گرمیوں کی چھٹیاں ہونے کو تھیں ۔ ہم نے سوچا کہ اس بار چھٹیوں میں کچھ نیا کیا جائے۔ سوچنے بیٹھے تو سوچتے چلے گئے۔ ہمارے دماغ میں کچھ نہیں آنا تھا سو نہ آیا(دماغ میں کچھ ہوتا تو آتا)۔ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لئے اپنے کزنز کو بلایا اور مشورہ طلب کیا۔
‘’ہمیں چھٹیاں انجوائے کرنی ہیں تو سیدھا اسلام آباد جانا چاہیے۔’‘ عمر نے مشورہ پیش کرنے میں بسم اﷲ کی۔
‘’ سیدھا جانا ضروری ہے کیا؟ ٹیڑھا کیوں نہیں ۔’‘ شہاب نے ہمیشہ کی طرح اپنی ماری۔
‘’یار ہمیں کہیں جانے کی ضرورت نہیں ، ہم اپنے گھر میں ہی کچھ نیا کریں گے۔’‘ حیدر نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔
‘’اوہو، اگر اپنے گھر میں کچھ نیا ہوتا تو میں تمہیں کیوں بلاتا؟ مشاورتی اجلاس کیوں بلایا جاتا؟ ہم بولے۔
‘’بھئی میری بھی سنو۔’‘ یہ ایمان تھی جو پورے اجلاس میں خاموش بیٹھی تھی۔
‘’ہمیں دادا کے گاؤں جانا چاہیے وہاں چھٹیاں گزارنے میں بہت مزہ آ جائے گا۔’‘
‘’بہت اچھے.... تم نے زبردست تجویز پیش کی ہے۔ صدر مجلس تمہاری تجویز سراہتے ہوئے اس پر عمل کے احکامات جاری کرتے ہیں ۔’‘ ہم نے ایمان کو داد و تحسین سے نوازا اور پروگرام فائنل کر لیا۔ چند روز گن گن کے گزارے اور چھٹیاں ہو گئیں ۔ ہم سب نے اپنا بوریا بستر باندھا، والدین سے اجازت لی اور گاؤں روانہ ہو گئے۔ ہمارے دادا حضور گاؤں میں رہائش پذیر تھے۔ ان کا گاؤں بہت خوبصورت تھا۔ سرسبز لہلہاتے کھیت، تازہ پھل اور سبزیاں اور درختوں کی میٹھی چھاؤں میں زندگی گزارنے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ دادا جان بات سے بات نکالنے میں استادوں کے استاد تھے اور خود بھی بڑی باتیں بناتے تھے۔ جن سے بوریت ہونا لازم و ملزوم ہو جاتا اور تو اور دادا جان کے دوست بھی ان جیسی طبیعت رکھتے تھے۔ ہمارے پروگرام میں یہ طے تھا کہ گاؤں جا کر دادا کے بجائے اپنے مشوروں پر چلیں گے۔
گاؤں پہنچے تو دادا ابو نے ہمیں خوش آمدید کہا۔ دادی جان کے بعد وہ اکیلے حویلی میں رہتے تھے۔ نوکر چاکر اور اپنے دوستوں سے دل بہلاتے رہتے تھے۔ زمینداری سے ان کو فرصت بھی کہاں ملتی تھی۔
‘’بھئی بچو! تم نے بہت ہی اچھا کیا یہاں آ کر، اس طرح تمہارے دادا کا دل بھی بہل جائے گا۔ اب تم لوگ آرام کرو۔ شام کو کھانے کے بعد گپ شپ ہو گی۔’‘ دادا جان چلے گئے اور ہم سب سفر کی تکان دور کرنے کے لئے جو لیٹے تو شام ہو گئی۔ نوکر نے ہمیں بیدار کیا اور کہا کہ نہا دھو کر کھانے کی میز پر اکٹھے ہوں ۔ دادا حضور انتظار فرما رہے ہیں ۔
کھانے کی میز پر اکٹھے ہوئے تو دادا کی گفتگو بھی شروع ہو گئی۔ وہ نئے نئے تکیہ کلام استعمال کرنے کے عادی تھے۔
بھئی بچو! کچھ روز قبل مجھے لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ یہاں گاؤں میں پڑے پڑے اکتا گیا تھا سوچا کہ کچھ سیر سپاٹا ہی کر لیا جائے۔ جب میں کیا نام وہاں گیا تو تقریباً سب قابل دید مقامات کی کیا نام سیر کی اور وہ کیا نام مینار پاکستان بھی دیکھا۔ وہ جو مشہور قلعہ ہے کیا نام ہے اس کا؟’‘
‘’جی شاہی قلعہ۔’‘ عمر نے لقمہ دیا۔
‘’ ہاں کیا نام شاہی قلعہ بھی دیکھا اور کیا نام بادشاہی مسجد بھی دیکھی اور وہ کیا نام باغ بھی دیکھا، خوب ہے وہ باغ کیا نام....؟
‘’جی شالا مار باغ۔’‘ شہاب نے بتا ڈالا۔
‘’ تو کیا نام شالا مار باغ بھی دیکھا اور بچو لاہور کی بہت سی دوسری چیزیں اور کیا نام مشہور مقامات بھی دیکھے۔’‘
‘’ ہم تو اس ’کیا نام‘ سے تنگ آ چکے تھے۔ جی میں آیا کہ کھانا چھوڑ کر چلے جائیں مگر کھانے کی بے ادبی کا خیال آتے ہی بیٹھ گئے۔ ایمان بھی مسلسل پیچ و تاب کھا رہی تھی۔
چند لمحے خاموشی اختیار کرنے کے بعد دادا پھر شروع ہو گئے۔
‘’ میں نے کہا بھئی بچو، میں عجب مصیبت میں گرفتار ہوں ، نہ صرف آدمی بیمار ہیں بلکہ میں نے کہا جانور تک علیل ہیں ، کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کروں ۔ آج صبح جب حکیم صاحب آئے ، میں نے کہا۔
‘’ کیا کہا آپ نے ، حکیم صاحب سے؟’‘ ہم نے انتہائی معصومیت سے پوچھا۔
‘’ میں نے کہا حکیم صاحب سے یہ کہا کہ آپ بھی ہمارے ہاں تنگ آ گئے ہوں ۔ وہ بولے ایسا مت کہئے میں تو آپ کا غلام ہوں ، میں نے کہا....؟’‘
‘’ کس نے کہا؟ حکیم صاحب نے یا آپ نے؟’‘ ایمان تنگ آ چکی تھی۔
‘’حکیم صاحب نے میں نے کہا ۔ اس کے بعد وہ پوچھنے لگے کہ دوائیوں پر کس قدر خرچ آ چکا ہے، میں نے کہا۔ اور پھر کسی طرح کھانا سب نے کھا لیا تو دادا کے اس تکیہ کلام سے بھی جان چھوٹی۔
اگلے روز صبح صبح دادا حضور نے ہمیں جگایا اور حکم نازل کیا کہ میں نے تمہارے لیے اخبار منگوایا ہے۔ شہر میں اخبار کے عادی ہو گے ناں اس لیے ۔ جلدی سے اٹھو، اخبار خود بھی پڑھو اور مجھے بھی پڑھ کر سناؤ۔
ہم ہاتھ منہ دھو کر صحن میں پہنچے تو دادا پلنگ پر گاؤ تکیہ لگائے حقہ نوش فرما رہے تھے۔ ہم اخبار پڑھنا شروع کر دیتے ہیں لیکن وہ اپنے حقے میں اس قدر مشغول ہیں کہ ہم بڑی سے بڑی قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک لفظ نہیں سن رہے تھے۔ غالباً انہیں ڈر تھا کہ انہیں یوں مصروف دیکھ کر کہیں ہم چلے نہ جائیں ۔ اس لیے وہ کبھی کبھار ہمیں ایک ‘’اچھا’‘ سے سرفراز فرما رہے تھے۔ ہم نے انہیں جانچنے کے لیے ایک خبر پڑھی بلکہ گھڑی۔’’ایک بیکار نوجوان نے ملازمت مل جانے کی خوشی سے بے قابو ہو کر خودکشی کر لی۔ اس خبر سے شہر میں سنسنی پھیل گئی ہے۔ مزید اطلاعات کا انتظار ہے، پولیس تفتیش کر رہی ہے۔’‘
‘’اچھا ۔’‘ انہوں نے حقے کا ایک ‘’کش’‘ لگایا۔
پھر کیا تھا، ہم خبریں ’پڑھتے‘ ہی گئے۔دریائے سین میں سخت طوفان۔ ہزاروں آدمی چلو بھر پانی میں ڈوب کر مر گئے۔ فصلیں ڈوب گئیں ۔
‘’اچھا۔’‘ وہ بدستور حقے میں مبتلا تھے۔
‘’جزائر شرق الہند کے براعظم میں بہت بڑا سیاسی جلسہ، لیڈر کی جوشیلی تقریر، جس نے باشندوں کو غیرت دلاتے ہوئے کہا کہ اگر تم میں ذرا سا بھی حب الوطنی کا مادہ ہے اور تم سچ مچ اپنے ملک سے محبت کرتے ہو ، اسے دیگر ممالک کی طرح ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہو تو مجھے ووٹ دے کر دکھاؤ۔’‘
‘’اچھا.... اچھا۔’‘
‘’اچھ.... آہاہاہا؟’‘
غرض یہ کہ ہم نے آدھ گھنٹے تک خبریں پڑھیں ۔ حتیٰ کہ خبریں ختم ہو گئیں ۔ ہمیں اشتہار سنانے پڑے۔ مگر ان کی ‘’اچھا’‘ ختم نہ ہوئی۔ بعد میں علم ہوا کہ یہ ان کا نیا تکیہ کلام تھا۔ سارا دن ہم نے بوریت میں گزارا۔ دادا کی باتوں بلکہ ان کے تکیہ کلاموں سے بچتے بچتے شام ہو گئی۔ شام کے بعد دادا نے اعلان فرمایا کہ رات کو ہمارے ایک شکاری دوست آ رہے ہیں ۔ ان کے اعزاز میں دعوت طعام رکھی گئی ہے۔ تمام بچے تیار رہیں ۔ شکاری صاحب بھی آن پہنچے۔ ان کے بارے میں انکشاف ہوا کہ وہ اس قدر باتونی ہیں کہ عشاء کے بعد اپنی داستان شروع کرتے اور صبح کی اذان سن کر ختم کرتے۔ کھانے کے بعد انہوں نے شیر کے شکار سے بسم اﷲ کی ،بولے
‘’ رات کے کوئی دو بجے ہوں گے، گھپ اندھیرا ، ہُو کا عالم ، گھنے جنگل کی بھیانک رات، میں مچان پر بیٹھا شیر کا منتظر تھا۔ ایسے میں کس قسم کے خیالات آتے ہوں ، آپ کے لیے اندازہ لگانا مشکل ہے۔’‘
‘’ پھر کیا ہوا؟’‘ دادا بولے۔
‘’ذرا ہی آہٹ پر میں چونک پڑتا، پتہ کھڑکتا تو میرا دل دھڑکنے لگ جاتا، اندھیرا ایسا تھا کہ ستاروں کی روشنی بھی ختم ہو کر رہ گئی تھی، وہ ایسی ڈراؤنی رات تھی کہ بس کیا بتاؤں ۔’‘
‘’بہت خوب ! تو پھر کیا ہوا؟’‘ دادا بولے۔
‘’اتنے میں ایک عجیب سا شور سنائی دیا۔ جیسے جنگل کا جنگل جاگ اٹھا ہو، پرندے اپنی بولیاں بولنے لگے، درندے دھاڑنے لگے، غرض یہ کہ طوفان سا آ گیا۔’‘
‘’ پھر کیا ہوا؟’‘ دادا بولتے چلے گئے۔
اس مرتبہ شکاری نے بہت برا منہ بنایا اور بولے۔
‘’اتنے میں ایک زبردست گرج سنائی دی، جیسے کوئی ایٹم بم پھٹ پڑا ہو، بچو آپ نے جنگل کے شیر کی گرج نہیں سنی، چڑیا گھر کے شیر کی گرج سنی ہو گی۔ اس کی گرج اصلی شیر کے مقابلے میں بلی کی میاؤں میاؤں سے زیادہ نہیں ۔’‘
‘’اچھا ! تو پھر کیا ہوا؟’‘ دادا پوچھتے ہی چلے گئے۔
شکاری صاحب کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
‘’میں نے بندوق تانی، نشانہ باندھا اور لب لبی دبا دی لیکن کچھ نہ ہوا۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ بندوق تو خالی ہے۔ کار توس تھیلے میں بند تھے اور
تھیلا درخت کے نیچے گھاس میں پڑا تھا۔ کچھ دیر تو میں سوچتا رہا کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں ، آخر جان پر کھیل کر نیچے اترنے لگا۔ شیر نے میری طرف گھورا۔
‘’ آپ سوچیں اس وقت میری کیا حالت ہو گی؟’‘
‘’سوچ لی! پھر کیا ہوا؟’‘ دادا بھی دادا تھے۔
‘’ پھر یہ ہوا’‘ شکاری صاحب جھلا کر بولے ‘’ مجھے یاد آیا کہ دو کارتوس میری جیب میں بھی پڑے ہیں ۔ جلدی سے نکال کر بندوق میں بھرے اور فائر کیا، گولی شیر کی پیشانی پر لگی۔’‘
‘’یعنی کہ شیر مر گیا، پھر کیا ہوا؟’‘ دادا بھی آخر ہمارے دادا تھے۔
‘’ پھر کیا ہوا؟’‘ شکاری صاحب اپنے بالوں کو نوچتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے، شاید یہ کہنا چاہتے تھے کہ پھر میرا سر ہوا۔
وہی شکاری صاحب جن کے متعلق مشہور تھا کہ داستان شروع کریں تو ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھی۔ اب پانچ منٹ میں ہتھیار ڈال کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہمیں پھر بعد میں معلوم ہوا کہ دادا اسے تنگ نہیں کر رہے تھے بلکہ یہ تو ان کا نیا تکیہ کلام تھا۔خیر اسی طرح ہم نے کوئی ایک ہفتہ دادا کے ہاں گزارا اور خوب مزے کیے۔ واپسی کے وقت دادا جان ‘’ بھئی رکو’‘ کہے جا رہے تھے جبکہ ہم نے اسے بھی ان کا نیا تکیہ کلام قرار دے ڈالا۔
٭٭٭