07:50    , ہفتہ   ,   18    مئی   ,   2024

مجموعہ لفظ لفظ (حصہ دوم)

2747 0 0 00




پیکنگ

یوں گماں ہوتا ہے بازو ہیں مرے ساٹھ کروڑ

اور آفاق کی حد تک مرے تن کی حد ہے

دل مرا کوہ و دمن دشت و چمن کی حد ہے

میرے کیسے میں ہے راتوں کا سیہ فام جلال

میرے ہاتھوں میں ہے صبحوں کی عنانِ گلگوں

میری آغوش میں پلتی ہے خدائی ساری

میرے مقدر میں ہے معجزۂ کُن فَیَکُوں






سِنکیانگ

اب کوئی طبل بجے گا، نہ کوئی شاہسوار

صبح دم موت کی وادی کو روانہ ہو گا!

اب کوئی جنگ نہ ہو گی نہ کبھی رات ہو گی

خون کی آگ کو اشکوں سے بُجھانا ہو گا

کوئی دل دھڑکے گا شب بھر نہ کسی آنگن میں

وہم منحوس پرندے کی طرح آئے گا

سہم، خونخوار درندے کی طرح آئے گا

اب کوئی جنگ نہ ہو گی مے و ساغر لاؤ

خوں لُٹانا نہ کبھی اشک بہانا ہو گا

ساقیا! رقص کوئی رقصِ صبا کی صورت

مطربا! کوئی غزل رنگِ حِنا کی صورت

بساطِ رقص پہ صد شرق و غرب سے سرِ شام

دمک رہا ہے تری دوستی کا ماہِ تمام

چھلک رہی ہے ترے حُسنِ مہرباں کی شراب

بھرا ہوا ہے لبالب ہر اِک نگاہ کا جام

گلے میں تنگ ترے حرفِ لطف کی راہیں

پسِ خیال کہیں ساعتِ سفر کا پیام

ابھی سے یاد میں ڈھلنے لگی ہے صُحبتِ شب

ہر ایک روئے حسیں ہو چلا ہے بیش حسیں

ملے جو کچھ ایسے، جُدا یوں ہوئے کہ فیض اب کے

جو دل پہ نقش بنے گا وہ گُل ہے، داغ نہیں

ہانگ چاؤ (چین)






جشن کا دن

جنُوں کی یاد مناؤ کہ جشن کا دن ہے

صلیب و دار سجاؤ کہ جشن کا دن ہے

طرب کی بزم ہے بدلو دِلوں کے پیراہن

جگر کے چاک سِلاؤ کہ جشن کا دن ہے

تنگ مزاج ہے ساقی نہ رنگِ مَے دیکھو

بھرے جو شیشہ، چڑھاؤ جشن کا دن ہے

تمیزِ رہبر و رہزن کرو نہ آج کے دن

ہر اک سے ہاتھ ملاؤ کہ جشن کا دن ہے

ہے انتظارِ ملامت میں ناصحوں کا ہجوم

نظر سنبھال کے جاؤ کہ جشن کا دن ہے

وہ شورشِ غمِ دل جس کی لے نہیں کوئی

غزل کی دھُن میں سُناؤ کہ جشن کا دن ہے






***

آج تنہائی کسی ہمدمِ دیریں کی طرح

کرنے آئی ہے مری ساقی گری شام ڈھلے

منتظرِ بیٹھے ہیں ہم دونوں کی مہتاب اُبھرے

اور ترا عکس جھلکنے لگے ہر سائے تلے






***

رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں

آگ سُلگاؤ آبگینوں میں

دلِ عُشاق کی خبر لینا

پھول کھِلتے ہیں ان مہینوں میں






شام

اس طرح ہے کہ ہر اِک پیڑ کوئی مندر ہے

کوئی اُجڑا ہوا، بے نُور پُرانا مندر

ڈھونڈتا ہے جو خرابی کے بہانے کب سے

چاک ہر دم، ہر اک در کا دمِ آخر تک

آسماں کوئی پروہت ہے جو ہر بام تلے

جسم پر راکھ ملے، ماتھے پر سیندور ملے

سرنگوں بیٹھا ہے چپ چاپ نہ جانے کب سے

اس طرح ہے کہ پسِ پردہ کوئی ساحر ہے

جس نے آفاق پہ پھیلایا ہے یوں سحر کا دام

دامنِ وقت سے پیوست ہے یوں دامنِ شام

اب کبھی شام بُجھے گی نہ اندھیرا ہو گا

اب کبھی رات ڈھلے گی نہ سویرا ہو گا

آسماں آس لئے ہے کہ یہ جادو ٹُوٹے

چُپ کی زنجیر کٹے، وقت کا دامن چھُوٹے

دے کوئی سنکھ دہائی، کوئی پایل بولے

کوئی بت جاگے، کوئی سانولی گھونگھٹ کھولے






غزل

جمے گی بساطِ یاراں کہ شیشہ و جام بُجھ گئے تھے

سجے گی کیسے شبِ نگاراں کہ دل سر شام بُجھ گئے ہیں

وہ تیرگی ہے رہِ بُتاں میں چراغِ رُخ ہے نہ شمعِ وعدہ

کرن کوئی آرزو کی لاؤ کہ سب در و بام بُجھ گئے ہیں

بہت سنبھالا وفا کا پیماں مگر وہ برسی ہے اب کے برکھا

ہر ایک قرار مٹ گیا ہے تمام پیغام بُجھ گئے ہیں

قریب آ اے مہِ شبِ غم، نظر پہ کھُلتا نہیں کچھ اس دم

کہ دل پہ کس کس کا نقش باقی ہے، کون سے نام بُجھ گئے ہیں

بہار اب آ کے کیا کرے گی کہ جن سے تھا جشنِ رنگ و نغمہ

وہ گل سرِ شاخ جل گئے ہیں، وہ دل تہِ دام بُجھ گئے ہیں






***

تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں !

تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی!

جس میں رکھا نہیں ہے کسی نے قدم

کوئی اترا نہ میداں میں، دشمن نہ ہم

کوئی صف بن نہ پائی، نہ کوئی علم

منتشِر دوستوں کو صدا دے سکا

اجنبی دُشمنوں کا پتا دے سکا

تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چُکی!

جس میں رکھا نہیں ہم نے اب تک قدم

تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں

جسم خستہ ہے، ہاتھوں میں یارا نہیں

اپنے بس کا نہیں بارِ سنگ ستم

بارِ سنگِ ستم، بار کہسار غم

جس کو چھُو کر سبھی اک طرف ہو گئے

بات کی بات میں ذی شرف ہو گئے

دوستو، کوئے جاناں کی نا مہرباں

خاک پر اپنے روشن لہو کی بہار

اب نہ آئے گی کیا؟ اب کھِلے گا نہ کیا

اس کفِ نازنیں پر کوئی لالہ زار؟

اس حزیں خامشی میں نہ لَوٹے گا کیا

شورِ آوازِ حق، نعرۂ گیر و دار

شوق کا امتحاں جو ہُوا سو ہُوا

جسم و جاں کا زیاں جو ہُوا سو ہُوا

سُود سے پیشتر ہے زیاں اور بھی

دوستو، ماتم جسم و جاں اور بھی

اور بھی تلخ تر امتحاں اور بھی






***

نہ دید ہے نہ سخن، اب نہ حرف ہے نہ پیام

کوئی بھی حیلہ تسکین نہیں اور آس بہت ہے

اُمیدِ یار، نظر کا مزاج، درد کا رنگ

تم آج کچھ بھی نہ پُوچھو کہ دل اُداس بہت ہے






غزل

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے

تم اچھے مسیحا ہو شِفا کیوں نہیں دیتے

دردِ شبِ ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے

خونِ دلِ وحشی کا صِلا کیوں نہیں دیتے

مِٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے

منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے

ہاں نکتہ ورد لاؤ لب و دل کی گواہی

ہاں نغمہ گرو ساز صدا کیوں نہیں دیتے

پیمانِ جُنوں ہاتھوں کو شرمائے گا کب تک

دل والو! گریباں کا پتا کیوں نہیں دیتے

بربادیِ دل جبر نہیں فیض کسی کا

وہ دشمنِ جاں ہے تو بھُلا کیوں نہیں دیتے

**لاہور جیل






شورشِ زنجیر بسم اللہ

ہُوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ

ہر اک جانب مچا کہرامِ دار و گیر بسم اللہ

گلی کوچوں میں بکھری شورشِ زنجیر بسم اللہ

درِ زنداں پہ بُلوائے گئے پھر سے جُنوں والے

دریدہ دامنوں والے،پریشاں گیسوؤں والے

جہاں میں دردِ دل کی پھر ہوئی توقیر بسم اللہ

ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بِسم اللہ

گنو سب داغ دل کے، حسرتیں شوقیں نگاہوں کی

سرِ دربار پُرستش ہو رہی ہے پھر گناہوں کی

کرو یارو شمارِ نالہ شب گیر بسم اللہ

ستم کی داستاں، کُشتہ دلوں کا ماجرا کہئے

جو زیر لب نہ کہتے تھے وہ سب کچھ برملا کہئے

مُصرِ ہے محتسب رازِ شہیدانِ وفا کہئے

لگی ہے حرفِ نا گُفتہ پر اب تعزیر بِسم اللہ

سرِ مقتل چلو بے زحمتِ تقصیر بِسم اللہ

ہُوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بِسم اللہ

**لاہور جیل






آج بازار میں پابجولاں چلو

چشمِ نم، جانِ شوریدہ کافی نہیں

تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پابجولاں چلو

دست افشاں چلو، مست و رقصاں چلو

خاک بر سر چلو، خوں بداماں چلو

راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو

حاکم شہر بھی، مجمعِ عام بھی

تیرِ الزام بھی، سنگِ دشنام بھی

صبحِ ناشاد بھی، روزِ ناکام بھی

ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے

شہرِ جاناں میں اب با صفا کون ہے

دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے

رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو

پھر ہمیں قتل ہو آئیں یار چلو

**لاہور جیل






غزل

یہ جفائے غم کا چارہ، وہ نَجات دل کا عالم

ترا حُسن دستِ عیسیٰ، تری یاد رُوئے مریم

دل و جاں فدائے راہے کبھی آ کے دیکھ ہمدم

سرِ کوئے دل فگاراں شبِ آرزو کا عالم

تری دِید سے سوا ہے ترے شوق میں بہاراں

وہ چمن جہاں گِری ہے تری گیسوؤں کی شبنم

یہ عجب قیامتیں ہیں تری رہگزر میں گزراں

نہ ہُوا کہ مَر مِٹیں ہم، نہ ہُوا کہ جی اُٹھیں ہم

لو سُنی گئی ہماری، یُوں پھِرے ہیں دن کہ پھر سے

وہی گوشہ قفس ہے، وہی فصلِ گُل کا ماتم

**لاہور جیل






قید تنہائی

دُور آفاق پہ لہرائی کوئی نُور کی لہر

خواب ہی خواب میں بیدار ہُوا درد کا شہر

خواب ہی خواب میں بیتاب نظر ہونے لگی

عدم آبادِ جُدائی میں سحر ہونے لگی

کاسہ دل میں بھری اپنی صبُوحی میں نے

گھول کر تلخی دیروز میں اِمروز کا زہر

دُور آفاق پہ لہرائی کوئی نُور کی لہر

آنکھ سے دُور کسی صبح کی تمہید لیے

کوئی نغمہ، کوئی خوشبو، کوئی کافر صورت

بے خبر گزری، پریشانیِ اُمیّد لئے

گھول کر تلخی دیروز میں اِمروز کا زہر

حسرتِ روزِ ملاقات رقم کی میں نے

دیس پردیس کے یارانِ قدح خوار کے نام

حُسنِ آفاق، جمالِ لب و رخسار کے نام

***زندانِ قلعہ لاہور






***

ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو

جو عُمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں

دامن میں ہے مشتِ جِگر، ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مَے

لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام اُلٹائے دیتے ہیں

**قلعہ لاہور






زندگی

ملکۂ شہرِ زندگی تیرا

شُکر کسِ طور سے ادا کیجئے

دولتِ دل کا کچھ شمار نہیں

تنگ دستی کا کیا گلہ کیجے

جو ترے حُسن کے فقیر ہوئے

ان کو تشویشِ روزگار کہاں ؟

درد بیچیں گے گیت گائیں گے

اِس سے خوش وقت کاروبار کہاں ؟

جام چھلکا تو جم گئی محفل

مِنّت لُطفِ غم گسار کسے؟

اشک ٹپکا تو کھِل گیا گلشن

رنجِ کم ظرفیِ بہار کسے؟

خوش نشیں ہیں کہ چشم و دل کی مراد

دَیر میں ہے نہ خانقاہ میں ہے

ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں

ہر صنم اپنی بارگاہ میں ہے

کون ایسا غنی ہے جس سے کوئی

نقدِ شمس و قمر کی بات کرے

جس کو شوقِ نبرد ہو ہم سے

جائے تسخیرِ کائنات کرے






غزل

ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے

تری رہ میں کرتے تھے سر طلب، سرِ رہگزر چلے گئے

تری کج ادائی سے ہار کے شبِ انتظار چلی گئی

مرے ضبطِ حال سے رُوٹھ کر مرنے غم گسار چلے گئے

نہ سوالِ وصل، نہ عرضِ غم، نہ حکایتیں نہ شکایتیں

ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے

یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سرِ رہ سیاہی لکھی گئی

یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سرِ بزمِ یار چلے گئے

نہ رہا جنونِ رُخِ وفا، یہ رسن یہ دار کرو گے کیا

جنہیں جرمِ عشق پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے






***

آ گئی فصلِ سکُوں چاک گریباں والو

سِل گئے ہونٹ، کوئی زخم سِلے یا نہ سِلے

دوستوں بزم سجاؤ کہ بہار آئی ہے

کھِل گئے زخم، کوئی پھول کھِلے یا نہ کھِلے






***

ڈھلتی ہے موجِ مَے کی طرح رات ان دِنوں

کھِلتی ہے صبح گل کی طرح رنگ و بُو سے پُر

ویراں ہیں جام پاس کرو کچھ بہار کا

دل آرزو سے پُر کرو، آنکھیں لہُو سے پُر






غزل

کب ٹھہرے گا درد اے دل، کب رات بسر ہو گی

سنتے تھے وہ آئیں گے، سنتے تھے سحر ہو گی

کب جان لہو ہو گی، کب اشک گہر ہو گا

کس دن تری شنوائی اے دیدہ تر ہو گی

کب مہکے گی فصلِ گل، کب بہکے گا میخانہ

کب صبحِ سخن ہو گی، کب شامِ نظر ہو گی

واعظ ہے نہ زاہد ہے، ناصح ہے نہ قاتل ہے

اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہو گی

کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامتِ جانانہ

کب حشر معیّن ہے تجھ کو تو خبر ہو گی






ملاقات مری

ساری دیوار سیہ ہو گئی تا حلقۂ دام

راستے بجھ گئے رُخصت ہُوئے رہ گیر تمام

اپنی تنہائی سے گویا ہوئی پھر رات مری

ہو نہ ہو آج پھر آئی ہے ملاقات مری

اک ہتھیلی پہ حِنا، ایک ہتھیلی پہ لہو

اک نظر زہر لئے ایک نظر میں دارو

دیر سے منزلِ دل میں کوئی آیا نہ گیا

فرقتِ درد میں بے آب ہُوا تختہ داغ

کس سے کئے کہ بھرے رنگ سے زخموں کے ایاغ

اور پھر خود ہی چلی آئی ملاقات مری

آشنا موت جو دشمن بھی ہے غم خوار بھی ہے

وہ جو ہم لوگوں کی قاتل بھی ہے دلدار بھی ہے






ختم ہوئی بارشِ سنگ

ناگہاں آج مرے تارِ نظر سے کٹ کر

ٹکڑے ٹکڑے ہوئے آفاق پہ خورشید و قمر

اب کسی سَمت اندھیرا نہ اُجالا ہو گا

بُجھ گئی دل کی طرح راہِ وفا میرے بعد

دوستو! قافلہ درد کا اب کیا ہو گا

اب کوئی اور کرے پرورشِ گلشنِ غم

دوستو ختم ہوئی دیدۂ تر کی شبنم

تھم گیا شورِ جنوں ختم ہوئی بارشِ سنگ

خاکِ رہ آج لئے ہے لبِ دلدار کا رنگ

کُوئے جاناں میں کھُلا میرے لہو کا پرچم

دیکھئے دیتے ہیں کِس کِس کی صدا میرے بعد

’’کون ہوتا ہے حریفِ مئے مرد افگنِ عشق

ہے مکّرر لبِ ساقی پہ صلا میرے بعد‘‘

ان دنوں رسم و رہِ شہرِ نگاراں کیا ہے

قاصدا، قیمتِ گلگشتِ بہاراں کیا ہے

کُوئے جاناں ہے کہ مقتل ہے کہ میخانہ ہے

آج کل صورتِ بربادی یاراں کیا ہے






غزل

آج یوں موج در موج غم تھم گیا اس طرح غم زدوں کو قرار آگیا

جیسے خوشبوئے زلفِ بہار آ گئی جیسے پیغامِ دیدارِ یار آگیا

جس کی دید و طلب وہم سمجھے تھے ہم رُو برُو پھر سرِ رہگزر آگیا

صبحِ فردا کو پھر دل ترسنے لگا، عمر رفتہ ترا اعتبار آگیا

رُت بدلنے لگی رنگِ دل دیکھنا، رنگِ گلشن سے اب حال کھلتا نہیں

زخم چھلکا کوئی یا کوئی گُل کھِلا، اشک اُمڈے کہ ابرِ بہار آگیا

خونِ عُشاق سے جام بھرنے لگے، دل سُلگنے لگے، داغ جلنے لگے

محفلِ درد پھر رنگ پر آ گئی، پھر شبِ آرزو پر نکھار آگیا

سر فروشی کے انداز بدلے گئے، دعوتِ قتل پر مقتل شہر میں

ڈال کر کوئی گردن میں طوق آگیا، لاد کر کوئی کاندھے پہ دار آگیا

فیض کیا جانئے یار کس آس پر، منتظر ہیں کہ لائے گا کوئی خبر

میکشوں پر ہُوا محتسب مہرباں، دل فگاروں پہ قاتل کو پیار آگیا






کہاں جاؤ گے

اور کچھ دیر میں لُٹ جائے گا ہر بام پہ چاند

عکس کھو جائیں گے آئینے ترس جائیں گے

عرش کے دیدۂ نمناک سے باری باری

سب ستارے سرِ خاشاک برس جائیں گے

آس کے مارے تھکے ہارے شبستانوں میں

اپنی تنہائی سمیٹے گا، بچھائے گا کوئی

بے وفائی کی گھڑی، ترک مدارات کا وقت

اس گھڑی اپنے سوا یا نہ آئے گا کوئی!

ترکِ دنیا کا سماں، ختمِ ملاقات کا وقت

اِس گھڑی اے دلِ آوارہ کہاں جاؤ گے

اِس گھڑی کوئی کسی کا بھی نہیں، رہنے دو

کوئی اس وقت ملے گا ہی نہیں رہنے دو

اور ملے گا بھی تو اس طور کہ پچھتاؤ گے

اس گھڑی اے دلِ آوارہ کہاں جاؤ گے

اور کچھ دیر ٹھہر جاؤ کہ پھر نشترِ صبح

زخم کی طرح ہر اک آنکھ کو بیدار کرے

اور ہر کشتہ واماندگی آخر شب

بھول کر ساعتِ درماندگی آخرِ شب

جان پہچان ملاقات پہ اصرار کرے






غزل

یک بیک شورشِ فغاں کی طرح

فصلِ گُل آئی امتحاں کی طرح

صحنِ گلشن میں بہرِ مشتاقاں

ہر روش کھِنچ گئی کماں کی طرح

پھر لہو سے ہر ایک کاسہ داغ

پُر ہُوا جامِ ارغواں کی طرح

یاد آیا جنونِ گُم گشتہ

بے طلب قرضِ دوستاں کی طرح

جانے کس پر ہو مہرباں قاتِل

بے سبب مرگِ ناگہاں کی طرح

ہر صدا پر لگے ہیں کان یہاں

دل سنبھالے رہو زباں کی طرح






شہرِ یاراں

آسماں کی گود میں دم توڑتا ہے طفل ابر

جم رہا ہے ابر کے ہونٹوں پہ خوں آلود کف

بُجھتے بُجھتے بُجھ گئی ہے عرش کے حُجروں میں آگ

دھیرے دھیرے بِچھ رہی ہے ماتمی تاروں کی صف

اے صبا شاید ترے ہمراہ یہ خونناک شام

سر جھکائے جا رہی ہے شہرِ یاراں کی طرف

شہر یاراں جس میں اِس دم ڈھونڈتی پھرتی ہے موت

شیر دل بانکوں میں اپنے تیر و نشتر کے ہدف

اِک طرف بجتی ہیں جوشِ زیست کی شہنائیاں

اِک طرف چنگھاڑتے ہیں اہر من کے طبل و دف

جا کے کہنا اے صبا، بعد از سلامِ دوستی

آج شب جس دم گُزر ہو شہر یاراں کی طرف

دشتِ شب میں اس گھڑی چپ چاپ ہے شاید رواں

ساقیِ صبحِ طرب، نغمہ بلب، ساغر بکف

وہ پہنچ جائے تو ہو گی پھر سے برپا انجمن

اور ترتیبِ مقام و منصب و جاہ و شرف






غزل

نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا

جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تنِ داغ داغ لُٹا دیا

مرے چارہ گر کو نوید ہو صفِ دُشمناں کو خبر کرو

جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چُکا دیا

کرو کج جبیں پہ سرِ کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو

کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا

اُدھر ایک حرف کہ کُشتنی یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی

جو کہا تو سُن کے اُڑا، دیا جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا

جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے

رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا






خوشا ضمانتِ غم

دیارِ یار تری جوششِ جنوں پہ سلام

مرے وطن ترے دامانِ تار تار کی خیر

رہِ یقین افشانِ خاک و خوں پہ سلام

مرے چمن ترے زخموں کے لالہ زار کی خیر

ہر ایک کشتہ ناحق کی خامشی پہ سلام

ہر ایک دیدۂ پُر نم کی آب و تاب کی خیر

رواں رہے یہ روایت، خوشا ضمانتِ غم

نشاطِ ختمِ غمِ کائنات سے پہلے

ہر اک کے ساتھ رہے دولتِ امانتِ غم

کوئی نجات نہ پائے نَجات سے پہلے

سکوں ملے نہ کبھی تیرے پا فگاروں کو

جمالِ خونِ سرِ خار کو نظر نہ لگے

اماں ملے نہ کہیں تیرے جاں نثاروں

جلالِ فرقِ سرِدار کو نظر نہ لگ






جب تیری سمندر آنکھوں میں

(گیت)

یہ دھُوپ کنارا، شام ڈھلے

مِلتے ہیں دونوں وقت جہاں

جو رات نہ دن، جو آج نہ کل

پل بھر کو امر،پل بھر میں دھواں

اِس دھوپ کنارے، پل دو پل

ہونٹوں کی لپک

باہوں کی چھنک

یہ میل ہمارا، جھوٹ نہ سچ

کیوں زار کرو،کیوں دوش دھرو

کس کارن، جھوٹی بات کرو

جب تیری سمندر آنکھوں میں

اس شام کا سورج ڈوبے گا

سُکھ سوئیں گے گھر دَر والے

اور راہی اپنی رہ لے گا

(لندن سے)






رنگ ہے دل کا مرے

تم نہ آئے تھے تو ہر چیز وہی تھی کہ جو ہے

آسماں حدِّ نظر، راہگزر شیشہ مَے شیشہ مے

اور اب شیشہ مَے،راہگزر،رنگِ فلک

رنگ ہے دل کا مرے،’’خون جگر ہونے تک‘‘

چمپئی رنگ کبھی راحتِ دیدار کا رنگ

سرمئی رنگ کہ ہے ساعت بیزار کا رنگ

زرد پتّوں کا،خس و خار کا رنگ

سُرخ پھُولوں کا دہکتے ہوئے گلزار کا رنگ

زہر کا رنگ، لہو رنگ، شبِ تار کا رنگ

آسماں، راہگزر،شیشہ مَے،

کوئی بھیگا ہُوا دامن،کوئی دُکھتی ہوئی رگ

کوئی ہر لحظہ بدلتا ہُوا آئینہ ہے

اب جو آئے ہو تو ٹھہرو کہ کوئی رنگ،کوئی رُت،کوئی شے

ایک جگہ پر ٹھہرے،

پھر سے اک بار چیز وہی ہو کہ جو ہے

آسماں حدِّ نظر، راہگزر شیشہ مَے شیشہ مے






پاس رہو

تم مرے پا س رہو

میرے قاتل، مرے دِلدار،مرے پاس رہو

جس گھڑی رات چلے،

آسمانوں کا لہو پی کے سیہ رات چلے

مرہمِ مُشک لئے،نشترِالماس لئے

بَین کرتی ہوئی،ہنستی ہُوئی،گاتی نکلے

درد کے کاسنی پازیب بجاتی نکلے

جس گھڑی سینوں میں ڈُوبے ہُوئے دل

آستینوں میں نہاں ہاتھوں کی رہ تکنے لگیں

آس لئے

اور بچوں کے بلکنے کی طرح قُلقُل مے

بہرِ ناسودگی مچلے تو منائے نہ مَنے

جب کوئی بات بنائے نہ بنے

جب نہ کوئی بات چلے

جس گھڑی رات چلے

جس گھڑی ماتمی، سُنسان،سیہ رات چلے

پاس رہو

میرے قاتل،مرے دلدار مرے پاس رہو!






غزل

تری اُمید ترا انتظار جب سے ہے

نہ شب کو دن سے شکایت، نہ دن کو شب سے ہے

کس کا درد ہو کرتے ہیں ہم تیرے نام رقم

گِلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے

ہُوا ہے جب سے دلِ نا صبُور بے قابو

کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے

اگر شرر ہے تو بھڑکے، جو پھول ہے تو کھِلے

طرح طرح کی طلب، تیرے رنگِ لب سے ہے

کہاں گئے شبِ فرقت کے جاگنے والے

ستارۂ سحری ہم کلام کب سے ہے






غزل

ہر سَمت پریشاں تری آمد کے قرینے

دھوکے دیئے کیا کیا ہمیں بادِ سحری نے

ہر منزلِ غربت پہ گماں ہوتا ہے گھر کا

بہلایا ہے ہر گام بہت در بدری نے

تھے بزم میں سب دودِ سرِ بزم سے شاداں

بیکار جلایا ہمیں روشن نظری نے

مَے خانے میں عاجز ہُوئے آزُردہ دِلی سے

مسجد کا نہ رکھا ہمیں آشفتہ سری نے

یہ جامہ صد چاک بدل لینے میں کیا تھا

مہلت ہی نہ دی فیض، کبھی بخیہ گری نے






غزل

شرحِ فراق، مدحِ لبِ مشکبو کریں

غربت کدے میں کس سے تری گفتگو کریں

یار آشنا نہیں کوئی،ٹکرائیں کس سے جام

کس دل رُبا کے نام پہ خالی سَبُو کریں

سینے پہ ہاتھ ہے، نہ نظر کو تلاشِ بام

دل ساتھ دے تو آج غمِ آرزو کریں

کب تک سنے گی رات، کہاں تک سنائیں ہم

شکوے گِلے سب آج ترے رُو برُو کریں

ہمدم حدیثِ کوئے ملامت سُنائیو

دل کو لہو کریں کہ گریباں رفو کریں

آشفتہ سر ہیں، محتسبو، منہ نہ آئیو

سر بیچ دیں تو فکرِ دل و جاں عدو کریں

’’تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو

دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں ‘‘






منظر

رہ گزر، سائے شجر، منزل و در،حلقہ بام

بام پر سینہ مہتاب کھلا،آہستہ

جس طرح کھولے کوئی بندِ قبا،آہستہ

حلقہ بام تلے،سایوں کا ٹھہرا ہُوا نیل

نِیل کی جھِیل

جھِیل میں چُپکے سے تَیرا،کسی پتّے کا حباب

ایک پل تیرا،چلا،پھُوٹ گیا،آہستہ

بہت آہستہ،بہت ہلکا،خنک رنگِ شراب

میرے شیشے میں ڈھلا،آہستہ

شیشہ و جام،صراحی،ترے ہاتھوں کے گلاب

جس طرح دور کسی خواب کا نقش

آپ ہی آپ بنا اور مِٹاآہستہ

دل نے دُہرایا کوئی حرفِ وفا،آہستہ

تم نے کہا ’’آہستہ‘‘

چاند نے جھک کر کہا

اور ذراآہستہ‘‘’’






ہارٹ اٹیک

درد اتنا تھا کہ اس رات دلِ وحشی نے
ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بُنِ مُو سے ٹپکنا چاہا
اور کہیں دور ترے صحن میں گویا
پتا پتا مرے افسردہ لہو میں دھل کر
حسنِ مہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا
میرے ویرانہء تن میں گویا
سارے دُکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کھُل کر
سلسلہ وار پتا دینے لگیں
رخصتِ فاصلہء شوق کی تّیاری کا
اور جب یاد کی بجھتی ہوئی شمعوں میں نظر آیا کہیں
ایک پل آخری لمحہ تری دلداری کا
درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا
ہم نے چاہا بھی، مگر دل نہ ٹھہرنا چاہا






متفرق قطعات

یہ خوں کی مہک ہے کہ لبِ یار کی خوشبو
کس راہ کی جانب سے صبا آتی ہے دیکھو
گلشن میں بہار آئی کہ زنداں ہوا آباد
کس سمت سے نغموں کی صدا آتی ہے دیکھو

-----------






شامِ شہرِ یاراں

پیش گفتار

جب میں نے اس مجموعے کا مسودہ اشاعت کے لیے بھیجا تو اپنے دوست اور ناشر چودھری عبد الحمید صاحب کی جانب سے فرمائش وصول ہوئی کہ اس میں کچھ نثر کا بھی اضافہ ہونا چاہیے، اس لیے کہ بقول ان کے بعض لوگوں کو مصنف کی ذات میں بھی دلچسپی ہے۔ ایک عزیز اور کرم فرما مرزا ظفر الحسن پہلے ہی سے اس کام کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ چنانچہ انہی کے جمع کردہ مصالح کا کچھ حصہ ان صفحات میں شامل کر دیا گیا ہے۔

فیض






سجاد ظہیر کے نام

نہ اب ہم ساتھ سیرِ گُل کریں گے

نہ اب مل کر سرِ مقتل چلیں گے

حدیثِ دلبراں باہم کریں گے

نہ خونِ دل سے شرحِ غم کریں گے

نہ لیلائے سخن کی دوست داری

نہ غم ہائے وطن پر اشکباری

سنیں گے نغمۂ زنجیر مل کر

نہ شب بھر مل کے چھلکائیں گے ساغر

بنامِ شاہدِ نازک خیالاں

بیادِ مستیِ چشمِ غزالاں

بنامِ انبساطِ بزمِ رنداں

بیادِ کلفتِ ایّامِ زنداں

صبا اور اُس کا اندازِ تکلّم

سحر اور اُس کا آغازِ تبسّم

فضا میں ایک ہالہ سا جہاں ہے

یہی تو مسندِ پیرِ مغاں ہے

سحر گہ اب اُسی کے نام ساقی

کریں اتمامِ دورِ جام ساقی

بساطِ بادہ و مینا اُٹھا لو

بڑھا دو شمعِ محفل بزم والو

پیو اب ایک جامِ الوداعی

پیو اور پی کے ساغر توڑ ڈالو

***دہلی ستمبر 1973ء






اے شام مہرباں ہو

اے شام مہرباں ہو

اے شامِ شہرِ یاراں

ہم پہ مہرباں ہو

دوزخی دوپہر ستم کی

بے سبب ستم کی

دوپہر درد و غیظ و غم کی

بے زباں درد و غیظ و غم کی

اس دوزخی دوپہر کے تازیانے

آج تن پر دھنک کی صورت

قوس در قوس بٹ گئے ہیں

زخم سب کھُل گئے ہیں

داغ جانا تھا چھٹ گئے ہیں

ترے توشے میں کچھ تو ہو گا

مرہمِ درد کا دوشالہ

تن کے اُس انگ پر اُڑھا دے

درد سب سے سوا جہاں ہو

اے شام مہرباں ہو

اے شامِ شہرِ یاراں

ہم پہ مہرباں ہو

دوزخی دشت نفرتوں کے

بے درد نفرتوں کے

کرچیاں دیدۂ حسد کی

خس و خاشاک رنجشوں کے

اتنی سنسان شاہراہیں

اتنی گنجان قتل گاہیں

جن سے آئے ہیں ہم گزر کر

آبلہ بن کے ہر قدم پر

یوں پاؤں کٹ گئے ہیں

رستے سمٹ گئے ہیں

مخملیں اپنے بادلوں کی

آج پاؤں تلے بچھا دے

شافیِ کربِ رہرواں ہو

اے شام مہرباں ہو

اے مہِ شبِ نگاراں

اے رفیقِ دلفگاراں

اس شام ہمزباں ہو

اے شام مہرباں ہو

اے شام مہرباں ہو

اے شامِ شہریاراں

ہم پہ مہرباں ہو

1974ء






گیت

چلو پھر سے مسکرائیں

چلو پھر سے دل جلائیں

جو گزر گئی ہیں راتیں

اُنہیں پھر جگا کے لائیں

جو بسر گئی ہیں باتیں

اُنہیں یاد میں بُلائیں

چلو پھر سے دل لگائیں

چلو پھر سے مسکرائیں

کسی شہ نشیں پہ جھلکی

وہ دھنک کسی قبا کی

کسی رگ میں کسمسائی

وہ کسک کسی ادا کی

کوئی حرف بے مروّت

کسی کُنجِ لب سے پھُوٹا

وہ چھنک کے شیشۂ دل

تہِ بام پھر سے ٹوٹا

یہ مِلن کی نا مِلن کی

یہ لگن کی اور جلن کی

جو سہی ہیں وارداتیں

جو گُزر گئی ہیں راتیں

جو بِسر گئی ہیں باتیں

کوئی ان کی دھُن بنائیں

کوئی ان کا گیت گائیں

چلو پھر سے مسکرائیں

چلو پھر سے دل جلائیں

1974ء






ہم تو مجبور تھے اس دل سے

ہم تو مجبور تھے اس دل سے کہ جس میں ہر دم

گردشِ خوں سے وہ کُہرام بپا رہتا ہے

جیسے رندانِ بلا نوش جو مل بیٹھیں بہم

میکدے میں سفرِ جام بپا رہتا ہے

سوزِ خاطر کو ملا جب بھی سہارا کوئی

داغِ حرمان کوئی، دردِ تمنّا کوئی

مرہمِ یاس سے مائل بہ شِفا ہونے لگا

زخمِ اُمّید کوئی پھر سے ہرا ہونے لگا

ہم تو مجبور تھے اس دل سے کی جس کی ضد پر

ہم نے اُس رات کے ماتھے پہ سحر کی تحریر

جس کے دامن میں اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہ تھا

ہم نے اُس دشت کو ٹھہرا لیا فردوس نظیر

جس میں جُز صنعتِ خونِ سرِ پا کچھ بھی نہ تھا

دل کو تعبیر کوئی اور گوارا ہی نہ تھی

کلفتِ زیست تو منظور تھی ہر طور مگر

راحتِ مرگ کسی طور گوارا ہی نہ تھی

1974ء






غزل

نہ اب رقیب نہ ناصح نہ غم گسار کوئی

تم آشنا تھے تو تھیں آشنائیاں کیا کیا

جُدا تھے ہم تو میسّر تھیں قربتیں کتنی

بہم ہوئے تو پڑی ہیں جدائیاں کیا کیا

پہنچ کے در پہ ترے کتنے معتبر ٹھہرے

اگرچہ رہ میں ہوئیں جگ ہنسائیاں کیا کیا

ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے

بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا

ستم پہ خوش کبھی لطف و کرم سے رنجیدہ

سکھائیں تم نے ہمیں کج ادائیاں کیا کیا

1974ء






ڈھاکہ سے واپسی پر

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مُلاقاتوں کے بعد

پھر بنیں گے آشنا کتنی مداراتوں کے بعد

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار

خون کے دھبّے دھُلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

تھے بہت بے درد لمحے ختمِ دردِ عشق کے

تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد

دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی

کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد

اُن سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیے

اَن کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

1974ء






غزل

یہ موسِمِ گرچہ طرب خیز بہت ہے

احوالِ گُل و لالہ غم انگیز بہت ہے

خوش دعوتِ یاراں بھی ہے یلغارِ عدو بھی

کیا کیجیے دل کا جو کم آمیز بہت ہے

یوں پیرِ مغاں شیخِ حرم سے ہوئے یک جاں

میخانے میں کم ظرفیِ پرہیز بہت ہے

اک گردنِ مخلوق جو ہر حال میں خم ہے

اک بازوئے قاتل ہے کہ خوں ریز بہت ہے

کیوں مشعلِ دل فیض چھپاؤ تہِ داماں!

بُجھ جائے گی یُوں بھی کہ ہوا تیز بہت ہے

1975ء






بہار آئی

بہار آئی تو جیسے یک بار

لَوٹ آئے ہیں پھر عدم سے

وہ خواب سارے، شباب سارے

جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے

جو مٹ کے ہر بار پھر جیے تھے

نِکھر گئے ہیں گلاب سارے

جو تیری یادوں سے مُشکبو ہیں

جو تیرے عُشّاق کا کہو ہیں

اُبل پڑے ہیں عذاب سارے

ملالِ احوالِ دوستاں بھی

خمارِ آغوشِ مہ وشاں بھی

غُبارِ خاطر کے باب سارے

ترے ہمارے

سوال سارے جواب سارے

بہار آئی تو کھِل گئے ہیں

نئے سرے سے حساب سارے

اپریل 1975ء






تم اپنی کرنی کر گزرو

اب کیوں اُس دن کا ذکر کرو

جب دل ٹکڑے ہو جائے گا

اور سارے غم مِٹ جائیں گے

جو کچھ پایا کھو جائے گا

جو مل نہ سکا وہ پائیں گے

یہ دن تو وہی پہلا دن ہے

جو پہلا دن تھا چاہت کا

ہم جس کی تمنّا کرتے رہے

اور جس سے ہر دم ڈرتے رہے

یہ دن تو کئی بار آیا

سو بار بسے اور اُجڑ گئے

سو بار لُٹے اور بھر پایا

اب کیوں اُس دن کا ذکر کرو

جب دل ٹکڑے ہو جائے گا

اور سارے غم مِٹ جائیں گے

تم خوف و خطر سے در گزرو

جو ہونا ہے سو ہونا ہے

گر ہنسنا ہے تو ہنسنا ہے

گر رونا ہے تو رونا ہے

تم اپنی کرنی کر گزرو

جو ہو گا دیکھا جائے گا

اکتوبر 1975ء






موری اَرج سُنو

(نذرِ خسرو)

"موری ارج سُنو دست گیر پیر"

"مائی ری، کہوں کاسے میں

اپنے جیا کی پیر"

"نیا باندھو رے،

باندھو رے کنارِ دریا"

"مورے مندر اب کیوں نہیں آئے"

اس صورت سے

عرض سناتے

درد بتاتے

نیّا کھیتے

مِنّت کرتے

رستہ تکتے

کتنی صدیاں بیت گئی ہیں

اب جا کر یہ بھید کھُلا ہے

جس کو تم نے عرض گزاری

جو تھا ہاتھ پکڑنے والا

جس جا لاگی ناؤ تمھاری

جس سے دُکھ کا دارُو مانگا

تورے مندر میں جو نہیں آیا

وہ تو تُمھیں تھے

وہ تو تُمھیں تھے

ستمبر 1975ء






غزل

ہمیں سے اپنی نوا ہم کلام ہوتی رہی

یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی

مقابلِ صفِ اعداء جسے کیا آغاز

وہ جنگ اپنے ہی دل میں تمام ہوتی رہی

کوئی مسیحا نہ ایفائے عہد کو پہنچا

بہت تلاش پسِ قتلِ عام ہوتی رہی

یہ برہمن کا کرم، وہ عطائے شیخِ حرم

کبھی حیات کبھی مَے حرام ہوتی رہی

جو کچھ بھی بن نہ پڑا، فیض لُٹ کے یاروں سے

تو رہزنوں سے دعا و سلام ہوتی رہی






***

تجھے پکارا ہے بے ارادہ

جو دل دکھا ہے بہت زیادہ

ندیم ہو تیرا حرفِ شیریں

تو رنگ پر آئے رنگِ بادہ

عطا کرو اک ادائے دیریں

تو اشک سے تر کریں لبادہ

نہ جانے کس دن سے منتظِر ہے

دلِ سرِ رہ گزر فتادہ

کہ ایک دن پھر نظر میں آئے

وہ بامِ روشن، وہ در کشادہ

وہ آئے پُرسش کو پھر سجائے

قبائے رنگیں، ادائے سادہ






***

حسرتِ دید میں گزراں ہیں زمانے کب سے

دشتِ اُمّید میں گرداں ہیں دوانے کب سے

دیر سے آنکھ پہ اُترا نہیں اشکوں کا عذاب

اپنے ذمّے ہے ترا فرض نہ جانے کب سے

کس طرح پاک ہو بے آرزو لمحوں کا حساب

درد آیا نہیں دربار سجانے کب سے

سر کرو ساز کہ چھیڑیں کوئی دل سوز غزل

"ڈھونڈتا ہے دلِ شوریدہ بہانے کب سے"






لینن گراڈ کا گورستان

سرد سِلوں پر

زرد سِلوں پر

تازہ گرم لہو کی صورت

گلدستوں کے چھینٹے ہیں

کتبے سب بے نام ہیں لیکن

ہر اک پھول پہ نام لکھا ہے

غافل سونے والے کا

یاد میں رونے والے کا

اپنے فرض سے فارغ ہو کر

اپنے لہو کی تان کے چادر

سارے بیٹے خواب میں ہیں

اپنے غموں کا ہار پرو کر

امّاں اکیلی جاگ رہی ہے

لینن گراڈ 1976ء






غزل

یہ کس خلش نے پھر اس دل میں آشیانہ کیا

پھر آج کس نے سخن ہم سے غائبانہ کیا

غمِ جہاں ہو، رخِ یار ہو کہ دستِ عدو

سلوک جس سے کیا ہم نے عاشقانہ کیا

تھے خاکِ راہ بھی ہم لوگ قہرِ طوفاں بھی

سہا تو کیا نہ سہا اور کیا تو کیا نہ کیا

خوشا کہ آج ہر اک مُدّعی کے لب پر ہے

وہ راز جس نے ہمیں راندۂ زمانہ کیا

وہ حیلہ گر جو وفا جُو بھی ہے جفا خُو بھی

کِیا بھی فیض تو کس بُت سے دوستانہ کیا

**1976






***

کچھ عشق کیا کچھ کام کیا

وہ لوگ بہت خوش قسمت تھے

جو عشق کو کام سمجھتے تھے

یا کام سے عاشقی کرتے تھے

ہم جیتے جی مصروف رہے

کچھ عشق کیا، کچھ کام کیا

کام عشق کے آڑے آتا رہا

اور عشق سے کام اُلجھتا رہا

پھر آخر تنگ آ کر ہم ہے

دونوں کو ادھورا چھوڑ دیا

1976ء






درِ اُمید کے دریوزہ گر

پھر پھُرَیرے بن کے میرے تن بدن کی دھجّیاں

شہر کے دیوار و در کو رنگ پہنانے لگیں

پھر کف آلودہ زبانیں مدح و ذَم کی قمچیاں

میرے ذہن و گوش کے زخموں پہ برسانے لگیں

پھر نکل آئے ہوَسناکوں کے رقصاں طائفے

درد مندِ عشق پر ٹھٹھّے لگانے کے لیے

پھر دُہل کرنے لگے تشہیرِ اخلاص و وفا

کشتۂ صدق و صفا کا دل جلانے کے لیے

ہم کہ ہیں کب سے درِ اُمّید کے دریوزہ گر

یہ گھڑی گُزری تو پھر دستِ طلب پھیلائیں گے

کوچہ و بازار سے پھر چُن کے ریزہ ریزہ خواب

ہم یونہی پہلے کی صورت جوڑنے لگ جائیں گے

مارچ 1977ء






آج اِک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال

(1)

آج اِک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال

مدھ بھرا حرف کوئی، زہر بھرا حرف کوئی

دل نشیں حرف کوئی، قہر بھرا حرف کوئی

حرفِ اُلفت کوئی دلدارِ نظر ہو جیسے

جس سے ملتی ہے نظر بوسۂ لب کی صورت

اتنا روشن کہ سرِ موجۂ زر ہو جیسے

صحبتِ یار میں آغازِ طرب کی صورت

حرفِ نفرت کوئی شمشیرِ غضب ہو جیسے

تا ابَد شہرِ ستم جس سے تبہ ہو جائیں

اتنا تاریک کہ شمشان کی شب ہو جیسے

لب پہ لاؤں تو مِرے ہونٹ سیہ ہو جائیں

(2)

آج ہر سُر سے ہر اک راگ کا ناتا ٹوٹا

ڈھونڈتی پھرتی ہے مطرب کو پھر اُس کی آواز

جوششِ درد سے مجنوں کے گریباں کی طرح

چاک در چاک ہُوا آج ہر اک پردۂ ساز

آج ہر موجِ ہوا سے ہے سوالی خلقت

لا کوئی نغمہ، کوئی صَوت، تری عمر دراز

نوحۂ غم ہی سہی، شورِ شہادت ہی سہی

صورِ محشر ہی سہی، بانگِ قیامت ہی سہی

جولائی 1977ء






غزل

کس شہر نہ شُہرہ ہُوا نادانیِ دل کا

کس پر نہ کھُلا راز پریشانیِ دل کا

آؤ کریں محفل پہ زرِ زخم نمایاں

چرچا ہے بہت بے سر و سامانیِ دل کا

دیکھ آئیں چلو کوئے نگاراں کا خرابہ

شاید کوئی محرم ملے ویرانیِ دل کا

پوچھو تو ادھر تیر فگن کون ہے یارو

سونپا تھا جسے کام نگہبانیِ دل کا

دیکھو تو کدھر آج رُخِ بادِ صبا ہے

کس رہ سے پیام آیا ہے زندانیِ دل کا

اُترے تھے کبھی فیض وہ آئینۂ دل میں

عالم ہے وہی آج بھی حیرانیِ دل کا






اشعار

وہ بُتوں نے ڈالے ہیں وسوسے کہ دلوں سے خوفِ خدا گیا

وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا

جو نفس تھا خارِ گلُو بنا، جو اُٹھے تھے ہاتھ لہُو ہوئے

وہ نَشاطِ آہِ سحر گئی، وہ وقارِ دستِ دُعا گیا

جو طلب پہ عہدِ وفا کیا، تو وہ قدرِ رسمِ وفا گئی

سرِ عام جب ہوئے مُدّعی، تو ثوابِ صدق و وفا گیا






کلامِ تازہ

دلِ من مسافرِ من

مرے دل، مرے مسافر

ہوا پھر سے حکم صادر

کہ وطن بدر ہوں ہم تم

دیں گلی گلی صدائیں

کریں رُخ نگر نگر کا

کہ سراغ کویہ پائیں

کسی یارِ نامہ بر کا

ہر اک اجنبی سے پوچھیں

جو پتہ تھا اپنے گھر کا

سرِ کوۓ ناشناساں

ہمیں دن سے رات کرنا

کبھی اِس سے بات کرنا

کبھی اُس سے بات کرنا

تمھیں کیا کہوں کہ کیا ہے

شبِ غم بُری بلا ہے

ہمیں یہ بھی تھا غنیمت

جو کوئی شمار ہوتا

ہمیں یا برا تھا مرنا

اگر ایک بار ہوتا

۔۔ 1978ء






غزل

سہل یوں راہِ زندگی کی ہے

ہر قدم ہم نے عاشقی کی ہے

ہم نے دل میں سجا لئے گلشن

جب بہاروں نے بے رُخی کی ہے

زہر سے دھو لئے ہیں ہونٹ اپنے

لطفِ ساقی نے جب کمی کی ہے

بس وہی سرخرو ہوا جس نے

بحرِ خوں میں شناور ی کی ہے

جو گزرتے تھے داغ پر صدمے

اب وہی کیفیت سبھی کی ہے

۔۔ 1978ء






پھول مرجھا گئے ہیں سارے

پھول مرجھا گئے ہیں سارے

تھمتے نہیں آسماں کے آنسو

شمعیں بے نور ہو گئی ہیں

آئینے چور ہو گئے ہیں

ساز سب بج کے کھو گئے ہیں

پایلیں بُجھ کے سو گئی ہیں

اور اُن بادلوں کے پیچھے

دور اِس رات کا دلارا

درد کا ستارا

ٹمٹما رہا ہے

جھنجھنا رہا ہے

مسکرا رہا ہے

۔۔ 1978ء






غزل

ستم سکھلاۓ گا رسمِ وفا، ایسے نہیں ہوتا

صنم دکھلائیں گے راہِ خدا ایسے نہیں ہوتا

گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیں تن کے مقتل میں

مرے قاتل حسابِ دوستاں ایسے نہیں ہوتا

جنإبِ دل میں کام آتی ہیں تدبیریں نہ تعزیریں

یہاں پیمانِ تسلیم و رضا ایسے نہیں ہوتا

ہر اک شب، ہر گھڑی، گزرے قیامت، یوں تو ہوتا ہے

مگر ہر صبح ہو روزِ جزا ایسے نہیں ہوتا

رواں ہے نبضِ دوراں گردشوں میں آسماں سارے

جو تم کہتے ہو سب اچھا، کبھی ایسے نہیں ہوتا

۔۔ 1978ء






کوئ عاشق کسی محبوبہ سے

گلشنِ یاد میں گر آج دمِ بادٕ صبا

پھر سے چاہے گل افشاں ہو تو ہو جانے دو

عمرِ رفتہ کے کسی طاق پہ بسرا ہوا درد

پھر سے چاہے کہ فروزاں ہو تو ہو جانے دو

یسے بیگانے سے اب ملتے ہو، ویسے ہی سہی

آؤ دو چار گھڑی میرے مقابل بیٹھو

گر چہ مل بیٹھیں گے ہم تم جو ملاقات کے بعد

اپنا احساسِ زیاں جانئے کتنا ہو گا

ہم سخن ہوں گے جو ہم دونوں تو ہر بات کے بیچ

ان کہی باتوں کا موہوم سا پردا ہو گا

کوئی اقرار نہ میں یاد دلاؤں گا نہ تم

کوئ مضموں نہ وفا کا، جفا کا ہو گا

گردِ اّیام کی تحریر کو دھونے کے لیے

تم سے گویا ہیں دمِ دید جو بوجھل پلکیں

تم جو چاہو تو سنو اور نہ چاہو نہ سنو

اور جو حرف کریں مجھ سے گریزاں آنکھیں

تم جو چاہو تو کہو اور نہ چاہو نہ کہو

۔۔ 1978ء

(فرمایشیں)






مرثیۂ امام

رات آئی ہے شبّیر پہ یلغارِ بلا ہے

ساتھی نہ کوئی یار نہ غمخوار رہا ہے

مونِس ہے تو اِک درد کی گھنگھور گھٹا ہے

مُشفِق ہے تو اک دل کے دھڑکنے کی صدا ہے

تنہائی کی، غربت کی، پریشانی کی شب ہے

یہ خانۂ شبّیر کی ویرانی کی شب ہے

دشمن کی سپہ خواب میں‌ مدہوش پڑی تھی

پل بھر کو کسی کی نہ اِدھر آنکھ لگی تھی

ہر ایک گھڑی آج قیامت کی گھڑی تھی

یہ رات بہت آلِ محمّد پہ کڑی تھی

رہ رہ کے بُکا اہلِ‌حرم کرتے تھے ایسے

تھم تھم کے دِیا آخرِ شب جلتا ہے جیسے

اِک گوشے میں‌ ان سوختہ سامانوں‌ کے سالار

اِن خاک بسر، خانماں ویرانوں‌ کے سردار

تشنہ لب و درماندہ و مجبور و دل افگار

اِس شان سے بیٹھے تھے شہِ لشکرِ احرار

مسند تھی، نہ خلعت تھی، نہ خدّام کھڑے تھے

ہاں‌ تن پہ جدھر دیکھیے سو زخم سجے تھے

کچھ خوف تھا چہرے پہ نہ تشویش ذرا تھی

ہر ایک ادا مظہرِ تسلیم و رضا تھی

ہر ایک نگہ شاہدِ اقرارِ وفا تھی

ہر جنبشِ لب منکرِ دستورِ جفا تھی

پہلے تو بہت پیار سے ہر فرد کو دیکھا

پھر نام خدا کا لیا اور یوں ہوئے گویا

الحمد قریب آیا غمِ عشق کا ساحل

الحمد کہ اب صبحِ شہادت ہوئی نازل

بازی ہے بہت سخت میانِ حق و باطل

وہ ظلم میں‌کامل ہیں تو ہم صبر میں ‌کامل

بازی ہوئی انجام، مبارک ہو عزیزو

باطل ہُوا ناکام، مبارک ہو عزیزو

پھر صبح کی لَو آئی رخِ پاک پہ چمکی

اور ایک کرن مقتلِ خونناک پہ چمکی

نیزے کی انی تھی خس و خاشاک پہ چمکی

شمشیر برہنہ تھی کہ افلاک پہ چمکی

دم بھر کے لیے آئینہ رُو ہو گیا صحرا

خورشید جو ابھرا تو لہو ہو گیا صحرا

پر باندھے ہوئے حملے کو آئی صفِ‌ اعدا

تھا سامنے اِک بندۂ حق یکّہ و تنہا

ہر چند کہ ہر اک تھا اُدھر خون کا پیاسا

یہ رُعب کا عالم کہ کوئی پہل نہ کرتا

کی آنے میں ‌تاخیر جو لیلائے قضا نے

خطبہ کیا ارشاد امامِ شہداء نے

فرمایا کہ کیوں در پئے ‌آزار ہو لوگو

حق والوں ‌سے کیوں ‌برسرِ پیکار ہو لوگو

واللہ کہ مجرم ہو، گنہگار ہو لوگو

معلوم ہے کچھ کس کے طرفدار ہو لوگو

کیوں ‌آپ کے آقاؤں‌ میں ‌اور ہم میں ‌ٹھنی ہے

معلوم ہے کس واسطے اس جاں پہ بنی ہے

سَطوت نہ حکومت نہ حشم چاہیئے ہم کو

اور نگ نہ افسر، نہ عَلم چاہیئے ہم کو

زر چاہیئے، نے مال و دِرم چاہیئے ہم کو

جو چیز بھی فانی ہے وہ کم چاہیئے ہم کو

سرداری کی خواہش ہے نہ شاہی کی ہوس ہے

اِک حرفِ یقیں، دولتِ ایماں‌ ہمیں‌ بس ہے

طالب ہیں ‌اگر ہم تو فقط حق کے طلبگار

باطل کے مقابل میں‌ صداقت کے پرستار

انصاف کے، نیکی کے، مروّت کے طرفدار

ظالم کے مخالف ہیں‌ تو بیکس کے مددگار

جو ظلم پہ لعنت نہ کرے، آپ لعیں ہے

جو جبر کا منکر نہیں ‌وہ منکرِ‌ دیں ‌ہے

تا حشر زمانہ تمہیں مکّار کہے گا

تم عہد شکن ہو، تمہیں غدّار کہے گا

جو صاحبِ دل ہے، ہمیں ‌ابرار کہے گا

جو بندۂ‌ حُر ہے، ہمیں‌ احرار کہے گا

نام اونچا زمانے میں ‌ہر انداز رہے گا

نیزے پہ بھی سر اپنا سرافراز رہے گا

کر ختم سخن محوِ‌ دعا ہو گئے شبّیر

پھر نعرہ زناں محوِ وغا ہو گئے شبیر

قربانِ رہِ صدق و صفا ہو گئے شبیر

خیموں میں‌ تھا کہرام، جُدا ہو گئے شبیر

مرکب پہ تنِ پاک تھا اور خاک پہ سر تھا

اِس خاک تلے جنّتِ ‌فردوس کا در تھا

(1964)






مدح

حسین شہید سہروردی مرحوم نے راولپنڈی "سازش" کیس ملزموں کی جانب سے وکالت کی تھی۔ مقدمے کے خاتمے پر انھیں یہ سپاسنامہ پیش کیا گیا۔

کس طرح بیاں ہو ترا پیرایۂ تقریر

گویا سرِ باطل پہ چمکنے لگی شمشیر

وہ زور ہے اِک لفظ اِدھر نُطق سے نکلا

واں سینۂ اغیار میں پیوست ہُوئے تیر

گرمی بھی ہے ٹھنڈک بھی، روانی بھی سکوں بھی

تاثیر کا کیا کہیے، ہے تاثیر سی تاثیر

اعجاز اسی کا ہے کہ اربابِ ستم کی

اب تک کوئی انجام کو پہنچی نہیں تدبیر

اطرافِ وطن میں ہُوا حق بات کا شُہرہ

ہر ایک جگہ مکر و ریا کی ہُوئی تشہیر

روشن ہوئے اُمّید سے رُخ اہلِ وفا کے

پیشانیِ اعدا پہ سیاہی ہوئی تحریر

(2)

حرّیتِ آدم کی رہِ سخت کے رہگیر

خاطر میں نہیں لاتے خیالِ دمِ تعزیر

کچھ ننگ نہیں رنجِ اسیری کہ پُرانا

مردانِ صفا کیش سے ہے رشتۂ زنجیر

کب دبدبۂ جبر سے دبتے ہیں کہ جن کے

ایمان و یقیں دل میں کیے رہتے ہیں تنویر

معلوم ہے ان کو کہ رہا ہو گی کسی دن

ظالم کے گراں ہاتھ سے مظلوم کی تقدیر

آخر کو سرافراز ہُوا کرتے ہیں احرار

آخر کو گرا کرتی ہے ہر جَور کی تعمیر

ہر دَور میں سر ہوتے ہیں قصرِ جم و دارا

ہر عہد میں دیوارِ ستم ہوتی ہے تسخیر

ہر دَور میں ملعون شقاوت ہے شمر کی

ہر عہد میں مسعود ہے قربانیِ شبّیر

(3)

کرتا ہے قلم اپنے لب و نطق کی تطہیر

پہنچی ہے سرِ حرفِ دعا اب مری تحریر

ہر کام میں برکت ہو ہر اک قول میں قوّت

ہر گام پہ ہو منزلِ مقصود قدم گیر

ہر لحظہ ترا طالعِ اقبال سوا ہو

ہر لحظہ مددگار ہو تدبیر کی تقدیر

ہر بات ہو مقبول، ہر اک بول ہو بالا

کچھ اور بھی رونق میں بڑھے شعلۂ تقریر

ہر دن ہو ترا لطفِ زباں اور زیادہ

اللہ کرے زورِ بیاں اور زیادہ






گیت

منزلیں، منزلیں

شوقِ دیدار کی منزلیں

حُسنِ دلدار کی منزلیں، پیار کی منزلیں

پیار کی بے پنہ رات کی منزلیں

کہکشانوں کی بارات کی منزلیں

سربلندی کی، ہمّت کی، پرواز کی

جوشِ پرواز کی منزلیں

راز کی منزلیں

زندگی کی کٹھن راہ کی منزلیں

سربلندی کی، ہمّت کی، پرواز کی

جوشِ پرواز کی منزلیں

راز کی منزلیں

آن ملنے کے دن

پھول کھلنے کے دن

وقت کے گھور ساگر میں صبح کی

شام کی منزلیں

چاہ کی منزلیں

آس کی، پیاس کی

حسرتِ یار کی

پیار کی منزلیں

منزلیں حسنِ عالم کے گلزار کی

منزلیں، منزلیں

موج در موج ڈھلتی ہوئی رات کے درد کی منزلیں

چاند تاروں کے ویران سنسار کی منزلیں

اپنی دھرتی کے آباد بازار کی منزلیں

حق کے عرفان کی

نور انوار کی منزلیں

وصلِ دلدار کی منزلیں

قول و اقرار کی منزلیں

منزلیں، منزلیں

(فلم، "قسم اُس وقت کی")






گیت

اب کے دیکھیں راہ تمھاری

بیت چلی ہے رات

چھوڑو

چھوڑو غم کی بات

تھم گئے آنسو

تھک گئیں اکھّیاں

گزر گئی برسات

بیت چلی ہے رات

چھوڑو

چھوڑو غم کی بات

کب سے آس لگی درشن کی

کوئی نہ جانے بات

کوئی نہ جانے بات

بیت چلی ہے رات

چھوڑو غم کی بات

تم آؤ تو من میں اترے

پھولوں کی بارات

بیت چلی ہے رات

اب کیا دیکھیں راہ تمھاری

بیت چلی ہے رات

(فلم، "جاگو ہُوا سویرا")






گیت

ہم تیرے پاس آئے

سارے بھرم مٹا کر

سب چاہتیں بھلا کر

کتنے اداس آئے

ہم تیرے پاس جا کر

کیا کیا نہ دل دکھا ہے

کیا کیا بہی ہیں اکھیاں

کیا کیا نہ ہم پہ بیتی

کیا کیا ہوئے پریشاں

ہم تجھ سے دل لگا کر

تجھ سے نظر ملا کر

کتنے فریب کھائے

اپنا تجھے بنا کر

ہم تیرے پاس آئے

سارے بھرم مٹا کر

تھی آس آج ہم پر کچھ ہو گی مہربانی

ہلکا کریں گے جی کو سب حالِ دل زبانی

تجھ کو سنا سنا کر

آنسو بہا بہا کر

کتنے اداس آئے

ہم تیرے پاس جا کر

ہم تیرے پاس آئے

سارے بھرم مٹا کر

(فلم۔ "سُکھ کا سپنا")






غزل

جگر دریدہ ہوں چاکِ جگر کی بات سنو

الم رسیدہ ہوں دامانِ تر کی بات سنو

زباں بریدہ ہوں زخمِ گلو سے حرف کرو

شکستہ پا ہوں ملالِ سفر کی بات سنو

مسافرِ رہِ صحرائے ظلمتِ شب سے

اب التفاتِ نگارِ سحر کی بات سنو

سحر کی بات، امیدِ سحر کی بات سنو






غزل

حیراں ہے جبیں آج کدھر سجدہ روا ہے

سر پر ہیں خداوند سرِ عرش خدا ہے

کب تک اسے سینچو گے تمنائے ثمر میں

یہ صبر کا پودا تو نہ پھولا ہے نہ پھلا ہے

ملتا ہے خراج اس کو تری نانِ جویں سے

ہر بادشہِ وقت ترے در کا گدا ہے

ہر ایک عقوبت سے ہے تلخی میں سوا تر

وہ رنج جو نا کردہ گناہوں کی سزا ہے

احسان لیے کتنے مسیحا نفسوں کے

کیا کیجیے دل کا، نہ جلا ہے نہ بجھا ہے

اکتوبر 77ء






(پنجابی نظماں)

لمّی رات سی درد فراق والی

تیرے قول تے اساں وساہ کر کے

کَوڑا گھُٹ کیتی مٹھڑے یار میرے

مٹھڑے یار میرے، جانی یار میرے

تیرے قول تے اساں وساہ کر کے

جھانجراں وانگ، زنجیراں چھنکائیاں نیں

کدی کنّیں مندراں پائیاں نیں

کدی پیریں بیڑیاں چائیاں نیں

تیری تاہنگ وِچ پَٹ دا ماس دے کے

اساں کاگ سدّے، اساں سنیہہ گھلّے

رات مُکدی اے، یار آوندا اے

اسیں تک دے رہے ہزار ولّے

کوئی آیا نہ بِناں خُنامیاں دے

کوئی پُجّا نہ سوا اُلاہمیاں دے

اَج لاہ اُلاہمے مٹھڑے یار میرے

اَج آ ویہڑے وِچھڑے یار میرے

فجر ہووے تے آکھیے بسم اللہ

اَج دولتاں ساڈے گھر آئیاں نیں

جیہدے قول تے اساں وساہ کیتا

اوہنے اوڑک توڑ نبھائیاں نیں

1971ء






گیت

کدھرے نہ پیندیاں دسّاں

وے پردیسیا تیریاں

کاگ اُڈاواں، شگن مناواں

وگدی وا دے ترلے پاواں

تری یاد پوے تے روواں

ترا ذکر کراں تاں ہسّاں

کدھرے نہ پیندیاں دسّاں

وے پردیسیا تیریاں

درد نہ دسّاں گھُلدی جاواں

راز نہ کھولاں مُکدی جاواں

کس نوں دل دے داغ وِکھاواں

کس در اَگّے جھولی ڈھاواں

وے میں کس دا دامن کھسّاں

کدھرے نہ پیندیاں دسّاں

وے پردیسیا تیریاں

شام اُڈیکاں، فجر اُڈیکاں

آکھیں تے ساری عمر اُڈیکاں

آنڈ گوانڈی دیوے بلدے

ربّا ساڈا چانن گَھلدے

جگ وَسدائے میں وی وَسّاں

کدھرے نہ پیندیاں دسّاں

کدھرے نہ پیندیاں دسّاں

وے پردیسیا تیریاں

1971ء






میری ڈولی شوہ دریا

(74ء کے سیلاب زدوں کے امدادی فنڈ کے لیے لکھے گئی)

کل تائیں سانوں بابلا

تو رکھّیا ہِک نال لا

سَت خیراں ساڈیاں منگیاں

جد جھُلّی تتّی وا

اَج کیکن ویہڑیوں ٹوریا

کویں لاہے نی میرے چاء

میرے گہنے نیل ہتھ پیر دے

میری ڈولی شوہ دریا

اَج لتھّے سارے چاء

میری ڈولی شوہ دریا

نال رُہڑدیاں رُڑھ گیاں سدّھراں

نال روندیاں رُل گئے نیر

نال ہُونج ہُونج کے لَے گئے

میرے ہتھ دی لیکھ لکیر

میری چُنّی بک سواہ دی

میرا چولا لِیر و لِیر

لج پالن بَوہڑے بھین دی

کوئی کرماں والے وِیر

میرے کرماں والے وِیر

میرا چولا لِیر و لِیر

میرے لتّھے سارے چاء

میری ڈولی شوہ دریا

سسّی مر کے جنتن ہو گئی

میں تر کے اَوتر حال

سُن ہاڑے اِس مسکین دے

ربّا پورا کر سوال

میری جھوک وَسّے، میرا ویر وَسّے

فیر تیری رحمت نال

کوئی پُورا کرے سوال ربّا

تیری رحمت نال

میرے لتّھے سارے چاء

میری ڈولی شوہ دریا






ربّا سچّیا

ربّا سچّیا توں تے آکھیا سی

جا اوئے بندیا جگ دا شاہ ہیں توں

ساڈیاں نعمتاں تیریاں دولتاں نیں

ساڈا نَیب تے عالیجاہ ہیں توں

ایس لارے تے ٹور کد پُچھیا ای

کِیہہ ایس نمانے تے بیتیاں نیں

کدی سار وی لئی اُو رب سائیاں

تیرے شاہ نال جگ کیہہ کیتیاں نیں

کِتے دھونس پولیس سرکار دی اے

کِتے دھاندلی مال پٹوار دی اے

اینویں ہڈّاں چ کلپے جان میری

جیویں پھاہی چ کُونج کُرلاوندی اے

چنگا شاہ بنایا اِی رب سائیاں

پَولے کھاندیاں وار نہ آوندی اے

مینوں شاہی نئیں چاہیدی رب میرے

میں تے عزّت دا ٹُکّر منگناں ہاں

مینوں تاہنگ نئیں، محلاں ماڑیاں دی

میں تے جِیویں دی نُکّر منگناں ہاں

میری مَنّیں تے تیریاں مَیں منّاں

تیری سَونہہ جے اِک وی گلّ موڑاں

جے ایہہ مانگ نئیں پُجدی تیں ربّا

فیر میں جاواں تے رب کوئی ہور لوڑاں

1974ء






قطعہ

اَج رات اِک رات دی رات جی کے

اَساں جُگ ہزاراں جی لِتّا اے

اَج رات امرت دے جام وانگوں

اینہاں ہتھّاں نے یار نوں پی لتا اے






تراجم

ناظم* حکمت

زندان سے ایک خط

مری جاں تجھ کو بتلاؤں، بہت نازک یہ نکتہ ہے

بدل جاتا ہے انساں جب مکاں اس کا بدلتا ہے

مجھے زنداں میں پیار آنے لگا ہے اپنے خوابوں پر

جو شب کو نیند اپنے مہرباں ہاتھوں سے

وا کرتی ہے در اس کا

تو آ گرتی ہے ہر دیوار اس کی میرے قدموں پر

میں ایسے غرق ہو جاتا ہوں اس دم اپنے خوابوں میں

کہ جیسے اِک کرن ٹھہرے ہوئے پانی پہ گرتی ہے

میں ان لمحوں میں کتنا سرخوش و دلشاد پھرتا ہوں

جہاں کی جگمگاتی وسعتوں میں کس قدر آزاد پھرتا ہوں

جہاں درد و الم کا نام ہے کوئی نہ زنداں ہے

"تو پھر بیدار ہونا کس قدر تم پر گراں ہو گا؟"

نہیں ایسا نہیں ہے، میری جاں، میرا یہ قصہ ہے

میں اپنے عزم و ہمت سے

وہی کچھ بخشتا ہوں نیند کو جو اس کا حصہ ہے






ویرا * کے نام

اُس نے کہا آؤ

اُس نے کہا ٹھہرو

مسکاؤ کہا اس نے

مر جاؤ کہا اس نے

میں آیا

میں ٹھہر گیا

مسکایا

اور مر بھی گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*ناظم حکمت کی رُوسی بیوی






وا میرے وطن

او میرے وطن، او میرے وطن، او میرے وطن

مرے سر پر وہ ٹوپی نہ رہی

جو تیرے دیس سے لایا تھا

پاؤں میں وہ اب جوتے بھی نہیں

واقف تھے جو تیری راہوں سے

مرا آخری کُرتا جاک ہوا

ترے شہر میں جو سِلوایا تھا

اب تیری جھلک

بس اُڑتی ہوئی رنگت ہے میرے بالوں کی

یا جھُرّیاں میرے ماتھے پر

یا میرا ٹوٹا ہوا دل ہے

وا میرے وطن، وا میرے وطن، وا میرے وطن






اولنجر*، عمر علی سلیمان

صحرا کی رات

کہیں بھی شبنم کہیں نہیں ہے

عجب، کہ شبنم کہیں نہیں ہے

نہ سرد خورشید کی جبیں پر

کسی کے رخ پر، نہ آستیں پر

ذرا سی شبنم کہیں نہیں ہے

پسے ہوئے پتھروں کی موجیں

خموش و ساکن

حرارتِ ماہِ نیم شب میں سلگ رہی ہیں

اور شبنم کہیں نہیں ہے

برہنہ پا غول گیدڑوں کے

لگا رہے ہیں بنوں میں ٹھٹھے

کہ آج شبنم کہیں نہیں ہے

ببول کے استخواں کے ڈھانچے

پکارتے ہیں

نہیں ہے شبنم، کہیں نہیں ہے

سفید، دھندلائی روشنی میں

ہیں دشت کی چھاتیاں برہنہ

ترس رہی ہیں جو حسنِ انساں لیے کہ شبنم کا ایک قطرہ

کہیں پہ برسے

یہ چاند بھی سرد ہو رہے گا

افق پہ جب صبح کا کنارا

کسی کرن سے دہک اٹھے گا

کہ ایک درماندہ راہرو کی

جبیں پہ شبنم کا ہاتھ چمکے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قازقستان کا ممتاز نوجوان شاعر

ٹائپنگ: وہاب اعجاز خان، محمد وارث، فاتح الدین بشیر، اعجاز عبید

ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔