02:44    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

محاورات

2735 0 0 00

( 1 ) ناک بھوں چڑھانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ناراضگی اور نا خوشی کا اظہار کرنا خود ناک چڑھانا بھی ناز نخرے کے ہی معنی میں آتا ہے۔ ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دینا اپنی طبیعت کے خلاف کوئی بات برداشت نہ کرنا یہ تُنک مزاج آدمی کو کہتے ہیں جو ذرا سی بات پر نا خوشی کا  اظہار کرتا ہے اور چیں بہ جبیں ہو جاتا ہے یعنی اس کی پیشانی پر بل پڑ جاتے ہیں۔ یہ سماجی رو یہ ہیں جن کا تعلق انسان کے اپنے مزاج اور  عادتوں سے بھی ہوتا ہے ہمارے اِن محاورات میں اِن روشوں  اور  رویوں ہی کو اپنے اندر محفوظ کیا ہے۔

ناک کٹنا یا ناک کاٹنا ناک رہ جانا نکو بنا یا  نکو بنانا بھی ناک سے تعلق رکھنے والے محاورے ہیں ناک کٹوانا یا ناک کاٹ لینا یہ سب بے عزت ہونے یا بے عزت کرنے کے معنی میں آتے ہیں اور ’’نکو بنانا‘‘ ان کے مقابلہ میں قابلِ اعتراض ٹھہرانے کا عمل ہے۔ جس پر یہ محاورے روشنی ڈالتے ہیں۔ بے عزت ہونے کو کہتے ہیں ناک کان دینا بے عزت ہونے کو کہتے ہیں جب آدمی کسی بات کا وعدہ کرے یا کسی کام کے کرنے کا دعوی کرے اور نہ کر سکے بے عزت ہو جائے تو اسے ناک کان دیکر جانا کہتے ہیں۔ ہمارے ان محاوروں سے قبائلی یا قدیم تہذیبی رویوں کی نشاندہی ہوتی ہے اور یہ ایک وقت میں جو سماج کی سوچ تھی اُس کی ترجمانی کرتے ہیں۔

( 2 ) ناک پر انگلی رکھ کر بات کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ناز و نخرے سے بات کرنے کی ادا کو کہتے ہیں جس میں چھوٹے طبقہ کی عورتوں کا رو یہ خاص طور سے شامل رہتا ہے یا  پھر زنخوں کا رو یہ جو ناک پر انگلی رکھ کر بات کرتے ہیں۔

( 3 ) ناک کا بال ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بہت عزیز ہونا اور عزت کی نشانی سمجھنا اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ تو ان کی ناک کا بال ہے اُن کے لئے وجہ عزت ہے عام طور پر اب یہ محاورہ شہری سطح پر بولا نہیں جاتا کیونکہ اس کے مفہوم میں ایک طرح سے کراہت کا پہلو ہے۔

( 4 ) نام اُچھالنا یا نام اُچھلنا،نام بدنام ہونا، نام ہونا، یا نام رکھنا، نام روشن ہونا وغیرہ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ سب محاورے ہیں جو نام سے وابستہ ہیں۔ نام شہرت و عزت کو بھی کہتے ہیں۔ اسی لئے نام روشن ہونا اچھے معنی میں آتا ہے اور طنز کے طور پر اسے بُرے معنی میں استعمال کرتے ہیں تم نے باپ دادا کا نام خوب روشن کیا۔ دیہات میں نامی گرامی عزت والے آدمی کو کہتے ہیں اور ان لفظوں کا تلفظ تشدید سے کرتے ہیں نام اُچھلنا نام نکلنا دونوں بدنام ہونے کے معنی میں کہہ آتے ہیں نام اُچھالنا کسی کو جھوٹ سچ باتیں کر بدنام کرنے کے معنی میں آتی ہیں۔ نام ہونا شہرت پانے کے معنی میں آتا ہے۔ نام رکھنا کسی پر اعتراض کرنا۔ اور برائی میں اس کا نام لینا وہ دوسروں کو بہت نام رکھتے ہیں یا انہیں نام رکھنے کی بہت عادت ہے۔

’’برائے نام‘‘ ہونا کسی کام کو دل لگا کر اور پورے طور پر انجام نہ دینا ایسی کسی صورت کو برائے نام بات کرنا یا کام کرنا کہتے ہیں۔ کہ سب باتیں برائے نام ہیں اِن کا کوئی سنجیدہ مقصد نہیں۔

( 5 ) نام لیوا ہونا، نام کی رٹ ہونا، نام کا عاشق ہونا ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جو شخص کسی اپنے بڑے رشتہ دار کو یا د کرے یا اُس کے کام آئے وہ نام لیوا کہلاتا ہے اور جس کا کوئی نہ ہو اُس کے لئے کہتے ہیں کہ اُس کا کوئی نام لیوا بھی نہیں ہے۔ ’’نام کی رٹ ہونا‘‘ بار بار کسی کو یاد کرنا اور اُس کا نام لینا نام کا عاشق ہونا کسی کو بہت عزیز رکھنا بقولِ غالبؔ۔

؂ ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

( 6 ) ناؤ خشکی میں نہیں چلتی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’ناؤ‘‘ کشتی کو کہا جاتا ہے میر تقی میرؔ نے اپنے ایک شعر میں دونوں لفظوں کو ایک ساتھ استعمال کیا ہے۔

؂ عشق کی ناؤ پار کیا ہووے

جو یہ کشتی تِری تو بس ڈوبی

’’ناؤ‘‘ پانی ہی میں چلتی ہے خشکی میں نہیں چلتی اسی کے ساتھ ناؤ لکڑی ہی کی ہو سکتی ہے لوہے یا  کاغذ کی نہیں اردو کا مشہور مصرعہ ہے۔

؂ ’’ناؤ‘‘ کاغذ کی کبھی چلتی نہیں

چل کیسے سکتی ہے کہ کاغذ تو پانی میں گل جاتا ہے۔

( 7 ) ناؤ کس نے ڈبوئی خضر نے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

حضرت خِضر پانی کے دیوتا جیسا کردار رکھتے ہیں اسی لئے اُن کا لباس سبز ہے اور وہ اکثر دریا کے کنارے ملتے ہیں آبِ حیات کے سرچشمہ تک اُن کی رسائی ہے۔ اب اگر وہی ناؤ کے دریا میں ڈبونے پر آمادہ ہو جائیں تو اس کی فریاد کس سے کی جائے اسی لئے یہ محاورہ آتا ہے کہ یہ ناؤ کس نے ڈبوئی خِضر نے اب یہ شکایت ہو تو کس سے ہو یہ ایسا ہی مفہوم ہے جیسے کوئی کہے کہ جب کعبہ سے کفر اُٹھنے لگے تو مُسلمانی کہاں رہے گی فارسی کا مصرعہ ہے۔

؂ چَوکفر  از کعبہ برخیز زد کُجا ماند مُسلمانی

یہ گویا اُن اداروں اور  اُن لوگوں پر طنز ہے جو کسی بات کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور جس نے روشنی و رہنمائی کی توقع کی جاتی ہے مگر ان کا عمل توقع کے بالکل برخلاف ہوتا ہے تبھی تو خِضر ناؤ  ڈبوتے ہیں۔ اور کعبہ سے کُفر اٹھتا ہے۔

( 8 ) نخاس کی گھوڑی، نخاس والیاں۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

پہلے زمانہ میں جب گھوڑوں کی بڑی اہمیت تھی تو گھوڑوں کے بازار لگتے تھے عام طور پر پولیس فوج اور  رئیسوں کی سواری کے لئے گھوڑے ہی خریدے جاتے تھے لیکن گھروں میں باندھنے کے لئے گھوڑیاں خریدتے تھے اور انہیں نخاس کی گھوڑی کہتے تھے جس کے معنی ایک طرح سے بازاری عورت کے بھی ہوتے تھے۔ بازاری عورتوں کو اگر گھرمیں ڈال لیا جاتا تھا تو اسے اچھی نظر سے دیکھا نہیں جاتا تھا اکثر بازاری عورتوں سے گھروں کی پردہ نشین عورتیں پردہ کرتی تھیں ایسی عورتوں کا عمل دخل دیوان خانوں یا بیٹھکوں تک محدود ہوتا تھا۔ جو رئیس ان سے تعلق رکھتے تھے وہ انہیں اپنی حَرم سرا یا زنان خانہ میں نہیں بلاتے تھے نخاس کی گھوڑی جیسا طنز عورتوں ہی کی طرف سے ہوتا ہو گا جس کے ذریعہ ہم آج بھی اِس سماج کے ذہنی عمل اور  ردِ عمل کو سمجھ سکتے ہیں نخاس والیاں کے معنی بھی یہی ہے لکھنؤ کے ایک بازار کا نام ’’نخاسہ‘‘ ہے لیکن وہاں اب گھوڑے نہیں بکتے اور نہ بازاری عورتیں رہتی ہیں۔

( 9 ) نخرہ بگھارنا، نخرہ میں تُلنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے سماجی رویوں میں ایک رو یہ نخرہ کرنا بھی ہے یعنی خوامخواہ ناز دکھانا اور اپنی قدر و قیمت کو بڑھانا ہے ہمارے معاشرہ میں اس طرح کا انداز آج بھی پا یا جاتا ہے کہ اولاد بیوی اور ساس خوامخواہ نخرہ کرتی ہے۔ نخرہ میں کوئی معقولیت نہیں ہوتی ناز و ادا دکھانے کا بھی کوئی سلیقہ طریقہ نخرہ دکھانے میں شامل نہیں ہوتا یہ الگ بات ہے کہ یہ ہمارے سماج اور مزاج میں شامل رہتا ہے اور بیوقوف لوگ اس کا زیادہ سے زیادہ موقع بہ موقع اظہار کرتے ہیں اور خواہ مخواہ نخرے دکھاتے ہیں نخرہ میں تلنا کے معنی بھی یہی ہیں اس کا رواج زیادہ تر عورتوں کے باہمی معاملات میں ہوتا ہے۔

( 10 ) نرغے میں آ جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

خطرہ میں گھِر جانا یہ لفظ ’’نرکا ‘‘بھی کہلاتا ہے اور ہانکا کے معنی میں آتا ہے یعنی جانوروں کو گھیر کر کسی ایسے مقام پر لانا جہاں ان کا  آسانی سے شکار ہو سکے۔ اسی لئے نرغے میں پھنسنا دشمنوں کے حلقہ میں گھر جانے کو کہا جاتا ہے اور  اظہارِ ہمدردی کے طور پر بولا جاتا ہے کہ وہ بچارا خوامخواہ نرغے میں پھنس گیا مشکلات یا مصیبتوں میں گھِر گیا۔ اس میں طرح طرح کے خطرات بھی شامل ہیں۔ محاورہ کسی صورتِ حال کو کس طرح اپنے اندر سمیٹتا ہے اِس کا اندازہ اس محاورے سے بھی ہوتا ہے۔

( 11 ) نسبت ہو جانا، نسبتی بھائی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

نسبت ہو جانا رشتہ ہونے کو کہتے ہیں اُس کے لئے نسبت ٹھہرنا بھی کہا جاتا ہے اور جس کی نسبت کسی سے ٹھہر جاتی ہے وہ اُس سے گویا منسوب ہو جاتی ہے لیکن عام طور پر یہ لفظ لڑکی یا عورت ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے سسُرال کے رشتہ دار نسبتی بھائی بہن یا  خالا ماموں یا پھوپھی اسی نسبت کے ساتھ یاد کئے جاتے ہیں۔ جب اُن کا تعلق سسُرال سے ہو جائے تو برادرِ نسبتی یا خواہرِ نسبتی دلہن کے بھائی بہن کو کہتے ہیں۔ جسے ہماری عام زبان میں سالا یا سالی کہا جاتا ہے یہ گویا رشتوں کی وہ تقسیم ہے جو شادی کے ذریعہ قائم ہوتی ہے اور سماجی رشتوں کے تعین اور مطالعہ میں اِس سے مدد ملتی ہے۔

( 12 ) نس پھڑکنا (رگ پھڑکنا) ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’نس ‘‘رگ کو کہتے ہیں ’’نس کٹنا ‘‘محاورہ اسی سے آیا ہے جس کے معنی ہیں کہ کوئی ایسی رگ کٹ جانا جس سے بُری طرح خون بہنے لگے۔

’’نس نس میں سمانا‘‘ رگ رگ میں پیوست ہونا یا  اُتر جانا غالب کا یہ  شعر ہے۔

رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل

جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے تو پھر لہو کیا ہے

یہاں رگ رگ سے مُراد نس نس ہی ہے’’ ناسوں میں کو ‘‘نکالنا بہت تکلیف دے کر کسی کو اُس کے عمل کی سزا دینا یہ بھی نس نس ہی سے تعلق رکھتا ہے’’ نس پھڑکنا ‘‘بھی محاورہ ہے۔ اور کسی کی یاد آنے اور کسی بات کا احساس ہونے کو نس پھڑکنا کہتے ہیں ’’ نس پرنس چڑھ جانا‘‘ رگ پٹھوں میں کوئی ایسی تکلیف ہوتی ہے جس کو ہم اچانک محسوس کرتے ہیں اور اُسے نس پر نس چڑھ جانے سے تعبیر کرتے ہیں یہ تکلیف اکثر پنڈلیوں میں ہوتی ہے اور نروس سسٹم میں کوئی ایسی عارضی خرابی اِس کا سبب بنتی ہے جس کو فوری طور پر سمجھا نہیں جاتا اسی سلسلہ میں اردو کا ایک شعر ہے۔

رگ و پے میں جب اُترے زہرِ غم تب دیکھئے کیا ہو

ابھی تو  تلخیِ  کام و دہن کی آزمائش ہے

یہاں رگ و پے میں اترنے کے جو معنی ہیں وہی نس نس میں اُترنے کے بھی ہیں اِن محاوروں سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح بعض فقرہ اور الفاظ ایک خاص معنی کی پابندی کے ساتھ نئے معنی اختیار کر جاتے ہیں اور اسی سے محاورہ بنتا ہے۔

( 13 ) نشہ ہونا، نشہ پانی کرانا، نشہ کرنا، نشہ کا عادی ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

نشہ دراصل کیفیتِ خُمار کو کہتے ہیں جو اکثر شراب پینے سے ہوتا ہے۔ محاورتاً کسی بھی حالت میں اگر سرشاری کی کیفیت میسَّر آ جائے تو اسے بھی نشہ ہونا کہتے ہیں۔ ’’نشہ پانی کرنا یا کروانا‘‘ نچلے شرابی کبابی طبقہ کا محاورہ ہے شراب اونچے طبقہ میں بھی پی جاتی ہے مگر وہ لوگ اسے نشہ پانی کرنا نہیں کہتے نشہ کا عادی ہونا تقریباً روز شراب پینا ہے نشہ پانی کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ محاورات میں بھی کہیں کہیں طبقاتی اندازِ نظر کا فرق موجود ہے۔ اِس سے ہم زبان کے استعمال میں بھی طبقاتی سطح اور  انداز نظر کے فرق کو سمجھ سکتے ہیں۔

( 14 ) نشا ہرن ہونا، نشے کے ڈورے ہونا، نشیلی آنکھیں ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جب آنکھوں سے نشہ غائب ہو جاتا ہے اور ذہن پر مستی و سرشاری کا غلبہ نہیں رہتا اور کسی خطرے کا احساس کر کے آدمی ہوش میں آ جاتا ہے تو اسے نشہ ہرن ہونا کہتے ہیں کہ ذرا سی دیر میں سارا ’’نشہ ہرن‘‘ ہو گیا لیکن جن آنکھوں میں نشے کے ڈورے ہونا ایک شاعرانہ اندازِ نظر رکھنے والا محاورہ ہے۔ اور آنکھوں میں نشے کی سُرخی کو گلابی ڈور ے یا نشے کے سُرخ ڈورے کہا جاتا ہے۔ محاورے جب شاعرانہ انداز اختیار کرتے ہیں تو ان سے ایک نیا حسن پیدا ہوتا ہے۔

( 15 ) نصیب لڑنا، نصیب کھُلنا، نصیبہ پھرنا، نصیب پھُوٹ جانا وغیرہ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

قِسمت کے بارے میں ایک خاص محاورہ ہے جس کام کا انجام پانا یا جس سے مُراد کا پورا ہونا بظاہر ممکن نہ ہو وہ کا م اگر ہو جائے تو اس کو قسمت کا لگنا یا نصیب کھُلنا کہتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اِس کے تو نصیب کھل گئے قسمت لڑ گئی نصیبہ پھرنا یا نصیب پھُوٹ جانا بھی اسی معنی میں آتا ہے۔

( 16 ) نظر یا نظریں چُرانا، نظر ڈالنا، نظر رکھنا،نظر چڑھنا یا نظر میں چڑھنا، نظروں سے گِرانا، نظر کھا جانا، یا لگنا، نظر میں پھرنا، نظر یا نظروں میں سمانا، نظر میں کانٹے کی طرح کھٹکنا یا چُبھنا وغیرہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

نظر کے بارے میں ہمارے یہاں بہت محاورات ہیں جو نظر کے تعلق سے ہمارے فکر و خیال کے مختلف گوشوں کی نمایندگی کرتے ہیں جیسے نظر رکھنا کسی بات کا خواہش مند ہونا  نظر میں رکھنا ذہن میں کسی خیال یا مسئلہ کو رکھنا کہ اس کو ہونا یا نہ ہونا چاہیے۔ نظر ہو جانا ہماری توہم پرستی کی ایک علامت ہے کہ اس کو تو نظر ہو گئی یا نظر لگ گئی یا  پھر اُن کی بُری نظر بے حد نقصان پہنچا گئی یا کھا گئی نظر کھا گئی کے وہی معنی ہیں جو زنگ کھا گئی کے ہیں کسی شاعر نے خوب کہا ہے۔

؂ زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

’’نظر بچانا ‘‘ارادے کے ساتھ دوسرے کی طرف دیکھنے میں تکلف کرنا ہے۔ نظریں چرانا یا نظر چُرانا بھی اسی معنی میں آتا ہے۔ نظر میں آنا یا  نظر میں چڑھنا، پسند آنے کے معنی میں آتا ہے اور اُس کے مقابلہ میں نظر سے گِرنا یا  گر جانا استعمال کرتے ہیں اِس کے علاوہ نظر میں رہنا اور نظر میں پھرنا بھی آتا ہے یعنی خیال رہنا یا د آنا یا د کرنا۔ نظر یا نظروں میں سمانا اچھا لگنا اور پیارا ہونا ہے کہ وہ آج کل اُن کی نظروں میں سما رہے ہیں۔ ’’نظر نظر کی بات ہے‘‘ یعنی کون کس کی بات کو کس نقطہ نظر سے دیکھتا ہے اور کس کی نظر میں کس بات کے کیا معنی ہیں۔

نظر میں کھٹکنا یا  نظر میں چُبھنا ناگوار ہونے کے معنی میں آتا ہے اب اگر دیکھا جائے تو کسی بھی شخص یا شخصیت کے بارے میں کون کیا خیال رکھتا ہے پسند یا ناپسند کا معیار کیا ہے اور کس کے دل میں کس بات کی کیا قیمت ہے یا کس شخص کا کیا درجہ ہے یہ نازک سماجی رشتہ ہیں جن کا انسانی نفسیات سے گہرا تعلق ہے۔ اور سماجی ادبی شعور جو کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اُس کو محاورے کے ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے۔

( 17 ) نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سُنتا ہے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

شور شرابہ اور ہُلَّڑبازی میں کوئی اچھی بات کون سنتا ہے اسی کو نقار خانے میں طوطی کی صدا کہا جاتا ہے۔ پہلے زمانہ میں شاہی محل میں بھی نقار خانہ ہوتا تھا اور پانچ وقت نوبت بجتی تھی چنانچہ لال قلعہ میں اب تک نوبت خانہ موجود ہے جہاں اب تک نوبت بجتی ہو گی خوشی کے موقع پر ڈھول تاشے بجانے کا عام دستور تھا۔ یہاں تک کہ نازیوں کے جلوس کے ساتھ بھی یہ صورت رہتی تھی اور  کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔

( 18 ) نقش بدیوار ہونا، نقش بر آب ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دیوار پر بنی ہوئی کوئی بھی تصویر جو اپنی خاموش زبان میں بہت کچھ کہتی نظر آتی ہے جو آدمی بچارا گھر میں بالکل چپ رہتا ہے اسے بھی نقش بہ دیوار کہا جاتا ہے۔ پانی پر ہزاروں شکلیں بنتی ہیں لہریں اٹھتی ہیں گِرداب بنتے ہیں، بھنور پڑتے ہیں بلبلے اٹھتے ہیں اور لہریاں سجتی ہیں مگر یہ تماشہ پلک جھپکنے میں ختم ہو جاتا ہے ہوا کا ایک جھونکا آیا تو ایک مرقع پانی میں سج گیا اور  دوسرا جھونکا آیا توہر چیز مٹتی یا بدلتی چلی گئی اسی مشاہدہ نے آدمی کو یہ سبق دیا کہ پانی پر جو نقش بنتا ہے وہ نا پائیدار ہوتا ہے اُس کے مقابلہ میں نقش کلمہ حجر یعنی وہ نقش جو پتھر  پر ہو  جو کسی کے مٹائے نہیں مٹتا اسی لئے اُردُو محاورات میں اِس محاورے کا استعمال پائیداری کے لئے ہوتا ہے کہ اس کا نام تو نقش کلمہ حجر ہو گیا یہ عربی ترکیب لفظی اُردُو کی ساخت پربھی روشنی ڈالتی ہے کہ اُس میں عربی فارسی‘ ہندی سنسکرت وغیرہ بولیوں اور  زبانوں کے الفاظ خلط ملط ہو گئے ہیں۔ اور انہی کی وجہ سے وہ ایک کھچڑی زبان ہے۔

( 19 ) نکلے ہوئے دانت پھر نہیں بیٹھتے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

محاورات میں بہت سے محاورے انسان کے بدن اور بدن کے اعضاء سے متعلق ہیں اُن میں دانت بھی ہیں اُن کی تعداد کافی محاوروں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ دانتا کل کل ہونا، ’’منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت‘‘ نہ ہونا ’’دانت کاٹی روٹی ہونا، دانت رکھنا کس طرح کے یہ محاورے ہیں جو دانتوں سے تعلق کے ساتھ زندگی کے مختلف مراحل کو پیش کرتے ہیں خاص طور پر بڑھاپے کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہوتا ہے۔ جس میں کہیں تشبیہ کہیں استعارہ کہیں کہاوت کہیں مشاہدہ اور کہیں زندگی کا کوئی انوکھا تجربہ شامل رہتا ہے۔

( 20 ) نمک حلالی کرنا، نمک حرامی کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

نمک ہمارے یہاں بہت بڑی نعمت خیال کیا جاتا ہے اسی لئے نمک کے ساتھ وفاداریوں کا تصور وابستہ ہے اور جو کسی  کا نمک کھاتا ہے وہ اُس کا بندہ بے دام بن جاتا ہے اور اُس کے لئے اپنا خون پسینہ بہانے پر تیار رہتا ہے ایسے ہی کسی شخص کو نمک خوار ہونے کے علاوہ نمک حلال کہا جاتا ہے پہلے زمانہ میں لوگ اِن قدروں کو بہت مانتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم نے آپ کا نمک کھایا ہے جو لوگ اپنے آقا کے یا اپنے محسن کے وفادار نہیں ہوتے وہ نمک حرام کہلاتے ہیں ایسا ہی کوئی کردار دہلی میں تھا جس کی حویلی اب بھی ’’نمک حرام کی حویلی ‘‘کہلاتی ہے۔ الفاظ کن حالات کن خیالات،  اور کن سوالات کے ساتھ اپنے معنی کا تعین کرتے ہیں اُن کی مثالیں نمک سے وابستہ محاوروں میں بھی تلاش کی جا سکتی ہیں۔

( 21 ) نمک چھِڑکنا اور نمک کی ڈلیاں ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جب آنکھوں میں تکلیف ہوتی ہے اور تمام رات آنکھ نہیں لگتی نیند اُڑ جاتی ہے تو آنکھوں کی تکلیف کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں کہ ساری رات میری آنکھیں نمک کی ڈلیاں بنی رہیں۔

نمک چھِڑکنا اور خاص طور سے زخموں پر نمک چھِڑکنا ذہنی تکلیف اور نفسیاتی اذیتیں پہنچانا ہے اور اِس اعتبار سے یہ زندگی میں سزا دینے کا بہت ہی سخت عمل ہے کہ زخموں پر نمک چھِڑکا جائے۔

( 22 ) ننگی تلوار یا شمیرس برہنہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

تلوار میان میں رہتی ہے اور میان سے باہر آتی ہے تو خطرہ کا سبب ہوتی ہے اسی لئے بہت غصہ والے آدمی کو شمشیرِ برہنہ کہا جاتا ہے۔ ویسے یہ ایک شاعرانہ انداز ہے اور ہر ایسی چیز کو جس میں بجلی جیسی تڑپ چمک دمک موجود ہو تو ننگی تلوار سے تشبیہ دیتے ہیں۔ بہادر شاہ ظفر نے اپنی محبوبہ دلنواز کی تعریف کرتے ہوئے کہ یہ مصرعہ بھی لکھا ہے۔

شمشیر برہنہ، مانگ عجب اور اُس پہ چمک پھر ویسی ہے۔

( 23 ) نِواڑا کھینا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ناؤ نِواڑابھی کہا جاتا ہے اور ’’اُڑنے‘‘ کے ساتھ اِس کا یہ تلفظ ہماری بولی ٹھولی میں ’’ اڑنے‘‘ کے لئے استعمال کا ایک نمونہ ہے جیسے ہم پلنگ سے پلنگڑی کہتے ہیں بنگا سے ’’بنگڑی‘‘ اسی طرح ناؤ سے’’ نواڑا ‘‘چھوٹی سی’’ ناؤ ‘‘جس پر بیٹھ کر کوئی بڑی ندی دریا یا سمندر پار کیا جائے۔ ’’ جھیل ڈل‘‘ کشمیر میں اِس طرح کی کشتیاں چلتی ہیں جو نواڑ کہلاتی ہیں۔

( 24 ) نو تیرہ بائیس بتانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

حِساب کِتاب میں گڑبڑ کرنا اگرچہ’’ نو تیرہ بائیس‘‘ ہی ہوتے ہیں اور بھی اعداد ہیں جس سے انیس بیس محاورے یا کہاوتیں بنائی گئی ہیں جیسے انیس کا فرق ہونا یا ’’تین تیرہ بارہ باٹ‘‘ ہونا ’’باٹ‘‘ راستہ کو بھی کہتے ہیں اور حصّہ کو بھی ’’بارہ بانی‘‘ کا ہونا کھرا اور  صحت مند ہونا۔ کھیتوں کے لئے بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے اور صحت مندی کے لئے بھی کھیتوں میں اچھی پیداوار اور بدن کے لئے اچھی صحت مُراد لی جاتی ہے بارہ کا لفظ اکثر تہذیبی حوالوں میں آتا ہے بارہ بُرج بھی ہوتے ہیں اور سال کے بارہ مہینے بھی اور  بارہ وفات بھی۔

’’نو دو گیارہ ہونا ‘‘چلے جانے اور ٹل جانے کو کہتے ہیں وہ تو یہاں سے ’’نو دو گیارہ ہو گئے‘‘ تیرہ تیزی ایک مہینے کا نام ہے ’’دہا‘‘ محرم کو کہتے ہیں اور ’’دہے ‘‘ محرم کے گیتوں کو کہتے ہیں اِس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ اعداد سے بھی ہم نے تہذیبی علامتوں کا کام لیا ہے اور اُن کو اپنی زبان کے محاوروں میں جگہ دی ہے۔

( 25 ) نوکِ پان ملاحظہ کیجئے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

دوکانداروں کا محاورہ ہے اور خاص طور پر جُوتے فروش کا۔ اور  اِس اعتبار سے یہ ایک محاورہ ہے کہ اِس کا تعلق ’’ہاٹ بازار‘‘ سے ہے اور دوکاندارانہ اندازِ نظر اور  طرزِ  اظہار کا ایک بہت اچھا نمونہ ہے۔

( 26 ) نوک پلک دُرست کرنا یا نوک پلک سے دُرست ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کسی کی شہ کی خوبصورتی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ نوک پلک سے دُرست ہے۔ ’’نک سِک‘‘ سے دُرست ہونا عورتوں کا اپنا محاورہ ہے اور کسی ایسی لڑکی کے لئے کہا جاتا ہے جو ’’آنکھ ناک‘‘ سے دُرست ہو اور قبول صورت ہو یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے بہت سے محاورے وہ ہیں جن کا تعلق گھر آنگن سے ہے اور جو ہمارے گھروں کے عام ماحول کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

( 27 ) نیزوں پانی چڑھ جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ سیلاب کے عالم میں ہوتا ہے۔ ناپ کا پیمانہ (پیمائش) بھی آدمی کے لئے کچھ عجیب رہا ہے مثلاً گفتگو کو لمبی بات چیت کہا جاتا ہے اور جب مختصر کہنا ہوتا ہے تو اسے دو بول کہتے ہیں یا بول بات کہتے ہیں زبان کو دس گز کی لمبی زبان کہتے ہیں۔ راستہ کو دو قدم کا راستہ کہتے ہیں اور جب دُور دراز راستہ ہوتا ہے تو وہ کڑے کوس کہلاتا ہے پانی کو اس کی گہرائی کے اعتبار سے ہاتھوں سے ناپا جاتا ہے اور دو  ہاتھ پانی کہا جاتا ہے اوپر چڑھتے ہوئے پانی کا ناپ نیزوں سے لیا جاتا ہے یعنی نیزوں آ کرپانی چڑھ گیا جب کہ پانی کی تھوڑی مقدار کو چُلو بھر پانی کہتے ہیں وغیرہ اس سے ہم ناپ تول کے سادہ سطح پر انسانی اور سماجی پیمانوں کا انداز ہ کر سکتے ہیں۔

( 28 ) نیل کی سلائیاں پھیرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

انسانی زندگی میں سزائیں بھی عجیب و غریب رہی ہیں اُن میں اندھا کر دینا بھی ہے اُس کے لئے’’ آنکھیں نکالنا‘‘ بھی ایک عمل تھا ’’غلام قادر روہیلے‘‘ نے نوشاہِ عالم ثانی کی آنکھیں نکال لیں تھیں آنکھوں میں جلتی ہوئی سیخیں داخل کرنا بھی اس کا ذکر الف لیلیٰ کے ایک قصہ میں آیا ہے مُغلوں میں یہ سزا کیسے آئی یہ کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن وہ آنکھوں میں نیل کی سلائیاں پھیر کر اپنے مخالف یا دشمن کو اندھا کر دیتے تھے۔

محاورہ میں اُسی کی طرف اشارہ ہے میر تقی میرؔ نے اپنے ایک شعر میں بھی ایسے کسی المناک واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔

؂ شاہاں کہ کُحلِ جواہر تھی خاکِ پا جن کی

انہی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں

( 29 ) نیند اُچٹ جانا، نیند لینا، نیند حرام کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

نیند خوابیدگی کے عالم کو کہتے ہیں تھوڑی دیر کے لئے سو جانے کو  نیند لینا بھی کہا جاتا ہے اور نیند اُچٹ جانا تو کوئی بھی آدمی بے آرامی محسوس کرتا ہے۔ اگر کسی کے شور و فریاد سے نیند نہ آ سکے تو اس کو نیند حرام کرنا کہا جاتا ہے۔ ’’نیند میں ہونا‘‘ ’’آنکھوں میں غنودگی آنا‘‘ ہے یعنی نیند جیسی کیفیت عورتوں کی ایک لوری ہے۔

؂ آ جاری نندیا،  تو آ کیوں نہ جا

میرے مُنے کی آنکھوں میں گھُل مِل جا

( 30 ) نیند کا ماتا،نیند کا دکھیا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بہت کم سُننے میں آیا ہے لیکن’’ نیند کا ماتا‘‘ ہندی لوک گیتوں میں آتا رہا ہے انہی گیتوں کا ایک بول ہے۔

؂ میری انکھیاں  نیند کی ماتی، تو سپنے میں آوے

میری آنکھیں نیند میں ڈوبی ہوئی ہیں اور آرزو یہ ہے کہ میں سو جاؤں اور تو مرے خواب میں آئے۔

( 31 ) نیوجمانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’نیو‘‘ مکانوں کی دیواریں زمین کے اندر چُنی جاتی ہیں اِس کو ’’نیو ‘‘رکھنا بھی کہتے ہیں ’’ نیو‘‘ جمانا بھی ’’نیو‘‘ قائم کرنا بھی اسی کے ساتھ ’’نیو‘‘ کا پکا ہونا یا ’’نیو‘‘ کا مضبوط ہونا بھی استعمال ہوتا ہے اگر نیو کمزور ہوتی ہے تو مکان کی بُنیاد کمزور ہوتی ہے اور اُس کے در و دیوار کمزور خیال کئے جاتے ہیں اِس معنی میں ’’ نیو‘‘ اور اُس کی مضبوطی یا کمزوری ہماری سماجی حسَّیات کا ایک اثاثی پہلو ہے سوچ کی ایک بنیاد ہے۔

( 32 ) نئے سِرے سے جنم لینا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے معاشرے کے بنیادی تصورات میں ’’آواگون ‘‘کی وہ فلاسفی شامل رہتی ہے کہ ایک جنم کے بعد دوسرا جنم ہوا ہے اسی لئے ہم جنم جنم کے ساتھی بھی کہتے ہیں اور نئے جنم سے مُراد اس کی خطرناک صُورتِ حال اور  جان لیوا بیماری کو بھی کہا جاتا ہے جس سے آدمی بچ جاتا ہے تو گویا وہ نیا جنم لیا جاتا ہے۔

اسی لئے ’’مجئے جنم‘‘ آنا بھی مصیبتوں سے چھُوٹ جانا ہے اِس سے ہم زندگی کے خطرات شدید تکالیف اور سخت حالات سے گزرنے کے عمل کو سماجی رویوں کی روشنی میں دیکھ سکتے ہیں۔

کہ گویا زندگی میں آدمی کو موت تو ایک بار آتی ہے لیکن اپنے حالات معاملات اور  حادثات کے اعتبار سے وہ بہت سے جنموں سے ایک ہی جنم میں گزر جاتا ہے۔ اسی لئے حالات کا بہتری کی طرف رُخ کرنا گویا نیا جنم پانا ہے۔ اس کو ہم ہندوستان کے دوبارہ جنم لینے یا ’’پُونر جنم‘‘ کے عقیدہ سے جوڑ سکتے  ہیں اس لئے کہ جو قومیں دنیا میں ’’ پونر جنم‘‘ کے عقیدہ کو نہیں مانتی اُن کے ہاں یہ محاورہ بھی نہیں ہو سکتا مسلمانوں میں یہ ہندوستانی ماحول کی دین ہے۔

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔