08:13    , ہفتہ   ,   18    مئی   ,   2024

ڈرامے

901 0 0 00

ٹرنک کال - اوپندر ناتھ اشک

ٹرنک کال

افراد:

گورنام:مشہور فلم پروڈیوسر۔ عمر ۴۵برس

ہرنام:اس کا چھوٹا بھائی  اور منیجر۔ عمر۴۰سال

کرٹ:مزاحیہ ایکٹر

ستیندر:عام اداکار

شری ہر:جوتشی

وکیل:کمپنی کا قانونی صلاح کار

پانڈے  اور  مشرا:لڑکی کے لئے بات کرنے والے

چپراسی:عمر۵۵برس

مقام:بمبئی کے مشہور فلم پروڈیوسر گورنام  پنجوانی کا دفتر

وقت:حال کا

منظر:(پردہ اٹھنے پر گورنام آرام کرسی پر لیٹا ہے  اور مزاحیہ اداکار کرٹ جس نے اس کی تازہ فلم میں ایک چھوٹا سا رول لے رکھا ہے  اور آئندہ فلم میں بڑا رول پانے کی کوشش میں ہے اس کے پاؤں دبا رہا ہے۔)

گورنام:تم میری عادت بگاڑ دو گے کرٹ۔ میری زندگی میں ایسے دن بھی آئے ہیں ، جب میں نے ہفتوں مہینوں سولہ سولہ گھنٹے کام کیا ہے ، لیکن نہ کبھی مجھے تکان محسوس ہوئی  اور نہ میں نے کسی سے پیر دبوائے۔ (ہنس کر)  اور  جب سے تم کمپنی میں آئے ہو  اور مٹھی چاپی کرنے لگے ہو، میرا جسم بھی درد کرنے لگا ہے  اور مجھے پاؤں دبوانے کی خواہش بھی محسوس ہونے لگی ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ تم اوم پرکاش، آغا، کنہیالال یا محمود کی طرح مشہور ایکٹر ہو گئے تو۔۔۔

کرٹ:گورنام صاحب یہ سب تو مزاحیہ  اداکار ہیں ، بھگوان کرنے میں ہیرو ہو جاؤں تو بھی ان قدموں کی دھول اپنے ماتھے پر لگانا اپنی خوش قسمتی سمجھوں گا۔ آپ نے مجھے بریک دیا ہے۔ میں آپ کو اپنے استاد  اور  بڑے بھائی کے برابر سمجھتا ہوں۔

(اور بھی جوش سے پنڈلی دبانے لگتا ہے۔)

گورنام:نہ جانے آج کندھے کیوں درد کر رہے ہیں۔

کرٹ:(جلدی سے اٹھ  کر کندھے دباتے ہوئے) آپ کام بھی تو بہت کرتے ہیں گورنام صاحب۔ اس ساری انڈسٹری میں ایک بھی پروڈیوسر نہیں ، جو آپ کے مقابلے میں نصف کام بھی کرتا ہو۔ میں نے تو اسی لئے آپ کو اپنا آدرش بنا لیا ہے۔

(تندہی سے کندھے دباتا ہے۔ ہرنام  تیز تیز داخل ہوتا ہے۔)

ہرنام: بھائی صاحب کیا یہ سچ ہے؟

گورنام:کیا سچ ہے؟

ہرنام:یہی جو میں سن رہا ہوں۔

گورنام:کیا سن رہے ہو؟

ہرنام:بھابھی کو آپ نے ان کے میکے بھیج رکھا ہے۔۔۔ جموں۔۔۔ سال بھر سے  اور۔۔۔

گورنام:سال بھر سے نہیں ، مشکل سے نو مہینے۔۔۔ (ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے) کرٹ ذرا دیکھنا کون ہے؟

کرٹ:(کندھے دبانا چھوڑ کر فون  کا چونگا اٹھاتا ہے) ہیلو۔۔۔ ڈبل تھری، ڈبل فور، ڈبل فائیو!۔۔۔ کون صاحب بول رہے ہیں۔۔۔  کھوسلہ صاحب (گھگھیاتی آواز میں) آداب۔۔۔ آداب! میں آپ کا پرانا خادم کرٹ۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ ابھی دیتا ہوں۔(فون اٹھا کر گورنام کے پاس لے جاتے ہوئے) کھوسلہ صاحب کا فون ہے۔

گورنام:(فون کا چونگا لے کر)آداب عرض حضور کھوسلہ صاحب۔۔۔ ہاں ہاں آپ کی مہربانی ہے۔ بس آخری ریل کی ایڈیٹنگ باقی ہے۔ میری بے انتہا خواہش ہے کہ ریلیز سے پہلے آپ اسے ایک نظر دیکھ لیں۔۔۔  ارے نہیں حضور، آپ تو خود فرمایا کرتے ہیں۔۔۔ بڑے سے بڑا پروڈیوسر نہیں جان پاتا کہ اس کی فلم ہٹ ہو گی یا فلاپ!۔۔۔ ہاں میری چار چار فلمیں ہٹ ہو گئی ہیں۔ لیکن پانچویں فلاپ نہیں ہو گی، اس کی کیا گارنٹی ہے؟۔۔۔ اپنا زور تو حضور کھوسلہ صاحب محنت پر ہے۔ کامیابی یا ناکامی تو اوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔ ہاں۔ ہاں ٹھیک۔۔۔  طے۔۔۔  نہایت شکر گزار ہوں گا۔ آداب عرض!

ہرنام:(بڑے بھائی کے ہاتھ سے چونگا لے کرٹ  کو تھماتے ہوئے) کرٹ اسے ادھر رکھو۔(گورنام سے) نو ماہ بھی بھابھی کو جموں گئے ہو گئے تو کم نہیں ہیں سنا ہے۔ انہیں میکے بھیج کر آپ دوسری شادی رچانے کی فکر میں ہیں۔

گورنام:کون کہتا ہے؟

ہرنام:کوئی بھی کہتا ہو۔ آپ سینے پر ہاتھ رکھ کر کہئے ، جھوٹ ہے؟

(ستیندر داخل ہوتا ہے۔)

گورنام:کیا بات ہے ستیندر، گھبرائے ہوئے کیوں ہو۔

ستیندر:میں ابھی فیمس اسٹوڈیو سے آ رہا ہوں۔ سلوانا نے فلم ایڈٹ کرتے ہوئے میرے دو سین ہی گول کر دئے۔

گورنام:تم ان دونوں میں کانپ رہے تھے۔

ستیندر:وکرم نے جتنی بار کہا، میں نے ریہرسلیں دیں۔ جب تک اس نے اوکے نہیں کیا ، میں نے بس نہیں کی۔

گورنام:ہاں ، لیکن جیسے ہی وکرم کہتا۔۔۔ ٹیک(Take)   کیمرا آن ہوتا۔ تم کانپنے لگتے۔ تمہاری خوشی کے لئے میں نے سین بڑھادیا۔ تمہارا کلوز اپ شاٹ لینے کی ہدایت دے دی۔ لیکن افسر کے آتے ہی سپاہی اٹینشن (Attention)   میں ہو کرسیلوٹ مارے ، کیمرے میں اس کا کلوز اپ ہو اور اس کا ہاتھ کانپتا دکھائی دے تب اس سین کو کاٹ دینے کے سوا کیا چارہ ہے۔ سلوانا نے نہیں ، میں نے ہی اسے تلف کرنے کی ہدایت دی تھی۔

ستیندر:کچھ مناظر تو آپ دوبارہ شوٹ کرنے والے ہیں نا۔ اس سین کو بھی ری ٹیک کر لیجئے گا۔ یقین دلاتا ہوں۔ اب کے ہاتھ ذرا نہیں کانپے گا۔

گورنام:دیکھیں گے۔۔۔  تم کہتے تھے۔۔۔  وکیل  اور  پانڈے آج ہی آئیں گے۔ کیا ہوا ان کو؟ کیا وکیل نے کاغذات تیار نہیں کئے۔

ستیندر:بس میں ادھر ہی جا رہا ہوں۔

گورنام: اوراس جیوتش اچاریہ پرکیا بنی۔ وہ کیوں نہیں آیا؟

ستیندر:ادھر تو کرٹ جانے والا تھا۔

کرٹ:جیوتشی جی نے آج آنے کو کہا تھا۔ میں ابھی فون کرتا ہوں۔ (دھیمے لہجے میں) یوں انھوں نے کہا تھا کہ پچھلے مہینے سے لے کر ایک سال  اور  اکیس دن تک آپ کے گھر لڑکا ہونے کا جوگ ہے۔ شری ہری راج جیوتشی ہیں  اور ان کی بات کبھی غلط نہیں ہوتی۔

گورنام:ستیندر!تم جاؤ۔ اس معاملے کو ادھر ادھر کرو(کرٹ سے) تم فون اٹھا کر باہر لے جاؤ۔(کرٹ فون اٹھا کر باہر جانے لگتا ہے۔) اور ذرا ان جیوتش اچاریہ کا پتہ کرو۔ فون نمبر تویاد ہو گا تمہیں؟

کرٹ:جی یاد ہے۔

گورنام:دیکھو چپراسی سے کہہ دو کسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دے۔ کوئی بہت ضروری فون آئے تو نمبر لے لے۔ کہہ دے صاحب باتھ روم میں ہیں۔ ابھی فون کریں گے۔ غیر ضروری ہو تو ٹال جائے۔

کرٹ:جی بہت اچھا۔

(فون لے کر چلا جاتا ہے۔)

ہرنام:آپ مجھے بس اتنا بتا دیجئے بھائی صاحب کہ بھابھی میں خامی کیا ہے؟ اتنی خوبصورت، سمجھدار، سلیقے  اور  سگھڑاپے والی، شائستہ  اور  پڑھی لکھی خاتون ساری فلمی دنیا میں ڈھونڈنے سے نہیں مل سکتی۔

گورنام:میں کب کہتا ہوں۔

ہرنام:تو۔۔۔

گورنام:تو۔۔۔

ہرنام:تو آپ کیوں یہ گناہ کرنے جا رہے ہیں۔

گورنام:کیا بکتے ہو؟

ہرنام:گناہ ہی نہیں ، یہ جرم بھی ہے۔ آپ تو ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ فلمی دنیا میں آپ کی اس حیرت انگیز ترقی کایہی راز ہے کہ آپ کبھی شراب  اور  عورت کے چکر میں نہیں پڑے۔

گورنام:اب بھی میں کسی چکر میں نہیں ہوں۔

ہرنام:چکر میں ہونا  اور کسے کہتے ہیں۔ یہ ستین سالا جے کے میں دلالی کرتا تھا۔ یہاں آ کر آپ کے ایسا منہ لگا ہے کہ نہایت ہی غیر اہم معمولی سا اس کا پارٹ ہے  اور اسے بھی ری ٹیک کرنے کے لئے آپ پر زور دے رہا ہے۔ یہ سالے تو زندگی بھر ایکٹر نہیں بن سکتے۔ لیکن اپنی غرض کے لئے آپ کو تو کسی نہ کسی گہرے گڑھے میں ڈھکیل سکتے ہیں۔

گورنام:دیکھو ہرنام! مجھے اس بمبئی میں رہتے پندرہ برس ہونے کو آئے ہیں  اور  جہاں میرے شروع کے ساتھی آج بھی فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں میں کامیابی کی چوٹی پرجا پہنچا ہوں  اور تم دلی میں کلرکی کرنے کے بجائے تین ہزار روپیہ ماہانہ پا رہے ہو۔ تم اتنا سمجھ لو کہ اپنا  بھلا برا، فائدہ نقصان میں خوب سمجھتا ہوں۔ یہ بھی کہ میں کوئی گناہ کر رہا ہوں ، نہ کوئی جرم، یاد رکھو کہ میں نے تمہاری شادی کر دی۔ الگ فلیٹ دے دیا الگ کار لے دی۔ تمہاری اپنی نجی زندگی میں کسی طرح کا دخل نہیں دیا۔۔۔  اس وقت بھی نہیں جب نینا کے قصے کولے کر تمہاری بیوی روتی ہوئی یہاں آئی تھی۔۔۔

ہرنام:اسے محض وہم تھا۔ آپ جانتے ہیں۔

گورنام:تمہیں بھی محض وہم ہے  اور یہ میں جانتا ہوں۔

ہرنام:معاف کیجئے گا بھائی صاحب!بھابھی کو میں ماں کے برابر مانتا آیا ہوں۔ میں تو میٹرک میں پڑھتا تھا جب آپ کی شادی ہوئی تھی۔ بھابھی نے مجھے اپنے بچے جیسی محبت دی ہے۔

گورنام:مجھے بھی(قدرے ہنستا ہے) لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دس برس ہونے کو آئے ہیں میری شادی ہوئے  اور میں نے اولاد کا منہ نہیں دیکھا۔۔۔ یہ سالی زمین جائیداد، یہ فلیٹ، یہ سٹوڈیو، یہ کاریں ، یہ فارم۔۔۔

ہرنام:میں سمجھتا ہوں بھائی صاحب۔ لیکن میں یہی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ بہت جلدی نا امید  ہو گئے ہیں۔ جب آپ کی شادی ہوئی تو بھابھی صرف پندرہ برس کی تھیں  اور اب پچیس برس کی ہیں۔ کیا عمر گزر گئی ان کی ماں بننے کی؟ڈاکٹر  سب نس۔۔۔

گورنام:ارے ان ڈاکٹروں۔ ڈاکٹروں کو کچھ نہیں آتا۔ ہے کوئی بمبئی کی مشہور لیڈی ڈاکٹر یا ایکسپرٹ ڈاکٹر  جسے میں نے ارملا کو نہیں دکھایا۔ کون سا ٹیسٹ ہے جو میں نے اس کا نہیں کرایا۔ سبھی کہتے ہیں کوئی نقص نہیں۔۔۔  کوئی نقص نہیں تو بچہ کیوں نہیں ہوتا۔

ہرنام:نقص آپ میں بھی تو ہو سکتا ہے۔

گورنام:تم سمجھتے ہو کہ مجھ میں نقص ہوتا تومیں جان نہ پاتا۔ مجھے یقین ہوتا کہ مجھ میں نقص ہے تومیں دوسری شادی کرنے کی سوچتا؟

ہرنام:میں نے ڈاکٹر  سب نس سے پوچھا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ بظاہر اس سلسلے میں سب کچھ ٹھیک معلوم ہوتا ہے۔ آدمی عورت کے پاس جاتا ہے۔آدمی کو کوئی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ مرد عورت دونوں مطمئن بھی ہوتے ہیں،  لیکن۔۔۔

گورنام:ڈاکٹر پاریکھ نے بہت اچھی طرح دیکھا ہے۔ نہایت باریکی سے معائنہ کیا ہے۔ میرے لاکھ انکار کے باوجود اس نے مجھے انجکشن لگا دئے۔ اس بات کو بھی سال بھر ہونے کو آیا ہے۔

ہرنام:آپ ذرا ڈاکٹر  سب نس سے مشورہ۔۔۔

گورنام:مجھے کسی سب نس اب نس سے مشورہ نہیں کرنا۔ میرے ساتھ بے کار کی بحث میں وقت ضائع کرنے کے بجائے بہتر ہوتا کہ تم آخری ریل بھی لے آتے۔ میں نے کھوسلہ صاحب سے فکس کیا ہے۔ کل گیارہ بجے انہیں گولڈی کے پروجیکشن ہال میں فلم دکھانی ہے۔

ہرنام:آپ نے مجھ سے راجیش  کھنہ کے ہاں جانے کو کہا تھا۔۔۔ اگلی فلم کے لئے اس سے بات کرنے کے سلسلے میں۔

گورنام:ٹھیک ہے ، تم اپنے کمرے میں جا کر فون پراس کے سکریٹری سے بات کر کے ٹائم لے لو۔ وہ وقت دیدے تو آج رات ادھر چلے جانا۔ ابھی فیمس میں فون کرو۔ دیکھو اگر ایڈیٹنگ ختم ہو گئی ہو تو جا کر فلم لے آؤ۔

ہرنام:جی بہتر، لیکن میں نے جو عرض کیا ہے ، اس پر ٹھنڈے دل سے غور کئے بغیر جلدی میں کوئی فیصلہ نہ کیجئے گا۔ شادیاں تو، اب آپ طاقتور ہیں ، دس کر سکتے ہیں۔ لیکن نبھاؤ مشکل ہو جاتا ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں جنیجا کو۔ اسی چکر میں اس کی پہلی بیوی نے خودکشی کر لی  اور دوسری نے اس کی زندگی وبال کر رکھی ہے۔

گورنام:تم میری فکر نہ کرو۔ اپنے کام دیکھو۔

ہرنام:میں آپ کو شکایت کا موقعہ نہیں دوں گا۔

(چلا جاتا ہے۔ گورنام اٹھ کر کچھ لمحے چپ چاپ کمرے میں ٹہلتا ہے۔ پھر کرسی پر آ بیٹھتا ہے  اور بزر دباتا ہے۔ دوسرے لمحے چپراسی حاضر ہوتا ہے۔)

چپراسی:حضور!

گورنام:ذرا کرٹ کو بھیجو۔

(چپراسی چلا جاتا ہے۔ دوسرے لمحے کرٹ داخل ہوتا ہے۔)

کرٹ:میں نے آپ سے عرض کیا تھا نا کہ شری ہری ضرور آئیں گے۔ میں نے ان کے فلیٹ پر فون کیا  تو معلوم ہوا، کب کے چل چکے ہیں۔ ادھر فون رکھا، ادھر دروازے میں ان کے درشن ہوئے۔ (دروازہ ذرا سا کھول کر) آئیے جیوتشی جی!

(شری ہری، شری ہری، کا جاپ کرتے ہوئے جیوتشی جی داخل ہوتے ہیں۔ نام تو ان کا مدن گوپال ہے ، لیکن متواتر شری ہری کا نام جپنے سے وہ خود شری ہری کہلانے لگے۔)

گورنام:کہئے پنڈت جی، دیکھی ہماری کنڈلی؟

شری ہری:آپ کا آدیش(حکم) ہو اور ہم نہ مانیں ، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ شری ہری۔۔۔ شری ہری۔۔۔ بھگوان شاکشی (گواہ) ہے سات کنڈلیاں بننے کو پڑی تھیں۔ کھوسلہ صاحب کے ناتی کی کنڈلی بنانی ہے ، روپیہ انھوں نے پیشگی بھجوادیا ہے ، لیکن ایک کشن کا  اوکاش (فرصت) نہیں ملا  اور ان کے فون پر فون آ رہے ہیں۔ کیا کروں ، سارا دن تو لوگ آتے رہتے ہیں۔ رات گیارہ بجے سے پہلے تو اوکاش ہی نہیں ملتا۔ کل رات بارہ بجے آپ کی کنڈلی لے کر بیٹھا تو تین بجے اٹھا۔ شری ہری۔۔۔ شری ہری۔۔۔

گورنام:کچھ بتائیے بھی مہاراج ، شری ہری نے ہمارے بھاگیہ میں کیا لکھا ہے۔

شری ہری:فلم تو آپ کی ہٹ ہو گی۔ سو میں پچھتر بسوا۔ شری ہری۔۔۔ شری ہری۔۔۔

گورنام:یہ پچیس فیصدی کی رکاوٹ کیسے لگا دی مہاراج۔

شری ہری:بات یہ ہے کہ بھگوان شنی  ذرا وکری (ٹیڑھا) ہے۔ اس کا جاپ کر دوں گا۔ آپ چنتا نہ کریں۔ یوں بھی ڈھائی تین مہینے کے بعد یہ سویمیو (اپنے آپ) سیدھا ہو جائے گا۔ فلم ایک دم ریلیز نہ کریں۔ شنی مہاراج کو ذرا سیدھے ہو لینے دیں۔ شری ہری۔۔۔ شری ہری۔۔۔   اور  جیسا میں نے نویدن کیا تھا، نیلم کی انگوٹھی۔۔۔

گورنام:میں نے شہر میں اکیس سنیما ہال بک کر رکھے ہیں۔ ایک ہی دن سب میں ریلیز ہو گی۔

شری ہری:تو۔۔۔ تو۔۔۔ آپ۔۔۔

گورنام:کہئے کہئے !

شری ہری:بات یہ ہے کہ آپ کی کنڈلی میں کسی متر کے ہاتھوں لابھ  کا جوگ ہے۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس فلم میں آپ کسی کو ساجھے دار بنا لیں۔

گورنام:ساجھے دار تو دس بن جائیں گے۔ چار چار ہٹ فلمیں بنا چکا ہوں۔ لیکن آپ ایسا کیوں سوچتے ہیں؟

شری ہری:بات یہ ہے کہ جس متر کو ساتھی بنائیں گے اگر اس کا سنیچر شکتی شالی ہو گا تو آپ کا وکری شنی کٹ جائے گا  اور بھگوان کی کرپا سے چاروں کھونٹ وجے تا پھہرے گی۔ شری ہری۔۔۔ شری ہری۔۔۔

گورنام:ٹھیک ہے ، آپ کہتے ہیں تو۔۔۔

شری ہری:لیکن جن جن سے بات کریں ، ان کی کنڈلیاں بہانے سے لے کر مجھے دکھا دیں۔

گورنام:یہ کرٹ کہتا ہے کہ میری کنڈلی میں آپ نے کچھ  اور بھی دیکھا ہے۔

شری ہری:بات یہ ہے کہ گرہوں کی ورتمان  دشا  کا لیکھا جوکھا کرنے لگا تو  یونہی سوریہ سنگھتا اٹھا کر پھلادیش پڑھنے لگا۔معلوم ہوا کہ اس سال آپ کے گھر سنتان  اتپتی  کا جوگ ہے۔وہ بھی بالک کا۔ شری ہری۔۔۔  شری ہری۔۔۔

گورنام:(سرگوشی میں) میں پنڈت جی میں دوسری شادی کرنے کی سوچ رہا تھا۔ تھوڑی دو ودھا تھی، سو آپ کی اس پیشن گوئی سے دور ہو گئی۔ ہو سکا تو میں آج ہی شام طے کر لوں گا۔ نہیں توکل یقیناً

شری ہری:پرنتو بیاہ کو جوگ تو۔۔۔

(سر کھجلانے لگتا ہے۔)

گورنام:نہیں ہے کیا؟

شری ہری:دھیان نہیں دیا۔ کنڈلی دیکھ کر ہی بتا سکتا ہوں۔

گورنام:کیا میری پتری آپ ساتھ نہیں لائے۔

شری ہری:میں واستو میں (حقیقت) میں گھر سے سیدھا ادھر نہیں آیا۔ ڈائریکٹر شنکر کے ہاں چلا گیا تھا۔ وہاں سے مہتہ صاحب کے یہاں چلا گیا۔ وہاں سے چٹرجی کے۔۔۔ گھر سے سیدھا ادھر آتا تو۔۔۔

گورنام:مجھے آپ کی رائے آج ہی، بلکہ ابھی چاہئے۔

شری ہری:تو ایسے کیجئے ، مجھے سٹوڈیو کار میں بھیج دیجئے۔ میں جا کر کنڈلی دیکھتا ہوں  اور آپ کو فون پر بتا دیتا ہوں۔

گورنام:جائیے کرٹ آپ کو میری کار میں لے جائے گا۔(کرٹ سے) کرٹ جیوتشی جی کو ذرا کار میں ان کے ہاں پہنچا دو۔

کرٹ:آئیے پنڈت جی۔

شری ہری:(چلتے چلتے ذرا رک کر) کہیں کچھ بات چل رہی ہے؟ لڑکی کی کنڈلی دیکھے بنا۔۔۔

گورنام:وہ سب ہو جائے گا۔ آپ جوگ تو دیکھئے۔

شری ہری:ٹھیک ہے ، میں گھر پہنچتے ہی پتری دیکھ کر آپ کو فون کرتا ہوں۔

گورنام:یہ لیجئے یہ ایک ہرا پتا رکھئے۔

شری ہری:(نوٹ لے کر جیب میں رکھتے  اور گھگھیا  کر ہنستے ہوئے) ارے بھگوان یہ پھر آ جاتا۔ ہیں ہیں۔۔۔ ہیں ہیں۔۔۔ اچھا تو۔۔۔ چلوں !

(جیوتشی جی ماتھے پر دونوں ہاتھ لے جاتے ہیں  اور شری ہری، کا جاپ کرتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ گورنام میز پر ٹانگیں  پسار کر پیچھے کو لیٹ جاتا ہے۔ چپراسی داخل ہوتا ہے۔)

چپراسی:سرکار وکیل صاحب آئے ہیں۔

گورنام:ان کے ساتھ بھی کوئی ہے۔

چپراسی:وہی پانڈے جی  اور مشرا جی ہیں ، جو دو تین دن سے آ رہے ہیں۔

گورنام:بھیج دو اور کیتلی میں فوراً چائے کے لئے پانی چڑھا دو۔

چپراسی:پانی تو گرم ہے۔ ہرنام صاحب کے لئے چائے بن رہی ہے۔

گورنام:تو تین چار پلیٹوں میں بسکٹ رکھ کر چائے لاؤ۔

چپراسی:جی بہتر(دروازہ کھول کر) آئیے وکیل صاحب۔

(شری برج رتن پانڈے  اور  درگا پرشاد مشرا کے ساتھ وکیل صاحب۔ داخل ہوتے ہیں۔)

گورنام:(کھڑے ہو کران کا خیرمقدم کرتے ہوئے) آئیے۔۔۔ آئیے۔۔۔  تشریف رکھئے۔

وکیل:کاغذ تو میں نے رف سب تیار کر دئے ہیں۔ ان کو دکھا بھی دئے ہیں۔ اسٹمپ پیپر آپ کے نام سے خرید لئے ہیں۔ آپ ایک نظر دیکھ لیں تو میں اسٹمپ پیپر پر معاہدہ ٹائپ کرا دوں۔

گورنام:دکھائیے۔

(وکیل گورنام   کو کاغذ دکھاتا ہے۔ گورنام خاموشی سے پڑھتا ہے۔ اس دوران چپراسی طشتریوں میں بسکٹ  اور  ردسی گلاس سٹینڈز میں چائے کے گلاس ٹرے میں سجا کر لاتا ہے  اور  سب کے آگے رکھتا ہے۔)

گورنام:(معاہدہ پڑھنے کے بعد) کیوں پانڈے جی، آپ نے پڑھ لیا؟

پانڈے :(قدرے ہنس کر) دیکھئے ، اس سب کی ضرورت نہ تھی، لیکن میں نے کہانا کہ لڑکی کے ماما نے اس کی ماں کو بہکا دیا۔

گورنام:ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ وہ بجا ہے۔ ماما جی  کو اس طرح سوچنا  اور لڑکی کی ماں کا ڈرنا عین واجب ہے۔ ماما جی کی جگہ میں ہوتا تو یہی کرتا  اور کہتا۔ یوں تو جہاں تک شاستروں کا تعلق ہے ہندو وواہ اٹل  اور اٹوٹ ہے۔ شوہر ذات بدل لے تو بھی نہیں ٹوٹتا۔ لیکن جب سے نیا قانون بنا ہے ، مردوں کو وہ پہلے کی سی آزادی نہیں رہی۔ طلاق کے بغیر دوسری شادی کو سرکار غیر قانونی مانتی ہے۔ نہ دوسری بیوی  اور  اس کے بچوں کو باپ کی جائیداد میں کسی طرح کا قانونی حق ہی دیتی ہے۔ آپ زور نہ دیتے تو بھی میں یہ سب لکھا پڑھی کرتا۔ لیکن خیر معاہدے کا یہ رف ورژن آپ پڑھ لیں  اور  دیکھ لیں ، کوئی بات رہ گئی ہو تو۔۔۔

پانڈے :نہیں جی، میں نے دیکھ لیا ہے۔ میں مطمئن ہوں۔

گورنام:مشرا جی کو دکھا دیا ہے؟یہ لڑکی کے پھوپھا ہیں ، ان کی تسلی ہونا لازم ہے۔

پانڈے :ان کے سامنے ہی میں نے ساری باتیں وکیل صاحب کو لکھوائی ہیں۔

گورنام:تو آپ کب اس معاملے کو پکا کرنے کی سوچتے ہیں؟

پانڈے :ہماری طرف سے آپ پکا ہی سمجھیں۔ ہمیں صرف لڑکی  اور  اس کے ہونے والے بچوں کے مستقبل کی فکر تھی۔ سو اس سب کا انتظام آپ نے کر دیا ہے۔۔۔   اور ہمیں کچھ نہیں کہنا۔

گورنام:تو۔۔۔

پانڈے :تو آپ  کا مطلب ہے کہ تلک۔۔۔

گورنام:ہاں !میں بے حد مصروف آدمی ہوں ، مجھے اپنی نئی پکچر ہی ریلیز نہیں کرنی ہے ، نئی کا مہورت بھی کرنا ہے۔

پانڈے :تلک کا کیا ہے۔ آپ کہئے تو آج یا کل۔۔۔

گورنام:آج، کل  اور پرسوں۔۔۔  تین ہی شامیں میری خالی ہیں۔ یعنی فی الحال۔۔۔ دو گھنٹے  بعد کیا صورت حال ہو گی، میں نہیں جانتا۔

پانڈے :کیوں مشرا جی ، آج شام کو رکھ لیں۔ انتظام ہو جائے گا۔

گورنام:آپ کو کیا اہتمام کرنا ہے۔ آپ کو صرف چیزوں کی فہرست دینی ہے۔ میرا آدمی کار میں جا کر سارا سامان خریدوا دے گا۔ دو کاریں آپ کے ڈسپوزل  پر ہوں گی۔ کتنے آدمی آئیں گے لڑکی کے ساتھ۔۔۔

پانڈے :کیوں مشراجی۔۔۔

گورنام:کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ ہم لڑکی  اور اس کی ماں کو بھی یہ کاغذات دکھا دیں۔

پانڈے :میں سمجھتا ہوں ، جو جو آپ کی سلہج نے چاہا ہے ، میں نے کانٹریکٹ میں درج کرا دیا۔۔۔  تو بھی اگر آپ چاہتے ہیں۔۔۔ کیوں گورنام صاحب؟

مشرا:بات یہ ہے کہ اگر لڑکی کے پتا زندہ ہوتے تو کوئی اڑچن نہ تھی۔ یہ عورتوں کا معاملہ ہے۔ میں لڑکی کا پھوپھا ہوں۔ پانڈے جی میرے دوست ہیں۔ کل کسی نے کچھ کہہ دیا تو سارا  قصور میرے ماتھے منڈھ دیا جائے گا۔۔۔ وکیل صاحب نے جو کاغذات تیار کیا ہے ، وہ میں نے دھیان سے پڑھا ہے۔اس میں لڑکی کو  کہیں بھی، بیوی نہیں لکھا گیا۔ ہر جگہ اسے دوست کہا گیا ہے۔

گورنام:یہ تومیں نے پہلے ہی پانڈے جی کو سمجھا دیا تھا۔ کہ وہ میری بیوی ہو گی۔ باقاعدہ پنڈت بلا کر، ہندو شاستروں کے مطابق نو گرہوں کی پوجا  اور  سپت پدی کی رسم ادا کر کے شادی ہو گی۔ لیکن اگر کوئی شکایت کر دے ، میری پہلی بیوی کا کوئی رشتے دار، یا میرا کوئی دشمن دعویٰ دائر کر دے تو لڑکی کو یہی کہنا ہو گا کہ اس نے میرے ساتھ شادی نہیں کی  اور  محض دوست کے ناطے میرے ساتھ رہتی ہے۔اس بات کا میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی لڑکی کوکسی قسم کی شکایت ہو گی نہ تکلیف، اسی لیے باقاعدہ معاہدہ کیا جا رہا ہے۔

پانڈے :ہمیں یقین نہ ہوتا تو کیا ہم یوں بار بار آتے۔ اب آپ سے کیا کہیں۔ مشرا جی کی بات میں تھوڑی سچائی توہے ہی۔۔۔  عورتوں کو معاملہ ہے۔۔۔ فلمی دنیا میں کام کرنے والوں کے سلسلے میں دس طرح کی جھوٹی سچی باتیں لوگوں میں مشہور ہیں۔۔۔ اسی لیے شاید مشرا جی اپنے اوپر ذمے داری لیتے ہوئے ڈرتے ہیں  اور چاہتے ہیں کہ لڑکی  اور اس کی ماں کو یہ کاغذ دکھا دیا جائے۔

وکیل:دیکھئے میں آپ سے ایک بات صاف صاف عرض کر دینا چاہتا ہوں۔ برا نہ مانئے گا۔ گورنام صاحب تو بادشاہ آدمی ہیں ، لیکن میں ان کا وکیل ہوں  اور ان کے نفع نقصان کی تمام تر ذمے داری میری ہے۔۔۔  معاہدے پر دستخط بھلے ہو جائیں لیکن ان کاغذوں کی دستخط شدہ نقل آپ کو اسی وقت ملے گی جب آپ تلک دے دیں گے  اور لڑکی شادی پر بیٹھ جائے گی۔۔۔ آپ نے جتنی شرائط رکھیں وہ سب میں نے معاہدے میں شامل کر لی ہیں۔ لیکن کاغذ پر ان کا نام ہے۔ آپ چاہیں تو اپنے ہاتھ سے معاہدے کی نقل اتار لیں  اور ان کی سلہج  اور لڑکی کی تشفی کر آئیں۔ آج تلک ہو جائے ، کل شادی، جھنجھٹ ختم۔ آپ کے سر سے لڑکی کا بوجھ اترے  اور  یہ بھی دوسرے کام میں۔۔۔

(چپراسی فون لئے داخل ہوتا ہے۔)

گورنام:کس کا فون ہے۔۔۔  میں نے کہا تھا کہ میں فون پر ایوے لے بل Available  نہیں ہوں۔۔۔

چپراسی:کرٹ صاحب کا فون ہے۔۔۔

گورنام:(چپراسی کے ہاتھ سے چونگا لے کر) ہاں کرٹ۔۔۔ اچھا۔۔۔  ذرا جیوتشی جی کودو۔۔۔ کیوں مہاراج۔۔۔  کیتو دماغ کے گھر میں پڑا ہے۔۔۔  کیا کہا۔۔۔ نہیں ہو سکتا(اچانک سنجیدہ ہو کر) آپ پکا یہی سوچتے ہیں۔۔۔  نہیں آپ سے صلاح کئے بغیر کہیں ، کچھ بھی پکا نہیں ہو گا۔۔۔  آپ فوراً اسی کار پر واپس آ جائیے۔۔۔  اپنا پوتھا پتری سب ساتھ لیتے آئیے (ایک چور نظر پانڈے  اور مشرا جی  پر ڈال کر) مہورت وغیرہ نکالنا ہو گا نا۔۔۔

(چونگا واپس چپراسی کو دیتا ہے۔ وہ اسے فون پر رکھ کر اسے لئے لئے باہر جانا چاہتا ہے۔)

گورنام:فون یہیں رہنے دو۔

(چپراسی فون میز پر رکھ کر چلا جاتا ہے۔)

گورنام:(پانڈے سے)ٹھیک ہے پانڈے جی۔ آپ لوگ اس معاہدے کی شرطیں نقل کر لیجئے  اور لڑکی کی ماں  اور خود لڑکی سے ڈسکس کر کے مجھے اپنے فیصلے سے مطلع کیجئے۔ ابھی جیوتشی آتا ہے۔ میں اس سے بھی مشورہ کرتا ہوں کہ آج کا دن شبھ ہے یا کل کا؟لڑکی کی پتری ذرا ابھی دوبارہ منگا دیجئے گا۔

پانڈے :ہم آپ کو دو گھنٹے میں پتہ دیتے ہیں (ہاتھ مسوستے ہوئے) اب کیا بتائیں آپ سے۔۔۔  مشرا جی نے ان عورتوں کی پخ لگا دی ورنہ میں تو۔۔۔

گونام:ٹھیک ہے۔۔۔ ٹھیک ہے ، میں آپ کا انتظار کروں گا۔ گاڑی تو آپ کے پاس ہے نا؟

پانڈے :جی ہاں۔

(اچانک فون کی گھنٹی زور سے بجتی ہے۔ گورنام  بزر دباتا ہے۔ دوسرے لمحے چپراسی حاضر ہوتا ہے۔ اس دوران پانڈے  اور  مشرا، وکیل کے ساتھ چلے جاتے ہیں۔)

گورنام:(چپراسی سے) دیکھو کس کا فون ہے۔ یہ مت کہنا کہ میں یہاں بیٹھا ہوں۔

(چپراسی چونگا اٹھاتا ہے۔)

چپراسی:(فون میں) ڈبل تھری، ڈبل فور، ڈبل فائیو۔۔۔ جی کہاں سے بول رہے ہیں؟۔۔۔ جی ایکسچینج سے؟۔۔۔ جموں سے ٹرنک کال ہے؟۔۔۔  جی دے رہے ہیں صاحب کو(چونگا گورنام کو دیتے ہوئے) صاحب جموں سے آپ کے نام کال ہے۔

گورنام:(چونگا لے کر) ہیلو۔۔۔ جی ہاں بول رہا ہوں۔۔۔ جی ہاں میں گورنام بول رہا ہوں۔۔۔  (چونگا کان سے لگائے لگائے سیٹی بجاتا ہے پھر اچانک)ہیلو۔۔۔ ہیلو۔۔۔ (اور زور سے) ہیلو۔۔۔ بمبئی۔۔۔  میں گورنام بول رہا ہوں۔۔۔  کون۔۔۔  (زور سے) ہیلو۔۔۔  ہیلو۔۔۔  ہیلو۔۔۔  ہیلو ایکسچینج۔۔۔ ایکسچینج (زور سے)آواز نہیں آ رہی۔۔۔ ہیلو (فون ٹھیک ہو جاتا ہے ، اس لئے عام لہجے میں بات کرتا ہے) ہاں میں گورنام بول رہا ہوں۔۔۔ کون پنکج؟۔۔۔ مبارکباد۔۔۔ ارے کا ہے کی مبارک باد۔۔۔  (اٹھ کھڑا ہوتا ہے) کیا کہتے ہو۔۔۔ کب؟۔۔۔  رات ہی!۔۔۔ سب ٹھیک توہے۔۔۔ مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ اتنے مہینوں تک خبر کیوں نہیں دی؟۔۔۔  کیا بے وقوفی ہے؟۔۔۔  میں اسی وجہ سے دوسری شادی کر لیتا۔۔۔ قہر تو ٹوٹ ہی جاتا۔۔۔  ہاں بھگوان نے بھلا کیا۔۔۔ تم لوگ بھی مبارک باد لو۔۔۔  اپنی ماتا جی کو بھی مبارکباد دینا۔۔۔  زچہ بچہ تو ٹھیک ہیں۔۔۔ دونوں کو میرا پیار دینا۔۔۔  میں پہلی فلائٹ سے پہنچ رہا ہوں۔۔۔

(گورنام چونگا واپس فون پر ٹکا دیتا ہے۔ چہرہ کھلا پڑتا ہے۔ ہرنام آتا ہے۔)

ہرنام: بھائی صاحب راجیش  کھنہ سے وقت طے ہو گیا ہے۔ اس وقت میں فیمس جا رہا ہوں۔

گورنام:نہیں تم فیمس نہیں جا رہے۔ ابھی کار لے کر جاؤ  اور میرے لئے جموں کی پہلی فلائٹ میں سیٹ بک کرا دو۔

ہرنام:(حیران و ششدر) جموں۔

گورنام:تمہارے بھتیجہ ہوا ہے۔

ہرنام:(جوش سے دونوں باہیں پھیلائے آگے بڑھتا ہے) بھائی صاحب !!

(دونوں بھائی ایک دوسرے سے بغلگیر ہوتے ہیں۔)

(پردہ گرتا ہے۔)

***

ماخذ: ماہنامہ ’’شاعر‘‘۔ جلد۔۵۶، شمارہ۔۵

مدیر:افتخار امام صدیقی

مکتبہ قصرالادب،

بمبئی سینٹرل پوسٹ آفس

بمبئی۔۴۰۰۰۰۸

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔