12:03    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

2613 3 1 04.8

مَیں کیا بنوں گی ؟

مَیں ہوں نینا۔ مَیں چھٹی جماعت میں پڑھتی ہوں۔ ویسے تو مَیں پڑھائی میں بہت اچھی ہوں پر کھیل کود، ناچنے گانے میں تو ہمیشہ پہلے نمبر پر آتی ہوں۔ اسکول میں میری ڈھیر ساری سہیلیاں ہیں اور سبھی ٹیچر مجھے بہت پسند کرتی ہیں۔ سب کچھ بہت اچھا چل رہا تھا لیکن ایک دن مَیں بہت پریشان ہو گئی۔

           کلا س میں پڑھاتے وقت ایک دن ٹیچر نے بتایا کہ راستے میں پتھریلا راستا، اونچے پہاڑ، بادلوں بھرا آسمان ملے گا۔ لیکن ہمیں ڈرنا نہیں ہے، ننگے پاؤں اُن راستوں پر بس چلتے ہی جانا ہے۔ اگر کہیں پھول یا ہریالی نظر آئے تو بھی نہیں رُکنا۔ مَیں نے اپنی سہیلیوں سے تو کچھ نہیں پوچھا لیکن مجھے بہت ڈر لگنے لگا۔ گھر پہنچ کر ممّی پاپا سے بات چیت کیے بغیر مَیں نے اسکول کا ڈریس بدلا اور اپنے کمرے میں جا کر بیڈ پر لیٹ گئی۔ تھوڑی دیر ممّی کمرے میں آئی انھوں نے پیار سے سر پر ہاتھ رکھا اور میری اُداسی کی وجہ دریافت کی۔ مَیں تو پہلے ہی سے ڈری ہوئی تھی، ممّی کے پوچھنے پر پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے ممّی سے کہنے لگی کہ مَیں اکیلے کبھی بھی اسکول نہیں جاؤں گی کیوں کہ پتھریلا راستا، کالے بادل، اونچے پہاڑ مجھے روکیں گے اور مَیں ننگے پاؤں ہوں گی۔ ممّی نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا کہ:’’ کس نے ایسا کہا ہے؟‘‘تب مَیں نے سسکیاں لیتے ہوئے بتایا کہ:’’ اسکول میں میری کلاس ٹیچر نے سبق پڑھاتے ہوئے ایسا کہا ہے۔ ‘‘ ممّی نے اتنا سُن کر پیار سے مجھے ایک چپت لگائی اور دَھت ترے کی کہتے ہوئے بولیں کہ:’’ بیٹی! تمہاری ٹیچر نے ایسا صرف سمجھانے کے لیے کہا ہے، اصل میں ایسا کچھ نہیں ہوتا، ہماری زندگی میں سکھ دُکھ آتے جاتے رہتے ہیں ہم سکھ سے تو بہت خوش ہوتے ہیں لیکن دکھ سے کافی غم گین ہو کر حوصلہ پست کرنے لگتے ہیں۔ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ چاروں طرف اندھیرا ہے، آگے چلنا بہت مشکل ہے۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ مانو ہم ننگے پاؤں اس پہاڑی، پتھریلے راستے پر جا رہے ہیں۔اسی لیے کہتے ہیں کہ اگر ہمیں سکھ اچھے لگتے ہیں تو دکھوں سے ڈر کر نہیں بیٹھنا چاہیے۔ ان کا سامنا کرنا چاہیے۔ راستا کتنا بھی ڈراؤنا کیوں نہ ہو ہمیں بس اپنی منزل تک چلتے ہی جانا چاہیے۔ کوئی ہمیں لالچ دے گا۔ ہریالی، پھل اور پھول دکھائے گا لیکن ہمیں اپنے کام سے کام رکھتے ہوئے اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہنا چاہیے۔ کیوں کہ لگاتار محنت اور مشقت کرتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے رہنے کا نام ہی زندگی ہے۔ ‘‘

          ماں نے یہ سب بڑے پیار سے کہا لیکن مَیں تو زیادہ کچھ نہیں سمجھ سکی۔ ہاں ! اتنا ضرور سمجھ گئی کہ مجھے کبھی بھی دکھ سے ڈرنا نہیں ہے۔

          وقت گذرتا رہا، مَیں اپنی پڑھائی میں مگن رہی۔ اُدھر میری سبھی سہیلیوں نے سوچ لیا تھا کہ بڑی ہو کر کیا کیا بننا ہے۔ لیکن ابھی تک مَیں نے کچھ بھی نہیں سوچا تھا کہ مَیں بڑی ہو کر کیا بنوں گی کیوں کہ مجھے تو سارے کام ہی پسند ہیں۔ مَیں جب بھی کسی بڑے افسر یا آدمی کو دیکھتی تو بس سوچتی کہ مَیں ان کے جیسا بنوں گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکتاکہ مَیں ہر بڑے آدمی کی طرح بن سکوں گی۔ اس لیے مَیں نے بھی سوچا کہ مجھے بھی کوئی فیصلہ کر لینا چاہیے کہ مجھے بڑے ہو کر کیا بننا ہے؟

          ثنا کے برتھ ڈے پر مَیں اُس کے گھر گئی۔ اس کے پاپا مسٹر آفاق پولیس میں بہت بڑے اور ایک ایمان دار افسر ہیں۔ اُن کی وردی دیکھ کر مَیں نے سوچ لیا کہ مَیں تو پولیس میں ہی جاؤں گی کیوں کہ ان کے تو مزے ہی مزے ہیں۔ پارٹی ختم ہونے کے بعد ثنا کے پاپا نے اپنے تجربات بتائے کہ کس طرح انھیں دیر رات یا کبھی ساری ساری رات چوروں، ڈاکوؤں اور بدمعاشوں کا پیچھا کرنا پڑتا ہے۔ ایک بار تو ان کے پاؤں میں گولی بھی لگ گئی تھی۔ بس! ان کی ایک ٹانگ کاٹنی پڑی پھر انھوں نے اپنی نقلی ٹانگ دکھائی۔

          مَیں تو بالکل ڈر گئی۔ مَیں نے اس وقت فیصلہ کر لیا کہ مَیں پولیس میں بالکل نہیں جاؤں گی۔ پھر کون، کب، کہاں، کیسے گولی مار دے کیا پتا ؟

          دوسرے روز اسکول جاتے وقت مَیں نے ایک ٹی وی نیوز رپورٹر کو دیکھا۔ وہ مائک لے کرکسی سے کچھ پوچھ رہا تھا۔ مَیں نے اسے بہت بار ٹی وی پر دیکھا ہے۔ مَیں نے من ہی من میں سوچا کہ یہ کام بہت اچھا ہے۔ ساری دنیا ٹی وی پر آنے والے کو دیکھتی ہے جانتی اور پہچانتی ہے رپورٹر کی تو بات ہی الگ ہے۔ اس لیے مَیں رپورٹر ہی بنوں گی۔ اچانک مَیں نے اس کی بات سنی کہ وہ کسی سے فون پر بات کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ مَیں پچھلے تین گھنٹوں سے نیتا جی کا انتظار کر رہا ہوں، اور میرا بھوک پیاس کے مارے بُرا حال ہے اِدھر مَیں کھانے گیا اور اُدھر نیتا جی آ گئے تو میری مٹی خراب ہو جائے گی۔ نوکری بھی جاسکتی ہے۔ مَیں نے جب اُس کی یہ حالت سُنی اور دیکھی تو مَیں ڈر گئی اور یہ فیصلہ کر لیا کہ مَیں رپورٹر ہرگز نہیں بنوں گی۔

          اسی ادھیڑ بُن میں مَیں اسکول کی طرف جا رہی تھی کہ مجھے سامنے سے ڈاکٹر نرگس نظر آئیں۔ مَیں نے سوچ لیا کہ مَیں بڑی ہو کر ایک اچھی ڈاکٹر بنوں گی اور مریضوں کی خوب خدمت کروں گی۔ سو مَیں نے ڈاکٹر نرگس سے بات کرنے کے ٹھان لی اُن کو سلام کیا، انھوں نے جواب دے کر پوچھا کہ، کیسی ہو؟ مَیں نے اپنے من میں جو بات سوچ رکھی تھی وہ بتائی تو انھوں نے کہا کہ دن کے علاوہ رات کو کسی بھی وقت اگر کسی مریض کو دیکھنے کا بلاوا آتا ہے تو ہمیں جانا پڑتا ہے۔ مَیں سوچنے لگی کہ رات کو مجھے گھر سے نکلتے ہوئے بہت ڈر لگے لگا۔ اس لیے مَیں ڈاکٹر نہیں بنوں گی۔

          یہی سب سوچتے ہوئے جب مَیں اسکول پہنچی تو سامنے سے نسرین میڈم آ رہی تھیں۔ مَیں نے سوچا، ارے! ٹیچر بننے کے بارے میں تو مَیں نے کچھ سوچا ہی نہیں ٹیچر کے تو مزے ہی مزے ہیں۔ اسکول بن سنور کر آؤ، کاپی چیک کرو، بچّوں پر غصہ اتارو، اسٹاف روم میں بیٹھ کر چائے پیو اور مزے کرو۔

           لیکن کلاس میں جاتے جاتے سوچنے لگی کہ بے شک ٹیچر بننا کتنا بھی اچھا ہو۔ صبح سب سے پہلے ٹیچر کو اسکول آنا پڑتا ہے اور شام کو چھٹی کے کافی دیر بعد انھیں گھر جانا ملتا ہے۔ اور تو اور چھٹیوں کے دنوں میں بھی ان کو اسکول آنا پڑتا ہے۔ اگر کلاس میں کسی بچّے کو پڑھنا لکھنا نہیں آتا اور اس کے نمبر کم آتے ہیں تو ہیڈ مسٹریس سے ڈانٹ سننی پڑتی ہے وہ الگ۔ اگر کسی بچّے کو سزا دی یا  مار دیا تو وہ دوسری بڑی مصیبت۔

          نا بابا نا! مَیں نہیں بنوں گی کبھی ٹیچر۔ پھر کیا بنوں ؟ یہ سوا ل پھر سامنے آیا۔

           آج ہمارا کام کے عملی تجربے کا پریڈ بھی ہے جس میں ہمیں شجر کاری اور باغ بانی کے طریقے سکھائے جائیں گے۔ آج کے دن ہماری اسکول میں خاص طور پر شجر کاری اور باغ بانی کے ماہر ٹیچرس دوسری بڑی اسکولوں سے مہمان بن کر آئے ہوئے ہیں جو ہماری رہِ نُمائی کریں گے۔ مجھے باغ بانی کی باتیں سُن کر بہت اچھا لگا۔ اور جب انھوں نے بتایا کہ باغ بانی کرتے ہوئے بھی باغ بانی کا بڑا افسر بنا جاسکتا ہے تو مَیں نے ٹھان لیا کہ اب کیا دقّت ہے مَیں باغ بان ہی بنوں گی اور جلد ہی ایک بڑی آفیسر بن جاؤں گی۔ گھر پہنچ کر درانتی سے پودے کے آس پاس کی زمین برابر کی اور پانی کے لیے چھوٹی سی کیاری بنانا شروع کی تو درانتی سے پودے کو اتنی زور سے دھکّا لگا کہ بے چارا پودا زمین سے اکھڑ کر خراب ہو گیا۔ لیکن میں کام میں جُٹی رہی۔ مٹّی کی کھدائی کرتے وقت نہ جانے کب درانتی سے میرے ہاتھ میں چوٹ لگ گئی مجھے سمجھ میں ہی نہ آسکا۔ مٹّی صاف کرتے ہوئے ایک کیڑے نے میری انگلی میں زور سے کاٹ لیا۔ ایک تو چلچلاتی دھو پ میں مَیں کام کر رہی تھی اوپر سے چوٹ پر چوٹ لگ رہی تھی۔ درانتی کو ایک طرف پھینک کر مَیں نے سوچا کہ مَیں باغ بان افسر نہیں بنوں گی۔

          نہا دھوکر جب کھانا کھانے بیٹھی تو کچن روم سے کھانے کی بہترین خوشبو آ رہی تھی۔ تب ہی مَیں نے سوچا کہ مَیں بڑی ہو کر ایک ماہر باورچن بنوں گی اور اپنا پروگرام ریڈیو، ٹی وی پر پیش کروں گی۔ یہی نہیں بل کہ مَیں پکوان کے موضوع پر ڈھیر ساری کتابیں لکھوں گی۔ یہ سوچ کر مَیں کچن میں گھس گئی۔ میری ممّی روٹی پکا رہی تھیں۔ تَوے پر روٹی سینک رہی تھیں مَیں نے اُسے پلٹنا چاہا تو میری انگلی جل گئی۔ اُدھر ممّی نے جب سبزی میں مصالحہ ڈالا تو اس کی تیز بُو سے مجھے بے ساختہ ایک کے بعد ایک چھینک آنے لگی۔ میرا بڑا بُرا حال ہو گیا مَیں پسینے میں شرابور کچن سے نکلی اور سوچ لیا کہ مَیں باورچن نہیں بنوں گی۔

          ممّی میرے پاس آئیں اور میرے آنسو اپنے آنچل سے پونچھتے ہوئے پوچھنے لگیں کہ مَیں کیا سوچ رہی ہوں ؟ تب مَیں نے امّی کو سب کچھ سچ سچ بتلا دیے تو امّی نے کہا کہ :’’ مَیں نے جو بہت پہلے پتھریلا راستا، کالے بادل، اونچے پہاڑ کی بات کی تھی وہ سب یہی ہیں۔‘‘

          ’’ کوئی کام آسان نہیں ہوتا، دقّتیں، پریشانیاں اور تکالیف ہر کام میں آتی ہیں لیکن ہمیں ڈرنا اور گھبرانا نہیں چاہیے۔ اگر کچھ کرنے کی لگن اور امنگ ہے تو اس کے لیے اپنے حوصلوں کو مضبوط بنا نا بے حد ضروری ہے۔ ہر قسم کی مصیبت، پریشانی اور تکلیف سے لڑنا اور ان کو دور بھگاتے ہوئے محنت اور ہمت سے کام لینے سے ہی ہمیں کام یابی مل سکتی ہے۔ کیوں کہ ہرے بھرے باغ انھیں کو ملیں گے جو سچی لگن سے محنت کریں گے۔ جو کام سے جی چراتے ہیں وہ زندگی کے ہر موڑ پر ناکام ہو جاتے ہیں۔‘‘ ممّی نے مجھے سمجھایا۔

          مَیں نے ممّی کی باتیں غور سے سنیں اور مجھے اب سمجھ میں آ گیا تھا کہ مجھے بڑا ہو کر کیا بننا ہے۔ مَیں نے بہت غور کرنے کے بعد یہ طَے کر لیا کہ مجھے بڑا ہو کر ایک اچھا ڈاکٹر بننا ہے۔ غریب مریضوں کی خدمت کرنا ہے۔ مَیں اب کسی سے گھبراؤں گی نہیں اور خوب محنت اور لگن سے پڑھائی کروں گی اور کام یابی حاصل کرتے ہوئے ڈاکٹر بنوں گی۔ اپنے ماں باپ، خاندان اور گاؤں کا نام روشن کروں گی۔ اب مجھے شدت سے آنے والے کل کا انتظار تھا کہ مَیں جلدی سے اسکول پہنچ کر میری سہیلیوں کو بتاؤں کہ مَیں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ مَیں بڑی ہو کر کیا بنوں گی؟ آج میرے اندر ایک الگ قسم کی خوشی سرایت کیے ہوئے ہے۔

4.8 "4"ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔