :
"فرمان روائے اعلیٰ شاہانِ عظمیٰ کے بلند مرتبہ شاہ اور مختارِ اعلیٰ سری جیپا لا دیوا"
جیپا لادیوا سے مراد راجہ جے پال ہے۔درحقیقت یہی ایک آخری ہندو خاندان تھا، جس نے گندھارا پر حکومت کی تھی۔ اس سے قبل یا اس کے بعد کسی وقت بھی کوئی ہندو حکومت اس علاقہ پر حکمران دکھائی نہیں دیتی اور اس آخری ہندو حکومت کا چراغ بھی سلطان محمود غزنوی کے ہاتھوں گل ہو گیا تھا۔
گیارھویں صدی کے آغاز میں جب سلطان محمود غزنویؒ نے افغانوں کی لشکر کی مدد سے ہندوستان پر حملے شروع کئے تو افغانوں کے لشکر کے سردار پیر خوشحال نے سوات کے غیر مسلم بادشاہ گیرا کو شکست فاش دی اور سوات میں اسلام کی ابدی روشنی پھیلائی۔اس جنگ میں پیر خوشحال خود بھی شہید ہوئے جن کا مزار سوات کے مشہور تاریخی گاؤں اوڈی گرام میں آج بھی مرجعِ خلائقِ عام ہے۔
خاندانِ مغلیہ کے الغ بیگ کو یوسف زئیوں کی مدد و اعانت سے تختِ افغانستان نصیب ہوا تھا لیکن بعد میں جب اس کی نیت میں فتور آیا تو اس نے یوسف زئی اور دوسرے افغان قبیلہ گیگیانیوں میں اختلاف پیدا کر دیا اور خود گیگیانیوں کا حمایتی بن کر مقابلہ پر اُتر آیا لیکن کامیابی حاصل نہ کر سکا تو یوسفزئیوں سے ایک سازش کے تحت صلح کر لی اور یوسفزئی سرداروں کو ایک دعوت میں بلا کر قتل کر دیا گیا۔ ان حالات میں قبیلہ کے ایک نوجوان ملک احمد خان نے قیادت سنبھالی اور پندرھویں صدی عیسوی کے اوّل نصف میں افغانستان سے پشاور ہجرت کی۔ دلہ زاکوں سے پشاور میں رہائش کی درخواست کی تو انہوں نے یوسفزئیوں کو دوآبہ (پشاور) میں مقیم کر دیا۔ بعد ازاں یوسفزئیوں نے مردان، دیر، باجوڑ اور سوات میں سکونت اختیار کر لی۔ یوسفزئیوں نے سوات کا علاقہ "سلطان اویس" سے بزور شمشیر قبضہ کیا تھا۔
سوات کے قدیم باشندے جو سواتی پٹھان کہلاتے تھے، سوات سے کوچ کرتے ہوئے ضلع ہزارہ[1] میں بس گئے تھے جو اب بھی وہاں آباد ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سلطان محمود غوری کے دورِ حکومت میں یہاں آباد ہوئے تھے۔
1516ء میں مغل بادشاہ بابر جب افغانستان سے ہندوستان پر حملہ کرنے کی غرض سے جا رہا تھا تو راستہ میں کئی قبائل مزاحم نظر آئے۔ وہ جب خیبر پہنچا تو اسے اس کے اندازوں کے برعکس ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا جو جواں مردی اور بہادری میں اپنے علاقہ کے تحفظ کے لئے سب کچھ قربان کر دینے پر آمادہ تھے۔ انہوں نے بابر کو اپنے علاقوں سے گزرنے کی اجازت نہ دی اور سدِّ راہ بنے رہے۔
بابر جیسا حکمران بھی سر تسلیم خم کرنے والا نہ تھا، اس نے وقتی طور پر ہندوستان پر حملہ کرنے کا ارادہ ملتوی کیا اور پہلے قبائلیوں سے دو دو ہاتھ کر لینے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلہ میں پہلے پہل اس کی نظر یوسف زئیوں پر پڑی۔ لیکن وہ یوسفزئیوں کو مکمل طور پر زیر نہ کر سکا۔ چنانچہ یوسفزئیوں کے سردار شاہ منصور کی بیٹی بی بی مبارکہ سے شادی کے بعد یوسفزئیوں اور بابر کے درمیان مفاہمت ہوئی اور یوسفزئی قبیلہ کے بہت سے جنگ جو بابر کے لشکر میں شامل ہوئے ۔
اس طرح بابر یہاں سے ہوتا ہوا ہندوستان فتح کرنے میں کامیاب ہوا۔
بابر کے مرنے کے بعد بادشاہ ہمایوں نے سوات کو بزورِ شمشیر فتح کرنا چاہا لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا۔
شاہ منصور کے انتقال کے بعد بایزید انصاری پیر روشن نے وزیر ستان ، تیراہ، پشاور،دیر،بونیر اور سوات میں مذہبی رنگ میں اقتدار حاصل کیا۔ اس نے اپنے مریدوں کا باقاعدہ لشکر بنایا۔ لشکر کے اخراجات پورا کرنے کے لئے بیت المال بنایا ۔ اپنے مریدوں سے باقاعدہ عشر و زکواۃ وغیرہ لے کر اس بیت المال میں جمع کرتا تھا۔ اس نے پشتو زبان میں "خیرالبیان" نامی کتاب لکھی جس میں زیادہ تر اس کے عقائد تھے۔
ہندوستان کے مغل بادشاہ اکبر اعظم نے جب نیا مشرب دینِ الٰہی کے نام سے بنایا توبایزید انصاری (پیر روشن) نے اکبر کے خلاف پراپیگنڈہ مہم شروع کی۔ بایزید کی زندگی میں سیدعلی ترمذی عرف"پیر بابا" بونیر آئے اور "پاچا کلی" میں مقیم ہو کر حق و صداقت کی روشنی پھیلانے لگے۔ ہزاروں کی تعداد میں اس خطہ کے باشندوں نے انہیں اپنا مُرشد بنایا۔ ان کے مریدوں میں اخون درویزہ بابا کا نام قابلِ ذکر ہے۔ بایزید انصاری (پیر روشن) اور اخون درویزہ بابا کے درمیان مذہبی اختلافات رو نما ہوئے۔ دونوں کے درمیان مذہبی مناظرے ہوئے اور اخون درویزہ نے بایزید پیر روشن اور اس کے مریدوں پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ پیر روشن کو پیرِ تاریکی کا لقب دیا اور اخون درویزہ کے مرید پیرِ روشن کو پیرِ تاریک کہنے لگے۔جب کہ بایزید انصاری کے پیروکار بایزید کو پیر روشن کے نام سے پکارنے لگے۔
1585ء میں جب اکبر اعظم کی فوج مان سنگھ کی سر کردگی میں کابل جا رہی تھی۔ اس وقت دریائے سندھ اور کابل کے درمیان کے خطوں کے قبائلی اکبر کے سخت خلاف ہو گئے تھے۔ جب شاہی لشکر پشاور پہنچ گیا تو یوسفزئی اور مندڑ قبیلوں نے دریائے کابل کے شمالی طرف سے اور بایزید روشن نے دریائے سندھ کے مغرب کی طرف سے شاہی قافلہ اور لشکر پر حملہ کیا۔ اس حملے میں شاہی لشکر اور قافلے کے آٹھ ہزار افراد میں سے کچھ مقتل کئے گئے اور کچھ مجروح ہوئے اور ان کا مال و اسباب قبائلی لوٹ کر لے گئے۔
1585ء کے آخر میں جب پیرِ روشن تیراہ چلا گیا تو اکبر کے صوبیدار محسن خان نے کابل کی طرف سے بایزید پیرِ روشن پر فوج کشی کی ۔ پیر روشن نے مغل لشکر کا مقابلہ کیا۔لڑائی کے دوران وہ بیمار ہو گیا۔بیماری کی حالت میں تیراہ سے بھاگ کر بونیر چلا گیا اور وہیں انتقال کیا۔ بایزید کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا جلالہ اپنے باپ کے مریدوں کا مرشد بن گیا اور مغلوں کے خلاف جنگ جاری رکھی۔ 1586ء میں اکبر اعظم نے زین خان اور بیربل کی سر کردگی میں ایک بڑی فوج یوسف زئیوں کو مطیع کرنے کی مہم پر بھیجی۔ اکبر کے لشکر نے بونیر پر حملہ کیا ۔ اس حملہ میں شاہی فوج کو سوات اور بونیر کے یوسف زئی قبیلوں اور جلالہ نے شکست فاش دی۔ اکبر کا مشہور درباری راجہ بیربل بھاگتا ہوا مارا گیا۔ اس کے علاوہ آٹھ ہزار سپاہی قتل ہوئے۔
اورنگزیب کے عہد سے لے کر 1748ء تک سوات، بونیر اور باجوڑ مکمل طور پر آزاد رہے اور اپنے دستور (پشتو) کے مطابق زندگی بسر کرتے رہے۔
1749ء میں جب افغانستان کا بادشاہ احمد شاہ درانی ہندوستان میں مغل سلطنت کو مرہٹوں سے بچانے کے لئے دہلی جا رہا تھا تو سوات، بونیر وغیرہ کے قبیلوں نے اپنی مرضی سے احمد شاہ درانی کی بیعت کی اور جنگ میں ان کے ساتھ شامل ہوئے۔
1823ء میں جب سردار عظیم خان گورنر کشمیر نے سکھوں پر حملہ کیا تو یوسف زئی قبیلوں کے لشکر نے درانی لشکر کی معیت میں اس کا ساتھ دیا۔
اس جنگ کے بعد امیر دوست محمد خان کے بھائیوں کے درمیان تختِ کابل کے سلسلے میں کش مکش پیدا ہو گئی جن کی وجہ سے کشمیر اور پشاور پر سکھ قابض ہو گئے۔ یوسفزئی قبیلے کابل کے سرداروں سے بد ظن ہو کر خود مختار ہو گئے اور سکھوں کے خلاف صف آراء رہے۔
درانیوں کے چلے جانے کے بعد پشاور میں شہید سید احمد بریلویؒ بر سرِ اقتدار آ گئے ۔انہوں نے سکھوں کے خلاف لڑائی کا اعلان کیا۔ پشاور اور مردان میں لوگ ہزاروں کی تعداد میں ان کی حلقۂ ارادت میں آ گئے۔ انہوں نے اپنے مریدوں کا با قاعدہ لشکر بنایا اور سکھوں پر بڑے زور و شور سے حملے شروع کر دیئے۔ یوسفزئی قوم کا لشکر سید احمد بریلویؒ کے ساتھ مل گیا لیکن بد قسمتی سے سید احمد بریلویؒ کے ساتھ مذہبی عقائد میں اختلاف کی وجہ سے سوات کے قبیلوں نے سید احمد بریلوی سے علاحدگی اختیار کر لی ۔ ان کے متعلق یہ مشہور ہو گیا کہ وہ و ہابی ہیں۔ سید احمد بریلویؒ کے شہید ہونے کے بعد سوات اور بونیر میں اخون صاحب (سیدو بابا) کا تسلط قائم ہو گیا۔
1839ء میں جب مہاراجہ رنجیت سنگھ مرگیا تو سکھوں پر یک دم زوال آنا شروع ہوا۔ ان میں اتنی طاقت نہ تھی کہ سوات پر حملہ کر سکتے۔
1849ء میں جب سکھ شاہی ختم ہو گئی اور انگریز قابض ہو گئے تو سوات کی اُتمان خیل قوم نے انگریزوں پر حملہ کیا۔
1852ء میں اتمان خیل اور سوات کے "رانڑی زی" قبیلوں نے درہ ملاکنڈ سے انگریزوں پر دوبارہ حملہ کیا۔ اس حملہ کا جواب انگریزوں نے سختی سے دیا۔ جس کی تاب مقامی کا لشکر نہ لا سکا۔
سوات صدیوں سے قبائلی دور سے گزر رہا تھا کہ 1850ء میں اخون صاحبِ سوات(سیدو بابا) نے سوات اور بونیر کے باشندوں کے مشورے سے ستھانہ کے رئیس سید اکبر شاہ کو سوات کا بادشاہ منتخب کیا۔
جدید سوات کی پہلی شرعی حکومت کا دارالخلافہ موضع غالیگی قرار پایا۔ شریعت اسلامیہ کے نام سے حکومت نے کام شروع کیا۔ اس دوران ہندوستان کی جنگِ آزادی 1857ء کا آغاز ہوا۔ اس وقت جب کہ مذکورہ جنگ کی خبریں سرزمینِ سرحد میں پہنچنے لگی تھیں، 11 مئی 1857ء کو سید اکبر شاہ وفات پا گئے۔ان کے انتقال سے اس اولین حکومت کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ انگریزوں کو، اس حکومت سے جو خطرہ پیدا ہو رہا تھا، اس کا اندازہ سر ہربرٹ ایڈورڈ کے ان الفاظ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ وہ لکھتا ہے کہ " اگر سوات میں شرعی حکومت اور جنگ جُو قبائل کا سربراہ سید اکبر شاہ زندہ ہوتا تو 1857ء کی جنگ کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔"
سید اکبر شاہ کی شرعی حکومت سے پہلے بھی سوات میں افراتفری کا دور دورہ تھا اور جب سید اکبر شاہ کی شرعی حکومت کا خاتمہ ہوا تو سوات کا قبائلی دور پھر لوٹ آیا۔ سوات ایک بار پھر انتشار کا شکار ہوا۔ ہر طرف افراتفری مچ گئی اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق ہر زور آور کم زور کو دبانے اور ختم کرنے پر تُلا ہوا نظر آتا تھا۔ کسی کو تحفظ حاصل نہیں تھا۔ خان خوانین عام لوگوں کے لئے دردِ سر بنے ہوئے تھے۔ ہر قبیلے کے خان کو اپنے اپنے زیرِ اثر علاقے میں بالا دستی حاصل تھی۔ سارا سوات دو گروہوں میں بٹا ہوا تھا۔ معمولی معمولی باتوں کو وجہِ نزاع بنا کر آئے دن لڑائی جھگڑوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ یہ معلوم کئے بغیر کہ لڑائی کا سبب کیا ہے یا زیادتی کس فریق کی ہے۔ فائرنگ کی آواز سنتے ہی ہر قبیلہ اپنے اپنے حلیف قبیلہ کی مدد کے لئے پہنچ جاتا اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی لڑائی میں لاشوں کے ڈھیر لگ جاتے۔ شکست خوردہ فریق کو اپنے گھربار اور تیار فصل سے ہاتھ دھونا پڑتے اور کسی اور جگہ اپنے حلیف قبیلہ کے ہاں پنا ہ لینے پر مجبور ہونا پڑتا۔ سوات کے قبائل کی خانہ جنگیوں کے باعث نوابِ دیر کو اپنے توسیعی عزائم کی تکمیل کے لئے ریاستِ دیر سے ملحقہ سوات کے علاقہ نیک پی خیل پر بار بار حملہ کرنے کا حوصلہ ملتا اور لوُٹ مار کر کے واپس چلا جاتا تھا۔ ان حملوں کا دائرہ کبھی کبھی بالائی سوات (مٹہ سب ڈویژن) تک پھیل جاتا۔
1863ء میں اخوند صاحبِ سوات (سیدوبابا) نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ کونڑ،باجوڑ،دیر، جندول، بونیر اور سوات کے لشکر اخون صاحب کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے اور انگریزوں پر حملہ کر دیا گیا۔ انگریزوں نے بونیر پر لشکر کشی کی۔ بونیر میں امبیلہ کے مقام پر انگریزی فوج اور مجاہدین کے لشکر کے درمیان خون ریز جنگ ہوئی۔ جنگ کے بعد انگریز امبیلہ سے واپس چلے گئے۔ یہ جنگ امبیلہ کمپین 1863ء کے نام سے مشہور ہے۔
حضرت اخوند صاحب سوات کا اصلی نام عبد الغفور اور والد کا نام عبدالواحد تھا۔ آپ کا سلسلۂ نسب مہمندوں کے قبیلہ صافی سے جا ملتا ہے۔ آپ علاقہ شامیزئ (سوات) کے موضع جبڑئ میں 1794ء کو پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے حصولِ علم کا شوق اور زہد و تقویٰ سے رغبت رہی۔ تعلیم کے ابتدائی مدارج طے کرنے کے بعد آپ گھر سے نکل کر گوجر گڑھی (ضلع مردان) میں اس وقت کے مشہور عالم دین مولانا عبدالحکیم سے حصولِ تعلیم کرتے رہے۔ کچھ عرصہ آپ نے چمکنی(پشاور) اور زیارت کاکا صاحب (نوشہرہ) میں گزارا۔ پھر پشاور میں حضرت جی صاحب کی صحبت سے فیض یاب ہوئے اور آخر میں طور ڈھیری (ضلع مردان) میں کچھ عرصہ مولانا محمد شعیب کی خدمت میں گزارا۔ ان کی وفات کے بعد 1816ء میں آپ نے دریائے سندھ کے کنارے موضع بیکی میں قیام کیا اور وہیں عبادت میں مشغول رہے۔ 1828ء میں بیکی سے نکل کرنمل اور پھر موضع سلیم خان پہنچے۔ جہاں انہیں پہلی بار اخوند پکارے جانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ سکھوں اور درانیوں کی جنگ میں آپ نے دوست محمد خان فرمان روائے افغانستان کا ساتھ دیا۔ اس طرح اپنی عمر کے چوبیس سال گزارنے کے بعد ستمبر 1835ء میں وہ اپنے وطن کو واپس لوٹ آئے۔ پہلے پہل انہوں نے علاقہ ملوچ (سوات) کی ایک مسجد میں قیام کیا۔ وہاں سے موضع رنگیلا منتقل ہوئے۔پھر سوات کے اوڈی گرام نامی تاریخی گاؤں کے قریب غازی بابا(پیر خوشحال) کے مزار میں قیام پذیر رہے اور بعد ازاں مرغزار کی خوب صورت وادی کی راہ لی۔ وہاں سے مرغزار کے قریب سپل بانڈی نامی گاؤں میں مقیم ہو گئے۔ وہاں شادی کی اور 1845 میں اس جگہ سے نکل کر سیدو میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ جو اس وقت صرف سیدو کے نام سے پہچانا جاتا تھا لیکن ان کے مستقل قیام کی وجہ سے سیدو، سیدو شریف کہلانے لگا۔ سیدو میں مقیم ہو جانے کے بعد آپ نے مخلوقِ خدا کی فلاح و بہبود کی طرف توجہ دی۔آپ نے 12 جنوری1877ء میں داعئ اجل کو لبیک کہا۔ آپ کو سیدو شریف میں سپردِ خاک کیا گیا۔ جہاں ایک بڑی مسجد میں آپ کا عالی شان مزار عوام و خواص کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ آپ کے مزار پر دور دراز کے علاقوں سے آنے والے ہزاروں زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے۔
اخوند صاحب(سیدو بابا) کی وفات کے بعد ان کے دونوں بیٹے عبد المنان اور عبد الخالق ایک جنگ کے سلسلہ میں نوابِ دیر کے ساتھ موضع تالاش میں مقیم تھے۔ وفات کی خبر ملتے ہی عبد المنان واپس لوٹ آئے لیکن عبد الخالق کو بروقت اطلاع نہ مل سکی۔ جلدی میں وہاں سے نکل کر عبد المنان نے حصولِ اقتدار کی کوشش کی۔ اگرچہ انہیں یہ اقتدار حکمران کی حیثیت سے نہ مل سکا لیکن اس نے اپنے گرد طاقت جمع کر لی اور ایک قائد یا سردار کی حیثیت سے زندگی بسر کرنے لگا۔ اس کے برعکس عبد الخالق نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چل کر عوام کے دلوں پر قبضہ کر لیا۔ علاقہ بھر میں شریعتِ اسلامیہ کے نفاذ کے سلسلہ میں دورے شروع کئے۔ بڑی تعداد میں مرید اور شیوخ ان کے گرد جمع ہو گئے۔ اس طرح انہیں مذہبی اقتدار حاصل ہو گیا۔ حضرت اخوند کی وفات کے کوئی دس سال بعد ان کے بڑے بیٹے عبد المنان وفات پا گئے۔ 1892ء میں پینتیس سال کی عمر میں عبد الخالق بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
حضرت اخوند کے بیٹے میاں گل عبد الخالق کی وفات پر ان کے دو کم سن بیٹے رہ گئے تھے۔ بڑے بیٹے میاں گل عبدالودود کی عمر دس سال تھی جبکہ چھوٹا بیٹا میاں گل شیرین جان بہت کم عمر تھا۔ ان دونوں کو ہی باپ کا جانشین تسلیم کر لیا گیا۔ وہ سجادہ نشین کی حیثیت سے دکھائی دینے لگے۔ اس طرح گویا بچپن ہی سے انہیں مذہبی اقتدار حاصل ہو گیا۔ ایک عرصہ تک تو یہ سجادہ نشین اور ان کے دو چچا زاد بھائی یعنی عبد المنان کے بیٹے آپس میں اتحاد و اتفاق سے رہے۔ پھر اختلافات نے سر اٹھایا ۔ دونوں نے اپنی اپنی جماعتیں منظم کرنا شروع کیں۔ کش مکش بڑھنے لگی۔ سازشیں شروع ہوئیں، نتیجتاً حالات اس حد تک بگڑ گئے کہ ایک دن جب یہ دو چچا زاد بھائی راستہ میں ایک دوسرے کے سامنے آئے تو ایک بھائی 1904ء میں گولی کا نشانہ بنا اور دوسرا بھائی 1907ء میاں گل عبدالودود کی گولی سے ہلاک ہوا۔
اب دونوں بھائی میاں گل عبدالودود اور میاں گل شیرین جان اتفاق و اتحاد سے رہنے لگے۔ انہوں نے جائداد تقسیم کر لی۔ اس دوران میاں گل عبدالودود فریضۂ حج ادا کرنے چلے گئے۔ واپسی پر دونوں بھائیوں میں بھی اختلافات پیدا ہوا۔ شیرین جان نے سیدو پر حملہ کر دیا لیکن شکست کھائی۔ پھر میاں گل عبدالودود نے غالیگی پر حملہ کرتے ہوئے اس پر قبضہ کر لیا۔ بعد ازاں دونوں بھائی چھ ماہ تک قمبر کے مقام پر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء رہے۔
1908ء میں نوابِ دیر نے سوات پر حملہ کیا۔ دریائے سوات کو پار کر کے سوات کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ یہ جنگ سوات میں مقیم دو قبیلوں نیک پی خیل اور شموزئ میں اختلافات کی بناء پر رونما ہوئی۔ کمزور پارٹی نے نوابِ دیر سے امداد طلب کی تھی جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے لشکر کشی کی اور نیک پی خیل اور شموزئ کے علاقوں پر قابض ہو گیا۔
سوات کے باشندوں کو جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ انہوں نے خواہ مخواہ اپنے گھریلو جھگڑے میں نوابِ دیر کو دعوت دے کر خود ہی اپنی غلامی کی تدبیر کی۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد "سنڈاکئی ملا" نامی شخص، جو انگریزوں کے خلاف صف آراء تھا، وہ اہلِ سوات کی مدد پر آمادہ ہو گیا اور یوں 1915ء میں سوات کے قبیلوں نے سنڈاکئی ملا( جو تاریخ میں کوہستان ملا کے نام سے بھی مشہور ہیں) کی سر کردگی میں جلد ہی اپنے تمام مقبوضہ علاقے وا گزار کرا لئے۔
آئے دن کے لڑائی جھگڑوں اور نوابِ دیر کی فوجوں کی لوٹ مار سے تنگ آ کر خوانین سوات مختلف قبائل کو ایک ریاست کی شکل دینے پر متفق ہو گئے۔ قبائلِ سوات کو متحد کرنے میں سنڈاکئی ملا صاحب نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ سنڈاکئی ملا ایک عالِم باعمل تھے۔ دیوبند کے فارغ التحصیل تھے اور انگریزوں کے خلاف جہاد کا جذبہ دل میں رکھتے تھے اور اسی مقصد کے پیشِ نظر ایک قبائلی منظم ریاست کے قیام کے لئے کوشاں تھے تاکہ انگریزوں کے خلاف مؤثر طور پر جہاد جاری رکھا جا سکے۔ ریاست کی سربراہی کے لئے حضرت پیر بابا کی اولاد سے سید عبدالجبار شاہ کا نام تجویز کیا گیا جو ریاستِ امب سے متصل ستھانہ کے رہنے والے تھے۔ اپنی علمی قابلیت اور نوابِ امب سے قریبی روابط رکھنے کی بناء پر ریاستِ امب کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے تھے۔ معززین سوات کے ایک وفد نے جا کر انہیں سوات آنے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کر لی اور سوات آ کر بحیثیتِ حکمران اپنے فرائض کا آغاز کیا۔موضع کبل علاقہ نیک پی خیل کو اپنا دارالخلافہ بنایا۔ عشر وصول کرنے کا طریقہ رائج کیا۔ عشر کی آمدنی سے گھوڑے اور اسلحہ خریدا اور رضا کاروں کے علاوہ کچھ تنخواہ دار فوج کا اہتمام بھی کیا گیا۔ لوگوں کے مقدمات نبٹانے کے لئے قاضی کورٹس قائم کئے اور ایک قلیل عرصہ کے دوران قبائل کو ایک منظم ریاست کی شکل دے دی۔
سنڈاکئی ملاکو اس ریاست کا قاضی القضاۃ بنایا گیا ۔ جب انہوں نے اپنا عہدہ سنبھالا تو اسی سال انگریزو ں کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔ سوات،بونیر وغیرہ کے قبیلوں نے ان کے اعلان پر لبیک کہا اور سب ان کے ساتھ جہاد میں شریک ہو گئے۔ مجاہدین نے چک درہ اور ملاکنڈ پر حملہ کیا۔ صوبہ سرحد کے چیف کمشنر روس کیپل اپنی فوج کے ساتھ مجاہدین کے لشکر کے مقابلہ کے لئے خود ملاکنڈ گیا۔ مجاہدین نے جواں مردی سے انگریزی فوج کا مقابلہ کیا لیکن آخر میں رسد کی کمی کی وجہ سے پسپا ہو گئے اور روس کیپل نے سوات کے قبیلوں کی ناکہ بندی کر دی۔
1916ء میں نوابِ دیر نے انگریزوں کے ایماء پر سوات پر حملہ کیا۔ دریائے سوات کو پار کرتے ہوئے سوات کا بہت سا علاقہ قبضہ کر لیا لیکن آخر میں سید عبدالجبار شاہ نے دیر کے نواب کو بزورِ شمشیر مغلوب کیا۔
دو سال حکمرانی کے بعد سید عبدالجبار شاہ کے بارے میں یہ افواہ پھیلی کہ وہ قادیانی مسلک کے پیروکار ہیں۔ تحقیق حال کے لئے سنڈاکئی ملا کی سر کردگی میں علماء کا ایک وفد ان سے ملا۔ انہوں نے قادیانی مسلک کے پیروکار ہونے کا اعتراف کیا۔ چنانچہ علماء کے وفد کے ارکان نے خوانینِ سوات کا جرگہ طلب کیا اور انہیں صورتِ حال سے آگاہ کیا۔ جرگہ نے متفقہ طور پر انہیں معزول کرنے اور سوات چھوڑنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کسی لیت و لعل کے بغیر جرگہ کا فیصلہ تسلیم کر لیا اور انہیں نہایت احترام سے ستھانہ واپس پہنچا دیا گیا۔
اس وقت حالات یہ تھے کہ ایک طرف نوابِ دیر ہر وقت جنگ و جدل کے لئے تیار نظر آتا تھا اور دوسری جانب انگریز قبائلی علاقہ میں کسی منظم ریاست کے قیام کا روادار نہ تھا۔ اس کے ساتھ ہی ریاستِ امب کا حکمران بھی یہ برداشت نہ کر سکتا تھا کہ اس کے پہلو میں کوئی جدید ریاست جنم لے۔اندرونِ ملک کی حالت بھی کسی طرح اطمینان بخش نہ تھی۔رسد و رسائل کے ذرائع مفقود تھے اور باہر کی دُنیا سے رابطہ کٹا ہوا تھا۔ سب سے زیادہ مایوس کن بات یہ تھی کہ عام لوگوں میں قبائلی دور کی باغیانہ خصلت موجود تھی اور ان کی وفاداری پر مکمل بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ان حالات میں حقیقتاً حکومت کا تاج ایسے کانٹوں کا تاج تھا جس کے قیام و بقا کی کوئی ضمانت نہ تھی۔ لیکن اس دور 1917ء میں اُمید کی کرن صرف ایک تھی ۔ یعنی عام لوگ، علماء اور اولیائے کرام سے بہت عقیدت اور محبت رکھتے تھے ۔میاں گل عبدالودود جو اس دور کے مشہور پیر اخوند عبد الغفور (سیدو بابا) کے پوتے تھے، لہٰذا نئے حکمرانِ سوات کے سلسلے میں عمائدینِ سوات نے ایک جرگہ بُلا لیا۔ جس نے علماء کے مشورہ سے گل شہزادہ عبدالودود کے نام پر اتفاق کیا۔ اُن کے نام کے انتخاب میں سنڈاکئی ملا صاحب نے اہم کردار ادا کیا۔ گل شہزادہ عبدالودود ان دنوں چک درہ کے قریب موضع دربار میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ خوانینِ سوات نے ایک وفد ان سے ملاقات کے لئے بھیجا اور جرگہ کے متفقہ فیصلے سے انہیں آگاہ کیا۔ گل شہزادہ عبدالودود نے سیدو شریف آ کر بحیثیتِ سربراہِ ریاست اپنا منصب سنبھال لیا۔ ذاتی طور پر میاں گل عبدالودود (المعروف بادشاہ صاحب) بہت خوبیوں کے مالک تھے۔ چوں کہ قبائلی سیاست میں وہ ایک اہم فریق کی حیثیت سے حصہ لیتے رہے تھے اور متعدد قبائلی جنگوں میں اپنے حلیفوں کے شانہ بشانہ لڑ چکے تھے، لہٰذا قبائلی سیاست کے خوب ماہر تھے۔ غیر معمولی قوتِ ارادی کے مالک جرات مند اور نڈر تھے۔ خود اعتمادی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اخلاقی لحاظ سے مضبوط کردار کے مالک تھے۔ نہ صرف نماز، روزہ کے پابند تھے بلکہ تہجد گزار بھی تھے۔کثرت سے نفلی روزہ رکھتے تھے۔
دستار بندی کے بعد انہوں نے ریاست کے نظم و نسق اور امن و امان کی طرف توجہ مبذول کی۔ نظم و نسق کی ذمے داری انہوں نے اپنے جان نثار دوست حضرت علی خان کے سپرد کر دی اور انہیں اپنا وزیر بنایا۔ معمولی تعلیم کے باوجود حضرت علی خان بڑے ذہین اور مُدبّر انسان تھے۔ خوانینِ سوات سے معاملات طے کرنے میں ان کی عزت و احترام کا بہت خیال رکھتے تھے اور اپنی کامیاب ڈپلومیسی سے تھوڑے عرصہ میں بادشاہ صاحب کے خلاف مزاحمتی قوتوں کا قلع قمع کر دیا۔ چوروں اور ڈاکوؤں کے لئے قتل کی سزا تھی اور تھوڑے عرصہ میں مکمل امن و امان قائم ہو گیا۔ بعد میں بادشاہ صاحب نے اپنی صاحب زادی ان کے عقد میں دے دی۔ حضرت علی خان کی طرح ان کے چھوٹے بھائی احمد علی خان بادشاہ صاحب کے بڑے وفادار تھے۔ ان کی دیرینہ خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں ریاستی فوج کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ریاستی فوج اور خوانین کے رضا کاروں کی مدد سے احمد علی خان نے ریاستی حدود میں بڑی توسیع کی۔
بادشاہ صاحب کی حکومت کے ابتدائی ایام(1918 ء) میں نوابِ دیر نے حسبِ سابق علاقہ نیک پی خیل پر حملہ کر دیا۔ بادشاہ صاحب نے دیر کے لشکر کے مقابلہ کے لئے اپنے بھائی میاں گل شیرین شہزادہ کو بھیجا۔ شیرین شہزادہ نے دیر کے لشکر پر بڑی بہادری سے حملہ کیا لیکن خود قتل ہو گئے۔ شیرین شہزادہ کے شہید ہونے کے بعد سوات اور باجوڑ کے لوگوں کا غصہ نوابِ دیر کے خلاف حد سے زیادہ بڑھ گیا اور وہ سوات کے لشکر میں جوق در جوق شامل ہونے لگے۔
1919ء میں نوابِ دیر کے لشکر کو بادشاہ صاحب نے سخت شکست دی اور ریاستِ دیر کے علاقہ ادینزئی کے نصف حصہ پر قبضہ کر لیا۔ یہ بادشاہ صاحب کی اولین شاندار کامیابی تھی جس نے اس علاقہ پر ان کا سکہ بٹھا دیا۔
1921ء میں ایک دفعہ پھر خطرات کے بادل اُمنڈ آئے تو جدید ریاست کو ایک مشکل ترین دور سے گزرنا پڑا۔ ریاست کے اندر چند قبائل نے بغاوت کر دی۔ دوسری طرف علاقہ بونیر میں نواب امب نے گوکند کے مقام پر حملہ کر دیا۔ کوہستان کے لشکر نے نوابِ دیر کے ایماء پر مدین کے مقام پر اجتماع کیا۔ خود امب کا لشکر کوہِ کڑاکڑ تک پہنچ گیا اور دیر کے جس علاقہ ادین زئی پر سوات کے لشکر نے قبضہ کیا تھا، اس میں بھی بغاوت کے آثار نمودار ہونے لگے۔ نوابِ دیر کو انگریز کی حمایت حاصل تھی۔ اس طرح گویا بہ یک وقت بادشاہ صاحب کی حکومت سخت مشکلات میں گھر گئی۔ لیکن بادشاہ صاحب نے ہمت نہ ہاری۔ بڑی جواں مردی سے تمام محاذوں پر توجہ دی اور اپنی عقل اور تدبر سے کام لیتے ہوئے مسلسل پانچ ماہ تک جنگ و جدل میں مصروف رہنے کے بعد انہوں نے مشکلات پر قابو پا لیا اور تمام محاذوں پر اُنہیں کامیابی نصیب ہوئی۔
سوات کے لشکر نے ادین زئی کے نصف علاقہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ نوابِ دیر جب طاقت سے اس پر دوبارہ قبضہ نہ کر سکا تو اس نے انگریز کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ حکومت انگلیشیہ سے اس کے تعلقات خوش گوار تھے، اس وجہ سے انگریز نے حکمرانِ سوات بادشاہ صاحب سے مشورہ کئے بغیر ، نوابِ دیر سے وعدہ کیا کہ وہ ادین زئی کا علاقہ اُسے واپس دلا دے گا اور یہ شرط لگا دی کہ آئندہ جب تک نوابِ دیر کو حکمرانِ سوات بادشاہ صاحب کے مقابل دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہو جائے وہ سوات پر لشکر کشی نہیں کرے گا۔ ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کر دی کہ ایسی حالت میں بھی نوابِ دیر کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ حملہ کرنے سے قبل پولیٹیکل ایجنٹ سے اجازت حاصل کرے گا۔
بادشاہ صاحب پر جب یہ حقیقت کھلی اور پولیٹیکل ایجنٹ نے اُسے مذکورہ معاہدہ یا اقرار نامہ کی اطلاع دی تو وہ بے بس نظر آنے لگے۔ ان کے پاس اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ بہ یک وقت دیر اور انگریز کی مشترکہ طاقت کا مقابلہ کرتے۔ پھر ایسی حالت میں کہ سوات کے باشندے اپنی ضروریاتِ زندگی کے لئے انگریزی علاقہ کے دست نگر تھے۔ انہوں نے خاموشی سے سر تسلیم خم کر دیا اور علاقہ ادین زئی جو حقیقت میں ریاستِ دیر کا ہی حصہ تھا، کو واپس کرنے کا اقرار کر لیا۔ اس طرح یہ علاقہ 1922ء میں نوابِ دیر کے سپرد کر دیا گیا۔
1923ء میں میاں گل عبدالودود(بادشاہ صاحب) نے بونیر، بحرین اور چکیسر پر قبضہ کر لیا اور مفتوحہ علاقوں کی تنظیم نو کی اور ہر طرف مکمل طور پر امن و امان قائم کیا اور اسی سال(1923ء ) میں بادشاہ صاحب نے اپنے فرزند میاں گل محمد عبدالحق جہان زیب کو اپنا ولی عہد مقرر کر دیا۔
مارچ 1926ء میں حکومت انگلیشیہ نے بادشاہ صاحب میاں گل عبدالودود کو والیِ سوات تسلیم کیا۔ 3 مئی 1926ء کو چیف کمشنر صوبہ سرحد نے سیدو میں ایک بڑی تقریب منعقد کی جس میں بادشاہ صاحب میاں گل عبدالودود گل شہزادہ کے فرمان روائے سوات ہونے کا اعلان کیا اور ان کا دس ہزار روپے سالانہ الاؤنس مقرر کیا۔ بادشاہ صاحب نے حلف وفاداری کی رسم ادا کی۔
اکتوبر 1926ء میں وائسرائے ہند نے ملاکنڈ ایجنسی کا دورہ کیا تو پہلی بار والیِ سوات کو اس سے ملاقات کرنے کا موقع ملا۔ یکم جنوری 1930ء کو حکومتِ انگلیشیہ نے بانیِ ریاستِ سوات میاں گل عبدالودود کو کے ۔بی۔ ای کا خطاب دیا اور اسی سال اپریل میں وائسرائے ہند نے سوات میں سیدو شریف کے مقام پر ایک تقریب میں اس اعزاز کی سند یا تمغہ میاں گل عبدالودود کو عطا کیا۔ اس موقع پر حکمران کے لقب کا مسئلہ درپیش ہوا تو میاں گل نے صاف الفاظ میں واضح کیا کہ قوم اسے"بادشاہ" کا خطاب دے چکی ہے۔ اس وجہ سے وہ کوئی ایسا لقب پسند نہیں کر سکتے جو اس مذکورہ خطاب کے وقار پر اثر انداز ہو سکے۔ انگریز بادشاہ ہزمجسٹی کا خطاب اپنے آئین کے تحت تو دے نہ سکتا تھا۔ البتہ لفظی تغیر و تبدل سے بادشاہ کی بجائے رولر(Ruler) یعنی حکمران یا والی کا لقب تجویز ہوا ۔ چنانچہ سرکاری کاغذات اور عام بول چال میں بادشاہ صاحب "والیِ سوات" پکارے جانے لگے۔
بانئی ریاستِ سوات مستقبل کی فکر میں اپنا ولی عہد مقرر کر چکے تھے۔ حکومتِ انگلیشیہ سرکاری حیثیت میں اسے تسلیم کرنے سے پہلو تہی کر رہی تھی اور 1926ء میں ریاست کو تسلیم کرنے کے باوجود ولی عہد کو تسلیم نہ کیا گیا تھا۔ لیکن بانیِ ریاستِ سوات اپنی سعی میں لگا رہا اور بالآخر کامیاب ہوا تو 15 مئی 1933ء میں گورنر صوبہ سرحد کے نمائندہ کی حیثیت سے پولیٹیکل ایجنٹ ملاکنڈ نے سیدو شریف میں ایک تقریب کا اہتمام کیا اور اس میں شہزادہ محمد عبدالحق جہانزیب کو ولی عہد تسلیم کرنے کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔
1926ء میں انگریز کے اس ریاست کو تسلیم کر لینے کے بعد بادشاہ صاحب کو جب یہ اطمینان ہو گیا کہ اب اس ریاست پر دیر یا امب کی طرف سے حملہ نہیں ہو سکتا تو انہوں نے ریاست کو امن اور مزید وسعت دینے کی کوشش کی۔ چنانچہ کوہستان کی طرف اقدام ہوا اور شدید لڑائی کے بعد کوہستان کو ریاستِ سوات کی حدود میں شامل کر لیا گیا۔
1931ء میں ریاستِ سوات میں صدیوں سے رائج تقسیم اراضیات(ویش) کا جو دستور چلا آ رہا تھا، اُسے یک دم موقوف کر دیا گیا۔ ریاستِ سوات کی سرزمین پر جہاں جہاں بھی لوگ قابض تھے، ان کو ان اراضی کا مالک تصور کیا گیا۔
1947ء میں وادیِ کالام کے باشندوں نے سوات کی روز افزوں ترقی کو دیکھتے ہوئے الحاق کی درخواست کی تو یہ علاقہ بھی ریاست میں شامل کر دیا گیا لیکن حکومت پاکستان نے اُسے ریاست سوات میں شامل کرنے کی بجائے اسے قبائلی علاقہ کا درجہ دے دیا اور اس کے نظم و نسق کی نگرانی کے لئے والی سوات کو اس کا نگران مقرر کر دیا۔
1947ء ہی میں پاکستان بننے کے بعد ریاستِ سوات کا پاکستان سے الحاق کر دیا گیا۔ پاکستانی ریاستوں کے مرکز پاکستان سے الحاق کے سلسلہ میں ریاستِ سوات کو اولیت کا فخر حاصل رہا اور اعلانِ الحاق کے ساتھ والیِ سوات نے اس وظیفہ سے بھی، جو کہ انگریز کے وقت سے مل رہا تھا، دست برداری کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی ایک لڑاکا ہوائی جہاز بھی خرید کر حکومتِ پاکستان کی نذر کیا۔
بانئی ریاستِ سوات میاں گل عبدالودود(المعروف بادشاہ صاحب) اپنے وقت کے کامیاب ترین حکمران ثابت ہوئے۔ انہوں نے صدیوں کے غیر منظم ، غیر تعلیم یافتہ اور کسی کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے والی قوم کو اتحاد و تنظیم کا سبق پڑھایا۔ ان کی اپنی ریاست قائم کی۔ پشتو کو سرکاری زبان کی حیثیت دی۔ ملک کو تعمیر و ترقی کے راستہ پر گامزن کیا۔ ریاست کے عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کیں ۔ ان کے تعلیم و صحت کا انتظام کیا اور ریاستِ سوات کو تاریخ کے اوراق میں ایسا مقام دلایا کہ دوسری کوئی ہم عصر ریاست اس کا مقابلہ نہ کر سکی۔ پھر اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سب کا مرانی اور کامیابی، دُور اندیشی ، تدبر اور نظم و نسق اس شخص نے قائم کیا جو جدید تعلیم کا تو ذکر ہی کیا قدیم تعلیم سے بھی بہرہ ور نہ تھا اور جسے اپنے ذاتی خطوط اور کاروبارِ مملکت چلانے کے سلسلے میں بھی دوسرے لکھنے والوں پر بھروسہ کرنا پڑتا تھا۔ اپنی مصروف اور جنگ و جدل سے بھرپور زندگی میں وہ خود تو تعلیم حاصل نہ کر سکے لیکن اپنے خاندان اور قوم کو اس نعمت سے محروم نہ رہنے دیا۔ اپنی اولاد کو تعلیم دلائی اور قوم کے لئے ریاست میں مدرسوں کا جال بچھا دیا اور وہ سب کچھ کر دکھایا جو دورِ حاضر کا کوئی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ حکمران ہی کر سکتا ہے۔ تعلیم کی تشنگی کو وہ خود بھی محسوس کرتے رہے اور جب حکومت سے دست بردار ہوئے تو انہوں نے اپنی اولین فرصت میں تعلیم کی طرف توجہ دی چنانچہ خود تریسٹھ سال کی عمر میں تعلیم حاصل کرنا شروع کی تھی۔
ریاستِ سوات کے قیام و ترقی میں بادشاہ صاحب کی ہمت و استقلال اور جرات و دلیری کے ساتھ عقل و تدبر نے کارہائے نمایاں کر دکھائے۔ انہوں نے جس طرف کا رُخ کرنا چاہا ،پہلے اس علاقہ میں اپنے طرف دار پیدا کئے۔ اس طرح جس علاقہ کو اس نے ریاست میں شامل کیا ، وہیں کے افراد کو اچھے عہدے دیئے اور جب اس علاقہ کے افراد کبھی ریاست کے مرکزی مقام سیدو شریف آتے تو وہ ان سے بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے۔
انہوں نے ریاست میں عدالتیں قائم کیں، فوج اور پولیس کا انتظام کیا، ڈاک خانوں کا اجراء ہوا، تجارت کی طرف توجہ دی گئی اور علاقہ سے جاہلانہ رسوم اور دشمنیوں کا خاتمہ کر دیا۔
ایک طویل عرصہ کے تگ و دو کے بعد جب ایک مستقل اور پائیدار ریاست ترقی کی جانب گامزن نظر آنے لگی تو تریسٹھ سال کی عمر میں بانئی ریاست میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب نے خود حکومت سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کیا اور عنانِ سلطنت شہزادہ محمد عبدالحق جہانزیب کو سونپ دیئے۔12 دسمبر 1949ء کو خان لیاقت علی خان، وزیر اعظم پاکستان نے مع اپنی بیگم رعنا لیاقت علی خان، سیدو شریف تشریف لا کر ایک پر وقار تقریب میں ولی عہد جہانزیب خان کے والیِ سوات ہونے کا با قاعدہ اعلان کیا۔ خان لیاقت علی خان نے اپنی تقریر میں کہا۔
"گل شہزادہ عبدالودود والیِ سوات نے حکومت پاکستان سے درخواست کی تھی کہ بڑھاپے کی وجہ سے میں اُمور ریاست بہتر طور پر نہیں چلا سکتے، لہٰذا میری جگہ میرے ولی عہد جہان زیب کو والیِ سوات مقرر کیا جائے۔ حکومتِ پاکستان نے ان کی درخواست منظور کی اور ان کی مرضی کے مطابق میاں گل جہانزیب کو والیِ سوات مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ آج کے بعد میاں گل جہانزیب کو بحیثیت والیِ سوات اختیارات حاصل ہوں گے۔"
رسمی طور پر بادشاہ صاحب نے اپنی ٹوپی اتار کر ان کے سرپر رکھ دی اور بحیثیتِ والیِ سوات معززینِ سوات نے انہیں مبارک باد پیش کی اور یوں یہ تقریب اختتام کو پہنچی۔
بادشاہ صاحب نے والیِ سوات جہان زیب کو اختیاراتِ حکومت ایسے ماحول میں سپرد کر دیئے جب ریاست میں مکمل امن و امان تھا۔ سرکش قوتیں دم توڑ چکی تھیں، بادشاہ صاحب نے خوانینِ سوات کی عزت کا خیال رکھتے ہوئے نہایت حکیمانہ طریقے سے ان کا خوش دلانہ تعاون حاصل کیا تھا۔ خوش دلانہ تعاون کا اس سے بڑھ کر اور ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ بادشاہ صاحب کی اپیل پر انہوں نے اپنا سارا ذاتی اسلحہ بادشاہ صاحب کے حوالہ کر دیا تھا۔ بادشاہ صاحب نے اپنے زیر نگرانی میاں گل جہان زیب کو، جب وہ ولی عہد تھے، کاروبار حکومت کی تربیت دے دی تھی۔خوانین سوات اور دوسرے با اثر لوگوں سے انہیں فرداً فرداً متعارف کرایا۔ جن لوگوں نے ریاست کی تشکیل میں اہم حصہ لیا تھا، ان کی نشان دہی کی اور جن لوگوں نے مخالفت کی تھی، ان سے بھی آگاہ کیا اور آئندہ کے لئے مناسب طرزِ عمل اختیار کرنے کی خاص ہدایات دیں۔ گویا گھوڑے پر ساز و سامان ڈال کر انہیں اس پر بٹھا دیا اور باگیں انہیں تھما دیں۔ مگر افسوس والیِ سوات بادشاہ صاحب جیسے اوصاف اپنے اندر پیدا نہ کر سکا۔ بعض خوبیوں کے باوجود وہ نہ تو ان کی طرح مضبوط کردار کا مظاہرہ کر سکا، نہ ان کی طرح مضبوط قوتِ ارادی کا مالک ثابت ہوا اور نہ ہی غیر معمولی طور پر خود اعتمادی سے متصف تھا۔ شک مزاجی کی وجہ سے ریاست میں ہر اس شخص کو اپنے اقتدار کے لئے خطرہ سمجھتا تھا جو ان کی خواہش اور مرضی کے برعکس انہیں مشورے دیتا اور اپنی قابلیت اور صلاحیت کی بدولت ریاست میں نمایاں ہونے کی کوشش کرتا۔ یہی وجہ تھی کہ والیِ سوات کی ان کمزوریوں سے بعض اوقات چُغل خور، خوشامدی اور خود ساختہ جاسوس فائدہ اُٹھاتے اور وہ ان کو مخلص لوگوں سے بد ظن کرتے۔
بادشاہ صاحب کی حیثیت ایک قائد کی تھی،جبکہ والیِ سوات کی مثال ایک بیوروکریٹ کی سی تھی، ریاست کے اندرونی معاملات کے لئے ان کی پالیسی Divide and Rule کی آئینہ دار تھی۔ جب کہ پاکستان کے حکمرانوں کی کمزوریوں سے بھی وہ واقف تھے اور انہیں رام کرنا ان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ ہر شخص کی قیمت معلوم تھی۔ آج کل کی طرح گرانی نہ تھی کہ اب کروڑوں میں سودا طے پاتا ہے۔ وہ زمانہ ارزانی کا تھا،ہزاروں میں معاملات طے ہوتے تھے اور شاذ و نادر ہی لاکھوں تک بات پہنچتی تھی۔ ان کمزوریوں کے باوجود والیِ سوات ریاست کی تعمیر و ترقی میں دلچسپی لیتے تھے۔ انہوں نے جگہ جگہ سکول قائم کئے تھے۔ سڑکوں کا جال بچھایا تھا۔ عوام کو طبی سہولتوں کی فراہمی کے سلسلے میں ہسپتال بنوائے تھے اور سوات کو ایک جدید اور فلاحی ریاست بنانے کے لئے سرگرمِ عمل تھے۔ اکثر تعمیراتی کاموں کی نگرانی خود کرتے تھے۔ آخری سالوں میں جب ریاست کی کل آمدنی ڈیڑھ کروڑ روپے تھی، اس میں یہ سارے تعمیراتی کام انجام پاتے تھے۔ آج کل صرف میونسپل کمیٹی اور ڈسٹرکٹ کونسل کی آمدنی چار کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے لیکن ہمارے سرکاری چوہے یہ رقم اس طرح غائب کر دیتے ہیں جس کا پتہ تک نہیں چلتا۔
نظم و نسق کے لحاظ سے ریاستِ سو ات کو آٹھ یونٹوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ہر یونٹ کو حاکمئی کہا جاتا تھا اور یونٹ کے سربراہ کو حاکم۔ ہر یونٹ دو سے لے کر چھ تحصیلوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ بعض تحصیلوں کی آبادی زیادہ ہوتی تھی۔ لہٰذا ایک تحصیل کو یونٹ کا درجہ حاصل ہوتا تھا مثلاً مٹہ، طوطالئی وغیرہ۔
تحصیل کا سربراہ تحصیلدار کہلاتا تھا اور وہ ایک تحصیل کے متعلق کُل اُمور کا ذمہ دار ہوتا تھا۔ بحیثیتِ مجسٹریٹ مقدمات کا تصفیہ تحصیلدار کرتا تھا اور مُدّعی علیہ کسی وکیل کی وساطت کے بغیر عدالت میں پیش ہو جاتے تھے۔ فریقین کے دلائل سننے کے بعد تحصیلدار اپنی فہم کے مطابق فیصلہ سنا دیتا۔ اگر ایک فریق تحصیلدار کی عدالت سے مطمئن نہ ہوتا تو حاکم کی عدالت میں تحصیلدار کے فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کردیتا تھا اگر وہاں بھی تشفی نہ ہوتی تو وزیر کے پاس اس کے خلاف اپیل دائر کر دیتا۔ اگر وزیر بھی اس کو مطمئن نہ کر سکتا تو والیِ سوات کی عدالت میں استغاثہ کرتا اور والیِ سوات کا فیصلہ حتمی ہوا کرتا تھا۔ کسی عدالت میں بھی اپنا کیس لے جانے پر کسی قسم کا کوئی کورٹ فیس وصول نہیں کیا جاتا تھا اور یہ سب کچھ ہفتوں میں طے پا جاتا۔
اگر علاقہ میں کسی قسم کی واردات کی اطلاع مل جاتی تو تحصیلدار پولیس بھیج کر ملزمان گرفتار کرا لیتا اور معاملہ کی تحقیق کر کے مناسب سزا سناتا۔ موجودہ نظام میں پولیس سے جو عام شکایت کی جاتی ہے یہ صورتِ حال نہ تھی کیونکہ نہ تو پولیس کے پاس رپورٹ درج کرانے کی ضرورت پیش آتی تھی اور نہ پولیس کو تفتیش کے اختیارات حاصل تھے۔ عشر کی وصولی اور گوداموں میں حفاظت سے غلہ رکھنے کی ذمہ داری تحصیلدار کی تھی۔ سڑکوں کی دیکھ بھال اور عوام کے جان و مال اور آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری بھی تحصیلدار کی تھی۔ غرض یہ کہ ایک تحصیلدار کو اپنی تحصیل میں وہی اختیارات حاصل تھے جو والیِ سوات کو ریاست میں ۔ البتہ والیِ سوات کسی کے سامنے جواب دہ نہ تھا اور تحصیلدار بالا افسروں کے سامنے جواب دہ ہوتا تھا۔ ایک حاکم کو ماتحت تحصیلداروں کی کار گزاری کی نگرانی کے علاوہ اپنی تحصیل میں وہی فرائض انجام دینا پڑتے تھے جو تحصیلدار کو تحصیل میں انجام دینا پڑتے تھے۔
مرکزی قاضی کورٹ سیدو شریف میں تھی۔ جس کے چار پانچ ممبر ہوا کرتے تھے۔ قاضی کورٹ میں براہِ راست کسی کو اپیل دائر کرنے کا حق حاصل نہ تھا۔ وہ صرف ان مقدمات کی سماعت کر سکتے تھے جو والیِ سوات ان کے پاس بھیج دیتے تھے۔ اس سلسلہ میں بھی کورٹ کا قابلِ اعتماد ممبر والیِ سوات کے پاس جا کر بالمشافہ ہدایات حاصل کرتا تھا یا بذریعہ فون انہیں خاص ہدایات ملتی تھیں۔
حاکمئی میں قاضی کورٹ کے دو ممبر ہوا کرتے تھے اور تحصیل میں ایک۔ وہاں بھی قاضی صاحبان صرف ان مقدمات کی سماعت کر سکتے تھے جو حاکم یا تحصیلدار ان کے پاس بھیج دیتے تھے۔
ریاستی فوج دس بارہ ہزار نفری پر مشتمل تھی۔ یہ ایک قسم کا قبائلی لشکر تھا۔ فوجی عہدوں کے لئے کوئی معیار نہ تھا بلکہ والیِ سوات کا نظرِ انتخاب سب سے بڑا میرٹ تھا۔ فوج کے اعلیٰ عہدے عام طور پر خوانین یا دوسرے با اثر افراد کے لئے مخصوص تھے۔ عموماً اعلیٰ عہدوں کا انتخاب براہِ راست کسی سابقہ خدمت (فوجی خدمت) کے بغیر کیا جاتا۔ کمانڈر انچیف جسے مقامی اصطلاح میں سپہ سالار کہا جاتا تھا، کی تقرری کے لئے کسی قسم کی تعلیم یا ٹریننگ یا فوج میں سابقہ خدمات کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی جاتی تھی بلکہ والیِ سوات کی ذاتی پسند اس عہدے کا معیار تھا۔
فوج کے اعلیٰ عہدیدار اور سپاہی سب کے سب اپنے گھروں میں سرکاری اسلحہ سمیت رہتے تھے۔ فوج کے یہ عہدیدار مقامی گروہی سیاست میں والیِ سوات کی مرضی کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے حصہ لیتے تھے اور والیِ سوات کے ناپسندیدہ افراد پر کڑی نظر رکھتے تھے۔ چند اعلیٰ عہدیداروں کے علاوہ باقی افسروں اور سپاہیوں کو تنخواہ عشر جسے پشتو میں برات کہتے تھے، کے اجناس سے ملتی تھیں۔ اجناس، گندم اور جوار کی صورت میں فصل خریف اور فصلِ ربیع کے موقعوں پر ملتی تھیں۔ فوج کے سپاہیوں کی کوئی خاص ڈیوٹی نہیں تھی۔ سال بھر میں دس بارہ دن کے لئے کسی قلعہ کی مرمّت ، دریا کے کناروں پر پُشتوں کی تعمیر یا سڑکوں کی مرمّت کے لئے نمبر وار جایا کرتے تھے۔ باقی اپنے ذاتی کام کاج کرتے تھے۔ فوج سے علاحدگی کے لئے وائی سوات کا عتاب کافی تھا۔
جنگلات،محصولات، عشر جو کہ کاشت کار طبقے سے لی جاتی تھی۔ انکم ٹیکس جسے حیثیت ٹیکس کہا جاتا تھا تجارت پیشہ برداری سے نہایت معمولی رقم کی شکل میں لیا جاتا تھا اور ریاستی دور کے آخری دس بارہ برس میں زمّرد کی آمدنی ایک معقول ذریعہ تھا۔ مجموعی آمدنی ڈیڑھ کروڑ روپے بنتی تھی جس میں ملازمین کی تنخواہیں،سڑکیں، سکول، ہسپتال وغیرہ جیسے ترقیاتی کام انجام پاتے تھے۔
اس میں شک نہیں ہے کہ محدود آمدنی میں والیِ سوات نے بہت سارے ترقیاتی کام انجام دیئے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ترقیاتی کام ضمیر کی آزادی، تحریر کی آزادی، تقریر کی آزادی اور اجتماع کی آزادی کے نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ ریاستی نظام میں یہ تمام آزادیاں مفقود ہوتی ہیں۔
1969ء میں پاکستان کی دیگر ریاستوں کی طرح ریاستِ سوات بھی پاکستان میں ایک ضلع کی حیثیت سے مدغم کی گئی اور پہلی دفعہ سوات میں ڈپٹی کمشنر اور ضلعی انتظامیہ پر مشتمل دیگر سرکاری اہلِ کاروں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی۔
ریاست کا پاکستان میں ادغام کے بعد عام لوگوں کا خیال تھا کہ اب سوات ایک ضلع کے طور پر تیز رفتار ترقی کر کے ایک نئے دور میں داخل ہوگا اور نہ صرف یہاں کے گو نا گوں مسائل حل ہوں گے بلکہ عوام کو ریاستی دور سے بھی بڑھ کر امن و امان حاصل ہوگا۔ لیکن ادغام کے بعد یہاں کے مسائل کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئے اور اہلِ سوات پر ایسا غیر منصفانہ نظام مسلط کر دیا گیا جس میں عوامی زندگی پہلے سے حاصل شدہ خوشیوں سے بھی محروم ہو گئی۔
ریاستی دور میں شخصی نظامِ حکومت کی معروف خرابیوں کے باوجود لوگ سوات کو سواتیوں کے لئے سمجھتے تھے اور خود کو ایک آزاد اور خود مختار ملک کے شہری سمجھتے تھے کیونکہ حکومتی مشینری کے تمام عہدیدار اور اہل کار شناسا چہرے تھے۔ ان کا برتاؤ لوگوں سے شریفانہ اور اپنائیت کا مظہر تھا لیکن ریاست کے صوبہ میں ادغام کے بعد لوگوں کو زمین و آسمان بدلتے ہوئے محسوس ہونے لگے۔ گویا انہیں کسی نوآبادیاتی نظام سے واسطہ پڑ گیا ہو اور وہ اپنے علاقہ میں اپنے آپ کو اجنبی سمجھنے لگے ۔کیونکہ انسانیت و عزت کا ناپ تول صرف دولت ہی سے ہے۔ دراصل سوات کے لوگوں کے لئے یہ ایک قسم کا جنریشن گیپ ہے کیونکہ سوات کے لوگ خود بھی سیدھے سادے تھے اور پچاس سال سے ان کا واسطہ بھی ایک سیدھے سادے اور مانوس نظام سے چلا آ رہا تھا لیکن پیشگی طور پر ان کی ذہنی تیاری کے بغیر اچانک انہیں ایک ایسے نظام سے دوچار ہونا پڑا جو ان کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ قدم قدم پر ان کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچتی ہے اور ان کے مسائل حل ہونے کی بجائے روز بروز پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں ان کی پریشانی ایک قدرتی امر ہے۔
پاکستان میں حقیقی معنوں میں اگر جمہوریت ہوتی ، دیانتدار، مُحّبِ وطن اور قومی خدمت کے جذبہ سے سرشار لوگ بر سرِ اقتدار ہوتے تو پھر یہاں کے عوام اس قدر بے چین نہ ہوتے کیونکہ جمہوریت کے مفہوم میں عوام کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کے مساوی مواقع فراہم کرنا مضمر ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے باون سالہ دور میں کوئی ایسی قیادت بر سرِ اقتدار نہیں آئی، جس کے دل میں پاکستانی عوام کے لئے کسی قسم کی خیر خواہی کا جذبہ ہو بلکہ ہر آنے والے کل، گزرے ہوئے کل سے بدتر ہے۔ ہر دور میں بر سرِ اقتدار گروہ لوٹ مار میں سابقہ حکومتوں کا ریکارڈ توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ موجودہ نظام سے عوام نالاں ہیں کیونکہ پچاس سال تک ایک سیدھے سادے نظام سے عوام مانوس رہ چکے ہیں۔ لیکن ریاستی دور میں نظام کی سادگی کی طرح عوام بھی سادہ تھے۔ تعلیم کی کمی اور سیاسی شعور کا فقدان تھا۔ ہر سال جو معدودے چند افراد تعلیم سے فارغ ہو جاتے، والیِ سوات انہیں کسی نہ کسی محکمہ میں کھپا دیتے تھے اور بیروزگاری کا کوئی مسئلہ درپیش نہ تھا۔ تمام ملازمتیں سواتیوں کے لئے مخصوص تھیں اور ریاست کی خالی آسامیاں ان کے لئے کفالت کرتی تھیں لیکن ریاست کے صوبے میں ادغام کو اکتیس سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔ تعلیم یافتہ افراد کی تعداد کہیں بڑھ گئی ہے اور انہیں روزگار نہیں ملتا۔ اس کے علاوہ تعلیم اور سیاسی آزادی کی وجہ سے عوام کا سیاسی شعور بیدار ہو چکا ہے۔ نوجوان سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ زندہ باد، مُردہ باد کے نعروں سے فضا گونجتی رہتی ہے۔ آزادیِ تقریر اور جلسے جلوسوں سے لوگ لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں والیِ سوات جیسا ریاستی اُمور کا ماہر حکمران اگر ہوتا تب بھی اس کے لئے ایک ماہ تک نظامِ ریاست چلانا ممکن نہ ہوتا۔ ملاکنڈ ڈویژن بہر حال صوبہ سرحد کا ایک حصہ ہے۔ پورے ملک میں تعمیری انقلاب کے بغیر یہاں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن کے لوگوں کو اپنے آپ کو موجودہ نظام سے ایڈجسٹ کرنا ہوگا اور دوسرے پاکستانی بھائیوں کے کندھوں سے کندھا ملا کر تعمیری انقلاب کے لئے اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو کام میں لانا ہوگا۔
زمانہ آگے کی طرف بڑھتا ہے پیچھے کی طرف سفر کرنا مشکل ہوتا ہے مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہمیں اس فرسودہ نظام کو جڑ سے اکھیڑنا ہوگا۔ ورنہ ہم مکافاتِ عمل سے ہرگز بچ نہیں سکیں گے۔
٭٭٭
اس کتابچہ کی تالیف و تدوین کے سلسلے میں درج ذیل کتب سے مدد لی گئی ہے۔
(۱) یوسف زئی اللہ بخش یوسفی
(۲) تاریخِ ریاستِ سوات اللہ بخش یوسفی
(۳) دی پٹھان سر اُولف کیرو
(۴) اٹک کے اس پار مرتبین: فارغ بخاری، رضا ہمدانی
مضمون:ریاستِ سوات نصر اللہ خان نصر
(۵) تاریخِ ریاست سوات آصف خان
(۶) تواریخ حافظ رحمت خانی پیر معظم شاہ
(۷) سوات تاریخ کے آئینے میں فضلِ ربی راہی
٭٭٭
مصنّف کی اجازت اور شکریے کے ساتھ
ان پیج سے تبدیلی: مصنف، فضل ربی راہی
پروف ریڈنگ، اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید