03:16    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

محاورات

879 0 0 00

( 1 ) رات تھوڑی ہے سانگ بہت ہے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

سانگ ہمارے یہاں دیہاتی ڈرامہ بھی ہے جو ایک طرح سے ’’سوانگ‘‘ ڈرامہ ہوتا ہے یعنی گیتوں بھرا تماشہ اس کے علاوہ سانگ بھرنا بھی محاورہ ہے لباس وضع قطع تبدیل کرنا۔ نمود و نمائش کے لئے جب ایسا کیا جا تا ہے تو اُسے کہتے ہیں کہ یہ کیا سانگ بھرا ہے یاوہ بہت ’’سانگ ‘‘بھرنے کا عادی ہے یعنی جھوٹی سچی باتیں کرتا ہے اِس کو سانگ کرنا وار بھرنا بولتے ہیں اور اسی نسبت سے کہا جاتا ہے کہ ابھی تو بہت سا ’’سانگ ‘‘باقی ہے اور یہ بھی کہ رات تھوڑی ہے اور سانگ بہت ہیں۔

چونکہ پچھلی صدی عیسوی تک ہمارے یہاں سانگ ڈرامہ کا رواج بہت تھا اور کبھی کبھی تو صبح ہو جاتی تھی اور ان کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا تھا اسی طرف اِس محاورہ میں اشارہ کیا گیا ہے اور مراد یہ لی گئی ہے کہ وقت تھوڑا ہے کام بہت ہے۔

( 2 ) راجا اندر کا اکھاڑا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

راجا اندر در اصل موسم کا راجا ہے۔ موسم کے ساتھ طرح طرح کے کام گیت ’’سنگیت‘‘ اور کھیل تماشہ ہوتے ہیں تماشہ کرنے والی’’ منڈلیاں ‘‘ ہوتی تھیں وہ اکھاڑے کہلاتے تھے ہم اکھاڑا صرف کشتی ہی کے اکھاڑے کو سمجھتے ہیں اِس سے ایک طرح کی غلط فہمی ہوتی ہے۔ راجا اندر کا اکھاڑا پر یوں کے غول پر مشتمل ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے راجہ اِندر کے اکھاڑے کی پریاں اور  راجا اندر وہ شخص ہوتا ہے جس کے پاس بہت سی حسینائیں جمع ہوں اسی لئے مذاق کے طور پر یا طنزیہ انداز میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ راجا اِندر بنے رہتے ہیں یہ محاورہ ہویا مذکورہ محاورہ دونوں سانگ و سنگیت سے متعلق ہیں دونوں کی ایک سماجی حیثیت ہے۔

( 3 ) راستہ یا رستہ بتانا یا دیکھنا راستہ پر آنا، راستہ یا رستہ ناپنا۔ راہ لگانا، راہ پیدا کرنا وغیرہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

رستہ ہمارے لئے زندگی میں کوئی بھی کام کرنے کی غرض سے ایک ضروری وسیلہ ہوتا ہے۔ چاہے وہ چلنے کا راستہ ہو چاہے کام کرنے کا سلیقہ طریقہ اِس کو جاننا بھی پڑتا ہے اِس کے بارے میں سوچنا سمجھنا بھی ہوتا ہے اور دوسروں کی مدد بھی درکار ہوتی ہے جو ہمیں راستہ بتا دیں طریقہ سکھلا دیں وقت پر مناسب مشورہ دیدیں اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ کوئی راستہ بتلائے اس لئے کہ اگر راستہ غلط ہو گیا تو منزل بھی غلط ہو جائے گی اور مقصد پورا نہ ہو گا۔

یہیں آدمی دوسروں کی اچھائیوں سے بھی واقف ہوتا ہے اور برائیوں سے بھی کہ لوگ کچھ بتلانا نہیں چاہتے اور  خود غرض لوگ غلط راستہ بتاتے ہیں یعنی مکاریوں سے بھرا کوئی مشورہ دیتے ہیں راستہ بتانا یا راستہ دکھانا صلاح و مشورہ دینا خلوص کی بات ہوتی ہے مگر اسی میں ساری بد خلوصیاں انتقام کا جذبہ یا مکاری بھی شامل ہوتی ہے آدمی کبھی ٹالتا ہے کبھی بہانے بازیاں کرتا ہے کبھی بہت دلچسپ اور پُر فریب صورتِ حال کو سامنے لاتا ہے تاکہ جس کو غلط راستہ پر ڈالنا مقصد ہے وہ اپنی سُوجھ بُوجھ سے کام نہ لے سکے۔

راستہ سے متعلق جو محاورے ہیں اور جن کے اوپر درج کیا گیا ہے وہ اسی دھوپ چھاؤں جیسی صورتِ حال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ راستہ نکالنا، راستہ نکل آنا، راستہ سے بھٹکے جانا، راستہ بھول جانا یا بھلا دینا سب اسی سلسلہ کے محاورے ہیں اور اِس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے محاوروں کا ہماری سماجی صورتِ حال سے کیا رشتہ ہے اور وقت و حالات اور ماحول کا ہماری سماجی صورت حال سے اور ماحول کیا رشتہ ہے اور وقت و حالات اور ماحول کے ساتھ ا س میں کیا تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں راستہ کو راہ بھی کہتے ہیں اور یہ محاورے ’’راہ‘‘ سے بھی وابستہ ہیں۔

( 4 ) رام رام کرنا (رام رام جپنا) رام نام کی لُوٹ،رام دُہائی، رام کی کہانی، رام کی مایا، رام لیلا، رام کی بچھیا وغیرہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

رام کی مذہبی اور تہذیبی شخصیت ہمارے معاشرے میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ اور ہندو معاشرے کی سائیکی میں داخل ہے۔ گاؤں کے اور  آدمیوں کے نام’’ رام‘‘ کے نام پر رکھے جاتے ہیں ’’راون‘‘ رام کے مقابلہ میں ایک دوسرا کردار ہے جس کو بُرائیوں کا ایک علامتی کردار خیال کیا جاتا ہے’’ راون کی سیتا ‘‘’’راون کی نگری‘‘ یا راون کی لنکا اسی نسبت سے محاوروں میں داخل ہوتی ہے۔

’’رام ‘‘کو یاد کرنا نیکیوں کے سر چشمے کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے جیسے ’’رام رام کرو‘‘ رام بھلی کرے گا رام نام کی لوٹ مُفت کا مال ہے بڑی چیز ہے تم جتنی بھی چاہو یہ دولت تمہاری بن سکتی ہے۔

مصیبت کے وقت میں رام کی دہائی بھی دی جاتی ہے اور مصیبتوں بھری کہانی کو ’’رام کہانی‘‘ کہا جاتا ہے ’’رام کتھا‘‘ بھی رام کہانی ہی ہے مگر اس کا مفہوم کچھ دوسرا ہے رام کے نام پر آنے والے محاورے اس طرح اشارہ کرتے ہیں کہ ہماری زبان اور محاوروں کے سرچشمہ میں کہاں کہاں میں کہاں کہاں ہیں اور کن سماجی مُحرکات کے ذریعہ محاوروں سے متعلق مفہوم و معنی کے سلسلہ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سب ’’رام کی مایا ‘‘ہے اسی معنیاتی سلسلہ کی طرف اشارہ کرنے والے محاورہ ہے۔

( 5 ) رُستم یا افلاطون کا سالا ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بعض کردار عوام کے دلوں میں اُتر جاتے ہیں ذہنوں پر چھا جاتے ہیں۔ اُن میں ایک افلاطون کا کردار بھی ہے جو یونان کا تقریباً ڈھائی ہزار برس پہلے ایک فلسفی گزرا ہے جو ’’ارسطو‘‘ کا استاد تھا۔ اس کا فلسفہ ہمارے یہاں علمِ حکمت اور دینی مسائل میں بھی رہنمائی کرتا رہا ہے ہمارے عوام کے دلوں میں یہ فلسفیانہ مسائل تو کیا اترتے وہ افلاطون کو ایک بہت بڑی چیز سمجھتے ہیں اور دوسروں کے لئے اُسے بطورِ برائی استعمال کرتے ہیں وہ افلاطون ہو رہا ہے خود کو افلاطون کا سالا سمجھتا ہے یا افلاطون بنا کر پھرتا ہے افلاطون کو اُن نفسیاتی رویوں سے کوئی تعلق نہیں لیکن ہماری زبان ہمارے ذہن اور ہمارے زمانے کے عام لوگوں کے پاس یہی تصور ہے۔ ورنہ عام لوگ افلاطون کو کیا جانیں۔

رُستم قدیم ایران کا ایک پہلوان تھا بہت بڑا بہادر جس کی حیثیت اب ایک اساطیری کردار کی سی ہو گئی ہے اور بہادری میں اس کانام بطورِ مثال آتا ہے ویسے ہمارے یہاں بڑا پہلو ان اور طاقتور سمجھتے ہیں اس کو’’ رستم زمان‘‘ خیال کرتے ہیں ’’گاماں ‘‘پہلوان کا خطاب ’’رستم‘‘ ہند تھا اب یہ ایک الگ بات ہے کہ افلاطون کی طرح رستم کا حوالہ بھی عوام کی زبان پر طنز کے طور پر آتا ہے کہ وہ بڑے رستم زماں بنے پھرتے ہیں یا پھر اپنے آپ کو’’ رستم کا سالا‘‘ سمجھتے ہیں افواہِ عوام میں پڑی ہوئی بات کو آسانی سے ردّ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ تو ہمارے محاورہ کا حصّہ بن جاتی ہے اور جیسا کہ روز اشارہ کیا گیا ہے جو محاورہ میں آئی ہوئی بات اس کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ ہماری سائکی میں اتر گئی ہے نفسیات کا جُز بن گئی وہ تاریخ نہیں ہے افسانہ ہے لیکن سماجی سچائی کا حصّہ ہے۔

( 6 ) رس مارے رسائن ہو۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’رس‘‘ کا لفظ ہندی میں بہت بامعنی لفظ ہے اس کے معنی ’’لطف و لذت‘‘ کے بھی ہیں جذبہ و احساس کے بھی،مشروبات (پینے) کی چیز میں اور  مسموعات میں بھی یعنی جو ہم سنتے ہیں جیسے کانوں میں ’’رس گھولنا‘‘ رسیلی آواز’’ رس بھرا لہجہ‘‘ ایسا پھل جس کا عرق میٹھا اور خوش ذائقہ ہوتا ہے وہ بھی رسال رسیلا اور  رس بھرا کہلاتا ہے۔ ’’رس بھری‘‘ ہمارے یہاں ایک پھل بھی ہے۔

ہندی میں مختلف جذبوں کو ’’رس‘‘ کہتے ہیں جیسے ہاسیہ سے ہاسیہ رس، ویر رس شر نگار رس یہاں اس محاورے میں ’’رس‘‘ کورساس کہا گیا ہے رسائن کے معنی ہیں۔

دوا علاج کی غرض سے کھِلائی پلائی جانے والی اشیاء اِس محاورے کے معنی ہوئے کہ اگر وہ رس کا چھینٹا مار دے اچھی بات کہہ دے تو جی خوش ہو جائے اور ایسا محسوس ہو جیسے کسی دُکھ درد کی دوا مل گئی یہ خالص ہندوی محاورہ ہے اُردو میں مستعمل نہیں مگر بہت اچھا ہے۔

( 7 ) رسّی جل گئی پربل نہیں جلا، یا رسّی جل گئی پربل نہیں نکلا(گیا)۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ایک اہم سماجی محاورہ ے ’’رسی‘‘ ایسے میٹریل سے بنائی جاتی ہے جو گل بھی جاتا ہے اور جل بھی جاتا ہے لوہے کی رسیّوں کا تصور پہلے زمانہ میں نہیں تھا وہ اب کی بات ہے ایسی صورت میں اگر رسّی جل بھی جاتی تھی تو اس کے بل راکھ میں بھی نظر آتے تھے۔ اس مشاہدہ سے یہ محاورہ اخذ کیا گیا کہ رسی جل گئی مگر بل نہیں گئے۔ اور اس کا اطلاق ایسے موقعوں پر ہوتا ہے جب آدمی دولت مند نہیں رہتا یا با اقتدار نہیں رہتا مگر اس کے ناز نخرے یا ادب و آداب کو پسند کرنے کا طریقہ وہی رہتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ رسی جل گئی مگر بل نہیں گئے طور طریقے وہی رہے جو نوابی کے زمانہ کے تھے یا افسری کے زمانہ کے تھے۔

( 8 ) رفوچکر ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

لفظی اعتبار سے غیر معمولی محاورہ ہے کہ رفو اور شئے ہے چکر کچھ اور  رفو کا چکر سے کوئی تعلق نہیں جب کہ اُن دونوں سے جو محاورہ بنا ہے اس کے معنی غائب ہو جانے کے ہیں اور عام طور سے استعمال ہوتا ہے جہاں کسی آدمی سے متعلق کوئی کام کیا جا تا ہے اور وہ اس سے پہلوتہی کرتا ہے۔ اور وہاں سے غائب ہو جاتا ہے تو اُسے رفو چکر ہونا کہتے ہیں یعنی کسی ذمہ داری سے بچنا اور غیر ذمہ داری کے ساتھ نکل جانا۔

( 9 ) رکابی مذہب ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

رکابی کھانے کی پلیٹ کو کہتے ہیں اور پلیٹ میں کھانا کھانا بڑی بات سمجھا جاتا تھا عام طور پر غریب آدمیوں میں یہ دستور تھا کہ ایک ہی برتن میں سب کھاتے تھے یا پھر روٹی پر رکھ کر کھاتے تھے اب جن لوگوں کے یہاں رکابی میں رکھ کر کھانے کا رواج ہوتا تھا اور اچھے لوگ سمجھے جاتے تھے ان سے لوگ قریب آتے تھے اور اُن کی خوشامدیں طرح طرح سے کرتے تھے ایسے ہی لوگ خوشامد ی نہ کہلا کر  رکابیہ مذہب کہلاتے تھے یعنی ان کا مقصد خوشامد ہے اور اس خوشامد کے طور پر یہ ان کے مذہب کی بھی تعریف کرنے لگیں گے۔

اس صورتِ حال سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمارے سماج میں لوگ مذہب کی بھی کوئی خاص اہمیت نہیں سمجھتے تھے بلکہ جیسا موقع ہوتا تھا اس کے مطابق مذہب اختیار کر لیتے تھے۔

اُردو میں ایک دوسری کہاوت ہے جو اِسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہے ’’جہاں دیکھا توا برات وہیں گزاری ساری رات‘‘ یعنی جہاں اپنا کام بنتا دیکھا وہیں کے ہو رہے اور انہی کی سی بات کرنی شروع کر دی۔

( 10 ) رگ پٹھے سے واقف ہونا،رگ و ریشہ میں پڑنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ محاورہ حکیموں یا پہلوانوں کا ہونا چاہیے۔ اس لئے کہ رگ پٹھوں سے واقف ہونا انہی کا پیشے کا تقاضہ ہے۔ لیکن ہماری سماجی زندگی میں بھی یہ محاورہ داخل ہے اور اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ میں ان سے اچھی طرح واقف ہوں۔ خوب جانتا ہوں۔ آدمی اپنے آپ کو طرح طرح کے نقابوں میں چھُپانا چاہتا ہے اسی کا جواب سماج کے دوسرے افراد کی طرف سے یہ آتا ہے کہ وہ ہم سے نہیں چھُپ سکتے۔ داغ کا مصرعہ ہے۔

؂ وہ ہم سے بھی چھپیں گے وہ کہاں کے ایسے ہیں

اور اسی لئے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم تو ان کے رگ و ریشے سے یا رگ پٹھوں سے واقف ہیں یعنی ایک ایک بھید جانتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو شخصی، جماعتی یا خاندانی راز چھُپائے جاتے ہیں۔ مصلحتیں اسی میں ہوتی ہیں مگر عزیزوں رشتے داروں ملنے جلنے والوں یہاں تک کہ پاس پڑوس والوں کی یہ خوشی اور خواہش رہتی ہے کہ وہ ایک ایک بات کو جانیں یہ ہمارا معاشرتی انداز نظر ہے ایک حد تک اور خاص خاص موقعوں پر یہ ضروری بھی ہو سکتا ہے لیکن معاشرہ میں اس رو یہ کی عمومیت اچھی بات نہیں ہوتی۔

( 11 ) رنگ چڑھنا، رنگ جمنا یا جمانا، رنگ دیکھنا رنگ پھیکا پڑنا، وغیرہ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

رنگ ہمارا ایک تہذیبی لفظ ہے مختلف تہذیبی رویوں کے ساتھ رنگ وابستہ بھی ہوتے ہیں۔ رنگوں کا احساس اور اُس کا الگ الگ ہونا فطرت کی دین ہے جنگلوں کا رنگ پھولوں پھلوں کا رنگ پتھروں اور پانیوں کا رنگ ہمیں قدرت کی رنگا رنگی کا احساس دلاتا ہے رنگ بکھرنا رنگ پھیلنا رنگ اڑنا رنگ پھیکا پڑنا جیسے محاورے رنگ ہی سے وابستہ ہیں بعض محاورے ہماری معاشرتی زندگی اور اُس کے ذہنی رویوں کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔

رنگ جمانا ایسا ہی ایک محاورہ ہے کہ دوسروں میں اپنی کوشش خواہش اور عمل سے اپنے بارے میں ایک احساس پیدا کرنا۔ رنگ جمنا بھی اسی صورت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور ’’رنگ پھیکا پڑنا‘‘ بھی اور یہ بھی کہ ہم نے یہ رنگ بھی دیکھے ہیں یعنی ان کے یاکسی کے بارے میں ہماری نظر میں یہ سب باتیں بھی ہیں اُردو کا مشہور مصرعہ ہے ’’رنگ کے بدل‘‘ جانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

؂ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

اس کا پہلا مصرعہ ہے۔

؂ زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا

یعنی زمانہ میں کیا کیا انقلاب ہوتے ہیں اور زندگی میں کیا کیا رنگ دیکھنے پڑتے ہیں۔ کن کن حالات سے گزرنا ہوتا ہے۔

( 12 ) رنگ رلیاں منانا، رنگیں مزاج ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہم رنگیں طبیعت بھی کہتے ہیں مزاج بھی کہتے ہیں رنگین مزاج بھی اور اُس سے مراد شوقین مزاج لیتے ہیں زندگی گزارنے کے کچھ مختلف طریقہ ہیں۔ سنجیدہ مزاج لوگوں کے کچھ اور طریقہ ہوتے ہیں شوقین مزاج لوگوں کے کچھ اور  وسائل کا فرق اس میں بہت کچھ دخل رکھتا ہے۔ مال دار لوگ یا جاگیردار اور زمین دار خاندانوں کے افراد اکثر عیش اور مزے اڑاتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں اسی کو ’’رنگ رلیاں منانا‘‘ کہتے ہیں اب اس میں جاگیریں جائدادیں تباہ ہو جاتی ہیں خاندان مفلس ہو جاتے ہیں یہ ایک الگ بات ہے اور  اس پر غیر سنجیدہ افراد اور امیر زادے کوئی توجہ نہیں دیتے کہ کل کو کیا ہو گا۔

اِس سے ہم اپنے معاشرتی رویوں کا پتہ چلا سکتے ہیں کہ زندگیاں کیسے گزاری جاتی ہیں اور ان سے اچھے بُرے نتیجے کیا نکلتے ہیں۔

( 13 ) رُوح بھٹکنا، رُوح تھرانا یا کانپنا، رُوح نکالنا، رُوح نکلنا وغیرہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’رُوح‘‘ ہمارے جسم میں وہ جوہر یاقوّت ہے جو بھیدوں بھری ہے وہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے یہ کوئی نہیں جانتا مگر اسی کے سہارے ہم زندہ رہتے ہیں اور اسی کے تقاضہ ہمیں اپنی مادّی ضرورتوں سے اوپر اٹھاتے ہیں ہماری ایک انسانی اور  رُوحانی اخلاقی اور مذہبی سوچ بنتی ہے جس سے نسبت کے ساتھ ہم اُسے روحانی طریقہ فکر کہتے ہیں۔

ہمارا خوف دہشت تکلیف اور  راحت سب رُوح کے ساتھ ہے رُوح بدن سے نکل گئی تو نہ کچھ تکلیف ہے نہ راحت ہے نہ زندگی ہے نہ قیام ہے نہ بقا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہمارا بدن یا جسم ناشور ہے (فنا ہونے والا ہے) اور باقی رہنے والی رُوح ہے جو نہ کٹ سکتی ہے نہ گُل سکتی ہے۔ اسی سے ہمارے بہت سے محاورے بنے ہیں۔

رُوح کے بھٹکنے کے معنی ہیں کہ انسان کا ذہن بھٹک رہا ہے اُس کو سکون نہیں مل رہا ا س سے ایک خیال یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی روح بھٹکتی ہے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جنت یا دوزخ یا اعراف میں چلی جاتی ہے تصورات ہیں جو اعتقاد ات میں بدل گئے

مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ روح کا ہم سے تعلق ہمارے بدن اور ہماری زندگی کے معاملات سے اس کا رشتہ انسانی نفسیات کا اور اُس سے آگے بڑھ کر سماجیات کا ایک گہرا رشتہ ہے جس کی طرف مذکورہ محاورات اشارہ کرتے ہیں روح تھرّانا انتہائی خوفزدگی ہے سراسیمگی اور پریشانی کا عالم ہے۔

( 14 ) روغنِ قاز ملنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

روغنِ قاز ملنا ایک عجیب و غریب محاورہ ہے ’’قاز‘‘ جیسا کہ ہم جانتے ہیں ایک آبی پرندہ ہے۔ ایک خاص موسم میں اُڑ کر اِدھر آتا ہے اور پھر واپس چلا جاتا ہے۔ اِس کا روغن ایک فرضی بات معلوم ہوتی ہے خاص طور پر اس لئے کہ کہ روغنِ قاز ملنا ایک محاورہ بن گیا ہے اور  اس کے معنی ہیں جھوٹ سچ بول کر یا خوشامد کر کے دوسروں کو بیوقوف بنانا اور یہی صورت حال ہمارے سماجی رویوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

( 15 ) رونگٹے یا روئیں کھڑے ہونا، رُونگ رُونگ میں بسنا، رونمائی دینا، روتی صورت یا شکل رومال پر رومال بھگونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بعض محاورے سماجی زندگی سے اتنا تعلق نہیں رکھتے جتنا ان کا رشتہ ہمارے شاعرانہ طرز فکر سے ہوتا ہے رونگٹے کھڑے ہونا سنسنی خیز ہونے کی ایک صورت ہوتی ہے جو ایسی باتوں کو سن کر جو انتہائی دکھ درد والی ہوتی ہیں ہم جذباتی طور پر محسوس کرتے ہیں۔ جیسے اُن کے مظالم کی کہانیاں سن کر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ یا روم روم میں سنایا مرا رونگٹا رونگٹا میرا حسان مند ہے یا اس طرح کے محاورے شاعرانہ حیثیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اور تشبیہہ و استعارہ کی مبالغہ آمیز صورت کو پیش کرتے ہیں جیسے میری آنکھیں نمک کی ڈلیاں بنی رہیں۔ یا آگ کھائے گا انگارے اُگلے گا یہ ایک طرح کی شاعری ہے عمل ہے اور اس معنی میں محاورہ معاشرت کے اس تہذیبی پہلو سے رشتہ رکھتا ہے جس کا تعلق ہماری شعر و شعور سے ہے رُونمائی دینا رسم ہے ’’دلہن کو منہ دکھائی دی جاتی ہے‘‘ اور دولہا کو سلامی اس طرح کے محاورے اور بھی ہیں جس کا تعلق بڑی حد تک ہماری سوچ سے ہے طرز اظہار سے ہے۔ تشبیہوں استعاروں سے ہے سماج کے کسی رو یہ پر  روشنی ڈالنے سے نسبتاً کم ہے جو ہمارے لئے قابلِ گرفت یا لائقِ اعتراض ہوتا ہے۔ ’’روتی صورت‘‘ یا مشکل بھی ایسے ہی محاوروں میں ہے رومال پر رومال بھگونا یعنی بہت رُونا ہے یہ ایک شاعرانہ اندازِ بیان بھی ہے۔ اور ایک صورتِ حال کی طرف اشارہ بھی ہے۔

( 16 ) ریت بِلونا، ریت کی دیوار کھڑی کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ریت ایک طرح کی شاعری ہے اس لئے کہ ریت جمتا نہیں ہے۔ بکھرتا رہتا ہے ریت کی دیوار کھڑی ہوہی نہیں سکتی اِس سے مراد ایک بے تکی اور بے بنیاد بات کو اٹھانا اور اس پر زور دینا ریت کی دیوار کھڑی کرنا ہے۔

ریت پانی نہیں ہوتا پانی کو بھی ’’بلونے‘‘ سے کوئی فائدہ نہیں کہ جتنا چاہے پانی کو بلو نے کا عمل کرو نتیجہ کچھ نہیں۔ دیوتاؤں نے سات سمندروں کو ’’بلو کر‘‘ بھلے ہی اَمرت نکالا ہو آدمی تو نہیں نکال سکتا چہ جائیکہ ریت کو ’’بلویا‘‘ جائے۔ سوائے دھُول اٹھنے یا دھول اڑنے کے کوئی نتیجہ نہیں ہو گا اسی بے نتیجہ بات کی طرف اس محاورے میں اشارہ کیا گیا ہے۔

سماج کا رو یہ یہاں بھی پیشِ نظر رہا ہے کہ لوگ بے تُکی باتیں کرتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں یا کر رہے ہیں اُس کے کچھ معنی بھی ہیں یا نہیں۔

اگر ہم محاورات پر نظر ڈالیں اور اُن کے معنی کو زندگی کے مسائل و معاملات سے جوڑ کر دیکھیں توہم بہت کچھ نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔ ریت کے ساتھ اور بھی محاورے ہیں جیسے’’ ریت مٹی ہونا‘‘ ریت کی طرح بکھرنا ریت کو مٹھی میں تھامنا اب یہ ظاہر ہے کہ زندگی کے تجربہ ہیں روزمرہ کے مشاہدہ ہیں کہ انسان کے نیک اعمال بھی اچھے کام بھی گاہ گاہ بُرے نتائج پیدا کرتے ہیں اس میں تقدیر کو بھی دخل ہو سکتا ہے اور تدبیر کو بھی سُوجھ بُوجھ کو بھی نہ سمجھی کو بھی جسے بے تدبیری کہنا چاہیے۔ ۔

( 17 ) ریوڑی کے پھیر میں آ جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’ریوڑی‘‘ تل اور شکر سے بنی ہوئی ایک مٹھائی ہے اس کے لئے شکر کا قوام تیا ر کرنا اور پھر اسے ایک خاص ترکیب اور عمل کے ذریعہ اس مرحلہ تک لانا جہاں اس سے ریوڑیاں بن جائیں ایک محنت طلب اور  دشوار مرحلہ ہوتا ہے جن لوگوں نے شکر کے قوام سے ’’ریوڑیاں ‘‘ بنتی دیکھی ہیں وہ اُس بات کے معنی سمجھ سکتے ہیں کہ’’ ریوڑی‘‘ کے پھیر میں پڑنا کس طرح کے پیچیدہ عمل سے گزرنا ہے جس کو سب سمجھ بھی نہیں سکتے عام طور پر دشوار عمل کو اِس محاورے سے تعبیر کرتے ہیں کہ وہ تو آج کل ریوڑی کے پھیر میں پڑا ہوا ہے۔

( 18 ) ریشم کے لچھے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’ریشم کے لچھے‘‘ ایک خاص طرح کا شاعرانہ انداز ہے ریشم خوبصورت پُرکشش نرم اور گُداز شے ہے خوبصورت بالوں کو بھی ریشم کے لچھے کہتے ہیں اور اسی طرح سے خوبصورت باتوں کو بھی اگر ہم اس سچائی کو سامنے رکھیں تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ محاورے ہمارا شعور بھی ہیں اور ان کا تعلق شعریت سے بھی ہے کہ محاوروں میں تشبیہہ استعارہ اور کنایہ جو کام کرتے ہیں اُن کا تعلق گاہ گاہ ہماری شعری حیثیت سے ہوتا ہے۔

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔