03:03    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

مجموعہ انتخاب فانی بدایونی

1493 0 0 00




موت کی رسم نہ تھی , ان کی ادا سے پہلے

موت کی رسم نہ تھی , ان کی ادا سے پہلے

زندگی درد بنائی تھی , دوا سے پہلے

کاٹ ہی دیں گے قیامت کا دن اک اور سہی

دن گزارے ہیں محبّت میں قضا سے پہلے

دو گھڑی کے لئے میزان عدالت ٹھہرے

کچھ مجھے حشر میں کہنا ہے خدا سے پہلے

تم جوانی کی کشاکش میں کہاں بھول اٹھے

وہ جو معصوم شرارت تھی ادا سے پہلے

دار فانی میں یہ کیا ڈھونڈھ رہی ہے فانی

زندگی بھی کہیں ملتی ہے فنا سے پہلے

٭٭٭






اس کشمکشِ ہستی میں کوئی راحت نہ ملی جو غم نہ ہوئی

اس کشمکشِ ہستی میں کوئی راحت نہ ملی جو غم نہ ہوئی

تدبیر کا حاصل کیا کہیئے تقدیر کی گردش کم نہ ہوئی

اللہ رے سکونِ قلب اس کا، دل جس نے لاکھوں توڑ دئیے

جس زلف نے دنیا برہم کی وہ آپ کبھی برہم نہ ہوئی

غم راز ہے اُن کی تجلی کا جو عالم بن کر عام ہُوا

دل نام ہے اُن کی تجلی کا جو راز رہی عالم نہ ہوئی

یہ دل کی ویرانی ہی عجب ہے، وہ بھی آخر کیا کرتے

جب دل میں ان کے رہتے بستے یہ ویرانی کم نہ ہوئی

انسان کی ساری ہستی کا مقصود ہے فانی ایک نظر

یعنی وہ نظر جو دل میں اُتر کر زخم بنی، مرہم نہ ہوئی

٭٭٭






عشق نے دِل میں جگہ کی تو قضا بھی آئی

عشق نے دِل میں جگہ کی تو قضا بھی آئی

درد دنیا میں جب آیا تو دوا بھی آئی ! !

دل کی ہستی سے کیا عشق نے آگاہ مجھے

دل جب آیا تو دھڑکنے کی صدا بھی آئی !

صدقے اُتاریں گے ، اسیرانِ قفس چھوٹے ہیں

بجلیاں لے کے نشیمن پہ گھٹا بھی آئی ! !

آپ سوچا ہی کئے ، اُس سے ملوں یا نہ ملوں

موت مشتاق کو مٹّی میں مِلا بھی آئی ! !

لو ! مسیحا نے بھی ، اللّہ نے بھی یاد کِیا

آج بیمار کو ہچکی بھی ، قضا بھی آئی !

دیکھ یہ جادہَ ہستی ہے ، سنبھل کر فانی

پیچھے پیچھے وہ دبے پاؤں قضا بھی آئی

٭٭٭






بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھا

بجلیاں ٹوٹ پڑیں جب وہ مقابل سے اٹھا

مل کے پلٹی تھیں نگاہیں کہ دھواں دل سے اٹھا

جلوہ محسوس سہی، آنکھ کو آزاد تو کر

قید آداب تماشا بھی تو محفل سے اٹھا

پھر تو مضراب جنوں، ساز انالیلی چھیڑ

ہائے وہ شور اناالقیس کہ محمل سے اٹھا

اختیار ایک ادا تھی مری مجبوری کی

لطفِ سعیِ عمل اس مطلب حاصل سے اٹھا

عمر امید کے دو دن بھی گراں تھے ظالم

بار فردا نہ ترے وعدۂ باطل سے اٹھا

خبر قافلۂ گم شدہ کس سے پوچھوں

اک بگولہ بھی نہ خاک رہ منزل سے اٹھا

ہوش جب تک ہے گلا گھونٹ کے مر جانے کا

دم شمشیر کا احساں ترے بسمل سے اٹھا

موت ہستی پہ و ہ تہمت تھی کہ آسان نہ تھی

زندگی مجھ پہ یہ الزام کہ مشکل سے اٹھا

کس کی کشتی تہ گرداب فنا جا پہنچی

شور لبیک جو فانی لب ساحل سے اٹھا

٭٭٭






مجبور شکایت ہوں تاثیر کو کیا کہیے

مجبور شکایت ہوں تاثیر کو کیا کہیے

تدبیر مقدر تھی تقدیر کو کیا کہیے

فردوس بداماں ہے ہر نقش خیال ان کا

یہ شان تصور ہے تصویر کو کیا کہیے

وابستہ صد حسرت، بے واسطہ دل ہوں

اپنا ہی میں زنداں ہوں زنجیر کو کیا کہیے

وہ برق کی یورش ہے ہر شاخ میں لرزش ہے

ایسے میں نشیمن کی تعمیر کو کیا کہیے

سنتے ہیں حجاب ان کا عرفان تمنا ہے

اب حرف تمنا کی تعبیر کو کیا کہیے

یا رب! تری رحمت سے مایوس نہیں فانی

لیکن تری رحمت کی تاخیر کو کیا کہیے

٭٭٭






کارواں گزرا کیا ہم رہگزر دیکھا کیے

کارواں گزرا کیا ہم رہگزر دیکھا کیے

ہر قدم پر نقش پائے راہبر دیکھا کیے

ترک بیداد، آہ! اک تمہید تھی بیداد کی

دل جلا کر میرے نالوں کا اثر دیکھا کیے

درد مندان وفا کی ہائے رے مجبوریاں

درد دل دیکھا نہ جاتا تھا مگر دیکھا کیے

یاس جب چھائی امیدیں ہاتھ مل کر رہ گئیں

دل کی نبضیں چھٹ گئیں اور چارہ گر دیکھا کیے

رخ مری جانب، نگاہ لطف دشمن کی طرف

یوں ادھر دیکھا کیے گویا ادھر دیکھا کیے

تو کہاں تھی اے اجل! اے نامرادوں کی مراد!

مرنے والے راہ تیری عمر بھر دیکھا کیے

زیست تھی فانی بقدر فرصت تمہید شوق

عمر بھر ہم پرتو نور بشر دیکھا کیے

٭٭٭






ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا

ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا

دل پہ کچھ اختیار تھا، نہ رہا

دلِ مرحوم کو خدا بخشے

ایک ہی غم گسار تھا، نہ رہا

موت کا انتظار باقی ہے

آپ کا انتظار تھا، نہ رہا

اب گریباں کہیں سے چاک نہیں

شغلِ فصلِ بہار تھا، نہ رہا

آ، کہ وقتِ سکونِ مرگ آیا

نالہ نا خوش گوار تھا، نہ رہا

ان کی بے مہریوں کو کیا معلوم

کوئی اُمّیدوار تھا، نہ رہا

آہ کا اعتبار بھی کب تک

آہ کا اعتبار تھا، نہ رہا

کچھ زمانے کو سازگار سہی

جو ہمیں سازگار تھا، نہ رہا

مہرباں، یہ مزارِ فانی ہے

آپ کا جاں نثار تھا، نہ رہا

٭٭٭






شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا

شوق سے ناکامی کی بدولت کوچۂ دل ہی چھوٹ گیا

ساری اُمیدیں ٹوٹ گئیں، دل بیٹھ گیا، جی چھوٹ گیا

فصلِ گل آئی یا اجل آئی، کیوں در زنداں کھلتا ہے

کیا کوئی وحشی اور آ پہنچا یا کوئی قیدی چھوٹ گیا

کیجئے کیا دامن کی خبر اور دستِ جنوں کو کیا کہیئے

اپنے ہی ہاتھ سے دل کا دامن مدت گذری چھوٹ گیا

منزل عشق پہ تنہا پہنچے، کوئی تمنا ساتھ نہ تھی

تھک تھک کر اس راہ میں آخر اک اک ساتھی چھوٹ گیا

فانی ہم تو جیتے جی وہ میت ہیں بے گور و کفن

غربت جس کو راس نہ آئی اور وطن بھی چھوٹ گیا

٭٭٭






یاں ہوش سے بیزار ہوا بھی نہیں‌جاتا

یاں ہوش سے بیزار ہوا بھی نہیں‌جاتا

اُس بزم میں‌ہُشیار ہوا بھی نہیں‌جاتا

کہتے ہو کہ ہم وعدہ پرسش نہیں‌کرتے

یہ سن کے تو بیمار ہوا بھی نہیں‌جاتا

دشواری، انکار سے طالب نہیں‌ڈرتے

یوں سہل تو اقرار ہوا بھی نہیں‌جاتا

آتے ہیں عیادت کو تو کرتے ہیں‌نصیحت

احباب سے غم خوار ہوا بھی نہیں‌جاتا

جاتے ہوئے کھاتے ہیں مری جان کی قسمیں

اب جان سے بیزار ہوا بھی نہیں‌جاتا

غم کیا ہے اگر منزل جاناں ہے بہت دور

کیا خاکِ رہِ یار ہوا بھی نہیں‌جاتا

دیکھا نہ گیا اس سے تڑپتے ہوئے دل کو

ظالم سے جفا کار ہوا بھی نہیں‌ جاتا

یہ طرفہ ستم ہے کہ ستم بھی ہے کرم بھی

اب خوگر آزار ہوا بھی نہیں‌جاتا

٭٭٭






مآلِ سوزِ غم ہائے نہانی دیکھتے جاؤ

مآلِ سوزِ غم ہائے نہانی دیکھتے جاؤ

بھڑک اٹھی ہے شمعِ زندگانی دیکھتے جاؤ

غرورِ حسن کا صدقہ کوئی جاتا ہے دنیا سے

کسی کی خاک میں ملتی جوانی دیکھتے جاؤ

بہارِ زندگی کا لطف دیکھا اور دیکھو گے

کسی کے عیشِ مرگِ ناگہانی دیکھتے جاؤ

سنے جاتے نہ تھے تم سے مرے دن رات کے شکوے

کفن سرکاؤ میری بے زبانی دیکھتے جاؤ

ابھی کیا ہے کسی دن خود رلائے گی یہ خاموشی

زبانِ حال کی جادو بیانی دیکھتے جاؤ

وہ اٹھا شورِ ماتم آخری دیدارِ میت پر

اب اٹھا چاہتی ہے نعشِ فانی دیکھتے جاؤ

٭٭٭






وہ نظر کامیاب ہو کے رہی

وہ نظر کامیاب ہو کے رہی

دل کی بستی خراب ہو کے رہی

عشق کا نام کیوں کریں بدنام

زندگی تھی عذاب ہو کے رہی

نگہ شوق کا حال نہ پوچھ

سر بسر اضطراب ہو کے رہی

چشم ساقی کی تھی کبھی مخمور

خود ہی آخر شراب ہو کے رہی

تابِ نظارہ لا سکا نہ کوئی

بے حجابی، حجاب ہو کے رہی

ہم سے فانی نہ چھپ سکا غم دوست

آرزو، بے نقاب ہو کے رہی

٭٭٭






جمال خود رخ بے پردہ کا نقاب ہوا

جمال خود رخ بے پردہ کا نقاب ہوا

نئی ادا سے نئی وضع کا حجاب ہوا

ملا ازل میں مجھے میری زندگی کے عوض

وہ ایک لمحۂ ہستی کہ صرف خواب ہوا

وہ جلوہ مفت نظر تھا، نظر کو کیا کہیئے

کہ پھر بھی ذوقِ تماشا نہ کامیاب ہوا

اُلٹ گئی مری اُمید و بیم کی دنیا

یہ کیا نظامِ تمنّا میں انقلاب ہوا

گناہگار سہی دل مگر قصور معاف

ظہور شوق بہ اندازۂ حجاب ہوا

قضا کو مژدۂ فرصت کہ فانی مہجور

شہید کشمکش صبر و اضطراب ہوا

٭٭٭






دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے

دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے

موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے

آبادی بھی دیکھی ہے ویرانے بھی دیکھے ہیں

جو اُجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے

عجز گناہ کے دم تک ہیں عصمت کامل کے جلوے

پستی ہے تو بلندی ہے راز بلندی پستی ہے

جان سی شئے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں

آگے مرضی گاہک کی ان داموں تو سستی ہے

جگ سونا ہے تیرے بغیر، آنکھوں کا کیا حال ہوا

جب بھی دنیا بستی تھی، اب بھی دنیا بستی ہے

آنسو تھے سو خشک ہوئے، جی ہے کہ اُمڈ آتا ہے

دل پہ گھٹا سی چھائی ہے، کھلتی ہے نہ برستی ہے

دل کا اُجڑنا سہل سہی، بسنا سہل نہیں ظالم

بستی بسنا کھیل نہیں ہے بستے بستے بستی ہے

فانی جس میں آنسو کیا دل کے لہو کا کال نہ تھا

ہائے وہ آنکھ اب پانی کی دو بوند کو ترستی ہے

٭٭٭

مآخذ:

مختلف ویب سائٹس

تدوین اور ای بک کی تشکیل:: اعجاز عبید


0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

مجموعے

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔