03:13    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ ہجر کی کہانی بھی

1613 0 0 00




آدھی رات

سیاہ پیڑ ہیں اب آپ اپنی پرچھائیں

زمیں سے تا مہ و انجم سکوت کے مینار

جدھر نگاہ کریں اِک ا تھاہ گم شدگی

اِک ایک کر کے فرسودہ چراغوں کی پلکیں

جھپک گئیں جو کھلی ہیں جھپکنے والی ہیں

جھلک رہا ہے پڑا چاندنی کے درپن میں

رسیلے کیف بھرے منظروں کا جاگتا خواب

فلک پہ تاروں کو پہلی جماہیاں آئیں

کھڑا ہے اوس میں چپ چاپ ہرسنگار کا پیڑ

دلہن ہو جیسے حیا کی سگندھ سے بوجھل

یہ موجِ نور یہ بھرپور یہ کھلی ہوئی رات

کہ جیسے کھلتا چلا جائے اِک سفید کنول

خنک فضاؤں میں رقصاں ہیں چاند کی کرنیں

کہ آبگینوں پر پڑتی ہے نرم نرم پھوار

یہ موجِ غفلتِ معصوم یہ خمارِ بدن

یہ سانس نیند میں ڈوبی یہ آنکھ مدماتی

اب آؤ میرے کلیجے سے لگ کر سو جاؤ

یہ پلکیں بند کرو اور مجھ میں کھو جاؤ

٭٭٭






جگنو

فضا کا سرمئی رنگ اور ہو چلا گہرا

گھلا گھلا سا فلک ہے دھواں دھواں سی ہے شام

ہے جھٹپٹا کہ کوئی اژدہا ہے مائلِ خواب

سکوتِ شام میں درماندگی کا عالم ہے

رُکی رُکی سی صفیں ملگجی گھٹاؤں کی

اُتار پر ہے سر صحن رقص پیپل کا

وہ کچھ نہیں ہے اب اِک جنبشِ خفی کے سوا

خود اپنی کیفیت نیلگوں میں ہر لحظہ

یہ شام ڈوبتی جاتی ہے چھپتی جاتی ہے

حجابِ وقت سر سے ہے بے حس و حرکت

رُکی رُکی دلِ فطرت کی دھڑکنیں یک لخت

یہ رنگِ شام کہ گردش ہی آسماں میں نہیں

بس ایک وقفۂ تاریک، لمحۂ شہلا

سما میں جنبشِ مبہم سی کچھ ہوئی فوراً

تلی گھٹا کے تلے بھیگے بھیگے پتوّں سے

ہری ہری کئی چنگاریاں سی پھوٹ پڑیں

کہ جیسے کھلتی جھپکتی ہوں بے شمار آنکھیں

عجب یہ آنکھ مچولی تھی نور و ظلمت کی

سہانی نرم لویں دیتے انگنت جگنو

گھنی سیاہ خنک ّپتیوں کے جھرمٹ سے

مثال چادرِ شب آب جگمگانے لگے

کہ تھرتھراتے ہوئے آنسوؤں سے ساغر شام

چھلک چھلک پڑے جیسے بغیر سان گمان

بطونِ شام میں ان زندہ قمقموں کی چمک

کسی کی سوئی ہوئی یاد کو جگاتی تھی

وہ بے پناہ گھٹا وہ بھری بھری برسات

دیکھ کے آنکھیں مری بھر آتی تھیں

٭٭٭






رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا

رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا

کروٹیں لیتی ہوئی صبحِ چمن کیا کہنا

مد بھری آنکھوں کی السائی نظر پچھلی رات

نیند میں ڈوبی ہوئی چندر کرن کیا کہنا

رُوپ سنگیت نے دھارا ہے بدن کا یہ رچاؤ

تجھ پہ لہلوٹ ہے بے ساختہ پن کیا کہنا

لہلہاتا ہوا یہ قد، یہ لہکتا جوبن

زلف سو مہکی ہوئی راتوں کا بن کیا کہنا

تری آواز سویرا، تری باتیں تڑکا

آنکھیں کھل جاتی ہیں اعجازِ سخن کیا کہنا

نیلگوں شبنمی کپڑوں میں بدن کی یہ جوت

جیسے چھنتی ہو ستاروں کی کرن کیا کہنا

٭٭٭






عالم عالم جمال تیرا

عالم عالم جمال تیرا

دُنیا دُنیا ترا بدن ہے

کیا کیا آتا ہے میرے جی میں

کیسا کیسا ترا بدن ہے

صحرا صحرا مری محبت

دریا دریا ترا بدن ہے

جیسے پردے میں راگنی ہو

یوں زیرِ قبا ترا بدن ہے

میں نیند میں ہوں کہ جاگتا ہوں

اِک خواب ہے یا ترا بدن ہے

ہر عضو ہے اعترافِ صنعت

تعریف و ثنا ترا بدن ہے

جس کی فطرت کو تھی تمنّا

وہ نشو و نما ترا بدن ہے

نکلی تھی جو رحمتوں کے دل سے

پیارے وہ دُعا ترا بدن ہے

اُمڈا ہوا سیلِ رنگ و نکہت

کیا موج نما ترا بدن ہے

گونجے ہوئے ناشنیدہ نغمے

اِک سازِ حیا ترا بدن ہے

چھائی کیفیتوں کی مانند

گھنگھور گھٹا ترا بدن ہے

جیسے کوندا لپکنے کے قبل

ٹھہرا ٹھہرا ترا بدن ہے

جیسے یوں خواب گیت بن جائے

شاعر کی نوا ترا بدن ہے

تو اور یہ خاکدانِ دُنیا

ّجنت کی خطا ترا بدن ہے

عالم کا جمال قدِ آدم

آئینہ نما ترا بدن ہے

مانند نسیم صبح گاہی

سیدھا ٹیڑھا ترا بدن ہے

گم سم ہے فراقؔ محوِ دیدار

حیرت کی سدا ترا بدن ہے

٭٭٭






شب تاب

تھاپ پر تھاپ پڑی، سازِ طرب پر ساقی

تا بہ تہہ گنبدِ افلاک گمک جاتی ہے

چنگ سے اُٹھتی ہے جھنکار برابر ساقی

تیرگی رات کی رہ رہ کے کھنک جاتی ہے

آتی ہیں مدبھرے سنگیت کی لپٹیں ساقی

آگ آکاش کے سینے میں وہ دہکاتی ہوئی

انگلیاں ساز کے پردوں پہ رواں ہیں ساقی

اس جواں رات کے دل کی کسک اُکساتی ہوئی

پھول جھڑتے ہیں سرِ فرش برابر ساقی

ساز کی آنچ پہ رخشندہ شراروں کا گماں

گرمیِ رقص ہے دہکے ہوئے پیکر ساقی

وہ پسینے کی جھلک دیتی ہوئی کاہکشاں

رقص شبِ تاب سے ہر عضو درخشاں ساقی

برقِ سیّال چمکتی ہوئی شریانوں میں

جیسے یکبارگی ہو جائے چراغاں ساقی

جسم رنگیں کے لہکتے شبستانوں میں

رقص میں پیکرِ رنگیں کا لچکتا ساقی

انگ کے لوچ میں کل راگنیاں جھومتی ہیں

یہ مدھر بول یہ کوندوں کا لہکتا ساقی

لالہ گوں ہونٹوں کو نغموں کی لویں چومتی ہیں

جلوہ گر رُوپ میں ہے نور کا تڑکا ساقی

کنول اُن نازنیں ہاتھوں کے لٹاتے ہوئے جس

جیسے دو چاندوں سے امرت کی ہو برکھا ساقی

رقصِ شب تاب وہ چھلکاتا ہوا جوبن رَس

رس میں ڈوبی ہوئی آواز کی سرگم ساقی

سات رنگوں کی سجل قوس یہ بانہوں کی دھنک

یہ کھنکتی ہوئی پائل کی چھماچھم ساقی

رُخِ گلرنگ پہ سنگیت کی یہ نرم دمک

شعلے جب رات کے سنگیت کو لو دیتے ہیں

جگمگا اُٹھی ہے پیشانیِ دوراں ساقی

نغمے جب زیرِ فلک کانپ کے دَم لیتے ہیں

جھلملا اُٹھتا ہے تاروں کا چراغاں ساقی

جام اُچھلتے ہی چھلک جاتی ہیں سرشار فضائیں

شعلے آواز کے سانچوں میں یہاں ڈھلتے ہیں

آنکھیں جھپکاتی ہیں رہ رہ کے غم آلودہ ہوائیں

انگلیوں کے وہ اشارے کہ کنول جلتے ہیں

یہ شب افروز نواؤں کی چمک اے ساقی

زندگی اپنی جوانی پہ خود اِتراتی ہوئی

رقص کے شعلوں میں چہروں کی دمک اے ساقی

جیسے آئینہ در آئینہ بہار آتی ہوئی

موہنی رُوپ کے سنگیت کا جادو ساقی

آئینہ زیر و بم رقص کا ہر عضو بدن

دلِ بیتاب بدلتے ہوئے پہلو ساقی

دیکھیں اب پڑتی ہے کس پر نگہ صاعقہ زن

گت میں اندازِ جہاں گزراں ہے ساقی

سر کے پردوں سے کوئی دردِ نہاں اُٹھتا ہے

بزم میں عود کی موجوں کا سماں ہے ساقی

صاف لہرے سے سرنگی کے دھُواں اُٹھتا ہے

رین سنگیت کے اب بھیگ چلے ہیں شعلے

سرنگوں ساز، گلے نور کے خم ہیں ساقی

تیرگی اُنگلیاں چٹخاتی ہے گیسو کھولے

برقِ آواز کی پلکیں بھی تو نم ہیں ساقی

رات لیتی ہے جماہی پہ جماہی ساقی

ہر نظر جاگے ہوئے تاروں کی السائی ہوئی

چور کتنی ہے تری نیم نگاہی ساقی

حد میں ڈوبے ہوئے سنگیت کو نیند آئی ہوئی

٭٭٭






تُو تھا کہ کوئی تُجھ سا تھا

تُو تھا کہ کوئی تُجھ سا تھا

تیری راہ میں کون کھڑا تھا

کون بتائے عشق میں تیرے

دُکھ کتنا تھا ، سُکھ کتنا تھا

کیا دھرا سب سامنے آئے

میں پہلے سے دیکھ رہا تھا

میں بھی تھا سچّا ، تُم بھی تھے سچّے

عشق میں سچ ہی کا رونا تھا !!

روتے روتے فراق ہجر میں

کوئی اکثر ہنس پڑتا تھا !!

٭٭٭






یہ شوخیِ نگاہ کسی پر عیاں نہیں

یہ شوخیِ نگاہ کسی پر عیاں نہیں

تاثیرِ دردِ عشق کہاں ہے کہاں نہیں

عشق اس طرح مٹا کہ عدم تک نشاں نہیں

آ سامنے کہ میں بھی تو اب درمیاں نہیں

مجھ کو بھی اپنے حال کا وہم و گماں نہیں

تم راز داں نہیں تو کوئی راز داں نہیں

صیّاد اس طرح تو فریبِ سکوں نہ دے

اس درجہ تو مجھے بھی غمِ آشیاں نہیں

اس درگزر سے اور کھُلا عشق کا بھرم

یہ کیا ہوا کہ مجھ سے وہ اب سرگراں نہیں

پس ماندگان اب اور ہی ڈھونڈیں دلیلِ راہ

اتنی بلند گردِ رہِ کارواں نہیں

محوِ سکوتِ ناز ازل سے ہے بزمِ عشق

قصہ نہیں، فسانہ نہیں، داستاں نہیں

ہیں پرسشِ نہاں کے بھی عنوان سینکڑوں

اتنا ترا سکوتِ نظر بے زباں نہیں

اے دوست اہلِ درد کے رازِ سکوں نہ پوچھ

مدت ہوئی نگاہ تری درمیاں نہیں

کیا حشر دیکھئے ہو اب اس اعتدال کا

سنتے ہیں عشق درپے آزارِ جاں نہیں

کیا حشرِ وعدہ، کیا رگِ جاں، کیا حریمِ راز

یہ جانتا ہوں تو ہے جہاں میں وہاں نہیں

ہمدم دیارِ دل کی جنوں خیزیاں ہیں اور

زنداں نہیں ہے، دشت نہیں، گلستاں نہیں

تھا حاصلِ حیات بس اِک عشوۂ نہاں

اب یہ نہ پوچھ عشق کہاں ہے کہاں نہیں

کیا واقعی فریب ہے اے دل حیاتِ عشق

کیوں مژدۂ وصال سے میں شادماں نہیں

ہستی کے انقلاب کو کیا کیجئے فراق

مانا کہ ہجرِ یارِ غمِ جاوداں نہیں

٭٭٭






سر میں سودا بھی نہیں ، دل میں تمنا بھی نہیں

سر میں سودا بھی نہیں ، دل میں تمنا بھی نہیں

لیکن اس ترکِ محبت کا بھروسا بھی نہیں

یہ بھی سچ ہے کہ محبت پہ نہیں میں مجبور

یہ بھی سچ ہے کہ ترا حسن کچھ ایسا بھی نہیں

مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست

آہ اب مجھ سے تری رنجش بے جا بھی نہیں

مدتیں گزریں تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

ہائے وہ رازِ محبت جو چھپائے نہ بنے

ہائے وہ داغِ محبت جو ابھرتا بھی نہیں

آہ یہ مجمع احباب یہ بزمِ خاموشی

آج محفل میں فراقِ سخن آراء بھی نہیں

٭٭٭






بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

مری نظریں بھی ایسے قاتلوں کا جان و ایماں ہیں

نگاہیں ملتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں

ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا

اسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں

جسے صورت بتاتے ہیں پتا دیتی ہے سیرت کا

عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں

تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبارِ الفت میں

ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر احسان لیتے ہیں

فراق اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر

کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں

٭٭٭






اُمید و یاس کے اب وہ پیام بھی تو نہیں

اُمید و یاس کے اب وہ پیام بھی تو نہیں

حیاتِ عشق کی وہ صبح و شام بھی تو نہیں

بس اک فریبِ نظر تھا جمال گیسو و رُخ

وہ صبح بھی تو نہیں اب وہ شام بھی تو نہیں

وفورِ سوزِ نہاں کا علاج کیوں کر ہو

جو لے سکے کوئی وہ تیرا نام بھی تو نہیں

انہیں محال ہے تمیزِ قید و آزادی

کہ تیرے صیدِ بلا زیر دام بھی تو نہیں

دلِ حزیں میں ترے شوق مضطر کے نثار

اس انجمن میں تجھے کوئی کام بھی تو نہیں

بیان ہو کیسے وہ دیرینہ ارتباطِ نہاں

کہ تجھ سے اگلے پیام و سلام بھی تو نہیں

وہ کیا کہیں کہ کبھی اہلِ شوق سے کھُل کر

ہوئی نگاہ تری ہم کلام بھی تو نہیں

کبھی انہیں بھی زمانے میں تھی خوشی کی تلاش

اب اہلِ غم کو یہ سودائے خام بھی تو نہیں

نہ پوچھ ہجر کی حسرت کہ دور گردوں میں

سحر نہ وہ سکے جس کی وہ شام بھی تو نہیں

فراق جلوۂ ساقی کے سب کرشمے تھے

کہ اب وہ رنگ مَے لالہ فام بھی تو نہیں

٭٭٭






رات بھی نیند بھی کہانی بھی

رات بھی نیند بھی کہانی بھی

ہائے کیا چیز ہے جوانی بھی

ایک پیغامِ زندگانی بھی

عاشقی مرگِ ناگہانی بھی

اس ادا کا تری جواب نہیں

مہربانی بھی سرگرانی بھی

دل کو اپنے بھی غم تھے دنیا میں

کچھ بلائیں تھیں آسمانی بھی

منصبِ دل خوشی لٹاتا ہے

غمِ پنہاں بھی پاسبانی بھی

دل کو شعلوں سے کرتی ہے سیراب

زندگی آگ بھی ہے پانی بھی

لاکھ حسنِ یقیں سے بڑھ کر ہے

ان نگاہوں کی بد گمانی بھی

تنگنائے دلِ ملال میں ہے

بحرِ ہستی کی بے کرانی بھی

عشقِ ناکام کی ہے پرچھائی

شادمانی بھی کامرانی بھی

دیکھ! دل کے نگار خانے میں

زخمِ پنہاں کی ہے نشانی بھی

خلق کیا کیا مجھے نہیں کہتی

کچھ سنوں میں، تری زبانی بھی

آئے تاریخِ عشق میں سو بار

موت کے دور درمیانی بھی

اپنی معصومیوں کے پردے میں

ہو گئی وہ نظر سیانی بھی

دن کو سورج مکھی ہے وہ نو گُل

رات کو وہ ہے رات رانی بھی

دلِ بد نام تیرے بارے میں

لوگ کہتے ہیں اک کہانی بھی

نظم کرتے کوئی نئی دنیا

کہ یہ دنیا ہوئی پرانی بھی

دل کو آدابِ بندگی بھی نہ آئے

کر گئے لوگ حکمرانی بھی

جورِ کم کم کا شکریہ بس ہے

آپ کی اتنی مہربانی بھی

دل میں اک ہوک بھی اٹھی اے دوست

یاد آئی تری جوانی بھی

سر سے پا تک سپردگی کی ادا

ایک اندازِ ترکمانی بھی

پاس رہنا کسی کا رات کی رات

میہمانی بھی میزبانی بھی

جو نہ عکسِ جبینِ ناز کی ہے

دل میں اک نورِ کہکشانی بھی

زندگی عین دیدِ یار فراق

زندگی ہجر کی کہانی بھی

٭٭٭






رکی رکی سی شب ہجر ختم پر آئی

رکی رکی سی شب ہجر ختم پر آئی

وہ پو پھٹی وہ نئ زندگی نظر آئی

یہ وہ موڑ ہے کہ پرچھائیاں بھی دیں گی نہ ساتھ

مسافروں سے کہو ، اس کی راہگزر آئی

کسی کی بزم طرب میں حیات بٹتی تھی

امیدواروں میں کل موت بھی نظر آئی

کہاں ہر ایک سے بار نشاط اٹھتا ہے

کہ یہ بلا بھی ترے عاشقوں کے سر آئی

فضا تبسم صبح بہار تھی لیکن

پہنچ کے منزل جاناں یہ آنکھ بھر آئی

ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست

ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

٭٭٭






عشق کی مایوسیوں میں سوز پنہاں کچھ نہیں

عشق کی مایوسیوں میں سوز پنہاں کچھ نہیں

اس ہوا میں یہ چراغ زیر داماں کچھ نہیں

کیا ہے دیکھو حسرتِ سیرِ گلستاں کچھ نہیں

کچھ نہیں اے ساکنانِ کنج زنداں کچھ نہیں

جینے والے جی رہے ہیں اور ہی عالم میں اب

دوستو طول غمِ شبہائے ہجراں کچھ نہیں

عشق کی ہے خود نمائی عشق کی آشفتگی

روئے تاباں کچھ نہیں زلف پریشاں کچھ نہیں

درد کے مارے ہوئے کل روتے روتے ہنس پڑے

پھر کہو گے عشق کی تاثیر پنہاں کچھ نہیں

آنکھ والے دیکھ لیں میرے سیہ خانے کی سیر

ماہ تاباں کچھ نہیں مہر درخشاں کچھ نہیں

ایک ہو جائے نہ جب تک سرحدِ شوق جنوں

ایک ہو کر چاکِ دامان و گریباں کچھ نہیں

یاد آ ہی جاتی ہے اکثر دلِ برباد کی

یوں تو سچ ہے چند ذرات پریشاں کچھ نہیں

کاش اپنے ہجر سے بیتاب ہوتے اے فراق

دوسرے کے واسطے حال پریشاں کچھ نہیں

٭٭٭






اُمید و یاس کے اب وہ پیام بھی تو نہیں

اُمید و یاس کے اب وہ پیام بھی تو نہیں

حیاتِ عشق کی وہ صبح و شام بھی تو نہیں

بس اک فریبِ نظر تھا جمال گیسو و رُخ

وہ صبح بھی تو نہیں اب وہ شام بھی تو نہیں

وفورِ سوزِ نہاں کا علاج کیوں کر ہو

جو لے سکے کوئی وہ تیرا نام بھی تو نہیں

انہیں محال ہے تمیزِ قید و آزادی

کہ تیرے صیدِ بلا زیر دام بھی تو نہیں

دلِ حزیں میں ترے شوق مضطرب کے نثار

اس انجمن میں تجھے کوئی کام بھی تو نہیں

بیان ہو کیسے وہ دیرینہ ارتباطِ نہاں

کہ تجھ سے اگلے پیام و سلام بھی تو نہیں

وہ کیا کہیں کہ کبھی اہلِ شوق سے کھُل کر

ہوئی نگاہ تری ہم کلام بھی تو نہیں

کبھی انہیں بھی زمانے میں تھی خوشی کی تلاش

اب اہلِ غم کو یہ سودائے خام بھی تو نہیں

نہ پوچھ ہجر کی حسرت کہ دور گردوں میں

سحر نہ ہو سکے جس کی وہ شام بھی تو نہیں

فراق جلوۂ ساقی کے سب کرشمے تھے

کہ اب وہ رنگ مَے لالہ فام بھی تو نہیں

٭٭٭






نہ جانے آج تک کیا صحیح خوشی ہے

نہ جانے آج تک کیا صحیح خوشی ہے

ہماری زندگی بھی زندگی ہے

تیرے غم سے شکایت سی رہی ہے

مجھے سچ مچ بڑی شرمندگی ہے

محبت میں کبھی سوچا ہے یوں بھی

کہ تجھ سے دوستی یا دشمنی ہے

کوئی دم کا ہوں مہماں منہ نہ پھیرو

ابھی آنکھوں میں کچھ کچھ روشنی ہے

٭٭٭






آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے

آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے

اک شرح حیات ہو گئی ہے

جب دل کی وفات ہو گئی ہے

ہر چیز کی رات ہو گئی ہے

غم سے چھٹ کر یہ غم ہے مجھ کو

کیوں غم سے نجات ہو گئی ہے

مدت سے خبر ملی نہ دل کی

شاید کوئی بات ہو گئی ہے

جس شے پہ نظر پڑھی ہے تیری

تصویر حیات ہو گئی ہے

دل میں تجھ سے تھی جو شکایت

اب غم کے نکات ہو گئی ہے

اقرار گناہ ہے عشق سن لو

مجھ سے اک بات ہو گئی ہے

جو چیز بھی مجھ کو ہاتھ آئی

تیری سوغات ہو گئی ہے

کیا جانئے موت پہلے کیا تھی

اب مری حیات ہو گئی ہے

گھٹتے گھٹتے تری عنایت

میری اوقات ہو گئی ہے

اس چشم سیہ کی یاد اکثر

شام ظلمات ہو گئی ہے

اس دور میں زندگی بشر کی

بیمار کی رات ہو گئی ہے

مٹنے لگیں زندگی کی قدریں

جب غم سے نجات ہو گئی ہے

وہ چاہیں تو وقت بھی بدل جائے

جب آئے ہیں رات ہو گئی ہے

پہلے وہ نگاہ اک کرن تھی

اب برق صفات ہو گئی ہے

جس چیز کو چھو لیا تو نے

اک برگ نبات ہو گئی ہے

اکّا دکّا صدائے زنجیر

زنداں میں رات ہو گئی ہے

ایک ایک صفت فراق اس کی

دیکھا ہے تو ذات ہو گئی ہے

٭٭٭






ایک آنکھوں کا اثر، تاثیر اک رفتار کی

ایک آنکھوں کا اثر، تاثیر اک رفتار کی

موجِ مَے کا لڑکھڑانا، بے خودی میخوار کی

پارسا کی پارسائی، مستیاں مَے خوار کی

وہ فقط حسرت، یہ شان و کیفیت دیدار کی

کنجِ زنداں میں تو مجھ کو وسعت صحرا کی یاد

حسرتیں صحرا میں زنداں کے در و دیوار کی

بن چکے ہیں وصل و فرقت اک پیامِ بیخودی

مل چکی ہیں سرحدیں اقرار سے انکار کی

کیا کہیں، کیونکر کہیں، کیا ہے وہ چشمِ نیم باز

مست کی مستی بھی، ہشیاری بھی ہے ہشیار کی

حسنِ رسوا، اور رسوائے جہاں ہوتا رہے

تھی یہی ساری حقیقت، نکہتِ گلزار کی

دُکھتے دل سے نغمۂ سازِ محبت چھیڑ دے

آپ رُک جائیں گی بحثیں کافر و دین دار کی

جن کی تاثیروں سے اہلِ دہر کی آنکھیں کھلیں

غفلتیں تھیں کچھ وہ تیرے محرمِ اسرار کی

آشتی جس پر تصدّق، دوستی جس پر نثار

وہ چڑھی تیوری تھی اک آمادۂ پیکار کی

آہ، اے دردِ فراق یار، اے جانِ فراق

کیفیت تجھ میں ہے اک بھُولے ہوئے اقرار کی

٭٭٭






شامِ غم کچھ اس نگاہِ ناز کی باتیں کرو

شامِ غم کچھ اس نگاہِ ناز کی باتیں کرو

بیخودی بڑھتی چلی ہے راز کی باتیں کرو

نکہتِ زلفِ پریشاں داستانِ شامِ غم

صبح ہونے تک اسی انداز کی باتیں کرو

یہ سکوتِ یاس، یہ دل کی رگوں کا ٹوٹنا

خامشی میں کچھ شکستِ ساز کی باتیں کرو

یہ رگِ دل وجد میں آتی رہے دکھتی رہے

یوں ہی اس کے جا و بیجا ناز کی باتیں کرو

جس کی فرقت نے پلٹ دی عشق کی کایا فراق

آج اسی عیسیٰ نفس دمساز کی باتیں کرو

٭٭٭

ماخذ: پروفیسر شکیل الرحمٰن کی کتاب ’فراق کی جمالیات‘ اور انٹر نیٹ پر کئی ویب سائٹس سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔