خوشبوؤں کو چھو لینا
بارشوں کے موسم میں، شام کا ہر اک منظر
گھر میں قید کر لینا
روشنی ستاروں کی، مٹھیوں میں بھر لینا
کتنا سہل جانا تھا
خوشبوؤں کو چھو لینا
جگنوؤں کی باتوں سے، پھول جیسے آنگن میں
روشنی سی کر لینا
اس کی یاد کا چہرہ، خواب ناک آنکھوں کی
جھیل کے گلابوں پر، دیر تک سجا رکھنا
کتنا سہل جانا تھا
٭٭٭
درد بے رحم ہے
جلّاد ہے درد
درد کچھ کہتا نہیں
سُنتا نہیں
درد بس ہوتا ہے
درد کا مارا ہوا
روندا ہوا
جسم تو اب ہار گیا
روح ضدّی ہے
لڑے جاتی ہے
ہانپتی
کانپتی
گھبرائی ہوئی
درد کے زور سے
تھرّائی ہوئی
جسم سے لپٹی ہے
کہتی ہے
نہیں چھوڑوں گی
موت
چَوکھٹ پہ کھڑی ہے کب سے
صبر سے دیکھ رہی ہے اس کو
آج کی رات
نہ جانے کیا ہو
٭٭٭
یہ تسلّی ہے کہ ہیں ناشاد سب
میں اکیلا ہی نہیں برباد سب
سب کی خاطر ہیں یہاں سب اجنبی
اور کہنے کو ہیں گھر آباد سب
بھُول کے سب رنجشیں سب ایک ہیں
میں بتاؤں سب کو ہو گا یاد سب
سب کو دعوائے وفا سب کو یقیں
اس اداکاری میں ہیں اُستاد سب
شہر کے حاکم کا یہ فرمان ہے
قید میں کہلائیں گے آزاد سب
چار لفظوں میں کہو جو بھی کہو
اس کو کب فرصت سُنے فریاد سب
تلخیاں کیسے نہ ہوں اشعار میں
ہَم پہ جو گزری ہمیں ہے یاد سب
٭٭٭
میں پا سکا نہ کبھی اس خَلِش سے چھُٹکارا
وہ مجھ سے جِیت بھی سکتا تھا جانے کیوں ہارا
برس کے کھُل گئے آنسو نِتھر گئی ہے فضا
چمک رہا ہے سرِ شام درد کا تارا
کسی کی آنکھ سے ٹپکا تھا اِک امانت ہے
میری ہتھیلی پہ رکھا ہوا یہ انگارا
جو پَر سمیٹے تو اِک شاخ بھی نہیں پائی
کھُلے تھے پَر تو میرا آسمان تھا سارا
وہ سانپ چھوڑ دے ڈسنا یہ میں بھی کہتا ہوں
مگر نہ چھوڑیں گے لوگ اس کو گر نہ پھنکارا
٭٭٭
میں خود بھی سوچتا ہوں یہ کیا میرا حال ہے
جس کا جواب چاہیئے وہ کیا سوال ہے
گھر سے چلا تو دل کے سوا پاس کچھ نہ تھا
کیا مجھ سے کھو گیا ہے مجھے کیا ملال ہے
آسودگی سے دل کے سبھی داغ دھُل گئے
لیکن وہ کیسے جائے جو شیشے میں بال ہے
بے دست و پا ہوں آج تو الزام کس کو دوں
کل میں نے ہی بُنا تھا یہ میرا ہی جال ہے
پھر کوئی خواب دیکھوں کوئی آرزو کروں
اب اے دلِ تباہ تیرا کیا خیال ہے
٭٭٭
سیاہ ٹیلے پہ تنہا کھڑا وہ سُنتا ہے
فضا میں گونجتی اپنی شکست کی آواز
نِگاہ کے سامنے
میدان کارزار جہاں
جیالے خوابوں کے پامال اور زخمی بدن
پڑے ہیں بکھرے ہوئے چاروں سمت
بے ترتیب
بہت سے مر چکے
اور جِن کی سانس چلتی ہے
سِسک رہے ہیں
کسی لمحہ مرنے والے ہیں
یہ اس کے خواب
یہ اس کی سپاہ
اس کے جَری
چلے تھے گھر سے تو کتنی زمین جِیتی تھی
جھُکائے کتنے تھے مغرور بادشاہوں کے سر
فصیلیں ٹُوٹ کے گر کے سلام کرتی تھیں
پہنچنا شرط تھی
تھرّا کے آپ کھُلتے تھے
تمام قلعوں کے دروازے
سارے محلوں کے دَر
نظر میں ان دِنوں منظر بہت سجیلا تھا
زمیں سُنہری تھی
اور آسمان نیلا تھا
مگر تھی خوابوں کے لشکر میں کس کو اِس کی خبر
ہر ایک قصّے کا اِک اختتام ہوتا ہے
ہزار لِکھ دے کوئی فتح ذرّے ذرّے پر
مگر شکست کا بھی اِک مقام ہوتا ہے
اُفق پہ چیونٹیاں رینگیں
غنیم فوجوں نے
وہ دیکھتا ہے
کہ تازہ کمک بُلائی ہے
شکاری نکلے ہیں اس کے شکار کی خاطر
زمین کہتی ہے
یہ نرغہ تنگ ہونے کو ہے
ہَوائیں کہتی ہیں
اب واپسی کا موسم ہے
یہ واپسی کا کہاں راستہ بنایا تھا
جب آ رہا تھا کہاں یہ خیال آیا تھا
پَلٹ کے دیکھتا ہے
سامنے سمندر ہے
کنارے کچھ بھی نہیں
صِرف ایک راکھ کا ڈھیر
یہ اس کی کشتی ہے
کَل اس نے خود جَلائی تھی
٭٭٭
سچ یہ ہے بے کار ہمیں غم ہوتا ہے
جو چاہا تھا دنیا میں کم ہوتا ہے
ڈھلتا سورج پھیلا جنگل رَستہ گُم
ہم سے پوچھو کیسا عالَم ہوتا ہے
غیروں کو کب فرصت ہے دُکھ دینے کی
جب ہوتا ہے کوئی ہمدم ہوتا ہے
زخم تو ہم نے ان آنکھوں سے دیکھے ہیں
لوگوں سے سُنتے ہیں مرہم ہوتا ہے
ذہن کی شاخوں پر اشعار آ جاتے ہیں
جب تیری یادوں کا موسم ہوتا ہے
٭٭٭
شہر کے دکاں دارو کاروبارِ اُلفت میں سُود کیا زِیاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے
دل کے دام کتنے ہیں خواب کتنے مہنگے ہیں اور نقد جاں کتنا ہے تم نہ جان پاؤ گے
کوئی کیسے مِلتا ہے پھول کیسے کھِلتا ہے آنکھ کیسے جھُکتی ہے سانس کیسے رُکتی ہے
کیسے رَاہ نکلتی ہے کیسے بات چلتی ہے شوق کی زباں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے
وصل کا سُکوں کیا ہے ہجر کا جُنوں کیا ہے، حُسن کا فُسوں کیا ہے عشق کے دُروں کیا ہے
تم مریضِ دانائی مصلحت کے شیدائی راہِ گُمرہاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے
زخم کیسے پَھلتے ہیں داغ کیسے جَلتے ہیں درد کیسے ہوتا ہے کوئی کیسے روتا ہے
اشک کیا ہے نالے کیا دشت کیا ہے چھالے کیا آہ کیا فغاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے
نامُراد دِل کیسے صبح و شام کرتے ہیں کیسے زندہ رہتے ہیں اور کیسےَمرتے ہیں
تم کو کب نظر آئی غم زَدوں کی تنہائی زیست بے اَماں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے
جانتا ہوں میں تم کو ذوق شاعری بھی ہے شخصیّت سجانے میں اِک یہ ماہری بھی ہے
پھر بھی حرف چُنتے ہو صرف لفظ سُنتے ہو ان کے درمیاں کیا ہے تم نہ جان پاؤ گے
٭٭٭
جسم دَمکتا زُلف گھَنیری رنگیں لَب آنکھیں جادو
سنگِ مَرمَر اُودا بادل سرخ شفق حیراں آہُو
بھکشو دانی پیاسا پانی دریا ساگر جَل گاگر
گُلشن خوشبو کوئل کُوکُو مَستی دارُو میں اور تُو
بانبی ناگن چھایا آنگن گھنگھرو چَھن چَھن آشا مَن
آنکھیں کاجل پَربت بادل وہ زُلفیں اور یہ بازو
راتیں مہکی سانسیں دہکی نظریں بہکی رُت لہکی
سَپن سَلونا پریم کھِلونا پھول بِچھونا وہ پہلُو
تم سے دُوری یہ مجبوری زخمِ کاری بیداری
تنہا راتیں سَپنے کاتیں خود سے باتیں میری خُو
٭٭٭
کوئی شعر کہوں
یا دنیا کے کسی موضوع پر
میں کوئی نیا مضمون پڑھوں
یا کوئی انوکھی بات سُنوں
کوئی بات
جو ہنسنے والی ہو
کوئی قِقرہ
جو دلچسپ لگے
یا کوئی خیال اچھُوتا سا
یا کہیں مِلے
کوئی منظر
جو حیراں کر دے
کوئی لمحہ
جو دل کو چھُو جائے
میں اپنے ذہن کے گوشوں میں
ان سب کو سنبھال کے رکھتا ہوں
اور سوچتا ہوں
جب مِلو گے
تم کو سُناؤں گا
٭٭٭
میں بھُول جاؤں تمہیں
اب یہی مناسب ہے
مگر بھُلانا بھی چاہوں تو کِس طرح بھُولوں
کہ تم تو پھر بھی حقیقت ہو
کوئی خواب نہیں
ہاں تو دِل کا یہ عالَم ہے کیا کہوں
کمبخت
بھُلا نہ پایا یہ وہ سلسلہ
جو تھا ہی نہیں
وہ اِک خیال
جو آواز تک گیا ہی نہیں
وہ ایک بات
جو میں کہہ نہیں سکا تم سے
وہ ایک ربط
جو ہم میں کبھی رہا ہی نہیں
مجھے ہے یاد وہ سب
جو کبھی ہوا ہی نہیں
٭٭٭
ایک پتھر کی اَدھوری مَورت
چند تانبے کے پرانے سکّے
کالی چاندی کے عجب سے زیور
اور کئی کانسی کے ٹُوٹے برتن
ایک صحرا میں ملے
زیرِ زمیں
لوگ کہتے ہیں کہ صدیوں پہلے
آج صحرا ہے جہاں
وہیں اک شہر ہوا کرتا تھا
اور مجھ کو یہ خیال آتا ہے
کسی تقریب
کسی محفل میں
سامنا تجھ سے میرا آج بھی ہو جاتا ہے
ایک لمحے کو
بس اِک پَل کے لیے
جسم کی آنچ
اُچٹتی سی نظر
سُرخ بِندیا کی دَمک
سرسراہٹ تیرے ملبوس کی
بالوں کی مہک
بے خیالی میں کبھی
لمس کا ننّھا سا پھول
اور پھر دُور تک وہی صحرا
وہی صحرا کہ جہاں
کبھی اِک شہر ہوا کرتا تھا
٭٭٭
پھِرتے ہیں کب سے دَربدر اب اِس نگر اب اُس نگر اک دوسرے کے ہمسفر میں اور میری آوارگی
ناآشنا ہر راہگذر نا مہرباں ہر اِک نظر جائیں تو اب جائیں کدھر میں اور میری آوارگی
ہم بھی کبھی آباد تھے ایسے کہاں برباد تھے بے فِکر تھے آزاد تھے مسرور تھے دِل شاد تھے
وہ چال ایسی چل گیا ہم بُجھ گئے دِل جَل گیا نکلے جَلا کے اپنا گھر میں اور میری آوارگی
جِینا بہت آسان تھا اِک شخص کا احسان تھا ہم کو بھی اِک ارمان تھا جو خواب کا سامان تھا
اب خواب ہے نے آرزو ارمان ہے نے جستجو یوں بھی چلو خوش ہیں مگر میں اور میری آوارگی
وہ ماہ وِش وہ ماہ رُو وہ ماہ کامل ہُو بہُو تھیں جس کی باتیں کُو بکُو اس سے عجب تھی گفتگو
پھر یوں ہوا وہ کھو گئی تو مجھ کو ضد سی ہو گئی لائیں گے اُسکو ڈھونڈ کر میں اور میری آوارگی
یہ دل ہی تھا جو سہہ گیا وہ بات ایسی کہہ گیا کہنے کو پھر کیا رہ گیا اشکوں کا دریا بہہ گیا
جب کہہ کے وہ دلبر گیا تیرے لئے میں مر گیا روتے ہیں اُس کو رات بھر میں اور میری آوارگی
آثار ہیں سب کھوٹ کے امکان ہیں سب چوٹ کے گھر بند ہیں سب گوٹ کے اب ختم ہیں سب ٹوٹکے
قسمت کا سب یہ پھیر ہے اندھیر ہے اندھیر ہے ایسے ہوئے ہیں بے اثر میں اور میری آوارگی
جب ہمدم و ہمراز تھا تب اور ہی انداز تھا اب سوز ہے تب ساز تھا اب شرم ہے تب ناز تھا
اب مجھ سے ہو تو ہو بھی کیا ہے ساتھ وہ تو وہ بھی کیا اک بے ہُنر اک بے ثمر میں اور میری آوارگی
٭٭٭
غم بِکتے ہیں
بازاروں میں
غم کافی مہنگے بِکتے ہیں
لہجے کی دُکان اگر چل جائے تو
جذبے کے گاہک
چھوٹے بڑے ہر غم کے کھلونے
منہ مانگی قیمت پہ خریدیں
میں نے
ہمیشہ اپنے غم اچّھے داموں بیچے ہیں
لیکن
جو غم مجھ کو آج ملا ہے
کسی دُکاں پر رکھنے کے قابل ہی نہیں ہے
پہلی بار میں شرمندہ ہوں
یہ غم بیچ نہیں پاؤں گا
٭٭٭
آؤ
اور نہ سوچو
سوچ کے کیا پاؤ گے
جتنا بھی سمجھے ہو
اُتنا پَچھتائے ہو
آؤ
اور نہ سوچو
سوچ کے کیا پاؤ گے
تم اِحساس کی جس منزل پر اب پہنچے ہو
وہ میری دیکھی بھالی ہے
جانے بھی دو
اس کا کب تک سوگ منانا
یہ دنیا
اندر سے اتنی کیوں کالی ہے
آؤ
کچھ اب جِینے کا سامان کریں ہم
سچ کے ہاتھوں
ہم نے جو مشکل پائی ہے
جھُوٹ کے ہاتھوں
وہ مشکل آسان کریں ہم
تم میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھو
پھر میں تم سے
ساری جھُوٹی قسمیں کھاؤں
پھر تم وہ ساری جھوٹی باتیں دُہراؤ
جو سب کو اچّھی لگتی ہیں
جیسے
وفا کرنے کی باتیں
جِینے کی مرنے کی باتیں
ہم دونوں
یوں وقت گزاریں
میں تم کو کچھ خواب دِکھاؤں
تم مجھ کو کچھ خواب دِکھاؤ
جِن کی
کوئی تعبیر نہیں ہو
جتنے دن یہ میل رہے گا
دیکھو اچھا کھیل رہے گا
اور
کبھی دل بھر جائے تو
کہہ دینا تم
بیت گیا ملنے کا موسم
آؤ
اور نہ سوچو
سوچ کے کیا پاؤ گے
٭٭٭
میرے دل میں اُتر گیا سورج
تیرگی میں نکھر گیا سورج
درس دے کر ہمیں اُجالے کا
خود اندھیرے کے گھر گیا سورج
ہم سے وعدہ تھا اِک سویرے کا
ہائے کیسا مُکر گیا سورج
چاندنی عکس چاند آئینہ
آئینے میں سنور گیا سورج
٭٭٭
یہ وقت کیا ہے
یہ کیا ہے آخر کہ جو مسلسل گزر رہا ہے
یہ جب نہ گزرا تھا
تَب کہاں تھا
کہیں تو ہو گا
گزر گیا ہے
تو اب کہاں ہے
کہیں تو ہو گا
کہاں سے آیا کدھر گیا ہے
یہ کب سے کب تک کا سِلسلہ ہے
یہ وقت کیا ہے
یہ واقعے
حادثے
تصادم
ہر ایک غم
اور ہر اِک مسرّت
ہر اِک اذیّت
ہر ایک لذّت
ہر اِک تبسّم
ہر ایک آنسو
ہر ایک نغمہ
ہر ایک خوشبو
وہ زخم کا درد ہو
کہ وہ لَمس کا ہو جادو
خود اپنی آواز ہو کہ ماحول کی صدائیں
یہ ذہن میں بنتی اور بگڑتی ہوئی فضائیں
وہ فکر میں آئے زلزلے ہوں کی دِل کی ہلچل
تمام اِحساس
سارے جذبے
یہ جیسے پتّے ہیں
بہتے پانی کی سطح پر
جیسے تیرتے ہیں
ابھی یہاں ہیں
ابھی وہاں ہیں
اور اب ہیں اوجھل
دِکھائی دیتا نہیں ہے لیکن
یہ کچھ تو ہے
جو کہ بہہ رہا ہے
یہ کیسا دریا ہے
کِن پہاڑوں سے آ رہا ہے
یہ کِس سمندر کو جا رہا ہے
یہ وقت کیا ہے
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
تو ایسا لگتا ہے
دوسری سمت جا رہے ہیں
مگر حقیقت میں
پیڑ اپنی جگہ کھڑے ہیں
تو کیا یہ ممکن ہے
ساری صدیاں
قطار اندر قطار اپنی جگہ کھڑی ہوں
یہ وقت ساکت ہو
اور ہم ہی گزر رہے ہوں
اس ایک لمحے میں
سارے لمحے
تمام صدیاں چھُپی ہوئی ہوں
نہ کوئی آئندہ
نہ گُزشتہ
جو ہو چکا ہے
وہ ہو رہا ہے
جو ہونے والا ہے
ہو رہا ہے
میں سوچتا ہوں
کہ کیا یہ ممکن ہے
سچ یہ ہو
کہ سفر میں ہم ہیں
گزرتے ہم ہیں
جسے سمجھتے ہیں ہم
گزرتا ہے
وہ تھما ہے
٭٭٭
گزرتا ہے یا تھما ہوا ہے
اِکائی ہے یا بَٹا ہوا ہے
ہے منجمد
یا پِگھل رہا ہے
کسے خبر ہے
کِسے پتا ہے
یہ وقت کیا ہے
یہ کائناتِ عظیم
لگتا ہے
اپنی عظمت سے
آج بھی مطمئن نہیں ہے
کہ لمحہ لمحہ
وسیع تَر اور وسیع تَر ہوتی جا رہی ہے
یہ اپنی بانہیں پَسارتی ہے
یہ کہکشاؤں کو چھُو رہی ہے
اگر یہ سچ ہے
تو ہر تصّور کی حد سے باہر
مگر کہیں پر
یقیناً ایسا کوئی خلا ہے
کہ جس کو
ان کہکشاؤں کی اُنگلیوں نے
اب تک چھُوا نہیں ہے
خلا
جہاں کچھ ہوا نہیں ہے
خلا
کہ جس نے کسی سے بھی ’’کُن‘‘ سنا نہیں ہے
جہاں ابھی تک خدا نہیں ہے
وہاں
کوئی وقت بھی نہ ہو گا
یہ کائناتِ عظیم
اِک دن
چھُوئے گی
اس ان چھُوئے خلا کو
اور اپنے سارے وجود سے
جب پُکارے گی
’’ کُن‘‘
تو وقت کو بھی جَنم مِلے گا
اگر جَنم ہے تو موت بھی ہے
میں سوچتا ہوں
یہ سچ نہیں ہے
کہ وقت کی کوئی ابتدا ہے نہ انتہا ہے
یہ ڈور لمبی بہت ہے
لیکن
کہیں تو اس ڈور کا سرا ہے
ابھی یہ انساں اُلجھ رہا ہے
کہ وقت کے اس قفس میں
پیدا ہوا
یہیں وہ پلا بڑھا ہے
مگر اسے علم ہو گیا ہے
کہ وقت کے اس قفس سے باہر بھی اِک فضا ہے
تو سوچتا ہے
وہ پوچھتا ہے
یہ وقت کیا ہے
٭٭٭
درد کے پھول بھی کھِلتے ہیں بِکھر جاتے ہیں
زخم کیسے بھی ہوں کچھ روز میں بَھر جاتے ہیں
راستہ روکے کھڑی ہے یہی اُلجھن کب سے
کوئی پُوچھے تو کَہیں کیا کہ کدھر جاتے ہیں
چھت کی کڑیوں سے اُترتے ہیں میرے خواب مگر
میری دیواروں سے ٹکرا کے بِکھر جاتے ہیں
نرم الفاظ بھلی باتیں مہذّب لہجے
پہلی بارش ہی میں یہ رنگ اُتر جاتے ہیں
اس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی
سر جھُکائے ہوئے چُپ چاپ گزر جاتے ہیں
٭٭٭
مجھ کو یقیں ہے سچ کہتی تھیں جو بھی امّی کہتی تھیں
جب میرے بچپن کے دن تھے چاند میں پَریاں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا
ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں
ایک یہ دن جب ساری سڑکیں رَوٹھی رُوٹھی لگتی ہیں
ایک وہ دن جب ’’ آؤ کھیلیں ‘‘ ساری گلیاں کہتی تھیں
ایک یہ دن جب جاگی راتیں دیواروں کو تکتی ہیں
ایک وہ دن جب شاموں کی بھی پلکیں بوجھل رہتی تھیں
ایک یہ دن جب ذہن میں ساری عیّاری کی باتیں ہیں
ایک وہ دن جب دل میں بھولی بھالی باتیں رہتی تھیں
ایک یہ دن جب لاکھوں غم اور کال پڑا ہے آنسو کا
ایک وہ دن جب ایک ذرا سی بات پہ نَدیاں بہتی تھیں
ایک یہ گھر جس گھر میں میرا ساز و ساماں رہتا ہے
ایک وہ گھر جس گھر میں میری بوڑھی نانی رہتی تھیں
٭٭٭
یہ جیون اِک راہ نہیں
اِک دو راہا ہے
پہلا رَستہ
بہت سہل ہے
اس میں کوئی موڑ نہیں ہے
یہ رستہ
اس دنیا سے بے جوڑ نہیں ہے
اس رَستے پر ملتے ہیں
ریتوں کے آنگن
اس رستے پر ملتے ہیں
رشتوں کے بندھن
اس رستے پر چلنے والے
کہنے کو سب سکھ پاتے ہیں
لیکن
ٹکڑے ٹکڑے ہو کر
سب رشتوں میں بَٹ جاتے ہیں
اپنے پَلّے کچھ نہیں بچتا
بچتی ہے
بے نام سی اُلجھن
بچتا ہے
سانسوں کا ایندھن
جس میں انکی اپنی ہر پہچان
اور انکے سارے سپنے
جَل بُجھتے ہیں
اس رستے پر چلنے والے
خود کو کھو کر جَگ پاتے ہیں
اُوپر اُوپر تو جِیتے ہیں
اندر اندر مر جاتے ہیں
٭٭٭
بہت کٹھن ہے
اس رستے میں
کوئی کسی کے ساتھ نہیں ہے
کوئی سہارا دینے والا ہاتھ نہیں ہے
اس رستے میں
دھُوپ ہے
کوئی چھاؤں نہیں ہے
جہاں تسلّی بھیک میں دیدے کوئی کسی کو
اس رستے میں
ایسا کوئی گاؤں نہیں ہے
یہ ان لوگوں کا رَستا ہے
جو خود اپنے تک جاتے ہیں
اپنے آپ کو جو پاتے ہیں
تم اس رَستے پر ہی چلنا
مجھے پتا ہے
یہ رَستہ آسان نہیں ہے
لیکن مجھ کو یہ غم بھی ہے
تم کو اب تک
کیوں اپنی پہچان نہیں ہے
٭٭٭
میری زندگی میری منزلیں مجھے قَرب میں نہیں دُور دے
مجھے تو دِکھا وہی راستا جو سفر کے بعد غرور دے
وہی جذبہ دے جو شدید ہو ہو خوشی تو جیسے کہ عید ہو
کبھی غم مِلے تو بَلا کا ہو مجھے وہ بھی ایک سُرور دے
تو غلط نہ سمجھے تو میں کہوں تیرا شکریہ کہ دیا سُکوں
جو بڑھے تو بڑھ کے بنے جنوں مجھے وہ خلش بھی ضرور دے
مجھے تُو نے کی ہے عطا زباں مجھے غم سُنانے کا غم کہاں
رہے اَن کہی میری داستاں مجھے نُطق پر وہ عُبور دے
یہ جو زُلف تیری اُلجھ گئی وہ جو تھی کبھی تیری دھج گئی
میں تجھے سَنواروں گا زندگی میرے ہاتھ میں یہ اُمور دے
٭٭٭
کن لفظوں میں اتنی کڑوی اتنی کسیلی بات لِکھوں
شعر کی میں تہذیب نِباہوں یا اپنے حالات لِکھوں
غم نہیں لِکھّوں کیا میں غم کو جَشن لِکھوں کیا ماتم کو
جو دیکھے ہیں میں نے جنازے کیا اُن کو بارات لِکھوں
کیسے لِکھوں میں چاند کے قصّے کیسے لکھوں میں پھول کی بات
ریت اڑائے گرم ہَوا تو کیسے میں برسات لِکھوں
کس کس کی آنکھوں میں دیکھے میں نے زہر بُجھے خنجر
خود سے بھی جو میں نے چھُپائے کیسے وہ صدمات لِکھوں
تخت کی خواہش لُوٹ کی لالچ کمزوروں پر ظُلم کا شوق
لیکن اُن کا فرمانا ہے میں ان کو جذبات لِکھوں
قاتل بھی مقتول بھی دونوں نام خدا کا لیتے تھے
کوئی خدا ہے تو وہ کہاں تھا میری کیا اوقات لِکھوں
اپنی اپنی تاریکی کو لوگ اُجالا کہتے ہیں
تاریکی کے نام لِکھوں تو قومیں فرقے ذات لِکھوں
جانے یہ کیسا دَور ہے جس میں یہ جرات بھی مشکل ہے
دن ہو اگر تو اسکو لِکھوں دن رات اگر ہو رات لِکھوں
٭٭٭
رات کی کالی چادر اوڑھے
منہ کو لپیٹے
سوئی ہے کب سے
رُوٹھ کے سب سے
صبح کی گوری
آنکھ نہ کھولے
منہ سے نہ بولے
جب سے کسی نے
کر لی ہے سورج کی چوری
آؤ
چل کے سورج ڈھونڈیں
اور نہ مِلے تو
کرن کرن پھر جمع کریں ہم
اور اک سورج نیا بنائیں
سوئی ہے کب سے
رُوٹھ کے سب سے
صبح کی گوری
اسے جگائیں
اسے منائیں
٭٭٭
خلا کے گہرے سمندروں میں
اگر کہیں کوئی ہے جزیرہ
جہاں کوئی سانس لے رہا ہے
جہاں کوئی دل دھڑک رہا ہے
جہاں ذہانت نے علم کا جام پی لیا ہے
جہاں کے باسی
خلا کے گہرے سمندروں میں
اُتارنے کو ہیں اپنے بَیڑے
تلاش کرنے کوئی جزیرہ
جہاں کوئی سانس لے رہا ہے
جہاں کوئی دل دھڑک رہا ہے
مری دعا ہے
کہ اس جزیرے میں رہنے والوں کے جسم کا رنگ
اس جزیرے کے رہنے والوں کے جسم کے جتنے رنگ ہیں
ان سے مختلف ہو
بدن کی ہیئت بھی مختلف
اور مشکل و صورت بھی مختلف ہو
مری دعا ہے
اگر ہے اُن کا بھی کوئی مذہب
تو اس جزیرے کو مذہبوں سے وہ مختلف ہو
مری دعا ہے
کہ اس جزیرے کی سب زبانوں سے مختلف ہو زبان اُن کی
مری دعا ہے
خلا کے گہرے سمندروں سے گزر کے
اِک دن
اس اجنبی نسل کے جہازی
خلائی بیڑے میں
اس جزیرے تک آئیں
ہم اُنکے میزباں ہوں
ہم اُن کو حیرت سے دیکھتے ہوں
وہ پاس آ کر
ہمیں اِشاروں سے یہ بتائیں
کہ اُن سے ہم اتنے مختلف ہیں
کہ اُن کو لگتا ہے
اس جزیرے کے رہنے والے
سب ایک سے ہیں
مری دعا ہے
کہ اس جزیرے کے رہنے والے
اُس اجنبی نسل کے کہے کا یقین کر لیں
٭٭٭
دُکھ کے جنگل میں پھِرتے ہیں کب سے مارے مارے لوگ
جو ہوتا ہے سہہ لیتے ہیں کیسے ہیں بے چارے لوگ
جیون جیون ہم نے جَگ میں کھیل یہی ہوتے دیکھا
دھیرے دھیرے جِیتی دنیا دھیرے دھیرے ہارے لوگ
وقت سِنگھاسَن پر بیٹھا ہے اپنے راگ سُناتا ہے
سنگت دینے کو پاتے ہیں سانسوں کے اِکتارے لوگ
نیکی اِک دن کام آتی ہے ہم کو کیا سمجھاتے ہو
ہم نے بے بَس مرتے دیکھے کیسے پیارے پیارے لوگ
اِس نگری میں کیوں مِلتی ہے روٹی سَپنوں کے بدلے
جِن کی نگری ہے وہ جانیں ہم ٹھہرے بَنجارے لوگ
٭٭٭
بہانہ ڈھوندتے رہتے ہیں کوئی رونے کا
ہمیں یہ شوق ہے کیا آستیں بھگونے کا
اگر پَلک پہ ہے موتی تو یہ نہیں کافی
ہُنر بھی چاہئے الفاظ میں پرونے کا
جو فصل خواب کی تیار ہے تو یہ جانو
کہ وقت آ گیا پھر درد کوئی بونے کا
یہ زندگی بھی عجب کاروبار ہے کہ مجھے
خوشی ہے پانے کی کوئی نہ رنج کھونے کا
ہے پاش پاش مگر پھر بھی مسکراتا ہے
وہ چہرہ جیسے ہو ٹُوٹے ہوئے کھِلونے کا
٭٭٭
ہاں گناہ گار ہوں میں
جو سزا چاہے عدالت دیدے
آپکے سامنے سرکار ہوں میں
مجھ کو اقرار
کہ میں نے اِک دن
خود کو نیلام کیا
اور راضی بہ رضا
سرِ بازار سرِ عام کیا
مجھ کو قیمت بھی بہت خوب مِلی تھی لیکن
میں نے سودے میں خیانت کر لی
یعنی
کچھ خواب بچا کر رکھے
میں نے سوچا تھا
کِسے فرصت ہے
جو میری روح میرے دل کی تلاشی لے گا
میں نے سوچا تھا
کِسے ہوگی خبر
کتنا نادان تھا میں
خواب
چھُپ سکتے ہیں کیا
روشنی
مُٹّھی میں رُک سکتی ہے کیا
وہ جو ہونا تھا
ہوا
آپکے سامنے سرکار ہوں میں
جو سزا چاہے عدالت دیدے
فیصلہ سُننے کو تیار ہوں میں
ہاں گُناہ گار ہوں میں
فیصلہ یہ ہے عدالت کا
تیرے سارے خواب
آج سے تیرے نہیں ہیں مجرم
ذہن کے سارے سفر
اور تیرے دل کی پرواز
جسم میں بہتے لہو کے نغمے
روح کا ساز
سماعت آواز
آج سے تیرے نہیں ہیں مجرم
وصل کی ساری حدیثیں
غم ہجراں کی کتاب
تیری یادوں کے گلاب
تیرا احساس
تیری فِکر و نظر
تیری سب ساعتیں
سب لمحے تیرے
روز و شب شام و سحر
آج سے تیرے نہیں ہیں مجرم
یہ تو انصاف ہوا تیرے خریداروں سے
اور اب تیری سزا
تجھے مرنے کی اجازت نہیں
جِینا ہو گا
٭٭٭
گھُل رہا ہے سارا منظر شام دھُندلی ہو گئی
چاندنی کی چادر اوڑھے ہر پہاڑی سو گئی
وادیوں میں پیڑ ہیں اب نِیلگوں پرچھائیاں
اُٹھ رہا ہے کُہرا جیسے چاندنی کا ہو دھُواں
چاند پِگھلا تو چٹانیں بھی ملائم ہو گئیں
رات کی سانسیں جو مہکیں اور مدّھم ہو گئیں
نرم ہے جِتنی ہَوا اتنی فضا خاموش ہے
ٹہنیوں پر اوس پی کے ہر کلی بے ہوش ہے
موڑ پر کروٹ لئے اب اُونگھتے ہیں راستے
دُور کوئی گا رہا ہے جانے کِس کے واسطے
سُکوں میں کھوئی وادی نور کی جاگیر ہے
دُودھیا پَردے کے پیچھے سرمئی تصویر ہے
دھل گئی ہے روح لیکن دل کو یہ احساس ہے
یہ سُکوں بَس چند لمحوں کو ہی میرے پاس ہے
فاصلوں کی گرد میں یہ سادگی کھو جائے گی
شہر جا کر زندگی پھر شہر کی ہو جائے گی
٭٭٭
شام ہونے کو ہے
لال سورج سمندر میں کھونے کو ہے
اور اس کے پرے
کچھ پرندے
قطاریں بنائے
انہیں جنگلوں کو چلے
جِن کے پیڑوں کی شاخوں پہ ہیں گھونسلے
یہ پرندے
وہیں لَوٹ کر جائیں گے
اور سو جائیں گے
ہم ہی حیران ہیں
اس مکانوں کے جنگل میں
اپنا کہیں بھی ٹھِکانا نہیں
شام ہونے کو ہے
ہم کہاں جائیں گے
٭٭٭
میرا آنگن
کتنا کشادہ کتنا بڑا تھا
جس میں
میرے سارے کھیل
سما جاتے تھے
اور آنگن کے آگے تھا وہ پیڑ کہ جو مجھ سے کافی اُونچا تھا
لیکن مجھ کو اس کا یقیں تھا
جب میں بڑا ہو جاؤں گا
اس پیڑ کی پھُنگی بھی چھُو لوں گا
برسوں بعد
میں گھر لَوٹا ہوں
دیکھ رہا ہوں
یہ آنگن
کتنا چھوٹا ہے
پیڑ مگر پہلے سے بھی تھوڑا اونچا ہے
٭٭٭
ہمارے شوق کی یہ انتہا تھی
قدم رکھا کہ منزل راستا تھی
بچھڑ کے ڈار سے بَن بَن پھِرا وہ
ہرن کو اپنی کستوری سزا تھی
کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے
مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی
میں بچپن میں کھلونے توڑتا تھا
میرے انجام کی وہ ابتدا تھی
محبّت مر گئی مجھ کو بھی غم ہے
میرے اچھے دنوں کی آشنا تھی
جسے چھُو لوں میں وہ ہو جائے سونا
تجھے دیکھا تو جانا بددعا تھی
مریضِ خواب کو تو اب شفا ہے
مگر دنیا بڑی کڑوی دوا تھی
٭٭٭
میں جب بھی
زندگی کی چلچلاتی دھوپ میں تپ کر
میں جب بھی
دوسروں کے اور اپنے جھوٹ سے تھک کر
میں سب سے لڑ کے خود سے ہار کے
جب بھی اس اک کمرے میں جاتا تھا
وہ ہلکے اور گہرے کتھئی رنگوں کا اک کمرہ
وہ بے حد مہرباں کمرہ
جو اپنی نرم مُٹّھی میں مجھے ایسے چھُپا لیتا تھا
جیسے کوئی ماں
بچّے کو آنچل میں چھپا لے
پیارے سے ڈانٹے
یہ کیا عادت ہے
جلتی دوپہر میں مارے مارے گھومتے ہو تم
وہ کمرہ یاد آتا ہے
دبیز اور خاصا بھاری
کچھ ذرا مشکل سے کھُلنے والا وہ شیشم کا دروازہ
کہ جیسے کوئی اکّھڑ باپ
اپنے کھُردرے سینے میں
شفقت کے سمندر کو چھُپائے ہو
وہ کرسی
اور اس کے ساتھ وہ جڑواں بہن اس کی
وہ دونوں
دوست تھیں میری
وہ اک گستاخ منہ پَھٹ آئینہ
جو دل کا اچھا تھا
وہ بے ہنگَم سی الماری
جو کونے میں کھڑی
اک بوڑھی انّا کی طرح
آئینے کو تنبیہ کرتی تھی
وہ اک گلدان
ننّھا سا
بہت شیطان
ان دونوں پہ ہنستا تھا
دریچے
یا ذہانت سے بھری اک مسکراہٹ
اور دریچے پر جھکی وہ بیل
کوئی سبز سرگوشی
کتابیں
طاق میں اور شیلف پر
سنجیدہ استانی بنی بیٹھیں
مگر سب منتظر اس بات کی
میں ان سے کچھ پوچھوں
سرہانے
نیند کا ساتھی
تھکن کا چارہ گر
وہ نرم دل تکیہ
میں جس کی گود میں سر رکھ کے
چھت کو دیکھتا تھا
چھت کی کَڑیوں میں
نجانے کتنے افسانوں کی کَڑیاں تھیں
وہ چھوٹی میز پر
اور سامنے دیوار پر
آویزاں تصویریں
مجھے اپنائیت سے اور یقیں سے دیکھتی تھیں
مسکراتی تھیں
انھیں شک بھی نہیں تھا
ایک دن
میں ان کو ایسے چھوڑ جاؤں گا
میں اک دن یوں بھی جاؤں گا
کہ پھر واپس نہ آؤں گا
میں اب جس گھر میں رہتا ہوں
بہت ہی خوبصورت ہے
مگر اکثر یہاں خاموش بیٹھا یاد کرتا ہوں
وہ کمرہ بات کرتا تھا
٭٭٭
جنگل میں گھومتا ہے پہروں فکرِ شکار میں درندہ
یا اپنے زخم چاٹتا ہے تنہا کچھار میں درندہ
باتوں میں دوستی کا امرت سینے میں زہر نفرتوں کا
پربت پہ پھول کھل رہے ہیں بیٹھا ہے غار میں درندہ
ذہنی یگانگت کے آگے تھیں خواہشیں خجل بدن کی
چٹان پہ بیٹھا چاند تاکے جیسے کنوار میں درندہ
گاؤں سے شہر آنے والے ندی پہ جیسے پیاسے
تھا منتظر انھیں کا کب سے اک روزگار میں درندہ
مذہب نہ جنگ نے سیاست جانے نہ ذات پات کو بھی
اپنی درندگی کے آگے ہے کِس شمار میں درندہ
٭٭٭
آنکھ کھُل گئی میری
ہو گیا میں پھر زندہ
پیٹ کے اندھیروں سے
ذہن کے دھُندلکوں تک
ایک سانپ کے جیسا
رینگتا خیال آیا
آج تیسرا دن ہے
آج تیسرا دن ہے
اک عجیب خاموشی
منجمد ہے کمرے میں
ایک فرش اور اک چھت
اور چار دیواریں
مجھ سے بے تعلّق سب
سب میرے تماشائی
سامنے کی کھڑکی سے
تیز دھوپ کی کِرنیں
آ رہی ہیں بستر پر
چُبھ رہی ہیں چہرے میں
اس قدر نکیلی ہیں
جیسے رشتے داروں کے
طنز میری غربت پر
آنکھ کھُل گئی میری
آج کھوکھلا ہوں میں
صِرف خول باقی ہے
آج میرے بِستر میں
لیٹا ہے میرا ڈھانچہ
اپنی مُردہ آنکھوں سے
دیکھتا ہے کمرے کو
آج تیسرا دن ہے
آج تیسرا دن ہے
دوپہر کی گرمی میں
بے ارادہ قدموں سے
اک سڑک پر چلتا ہوں
تنگ سی سڑک پر ہیں
دونوں سمت دوکانیں
خالی خالی آنکھوں سے
ہر دُکان کا تختہ
صِرف دیکھ سکتا ہوں
اب پڑھا نہیں جاتا
لوگ آتے جاتے ہیں
پاس سے گزرتے ہیں
پھر بھی کتنے دھُندلے ہیں
سب ہیں جیسے بے چہرہ
شور ان دُکانوں کا
راہ چلتی اک گالی
ریڈیو کی آوازیں
دُور کی صدائیں ہیں
آ رہی ہیں مِیلوں سے
جو بھی سُن رہا ہوں میں
جو بھی دیکھتا ہوں میں
خواب جیسا لگتا ہے
ہے بھی اور نہیں بھی ہے
٭٭٭
دوپہر کی گرمی میں
بے ارادہ قدموں سے
اک سڑک پہ چلتا ہوں
سامنے کے نُکّڑ پر
نَل دکھائی دیتا ہے
سخت کیوں ہے یہ پانی
کیوں گلے میں پھنستا ہے
میرے پیٹ میں جیسے
گھونسہ ایک لگتا ہے
آ رہا ہے چکّر سا
جسم پر پسینہ ہے
اب سَکت نہیں باقی
آج تیسرا دن ہے
آج تیسرا دن ہے
ہر طرف اَندھیرا ہے
گھاٹ پر اکیلا ہوں
سیڑھیاں ہیں پتّھر کی
سیڑھیوں پر لیٹا ہوں
اب میں اُٹھ نہیں سکتا
آسماں کو تکتا ہوں
آسماں کی تھالی میں
چاند ایک روٹی ہے
جھُک رہی ہیں اب پَلکیں
ڈوبتا ہے یہ منظر
ہے زمین گردش میں
میرے گھر میں چُولھا تھا
روز کھانا پَکتا تھا
روٹیاں سُنہری ہیں
گرم گرم یہ کھانا
کھُل نہیں رہی آنکھیں
کیا میں مرنے والا ہوں
ماں عجیب تھی میری
روز اپنے ہاتھوں سے
مجھ کو وہ کھِلاتی تھی
کون سرد ہاتھوں سے
چھُو رہا ہے چہرے کو
اک نِوالا ہاتھی کا
ایک نوالا گھوڑے کا
اک نوالا بھالُو کا
موت ہے کہ بے ہوشی
جو بھی ہے غنیمت ہے
آج تیسرا دن ہے
آج تیسرا دن ہے
٭٭٭
ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے
صرف دل کی گلی میں کھیلے تھے
اک طرف مورچے تھے پلکوں کے
اک طرف آنسوؤں کے ریلے تھے
تھیں سجی حسرتیں دُکانوں پر
زندگی کے عجیب میلے تھے
خود کشی کیا دُکھوں کا حَل بَنتی
موت کے اپنے سو جھمیلے تھے
ذہن و دل آج بھُوکے مرتے ہیں
اُن دنوں ہم نے فاقے جھیلے تھے
٭٭٭
میں بنجارہ
وقت کے کتنے شہروں سے گزرا ہوں
لیکن
وقت کے اس اک شہر سے جاتے جاتے مُڑ کے دیکھ رہا ہوں
سوچ رہا ہوں
تم سے میرا یہ ناتا بھی ٹُوٹ رہا ہے
تم نے مجھ کو چھوڑا تھا جس شہر میں آ کر
وقت کا اب وہ شہر بھی مجھ سے چھُوٹ رہا ہے
مجھ کو بِدا کرنے آئے ہیں
اس نگری کے سارے باسی
وہ سارے دن
جِن کے کندھے پر سوتی ہے
اب بھی تمہاری زُلف کی خوشبو
سارے لمحے
جِن کے ماتھے پر ہے روشن
اب بھی تمھارے لمس کا ٹیکا
نم آنکھوں سے
گُم سُم مجھ کو دیکھ رہے ہیں
مجھ کو ان کے دُکھ کا پتا ہے
ان کو میرے غم کی خبر ہے
لیکن مجھ کو حکمِ سفر ہے
جانا ہو گا
وقت کے اگلے شہر مجھے اب جانا ہو گا
وقت کے اگلے شہر کے سارے باشندے
سب دن سب راتیں
جو تم سے ناواقف ہوں گے
وہ کب میری بات سُنیں گے
مجھ سے کہیں گے
جاؤ اپنی راہ لو رَاہی
ہم کو کتنے کام پڑے ہیں
جو بیتی سو بِیت گئی
اب وہ باتیں کیوں دھراتے ہو
کندھے پر یہ جھولی رکھے
کیوں پھِرتے ہو کیا پاتے ہو
میں بے چارہ
اک بَنجارہ
٭٭٭
آوارہ پھِرتے پھِرتے جب تھک جاؤں گا
تنہائی کے ٹِیلے پر جا کر بیٹھوں گا
پھر جیسے پہچان کے مجھ کو
اک بنجارہ جان کے مجھ کو
وقت کے اگلے شہر کے سارے ننّھے مُنّے بھولے لمحے
ننگے پاؤں
دوڑے دَوڑے بھاگے بھاگے آ جائیں گے
مجھ کو گھیر کے بیٹھیں گے
اور مجھ سے کہیں گے
کیوں بَنجارے
تم تو وقت کے کتنے شہروں سے گزرے ہو
ان شہروں کی کوئی کہانی ہمیں سناؤ
ان سے کہوں گا
ننّھے لمحو
ایک تھی رانی
سُن کے کہانی
سارے ننّھے لمحے
غمگین ہو کر مجھ سے یہ پُوچھیں گے
تم کیوں ان کے شہر نہ آئیں
لیکن ان کو بہلا لوں گا
ان سے کہوں گا
یہ مت پُوچھو
آنکھیں مُوندو
اور یہ سوچو
تم ہوتیں تو کیسا ہوتا
تم یہ کہتیں
تم وہ کہتیں
تم اس بات پہ حیراں ہوتیں
تم اس بات پہ کتنی ہنستیں
تم ہوتیں تو ایسا ہوتا
تم ہوتیں تو ویسا ہوتا
دھیرے دھیرے
میرے سارے ننّھے لمحے
سو جائیں گے
اور میں
پھر ہَولے سے اُٹھ کر
اپنی یادوں کی جھولی کندھے پر رکھ کر
پھر چل دوں گا
وقت کے اگلے شہر کی جانب
ننّھے لمحوں کو بہلانے
یہی کہانی پھر دھرانے
تم ہوتیں تو ایسا ہوتا
تم ہوتیں تو ویسا ہوتا
٭٭٭
سُوکھی ٹہنی تنہا چڑیا پھیکا چاند
آنکھوں کے صحرا میں ایک نمی کا چاند
اس ماتھے کو چُومے کتنے دن بِیتے
جس ماتھے کی خاطر تھا اک ٹیِکا چاند
پہلے تو لگتی تھی کتنی بے گانہ
کتنا مبہم ہوتا ہے پہلی کا چاند
کم ہو کیسے ان خوشیوں سے تیرا غم
لہروں میں کب بہتا ہے ندّی کا چاند
آؤ اب ہم اس کے بھی ٹکڑے کر لیں
ڈھاکہ، راولپنڈی اور دِلّی کا چاند
٭٭٭
جب وہ کم عمر ہی تھا
اس نے یہ جان لیا تھا کہ اگر جِینا ہے
بڑی چالاکی سے جِینا ہو گا
آنکھ کی آخری حد تک ہے بساطِ ہستی
اور وہ معمولی سا اِک مُہرہ ہے
ایک اک خانہ بہت سوچ کے چلنا ہو گا
بازی آسان نہیں تھی اس کی
دُور تک چاروں طرف پھیلے تھے
مُہرے
جَلّاد
نہایت سَفّاک
سخت بے رحم
بہت ہی چالاک
اپنے قبضے میں لئے
پوری بِساط
اس کے حصّے میں فقط مات لئے
وہ جِدھر جاتا
اسے مِلتا تھا
ہر نیا خانہ نئی گھات لئے
وہ مگر بچتا رہا
چلتا رہا
ایک گھر
دوسرا گھر
تیسرا گھر
پاس آیا کبھی اَوروں کے
کبھی دُور ہوا
وہ مگر بچتا رہا
چلتا رہا
گو کہ معمولی سا مُہرہ تھا مگر جیت گیا
یوں وہ اک روز بڑا مُہرہ بَنا
اب وہ محفوظ ہے اِک خانے میں
اتنا محفوظ کہ دشمن تو الگ
دوست بھی پاس نہیں آ سکتے
اُس کے اِک ہاتھ میں ہے جیِت اُس کی
دوسرے ہاتھ میں تنہائی ہے
٭٭٭
اے ماں تھریسا
مجھ کو تیری عظمت سے انکار نہیں ہے
جانے کتنے
سُوکھے لَب اور ویراں آنکھیں
جانے کتنے
تھکے بدن اور زخمی روحیں
کُوڑا گھر میں روٹی کا اِک ٹکڑا ڈھونڈتے ننگے بچے
فٹ پاتھوں پر گلتے سڑتے بُڈّھے کوڑھی
جانے کتنے
بے گھر، بے دَر، بے کَس انساں
جانے کتنے
ٹُوٹے، کُچلے، بے بَس انساں
تیری چھاؤں میں
جِینے کی ہمّت پاتے ہیں
ان کو اپنے ہونے کی جو سَزا مِلی ہے
اس ہونے کی سزا سے
تھوڑی سی ہی سہی
مہلت پاتے ہیں
تیرا لمس مسیحا ہے
اور تیرا کرم ہے اک سمندر
جس کا کوئی پار نہیں ہے
اے ماں تھریسا
مجھ کو تیری عظمت سے اِنکار نہیں ہے
میں ٹھہرا خود غرض
بس اِک اپنی ہی خاطر جِینے والا
میں تجھ سے کِس مُنہ سے پوچھوں
تو نے کبھی یہ کیوں نہیں پوچھا
کِس نے ان بدحالوں کو بدحال کیا ہے
٭٭٭
تو نے کبھی یہ کیوں نہیں سوچا
کونسی طاقت
انسانوں سے جِینے کا حق چھِین کے
ان کو فٹ پاتھوں اور کُوڑا گھروں تک پہنچاتی ہے
تُو نے کبھی یہ کیوں نہیں دیکھا
وہی نظامِ زَر
جس نے ان بھُوکوں سے روٹی چھینی ہے
تیرے کہنے پر
بھُوکوں کے آگے
کچھ ٹکڑے ڈال رہا ہے
تُو نے کبھی یہ کیوں نہیں چاہا
ننگے بچّے
بُڈّھے کوڑھی بے بَس انساں
اِس دنیا سے
اپنے جِینے کا حق مانگیں
جِینے کی خیرات نہ مانگیں
ایسا کیوں ہے
اِک جانب مظلوم سے تجھ کو ہمدردی ہے
دوسری جانب
ظالم سے بھی عار نہیں ہے
لیکن سچ ہے
ایسی باتیں
میں تجھ سے کِس مُنہ سے پُوچھوں
پُوچھوں گا تو
مجھ پر بھی وہ ذمّے داری آ جائے گی
جس سے میں بچتا آیا ہوں
بہتر ہے خاموش رہوں میں
ور اگر کچھ کہنا ہو تو
یہی کہوں میں
اَے ماں تھریسا
مجھ کو تیری عظمت سے اِنکار نہیں ہے
٭٭٭
آج اس شہر میں
ہر شخص ہراساں کیوں ہے
چہرے
کیوں فَق ہیں
گلی کُوچوں میں
کِس لئے چلتی ہے
خاموش و سَراسیمہ ہَوا
آشنا آنکھوں پہ بھی
اجنبیّت کی یہ باریک سی جھِلّی کیوں ہے
شہر
سنّاٹے کی زنجیروں میں
جکڑا ہوا ملزم سا نظر آتا ہے
اِکّا دُکّا
کوئی رَاہگیر گزر جاتا ہے
خوف کی گرد سے
کیوں دھُندلا ہے سارا منظر
شام کی روٹی کمانے کے لیے
گھر سے نِکلے تو ہیں کچھ لوگ مگر
مُڑ کے کیوں دیکھتے ہیں گھر کی طرف
آج
بازار میں بھی
جانا پہچانا سا وہ شور نہیں
سب یوں چلتے ہیں کہ جیسے
یہ زمیں کانچ کی ہے
ہر نظر
نظروں سے کتراتی ہے
بات
کھُل کر نہیں ہو پاتی ہے
سانس روکے ہوئے
ہر چیز نظر آتی ہے
آج
یہ شہر اِک سہمے ہوئے بچّے کی طرح
اپنی پرچھائیں سے بھی ڈرتا ہے
جنتری دیکھو
مجھے لگتا ہے
آج تیوہار کوئی ہے شاید
٭٭٭
گہرا سَنّاٹا ہے
کچھ مکانوں سے خاموش اُٹھتا ہوا
گاڑھا کالا دھُواں
مَیل دل میں لئے
ہر طرف دُور تک پھیلتا جاتا ہے
گہرا سَناّٹا ہے
لاش کی طرح بے جان ہے راستا
ایک ٹُوٹا ہوا ٹھیلا
اُلٹا پڑا
اپنے پہئے ہَوا میں اُٹھائے ہوئے
آسمانوں کو حیرت سے تَکتا ہے
جیسے کہ جو بھی ہوا
اس کا اب تک یقیں اس کو آیا نہیں
گہرا سَنّاٹا ہے
اک اُجڑی دُکاں
چیخ کے بعد منہ
جو کھُلا کا کھُلا رہ گیا
اپنے ٹُوٹے کِواڑوں سے وہ
دُور تک پھیلے
چُوڑی کے ٹکڑوں کو
حسرت زدہ نظروں سے دیکھتی ہے
کہ کَل تک یہی شیشے
اس پوپلے منہ میں
سو رنگ کے دانت تھے
گہرا سَنّاٹا ہے
گہرے سَنّاٹے نے اپنے منظر سے یوں بات کی
سُن لے اُجڑی دُکاں
اَے سلگتے مکاں
ٹُوٹے ٹھیلے
تمہیں بس نہیں ہو اَکیلے
یہاں اور بھی ہیں
جو غارت ہوئے ہیں
ہم ان کا بھی ماتم کریں گے
مگر پہلے ان کو تو رو لیں
کہ جو لُوٹنے آئے تھے
اور خود لُٹ گئے
کیا لُٹا
اس کی ان کو خبر ہی نہیں
کم نظر ہیں
کہ صدیوں کی تہذیب پر
ان بِچاروں کی کوئی نظر ہی نہیں
٭٭٭
وہ ڈَھل رہا ہے تو یہ بھی رَنگت بدل رہی ہے
زمیں سورج کی انگلیوں سے پھسل رہی ہے
جو مجھ کو زندہ جَلا رہے ہیں وہ بے خبر ہیں
کہ میری زنجیر دھِیرے دھیرے پگھل رہی ہے
میں قتل تو ہو گیا تمہاری گلی میں لیکن
مِرے لہو سے تمہاری دیوار گَل رہی ہے
جَلنے پاتے تھے جس کے چُولھے بھی ہر سویرے
سُنا ہے کَل رات سے وہ بَستی بھی جَل رہی ہے
میں جانتا ہوں کہ خامشی میں ہی مصلحت ہے
مگر یہی مصلحت میرے دل کو کَھل رہی ہے
کبھی تو انساں زندگی کی کرے گا عزّت
یہ ایک امّید آج بھی دل میں پَل رہی ہے
٭٭٭
خواب کے گاؤں میں پَلے ہیں ہم
پانی چَھلنی میں لے چلے ہیں ہم
چھاچھ پھونکیں کہ اپنے بچپن میں
دودھ سے کِس طرح جَلے ہیں ہم
خود ہیں اپنے سفر کی دشواری
اپنے پَیروں کے آبلے ہیں ہم
تُو تو مَت کہہ ہمیں بُرا دُنیا
تُو نے ڈھالا ہے اور ڈَھلے ہیں ہم
کیوں ہیں کب تک ہیں کس کی خاطر ہیں
بڑے سنجیدہ مسئلے ہیں ہم
٭٭٭
غم ہوتے ہیں جہاں ذہانت ہوتی ہے
دنیا میں ہر شے کی قیمت ہوتی ہے
اکثر وہ کہتے ہیں وہ بس میرے ہیں
اکثر کیوں کہتے ہیں حیرت ہوتی ہے
تب ہم دونوں وقت چُرا کر لاتے تھے
اب مِلتے ہیں جب بھی فرصت ہوتی ہے
اپنی محبوبہ میں اپنی ماں دیکھیں
بِن ماں کے لڑکوں کی فِطرت ہوتی ہے
اک کشتی میں ایک ہی قدم رکھتے ہیں
کچھ لوگوں کی ایسی عادت ہوتی ہے
٭٭٭
ہم سے دلچسپ کبھی سچّے نہیں ہوتے ہیں
اچّھے لگتے ہیں مگر اچّھے نہیں ہوتے ہیں
چاند میں بُڑھیا، بزرگوں میں خدا کو دیکھیں
بھولے اب اتنے تو یہ بچّے نہیں ہوتے ہیں
کوئی یاد آئے ہمیں کوئی ہمیں یاد کرے
اور سب ہوتا ہے یہ قصّے نہیں ہوتے ہیں
کوئی منزل ہو بہت دُور ہی ہوتی ہے مگر
راستے واپسی کے لمبے نہیں ہوتے ہیں
آج تاریخ تو دہراتی ہے خود کو لیکن
اس میں بہتر جو تھے وہ حصّے نہیں ہوتے ہیں
٭٭٭
ہم دونوں جو حرف تھے
ہم اِک روز ملے
اِک لفظ بنا
اور ہم نے اک معنی پائے
پھر جانے کیا ہم پر گزری
اور اب یوں ہے
تم اِک حرف ہو
اِک خانے میں
میں اک حرف ہوں
اک خانے میں
بیچ میں
کتنے لمحوں کے خانے خالی ہیں
پھر سے کوئی لفظ بَنے
اور ہم دونوں اک معنی پائیں
ایسا ہو سکتا ہے
لیکن
سوچنا ہو گا
ان خالی خانوں میں ہم کو بَھرنا کیا ہے
٭٭٭
کروڑوں چہرے
اور ان کے پیچھے
کروڑوں چہرے
یہ راستے ہیں کہ بھِڑ کے چَھتّے
زمین جسموں سے ڈھک گئی ہے
قدم تو کیا تِل بھی دَھرنے کی اب جگہ نہیں ہے
یہ دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں
کہ اب جہاں ہوں
وہیں سِمٹ کے کھڑا رہوں میں
مگر کروں کیا
کہ جانتا ہوں
کہ رُک گیا تو
جو بھِیڑ پیچھے سے آ رہی ہے
وہ مجھ کو پَیروں تَلے کُچل دے گی پیس دے گی
تو اب جو چلتا ہوں میں
تو خود میرے اپنے پَیروں میں آ رہا ہے
کسی کا سینہ
کسی کا بازو
کسی کا چہرہ
چلوں
تو اوروں پہ ظلم ڈھاؤں
رکوں
تو اوروں کے ظلم جھیلوں
ضمیر
تجھ کو تو ناز ہے اپنی منصفی پر
ذرا سُنوں تو
کہ آج کیا تیرا فیصلہ ہے
٭٭٭
میں اکثر سوچتا ہوں
ذہن کی تاریک گلیوں میں
دہکتا اور پِگھلتا
دھِیرے دھِیرے آگے بڑھتا
غم کا یہ لاوا
اگر چاہوں
تو رُک سکتا ہے
میرے دل کی کچّی کھال پر رکھا یہ انگارا
اگر چاہوں
تو بُجھ سکتا ہے
لیکن
پھر خیال آتا ہے
میرے سارے رشتوں میں
پڑی ساری دراڑوں سے
گزر کے آنے والی برف سے ٹھنڈی ہوا
اور میری ہر پہچان پر سردی کا یہ موسم
کہیں ایسا نہ ہو
اس جسم کو اس روح کو ہی منجمد کر دے
میں اکثر سوچتا ہوں
ذہن کی تاریک گلیوں میں
دہکتا اور پگھلتا
دھِیرے دھِیرے آگے بڑھتا
غم کا یہ لاوا
اذیّت ہے
مگر پھر بھی غنیمت ہے
اسی سے روح میں گرمی
بدن میں یہ حرارت ہے
٭٭٭
کوئی فریاد تیرے دل میں دبی ہو جیسے
تُو نے آنکھوں سے کوئی بات کہی ہو جیسے
جاگتے جاگتے اک عمر کٹی ہو جیسے
جان باقی ہو مگر سانس رُکی ہو جیسے
ہر ملاقات پہ محسوس یہ ہوتا ہے
مُجھ سے کچھ تیری نظر پُوچھ رہی ہو جیسے
راہ چلتے ہوئے اکثر یہ گماں ہوتا ہے
وُہ نظر چھُپ کے مجھے دیکھ رہی ہو جیسے
ایک لمحے میں سمٹ آئے یہ صدیوں کا سفر
زندگی تیز بہت تیز چلی ہو جیسے
اس طرح پہروں تجھے سوچتا رہتا ہوں
میری ہر سانس تیرے نام لکھی ہو جیسے
٭٭٭
وہی حالات ابتداء سے رہے
لوگ ہم سے خفا خفا سے رہے
بے وفا تم بھی نہ تھے لیکن
یہ بھی سچ ہے کہ بے وفا سے رہے
ان چراغوں میں تیل ہی کم تھا
کیوں گلے پھر ہمیں ہوا سے رہے
بحث شطرنج شعر موسیقی
تم نہیں رہے تو یہ دلاسے رہے
اس کے بندوں کو دیکھ کر کہیے
ہم کو امید کیا خدا سے رہے
زندگی کی شراب مانگتے ہو
ہم کو دیکھو کہ پی کے پیاسے رہے
٭٭٭
مثال اس کی کہاں ہے بھلا زمانے میں
کہ سارے کھونے کے غم پائے ہم نے پانے میں
وہ شکل پگھلی تو ہر شے میں ڈھل گئی جیسے
عجیب بات ہوئی ہے اسے بھلانے میں
جو منتظر نہ ملا وہ تو ہم ہیں شرمندہ
کہ ہم نے دیر لگا دی پلٹ کے آنے میں
لطیف تھا وہ تخیل سے خواب سے نازک
گنوا دیا ہم نے ہی اسے آزمانے میں
سمجھ لیا تھا کبھی ایک سراب کو دریا
پر ایک سکون تھا ہم کو فریب کھانے میں
جھُکا درخت ہوا سے تو آندھیوں نے کہا
زیادہ فرق نہیں جھک کے ٹوٹ جانے میں
٭٭٭
جاتے جاتے وہ مجھے اچھی نشانی دے گیا
عمر بھر دہراؤں گا ایسی کہانی دے گیا
اس سے میں کچھ پا سکوں ایسی کہاں امید تھی
غم بھی وہ شاید برائے مہربانی دے گیا
سب ہوائیں لے گیا میرے سمندر کی کوئی
اور مجھ کو ایک کشتی بادبانی دے گیا
خیر میں پیاسا رہا پر اس نے اتنا تو کیا
میری پلکوں کی قطاروں کو وہ پانی دے گیا
٭٭٭
میری زندگی میری منزلیں، مجھے قُرب میں نہیں دُور دے
مجھے تو دکھا وہی راستہ، جو سفر کے بعد غرور دے
وہی جذبہ دے جو شدید ہو، ہو خوشی تو جیسے کہ عید ہو
کبھی غم ملے تو بلا کا ہو، مجھے وہ بھی ایک سرور دے
تو غلط نہ سمجھے تو میں کہوں، تیرا شکریہ کہ دیا سکوں
جو بڑھے تو بڑھ کے بنے جنوں، مجھے وہ خلش بھی ضرور دے
مجھے تو نے کی ہے عطا زباں، مجھے غم سنانے کا غم کہاں
رہے ان کہی میری داستاں، مجھے نظق پر وہ عبور دے
یہ جو زلف تیری الجھ گئی، وہ جو تھی کبھی تیری دھج گئی
میں تجھے سنواروں گا زندگی، میرے ہاتھ میں یہ امور دے
٭٭٭
تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا
زندگی دھوپ، تم گھنا سایا
آج پھر دل نے اک تمنا کی
آج پھر دل کو ہم نے سمجھایا
تم چلے جاؤ گے تو سوچیں گے
ہم نے کیا کھویا، ہم نے کیا پایا
ہم جسے گنگنا نہیں سکتے
وقت نے ایسا گیت کیوں گایا
٭٭٭
رات ہے ، چاندنی ہے، خوشبو ہے
کیا کہوں ان سے میں کہاں تُو ہے
تُو نہیں ہے مگر یہیں ہے تُو!
اِس محبت میں یہ بھی جادُو ہے
خامشی کا نقاب اوڑھے ہوئے
میری آواز جیسے ہر سُو ہے
آ کے پلکوں سے چن لے یہ موتی
سب کی نظروں میں تو یہ آنسو ہیں
٭٭٭
چاند کے پیالے سے ہے چھلکی ہوئی یہ چاندنی
ریشمی آنچل سی ہے ڈھلکی ہوئی یہ چاندنی
جب یہ چاہا بادلوں نے، وہ چھپا لیں چاند کو
بادلوں پر ہنس پڑی جھلکی ہوئی یہ چاندنی
جس گھڑی میں نے سنا تم ملنے آؤ گے نہیں
سانولی رات ہو گئی، ہلکی ہوئی یہ چاندنی
جانے کل کیا کہہ دیا تم نے کہ جھوم اٹھی فضا
آج بھی مدھم نہیں، کل کی ہوئی یہ چاندنی
٭٭٭
دل میں مہک رہے ہیں کسی آرزُو کے پھول
پلکوں میں کھلنے والے ہیں شاید لہُو کے پھول
اب تک ہے کوئی بات مجھے یاد حرف حرف
اب تک میں چن رہا ہوں کسی گفتگو کے پھول
کلیاں چٹک رہی تھیں کہ آواز تھی کوئی
اب تک سماعتوں میں اِک خوش گلُو کے پھول
مرے لہو کا رنگ ہے ہر نوکِ خار پر
صحرا میں ہر طرف ہے میری جستجُو کے پھول
دیوانے کل جو لوگ تھے پھولوں کے عشق میں
اب اُن کے دامنوں میں بھرے ہیں رفُو کے پھول
٭٭٭
کتھئی آنکھوں والی اِک لڑکی
ایک ہی بات پر بگڑتی ہے
تم مجھے کیوں نہیں مِلے پہلے
روز یہ کہہ کے مجھے سے لڑتی ہے
لاکھ ہوں ہم میں پیار کی باتیں
یہ لڑائی ہمیشہ چلتی ہے
اس کے اِک دوست سے میں جَلتا ہوں
میری اِک دوست سے وہ جَلتی ہے
پاس آ کے بھی فاصلے کیوں ہیں
راز کیا ہے سمجھ میں یہ آیا
اس کو بھی یاد ہے کوئی اب تک
میں بھی تم کو بھُلا نہیں پایا
ہم بھی کافی تیز تھے پہلے
وہ بھی تھی عیّار بہت
پہلے دونوں کھیل رہے تھے
لیکن اب ہے پیار بہت
٭٭٭
اے نظر کی خوش فہمی! اس طرح نہیں ہوتا
تتلیاں پکڑنے کو دور جانا پڑتا ہے
ـ
میرے کچھ پَل مجھ کو دے دو باقی سارے دن لوگو
تم جیسا جیسا کہتے ہو سب ویسا ویسا ہو گا
ـ
میری بنیادوں میں کوئی ٹیڑھ تھی
اپنی دیواروں کو کیا الزام دوں
ـ
تھکن سے چُور پاس آیا تھا اس کے
گِرا سوتے میں مجھ پر یہ شجر کیوں
ـ
تمہیں بھی یاد نہیں اور میں بھی بھُول گیا
وہ لمحہ کتنا حسیں تھا مگر فضول گیا
ـ
ان سے اب واپس خریدوں خود کو میں
لوگ جو مانگیں وہ اپنے دام دوں
ـ
اِک کھلونا جوگی سے کھو گیا تھا بچپن میں
ڈھونڈتا پھِرا اس کو وہ نگر نگر تنہا
ـ
آگہی سے ملی ہے تنہائی
آ میری جان مجھ کو دھوکا دے
ـ
رات سر پر ہے اور سفر باقی
ہم کو چلنا ذرا سویرے تھا
ـ
سب ہَوائیں لے گیا میرے سمندر کی کوئی
اور مجھ کو ایک کشتی بادبانی دے گیا
ـ
پہلے بھی کچھ لوگوں نے جَو بو کر گیہوں چاہا تھا
ہم بھی اس اُمیّد میں ہیں لیکن کب ایسا ہوتا ہے
ـ
کون سا شعر سناؤں میں تمہیں سوچتا ہوں
نیا مبہم ہے بہت اور پرانا مشکل
ـ
گن گن کے سکّے ہاتھ میرا کھُردرا ہوا
جاتی رہی وہ لمس کی نرمی بُرا ہوا
ـ
خوش شکل بھی ہے وہ یہ الگ بات ہے مگر
ہم کو ذہین لوگ ہمیشہ عزیز تھے
ـ
سب کا خوشی سے فاصلہ ایک قدم ہے
ہر گھر میں بس ایک ہی کمرہ کم ہے
ـ
اپنی وجہِ بَربادی سُنئے تو مزے کی ہے
زندگی سے یوں کھیلے جیسے دوسرے کی ہے
ـ
گلی میں شور تھا ماتم تھا اور ہوتا کیا
میں گھر میں تھا مگر اس غُل میں کوئی سوتا کیا
ـ
ا س شہر میں جِینے کے انداز نرالے ہیں
ہونٹوں پہ لطیفے ہیں آواز میں چھالے ہیں
ـ
آج کی دنیا میں جِینے کا قرینہ سمجھو
جو ملیں پیار سے ان لوگوں کو زینہ سمجھو
ـ
کم سے کم اس کو دیکھ لیتے تھے
اب کے سیلاب میں وہ پَل بھی گیا
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید