09:47    , ہفتہ   ,   18    مئی   ,   2024

مجموعہ ساتوں رنگ

9956 0 0 00




ساتوں رنگ

بال کالے سفید برف سے گال

چاند سا جسم، کوٹ بادل کا

لہریا آستین، سرخ بٹن

کچھ بھلا سا تھا رنگ آنچل کا

اب کے آۓ تو یہ ارادہ ہے

دونوں آنکھوں سے اس کو دیکھوں گا






او میرے مصروف خدا

او میرے مصروف خدا

اپنی دنیا دیکھ ذرا

اتنی خلقت کے ہوتے

شہروں میں ہے سنّاٹا

جھونپڑی والوں کی تقدیر

بجھا بجھا سا ایک دیا

خاک اڑاتے ہیں دن رات

میلوں پھیل گۓ صحرا

زاغ و زغن کی چیخوں سے

سوٗنا جنگل چیخ اُٹھا

پیاسی دھرتی جلتی ہے

سوکھ گۓ بہتے دریا

فصلیں جل کر راکھ ہوئیں

نگری نگری کال پڑا

او میرے مصروف خدا

اپنی دنیا دیکھ ذرا






غزلیں

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی

برہم ہوئ ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی

اے دل کسے نصیب یہ توفیقِ اضطراب

ملتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی

تیرے کرم سے اے اَلمِ حسن آفریں

دل بن گیا ہے دوست کی خلوت کبھی کبھی

جوشِ جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ

اشکوں میں ڈھل گئ تری صورت کبھی کبھی

تیرے قریب رہ کے بھی دل مطمئن نہ تھا

گزری ہے مجھ پہ یہ بھی قیامت کبھی کبھی

کچھ اپنا ہوش تھا نہ تمھارا خیال تھا

یوں بھی گزر گئ شبِ فرقت کبھی کبھی

اے دوست ہم نے ترکِ محبّت کے باوجود

محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی






محرومِ خواب دیدۂ حیراں نہ تھا کبھی

محرومِ خواب دیدۂ حیراں نہ تھا کبھی

تیرا یہ رنگ اے شبِ ہجراں نہ تھا کبھی

تھا لطفِ وصل اور کبھی افسونِ انتظار

یوں دردِ ہجر سلسلہ جنباں نہ تھا کبھی

پرساں نہ تھا کوئ تو یہ رسوائیاں نہ تھیں

ظاہر کسی پہ حالِ پریشاں نہ تھا کبھی

ہر چند غم بھی تھا مگر احساسِ غم نہ تھا

درماں نہ تھا تو ماتمِ درماں نہ تھا کبھی

دن بھی اُداس اور مری رات بھی اداس

ایسا تو وقت اے غمِ دوراں نہ تھا کبھی

دورِ خزاں میں یوں مرا دل بے قرار ہے

میں جیسے آشناۓ بہاراں نہ تھا کبھی

کیا دن تھے جب نظر میں خزاں بھی بہار تھی

یوں اپنا گھر بہار میں ویراں نہ تھا کبھی

بے کیف و بے نشاط نہ تھی اس قدر حیات

جینا اگرچہ عشق میں آساں نہ تھا کبھی






کیا دن مجھے عشق نے دکھاۓ

کیا دن مجھے عشق نے دکھاۓ

اِک بار جو آۓ پھر نہ آۓ

اُس پیکرِ ناز کا فسانہ

دل ہوش میں آۓ تو سُناۓ

وہ روحِ خیال و جانِ مضموں

دل اس کو کہاں سے ڈھونڈھ لاۓ

آنکھیں تھیں کہ دو چھلکتے ساغر

عارض کہ شراب تھرتھراۓ

مہکی ہوئ سانس نرم گفتار

ہر ایک روش پہ گل کھلاۓ

راہوں پہ ادا ادا سے رقصاں

آنچل میں حیا سے منہ چھپاۓ

اُڑتی ہوئ زلف یوں پریشاں

جیسے کوئ راہ بھول جاۓ

کچھ پھول برس پڑے زمیں پر

کچھ گیت ہوا میں لہلہاۓ






مایوس نہ ہو اداس راہی

مایوس نہ ہو اداس راہی

پھر آۓ گا دورِ صبح گاہی

اے منتظرِ طلوعِ فردا

بدلے گا جہانِ مرغ و ماہی

پھر خاک نشیں اُٹھائیں گے سر

مٹنے کو ہے نازِ کج کلاہی

انصاف کا دن قریب تر ہے

پھر داد طلب ہے بے گناہی

پھر اہلِ وفا کا دور ہوگا

ٹوٹے گا طلسمِ جم نگاہی

آئینِ جہاں بدل رہا ہے

بدلیں گے اوامر و نواہی






رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ

رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ

لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ

اب کی فصلِ بہار سے پہلے

رنگ تھے گلستاں میں کیا کیا کچھ

کیا کہوں اب تمھیں خزاں والو

جل گیا آشیاں میں کیا کیا کچھ

دل ترے بعد سو گیا ورنہ

شور تھا اس مکاں میں کیا کیا کچھ






ختم ہوا تاروں کا راگ

ختم ہوا تاروں کا راگ

جاگ مسافر اب تو جاگ

دھوپ کی جلتی تانوں سے

دشتِ فلک میں لگ گئ آگ

دن کا سنہرا نغمہ سن کر

ابلقِ شب نے موڑی باگ

کلیاں جھلسی جاتی ہیں

سورج پھینک رہا ہے آگ

یہ نگری اندھیاری ہے

اس نگری سے جلدی بھاگ






حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی

حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی

میری حسرت تری صورت سے نمایاں ہی سہی

حُسن بھی حُسن ہے محتاجِ نظر ہے جب تک

شعلۂ عشق چراغِ تہِ داماں ہی سہی

کیا خبر خاک ہی سے کوئ کرن پھوٹ پڑے

ذوقِ آوارگیِ دشت و بیاباں ہی سہی

پردۂ گُل ہی سے شاید کوئ آواز آۓ

فرصتِ سیر و تماشاۓ بہاراں ہی سہی






ترے ملنے کو بے کل ہو گۓ ہیں

ترے ملنے کو بے کل ہو گۓ ہیں

مگر یہ لوگ پاگل ہو گۓ ہیں

بہاریں لے کے آۓ تھے جہاں تم

وہ گھر سنسان جنگل ہو گۓ ہیں

یہاں تک بڑھ گۓ آلامِ ہستی

کہ دل کے حوصلے شل ہو گۓ ہیں

کہاں تک لاۓ ناتواں دل

کہ صدمے اب مسلسل ہو گۓ ہیں

نگاہِ یاس کو نیند آ رہی ہے

مژہ پر اشک بوجھل ہو گۓ ہیں

انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ

یہاں جو حادثے کل ہو گۓ ہیں

جنھیں ہک دیکھ کر جیتے تھے ناصر

وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گۓ ہیں






کچھ کہہ کے خموش ہو گۓ ہم

کچھ کہہ کے خموش ہو گۓ ہم

قصّہ تھا دراز کھو گۓ ہم

تو کون ہے تیرا نام کیا ہے

کیا سچ ہے کہ تیرے ہو گۓ ہم

زلفوں کے دھیان میں لگی آنکھ

پُر کیف ہوا میں سو گۓ ہم

پہنچے گور کنارے ہم

نس غمِ دوراں ہارے ہم

سب کچھ ہار کے رستے میں

بیٹھ گۓ دکھیارے ہم

ہر منزل سے گزرے ہیں

تیرے غم کے سہارے ہم

دیکھ خیالِ خاطرِ دوست

بازی جیت کے ہارے ہم

آنکھ کا تارا آنکھ میں ہے

اب نہ گِنیں گے تارے ہم






گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے

گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے

خدا کرے کوئ تیرے سوا نہ پہچانے

مٹی مٹی سی امیدیں تھکے تھکے سے خیال

بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے

ہزار شکر کہ ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا

یہ اور بات کہ پوچھا نہ اہلِ دنیا نے

بقدرِ تشنہ لبی پرسشِ وفا نہ ہوئ

چھلک کے رہ گۓ تیری نظر کے پیمانے

خیال آگیا مایوس رہ گزاروں کا

پلٹ کے آ گۓ منزل سے تیرے دیوانے

کہاں ہے تو کہ ترے انتظار میں اے دوست

تمام رات سلگتے ہیں دل کے ویرانے

امیدِ پرسشِ غم کس سے کیجیے ناصر

جو اپنے دل پہ گزرتی ہے کوئ کیا جانے






عشق میں جیت ہوئ یا مات

عشق میں جیت ہوئ یا مات

آج کی رات نہ چھیڑ یہ بات

یوں آیا وہ جانِ بہار

جیسے جگ میں پھیلے بات

رنگ کھُلے صحرا کی دھوپ

زلف گھنے جنگل کی رات

کچھ نہ کہا اور کچھ نہ سُنا

دل میں رہ گئ دل کی بات

یار کی نگری کوسوں دور

کیسے کٹے گی بھاری رات

بستی والوں سے چھپ کر

رو لیتے ہیں پچھلی رات

سنّاٹوں میں سنتے ہیں

سُنی سُنائ کوئ بات

پھر جاڑے کی رُت آئ






دیکھ محبّت کا دستور

دیکھ محبّت کا دستور

توٗ مجھ سے میں تجھ سے دور

تنہا تنہا پھرتے ہیں

دل ویراں آنکھیں بے نور

دوست بچھڑتے جاتے ہیں

شوق لۓ جاتا ہے دور

ہم اپنا غم بھول گۓ

آج کسے دیکھا مجبور

دل کی دھڑکن کہتی ہے

آج کوئ آۓ گا ضرور

کوشش لازم ہے پیارے

آگے جو اس کو منظور

سورج ڈوب چلا ناصر

اور ابھی منزل ہے دور






نہ آنکھیں ہی برسیں نہ تم ہی ملے

نہ آنکھیں ہی برسیں نہ تم ہی ملے

بہاروں میں اب کی نۓ گُل کھِلے

نہ جانے کہاں لے گۓ قافلے

مسافر بڑی دور جا کر ملے

وہی وقت کی قید ہے درمیاں

وہی منزلیں اور وہی فاصلے

جہاں کوئ بستی نظر آ گئ

وہیں رک گۓ اجنبی قافلے

تمھیں دل گرفتہ نہیں ساتھیو

ہمیں بھی زمانے سے ہیں کچھ گِلے

ہمیں بھی کریں یاد اہلِ چمن

چمن میں اگر کوئ غنچہ کھِلے

ابھی اور کتنی ہے میعادِ غم

کہاں تک ملیں گے وفا کے صِلے






شہر در شہر گھر جلاۓ گۓ

شہر در شہر گھر جلاۓ گۓ

یوں بھی جشنِ طرب مناۓ گۓ

اک طرف جھوم کر بہار آئ

اک طرف آشیاں جلاۓ گۓ

اک طرف خونِ دل بھی تھا نایاب

اک طرف جشنِ جم مناۓ گۓ

کیا کہوں کس طرح سرِ بازار

عصمتوں کے دئیے بجھاۓ گے

آہ وہ خلوتوں کے سرماۓ

مجمعِ عام میں لُٹاۓ گۓ

وقت کے ساتھ ہم بھی اے ناصر

خار و خس کی طرح بہاۓ گۓ






وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں

وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں

مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں

تڑپ رہے ہیں زباں پر کئ سوال مگر

مرے لۓ کوئ شایانِ التماس نہیں

ترے جلو میں بھی دل کانپ کانپ اُٹھتا ہے

مرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں

کبھی کبھی جو ترے قرب میں گزارے تھے

اب اُن دنوں کا تصّور بھی میرے پاس نہیں

گزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دیدہ و دل

سحر کی آس تو ہے زندگی کی آس نہیں

مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مِٹ جاۓ

بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں






یہ شب یہ خیال و خواب تیرے

یہ شب یہ خیال و خواب تیرے

کیا پھول کھلے ہیں منہ اندھیرے

شعلے میں ہے ایک رنگ تیرا

باقی ہیں تمام رنگ میرے

آنکھوں میں چھپاۓ پھر رہا ہوں

یادوں کے بجھے ہوے سویرے

دیتے ہیں سراغ فصلِ گل کا

شاخوں پہ جلے ہوۓ بسیرے

منزل نہ ملی تو قافلوں نے

رستے میں جما لۓ ہیں ڈیرے

جنگل میں ہوئ ہے شام ہم کو

بستی سے چلے تھے منہ اندھیرے

رودادِ سفر نہ چھیڑ ناصر

پھر اشک نہ تھم سکیں گے میرے






دن پھر آۓ ہیں باغ میں گُل کے

دن پھر آۓ ہیں باغ میں گُل کے

بوۓ گل ہے سُراغ میں گُل کے

دلِ ویراں میں دوستوں کی یاد

جیسے جگنو ہوں داغ میں گُل کے

کیسی آئ بہار اب کے برس

بوۓ خوں ہے ایاغ میں گُل کے

اب تو روتوں میں خاک اڑتی ہے

سب کرشمے تھے باغ میں گُل کے

آنسوؤں کے دئیے جلا ناصر

دم نہیں اب چراغ میں گُل کے






کوئ جیے یا کوئ مرے

کوئ جیے یا کوئ مرے

تم اپنی سی کر گزرے

دل میں تیری یادوں نے

کیسے کیسے رنگ بھرے

اب وہ امنگیں ہیں نہ وہ دل

کون اب تجھ کو یاد کرے

پیار کی ریت نرالی ہے

کوئ کرے اور کوئ بھرے

پھول تو کیا کانٹے بھی نہیں

کیسے اُجڑے باغ ہرے

بادل گرجا پون چلی

پھلواری میں پھول ڈرے

پت جھڑ آنے والی ہے

رس پی کر اُڑ جا بھنورے






یہ بھی کیا شامِ ملاقات آئ

یہ بھی کیا شامِ ملاقات آئ

لب پہ مشکل سے تیری بات آئ

صبح سے چپ ہیں ترے ہجر نصیب

ہاۓ کیا ہوگا اگر رات آئ

بستیاں چھوڑ کے برسے بادل

کس قیامت کی یہ برسات آئ

کوئ جب مل کے ہوا تھا رخصت

دلِ بے تاب وہی رات آئ

سایۂ زلفِ بتاں میں ناصر

ایک سے ایک نئ رات آئ






نازِ بیگانگی میں کیا کچھ تھا

نازِ بیگانگی میں کیا کچھ تھا

حسن کی سادگی میں کیا کچھ تھا

لاکھ راہیں تھیں لاکھ جلوے تھے

عہدِ آوارگی میں کیا کچھ تھا

آنکھ کھلتے ہی چھپ گئ ہر شے

عالمِ بے خودی میں کیا کچھ تھا

یاد ہیں مرحلے محبّت کے

ہاۓ اس بے کلی میں کیا کچھ تھا

کتنے بیتے دنوں کی یاد آئ

آج تیری کمی میں کیا کچھ تھا

کتنے مانوس لوگ یاد آۓ

صبح کی چاندنی میں کیا کچھ تھا

رات بھر ہم نہ سو سکے ناصر

پردۂ خامشی میں کیا کچھ تھا






کسے دیکھیں کہاں دیکھا نہ جاۓ

کسے دیکھیں کہاں دیکھا نہ جاۓ

وہ دیکھا ہے جہاں دیکھا نہ جاۓ

مری بربادیوں پر رونے والے

تجھے محوِ فغاں دیکھا نہ جاۓ

زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے

یہ رنگِ آسماں دیکھا نہ جاۓ

سفر ہے اور غربت کا سفر ہے

غمِ صد کارواں دیکھا نہ جاۓ

کہیں آگ اور کہیں شعلوں کے انبار

بس اے دورِ زماں دیکھا نہ جاۓ

در و دیوار ویراں شمع مدھم

شبِ غم کا سماں دیکھا نہ جاۓ

پرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں

چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جاۓ

بھری برسات خالی جا رہی ہے

سرِ ابرِ رواں دیکھا نہ جاۓ

کہیں تم، اور کہیں ہم، کیا غضب ہے

فراقِ جسم و جاں دیکھا نہ جاۓ

وہی جو حاصلِ ہستی ہے ناصر






صداۓ رفتگاں پھر دل سے گزری

صداۓ رفتگاں پھر دل سے گزری

نگاہِ شوق کس منزل سے گزری

کبھی روۓ کبھی تجھ کو پکارا

شبِ فرقت بڑی مشکل سے گزری

ہواۓ صبح نے چونکا دیا یوں

تری آواز جیسے دل سے گزری

مرا دل خو گرِ طوفاں ہے ورنہ

یہ کشتی بار ہا ساحل سے گزری






گلی گی آباد تھی جن سے کہاں گۓ وہ لوگ

گلی گی آباد تھی جن سے کہاں گۓ وہ لوگ

بستی اب کے ایسی اجڑی گھر گھر پھیلا سوگ

سارا سارا دن گلیوں میں پھرتے ہیں بے کار

راتوں اٹھ اٹھ کر روتے ہیں اس نگری کے لوگ

سہمے سہمے سے بیٹھے ہیں راگی اور فنکار

بھور بھۓ اب ان گلیوں میں کون سناۓ جوگ

جب تک ہم مصروف رہے یہ دنیا تھی سنسان

دن ڈھلتے ہی دھیان میں آۓ کیسے کیسے لوگ

ناصر ہم کو رات ملا تھا تنہا اور اداس

وہی پرانی باتیں اس کی وہی پرانا روگ






خموشی انگلیاں چٹا رہی ہے

خموشی انگلیاں چٹا رہی ہے

تری آواز اب تک آ رہی ہے

دلِ وحشی لیے جاتا ہے لیکن

ہوا زنجیر سی پہنا رہی ہے

ترے شہرِ طرب کی رونقوں میں

طبیعت اور بھی گھبرا رہی ہے

کرم اے صرصرِ آلامِ دوراں

دلوں کی آگ بجھتی جا رہی ہے

کڑے کوسوں کے سنّاٹے میں لیکن

تری آواز اب تک آ رہی ہے

طنابِ خیمۂ گل تھام ناصر

کوئ آندھی اُفق سے آ رہی ہے






کم فرصتیِ خوابِ طرب یاد رہے گی

کم فرصتیِ خوابِ طرب یاد رہے گی

گزری جو ترے ساتھ، وہ شب یاد رہے گی

ہر چند ترا عہدِ وفا بھول گۓ ہم

وہ کشمکشِ صبر طلب یاد رہے گی

سینے میں امنگوں کا وہی شور ہے اب تک

وہ شوخیِ یک جنبشِ لب یاد رہے گی

پھر جس کے تصور میں برسنے لگیں آنکھیں

وہ برہمیِ صحبتِ شب یاد رہے گی

گو ہجر کے لمحات بہت سخت تھے لیکن

ہر بات بعنوانِ طرب یاد رہے گی






نصیب عشق دلِ بےقرار بھی تو نہیں

نصیب عشق دلِ بےقرار بھی تو نہیں

بہت دنوں سے ترا انتظار بھی تو نہیں

تلافیِ ستمِ روزگار کون کرے

تو ہم سخن بھی نہیں، راز دار بھی تو نہیں

زمانہ پرسشِ غم بھی کرے تو کیا حاصل

کہ اپنے دل پہ مجھے اختیار بھی تو نہیں

تو ہی بتا کہ تری خاموشی کو کیا سمجھوں

تری نگاہ سے کچھ آشکار بھی تو نہیں

وفا نہیں نہ سہی، رسم و راہ کیا کم ہے

تری نظر کا مگر اعتبار بھی تو نہیں

اگرچہ دل تری منزل نہ بن سکا اے دوست!

مگر چراغِ سرِ رہگزار بھی تو نہیں

بہت فسردہ ہے دل، کون اس کو بہلاۓ

اُداس بھی تو نہیں، بے قرار بھی تو نہیں






تو ہی بتا ترے بے خانماں کدھر جائیں؟

تو ہی بتا ترے بے خانماں کدھر جائیں؟

کہ راہ میں شجرِ سایہ دار بھی تو نہیں

فلک نے پھینک دیا برگِ گل کی چھاؤں سے دور

وہاں پڑے ہیں جہاں خارزار بھی تو نہیں

جو زندگی ہے تو بس تیرے درد مندوں کی

یہ جبر بھی تو نہیں، اختیار بھی تو نہیں

وفا ذریعۂ اظہارِ غم سہی ناصر

یہ کاروبار کوئ کاروبار بھی تو نہ نہیں






دور فلک جب دہراتا ہے موسمِ گل کی راتوں کو کنجِ قفس میں سن لیتے ہیں بھولی بسری باتوں کو

دور فلک جب دہراتا ہے موسمِ گل کی راتوں کو

کنجِ قفس میں سن لیتے ہیں بھولی بسری باتوں کو

ریگِ رواں کی نرم تہوں کو چھیڑتی ہے جب کوئ ہوا

سونے صحرا چیخ اٹھتے ہیں آدھی آدھی راتوں کو

آتشِ غم کے سیلِ رواں میں نیندیں جل کر راکھ ہوئیں

پتھّر بن کر دیکھ رہا ہوں آتی جاتی راتوں کو

مے خانے کا افسردہ ماحول تو یوں ہی تکتا ہے

خشک لبوں کی خیر مناؤ کچھ نہ کہو برساتوں کو

ناصر میرے منہ کی باتیں یوٗں تو سچّے موتی ہیں

لیکن ان کی باتیں سن کر بھُول گۓ سب باتوں کو






سفرِ منزلِ شب یاد نہیں

سفرِ منزلِ شب یاد نہیں

لوگ رخصت ہوۓ کب یاد نہیں

اوّلیں قُرب کی سرشاری میں

کتنے ارماں تھے جو اب یاد نہیں

دل میں ہر وقت چبھن رہتی تھی

تھی مجھے کس کی طلب یاد نہیں

وہ ستارہ تھی کہ شبنم تھی کہ پھول

ایک صورت تھی عجب یاد نہیں

کیسی ویراں ہے گزرگاہِ خیال

جب سے وہ عارض و لب یاد نہیں

بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار

یاد آئیں بھی تو سب یاد نہیں

ایسا اُلجھا ہوں غمِ دنیا میں

ایک بھی خوابِ طرب یاد نہیں

رشتۂ جاں تھا کبھی جس کا خیال

اُس کی صورت بھی تو اب یاد نہیں

یہ حقیقت ہے کہ احباب کو ہم

یاد ہی کب تھے جو اب یاد نہیں

یاد ہے سیرِ چراغاں ناصر

دل کے بجھنے کا سبب یاد نہیں






یاد آتا ہے روز و شب کوئ

یاد آتا ہے روز و شب کوئ

ہم سے روٹھا ہے بے سبب کوئ

لبِ جوٗ چھاؤں میں درختوں کی

وہ ملاقات تھی عجب کوئ

جب تجھے پہلی بار دیکھا تھا

وہ بھی تھا موسمِ طرب کوئ

کچھ خبر لے کہ تیری محفل سے

دور بیٹھا ہے جاں بلب کوئ

نہ غمِ زندگی نہ دردِ فراق

دل میں یوں ہی سی ہے طلب کوئ

یاد آتی ہیں دور کی باتیں

پیار دے دیکھتا ہے جب کوئ

چوٹ کھائ ہے بارہا لیکن

آج تو درد ہے عجب کوئ

جن کو مِٹنا تھا مِٹ چکے ناصر

اُن کو رسوا کرے نہ اب کوئ






یاس میں جب کوئ آنسو نکلا

یاس میں جب کوئ آنسو نکلا

اک نئ آس کا پہلو نکلا

لے اُڑی سبزۂ خود رو کی مہک

پھر تری یاد کا پہلو نکلا

میٹھی بولی میں پپیہے بولے

گنگناتا ہوا جب توٗ نکلا

آئیں ساون کی اندھیری راتیں

کہیں تارا کہیں جگنو نکلا

نۓ مضمون سُجھاتی ہے صبا

کیا ادھر سے وہ سمن بوٗ نکلا

پاؤں چلنے لگی جلتی ہوئ ریت

دشت سے جب کوئ آہو نکلا

کئ دن رات سفر میں گزرے

آج تو چاند لبِ جو نکلا

طاقِ میخانہ میں چاہی تھی اماں

وہ بھی تیرا خمِ ابرو نکلا

اہلِ دل سیرِ چمن سے بھی گۓ

عکسِ گل سایۂ گیسو نکلا

واقعہ یہ ہے کہ بدنام ہوۓ

بات اتنی تھی کہ آنسو نکلا






کرتا اسے بےقرار کچھ دیر

کرتا اسے بےقرار کچھ دیر

ہوتا اگر اختیار کچھ دیر

کیا روئیں فریبِ آسماں کو

اپنا نہیں اعتبار کچھ دیر

آنکھوں میں کٹی پہاڑ سی رات

سو جا دلِ بےقرار کچھ دیر

اے شہرِ طرب کو جانے والو

کرنا مرا انتظار کچھ دیر

بے کیفیِ روز و شب مسلسل

سر مستیِ انتظار کچھ دیر

تکلیفِ غمِ فراق دائم

تقریبِ وصالِ یار کچھ دیر

یہ غنچہ و گل ہیں سب مسافر

ہے قافلۂ بہار کچھ دیر

دنیا تو سدا رہے گی ناصر

ہم لوگ ہیں یادگار کچھ دیر






ٹھہرا تھا وہ گل عذار کچھ دیر

ٹھہرا تھا وہ گل عذار کچھ دیر

بھر پور رہی بہار کچھ دیر

اک دھوم رہی گلی گلی میں

آباد رہے دیار کچھ دیر

پھر جھوم کے بستیوں پہ برسا

ابرِ سرِ کوہسار کچھ دیر

پھر لالہ و گل کے مے کدوں میں

چھلکی مۓ مشکبار کچھ دیر

پھر نغمہ و مے کی صحبتوں کا

آنکھوں میں رہا خمار کچھ دیر

پھر شامِ وصالِ یار آئ

بہلا غمِ روزگار کچھ دیر

پھر جاگ اُٹھے خوشی کے آنسو

پھر دل کو ملا قرار کچھ دیر

پھر ایک نشاطِ بے خودی میں

آنکھیں رہیں اشک بار کچھ دیر

پھر ایک طویل ہجر کے بعد

صحبت رہی خوشگوار کچھ دیر

پھر ایک نگار کے سہارے

دنیا رہی سازگار کچھ دیر






اوّلیں چاند نے کیا بات سُجھائ مجھ کو

اوّلیں چاند نے کیا بات سُجھائ مجھ کو

یاد آئ تری انگشتِ حنائ مجھ کو

سرِ ایوانِ طرب نغمہ سرا تھا کوئ

رات بھر اس نے تری یاد دلائ مجھ کو

دیکھتے دیکھتے تاروں کا سفر ختم ہوا

سو گیا چاند مگر نیند نہ آئ مجھ کو

انہی آنکھوں نے دکھاۓ کئ بھر پور جمال

انھیں آنکھوں نے شبِ ہجر دکھائ مجھ کو

ساۓ کی طرح مرے ساتھ رہے رنج و الم

گردشِ وقت کہیں راس نہ آئ مجھ کو

دھوپ اُدھر ڈھلتی تھی۔ دل ڈوب اِدھر جاتا تھا

آج تک یاد ہے وہ شامِ جدائ مجھ کو

شہر لاہور تری رونقیں دائم آباد

تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائ مجھ کو






بھی کبھی تو جذبِ عشق مات کھا کے رہ گیا

بھی کبھی تو جذبِ عشق مات کھا کے رہ گیا

کہ تجھ سے مل کے بھی ترا خیال آ کے رہ گیا

جدائیوں کے مرحلے بھی حُسن سے تہی نہ تھے

کبھی کبھی تو شوق آئنے دکھا کے رہ گیا

کسے خبر کہ عشق پر قیامتیں گزر گئیں

زمانہ اس نگاہ کا فریب کھا کے رہ گیا

یہ کیا مقامِ شوق ہے، نہ آس ہے کہ یاس ہے

یہ کیا ہوا کہ لب پہ تیرا نام آ کے رہ گیا

کوئ بھی ہم سفر نہ تھا شریکِ منزلِ جنوں

بہت ہوا تو رفتگاں کا دھیان آ کے رہ گیا

چراغِ شامِ آرزو بھی جھلملا کے رہ گۓ

ترا خیال راستے سُجھا سُجھا کے رہ گیا

چمک چمک کے رہ گئیں نجوم و گل کی منزلیں

میں درد کی کہانیاں سُنا سُنا کے رہ گیا

ترے وصال کی امید اشک بن کے بہہ گئ

خوشی کا چاند شام ہی سے جھلملا کے رہ گیا

وہی اداس روز و شب، وہی فسوں، وہی ہوا

ترے وصال کا زمانہ یاد آ کے رہ گیا






رنگ برسات نے بھرے کچھ تو

رنگ برسات نے بھرے کچھ تو

زخم دل کے ہرے کچھ تو

فرصتِ بے خودی غنیمت ہے

گردشیں ہو گئیں پرے کچھ تو

کتنے شوریدہ سر تھے پروانے

شام ہوتے ہی جل مرے کچھ تو

ایسا مشکل نہیں ترا ملنا

دل مگر جستجو کرے کچھ تو

آؤ ناصر کوئ غزل چھیڑیں

جی بہل جاۓ گا اے کچھ تو






دن ڈھلا رات پھر آ گئ، سو رہو سو رہو

دن ڈھلا رات پھر آ گئ، سو رہو سو رہو

منزلوں چھا گئ خامشی، سو رہو سو رہو

سارا دن تپتے سورج کی گرمی میں جلتے رہے

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا پھر چلی سو رہو سو رہو

گرم سنسان قریوں کی دھرتی مہکنے لگی

خاک رشکِ اِرم بن گئ سو رہو سو رہو

رزم گاہِ جہاں بن گئ جاۓ امن و اماں

ہے یہی وقت کی راگنی سو رہو سو رہو

کیسے سنسان ہیں آسماں چپ کھڑے ہیں مکاں

ہے فضا جنبی اجنبی سو رہو سو رہو

تھک گۓ ناقہ و سارباں، تھم گۓ کارواں

گھنٹیوں کی صدا سو گئ سو رہو سو رہو

چاندنی اور دھوئیں کے سوا دور تک کچھ نہیں

سو گئ شہر کی ہر گلی سو رہو سو رہو

گردشِ وقت کی لوریاں رات کی رات ہیں

پھر کہاں یہ ہوا، یہ نمی سو رہو سو رہو

ساری بستی کے لوگ اس مدھر لے میں کھوۓ گۓ

دور بجنے لگی بانسری سو رہو سو رہو

دور شاخوں کے جھرمٹ میں جگنو بھی گم ہو گۓ

چاند میں سو گئ چاندنی سو رہو سو رہو

گھر کے دیوار و در راہ تک تک کے شل ہو گۓ

اب نہ آۓ گا شاید کوئ سو رہو سو رہو

سُست رفتار تارے بھی آنکھیں جھپکنے لگے

غم کے مارو گھڑی دو گھڑی سو رہو سو رہو

منہ اندھیرے ہی ناصر کسے ڈھونڈنے چل پڑے

دور ہے صبحِ روشن ابھی سو رہو سو رہو






تنہا عیش کے خواب نہ بُن

تنہا عیش کے خواب نہ بُن

کبھی ہماری بات بھی سُن

تھوڑا غم بھی اُٹھا پیارے

پھول چُنے ہیں خار بھی چُن

سکھ کی نیندیں سونے والے

محرومی کے راگ بھی سُن

۔ق۔

تنہائ میں تیری یاد

جیسے ایک سریلی دھُن

جیسے چاند کی ٹھنڈی لَو

جیسے کرنوں کی کُن مُن

جیسے جل پریوں کا ناچ

جیسے پائل کی جھُن جھُن






ترے خیال سے لَو دے اٹھی ہے تنہائ

ترے خیال سے لَو دے اٹھی ہے تنہائ

شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائ

تو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائ

اُنھیں بھی دیکھ جِنھیں راستے میں نیند آئ

پُکار اے جرسِ کاروانِ صبحِ طرب

بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائ

ٹھہر گۓ ہیں سرِ راہ خاک اُڑانے کو

مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہواۓ صحرائ

رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لۓ

یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئ

یہ سانحہ بھی محبّت میں بارہا گزرا

کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئ

دلِ فسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اُٹھا

یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئ

میں سوتے سوتے کئ بار چونک چونک پرا

تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئ

جہاں بھی تھا کوئ فتنہ تڑپ کے جاگ اُٹھا

تمام ہوش تھی مستی میں تیری انگڑائ

کھُلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا

وہ لوگ تھے، نہ وہ جلسے، نہ شہرِ رعنائ

وہ تابِ درد وہ سوداۓ انتظار کہاں

اُنہی کے ساتھ گئ طاقتِ شکیبائ

پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر

بچھڑ کے جس سے ہوئ شہر شہر رسوائ






اداسیوں کا سماں محفلوں میں چھوڑ گئ

اداسیوں کا سماں محفلوں میں چھوڑ گئ

بہار ایک خلش سی دلوں میں چھوڑ گئ

بچھڑ کے تجھ سے ہزاروں طرف خیال گیا

تری نظر مجھے کن منزلوں میں چھوڑ گئ

کہاں سے لائیے اب اُس نگاہ کو ناصر

جو ناتمام امنگیں دلوں میں چھوڑ گئ






بسا ہوا ہے خیالوں میں کوئ پیکرِ ناز

بسا ہوا ہے خیالوں میں کوئ پیکرِ ناز

بلا رہی ہے ابھی تک وہ دل نشیں آواز

وہی دلوں میں تپش ہے، وہی شبوں میں گداز

مگر یہ کیا کہ مری زندگی میں سوز نہ ساز

نہ چھیڑ اے خلشِ درد، بار بار نہ چھیڑ

چھپاۓ بیٹھا ہوں سینے میں ایک عمر کا راز

بس اب تو ایک ہی دھن ہے کہ نیند آ جاۓ

وہ دن کہاں کہ اٹھائیں شبِ فراق کے ناز

گزر ہی جاۓ گی اے دوست تیرے ہجر کی رات

کہ تجھ سے بڑھ کے تیرا درد ہے مرا ہم ساز

یہ اور بات کہ دنیا نہ سن سکی ورنہ

سکوتِ اہلِ نظر ہے بجاۓ خود آواز

یہ بے سب نہیں شام و سحر کے ہنگامے

اٹھا رہا ہے کوئ پردہ ہاۓ راز و نیاز

ترا خیال بھی تیری طرح مکمّل ہے

وہی شباب، وہی دل کشی، وہی انداز

شراب و شعر کی دنیا بدل گئ لیکن

وہ آنکھ ڈھونڈ ہی لیتی ہے بے خودی کا جواز

عروج پر ہے مرا درد ان دنوں ناصر

مری غزل میں دھڑکتی ہے وقت کی آواز






دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا

وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست

تو مصیبت میں عجب یاد آیا

دن گزارا تھا بڑی مشکل سے

پھر ترا وعدۂ شب یاد آیا

تیرا بھولا ہوا پیمانِ وفا

مر رہیں گے اگر اب یاد آیا

پھر کئی لوگ نظر سے گزرے

پھر کوئی شہرِ طرب یاد آیا

حالِ دل ہم بھی سُناتے لیکن

جب وہ رُخصت ہوا تب یاد آیا

بیٹھ کر سایۂ گل میں ناصر

ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا






یہ کہہ رہا ہے دیارِ طرب کا نظّارا

یہ کہہ رہا ہے دیارِ طرب کا نظّارا

یہیں ملے گا مجھے میرا انجمن آرا

خیالِ حسن میں کتنا بہار پرور ہے

شبِ خزاں کی خنک چاندنی کا نظّارا

چلے تو ہیں جرسِ گل کا آسرا لے کر

نہ جانے اب کہاں نکلے گا صبح کا تارا

چلو کہ برف پگھلنے کی صبح آ پہنچی

خبر بہار کی لایا ہے کوئ گُل پارا

چلے چلو انھیں گم نام برف زاروں میں

عجب نہیں یہیں مل جاۓ درد کا چارا

کسے مجال کہ رُک جاۓ سانس لینے کو

رواں دواں لۓ جاتا ہے وقت کا دھارا

بگولے یوں اُڑے پھرتے ہیں خشک جنگل میں

تلاشِ آب میں جیسے غزالِ آوارا

ہمیں وہ برگِ خزاں دیدہ ہیں جنھیں ناصر

چمن میں ڈھونڈتی پھرتی ہے بوۓ آوارا






تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئ

تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئ

آنکھ کہتی ہے ترے دل میں طلب ہے کوئ

آنچ آتی ہے ترے جسم کی عریانی سے

پیرہن ہے کہ سلگتی ہوئ شب ہے کوئ

ہوش اُڑانے لگیں پھر چاند کی ٹھنڈی کرنیں

تیری بستی میں ہوں یا خوابِ طرب ہے کوئ

گیت بُنتی ہے ترے شہر کی بھرپور ہوا

اجنبی میں ہی نہیں تو بھی عجب ہے کوئ

لیے جاتی ہیں کسی دھیان کی لہریں ناصر

دور تک سلسلۂ تاکِ طرب ہے کوئ






خیالِ ترکِ تمنّا نہ کر سکے تو بھی

خیالِ ترکِ تمنّا نہ کر سکے تو بھی

اداسیوں کا مداوا نہ کر سکے تو بھی

کبھی وہ وقت بھی آۓ کہ کوئ لمحۂ عیش

مرے بغیر گوارا نہ کر سکے تو بھی

خدا وہ دن بھی دکھاۓ تجھے کہ میری طرح

مری وفا پہ بھروسا نہ کر سکے تو بھی

میں اپنا عقدۂ دل تجھ کو سونپ دیتا ہوں

بڑا مزا ہو اگر وا نہ کر سکے تو بھی

تجھے یہ غم کہ مری زندگی کا کیا ہوگا

مجھے یہ ضد کہ مداوا نہ کر سکے تو بھی

نہ کر خیالِ تلافی کہ میرا زخمِ وفا

وہ زخم ہے جسے اچھا نہ کر سکے تو بھی






یہ رات تمھاری ہے، چمکتے رہو تارو

یہ رات تمھاری ہے، چمکتے رہو تارو

وہ آئیں نہ آئیں، مگر امید نہ ہارو

شاید کسی منزل سے کوئ قافلہ آۓ

آشفتہ سرو صبح تلک یوں ہی پکارو

دن بھر تو چلے اب ذرا دم لے کے چلیں گے

اے ہم سفرو آج یہیں رات گزارو

یہ عالمِ وحشت ہے تو کچھ ہو کے رہے گا

منزل نہ سہی، سر کسی دیوار سے مارو

اوجھل ہوۓ جاتے ہیں نگاہوں سے دو عالم

تم آج کہاں ہو غمِ فرقت کے سہارو

کھویا ہے اسے جس کا بدل کوئ نہیں ہے

یہ بات مگر کون سُنے، لاکھ پکارو!!






فکرِ تعمیرِ آشیاں بھی ہے

فکرِ تعمیرِ آشیاں بھی ہے

خوفِ بے مہریِ خزاں بھی ہے

خاک بھی اُڑ رہی ہے رستوں میں

آمدِ صبح کا سماں بھی ہے

رنگ بھی اڑ رہا ہے پھولوں کا

غنچہ غنچہ شرر فشاں بھی ہے

اوس بھی ہے کہیں کہیں لرزاں

بزمِ انجم دھواں دھواں بی ہے

کچھ تو موسم بھی ہے خیال انگیز

کچھ طبیعت مری رواں بھی ہے

کچھ ترا حسن بھی ہے ہوش ربا

کچھ مری شوخئ بیاں بھی ہے

ہر نفس شوق بھی ہے منزل کا

ہر قدم یادِ رفتگاں بھی ہے

وجہِ تسکین بھی ہے ا س کا خیال

حد سے بڑھ جا ۓ تو گراں بھی ہے

زندگی جس کے دم سے ہے ناصر

یاد اس کی عذابِ جاں بھی ہے






رنگ صبحوں کے راگ شاموں کے

رنگ صبحوں کے راگ شاموں کے

جیسے سپنا کوئ اداس اداس

کیسا سنسان ہے سحر کا سماں

پتّیاں محوِ یاس، گھاس اداس

خیر ہو شہرِ شبنم و گل کی

کوئ پھرتا ہے آس پاس اداس

بیٹھے بیٹھے برس پڑیں آنکھیں

کر گئ پھر کسی کی آس اداس

کوئ رہ رہ کے یاد آتا ہے

لیے پھرتی ہے کوئ باس اداس

مل ہی جاۓ گا رفتگاں کا سراغ

اور کچھ دن پھرو اداس اداس

صبح ہونے کو ہے اٹھو ناصر

گھر میں بیٹھے ہو کیوں نراس اداس






کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے

کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے

گزر گئی جرسِ گل اداس کر کے مجھے

میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستاں میں

جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے

میں رو رہا تھا مقدّر کی سخت راہوں میں

اُڑا کے لے گۓ جادو تری نظر کے مجھے

میں تیرے درد کی طغیانیوں میں ڈوب گیا

پکارتے رہے تارے ابھر ابھر کے مجھے

ترے فراق کی راتیں کبھی نہ بھولیں گی

مزے ملے انہی راتوں میں عمر بھر کے مجھے

ذرا سی دیر ٹھہرنے دے اے غمِ دنیا

بلا رہا ہے کوئی بام سے اتر کے مجھے

پھر آج آئ تھی اک موجۂ ہواۓ طرب

ستا گئ ہے فسانے اِدھر اُدھر کے مجھے






سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن

سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن

کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سُن

دن کے ہنگاموں کو بیکار نہ جان

شب کے پردوں میں ہے کیا غور سے سُن

چڑھتے سورج کی ادا کو پہچان

ڈوبتے دن کی ندا غور سے سُن

کیوں ٹھہر جاتے ہیں دریا سرِ شام

روح کے تار ہِلا غور سے سُن

یاس کی چھاؤں میں سونے والے

جاگ اور شورِ درا غور سے سُن

ہر نفس دامِ گرفتاری ہے

تو گرفتارِ بلا غور سے سُن

دل تڑپتا ہے کیوں آخرِ شب

دو گھڑی کان لگا غور سے سُن

اسی منزل میں ہیں سب ہجر و وصال

رہروِ آبلہ پا غور سے سُن

اسی گوشے میں ہیں سب دیر و حرم

دل صنم ہے کہ خدا غور سے سُن

کعبہ سنسان ہے کیوں اے واعظ!

ہاتھ کانوں سے اُٹھا غور سے سُن

موت اور زیست کے اسرار و رموز

آ مری بزم میں آ غور سے سُن

کیا گزرتی ہے کسی کے دل پر

تو بھی اے جانِ وفا غور سے سُن

کبھی فرصت ہو تو اے صبحِ جمال

شب گزیدوں کی دعا غور سے سُن

ہے یہی ساعتِ ایجاب و قبول

صبح کی لَے کو ذرا غور سے سُن

کچھ تو کہتی ہیں چٹک کر کلیاں

کیا سناتی ہے صبا غور سے سُن

برگِ آوارہ بھی اک مطرب ہے

طائرِ نغمہ سرا غور سے سُن

رنگ منّت کشِ آواز نہیں

گُل بھی ہے ایک نوا غور سے سُن

خامشی حاصلِ موسیقی ہے

نغمہ ہے نغمہ نما غور سے سُن

آئنہ دیکھ کے حیران نہ ہو

نغمۂ آبِ صفا غور سے سُن

عشق کو حُسن سے خالی نہ سمجھ

نالۂ اہلِ وفا غور سے سُن

دل سے ہر وقت کوئ کہتا ہے

میں نہیں تجھ سے جدا غور سے سُن

ہر قدم راہِ طلب میں ناصر

جرسِ دل کی صدا غور سے سُن






بے مِنّتِ خضرِ راہ رہنا

بے مِنّتِ خضرِ راہ رہنا

منظور ہمیں تباہ رہنا

یاروں کو نصیبِ سرفرازی

مجھ کو تری گردِ راہ رہنا

دل ایک عجیب گھر ہے پیارے

اس گھر میں بھی گاہ گاہ رہنا

گر یوں ہی رہ دلوں کی رنجش

مشکل ہے بہم نباہ رہنا

بھر آۓ گی آنکھ بھی کسی دن

خالی نہیں صرفِ آہ رہنا

میں ہاتھ نہیں اسے لگایا

اے بے گنہی گواہ رہنا

ناصر یہ وفا نہیں جنوں ہے

اپنا بھی نہ خیرخواہ رہنا






قہر سے دیکھ نہ ہر آن مجھے

قہر سے دیکھ نہ ہر آن مجھے

آنکھ رکھتا ہے تو پہچان مجھے

یک بیک آ کے دکھا دو جھمکی

کیوں پھراتے ہو پریشان مجھے

ایک سے ایک نئ منزل میں

لیے پھرتا ہے ترا دھیان مجھے

سُن کے آوازۂ گل کچھ نہ سنا

بس اسی دن سے ہوۓ کان مجھے

جی ٹھکانے نہیں جب سے ناصر

شہر لگتا ہے بیابان مجھے






وا ہوا پھر درِ مے خانۂ گُل

وا ہوا پھر درِ مے خانۂ گُل

پھر صبا لائ ہے پیمانۂ گُل

زمزمہ ریز ہوۓ اہلِ چمن

پھر چراغاں ہوا کاشانۂ گُل

رقص کرتی ہوئ شبنم کی پری

لے کے پھر آئ ہے نذرانۂ گُل

پھول برساۓ یہ کہہ کر اس نے

میرا دیوانہ ہے دیوانۂ گُل

پھر کسی گُل کا اشارہ پا کر

چاند نکلا سرِ مے خانۂ گُل

پھر سرِ شام کوئ شعلہ نوا

سو گیا چھیڑ کے افسانۂ گُل

آج غربت میں بہت یاد آیا

اے وطن تیرا صنم خانۂ گُل

آج ہم خاک بسر پھرتے ہیں

ہم سے تھی رونقِ کاشانۂ گُل

ہم پہ گزرے ہیں خزاں کے صدمے

ہم سے پوچھے کوئ افسانۂ گُل

کل ترا دور تھا اے بادِ صبا

ہم ہیں اب سرخیِ افسانۂ گُل






جب سے دیکھا ہے ترے ہات کا چاند

جب سے دیکھا ہے ترے ہات کا چاند

میں نے دیکھا ہی نہیں رات کا چاند

زلفِ شب رنگ کے صد راہوں میں

میں نے دیکھا ہے طلسمات کا چاند

رس کہیں روپ کہیں رنگ کہیں

ایک جادو ہے ملاقات کا چاند






جب تلک دم رہا ہے آنکھوں میں

جب تلک دم رہا ہے آنکھوں میں

ایک عالم رہا ہے آنکھوں میں

گریہ پیہم رہا ہے آنکھوں میں

رات بھر نم رہا ہے آنکھوں میں

اُس گُلِ تر کی یاد میں تا صبح

رقصِ شبنم رہا ہے آنکھوں میں

صبحِ رخصت ابھی نہیں بھولی

وہ سماں رم رہا ہے آنکھوں میں

دل میں اک عمر جس نے شور کیا

وہ بہت کم رہا ہے آنکھوں میں

کبھی دیکھی تھی اس کی ایک جھلک

رنگ سا جم رہا ہے آنکھوں میں






کون اس راہ سے گزرتا ہے

کون اس راہ سے گزرتا ہے

دل یوں ہی انتظار کرتا ہے

دیکھ کر بھی نہ دیکھنے والے

دل تجھے دیکھ دیکھ ڈرتا ہے

شہرِ گُل میں کٹی ہے ساری رات

دیکھیے دن کہاں گزرتا ہے

دھیان کی سیڑھیوں پہ پچھلے پہر

کوئ چپکے سے پاؤں دھرتا ہے

دل تو میرا اداس ہے ناصر

شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے






چمن در چمن وہ رمق اب کہاں

چمن در چمن وہ رمق اب کہاں

وہ شعلے شفق تا شفق اب کہاں

کراں تا کراں ظلمتیں چھا گئیں

وہ جلوے طبق در طبق اب کہاں

بجھی آتشِ گل، اندھیرا ہوا

وہ اجلے سنہرے ورق اب کہاں!

برابر ہے ملنا نہ ملنا ترا

بچھڑنے کا تجھ سے قلق اب کہاں






بے حجابانہ انجمن میں آ

بے حجابانہ انجمن میں آ

کم سخن محفلِ سخن میں آ

اے مرے آہوۓ رمیدہ کبھی

دل کے اجڑے ہوۓ خُتن میں آ

دل کہ تیرا تھا، اب بھی تیرا ہے

پھر اسی منزلِ کہن میں آ

اے گلستانِ شب کے چشم و چراغ

کبھی اجڑے دلوں کے بَن میں آ

کبھی فرصت ملے تو پچھلے پہر

شب گزیدوں کی انجمن میں آ

صبحِ نورس کی آنکھ کے تارے

چاند مرجھا گیا گہن میں، آ

رنگ بھر دے اندھیری راتوں میں

جانِ صبحِ وطن! وطن میں آ

پھول جھڑنے کی شام آ پہنچی

نو بہارِ چمن! چمن میں آ






دم گھُٹنے لگا ہے وضعِ غم سے پھر زور سے قہقہہ لگاؤ

دم گھُٹنے لگا ہے وضعِ غم سے

پھر زور سے قہقہہ لگاؤ

پھر دل کی بساط اُلٹ نہ جاۓ

امّید کی چال میں نہ آؤ

میں درد کے دن گزار لوں گا

تم جشنِ شبِ طرب مناؤ

کچھ سہل نہیں ہمارا ملنا

تابِ غمِ ہجر ہے تو آؤ






تارے گنواۓ یا سحر دکھلاۓ

تارے گنواۓ یا سحر دکھلاۓ

دیکھۓ شامِ غم کہاں لے جاۓ

صبحِ نو رس کا راگ سنتے ہی

شبِ گل کے چراغ مرجھاۓ

صبح نکلے تھے فکرِ دنیا میں

خانہ برب اد دن ڈھلے آۓ

کیوں نہ اس کم نما کو چاند کہوں

چاند کو دیکھ کر جو یاد آۓ






دوٗر اس تیرہ خاکداں سے دور

دوٗر اس تیرہ خاکداں سے دور

دیکھ دنیاۓ جسم و جاں سے دور

آنے والی بہار کے افسوں

دیکھ ویرانۂ خزاں سے دور

پھول جلتے ہیں شاخچوں سے جدا

شمع روتی ہے شمع داں سے دور

شہر خلقِ خدا سے بیگانہ

کارواں میرِ کارواں سے دور

تیرے زندانیوں کی کون سنے

برق چمکی ہے آشیاں سے دور

چیختی ہیں ڈراؤنی راتیں

چاند نکلا ہے آسماں سے دور

سو گیا پچھلی رات کا جادو

کوئ اب لے چلے یہاں سے دور

دل عجب گوشۂ فراغت ہے

کیوں بھٹکتے ہو اس مکاں سے دور

کوئ سُنتا نہیں یہاں ناصر

بات دل کی رہی زباں سے دور






چاند نکلا تو ہم نے وحشت میں

چاند نکلا تو ہم نے وحشت میں

جس کو دیکھا اسی کو چوم لیا

رس کے معنی جسے نہیں معلوم

ہم نے اس رس بھری کو چوم لیا

پھول سے ناچتے ہیں ہونٹوں پر

جیسے سچ مچ کسی کو چوم لیا






لبِ معجز بیاں نے چھین لیا

لبِ معجز بیاں نے چھین لیا

دل کا شعلہ زباں نے چھین لیا

دل مرا شب چراغ تھا جس کو

مژۂ خوں چکاں نے چھین لیا

عمر بھر کی مسرّتوں کا خمار

خلشِ ناگہاں نے چھین لیا

تیرا ملنا تو خیر مشکل تھا

تیرا غم بھی جہاں نے چھین لیا

آ کے منزل پہ آنکھ بھر آئ

سب مزا رفتگاں نے چھین لیا

ہر گھڑی آسماں کو تکتا ہوں

جیسے کچھ آسماں نے چھین لیا

باغ سنسان ہو گیا ناصر

آج وہ گل خزاں نے چھین لیا






آنکھوں میں ہیں دکھ بھرے فسانے

آنکھوں میں ہیں دکھ بھرے فسانے

رونے کے پھر آ گۓ زمانے

پھر درد نے آگ راگ چھیڑا

لَوٹ آۓ وہی سمَے پُرانے

پھر چاند کو لے اڑی ہوائیں

پھر بانسری چھیڑ دی ہوا نے

رستوں میں اداس خوشبوؤں کے

پھولوں نے لٹا دۓ خزانے






قفس کو چمن سے سوا جانتے ہیں

قفس کو چمن سے سوا جانتے ہیں

ہر اک سانس کو ہم صبا جانتے ہیں

لہو رو کے سینچا ہے ہم نے چمن کو

ہر اک پھول کا ماجرا جانتے ہیں

جسے نغمۂ نَے سمجھتی ہے دنیا

اُسے بھی ہم اپنی صدا جانتے ہیں

اشارا کرے جو نئ زندگی کا

ہم اُس خود کُشی کو روا جانتے ہیں

تری دھُن میں کوسوں سفر کرنے والے

تجھے سنگِ منزل نما جانتے ہیں






آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے

آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے

خامشی طرزِ ادا چاہتی ہے

آج پھر وسعتِ صحراۓ جنوں

پرسشِ آبلہ پا چاہتی ہے

دیکھ کیفیّتِ طوفانِ بہار

بوۓ گل رنگِ ہوا چاہتی ہے

موت آرائشِ ہستی کے لۓ

خندۂ زخمِ وفا چاہتی ہے

دل میں اب خارِ تمنّا بھی نہیں

زندگی برگ و نوا چاہتی ہے

سوچ اے دشمنِ اربابِ وفا

کیوں تجھے خلقِ خدا چاہتی ہے

اک ہمیں بارِ چمن ہیں ورنہ

غنچے غنچے کو صبا چاہتی ہے

ہر ادا آبِ رواں کی لہر ہے

جسم ہے یا چاندنی کا شہر ہے

پھر کسی ڈوبے ہوۓ دن کا خیال

پھر وہی عبرت سراۓ دہر ہے

اڑ گۓ شاخوں سے یہ کہہ کر طیور

اس گلستاں کی ہوا میں زہر ہے

شبنم آلود پلک یاد آئ

گلِ عارض کی جھلک یاد آئ

پھر سلگنے لگے یادوں کے کھنڈر

پھر کوئ تاکِ صنک یاد آئ

کبھی زلفوں کی گھٹا نے گھیرا

کبھی آنکھوں کی چمک یاد آئ

پھر کسی دھیان نے ڈیرے ڈالے

کوئ آوارہ مہک یاد آئ

پھر کوئ نغمہ گلو گیر ہوا

کوئ بت نام کسک یاد آئ

ذرّے پھر مائلِ رَم ہیں ناصر

پھر اُنھیں سیرِ فلک یاد آئ






عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا

عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا

حسن خود محوِ تماشا ہوگا

سُن کے آوازۂ زنجیرِ صبا

قفسِ غنچہ کا در وا ہوگا

جرسِ شوق اگر ساتھ رہی

ہر نفس شہپرِ عنقا ہوگا

دائم آباد رہے گی دنیا

ہم نہ ہوں گے کوئ ہم سا ہوگا

کون دیکھے گا طلوعِ خورشید

ذرّہ جب دیدۂ بینا ہوگا

ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں

ہم سا بے درد کوئ کیا ہوگا

پھر سلگنے لگا صحراۓ حیات

ابر گھِر کر کہیں برسا ہوگا

پھر کسی دھیان کے صد راہے ہر

دلِ حیرت زدہ تنہا ہوگا

پھر کسی صبحِ طرب کا جادو

پردۂ شب سے ہویدا ہوگا

گل زمینوں کے خُنُک رمنوں میں

جشنِ رامش گری برپا ہوگا

پھر نئ رُت کا اشارہ پا کر

وہ سمن بوٗ چمن آرا ہوگا

گُلِ شب تاب کی خوشبو لے کر

ابلقِ صبح روانہ ہوگا

پھر سرِ شاخِ شعاعِ خورشید

نکہتِ گُل کا بسیرا ہوگا

اک صدا سنگ میں تڑپی ہوگی

اک شرر پھول میں لرزا ہوگا

تجھ کو ہر پھول میں عریاں سوتے

چاندنی رات نے دیکھا ہوگا

دیکھ کر آئینۂ آبِ رواں

پتّہ پتّہ لبِ گویا ہوگا

شام سے سوچ رہا ہوں ناصر

چاند کس شہر میں اترا ہوگا

کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے

دل کا یہ حال کہاں تھا پہلے

اب تو جھونکے سے لرز اٹھتا ہوں

نشّۂ خوابِ گراں تھا پہلے

اب تو منزل بھی ہے خود گرمِ سفر

ہر قدم سنگِ نشاں تھا پہلے

سفرِ شوق کے فرسنگ نہ پوچھ

وقت بے قیدِ مکاں تھا پہلے

یہ الگ بات کہ غم راس ہے اب

اس میں اندیشۂ جاں تھا پہلے

یوں نہ گھبراۓ ہوۓ پھرتے تھے

دل عجب کنجِ اماں تھا پہلے

اب بھی توٗ پاس نہیں ہے لیکن

اس قدر دور کہاں تھا پہلے

ڈیرے ڈالے ہیں بگولوں نے جہاں

اُس طرف چشمہ رواں تھا پہلے

اب وہ دریا، نہ وہ بستی، نہ وہ لوگ

کیا خبر کون کہاں تھا پہلے

ہر خرابہ یہ صدا دیتا ہے

میں بھی آباد مکاں تھا پہلے






اُڑ گۓ شاخ سے یہ کہہ کے طیور

اُڑ گۓ شاخ سے یہ کہہ کے طیور

سرو ایک شوخ جواں تھا پہلے

کیا سے کیا ہو گئ دنیا پیارے

تو وہیں پر ہے جہاں تھا پہلے

ہم نے آباد کیا ملکِ سخن

کیسا سنسان سماں تھا پہلے

ہم نے بخشی ہے خموشی کو زباں

درد مجبورِ فغاں تھا پہلے

ہم نے ایجاد کیا تیشۂ عشق

شعلہ پتھّر میں نہاں تھا پہلے

ہم نے روشن کیا معمورۂ غم

ورنہ ہر سمت دھواں تھا پہلے

ہم نے محفوظ کیا حسنِ بہار

عطرِ گل صرفِ خزاں تھا پہلے

غم نے پھر دل کو جگایا ناصر

خانہ برباد کہاں تھا پہلے






آئینہ لے لے صبا پھر آئ

آئینہ لے لے صبا پھر آئ

بجھتی آنکھوں میں ضیا پھر آئ

تازہ رس لمحوں کی خوشبو لے کر

گُل زمینوں کی ہوا پھر آئ

سرمئ دیس کے سپنے لے کر

شبنمِ زمزمہ پا پھر آئ

پھر چمکنے لگیں سونی راہیں

ساربانوں کی صدا پھر آئ

پھر کوئ قافلہ گزرا تھا یہاں

وہی آوازِ درا پھر آئ






کیوں غمِ رفتگاں کرے کوئ

کیوں غمِ رفتگاں کرے کوئ

فکرِ وا ماندگاں کرے کوئ

تیرے آوارگانِ غربت کو

شاملِ کارواں کرے کوئ

زندگی کے عذاب کیا کم ہیں

کیوں غمِ لا مکاں کرے کوئ

دل ٹپکنے لگا ہے آنکھوں سے

اب کسے راز داں کرے کوئ

اس چمن میں برنگِ نکہتِ گُل

عمر کیوں رائگاں کرے کوئ

شہر میں شور گھر میں تنہائ

دل کی باتیں کہاں کرے کوئ

یہ خرابے ضرور چمکیں گے

اعتبارِ خزاں کرے کوئ






کس کے جلووں کی دھوپ برسی ہے

کس کے جلووں کی دھوپ برسی ہے

آج تو شام بھی سحر سی ہے

اہلِ غم ہیں کہ صبح کی تصویر

دل بجھا سا ہے آنکھ ترسی ہے

کیوں نہ کھینچے دلوں کو ویرانہ

اُس کی صورت بھی اپنے گھر کی سی ہے

بے ثمر ہی سہی ہے شاخِ مراد

برف پگھلی تو آگ برسی ہے

ال میں اب کیا رہا ہے تیرے بعد

ایک سنسان رہ گزر سی ہے

صبح تک ہم نہ سو سکے ناصر

رات بھر کتنی اوس برسی ہے






نِت نئ سوچ میں لگے رہنا

نِت نئ سوچ میں لگے رہنا

ہمیں ہر حال میں غزل کہنا

صحنِ مکتب میں ہم سِنوں کے ساتھ

سنگ ریزوں کو ڈھونڈتے رہنا

گھر کے آنگن میں آدھی آدھی رات

مِل کے باہم کہانیاں کہنا

دن چڑھے چھاؤں میں ببولوں کی

رمِ آہو کو دیکھتے رہنا

ابر پاروں کو، سبزہ زاروں کو

دیکھتے رہنا، سوچتے رہنا

شہر والوں سے چھپ کے پچھلی رات

چاند میں بیٹھ کر غزل کہنا

ریت کے پھول آگ کے تارے

یہ ہے فصلِ مراد کا گہنا

سوچتا ہوں کہ سنگِ منزل نے

چاندنی کا لباس کیوں پہنا

کیا خبر کب کوئ کرن پھوٹے

جاگنے والو جاگتے رہنا






سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا

سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا

کیا کہیں زیست میں کیا کیا نہ رہا

اب تو دنیا بھی وہ دنیا نہ رہی

اب ترا دھیان بھی اُتنا نہ رہا

قصّۂ شوق سناؤں کس کو

راز داری کا زمانا نہ رہا

زندگی جس کی تمنّا میں کٹی

وہ مرے حال سے بیگانہ رہا

ڈیرے ڈالے ہیں خزاں نے چوندیس

گُل تو گُل، باغ میں کانٹا نہ رہا

دن دہاڑے یہ لہو کی ہولی

خلق کو خوف خدا کا نہ رہا

اب تو سو جاؤ ستم کے مارو

آسماں پر کوئ تارا نہ رہا






مدّت ہوئ کہ سیرِ چمن کو ترس گۓ

مدّت ہوئ کہ سیرِ چمن کو ترس گۓ

گُل کیا غبارِ بوۓ سمن کو ترس گۓ

ہاں اے سکوتِ تشنگیِ درد کچھ تو بول!

کانٹے زباں کے آبِ سخن کو ترس گۓ

دل میں کوئ صدا ہے نہ آنکھوں میں کوئ رنگ

تن کے رفیق صحبتِ تن کو ترس گۓ

اس عہدِ نو میں دورِ متاعِ وفا نہیں

اس رسم و راہِ عہدِ کہن کو ترس گۓ

منزلوں کی ٹھنڈکوں نے لہو سرد کر دیا

جی سست ہے کہ پاؤں چبھن کو ترس گۓ

اندھیر ہے کہ جلوۂ جاناں کے باوجود

کوچے نظر کے ایک کرن کو ترس گۓ






خواب میں رات ہم نے کیا دیکھا

خواب میں رات ہم نے کیا دیکھا

آنکھ کھلتے ہی چاند سا دیکھا

کیاریاں دھول سے اٹی پائیں

آشیانہ جلا ہوا دیکھا

فاختہ سر نگوں ببولوں میں

پھول کو پھول سے جدا دیکھا

اُس نے منزل پہ لا کے چھوڑ دیا

عمر بھر جس کا راستا دیکھا

ہم نے موتی سمجھ کے چوم لیا

سنگریزہ جہاں پڑا دیکھا

کم نما ہم بھی ہیں مگر پیارے

کوئ تجھ سا نہ خود نما دیکھا






رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی

رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی

بال چاندی ہو گۓ، سونا ہوّ رخسار بھی

درد کے جھونکوں نے اب کی دل ہی ٹھنڈا کر دیا

آگ برساتا تھا آگے دیدۂ خوں بار بھی

بیٹھے بیٹھے جانے کیوں بیتاب ہو جاتا ہے دل

پوچھتے کیا ہو میاں، اچھّا بھی ہوں بیمار بھی

شوقِ آزادی لئے جاتا ہے منزل سے پرے

روکتی ہے ہر قدم آوازِ پاۓ یار بھی

سادگی سے تم نہ سمجھے ترکِ دنیا کا سبب

ورنہ وہ درویش تھے پردے میں دنیا دار بھی

کس طرح گزرے گا ناصر فرصتِ ہستی کا دن

جم گیا دیوار بن کر سایۂ دیوار بھی






بیگانہ وار اس سے ملاقات ہو تو ہو

بیگانہ وار اس سے ملاقات ہو تو ہو

اب دور دور ہی سے کوئ بات ہو تو ہو

مشکل ہے پھر ملیں کبھی یارانِ رفتگاں

تقدیر ہی سے اب یہ کرامات ہو تو ہو

ان کو تو یاد آۓ ہوۓ مدّتیں ہوئیں

جینے کی وجہ اور کوئ بات ہو تو ہو

کیا جانوں کیوں الجھتے ہیں وہ بات بات پر

مقصد کچھ اس سے ترکِ ملاقات ہو تو ہو






حسن کو دل میں چھپا کر دیکھو

حسن کو دل میں چھپا کر دیکھو

دھیان کی شمع جلا کر دیکھو

کیا خبر کوئ دفینہ مل جاۓ

کوئ دیوار گرا کر دیکھو

فاختہ چپ ہے بڑی دیر سے کیوں

سرو کی شاخ ہلا کر دیکھو

کیوں چمن چھوڑ دیا خوشبو نے

پھول کے پاس تو جا کر دیکھو

نہر کیوں سو گئ چلتے چلتے

کوئ پتھّر ہی گرا کر دیکھو

دل میں بیتاب ہیں کیا کیا منظر

کبھی س شہر میں آ کر دیکھو

ان اندھیروں میں کرن ہے کوئ

شب زدہ آنکھ اٹھا کر دیکھو






وہ اس ادا سے جو آۓ تو یوں بھلا نہ لگے

وہ اس ادا سے جو آۓ تو یوں بھلا نہ لگے

ہزار بار ملو پھر بھی آشنا نہ لگے

کبھی وہ خاص عنایت کہ سَو گُماں گزریں

کبھی وہ طرزِ تغافل کہ محرمانہ لگے

وہ سیدھی سادی ادائیں کہ بجلیاں برسیں

وہ دلبرانہ مروّت کہ عاشقانہ لگے

دکھاؤں داغِ محبّت جو نا گوار نہ ہو

سناؤں قصّۂ فرقت اگر برا نہ لگے

بہت ہی سادہ ہے تو اور زمانہ ہے عیّار

خدا کرے کہ تجھے شہر کی ہوا نہ لگے

بجھا نہ دیں یہ مسلسل اداسیاں دل کی

وہ بات کر کہ طبیعت کو تازیانہ لگے

جو گھر اجڑ گۓ ان کا نہ رنج کر پیارے

وہ چارہ کر کہ یہ گلشن اُجاڑ سا نہ لگے

عتابِ اہلِ جہاں سب بھُلا دۓ لیکن

وہ زخم یاد ہیں اب تک جو غائبانہ لگے

وہ رنگ دل کو دۓ ہیں لہو کی گردش نے

نظر اُٹھاؤں تو دنیا نگار خانہ لگے

عجیب خواب دکھاتے ہیں ناخدا ہم کو

غرض یہ ہے کہ سفینہ کنارے جا نہ لگے

لیے ہی جاتی ہے ہر دم کوئ صدا ناصر

یہ اور بات سراغِ نشانِ پا نہ لگے






آرائشِ خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو

آرائشِ خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو

وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو

یہ کیا کہ روز ایک سا غم ایک سی امید

اس رنجِ بے خمار کی اب انتہا بھی ہو

یہ کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر

جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو

ٹوٹے کبھی تو خوابِ شب و روز کا طلسم

اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ہو

دیوانگئِ شوق کو یہ دھن ہے کہ ان دِنوں

گھر بھی ہو اور بے درودیوارسا بھی ہو

جز دل کوئی مکان نہیں دہر میں جہاں

رہزن کا خوف بھی نہ رہے درکھلا بھی ہو

ہر ذرہ ایک محملِ عبرت ہے دشت کا

لیکن کسے دکھاؤں کوئی دیکھتا بھی ہو

ہر شے پکارتی ہے پس پردۂ سکوت

لیکن کسے سناؤں کوئی ہم نوا بھی ہو

فرصت میں سن شگفتگیِ غنچہ کی صدا

یہ وہ سخن نہیں جو کسی نے کہا بھی ہو

بیٹھا ہے ایک شخص مرے پاس دیر سے

کوئی بھلا سا ہو تو ہمیں دیکھتا بھی ہو

بزم سخن بھی ہو سخنِ گرم کے لیے

طاؤس بولتا ہو تو جنگل ہرا بھی ہو






نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں

نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں

تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد

آج کا دن گزر نہ جائے کہیں

نہ ملا کر اداس لوگوں سے

حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں

آرزو ہے کہ تو یہاں آئے

اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں

جی جلاتا ہوں اور سوچتا ہوں

رائیگاں یہ ہنر نہ جائے کہیں

آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصرؔ

پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں






ممکن نہیں متاعِ سخن مجھ سے چھین لے

ممکن نہیں متاعِ سخن مجھ سے چھین لے

گو باغباں یہ کنجِ چمن مجھ سے سے چھین لے

گر احترام رسمِ وفا ہے تو اے خدا

یہ احترامِ رسمِ کہن مجھ سے چھین لے

منظر دل و نگاہ کے جب ہو گئے اداس

یہ بے فضا علاقۂ تن مجھ سے چھین لے

گل ریز میری نالہ کشی سے ہے شاخ شاخ

گل چیں کا بس چلے تو یہ فن مجھ سے چھین لے

سینچی ہیں دل کے خون سے میں نے یہ کیاریاں

کس کی مجال میرا چمن مجھ سے چھین لے!






پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے

پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے

پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے

پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں

رت آئی پیلے پھولوں کی تم یاد آئے

پھر کاگا بولا گھر کے سونے آنگن میں

پھر امرت رس کی بوند پڑی تم یاد آئے

پہلے تو میں چیخ کے رویا اور پھر ہنسنے لگا

بادل گرجا بجلی چمکی تم یاد آئے

دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا

جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے






مسلسل بے کلی دل کو رہی ہے

مسلسل بے کلی دل کو رہی ہے

مگر جینے کی صورت تو رہی ہے

میں کیوں پھرتا ہوں تنہا مارا مارا

یہ بستی چین سے کیوں سور رہی ہے

چلے دل سے امیدوں کے مسافر

یہ نگری آج خالی ہو رہی ہے

نہ سمجھو تم اسے شور ِبہاراں

خزاں پتوں میں چھپ کے رو رہی ہے

ہمارے گھر کی دیواروں پر ناصرؔ

اداسی بال کھولے سو رہی ہے






ناصر کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے

ناصر کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے

دیوانہ ہے دیوانے کے منہ نہ لگو تو بہتر ہے

کل جو تھا وہ آج نہیں جو آج ہے وہ کل مٹ جائے گا

روکھی سوکھی جو مل جائے شکر کرو تو بہتر ہے

کل یہ تاب و تواں نہ رہے گی ٹھنڈا ہو جائے گا لہو

نامِ خدا ہو جوان ابھی کچھ کر گزرو تو بہتر ہے

کیا جانے کیا رت بدلے حالات کا کوئی ٹھیک نہیں

اب کے سفر میں تم بھی ہمارے ساتھ چلو تو بہتر ہے

کپڑے بدل کر بال بنا کر کہاں چلے ہو کس کے لیے

رات بہت کالی ہے ناصرؔ گھر میں رہو تو بہتر ہے






اپنی دھن میں رہتا ہوں

اپنی دھن میں رہتا ہوں

میں بھی تیرے جیسا ہوں

او پچھلی رت کے ساتھی

اب کے برس میں تنہا ہوں

تیری گلی میں سارا دن

دکھ کے کنکر چنتا ہوں

مجھ سے آنکھ ملائے کون

میں تیرا آئینہ ہوں

میرا دیا جلائے کون

میں ترا خالی کمرہ ہوں

تیرے سوا مجھے پہنے کون

میں ترے تن کا کپڑا ہوں

تو جیون کی بھری گلی

میں جنگل کا رستہ ہوں

آتی رت مجھے روئے گی

جاتی رت کا جھونکا ہوں

اپنی لہر ہے اپنا روگ

دریا ہوں اور پیاسا ہوں






سناتا ہے کوئی بھولی کہانی

سناتا ہے کوئی بھولی کہانی

مہکتے میٹھے دریاوں کا پانی

یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے

سنا ہے میں نے لوگوں‌کی زبانی

یہاں اک شہر تھا شہرِ نگاراں

نہ چھوڑی وقت نے اس کی نشانی

میں وہ دل ہوں دبستانِ الم کا

جسے روئے گی صدیوں شادمانی

تصور نے اُسے دیکھا ہے اکثر

خرد کہتی ہے جس کو لا مکانی

خیالوں ہی میں‌اکثر بیٹھے بیٹھے

بسا لیتا ہوں اک دنیا سہانی

ہجومِ نشّۂ فکرِ سخن میں

بدل جاتے ہیں لفظوں کے معانی

بتا اے ظلمتِ صحرائے امکاں

کہاں ہوگا مرے خوابوں‌کا ثانی

اندھیری شام کے پردوں میں‌ چھپ کر

کسے روتی ہے چشموں کی روانی

کرن پریاں اترتی ہیں کہاں سے

کہاں جاتے ہیں رستے کہکشانی

پہاڑوں سے چلی پھر کوئی آندھی

اُڑے جائے ہیں اوراقِ خزانی

نئی دنیا کے ہنگاموں میں‌ ناصرؔ

دبی جاتی ہیں آوازیں پرانی






رہ نوردِ بیابانِ غم صبر کر صبر کر

رہ نوردِ بیابانِ غم صبر کر صبر کر

کارواں پھر ملیں گے بہم صبر کر صبر کر

بے نشاں ہے سفر رات ساری پڑی ہے مگر

آرہی ہے صدا دم بدم صبر کر صبر کر

تیری فریاد گونجے گی دھرتی سے آکاش تک

کوئی دن اور سہہ لے ستم صبر کر صبر کر

تیرے قدموں سے جاگیں گے اُجڑے دلوں کے ختن

پا شکستہ غزالِ حرم صبر کر صبر کر

شہر اجڑے تو کیا ہے کشادہ زمینِ خدا

اک نیا گھر بنائیں گے ہم صبر کر صبر کر

یہ محلاّتِ شاہی تباہی کے ہیں منتظر

گرنے والے ہیں ان کے علم صبر کر صبر

دف بجائیں گے برگ و شجر صف بہ صف ہر طرف

خشک مٹی سے پھوٹے گا نم صبر کر صبر کر

لہلہا ئیں گی پھر کھیتیاں کارواں کارواں

کھل کے برسے گا ابر کرم صبر کر صبر کر

کیوں پٹکتا ہے سر سنگ سے جی جلا ڈھنگ سے

دل ہی بن جائے گا خود صنم صبر کر صبر کر

پہلے کھل جائے دل کا کنول پھر لکھیں گے غزل

کوئی دم اے صریر قلم صبر کر صبر کر

درد کے تار ملنے تو دے ہونٹ ہلنے تو دے

ساری باتیں کریں گے رقم صبر کر صبر کر

دیکھ ناصرؔ زمانے میں کوئی کسی کا نہیں

بھول جا اُس کے قول و قسم صبر کر صبر کر






دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا

دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا

یاد نے کنکر پھینکا ہوگا

آج تو میرا دل کہتا ہے

تو اس وقت اکیلا ہوگا

میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے

اوروں کو خط لکھتا ہوگا

بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں

تو اب تھک کے سویا ہوگا

ریل کی گہری سیٹی سن کر

رات کا جنگل گونجا ہوگا

شہر کے خالی اسٹیشن پر

کوئی مسافر اترا ہوگا

آنگن میں پھر چڑیاں بولیں

تو اب سو کر اٹھا ہوگا

یادوں کی جلتی شبنم سے

پھول سا مکھڑا دھویا ہوگا

موتی جیسی شکل بنا کر






آئینے کو تکتا ہوگا

آئینے کو تکتا ہوگا

شام ہوئی اب تو بھی شاید

اپنے گھر کو لوٹا ہوگا

نیلی دھندلی خاموشی میں

تاروں کی دھن سنتا ہوگا

میرا ساتھی شام کا تارا

تجھ سے آنکھ ملاتا ہوگا

شام کے چلتے ہاتھ نے تجھ کو

میرا سلام تو بھیجا ہوگا

پیاسی کرلاتی کونجوں نے

میرا دکھ تو سنایا ہوگا

میں تو آج بہت رویا ہوں

تو بھی شاید رویا ہوگا

ناصرؔ تیرا میت پرانا

تجھ کو یاد تو آتا ہوگا






گل نہیں مے نہیں پیالہ نہیں

گل نہیں مے نہیں پیالہ نہیں

کوئی بھی یادگارِ رفتہ نہیں

فرصتِ شوق بن گئی دیوار

اب کہیں بھاگنے کا رستہ نہیں

ہوش کی تلخیاں مٹیں کیسے

جتنی پیتا ہوں اتنا نشّہ نہیں

دل کی گہرائیوں میں ڈوب کے دیکھ

کوئی نغمہ خوشی کا نغمہ نہیں

غم بہر رنگ دل کشا ہے مگر

سننے والوں کو تابِ نالہ نہیں

مجھ سے کہتی ہے موجِ صبح نشاط

پھول خیمہ ہے پیش خیمہ نہیں

ابھی وہ رنگ دِل میں پیچاں ہیں

جنہیں آواز سے علاقہ نہیں

ابھی وہ دشت منتظر ہیں مرے

جن پہ تحریر پائے ناقہ نہیں

یہ اندھیرے سلگ بھی سکتے ہیں

تیرے دل میں مگر وہ شعلہ نہیں

راکھ کا ڈھیر ہے وہ دل ناصرؔ

جس کی دھڑکن صدائے تیشہ نہیں






اس سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے

اس سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے

بھی تم بھی سنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے

یہ ٹھٹھری ہوئی لمبی راتیں کچھ کہتی ہیں

یہ خاموشی، آواز نما کچھ کہتی ہے

سب اپنے گھر وں میں لمبی تان کے سوئے ہیں

اور دور کہیں کوئل کی صدا کچھ کہتی ہے

جب صبح کو چڑیاں باری باری بولتی ہیں

کوئی نامانوس اداس نوا کچھ کہتی ہے

جب رات کو تارے باری باری جاگتے ہیں

کئی ڈوبے ہوئے تاروں کی ندا کچھ کہتی ہے

کبھی بھور بھئے کبھی شام پڑے کبھی رات گئے

ہر آن بدلتی رت کی ہوا کچھ کہتی ہے

مہمان ہیں ہم مہمان سرائے یہ نگری

مہمانوں کو مہمان سرا کچھ کہتی ہے

بیدار رہو بیدار رہو بیدار رہو

اے ہم سفر و آوازِ ردا کچھ کہتی ہے

ناصر آشوبِ زمانہ سے غافل نہ رہو

کچھ ہوتا ہے جب خلقِ خدا کچھ کہتی ہے






گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل

گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل

مجھ سے اتنی وحشت ہے تو میری حدوں سے دور نکل

ایک سمے ترا پھول سا نازک ہاتھ تھا میرے شانوں پر

ایک یہ وقت کہ میں تنہا اور دکھ کے کانٹوں کا جنگل

یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے

تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتاتھا کاجل

میں تو ایک نئی دنیا کی دھن میں بھٹکتا پھرتا ہوں

میری تجھ سے کیسے نبھے گی ایک ہیں تیرے فکرو عمل

میرا منہ کیا دیکھ رہا ہے، دیکھ اس کالی رات کو دیکھ

میں وہی تیرا ہمراہی ہوں ساتھ مرے چلنا ہو تو چل






جب ذرا تیز ہوا ہوتی ہے

جب ذرا تیز ہوا ہوتی ہے

کیسی سنسان فضا ہوتی ہے

ہم نے دیکھے ہیں وہ سنّاٹے بھی

جب ہر اک سانس صدا ہوتی ہے

دل کا یہ حال ہوا تیرے بعد

جیسے ویران سرا ہوتی ہے

رونا آتا ہے ہمیں بھی لیکن

اس میں توہینِ وفا ہوتی ہے

منہ اندھیرے کبھی اُٹھ کردیکھو

کیا تروتازہ ہوا ہوتی ہے

اجنبی دھیان کی ہر موج کے ساتھ

کس قدر تیز ہوا ہوتی ہے

غم کی بے نور گزر گاہوں میں

اک کرن ذوق فزا ہوتی ہے

غمگسارِ سفرِ راہِ وفا

مژۂ آبلہ پا ہوتی ہے

گلشنِ فکر کی منہ بند کلی

شبِ مہتاب میں وا ہوتی ہے

جب نکلتی ہے نگارِ شبِ غم

منہ پہ شبنم کی ردا ہوتی ہے

حادثہ ہے کہ خزاں سے پہلے

بوئے گل ، گل سے جدا ہوتی ہے

اک نیا دور جنم لیتا ہے

ایک تہذیب فنا ہوتی ہے

جب کوئی غم نہیں‌ہوتا ناصرؔ

بے کلی دل کی سوا ہوتی ہے






شہر سنسان ہے کدھر جائیں

شہر سنسان ہے کدھر جائیں

خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں

رات کتنی گزر گئی لیکن

اتنی ہمت نہیں کہ گھر جائیں

یوں ترے دھیان سے لرزتا ہوں

جیسے پتے ہوا سے ڈر جائیں

اُن اجالوں کی دھن میں ‌پھرتا ہوں

چھب دکھاتے ہی جو گزر جائیں

رین اندھیری ہے اور کنارہ دور

چاند نکلے تو پار اتر جائیں






دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی

دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی

کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

شور برپا ہے خانۂ دل میں

کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

بھری دنیا میں جی نہیں لگتا

جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

تو شریکِ سخن نہیں ہے تو کیا

ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی

یاد کے بے نشاں جزیروں سے

تیری آواز آرہی ہے ابھی

شہر کی بے چراغ گلیوں میں

زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی

سو گئے لوگ اس حویلی کے

ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی

تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے

شہر کی رات جاگتی ہے ابھی

وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ

غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی






اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی

اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی

میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں تو اپنے ہونٹ سی

کن بے دلوں میں پھینک دیا حادثات نے

آنکھوں میں جن کی نور نہ باتوں میں‌تازگی

بول اے مرے دیار کی سوئی ہوئی زمیں

میں جن کو ڈھونڈتا ہوں کہاں ہیں وہ آدمی

وہ شاعروں کا شہر وہ لاہور بجھ گیا

اگتے تھے جس میں شعر وہ کھیتی ہی جل گئی

میٹھے تھے جن کے پھل وہ شجر کٹ کٹا گئے

ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں وہ دیوار گر گئی

بازار بند راستے سنسان بے چراغ

وہ رات ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں ‌کوئی

گلیوں میں‌ اب تو شام سے پھرتے ہیں‌ پہرہ دار

ہے کوئی کوئی شمع سو وہ بھی بجھی بجھی

اے روشنئ دیدہ و دل اب نظر بھی آ

دنیا ترے فراق میں ‌اندھیر ہو گئی

القصّہ جیب چاک ہی کرنی پڑی ہمیں

گو ابتدائے غم میں ‌بڑی احتیاط کی

اب جی میں ہے کہ سرکشی پتھر سے پھوڑیے

ممکن ہے قلبِ سنگ سے نکلے کوئی پری

بیکار بیٹھے رہنے سے بہتر ہے کوئی دن

تصویر کھینچیے کسی موجِ خیال کی

ناصرؔ بہت سی خواہشیں دل میں ہیں بے قرار

لیکن کہاں سے لاوں وہ بے فکر زندگی






پھول خوشبو سے جدا ہے اب کے

پھول خوشبو سے جدا ہے اب کے

یارو یہ کیسی ہوا ہے اب کے

دوست بچھڑے ہیں کئی بار مگر

یہ نیا داغ کھلا ہے اب کے

پتّیاں روتی ہیں سر پیٹتی ہیں

قتلِ گل عام ہوا ہے اب کے

شفقی ہو گئی دیوارِ خیال

کس قدر خون بہا ہے اب کے

منظرِ زخمِ وفا کس کو دکھائیں

شہر میں قحطِ وفا ہے اب کے

وہ تو پھر غیر تھے لیکن یارو

کام اپنوں سے پڑا ہے اب کے

کیا سنیں شورِ بہاراں ناصرؔ

ہم نے کچھ اور سنا ہے اب کے






دفعتاً دل میں کسی یاد نے لی انگڑائی

دفعتاً دل میں کسی یاد نے لی انگڑائی

اس خرابے میں یہ دیوار کہاں سے آئی

آج کھلنے ہی کو تھا دردِ محبت کا بھرم

وہ تو کہیے کہ اچانک ہی تری یاد آئی

نشۂ تلخئِ ایّام اترتا ہی نہیں

تیری نظروں نے گلابی تو بہت چھلکائی

یوں تو ہر شخص اکیلا ہے بھری دنیا میں

پھر بھی ہر دل کے مقدّر میں نہیں تنہائی

یوں تو ملنے کو وہ ہر روز ہی ملتا ہے مگر

دیکھ کر آج اُسے آنکھ بہت للچائی

ڈوبتے چاند پہ روئی ہیں ہزاروں آنکھیں

میں تو رویا بھی نہیں تم کو ہنسی کیوں آئی

رات بھر جاگتے رہتے ہو بھلا کیوں ناصر

تم نے یہ دولتِ بیدار کہاں سے پائی






سرِ مقتل بھی صدا دی ہم نے

سرِ مقتل بھی صدا دی ہم نے

دل کی آواز سنا دی ہم نے

پہلے اک روزنِ در توڑا تھا

اب کے بنیاد ہلا دی ہم نے

پھر سر صبح وہ قصہ چھیٹرا

دن کی قندیل بجھا دی ہم نے

آتش غم کے شرارے چن کر

آگ زنداں میں لگا دی ہم نے

رہ گئے دستِ صبا کمھلا کر

پھول کو آگ پلا دی ہم نے

آتش گل ہو کہ ہو شعلۂ ساز

جلنے والوں کو ہوا دی ہم نے

کتنے ادوار کی گم گشتہ نوا

سینۂ نے میں چھپا دی ہم نے

دم مہتاب فشاں سے ناصرؔ

آج تو رات جگا دی ہم نے






دھوپ نکلی دن سہانےہو گئے

دھوپ نکلی دن سہانےہو گئے

چاند کے سب رنگ پھیکے ہو گئے

کیا تماشا ہے کہ بے ایامِ گل

ٹہنیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے

اس قدر رویا ہوں‌ تیری یاد میں

آئینے آنکھوں کے دھندلے ہو گئے

ہم بھلا چپ رہنے والے تھے کہیں

ہاں مگر حالات ایسے ہو گئے

اب تو خوش ہو جائیں اربابِ ہوس

جیسے وہ تھے ہم بھی ویسے ہو گئے

حسن اب ہنگامہ آرا ہو تو ہو

عشق کے دعوے تو جھوٹے ہو گئے

اے سکوتِ شامِ غم یہ کیا ہوا

کیا وہ سب بیمار اچھے ہو گئے

دل کو تیرے غم نے پھر آواز دی

کب کے بچھڑے پھر اکھٹے ہو گئے

آو ناصرؔ ہم بھی اپنے گھر چلیں

بند اس گھر کے دریچے ہو گئے






تو اسیر بزم ہے ہم سخن تجھے ذوقِ نالۂ نےَ نہیں

تو اسیر بزم ہے ہم سخن تجھے ذوقِ نالۂ نےَ نہیں

ترا دل گداز ہو کس طرح یہ ترے مزاج کی لے نہیں

ترا ہر کمال ہے ظاہری ترا ہر خیال ہے سرسری

کوئی دل کی بات کروں تو کیا ترے دل میں آگ تو ہے نہیں

جسے سن کے روح مہک اٹھے جسے پی کے درد چہک اٹھے

ترے ساز میں وہ صدا نہیں ترے میکدے میں وہ مے نہیں

کہاں اب وہ موسمِ رنگ و بو کہ رگوں میں بول اٹھے لہو

یونہی ناگوار چبھن سی ہے کہ جو شاملِ رگ و پے نہیں

ترا دل ہو درد سے آشنا تو یہ نالہ غور سے سن ذرا

بڑا جاں گسل ہے یہ واقعہ یہ فسانۂ جم و کےَ نہیں

میں ہوں ایک شاعرِ بے نوا مجھے کون چاہے مرے سوا

میں امیرِ شام و عجم نہیں میں کبیر کوفہ و رَے نہیں

یہی شعر ہیں مری سلطنت اسی فن میں ہے مجھے عافیت

مرے کاسۂ شب وروز میں ترے کام کی کوئی شے نہیں






آج تو بے سبب اداس ہے جی

آج تو بے سبب اداس ہے جی

عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی

جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں

جانے کیا چیز کھو گئی میری

وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر

اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی

چھپتا پھرتا ہے عشق دنیا سے

پھیلتی جارہی ہے رسوائی

ہم نشیں کیا کہوں کہ وہ کیا ہے

چھوڑ یہ بات نیند اڑنے لگی

آج تووہ بھی کچھ خموش سا تھا

میں نے بھی اُس سے کوئی بات نہ کی

ایک دم اُس کے ہونٹ چوم لیے

یہ مجھے بیٹھے بیٹھے کیا سوجی

اک دم اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا

جانے کیا بات درمیاں آئی

تو جو اتنا اداس ہے ناصرؔ

تجھے کیا ہو گیا بتا تو سہی






جب تک نہ لہو دیدۂ انجم میں ٹپک لے

جب تک نہ لہو دیدۂ انجم میں ٹپک لے

اے دل قفسِ جاں میں ذرا اور پھڑک لے

ذرّے ہیں ہوس کے بھی زرِنابِ وفا میں

ہاں جنسِ وفا کو بھی ذرا چھان پھٹک لے

پھر دیکھنا اُس کے لبِ لعلیں کی ادائیں

یہ آتشِ خاموش ذرا اور دہک لے

گونگا ہے تو لب بستوں سے آدابِ سخن سیکھ

اندھا ہے تو ہم ظلم رسیدوں سے چمک لے

ناصرؔ سے کہے کون کہ اللہ کے بندے

باقی ہے ابھی رات ذرا آنکھ جھپک لے






پھر نئی فصل کے عنواں چمکے

پھر نئی فصل کے عنواں چمکے

ابر گر جا گلِ باراں چمکے

آنکھ جھپکوں تو شرارے برسیں

سانس کھینچوں تو رگِ جاں چمکے

کیا بگڑ جائے گا اے صبحِ جمال

آج اگر شامِ غریباں چمکے

اے فلک بھیج کوئی برقِ خیال

کچھ تو شامِ شب ہجراں چمکے

پھر کوئی دل کو دکھائے ناصرؔ

کاش یہ گھر کسی عنواں چمکے






زندگی بھر وفا ہمیں سے ہوئی

زندگی بھر وفا ہمیں سے ہوئی

سچ ہے یارو خطا ہمیں سے ہوئی

دل نے ہر داغ کو رکھا محفوظ

یہ زمیں خوشنما ہمیں سے ہوئی

ہم سے پہلے زمینِ شہرِ وفا

خاک تھی کیمیا ہمیں سے ہوئی

کتنی مردم شناس ہے دنیا

منحرف بے حیا ہمیں سے ہوئی

کون اٹھاتا شبِ فراق کے ناز

یہ بلا آشنا ہمیں سے ہوئی

بے غرض کون گنواتا ہے

تیری قیمت ادا ہمیں سے ہوئی

ستمِ ناروا تجھی سے ہوا

تیرے حق میں دعا ہمیں سی ہوئی

سعئِ تجدید دوستی ناصرؔ

آج کیا بارہا ہمیں سے ہوئی






بدلی نہ اس کی روح کسی انقلاب میں

بدلی نہ اس کی روح کسی انقلاب میں

کیا چیز زندہ بند ہے دل کے رباب میں

لفظوں میں بولتا ہے رگِ عصر کا لہو

لکھتا ہے دستِ غیب کوئی اس کتاب میں

تو ڈھونڈتی ہے اب کسے اے شامِ زندگی

دو دن تو خرچ ہو گئے غم کے حساب میں

یارانِ زُود نشّہ کا عالم یہ ہے کہ آج

یہ رات ڈوب جائے گی جامِ شراب میں

نیندیں بھٹکتی پھرتی ہیں گلیوں میں ساری رات

یہ شہر چھپ کے رات کو سوتا ہے آب میں

یہ آج راہ بھول کے آئے کدھر سے آپ

یہ خواب میں نے رات ہی دیکھا تھا خواب میں






موسمِ گلزارِ ہستی ان دنوں کیا ہے نہ پوچھ

موسمِ گلزارِ ہستی ان دنوں کیا ہے نہ پوچھ

تو نے جو دیکھا سنا کیا میں نے دیکھا ہے نہ پوچھ

ہاتھ زخمی ہیں تو پلکوں سے گلِ منظر اٹھا

پھول تیرے ہیں نہ میرے باغ کس کا ہے نہ پوچھ

رات اندھیری ہے تو اپنے دھیان کی مشعل جلا

قافلے والوں میں کس کو کس کی پروا ہے نہ پوچھ

جوترا محرم ملا اس کو نہ تھی اپنی خبر

شہر میں تیرا پتہ کس کس سے پوچھا ہے نہ پوچھ






تم آگئے ہو تو کیوں انتظارِ شام کریں

تم آگئے ہو تو کیوں انتظارِ شام کریں

کہو تو کیوں نہ ابھی سے کچھ اہتمام کریں

خلوص و مہر وفا لوگ کر چکے ہیں بہت

مرے خیال میں اب اور کوئی کام کریں

یہ خاص و عام کی بیکار گفتگو کب تک

قبول کیجیے جو فیصلہ عوام کریں

ہر آدمی نہیں شائستۂ رموزِ سخن

وہ کم سخن ہو مخاطب تو ہم کلام کریں

جدا ہوئے ہیں بہت لوگ ایک تم بھی سہی

اب اتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں

خدا اگر کبھی کچھ اختیار دے ہم کو

تو پہلے خاک نشیوں کا انتظام کریں

رہِ طلب میں جو گمنام مر گئے ناصرؔ

متاعِ درد انہی ساتھیوں کے نام کریں






اس دنیا میں اپنا کیا ہے

اس دنیا میں اپنا کیا ہے

کہنے کو سب کچھ اپنا ہے

یوں تو شبنم بھی دریا ہے

یوں تو دریا بھی پیاسا ہے

یوں تو ہر ہیرا بھی کنکر

یوں تو مٹی بھی سونا ہے

منہ دیکھے کی باتیں ہیں سب

کس نے کس کو یاد کیا ہے

تیرے ساتھ گئی وہ رونق

اب اس شہر میں کیا رکھا ہے

بات نہ کر صورت تو دکھادے

تیرا اس میں کیا جاتا ہے

دھیان کے آتش دان میں ناصر

بجھے دِنوں کا ڈھیر پڑا ہے

تو ہے یا تیرا سایا ہے

بھیس خدائی نے بدلا ہے

دل کی حویلی پر مدت سے

خاموشی کا قفل پڑا ہے

چیخ رہے ہیں خالی کمرے

شام سے کتنی تیز ہوا ہے

دروازے سر پھوڑ رہے ہیں

کون اس گھر کو چھوڑ گیا ہے

تنہائی کو کیسے چھوڑوں

برسوں میں ایک یار ملا ہے

رات اندھیری ناو ساتھی

رستے میں دریا پڑتا ہے

ہچکی تھمتی ہی نہیں ناصر

آج کسی نے یاد کیا ہے






دل کے لیے درد بھی روز نیا چاہیئے

دل کے لیے درد بھی روز نیا چاہیئے

زندگی تو ہی بتا کیسے جیا چاہیئے

میری نوائیں الگ، میری دعائیں الگ

میرے لیے آشیاں سب سے جدا چاہیے

نرم ہے برگِ سمن، گرم ہے میرا سخن

میری غزل کے لیے ظرف نیا چاہیے

سر نہ کھپا اے جرس، مجھ کو مرا دل ہے بس

فرصتِ یک دو نفس مثلِ صبا چاہیے

باغ ترا باغباں، تو ہے عبث بدگماں

مجھ کو تو اے مہرباں ، تھوڑی سی جا چاہیئے

خوب ہیں گل پھول بھی تیرے چمن میں مگر

صحن ِ چمن میں کوئی نغمہ سرا چاہیے

ہے یہی عینِ وفا دل نہ کسی کا دکھا

اپنے بھلے کے لیے سب کا بھلا چاہیئے

بیٹھے ہو کیوں ہار کے سائے میں دیوار کے

شاعرو، صورت گرو کچھ تو کیا چاہیے

مانو مری کاظمی تم ہو بھلے آدمی

پھر وہی آوارگی کچھ تو حیا چاہیے






شعلہ سا پیچ وتاب میں دیکھا

شعلہ سا پیچ وتاب میں دیکھا

جانے کیا اضطراب میں دیکھا

گل کدوں کے طلسم بھول گئے

وہ تماشا نقاب میں دیکھا

آج ہم نے تمام حسنِ بہار

ایک برگِ گلاب میں دیکھا

سر کھلے، پابرہنہ، کھوٹے پر

رات اُسے ماہتاب میں دیکھا

فرصتِ موسمِ نشاط نہ پوچھ

جیسے اک خواب، خواب میں دیکھا






جو گفتنی نہیں وہ بات بھی سنادوں گا

جو گفتنی نہیں وہ بات بھی سنادوں گا

تو ایک بار تو مل، سب گلے مٹادوں گا

مجال کیا، کوئی مجھ سے تجھے جدا کر دے

جہاں بھی جائے گا تو میں تجھے صدا دوں گا

تری گلی میں بہت دیر سے کھڑا ہوں مگر

کسی نے پوچھ لیا تو جواب کیا دوں گا

مری خموش نگاہوں کو چشم کم سے نہ دیکھ

میں رو پڑا تو دلوں کے طبق ہلا دوں گا

یونہی اداس رہا میں تو دیکھنا اک دن

تمام شہر میں تنہائیاں بچھا دوں گا

بہ پاس صحبتِ دیرینہ کوئی بات ہی کر

نظر ملا تو سہی میں تجھے دعا دوں گا

بلاؤں گا نہ ملوں گا نہ خط لکھوں گا تجھے

تری خوشی کے لیے خود کو یہ سزا دوں گا

وہ درد ہی نہ رہا ورنہ اے متاعِ حیات

مجھے گماں بھی نہ تھا میں تجھے بھلا دوں گا

ابھی تو رات ہے کچھ دیر سو ہی لے ناصر

کوئی بلائے گا تو میں تجھے جگا دوں گا






درد کانٹا ہے اس کی چبھن پھول ہے

درد کانٹا ہے اس کی چبھن پھول ہے

درد کی خامشی کا سخن پھول ہے

اڑتا پھرتا ہے پھلواریوں سے جدا

برگِ آوارہ جیسے پون پھو ل ہے

اس کی خوشبو دکھاتی ہے کیا کیا سمے

دشتِ غربت میں یادِ وطن پھو ل ہے

تختۂ ریگ پر کوئی دیکھے اسے

سانپ کے زہر میں رس ہے، پھن پھول ہے

میری لے سے مہکتے ہیں کوہ و دمن

میرے گیتوں کا دیوانہ پن پھول ہے






تجھے کہنا ہے کچھ مگر خاموش

تجھے کہنا ہے کچھ مگر خاموش

دیکھ اور دیکھ کے گزر خاموش

یوں ترے راستے میں‌ بیٹھا ہوں

جیسے اک شمعِ رہگزر خاموش

تو جہاں ایک بار آیا تھا

ایک مدت سے ہے وہ گھر خاموش

اس گلی کے گزرنے والوں کو

تکتے رہتے ہیں بام و در خاموش

اٹھ گئے کیسے کیسے پیارے لوگ

ہو گئے کیسے کیسے گھر خاموش

یہ زمیں کس کے انتظار میں ہے

کیا خبر کیوں ہے یہ نگر خاموش

شہر سوتا ہے رات جاگتی ہے

کوئی طوفاں ہے پردہ در خاموش

اب کے بیڑا گزر گیا تو کیا

ہیں ابھی کتنے ہی بھنور خاموش

چڑھتے دریا کا ڈر نہیں یارو

میں ہوں ساحل کو دیکھ کر خاموش

ابھی وہ قافلے نہیں آئے

ابھی بیٹھیں نہ ہم سفر خاموش

ہر نفس اک پیام تھا ناصر

ہم ہی بیٹھے رہے مگر خاموش






چھپ جاتی ہیں آئینہ دکھا کر تری یادیں

چھپ جاتی ہیں آئینہ دکھا کر تری یادیں

سونے نہیں دیتیں مجھے شب بھر تیری یادیں

تو جیسے مرے پاس ہے اور محوِ سخن ہے

محفل سی جما دیتی ہیں اکثر تیری یادیں

میں کیوں نہ پھروں تپتی دوپہروں میں ہراساں

پھرتی ہیں تصوّر میں کھُلے سر تری یادیں

جب تیز ہوا چلتی ہے بستی میں سرِ شام

برساتی ہیں اطراف سے پتھر تیری یادیں






رات ڈھل رہی ہے

رات ڈھل رہی ہے

ناؤ چل رہی ہے

برف کے نگر میں

آگ جل رہی ہے

لوگ سو رہے ہیں

رت بدل رہی ہے

آج تو یہ دھرتی

خوں اگل رہی ہے

خواہشوں کی ڈالی

ہاتھ مل رہی ہے

جاہلوں کی کھیتی

پھول پھل رہی ہے






میں ہوں رات کا ایک بجا ہے

میں ہوں رات کا ایک بجا ہے

خالی رستہ بول رہا ہے

آج تو یوں خاموش ہے دنیا

جیسے کچھ ہونے والا ہے

کیسی اندھیری رات ہے دیکھو

اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے

آج تو شہر کی روش روش پر

پتوں کا میلہ سا لگا ہے

آو گھاس پہ سبھا جمائیں

میخانہ تو بند پڑا ہے

پھول تو سارے جھڑ گئے لیکن

تیری یاد کا زخم ہرا ہے

تو نے جتنا پیار کیاتھا

دکھ بھی مجھے اتنا ہی دیا ہے

یہ بھی ہے ایک طرح کی محبت

میں تجھ سے تو مجھ سے جدا ہے

یہ تری منزل وہ مرا رستہ

تیرا میرا ساتھ ہی کیا ہے

میں نے تو اک بات کہی تھی

کیا تو سچ مچ روٹھ گیا ہے

ایسا گاہک کون ہے جس نے

سکھ دے کر دکھ مول لیا ہے

تیرا رستہ تکتے تکتے

کھیت گگن کا سوکھ چلا ہے

کھڑکی کھول کے دیکھ تو باہر

دیر سے کوئی شخص کھڑا ہے

ساری بستی سو گئی ناصر

تو اب تک کیوں جاگ رہا ہے






گا رہا تھا کوئی درختوں میں

گا رہا تھا کوئی درختوں میں

رات نیند آگئی درختوں میں

چاند نکلا افق کے غاروں سے

آگ سی لگ گئی درختوں میں

مینہہ برسا تو برگ ریزوں نے

چھیڑ دی بانسری درختوں میں

یہ ہوا تھی کہ دھیان کا جھونکا

کس نے آواز دی درختوں میں

ہم ادھر گھر میں ہو گئے بے چین

دور آندھی چلی درختوں میں

لیے جاتے ہے موسموں کی پکار

اجنبی اجبنی درختوں میں

کتنی آبادیاں ہیں شہر سے دور

جاکے دیکھو کبھی درختوں میں

نیلے پیلے سفید لال ہرے

رنگ دیکھے سبھی درختوں میں

خوشبوؤں کی اداس شہزادی

رات مجھ کو ملی درختوں میں

دیر تک اُس کی تیز آنکھوں میں

روشنی سی رہی درختوں میں

چلتے چلتے ڈگر اجالوں کی

جانے کیوں مڑ گئی درختوں میں

سہمے سہمے تھے رات اہل چمن

تھا کوئی آدمی درختوں میں






کہیں اجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے سے بام و در

کہیں اجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے سے بام و در

یہ وہی دیار ہے دوستو جہاں لوگ پھرتے تھے رات بھر

میں بھٹکتا پھرتا ہوں دیر سے یونہی شہر شہر نگر نگر

کہاں کھو گیا مرا قافلہ کہاں رہ گئے مرے ہم سفر

جنہیں زندگی کا شعور تھا انہیں بے زری نے بچھا دیا

جو گراں تھے سینۂ چاک پر وہی بن کے بیٹھے ہیں معتبر

مری بیکسی کا نہ غم کرو مگر اپنا فائدہ سوچ لو

تمہیں جس کی چھاؤں عزیز ہے میں اُسی درخت کا ہوں ثمر

یہ بجا ہے آج اندھیرا ہے ذرا رت بدلنے کی دیر ہے

جو خزاں کے خوف سے خشک ہے وہی شاخ لائے گی برگ وبر






کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے

کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے

رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے

جہاں تنہائیاں سر پھوڑ کے سوجاتی ہیں

ان مکانوں میں عجب لوگ رہا کرتے تھے

کردیا آج زمانے نے انہیں بھی مجبور

کبھی یہ لوگ مرے دکھ کی دوا کرتے تھے

دیکھ کر جو ہمیں چپ چاپ گزر جاتا ہے

کبھی اُس شخص کو ہم پیار کیا کرتے تھے

اتفاقاتِ زمانہ بھی عجب ہیں ناصر

آج وہ دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتے تھے






دل میں اور تو کیا رکھا ہے

دل میں اور تو کیا رکھا ہے

تیرا درد چھپا رکھا ہے

اتنے دکھوں کی تیز ہوا میں

دل کا دیپ جلا رکھا ہے

دھوپ سے چہروں نے دنیا میں

کیا اندھیر مچا رکھا ہے

اس نگری کے کچھ لوگوں نے

دکھ کا نام دوا رکھا ہے

وعدۂ یار کی بات نہ چھیڑو

یہ دھوکا بھی کھا رکھا ہے

بھول بھی جاؤ بیتی باتیں

ان باتوں میں کیا رکھا ہے

چپ چپ کیوں رہتے ہو ناصر

یہ کیا روگ لگا رکھا ہے






چہرہ افروز ہوئی پہلی جھڑی ہم نفسو شکر کرو

چہرہ افروز ہوئی پہلی جھڑی ہم نفسو شکر کرو

دل کی افسردگی کچھ کم تو ہوئی ہم نفسو شکر کرو

آو پھر یادِ عزیزاں ہی سے میخانۂ جاں گرم کریں

دیر کے بعد یہ محفل تو جمی ہم نفسو شکر کرو

آج پھر دیر کی سوئی ہوئی ندی میں نئی لہر آئی

دیر کے بعد کوئی ناؤ چلی ہم نفسو شکر کرو

رات بھر شہر میں بجلی سی چمکتی رہی ہم سوئے رہے

وہ تو کہیے کہ بلا سر سے ٹلی ہم نفسو شکر کرو

درد کی شاخِ تہی کاسہ میں اشکوں کے نئے پھول کھلے

دل جلی شام نے پھر مانگ بھری ہم نفسو شکر کرو

آسماں لالۂ خونیں کی نواؤں سے جگر چاک ہوا

قصرِ بیدار کی دیوار گری ہم نفسو شکر کرو






حسن کہتا ہے اک نظر دیکھو

حسن کہتا ہے اک نظر دیکھو

دیکھو اور آنکھ کھول کر دیکھو

سن کے طاؤس رنگ کی جھنکار

ابر اٹھا ہے جھوم کر دیکھو

پھول کو پھول کا نشاں جانو

چاند کو چاند سے ادھر دیکھو

جلوۂ رنگ بھی ہے اک آواز

شاخ سے پھول توڑ کردیکھو

جی جلاتی ہے اوس غربت میں

پاؤں جلتے ہیں گھاس پر دیکھو

جھوٹی امید کا فریب نہ کھاؤ

رات کالی ہے کس قدر دیکھو

نیند آتی نہیں تو صبح تلک

گردِ مہتا ب کا سفر دیکھو

اک کرن جھانک کر یہ کہتی ہے

سونے والو ذرا ادھر دیکھو

خمِ ہر لفظ ہے گلِ معنی

اہل تحریر کا ہنر دیکھو






ایسا بھی کوئی سپنا جاگے

ایسا بھی کوئی سپنا جاگے

ساتھ مرے اک دنیا جاگے

وہ جاگے جِسے نیند نہ آئے

یا کوئی میرے جیسا جاگے

ہوا چلی تو جاگے جنگل

ناؤ چلے تو ندیا جاگے

راتوں میں یہ رات امر ہے

کل جاگے تو پھر کیا جاگے

داتا کی نگری میں ناصر

میں جاگوں یا داتا جاگے






ہنستے گاتے روتے پھول

ہنستے گاتے روتے پھول

جی میں ہیں کیسے کیسے پھول

اور بہت کیا کرنے ہیں

کافی ہیں یہ تھوڑے پھول

وقت کی پھلواری میں نہیں

دامن میں ہیں ایسے پھول

اس دھرتی کی رونق ہیں

میرے کانٹے تیرے پھول

کسیے اندھے ہیں وہ ہاتھ

جن ہاتھوں نے توڑے پھول

اُن پیاسوں پر میرا سلام

جن کی خاک سے نکلے پھول

ایک ہری کونپل کے لیے

میں نےچھوڑے کتنے پھول

اونچے اونچے لمبے پیڑ

سادے پتے پیلے پھول

مٹی ہی سے نکلے تھے

مٹی ہو گئے سارے پھول

مٹی کی خوشبو لینے

نیل گگن سے اترے پھول

چادر اوڑھ کے شبنم کی

نکلے آنکھوں ملتے پھول

شام ہوئی اب گلیوں میں

دیکھو چلتے پھرتے پھول

سونا جسم سفید قمیص

گورے ہاتھ سنہرے پھول

کچی عمریں کچے رنگ

ہنس مکھ بھولے بھالے پھول

آنکھ آنکھ میں بھیگی نیند

ہونٹ ہونٹ سے جھڑتے پھول

گورے گورے ننگے پیر

جھلمل جھلمل کرتے پھول

جیسا بدن ویسا ہی لباس

جیسی مٹی ویسے پھول

مہک اٹھی پھر دل کی کتاب

یاد آئے یہ کب کے پھول

شام کے تارے تو ہی بتا

آج کدھر سے گزرے پھول

کانٹے چھوڑ گئی آندھی

لے گئی اچھے اچھے پھول

دھیان میں پھرتے ہیں ناصر

اچھی آنکھوں والے پھول






درد کم ہونے لگا آؤ کہ کچھ رات کٹے

درد کم ہونے لگا آؤ کہ کچھ رات کٹے

غم کی معیاد بڑھا جاؤ کہ کچھ رات کٹے

ہجر میں آہ و بکا رسمِ کہن ہے لیکن

آج یہ رسم ہی دہراؤ کہ کچھ رات کٹے

یوں توتم روشنئ قلب و نظر ہو لیکن

آج وہ معجزہ دکھلاؤ کہ کچھ رات کٹے

دل دکھاتا ہے وہ مل کر بھی مگر آج کی رات

اُسی بے درد کو لے آؤ کہ کچھ رات کٹے

دم گھٹا جاتا ہے ہے افسردہ دلی سے یارو

کوئی افواہ ہی پھیلاؤ کہ کچھ رات کٹے

میں بھی بیکار ہوں اور تم بھی ہو ویران بہت

دوستو آج نہ گھر جاؤ کہ کچھ رات کٹے

چھوڑ آئے ہو سرشام اُسے کیوں ناصر

اُسے پھر گھر سے بلا لاؤ کہ کچھ رات کٹے






نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے

نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے

وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے

جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی

ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے

وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا

اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے

اب شہر میں اُس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جانِ غزل ہی نہیں

ایوانِ غزل میں لفظوں کے گلدان سجاؤں کس کے لیے

مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا

ان خالی کمروں میں ناصر اب شمع جلاؤں کس کے لیے






جرمِ انکار کی سزا ہی دے

جرمِ انکار کی سزا ہی دے

میرے حق میں بھی کچھ سنا ہی دے

شوق میں ہم نہیں زیادہ طلب

جر ترا نازِ کم نگاہی دے

تو نے تاروں سے شب کی مانگ بھری

مجھ کو اک اشکِ صبح گاہی دے

تو نے بنجر زمیں کو پھول دیے

مجھ کو اک زخمِ دل کشا ہی دے

بستیوں کو دیے ہیں تو نے چراغ

دشتِ دل کو بھی کوئی راہی دے

عمر بھر کی نواگری کا صلہ

اے خدا کوئی ہم نوا ہی دے

زرد رو ہیں ورق خیالوں کے

اے شبِ ہجر کچھ سیاہی دے

گر مجالِ سخن نہیں‌ ناصر

لبِ خاموش سے گواہی دے






قصے ہیں خموشی میں نہاں اور طرح کے

قصے ہیں خموشی میں نہاں اور طرح کے

ہوتے ہیں غمِ دل کے بیاں اور طرح کے

تھی اور ہی کچھ بات کہ تھا غم بھی گوارا

حالات ہیں اب درپۓ جاں اور طرح کے

اے راہروِ راہِ وفا دیکھ کے چلنا

اس راہ میں ہیں سنگِ گراں اور طرح کے

کھٹکا ہے جدائی کا نہ ملنے کی تمنا

دل کو ہیں مرے وہم و گماں اور طرح کے

پر سال تو کلیاں ہی جھڑی تھیں مگر اب کے

گلشن میں ہیں آثارِ خزاں اور طرح کے

دنیا کو نہیں تاب مرے درد کی یارب

دے مجھ کو اسالیبِ فغاں اور طرح کے

ہستی کا بھرم کھول دیا ایک نظر نے

اب اپنی نظر میں ہیں جہاں اور طرح کے

لشکر ہے نہ پرچم ہے نہ دولت ہے نہ ثروت

ہیں خاک نشینوں کے نشاں اور طرح کے

مرتا نہیں اب کوئی کسی کے لیے ناصر

تھے اپنے زمانے کے جواں اور طرح کے






صبح کا تارا ابھر کر رہ گیا

صبح کا تارا ابھر کر رہ گیا

رات کا جادو بکھر کر رہ گیا

ہم سفر سب منزلوں سے جاملے

میں نئی راہوں میں مر کر رہ گیا

کیا کہوں اب تجھ سے اے جوئے کم آب

میں بھی دریا تھا اتر کر رہ گیا

اب اُن سے اور تقاضائے بادہ کیا کرتا

جو مل گیا ہے میں اُس سے زیادہ کیا کرتا

بھلا ہوا کہ ترے راستے کی خاک ہوا

میں یہ طویل سفر پا پیادہ کیا کرتا

مسافروں کی تو خیر اپنی اپنی منزل تھی

تری گلی کو نہ جاتا تو جادہ کیا کرتا

تجھے تو گھیرے ہی رہتے ہیں رنگ رنگ کے لوگ

ترے حضور مرا حرفِ سادہ کیا کرتا

بس ایک چہرہ کتابی نظر میں ہے ناصر

کسی کتاب سے میں استفادہ کیا کرتا

دیارِ دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا

ملا نہیں توکیا ہوا وہ شکل تو دکھا گیا

وہ دوستی تو خیر اب نصیبِ دشمناں ہوئی

وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا

جدائیوں کے زخم دردِ زندگی نے بھر دیے

تجھے بھی نیند آگئی مجھے بھی صبر آگیا

پکارتی ہیں فرصتیں کہاں گئیں وہ صحبتیں

زمیں نگل گئی انہیں کہ آسماں کھا گیا

یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں

اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا

یہ کس خوشی کی ریت پر غموں کو نیند آگئی

وہ لہر کس طرف گئی یہ میں کہاں سما گیا

گئے دنوں کی لاش پر پڑے رہو گے کب تلک

الم کشو اُٹھو کہ آفتاب سر پہ آگیا






کب تک بیٹھے ہاتھ ملیں

کب تک بیٹھے ہاتھ ملیں

چل ساتھی کہیں‌اور چلیں

اب کس گھاٹ پہ باندھیں ناؤ

اب یہ طوفاں کسیے ٹلیں

اب یہ مانگیں کون بھرے

اب یہ پودے کیسے پھلیں

جگ جگ جئیں مرے ساتھی

جلنے والے اور جلیں

تجھ کو چین ملے ناصر

تیرے دکھ گیتوں میں ڈھلیں






ایک نگر میں ایسا دیکھا دن بھی جہاں اندھیر

ایک نگر میں ایسا دیکھا دن بھی جہاں اندھیر

پچھلے پہر یوں چلے اندھیری جیسے گرجیں شیر

ہوا چلی تو پنکھ پنکھیرو بستی چھوڑ گئے

سونی رہ گئی کنگنی، خالی ہوئےمنڈیر

بچپن میں بھی وہی کھلاڑی بناہے اپنا میت

جس نے اونچی ڈال سے توڑے زرد سنہری بیر

یارو تم تو ایک ڈگر پر ہار کے بیٹھ گئے

ہم نے تپتی دھوپ میں کاٹے کڑے کوس کے پھیر

اب تواس دیس میں یوں آیا سیلاب

کب کی کھڑی حویلیاں پل میں ہوگئیں ڈھیر






کل جنہیں زندگی تھی راس بہت

کل جنہیں زندگی تھی راس بہت

آج دیکھا انہیں‌اداس بہت

رفتگاں کا نشاں نہیں ملتا

اُگ رہی ہے زمیں پہ گھاس بہت

کیوں نہ روؤں تری جدائی میں

دن گزرتے ہیں تیرے پاس بہت

چھاؤں مل جائے دامنِ گل کی

ہے غریبی میں یہ لباس بہت

وادیِ دل میں پاؤں دیکھ کے رکھ

ہے یہاں درد کی اُگاس بہت

سوکھے پتوں کو دیکھ کر ناصر

یاد آتی ہے گل کی باس بہت






یہ خوابِ سبز ہے یا رت وہی پلٹ آئی

یہ خوابِ سبز ہے یا رت وہی پلٹ آئی

چھتوں پہ گھاس ہوا میں نمی پلٹ آئی

کچھ اس ادا سے دُکھایا ہے تیری یاد نے دل

وہ لہر سی جو رگ و پے میں ‌تھی پلٹ آئی

تری ہنسی کے گلابوں کو کوئی چھو نہ سکا

صبا بھی چند قدم ہی گئی، پلٹ آئی

خبر نہیں وہ مرے ہمسفر کہاں پہنچے

کہ رہگزر تو مرے ساتھ ہی پلٹ آئی

کہاں سے لاؤ گے ناصر وہ چاند سی صورت

گر اتفاق سے وہ رات بھی پلٹ آئی






دل میں آؤ عجیب گھر ہے یہ

دل میں آؤ عجیب گھر ہے یہ

عمرِ رفتہ کی رہگزر ہے یہ

سنگِ منزل سے کیوں نہ سر پھوڑیں

حاصلِ زحمتِ سفر ہے یہ

رنجِ غربت کے ناز اُٹھاتا ہوں

میں ہوں اب اور دردِ سر ہے یہ

ابھی رستوں کی دھوپ چھاوں نہ دیکھ

ہمسفر دور کا سفر ہے یہ

دن نکلنے میں کوئی دیر نہیں

ہم نہ سو جائیں اب تو ڈر ہے یہ

کچھ نئے لوگ آنے والے ہیں

گرم اب شہر میں خبر ہے یہ

اب کوئی کام بھی کریں ناصر

رونا دھونا تو عمر بھر ہے یہ






تو ہے دلوں کی روشنی تو ہے سحر کا بانکپن

تو ہے دلوں کی روشنی تو ہے سحر کا بانکپن

تیری گلی گلی کی خیر اے مرے دل رُبا وطن

وہ تو بس ایک موج تھی آئی ادھر اُدھر گئی

آنکھوں میں ہے مگر ابھی رات کے خواب کی تھکن

پھر وہی دشتِ بے اماں پھر وہی رنجِ‌ رائیگاں

دل کو جگا کے سو گئی تیرے خیال کی کرن

آیا گیا نہ میں کہیں‌ صبح سے شام ہو گئی

جلنے لگے ہیں‌ ہاتھ کیوں ٹوٹ رہا ہے کیوں ‌بدن

کس سے کہوں کوئی نہیں سو گئے شہر کے مکیں

کب سے پڑی ہے راہ میں میّتِ شہرِ بے کفن

میکدہ بجھ گیا تو کیا رات ہے میری ہمنوا

سایہ ہے میرا ہم سبو چاند ہے میرا ہم سخن

دل ہے مرا لہو لہو تاب نہ لاسکے گا تو

اے مرے تازہ ہمنشیں تو مرا ہم سبو نہ بن






یہ رنگِ خوں ہے گلوں پر نکھار اگر ہے بھی

یہ رنگِ خوں ہے گلوں پر نکھار اگر ہے بھی

حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے بھی

یہ پیش خیمۂ بیدادِ تازہ ہو نہ کہیں

بدل رہی ہے ہوا سازگار اگر ہے بھی

لہو کی شمیں جلاؤ قدم بڑھاتے چلو

سروں پہ سایۂ شب ہائے تار اگر ہے ابھی

ابھی تو گرم ہے میخانہ جام کھنکاؤ

بلا سے سر پہ کسی کا ادھار اگر ہے بھی

حیاتِ درد کو آلودۂ نشاط نہ کر

یہ کاروبار کوئی کاروبار اگر ہے بھی

یہ امتیاز من و تو خدا کے بندوں سے

وہ آدمی نہیں طاعت گزار اگر ہے بھی

نہ پوچھ کیسی گزرتی ہے زندگی ناصر

بس ایک جبر ہے یہ اختیار اگر ہے بھی






پھر لہو بول رہا ہے دل میں

پھر لہو بول رہا ہے دل میں

دم بدم کوئی صدا ہے دل میں

تاب لائیں گے نہ سننے والے

آج وہ نغمہ چھڑا ہے دل میں

ہاتھ مَلتے ہی رہیں گے گل چیں

آج وہ پھول کھلا ہے دل میں

دشت بھی دیکھے چمن بھی دیکھا

کچھ عجب آب و ہوا ہے دل میں

رنج بھی دیکھے خوشی بھی دیکھی

آج کچھ درد نیا ہے دل میں

چشم تر ہی نہیں محوِ تسبیح

خوں بھی سرگرمِ دعا ہے دل میں

پھر کسی یاد نے کروٹ بدلی

کوئی کانٹا سا چبھا ہے دل میں

پھر کسی غم نے پکارا شاید

کچھ اجالا سا ہوا ہے دل میں

کہیں چہرے کہیں‌ آنکھیں کہیں ہونٹ

اک صنم خانہ کھلا ہے دل میں

اُسے ڈھونڈا وہ کہیں بھی نہ ملا

وہ کہیں بھی نہیں یا ہے دل میں

کیوں بھٹکتے پھریں دل سے باہر

دوستو شہر بسا ہے دل میں

کوئی دیکھے تو دکھاؤں ناصر

وسعتِ‌ ارض و سما ہے دل میں






جبیں پہ دھوپ سی آنکھوں میں کچھ حیا سی ہے

جبیں پہ دھوپ سی آنکھوں میں کچھ حیا سی ہے

تو اجنبی ہے مگر شکل آشنا سی ہے

خیال ہی نہیں‌ آتا کسی مصیبت کا

ترے خیال میں ہربات غم ربا سی ہے

جہاں میں یوں تو کسے چین ہے مگر پیارے

یہ تیرے پھول سے چہرے پہ کیوں‌ اداسی ہے

دلِ غمیں سے بھی جلتے ہیں‌شادمانِ حیات

اسی چراغ سے اب شہر میں‌ہوا سی ہے

ہمیں‌سے آنکھ چُراتا ہے اس کا ہر ذرہ

مگر یہ خاک ہمارے ہی خوں کی پیاسی ہے

ادس پھرتا ہوں میں جس کی دھن میں برسوں سے

یونہی سی ہے وہ خوشی بات وہ ذرا سی ہے

چہکتے بولتے شہروں کو کیا ہوا ناصر

کہ دن کو بھی مرے گھر میں وہی اداسی ہے






سو گئی شہر کی ہر ایک گلی

سو گئی شہر کی ہر ایک گلی

اب تو آجا کہ رات بھیگ چلی

کوئی جھونکا چلا تو دل دھڑکا

دل دھڑکتے ہی تیری یاد آئی

کون ہے تو کہاں سے آیا ہے

کہیں‌ دیکھا ہے تجھ کو پہلے بھی

تو بتا کیا تجھے ثواب ملا

خیر میں نے تو رات کاٹ ہی لی

مجھ سے کیا پوچھتا ہے میرا حال

سامنے ہے ترے کتاب کھلی

میرے دل سے نہ جا خدا کے لیے

ایسی بستی نہ پھر بسے کبھی

میں اسی غم میں گھلتا جاتا ہوں

کیا مجھے چھوڑ جاۓ گا تو بھی

ایسی جلدی بھی کیا ، چلے جانا

مجھے اک بات پوچھنی ہے ابھی

آبھی جامیرے دل کے صدر نشیں

کب سے خالی پڑی ہے یہ کرسی

میں تو ہلکان ہو گیا ناصر

مدتِ ہجر کتنی پھیل گئی






شعاعِ حسن ترے حسن کو چھپاتی تھی

شعاعِ حسن ترے حسن کو چھپاتی تھی

وہ روشنی تھی کہ صورت نظر نہ آتی تھی

کسے ملیں کہاں جائیں کہ رات کالی ہے

وہ شکل ہی نہ رہی جو دیے جلاتی تھی

وہ تو دن تھے حقیقت میں عمر کا حاصل

خوشا وہ دن کہ ہمیں روز موت آتی تھی

ذرا سی بات سہی تیرا یاد آجانا

ذرا سی بات بہت دیر تک رلاتی تھی

اداس بیٹھے ہو کیوں ہاتھ توڑ کر ناصر

وہ نَے کہاں ہے جو تاروں کی نیند اڑاتی تھی






برف گرتی رہے آگ جلتی رہے

برف گرتی رہے آگ جلتی رہے

آگ جلتی رہے رات ڈھلتی رہے

رات بھر ہم یونہی رقص کرتے رہیں

نیند تنہا کھڑی ہاتھ ملتی رہے

برف کے ہاتھ پیانو بجاتے رہیں

جام چلتے رہیں مے اچھلتی رہے






کُنج کُنج نغمہ زن بسنت آگئی

کُنج کُنج نغمہ زن بسنت آگئی

یاب سجے گی انجمن بسنت آگئی

اُڑ رہے ہیں شہر میں پتنگ رنگ رنگ

جگمگا اٹھا گگن بسنت آگئی

موہنے لبھانے والے پیارے پیارے لوگ

دیکھنا چمن چمن بسنت آگئی

سبز کھیتیوں پہ پھر نکھار آگیا

لے کے زرد پیرہن بسنت آگئی

بچھلے سال کے ملال دل سے مٹ گئے

لے کے پھر نئی چبھن بسنت آگئی






کہاں گئے وہ سخنور جو میرِ محفل تھے

کہاں گئے وہ سخنور جو میرِ محفل تھے

ہمارا کیا ہے بھلا ہم کہاں کے کامل تھے

بھلا ہوا کہ ہمیں یوں بھی کوئی کام نہ تھا

جو ہاتھ ٹوٹ گئے ٹوٹنے کے قابل تھے

حرام ہے جو صراحی کو منہ لگایا ہو

یہ اور بات کہ ہم بھی شریکِ محفل تھے

گزر گئے ہیں جو خوشبوئے رائگاں کی طرح

وہ چند روز مری زندگی کا حاصل تھے

پڑے ہیں سایۂ گل میں جو سرخرو ہو کر

وہ جاں نثار ہی اے شمع تیرے قاتل تھے

اب اُن سے دور کا بھی واسطہ نہیں ناصر

وہ ہم نوا جو مرے رتجگوں میں شامل تھے






شوق کیا کیا دکھائے جاتا ہے

شوق کیا کیا دکھائے جاتا ہے

دل تجھے بھی بھلائے جاتا ہے

اگلے وقتوں کی یادگاروں کو

آسماں کیوں مٹائے جاتا ہے

سوکھتے جارہے ہیں گل بوٹے

باغ کانٹے اگائے جاتا ہے

جاتے موسم کو کس طرح روکوں

پتّہ پتّہ اڑائے جاتا ہے

حال کس سے کہوں کہ ہر کوئی

اپنی اپنی سنائےجاتا ہے

کیا خبر کون سی خوشی کے لیے

دل یونہی دن گنوائے جاتا ہے

رنگ پیلا ہے تیرا کیوں ناصر

تجھے کیا رنج کھائے جاتا ہے






کیا لگے آنکھ پھر دل میں سمایا کوئی

کیا لگے آنکھ پھر دل میں سمایا کوئی

رات بھر پھرتا ہے اس شہر میں سایا کوئی

فکر یہ تھی کہ شبِ ہجر کٹے گی کیوں کر

لطف یہ ہے کہ ہمیں یاد نہ آیا کوئی

شوق یہ تھا کہ محبت میں جلیں گے چپ چاپ

رنج یہ ہے کہ تماشا نہ دکھایا کوئی

شہر میں ہمدمِ دیرینہ بہت تھے ناصر

وقت پڑنے پہ مرے کام نہ آیا کوئی






چند گھرانوں نے مل جل کر

چند گھرانوں نے مل جل کر

کتنے گھروں کا حق چھینا ہے

باہر کی مٹی کے بدلے

گھر کا سونا بیچ دیا ہے

سب کا بوجھ اٹھانے والے

تو اس دنیا میں تنہا ہے

میلی چادر اڑھنے والے

تیرے پاؤں تلے سونا ہے

گہری نیند میں جاگو ناصر

وہ دیکھو سورج نکلا ہے






بنے بنائے ہوئے راستوں پہ جانکلے

بنے بنائے ہوئے راستوں پہ جانکلے

یہ ہم سفر مرے کتنے گریز پا نکلے

چلے تھے اور کسی راستے کی دھن میں مگر

ہم اتفاق سے تیری گلی میں‌ آ نکلے

غمِ فراق میں‌کچھ دیر رو ہی لینے دو

بخار کچھ تو دلِ بے قرار کا نکلے

نصحیتیں ہمیں‌کرتے ہیں ترکِ الفت کے

یہ خیر خواہ ہمارے کدھر سے آنکلے

یہ خامشی تو رگ پے میں رچ گئی ناصر

وہ نالہ کر کہ دلِ سنگ سے صدا نکلے






شکوہ بہ طرزِ عام نہیں آپ سے مجھے

شکوہ بہ طرزِ عام نہیں آپ سے مجھے

ناکام ہوں کہ کام نہیں آپ سے مجھے

کہتا، سلوک آپ کے ایک ایک سے مگر

مطلوب انتقام نہیں آپ سے مجھے

اے منصفو حقائق و حالات سے الگ

کچھ بحث خاص و عام نہیں آپ سے مجھے

یہ شہرِ دل ہے شوق سے رہیئے یہاں مگر

امیدِ انتظام نہیں آپ سے مجھے

فرصت ہے اور شام بھی گہری ہے کس قدر

اس وقت کچھ کلام نہیں آپ سے مجھے






جنت ماہی گیروں کی

جنت ماہی گیروں کی

ٹھنڈی رات جزیروں کی

سبز سنہرے کھیتوں پر

پھواریں سرخ لکیروں کی

اس بستی سے آتی ہیں

آوازیں زنجیروں کی

کڑوے خواب غریبوں کے

میٹھی نیند امیروں کی

رات گئے تیری یادیں

جیسے بارش تیروں کی

مجھ سے باتیں کرتی ہیں

خاموشی تصویروں کی

ان ویرانوں میں ناصر

کان دبی ہے ہیروں کی






کوئی اور ہے نہیں تو نہیں مرے روبرو کوئی اور ہے

کوئی اور ہے نہیں تو نہیں مرے روبرو کوئی اور ہے

بڑی دیر میں تجھے دیکھ کر یہ لگا کہ تو کوئی اور ہے

یہ گناہگاروں کی سرزمیں ہے بہشت سے بھی سوا حسیں

مگر اس دیار کی خاک میں سببِ نمو کوئی اور ہے

جسے ڈھونڈتا ہوں گلی گلی وہ ہے میرے جیسا ہی آدمی

مگر آدمی کے لباس میں وہ فرشتہ خو کوئی اور ہے

کوئی اور شے ہے وہ بے خبر جو شراب سے بھی ہے تیز تر

مرا میکدہ کہیں اور ہے مرا ہم سبو کوئی اور ہے






غم ہے یا خوشی ہے تو

غم ہے یا خوشی ہے تو

میری زندگی ہے تو

آفتوں کے دور میں

چین کی گھڑی ہے تو

میری رات کا چراغ

میری نیند بھی ہے تو

میں خزاں کی شام ہوں

رُت بہار کی ہے تو

دوستوں کے درمیاں

وجہِ دوستی ہے تو

میری ساری عمر میں

ایک ہی کمی ہے تو

میں تو وہ نہیں رہا

ہاں مگر وہی ہے تو

ناصر اس دیار میں

کتنا اجنبی ہے تو

دیس سبز جھلیوں کا

یہ سفر ہے میلوں کا

راہ میں جزیروں کی

سلسلہ ہے ٹیلوں کا

کشتیوں کی لاشوں پر

جمگھٹا ہے چیلوں کا

رنگ اڑتا جاتا ہے

شہر کی فصیلوں کا

دیکھ کر چلو ناصر

دشت ہے یہ فیلوں کا






دھواں سا ہے جو یہ آکاش کے کنارے پر

دھواں سا ہے جو یہ آکاش کے کنارے پر

لگی ہے آگ کہیں رات سے کنارے پر

یہ کالے کوس کی پرہول رات ہے ساتھی

کہیں اماں نہ ملے گی تجھے کنارے پر

صدائیں آتی ہیں اُجڑے ہوئے جزیروں سے

کہ آج رات نہ کوئی رہے کنارے پر

یہاں تک آئے ہیں چھینٹے لہو کی بارش کے

وہ رن پڑا ہے کہیں دوسرے کنارے پر

یہ ڈھونڈتا ہے کسے چاند سبز جھیلوں میں

پکارتی ہے ہوا اب کسے کنارے پر

اس انقلاب کی شاید خبر نہ تھی اُن کو

جو ناؤباندھ کے سوتے رہے کنارے پر

ہیں گھات میں ابھی کچھ قافلے لٹیروں کے

ابھی جمائے رہو مورچے کنارے پر

بچھڑ گئے تھے جو طوفاں کی رات میں ناصر

سنا ہے اُن میں سے کچھ آملے کنارے پر






کچھ یادگارِ شہر ستمگر ہی لے چلیں

کچھ یادگارِ شہر ستمگر ہی لے چلیں

آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں

یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر

سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں

رنجِ سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو

تھوڑی سی خاکِ کوچۂ دلبر ہی چلیں

یہ کہہ کے چھیٹرتی ہے ہمیں دل گرفتگی

گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں

اس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تو کہاں

آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں






رقم کریں گے ترا نام انتسابوں میں

رقم کریں گے ترا نام انتسابوں میں

کہ انتخابِ سخن ہے یہ انتخابوں میں

مری بھری ہوئی آنکھوں کو چشمِ کم سے نہ دیکھ

کہ آسمان مقیّد ہیں ان حبابوں میں

ہر آن دل سے الجھتے ہیں دو جہان کے غم

گھرا ہے ایک کبوتر کئی عقابوں میں

ذرا سنو تو سہی کان دھر کے نالۂ دل

یہ داستاں نہ ملے گی تمہیں کتابوں میں

نئی بہار دکھاتے ہیں داغِ دل ہر روز

یہی تو وصف ہے اس باغ کے گلابوں میں

پون چلی تو گل و برگ دف بجانے لگے

اداس خوشبوئیں لو دے اٹھیں نقابوں میں

ہوا چلی تو کھلے بادبانِ طبع رسا

سفینے چلنے لگے یاد کے سرابوں میں

کچھ اس ادا سے اُڑا جا رہا ہے ابلقِ رنگ

صبا کے پاوں ٹھہرتے نہیں رکابوں میں

بدلتا وقت یہ کہتا ہے ہر گھڑی ناصر

کہ یادگار ہے یہ وقت انقلابوں میں






گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ

عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر

ستارۂ شام بن کے آیا برنگِ خوابِ سحر گیا وہ

خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم نظر اُسے ڈھونڈتی ہے ہردم

وہ بوئے گل تھا کہ نغمۂ جاں مرے تو دل میں اتر گیا وہ

نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا

یونہی ذرا کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ

کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا دورِ آسماں بھی

جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ

بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہلِ دل کے

یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ

شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بلا رہا ہوں

جو قافلہ میرا ہمسفر تھا مثالِ گردِ سفر گیا وہ

مرا تو خوں ہو گیا ہے پانی ستمگروں کی پلک نہ بھیگی

جو نالہ اٹھا تھا رات دِل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ

وہ میکدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اڑانے والا

یہ آج کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ

وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا

سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ

وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تو نے منزلوں کا

تری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ

وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر

تری گلی تک تو ہم نے دیکھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ






زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا

زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا

سخن کدہ مری طرز سخن کو ترسے گا

نئے پیالےسہی تیرے دور میں ساقی

یہ دور میری شرابِ کہن کو ترسے گا

مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی

وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا

انہی کے دم سے فروزاں ہیں ملتوں‌کے چراغ

زمانہ صحبتِ اربابِ فن کو ترسے گا

بدل سکو تو بدل دو یہ باغباں ‌ورنہ

یہ باغ سایۂ سرو سمن کو ترسے گا

ہوئے ظلم یہی ہے تو دیکھنا اک دن

زمین پانی کو، سورج کرن کو ترسے گا






وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے

وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے

وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے

وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں

جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے

میں اُن کی راہ دیکھتا ہوں رات بھر

وہ روشنی دکھانے والے کیا ہوئے

یہ کون لوگ ہیں مرے ادھر اُدھر

وہ دوستی نبھانے والے کیاہوئے

وہ دل میں کھبنے والی آنکھیں کیا ہوئیں

وہ ہونٹ مسکرانے والے کیا ہوئے

عمارتیں تو جل کے راکھ ہو گئیں

عمارتیں بنانے والے کیا ہوئے

اکیلے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی

ترا دیا جلانے والے کیا ہوئے

یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا

زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے






جہاں تیرے غم نے قدم رکھ دیا

جہاں تیرے غم نے قدم رکھ دیا

سرِ طاق دنیا کا غم رکھ دیا

دکھا کر ہمیں دو جہانوں کے خواب

دلوں میں غمِ بیش و کم رکھ دیا

سحر دم فلک نے مرے سامنے

بجاۓ سبو، خوانِ غم رکھ دیا

برستے ہیں اطراف سے ہم پہ تیر

یہ کس راستے میں قدم رکھ دیا

ذرا دیکھ تو اے قسیمِ ازل

یہ کس ہاتھ پر جامِ جم رکھ دیا






میں نے جب لکھنا سیکھا تھا

میں نے جب لکھنا سیکھا تھا

پہلے تیرا نام لکھا تھا

تو نے کیوں مترا ہاتھ نہ پکڑا

میں جب رستے سے بھٹکا تھا

پہلی بارش بھیجنے والے

میں ترے درشن کا پیاسا تھا

تیرے گھر کے دروازے پر

سورج ننگے پاؤں کھڑا تھا






دھوپ تھی اور بادل چھایا تھا

دھوپ تھی اور بادل چھایا تھا

دیر کے بعد تجھے دیکھا تھا

میں اس جانب تو اس جانب

بیچ میں پتھر کا دریا تھا

ایک پیڑ کے ہات تھے خالی

اک ٹہنی پر دیا جلا تھا

مجھ پر آگ حرام تھی لیکن

آگ نے اپنا کام کیا تھا






پل پل کانٹا سا چبھتا تھا

پل پل کانٹا سا چبھتا تھا

یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا

کانٹوں کے ویراں جنگل میں

میں کس مشکل سے پہنچا تھا

یہ جنگل اور تیری خوشبو

کیا میں سپنا دیکھ رہا تھا؟

آج وہ آنکھیں بجھی بجھی تھیں

میں جنھیں پہروں ہی تکتا تھا

کتنی باتیں کی تھیں لیکن

ایک بات سے جی ڈرتا تھا

تیرے ہاتھ کی چاۓ تو پی تھی

دل کا رنج تو دل میں رہا تھا

میں بھی مسافر، تجھ کو بھی جلدی

گاڑی کا بھی وقت ہوا تھا

تو نے بھی کوئ بات نہ پوچھی

میں بھی تجھے کچھ کہہ نہ سکا تھا

اک اجڑے سے اسٹیشن پر

تو نے مجھ کو چھوڑ دیا تھا

تیرے شہر کا اسٹیشن بھی

میرے دل کی طرح سونا تھا

کیسے کہوں روداد سفر کی

آگے موڑ جدائ کا تھا






دل میں اک ہوک سی اٹھی ہے ابھی

دل میں اک ہوک سی اٹھی ہے ابھی

کوئ تازہ ہوا چلی ہے ابھی

شور برپا ہے خانۂ دل میں

کوئ دیوار سی گری ہے ابھی

کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی

اور یہ سوچ بھی لگی ہے ابھی

بھری دنیا میں جی نہیں لگتا

جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

شہر کی بے چراغ گلیوں میں

زندگی تجھ کو ڈھونڈھتی ہے ابھی






گزارنی تھی ترے ہجر کی پہاڑ سی رات

گزارنی تھی ترے ہجر کی پہاڑ سی رات

میں تارِ ریشم و زر کا دوشالہ کیا کرتا

حکایتِ غمِ دنیا کو چاہۓ دفتر

ورق ورق مرے دل کا رسالہ کیا کرتا

دھوپ نگلی دن سہانے ہو گۓ

چاند کے سب رنگ پھیکے ہو گۓ

کیا تماشا ہے کہ بے ایامِ گل

پتّیوں کے ہاتھ پیلے ہو گۓ

آنچ کھا لکھا کر صداۓ رنگ کی

تتلیوں کے پر سنہرے ہو گۓ

اس قدر رویا ہوں تیری یاد میں

آئینے آنکھوں لکے دھندلے ہو گۓ






اے دردِ ہجر یار غزل کہہ رہا ہوں میں

اے دردِ ہجر یار غزل کہہ رہا ہوں میں

بے موسمِ بہار غزل کہہ رہا ہوں میں

میرے بیانِ غم کا تسلسل نہ ٹوٹ جائے

گیسو ذرا سنوار غزل کہہ رہا ہوں میں

راز و نیازِ عشق میں کیا دخل ہے ترا

ہٹ فکرِ روزگار غزل کہہ رہا ہوں میں

ساقی بیانِ شوق میں رنگینیاں بھی ہو

لا جامِ خوشگوار غزل کہہ رہا ہوں میں

تجھ سا سخن شناس کو ئی دوسرا نہیں

سن لے خیالِ یار غزل کہہ رہا ہوں میں






متفرقات

چمن میں پھر رسن و طوق و دار کے دن ہیں

کہاں پڑے ہو اسیرو، بہار کے دن ہیں

یہ شور روزنِ زنداں سے صاف سنتا ہوں

کوئ کہے نہ کہے، یہ بہار کے دن ہیں

اس کے آنے کی کچھ کہو یارو

نیند تو خیر آ ہی جاۓ گی

منہ لپیٹے پڑے رہو ناصر

ہجر کی رات ڈھل ہی جاۓ گی

فرصتِ موسمِ نشاط نہ پوچھ

جیسے اک خواب خواب میں دیکھا

یہ آج کون سے طوفاں میں ہے سفینۂ دل

کہ دور دور کنارے نظر نہیں آتے!!

ہجومِ یاس ہے اور منزلوں اندھیرا ہے

وہ رات ہے کہ ستارے نظر نہیں آتے

ہم نے تجھ کو لاکھ پکارا تو لیکن خاموش رہا

آخر ساری دنیا سے ہم تیرے بہانے روٹھ گۓ

بیٹھے بیٹھے گھبراۓ ہم

جانے کس کو یاد آۓ ہم

اسیرو کچھ نہ ہوگا شور و شر سے

لپٹ کر سو رہو زنجیرِ در سے

کیا کمی آ گئ وفاؤں میں

وہ اثر ہی نہیں دعاؤں میں

بھٹک رہا ہے جہاں قافلہ بگولوں کا

کبھی ہجوم تھا ان راستوں میں پھولوں کا

کیا بلا آسمان سے اتری

اس کی صورت بھی دھیان سے اتری

گھر میں اس شعلہ رو کے آتے ہی

روشنی شمعدان سے اتری

رین اندھیری ہے اور کنارا دور

چاند نکلے تو پار اُتر جائیں

یوں پریشاں ہوئیں تری یادیں

جیسے اوراقِ گُل بکھر جائیں

پر سوختہ پتنگے، شمعیں بجھی بجھی سی

دل سقز ہیں مناظر بزمِ سحر گہی کے

گھر لٹا کر وطن میں جی نہ لگا

پھر کسی انجمن میں جی نہ لگا

تم ہی کہو اے انجمِ شب

کتنی دور ہے شہرِ طرب

اٹھی تھی آج دل سے پھر اک آواز

الجھ کر رہ گئ تارِ گلو سے

گھُٹ کے مر جاؤں گا اے صبحِ جمال

میں اندھیرے میں ہوں، آواز نہ دے

کوئ جھونکا جو سرِ شام آیا

میں یہ سمجھا ترا پیغام آیا

زندگی اس کے تصور میں کٹی

دور رہ کر بھی وہی کام آیا

دن کا چراغ نکلا، گُل ہو گۓ ستارے

دنیا کے شور و غل میں دل اب کسے پکارے

اے دل نہ تڑپ کہ قہر ہوگا

رسوا کوئ شہر شہر ہوگا

عالمِ خواب میں دکھاۓ گۓ

کب کے ساتھی کہاں مِلاۓ گۓ

کیسی گردش میں اب کے سال پڑا

جنگ سر سے ٹلی تو کال پڑا

تجھ سے مل کر بھگی دل کو چین نہیں

درمیاں میں وہی سوال پرا

نہ پھول جھڑتے ہیں ہم پر نہ برق گرتی ہے

پڑے ہوۓ ہیں بعنوانِ سبزۂ بیکار

اب دل میں کیا رہا ہے، تری یاد ہو تو ہو

یہ گھر اسی چراغ سے آباد ہو تو ہو

اوّلیں شبِ گلشن کس قدر سہانی تھی

اجنبی مہک پا کر ہم نکل پڑے گھر سے

ایک تم ہی نہ مل سکے ورنہ

ملنے والے بچھڑ بچھڑ کے ملے

روۓ ہو موسمِ بہار کے بعد

اب کی پت جھڑ میں کتنے پھول کھلے

سینۂ نَے میں صدا میری ہے

اس میں کچھ طرزِ ادا میری ہے

باغ تیرا ہی سہی اے گلچیں

پھول میرے ہیں صبا میری ہے

نہ پوچھو کس خرابے میں پڑے ہیں

تہِ ابرِ رواں پیاسے کھڑے ہیں

ذرا گھر سے نکل کر دیکھ ناصر

چمن میں کس قدر پتّے جھڑے ہیں

ویراں پڑا ہے مے کدہ حسنِ خیال کا

یہ دور ہے بہاۓ ہنر کے زوال کا

ڈھونڈیں گے لوگ مجھ کو ہر محفلِ سخن میں

ہر دور کی غزل میں میرا نشاں ملے گا

نہ پوچھ آج شبِ ہجر کس قدر ہے اداس

کہیں کہیں کوئ تارا ہے اور کچھ بھی نہیں

رواں دواں ہیں سفینے تلاش میں جس کی

وہ اک شکستہ کنارا ہے اور کچھ بھی نہیں

یوں ہی عمر گنوائ سونا سی یوں ہی جان گنوائ موتی سی

اب تجھ سے بچھڑ کر سوچتے ہیں تجھے پا کے بھی ہم نے کیا پایا

چلے چلو انھیں گم نام برف زاروں میں

عجب نہیں یہیں مل جاۓ درد کا چارا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹائپنگ: وہاب اعجاز خاں، اعجاز عبید

پروف ریڈنگ اور ورڈ پروسیسنگ: اعجاز عبید

ای بک: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔