سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق، دل کی وہی تنہائی
اک لحظہ بہے آنسو، اک لحظہ ہنسی آئی
سیکھے ہیں نئے دل نے اندازِ شکیبائی
اس موسمِ گل ہی سے بہکے نہیں دیوانے
ساتھ ابرِ بہاراں کے وہ زلف بھی لہرائی
ہر دردِ محبّت سے الجھا ہے غمِ ہستی
کیا کیا ہمیں یاد آیا جب یاد تری آئی
چرکے وہ دیے دل کو محرومی قسمت نے
اب ہجر بھی تنہائی اور وصل بھی تنہائی
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبّت کے
آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی
یہ بزمِ محبّت ہے، اس بزمِ محبّت میں
دیوانے بھی شیدائی، فرزانے بھی شیدائی
٭٭٭
تو نے کچھ بھی نہ کہا ہو جیسے
میرے ہی دل کی صدا ہو جیسے
یوں تری یاد سے جی گھبرایا
تو مجھے بھُول گیا ہو جیسے
اس طرح تجھ سے کئے ہیں شکوے
مجھ کو اپنے سے گلا ہو جیسے
یوں ہر اک نقش پہ جھکتی ہے جبیں
تیرا نقشِ کفِ پا ہو جیسے
تیرے ہونٹوں کی خفی سی لرزش
اِک حسیں شعر ہوا ہو جیسے
٭٭٭
غم نصیبوں کو کسی نے تو پکارا ہوگا
اس بھری بزم میں کوئی تو ہمارا ہوگا
آج کس یاد سے چمکی تری چشمِ پرُ نم
جانے یہ کس کے مقدّر کا ستارا ہو گا
جانے اب حُسن لٹائے گا کہاں دولتِ درد
جانے اب کس کو غمِ عشق کا یارا ہوگا
تیرے چھُپنے سے چھپیں گی نہ ہماری یادیں
تو جہاں ہوگا وہیں ذکر ہمارا ہوگا
یوں جدائی تو گوارا تھی ، یہ معلوم نہ تھا
تجھ سے یوں مل کے بچھڑنا بھی گوارا ہوگا
چھوڑ کر آئے تھے جب شہرِ تمنّا ہم لوگ
مدتوں راہگذاروں نے پکارا ہوگا
مسکراتا ہے تو اک آہ نکل جاتی ہے
یہ تبسّم بھی کوئی درد کا مارا ہوگا
٭٭٭
یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیبا نہ کر سکو
ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو
شاید تمھیں بھی چین نہ آئے مرے بغیر
شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کر سکو
کیا جانے پھر ستم بھی میسر ہو یا نہ ہو
کیا جانے یہ کرم بھی کرو یا نہ کر سکو
اللہ کرے جہاں کو مری یاد بھول جائے
اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو
میرے سوا کسی کی نہ ہو تم کو جستجو
میرے سوا کسی کی تمنا نہ کر سکو
٭٭٭
یہ رنگینیِ نوبہار، اللہ اللہ
یہ جامِ مے خوشگوار، اللہ اللہ
اُدھر ہیں نظر میں نظارے چمن کے
اِدھر رُوبرو رُوئے یار، اللہ اللہ
اُدھر جلوۂ مضطرب، توبہ توبہ
اِدھر یہ دلِ بے قرار، اللہ اللہ
وہ لب ہیں کہ ہے وجد میں موجِ کوثر
وہ زلفیں ہیں یا خلد زار، اللہ اللہ
میں اِس حالتِ ہوش میں مست و بیخود
وہ مستی میں بھی ہوشیار، اللہ اللہ
٭٭٭
رہا کروٹیں ہی بدلتا زمانہ
وہی میں، وہی در، وہی آستانہ
وہی تُو، وہی شانِ بے التفاتی
وہی میں، وہی جذبۂ والہانہ
ترے حسن کی دلبری غیر فانی
مرے عشق کی بے کلی جاودانہ
یہی ہے جو ذوقِ اسیری تو اِک دن
قفس کو بھی شرمائے گا آشیانہ
زباں تھک گئی داستاں کہتے کہتے
نگاہیں ابھی کہہ رہی ہیں فسانہ
٭٭٭
وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ
کہاں میں کہاں یہ مقام، اللہ اللہ
یہ رُوئے درخشاں، یہ زلفوں کے سائے
یہ ہنگامۂ صبح و شام، اللہ اللہ
یہ جلووں کی تابانیوں کا تسلسل
یہ ذوقِ نظر کا دوام، اللہ اللہ
وہ سہما ہوا آنسوؤں کا تلاطُم
وہ آبِ رواں بے خرام، اللہ اللہ
شبِ وصل کی ساعتیں مختصر سی
تمناؤں کا اژدحام، اللہ اللہ
وہ ضبطِ سُخن میں لبوں کی خموشی
نظر کا وہ لطفِ کلام اللہ اللہ
٭٭٭
علاجِ دردِ دلِ سوگوار ہو نہ سکا
وہ غم نواز رہا، غم گُسار ہو نہ سکا
بہت دکھائے نگہ نے طلسمِ رنگینی
خزاں پہ مجھ کو گمانِ بہار ہو نہ سکا
جنوں نے لاکھ کیا چاک جیب و داماں کو
یہ رازِ عشق مگر آشکار ہو نہ سکا
عطا کیا جسے تُو نے غمِ محبتِ دوست
وہ دل اسیرِ غمِ روزگار ہو نہ سکا
وہ مجھ پہ لطفِ مکرّر کے منتظر ہی سہی
یہ ذکر مجھ سے مگر بار بار ہو نہ سکا
٭٭٭
مانا کہ جائیں ہم ترے در سے مگر کہاں
بے خانماں ہیں اپنے ٹھکانے کو گھر کہاں
اس نقشِ پا کو سجدے کیے جا رہا ہوں میں
لے جائے دیکھیے یہ ترا رہگزر کہاں
فرقت نے تیری چھین لیا لطفِ زندگی
وہ رات دن کہاں ہیں وہ شام و سحر کہاں
اٹھتی ہے ہوک سی دلِ امیدوار میں
پڑتی ہے بزم میں تری ترچھی نظر کہاں
اِس حُسن کا اثر مری بے تابیوں سے پوچھ!
اے میرے بے خبر تجھے اپنی خبر کہاں
اس کے بغیر محفلِ رنداں اداس ہے
دیکھو تو ہے تبسّمِ شوریدہ سر کہاں
٭٭٭
تری محفل میں سوزِ جاودانی لے کے آیا ہوں
محبت کی متاعِ غیر فانی لے کے آیا ہوں
میں آیا ہوں فسونِ جذبۂ دل آزمانے کو
نگاہِ شوق کی جادو بیانی لے کے آیا ہوں
میں آیا ہوں سنانے قصۂ غم سرد آہوں میں
ڈھلکتے آنسوؤں کی بے زبانی لے کے آیا ہوں
میں تحفہ لے کے آیا ہوں تمناؤں کے پھولوں کا
لٹانے کو بہارِ زندگانی لے کے آیا ہوں
بیاں جس کو کیا کرتی تھیں میری ناتواں نظریں
وہی دردِ محبت کی کہانی لے کے آیا ہوں
اگرچہ عالمِ فانی کی ہر اِک چیز فانی ہے
مگر میں ہوں کہ عشقِ جاودانی لے کے آیا ہوں
٭٭٭
ہوں گے آغوش میں وہ اور خُمِ صہبا ہو گا
میرا گھر وصل کی شب خُلد کا نقشہ ہو گا
تو نے کھائی تو قسم ضبطِ محبت کی مگر
وہ کہیں بزم میں آ جائیں تو پھر کیا ہو گا
مضطرب ہو کے جو اٹھتا ہے تری رہ کا غبار
کوئی بے تاب تہِ خاک تڑپتا ہو گا
حسنِ گلزار ہے تحسینِ نگہ کا محتاج
آپ جس پھول کو توڑیں وہی رعنا ہو گا
وحشت آموزِ تمنّا ہے تری خوئے حجاب
حسن رسوا نہ سہی عشق تو رسوا ہو گا
ہم سمجھتے تھے تبسّم بھی کوئی صوفی ہے
کیا خبر تھی کہ وہ مے نوش بلا کا ہو گا
٭٭٭
نگاہِ لطف وہ مجھ پر وفا شعار کرے
جو ایک بار کہوں تو ہزار بار کرے
بنا رہے ہیں گلستاں میں طائرانِ بہار
وہ آشیاں کہ قفس کو بھی شرمسار کرے
نگاہِ ناز سے مستی بکھیرنے والے
تری نگاہ دو عالم کو مے گسار کرے
جسے جہان میں سدا اشک بار رہنا ہو
ترے فسونِ تبسّم کا اعتبار کرے
خرد مندی جنونِ عشق کا حاصل نہ بن جائے
یہ طوفانِ رواں تھم کر کہیں ساحل نہ بن جائے
نظر کی بے زبانی داستانِ دل نہ بن جائے
یہ خاموشی مری ہنگامۂ محفل نہ بن جائے
الجھ کر رہ نہ جائے کہکشاں ہی میں نظر میری
نشانِ جادۂ منزل، کہیں منزل نہ بن جائے
میں ہر دشواریِ انجام کو آساں سمجھتا ہوں
یہ آسانی مری یا رب کہیں مشکل نہ بن جائے
٭٭٭
وصل، فردوسِ چشم و گوش سہی
روح کو کس طرح قرار آئے
تم گلستانِ آرزو تو بنو
پھر خزاں آئے یا بہار آئے
وہ نہ سمجھے دلِ حزیں کی بات
اشک آنکھوں میں بار بار آئے
ہے زمانے میں اعتبارِ وفا
کاش تم کو بھی اعتبار آئے
٭٭٭
تیرے دم سے ہیں غم کدے آباد
شاد باش اے غمِ محبت شاد
ایک عالم ہے خانماں برباد
کیا فراواں ہے دولتِ بیدار
ہے وہی شانِ نخوّتِ پرویز
وائے ناکامی غمِ فرہاد
سرنگوں ہیں نوا گرانِ قفس
اوج پر ہے ستارۂ صیّاد
تیرے عہدِ شباب سے ظالم
ہوئیں لاکھوں جوانیاں برباد
میں تہی دستِ حسرتِ دیدار
شہر کا گوشہ گوشہ حُسن آباد
آہ کرتے جہاں نہیں بنتی
کیا سُنے گا وہاں کوئی فریاد
عشق گویند کارِ دشوار است
میکنم عشق ہر چہ بادا باد
پھر تبسّم بہار کے دن آئے
پھر ستانے لگی کسی کی یاد
٭٭٭
دن زندگی کے کیسے کٹیں گے بہار میں
تم اختیار میں ہو نہ دل اختیار میں
صبحِ وصال ہے نہ وہ اب شامِ انتظار
اب کیا رہا ہے گردشِ لیل و نہار میں
وہ نازنین ہے محوِ تماشائے صحنِ گل
یا اور اک بہار کھلی ہے بہار میں
اِک مے گسار جام بکف ایک تشنہ کام
کیا وسعتیں ہیں بخششِ پروردگار میں
دنیا سے بے خبر، غمِ دنیا سے بے نیاز
بیٹھا ہے کوئی سایۂ دیوارِ یار میں
جن کو تری وفا نے کیا سرفرازِ دہر
وہ کھو گئے ہجومِ غمِ روزگار میں
٭٭٭
زیرِ چرخ و سرزمیں نہ رہے
مجھ کو کہتے ہیں تو کہیں نہ رہے
آج سجدوں کی انتہا کر دوں
شوق مٹ جائے یا جبیں نہ رہے
ہم اٹھائیں نہ گر ترے صدمے
آسماں کے تلے زمیں نہ رہے
عشرتِ وصل کے ہوں ہم قائل
آج یہ دل اگر حزیں نہ رہے
خاکساروں کا ذکر ہی کیا ہے
اس زمیں پر فلک نشیں نہ رہے
رہتی ہے کچھ روز اور بزمِ نشاط
مگر افسوس خود ہمیں نہ رہے
اس نہیں نے مجھے کیا برباد
کاش یہ آپ کی نہیں نہ رہے
جب سے دل بجھ گیا مرا مطرب
تیرے نغمے بھی دلنشیں نہ رہے
٭٭٭
بہت مضطر، بہت درد آشنا دل
عجب آفت کا ٹکڑا ہے مرا دل
وفا کیا اور وفا کا تذکرہ کیا
تمہارے سامنے جب رکھ دیا دل
یہ دل میں تُو نے پیکاں رکھ دیا ہے
کہ دل میں رکھ دیا اِک دوسرا دل
ہم اپنے دل کی حالت سن کے روئے
ہمارا حال سن کر رو دیا دل
یہ بجلی ہے کہ شعلہ ہے کہ سیماب
مرے آغوش میں ہے کیا بلا دل
ہر اِک سے ہے وفا کی تم کو امّید
ہر اِک دل کو سمجھتے ہو مرا دل
اسے جنبش نہیں ہوتی فغاں سے
خدا نے کیا بنایا ہے ترا دل
تبسّم ہے عجب واژونیِ بخت
میں ہنستا ہوں تو روتا ہے مرا دل
٭٭٭
لگانا دل کسی نامہرباں سے
زمیں کی دوستی ہے آسماں سے
نظر آتے تھے تم تو بے زباں سے
یہ باتیں آ گئیں تم کو کہاں سے
نظر آتے ہیں وہ کچھ مہرباں سے
گرے گی کوئی بجلی آسماں سے
یہ ننگِ عجز ہے اک بار رکھ کر
اٹھانا سر کسی کے آستاں سے
وصالِ جاودانی چاہتا ہوں
مگر وہ زندگی لاؤں کہاں سے
سنا دوں داستانِ غم سنا دوں
اگر تُو سن سکے میری زباں سے
اُنہیں باتوں سے جو بیتاب کر دے
الٰہی وہ زباں لاؤں کہاں سے
کریں کیا ان سے اظہارِ محبت
وہ سن لیں گے ہمارے رازداں سے
٭٭٭
ہو وصل کی شب یا شبِ فرقت، نہیں جاتی
جاتی نہیں بے تابیِ الفت، نہیں جاتی
میخانے میں آ کر بھی وہی توبہ کی تلقین
واعظ یہ تری وعظ کی عادت نہیں جاتی
یاں گردشِ ساغر ہے وہاں گردشِ دوراں
افلاک کی رندوں سے رقابت نہیں جاتی
ہر روز تبسّم ہے تجھے ہجر کا رونا
کم بخت تری شومیِ قسمت نہیں جاتی
٭٭٭
محبت سے جب آشنا ہو گئے ہم
نگہ کی کسی نے فنا ہو گئے ہم
ہے مرنا یہی موت کہتے ہیں اس کو
کہ دنیا میں تجھ سے جدا ہو گئے ہم
یہی انتہا ہے افرازیوں کی
کہ مر کر تری خاکِ پا ہو گئے ہم
ازل سے ملا ہم کو وہ سازِ ہستی
کہ اِک آہ میں بے صدا ہو گئے ہم
ملی روح کو اک نئی زندگانی
ترے عشق میں کیا سے کیا ہو گئے ہم
یہی دل تھا دنیا میں دولت ہماری
تمہیں دے دیا، بے نوا ہو گئے ہم
تبسّم ہے افسردگی کا یہ عالم
کہ سمجھے کوئی پارسا ہو گئے ہم
٭٭٭
جان دے کر وفا میں نام کیا
زندگی بھر میں ایک کام کیا
بے نقاب آ گیا سرِ محفل
یار نے آج قتلِ عام کیا
آسماں بھی اسے ستا نہ سکا
تو نے جس دل کو شاد کام کیا
عشق بازی تھا کام رندوں کا
تو نے اس خاص شے کو عام کیا
اب کے یونہی گزر گئی برسات
ہم نے خالی نہ ایک جام کیا
٭٭٭
بہکی بہکی سی چتونیں آنکھ میں انتظار سا
آج یہ کس کی یاد میں حُسن ہے سوگوار سا
سہمے ہوئے سے سانس میں آہ سی اِک دبی ہوئی
لب پہ خفی سی لرزشیں بات میں اضطرار سا
لچکی ہوئی نزاکتیں اور بھی غم سے مضمحل
سمٹی ہوئی نگاہ میں اور بھی اختصار سا
شانِ غرور میں نہاں، رنگِ نیازِ التجا
طرزِ ادا میں بے دلی، ناز میں انکسار سا
٭٭٭
قائم تھی یوں تو درد کی محفل جگہ جگہ
ہم ہی سنا سکے نہ غمِ دل جگہ جگہ
طوفانِ موج خیز کے خُوگر، سنبھل سنبھل
حائل ہیں تیری راہ میں ساحل جگہ جگہ
دل ہر مقامِ شوق سے آگے نکل گیا
دامن کو کھینچتی رہی منزل جگہ جگہ
ہر نقشِ پا تھا میرے لیے تیرا آستان
آئی نظر مجھے تری محفل جگہ جگہ
شانِ کرم کو عذرِ طلب بھی تھا ناگوار
پھیلا کے ہاتھ رہ گیا سائل جگہ جگہ
ہر اِک قدم پہ ٹھوکریں کھانے کے باوجود
کھائے فریبِ وعدۂ باطل جگہ جگہ
ہے جوشِ گریہ، موجِ تبسّم سے ہم کنار
ہوتے ہیں حسن و عشق مقابل جگہ جگہ
٭٭٭
اِس عالمِ ویراں میں کیا انجمن آرائی
دو روز کی محفل ہے اِک عمر کی تنہائی
پھیلی ہیں فضاؤں میں اس طرح تری یادیں
جس سمت نظر اٹھّی آواز تری آئی
اِک ناز بھرے دل میں یہ عشق کا ہنگامہ
اِک گوشۂ خلوت میں یہ دشت کی پہنائی
اوروں کی محبت کے دہرائے ہیں افسانے
بات اپنی محبت کی ہونٹوں پہ نہیں آئی
افسونِ تمنّا سے بیدار ہوئی آخر
کچھ حسن میں بے تابی، کچھ عشق میں زیبائی
وہ مست نگاہیں ہیں یا وجد میں رقصاں ہے
تسنیم کی لہروں میں فردوس کی رعنائی
ان مدھ بھری آنکھوں میں کیا سحر تبسّم تھا
نظروں میں محبت کی دنیا ہی سمٹ آئی
٭٭٭
روش روش پہ ترا انتظار ہے ساقی
بہار منتظرِ نوبہار ہے ساقی
حوادثات سے ٹکرا نہ جائے سازِ حیات
غمِ جہاں سے غمِ دل دو چار ہے ساقی
سحر فسردہ ہے، شام اداس اداس
عجیب گردشِ لیل و نہار ہے ساقی
ٹھہر گئے ہیں کہاں قافلے محبت کے
ہر ایک راہ گذر سوگوار ہے ساقی
دبی دبی سی ہے کچھ اس طرح سے جانِ حزیں
تری نگاہ بھی اب دل پہ بار ہے ساقی
نہ ذوقِ دید میّسر، نہ آرزو کا سرور
نظر کو چین، نہ دل کو قرار ہے ساقی
ہمارے جذبۂ ذوقِ نظر کا کیا ہو گا
تری نگاہ تغافل شعار ہے ساقی
یہ سحر بار تبسّم، یہ خندہ ریز نگاہ
نظر کا نشّہ ہے، دل کا خمار ہے ساقی
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید