رنجش ہی سہی دل ہی دُکھانے کے لئے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ
کچھ تو مرے پندارِ محبت کا بھرم رکھ
تُو بھی تَو کبھی مجھ کو منانے کے لئے آ
پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تَو
رسم و رہِ دنیا ہی نبھانے کیلئے آ
کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم
تُو مجھ سے خفا ہے تَو زمانے کے لئے آ
اک عمر سے ہوں لذتِ گریہ سے بھی محروم
اے راحتِ جاں مجھ کو رلانے کے لئے آ
اب تک دلِ خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں
یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لئے آ
٭٭٭
دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا
اب اسے لوگ سمجھتے ہیں گرفتار مرا
سخت نادم ہے مجھے دام میں لانے والا
صبح دم چھوڑ گیا نگہتِ گُل کی صورت
رات کو غنچۂ دل میں سمٹ آنے والا
کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے اس سے
وہ جو اک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا
تیرے ہوتے ہوئے آ جاتی تھی ساری دنیا
آج تنہا ہوں تو کوئی نہیں آنے والا
منتظر کس کا ہوں ٹوٹی ہوئی دہلیز پہ میں
کون آئے گا یہاں کون ہے آنے والا
کیا خبر تھی جو مری جاں میں گھلا ہے اتنا
ہے وہی مجھ کو سرِ دار بھی لانے والا
میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔؔ
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
٭٭٭
قربتوں میں بھی جدائی کے زمانے مانگے
دل وہ بے مہر کہ رونے کے بہانے مانگے
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لئے
اب یہی ترکِ تعلق کے بہانے مانگے
اپنا یہ حال کہ جی ہار چکے لٹ بھی چکے
اور محبت وہی انداز پرانے مانگے
زندگی ہم ترے داغوں سے رہے شرمندہ
اور تُو ہے کہ سدا آئینہ خانے مانگے
دل کسی حال پہ قانع ہی نہیں جانِ فرازؔؔ
مِل گئے تم بھی تو کیا اور نہ جانے مانگے
٭٭٭
جُز ترے کوئی بھی دن رات نہ جانے میرے
تُو کہاں ہے مگر دوست پرانے میرے
تُو بھی خوشبو ہے مگر میرا تجسس بے کار
برگِ آوارہ کی مانند ٹھکانے میرے
شمع کی لَو تھی کہ وہ تُو تھا مگر ہجر کی رات
دیر تک روتا رہا کوئی سرہانے میرے
خلق کی بے خبری ہے کہ مری رسوائی
لوگ مجھ کو ہی سناتے ہیں فسانے میرے
لُٹ کے بھی خوش ہوں کہ اشکوں سے بھرا ہے دامن
دیکھ غارت گرِ دل یہ بھی خزانے میرے
آج اک اور برس بیت گیا اس کے بغیر
جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے
----ق----
کاش تُو بھی مری آواز کہیں سُنتا ہو
پھر پکارا ہے تجھے دل کی صدا نے میرے
کاش تو بھی کبھی آ جائے مسیحائی کو
لوگ آتے ہیں بہت دل کو دُکھانے میرے
کاش اوروں کی طرح میں بھی کبھی کہہ سکتا
بات سُن لی ہے مری، آج خدا نے میرے
تُو ہے کس حال میں اے زود فراموش مرے
مجھ کو تو چھین لیا عہدِ وفا نے میرے
چارہ گر یوں تو بہت ہیں مگر اے جانِ فرازؔؔ
جز ترے اور کوئی زخم نہ جانے میرے
٭٭٭
نہ حریفِ جاں نہ شریکِ غم شبِ انتظار کوئی تو ہو
کسے بزمِ شوق میں لائیں ہم دلِ بے قرار کوئی تو ہو
کسے زندگی ہے عزیز اب کسے آرزوئے شبِ طرب
مگر اے نگارِ وفا طلب ترا اعتبار کوئی تو ہو
کہیں تارِ دامنِ گل ملے تو یہ مان لیں کہ چمن کھلے
کہ نشان فصلِ بہار کا سرِ شاخسار کوئی تو ہو
یہ اداس اداس سے بام و در، یہ اجاڑ اجاڑ سی رہگزر
چلو ہم نہیں نہ سہی مگر سرِ کوئے یار کوئی تو ہو
یہ سکونِ جاں کی گھڑی ڈھلے تو چراغِ دل ہی نہ بجھ چلے
وہ بلا سے ہو غمِ عشق یا غمِ روزگار کوئی تو ہو
سرِ مقتلِ شب آرزو، رہے کچھ تو عشق کی آبرو
جو نہیں عدو تَو فرازؔؔ تُو کہ نصیب دار کوئی تو ہو
٭٭٭
دل تو وہ برگِ خزاں ہے کہ ہوا لے جائے
غم وہ آندھی ہے کہ صحرا بھی اُڑا لے جائے
کون لایا تری محفل میں ہمیں ہوش نہیں
کوئی آئے تری محفل سے اُٹھا لے جائے
اور سے اور ہوئے جاتے ہیں معیارِ وفا
اب متاعِ دل و جاں بھی کوئی کیا لے جائے
جانے کب ابھرے تری یاد کا ڈوبا ہُوا چاند
جانے کب دھیان کوئی ہم کو اُڑا لے جائے
یہی آوارگیِ دل ہے تو منزل معلوم
جو بھی آئے تری باتوں میں لگا لے جائے
دشتِ غربت میں تمہیں کون پکارے گا فرازؔؔ
چل پڑو خود ہی جدھر دل کی صدا لے جائے
٭٭٭
نہ انتظار کی لذت نہ آرزو کی تھکن
بجھی ہیں درد کی شمعیں کہ سو گیا بدن
سُلگ رہی ہیں نہ جانے کس آنچ سے آنکھیں
نہ آنسوؤں کی طلب ہے نہ رتجگوں کی جلن
دلِ فریب زدہ! دعوتِ نظر پہ نہ جا
یہ آج کے قد و گیسو ہیں کل کہ دار و رسن
غریبِ شہر کسی سایۂ شجر میں نہ بیٹھ
کہ اپنی چھاؤں میں خود جل رہے ہیں سرو و سمن
بہارِ قرب سے پہلے اجاڑ دیتی ہیں
جدائیوں کی ہوائیں محبتوں کے چمن
وہ ایک رات گزر بھی گئی مگر اب تک
وصالِ یار کی لذت سے ٹوٹتا ہے بدن
پھر آج شب ترے قدموں کی چاپ کے ہمراہ
سنائی دی ہے دلِ نامراد کی دھڑکن
یہ ظلم دیکھ کہ تُو جانِ شاعری ہے مگر
مری غزل میں ترا نام بھی ہے جرمِ سخن
امیرِ شہر غریبوں کو لُوٹ لیتا ہے
کبھی بہ حیلۂ مذہب کبھی بنامِ وطن
ہوائے دہر سے دل کا چراغ کیا بجھتا
مگر فرازؔؔ سلامت ہے یار کا دامن
٭٭٭
ہم تو یوں خوش تھے کہ اک تار گریبان میں ہے
کیا خبر تھی کہ بہار اس کے بھی ارمان میں ہے
ایک ضرب اور بھی اے زندگیِ تیشہ بدست
سانس لینے کی سکت اب بھی مری جان میں ہے
میں تجھے کھو کے بھی زندہ ہوں یہ دیکھا تو نے
کس قدر حوصلہ ہارے ہوئے انسان میں ہے
فاصلے قرب کے شعلوں کو ہوا دیتے ہیں
میں ترے شہر سے دُور اور تُو مرے دھیان میں ہے
سرِ دیوار فروزاں ہے ابھی ایک چراغ
اے نسیمِ سحری! کچھ ترے امکان میں ہے
دل دھڑکنے کی صدا آتی ہے گاہے گاہے
جیسے اب بھی تری آواز مرے کان میں ہے
خلقتِ شہر کے ہر ظلم کے با وصف فرازؔؔ
ہائے وہ ہاتھ کہ اپنے ہی گریبان میں ہے
٭٭٭
خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے
وحشت کا سبب روزنِ زنداں تو نہیں ہے
مہر و مہ و انجم کو بجھا کیوں نہیں دیتے
اِک یہ بھی تو اندازِ علاجِ غمِ جاں ہے
اے چارہ گرو! درد بڑھا کیوں نہیں دیتے
منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے
مجرم ہیں اگر ہم تو سزا کیوں نہیں دیتے
رہزن ہو تو حاضر ہے متاعِ دل و جاں بھی
رہبر ہو تو منزل کا پتہ کیوں نہیں دیتے
کیا بیت گئی اب کے فرازؔؔ اہلِ چمن پر
یارانِ قفس مجھ کو صدا کیوں نہیں دیتے
٭٭٭
سُن بھی اے نغمہ سنجِ کنجِ چمن اب سماعت کا اعتبار کسے
کون سا پیرہن سلامت ہے دیجیے دعوتِ بہار کسے
جل بجھیں دردِ ہجر کی شمعیں گھل چکے نیم سوختہ پیکر
سر میں سودائے خام ہو بھی تو کیا طاقت و تابِ انتظار کسے
نقدِ جاں بھی تو نذر کر آئے اور ہم مفلسوں کے پاس تھا کیا
کون ہے اہلِ دل میں اتنا غنی اس قدر پاس طبعِ یار کسے
کاہشِ ذوق جستجو معلوم داغ ہے دل چراغ ہیں آنکھیں
ماتمِ شہرِ آرزو کیجیے فرصتِ نغمۂ قرار کسے
کون دارائے ملکِ عشق ہُوا کس کو جاگیر چشم و زلف ملی
"خونِ فرہاد، برسرِ فرہاد" قصرِ شیریں پہ اختیار کسے
حاصلِ مشرب مسیحائی سنگِ تحقیر و مرگِ رسوائی
قامت یار ہو کہ رفعتِ دار ان صلیبوں کا اعتبار کسے
٭٭٭
دل بہلتا ہے کہاں انجم و مہتاب سے بھی
اب تو ہم لوگ گئے، دیدۂ بے خواب سے بھی
رو پڑا ہوں تو کوئی بات ہی ایسی ہو گی
میں کہ واقف تھا ترے ہجر کے آداب سے بھی
کچھ تو اس آنکھ کا شیوہ ہے خفا ہو جانا
اور کچھ بھول ہوئی ہے دلِ بےتاب سے بھی
اے سمندر کی ہَوا تیرا کرم بھی معلوم
پیاس ساحل کی تو بجھتی نہیں سیلاب سے بھی
کچھ تو اُس حسن کو جانے ہے زمانہ سارا
اور کچھ بات چلی ہے مرے احباب سے بھی
دل کبھی غم کے سمندر کا شناور تھا فرازؔؔ
اب تو خوف آتا ہے اک موجۂ پایاب سے بھی
٭٭٭
وفا کے باب میں الزامِ عاشقی نہ لیا
کہ تیری بات بھی کی اور تیرا نام بھی نہ لیا
خوشا وہ لوگ کہ محرومِ التفات رہے
ترے کرم کو بہ اندازِ سادگی نہ لیا
تمہارے بعد کئی ہاتھ دل کی سمت بڑھے
ہزار شکر گریباں کو ہم نے سی نہ لیا
تمام مستی و تشنہ لبی کے ہنگامے
کسی نے سنگ اٹھایا کسی نے مینا لیا
فرازؔؔ ظلم ہے اتنی خود اعتمادی بھی
کہ رات بھی تھی اندھیری چراغ بھی نہ لیا
٭٭٭
ایسے چپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے
تیرا ملنا بھی جدائی کی گھڑی ہو جیسے
اپنے ہی سائے سے ہر گام لرز جاتا ہوں
راستے میں کوئی دیوار کھڑی ہو جیسے
کتنے ناداں ہیں ترے بھولنے والے کہ تجھے
یاد کرنے کے لئے عمر پڑی ہو جیسے
تیرے ماتھے کی شکن پہلے بھی دیکھی تھی مگر
یہ گرہ اب کہ مرے دل میں پڑی ہو جیسے
منزلیں دُور بھی ہیں منزلیں نزدیک بھی ہیں
اپنے ہی پاؤں میں زنجیر پڑی ہو جیسے
آج دل کھول کہ روئے ہیں تو یوں خوش ہیں فرازؔؔ
چند لمحوں کی یہ راحت بھی بڑی ہو جیسے
٭٭٭
کیا ایسے کم سخن سے کوئی گفتگو کرے
جو مستقل سکوت سے دل کو لہو کرے
اب تو ہمیں بھی ترکِ مراسم کا دکھ نہیں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ آغاز تُو کرے
تیرے بغیر بھی تو غنیمت ہے زندگی
خود کو گنوا کے کون تری جستجو کرے
اب تو یہ آرزو ہے کہ وہ زخم کھائیے
تا زندگی یہ دل نہ کوئی آرزو کرے
تجھ کو بھلا کے دل ہے وہ شرمندۂ نظر
اب کوئی حادثہ ہی ترے روبرو کرے
چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فرازؔؔ
دنیا تو عرضِ حال سے بے آبرو کرے
٭٭٭
ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے
کہ ہم کو دستِ زمانہ سے زخم کاری لگے
اداسیاں ہوں مسلسل تو دل نہیں روتا
کبھی کبھی ہو تو یہ کیفیت بھی پیارے لگے
بظاہر ایک ہی شب ہے فراقِ یار مگر
کوئی گزارنے بیٹھے تو عمر ساری لگے
علاج اس دلِ درد آشنا کا کیا کیجیے
کہ تیر بن کہ جسے حرف غمگساری لگے
ہمارے پاس بھی بیٹھو بس اتنا چاہتے ہیں
ہمارے ساتھ طبیعت اگر تمہاری لگے
فرازؔؔ تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ
یہ کیا ضرور وہ صورت سبھی کو پیارے لگے
٭٭٭
سو دوریوں پہ بھی مرے دل سے جدا نہ تھی
تُو میری زندگی تھی مگر بے وفا نہ تھی
دل نے ذرا سے غم کو قیامت بنا دیا
ورنہ وہ آنکھ اتنی زیادہ خفا نہ تھی
یوں دل لرز اُٹھا ہے کسی کو پکار کر
میری صدا بھی جیسے کہ میری صدا نہ تھی
برگِ خزاں جو شاخ سے ٹوٹا وہ خاک تھا
اس جاں سپردگی کے تو قابل ہوا نہ تھی
جگنو کی روشنی سے بھی کیا کیا بھڑک اُٹھی
اس شہر کی فضا کہ چراغ آشنا نہ تھی
مرہونِ آسماں جو رہے اُن کو دیکھ کر
خوش ہوں کہ میرے ہونٹوں پہ کوئی دعا نہ تھی
ہر جسم داغ داغ تھا لیکن فرازؔؔ ہم
بدنام یوں ہوئے کہ بدن پر قبا نہ تھی
٭٭٭
جو بھی دکھ یاد نہ تھا یاد آیا
آج کیا جانیے کیا یاد آیا
پھر کوئی ہاتھ ہے دل پر جیسے
پھر ترا عہدِ وفا یاد آیا
جس طرح دھند میں لپٹے ہوئے پھول
ایک اک نقش ترا یاد آیا
ایسی مجبوری کے عالم میں کوئی
یاد آیا بھی تو کیا یاد آیا
اے رفیقو سرِ منزل جا کر
کیا کوئی آبلہ پا یاد آیا
یاد آیا تھا بچھڑنا تیرا
پھر نہیں یاد کہ کیا یاد آیا
جب کوئی زخم بھرا داغ بنا
جب کوئی بھول گیا یاد آیا
یہ محبت بھی ہے کیا روگ فرازؔؔ
جس کو بھولے وہ صدا یاد آیا
٭٭٭
زخم کو پھول تو صرصر کو صبا کہتے ہیں
جانے کیا دَور ہے کیا لوگ ہیں کیا کہتے ہیں
کیا قیامت ہے کہ جن کے لئے رُک رُک کے چلے
اب وہی لوگ ہمیں آبلہ پا کہتے ہیں
کوئی بتلاؤ کہ اک عمر کا بچھڑا محبوب
اتفاقاََ کہیں مل جائے تو کیا کہتے ہیں
یہ بھی اندازِ سخن ہے کہ جفا کو تیری
غمزہ و عشوہ و انداز و ادا کہتے ہیں
جب تلک دُور ہے تُو تیری پرستش کر لیں
ہم جسے چھو نہ سکیں اُس کو خدا کہتے ہیں
کیا تعجب ہے کہ ہم اہلِ تمنا کو فرازؔؔ
وہ جو محرومِ تمنا ہیں بُرا کہتے ہیں
٭٭٭
گل ہو چراغِ مے تو سزاوارِ سنگ ہیں
مینا سرشت ہم بھی شہیدانِ رنگ ہیں
مطرب کی بے دلی ہے کہ محفل کی بے حسی
کس تیغ سے ہلاکِ نوا ہائے چنگ ہیں؟
دل خلوتِ خیال کی آرائشوں میں گم
آنکھیں نگار خانۂ ہستی پہ دنگ ہیں
تاب و تواں نہیں ہے مگر حوصلے تو دیکھ
شیشہ صفات پھر بھی حریفانِ سنگ ہیں
اے حسنِ سادہ دل تری رسوائیاں نہ ہوں
کچھ لوگ کشتۂ ہوسِ نام و ننگ ہیں
معذور ہیں تلوّنِ خاطر کو کیا کریں
ہم خود فرازؔؔ اپنی طبیعت سے تنگ ہیں
٭٭٭
وہی جنوں ہے وہی کوچۂ ملامت ہے
شکستِ دل پہ بھی عہدِ وفا سلامت ہے
یہ ہم جو باغ و بہاراں کا ذکر کرتے ہیں
تو مدعا وہ گلِ تر وہ سرو قامت ہے
بجا یہ فرصتِ ہستی مگر دلِ ناداں
نہ یاد کر کے اسے بھولنا قیامت ہے
چلی چلے یونہی رسمِ وفا و مشقِ ستم
کہ تیغِ یار و سروِ دوستاں سلامت ہے
سکوتِ بحر سے ساحل لرز رہا ہے مگر
یہ خامشی کسی طوفان کی علامت ہے
عجیب وضع کا احمد فرازؔؔ ہے شاعر
کہ دل دریدہ مگر پیرہن سلامت ہے
٭٭٭
روز کی مسافت سے چُور ہو گئے دریا
پتھروں کے سینوں پر تھک گئے سو گئے دریا
جانے کون کاٹے گا فصل لعل و گہر کی
ریتلی زمینوں میں سنگ بو گئے دریا
اے سحابِ غم کب تک یہ گریز آنکھوں سے
انتظارِ طوفان میں خشک ہو گئے دریا
چاندنی میں آتی ہے کس کو ڈھونڈے خوشبو
ساحلوں کے پھولوں کو کب سے رو گئے دریا
بجھ گئی ہیں قندیلیں خواب ہو گئے چہرے
آنکھ کے جزیروں کو پھر ڈبو گئے دریا
دل چٹان کی صورت سیلِ غم پہ ہنستا ہے
جب نہ بن پڑا کچھ بھی داغ دھو گئے دریا
زخمِ نامرادی سے ہم فرازؔؔ زندہ ہیں
دیکھنا سمندر میں غرق ہو گئے دریا
٭٭٭
تو کہ انجان ہے اس شہر کے آداب سمجھ
پھول روئے تو اسے خندۂ شاداب سمجھ
کہیں آ جائے میسر تو مقدر تیرا
ورنہ آسودگیِ دہر کو نایاب سمجھ
حسرتِ گریہ میں جو آگ ہے اشکوں میں نہیں
خشک آنکھوں کو مری چشمۂ بے آب سمجھ
موجِ دریا ہی کو آوارۂ صد شوق نہ کہہ
ریگِ ساحل کو بھی لبِ تشنۂ سیلاب سمجھ
یہ بھی وا ہے کسی مانوس کرن کی خاطر
روزنِ در کو بھی اک دیدۂ بے خواب سمجھ
اب کسے ساحلِ امید سے تکتا ہے فرازؔؔ
وہ جو ایک کشتیِ دل تھی اسے غرقاب سمجھ
٭٭٭
قرب جز داغِ جدائی نہیں دیتا کچھ بھی
تُو نہیں ہے تو دکھائی نہیں دیتا کچھ بھی
دل کے زخموں کو نہ رو، دوست کا احسان سمجھ
ورنہ وہ دستِ حنائی نہیں دیتا کچھ بھی
کیا اسی زہر کو تریاق سمجھ کر پی لیں
ناصحوں کو تو سجھائی نہیں دیتا کچھ بھی
ایسا گم ہوں تری یادوں کے بیابانوں میں
دل نہ دھڑکے تو سنائی نہیں دیتا کچھ بھی
سوچتا ہوں تو ہر اک نقش میں دنیا آباد
دیکھتا ہوں تو دکھائی نہیں دیتا کچھ بھی
یوسفِ شعر کو کس مصر میں لائے ہو فرازؔؔ
ذوقِ آشفتہ نوائی نہیں دیتا کچھ بھی
٭٭٭
یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
وہ بت ہے یا خدا دیکھا نہ جائے
یہ کن نظروں سے تُو نے آج دیکھا
کہ تیرا دیکھنا دیکھا نہ جائے
ہمیشہ کے لئے مجھ سے بچھڑ جا
یہ منظر بارہا دیکھا نہ جائے
غلط ہے جو سنا، پر آزما کر
تجھے اے بے وفا دیکھا نہ جائے
یہ محرومی نہیں پاسِ وفا ہے
کوئی تیرے سوا دیکھا نہ جائے
یہی تو آشنا بنتے ہیں آخر
کوئی نا آشنا دیکھا نہ جائے
فرازؔؔ اپنے سوا ہے کون تیرا
تجھے تجھ سے جدا دیکھا نہ جائے
٭٭٭
دل بھی بجھا ہو شام کی پرچھائیاں بھی ہوں
مر جائیے جو ایسے میں تنہائیاں بھی ہوں
آنکھوں کی سرخ لہر ہے موجِ سپردگی
یہ کیا ضرور ہے کہ اب انگڑائیاں بھی ہوں
ہر حُسنِ سادہ لوح نہ دل میں اتر سکا
کچھ تو مزاجِ یار میں گہرائیاں بھی ہوں
دنیا کے تذکرے تو طبیعت ہی لے بجھے
بات اس کی ہو تو پھر سخن آرائیاں بھی ہوں
پہلے پہل کا عشق ابھی یاد ہے فرازؔؔ
دل خود یہ چاہتا تھا کہ رسوائیاں بھی ہوں
٭٭٭
جب تری یاد کے جگنو چمکے
دیر تک آنکھ میں آنسو چمکے
سخت تاریک ہے دل کی دنیا
ایسے عالم میں اگر تُو چمکے
ہم نے دیکھا سرِ بازارِ وفا
کبھی موتی کبھی آنسو چمکے
شرط ہے شدتِ احساسِ جمال
رنگ تو رنگ ہے خوشبو چمکے
آنکھ مجبورِ تماشا ہے فرازؔؔ
ایک صورت ہے کہ ہر سُو چمکے
٭٭٭
پیام آئے ہیں اس یارِ بے وفا کے مجھے
جسے قرار نہ آیا کہیں بھلا کے مجھے
جدائیاں ہوں ایسی کہ عمر بھر نہ ملیں
فریب دو تو ذرا سلسلے بڑھا کے مجھے
نشے سے کم تو نہیں یادِ یار کا عالم
کہ لے اڑا ہے کوئی دوش پر ہوا کے مجھے
میں خود کو بھول چکا تھا مگر جہاں والے
اداس چھوڑ گے آئینہ دکھا کے مجھے
تمہارے بام سے اب کم نہیں ہے رفعتِ دار
جو دیکھنا ہو تو دیکھو ذرا نظر اٹھا کے مجھے
کھنچی ہوئی ہے مرے آنسوؤں میں اک تصویر
فرازؔؔ دیکھ رہا ہے وہ مسکرا کے مجھے
٭٭٭
بے نیازِ غمِ پیمانِ وفا ہو جانا
تم بھی اوروں کی طرح مجھ سے جدا ہو جانا
میں بھی پلکوں پہ سجا لوں گا لہو کی بوندیں
تم بھی پا بستۂ زنجیرِ حنا ہو جانا
گرچہ اب قرب کا امکاں ہے بہت کم پھر بھی
کہیں مل جائیں تو تصویر نما ہو جانا
صرف منزل کی طلب ہو تو کہاں ممکن ہے
دوسروں کے لیے خود آبلہ پا ہو جانا
خلق کی سنگ زنی میری خطاؤں کا صلہ
تم تو معصوم ہو تم دُور ذرا ہو جانا
اب مرے واسطے تریاق ہے الحاد کا زہر
تم کسی اور پجاری کے خدا ہو جانا
٭٭٭
دل میں اب طاقت کہاں خوننابہ افشانی کرے
ورنہ غم وہ زہر ہے پتھر کو بھی پانی کرے
عقل وہ ناصح کہ ہر دم لغزشِ پا کا خیال
دل وہ دیوانہ یہی چاہے کہ نادانی کرے
ہاں مجھے بھی ہو گلہ بے مہریِ حالات کا
تجھ کو آزردہ اگر میری پریشانی کرے
یہ تو اک شہرِ جنوں ہے چاک دامانو! یہاں
سب کے سب وحشی ہیں کس کو کون زندانی کرے
موسمِ گل ہے مگر بے رنگ ہے، شاخِ مژہ
کتنا شرمندہ ہمیں آنکھوں کی ویرانی کرے
ہنستے چہروں سے دلوں کے زخم پہچانے گا کون
تجھ سے بڑھ کر ظلم اپنی خندہ پیشانی کرے
ناصحوں کو کون سمجھائے نہ سمجھے گا فرازؔؔ
وہ تو سب کی بات سن لے اور من مانی کرے
٭٭٭
بے سر و ساماں تھے لیکن اتنا اندازہ نہ تھا
اِس سے پہلے شہر کے لُٹنے کا آوازہ نہ تھا
ظرفِ دل دیکھا تو آنکھیں کرب سے پتھرا گئیں
خون رونے کی تمنّا کا یہ خمیازہ نہ تھا
آ مرے پہلو میں آ اے رونقِ بزمِ خیال
لذتِ رخسار و لب کا اب تک اندازہ نہ تھا
ہم نے دیکھا ہے خزاں میں بھی تری آمد کے بعد
کونسا گل تھا کہ گلشن میں تر و تازہ نہ تھا
ہم قصیدہ خواں نہیں اُس حسن کے لیکن فرازؔؔ
اتنا کہتے ہیں رہینِ سُرمہ و غازہ نہ تھا
٭٭٭
تپتے صحراؤں پہ گرجا سرِ دریا برسا
تھی طلب کس کو مگر ابر کہاں جا برسا
کتنے طوفانوں کی حامل تھی لہو کی ایک بوند
دل میں اک لہر اٹھی آنکھ سے دریا برسا
کوئی غرقاب کوئی مائ بے آب ہُوا
ابرِ بے فیض جو برسا بھی تو کیسا برسا
چڑھتے دریاؤں میں طوفان اٹھانے والے
چند بوندیں ہی سرِ دامنِ صحرا برسا
طنز ہیں سوختہ جانوں پہ گرجتے بادل
یا تو گھنگھور گھٹائیں نہ اٹھا ، یا برسا
ابر و باراں کے خدا ، جھومتا بادل نہ سہی
آگ ہی اب سرِ گلزارِ تمنّا برسا
اپنی قسمت کہ گھٹاؤں میں بھی جلتے ہیں فرازؔؔ
اور جہاں وہ ہیں وہاں ابر کا سایہ برسا
٭٭٭
افعی کی طرح ڈسنے لگی موجِ نفس بھی
اے زہرِ غمِ یار بہت ہو چکی بس بھی
یہ حبس تو جلتی ہوئی رُت سے بھی گراں ہے
اے ٹھہرے ہوئے ابرِ کرم اب تو برس بھی
آئینِ خرابات ، معطّل ہے تو کچھ روز
اے رندِ بلا نوش و تہی جام ترس بھی
صیّاد و نگہبانِ چمن پر ہے یہ روشن
آباد ہمیں سے ہے نشیمن بھی قفس بھی
محرومیِ جاوید گنہگار نہ کر دے
بڑھ جاتی ہے کچھ ضبطِ مسلسل سے ہوس بھی
٭٭٭
گھر میں کتنا سناٹا ہے باہر کتنا شور
یا دنیا دیوانی ہے یا میرا دل ہے چور
کبھی تو آنکھوں کے گلزاروں میں بھی آ کر ناچ
دل میں کون تجھے دیکھے گا اے جنگل کے مور
یوں پھرتے ہیں گلیوں میں گھبرائے گھبرائے سے
جیسے اس بستی کے سائے بھی ہوں آدم خور
سوچ کی چنگاری بھڑکا کر کیا نادانی کی
اس لمحے سے لے کر اب تک آگ ہیں چاروں اور
چاک گریباں پھرنا کس کو خوش آتا ہے فرازؔؔ
ہم بھی اس کو بھول نہ جائیں دل پہ اگر ہو زور
٭٭٭
پھر اسی راہگزر پر شاید
ہم کبھی مل سکیں مگر شاید
جن کے ہم منتظر رہے ان کو
مل گئے اور ہمسفر شاید
جان پہچان سے بھی کیا ہو گا
پھر بھی اے دوست غور کر شاید
اجنبیت کی دھند چھٹ جائے
چمک اٹھے تری نظر شاید
زندگی بھر لہو رلائے گی
یادِ یارانِ بے خبر شاید
جو بھی بچھڑے وہ کب ملے ہیں فرازؔؔ
پھر بھی تو انتظار کر شاید
٭٭٭
اب وہ جھونکے کہاں صبا جیسے
آگ ہے شہر کی ہوا جیسے
شب سلگتی ہے دو پہر کی طرح
چاند، سورج سے جل بجھا جیسے
مدتوں بعد بھی یہ عالم ہے
آج ہی تُو جدا ہُوا جیسے
اس طرح منزلوں سے ہوں محروم
میں شریکِ سفر نہ تھا جیسے
اب بھی ویسی ہے دوریِ منزل
ساتھ چلتا ہو راستہ جیسے
اتفاقاََ بھی زندگی میں فرازؔؔ
دوست ملتے نہیں ضیا 1؎ جیسے
٭٭٭
1؎ ضیاء الدین ضیا
مستقل محرومیوں پر بھی دل تو مانا نہیں
لاکھ سمجھایا کہ اس محفل میں اب جانا نہیں
خود فریبی ہی سہی کیا کیجیے دل کا علاج
تو نظر پھیرے تو ہم سمجھیں کہ پہچانا نہیں
ایک دنیا منتظر ہے اور تیری بزم میں
اس طرح بیٹھے ہیں ہم جیسے کہیں جانا نہیں
جی میں جو آتی ہے کر گزرو کہیں ایسا نہ ہو
کل پشیماں ہو کہ کیوں دل کا کہا مانا نہیں
زندگی پر اس بڑھ کر طنز کیا ہو گا فرازؔؔ
اس کا یہ کہنا کہ تو شاعر ہے دیوانہ نہیں
٭٭٭
تو پاس بھی ہو تو دل بیقرار اپنا ہے
کہ ہم کو تیرا نہیں انتظار اپنا ہے
ملے کوئی بھی ترا ذکر چھیڑ دیتے ہیں
کہ جیسے سارا جہاں راز دار اپنا ہے
وہ دور ہو تو بجا ترکِ دوستی کا خیال
وہ سامنے ہو تو کب اختیار اپنا ہے
زمانے بھر کے دکھوں کو لگا لیا دل سے
اس آسرے پہ کہ اک غمگسار اپنا ہے
بلا سے جاں کا زیاں ہو اس اعتماد کی خیر
وفا کرے نہ کرے پھر بھی یار اپنا ہے
فرازؔؔ راحتِ جاں بھی وہی ہے کیا کیجیے
وہ جس کے ہاتھ سے سینہ فگار اپنا ہے
٭٭٭
جس سے یہ طبیعت بڑی مشکل سے لگی تھی
دیکھا تو وہ تصویر ہر اک دل سے لگی تھی
تنہائی میں روتے ہیں کہ یوں دل کو سکوں ہو
یہ چوٹ کسی صاحبِ محفل سے لگی تھی
اے دل ترے آشوب نے پھر حشر جگایا
بے درد ابھی آنکھ بھی مشکل سے لگی تھی
خلقت کا عجب حال تھا اس کوئے ستم میں
سائے کی طرح دامنِ قاتل سے لگی تھی
اترا بھی تو کب درد کا چڑھتا ہوا دریا
جب کشتیِ جاں موت کے ساحل سے لگی تھی
٭٭٭
کسی کے تذکرے بستی میں کو بکو جو ہوئے
ہمیں خموش تھے موضوعِ گفتگو جو ہوئے
نہ دل کا درد ہی کم ہے نہ آنکھ ہی نم ہے
نہ جانے کون سے ارماں تھے وہ لہو جو ہوئے
نظر اٹھائی تو گم گشتۂ تحیر تھے
ہم آئنے کی طرح تیرے رو برو جو ہوئے
ہمیں ہیں وعدۂ فردا پہ ٹالنے والے
ہمیں نے بات بدل دی بہانہ جُو جو ہوئے
فرازؔؔؔ ہو کہ وہ فرہادؔ ہو کہ ہو منصورؔ
انہیں کا نام ہے ناکامِ آرزو جو ہوئے
٭٭٭
اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم
یہ بھی بہت ہے تجھ کو اگر بھول جائیں ہم
صحرائے زندگی میں کوئی دوسرا نہ تھا
سنتے رہے ہیں آپ ہی اپنی صدائیں ہم
اس زندگی میں اتنی فراغت کسے نصیب
اتنا نہ یاد آ کہ تجھے بھول جائیں ہم
تو اتنی دل زدہ تو نہ تھی اے شبِ فراق
آ تیرے راستے میں ستارے لٹائیں ہم
وہ لوگ اب کہاں ہیں جو کہتے تھے کل فرازؔؔ
ہے ہے خدا نہ کردہ تجھے بھی رلائیں ہم
٭٭٭
اُتری تھی شہرِ گل میں کوئی آتشیں کرن
وہ روشنی ہوئی کے سلگنے لگے بدن
غارت گرِ چمن سے عقیدت تھی کس قدر
شاخوں نے خود اتار دیے اپنے پیرہن
اس انتہائے قرب نے دھندلا دیا تجھے
کچھ دور ہو کہ دیکھ سکوں تیرا بانکپن
میں بھی تو کھو چلا تھا زمانے کے شور میں
یہ اتفاق ہے کہ وہ یاد آ گئے معاً
جس کے طفیل مہر بلب ہم رہے فرازؔؔ
اس کے قصیدہ خواں ہیں سبھی اہلِ انجمن
٭٭٭
کیسی طلب اور کیا اندازے مشکل ہے تقدیر بنے
دل پر جس کا ہاتھ بھی رکھیو آخر وہ شمشیر بنے
غم کے رشتے بھی نازک تھے تم آئے اور ٹوٹ گئے
دل کا وحشی اب کیا سنبھلے اب کیا شے زنجیر بنے
اپنا لہو تیری رعنائی تاریکی اس دنیا کی
میں نے کیا کیا رنگ چنے ہیں دیکھوں کیا تصویر بنے
اپنا یہ عالم ہے خود سے بھی اپنے زخم چھپاتے ہیں
لوگوں کو یہ فکر کہ کوئی موضوع تشہیر بنے
تم نے فرازؔؔ اس عشق میں سب کچھ کھو کر بھی کیا پایا ہے
وہ بھی تو ناکامِ وفا تھے جو غالبؔ اور میرؔ بنے
٭٭٭
اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے
رسوائی سے ڈرنے والو ، بات تمہی پھیلاؤ گے
اس کا کیا ہے تم نہ سہی تو چاہنے والے اور بہت
ترکِ محبت کرنے والو !تم تنہا رہ جاؤ گے
ہجر کے ماروں کی خوش فہمی!جاگ رہے ہیں پہروں سے
جیسے یوں شب کٹ جائے گی جیسے تم آ جاؤ گے
زخمِ تمنا کا بھر جانا گویا جان سے جانا ہے
اُس کا بھُلانا سہل نہیں ہے خود کو بھی یاد آؤ گے
چھوڑو عہدِ وفا کی باتیں کیوں جھوٹے اقرار کریں
کل میں بھی شرمندہ ہوں گا کل تم بھی پچھتاؤ گے
رہنے دو یہ پند و نصیحت ہم بھی فرازؔ سے واقف ہیں
جس نے خود سو زخم سہے ہوں اُس کو کیا سمجھاؤ گے
٭٭٭
چند لمحوں کے لیے تُو نے مسیحائی کی
پھر وہی میں ہوں وہی عمر ہے تنہائی کی
کس پہ گزری نہ شبِ ہجر ، قیامت کی طرح
فرق اتنا ہے کہ ہم نے سخن آرائی کی
اپنی باہوں میں سمٹ آئی ہے وہ قوسِ قزح
لوگ تصویر ہی کھینچا کیے انگڑائی کی
غیرتِ عشق بجا ،طعنۂ یاراں تسلیم
بات کرتے ہیں مگر سب اُسی ہرجائی کی
اُن کو بھولے ہیں تو کچھ اور پریشاں ہیں فرازؔ
اپنی دانست میں دل نے بڑی دانائی کی
٭٭٭
زعم ایسا کیا کہ لطفِ دوست ٹھکرانا پڑے
یہ طبیعت ہے تو شاید جاں سے بھی جانا پڑے
خانہ ویرانی تو ہوتی ہے مگر ایسی کہاں
اپنی آنکھوں سے خود اپنا گھر نہ پہچانا پڑے
رسم چل نکلی عجب اب میکدے کی خیر ہو
ہے وہی جمشید جس کے ہاتھ پیمانہ پڑے
سوچ لو اُس بزم سے اٹھنے سے پہلے سوچ لو
یہ نہ ہو پھر دل کے ہاتھوں لوٹ کر آنا پڑے
لے چلے ہیں حضرت ناصح مجھے جس راہ سے
لطف جب آئے اُدھر بھی کوئے جانانہ پڑے
غم ہی ایسا تھا کہ دل شَق ہو گیا ورنہ فرازؔ
کیسے کیسے حادثے ہنس ہنس کے سہہ جانا پڑے
٭٭٭
اب فرصت ہے نہ احساس ہے غم سے اپنے
ورنہ ہم روز ہی ملتے تھے صنم سے اپنے
دل نہ مانا کہ کسی اور کے راستے پہ چلیں
لاکھ گمراہ ہوئے نقشِ قدم سے اپنے
جی چکے ہم جو یہی شوق کی رسوائی ہے
تم سے بیگانے ہوئے جاتے ہیں ہم سے اپنے
ہم نہیں پھر بھی تو آباد ہے محفل اُن کی
ہم سمجھتے تھے کہ رونق ہے تو دم سے اپنے
میرے دامن کے مقدر میں ہے خالی رہنا
آپ شرمندہ نہ ہوں دستِ کرم سے اپنے
رہ چکے مرگِ تمنا پہ بھی اک عمر فرازؔ
اب جو زندہ ہیں تو شعروں کے بھرم سے اپنے
٭٭٭
تم بھی خفا ہو لوگ بھی برہم ہیں دوستو
اب ہو چلا یقیں کہ بُرے ہم ہیں دوستو
کس کو ہمارے حال سے نسبت ہے ، کیا کہیں
آنکھیں تو دشمنوں کی بھی پُر نم ہیں دوستو
اپنے سوا ہمارے نہ ہونے کا غم کسے
اپنی تلاش میں تو ہمیں ہم ہیں دوستو
کچھ آج شام ہی سے ہے دل بھی بجھا بجھا
کچھ شہر کے چراغ بھی مدھم ہیں دوستو
اِس شہرِ آرزو سے بھی باہر نکل چلو
اب دل کی رونقیں بھی کوئی دم ہیں دوستو
سب کچھ سہی فرازؔ پر اتنا ضرور ہے
دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہیں دوستو
٭٭٭
تو کہاں تھا زندگی کے روز و شب آنکھوں میں تھے
آج یاد آیا کہ آنسو بے سبب آنکھوں میں تھے
رات بھر تاروں کی صورت جاگتے رہنا ہمیں
صبح دم کہنا کہ کیا کیا خوابِ شب آنکھوں میں تھے
تیری یادوں کی مہک ہر درد کو بِسرا گئی
ورنہ ترے دکھ بھی اے شہرِ طرب آنکھوں میں تھے
اب تلک جن کی جدائی کا قَلق جی کو نہ تھا
آج تُو بچھڑا تو وہ بھی سب کے سب آنکھوں میں تھے
اب تو ضبطِ غم نے پتھر کر دیا ورنہ فرازؔ
دیکھتا کوئی کہ دل کے زخم جب آنکھوں میں تھے
٭٭٭
لمحے وفورِ شوق کے ایسے نہ آئے تھے
یوں چپ ہیں ترے پاس ہی جیسے نہ آئے تھے
ساقی شکستِ جام سے چہروں پہ دیکھنا
وہ رنگ بھی کہ شعلۂ مے سے نہ آئے تھے
دل پر لگی خراش تو چہرے شفق ہوئے
اب تک تو زخم راس کچھ ایسے نہ آئے تھے
پہلے بھی روئے ہیں مگر اب کے وہ کرب ہے
آنسو کبھی بھی آنکھوں میں جیسے نہ آئے تھے
جب صبح ہو چکی ہے تو کیا سوچنا فرازؔ
وہ رات کیوں نہ آئے تھے کیسے نہ آئے تھے
٭٭٭
اسی خیال میں تاروں کو رات بھر دیکھوں
کہ تجھ کو صبحِ قیامت سے پیشتر دیکھوں
اِس اک چراغ کی لَو چبھ رہی ہے آنکھوں میں
تمام شہر ہو روشن تو اپنا گھر دیکھوں
مجھے خود اپنی طبیعت پہ اعتماد نہیں
خدا کرے کہ تجھے اب نہ عمر بھر دیکھوں
صدائے غولِ بیاباں نہ ہو یہ آوازہ
مرا وجود ہے پتّھر جو لوٹ کر دیکھوں
نظر عذاب ہے پاؤں میں ہو اگر زنجیر
فضا کے رنگ کو دیکھوں کہ بال و پر دیکھوں
جدا سہی مری منزل بچھڑ نہیں سکتا
میں کس طرح تجھے اوروں کا ہمسفر دیکھوں
وہ لب فرازؔ اگر کر سکیں مسیحائی
بقولِ دردؔ میں سو سو طرح سے مر دیکھوں
٭٭٭
منتظر کب سے تحیرّ ہے تری تقریر کا
بات کر،تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا
رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اڑ گئی
خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا
کیسے پایا تھا تجھے،پھر کس طرح کھویا تجھے
مجھ سا منکر بھی تو قائل ہو گیا تقدیر کا
جس طرح بادل کا سایہ پیاس بھڑکاتا رہے
میں نے یہ عالم بھی دیکھا ہے تری تصویر کا
جانے کس عالم میں تو بچھڑا کہ ہے تیرے بغیر
آج تک ہر نقش فریادی مری تحریر کا
عشق میں سر پھوڑنا بھی کیا کہ یہ بے مہر لوگ
جوئے خوں کو نام دے دیتے ہیں جوئے شِیر کا
جس کو بھی چاہا اُسے شدت سے چاہا ہے فرازؔ
سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا
٭٭٭
اہلِ غم جاتے ہیں ناامید تیرے شہر سے
جب نہیں تجھ سے تو کیا امید تیرے شہر سے
دیدنی تھی سادگی ان کی جو رکھتے تھے کبھی
اے وفا نا آشنا امید تیرے شہر سے
تیرے دیوانوں کے حق میں زہرِ قاتل ہو گئی
نا امیدی سے سوا امید تیرے شہر سے
پابجولاں دل گرفتہ پھر رہے ہیں کُو بکو
ہم جو رکھتے تھے سوا امید تیرے شہر سے
تُو تو بے پرواہی تھا اب لوگ بھی پتھر ہوئے
یا ہمیں تجھ سے تھی یا امید تیرے شہر سے
راستے کیا کیا چمک جاتے ہیں اے جانِ فرازؔ
جب بھی ہوتی ہے ذرا امید تیرے شہر سے
٭٭٭
آنکھوں میں چبھ رہے ہیں در و بام کے چراغ
جب دل ہی بجھ گیا ہو کس کام کے چراغ
کیا شام تھی کہ جب ترے آنے کی آس تھی
اب تک جلا رہے ہیں ترے نام کے چراغ
شاید کبھی یہ عرصۂ یک شب نہ کٹ سکے
تو صبح کی ہوا ہے تو ہم شام کے چراغ
اِس تیرگی میں لغزشِ پا بھی ہے خود کشی
اے رہ نوردِ شوق ذرا تھام کے چراغ
ہم کیا بجھے کہ جاتی رہی یادِ رفتگاں
شاید ہمیں تھے گردشِ ایّام کے چراغ
ہم درخورِ ہوائے ستم بھی نہیں فرازؔ
جیسے مزار پر کسی گمنام کے چراغ
٭٭٭
نظر کی دھوپ میں سائے گھلے ہیں شب کی طرح
میں کب اداس نہیں تھا مگر نہ اب کی طرح
پھر آج شہرِ تمنا کی رہگزاروں سے
گز ر رہے ہیں کئی لوگ روز و شب کی طرح
تجھے تو میں نے بڑی آرزو سے چاہا تھا
یہ کیا کہ چھوڑ چلا تو بھی اور سب کی طرح
فسردگی ہے مگر وجہِ غم نہیں معلوم
کہ دل پہ بھی بوجھ سا ہے رنجِ بے سبب کی طرح
کِھلے تو اب کے بھی گلشن میں پھول ہیں لیکن
نہ میرے زخم کی صورت نہ تیرے لب کی طرح
٭٭٭
ہم کیا کہ اسی سوچ میں بادِ چمنی تھی
وہ گل کی چٹک تھی کہ تری کم سخنی تھی
آنسو کی وہ اک بوند جو آنکھوں سے نہ ٹپکی
آئینۂ دل کے لیے ہیرے کی کَنی تھی
پیمانے کو ہم منہ سے لگاتے نہ لگاتے
ساقی کی ملاقات ہی توبہ شکنی تھی
اب صورتِ دیوار ہیں چپ چاپ کہ تجھ سے
کچھ اور تعلق نہ سہی ہم سخنی تھی
یہ جاں جو کڑی دھوپ میں جلتی رہی برسوں
اوروں کے لیے سایۂ دیوار بنی تھی
دنیا سے بچھڑتے کہ فرازؔ اُن کو بھلاتے
ہر حال میں اپنے لیے پیماں شکنی تھی
٭٭٭
تجھ سے مل کر بھی کچھ خفا ہیں ہم
بے مروّت نہیں تو کیا ہیں ہم
ہم غمِ کارواں میں بیٹھے تھے
لوگ سمجھے شکستہ پا ہیں ہم
اس طرح سے ہمیں رقیب ملے
جیسے مدت کے آشنا ہیں ہم
راکھ ہیں ہم اگر یہ آگ بجھی
جز غمِ دوست اور کیا ہیں ہم
خود کو سنتے ہیں اس طرح جیسے
وقت کی آخری صدا ہیں ہم
کیوں زمانے کو دیں فرازؔ الزام
وہ نہیں ہیں تو بے وفا ہیں ہم
٭٭٭
تجھے اداس کیا خود بھی سوگوار ہوئے
ہم آپ اپنی محبت سے شرمسار ہوئے
بلا کی رَو تھی ، ندیمانِ آبلہ پا کو
پلٹ کے دیکھنا چاہا کہ خود غبار ہوئے
گلہ اُسی کا کیا جس سے تجھ پہ حرف آیا
وگرنہ یوں تو ستم ہم پہ بے شمار ہوئے
یہ انتقام بھی لینا تھا زندگی کو ابھی
جو لوگ دشمنِ جاں تھے وہ غمگسار ہوئے
ہزار بار کیا ترکِ دوستی کا خیال
مگر فرازؔ پشیمان ہر اک بار ہوئے
٭٭٭
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
ڈھونڈ اُجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی
یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں
غمِ دنیا بھی غمِ یار میں شامل کر لو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
تُو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا
دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں
آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
اب نہ وہ میں،نہ وہ تُو ہے،نہ وہ ماضی ہے فرازؔ
جیسے دو شخص تمنّا کے سرابوں میں ملیں
٭٭٭
اچھا تھا اگر زخم نہ بھرتے کوئی دن اور
اُس کوئے ملامت میں گزرتے کوئی دن اور
راتوں کو تری یادوں کے خورشید اُبھرتے
آنکھوں میں ستارے سے اترتے کوئی دن اور
ہم نے تجھے دیکھا تو کسی کو بھی نہ دیکھا
اے کاش ترے بعد گزرتے کوئی دن اور
راحت تھی بہت رنج میں ہم غم طلبوں کو
تم اور بگڑتے تو سنورتے کوئی دن اور
گو ترکِ تعلق تھا مگر جاں پہ بنی تھی
مرتے جو تجھے یاد نہ کرتے کوئی دن اور
اس شہرِ تمنا سے فرازؔ آئے ہی کیوں تھے
یہ حال اگر تھا تو ٹھہرتے کوئی دن اور
٭٭٭
لب و تشنہ و نومید ہیں ہم اب کے برس بھی
اے ٹھہرے ہوئے ابرِ کرم اب کے برس بھی
کچھ بھی ہو گلستاں میں مگر کنجِ چمن سے
ہیں دور بہاروں کے قدم اب کے برس بھی
اے شیخِ کرم ! دیکھ کہ با وصفِ چراغاں
تیرہ ہیں در و بامِ حرم اب کے برس بھی
اے دل ز َدَگان ! خیر مناؤ کہ ہیں نازاں
پندارِ خدائی پہ صنم ، اب کے برس بھی
پہلے بھی قیامت تھی ستم کاریِ ایّام
ہیں کشتۂ غم،کشتۂ غم اب کے برس بھی
لہرائیں گے ہونٹوں پہ دکھاوے کے تبسم
ہو گا یہ نظارہ کوئی دم اب کے برس بھی
ہو جائے گا ہر زخمِ کہن پھر سے نمایاں
روئے گا لہو دیدۂ نم اب کے برس بھی
پہلے کی طرح ہوں گے تہی جامِ سفالیں
چھلکے گا ہر اک ساغرِ جم اب کے برس بھی
مقتل میں نظر آئیں گے پا بستۂ زنجیر
اہلِ نظر و اہلِ قلم ، اب کے برس بھی
٭٭٭
کون آتا ہے مگر آس لگائے رکھنا
عمر بھر درد کی شمعوں کو جلائے رکھنا
دوست پرسش پہ مصر اور ہمارا شیوہ
اپنے احوال کو خود سے بھی چھپائے رکھنا
ہم کو اُس نام نے مارا کہ جہاں بھی جائیں
خلقتِ شہر نے طوفان اٹھائے رکھنا
اِس چکا چوند میں آنکھیں بھی گنوا بیٹھو گے
اُس کے ہوتے ہوئے پلکوں کو جھکائے رکھنا
٭٭٭
ترس رہا ہوں مگر تو نظر نہ آ مجھ کو
کہ خود جدا ہے تو مجھ سے نہ کر جدا مجھ کو
وہ کپکپاتے ہوئے ہونٹ میرے شانے پر
وہ خواب سانپ کی مانند ڈس گیا مجھ کو
چٹخ اٹھا ہوں سلگتی چٹان کی صورت
پکار اب تو مرے دیر آشنا مجھ کو
تجھے تراش کے میں سخت منفعل ہوں کہ لوگ
تجھے صنم تو سمجھنے لگے خدا مجھ کو
یہ اور بات کہ اکثر دمک اٹھا چہرہ
کبھی کبھی یہی شعلہ بجھا گیا مجھ کو
یہ قربتیں ہی تو وجہِ فراق ٹھہری ہیں
بہت عزیز ہیں یارانِ بے وفا مجھ کو
ستم تو یہ ہے کہ ظالم سخن شناس نہیں
وہ ایک شخص کہ شاعر بنا گیا مجھ کو
اُسے فرازؔ اگر دکھ نہ تھا بچھڑنے کا
تو کیوں وہ دور تلک دیکھتا رہا مجھ کو
٭٭٭
کسی طرح تو بیانِ حرفِ آرزو کرتے
جو لب سِلے تھے تو آنکھوں سے گفتگو کرتے
بس اک نعرۂ مستاں دریدہ پیرہنو
کہاں کے طوق و سلاسل بس ایک ہُو کرتے
کبھی تو ہم سے بھی اے ساکنانِ شہرِ خیال
تھکے تھکے ہوئے لہجے میں گفتگو کرتے
گُلوں سے جسم تھے شاخِ صلیب پر لرزاں
تو کس نظر سے تماشائے رنگ و بُو کرتے
بہت دنوں سے ہے بے آب چشمِ خوں بستہ
وگرنہ ہم بھی چراغاں کنارِ جُو کرتے
یہ قرب مرگِ وفا ہے اگر خبر ہوتی
تو ہم بھی تجھ سے بچھڑنے کی آرزو کرتے
چمن پرست نہ ہوتے تو اے نسیمِ بہار
مثالِ برگِ خزاں تیری جستجو کرتے
ہزار کوس پہ تُو اور یہ شام غربت کی
عجیب حال تھا پر کس سے گفتگو کرتے
فرازؔ مصرعۂ آتش پہ کیا غزل کہتے
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے
٭٭٭
میں کہ پر شور سمندر تھے مرے پاؤں میں
اب کہ ڈوبا ہوں تو سوکھے ہوئے دریاؤں میں
نامرادی کا یہ عالم ہے کہ اب یاد نہیں
تُو بھی شامل تھا کبھی میری تمناؤں میں
دن کے ڈھلتے ہی اجڑ جاتی ہیں آنکھیں ایسے
جس طرح شام کو بازار کسی گاؤں میں
چاکِ دل سی کہ نہ سی،زخم کی توہین نہ کر!
ایسے قاتل تو نہ تھے میرے مسیحاؤں میں
ذکر اس غیرتِ مریم کا جب آتا ہے فرازؔ
گھنٹیاں بجتی ہیں لفظوں کے کلیساؤں میں
٭٭٭
کروں نہ یاد، مگر کس طرح بھلاؤں اُسے
غزل بہانہ کروں اور گنگناؤں اسے
وہ خار خار ہے شاخِ گلاب کی مانند
میں زخم زخم ہوں پھر بھی گلے لگاؤں اسے
یہ لوگ تذکرے کرتے ہیں اپنے لوگوں کے
میں کیسے بات کروں، اب کہاں سے لاؤں اسے
مگر وہ زود فراموش، زود رنج بھی ہے
کہ روٹھ جائے، اگر یاد کچھ دلاؤں اسے
وہی جو دولتِ دل ہے وہی جو راحتِ جاں
تمہاری بات پہ اے ناصحو! گنواؤں اسے
جو ہمسفر سرِ منزل بچھڑ رہا ہے فرازؔؔ
عجب نہیں ہے اگر یاد بھی نہ آؤں اسے
٭٭٭
ٹائپنگ: محمد اعظم بلال
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید