اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
سامنے چشم گہر بار کے کہہ دو دریا
چڑھ کے گر آئے تو نظروں سے اتر جائیں گے
لائے جو مست ہیں تربت پہ گلابی آنکھیں
اور اگر کچھ نہیں دو پھول تو دھر جائیں گے
بچیں گے رہ گزر یار تلک کیونکر ہم
پہلے جب تک نہ دو عالم سے گزر جائیں گے
آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی
جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جائیں گے
ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ سے
بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے
رخِ روشن سے نقاب اپنے الٹ دیکھو تم
مہر و مہ نظروں سے یاروں کی اتر جائیں گے
شعلہ آہ کو بجلی کی طرح چمکاؤں
پر یہی ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے
ذوق جو مدرسہ کے بگڑے ہوئے ہیں مُلا
ان کو مہ خانہ میں لے آؤ سنور جائیں گے
٭٭٭
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے
بہتر تو ہے یہی کہ نہ دنیا سے دل لگے
پر کیا کریں جو کام نہ بے دل لگی چلے
ہو عمرِ خضر بھی تو کہیں گے بوقتِ مرگ
ہم کیا رہے یہاں ابھی آئے ابھی چلے
دنیا نے کس کا راہِ فنا میں دیا ہے ساتھ
تم بھی چلے چلو یونہی جب تک چلی چلے
نازاں نہ ہو خِرد پہ جو ہونا ہے وہ ہی ہو
دانش تری نہ کچھ مری دانشوری چلے
کم ہوں گے اس بساط پہ ہم جیسے بد قمار
جو چال ہم چلے سو نہایت بری چلے
لیلیٰ کا ناقہ دشت میں دکھلاتا ذوق و شوق
سن کر فغانِ قیس بجائے حدی چلے
جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوق
اپنی بلا سے بادِ صبا اب کبھی چلے
٭٭٭
اسے ہم نے بہت ڈھونڈا نہ پایا
اگر پایا - تو کھوج اپنا نہ پایا
جس انساں کو سگِ دنیا نہ پایا
فرشتہ اس کا ہم پایا نہ پایا
مقدر پہ ہی گر سود و زیاں ہے
تو ہم نے یاں نہ کچھ کھویا - نہ پایا
سراغِ عمرِ رفتہ ہو - تو کیونکر؟
کہیں جس کا نشاں نہ پایا
رہِ گم گشتگی میں ہم نے اپنا
غبارِ راہ بھی عنقا نہ پایا
رہا ٹیڑھا مثالِ نیشِ کژدم
کبھی کج فہم کو سیدھا نہ پایا
احاطے سے فلک کے - ہم تو کب کے
نکل جاتے - پر رستا نہ پایا
جہاں دیکھا - کسی کے ساتھ دیکھا
کبھی ہم نے تجھے تنہا نہ پایا
کہے کیا ہائے زخمِ دل ہمارا !
دہن پایا - لبِ گویا نہ پایا
کبھی تو اور کبھی تیرا رہا غم
غرض خالی دلِ شیدا نہ پایا
نظیر اس کا کہاں عالم میں! اے ذوق
کہیں ایسا نہ پائے گا - نہ پایا
٭٭٭
نہیں ثبات بلندی عز و شاں کے لئے
کہ ساتھ اوج کے پستی ہے آسماں کے لئے
نہ چھوڑ تو کسی عالم میں راستی - کہ یہ شے
عصا ہے پیر کو اور سیف ہے جواں کے لئے
جو پاسِ مہرو محبت کہیں یہاں بکتا
تو مول لیتے ہم اک اپنے مہرباں کے لئے
اگر امید نہ ہمسایہ ہو - تو خانۂ یاس
بہشت ہے ہمیں آرامِ جاوداں کے لئے
وبالِ دوش ہے اس ناتواں کو سر - لیکن
لگا رکھا ہے ترے خنجر و سناں کے لئے
بنایا آدمی کو ذوق! ایک جزو ضعیف
اور اس ضعیف سے کل کام دو جہاں کے لئے
٭٭٭
کون سا ہمدم ہے تیرے عاشقِ بے دم کے پاس
غم ہے اس کے پاس ہمدم- اور وہ ہے دم کے پاس
ہم کو کیا ساقی، جو تھا جامِ جہاں بیں جم کے پاس
تیرا جامِ بادہ ہو -اور تو ہو اس پُر غم کے پاس
خط کہاں آغاز ہے پشتِ لبِ دلدار پر
ہیں جنابِ خضر آئے عیسیٰ ء مریم کے پاس
مردمک کے پاس ہے یہ اشکِ خونیں کا ہجوم
یا دھرے یاقوت ہیں یہ دانۂ نیلم کے پاس؟
روح اس آتش بجاں کی بعدِ مردن جوں پتنگ
آئے گی اڑ کر چراغِ خانۂ ماتم کے پاس
کس کی قسمت ہے کہ زخمِ تیغِ قاتل ہو نصیب
جان سے جائیں- نہ جائیں گے مگر مرہم کے پاس
کیا مزے لے لے کے گل کھائیں اگر آ جائے ہاتھ
یہ جو چھلا آپ کی انگلی میں ہے خاتم کے پاس
زلف سے بے وجہ خطِ سبز ہم پہلو نہیں
ہے لہکتا عشق پیچاں سنبلِ پُر خم کے پاس
واہ صیّادِ اجل اور واہ صیّادی کا پیچ
کھچ کے ہے اسفند یار آیا کہاں رستم کے پاس
دیکھو فیّاضِ ازل نے کیا دیا آنکھوں کو فیض
کاسہ در کف ہو کے یم آتے ہیں ان کی نم کے پاس
ہے جو قسمت میں تو دریا بھی کبھی ہو جائے گا
آ لگا ہے اپنا قطرہ بھی کنارِ یم کے پاس
کر کے بحر و قافیہ تبدیل لکھ اور اک غزل
بیٹھ کوئی دم تو اے ذوق اور اس پُر غم کے پاس
٭٭٭
کیا آئے تم جو آئے گھڑی دو گھڑی کے بعد
سینے میں ہوگی سانس اڑی دو گھڑی کے بعد
کیا روکا اپنے گریے کو ہم نے کہ لگ گئی
پھر وہ ہی آنسوؤں کی جھڑی دو گھڑی کے بعد
کوئی گھڑی اگر وہ ملائم ہوئے تو کیا
کہہ بیٹھیں گے پھر ایک کڑی دو گھڑی کے بعد
کل اُس سے ہم نے ترکِ ملاقات کی، تو کیا؟
پھر اُس بغیر کل نہ پڑی دو گھڑی کے بعد
پروانہ گرد شمع کے شب دو گھڑی رہا
پھر دیکھی اُسکی خاک پڑی دو گھڑی کے بعد
کیا جانے دو گھڑی وہ رہے ذوق کس طرح
پھر تو نہ ٹھہرے پاؤں گھڑی دو گھڑی کے بعد
٭٭٭
جُدا ہوں یار سے ہم، اور نہ ہوں رقیب جُدا
ہے اپنا اپنا مقدر جُدا نصیب جُدا
دکھا دے جلوہ جو مسجد میں وہ بُتِ کافر
تو چیخ اُٹھے مؤذن جُدا خطیب جُدا
جُدا نہ دردِ جُدائی ہو، گر مرے اعضا
حروفِ درد کی صورت ہوں، ہے طبیب جُدا
ہے اور علم و ادب، مکتبِ محبت میں
کہ ہے، وہاں کا مُعلم جُدا، ادیب جُدا
فراقِ خلد سے گندم ہے سینہ چاک اب تک
الٰہی ہو نہ وطن سے کوئی غریب جُدا
کیا حبیب کو مُجھ سے جُدا فلک نے اگر
نہ کر سکا مِرے دل سے غمِ حبیب جُدا
کریںجُدائی کا کس کس کی رنج ہم ؟ اے ذوقؔ
کہ ہونے والے ہیں سب ہم سے عنقریب جُدا
٭٭٭
ترے کوچے کو وہ بیمارِ غم دار الشفا سمجھے
اجل کو جو طبیب اور مرگ کو اپنی دوا سمجھے
ستم کو ہم کرم سمجھے ، جفا کو ہم وفا سمجھے
اور اُس پر بھی نہ سمجھے وہ تو اُس بُت سے خدا سمجھے
تجھے اے سنگدل آرامِ جانِ مبتلا سمجھے
پڑیں پتھر سمجھ پر اپنی ہم سمجھے تو کیا سمجھے
مجھے آتا ہے رشک اُس رندِ مے آشام پر ساقی
نہ جو "دع ماکدر" جانے نہ جو "خذ ما صفا" سمجھے
نہ آیا خاک بھی رستہ سمجھ میں عمرِ رفتہ کا
مگر سمجھے تو داغِ معصیت کو نقشِ پا سمجھے
سمجھ میں ہی نہیں آتی ہے کوئی بات ذوقؔ اُس کی
کوئی جانے تو کیا جانے کوئی سمجھے تو کیا سمجھے؟
٭٭٭
آنکھیں مری تلوؤں سے وہ مَل جائے تو اچھا
ہے حسرتِ پابوس نکل جائے تو اچھا
جو چشمِ کہ بے نم ہو وہ ہو کور تو بہتر
جو دل نہ ہو بے داغ وہ جَل جائے تو اچھا
بیمارِ محبت نے لیا تیرے سنبھالا
لیکن وہ سنبھالے سے سنبھل جائے تو اچھا
تاثیرِ محبت عجب اک حب کا عمل ہے
لیکن یہ عمل یار پہ چل جائے تو اچھا
فرقت سے ترے تارِ نفس سینہ میں میرے
کانٹا سا کھٹکتا ہے نکل جائے تو اچھا
وہ صبح کو آئے تو کروں میں دوپہر
اور چاہوں کہ دن تھوڑا سا ڈھل جائے تو اچھا
ڈھل جائے جو دن بھی تو اسی طرح کروں شام
اور پھر کہوں گر آج سے کل جائے تو اچھا
جب کل ہو تو پھر وہ ہی کہوں کل کی طرح سے
گر آج کا دن بھی یونہی ٹل جائے تو اچھا
القصہ نہیں چاہتا میں جائے وہ یاں سے
دل اُس کا یہیں کاش بہل جائے تو اچھا
ہے قطعِ رہ عشق میں اے ذوقؔ ادب شرط
جوں شمع تو اب سر ہی کے بَل جائے تو اچھا
٭٭٭
وہ کون ہے مُجھ پر جو تاسف نہیں کرتا؟
پر میرا جگر دیکھ کہ میں اُف نہیں کرتا
کیا قہر ہے وقفہ ہے ابھی آنے میںاُن کے
اور دم مرا جانے میں توقف نہیں کرتا
دل فقر کی دولت سے مرا اتنا غنی ہے
دنیا کے زر و مال پہ میں تُف نہیں کرتا
پڑھتا نہیں خط غیر مرا واں کسی عنوان
جب تک کہ عبارت میں تصرف نہیں کرتا
اے ذوقؔ تکلّف میں ہے تکلیف سراسر
آرام سے وہ ہے جو تکلّف نہیں کرتا
٭٭٭
ہم سے ظاہر و پنہاں جو اُس غارت گر کے جھگڑے ہیں
دل سے دل کے جھگڑے ہیں نظروں سے نظر کے جھگڑے ہیں
جیتے ہی جی کیا ملک فنا میں ساتھ بشر کے جھگڑے ہیں
مر کے ادھر سے جبکہ چھٹے تو جا کے اُدھر کے جھگڑے ہیں
کیسا مومن، کیسا کافر کون ہے صوفی کیسا رند
سارے بشر ہیں بندے حق کے سارے شر کے جھگڑے ہیں
ایک ایک جور و ستم پر اُس کے سو سو داغِ دل ہے گواہ
ہم جو اُس سے جھگڑے ہیں حق ثابت کر کے جھگڑے ہیں
غم کہتا ہے دل میں رہوں میں جلوۂ جاناں کہتا ہے میں
کس کو نکالوں کس کو رکھوں یہ تو گھر کے جھگڑے ہیں
بحر میں موتی پانی پانی لعل کا دل خوں پتھر میں
دیکھو لب و دندان سے تمہارے لعل و گہر کے جھگڑے ہیں
دوست کے گھر میں دشمن ہو جب سنگ ہمارے سینہ پر
دل کا ذکر رہا کیا باقی پھر تو سر کے جھگڑے ہیں
حضرت دل کا دیکھنا عالم ہاتھ اُٹھائے دنیا سے
پاؤں پسارے بیٹھے ہیں اور سر پہ سفر کے جھگڑے ہیں
ذوق مرتب کیونکہ ہو دیوان شکوۂ فرصت کس سے کریں ہم
باندھے گلے میں ہم نے اپنے آپ ظفر کے جھگڑے ہیں
٭٭٭
دن کٹا جائے اب رات کدھر کاٹنے کو
جب سے وہ گھر میں نہیں، دوڑے ہے گھر کاٹنے کو
ہائے صیاد تو آیا مرے پر کاٹنے کو
میں تو خوش تھا کہ چھری لایا ہے سر کاٹنے کو
اپنے عاشق کو نہ کھلواؤ کنی ہیرے کی
اُس کے آنسو ہی کفایت ہیں جگر کاٹنے کو
دانت انجم سے نکالے ہوئے تجھ بن مجھ پر
منہ فلک کھولے ہے اے رشکِ قمر کاٹنے کو
وہ شجر ہوں نہ گل و بار ، نہ سایہ مجھ میں
باغباں نے ہے لگا رکھا مگر کاٹنے کو
سر و گردن جگر و دل ہیں یہ چاروں حاضر
چاہے دل یار کو جو رنگ اگر کاٹنے کو
شام ہی سے دلِ بیتاب کا ہے ذوق یہ حال
ہے ابھی رات پڑی ، چار پہر کاٹنے کو
٭٭٭
ہے تیرے کان زلفِ معنبر لگی ہوئی
رکھے گی یہ نہ بال برابر لگی ہوئی
بیٹھے بھرے ہوئے ہیں خُمِ مے کی طرح ہم
پر کیا کریں کہ مہر ہے منہ پر لگی ہوئی
چاٹے بغیر خون کوئی رہتی ہے تیری تیغ
ہے یہ تو اس کو چاٹ ستمگر لگی ہوئی
میت کو غسل دیجو نہ اس خاکسار کی
ہے تن پہ خاک کوچۂ دلبر لگی ہوئی
عیسیٰ بھی گر ہے پاس تو ممکن نہیں شفا
خورشید کو وہ تپ ہے فلک پر لگی ہوئی
نکلے ہے کب کسی سے کہ اُس کی مژہ کی نوک
ہے پھانس سی کلیجے کے اندر لگی ہوئی
کرتی ہے زیرِ برقع فانوس تانک جھانک
پروانہ سے ہے شمع مقرّر لگی ہوئی
بیٹھے ہیں دل کے بیچنے والے ہزار ہا
گزرے ہیں اُس کی رہگزر پر لگی ہوئی
یہ چاہتا ہے شوق کہ قاصد بجائے مہر
آنکھ اپنی ہو لفافۂ خط پر لگی ہوئی
منہ سے لگا ہوا ہے اگر جامِ مے تو کیا
ہے دل سے یاد ساقیِ کوثر لگی ہوئی
اے ذوق دیکھ دخترِ رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
٭٭٭
زخمی ہوں میں اُس ناوکِ دزدیدہ نظر سے
جانے کا نہیں چور مرے زخمِ جگر سے
ہم خوب ہیں واقف تری اندازِ کمر سے
یہ تار نکلتا ہے کوئی دل کے گہر سے
گر اب کے پھرے جیتے وہ کعبہ کے سفر سے
تو جانو پھرے شیخ جی اللہ کے گھر سے
سرمایۂ امید ہے کیا پاس ہمارے
اک آہ بھی سینے میں سو نا امّیدِ اثر سے
وہ خُلق سے پیش آتے ہیں جو فیض رساں ہیں
ہے شاخِ ثمر دار میں گُل پہلے ثمر سے
حاضر ہیں مرے توسنِ وحشت کے جلو میں
باندھے ہوئے کہسار بھی دامن کو کمر سے
فریاد ستم کش ہے وہ شمشیرِ کشیدہ
جس کا نہ رُکے وار فلک کی بھی سپر سے
اشکوں میں بہے جاتے ہیں ہم جانبِ دریا
مقصودِ زہِ کعبہ ہے دریا کے سفر سے
اُف گرمیِ وحشت کہ مری ٹھوکروں ہی میں
پتھر ہیں پہاڑوں کے اُڑے جاتے شرر سے
کچھ رحمتِ باری سے نہیں دور کہ ساقی
رو دیں جو ذرا مست تو مے ابر سے برسے
کُشتہ ہوں میں کس چشمِ سیہ مست کا یارب
ٹپکے ہے جو مستی مری تُربت کے شجر سے
کھُلتا نہیں دل بند ہی رہتا ہے ہمیشہ
کیا جانیں کہ آ جائے ہے تو اس میں کدھر سے
نالوں کے اثر سے مرے پھوڑا سا ہے پکتا
کیوں ریم سدا نکلے نہ آہن کے جگر سے
اے ذوق کسی ہمدمِ دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
٭٭٭
کہتے ہیں جھوٹ سب کہ نہیں پاؤں جھوٹ کے
جھوٹے تو بیٹھتے بھی نہیں پاؤں ٹوٹ کے
چلتا ہو ذوق قید سے ہستی کے چھوٹ کے
یہ قید مار ڈالے گی دم گھوٹ گھوٹ کے
ڈھالا جو تجھ کو حسن کے سانچے میں اے صنم
آنکھوں کی جائے بھر دئیے موتی سے کوٹ کے
بے درد سینہ کوٹنا خالی نہیں مزا
دل میں بھرا ہے درد مرے کوٹ کوٹ کے
کیوں کر حباب ہو سکے دریائے بیکراں
دریا سے جب تلک نہ ملے ٹوٹ پھوٹ کے
اُس شمع رو سے رات کو رخصت ہوئے جو ذوق
روئے ہیں دل کے آبلے کیا پھوٹ پھوٹ کے
٭٭٭
حالت نشہ میں دیکھنا اس بے حجاب کی
ہر ناز سے ٹپکتی ہے مستی شراب کی
کوچہ میں آ پڑے تھے ترے خاک ہو کے ہم
یاں تو صبا نے اور بھی مٹی خراب کی
قاصد جواب جان مری دے چلی مجھے
پر منتظر ہے آنکھوں میں خط کے جواب کی
نکلے ہو مے کدہ سے ابھی منہ چھپا کے تم
دابے ہوئے بغل میں صراحی شراب کی
اے ذوق بس نہ آپ کو صوفی جتائیے
معلوم ہے حقیقتِ ہو حق جناب کی
٭٭٭
کچھ نہیں چاہیے تجہیز کا اسباب مجھے
عشق نے کشتہ کیا صورتِ سیماب مجھے
اس نے مارا رخِ روشن کی دکھا تاب مجھے
چاہیے بہرِ کفن چادرِ مہتاب مجھے
کل جہاں سے کہ اٹھا لائے تھے احباب مجھے
لے چلا آج وہیں پھر دلِ بے تاب مجھے
چمنِ دہر میں جوں سبزۂ شمشیر ہوں میں
آب کی جائے دیا کرتی ہے زہراب مجھے
میں وہ مجنوں ہوں کہ مجنوں بھی ہمیشہ خط میں
قبلہ و کعبہ لکھا کرتا تھا القاب مجھے
جو مرے واقفِ جوہر ہیں وہ رکھتے ہیں عزیز
تیرہ بختی میں بھی جوں تیغِ سیہ تاب مجھے
میں نہ تڑپا جو دمِ ذبح تو یہ باعث تھا
کہ رہا مدِ نظر عشق کا آداب مجھے
ورنہ وہ شوخ کہ جو گُل سے بھی نازک ہو سوا
لیوے اس طرح سے زانو کے تلے داب مجھے
ہو گیا جلوۂ انجم مری آنکھوں میں نمک
کیونکہ آئی شبِ ہجراں میں کہو خواب مجھے
٭٭٭
وقتِ پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں
اُسکے گھر لے چلا مجھے دیکھو
دلِ خانہ خراب کی باتیں
واعظا چھوڑ ذکرِ نعمت خُلد
کر شراب و کباب کی باتیں
تجھ کو رسوا کریں گی خوب، اے دل
تیری یہ اضطراب کی باتیں
سُنتے ہیں اُس کو چھیڑ چھیڑ کے ہم
کس مزے سے عتاب کی باتیں
ذکر کیا جوشِ عشق میں اے ذوقؔ
ہم سے ہوں صبر و تاب کی باتیں
٭٭٭
اے ذوق وقت نالے کے رکھ لے جگر پہ ہاتھ
ورنہ جگر کو روئے گا تو دھر کے سر پہ ہاتھ
میں ناتواں ہوں خاک کا پروانے کی غبار
اٹھتا ہوں رکھ کے دوش نسیم سحر پہ ہاتھ
خط دے کے دل میں تھا کہ زبانی بھی کچھ کہے
پر اس نے رکھ دیا دہن نامہ بر پہ ہاتھ
کھاتا ہے اس طرح سے غم عشق میرا دل
جیسے گرسنہ مارے ہے حلوائے تر پہ ہاتھ
جوں پنج شاخہ تو نہ جلا انگلیاں طبیب
رکھ رکھ کے نبض عاشق تفتہ جگر پہ ہاتھ
اے شمع ایک چور ہے باد نسیم صبح
مارے ہے کوئی دم یہ ترے تاج سر پہ ہاتھ
چھوڑا نہ دل میں صبر، نہ آرام ، نے شکیب
تیری نگہ نے صاف کیا گھر کے گھر پہ ہاتھ
قاتل کبھی نہ تو نے اٹھائے ہزار حیف
آ کر مزار کشتۂ تیغ نظر پہ ہاتھ
جو دیکھے اس کو تھام کے دل بیٹھ جائے ذوق
جب ناز سے کھڑا ہو وہ رکھ کر کمر پہ ہاتھ
٭٭٭
جان کے جی میں سدا جینے کا ارماں ہی رہا
دل کو بھی دیکھ کیے یہ بھی پریشاں ہی رہا
بعد مرون بھی خیال چشم فتاں ہی رہا
سبزہ تربت مرا وقف گلستاں ہی رہا
میں ہمیشہ عاشق پیچیدہ موباں ہی رہا
خاک پر روئیدہ میرے عشق پیچاں ہی رہا
پستہ قدمی ہے کام غیر میں وہ لعل لب
پر مرے حق میں تو سنگ زیر دنداں ہی رہا
بندھ سکا مضموں نہ ہم سے اس دہان تنگ کا
ہاتھ اپنا فکر میں زیر زنخداں ہی رہا
جاہل منکر نہ آئے راہ پر معجز سے بھی
جہل سے بو جہل اپنی نا مسلماں ہی رہا
پاؤں کب نکلے رکاب حلقہ زنجیر سے
توسن وحشت ہمارا گرم جولاں ہی رہا
کب لباس دنیوی میں چھپتے ہیں روشن ضمیر
خانہ فانوس میں بھی شعلہ عریاں ہی رہا
آدمیت اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے
کتنا طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا
جلوہ اے قاتل اگر تیرا نہیں حیرت فزا
دیدۂ بسمل نے کیا دیکھا کہ حیراں ہی رہا
حلقۂ گیسو پہ دیکھی کس کے رخساروں کی تاب
شب مہ ہالہ نشین سرور گریباں ہی رہا
مدتوں دل اور پیکاں دونوں سینے میں رہے
آخرش دل بہہ گیا خوں ہو کے پیکاں ہی رہا
اب کو دیکھا اس سے اور اس کو نہ دیکھا جوں نظر
وہ رہا آنکھوں میں اور آنکھوں سے پنہاں ہی رہا
آگے زلفیں دل میں بستی تھیں اور اب آنکھیں تری
ملک دل اپنا ہمیشہ کافرستاں ہی رہا
مجھ میں اس میں ربط ہے گویا برنگ بوئے گل
وہ رہا آغوش میں لیکن گریزاں ہی رہا
دین و ایمان ڈھونڈتا ہے ذوق کیا اس وقت سے
اب نہ کچھ دیں ہی رہا باقی نہ ایماں ہی رہا
٭٭٭
مذکورہ تری بزم میں کس کا نہیں آتا
پر ذکر ہمارا نہیں آتا نہیں آتا
جینا ہمیں اصلاً نظر اپنا نہیں آتا
گر آج بھی وہ رشک مسیحا نہیں آتا
بیجا ہے ولا اس کے نہانے کی شکایت
کیا کیجے گا فرمائیے اچھا نہیں آتا
کس دن نہیں ہوتا قلق ہجر ہے مجھ کو
کس وقت مرا منہ کو کلیجہ نہیں آتا
ہم رونے پہ آ جائیں تو دریا ہی بہائیں
شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا
آنا ہے تو آ جا کہ کوئی دم کی ہے فرصت
پھر دیکھئے آتا ہے یہ دم یا نہیں آتا
ہستی سے زیادہ کچھ آرام عدم میں
جاتا ہے یہاں سے وہ دو بارا نہیں آتا
دنیا ہے وہ صیاد کہ سب دام میں اس کے
آ جاتے ہیں لیکن کوئی دانا نہیں آتا
جو کوچہ قاتل میں گیا پھر وہ نہ آیا
کیا جانے مزہ کیا ہے کہ جیتا نہیں آتا
قسمت ہی سے لاچار ہوں اے ذوق وگرنہ
سب فن میں ہوں میں طاق مجھے کیا نہیں آتا
٭٭٭
ہو ہجر مدتوں جو وصل ایک دم نصیب
کم ہو گا کوئی مجھ سا محبت میں کم نصیب
ہوں میری خاک کو جو تمھارے قدم نصیب
کھایا کریں نصیب کی جو میرے قسم نصیب
بہتر ہیں لاکھ لطف و کرم سے ترے ستم
اپنے زہے نصیب کہوں یہ ستم نصیب
ماہی ہو یا ہو مادہ وہ دے ایک یا ہزار
بیداغ ہوں نہ دست فلک سے درم نصیب
ہے خوش نصیب عشق میں اے ابوالہوس وہی
جس کو کہ غم پہ غم ہو الم پر الم نصیب
غافل جو غم کی آمد و شد سے نہ ہود ے تو
ہر دم ہے تجھ کو سیر وجود و عدم نصیب
سو بار جوں قلم ہو زباں شمع کی قلم
اک حرف ہو یا نہ مثل زبان قلم نصیب
مجنوں سیاہ خیمۂ لیلی کے گرد پھر
اے خوش نصیب تجھ کو طواف حرم نصیب
٭٭٭
معلوم جو ہوتا ہمیں انجام محبت
لیتے نہ کبھی بھول کے ہم نام محبت
ہر روز اڑا دیتا ہے وہ کر کے تصدق
دو چار اسیر قفس دام محبت
مانند کباب آگ پہ گرتے ہیں ہمیشہ
دل سوز ترے بستر آرام محبت
کاسہ میں فلک کے نہ رہے نام کو زہر آب
دھر کھینچے اگر تشنہ لب جام محبت
کی جس سے رہ و سم محبت اسے مارا
پیغام قضا ہے ترا پیغام محبت
نے زہد سے ہے کام نہ زاہد سے کہ ہم تو
ہیں بادہ کش عشق و مئے جام محبت
ایمان کو گر رکھ کے نہ یوں کفر کو لے مول
کافر نہ ہو گرویدۂ اسلام محبت
کہتی تھی وفا نوحہ کناں نعش پہ مری
سونپا کسے تو نے مجھے ناکام محبت
معراج سمجھ ذوق تو قاتل کی سناں کو
چڑھ سر کے بل سے زینے پہ تا بام محبت
٭٭٭
آنکھ اس پر جفا سے لڑتی ہے
جان کشتی قضا سے لڑتی ہے
شعلہ بھڑکے گے کیا بہلا سر بزم
شمع تجھ بن ہوا سے لڑتی ہے
قسمت اس بت سے جا لڑی اپنی
دیکھو احمق خدا سے لڑتی ہے
صف مژگان تری خدا کی پناہ
اک بلا ایک بلا سے لڑتی ہے
شور و غل قل یہ کیوں ہے دختر رز
کیا کسی آشنا سے لڑتی ہے
نگہ ناز اس کی عاشق سے
چھوٹ کس کس ادا سے لڑتی ہے
تیرے بیمار کے سر بالیں
موت کیا کیا شفا سے لڑتی ہے
آج کہتے ہو کیا طبعیت کو
عشق میں ابتدا سے لڑتی ہے
آج دنیا نے صلح کی کس دن
یہ لڑاکا سدا سے لڑتی ہے
تیری شمشیر خوں کے چھینٹوں سے
چھینٹے آب بقا سے لڑتی ہے
دیکھو اس چشم مست کی شوخی
جب کسی پارسا سے لڑتی ہے
ذوق دنیا ہے مکر کا میداں
نگہ اس کی دغا سے لڑتی ہے
٭٭٭
ان سے کچھ وصل کا ذکر اب نہیں لانا اچھا
وہ جو کچھ کہیں تو تم بھی کہو جانا اچھا
تم نے دشمن ہے جو اپنا ہمیں جانا اچھا
یار ناداں سے تو ہے دشمن دانا اچھا
پھول گل مہندی کے لالا کے نہ ہاتھوں میں ملو
خون عاشق نہیں مرقد پہ بہانا اچھا
طائر جاں کے سوا کوچہ جاناں کی طرف
نامہ بر کون ہے جو کیجئے روانہ اچھا
طاق ابرو کے تصور میں دل کھینچ نہ آہ
سمت کعبہ پر نہیں تیر لگانا اچھا
بدگمان دیکھوں کچھ اس میں بھی نہ ڈلیں رخنہ
روزن در سے نہیں آنکھ لڑانا اچھا
آتش عشق ہے سینہ میں دبی دیکھ اے چشم
اب نہیں دامن مژگان کا بلانا اچھا
بیٹھ رہ کر کے قناعت کہ بشکل مہ نو
چھوڑے آدھی تو نہیں ساری کو جانا اچھا
مرغ دل نگہ یار سے پوچھا اڑ کر
پھر بھی کہنا کہ لگاتے ہیں نشانہ اچھا
یاں تو دم میں نہیں دم اور وہ لیے تیغ دو دم
کہتے ہیں دیکھو نہیں دم کا چرانا اچھا
طرہ شمشاد دکھاتا ہے تری زلفوں کو
لاوا رہ کہ یہی اس کو ہے شانا اچھا
ساقیا ابر ہے آیا تو بڑھا خم پر ہاتھ
کہ گھٹا میں نہیں ہمت کا گھٹانا اچھا
جل کے گر قطرہ خون دل کا ہوا اشک آلود
تو نہیں نیمچہ مژگاں سے گرانا اچھا
گردش عمر میں تسبیح سلیمانی کا
آج اک ہاتھ لگا ہے مرے دانا اچھا
سامنے یار کے اے ذوق بہانا آنسو
ہے تو چاہت کے جتانے کو بہانا اچھا
٭٭٭
کیا مد نظر ہے یاروں سے تو کہئے
گر منہ سے نہیں کہتے اشاروں سے تو کہئے
حال دل بےتاب کہا جائے تو ہم سے
گر کہئیے نہ لاکھوں سے ہزاروں سے تو کہئے
کچھ سوز دل اپنا دل سوز کے آگے
فرصت ہو تو تپ غم کے حراروں سے تو کہئے
موقف ہے گر دل کا شکار آن داد پر
تو پہلے کچھ ان میر شکاروں سے تو کہئے
اس گوہر دنداں پہ اگر سوجھے کوئی بات
موری تو ہیں کیا مآل ستاروں سے تو کہئے
جس راہ سے شانہ ہے گیا زلف رسا میں
اس دستہ کو ان سینہ فگاروں سے تو کہئے
کہے نہ تنگ ظرف سے اے ذوق راز
کہہ کر اسے سننا ہو ہزاروں سے تو کہئے
٭٭٭
دریائے اشک چشم سے جس آن بہہ گیا
سن لیجیو کہ عرش کا ایوان بہہ گیا
زاہد! شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں؟
کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا
یوں روئے پھوٹ پھوٹ کے پانو کے آبلے
نالا سا ایک سوئے بیابان بہہ گیا
کشتی سوارِ عمر ہوں بحرِ فنا میں، میں
جس دم، بہا کے لے گیا طوفان، بہہ گیا
تھا ذوق پہلے دلی میں پنجاب کا سا حسن
پر اب وہ پانی کہتے ہیں ملتان بہہ گیا
٭٭٭
مرتے ہیں تیرے پیار سے ہم اور زیادہ
تو لطف میں کرتا ہے ستم اور زیادہ
دیں کیوں کہ نہ وہ داغِ الم اور زیادہ
قیمت میں بڑھے دل کے درم اور زیادہ
کیا ہووے گا دوچار قدح سے مجھے ساقی
میں لوں گا تیرے سر کی قسم اور زیادہ
وہ دل کو چرا کر جو لگے آنکھ چرانے
یاروں کا گیا ان پہ بھرم اور زیادہ
کیوں میں نے کہا تجھ سا خدائی میں نہیں اور
مغرور ہوا اب وہ صنم اور زیادہ
لیتے ہیں ثمر شاخِ ثمر ور کو جھکا کر
جھکتے ہیں سخی وقتِ کرم اور زیادہ
جو کنجِ قناعت میں ہیں تقدیر پہ شاکر
ہے ذوق برابر انہیں کم اور زیادہ
٭٭٭
پھرتا لیے چمن میں ہے دیوانہ پن مجھے
زنجیرِ پا ہے موجِ نسیمِ چمن مجھے
ہمدم وبالِ دوش نہ کر پیرہن مجھے
کانٹا سا کھٹکتا ہے مرا تن بدن مجھے
ہوں شمع یا کہ شعلہ خبر کچھ نہیں مگر
فانوس ہو رہا ہے مرا پیرہن مجھے
کوچہ میں تیرے کون تھا لیتا بھلا خبر
شب چاندنی نے آ کے پنھایا کفن مجھے
دکھلاتا اک ادا میں ہے سو سو طرح بناؤ
اس سادہ پن کے ساتھ ترا بانکپن مجھے
اک سر زمینِ لالہ بہار و خزاں میں ہوں
یکساں ہے داغِ تازہ و داغِ کہن مجھے
آ اے مرے چمن کہ ہَوا میں تری ہُوا
صحرائے دل ہوائے چمن در چمن مجھے
آیا ہوں نور لے کے میں بزمِ سخن میں ذوق
آنکھوں پہ سب بٹھائیں گے اہلِ سخن مجھے
٭٭٭
ٹائپنگ: کاشفی، فرخ منظور، رضوان وغیرہ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید