03:13    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

محاورات

1184 0 0 00

( 1 ) غار ت ہونا، غارت کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے ہاں وسطی عہد میں راہ زنی اور غارت گری بھی مختلف علاقوں اور  گروہوں نے بطورِ پیشہ اختیار کر لی اسی لئے ہمارے ہاں جرائم پیشہ کا لفظ آتا ہے اور اس سے مراد وہ لوگ وہ ذاتیں اور قبائلی گروہ ہوتے ہیں جو طرح طرح کے جرائم میں اُلجھے ہوئے نظر آتے ہیں اُن کے غول کے غول کبھی غارت گری کرتے ہوئے آتے تھے شہروں اور بستیوں پر ٹوٹ پڑتے تھے یہاں تک کہ رات کو پچاس وپچاس کوس تک کسی بستی میں چراغ نہیں جلتا تھا کہ لوٹ مار کرنے والے نہ آ جائیں اِس محاورے میں اسی صورتِ حال کی طرف اشارہ ہے یہ لفظ دراصل غارت گر ہے جیسے مغربی یوپی کے لوگ غارت غور کہتے ہیں۔ زکا حرف ل میں بدل جاتا ہے اس اعتبار سے یہ غارت غول ہو گیا۔ اور محاورہ بن گیا۔ یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ بعض محاورے اس وقت کی صورتِ حال پر روشنی ڈالتے ہیں اور تاریخی سچائیوں کو اپنے اندر سمیٹے رہتے ہیں۔

( 2 ) غازی مرد۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’غزوہ‘‘ اُس جنگ کو کہتے ہیں جس میں حضورؐ نے شرکت فرمائی ہوئی تھی جیسے غزوۂ بدر، غزوۂ خندق اور  غزوۂ احد رفتہ رفتہ یہ تصور ایسی جنگوں کا ترجمان بن گیا جو مذہبی مقاصد کے لئے ہوتی ہیں یا ظاہر کی جاتی ہیں اور ان میں شرکت کرنے والے غازی کہلاتے ہیں اسی لئے غازی کا لفظ مسلمانوں میں بہت بہادر اور مذہبی جنگ میں حصّہ لینے والے کے لئے آتا ہے اور اپنے نام میں بھی احترام کے طور پر اس کو شامل کیا جاتا ہے یا دوسرے شامل کرتے ہیں جیسے غازی مصطفی کمال پاشا یا غازی امام اللہ خان وغیرہ غازی مرد کہنا محاورہ ہے اور اس کے معنی ہیں بہادر آدمی مذہب کے لئے لڑنے والا انسان اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مسلم کلچر رکھنے والا خاص محاورہ ہے۔

( 3 ) غائب غُلّہ کر دینا، غتر ابود کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے عام محاورات میں سے ہے جب آدمی کسی بات یا کسی سچائی کو چھُپانا چاہتا ہے تو اُس پر طرح طرح سے پردہ ڈالتا ہے اور اِدھر اُدھر کے مسائل میں یا باتوں میں اصل بات کو اُلجھاتا ہے۔ اور اس طرح سچ پر پردے ڈال دیتا ہے تو وہ اُسے غائب غلہ کر دینا کہتے ہیں اور یہ گویا عام آدمی کا طرز عمل ہوتا ہے جو وہ سچائی کو چھُپانے کے لئے اختیار کرتا ہے اس میں سب ہی شریک نظر آتے ہیں۔ ’’غترآلود‘‘ کرنا بھی غائب غلہ کر دینے کے معنی ہی میں آتا ہے۔

( 4 ) غپ شپ کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے ہاں اکثر لوگوں کو باتیں کرنے اور باتیں بنانے کا شوق ہوتا ہے ہم چاہے دوکانوں کے پھٹے پر بیٹھ کر باتیں کریں یا کسی پارک میں یا بیٹھک میں یا چوپال میں جب لوگ بیٹھ کر باتیں کریں گے تو ادھر ادھر کی ضروری اور غیر ضروری باتیں بھی ہوں گی قصے کہانیاں لطیفہ چٹکلے حکایتیں روایتیں شعر و شاعری اخبار اشتہار سبھی کچھ تو اس میں آ جائے گا اور کام کی باتیں بہت کم ہوں گی اسی کوغپ شپ کرنا کہتے ہیں اور غپ شب لڑانا بھی اور  نچلی سطح پر اتر کر گپ بازی کرنا یا گپ مارنا بھی گپ کے ساتھ گپ ہانکنا بھی آتا ہے اس سے ہم سماج کی نچلی سطح پر بات چیت اور ہنسی مذاق کا جو ڈھنگ ہوتا ہے اُسے بھی سمجھ سکتے ہیں۔

( 5 ) غٹ پٹ ہو جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

غٹ پٹ دراصل گٹ پٹ ہے جو خود ایک محاورہ ہے اور یہ انگریزوں کی آمد کے زمانے میں رائج ہوا تھا یعنی انگریزی کے بول ’’بولنا‘‘ اور اسی انداز کو اختیار کرنا’’ گٹ پٹ کرنا‘‘ کہلاتا تھا اس کو عوام نے غٹ پٹ بنا لیا جبکہ ٹ اور غ ایک ساتھ نہیں آتے مگر ہمارے ہاں پانی پینے کے ساتھ غٹ غٹ کرنا آتا ہے یہاں بھی یہی صورت ہے اور اسی امر کی طرف ایک اشارہ ہے کہ تلفظ کس طرح بدلتا ہے اور خاص طور پر ایسے الفاظ میں جو عوام کے درمیان پہنچتے ہیں اور وہ انہیں اپنے انداز سے استعمال کرتے ہیں۔

( 6 ) غدر مچانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’غدر مچنا ‘‘بھی اسی مفہوم میں شامل ہے غدر غداری کو کہتے ہیں لیکن اردو میں اس کا مفہوم کچھ اور بھی ہے اور وہی زیادہ درپیش نظر رہتا ہے یعنی بدنظمی چھین جھپٹ اور کوئی انتظام نہ رہنا۔ ۱۸۵۷ء میں جو یہاں کچھ ہفتوں کے لئے بدنظمی دیکھنے کو ملی تھی اور تاریخ کا ایک حصّہ بن گئی وہ ہماری زبان کے اس محاورے میں بدل گئی اب جب بھی یہ کہتے ہیں کہ اس گروہ یا اس گروہ نے بدنظمی بد انتظامی Lawless لالیس کو پیدا کر دیا اس کو یہ کہتے ہیں کہ غدر پھیلا دیا غدر مچا دیا  ایسا ۱۹۷۴؁ء میں بھی ہوا تھا اور تاریخ میں اس کی بہت مثالیں مل جاتی ہیں۔

محاورے کچھ تاریخی واقعات سے متعلق ہیں کچھ سماجی رویوں سے کچھ خاص طرح کے اداروں سے جب محاوروں کی لفظیات اور پس منظر پر غور کیا جاتا ہے تب یہ سچائیاں سامنے آتی ہیں۔

( 7 ) غرض کا باؤلا، (اپنی غرض باؤلی ہوتی ہے) ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے ہاں جو بھی سماجی صورت حال رہی ہے وہ ایک کے بعد دوسرے پر اثرانداز ہوتی رہی اور انسانی بحیثیت ایک فرد اور ایک خاندان کا رکن ہونے کی صورت میں خود غرضی اختیار کرتا رہا۔ پیسے کا معاملہ ہو یا زمین جائداد کا یا حقوق و فرائض کا خود غرض افراد اپنی مقصد براری کے لئے دوسروں پر ذمہ داری ڈالنا چاہتے ہیں اور خود ذمہ داریوں سے بچنا چاہتے ہیں اور اس طرح کا رو یہ اختیار کرتے ہیں کہ جیسے انہیں خود کچھ پتہ نہیں۔ اِسی طرح جب کسی سے غرض وابستہ ہوتی ہے تو صحیح  و سفارش سے خوشامد درآمد سے یا پھر زور زبردستی سے اپنا کام نکالنا چاہتا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ باؤلا نہیں ہے بلکہ اپنی غرض کا باؤلا ہے اور جیسے بھی ہو اپنا کام نکالنا چاہتا ہے کہ اس کے افعال اس طرح اپنے مسائل کو حل کرتے ہیں اور بظاہر سیدھے سادھے مگر اپنی غرض کے پیچھے باؤلے بنا رہنا چاہتے ہیں۔ ’’ غرض کے یار‘‘ بھی یہی مفہوم رکھتا ہے۔

( 8 ) غرّہ بتانا،غرّہ کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ویسے تو چاند رات کو غرّہ کہتے ہیں لیکن اُردو محاورات میں ’’غرّہ‘‘ بہ معنی غرور و تکبر بھی آتا ہے کہ وہ اپنے خاندان اپنی ملازمت یا اپنی تعلیم و شہرت پر بہت غرور کرتا ہے یا پھر غرہ بتاتا ہے جس کے معنی ہوتے ہیں اِدھر اُدھر کے بہانے کرنا۔

؂ چاند ہوتا ہے تو وہ غرّہ بتا تا ہے مجھے

یہ مصرعہ اسی محاورے کو پیش کرتا ہے اِس سے ہم اپنے معاشرے کے مزاج کو جان سکتے ہیں کہ عام طور پر لوگوں کا رو یہ دوسروں کے ساتھ کیا رہتا ہے۔

( 9 ) غسل کی حاجت ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ ایک خاص طرح کا محاورہ اور اِس سے یہ مراد لیا جاتا ہے کہ مذہبی طور پر بد خواب ہونے یا عورت سے ہمبستر ہونے کے بعد غسل واجب ہو جاتا ہے اس طرح کا مسئلہ دوسری قوموں میں بھی موجود ہو سکتا ہے لیکن مسلمانوں میں خاص طور پر اس کا اہتمام کیا جاتا ہے اور خیال رکھا جاتا ہے کہ اگر ایسی کوئی صورت ہو تو پاکی حاصل کرنے کے لئے غسل کر لیا جائے۔

( 10 ) غش ہونا، یا غش کھا کر گِر جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ کمزوری میں ہو سکتا ہے اور کچھ خاص حالات میں جیسے خون کو دیکھ کر طبیعت پر غشی طاری ہونا یا کسی خوفناک منظر سے غیر معمولی تاثر لینا یا پھر کسی کے حُسن و جمال پر بے طرح عاشق ہو جانا۔ اور اپنے ہوش و حواس میں نہ رہنا جسے غش ہونا کہتے ہیں اور کمزوری کے باعث ہوش کھو دینا غش آ جانا کہلاتا ہے جس کے معنی ہوتے ہیں غشی طاری ہونا۔

( 11 ) غصّہ پینا، غصّہ تھوک دینا،غصّہ دلانا، غصہ آنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہماری انسانی عادتوں فطری کمزوریوں اور سماجی رویوں میں جو بات بطورِ خاص شامل رہتی ہے وہ بغض و نفرت حقارت بھی ہے اور اُن کے پس منظر میں موجود ہے غصہ میں آدمی کو اپنے اوپر قابو نہیں رہتا وہ شدید جذباتی عمل اور  ردِ عمل کا شکار رہتا ہے اُس کی نفسیات میں عدم توازن پیدا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ غصّہ میں آدمی خودکشی بھی کر لیتا ہے اور دوسرے کو قتل بھی کر دیتا ہے۔

’’جگر‘‘ چبانا اور خون پینے کا عمل بھی غصّہ ہی کا اظہار ہے اسی لئے ہمارے یہاں غصہ کو کم کرنے کے لئے یہ بھی کہا جاتا ہے ذرا غم کھا ٹھنڈا پانی پی غصّہ تھام یہ محاورہ گلزارِ نسیم میں غصّہ تھامنے سے متعلق شعر اس طرح آیا ہے۔

؂ تھمتا نہیں غصہ تھا منے سے

چل دُور ہو میرے سامنے سے

اسی میں اس طرح کے محاورے شامل ہیں غصہ تھوک دو یا غصہ پی جاؤ اگر دیکھا جائے تو ان محاوروں میں جذبات کے لحاظ سے غصّہ کا آنا بھی شامل ہے۔

چرنجی لال نے غصہ میں بھُوت بن جانا محاورہ بھی دیا ہے مگر اس کا استعمال عام نہیں ہے ہاں سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ شدید غصّہ کی حالت میں آدمی آدمی نہیں رہتا بھوت بنا ہوا نظر آتا ہے۔

( 12 ) غضب آنا یا ٹوٹنا، غضب توڑنا، غضب میں پڑنا، غضب ہونا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

غضب غیر معمولی غصّہ کو بھی کہتے ہیں اور غضب ناک ہونا بولتے ہیں اور جب کوئی بیحد پریشان کُن اور  تباہ کرنے والی صورت پیش آتی ہے تو اس کو قہر نازل ہونا یا غضب آنا کہتے ہیں جیسے کوئی کہے کہ دلی میں نادر شاہ درانی کیا آیا یہ کہئے کہ غضب آگیا ویسے بھی غضب کا استعمال اُردو زبان میں غیر معمولی صورت حال کے لئے بہت ہوتا ہے کیا غضب کا گانا تھا کیا غضب کی آواز پائی ہے یا کیا غضب کا حافظہ ہے۔

غضب توڑنا یا غضب ٹوٹنا یا غضب ڈھانا یہ بہت عام ہیں اقبالؔ نے اپنے شعر میں غضب کیا محاورہ استعمال کیا ہے۔

؂ تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا

میں ہی تو ایک راز تھا سینہ کائنات میں

( 13 ) غُلام کرنا یا غُلام بنانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

غلام کا لفظ انسان یا گروہِ انسانی کے لئے توہین آمیز ہے اور دوسری قوموں کی ماتحتی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ انسانوں کو غلام بنا کر خرید و فروخت کرنے کا رواج بھی رہا ہے اور صدیوں تک رہا ہے زر خرید غلام ہونا بھی اسی کی طرف ایک اشارہ ہے حضرت یوسف ؑ بھی غلام بنائے گئے اور مصر کے بازار میں بیچے گئے تھے غلام بنا کر رکھنا کسی شخص کو نوکروں سے بدتر درجہ دینا ہے اور یہ کہنا وہ تو ان کی مرضی کا غلام ہے اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کی کوئی خواہش یا خوشی نہیں ہے۔

جس طرح مختلف اشیاء اور بھیڑ بکریوں ہاتھی گھوڑوں کے بازار لگتے تھے اسی طرح عورتوں مردوں اور بچوں کے لئے بھی بازار لگتے تھے اب یہ الگ بات ہے کہ تاریخ میں وہ وقت بھی آیا جب غلاموں نے بادشاہت کی اقبالؔ نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے۔

؂ جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی

کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی

جواہر لال نے ایک موقع پر لکھا ہے

"There is none to defend slavery now a days But great Plato held that it was necessary."

اِس کا ترجمہ یہ ہے آج کوئی غلامی کی حمایت نہیں کرتا لیکن عظیم’’ افلاطون‘‘ یہ سمجھتا تھا کہ یہ ضروری ہے اسی وجہ سے ہمارے ہاں غلام غلامی اور اسی کے ساتھ کنیزوں باندیوں کے متعلق بہت محاورے موجود ہیں۔

غلام خرید ے بھی جاتے تھے اور تحفہ کے طور پر پیش کئے جاتے تھے کنیزوں اور باندیوں کے ساتھ ساتھ بھی یہی صورت بھی ’’رومی تہذیب‘‘ میں تو غلاموں کے ساتھ بہت بُرا سلوک ہوتا تھا ان کی بوٹیاں چیل کوؤں کو کھلائی جاتی تھیں۔ انہیں وحشی جانوروں سے لڑایا جاتا تھا۔ سُولی جیسی سخت سزا بھی رومیوں ہی کی ایجاد ہے اپنے غلاموں کے ساتھ اُن کی بدسلوکی اور ظالمانہ رو یہ تاریخ کی المناک کہانیوں میں سے ہے۔

( 14 ) غُلام مال۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جو چیز بہت سستی مگر مضبوط اور  پائیدار ہوتی تھی وہ غلام مال کہلاتی تھی امیروں کے محل میں کچھ خاص راستہ غلام گردش کہلاتے تھے۔ اب بھی کہتے ہیں ماضی کی غلام گردشوں سے گزرتے ہوئے یعنی اُن حالات کا مطالعہ کرنے کے دوران جو تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں اور غلاموں نیز باندیوں سے متعلق ہیں۔

( 15 ) غُلامی کا خط لکھنا(خطِ غلامی لکھ دینا)۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اُس وقت کہتے ہیں جب آدمی کوئی شرط ہار جاتا ہے کہ خط کے معنی ہیں یہاں تحریر یا دستاویز کہ اگر میں شرط ہار گیا یا میری بات غلط ثابت ہوئی تومیں خط غلامی لکھ دوں گا یا آپ کا غلام ہو جاؤں گا ہمارے معاشرے میں تو بات یہاں تک آتی تھی کہ دیکھو اگر تم شرط ہا ر گئے یا تمہارا جھوٹ ثابت ہو گیا تو تم کان ناک دیکر آؤ گے یا تمہارے کان کاٹے جائیں گے یا ناک یعنی تم بے عزت ہو جاؤ گے اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں بات کی پچ کیسے نبھائی جاتی تھی یا اُس پر زور دیا جاتا تھا قبائل معاشرے میں یہ باتیں زیادہ دور دراز انداز میں یا دعووں کے ساتھ کی جاتی تھی اور اس طرح ہمارے یہ محاورے ایک خاص دور کے ذہن و کردار کو پیش کرتے ہیں۔

( 16 ) غلامی میں دیتا ہوں، یا غلامی میں دینا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے ہاں گفتگو کے جو آداب ہیں اور سوچنے کا جو ڈھنگ ہے اُس کے مطابق انکساری برتنا آدابِ گفتگو کا حصّہ ہے جب کسی لڑکے کا رشتہ بھیجا جاتا ہے تو لڑکی والوں کے احترام کے خیال سے یہ کہا جاتا ہے کہ میں اپنے بیٹے کو آپ کی غلامی دینا چاہتا ہوں یعنی یہ میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ آپ ہمارے ساتھ رشتہ داری کو قبول کر لیں اب یہ الگ بات ہے کہ اس لڑکی کے ساتھ جس کو کنیز یا باندی بنا کر دیا جاتا ہے سسُرال میں مشکل ہی سے کوئی اچھا سلوک ہوتا ہے اس سے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں کہنے اور کرنے میں بہت فرق رہتا ہے اسی لئے ہم دوسروں پر اعتبار نہیں کرتے اور بات کو پلٹنا بھی ہم سماجی طور پر کوئی عیب خیال نہیں کرتے۔

( 17 ) غم غلط کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آدمی جب غموں سے گزرتا ہے تو ایک سے زیادہ تعیناتی اور سماجی تجربوں سے بھی گزرتا ہے۔ جس میں اُس کے حالات وخیالات شامل رہتے ہیں مثلاً کوئی اُسے خواری کرنے والا مل جائے اور اُس کے غموں میں شریک ہو جائے یہ بھی ہوتا ہے اور یہ آدمی کے اپنے حوصلہ اپنی ہمت عقل و شعور یا کسی خیال عقیدہ کے مطابق ہوتا ہے کہ وہ غموں پر صبر کرے جسے غم کھا نا کہتے ہیں جب دوسرے یہ کہتے ہیں یہ صبر کرنے اور ہمت سے کام لے۔

اُس کے مقابلہ میں جب آدمی اپنے غم کے احساس کو کم کرنے کے لئے سیر و تفریح کرتا ہے یا آج کل کے حالات میں زیادہ ٹی وی دیکھتا ہے یا کچھ لوگ پڑھنے لکھنے سے زیادہ دلچسپی لیتے ہیں تو اُسے غم غلط کرنا کہتے ہیں یعنی وہ اسطرح اپنے غم کے احساس کو اِدھر اُدھر کرنے کی کوشش کرتا ہے یہ سماج کا ایک اچھا رو یہ ہوتا ہے بشرطیکہ آدمی کوئی دوسرا غم نہ خرید لے اور کسی نئی مصیبت میں مبتلا نہ ہو جائے مثلاً لوگ جوئے شراب تماش بینی اور یار باشی کے عادی ہو جاتے ہیں۔

( 18 ) غوزیں لڑانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے ہاں بہت سے محاورے باتیں کرنے کے ڈھنگ اور  رویوں سے متعلق ہیں باتیں سب کرتے ہیں لیکن باتیں کرنا سب کو نہیں آتا اس میں موقع و محل کی مناسبت دیکھنا بھی شامل ہے۔ جو عام طور پر لوگ نہیں دیکھتے خواہ مخواہ کی باتیں کرنا اپنوں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا یا اپنی بہادری اور بڑائی کے طرح طرح سے موقع بہ موقع پہلو نکالنا یہ سب ہماری سماجی عادتوں میں شامل ہے۔ ایسی باتوں کو ڈینگ مارنا بھی کہتے ہیں اور ڈینگ ہانکنا بھی اس کے لئے ’’چرنجی لال‘‘ نے ایک محاورہ غوزیں مارنا بھی شامل کیا ہے جو اجنبی محاورہ ہے ممکن ہے یہ غزوہ مارنا سے نکلا ہوا اور اس کا مطلب ہو بہت سی لڑائیوں معرکوں میں حصہ لینے اور کامیاب ہونے کا ذکر کرنا ہے۔

اس سے سماج کے اس رو یہ کا پتہ چلتا ہے کہ لوگ کس حد تک اُوٹ پٹانگ باتیں کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں اور گپ شپ ہانکنے میں اس حد تک یقین ہوتا ہے کہ اس کی برائی پر کبھی اس کی توجہ نہیں جاتی۔

( 19 ) غیرت سے مر جانا، یا غیرت کھا کے ڈوب مرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

غیرت شرافت پر مبنی ہے جس کے تحت آدمی نقصان اُٹھا لیتا ہے تکلیفیں برداشت کر لیتا ہے۔ اور کبھی شکایت بھی نہیں کرتا اور اگر اس سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو حیاء و شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے بلکہ ایک طرح سے ڈوب مرتا ہے کہ پھر کسی کو منہ نہیں دکھلا سکتا ہمارے ہاں لوگ طعنہ بھی دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اگر غیرت ہو تو ڈوب مر یا کوئی غیرت مند ہوتا تو ڈوب مرتا۔

اِ س سے ہم سماج میں کن باتوں کو اہمیت دی جاتی رہی ہے اُس کا اندازہ کر سکتے ہیں آدمی کوئی بات اپنی عملی زندگی میں شامل کرتا ہو یا نہ رکھتا ہو اُس پر زور ضرور دیتا ہے۔

( 20 ) غیر حالت ہو جانا، یا (حالت غیر ہو جانا) ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اِس کے معنی ہوتے ہیں کہ حالت بہت خراب ہو گئی اور اس سے مزید ہمارے اور معاشرے کی اس نفسیات کا علم ہوتا ہے کہ وہ غیر کوکس برے اور کتنے بڑے معنی میں استعمال کرتے ہیں کہ اگر کسی مرضی کسی تکلیف کسی پریشانی کی وجہ سے حالت خراب ہوتی ہے تو اُسے خراب کہنے کے بجائے غیر ہونا کہتے ہیں۔

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔