02:49    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

2744 5 4 03

دل چسپ سفر

اسکول میں جب بھی گرمی کی چھٹیاں ملتی ہیں تو ہم کہیں نہ کہیں گھومنے اور سیر و تفریح کے لیے جاتے ہیں۔ پچھلے سال جب چھٹی ملی تو ممّی پاپا نے کہا کہ اس سال ہم فیض پور جائیں گے۔ فیض پور ایک تاریخی گاؤں ہونے کے ساتھ گھنے جنگل سے گھرا ہوا ہے۔

          میری تو باچھیں کھل گئیں۔ مَیں نے زور  و شور سے سفر پر جانے کے لیے اپنی تیاری شروع کر دی۔ ممّی پاپا، میرے چھوٹے بھائی اور دونوں بہنوں کی تیاریاں چل رہی تھیں۔ ہم نے اپنا اپنا سامان اپنی اپنی بیگ میں رکھا، کھانے پینے کی چیزیں،  بسکٹ، ٹافیاں، چاکلیٹ اور چوڑے وغیرہ بھی لے لیے۔ چوں کہ ہمیں اگلے دن صبح سویرے اٹھ کر سفر پر جانا تھا۔ اس لیے آج ہم سب رات کا کھانا کھانے کے بعد جلدی سے سوگئے۔ لیکن میری آنکھوں سے تو نیند اُڑی ہوئی تھی، میرا جی چاہتا تھا کہ جلدی سے صبح ہو جائے اور مَیں اُڑ کر فیض پور پہنچ جاؤں۔

          اگلے دن ہم صبح جلدی اٹھے اور نہا دھوکر تیار ہونے لگے۔ ممّی پاپا، دادی، میری دونوں بہنیں اور چھوٹا بھائی، ہم سب رکشا کے ذریعہ بس اسٹینڈ پہنچے اور وہاں سے فیض پور جانے والی بس پکڑی۔

          اِس سفر کے دوران ہم کافی خوش تھے۔ ہم نے کئی قسم کے جانور دیکھے، پیڑ پودوں کو دیکھا، پہاڑ، ندی، جھرنے، تالاب اور آب شار بھی دیکھے۔ ساتھ میں ہم سب بچّے بس میں خوب انجوائے بھی کر رہے تھے۔

          ہم گھنے جنگل کے کنارے سڑک سے گذر رہے تھے کہ تب ہی اچانک ہماری بس خراب ہو گئی۔ کئی مسافروں کا تو ڈر کے مارے بُرا حال ہو گیا۔لیکن ہمیں تو مزہ مل رہا تھا کہ اب اب بس کو درست کرنے میں کافی وقت لگ جائے گا۔ اور ہم سامنے کے جنگل کی سیر کر لیں گے۔ یہ سوچ کر ہم فوراً بس سے باہر کود پڑے۔ بس ڈرائیور نے کہا کہ بس کو درست کرنے میں ایک دو گھنٹے لگ سکتے ہیں۔

          جنگل میں گھومنے کا شوق تو ہمیں بچپن ہی سے رحمانی پبلی کیشنز سے چھپی ہوئی کہانیوں  کی کتابیں پڑھ پڑھ کر ہو گیا تھا آج بڑا اچھا موقع ملا تھا جنگل کی سیر کرنے کا۔

          جب پاپا سے اجازت چاہی تو انھوں نے منع کر دیا کہ جنگل میں شیر چیتے اور دوسرے خطرناک جانور رہتے ہیں، ممکن ہے تم لوگوں کو نقصان پہنچا دیں۔ ہم بچّے بڑوں کا کہنا کہاں مانتے ہیں ؟ سو پاپا کی بات کو سنی اَن سنی کر کے نکل پڑے جنگل کی سیر کو۔

          جنگل میں گھومتے گھومتے ہمیں پتا ہی نہ چلا کہ ہم کہاں آ گئے۔ ہمیں بہت ڈر لگنے لگا۔ اور ایک بچّہ ہم کو ڈرانے کے لیے شیر کی آوازیں نکالنے لگا۔ جب ہم اور زیادہ ڈرنے لگے تو وہ ہمیں دیکھ کر زور زور سے ہنسنے لگا۔ ہم سمجھ گئے کہ وہ ہمیں ڈرا رہا ہے۔

          تب ہی اچانک مَیں نے ایک شیر کو دیکھا جو وہاں سے کافی فاصلے پر کھڑا ہماری ہی طرف دیکھ رہا تھا۔ مَیں نے جیسے ہی سب کو شیر کے بارے میں بتایا تو سب بچّے ڈر کے مارے بُری طرح اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ وہاں روڈ پر ممّی پاپا ہمیں تلاش کر رہے تھے اور ہم بھی جنگل سے کسی طرح باہر نکلنے کا راستا ڈھونڈ رہے تھے۔

          جیسے تیسے کر کے ہمیں راستا سمجھ میں آیا دور سے ہی ہمیں ممّی پاپا گھبرائی ہوئی حالت میں ملے۔ ہم ان کو لپٹ کر رونے لگے۔ ہمیں اس بات کا پورا احساس ہو گیا کہ بڑوں کا کہنا نہ ماننے سے مصیبت کھڑی ہو جاتی ہے، وہ تو آج ہم خدا کے فضل سے بچ گئے ورنہ شیر ہم کو دیکھ لیتا تو ہم اپنے ممّی پاپا سے بھی نہ مل پاتے اور نہ ہی فیض پور کی سیر کر پاتے۔

          ابھی ہم ممّی پاپاسے اپنے کیے کی معافی مانگ ہی رہے تھے کہ بس کا ڈرائیور آیا اور بولا بس ٹھیک ہو چکی ہے۔ یہ سُن کر ہم سب بس کی طرف چل پڑے فیض پور جانے کے لیے۔

3.0 "7"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔