09:52    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

1705 1 0 10

نانی ماں نے جان بچائی

بہت پہلے کی بات ہے کہ ایک گاؤں میں ایک بوڑھی عورت اور اس کی عقل مند، شوخ اور چنچل نواسی ایک ساتھ رہتے تھے۔بوڑھی عورت کو سب گاؤں والے نانی ماں کہتے تھے اور اس کی نواسی کو شیتل کہہ کر پکارتے تھے۔ نانی ماں کی بیٹی اور داماد ایک حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھے تھے، تب ہی سے اُن کی نواسی شیتل اُن کے پاس رہ رہی تھی۔ وہ دونوں اپنا پیٹ پالنے اور گھر چلانے کے لیے دن بھرسخت محنت مزدوری کرتے اور شام کو روکھا سوکھا کھا پی کر سوجاتے تھے۔ سب ہی گاؤں والے اُن کی محنت، خوش مزاجی اور  عقل مندی کی تعریف کیا کرتے تھے۔ خاص طور پر شیتل کی باتوں اور اس کی عادتوں کا تو سبھی گن گاتے تھے۔

          نانی ماں کے بیٹے، بہوئیں، پوتے اور پوتیاں قریب کے ایک بڑے شہر میں رہتے تھے۔ انھیں ماں کا کوئی بھی خیال نہ تھا۔ لیکن ماں تو آخر ماں ہوتی ہے۔ اس سال گرمیوں کے دن تھے نانی ماں کو اپنے بیٹوں، بہووں اور پوتے پوتیوں کی یاد ستانے لگی۔ اس نے اپنی نواسی شیتل کو جب یہ بات بتائی تو اُس نے کہا :’’ نانی ماں ! چلو مَیں تیاری کروا دیتی ہوں کل ہی یہاں سے روانہ ہو جانا اور تمہارا جتنا دن چاہے ماموں ممانی کے گھر رہ کر واپس آ جانا۔‘‘

          نانی ماں نے یہ سُن کر کہا :’’ بیٹی! تم نہیں چلو گی؟‘‘ عقل مند اور خوش مزاج شیتل نے کہا :’’ نانی ماں جن بیٹوں کو ماں کا خیال نہیں ان کے پاس جا کر مَیں کیا کروں گی مَیں تو اُن کی بھانجی ہوں۔ کہیں میری ممانیوں کو میرا جانا پسند نہ آئے۔ نانی ماں تم چلی جانا۔‘‘

          نانی ماں نے اپنی پیاری نواسی کی اس عقل مندی والی باتوں پر بیٹوں سے ملنے کا ارادہ ترک کرنا چاہا لیکن شیتل نے انھیں منع کر دیا۔

           اس طرح دوسرے روز صبح نانی ماں جب روانہ ہونے لگی تو شیتل نے کہا:’’ جنگل میں بھیڑیا ہے ذرا سنبھل کر جانا۔‘‘ نانی ماں نے ہاں ہاں ! کہتے ہوئے سامان کی پوٹلی سر پر رکھی اور وہاں سے روانہ ہو گئی۔جب نانی ماں جانے لگی تو شیتل انھیں دور تک چھوڑنے آئی۔

          ابھی وہ جنگل میں تھوڑی ہی دور گئی تھی کہ ایک خوف ناک بھیڑیا اس کے سامنے آ گیا اور بولا:’’ بڑھیا بڑھیا ! مَیں تجھے کھا جاؤں گا۔‘‘ نانی ماں ڈر گئی اور روتے ہوئے بولی:’’ بیٹا!مَیں اپنے بیٹے سے ملنے شہر جا رہی ہوں، مجھے جانے دے جب مَیں واپس آؤں گی تو مجھے کھا لینا۔ ‘‘

          نانی ماں کے رونے پر بھیڑیا مان گیا۔ اور کہا:’’ تو جب واپس آئے گی تو مَیں تجھے ضرور کھاؤں گا۔‘‘ ۔۔۔ ’’ ٹھیک ہے۔‘‘ کہہ کر نانی ماں وہاں سے چل پڑی شہر کی طرف۔

          بیٹے کے گھر پہنچ کر وہ بہت خوش ہوئی۔ بیٹوں اور بہووں نے جب ماں کو دیکھا تو پوچھا ماں کب تم آئے اور کب جاؤ گی؟‘‘نانی ماں نے کہا:’’ بیٹا ! ابھی تو آئی ہوں اور جانے کے بارے میں پوچھنے لگے۔‘‘نانی ماں کو دکھ ہوا اس نے کہا :’’ آج رہ کر کل ہی چلی جاؤں گی۔‘‘

          پوتے پوتیوں نے جب یہ سنا تو کہا کہ :’’ ہم اس طرح دادی ماں کو جانے نہیں دیں گے بل کہ دادی ماں اب ہمارے ہی یہاں رہیں گی۔ ‘‘ نانی ماں کو پوتے پوتیوں ک ایہ رویہ بہت پسند آیا اُس نے ان کو دل سے دعائیں دیں۔ وہ جب تک وہاں رہیں ان کو کہانیاں سناتیں اور وہ اپنی دادی کی خوب آؤ بھگت کرتے۔اس طرح ایک ہفتہ گذر گیا۔

          نانی ماں کو ایسا لگا کہ اس کا یہاں رہنا اپنے بیٹوں اور بہووں کو ناگوار گذر رہا ہے تو اس نے دوسرے ہی روز اپنے گاؤں جانے کا فیصلہ کر لیا۔ 

           نانی ماں اپنے گاؤں جانے کے لیے جب تیار ہوئیں تو انھوں نے اپنے پوتوں اور پوتیوں سے جنگل میں بھیڑیے کے ملنے کی بات کہی تو ان بچّوں نے کہا: ’’ دادی ماں ! پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔تم اپنے پیٹ پر راکھ اور کانچ کے ٹکڑوں سے بھری ہوئی ایک بوری باندھ لینا اور جب بھیڑیے سے سامنا ہو تو اپنا پیٹ سامنے کر دینا۔‘‘

          نانی ماں نے اپنے پوتوں اور پوتیوں کا کہنا مانا اور اپنے پیٹ کر راکھ اور کانچ کے ٹکڑوں سے بھری ہوئی بوری باندھ لی اور جنگل کے راستے اپنے گاؤں کو روانہ ہو گئی۔ نانی ماں کے پوتے اور پوتی اپنی دادی کو دور تک چھوڑنے کے لیے آئے، ان کے آنسو نکل رہے تھے، جب تک نانی ماں ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئی تب تک وہ سب شہر کی سڑک کے کنارے ہاتھ ہلاتے کھڑے رہے۔

          جب نانی ماں جنگل میں پہنچی تو پہلے بھیڑیے ہی سے سامنا ہو گیا جیسے بھیڑیا نانی ماں کا انتظار ہی کر رہا تھا۔ بھیڑیا سامنے آیا اور بولا:’’ بڑھیا ! اب تو ہی بتا مَیں تجھے پہلے کہاں سے کھاؤں ؟‘‘

          نانی ماں بولی:’’ بیٹے! منہ تو میرا پتلا ہے۔۔۔ ہاتھ میرے ہڈی ہیں ۔۔۔ پاؤں میرے گلے ہوئے ہیں ۔۔۔ موٹا اور تگڑا صرف میرا پیٹ ہی ہے، اس لیے تُو پہلے اسی کو کھا۔‘‘ بھیڑیے نے دیکھا سچ مچ نانی ماں کی توند بہت موٹی، تگڑی اور تازی لگ رہی تھی۔ فوراً وہ لپکا اور نانی ماں کے بیٹ پر اپنے نوکیلے دانت گاڑ دیے۔ لیکن یہ کیا ؟ جیسے ہی اُس نے دانت گاڑے نانی ماں کے پیٹ پر بندی ہوئی راکھ اور کانچ کے ٹکڑوں سے بھری بوری پھٹ گئی اور اس کی راکھ اور کانچ اُڑ کر بھیڑیے کی آنکھوں میں گھس گئی۔ اس طرح بھیڑیے کی آنکھ میں خوب زور کا درد ہونے لگا۔ وہ کراہتے ہوئے اِدھر اُدھر بھاگنے لگا۔ بھیڑیے کی اس حالت کو دیکھ کر نانی ماں نے اپنے پوتے پوتیوں کی ذہانت کی داد دی اور ان کو دعائیں دیتے تو ہوئے جلدی جلدی جان بچا کر جنگل پار کرنے لگی۔ اور شام تک اپنے گھر پہنچ گئی۔ جہاں شیتل اس کے لیے بے تاب دروازے پر ہی بیٹھی تھی، وہ اٹھی اور نانی ماں کی بانہوں میں جھولنے لگی۔

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

براہ راست 1 تبصرہ

Mahpara
آپکا تبصرہ

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔