بد قسمتی سے آج ہماراپیار ا وطن پاکستان اَن گنت مسائل کا مُلک بن چکا ہے۔ یہاں کی آبادی جتنی زیادہ ہے کم و بیش برائیاں بھی اُسی حساب سے یہاں موجود ہیں۔ بد عنوانی، اخلاقی بے راہ روی، بد کرداری، بے حیائی، بے غیرتی، بد عہدی، رشوت ستانی، چوری، ڈاکہ، اغوا، قتل، زنا، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، حرام خوری، جھوٹ، دھوکہ دہی، بھتا خوری، ناجائز تجاوزات، غیر ت کے نام پر قتل، قرآن سے شادی، ہم جنس پرستی، نسل پرستی، قبر پرستی، فرقہ واریت،قوم پرستی، خود کشی، دہشت گردی، شر پسندی، ماں باپ کی نافرمانی، اللہ تعالیٰ کی کھلی نافرمانی، جادو ٹونا اور اِن سب سے بڑھ کر بغیر کسی ڈر و خوف کہ شرک! الغرض ہر وہ سماجی، اخلاقی، مذہبی برائی کہ جس کی بنا پر کسی نہ کسی دور میں اللہ تعالیٰ نے پوری کے پوری قوم کو بطور سزا اپنے قہر کے ذریعے نیست و نابود کردیا تھا اور ہر وہ برائی جو اُن اَدوار کے بعد ظہور پزیر ہوئ بدقسمتی سے آج وہ ہماری قوم میں تمام کی تمام موجود ہیں۔ ہمیں تو حیرت اس بات پر ہے کہ اِتنی اَن گنت برائیوں کے ہوتے ہوئے بھی اللہ نے ہمیں کتنی مہلت دی ہوئی ہے؟ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم اس مہلت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کسی آفت کے آنے سے پہلے ہی سنبھل جائیں؟
بے تحاشہ برُائیوں کی بدولت ہمارے ملک میں مسائل بھی اَن گنت ہیں اور اسی وجہ سے اِس ملک کو پاکستان کے بجائے اگر مسائلستان کہا جائے تو کچھ غلط نا ہوگا۔ اگر آج ہم اپنے مسائل کی لسٹ میں سے اول درجہ کے 3 مسائل کی بات کریںتو تقریباً سب ہی کہیں گے کہ 1۔ ناقص اَمن و اَمان 2- بجلی کا بحران 3- معاشی بدحالی۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ سب ثانوی حیثیت کے مسائل ہیں۔ ہمارا اصل مسئلہ تو کچھ اور ہی ہے اور جس کی طرف ہمارا فوری اور بھرپور توجہ دینا اِنتہائی ضروری ہے۔ وہ انتہائی اہم مسئلہ کیا ہے اِس پر بات کرنے سے پہلے ایک نظر اس پس منظر پر بھی ڈالئے جو ہمارے بنیادی مسئلہ کی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے ضروری ہے:
یہ 20 کروڑ نفوس کا ملک یعنی ہمارا پاکستان ماشاء اللہ کتنا بڑا مُلک ہے (ہماری ضرورت سے بہت ماشاءاللہ یہ بہت بڑا ہے)۔ لیکن اس کا تقریباً 8 لاکھ مربع کلومیٹر کا وسیع رقبہ ہماری دنیا کے 51 کروڑ مربع کلو میڑ (٪ 70.9 پانی اور ٪ 29.1 خشکی) کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں 7 ارب نفوس کی یہ دنیا کتنی بڑی ہے مگر ہمارے شمسی نظام میں اس کی جسامت محض ایک ذرّے کی سی ہے۔ اس نظام میں موجود واحد ستارہ یعنی ہمارا سورج جس کا حجم اتنا بڑا ہے کہ اس میں سے ہماری دنیا جیسی دس لاکھ دنیائیں سما جائیں۔ لیکن ہمارا سورج اتنا بڑا ہونے کے باوجود دوسرے ستاروں کے سامنے کافی چھوٹا ہے۔ ہمارا سورج ابھی صرف 5 ارب سال کا ہے اور اس کی عمر تو ابھی درمیانی عمر بھی نہیں کہی جا سکتی ۔ اس سے کئی گنا بڑے یعنی 14-13 ارب سال کی عمر کے ستارے ابھی ہماری کہکشاں میں موجود ہیں۔ ایک ستارہ جس کا نام Eta Carinae ہے وہ ہمارے سورج سے 120 گنا بڑا ہے۔ اور ہم سے 7،500 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اَب آپ ہماری کہکشاں کی وسعت کا اندازہ صرف اس باتسے لگا لیجئے کہ اس میں تقریباً چار کھرب سے زیادہ ستارے موجود ہیں یعنی ہمارے سورج جیسے اور اس سے کئی گنا بڑے 4 کھرب سے زیادہ ستارے اس ایک کہکشاں میں موجود ہیں۔ پھر ہماری کہکشاں جیسی اَربوں کہکشائیں اس وسیع و عریض کائنات میں موجود ہیں۔ جن میں سے بعض تو اتنی بڑی ہیں کے جس میں 10 نیل ستارے موجود ہیں۔ یعنی اگر دنیا کی تمام ریت اکھٹی کر لی جائے اور ہرذرّے کو ایک ستارہ مان لیا جائے تو ہمارے نظام شمسی کی حیثیت اُس لا محدود ریت کے ذخیرے میں موجود ایک ذرّے سی بھی کم ہے۔
اتنی کم حیثیت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ہمیں اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا ہے جو بہت بڑی بات ہے اور جس کے لیے اپنے مالک کا ہم جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔
اَب ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے کچھ احباب یہ پوچھیں کہ 10 نیل آخر کتنے ہوتے ہیں؟ تو اس عددکو سمجھنے کے لیے میں اُردو /ہندی کی گنتی بھی لکھ دیتا ہوں جو آج کل لوگ یا تو کافی حد تک بھول چکے ہیں یا اُنہیں سِرے سے معلوم ہی نہیں۔ کروڑ سے آگے کی گنتی تو بہت سے نئی نسل کے بچوں کو معلوم ہی نہیں۔ میڈیا میں بھی اب صرف سو کروڑ یا ہزار کروڑ سنائی دیتا ہے جو کہ پڑوسی ملک کی نقالی ہے اور بالکل بھی صحیح بات نہیں۔
ہماری یا پھر یوں کہیے کہ برصغیر کی گنتی کچھ اس طرح ہے: اِکائی unit ، دِہائی ten، سیَنکڑہ hundred، ہزار thousand ، دس ہزار ten thousand ، لاکھ hundred thousand، دس لاکھ million ، کروڑ ten million ، دس کروڑ hundred million ، اَرب billion ، دس اَرب ten billion ، کھَرب hundred billion ، دس کھَرب trillion ، نیل ten trillion ، دس نیل hundred trillion ، پدَم quadrillion ، دس پدَم ten quadrillion ، سَنکھ hundred quadrillion ، دس سَنکھ quintillion ، مہا سنکھ ten quintillion ، دس مہا سنکھ hundred quintillion ، اَ نک sextillion ، دس اَ نک ten sextillion ، جَلد hundred sextillion ، دس جَلد septillion ، مَدھ ten septillion ، دس مَدھ hundred septillion ، پَرآردھا octillion ، دس پَرآردھا ten octillion ، اَنت hundred octillion ، دس اَنت nonillion ، مہا اَنت ten nonillion ، دس مہا اَنت hundred nonillion ، شیشت decillion ، دس شیشتten decillion ، سنِگھار hundred decillion ، دس سنِگھار undecillion ، مہا سنِگھار ten undecillion ، دس مہا سِنگھار ،hundred undecillion ، آدَنت سِنگھار duodecillion، دس آدَنت سِنگھار ten duodecillion۔
تو دس نِیل کا مطلب ہوا 100,000,000,000,000 یاone hundred trillionیا 1014۔ یعنی کائنات میں ایسی کہکشائیں بھی ہیں جس میں اوپر دی ہوئی گنتی سے بھی زیادہ ستارے موجود ہیں جن میں سے شائد زیادہ تر ہمارے اپنے سورج سے بھی کئی گنا بڑے ہیں۔ اَندازہ کیجئے کہ اس کائنات کی وسعت اتنی زیادہ ہےکہ انسان کا دماغ تو چھوڑیے آج کے جدید دور کا ایک سوُپر کمپیوٹر بھی اِس کا حساب لگانے سے قاصر ہے۔ سبحان اللہ ربّ العالمین!
ذرا غور کیجیے کہ جس اللہ نے اتنی بڑی کائنات کو صرف دو لفظ یعنی "كُنْ فَيَكُونُ" کہہ کر تخلیق کر دیا وہ ربّ ِکائنات کتنا عظیم ہو گا؟ اَب اِسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ذرا سوچئے کہ اُس عظیم الشان ہستی نے جب اِنسان سے کلام فرمایا تو اُس قادرِ مطلق کا پہلا لفظ کیا تھا؟
جبرئیل اَمینؑ کے ذریعه اِرشاد ربّانی ہوا: پڑھ!نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میں پڑھنا نہیں جانتا۔ دوبارہ ارشاد ہوا: پڑھ! ایک بار پھر آپ ﷺ نے دوہرایا میں پڑھنا نہیں جانتا تو تیسری بار پھروہی حُکم صادر ہوا: پڑھ!اس بارحضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے کہا: میں کیا پڑھوں؟ تو پھراللہ نے قرآن حکیم کی پہلی سورۃ یعنی سورۃ العلق کی یہ آیات نازل کیں:
سُورَةُ العَلق 96(1-5):“پڑھ اپنے پروردگار کا نام لےکر جس نے (عالم کو) پیدا کیا. اس نے انسان کو جمےے خون سے پیدا کیا۔ پڑھو اور تمہار پروردگار بڑاکریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی۔ اور انسان کو وہ سب کچھ بتایا جو اسے نہیں معلوم تھا”
اَب ہم جیسے حقیر اِنسانوں کو یہ سوچنا چائیے کہ اللہ تعالیٰ جیسی بے مِثل ہستی جو کہ تمام کائنات کی واحد خالق اور بلاشرکت غیرے مالک ہے جب اتنی بڑی کائنات کی سب سےبہترین تخلیق (اشرف المخلوقات) یعنی انسان اور انسانوں میں سب سے اعلیٰ ترین شخصیت یعنی خاتم الانبیاءنبی کریمﷺ سے ہم کلام ہوتی ہے تو سب سے پہلا لفظ جو اِرشاد ہوتا ہے وہ ہے : پڑھ!
وہ بھی 3 بار ارشاد ہوتا ہے اُس ہستیﷺ سے کہ جس کو پڑھنا نہیں آتا تھا۔ اللہ تعالی ٰ نے سورۃ العلق کی ان ابتدائی 5 آیات میں علم ، قلم ، اپنی شانِ کریمی اور انسان کی ابتدا کے بارے میں بتایا ہے۔
اِس بات کا میرے نَزدیک صاف مطلب یہ نکِلتا ہے کہ پڑھنے یعنی علم حاصل کرنے سے زیادہ اہم چیز دنیا میں اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔سب مسلمان یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ شرک وہ واحد گناہ ہے جس کی کوئی معافی نہیں اور یہ گناہ بھی صرٖف اور صرف جہالت کا شاخسانہ ہے۔ پس تو ثابت ہوُا کے جہالت نا تو صرف یہ کہ سب سے بڑا اور ناقبل معافی گناہ ہے بلکہ اگر اِسے اُم الخبائث کہا جائے تو غلط نا ہو گا۔
اسی بنیاد پر میری ناقص عقل کے حساب سے ہمارا اصل مسئلہ کچھ اور نہیں بلکہ علم کا فُقدان یعنی جہالت ہے۔ وہ جہالت کہ جس کی چہار سوُ پھیلی تاریکی نے اس پورے ملک کو اپنے شکنجے میں بری طرح جکڑا ہوا ہے۔
آج اس 20 کروڑ کے ملک میں 70 فیصد آبادی نری جاہل ہے اور بقیا لوگ کسی نا کسی وجہ سے گمُراہ ہیں۔ معدودِ چند تمام کا تما م ملک ظالماستان بن چکا ہے۔ اَب جاہلوں کے اِس ملک میں مسائل پروان نہیں چڑہینگے تو اور کیا ہو گا یہاں؟
افسوس تو ہمیں اس بات پر ہے کہ آج تک کسی ایک سیاسی جماعت نے بھی اس مسئلہ کو اوّۤلین درجے کی اہمیت ہی نہیں دی جوکے اِ س کا حق بنتا ہے۔ وجہ صرف اتنی سی ہے کہ اِس پر وقت اور پیسہ لگانے سے ایک تو نتیجہ تیس چالیس سال میں آئے گا یعنی سیاست دانوں کی اُس نسل کے سامنے شائد اُنکی کاوشوں کا ثمر نہ آئے اور دوسر ی بات یہ کہ اگرہماری قوم پڑھ لکھ گئی تو ہمارے وڈیروں، جاگیرداروں، سرداروں کے ہاتھ سے اُن کے ہاری، مزارے اور کمّی کمین نکل جائیں گے یعنی اُن کی جدی پشتی بادشاہت کا خاتمہ ہو جائے گا۔
اب یہ بات تو ثابت ہے کہ جب تک ایوان اِقتدار میں یہ لوگ رہیں تعلیم کا مستقبل اس ملک میں تاریک ہی رہے گا۔ اور جو لوگ یہ سوچتے ہیں کے مغرب سے دَرآمد شدہ جمہوری نظام کسی بھی طرح پاکستان کی قسمت بدل سکتا ہے تو وہ لوگ بہت بڑی غلطی پر ہیں۔ جمہوری نظام وہاں کے لیے تو شاید کافی حد تک ٹھیک ہے جہاں تمام کے تمام لوگ پڑھےلکھے ہیں اور کم از کم دنیاوی شعور رکھتے ہیں مگر ہمارے یہاں پاکستان میں یہ نظام نہیں چل سکتا ۔ ہماری تو 65% عوام دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور زیادہ تر اَن پڑھ ہے۔ اُس کو تو غربت و افلاس کی زندگی جینے سے ہی فرصت نہیں۔
اب کوئی یہ بتائے کے ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ایک ووٹ اور ایک غیر تعلیم یافتہ جولاہے، گوالے، لوہار ، کِسان، قصّاب، راج گیر، تُرکھان، چمار، خاکروب کا ووٹ برابر کی اہمیت کا حامل ہو؟ اِسی نظام کی خرابی کے باعث علامہ اقبال نے کہا تھا کہ اس نظام میں اِنسانوں کو گنِا جاتا ہے تولا نہیں جاتا۔ اسی لیے میرے نزدیک اِسلامی نظام خلافت اور شوریٰ کا نظام ہی سب سے بہتر ہے ۔ ہماری تاریخ شاہد ہے کہ جب تک خلافت پر ملوکیت حاوی نہ ہوئی تھی مسلمانوں کا معاشرہ برائیوں سے بڑی حد تک پاک تھا۔
جمہوریت کی دوسری برائی یہ ہے کہ اِس میں نعرہ تو یہی لگتا ہے کہ اکثریت کی حکومت ہوگی مگر ایسا عملاً ہوتا نہیں ہے۔ اس نظام میں عموماً اقلیت کی حکومت ہوتی ہے۔ اَب آپ خود دیکھئے کہ پاکستان کی آبادی تقریباً بیس کروڑ، جس میں سے رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد ساڑھے آٹھ کروڑ یعنی ٪42.5 ۔ بشمول دھاندلی، ووٹ دیے اس سے بھی آدھے لوگوں نے اور ان ساڑھے چار کروڑ ووٹوں میں سےمُسلم لیگ ن کو ڈیڑھ کروڑ کے لگھ بھگ ووٹ ملے یعنی ٪7.5 آبادی کا دیا ہوا مینڈیٹ ہے اُن کے پاس ۔ لیکن اب یہ پارٹی اگلے پانچ سال 20 کروڑ عوام کے مُلک پر حکومت کرے گی۔ یعنی بقایا ٪92.5 عوام جنہوں نے مسلم لیگ ن کو ووٹ نہیں دیے اُن پر یہ پارٹی حکومت کرے گی۔ کیا خوب جمہوریت ہے کہ جس میں جمہو ر سرے سے آوٹ ہے!
ہمارے یہاں جمہوریت کیوں نہیں چل سکتی اِسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ نظام فِطرت سے دوُرہے۔ انسان کی فطرت پر اُس کے ماحول کا اثر ہوتا ہے یہ ایک حقیقت ہے۔ انسان اگر لمبے عرصے تک ٹھنڈے اور پر تعیش ماحول میں پلے بڑھے گا تو نرم خوُ ہو جائے گا لیکن اگر اُس کی رہائش دشوار ماحول یا سخت موسم میں ہو گی تو اُس پر موسم کی شدّت کا اثر لازمی ہو گا اور وہ کسی حد تر سخت مزاج ہو جائے گا۔ سخت مزاج انسان پر اگر ایک نرم خوُ نظام مسلط کیا جائے گا تو وہ بے اثر ہوگا۔
مجھے اِس بات سے قطعی کوئی غرض نہیں کے اَگلے الیکشن میں کون آئے گا، میرا نقطہ یہ ہے کہ ہم سب ایک ناقص نظام سے بہتری کی اُمید باندھے ہوئے ہیں۔ جس عمارت کی بنیاد میں ہی ٹیڑھ ہو وہ عمارت سیدھی کیونکر ہو سکتی ہے اور اُسے مستقبل میں گرنے سے کون روک سکتا ہے؟
ہمیں اس حقیقت کو ماننا ہوگا کہ مشکل ماحول کے پلنے والوں کو صرف پیار سے راہ راست پر نہیں رکھا جا سکتا۔ اِس کو قابو میں رکھنےکے لیے ڈنڈا یعنی سخت ترین قانون کا نفاذ بھی اُتنا ہی لازمی ہے جتنا حسنِ سلوک۔ اِس بات کو ہم اللہ کے بنائے نظام سے بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ یعنی اللہ نے انسان کو سیدھی راہ پر رکھنے کے لیے اُسے جہاں جنت کی طلب میں سیدھا راستہ اَپنانے کی ترغیب دی ہے تو وہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بار بار ڈرایا ہے۔ بلکہ قرآن میں جنت اور جہنم کاذکر برابر یعنی 77 بار آیا ہے۔ یعنی ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ دونوں ہی ذرائع انسان کو قابو میں رکھنے کے لیے اُتنے ہی ضروری ہیں۔
میں اس وجہ سے تعلیم کی اہمیت پر انتہا سے زیادہ زور دیتا ہوں تاکہ لوگوں میں شعور پیدا ہو اور وہ ایک حالیہ نظام کو اس کی تمام تر خوبیوں اور حامیوں کے ساتھ سمجھ پائیں اور پھر ایک ایسا نظام لے کر آئیں جو کہ اس ملک کی عوام کی حالت اجتماعی طور پربدل سکے۔
لیکن یہ ابھی بہت دور کی بات ہے یا شاید خوابوں خیالوں کی بات ہے۔ اگر ہم تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں آج اپنے آپ کو بدلنا ہو گا۔ لوگو ں میں تعلیم عام کرنی ہو گی اور اچھے بُرے کا شعور اُجاگر کرنا ہوگا۔ اگر ہم یہ کر پائے تو اِن شاء اللہ نصف صدی سے بھی کم عرصہ میں اس قوم کی حالت بدل جائے گی۔
اس وجہ سے ہمیں یہ چاہئے کہ ہم مل جُل کر اور انفرادی حیثیت میں اپنے اِرگرد تعلیم کو فروغ دیں اور جہاں تک ہو سکے صدقے اور خیرات کی رقوم سے مل جُل کر اسکول کھولنے کی طرف توجہ دیں۔ یہ کام وہاں مشکل ہوگا جہاں وڈیرے، جاگیرداروں اور سرداروں کا راج ہے لیکن اگر ہم ایک مضبوط قوت بن جائیں تو کوئی با اثر سے بااثر شخص بھی اِس قوت سے ٹکر نہیں لے پائے گا۔ جب ہمارے معاشرے میں لوگ بنیادی تعلیم سے آشنا ہوجائیں گے اور انہیں صحیح اور غلط کا فرق سمجھ آجائے گا تو سب یہ جان جائیں گے کہ باقی تمام مسائل ثانوی حیثیت کیوں رکھتے ہیں؟ جب ہمیں اِس بات کا ادراک ہو جائے گا کہ موت کا ایک وقت متعین ہے تو پھر اِسکا خوف کیسا؟ خوف تو اس بات کا ہونا چاہیے کہ مرنے کے بعد کیا ہو گا؟
ایک انسان کو اگر حقیقت میں اس بات کا علم ہو جائے کہ بد عنوانی، اخلاقی بے راہ روی، بد کرداری، بے حیائی، بے غیرتی، بد عہدی، رشوت ستانی، چوری، ڈاکہ، اغوا، قتل، زنا، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، حرام خوری، جھوٹ، دھوکہ دہی، بھتا خوری، ہم جنس پرستی، نسل پرستی، قبر پرستی، فرقہ واریت،قوم پرستی، خود کشی، دہشت گردی، شر پسندی، ماں باپ کی نافرمانی، اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، جادو ٹونا اور شرک کی سزا دراصل ہے کیا تو بہت ممکن ہے کہ وہ راہ راست پر آ جائے۔ اور اگر اُسے اس بات کا احساس ہو جاے کہ یہ دنیاوی زندگی محض چند سال کی ہے ۔ اگر اس میں اللہ کی راہ پر چل کر اور تھوڑی بہت مشکلیں جھیل کر وہ آخرت کی اَبدی زندگی میں ہمیشہ کے لیے سرخروُ ہو جائے گا تو پھر شاید وہ راہ راست پر آجائے۔
اس کے علاوہ جب انسان یہ جان جائے گا کہ رِزق کا معاملہ اللہ کی جانب ہے اور اِس کی مقدار اور وقت بھی متعین ہے تو پھر وہ اپنے رِزق کو حرام بھی نہیں کرے گا۔ اُس کو اگر یہ معلوم ہو کے رزق انسان کی خود تلاش کرتا ہے اور موت اپنے وقت سے پہلے انسان کی زندگی کی خود ضامن ہوتی ہے تو پھر اُسے اِن باتوں کے لیے فکرمندہونے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔
اب آپ کہیں گے کہ یہ باتیں تو اسلامی علماء دین بھی بتاتے رہتے ہیں مگر اُن کی بات کا کسی پرکوئی آثر کیوں نہیں ہوتا ؟ تو اس پر میں صرف یہ کہوں گا کہ یہ بات کوئی ان ہی سے جا کر پوچھے تو بہتر ہو گا۔
میری اِن تمام باتوں کولُب ِّلُباَب یہ ہے کہ ہمیں اگر آخرت میں سرخروُ ہونا ہے، دنیا میں ترقی کرنی ہے اور اپنی موجودہ ذلّت کی زندگی کو عزت میں بدلنا ہےتو ہمیں سب سے پہلے تعلیم کو پورے پاکستان میں عام کرنا ہوگا اور اچھے برُے کے شعور کو ہر ایک زہن میں اُجاگر کرنا ہوگا۔
لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہو پائے گا۔ اس کے لیے ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے ایک بہت لمبے عرصے تک بے تحاشہ پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ لیکن اگر ہم لوگ اپنے مُلک کے ڈوبتے ہوئے سفینے کو بچانا چاہتے ہیں اور اگر ہم اَپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل روشن کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ سب کرنا ہوگا اور ابھی سے شروع کرنا ہوگا!
یہ دشوار گزار اور محنت طلب راستہ میرا اور آپ کا اِنتظار کر رہا ہے۔ ہمیں اس پر چلنا ہے صرف اس لیے کہ ہمیں اَپنا ملک اور اِسکی عوام عزیز ہے اور ساتھ ہی ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی تابناک بنانا ہے۔
ہم سب مل کر ان شاء اللہ اس ملک کی تقدیر بدلیں گے!
والسلام،
سرفراز صدیقی