08:13    , ہفتہ   ,   18    مئی   ,   2024

مجموعہ بزمِ تصوّر

1843 1 0 00




میں بزمِ تصوّر میں اُسے لائے ہوئے تھا

میں بزمِ تصوّر میں اُسے لائے ہوئے تھا

جو ساتھ نہ آنے کی قسم کھائے ہوئے تھا

دل جرمِ محبت سے کبھی رہ نہ سکا باز

حالاں کہ بہت بار سزا پائے ہوئے تھا

ہم چاہتے تھے، کوئی سُنے بات ہماری

یہ شوق ہمیں گھر سے نکلوائے ہوئے تھا

ہونے نہ دیا خود پہ مسلّط اُسے میں نے

جس شخص کو جی جان سے اپنائے ہوئے تھا

بیٹھے تھے شعور آج مرے پاس وہ گُم صم

میں کھوئے ہوئے تھا نہ اُنہیں پائے ہوئے تھا

٭٭٭






ٹوٹا طلسمِ وقت تو کیا دیکھتا ہوں میں

ٹوٹا طلسمِ وقت تو کیا دیکھتا ہوں میں

اب تک اسی جگہ پہ اکیلا کھڑا ہوں میں

یہ کشمکش الگ ہے کہ کس کشمکش میں ہوں

آتا نہیں سمجھ میں، بہت سوچتا ہوں میں

مجھ سے نہیں اسے مرے فردا سے ہے امید

منزل ہے کوئی اور فقط راستہ ہوں میں

کیا یہ جگہ ہے؟ جس کی تمنا میں آج تک

دن رات شہر شہر بھٹکتا رہا ہوں میں

مشعل بدست گھومتے گزری ہے ایک عمر

اب کس کے انتظار میں ٹھہرا ہوا ہوں میں

٭٭٭






نادم ہیں اپنی بھُول پہ ہم ، بھُول جائیے

نادم ہیں اپنی بھُول پہ ہم ، بھُول جائیے

جو کچھ ہوا براہِ کرم ، بھُول جائیے

ہم نے سرور و لطف میں جو کچھ کہا سنا

سب جھوٹ تھا خدا کی قسم ، بھُول جائیے

تکلیف اور غم کا مداوا ہے ایک ہی

تکلیف بھُول جائیے، غم بھُول جائیے

پی لیجیے پیالۂ سقراط بوند بوند

آبِ حیات ہے کہ یہ سم ، بھُول جائیے

ہونا بھی ایک خواب نہ ہونا بھی ایک خواب

کیا ہے وجود کیا ہے عدم ، بھُول جائیے

رکھیے اب اپنی عمر کی نقدی سنبھال کر

جو خرچ ہو گئی وہ رقم ، بھُول جائیے

آپ ایک بار آ گئے سو آ گئے شعور

باغِ جہاں میں باغِ ارم ، بھُول جائیے

٭٭٭






برا بری کے علاوہ بھلا بھی ہوتا ہے

برا بری کے علاوہ بھلا بھی ہوتا ہے

ہر آدمی میں کوئی دوسرا بھی ہوتا ہے

تم اپنے دیس کی سوغات ہو ہمارے لیئے

کہ حسن تحفۂ آب و ہوا بھی ہوتا ہے

تمہارے شہر میں ہے جی لگا ہوا ورنہ

مسافروں کے لیے راستہ بھی ہوتا ہے

وہ چہرہ اک تصور بھی ہے ،حقیقت بھی

دریچہ بند بھی ہوتا ہے ، وا بھی ہوتا ہے

ہم اے شعور اکیلے کبھی نہیں ہوتے

ہمارے ساتھ ہمارا خدا بھی ہوتا ہے

٭٭٭






میری قسمت کہ وہ اب ہیں میرے غمخواروں میں

میری قسمت کہ وہ اب ہیں میرے غمخواروں میں

کل جو شامل تھے تیرے حاشیہ برداروں میں

زہر ایجاد کرو اور یہ پیہم سوچو

زندگی ہے کہ نہیں دوسرے سیاروں میں

کتنے آنسو ہیں کہ پلکوں پہ نہیں آ سکتے

کتنی خبریں ہیں جو چھپتی نہیں اخباروں میں

اب تو دریا کی طبیعت بھی ہے گرداب پسند

اور وہ پہلی سی ساکت بھی نہیں پتواروں میں

آپ کے قصر کی جانب کوئی دیکھے ، توبہ !

جرم ثابت ہو تو چن دیجئے دیواروں میں

آج تہذیب کے تیور بھی ہیں قاروں جیسے

دفن ہو جائے نہ کل اپنے ہی انباروں میں

اپنی آواز کو بھی کان ترستے ہیں میرے

جنس گفتار لیے پھرتا ہوں بازاروں میں

تہمتیں حضرت انسان پر نہ دھریئے انور

دشمنی ہے کہ چلی آتی ہے تلواروں میں

٭٭٭






نہ سہہ سکوں گا غمِ ذات کو اکیلا میں

نہ سہہ سکوں گا غمِ ذات کو اکیلا میں

کہاں تک اور کسی پر کروں بھروسا میں

ہنر وہ ہے کہ جیوں چاند بن کر آنکھوں میں

رہوں دلوں میں قیامت کی طرح برپا میں

وہ رنگ رنگ کے چھینٹے پڑے کہ اس کے بعد

کبھی نہ پھر نئے کپڑے پہن کے نکلا میں

نہ صرف یہ کہ زمانہ ہی مجھ پہ ہنستا ہے

بنا ہوا ہوں خود اپنے لیے تماشا میں

مجھے سمیٹنے آیا بھی تھا کوئی؟ جس وقت

دیار و دشت و دمن میں بکھر رہا تھا میں

نہ میں کسی کے لیے ہوں نہ کوئی میرے لیے

یہ میری زندگی ہے تو کیا میری زندگی کیا میں

یہ کس طرح کی محبت تھی کیسا رشتہ تھا

کہ ہجر نے نہ رلایا اسے نہ تڑپا میں

پڑا رہوں نہ قفس میں تو کیا کروں آخر

کہ دیکھتا ہوں بہت دور تک دھندلکا میں

بہت ملول ہوں اے صورت آشنا تجھ سے

کہ تیرے سامنے کیوں آگیا سراپا میں

یہی نہیں کہ تجھی کو نہ تھی امید ایسی

مجھے بھی علم نہیں تھا کہ یہ کروں گا میں

میں خاک ہی سے بنا تھا تو کاش یوں بنتا

کہ اس کے ہاتھ سے گرتے ہی ٹوٹ جاتا میں

٭٭٭






اسے آنکھوں کا نور کہتے ہیں

اسے آنکھوں کا نور کہتے ہیں

اور دل کا سرور کہتے ہیں

اس کے مسکن کو ہم کوئی فردوس

اور اسے ایک حور کہتے ہیں

وہ بلاتے ہیں اپنے پاس مگر

اور جاؤ تو دور کہتے ہیں

جو نہیں چاہتا کوئی سننا

ہم وہ باتیں ضرور کہتے ہیں

سب لگاتے ہیں عشق پر الزام

حسن کو بے قصور کہتے ہیں

ایک دن خاک میں پہنچتا ہے

ہر سرِ پر غرور کہتے ہیں

یاد رہتا ہے سننے والے کو

آپ جو کچھ حضور کہتے ہیں

ہوش میں ہم جو کہہ نہیں سکتے

ہو کے نشے میں چور کہتے ہیں

اپنے انور شعور کو اکثر

ہم سخنور شعور کہتے ہیں

٭٭٭






دھوکا کریں، فریب کریں یا دغا کریں

دھوکا کریں، فریب کریں یا دغا کریں

ہم کاش دوسروں پہ نہ تہمت دھرا کریں

رکھا کریں ہر ایک خطا اپنے دوش پر

ہر جرم اپنی فردِ عمل میں لکھا کریں

احباب اگر تمام نہیں لائقِ وفا

ایک آدھ با وفا سے تو وعدہ وفا کریں

روٹھا کریں ضرور مگر اس طرح نہیں

اپنی کہا کریں نہ کسی کی سُنا کریں

فرصت ملا کرے تو خرافات کے بجائے

اک گوشۂ چمن میں کتابیں پڑھا کریں

چھپوا دیا کریں کسی اخبار میں کلام

لیکن مشاعروں میں نہ شرکت کیا کریں

اعلانِ ترکِ بادہ گساری کے باوجود

پینا ہی لازمی ہو تو چھپ کر پیا کریں

گھر میں ہزار ادائیں دکھایا کریں شعور

دنیا کے سامنے نہ تماشہ کیا کریں

٭٭٭






اگرچہ اُس سے بچھڑ کر لکھا بہت کچھ ہے

اگرچہ اُس سے بچھڑ کر لکھا بہت کچھ ہے

نہیں ہے کام کا کچھ بھی کہا بہت کچھ ہے

زہے نصیب کہ لٹنے کہ بعد بھی گھر میں

سکوت و ظلمت و حبس و بلا بہت کچھ ہے

مرے پڑوس کی تختی بدل گئی پرسوں

ہوا تو کچھ نہیں، لیکن ہوا بہت کچھ ہے

وہ دیکھ ، بام کے اُوپر دھوئیں کے مرغولے

جلا تو خیر سے کم ہے، بجھا بہت کچھ ہے

اُسے نہ پاؤ گے جب تک مجھے نہ سمجھو گے

مرا رفیقِ مزاج آشنا بہت کچھ ہے

وہ شوق اور وہ شدّت کہاں مگر اب بھی

نگاہِ محو و دلِ مبتلا بہت کچھ ہے

اُسے قریب سے دیکھا کبھی نہیں ہم نے

مگر شعور کی بابت سُنا بہت کچھ ہے

٭٭٭






جو سنتا ہوں کہوں گا میں، جو کہتا ہوں سنوں گا میں

جو سنتا ہوں کہوں گا میں، جو کہتا ہوں سنوں گا میں

ہمیشہ مجلسِ نطق و سماعت میں رہوں گا میں

نہیں ہے تلخ گوئی شیوۂ سنجیدگاں لیکن

مجھے وہ گالیاں دیں گے تو کیا چپ سادھ لوں گا میں

کم از کم گھر تو اپنا ہے، اگر ویران بھی ہوگا

تو دہلیز و در و دیوار سے باتیں کروں گا میں

یہی احساس کافی ہے کہ کیا تھا اور اب کیا ہوں

مجھے بالکل نہیں تشویش آگے کیا بنوں گا میں

مری آنکھوں کا سونا چاہے مٹی میں بکھر جائے

اندھیری رات! تیری مانگ میں افشاں بھروں گا میں

تساہل ایک مشکل لفظ ہے، اس لفظ کا مطلب

کتابوں میں کہاں ڈھونڈوں، کسی سے پوچھ لوں گا میں

حصول آگہی کے وقت کاش اتنی خبر ہوتی

کہ یہ وہ آگ ہے جس آگ میں زندہ جلوں گا میں

اُداسی کی ہوائیں آج پھر چلنے لگیں؟ اچھا

تو بس آج اور پی لوں، کل سے قطعاً چھوڑ دوں گا میں

کوئی اک آدھ تو ہوگا مجھے جو راس آ جائے

بساطِ وقت پر ہیں جس قدر مہرے چلوں گا میں

نہ لکھ پایا ترے دل میں اگر تحریرِ غم اپنی

تری ماتھے پہ اک گہری شکن ہی کھینچ دوں گا میں

کیا ہے گردشوں سے تنگ آ کر فیصلہ میں نے

کہ محنت کے علاوہ چاپلوسی بھی کروں گا میں

اگر اس مرتبہ بھی آرزو پوری نہیں ہوگی

تو اس کے بعد آخر کس بھروسے پر جیوں گا میں

یہی ہوگا، کسی دن ڈوب جاؤں گا سمندر میں

تمناؤں کی خالی سیپیاں کب تک چنوں گا میں






یہ مت پوچھو کہ کیسا آدمی ہوں

یہ مت پوچھو کہ کیسا آدمی ہوں

کرو گے یاد، ایسا آدمی ہوں

مرا نام و نسب کیا پوچھتے ہو

ذلیل و خوار و رُسوا آدمی ہوں

تعارف اور کیا اس کے سوا ہو

کہ میں بھی آپ جیسا آدمی ہوں

زمانے کے جھمیلوں سے مجھے کیا

مری جاں! میں تمھارا آدمی ہوں

چلے آیا کرو میری طرف بھی

محبت کرنے والا آدمی ہوں

توجہ میں کمی بیشی نہ جانو

عزیزو! میں اکیلا آدمی ہوں

گزاروں ایک جیسا وقت کب تک

کوئی پتھر ہوں میں یا آدمی ہوں

شعور آ جاؤ میرے ساتھ لیکن

میں اک بھٹکا ہوا سا آدمی ہوں






شیخ صاحب کل ہمیں گم راہ فرماتے رہے

شیخ صاحب کل ہمیں گم راہ فرماتے رہے

ہم رہے خاموش عالی جاہ فرماتے رہے

جانے کیوں دل کو رہا بے اعتنائی کا گلہ

گو توجہ آپ خاطر خواہ فرماتے رہے

ہم نے قسمت کی سیاہی کا لکھا پورا کیا

روشنی دن رات مہر و ماہ فرماتے رہے

خود ہنسی آتی ہے اپنی سادہ لوحی پر ہمیں

وہ ستم ڈھاتے رہے ہم آہ فرماتے رہے

ملکِ دل کی کیفیت سے مختلف حالات میں

ما بدولت قوم کو آگاہ فرماتے رہے

کون کہتا ہے کہ دل رکھنا نہیں آتا انہیں

ہم غزل پڑھتے رہے وہ واہ فرماتے رہے

کچھ کسی نے دے دیا تو لے لیا ہم نے شعور

شاعری ہم فی سبیل اللہ فرماتے رہے

٭٭٭






اور نہ دربدر پھرا، اور نہ آزما مجھے

اور نہ دربدر پھرا، اور نہ آزما مجھے

بس مرے پردہ دار بس، اب نہیں حوصلہ مجھے

حبس ِ ہجوم ِ خلق سے، گھُٹ کے الگ ہُوا تو میں

قطرہ بہ سطح ِ بحر تھا، چاٹ گئی ہوا مجھے

رات لغات ِ عمر سے، میں نے چنا تھا ایک لفظ

لفظ بہت عجیب تھا، یاد نہیں رہا مجھے

صبر کرو محاسبو، وقت تمہیں بتائے گا

دہر کو میں نے کیا دیا، دہر سے کیا ملا مجھے

٭٭٭






سلیمانِ سخن تو خیر کیا ہوں

سلیمانِ سخن تو خیر کیا ہوں

یکے از شہرِ یارانِ سبا ہوں

وہ جب کہتے ہیں، فردا ہے خوش آئند

عجب حسرت سے مُڑ کر دیکھتا ہوں

فراق اے ماں کہ میں زینہ بہ زینہ

کلی ہوں، گل ہوں، خوشبو ہوں، صبا ہوں

سحر اور دوپہر اور شام اور شب

میں ان لفظوں کے معنی سوچتا ہوں

کہاں تک کاہلی کے طعن سنتا

تھکن سے چور ہو کر گر پڑا ہوں

ترقی پر مبارک باد مت دو

رفیقو! میں اکیلا رہ گیا ہوں

کبھی روتا تھا اُس کو یاد کر کے

اب اکثر بے سبب رونے لگا ہوں

سُنے وہ اور پھر کر لے یقیں بھی

بڑی ترکیب سے سچ بولتا ہوں






گو کٹھن ہے طے کرنا عمر کا سفر تنہا

گو کٹھن ہے طے کرنا عمر کا سفر تنہا

لَوٹ کر نہ دیکھوں گا چل پڑا اگر تنہا

سچ ہے عمر بھر کس کا کون ساتھ دیتا ہے

غم بھی ہو گیا رخصت دل کو چھوڑ کر تنہا

آدمی کو گمراہی لے گئی ستاروں تک

رہ گئے بیاباں میں حضرتِ خضر تنہا

ہے تو وجہِ رُسوائی میری ہمرہی لیکن

راستوں میں خطرہ ہے، جاؤ گے کدھر تنہا

اے شعور اس گھر میں، اس بھرے پُرے گھر میں

تجھ سا زندہ دل تنہا اور اس قدر تنہا؟

٭٭٭






بشارت ہو کہ اب مجھ سا کوئی پاگل نہ آئے گا

بشارت ہو کہ اب مجھ سا کوئی پاگل نہ آئے گا

یہ دورِ آخرِ دیوانگی ہے، بیت جائے گا

کسی کی زندگی ضائع نہ ہوگی اب محبت میں

کوئی دھوکا نہ دے گا اب کوئی دھوکا نہ کھائے گا

نہ اب اُترے گا قدسی کوئی انسانوں کی بستی پر

نہ اب جنگل میں چرواہا کوئی بھیڑیں چرائے گا

گروہِ ابنِ آدم لاکھ بھٹکے، لاکھ سر پٹکے

اب اس اندر سے کوئی راستہ باہر نہ آئے گا

بشر کو دیکھ کر بے انتہا افسوس ہوتا ہے

نہ معلوم اس خراباتی کو کس دن ہوش آئے گا

مٹا بھی دے مجھے اے مصور! تا بہ کہ آخر

بنائے گا بگاڑے گا، بگاڑے گا بنائے گا

محبت بھی کبھی اے دوست! تردیدوں سے چھپتی ہے

کسے قائل کرے گا تو، کسے باور کرائے گا

غنیمت جان اگر دو بول بھی کانوں میں پڑ جائیں گے

کہ پھر یہ بولنے والا نہ روئے گا ، نہ گائے گا

شعور آخر اُسے ہم سے زیادہ جانتے ہو تم؟

بہت سیدھا سہی لیکن تمھیں تو بیچ کھائے گا

٭٭٭






ختم ہر اچھا بُرا ہو جائے گا

ختم ہر اچھا بُرا ہو جائے گا

ایک دن سب کچھ فنا ہو جائے گا

کیا پتہ تھا، دیکھنا اُس کی طرف

حادثہ اتنا بڑا ہو جائے گا

مدّتو ں سے بند دروازہ کوئی

دستکیں دینے سے وا ہو جائے گا

ہے ابھی تک اُس کے آنے کا یقیں

جیسے کوئی معجزہ ہو جائے گا

مُسکرا کر دیکھ لیتے ہو مجھے

اِ س طرح کیا حق ادا ہو جائے گا؟

کاش ہو جاؤ مرے ہمراہ تم

ورنہ کوئی دوسرا ہو جائے گا

کل کا وعدہ، اور اِس بحران میں؟

جانے کل دنیا میں کیا ہو جائے گا

"رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو"

ظلم جب حد سے سوا ہو جائے گا

آپ کا کچھ بھی نہ جائے گا شعورؔ

ہم غریبوں کا بھلا ہو جائے گا

٭٭٭






نہ سہ سکوں گا غمِ ذات گو اکیلا میں

نہ سہ سکوں گا غمِ ذات گو اکیلا میں

کہاں تک اور کسی پر کروں بھروسا میں

وہ رنگ رنگ کے چھینٹے پڑے کہ اُس کے بعد

کبھی نہ پھر نئے کپڑے پہن کے نکلا میں

نہ صرف یہ کہ زمانہ ہی مجھ پہ ہنستا ہے

بنا ہوا ہُوں خود اپنے لئے تماشا میں

مجھے سمیٹنے آیا بھی تھا کوئی ؟ جس دن

دیار و دشت و دمن میں بکھر رہا تھا میں

نہ میں کسی کے لئے ہُوں نہ کوئی میرے لئے

یہ زندگی ہے تو کیا میری زندگی ، کیا میں

پڑا رہوں نہ قفس میں تو کیا کروں آخر

کہ دیکھتا ہوں بڑی دور تک دھندلکا میں

اب اس قدر نہ ستاؤ کہ سانس اُکھڑ جائے

بساط سے کہیں بڑھ کر ہوا ہوں رسوا میں

میں خاک ہی سے بنا تھا تو کاش یوں ہوتا

کہ اُس کے ہاتھ سے گرتے ہی ٹوٹ جاتا میں

٭٭٭






میں خاک ہوں، آب ہوں، ہوا ہوں

میں خاک ہوں، آب ہوں، ہوا ہوں

اور آگ کی طرح جل رہا ہوں

تہہ خانۂ ذہن میں نہ جانے

کیا شے ہے جسے ٹٹولتا ہوں

دُنیا کو نہیں ہے مری پروا؟

میں کب اُسے گھاس ڈالتا ہوں

بہروپ نہیں بھرا ہے میں نے

جیسا بھی ہوں سامنے کھڑا ہوں

اچھوں کو تو سب ہی چاہتے ہیں

ہے کوئی؟ کہ میں بُرا ہوں

پاتا ہُوں اُسے بھی اپنی جانب

مُڑ کر جو کسی کو دیکھتا ہوں

بچنا ہے مُحال اِس مرض میں

جینے کے مرض میں مبتلا ہوں

اوروں سے تو اجتناب تھا ہی

اب اپنے وجود سے خفا ہوں

باقی ہیں جو چند روز وہ بھی

تقدیر کے نام لکھ رہا ہوں

کہتا ہوں ہر ایک بات سُن کر

یہ بات تو میں بھی کہہ چُکا ہوں

٭٭٭






آدمی کو خاک نے پیدا کیا

آدمی کو خاک نے پیدا کیا

خاک کے ساتھ آدمی نے کیا کیا

رحم کے قابل نہیں تھا آدمی

آسماں نے جو کیا تھوڑا کیا

سوچ لُوں کیا سوچنا ہے، کیا نہیں

سوچنے والا یہی سوچا کیا

ایک دُنیا مجھ سے تھی روٹھی ہوئی

تو نے بھی ٹھکرا دیا، اچھا کیا

کون تھا میرے سوائے صحن میں

وہ مجھے چھپ چھپ کے کیوں دیکھا کیا

پہلے سب سے مشورت کی بیٹھ کر

اور اُس کے بعد جو چاہا کیا

وہ بہت سیدھا سہی لیکن شعور

میرے ساتھ اُس نے بڑا دھوکا کیا

٭٭٭






مجھے یہ جستجو کیوں ہو کہ کیا ہوں اور کیا تھا میں

مجھے یہ جستجو کیوں ہو کہ کیا ہوں اور کیا تھا میں

کوئی اپنے سوا ہوں میں، کوئی اپنے سوا تھا میں

نہ جانے کون سا آتش فشاں تھا میرے سینے میں

کہ خالی تھا بہت پھر بھی دھمک کر پھٹ پڑا تھا میں

تو کیا میں نے نشے میں واقعی یہ گفتگو کی تھی

مجھے خود بھی نہیں معلوم تھا جو سوچتا تھا میں

خود اپنے خول میں گُھٹ کر نہ رہ جاتا تو کیا کرتا

یہاں اک بھیڑ تھی جس بھیڑ میں گم ہو گیا تھا میں

نہ لُٹنا میری قسمت ہی میں تھا لکھا ہوا ورنہ

اندھیری رات تھی اور بیچ رستے میں کھڑا تھا میں

گزرنے کو تو مجھ پر بھی عجب اک حادثہ گزرا

مگر اُس وقت جب صدموں کا عادی ہو چکا تھا میں

میں کہتا تھا سُنو سچائی تو خود ہے صلہ اپنا

یہ نکتہ اکتسابی تھا مگر سچ بولتا تھا میں

تجھے تو دوسروں سے بھی اُلجھنے میں تکلّف تھا

مجھے تو دیکھ، اپنے آپ سے اُلجھا ہوا تھا میں

خلوص و التفات و مہر، جو ہے، اب اُسی سے ہے

جسے پہلے نہ جانے کس نظر سے دیکھتا تھا میں

جو اَب یوں میرے گردا گرد ہیں، کچھ روز پہلے تک

اِنہی لوگوں کے حق میں کس قدر صبر آزما تھا میں

بہت خوش خلق تھا میں بھی مگر یہ بات جب کی ہے

نہ اوروں ہی سے واقف تھا، نہ خود کو جانتا تھا میں

٭٭٭






یہ خود کو دیکھتے رہنے کی ہے جو خُو مجھ میں

یہ خود کو دیکھتے رہنے کی ہے جو خُو مجھ میں

چُھپا ہوا ہے کہیں وہ شگفتہ رو مجھ میں

مہ و نجوم کو تیری جبیں سے نسبت دوں

اب اس قدر بھی نہیں عادتِ غُلو مجھ میں

تغیراتِ جہاں دل پہ کیا اثر کرتے

ہے تیری اب بھی وہی شکل ہو بہو مجھ میں

رفو گروں نے عجب طبع آزمائی کی

رہی سرے سے نہ گُنجائشِ رفو مجھ میں

وہ جس کے سامنے میری زباں نہیں کھلتی

اُسی کے ساتھ تو ہوتی ہے گفتگو مجھ میں

خُدا کرے کہ اُسے دل کا راستہ مل جائے

بھٹک رہی ہے کوئی چاپ کُو بہ کُو مجھ میں

اُس ایک زہرہ جبیں کے طفیل جاری ہے

تمام زہرہ جبینوں کی جستجو مجھ میں

نہیں پسند مجھے شعر و شاعری کرنا

کبھی کبھار بس اُٹھتی ہے ایک ہُو مجھ میں

میں زندگی ہوں مجھے اس قدر نہ چاہ شعور

مسافرانہ اقامت گزیں ہے تو مجھ میں

٭٭٭






کسی شام چپکے سے در آئے گا

کسی شام چپکے سے در آئے گا

جو بھولا ہوا ہے وہ گھر آئے گا

زمیں پر کہیں بھی چلا جائے وہ

زمیں گول ہے، گھوم کر آئے گا

جو ہم نے کہا تھا، نظر آگیا

جو ہم کہہ رہے ہیں، نظر آئے گا

اکیلا نہ جا، رات کا وقت ہے

تجھے گُھپ اندھیرے میں ڈر آئے گا

گزارو گے جس کے لئے مدّتیں

وہ لمحہ بہت مختصر آئے گا

کرو خدمتِ صاحبانِ ہنر

ہنر سیکھنے سے ہنر آئے گا

ترا قول تھا عمر بھر کے لئے

مجھے یاد تُو عمر بھر آئے گا

محبت میں پڑتی نہیں جھریاں

میں پہچان لوں گا اگر آئے گا

شعورؔ اس طرح جا رہا ہے وہاں

نہ آیا مجاہد تو سر آئے گا

٭٭٭






ہم نوائی کی اُمید اے مرے فن کس سے کروں

ہم نوائی کی اُمید اے مرے فن کس سے کروں

ہو سخن سنج نہ کوئی تو سُخن کس سے کروں

خوار و بے یار و مددگار پڑا ہوں، آخر

ذکرِ بے گانگیِ اہلِ وطن کس سے کروں

کاغذی پھول یہاں پھیل گئے ہیں گھر گھر

دکھ بیاں آپ کا اے سر و سمن کس سے کروں

ہر گُلِ تازہ و تر میں جو تجھے دیکھتی تھی

وہ نظر ہی نہ رہی، سیرِ چمن کس سے کروں

بات ہوتی ہے محبت کی لطیف و نازک

نہ سُنے تو ہی تو اے غنچہ دہن کس سے کروں

اک نئی شمع نہ ہر روز جلاؤں تو شعورؔ

نو بہ نو دل کا شبستانِ کہن کس سے کروں

٭٭٭






وہ لب میری نظر کے سامنے ہے

وہ لب میری نظر کے سامنے ہے

گُلِ تر چشمِ تر کے سامنے ہے

دوامی زندگی کی کیا حقیقت

حیاتِ مختصر کے سامنے ہے

دریچہ باغ میں کھلتا تھا پہلے

اب اک بازار گھر کے سامنے ہے

بشر نے ہاتھ سے تعمیر کی ہے

یہ دنیا جو بشر کے سامنے ہے

شعور اپنی زباں سے کیا بتاؤں

سبھی کچھ شہر بھر کے سامنے ہے

٭٭٭






کیا چاہیے نہ تھا یہ کبھی پوچھنا تمھیں

کیا چاہیے نہ تھا یہ کبھی پوچھنا تمھیں

کیسے ہو تم شعورؔ یہ کیا ہو گیا تمھیں

ماتھا جلا ہوا ہے کڑی دھوپ سے اور آنکھ

کہتی ہے رات رات کا جاگا ہوا تمھیں

کیا اضطراب تھا کہ سکوں چھین لے گیا

کیا انقلاب تھا جو نہ راس آ سکا تمھیں

کس سمت سے چلی تھی، کس آنگن سے آئی تھی

بادِ سموم، جس نے پریشاں کیا تمھیں

کیوں گرد گرد ہے یہ قبا جس کے باب میں

تھا ناگوار لمسِ لطیفِ صبا تمھیں

عرصے سے کیوں غزل کوئی شائع نہیں ہوئی

کیوں نشر گاہ سے نہ کسی نے سنا تمھیں

وہ جمگھٹا، وہ بھیڑ، وہ جلسے کہاں گئے

چھوڑا تمھارے چاہنے والوں نے کیا تمھیں

رہتے ہو کیوں اکیلے اکیلے اُداس اُداس

کیا دوستوں سے آنے لگی ہے حیا تمھیں

میں نے تو کوئی دکھ تمھیں ہرگز نہیں دیا

پھر دو جہاں کا کون سا غم کھا گیا تمھیں

میں سامنے ہوں جان ذرا آنکھ اُٹھاؤ

مدت ہوئی ہے دیکھے ہوئے آئنہ تمھیں

٭٭٭






کٹ چکی تھی یہ نظر سب سے بہت دن پہلے

کٹ چکی تھی یہ نظر سب سے بہت دن پہلے

میں نے دیکھا تھا تجھے اب سے بہت دن پہلے

آج تک گوش بر آواز ہوں سنّاٹے میں

حَرف اُترا تھا ترے لب سے بہت دن پہلے

میں نے مستی میں یہ پوچھا تھا کہ ہستی کیا ہے

رفتگانِ مئے و مشرب سے بہت دن پہلے

مسلکِ عشق فقیروں نے کیا تھا ایجاد

اے مبلّغ ترے مذہب سے بہت دن پہلے

پھر کسی مَے کدہ ء حسن میں ویسی نہ ملی

جیسی پی تھی کسی خوش لب سے بہت دن پہلے

ایک شخص اور ملا تھا مجھے تیرے جیسا

تو نہ تھا ذہن میں جب، جب سے بہت دن پہلے

حضرتِ شیخ کا اک رند سے رشتہ کیسا

ہاں ملے تھے کسی مطلب سے بہت دن پہلے

کیا تری سادگیِ طبع نئی شے ہے شعورؔ

لوگ چلتے تھے اسی ڈھب سے بہت دن پہلے

٭٭٭






خوار پھرتا ہوں جہاں میں ٹھوکریں کھاتا ہوں میں

خوار پھرتا ہوں جہاں میں ٹھوکریں کھاتا ہوں میں

ٹھیر، پھر بھی ٹھیر اے عمرِ رواں آتا ہوں میں

طرزِ دنیا دیکھ کر مجھ سے رہا جاتا نہیں

کچھ نہیں تو آنکھ میں آنسو ہی بھر لاتا ہوں میں

آہ کیسا دوست میں نے کھو دیا تیرے لئے

آج اپنے آپ کو رہ رہ کے یاد آتا ہوں میں

تو نہ رو میری تباہی پر خُدارا تو نہ رو

"تیرے آنسو دیکھ کر بے چین ہو جاتا ہوں میں"

ماضی و موجود مستقبل کے پردے پر شعورؔ

"اک تماشا ہو رہا ہے دیکھتا جاتا ہوں میں"

٭٭٭






مبادا اُس گلی میں جاؤں تو للکار دے کوئی

مبادا اُس گلی میں جاؤں تو للکار دے کوئی

کہیں ایسا نہ ہو پتھر اُٹھا کر مار دے کوئی

مرے سینے میں بھی اک دل چھپا بیٹھا ہے دنیا سے

عیاں کر دوں اگر انصاف کا اقرار دے کوئی

مجھے صحرا نوردی گوشہ گیری کے برابر ہے

بس اب سر پھوڑ لینے کے لئے دیوار دے کوئی

کراچی میں مجھے دنیا کی ہر نعمت میسر ہے

مگر میں پیار کا پیاسا ہوں مجھ کو پیار دے کوئی

شعورؔ آنکھیں تو کھولو، یہ کہاں کی ہوشمندی ہے

محبت کے جُوے میں زندگی تک ہار دے کوئی

٭٭٭






ذہن میرا جِلا کے رُخ پر ہے

ذہن میرا جِلا کے رُخ پر ہے

یہ دریچہ ہوا کے رُخ پر ہے

تل محبت کا ا ک مرے دل میں

اک مرے دلرُبا کے رُخ پر ہے

غور سے دیکھ لو سروں کا جلوس

قافلہ یہ فنا کے رُخ پر ہے

حُسن ہے بھی اگر زمانے میں

ایک اُس خوش نما کے رُخ پر ہے

ہو چلی ہے اُمید مرنے کی

اب طبیعت شفا کے رُخ پر ہے

کیوں نہ پھولی سمائے آج حَیا

تجھ سے روشن ادا کے رُخ پر ہے

با وفاؤں کے خون کی سُرخی

بے وفا بے وفا کے رُخ پر ہے

حُسن ہے صرف سادگی میں، اور

سادگی بے رِیا کے رُخ پر ہے

عطر مل کے چلے شعورؔ کہاں

کیا سُلیماں سَبا کے رُخ پر ہے

٭٭٭






کیا بیابان، کیا نگر جاؤ

کیا بیابان، کیا نگر جاؤ

ایک سا حال ہے جدھر جاؤ

خُود کُشی تک حرام ہے یعنی

یہ بھی ممکن نہیں کہ مر جاؤ

عشق میں ذات کیا، انا کیسی

ان مقامات سے گزر جاؤ

اور آلودہ مت کرو دامن

آنسوؤ! روح میں اُتر جاؤ

سُکھ سڑک پر پڑا نہیں ملتا

کُو بہ کُو جاؤ ، در بہ در جاؤ

میں تو قیدِ مکاں نہ توڑ سکا

اے خیالو! تمھی بکھر جاؤ

جانے کب سے بھٹک رہے ہو شعور

رات ڈھلنے لگی ہے ، گھر جاؤ

٭٭٭






تم نے جو عہد کئے تھے وہ سبھی توڑے ہیں

تم نے جو عہد کئے تھے وہ سبھی توڑے ہیں

اب تو آ جاؤ کہ اب عُمر کے دن تھوڑے ہیں

آج مر جاؤں تو نکلیں نہ کفن کے پیسے

یوں تو کہنے کو مرے پاس کئی جوڑے ہیں

اے زر و سیم کے انبار لگانے والے

دیکھ، یہ ماضی ء مرحوم کے کچھ توڑے ہیں

کون سا جُرم کروں، فاقہ کشی یا چوری

اِس کی تعزیر اجل، اُس کی سزا کوڑے ہیں

دستِ مزدور جھٹکنے سے نہیں جھُک سکتا

اجر مانگا ہے ، کوئی ہاتھ نہیں جوڑے ہیں

آنے والوں سے مٹائے نہ مٹیں گے صدیوں

جانے والوں نے عجب نقش و نشاں چھوڑے ہیں

ہیں تو گمراہ شعورؔ آپ مگر وہ گمراہ

جس نے کچھ قافلہ ء دہر کے رُخ موڑے ہیں

٭٭٭






مری حیات ہے بس رات کے اندھیرے تک

مری حیات ہے بس رات کے اندھیرے تک

مجھے ہوا سے بچائے رکھو سویرے تک

دُکانِ دل میں نوادر سجے ہوئے ہیں مگر

یہ وہ جگہ ہے کہ آتے نہیں لُٹیرے تک

مجھے قبول ہیں یہ گردشیں تہہِ دل سے

رہیں جو صرف تیرے بازوؤں کے گھیرے تک

سڑک پہ سوئے ہوئے آدمی کو سونے دو

وہ خواب میں تو پہنچ جائے گا بسیرے تک

چمک دمک میں دکھائی نہیں دیے آنسو

اگرچہ میں نے یہ نگ راہ میں بکھیرے تک

کہاں ہیں اب وہ مسافر نواز بُہتیرے

اُٹھا کے لے گئے خانہ بدوش ڈیرے تک

تھکا ہوا ہوں مگر اس قدر نہیں کہ شعورؔ

لگا سکوں نہ اب اُس کی گلی کے پھیرے تک

٭٭٭






تری تلاش میں نکلے ہوؤں کا حصّہ ہیں

تری تلاش میں نکلے ہوؤں کا حصّہ ہیں

وہ صورتیں جو نہ معدوم ہیں نہ پیدا ہیں

ہزار ذائقے ہوں گے حیات کے لیکن

ہم ایک ذائقۂ تلخ سے شناسا ہیں

ہمیں ہو شرم ذرا بھی تو ڈوب مرنے کو

چناب و جہلم و راوی، بہت سے دریا ہیں

عجب تھے سچ کے لئے جان دینے والے بھی

پڑے ہیں شہرِ خموشاں میں پھر بھی زندہ ہیں

یہ گاہ گاہ کا ملنا بھی ہے بہت ورنہ

ہمارے تم ہو بھلا کیا ، تمھارے ہم کیا ہیں

بڑوں کو دیکھ کہ ہوتی ہے سخت حیرانی

یہ کوئی اور نہیں ہیں، ہمارے آبا ہیں

تم اب سے قبل بھی ملتے تھے ، اب بھی ملتے ہو

ہم اب سے قبل بھی تنہا تھے، اب بھی تنہا ہیں

٭٭٭






قلاش گو زمین پہ مجھ سا کوئی نہیں

قلاش گو زمین پہ مجھ سا کوئی نہیں

پیتا ہوں زہرِ گُر سنگی، تشنگی نہیں

ویسے تو اس جہان کی رونق میں کیا کلام

جس کے لئے یہ بزم سجی تھی، وہی نہیں

ہمدرد و ہم مزاج میں کیا فرق ہے نہ پوچھ

دکھ بانٹنے کو گھر میں سبھی ہیں، سبھی نہیں

پلکوں کی چلمنوں سے ہیں آنکھیں ڈھکی ہوئی

کیا ہے، بہن کے سر پہ اگر اوڑھنی نہیں

دنیا میں کوئی حال ہو، کُڑھنے سے فائدہ؟

دل کو یہاں سکون کبھی ہے، کبھی نہیں

تھکتا نہ تھا جو بولتے، آج اس شعور کو

ایسی لگی ہے چُپ کہ نہ جی ہاں، نہ جی نہیں

٭٭٭






سوال ہی نہیں دنیا سے میرے جانے کا

سوال ہی نہیں دنیا سے میرے جانے کا

مجھے یقین ہے جب تک کسی کے آنے کا

ملے سفر میں ٹھکانے تو بے شمار مگر

ملا نہ ہم سفروں میں کوئی ٹھکانے کا

کئی تو زندہ و جاوید بھی ہوئے مر کے

کسی کے ہاتھ نہ آیا سِرا زمانے کا

کھلی ہوا کے سوا باغباں سے کیا مانگوں

معاوضہ نہیں لیتے طیور گانے کا

نظامِ زر میں کسی اور کام کا کیا ہو

بس آدمی ہے کمانے کا اور کھانے کا

٭٭٭






دھیان میں وا دریچۂ چشمِ کرم کیے ہوئے

دھیان میں وا دریچۂ چشمِ کرم کیے ہوئے

بیٹھے ہیں اپنے دشت کو باغِ ارم کیے ہوئے

دیکھ رہا ہوں دَور میں سارے صراحی و سبو

جامِ سفالِ صبر کو ساغرِ جم کیے ہوئے

صبح وہ جتنی دیر تک باغ میں گھومتا رہا

سر و سمن کھڑے رہے گردنیں خم کیے ہوئے

اُس کے جواب کی مجھے آج بھی ہے اُمید سی

جیسے ہوئے ہوں چار دن حال رقم کیے ہوئے

اے مرے ہم نواؤ آؤ آج بہت شبیں ہوئیں

نعرہ زناں ہوئے ہوئے، دَم ہمہ دَم کیے ہوئے

رات معاصروں میں ہم لے کے گئے غزل شعور

پہنچے ہوا کے سامنے شمع عَلم کیے ہوئے

٭٭٭






کماں بردوش و آہن پوش رہتا

کماں بردوش و آہن پوش رہتا

تو کیا میں اس طرح خاموش رہتا

نہ رہتا میں، اگر میری رگوں میں

لہو رہتا، لہو میں جوش رہتا

تو کیا اُس بے مروت کے لئے میں

قیامت تک تہی آغوش رہتا

کہاں رہتا، اگر افسانہ ء دل

نہ مابینِ زبان و گوش رہتا

خبر ہوتی کہ یوں چھپتا پھروں گا

تو اپنے آپ میں روپوش رہتا

ٍ٭٭٭






خدا کا شکر، سہارے بغیر بیت گئی

خدا کا شکر، سہارے بغیر بیت گئی

ہماری عمر تمھارے بغیر بیت گئی

ہوئی نہ شمع فروزاں کوئی اندھیرے میں

شبِ فراق ستارے بغیر بیت گئی

وہ زندگی جو گزارے نہیں گزرتی تھی

تیرے طفیل گزارے بغیر بیت گئی

شعور، تیز رہی زندگی کی دوڑ اتنی

کہ ہار جیت شمارے بغیر بیت گئی

٭٭٭






زہر کی چٹکی ہی مل جاۓ براۓ درد ِ دل

زہر کی چٹکی ہی مل جاۓ براۓ درد ِ دل

کچھ نہ کچھ تو چاہیے بابا دواۓ درد ِ دل

رات کو آرام سے ہوں میں نہ دن کو چین سے

ہاۓ ہاۓ وحشت ِ دل، ہاۓ ہاۓ درد ِ دل

درد ِ دل نے تو ہمیں بے حال کر کے رکھ دیا

کاش کوئ اور غم ہوتا بجاۓ درد ِ دل

اس نے ہم سے خیریت پوچھی تو ہم چپ ہو گۓ

کوئ لفظوں میں بھلا کیسے بتاۓ درد ِ دل

دو بلائیں آج کل اپنی شریک ِ حال ہیں

اک بلاۓ درد ِ دنیا، اک بلاۓ درد ِ دل

آج کا انسان دہرا ہے خود اپنے بوجھ سے

کیا سہے درد ِ محبت، کیا اٹھاۓ درد ِ دل

زندگی میں ہر طرح کے لوگ ملتے ہیں شعور

آشناۓ درد ِ دل ، نا آشناۓ درد ِ دل

٭٭٭






موضوعِ گفتگو تری تقریر ہو گئی

موضوعِ گفتگو تری تقریر ہو گئی

پیدا زبانِ خلق میں تاثیر ہو گئی

اے سعیِ پردہ داریِ احوال مرحبا

کس کس معاملے کی نہ تشہیر ہو گئی

بھُولے سے آنکھ بھر کے اُسے دیکھ کیا لیا

وہ زلفِ راہگیر، عناں گیر ہو گئی

فیاضی و سخاوت و انعام و التفات

یہ مملکت تو آپ کی جاگیر ہو گئی

کیا ہو اُسے شعورؔ تجھے دیکھنے کا شوق

شعروں سے آئنہ تری تصویر ہو گئی

٭٭٭






ہو گئے دن جنہیں بھلائے ہوئے

ہو گئے دن جنہیں بھلائے ہوئے

آج کل ہیں وہ یاد آئے ہوئے

میں نے راتیں بہت گزاری ہیں

صرف دل کا دیا جلائے ہوئے

ایک اُسی شخص کا نہیں مذکور

ہم زمانے کے ہیں ستائے ہوئے

سونے آتے ہیں لوگ بستی میں

سارے دن کے تھکے تھکائے ہوئے

مسکرائے بغیر بھی وہ ہونٹ

نظر آتے ہیں مسکرائے ہوئے

گو فلک پہ نہیں، پلک پہ سہی

دو ستارے ہیں جگمگائے ہوئے

الوداعی مقام تک آئے

ہم نظر سے نظر ملائے ہوئے

اے شعورؔ اور کوئی بات کرو

ہیں یہ قصّے سُنے سنائے ہوئے

٭٭٭






توفیقِ علم و حلم و شرافت نہیں مجھے

توفیقِ علم و حلم و شرافت نہیں مجھے

حاصل کسی طرح کی سعادت نہیں مجھے

جب سے سنی ہیں متّقیوں کی کرامتیں

اپنے کیے پہ کوئی ندامت نہیں مجھے

دل چاہتا تو ہے کہ ہَوس کاریاں کروں

لیکن یہ استطاعت و ہمّت نہیں مجھے

خوبانِ شہر بھی نہ ہوئے مجھ پہ ملتفت

میں بھی وہ بد دماغ کہ حسرت نہیں مجھے

تا حشر حاسدوں کو سلامت رکھے خدا

ان کے طفیل کون سی راحت نہیں مجھے

درپے ہُوا ہی کرتے ہیں کج فہم و کم نظر

ان احمقوں سے کوئی شکایت نہیں مجھے

لکھّی گئی ہیں نامہ ء اعمال میں مرے

جن لغزشوں سے دور کی نسبت نہیں مجھے

کیا کیا ہُوئیں نہ حوصلہ افزائیاں کہ اب

زنہار صبر و ضبط کی طاقت نہیں مجھ

چُپ ہوں کہ بارگاہِ حقیقت پناہ سے

اسرار کھولنے کی اجازت نہیں مجھے

٭٭٭






ایسے دیکھا کہ دیکھا ہی نہ ہو

ایسے دیکھا کہ دیکھا ہی نہ ہو

جیسے اُس کی مجھے پروا ہی نہ ہو

یہ سمجھتا ہے ہَر آنے والا

میں نہ آؤں تو تماشا ہی نہ ہو

بعض گھر شہر میں ایسے دیکھے

جیسے اُن میں کوئی رہتا ہی نہ ہو

مجھ سے کترا کے بھلا کیوں جاتا

شاید اُس نے مجھے دیکھا ہی نہ ہو

رات ہر چاپ پہ آتا تھا خیال

اُٹھ کے دیکھوں، کوئی آیا ہی نہ ہو

کیسے چھوڑوں در و دیوار اپنے

کیا خبر لوٹ کے آنا ہی نہ ہو

ہیں سبھی غیر تو اپنا مسکن

شہر کیوں ہو، کوئی صحرا ہی نہ ہو

یوں تو کہنے کو بہت کچھ ہے شعورؔ

کیا کہوں، جب کوئی سنتا ہی نہ ہو

٭٭٭






کچھ لکیریں روز نقشے سے مٹا دیتی ہے آگ

کچھ لکیریں روز نقشے سے مٹا دیتی ہے آگ

کیسے کیسے شہر مٹّی میں ملا دیتی ہے آگ

زندہ رہنا، جلتے رہنے کے برابر ہے مگر

زندگی اک آگ ہے کندن بنا دیتی ہے آگ

جو کلی کھلتی ہے کیاری میں، جلا دیتی ہے دھوپ

جو دیا جلتا ہے دھرتی پر، بجھا دیتی ہے آگ

ایک بچہ بھی ملا جھلسے ہوئے افراد میں

پیڑ کے ہمراہ گُل بوٹے جلا دیتی ہے آگ

یاد اب اوّل تو آتی ہی نہیں اُس کی شعورؔ

اور آتی ہے تو سینے میں لگا دیتی ہے آگ

٭٭٭






متفرق اشعار

اچھا خاصا بیٹھے بٹھائے گُم ہو جاتا ہوں

اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں

*****

دیکھ لیا شعورؔ کو زندہ دلی کے باوجود

ایک اُداس نسل کا ایک اُداس آدمی

*****

سامنے آ کر وہ کیا رہنے لگا

گھر کا دروازہ کھلا رہنے لگا

*****

خود کُشی ہی کا ارادہ ہے تو پھر

ایک پل میں، زندگی بھر میں نہیں

نیکیوں کا اجر ہے کوئی تو کاش

آج ہی مل جائے، محشر میں نہیں

*****

کوئی صدمہ نہیں اُٹھتا شروعِ عشق میں تاہم

بتدریج آدمی سے سارے صدمات اُٹھنے لگتے ہیں

شعورؔ اپنی زباں پر تم خوشی سے مُہر لگنے دو

دبانے سے تو افکار و خیالات اُٹھنے لگتے ہیں

*****

جو کلی کھلتی ہے کیاری میں، جلا دیتی ہے دھوپ

جو دیا جلتا ہے دھرتی پر، بجھا دیتی ہے آگ

ایک بچہ بھی ملا جھلسے ہوئے افراد میں

پیڑ کے ہمراہ گُل بوٹے جلا دیتی ہے آگ

*****

بازاروں میں پھرتے پھرتے دن بھر بیت گیا

کاش ہمارا بھی گھر ہوتا، گھر جاتے ہم بھی

ہم تم کو روتے ہی نہ رہتے اے مرنے والو!

مر کے اگر پا سکتے تم کو، مر جاتے ہم بھی

*****

ماخذ: اردو محفل

ٹائپنگ: محمد احمد اور دوسرے

بیشتر اردو محفل ڈاٹ آرگ اور دوسری ویب سائٹس

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔