12:45    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

تاریخ

2265 0 0 00

تاریخ کے آئینے میں - اردو تہذیب ڈاٹ نیٹ کے تشکر کے ساتھ

ایس اے ساگر

افسانہ یا حقیقت:قلوپطرہ کی موت سے پردہ اٹھا

قدیم مصری تاریخ کی ایک مشہور ترین شخصیت اوردنیا کی سات زبانوں پر عبور رکھنے والی حسن و خوبصورتی کی علامت ملکہ مصر قلوپطرہ ہفتم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی موت خود کو سانپ کے ڈسوانے سے ہوئی۔تاریخ کی کتابوں میں اس سانپ کو مصری کوبرا سانپ کا نام دیا گیا ہے ۔تاہم حال ہی میں ایک جرمن ماہر تاریخ کرسٹوفر شیفر Christopher Schaefer نے گذشتہ تمام اٹکلوں کو رد کرتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ قلوپطرہ کی ہلاکت زہر کھانے سے ہوئی تھی۔قلوپطرہ قدیم مصری تاریخ کی وہی مشہور ترین شخصیت ہے جس کے قصے کہانیاں کم و بیش دنیا کی ہر زبان کے ادب کا حصہ ہیں ۔حتیٰ کہ قلوپطرہ ہالی ووڈ سے لیکر بے شمار ناولوں اور قصے کہانیوں کا موضوع بنیں ۔متعدد زبانوں میں ان پر شہرہ آفاق فلمیں بنائی گئیں ۔تاریخ کی کتابوں کو کھنگالیں تو پتہ چلتا ہے کہ قدیم مصری تاریخ میں قلوپطرہ نام کی سات ملکائیں تھیں جن میں سے سب سے زیادہ شہرت ساتویں ملکہ نے حاصل کی جس کی وجہ اس کا بے پناہ حسن اور پروقار شخصیت تھی۔اب تک کی رائج روایات کے ضمن میں حسن و خوبصورتی کی شاہکارسمجھی جانے والی ملکہ مصر قلوپطرہ ہفتم کی موت خود کو سانپ کے ڈسوانے سے ہوئی۔تاریخ کی کتابوں میں اس سانپ کو مصری کوبرا سانپ کا نام دیا گیا ہے ۔ تاہم حال ہی میں ایک جرمن ماہر تاریخ نے دعوی کیا ہے کہ قلوپطرہ کی ہلاکت زہر کھانے سے ہوئی تھی اور اس نے مرنے کے لیے افیون اور جڑی بوٹیوں کے ایک زہریلے آمیزے کا انتخاب کیا تھا۔

جرمنی کی یونیورسٹی آف ٹرائرUniversity of Trier کے پروفیسر اور تاریخ دان کرسٹوفر شیفر کا کہنا ہے کہ ایسے ٹھوس شواہد موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ملکہ مصر کی ہلاکت کی وجہ کوبرا نہیں تھا بلکہ ایک زہر تھا۔پروفیسر شیفر کئی دیگرتاریخ دانوں اور ماہرین کے ساتھ مصر کے شہر اسکندریہ گئے جہاں انہوں نے قدیم طبی علوم اور سانپوں کے ماہرین سے معلومات حاصل کیں ۔جرمنی کے ایک ٹیلی ویژن چینل زی ڈی ایف پر دکھائے جانے والے سائنسی تحقیق کے ایک پروگرام میں پروفیسر شیفر نے کہا ہے کہ امکان یہ ہے کہ قلوپطرہ نے افیون، صنوبر اور ایک زہریلے پودے تاج الملوک کے آمیزے پر مشتمل ایک دوا کھائی جو اس زمانے میں چند گھنٹوں کے اندر ہلاک کرنے کی ایک جانی پہچانی دوا تھی جبکہ سانپ کے ڈسنے سے ہلاک ہونے میں کئی دن لگ سکتے ہیں اوراس میں تکلیف بھی زیادہ ہوتی ہے ۔تاہم تاریخ کی پرانی کتابوں قلوپطرہ کے زمانے کی شاعری اور روایات اس بات کی مظہر erہیں کہ قلوپطرہ نے شہنشاہ روم آگسٹس کے ہاتھوں اپنے شوہر جنرل انتھونی کی شکست اور خودکشی کے بعد، خود کو آگسٹس سے بچانے کے لیے خود کشی کا فیصلہ کیا تھا۔ قلوپطرہ کو اس کے جانثاروں نے چوری چھپے زہریلا کوبرا سانپ مہیا کیا جس سے اس نے ڈسوا کر خود کو ہلاک کر لیا۔قدیم دور کی متعدد ایسی تصویریں موجود ہیں جس میں انھیں سانپ سے ڈسواتا ہوا دکھا گیا ہے ‘ بہر کیف نشہ آور زہریلی دوا کھانے کا ذکر بھی تاریخ میں ملتا ہے ۔ 

تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ قلوپطرہ کا زمانہ 51 قبل مسیح سے 30 قبل مسیح کاہے ۔ یہ وہ عہد ہے جب مصر پر آخری فرعون حکمران تھا اور اس کی موت کے بعد مصر روم کا ایک صوبہ بن گیا۔قلوپطرہ روم کے شہنشاہ جیولیس سیزر کی ایک رفیق تھیں جبکہ رومن جنرل مارک انتھونی سے بھی ان کے مراسم تھے جو شہنشاہ روم کے بہنوئی بھی تھے ۔ اور یہی مراسم شہنشاہ آگسٹس اور انتھونی کے درمیان تنازع اور لڑائی کا ایک سبب بنے ۔دوسری جانب قلوپطرہ کے بطن سے انتھونی کے تین بچے بھی تولد ہوئے تھے جبکہ ایسے شواہد بھی موجود ہیں کہ انہوں نے شادی کر لی تھی۔گویا یہ قلوپطرہ کی تیسری اور آخری شادی تھی۔

ہلاکت کی طرح قلوپطرہ کی شادی سے متعلق بھی متعدد کہانیاں منسوب ہیں ۔قدیم مصری مملکت میں تمام بادشاہ خود کو فرعون کہلاتے تھے ۔ اور روایات کے مطابق شہنشاہ اپنی بہن سے شادی کرتا تھا۔قلوپطرہ کے دو بھائی تھے ، ایک بڑا اوردوسرا چھوٹا۔وہ دونوں تیرہویں اور چودھویں فرعون کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔

51 قبل مسیح میں باپ کے مرنے پر قلوپطرہ کا بڑا بھائی تخت نشین ہوا اور اس نے اپنی 11 سالہ بہن قلوپطرہ سے شادی کی۔ اس کی ہلاکت کے بعد چھوٹے بھائی نے تخت و تاج سنبھالا اور اس نے بھی روایات کے مطابق اپنی بہن سے شادی کی۔چھوٹے بھائی کے اقتدار کا دور پرآشوب تھا اور لڑائیوں کی وجہ سے امور مملکت پر اس کی گرفت کمزور تھی۔ یہ قلوپطرہ کے عروج کا زمانہ تھا اور مملکت میں اس کا عمل دخل بہت بڑھ گیا تھا۔ چھوٹے بھائی کی ہلاکت کے بعد تخت و تاج قلوپطرہ کے ہاتھ آ گیا اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے انھوں نے خود کو دیوی کہلوانا شروع کر دیا۔یوں مصری سلطنت پر روم کی شہنشاہیت کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کا نتیجہ رومی جنرل مارک انتھونی کی قلوپطرہ سے قربت اور بعد ازاں اس ہلاکت کی شکل میں ظاہر ہوا جس نے قلوپطرہ کو39 سالہ زندگی کو تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید کر دیا۔

٭٭٭

سارہ الیاسی

تاریخ کے آئینہ میں : ملکہ صبا کا عظیم الشان تخت

سونے سے منڈھا، مروا رید سے جڑا شاہکار تخت بلقیس جسے یمنی عرش بلقیں بھی کہتے ہیں ‘ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ حضرت سلیمان کا دربار لگا ہوا تھا۔ سب درباری موجود تھے جن میں جنات بھی شامل تھے ۔ جو حضرت سلیمان کے تابع فرمان تھے ۔اس کا ذ کر قرآن حکیم میں آیا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ، ’’اور جنوں میں سے وہ تھے جو اس کے سامنے خد مت انجام دیتے تھے اس کے پرور د گار کے حکم سے اور جو کوئی ان میں سے ہمارے حکم کے خلاف کج روی کرے ، ہم اسے د وزخ کے عذاب کا مزہ چکھائیں گے ۔ وہ (جن) اس کیلئے بناتے تھے جو وہ کہتا تھا۔ قلعوں کی تعمیر، ہتھیار، تصاویر اور بڑے بڑے لگن جو حوضوں کی مانند تھے اور بڑی دیگیں جو اپنی بڑائی کی وجہ سے ایک جگہ جمی رہیں ۔ اے آل داؤد! شکر گزاری کے کام کرو اور میرے بندوں میں بہت کم شکر گزار ہیں ۔‘‘ (سورہ سبا آیات 13,12) اس مجلس میں جب حضرت سلیمان کو ملکہ بلقیس کی آمد کا علم ہوا تو آپ نے تمام درباریوں کو مخاطب فرمایا، تم میں سے کون ہے جو ملکہ بلقیس کے تخت کو مجلس برخاست ہونے سے قبل یہاں لے آئے ؟ یہ سنتے ہی ایک جن آگے بڑھا اور گویا ہوا، حضور! آج کا یہ دربار برخاست ہونے سے قبل میں اس کا تخت میں آپ کے قدموں میں لا کر ڈال سکتا ہوں ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام فرمانے لگے ، نہیں تب تو بہت دیر ہو جائیگی۔ مجھے تو اس سے بھی بہت پہلے ملکہ کا تخت یہاں چاہئے ۔‘‘ ملکہ کے تخت کے بارے میں مختلف کتب میں مختلف روایات آئی ہیں ۔ ایک جگہ لکھا ہے کہ یہ وہی تخت ہے جو ہد ہد نے دیکھا تھا اور واپس آ کر حضرت سلیمان? کو بتایا تھا اور اس کا فاصلہ حضرت سلیمان کی حدود مملکت بیت المقدس سے تقریباً ڈیڑھ ہزار میل کے فاصلے پر تھا۔ اس تخت کے متعلق یہ بھی لکھا ہے کہ اس طول 80 ہاتھ اور عرض 40 ہاتھ تھا اور اس کی اونچائی 30 ہاتھ تھی۔ اس میں سرخ یا قوت، سبز ز مرد اور کئی اقسام کے موتی جڑے ہوئے تھے ۔ (فتح القدیر) تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ اس کا تخت نہایت ہی شان دار ہے جس پر وہ جلوس کرتی ہے ۔ سونے سے منڈھا ہوا ہے اور جڑاؤ۔ور مروارید کی اس پر کاری گری کی ہوئی ہے ۔ یہ 80 ہاتھ اونچا 40 ہاتھ چوڑا تھا۔ یہاں 600 عورتیں اس کی خدمت کیلئے ہر وقت کمر بستہ رہتی تھیں ۔ اس کا یہ دیوان خاص جس میں یہ تخت رکھا تھا بہت بڑا محل تھا۔ بلند و بالا، کشادہ و فراخ، پختہ و مضبوط اور صاف تھا جس کے شرقی حصے میں 360 طاق تھے اور اتنے ہی مغربی حصے میں بھی تھے ۔
اسے اس صنعت سے بنایا گیا تھا کہ ہر دن سورج ایک طاق سے نکلتا اور اسی کے مقابل کے طاق میں غروب ہوتا۔ اہل دربار صبح و شام اسے سجدہ کرتے تھے ۔ حکمراں اور رعایا سب سورج پرست تھے ، توحید پرست ان میں کوئی ایک نہ تھا۔ اس عظیم الشان تخت کو حضرت سلیمان کے دربار میں لانے کی ذمے داری ایک قوی ہیکل سر کش جن کو زن نے لی۔ فرمایا کہ ٹھیک ہے جاؤ اور لے آؤ۔ اجازت ملتے ہی برخیاہ پلک جھپکتے ملکہ بلقیس کا تخت اٹھا لایا اور حضرت سلیمان کی خدمت میں پیش کر دیا۔ اس کا ذکر قرآن حکیم میں بھی موجود ہے ، ’’جس شخص کے پاس کتاب کا علم تھا وہ بولا، میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اسے لا دیتا ہوں ۔ جوں ہی سلیمان نے وہ تخت اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا، فوراً بول اٹھا کہ یہ میرے رب کا فضل ہے ۔ ‘‘ (سورہ النمل آیت 39) ابن عباس کا قول ہے ۔ کہ وہ آصف تھے جو سلیمان کے کا تب تھے ۔ ان کے والد کا نام برکیا یا برخیاہ تھا۔ ایک اور روایت میں تخت لانے کا نام برخیاہ لکھا ہے ۔ ایک جگہ انہیں ولی اللہ لکھا ہے جو اسم اعظم بھی جانتے تھے ۔ مجاہد کہتے ہیں کہ ان کا نام اسطوم تھا۔ بلیخ مروی ہے کہ ان کا لقب ذوالنور تھا۔ جب تخت آ گیا تو حضرت سلیمان نے حکم دیا کہ اس کے تخت میں کچھ پھیر بدل کر دو، تاکہ معلوم ہو جائے کہ یہ راہ پا لیتی ہے یا اس سے ہوتی ہے جو راہ نہیں پاتے ۔ ‘‘ (النمل آیت 41) اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے مفسرین لکھتے ہیں کہ تخت کے رنگ، روپ یا ہیئت میں تبدیلی کی بناء پر وہ اپنے تخت کو پہچان پاتی ہے یا نہیں ، تخت میں طبیعیاتی تبدیلی ہو جانے کی وجہ سے اس نے صاف الفاظ میں اس کے اپنے ہونے کا اقرار بھی نہیں کیا۔ رد و بدل کے باوجود انسان اپنی چیز کو پہچان ہی لیتا ہے ، اس لیے اپنے ہونے کی نفی بھی نہیں کی اور یہ کہا کہ ’’گویا وہی ہے ‘‘ اس میں اقرار ہے نہ نفی، بلکہ نہایت محتاط درمیانہ جواب ہے ۔ اصل الفاظ قرآن حکیم کے مطابق یہ ہیں ۔ ’’پھر جب وہ آ گئی تو اس سے کہا گیا، ایسا ہی تیرا تخت ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ وہ گویا وہی ہے ۔ ہمیں اس سے پہلے ہی علم دیا گیا تھا اور ہم مسلمان تھے ۔ ‘‘ (آیت 42 اس سے اگلی آیت میں فرمایا گیا: ’’اسے انہوں نے روک رکھا تھا جن کی وہ اللہ کے سوا پر ستش کرتی رہی تھی۔ یقینا وہ کافر لوگوں میں سے تھی۔‘‘ (النمل آیت 43) حضرت سلیمان نے ملکہ بلقیس کی مہمان نوازی کے طور پر جنات سے ایک محل تعمیر کروایا جس کا فرش شفاف شیشے کا تھا اور شیشے کے نیچے پانی سے بھر ا وسیع و عریض حوض تھا۔ اس پر چلنے والا یہ امتیاز نہیں کر سکتا تھا کہ وہ درحقیقت شیشے کے فرش پر چل رہا ہے ۔ چنانچہ یہی مغالطہ بلقیس کو بھی ہوا اور اس پر چلتے ہوئے اپنے پائینچے اوپر کر لیے جیسے وہ پانی پر سے گزر رہی ہو اور اپنے لباس کو گیلا ہونے سے بچا رہی ہو۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہے ۔ ’’اس سے کہا گیا کہ محل میں چلی چلو۔ اسے دیکھ کر یہ سمجھ کر کہ یہ حوض ہے ، اس نے اپنی پنڈ لیاں کھول دیں ، فرمایا، یہ تو شیشے سے منڈھی ہوئی عمارت ہے ۔ کہنے لگی، میرے پرورد گار! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی مطیع اور فرماں بردار ر بنتی ہوں ۔ ‘‘ (سورة النمل (آیت 44) فرش کی حقیقت بلقیس پر ظاہر ہونے کے بعد اسے اپنی کوتاہی کا احساس ہو گیا اور اس نے اپنے قصور کا اعتراف کرتے ہوئے ، مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔ کتب تواریخ اور مختلف مذاہب کی کتب میں جنوں کی تعمیرات سے متعلق کئی شواہد ملے ہیں ۔ حضرت داؤد نے بیت المقدس کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا، لیکن وہ اپنی زند گی میں اسے پایہ تکمیل کو نہ پہنچا سکے اور داعی اجل کو لبیک کہا۔ پھر ان کی اس ادھوری تعمیر کا بیڑا حضرت سلیمان نے اٹھایا۔ یہ ایک عجوبہ تھا جس کی شہادت قرآن حکیم ان الفاظ میں دیتا ہے ۔ ’’ پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم بھیج دیا تو ان کی خبر جنات کو کسی نے نہ دی سوائے اس گھن (دیمک) کے کیڑے کے جوان کے عصا کو کھا رہا تھا۔ پس جب (سلیمان) گر پڑے اس وقت جنوں نے جان لیا کہ اگر وہ غیب داں ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے ۔‘‘ (سورۂ سبا آیت 14) مفسرین کا اجماع ہے کہ حضرت سلیمان بیت المقدس میں ہیکل کی تعمیر اپنے زیر تابع جنات سے کروا رہے تھے کہ فرشتہ اجل آپ کی موت کا پروانہ لے آیا۔ ابن کثیر اپنی تفسیر میں ایک اسرائیلی روایت کا حوالہ دیتے ہیں ۔
’’جب حضرت سلیمان کی خد مت میں فرشتہ اجل نے حاضر ہو کر یہ پیغام سنایا کہ ان کی موت میں چند ساعتیں ہاقی ہیں تو انہوں نے یہ سوچ کر کہ کہیں جن تعمیر کو ناقص نہ چھوڑ دیں فوراً جنوں سے آبگینے کا ایک حجرہ بنوایا جس میں دروازہ نہیں رکھا اور خود اس کے اندر بند ہو کر لاٹھی کے سہارے کھڑے ہوئے اور مشغول عباد ت ہو گئے ۔ اسی حال میں موت کے فرشتے نے اپنا کام پورا کر لیا۔ تقریباً ایک سال تک آپ اسی طرح کھڑے رہے اور جن اپنی تعمیرات میں مصروف رہے لیکن جوں ہی تعمیر کھل کر کے فارغ ہوئے تو سلیمان کی لاٹھی کو دیمک اندر سے بالکل چاٹ چکی تھی۔ پھر وہ حضرت سلیمان کا بوجھ برداشت نہ کر سکی اور آپ زمین پر گر گئے ، تب جنوں کو معلوم ہوا۔‘‘ حضرت سلیمان نے ایک نہایت عالی شان محل تعمیر کروایا تھا جس کی اینٹیں سونے اور چاندی کی تھیں ۔ چھتوں پر یا قوت اور زمرد جڑے ہوئے تھے ۔ اس میں آپ کیلئے ایک تخت بھی بنا ہوا تھا۔ 36 کوس لمبے علاقے پر محیط اس محل میں رکھے ہوئے تخت کی لمبائی 3 کوس بتائی جاتی ہے جو تمام ہاتھی کے دانت سے تیار کیا گیا تھا۔ اس میں بھی تمام اقسام کے لعل گوہر جڑے ہوئے تھے ۔ صرف یہی نہیں اس کے چاروں کو نوں پر درخت بنائے گئے تھے جن کی ڈالیاں سونے سے تیار کی گئی تھیں ۔ ہر ڈالی کے اندر ایک طوطی اور طاؤس بنا کر ان کے پیٹ میں مشک بھرا گیا تھا جس کے خوشے انگور کی مانند تھے ۔ تخت کے نیچے دائیں اور بائیں جانب سونے کی ایک ہزار کرسیاں لگائی گئی تھیں جن پر لوگ بیٹھتے تھے ۔
ان کے پیچھے جنات اور انسانوں میں سے غلام کھڑے ہوتے تھے ۔ اس محل میں کئی محرابیں تھی جہاں عابد و زاہد اپنی عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے ۔ اس روایت کو پڑھ کر اغلب گمان یہی ہوتا ہے کہ یہ محل میں جو دیگیں بتائی گئی ہیں وہ بہت بڑے بڑے پتھروں کو تراش کر بنائی گئی تھیں جنہیں ابر پانی سے بھرتے تھے اور اس میں پکے کھانوں سے ہزاروں کی تعداد میں مخلوقات شکم سیری کیا کرتی تھیں ، جب کہ حضرت سلیمان کے بارے میں آیا ہے کہ وہ اس میں سے ایک دانہ بھی تناول نہیں فرماتے تھے ۔ جن انسانوں کی طرح فنا ہونے والی مخلوق ہے اور انسانوں کی طرح ذی اختیار ہے ۔ یعنی جنوں کو خیر و شر کا انتخاب کرنے کی آزادی ہے ۔ وہ جزا اور سزا کے مکلف ہیں ۔ سریع الحرکت ہونے کی وجہ سے جن ایک جگہ سے دوسری جگہ چند لمحات میں پہنچ جاتے ہیں اور یہ اپنی شکلوں کو مختلف اشکال میں بھی ڈھال لیتے ہیں جس کی وجہ سے یہ ان مقامات پر غیر محسوس طریقے سے نفوذ کر جاتے ہیں جہاں خاکی اجزاءسے بنی اشیاء نفوذ نہیں کر سکتیں ۔ ان کا نفوذ وہاں محسوس ہو جاتا ہے ۔ یہ سب امور بھی اسی وجہ سے ممکن اور ناقابل فہم ہیں کہ وہ دراصل آگ سے بنی مخلوق ہے جس میں مسلم اور کافر دونوں ہیں ۔ کافر جن زیادہ شریر ہوتے ہیں اور مشکل سے قابو میں آتے ہیں ۔
ان میں نر اور مادہ دونوں ہیں ۔ یہ عالم بالا کی جانب پرواز کرتے ہیں ، مگر ایک حد تک! اس سے آگے ان کا گزر بھی ممکن نہیں ۔ یہ انسانوں کی طرح مل جل کر رہنے والی قوم یا مخلوق ہے ۔ عام خیال ہے کہ جن اپنی سر گرمیاں اکثر رات کے اوقات میں کیا کرتے ہیں اور صبح ہوتے ہی انہیں تر کر دیتے ہیں ۔ اہل علم لکھتے ہیں کہ جنوں کے بارے میں قرآن حکیم رسید کیے جائیں گے ، مگر ان کے بہشت میں جانے کا یا ان نعمتوں کے ملنے کا جو اہل ایمان کو عطا کی جائیں گی۔ کہیں بھی ذکر نہیں ہے ۔ المام یوسف اور امام محمد کا قول ہے کہ جنوں کو اطاعت الٰہی پر ثواب بھی ملے گا اور وہ جنت میں بھی جائیں گے ۔

٭٭٭

سارہ الیاسی

ماضی کے آئینہ میں : بلقیس :ایک جہاندیدہ ملکہ

آثار قدیمہ کی جدید تحقیق کے سلسلے میں یمن سے 3000 مخطوطے برآمد ہوئے ہیں جو اس قوم کی اہم تاریخ پر روشنی ڈالتے ہیں مثلاً 650 ق م میں یہاں کے بادشاہ کا لقب مکرب تھا جو مقرب کا ہم معنیٰ تھا۔ یہ کاہن بادشاہ کہلاتے تھے اور ان کا اس وقت پایہ تخت صرواح تھجس کے معنیٰ بادشاہ ہیں ۔ یہی لفظ آج بھی کئی ملکوں میں رائج ہے جس کے معنی یہ بتائے گئے کہ حکومت میں مذہب کی بجائے سیاست اور سیکولرازم کا رنگ غالب آ گیا ہے ۔ ماضی کی گہرائیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ملکہ سبا کا اصل نام بلقیس تھا۔ وہ نہایت خوبصورت اور ذہین خاتون تھیں ۔ ان کے والد شرجیل بن مالک یمن کے بادشاہ تھے ۔ بعض نے ان کا نام الہد ہاد بن شرجیل بھی لکھا ہے ۔ بادشاہ کا سرکاری مذہب سورج کی پرستش تھی جو عوام نے بھی اختیار کی ہوئی تھی۔ باپ کی موت کے بعد بلقیس نے عنان حکومت سنبھالی۔ یہ علاقہ جغرافیائی اعتبار سے نہایت سرسبز تھا جہاں ہر طرف لہلہاتے کھیت اور باغات تھے ۔ ان کا زمانہ حضرت سلیمان کی نبوت کا تھا۔ بلقیس کا ذکر زلیخا کی طرح قرآن حکیم میں بغیر نام لیے آیا ہے ۔ یہ ذکر بہت مختصر مگر جامع ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ ہد ہد آ موجود ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے ایک ایسی چیز معلوم ہوئی ہے جس کی آپ کو خبر نہیں ۔ اور میں آپ کے پاس شہر سبا سے ایک یقینی خبر لایا ہوں ۔ میں نے ایک عورت دیکھی جو ان لوگوں پر بادشاہت کرتی ہے اور ہر چیز اسے میسر ہے اور اس کا ایک بڑا تخت ہے ۔ میں نے دیکھا کہ وہ اور اس کی قوم خدا کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال آراستہ( کر کے ) دکھائے ہیں اور انہیں راستے سے روک رکھا ہے ۔ پس وہ راستے پر نہیں آتے ۔ (نہیں جانتے ) اس خدا کو جو آسمانوں اور زمین میں چھپی چیزوں کو ظاہر کر دیتا اور تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اعمال کو جانتا ہے ہم اسے کیوں سجدہ نہ کریں ۔ خدا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ وہی عرش عظیم کا مالک ہے ۔ (سلیمان نے ) کہا، ہم دیکھیں گے کہ تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹا ہے ۔ یہ میرا خط لے جا اور ان کی طرف ڈال دے پھر ان کے پاس سے واپس آ اور بتا کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں ۔ ملکہ نے کہا کہ دربار والو! میری طرف ایک نامہ گرامی ڈالا گیا ہے جو سلیمان کی طرف سے ہے اور (مضمون یہ ہے ) کہ شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے کہ مجھ سے سر کشی نہ کرو اور مطیع ہو کر میرے پاس چلے آؤ۔ کہنے لگی کہ اے اہل دربار! اس معاملے میں مجھے مشورہ دو۔ جب تک تم حاضر نہ ہو، میں کسی کام کام فیصلہ نہیں کروں گی۔ وہ بولے ہم بڑے زور آور اور جنگجو ہیں اور آپ کو حکم دینے کا اختیار ہے ۔ آپ سوچ لیجئے کہ ہمیں کیا حکم دینا ہے ۔ اس نے کہا، جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ کر دیتے ہیں اور وہاں کے عزت والوں کو ذلیل کر دیا کرتے ہیں ، اسی طرح یہ بھی کریں گے اور میں ان کی طرف کچھ تحفہ بھیجتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ قاصد کیا جواب لاتے ہیں ۔ جب (قاصد) سلیمان کے پاس پہنچا تو سلیمان نے کہا، کیا تم مجھے مال سے مد د دینا چاہتے ہو؟ جو کچھ خدا نے مجھے عطا کیا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو تمہیں دیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے تحفے سے تم ہی خوش ہوتے ہو گے ۔ ان کے پاس واپس جاؤ۔ ہم ان پر ایسے لشکر لے کر حملہ کریں گے جن کے مقابلے کی ان میں طاقت نہ ہو گی۔ اور انہیں وہاں سے بے عزت کر کے نکال دیں گے اور وہ ذلیل ہوں گے ۔‘‘ (سورة النمل آیات 20 تا 30)

قرآن حکیم میں سبا، قوم سبا یا علاقہ سبا کے نام سے جو اشارات دیے گئے ہیں ‘ انہیں سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ معلومات بھی ہماری نگاہ میں رہیں جو اس قوم یا علاقے کے متعلق دوسرے تاریخی ذرائع یا دینی کتب سے فراہم ہوئی ہے ۔ سبا ایک شخص کے نام پر ایک قوم کا بھی نام تھا اور ایک شہر کا نام بھی جو موجودہ ملک یمن کے دارالحکومت صنعا سے (اس وقت) تین دن کے فاصلے پر تھا۔ یہ شہر مارب یمن کے نام سے بھی معروف ہے ۔ بیت المقدس سے مارب کا فاصلہ ڈیڑھ ہزار میل دور ہے ۔ (فتح القدیر) تاریخ کی رو سے سبا جنوبی عرب کی ایک بہت بڑی قوم کا نام ہے جو چند بڑے بڑے قبائل پر مشتمل تھی۔ امام احمد بن حنبل، ابن جریر، ابن حاتم، ابن عبدالبر اور ترمذی نے حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک روایت نقل کی ہے کہ سبا عرب کے ایک شخص کا نام تھا جس کی نسل سے یہ قبیلے پیدا ہوئے : کندہ، حمیرہ ازدر، اشعرین، مذجج، انمار (اس کی دو شاخیں خثعم اور بجیلہ تھیں ) عاملہ، جذام ، لخم اور غسان۔ ان میں سے کچھ اقوام آج بھی سعودی عرب میں آباد ہیں ۔ ملکہ سبا کا یہ عہد عتیق و جدید اور یہودی روایات میں مختلف طریقوں سے آیا ہے ۔ سلاطین میں لکھا ہے ، ’’ اور جب سبا کی ملکہ نے خداوند کے نام کی بابت سلیمان کی شہرت سنی تو وہ آئی، تاکہ مشکل سوالوں سے اسے آزمائے اور وہ بہت بڑے جلو کے ساتھ یروشلم میں آئی۔ جب سلیمان کے پاس پہنچیں تو انھوں نے ان سب باتوں کے بارے میں جو ان کے دل میں تھیں ، ان سے گفتگو کی۔ سلیمان نے ان سب کا جواب دیا اور جب سبا کی ملکہ نے سلیمان کی ساری حکمت اور اس محل کو جو اس نے بنایا تھا اور اس کے دستر خوان کی نعمتوں اور اس کے ملازموں کی نشست اور اس کے خادموں کے حاضر باشی اور ان کی پوشاک اور ساقیوں اور اس سیڑھی کو جس سے وہ خداوند کے گھر جا یا کرتا تھا دیکھا تو ان کے ہوش اڑ گئے اور انھوں نے بادشاہ سے کہا کہ وہ سچی خبر تھی جو میں نے اپنے ملک میں سنی تھی۔ مگر یقین نہیں کیا جب تک کہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیا اور مجھے تو نصف بھی نہیں بتایا گیا تھا، کیونکہ آپ کی حکمت اور اقبال مندی اس شہرت سے جو میں نے سنی بہت زیادہ ہے ۔ خوش نصیب ہیں آپ کے لوگ اور خوش نصیب ہیں آپ کے یہ ملازم جو برابر آپ کے حضور کھڑے رہتے ہیں اور آپ کی حکمت سنتے ہیں ۔ خداوند آپ کاخدا مبارک ہو جو آپ سے ایسا خوش ہوا کہ آپ کو اسرائیل کے تخت پر بٹھایا اور انھوں نے بادشاہ کو 120 قنطار سونا اور مسالے کا بہت بڑا انبار دیا اور جواہرات بھی دئیے اور جیسے مسالے سبا کی ملکہ نے سلیمان کو دئیے پھر کبھی ایسی بہتات کے ساتھ نہ آئے اور سلیمان بادشاہ نے سبا کی ملکہ کو سب کچھ جس کی وہ مشتاق ہوئیں اور جو کچھ انھوں نے مانگا دیا۔ پھر وہ اپنے ملازموں سمیت اپنی مملکت کو لوٹ گئیں ۔ (کتاب مقدس باب 10 آیات 1 تا 30) اس سے کیا فائدہ کہ سبا سے لبان اور دور دور سے لوگ میرے حضور لائے جاتے ہیں ۔ (یرمیاہ باب 6 آیت 20) سبا اور عماہ کے سودا گر آپ کے ساتھ سودا گری کرتے تھے وہ ہر قسم کے نفیس مسالے اور ہر طرح کے قیمتی پتھر اور سونا آپ کے بازاروں میں لا کر خریدو فروخت کرتے تھے ۔ حزان اور کنہ اور عدن اور سبا کے سود اگر اور اسکور اور کلمد کے باشندے آپ کے ساتھ سودا گری کرتے تھے ۔ (حزقی ایل باب 27 آیات 23-22) مورخین نے سبا کو ایک قوم تسلیم کیا ہے ۔ یونان اور روم کے تاریخ دانوں اور جغرافیہ کے ماہر تھیو فراسٹس نے بھی 288 قبل مسیح میں اس کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ قوم یمن میں آباد تھی اور اس کے عروج کا زمانہ 1100 قبل مسیح ہے ۔ اس کا شہرہ حضرت داؤد کی نبوت کے وقت سے ہی پھیلا ہوا تھا۔ آغاز میں یہ قوم سورج پرست تھی، لیکن بعد میں نہ جانے کب سے اس میں بت پرستی کا غلبہ آ گیا۔ اگرچہ ان کی ملکہ نے حضرت سلیمان کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا تھا اور اس کی رعایا کی غالب اکثریت بھی ان کے ساتھ مسلمان ہو گئی تھی۔ آثار قدیمہ کی جدید تحقیق کے سلسلے میں یمن سے 3000 مخطوطے برآمد ہوئے ہیں جو اس قوم کی اہم تاریخ پر روشنی ڈالتے ہیں مثلاً 650 ق م میں یہاں کے بادشاہ کا لقب مکرب تھا جو مقرب کا ہم معنیٰ تھا۔ یہ کاہن بادشاہ کہلاتے تھے اور ان کا اس وقت پایہ تخت صرواح تھا جس کے معنیٰ بادشاہ ہیں ۔ یہی لفظ آج بھی کئی ملکوں میں رائج ہے جس کے معنی یہ بتائے گئے کہ حکومت میں مذہب کی بجائے سیاست اور سیکولرازم کا رنگ غالب آ گیا ہے ۔اس وقت کے ملوک نے اپنا دارالخلافہ صرواح کو چھوڑ کر مارب کو بنا لیا اور اسے ترقی کی اعلیٰ منازل تک پہنچا دیا۔ یہ مقام صنعا سے 60 میل کی دوری پر مشرق کی جانب واقع ہے جو سطح سمندر سے 3900 فٹ بلند ہے ۔ 115 ق م کے بعد سے اس خطے پر حمیر غالب آ گئے ۔ انہوں نے مارب کو اجاڑ کر ریدان کو دارالحکومت بنایا جو بعد میں ظفار شہر کے نام سے مشہور ہوا۔ آج کل موجودہ شہر قبیلہ حمیر کے نام سے آباد ہے جسے دیکھ کر کوئی شخص تصور بھی نہیں کر سکتا کہ یہ اسی رقوم کی یادگار ہے ۔ اسی زمانے میں سلطنت کے ایک حصے کی حیثیت سے پہلی مرتبہ لفظ یمنت یا یمنات کا استعمال ہوا اور پھر رفتہ رفتہ پورا علاقہ یمنت سے یمن ہو گیا۔ اس کے بعد آغاز اسلام تک کا دور قوم سبا کی تباہی کا دور ہے ۔ اس دور میں انکے یہاں مسلسل خانہ جنگیاں ہوئیں اور بیرونی مداخلت کا زور ہوا جس کی بناءپر ان کی معیشت برباد ہو گئی اور زراعت نے دم توڑ دیا۔ 340 سے 378 تک حبشیوں نے یمن کی حالت اور بھی تباہ کر دی جس کا ذکر قرآن حکیم میں بھی ہے ، ’’آخر کار ہم نے ان پر بند توڑ سیلاب بھیج دیا۔ ’’ (سبا آیت 16) کہا جاتا ہے کہ اس سیلاب کی وجہ سے جو آبادی منتشر ہو گئی تھی، وہ آج تک مجتمع نہ ہو سکی۔ آبپاشی اور زراعت کا جو نظام درہم برہم ہوا، وہ اب تک بحال نہیں ہو سکا۔ 523میں یمن پر یہودی حکومت قائم ہو گئی۔ یہودی بادشاہ ذوالنواس نے نجران کے عیسائیوں پر وہ ظلم و ستم برپا کیا جس کا ذکر قرآن حکیم میں اصحاب الاخدود کے نام سے کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے ’’خندقوں والے ہلاک کیے گئے ۔‘‘ (بروج آیت 14) ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے ایمان لانے والوں کو آگ کے بڑے گڑھوں میں یعنی خندقوں میں پھینکا تھا۔ جن کی تعداد بیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ 528 میں پیش آیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد نجاشیوں نے یمن پر حملہ کر کے ذوالنواس اور اس کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ یمن کے ایک حبشی وائسرائے ابرہہ نے کعبے کی مرکزیت ختم کرنے اور عرب کے پورے مغربی علاقے کو رومی حبشی اثر میں لانے کیلئے 570 میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش سے چند روز قبل مکہ معظمہ پر حملہ کر دیا۔ ابراہہ کی فوج پر وہ تباہی آئی جس کا ذکر قرآن حکیم میں اصحاب الفیل کے نام سے آیا ہے : ’’کیا تونے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا؟ کیا ان کا داؤ غلط نہیں کر دیا اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دئیے جو انہیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے ۔ پس انہیں کھائے ہوئے بھو سے کی طرح کر دیا۔ ’’ (سورة الفیل) یمن سے شام تک سبائیوں کی نو آبادیاں مسلسل قائم ہوتی جارہی تھیں ۔ انہی حدود میں ان کے تجارتی قافلے سفرکرتے تھے ۔ ایک ہزار برس تک یہ قوم مشرق و مغرب کے درمیان تجارت کا واسطہ بنی رہی۔ ان کی بندرگاہوں میں چین کا ریشم انڈونیشیا اور مالا بار کے گرم مسالے ، ہندوستان کے کپڑے اور تلواریں ، مشرقی افریقہ کے زنگی غلام، بندر اور شتر مرغ کے پر اور ہاتھی دانت پہنچتے تھے ۔ جہاں سے یہ مال رومان اور یونان تک روانہ کیا جاتا تھا۔ ان کے علاقے میں لوبان، عود، عنبر اور مشک غرض ہر خوش بو دار شے پیدا ہوتی تھی جسے مصر، شام، روم اور یونان ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے ۔ یہ لوگ جلانے کی لکڑی کے بجائے صندل اور دار چینی استعمال کرتے تھے ۔ یہ اس وقت دنیا کی مال دار ترین قوم تھی جس کا انجام نہایت ہی درد ناک ہوا۔ روئے زمین پر آج ایک بھی اس قوم کا فرد نہیں ملتا۔

٭٭٭

عارف عزیز

تقسیم ہند میں مولانا آزاد اور سردار پٹیل کے کر دار

ہندوستانی عوام ساتھ ساتھ غیر ذمہ دار اخبارات اور دوسرے ذرائع ابلاغ بارہا اپنے قومی ہیرو، مجاہدین آزادی اور دیگر رہنماؤں کی توہین کرتے رہے ہیں جیسا کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی کے ساتھ ہوا کہ کبھی ان کی سمادھی کی توہین کی گئی تو کبھی بال ٹھاکرے جیسے سیاسی رہنماؤں نے گاندھی جی کے قاتل گوڈسے کو سچا دیش بھگت قرار دے دیا۔ ایسا ہی رویہ قومی اتحاد اور سیکولر اقدار کے علمبردار، جدوجہد آزادی کے عظیم رہنما مولانا ابوالکلام آزاد کے بارے میں بھی اکثر و بیشتر ظاہر ہوتا رہا ہے ۔

 تحریک آزادی کے دوران جو کچھ ہوا اس کو اگر نظریات کا ٹکراؤ یا شخصیتوں کا تصادم کہہ کر ٹال دیا جائے تو بعد میں مولانا آزاد صدی تقریبات کے وقت بھی یہ بات دیکھنے میں آئی کہ اس عظیم محب وطن رہنما کے بارے میں جس کے منہ میں جو آیا وہ کہتا رہا، یہ عمل اگر پاکستان میں ہوتا تو صبر کر لیا جاتا کہ اس ملک کا مولانا ابوالکلام آزاد کے نظریہ کے برخلاف قیام عمل میں آیا ہے مگر وہاں تو مولانا کے بارے میں ایک گہری سمجھ پیدا ہوئی ہے ، ان پر مثبت اندازِ فکر کے ساتھ بہت کچھ کام کیا گیا ہے اور ایک بڑا طبقہ ان کی خدمات کو صحیح پس منظر دیکھنے اور سمجھنے لگا ہے جبکہ ہندوستان میں یہ ہو رہا ہے کہ کوئی بھی پراگندہ ذہن مولانا کے تعلق سے کچھ بھی کہہ دیتا ہے جیسا کہ کچھ سال پہلے ڈاکٹر پی این چوپڑا نے کیا۔ یہ وہی مورخ ہیں جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ مولانا آزاد کی زندگی میں ان سے کافی قریب رہے ہیں اور انگریزی میں مولانا پر ایک کتاب بھی لکھی ہیں ، اس کتاب میں مولانا آزاد کو ایک گھٹیا انسان ثابت کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ ’’وہ غلط بیانی سے بہت کام لیتے تھے ‘‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ چوپڑا نے جس غلط بیانی کی طرف اشارہ کیا ہے اس کے پس پشت مولانا کا جذبہ یہ تھا کہ کسی طرح ہندوستان کی وحدت برقرار رہے اس بڑے مقصد کے لئے وہ کچھ بھی کر گزرنے کا تیار تھے یعنی ان کی دروغ گوئی اپنے نجی مفادات کے لئے نہیں بلکہ ایک نیک مقصد کے لئے تھی جیسا کہ ’کیبنٹ مشن‘ کے ساتھ مذاکرات کے وقت ہوا کہ مولانا آزاد نے ایک خفیہ خط وائسرائے کو لکھ دیا جس میں متحدہ ہندوستان کی آزادی پر اپنے منصوبہ کا خاکہ پیش کیا گیا تھا گاندھی جی کو کسی طرح اس خط کی اطلاع ہو گئی، انہوں نے یہ خط منگوا کر مولانا سے وضاحت طلب کی تو وہ صاف انکار کر گئے حالانکہ خط اس وقت بھی کچھ فاصلہ پر گاندھی جی کے سامنے رکھا تھا۔

 اس خط کا حوالہ دوسروں نے بھی دیا ہے لیکن سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اس خط کو تحریر کرنے سے ان کا جذبہ قطعی نیک تھا ایک دوسرے نام نہاد مورخ بلراج مدھوک اس سے بھی آگے کی کوڑی لائے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ ’’مولانا ابوالکلام آزاد ہی پاکستان کے خالق ہیں وہ مسلمانوں کے نام آدھا ہندوستان لکھوانا چاہتے تھے ‘‘ حالانکہ اس حقیقت سے بلراج مدھوک کے سوا پوری دنیا واقف ہے کہ محمد علی جناح کے ساتھ پاکستان بنانے میں مولانا آزاد کا نہیں سردار پٹیل کا مساوی حصہ ہے ۔ جنہوں نے سب سے پہلے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے فارمولے کو ’تقسیم کرو اور آزادی لو‘ کو قبول کیا، اس کے بعد جواہر لال نہرو اور دوسرے کانگریسیوں کے نام آتے ہیں جنہوں نے مل کر مہاتما گاندھی کو ہندوستان کی تقسیم کے لئے راضی کیا۔جسونت سنگھ نے اپنی تازہ کتاب میں اسی پہلو کو ابھارنے کی کوشش کی ہے ۔

 جبکہ اس کے برعکس مولانا آزاد کا آخر تک اصرار تھا کہ تقسیم کی شرط پر آزادی قبول کرنے میں جلدی نہ کرو کیونکہ انگریز اب زیادہ دن ہندوستان میں رہنے کی سکت نہیں رکھتے ۔ جنگ عظیم میں ان کی حالت اس قدر کمزور ہو گئی ہے کہ وہ آج نہیں تو کل ہندوستان سے رختِ سفر باندھنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔

 لیکن ان حقائق کو ایک خاص طرز فکر کے مورخوں اور متعصب سیاست دانوں نے قطعی فراموش کر دیا کیونکہ انہیں تو ہر مسلم رہنما کا قد چھوٹا کرنے کی فکر تھی تاکہ دنیا پر یہ ثابت ہو جائے کہ ہندوستان کی آزادی کے لئے مسلمانوں نے کچھ نہیں کیا بلکہ سارا معرکہ اکثریت کے لیڈروں نے سرانجام دیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جنگ آزادی میں مسلم رہنماؤں نے ہر اول دستہ کے طور پر کام کیا اور مولانا آزاد سرگرم سیاست میں اس وقت داخل ہوئے جب مہاتما گاندھی کو ہندوستان میں کوئی جانتا بھی نہ تھا۔

 رہی تقسیم ملک کی بات تو مولانا آزاد کے لئے یہ ایک شدید صدمہ کا درجہ رکھتی تھی حالانکہ ان کے کانگریسی ساتھیوں نے اس کو قبول کر لیا تھا، قریبی رفیق پنڈت جواہر لال نہرو اس کی حمایت پر آمادہ ہو گئے تھے لیکن مولانا آزاد کے لئے یہ ایک سانحہ تھا جس کا اظہار انہوں نے اپنی خود نوشت سوانح ’’انڈیا ونس فریڈم‘‘ میں کیا ہے ۔ اس کتاب کے تیس صفحات پر جو مہر بند کر کے محفوظ کر دیئے گئے تھے کتاب کی اشاعت کے تیس برس بعد1988ءمیں جب جاری کئے گئے تو ان میں بھی جس بات کو مزید شدت اور صاف گوئی کے ساتھ بیان کیا گیا وہ تقسیم ہند کا المیہ تھا۔

 مولانا آزاد نے خاص طور پر جس پہلو کو اجاگر کیا وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں مادر وطن سے محبت کے دعویداروں نے بھارت ماتا کی ناقابل تقسیم میراث، جغرافیائی اور تہذیبی وحدت کے تمام بلند بانگ دعووں کے باوجود اقتدار کا مزہ ایک بار چکھ لینے کے بعد اسی اقتدار کا سکھ حاصل کرنے کی خاطر ملک کے بٹوارہ کو شیر مادر سمجھ کر حلق سے نیچے اتار لیا حالانکہ یہ دودھ نہیں وہ زہر تھا جس نے لاکھوں انسانوں اور کئی نسلوں کی زندگی میں ایسا زہر بھر دیا کہ اس کی کسک بلکہ ہلاکت آج تک محسوس کی جا رہی ہے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے تو یہ اتنا سنگین المیہ ہے جس کی کوئی مثال ان کی تاریخ و تہذیب میں نہیں ملتی۔

 ایک ایسا شخص جس نے ’متحدہ قومیت‘ کی وکالت کی خاطر اس کے لئے لڑائی میں اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا اس کے لئے تقسیم کا یہ سانحہ فطری طور پر دل و دماغ کو ہلا دینے والا ایک ایسا حادثہ تھا جو کانگریس ہائی کمان کے دوسرے ارکان پر نہیں گزرا اس کے بجائے ان لوگوں نے مسلمانوں کی قدیم سیاسی صف آرائی اور مسلم لیگ کی مزاحمت سے نجات پا کر ہندوستان میں بلا شرکت غیر ملکیت پر اطمینان کا ہی اظہار کیا اور 1947ئ کے بعد تو وہ اپنے خوابوں کے مطابق ہندوستان کی تعمیر میں لگ گئے تاکہ ایک ہزار برس کی تاریخ میں پہلی بار انہیں حکمرانی کاجو موقع ملا ہے اس کو کام میں لاقر ملک کو طاقتور اور قوم کو حوصلہ مند بناسکیں کیونکہ غلامی کے تاریک دور کا تصور ان کے ذہن میں شعوری یا غیر شعوری طور پر ایک ہزار برس کی مدت کا تھا۔ کانگریس کی قیادت میں ایک بڑا حلقہ اسی لئے ہندو احیاءپرستی سے بھی ہمدردی محسوس کرتا اور کبھی کبھی ان کی زبان بھی بولنے لگتا تھا، اس کا فطری نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ مولانا آزاد کو خود کے اور عام مسلمانوں کے بارے میں بے یار و مددگار ہونے کا احساس ہونے لگا۔ وہ یہ تماشہ دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے کہ جس ہندوستان میں تحریک خلافت کے دور تک سیاست پر مسلمان حاوی تھے وہ آج بے حقیقت ہو چکے ہیں ۔ اتنے بے حقیقت کہ ہندوستان کی قومی زندگی میں ان کی ناگوار موجودگی کا احساس مسلمانوں کے لئے مزید مسائل و دشواریاں پیدا کر رہا ہے ۔ ہندوستانی مسلمانوں کو حقارت سے نظر انداز کرنے کا یہ رویہ ان کے خلاف نفرت اور تعصب سے زیادہ خطرناک او ر ان تمام سیکولر مسلم رہنماؤں کی توہین تھی جنہوں نے آندھی و طوفان میں بھی اپنے پائے استقامت میں لغزش نہ آنے دی۔

 مولانا آزاد کو تقسیم ہند کے المیہ کے بے لاگ تجزیہ کی ضرورت اس لئے بھی محسوس ہوئی کہ ان کے خیال میں ہندوستانی مسلمان تو اپنے سیاسی ماضی کی قیمت چار و ناچار ادا کر رہے تھے لیکن تقسیم کو قبول کرنے کی مساوی ذمہ داروں کو اپنی غلطی و مجرمانہ کوتاہی کا احساس و خیال نہ تھا۔ مولانا آزاد کی حق گوئی کا پس منظر یہی ہے جس میں انہوں نے نہایت سرد لہجہ اور استدلال کے ساتھ آنے والی نسلوں کے سامنے یہ حقیقت واضح کی کہ تقسیم کے المیہ کے تنہا مسلمان ہی ذمہ دار نہیں اور اس کے نتیجہ میں جو خون ریزی ، تعصب اور تصادم کا ماحول پیدا ہوا وہ فکر و نظر کی کن خامیوں کا نتیجہ تھا اور کانگریس کے صف اول کی قیادت چاہتی تو اس سے بچ سکتی تھی۔

 مگر اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا بھی مناسب نہ ہو گا کہ تقسیم کے المیہ کی ذمہ داری صرف کانگریسی رہنماؤں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ تقسیم ملک میں مسلم لیگ، کانگریس اور انگریز حکومت نے اپنا اپنا کر دار ادا کیا ہے اور ان کی مشترکہ غلطیوں یا چالبازیوں کی بھاری قیمت برصغیر کے کروڑوں معصوم انسانوں کو چکانی پڑی ہے ۔ اس کو تاریخ ساز لوگوں کی انسانی غلطی سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ غلطی کا سرزد ہونا بشری تقاضا ہے جس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے کیونکہ تاریخ بے رحم ہوتی ہے اور انسانی غلطیوں کو معاف نہیں کرتی۔ ہماری جنگِ آزادی کے سورماﺅں نے جہاں اپنی زندگیاں داﺅ پر لگادیں وہیں ان سے بعض اہم غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں ۔ خود پنڈت نہرو نے بعد میں تسلیم کیا کہ برصغیر کے فرقہ وارانہ امن کی خاطر ہم نے تقسیم منظور کی تھی مگر بعد کے واقعات نے اسے غلط ثابت کر دیا۔

٭٭٭

رشید انصاری

راج موہن گاندھی کی نظر میں ۔مولانا محمد علی جوہر

مہاتما گاندھی کے پوتے راج موہن گاندھی نے ہندوستانی مسلمانوں کے تعلق سے انگریزی میں ایک کتاب میں مولانا محمد علی جوہر، محمد علی جناح، فضل الحق، ابوالکلام آزاد، لیاقت علی خان اور ذاکر حسین خان شامل ہیں ۔راج موہن گاندھی نے مولانا محمد علی جوہر کے تعلق سے کچھ ایسے حقائق کا انکشاف کیا جو ہندوستان کی نصابی کتابوں اور دیگر لکھنے والوں کی تحریروں میں عمداً بلکہ مصلحتاً ضبط تحریر میں نہیں لائے جاتے ہیں ۔مولانا محمد علی کو ان کی ابتدائی زندگی میں دو اہم ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ایک تو یہ کہ کسی انگریز کے تعصب کی وجہ سے وہ اس دور کے ایک اہم مقابلہ جاتی امتحان آئی سی ایس (ICS) میں کامیاب نہ ہو سکے ایک طرح سے یہ اچھا ہی ہوا۔ورنہ قوم ایک بلند پایہ بے باک ونڈر سیاست داں ، قائد اور مدبر سے محروم ہو جاتی!ان کی دوسری ناکامی یہ تھی کہ ان کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لیکچرر بننے کا بھی موقع نہ ملا کیونکہ کالج کا انگریز پروفیسر ان کے باغیانہ خیالات کو ناپسند کرتا تھا۔راج موہن گاندھی نے لکھا ہے کہ عملی سیاست میں آنے سے پہلے ہی وہ ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے علمبردار تھے ۔ راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کے باوجود وہ بہت بڑے محبّ وطن تھے لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ مولانا محمد علی مسلمانوں کے اس متحدہ اور نمائندہ و فد میں شامل تھے جو 1906ئ


 میں مسلمانوں کے مطالبات پیش کرنے سرآغاخاں کی قیادت میں اس وقت کے وائسرائے لارڈ منٹو سے ملا تھا۔ لارڈ منٹو کو اپنے مطالبات پیش کرنے کے بعد ہی ڈھاکہ میں 1906ء میں مسلم لیگ کا تاسیسی اجلاس ہوا جس میں مولانا محمد علی بھی شریک تھے گو کہ انہوں نے مسلم لیگ کے قیام میں کلیدی رول ادا کیا تھا لیکن وہ ہمیشہ ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا کرتے تھے ۔مولانا محمد علی کے مشہور زمانہ انگریزی رسالے ’’کامریڈ‘‘ کے ساتھ ہی راج موہن گاندھی نے ان کے اردو رسالے ’’ہمدرد‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ مولانا محمد علی کی انگریزی تحریر ان کی اردو تحریر سے زیادہ پرکشش اور موثر تھی ویسے راج موہن نے یہ بات پروفیسر محمد مجیب کے حوالے سے لکھی ہے )1905ء میں انگریزوں نے بنگال کو (جو ایک وسیع صوبہ تھا) تقسیم کیا تھا کانگریس نے تقسیم بنگال کی مخالفت کی تھی جبکہ مسلمان اس کے حامی تھے ۔ 1911ء  میں انگریزوں نے تقسیم بنگال کو ختم کر کے پھر سے اسے متحد کر دیا گوکہ مولانا محمد علی بھی تقسیم بنگال کے فیصلے کو منسوخ کرنے کے شدید مخالف تھے کیونکہ تقسیم شدہ بنگال کے ایک حصے (مشرقی بنگال) میں مسلمان غالب اکثریت میں تھے ۔ تاہم مولانا محمد علی جوہر نے مسلمانوں کو صبر و تحمل سے حالات سے سمجھوتہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ تقسیم بنگال کی حمایت اور تقسیم کے فیصلے کو منسوخ کرنے کے سلسلے میں مولانا محمد علی کی مخالفت جو دراصل مسلم لیگ کی تائید اور کانگریس کی مخالفت تھی تاہم مولانا محمد علی کی ان باتوں کا ذکر مولانا کے تذکروں میں نہیں کیا جاتا ہے تاکہ مولانا محمد علی کی مسلم لیگ سے قربت کا اظہار نہ ہو۔راج موہن گاندھی نے یہ بھی لکھا ہے کہ بہت سارے معاملات میں مولانا کا موقف اور ان کے رسائل کامریڈ اور ہمدرد کا مو


¿قف بہ یک وقت فرقہ واریت اور حب الوطنی کا اظہار کرتا تھا۔ مخلوط انتخاب کی جگہ مسلمانوں کے لئے جداگانہ انتخابات (جس میں مسلمان صرف مسلمانوں کو ووٹ دیتے تھے اور قانون ساز اداروں میں مسلمانوں کی نشستوں کا یہ اعتبار آبادی تعین کیا جاتا تھا) کی حمایت کرتے تھے ۔ لیکن 1912ء میں انہوں نے جداگانہ انتخابات کو ’’کراہیت آمیز ضرورت (مثل طلاق) قرار دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ دونوں فرقوں (ہندو اور مسلمان) کے تعلقات خوش گوار ہو جائیں تو اس کو ختم کیا جاسکتا ہے ۔ مولانا کے حالات لکھنے والے ’’جداگانہ انتخابات‘‘ کے بارے میں مولانا کے خیالات صاف گول کر جاتے ہیں کیونکہ اس طرح مولانا کے کانگریس سے اختلافات کا پتہ چلتا ہے ۔تحریک خلافت اور تحریک عدم تعاون کے ذکر میں راج موہن گاندھی نے اعتراف کیا ہے کہ مولانا محمد علی نے سوامی شردھانند کو جامع مسجد دہلی کے منبر پر بٹھا دیا تھا۔ گاندھی جی نے ممبئی(تب بمبئی) کی مساجد میں مسلمانوں کو مخاطب کیا۔ برہمن مسلمانوں کو بلا کر اپنے گھر کھانا کھلاتے تھے اور گاندھی جی کو جو اس وقت تک صرف گاندھی جی کہلاتے تھے ان کو جب مولانا نے ’’مہاتما‘‘ کہہ کر پکارنا شروع کیا تو ہر کوئی گاندھی جی کو مہاتما کہنے لگا۔تحریک خلافت کے دوران ہندوؤں نے جس طرح اس تحریک کا ساتھ دیا تھا اس کے اظہار تشکر کی خاطر مولانا نے گائے کا گوشت کھانا چھوڑ دیا تھا اور عام مسلمانوں میں بقرعید کے موقع پر گائے کی قربانی نہیں کی گئی لیکن وہ بے مثال ہندو مسلم اتحاد کی مثال پھر کبھی نہ مل سکی۔ تحریک عدم تعاون ’’چورا چوری‘‘ کے پر تشدد واقعات کے بعد مہاتما گاندھی نے اچانک ختم کر دی تھی یہ بات مولانا کو ناگوار گزری اور انہوں نے اسے ہتھیار ڈالنے کے مماثل قرار دیا۔ مہاتما گاندھی، علی برادران کی گرفتاری نے تمام تحریکوں کو ختم کر دیا دوسری جانب برطانوی حکومت نے ہندو مسلم فسادات کو ہوا دی ’’شدھی سنگھٹن‘‘ (مسلمانوں کو ہندو بنانے کی تنظیم) نے زور پکڑا اور مدن موہن مالویہ جیسے فرقہ پرست قائدین کا زور ہو گیا۔ چنانچہ جب مہاتما گاندھی سے مولانا نے مدن موہن مالویہ کے مخالف مسلم رویہ کی شکایت کی تو گاندھی کے خیالات مالویہ کے تعلق سے مختلف تھے چنانچہ اس تعلق سے مولانا نے 15/جون 1924ء کو پنڈت جواہر لال نہرو کو ایک خط لکھ کر مالویہ کے بارے میں گاندھی جی کے خیالات پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔1924ء  میں کوہاٹ میں ہوئے ہندو مسلم فساد نے مولانا محمد علی اور گاندھی کے اختلافات بہت زیادہ بڑھا دئے تھے ۔مہاتما گاندھی نے مولانا کے گھر مہمان ہو کر 21 دن کا برت رکھا۔ مولانا کو اس برت سے اختلاف تھا انہوں نے مہاتما جی سے شکایت کی تھی کہ ایک میزبان کی حیثیت سے اور دوسرے صدرکانگریس کی حیثیت سے مہاتما کو مولانا سے مشورہ تو کرنا چاہئے تھا۔ مولانا نے اس برت کو ختم کروانے کے لئے بہت کوشش کی مولانا کی والدہ ’’بی امّاں ‘‘ نے بھی مہاتما سے درخواست کی مولانا محمد علی کے بھائی شوکت علی نے مہاتما کو روکنے کے لئے ممبئی سے دہلی دوڑ لگائی لیکن گاندھی جی نے کسی کی نہ سنی۔ کوہاٹ کے فسادات کے بارے میں ہی بعد میں بھی اختلافات بڑھتے گئے اور مہاتما نے مولانا شوکت علی سے کہا تھا کہ ’’اس معاملے میں ہمارے درمیان گہری خلیج حائل ہے ۔‘‘1924ء  میں جب بہ حیثیت صدر کانگریس مولانا کی میعاد صدارت ختم ہو چکی تھی،مسلمانوں کے خدشات اور حقوق کا ذکر کرتے ہوئے راج موہن گاندھی نے لکھا تھا کہ ’’مولانا محمد علی یہ محسوس کرتے تھے کہ ’ہندو فرقہ پرستی‘ کانگریس میں جگہ بناتی جا رہی ہے ان کو امید تھی کہ مہاتما گاندھی اسے ختم کر سکیں گے جبکہ مہاتما گاندھی کا کہنا تھا کہ ہندو اور مسلمان دونوں ہی پر سے میرا اثر ختم ہو چکا ہے ۔تحریک خلافت کی ناکامی کا غم، مصطفے ٰ کمال کی جانب سے ترکی میں خلافت کے خاتمہ کا المیہ اور انتھک محنت، بد پرہیزی، بحث و مباحثے ، لکھنے لکھانے کا کام،خود کو اصولوں کی خاطر تنازعات میں الجھائے رکھنا ان وجوہات کی وجہ سے جنوری 1926ء تک مولانا کی صحت خراب ہوتی گئی اور بقول راج موہن گاندھی مولانا اپنی عمر سے زیادہ بوڑھے نظر آنے لگے ہیں ۔ اس وقت ان کی عمر47 سال تھی اسی زمانے میں ان کو مالی مجبوریوں کی وجہ سے ’’کامریڈ‘‘ بند کرنا پڑا تھا۔1927ء میں ایک طرف ہندو مسلم اتحاد کی جگہ ملک بھر میں ہندو مسلم فسادات کا زور تھا تو دوسری طرف دستوری اصلاحات کی تیاری بھی زوروں پر تھی۔ مسلمانوں کی تمام جماعتوں کا ایک اجلاس دہلی میں سائمن کمیشن کی آمد سے قبل ہوا تھا۔ اس وقت سندھ کا صوبہ ممبئی میں شامل تھا اور شمال مغربی صوبہ سرحد اور بلوچستان کو مکمل صوبوں کا درجہ حاصل نہ تھا۔ 1916ء میں میثاقِ لکھنؤ میں طے شدہ جداگانہ انتخاب سے کانگریس منحرف ہو چکی تھی۔ مسلمانوں کے اجلاس دہلی میں مسلمانوں کی قیادت مولانا محمد علی جوہر کے ساتھ محمد علی جناح بھی کر رہے تھے ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ دو محمد علی ایک ساتھ ہی نہیں بلکہ ایک ہی مشن پر تھے جداگانہ انتخاب کی جگہ مسلمانوں نے مشترکہ یا مخلوط انتخاب کا مطالبہ مان لیا تھا اور سندھ، بلوچستان اور شمال مغربی صوبہ سرحد کو مکمل صوبوں کا درجہ دینے کے ساتھ مرکزی کونسل میں ایک تہائی نشستوں کا مطالبہ کر دیا تھا ان تجاویز کو ’’تجاویز دہلی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ۔ کانگریس ابتداء میں تجاویز دہلی کو قبول کرنے پر آمادہ تھی لیکن موتی لال نہرو کمیٹی کی رپورٹ آتے ہی کانگریس نے ان تجاویز کو مسترد کر دیا کیونکہ مرکزی کونسل میں نہرو کمیٹی نے مسلمانوں کو صرف 25 فیصد نشستوں کے دئے ے جانے کی سفارش کی تھی۔ نہرو رپورٹ پر غور کرنے کے لئے تمام جماعتوں کا ایک کنویشن کولکتہ (تب کا کلکتہ) میں منعقد ہوا لیکن اس میں کوئی فیصلہ نہ ہو سکا محمد علی جناح مولانا محمد علی کے ساتھ اپنے مطالبات پر اڑے رہے ۔ مولانا محمد علی نے اس موقع پر بڑی جوشیلی تقریر کی تھی راج موہن گاندھی نے ممتاز مسلم لیگ قائد چودھری خلیق الزماں کے اس خیال سے اتفاق کیا تھا کہ غالباً مولانا محمد علی کو کانگریس سے کسی سمجھوتے کی امید نہ تھی کیونکہ کانگریس میں پنڈت مدن موہن مالویہ، لاجپت رائے اور سردار پٹیل اور دیگر کئی قائدین مسلمانوں کے مخالف تھے اسی لئے 1925ء میں ہی مولانا محمد علی جوہر اور ان کے بھائی شوکت علی اور دوسرے کئی مسلم قائدین مسلمانوں کے ساتھ کانگریس چھوڑ چکے تھے ۔بہرحال کولکتہ میں تمام جماعتوں کے کنونشن میں مولانا محمد علی اور محمد علی جناح کے یکجا ہونے اور ہم خیال ہونے کا ذکر نہیں کیا جاتا۔ یہاں یہ بات بھی لائق ذکر ہے ہر مکتب فکر کے تمام اہم مسلمان لیڈر کانگریس سے الگ ہو گئے تھے صرف ابوالکلام آزاد اور مختار احمد انصاری کانگریس کا ساتھ دیتے رہے ۔ اسی سلسلے میں راج موہن لکھتے ہیں کہ ’’اپریل 1926ء میں مولانا محمد علی نے موتی لال نہرو سے دوران گفتگو کہا تھا کہ تمام کانگریسی ماسوائے گاندھی جی، موتی لال نہرو اور جواہر لال نہرو مخالف مسلمان ہیں ۔ لیکن 1928ء میں موتی لال نے تجاویز دہلی کو پہلے قبول کیا تھا لیکن بعد میں اپنا موقف تبدیل کر دیا۔ مہاتما گاندھی نے اپنا اثر استعمال کرنے کی جگہ فرقہ پرستوں کو کھلی چھوٹ دے دی تھی۔کانگریس یا مہاتما گاندھی سے دوری کے باوجود جیسا کہ راج موہن گاندھی نے لکھا ہے کہ ہندو مسلم اتحاد کے مشن سے مولانا کبھی دور نہیں ہوئے اور عمر کے آخری حصہ میں چند دن (جو انہوں نے لندن میں گزارے تھے ) کے دوران ان کا اس بارے میں موقف غیر متزلزل رہا تھا۔ چنانچہ گول میز کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا تھا ’’ہندو مسلم تنازع انگریزوں کا تخلیق کردہ ہے ، آپ ’لڑاو


¿ اور حکومت کرو‘ کے قدیم ضابطے پر عمل پیرا ہیں ۔ ہم منقسم ہیں (گو کہ اس کی ساری ذمّہ داری آپ پر نہیں ہے ) تاہم آپ بہرحال ہم کو تقسیم کر کے حکومت کر رہے ہیں ۔‘‘اپنی ایک صاحبزادی کے نام اپنے ایک خط میں مولانا نے لکھا تھا کہ :’’اللہ تعالیٰ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ انصاف کر سکیں ۔ دیانتداری برتیں اور تحمل کا مظاہرہ کریں اور انہیں غلامی سے اتنی نفرت ہو جائے کہ وہ نہ خود غلام رہنا پسند کریں اور نہ ہی کسی اور کو اپنا غلام بنانا پسند کریں ۔‘‘مولانا محمد علی جوہر طاقتور مرکزی حکومت کی جگہ ایسے وفاق کے قائل تھے جس میں صوبوں کو خاصی آزادی ہو اس طرح مسلم اکثریتی صوبوں میں حکومت مسلمانوں کی ہو گی اور ہندو اکثریتی صوبوں میں ہندوؤں کی اس طرح مساوات برقرار رہے گی۔ ہندو مسلمان ایک دوسرے پر ظلم نہ کر سکیں گے ۔انتقال سے قبل ان کا آخری کام برطانوی وزیر اعظم رسے میکڈانلڈ کو خط لکھ کر مکمل آزادی کا مطالبہ کرنا تھا۔ راج موہن گاندھی نے لکھا ہے کہ اپنی عمر کے باون سالوں میں مولانا محمد علی نے قوم کو دیا تو بہت کچھ لیکن لیا کچھ نہیں ، خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے کوئی وصیت نہیں چھوڑی کیونکہ بطور میراث چھوڑنے کے لئے ان کے پاس نہ کوئی جائیداد تھی اور نہ ہی گھر میں یا بینک میں نقد رقم تھی

 

٭٭٭

شیخ علی محمد

تاریخِ اسلام انصاف اور معدلت کا ایک بے مثال واقعہ

سلطان محمد شاہ تغلق کا دورِ حکمرانی (۱۳۲۵-۱۳۵۱ء) ہندوستان کی رعایا کے لئے حرمان نصیبی اور مصائب و آلام کا دور رہا ہے ۔ اگرچہ محمد شاہ تغلق نے انتظامی اور مالی لحاظ سے ایک مضبوط سلطنت ورثے میں پائی تھی لیکن اس کی حماقتوں اور شاہ خرچی کی وجہ سے چند سالوں کے اندر اندر ہی خزانۂ عامرہ خالی ہو گیا اور خوشحال سلطنت پر افلاس کے بادل منڈلانے لگے ۔ محمد شاہ تغلق عربی اورفارسی کا زبردست عالم تھا ، مروّجہ علوم طبیعات ، ریاضیات پر بڑی دسترس رکھتا تھا۔ علم طب میں ید طولیٰ کا حامل تھا اس کے علاوہ اونچے درجے کا ادیب و شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے زمانے کا بہترین خطاط بھی تھا لیکن علم و آگہی نے کسی بھی طرح محمد شاہ تغلق کے دل میں مودت و رحمت کا جذبہ پیدا نہ کیا۔ عالم و فاضل ہونے کے باوجوداس کی طبیعت ہر وقت خونریزی اور قتل و غارت گری پر آمادہ رہتی تھی۔مشکل سے ہی کوئی دن ایسا گزرتا تھا جب بادشاہ کے دروازے پر کسی کو قتل نہ کیا جاتا تھا۔ معمولی معمولی خطا?ں پر لوگوں کو ہاتھیوں کے پیروں تلے کچلوا دیا جاتا۔محمد شاہ تغلق اتنا سفاک تھا کہ زندہ جسموں سے کھال اُتار کراس میں بھوس بھروا دیتا۔ سنگدلی اور سفاکی میں اپنے پرائے میں بھی کوئی فرق نہیں کرتا تھا۔ اس نے اپنے سگے بھائی مسودخان کو بے رحمی سے قتل کرایا اور اس کی لاش بازار میں پھینکوا دی۔ تین روز تک مسعود خان کی لاش بے گور و کفن پڑی رہی۔ محمد شاہ تغلق ہر ہفتے کسی نہ کسی عالم ، فاضل ،مفتی ، قاضی یا صوفی کو ضرور موت کے گھاٹ اُتار دیتا۔ جب محمد شاہ تعلق نے دِلّی کی بجائے دولت آباد(دکن)کو پایۂ تخت بنانے کا ارادہ کر لیا تو دلّی والوں کو حکم ہوا کہ جلد از جلد دلّی خالی کر کے دولت آباد میں جابسیں ۔ دلّی والوں نے لیت و لعل سے کام لیا تو حکم ہوا کہ تین دن کے اندر اندر دلّی کو خالی کیا جائے اس کے بعد جو شخص بھی دلّی میں ملے گا اس کو قتل کر دیا جائے گا۔ دلّی کے اکثر لوگوں نے اپنا ساز وسامان چھوڑ کر دلّی سے فرار اختیار کیا لیکن کچھ معذور اور مجبور لوگ پھر بھی دلّی میں پڑے رہ گئے ۔ بادشاہ نے ان کو گرفتار کر کے سخت سزائیں دیں ۔پسماندگان میں ایک نابینا شخص بھی تھا۔ اس کے لئے حکم دیا کہ اس کی ایک ٹانگ میں رسّی باندھ کر اسے دولت آباد گھسیٹ کر لے لیا جائے ۔ حکم کی تعمیل ہوئی ،راستے میں نابینا کے جسم کے پرخچے اڑ گئے اور رسّی کے ساتھ بندھا صرف ایک پا?ں ہی دولت آباد پہنچ سکا۔ اس کے بعد دلّی بالکل ویران ہو گئی۔سلطان محمد شاہ تعلق شام ڈھلنے کے بعد محل کے بالاخانے پر چڑھ گیا اور شہر کے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ جب دیکھا کہ نہ کہیں دھواں اٹھ رہا ہے اور نہ ہی کہیں روشنی نظر آ رہی ہے تو کہا ’’اب میرے جگر کو ٹھنڈک پہنچ گئی ‘‘۔ کچھ عرصہ کے بعد سلطان کو احساس ہوا کہ دلّی کو ویران کر کے اس نے حماقت کی اور پھر دلّی کو دوبارہ آباد کرنے کی کوشش بھی کی لیکن دلّی عرصہ دراز تک آباد نہ ہو سکی۔ یہاں تک یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ محمد شاہ تغلق کی حماقتوں کا سلطنت کشمیر پر کوئی اثر نہ ہوا کیونکہ کشمیر ان دنو ں بھی ایک آزاد اور مضبوط خودمختار سلطنت تھی۔ محمد شاہ تغلق کی حماقتوں او رسفاکیت کے نتیجے میں ملک ہند کے کونے کونے میں بغاوتوں نے سر اٹھایا۔ کئی مسلم و غیر مسلم عمال نے رعایا کو بادشاہ کے خلاف اکسانا شروع کر دیا۔ بعض صوبوں کے امراء نے ہندوستان کی مرکزی حکومت سے الگ ہو کر خودمختار ی کا اعلان کر دیا۔محمد شاہ تغلق کی تقریباً ساری زندگی ان بغاوتوں کو دبانے کی نذر ہو گئی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد شاہ تغلق نے فوج کشی کر کے بہت سے باغی حکومتوں کی بساط الٹ دی لیکن کچھ خودمختار سلطنتیں اپنا علیحدہ وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں ۔ انہی میں سے ایک (متحدہ) سلطنت بنگال بھی ہے ۔ بنگال کی خودمختار مسلم سلطنت کا بانی سلطان شمس الدین بھنگرہ تھا۔ جس نے ۱۳۴۲میں سارے بنگال (آج کے بنگلہ دیش اور مغربی بنگال وغیرہ) پر قبضہ کر کے اسی سلطنت کی داغ بیل ڈالی۔ سلطان شمس الدین بھنگرہ نے سولہ سال تک حکومت اور 1357ءمیں اس کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا سلطان سکندر شاہ تخت پر بیٹھا۔ سلطان سکندر شاہ کے انتقال پر 1366ء میں اس کا فرزند سلطان غیاث الدین تخت شاہی کا وارث ٹھہرا۔ (سلطان شمس الدین بھنگرہ اور سلطان سکندر شاہ اوسط درجے کے حکمران رہے ہیں ۔یہ بات یاد رہنی چاہئے کہ اس دور کے اوسط درجے کے مسلم حکمرانوں کے ساتھ آج کل کے نام نہاد چنے گئے حکمرانوں کا کسی طور بھی تقابل نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ رشوت نام کی کوئی چیز محمد تغلق جیسے سفاک حکمران کے دور میں بھی نہ تھی۔ مذاہب کے نام پر بھید بھا? اور فسادات کا کوئی تصور نہیں تھا۔ رعایا کی معصوم لڑکیوں کی عصمت ریزی کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا اور غیر مسلح بزرگوں اور خواتین کو جیلوں میں ٹھونسنے کا رواج نہیں تھا)۔ سلطان غیاث الدین کا دور حکمرانی(1366ء تا1377ء )بنگال کی مسلم سلطنت کا سنہری دور تھا۔ سلطنت میں ہر طرح امن و امان اور خوشحالی کا دور دورہ تھا۔ سلطان غیاث الدین اعلیٰ پایہ کا منتظم ، عالم با عمل ، زاہد بے ریا اور جودوسخا کا پیکر تھا۔اس کے ساتھ ساتھ سلطان دفاع سلطنت سے ہرگز غافل نہ تھا۔ موقع بہ موقعہ جنگی مشقوں کا انعقاد بھی سلطان کے طریق جہانبانی میں شامل تھا۔ ایک دن تیز اندازی کی مشق ہو رہی تھی۔ سلطان نے بھی نشانہ باندھ کر کئی تیر چھوڑے ، ناگاہ ایک تیر کا نشانہ خطا ہو گیا اور یہ تربیتی احاطے سے باہر جا گرا۔ اتفاق سے یہ تیر ایک غریب عورت کے بچے کو لگا اور وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا۔سلطان کو اس حادثے کی خبر نہ ہوئی اور مشق مکمل ہونے کے بعد تھکا ماندہ اپنے عملے کے ساتھ قصر شاہی کی طرف کوچ کر گیا۔ قاضی شہر (City Judge) قاضی سراج الدین دن بھر کی عدالتی کام کاج کو سمیٹ کر اُٹھنے ہی والے تھے کہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے ایک کمزور خاتون حاضر ہو گئی اور قاضی صاحب سے فریاد کی کہ ’’قاضی صاحب ، میں ایک بیوہ ہوں بادشاہ کے تیر سے میرا لخت جگر ابدی نیند سوگیا، ازروئے قانونِ شریعت میری داد رسی کیجئے ‘‘۔ قاضی صاحب کچھ دیر کسی سوچ میں پڑ گئے اور پھر ایک درہ مسند قضا کے نیچے چھپا کر رکھ دیا۔ جوابِ دعویٰ کے ساتھ حاضر ہونے کے لئے سلطان کے نام سمن جاری کر دیا۔ عدالت کے حکم کی تعمیل کرانے کے لئے ایک پیادے کو روانہ کر دیا۔ پیادہ قصر شاہی کے حدود میں داخل ہوا تو اس کو اندازہ ہوا کہ بے پناہ مصروفیت کے باعث اس وقت بادشاہ تک رسائی آسان نہیں ہے ۔پیادے نے بلند آواز سے اذان دینی شروع کر دی۔ بے وقت اذان سن کر بادشاہ نے موذن کو دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ موذن کو حاضر کیا گیا تو بادشاہ نے بے وقت اذان کی وجہ دریافت کی۔ پیادے نے عدالت کا پروانہ پیش کر دیا اور کہا ’’مجھے سلطان کو محکمہ عدلیہ میں حاضر کرنے کا حکم ملا ہے ۔ مجھے اندازہ ہوا کہ قصر شاہی کا عملہ اس وقت سلطان تک رسائی نہ دے گا ، اس لئے یہ حیلہ اختیار کیا۔ سلطان فوراً اٹھا ایک چھوٹی سی تلوار بغل میں چھپا کر عدالت کی طرف چل پڑا۔ قاضی سراج الدین کے سامنے پیش ہوا، قاضی صاحب نے تعظیم تو کجا سلطان کی طرف التفات تک نہ کیا۔جیسے کہ اس کو جانتے ہی نہ تھے ۔فریقین کے بیان لئے اور فیصلہ صادر کیا۔ سلطان غیاث الدین پر قتل کا جرم ثابت ہو گیا ،از روئے قانون شریعت سلطان کو قصاص میں قتل کرنے کی سزا سنائی جاتی ہے ۔ البتہ سلطان کو موت وزیست کا فیصلہ مشتغثہ کی مرضی پر منحصر ہے ۔ سلطان غیاث الدین نے ملزموں کے کٹہرے میں اپنے خلاف سنائی گئی سزائے موت کو سر جھکائے تسلیم کیا۔ یہ منظر دیدنی تھا، سلطان ایک لاچار ملزم کی حیثیت سے محکمہ عدلیہ میں اس پرندے کی طرح بے یار و مددگار تھا جسے ذبح کرنے کی غرض سے کسی پنجرے میں بند کر دیا گیا ہو۔ مستغثہ ممتا کی ٹیس کی وجہ سے سلطان پر خشمگیں نظریں گاڑی ہوئی تھی۔ سب کو لگا کہ سلطان اب تھوڑی دیر کا مہمان ہے اور جر م کی پاداش میں اس پر حد شرعی لاگو ہونے والی ہے ۔ اِدھر قاضی صاحب فیصلہ سنانے کے بعد اس انتظار میں تھے کہ اگر فریقین کے بیچ شریعت میں دی گئی رعایت کے پیش نظر کوئی سمجھوتہ ہوتا ہے تو ٹھیک نہیں تو سورج ڈوبنے سے پہلے سلطان کو جلاد کے حوالے کر دیا جائے ۔ سلطان کی لاچاری اور کسمپرسی کو دیکھ کر یکایک خاتون کا دل بھر آیا اور اس نے خون بہا کے عوض سلطان کو موت کے بے رحم شکنجے سے چھڑانے کا فیصلہ کیا۔ قاضی صاحب کو اطلاع دی گئی کہ مستغثہ سلطان کی جان بخشی کے لئے تیار ہو گئی ہے ۔ قاضی صاحب نے مستغثہ سے پوچھا ’’ کیا تو راضی ہو گئی ؟‘‘ جواب ملا ’’ سلطان کی لاچاری دیکھ کر میں نے اس کی جان بخشی کا فیصلہ کر لیا ‘‘۔ پھر دریافت کیا ’’کیا اس عدالت سے تو نے داد پائی ‘‘۔ مستغثہ نے جواب دیا ’’ قاضی صاحب میں آپ کی عدالت سے بھر پور داد پائی ‘‘۔ مقدمے سے فراغت کے بعد قاضی سراج الدین نے خندہ پیشانی سے سلطان کی تعظیم کی اور اس کو مسند پر بٹھایا۔ سلطان نے بغل میں چھپائی ہوئ تلوار نکالی اور بولا ’’قاضی صاحب میں شریعت کی پابندی کی خاطر آپ کے پاس حاضر ہوا۔ اگر آپ قانونِ شریعت کی سرمو خلاف ورزی کرتے تو اس تلوار سے آپ کی گردن اُڑا دیتا۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ نے منصب قضاء کا پورا حق ادا کر دیا‘‘۔ قاضی شہر قاضی سراج الدین نے مسند کے نیچے چھپایا ہوا دُرہ نکالا اور فرمایا’’ اے سلطان! اگر آ ج آپ شریعت کی حد سے ذرا بھی تجاوز کرتے تو اس دُرے سے آپ کی کھال اُتار دیتا....آج ہم دونوں کے امتحان کا دن تھا‘‘۔

٭٭٭

 

ماخذ:

http://urdutahzeeb.net

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔