02:49    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

ہمارے مسائل

1987 1 0 02.5

سرفراز صدیقی - 2013-جولائی-11

ماہِ رمضان میں روزوں کا مقصد کیا ہے؟

سب سے پہلے تو ہماری طرف سے تمام مسلمانوں کو رمضان مبارکت۔ پھر تمام مسلمان پاکستانیوں کو ایک ساتھ رمضان شروع کرنے پر دلی مبارکباد۔ آج پاکستان میں پہلا روزہ تھا۔ دین کا یہ تیسرا ستون کتنا اہم ہے اس کے بارے میں عموما تمام مسلمانوں کو ان کے بچپن میں ہی بتا دیا جاتا ہے اور ان کے والدین روزے رکھوانے کا سلسلہ بھی کم عمری
سے شروع کروا دیتے ہیں۔ اس ماه تمام مسلمان روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ اللہ کی رضا کے لیے خصوصی عبادات کا احتمام کرتے ہیں اور پورا مہینہ بڑی عقیدت و احترام سے مناتے ہیں۔
رمضان میں روزوں کا بنیادی مقصد تو تقوی ہے تین پر ہیز گاری، پارسائی اور اللہ کی متعین کردہ حدود میں رہ کر زندگی گزارنا۔ اپنے نفس کو اللہ کے تابع کر دینانی روزوں کا اصل مقصد ہے۔ تقوی سے مراد ہے سپائی، دیانت، حمل، بردباری ، عہد کی پابندی، عدل و انصاف، عفوودرگزر، منکرات سے گریز فواحش سے اجتناب اور حق پر استقامت ۔ اوران اوصاف کے لیے لازمی طور پر انسان کے اندر صبر کا عنصر ہونا چاہیے۔ تقوی کے امتحان کے لیے اللہ نے رمضان میں کچھ اضافی چیزوں پر حرمت رہی ہے۔ یعنی ایسے چند کام جو 11 مہینوں میں حلال ہیں ان پر روزے کے دورانیے میں پابندی ری ہے۔ اس طرح اللہ تعالی
نے انسان کو اپنے خواہشات کے گھوڑے پر لگام ڈالنے کی مشق کروائی ہے اور اسے صابر بننے پر مائل کیا ہے۔ روزے میں کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں اس بارے میں ہر مسلمان کسی نا کسی حد تک واقف ہے مگر کیا ہم واقعی وہی کرتے ہیں جو روزے کا اصل مقصد ہے؟ کیا ہم وادی رمضان میں اپنے نفس پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں؟ رمضان میں ہم دانستہ یا نا دانستہ طور پر کچھ باتیں روزے کی بنیادی روح کے منافی کرتے ہیں جن کا ہمیں خیال رکھنا چاہیے۔
رمضان کے مہینے میں تمام عالم اسلام میں کام کرنے کے اوقات میں کمی کر دی جاتی ہے مگر پھر بھی ہم میں سے اکثر لوگ اپنے دفتر یا کام کرنے کی جگہ دیر سے پہنچتے ہیں اور کام سست روی سے کرتے ہیں۔ بات کرو تو کاٹنے کو دوڑتے ہیں اور بھی جلدی چھٹی کر کے گھر چلے جاتے ہیں۔ کیا یہ صبر ، دیانت، جمل، بردباری یا عہد کی پابندی ہے؟ پھر ہم اللہ کو راضی کرنے لیے دفتری اوقات میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں اور بھی نمازیں پڑھتے ہیں۔ قرآن اور نماز پڑھنا بہت اچھی بات ہے مگر لوگ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کے ان کا وہ وقت جو دفتر کے لیے متعین ہے وہ ان کے آجر نے ایک مخصوص مشاہرے کے عوض خریدا ہوا ہے اور پھر اس پر رمضان میں کام کے اوقات میں آپ کے لیے کی بھی کر دی ۔ اب زرا سوچئے کہ جب آپ نے اپنا وقت اپنے آجر کو بعوض تنخواہ دے دیا تو پھر وہی وقت آپ اللہ کو ثواب کے عوض کیسے دے سکتے ہیں۔ ہم اپنے آجر
سے خیانت کر کے حاصل کیا گیا وقت اگر اللہ کے نام کرتے ہیں تو کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی اس بات سے ہمارے ساتھ راضی ہو گا؟
دوسری طرف افطار سے چند منٹ پہلے سڑکوں پر جس تیزی اور بے قائدگی سے ہم گاڑی چلاتے ہیں اس
سے کئی مرتبہ بدترین حادثات رونما ہوتے ہیں جن میں لوگوں کی جان بھی چلی جاتی ہے۔ کیا اللہ تعالی نے رمضان میں اسی بے صبری کا مظاہرہ کرنے کے لیے کہا
ہے؟ سموسے، پکوڑے، چاٹ، دھی بڑے وغیرہ کی خریداری بھی کیوں کے آخری وقت میں ہوتی ہے اس لیے یہاں بھی بے تحاشہ دھکم پیل ہوتی ہے ۔ ای طرح ہم افطاری اور سحری میں چٹخارے دار چیزوں کا اتنا زیادہ اہتمام کرتے ہیں کہ جس سے ایک تو یہ کہ انسان اپنی ضرورت سے زیادہ کھانا کھاجاتا ہے جو صحت
کے لیے نقصان دہ ہے اور دوسرا یہ کہ رزق ضائع بہت ہوتا ہے۔ یہ دونوں باتیں روزے کی روح کے منافی ہیں
اور ان سے اجاب
چلی 3 دہائیوں میں
دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ کم دنوں لینی 3، 5، 7 یا 10 دن والی تراوت پڑھتے ہیں تاکہ بقایا راتیں و جمعی
سے کاروبار کیا جاسکے مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کے قرآن کو شہر شہر کر پڑھنا اور سننا چاہیے۔ رمضان میں پورا قرآن ختم کرنا کیا معنی رکھتا ہے جب آپ نے سنانی پکچھ نا ہو ؟ اتنی تیز رفتاری سے آیات کی تلاوت کرنا بہر حال غلط ہے اور ادب کے خلاف بھی ہے۔ آخری عشرے اور بالخصوص چاند رات کو خواتین کا باہر نکل کر شاپنگ کرنا اور بازاروں میں چرنا انتہائی نازیبا بات ہے۔ لیکن سب مجھے معلوم ہونے کے بعد بھی رات دیر تک جو بازاروں میں رش ہوتا ہے اس کی وجہ سے ہی لڑ کوں کو شہ ملتی ہے اور وہ کھلے عام بیہودگی کرتے پھرتے ہیں۔ کیا خریداری کا یہ کام رمضان سے پہلے نہیں کیا جاسکتا؟ اور کیا مہندی گھر پر نہیں لگوائی جا سکتی؟ ،،، !
کچھ لوگ گھروں میں فضول تفرینی کاموں میں اپنے آپ کو مشغول کر لیتے ہیں اور یوں اپناروزه بر باد کرتے ہیں۔ کیا فلمیں دیکھتے یا تاش کھیلنے سے بھی روزے کا مقصد لیتی تقوی حاصل کیا جاسکتا ہے؟ بعض لوگ روزه صرف دکھانے یا کسی انسان کے ڈر کی وجہ سے رکھتے ہیں جو کے بالکل بھی میں نہیں۔ اس طرح فاقہ کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اللہ کے لیے روزہ رھیں۔

2.5 "2"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔