02:28    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ ٹہنی گلاب کی

3798 0 0 00




سردرد جیسے نیند کے سینے پہ سو گیا

سردرد جیسے نیند کے سینے پہ سو گیا

ان پھول جیسے ہاتھوں نے ماتھا جونہی چھوا

اک لڑکی ایک لڑکے کے کاندھے پہ سوئی تھی

میں اجلی دھندلی یادوں کے کہرے میں کھو گیا

سناٹے آئے درجوں میں جھانکا چلے گئے

گرمی کی چھٹیاں تھیں وہاں کوئی بھی نہ تھا

ٹہنی گلاب کی مرے سینے سے آ لگی

جھٹکے کے ساتھ کا ر کا رکنا غضب ہوا

***

سر راہ کچھ بھی کہا نہیں کبھی اس کے گھر میں گیا نہیں

میں جنم جنم سے اسی کا ہوں اسے آج تک یہ پتہ نہیں

اسے پاک نظروں سے چومنا بھی عبادتوں میں شمار ہے

کوئی پھول لاکھ قریب ہو کبھی میں نے اس کو چھوا نہیں

یہ خدا کی دین عجیب ہے کہ اسی کا نام نصیب ہے

جسے تو نے چاہا وہ مل گیا جسے میں چاہا ملا نہیں

اسی شہر میں کئی سال سے مرے کچھ قریبی عزیز ہیں

انہیں میری کوئی خبر نہیں مجھے ان کا کوئی پتہ نہیں

***






اب کسے چاہیں کسے ڈھونڈا کریں

اب کسے چاہیں کسے ڈھونڈا کریں

وہ بھی آخر مل گیا اب کیا کریں

ہلکی ہلکی بارشیں ہوتی رہیں

ہم بھی پھولوں کی طرح بھیگا کریں

آنکھ موندے اس گلابی دھوپ میں

دیر تک بیٹھے اسے سوچا کریں

دل محبت دین دنیا شاعری

ہر دریچے سے تجھے دیکھا کریں

گھر نیا کپڑے نئے برتن نئے

ان پرانے کاغذوں کا کیا کریں

***






کوئی پھول دھوپ کی پتیوں میں رہے ربن سے بندھا ہوا

کوئی پھول دھوپ کی پتیوں میں رہے ربن سے بندھا ہوا

وہ غزل کا لہجہ نیا نیا ، وہ کہا ہوا ، نہ سنا ہوا

جسے لے گئی ہے ابھی ہوا وہ ورق تھا دل کی کتاب کا

کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا کہیں آنسوؤں سے لکھا ہو

کئی میل ریت کو کاٹ کر کوئی موج پھول کھلا گئی

کوئی پیڑ پیاس سے مر رہا ہے ندی کے پاس کھڑا ہوا

وہی خط کہ جس پہ جگہ جگہ دو مہکتے ہونٹوں کے چاند تھے

کبھی بھولے بسرے سے طاق پر تہ گرد ہو گا دبا ہوا

مجھے حادثوں نے سجا سجا کے بہت حسین بنا دیا

مرا دل بھی جیسے دلہن کا ہاتھ ہو مہندیوں سے رچا ہوا

وہی شہر ہے وہی راستے وہی گھر ہے اور وہی لان بھی

مگر اس دریچے سے پوچھنا وہ درخت انار کا کیا ہو

مرے ساتھ جگنو ہے ہمسفر مگر اس شرر کی بساط کیا

یہ چراغ کوئی چراغ ہے نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا

***






پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے

پتھر کے جگر والو غم میں وہ روانی ہے

خود راہ بنا لے گا بہتا ہوا پانی ہے

پھولوں میں غزل رکھنا یہ رات کی رانی ہے

اس میں تری زلفوں کی بے ربط کہانی ہے

اک ذہن پریشان میں وہ پھول سا چہرہ ہے

پتھر کی حفاظت میں شیشے کی جوانی ہے

کیوں چاندنی راتوں میں دریا پہ نہاتے ہو

سوئے ہوئے پانی میں کیا آگ لگانی ہے

اس حوصلہ دل پر ہم نے بھی کفن پہنا

ہنس کر کوئی پوچھے گا کیا جان گنوانی ہے

رونے کا اثر دل پر رہ رہ کے بدلتا ہے

آنسو کبھی شیشہ ہے آنسو کھبی پانی ہے

یہ شبنمی لہجہ ہے آہستہ غزل پڑھنا

تتلی کی کہانی ہے پھولوں کی زبانی ہے

***






فلک سے چاند ستاروں سے جام لینا ہے

فلک سے چاند ستاروں سے جام لینا ہے

مجھے سحر سے نئی ایک شام لینا ہے

کسے خبر کہ فرشتے غزل سمجھتے ہیں

خدا کے سامنے کافر کا نام لینا ہے

معاملہ ہے ترا بدترین دشمن سے

مرے عزیز محبت سے کام لینا ہے

مہکتی زلف سے خوشبو چمکتی آنکھ سے دھوپ

شبوں سے جام سحر کا سلام لینا ہے

تمہاری چال کی آہستگی کے لہجے میں

سخن سے دل کو مسلنے کا کام لینا ہے

نہیں میں میر کے در پر کبھی نہیں جاتا

مجھے خدا سے غزل کا کلام لینا ہے

بڑے سلیقے سے نوٹوں میں اس کو تُلوا کر

امیر شہر سے اب انتقام لینا ہے

***






شبنم کے آنسو پھول پر یہ تو وہی قصہ ہوا

شبنم کے آنسو پھول پر یہ تو وہی قصہ ہوا

آنکھیں مری بھیگی ہوئی چہرہ ترا اترا ہوا

اب ان دنوں میری غزل خوشبو کی اک تصویر ہے

ہر لفظ غنچے کی طرح کھل کر تارا چہرہ ہوا

شاید اسے بھی لے گئے اچھی دنوں کے قافلے

اس باغ میں اک پھول تھا تری طرح ہنستا ہوا

ہر چیز ہے بازار میں اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے

عزت گئی شہرت ملے رسوا ہوئے چرچا ہوا

مندر گئے مسجد گئے پیروں فقیروں سے ملے

اک اس کو پانے لے لیے کیا کیا کیا ،کیا کیا ہوا

انمول موتی پیار کے دنیا چار کر لے گئی

دل کی حویلی کا کوئی دروازہ تھا ٹوٹا ہوا

برسات میں دیوار و در کی ساری تحریریں مٹیں

دھویا بہت مٹتا نہیں تقدیر کا لکھا ہوا

***






ٹوٹے ہوئے ستار کے سب تار کس گئے

ٹوٹے ہوئے ستار کے سب تار کس گئے

بارش ہوئی کہ درد کے نغمے برس گئے

کیسی سیاہ رات تھی دہلیز پر کھڑی

وہ مسکرا دیے تو اجالے برس گئے

شادابیوں کے دور کا انجام یہ ہوا

اب کے تو بوند بوند کو دریا ترس گئے

اب خاک اڑ رہی ہے گلابوں کے شہر میں

وہ لو چلی ہے اب کے کہ پتھر جھلس گئے

گھر سے خلوص کیا گیا سب کچھ چلا گیا

باتوں میں رس نہیں رہا ہاتھوں کے جس گئے

کچھ رشک مہر و ماہ یہاں آئے تھے کبھی

کوئی تو کچھ بتائے کہاں جا کے بس گئے

***






دوسروں کو ہماری سزائیں نہ دے

دوسروں کو ہماری سزائیں نہ دے

چاندنی رات کو بد دعائیں نہ دے

پھول سے عاشقی کا ہنر سیکھ لے

تتلیاں خود رکیں گی صدائیں نہ دے

سب گناہوں کا اقرار کرنے لگیں

اس قدر خوب صورت سزائیں نہ دے

میں درختوں کی صف کا بھکاری نہیں

بے وفا موسموں کی قبائیں نہ دے

موتیوں کو چھا سیپیوں کی طرح

بے وفاؤں کو اپنی وفائیں نہ دے

میں بکھر جاؤں گا آنسووں کی طرح

اس قدر پیار سے بد دعائیں نہ دے

***






اس کی چاہت کی چاندنی ہو گی

اس کی چاہت کی چاندنی ہو گی

خوب صورت سی زندگی ہو گی

اک لڑکی بہت سے پھول لیے

دل کی دہلیز پہ کھڑی ہو گی

چاہے جتنے چراغ گل کر دو

اس گھر میں تو روشنی ہو گی

نیند ترسے گی میری آنکھوں کو

جب بھی خوابوں سے دوستی ہو گی

ہم بہت دور تھے مگر تم نے

دل کی آواز تو سنی ہو گی

سوچتا ہوں کہ وہ کہاں ہو گا

کس کے آنگن میں چاندنی ہو گی

***






اب مجھے مے نہیں میکدہ چاہیے

اب مجھے مے نہیں میکدہ چاہیے

کچھ نہیں اور اس کے سوا چاہیے

ایک دن تجھ سے ملنے ضرور آؤں گا

زندگی مجھ کو تیرا پتہ چاہیے

گھر کی دہلیز پر چاند سویا نہ ہو

صبح ہونے کو ہے لوٹنا چاہیے

اس زمانے نے لوگوں کو سمجھا دیا

تم کو آنکھیں نہیں آئینہ چاہیے

یہ زمین آسماں کچھ نئے تو لگیں

مجھ کو ایسی نظر آئے خدا چاہیے

تم سے میری کوئی دشمنی چاہیے

سامنے سے ہٹو راستہ چاہیے

***






سو خلوص باتوں میں سب کرم خیالوں میں

سو خلوص باتوں میں سب کرم خیالوں میں

بس ذرا وفا کم ہے تیرے شہر والوں میں

پہلی بار نظروں نے چاند بولتے دیکھا

ہم جواب کیا دیتے کھو گئے سوالوں میں

رات تیری یادوں نے دل کو اس طرح چھیڑا

جیسے کوئی چٹکی لے نرم نرم گالوں میں

یوں کسی کی آنکھوں میں صبح تک بھی تھے ہم

جس طرح رہے شبنم پھول کے پیالوں میں

میری آنکھ کے تارے اب نہ دیکھ پاؤ گے

رات کے مسافر تھے کھو گئے اجالوں میں

***






ابھی اس طرف نہ نگاہ کر میں غزل کی پلکیں سنوار لوں

ابھی اس طرف نہ نگاہ کر میں غزل کی پلکیں سنوار لوں

میرا لفظ لفظ ہو آئینہ تجھے آئینے میں اتار لوں

میں تمام دن کا تھکا ہوا تو تمام سب کا جگا ہوا

ذرا ٹھر جا اسی موڑ پر تیرے ساتھ شام گذار لوں

اگر آسماں کی نمائشوں میں مجھے بھی اذن قیام ہو

تو میں موتیوں کی دکان سے تری بالیاں ترے ہار لوں

کہیں اور بانٹ دے شہر میں کہیں اور بخش دے عزتیں

میرے پاس ہے مرا آئینہ میں کبھی نہ گرد و غبار لوں

کئی اجنبی تری راہ میں مرے پاس سے یوں گذر گئے

جنہیں دیکھ کر یہ تڑپ ہوئی ترا نام لے کہ پکار لوں

***






راہوں میں کون آیا گیا کچھ پتہ نہیں

راہوں میں کون آیا گیا کچھ پتہ نہیں

اس کو تلاش کرتے رہے جو ملا نہیں

بے آس کھڑکیاں ہیں ستارے اداس ہیں

آنکھوں میں آج نیند کا کوسوں پتا نہیں

میں چپ رہا تو اور غلط فہمیاں پڑھیں

وہ بھی سنا ہے اس نے جو میں نے کہا نہیں

دل میں اسی طرح سے ہے بچپن کی ایک یاد

شاید ابھی کلی کو ہوا نے چھوا نہیں

چہرے پہ آنسوؤں نے لکھی ہیں کہانیاں

آئینہ دیکھنے کا مجھے حوصلہ نہیں

***






چمک رہی ہے پروں میں اڑان کی خوشبو

چمک رہی ہے پروں میں اڑان کی خوشبو

بلا رہے ہی بہت آسمان کی خوشبو

بھٹک رہی ہے پرانی دلائیاں اوڑھے

حویلیوں میں مرے خاندان کی خوشبو

سنا کے کوئی کہنی ہمیں سلاتی تھی

دعاؤں جیسی پڑے پاندان کی خوشبو

دبا تھا پھول کوئی میز پوش کے نیچے

گرج رہی تھی بہت پیچوان کی خوشبو

عجب وقار تھا سوکھے سنہرے بالوں میں

اداسیوں کی چمک زرد لان کی خوشبو

وہ عطر دان سا لہجہ مرے بزرگوں کا

رچی بسی ہوئی اردو زبان کی خوشبو

خدا کا شکر ہے میرے جوان بیٹے کے

بدن سے آنے لگی زعفران کی خوشبو

عمارتوں کی بلندی پہ کوئی موسم کیا

کہاں سے آ گئی کچے مکان کی خوشبو

گلوں پہ لکھی ہوئی لا الہ الا اللہ

پہاڑیوں سے اترتی اذان کی خوشبو

٭٭٭






اداس آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے ہیں

اداس آنکھوں سے آنسو نہیں نکلتے ہیں

یہ موتیوں کی طرح سیپیوں میں پلتے ہیں

گھنے دھوئیں میں فرشتے بھی آنکھ ملتے ہیں

تمام رات کھجوروں کے پیڑ جلتے ہیں

میں شاہ راہ نہیں راستے کا پتر ہوں

یہاں سوار بھی پیدل اتر کے چلتے ہیں

انہیں کبھی نہ بتانا میں ان کی آنکھوں میں

وہ لوگ پھول سمجھ کے مجھے مسلتے ہیں

کئی ستاروں کو میں جانتا ہوں بچپن سے

کہیں بھی جاؤں مرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں

یہ ایک پیڑ ہے آ اس سے مل کے رو لیں ہم

یہاں سے تیرے مرے راستے بدلتے ہیں

***






سوئے کہاں تھے آنکھوں نے تکیے بھگوئے تھے

سوئے کہاں تھے آنکھوں نے تکیے بھگوئے تھے

ہم بھی کبھی کسی کے لیے خوب روئے تھے

انگنائی میں کھڑے ہوئے بیری کے پیڑ سے

وہ لوگ چلتے وقت گلے مل کے روئے تھے

ہر سال زرد پھولوں کا ایک قافلہ رکا

اس نے جہاں پہ دھول اٹے پاوں دھوئے تھے

اس حادثے سے میرا تعلق نہیں کوئی

میلے میں ایک سال کئی بچے کھوئے تھے

آنکھوں کی کشتیوں میں سفر کر رہے ہیں وہ

جن دوستوں نے دل کے سفینے ڈبوئے تھے

کل رات میں تھا میرے علاوہ کوئی نہ تھا

شیطان مر گیا تھا فرشتے بھی سوئے تھے

***






وہ غزل والوں کا اسلوب سمجھتے ہوں گے

وہ غزل والوں کا اسلوب سمجھتے ہوں گے

چاند کہتے ہیں کسے خوب سمجھتے ہوں گے

اتنی ملتی ہے مری غزلوں سے صورت تیری

لوگ تجھ کو مرا محبوب سمجھتے ہو گے

میں سمجھتا تھا محبت کی زباں خوشبو ہے

پھول سے لوگ اسے خوب سمجھتے ہوں گے

دیکھ کر پھول کے اوراق پہ شبنم کچھ لوگ

ترا اشکوں پھر مکتوب سمجھتے ہوں گے

پھول کر اپنا زمانہ یہ زمانے والے

آج کے پیار کو معیوب سمجھتے ہوں گے

***






ہمارا دل سویرے کا سنہرا جام ہو جائے

ہمارا دل سویرے کا سنہرا جام ہو جائے

چراغوں کی طرح آنکھیں جلیں جب شام ہو جائے

کبھی تو آسماں سے چاند اترے جام ہو جائے

تمہارے نام کی ایک خوب صورت شام ہو جائے

عجب حالات تھے یوں دل کا سودا ہو گیا آخر

محبت کی حویلی جس طرح نیلام ہو جائے

سمندر کے سفر میں اس طرح آواز دے ہم کو

ہوائیں تیز ہو ں اور کشتیوں میں شام ہو جائے

مجھے معلوم ہے اس کا ٹھکانہ پھر کہاں ہو گا

پرندہ آسماں چھونے میں جب ناکام ہو جائے

اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو

نہ جانے کسی گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

***






شام کے پیڑ کی سرمئی شاخ پر پتیوں میں چھپا جگنو بھی ہے

شام کے پیڑ کی سرمئی شاخ پر پتیوں میں چھپا جگنو بھی ہے

ساحلوں پر پڑی سیپیوں میں کہیں جھلملاتا ہوا ایک آنسو بھی ہے

آندھیاں راکھ کے ڈھیر لیتی گئیں چمکیں چنگاریاں کونپلوں کی طرح

ان دنوں زندگی پر ہمارے لیے صبح عارض بھی ہے شام گیسو بھی ہے

اس پہاڑی علاقے میں اک گاوں کے موڑ پر آتی جاتی بسوں کے لیے

دو درختوں کے مشفق گھنی چھاؤں میں گرم چائے کی مانوس خوشبو بھی ہے

ان نہاتے پرندوں کے ہمراہ اب میں بھی آکاش سر پر اٹھا لاؤں گا

ندیوں میں نہا کر تھکن دھل گئی کچھ درختوں کی بانہوں کا جادو بھی ہے

میرے دشمن میری جستجو میں ابھی اس کمیں گاہ کو آگ دکھائیں گے

اب یہ بہتر ہے میں خود ہی آگے بڑھوں جھاڑیوں میں یہاں ایک آہو ہے

***






اداسی کا یہ پتھر آنسووں سے نم نہیں ہوتا

اداسی کا یہ پتھر آنسووں سے نم نہیں ہوتا

ہزاروں جگنوؤں سے بھی اندھیرا کم نہیں ہوتا

کبھی برسات میں شاداب بیلیں سوکھ جاتی ہیں

ہرے پیڑوں کے گرنے سے کوئی موسم نہیں ہوتا

بہت سے لوگ دل کو اس طرح محفوظ رکھتے ہیں

کوئی بارش ہو یہ کاغذ ذرا بھی نم نہیں ہوتا

بچھڑتے وقت کوئی بدگمانی دل میں آ جاتی

اسے بھی غم نہیں ہوتا مجھے بھی غم نہیں ہوتا

یہ آنسو ہیں انہیں پھولوں میں شبنم کی طرح رکھنا

غزل احساس ہے احساس کا ماتم نہیں ہوتا

***






اداسی کے چہرے پڑھا مت کرو

اداسی کے چہرے پڑھا مت کرو

غزل آنسووں سے لکھا مت کرو

بہر حال یہ آگ ہی آگ ہیں

چراغوں کو ایسے چھوا مت کرو

دعا آنسوؤں میں کھلا پھول ہے

کسی کے لیے بد دعا مت کرو

تمہیں لوگ کہنے لگیں بے وفا

زمانے سے اتنی وفا مت کرو

اگر واقعی تم پریشان ہو

کسی اور سے تذکرہ مت کرو

خدا کے لیے چاندنی رات میں

اکیلے اکیلے پھرا مت کرو

***






بھیگی ہوئی آنکھوں کا یہ منظر نہ ملے گا

بھیگی ہوئی آنکھوں کا یہ منظر نہ ملے گا

گھر چھوڑ کے مت جاؤ کہیں گھر نہ ملے گا

پھر یاد نہیں آئے گی زلفوں کی گھنی شام

جب دھوپ میں سایہ کوئی سر پر نہ ملے گا

آنسو کو کبھی اوس کا قطرہ نہ سمجھنا

ایسا تمہیں چاہت کا سمندر نہ ملے گا

اس خواب کے ماحول میں بے خواب ہیں آنکھیں

جب نیند بہت آئے گی بستر نہ ملے گا

یہ سوچ لو اب آکری سایہ ہے محبت

اس در سے اٹھو گے تو کوئی در نہ ملے گا

***






میرا اس سے وعدہ تھا گھر رہنے کا

میرا اس سے وعدہ تھا گھر رہنے کا

اپنی چھت کے نیچے دکھ سکھ سہنے کا

بارش بارش کچی قبر کا گھلنا ہے

جاں لیوا احساس اکیلے رہنے کا

اب کے آنسو آنکھوں سے دل میں اترے

رخ بدلا ہے دریا نے کیا بہنے کا

ہجر وصال کے سارے قصے جھوٹے ہیں

حق ملتا ہے کس کو اپنا کہنے کا

جگ مگ جگمگ ہیرے جیسی آنکھوں میں

ایک عجیب غبار حویلی ڈھہنے کا

***






سنوار نوک پلک ابروؤں میں خم کر دے

سنوار نوک پلک ابروؤں میں خم کر دے

گرے پڑے ہوئے لفظوں کو محترم کر دے

غرور اس پہ بہت سجا ہے مگر کہہ دو

اسی میں اس کا بھلا ہے غرور کم کر دے

یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں

مجھے گلاس بڑے دے شراب کم کر دے

چمکنے والی ہے تحریر میری قسمت کی

کوئی چارغ کی لو کو ذرا سے کم کر دے

کسی نے چوم کے آنکھوں کو یہ دعا دی تھی

زمین تیری خدا موتیوں سے نم کر دے

***






غزلوں کا ہنر اپنی آنکھوں کو سکھائیں گے

غزلوں کا ہنر اپنی آنکھوں کو سکھائیں گے

روئیں گے بہت لیکن آنسو نہیں آئیں گے

کہہ دینا سمندر سے ہم اوس کے موتی ہیں

دریا کی طرح تجھ سے ملنے نہیں آئیں گے

وہ دھوپ کے چھپر ہوں یا چھاؤں کی دیواریں

اب جو بھی اٹھائیں گے مل جا کے اٹھائیں گے

جب ساتھ نہ دے کوئی آواز ہمیں دینا

ہم پھول سہی لیکن پتھر بھی اٹھائیں گے

***






ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے

ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے

ساحل پہ سمندر کے خزانے نہیں آتے

پلکیں بھی چمک اٹھتی ہیں سونے میں ہماری

آنکھوں کو ابھی خواب چھپانے نہیں آتے

دل اجڑی ہوئی ایک سرائے کی طرح ہے

اب لوگ یہاں رات جگانے نہیں آتے

یارو نئے موسم نے یہ احسان کئے ہیں

اب یاد مجھے درد پرانے نہیں آتے

اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں

پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے

اس شہر کے بادل تری زلفوں کی طرح ہیں

یہ آگ لگاتے ہیں بجھانے نہیں آتے

احباب بھی غیروں کی ادا سیکھ گئے ہیں

آتے ہیں مگر دل کو دکھانے نہیں آتے

***






اڑتے بادل بزرگوں کی شفت بنے دھوپ میں لڑکیاں مسکراتی رہیں

اڑتے بادل بزرگوں کی شفت بنے دھوپ میں لڑکیاں مسکراتی رہیں

جب سے جانا کہ اب کوئی منزل نہیں منزلیں راہ میں آتی جاتی ہیں

رات پریاں فرشتے ہمارے بدن مانگ کر برف میں جل رہتے تھے مگر

کچھ شبیہیں کتابوں کے بجھتے دیے کاغذی مقبروں میں جلاتی رہیں

سارے دن کی تپی ساحلی ریت پر دو تڑپتی ہوئی مچھلیاں سو گئیں

اپنے ملنے کی وہ آخری شام تھی لہریں آتی رہیں لہریں جاتی رہیں

ننگے پاؤں فرشتوں کا اک طائفہ آسماں سے زمیں پر اترنے لگا

سر برہنہ فلک زادیاں عرش سے آنسووں کے ستارے گراتی رہیں

اک دریچے میں دو آنسوؤں کا سفر رات کے راستوں کی طرح کھو گیا

نرم مٹی پہ گرتی ہوئی بتیاں سونے والوں کو چادر اڑھاتی رہیں

***






دعا کرو کہ یہ پودا سدا ہرا ہی لگے

دعا کرو کہ یہ پودا سدا ہرا ہی لگے

اداسیوں میں بھی چہرا کھلا کھلا ہی لگے

عجیب شخص ہے ناراض ہو کے ہنستا ہے

میں چاہتا ہوں خفا ہو تو خفا ہی لگے

وہ زعفرانی پلوور اسی کا حصہ ہے

کوئی جو دوسرا پہنے تو دوسرا ہی لگے

نہیں ہے میرے مقدر میں روشنی نہ سہی

یہ کھڑکی کھولو ذرا صبح کی ہوا ہی لگے

***






ہماری شہرتوں کی موت بے نام و نشاں ہو گی

ہماری شہرتوں کی موت بے نام و نشاں ہو گی

نہ کوئی تذکرہ ہوگا نہ کوئی داستاں ہو گی

اگر میں لوٹنا چاہوں تو کیا میں لوٹ سکتا ہوں

وہ دنیا ساتھ جو میرے چلی تھی اب کہاں ہو گی

پرندے اپنی منقاروں میں سب تارے چھپا لیں گے

جوانی چار دن کی چاندنی ہے پھر کہاں ہو گی

درختوں کی یہ چھالیں بھی اتر جائیں گی پتے کیا

یہ دنیا دھیرے دھیرے ایک دن پھر سے جواں ہو گی

ہوائیں روئیں گی سر پھوڑ لیں گی ان پہاڑوں سے

کبھی جب بادلوں میں چاند کی ڈولی رواں ہو گی

کسی معلوم تھا ہم لوگ اک بستر پہ سوئیں گے

حفاظت کے لیے تلوار اپنے درمیاں ہو گی

پسینہ بند کمرے کی امس کا جذب ہے اس میں

ہمارے تولیے میں دھوپ کی خوشبو کہاں ہو گی

کسی گمنام پتھر پر بہت سے نام لکھ دو گے

تو قربانی ہماری اس طرح سے جاوداں ہو گی

زمینیں تو مری اجداد نے ساری گنوا دی ہیں

مگر یہ ایک مٹھی خاک خود اپنا نشاں ہو گی

***






پھول سا کچھ کلام اور سہی

پھول سا کچھ کلام اور سہی

اک غزل اس کے نام اور سہی

اس کی زلفیں بہت گھنیری ہیں

ایک شب کا قیام اور سہی

زندگی کے اداس قصے ہیں

ایک لڑکی کا نام اور سہی

کرسیوں کو سنائیے غزلیں

قتل کی ایک شام اور سہی

کپکپاتی ہے رات سینے میں

زہر کا ایک جام اور سہی

***






لہروں میں ڈوبتے رہے دریا نہیں ملا

لہروں میں ڈوبتے رہے دریا نہیں ملا

اس سے بچھڑ کے پھر کوئی ویسا نہیں ملا

وہ بھی بہت اکیلا ہے شاید میری طرح

اس کو بھی کئی چاہنے والا نہیں ملا

ساحل پہ کتنے لوگ میرے ساتھ ساتھ تھے

طوفاں کی زد میں آیا تو تنکا نہیں ملا

دو چار دن تو کتنے سکوں سے گذر گئے

سب خیریت رہی کوئی اپنا نہیں ملا

***






کبھی یوں بھی آ مری آنکھ میں کہ مری نظر کو خبر نہ ہو

کبھی یوں بھی آ مری آنکھ میں کہ مری نظر کو خبر نہ ہو

مجھے ایک رات نواز دے مگر اس کے بعد سحر نہ ہو

وہ بڑا رحیم و کریم ہے مجھے یہ صفت بھی عطا کرے

تجھے بھولنے کی دعا کروں تو مری دعا میں اثر نہ ہو

مرے بازوؤں میں تھکی تھکی ابھی محو خواب ہے چاندنی

نہ اٹھے ستاروں کی پالکی ابھی آہٹوں کا گذر نہ ہو

یہ غزل کہ جیسے ہرن کی آنکھ میں پچھلی رات کی چاندنی

نہ بجھے خرابے کی روشنی کبھی بے چراغ یہ گھر نہ ہو

کسی دن کی دھوپ میں جھوم کے کبھی شب کے پھول کو چوم کے

یوں ہی ساتھ ساتھ چلیں سدا کبھی ختم اپنا سفر نہ ہو

***






مجھ سے بچھڑ کے خوش رہتے ہو

مجھ سے بچھڑ کے خوش رہتے ہو

میری طرح تم بھی جھوٹے ہو

ایک دیوار پہ چاند ٹکا تھا

میں یہ سمجھا تم بیٹھے ہو

اجلے اجلے پھول کھلے تھے

بالکل جیسے تم ہنستے ہو

مجھے شام بتا دیتی ہے

تم کیسے کپڑے پہنے ہو

دل کا حال پڑھا چہرے سے

ساحل سے لہریں گنتے ہو

تم تنہا دنیا سے لڑو گے

بچوں سی باتیں کرتے ہو

***






وقت رخصت کہیں تارے کہیں جگنو آئے

وقت رخصت کہیں تارے کہیں جگنو آئے

ہار پہنا نے مجھے پھول سے بازو آئے

بس گئی ہے مرے احساس میں یہ کیسی مہک

کوئی خوشبو میں لگاؤں تیری خوشبو آئے

میں نے دن رات خدا سے یہ دعا مانگی تھی

کوئی آہٹ نہ ہو در پہ مرے اور تو آئے

اس کی باتیں کہ گل و لالہ پہ شبنم برسے

سب کو اپنانے کا اس شوخ کو جادو آئے

ان دنوں آپ کا عالم بھی عجب عالم ہے

شوخ کھایا ہوا جیسے کوئی آہو آئے

اس نے چھو کر مجھے پتھر سے پھر انسان کیا

مدتوں بعد مری آنکھوں میں آنسو آئے

***






پھول برسے کہیں شبنم کہیں گوہر برسے

پھول برسے کہیں شبنم کہیں گوہر برسے

اور اس دل کی طرف برسے تو پتھر برسے

بارشیں چھت پہ کھلی جگہوں پہ ہوتی ہیں مگر

غم وہ ساون ہے جو ان کمروں کے اندر برسے

کون کہتا ہے کہ رنگوں کے فرشتے اتریں

کبھی برسے مگر اس بار تو گھر گھر برسے

ہم نے ہم سے مجبور کا غصہ بھی عجب بادل ہے

اپنے ہی دل سے اٹھے اپنے ہی دل پر برسے

***






تم ابھی شہر میں کیا نئے آئے ہو

تم ابھی شہر میں کیا نئے آئے ہو

رک گئے راہ میں حادثہ دیکھ کر

تم جنہیں پھول سمجھتے ہو آنکھیں نہ ہوں

پاوں رکھنا زمیں پر ذرا دیکھ کر

پھر دئے رک گئیں تری پرچھائیاں

آج دروازہ چل کا کھلا دیکھ کر

اس کی آنکھوں کا ساون برسنے لگا

بادلوں میں پرندہ گھرا دیکھ کر

شام گہری ہوئی اور گھر دور ہے

پھول سو جائیں گے راستہ دیکھ کر

پھول سے انگلیاں کنگھیاں بن گئیں

الجھے ہوئے بالوں سے ماتھا ڈھکا دیکھ کر

***






گاؤں مٹ جائیں گے شہر جل جائے گا

گاؤں مٹ جائیں گے شہر جل جائے گا

زندگی تیرا چہرہ بدل جائے گا

ہم غریبوں کی اس بھیڑ میں تم کہاں

یہ کلف دار کرتا مسل جائے گا

آگ پر رقص کرنے میں یکتا ہے تو

برف پر پاؤں تیرا پھسل جائے گا

میں اسی فکر میں رات سویا نہیں

چاند تاروں کو سورج نگل جائے گا

اب اسی دن لکھوں گا دکھوں کی غزل

جب مرا ہاتھ آہن میں ڈھل جائے گا

کچھ لکھو مرثیہ مثنوی یا غزل

کوئی کاغذ ہو پانی میں گل جائے گا

میں اگر مسکرا کے انہیں دیکھ لوں

قاتلوں کا ارادہ بدل جائے گا

***






سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا

سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا

اتنا مت چاہو اسے وہ بے وفا ہو جائے گا

ہم بھی دریا ہیں ہمیں اپنا ہنر معلوم ہے

جس طرف بھی چل پڑیں گے راستہ ہو جائے گا

کتنی سچائی سے مجھ سے زندگی نے کہ دیا

تو نہیں میرا تو کوئی دوسرا ہو جائے گا

میں خدا کا نام لے کر پی رہا ہوں دوستو

زہر بھی اس میں اگر ہوگا دوا ہو جائے گا

سب اسی کے ہیں ہوا خوشبو زمین و آسماں

میں جہاں بھی جاؤں گا اس کو پتہ ہو جائے گا

***






کوئی ہاتھ نہیں خالی ہے

کوئی ہاتھ نہیں خالی ہے

بابا یہ نگری کیسی ہے

کوئی کسی کا درد نہ جانے

سب کو اپنی اپنی پڑی ہے

اس کا بھی کچھ حق ہے آخر

اس نے مجھ سے نفرت کی ہے

پھول دوا جیسے مہکے ہیں

کس بیمار کی صبح ہوئی ہے

جیسے صدیاں بیت چکی ہوں

پھر بھی آدھی رات ابھی ہے

کیسے کٹے گی تنہا تنہا

اتنی ساری عمر پڑی ہے

ہم دونوں کی خوب نبھے گی

میں بھی دکھی ہوں وہ بھی دکھی ہے

اب غم سے کیا ناطہ توڑیں

ظالم بچپن کا ساتھی ہے

دل کی خاموشی پہ نہ جاؤ

راکھ کے نیچے آگ دبی ہے

***

٭٭٭

ترتیب و تدوین: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔