11:36    , اتوار   ,   19    مئی   ,   2024

بچوں کی کہانیاں

1518 0 0 00

تین دوست

چیں چو بلی اور توتو کتا مل کر کھیل رہے تھے۔ چیں چو نے توتو کو دھکا مارا۔ توتو گر پڑا۔ چیں چو تالی بجانے لگی۔ ’’ گرا دیا، ۔۔۔ گرا دیا ۔۔۔‘‘

          تو تو اٹھ گیا۔ اس پر تھوڑی مٹّی لگ گئی تھی۔ اس نے مٹّی جھاڑی اور چیں چو سے بولا:’’ مَیں گراؤں تو کہنا مت کہ گرا دیا۔‘‘ ایسا دھکا ماروں گا کہ تم لڑھکتی چلی جاؤ گی۔‘‘

          ’’ تم گرا ہی نہیں سکتے۔‘‘ چیں چو ہنسنے لگی۔

          ’’اچھا۔‘‘۔۔۔۔۔۔’’ہاں !‘‘

          ’’ تو تیار ہو جاؤ۔‘‘۔۔۔۔۔۔چیں چو پنجے گڑا کر کھڑی ہو گئی۔

          توتو جانتا تھا کہ چیں چو پنجے گڑا کر کھڑی ہو جائے گی اور وہ اسے گرا نہیں پائے گا۔ پھر بھی وہ اس کے پاس آیا اور دھکا مارا۔ چیں چو ذرا سی ڈگمگا کر رہ گئی۔

          تم میں تو بہت طاقت ہے۔ مَیں سچ مچ تم کو نہیں گرا پایا۔‘‘ توتو بولا۔

          ’’مَیں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا۔‘‘ اتنا کہہ کر چیں چو آرام سے کھڑی ہو گئی۔ توتو ہوشیاری سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔ وہ ذرا سا پیچھے ہٹا اور تیزی سے آ کر ایک دھکا مارا۔ چیں چو زور سے لڑھک کر زمین پر گر گئی۔ اب تالی بجانے کی باری توتو کی تھی وہ زور زور سے ہنسنے لگا۔

          چیں چو اور تو تو دونوں بہت کھلنڈرے تھے وہ دونوں اس وقت مذاق ہی تو کر رہے تھے۔ چیں چو کھڑی ہو گئی۔ اس نے بھی اپنے جسم پر لگی دھول مٹّی جھاڑی اور بولی :’’ ایسادھکا دینے سے کیا ہوتا ہے ؟ ذرا پہلے ہی بول کر دیتے تو سمجھ میں آتا مجھے نہیں گرا سکتے تھے۔‘‘

          توتو کچھ نہیں بولا اور ہنستا رہا۔

          اس کے بعد توتو کہیں سے گیند اٹھا لایا۔ دونوں کچھ دیر گیند سے کھیلتے رہے۔

          شام ہو رہی تھی۔ توتو بولا:’’ چیں چو! اب مَیں گھر جاؤں گا۔ آج تو کھیلتے کھیلتے تھک گیا ہوں۔ ماں انتظار کر رہی ہو گی۔ آج وہ کچھ دیر بعد مجھے کہیں گھمانے لے جائیں گی۔‘‘

          ’’ تو جلدی جاؤ!‘‘ چیں چو بولی۔ ’ مَیں بھی تھک گئی ہوں۔لیکن کل مجھے ضرور بتانا کہ تم  کہاں گھومنے گئے تھے۔ ‘‘ وہ پھر بولی۔ ’’ کل میری ماں مجھے کچھ نئی چیز کھانے کو دینے والی ہیں مگر مجھے بتایا نہیں ہے۔ دیکھیں کیا دیتی ہیں ؟ ‘‘

          تو تو اپنے گھر چل دیا اور چیں چو اپنے گھر۔ دونوں کو الگ الگ سمت جانا تھا۔

          جب چیں چو اپنے گھر جا رہی تھی۔ راستے میں پھدکو بندر ملا۔ وہ درخت کی ایک شاخ پر بیٹھا تھا۔ چیں چوکو دیکھتے ہی شاخ پر سے بولا:’’ کھو کھو۔۔۔ کھوکھو۔‘‘

          چیں چوں سمجھ گئی کہ یہ پھدکو بندر ہے۔

          ’’ ارے بھئی! کیا حال ہے؟ نیچے تو آؤ۔ ‘‘ چیں چو بولی۔ ’’ کچھ کہنا ہے کیا؟‘‘

          ’’ کہنا تو ہے لیکن نہیں کہوں گا۔ آج کل تو تم توتو کے ساتھ زیادہ کھیلتی ہو۔ مَیں تو درخت کی شاخ پر اکیلا بیٹھا رہتا ہوں، تم کو تو میرا خیال ہی نہیں رہتا۔‘‘ پھدکو نے شکایت کی۔

          ’’ تو تم بھی کھیلا کرو ہمارے ساتھ، بڑے برگد کے پاس آ جایا کرو۔ وہیں توتو آتا ہے ہم تینوں مل جُل کر کھیلا کریں گے۔ ‘‘ چیں چو نے دوستا نہ انداز میں کہا۔

          ’’ہاہا۔۔۔ ہاہا۔۔۔ ہاہا ‘‘ پھدکو زور سے ہنسا اور کہنے لگا: ’’ مَیں تو - توتو کے ساتھ نہیں کھیلوں گا۔ نہ جانے کب وہ مجھے کاٹ لے ؟ جب وہ بھونکتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے بادل گرج رہا ہو۔ مجھے تو اُس سے بہت ڈر لگتا ہے۔‘‘

          ’’ تم بے کار میں توتو سے ڈر رہے ہو۔‘‘ چیں چو بولی۔

          ’’ مَیں بے کار میں نہیں ڈر رہا ہوں۔ بل کہ صحیح معنوں میں ڈر رہا ہوں۔‘‘ پھدکو نے کہا۔اور پھر سرگوشی کے انداز میں چیں چو کو بولنے لگا کہ :’’ مَیں تو کہوں گا کہ اب تم بھی اُس کے ساتھ کھیلنا چھوڑ دو۔ نہیں تو وہ کسی دن تمہیں بھی ضرور دھوکا دے گا۔ اور تمہارے دونوں کان کاٹ کر کھا جائے گایا تمہاری دم چبا جائے گا۔ وہ بہت دھوکے باز ہے۔ ‘‘

          ’’ یہ سب سراسر غلط ہے۔‘‘ چیں چو بولی۔

          ’’ غلط بات نہیں ہے۔ ‘‘ پھدکو نے بات کاٹی اور آگے بولا:’’ کیا بلی اور کتے کی کبھی دوستی رہ سکتی ہے۔ بلی کتے کو دیکھ کر ہمیشہ ڈرتی رہی ہے۔ کوئی وجہ ہو گی تب ہی تو بلی کتے سے ڈرتی ہے۔ مَیں نے تمہاری بھلائی کے لیے یہ نصیحت کی ہے اب تمہاری مرضی تمہیں اس کے ساتھ کھیلنا ہے کھیلو یا مت کھیلو۔ لیکن یاد رکھنا وہ ضرور کسی دن تمہیں دھوکا دے گا۔‘‘ پھدکو نے پھر سے یہ بات دہرائی کہ :’’وہ تمہارے دونوں کان کاٹ کر کھا جائے گایا تمہاری دم چبا جائے گا۔ وہ بہت دھوکے باز ہے۔ ‘‘

          ’’ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ بلی اور کتے کی کبھی نہیں نبھتی لیکن یہ سب کے ساتھ ٹھیک نہیں ہے، ہم دونوں ایک دوسرے کے بہت اچھے دوست ہیں۔‘‘ چیں چو نے پھدکو سے کہا۔

          ’’اچھا! دوسری مثال بھی سنو۔‘‘ پھدکو بولا:’’ شیر اور ہرن میں کبھی دوستی نہیں سنی گئی۔ جب بھی شیر ہرن کو دیکھتا ہے، وہ اس کو مارنے دوڑتا ہے۔ اگر پکڑ لیتا ہے تو وہ ہرن کو مار ہی ڈالتا ہے۔ اس لیے شیر ہرن کو دیکھ کر بھاگتی ہے۔ اسی طرح بلی اور کتے کا معاملہ ہے۔‘‘

          ’’ مَیں تمہاری اس بات سے اختلاف نہیں کرتی۔‘‘ چیں چو نے کہا۔اور بولی :’’ بل کہ مَیں ایک مثال اور دیتی ہوں، وہ بھی کسی دوسرے کی نہیں خود اپنی یعنی بلی اور چوہے کی۔ بلی چوہے کی دشمن ہے، وہ جہاں کہیں چوہے کو دیکھتی ہے اس کو مار ڈالتی ہے۔ لیکن کہیں بلی اور چوہے کی دوستی ہوئی ہے؟ میری اور توتو کی دوستی کی بات الگ ہے۔‘‘

          ’’ مَیں نے جو سمجھا وہ تمہیں بتا دیا۔‘‘ پھدکو بولا۔’’ تم میری اچھی دوست ہو۔اس لیے تم کو بتا دیا، نصیحت کر دی، اب تمہاری مرضی تم میری بات مانو یا نہ مانو،  لیکن یاد رکھنا وہ ضرور کسی دن تمہیں دھوکا دے گا۔‘‘ پھدکو نے پر سے یہ بات دہرائی کہ :’’وہ تمہارے دونوں کان کاٹ کر کھا جائے گایا تمہاری دم چبا جائے گا۔ وہ بہت دھوکے باز ہے۔ ‘‘

          چیں چو کو پھدکو کی یہ باتیں اچھی نہیں لگیں۔ یہ تو کسی کی برائی بیان کرنا ہوا، غیبت کرنا ہوا۔ برائی اور غیبت تو دشمن کی بھی نہیں کرنی چاہیے۔ غیبت کرنا یا کسی کی دوستی کو توڑنا یا کسی میں جھگڑا لگوا دینا اچھی بات نہیں ہے بل کہ یہ تو سب سے بڑا دھوکا ہے۔ اُس نے یہ باتیں پھدکو سے نہ کہی بل کہ من ہی من میں سوچتے ہوئے چپ چاپ اپنے گھر کی طرف بڑھ گئی۔

          چیں چو اور توتو ہمیشہ کی طرح کھیلتے رہے، ہنستے بولتے، گاتے رہے۔ چیں چو روز پھدکو کو کھیلنے کے لیے بلاتی رہی لیکن وہ بار بار بلانے کے باوجود بھی کبھی ان کے ساتھ کھیلنے کے لیے نہیں آیا۔ وہ یہی کہتا رہا کہ توتو اُسے کاٹ لے گا، وہ مجھے پسند نہیں ہے۔ بل کہ وہ چیں چو سے اکثر کہتا کہ :’’ وہ کسی دن تمہیں دھوکا دے سکتا ہے وہ تمہارے دونوں کان کاٹ کر کھا جائے گایا تمہاری دم چبا جائے گا۔ وہ بہت دھوکے باز ہے۔ ‘‘

          وقت گذرتا رہا کہ ایک دن جھاڑی کے قریب سے چند لڑکے جا رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں غلیلیں تھیں، وہ صورت شکل سے ہی بڑے شرارتی لگ رہے تھے۔ چیں چو اور توتو جہاں کھیل رہے تھے وہ لڑکے وہیں سے گذرے تھے۔ اُن میں سے ایک نے کہا:’’ میرا نشانہ ایسا پکا ہے کہ جس کو غلیل ماروں وہ بچ ہی نہیں سکتا۔ مَیں اڑتے ہوئے پرندے کا بھی نشانہ لگا سکتا ہوں۔‘‘

          ’’ تو چلیں بندر کو غلیل ماریں۔‘‘ ایک لڑکے نے کہا۔’’ وہ دیکھو ! بندر شاخ پر بیٹھا ہے۔‘‘

          ’’ ہاں دیکھیں ! کس کا نشانہ صحیح بیٹھتا ہے؟‘‘ ایک دوسرے لڑکے نے کہا۔

          اُن لڑکوں کی باتیں چیں چو نے بھی سنا اور توتو نے بھی۔ توتو بولا:’’ چیں چو! تم یہیں رہو۔ مَیں اِن لڑکوں کے ساتھ ساتھ جاتا ہوں۔ یہ جیسے ہی غلیل چلانے جائیں گے۔ مَیں اتنی زور سے بھونکوں گا کہ یہ ڈر کر بھاگ جائیں گے۔ اپنی بھوں بھوں سے مَیں انھیں ایسا ڈراؤں گا کہ پھر کبھی بھی وہ ادھر آنے کی ہمت نہیں کریں گے۔‘‘

          ’’ ٹھیک ہے، لیکن مَیں بھی آتی ہوں۔ تم جا کر اُن لڑکوں کو ڈراؤ۔‘‘ چیں چو نے کہا۔

          لڑکے جلدی سے درخت کے پاس پہنچے۔ ایک لڑکے نے کہا :’’دیکھو میرا نشانہ کتنا صحیح ہے مَیں غلیل چلاؤں گا تو میرا ڈھیلا سیدھا بندر کے سر پر لگے گا۔ ‘‘

          توتو کے قریب آ کر چیں چو بھی کھڑی ہو گئی۔ پھدکو بندر درخت پر سے دیکھ رہا تھا کہ ایک لڑکا اس کو غلیل مارنے والا ہے۔ اُس نے سوچ لیا کہ جیسے ہی وہ لڑکا غلیل چلائے گا وہ چھلانگ لگا کر دوسری شاخ پر چلا جائے گا۔

          لڑکے نے جیسے ہی غلیل سے نشانہ لگایا۔ توتو نے ایسی زور سے بھوں بھوں بھونکا کہ وہ بُری طرح ڈر گئے اور غلیل وہیں پھینک کر نو دو گیارہ ہو گئے۔ پھدکو نے دیکھا کہ لڑکے ڈر کر وہاں سے بھاگ گئے اور اس نے یہ بھی دیکھا کہ ان کو توتو نے ڈرا کر بھگایا ہے۔

          اب پھدکو بڑا شرمندہ ہوا۔ کہیں ڈھیلا اسے لگ جاتا تو؟ توتو نے شرارتی لڑکوں کو بھگا کر اُس پر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔

          پھدکو شاخ سے کود کر نیچے آیا اور توتو سے بولا:’’ بھیا! مجھے معاف کر دینا۔‘‘

          ’’کس بات کے لیے ؟‘‘ توتو نے انجان بن کر پوچھا۔ ’’ کیا چیں چو دیدی نے تمہیں کچھ نہیں بتایا؟‘‘ پھدکو نے کہا۔

          ’’ نہیں مجھے تو کچھ نہیں معلوم۔‘‘ توتو بولا اور چیں چو سے پوچھا:’’ کیا بات ہے چیں چو؟‘‘

          ’’ کچھ نہیں کوئی بات نہیں ہے۔‘‘ چیں چو بولی۔ وہ توتو کو کچھ بتانا نہیں چاہتی تھی کہ کہیں پھدکو اور توتو میں دراڑ پڑ جائے۔

          اب پھدکو خود ہی بولا :’’ مَیں نے ایک دن چیں چو سے کہا تھا کہ توتو تمہیں کسی دن دھوکا دے گا، اُس کا ساتھ چھوڑ دو۔‘‘

          توتو ہنسا :’’ بس اتنی سی بات، اس کے لیے معافی مت مانگو۔ تمہارے دل میں شک تھاسو وہ آج دور ہو گیا۔ ہم تینوں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔

          توتو کتے نے  نے پھدکو بندر کا ہاتھ پکڑ لیا۔ پھدکو بندر کا ہاتھ چیں چو بلی نے پکڑ لیا اور تینوں کہتے جا رہے تھے ہم تینوں دوست ہیں۔              (سی۔ ر۔ پرساد)       

 

٭٭٭

مصنف کے فائل فراہمی کے لئے تشکر کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔