ایک بار ایک سنت ندی میں نہا رہے تھے۔ تب ہی اچانک انھیں ایک بچھو کک پانی میں بہتا ہوا دکھائی دیا۔ انھوں نے جھٹ سے اسے اپنی ہتھیلی پر اٹھایا اور کنارے پر رکھ دیا۔ لیکن جیسا کہ بچھووں کی عادت ہوتی ہے۔ اُس بچھو نے سنت کو ڈنک مار دیا۔ سنت نے اس کی پروا نہیں کی۔ اور وہ پھر سے نہانے میں مصروف ہو گئے۔ دوبارہ بچھو کو پانی کی لہریں بہا کر ندی میں لے آئیں۔ یہ دیکھ کر سنت نے اُسے ہتھیلی پر اٹھا کر کنارے رکھ دیا۔ اِس بار بھی بچھو نے اُس کی جان بچانے والے سنت کو ڈنک مار دیا۔ بار بار یہی ہوتا رہا۔ بچھو بار بار پانی کے ساتھ بہہ کر آتا اور سادھو بار بار اس کی حفاظت کرتے اور اس کی جان بچاتے۔ لیکن بچھو کے ڈنک مارنے پر انھیں افسوس ہوتا۔
اسی ندی میں ایک نوجوان بھی نہا رہا تھا جو کہ یہ منظر بڑی حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ اُس سے نا رہ گیا تو اس نے پوچھا :’’ سادھو مہاراج! آپ بار بار اس بچھو کی جان بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور بچھو اتنا بے وفا ہے کہ وہ بار بار آپ کو ڈنک مار رہا ہے۔ یہ کیسی تعجب کی بات ہے؟‘‘
اِس پر سنت نے کہا :’’ مَیں ایک سنت اور عالم ہوں میرا فرض ہے کہ مَیں ہر ایک کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کروں چاہے وہ انسان ہو یا حیوان - سو مَیں اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔بچھو کی عادت ہے ڈنک مارنا سو وہ اپنی عادت پر عمل کر رہا ہے۔اُسے یہ نہیں سمجھتاکہ کون اُس کی جان بچا رہا ہے اور کون اُس کو نقصان پہنچا رہا ہے وہ تو ہر ایک کو ہی ڈنک مارتا ہے، ہم دونوں ہی اپنا اپنا کام برابر کر رہے ہیں اِس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ ‘‘ یہ سُن کر وہ نوجوان بہت خوش ہوا اُسے سنت کی باتیں اچھی لگیں وہ ان کا شاگرد بن گیا۔