02:42    , جمعرات   ,   21    نومبر   ,   2024

محاورات

2422 0 0 00

( 1 ) ماتھا رگڑنا، ماتھا مارنا ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ماتھا رگڑنا اظہار عاجزی کرنا۔ اس لئے کہ ماتھا پیشانی کے معنی میں آتا ہے اور پیشانی جھُکانا زمین پر ٹیکنا ‘خاک پر ملنا یا چوکھٹ پر رگڑنا اظہار عاجزی کے لئے ایک علامتی عمل کے طور پر آتا ہے۔

( 2 ) ماتھا ٹھنکنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

پہلے کسی خطرے یا کسی بات کا اندازہ ہونا جو گویا سماجی شعور کا نتیجہ ہوتا ہے اور اُس کے لئے کہا جاتا ہے کہ میرا ماتھا پہلے ہی ٹھنکا تھا۔ اور ایسا احساس ہوا تھا کہ ایسا کچھ ہو نے والا ہے۔

( 3 ) مارا مارا یا مارے مارے پھرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کسی کی تلاش جستجو یا کسی کام کی غرض سے پریشان پھرنا کہ کسی طرح یہ کام ہو جائے اور بات بن جائے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اس کی تلاش میں بہت دنوں تک مارا مارا پھرا۔

( 4 ) مارتے مارتے گٹھر کر دینا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے ہاں جسمانی سزا کا بہت رواج ہے جس سے معاشرے کی شدت پسندی کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ کہ جس میں آدمی دوسرے کو اس بری طرح مارتا ہے کہ اس کا سارا وجود ایک گٹھری کی طرح سمٹ کر مجبور ہوتا ہے اپنے آپ کو سمیٹتا ہے کہ شاید اسی طرح کچھ بچاؤ ہو جائے۔

( 5 ) ماں کا دُودھ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے معاشرے میں دُودھ کو جو ماں پلاتی ہے اولاد پر ایک بڑا حق تصور کیا جاتا ہے اس لئے کہ اس کی کوئی اور قیمت تو ہوتی نہیں دُودھ پلائیاں رئیسوں کے یہاں رکھی جاتی تھیں تو ان کا بھی اس بچہ پر بہت بڑا حق ہوتا تھا جوان کے دودھ میں شریک ہوتا تھا اسی لئے اب تک کہا جاتا ہے کہ ماں سے دودھ بخشوا لو یا یہ کہ اگر تم نے ایسا نہ کیا تومیں دودھ نہیں بخشوں گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے سماجی رشتوں میں حق کا تصور بہت واضح رہتا ہے اور اس میں دُودھ کا حق بہت بڑی بات سمجھی جاتی ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ماں کے قدموں میں جنت ہے اور ہندو کہتے ہیں ماتا کے چرنوں میں سورگ ہے جنت ہے بات یہی ہے ایک ہی ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں روایتی طور پر ماں کو کتنا بڑا درجہ دیا جاتا ہے۔

( 6 ) ماں کے پیٹ سے لیکر کوئی پیدا نہیں ہوتا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

انسان کو ہر چیز پیدائشی طور پر نہیں ملتی۔ اسے حاصل کرنی پڑتی ہے’’ عِلم‘‘ ایک ایسی ہی شے ہے ہنر مندی اور فنکاری بھی کسی کو By birthنہیں آتی اس سے ہم یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ آدمی کو سماجی زندگی میں بہت سی باتوں کے حصول کے لئے جدوجہد کرنا پڑتا ہے ساری اچھائیاں قدرت کی طرف سے نہیں مل جاتیں۔

( 7 ) مال اُڑانا یا مارنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مال پر بہت سارے محاورے ہیں اس امر کی طرف اُن سے اشارہ ملتا ہے کہ جو چیز زندگی میں جتنی اہمیت رکھتی ہے اتنا ہی اس کا ذکر آتا ہے مثلاً مال اُڑانا، مال حاصل کرنا، مالا مال ہونا مال بامعنی شے بھی آتا ہے ذوق کا مصرعہ ہے۔

؂سب  گھٹا دیتے ہیں مفلس کے غرض مال کا قول

فریب اور دغا بازی سے مال لے لینا مال ہاتھ آنا یا دولت حاصل ہونا مال کی گٹھری ہونا یعنی بہت سا مال ہونا۔ مال اس کے ’’پلّے‘‘ بہت ہے ’’پلّے‘‘ کے معنی یہاں ’’پاس‘‘ یا نزدیک کے ہیں۔ یہ محاورہ بھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔

( 8 ) مٹرگشت کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بے تکلفی سے ملنے ملانے یا کسی جگہ کی سیر کرنے کے لئے گھومنے پھرنے کو مٹرگشت کرنا کہتے ہیں کہ وہ تو یونہی مٹرگشت کے لئے نکل جاتے ہیں اس سے واضح ہوتا ہے کہ محاورات میں بعض ایسے پہلوؤں پربھی نظر رکھی جاتی ہے اور انہیں محاورات میں سمویا جاتا ہے جو ہمارے معاشرے میں قابل توجہ ہوتے ہیں مٹر گشت کرنا اسی ذیل میں آتا ہے اور ایک اچھا خوبصورت محاورہ ہے۔

( 9 ) مٹی خراب کرنا، مٹی ڈالنا، مٹی ڈلوانا، مٹی عزیز کرنا، مٹی پلید کرنا،مٹی میں مِٹی یا ماٹی میں ماٹی ملنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہماری زندگی ذہنی اور زمانی وفاداریوں سے متعلق بہت سے حوالہ زمین اور مٹی سے وابستہ ہوتے ہیں کہ وہی ہماری زندگی کی ایک بہت بڑی مادّی حقیقت ہے اور زمین ہی کو ہم مٹی سے تعبیر کرتے ہیں اور خاک سے بھی ایسے بچوں کو جن کے ماں باپ نہیں رہتے موئی مٹی کی نشانی کہتے ہیں مِٹی ہو جانا گویا مٹی کے برابر ہو جانا ہے جب کوئی چیز قیمت سے بے قیمت ہو جائے یا انتہائی عاجزی اختیار کرے تو اسے مٹی ہو جانا کہتے ہیں کسی کوشش خواہش اور سعی تدبیر کا ناکام ہونا بھی مٹی ہو جانا یا مٹی میں مل جانا ہے مِٹی مل جانا موت آنے کو بھی کہتے ہیں کہ وہ سب مرگل گئے مٹی میں مِل گئے اب اُن کا کیا ذکر۔

مٹی پلید ہونا یا کرنا ذلیل کرنے کو کہتے ہیں اور ذلیل ہونے کو مٹی پلید ہونا کہتے ہیں وہاں ان کی بہت مٹی پلید ہوئی یعنی ذلیل ہونا پڑا۔

جب آدمی بہت مصیبت میں ہوتا ہے اور بیمار ہوتا ہے تو اس کی زندگی کی مشکلات اور تکلیفوں کو دیکھ کر یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ ان کی مٹی عزیز کر لے۔ یعنی ان کی مشکل آسان کر دے۔

مٹی دینا دفن کرنے کے بعد مسلمانوں میں یہ رواج ہے کہ سب مٹھیاں بھر بھر  کر تیا ر ہونے والی قبر میں مٹی ڈالتے ہیں اسی کو مٹی دینا کہتے ہیں نشان قبر کو باقی رکھنے کے لئے کچھ لوگ قبروں پر مٹی ڈلواتے رہتے ہیں مٹی کی کشش کا تصور بھی موجود ہے کہ جہاں کی مٹی ہوتی ہے وہیں انسان دفن ہوتا ہے اردو کا ایک مصرعہ ہے۔

؂ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

مٹی میں مٹی ماٹی میں ماٹی ملنا بھی اسی مفہوم میں آتا ہے۔

( 10 ) مٹی کا مادھو۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بیوقوف آدمی کو کہتے ہیں کہ وہ تو بالکل مٹی کا مادھو ہے یعنی اسے بالکل عقل نہیں ہے جو بھی کا م کرتا ہے بیوقوفوں کی طرح کرتا ہے۔

( 11 ) مٹی کے مول بیچ ڈالنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مٹی میں مٹی مل گئی آدمی خاک تھا اور خاک کا حصہ ہو گیا مٹی کے مول بکنا یا بیچنا بہت ہی کم قیمت پر بیچ ڈالنے کو کہتے ہیں مِٹی سنگوانا۔ مردے کے کفن دفن کا انتظام کرنا مٹی سنگوانا کہلاتا ہے جنازہ اٹھانے کو مٹی اُٹھانا کہتے ہیں عام طور پر اُردو پر اعتراض کرنے والے یہ تو کہتے ہیں کہ وہ گل و بلبل کی شاعری ہے اور اُس کو عاشقی کی باتیں ہیں اگر اردو کو اس کے محاوروں اور اس کے روزمرہ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ یقیناً یہاں کی عوامی اور عمومی زبان ہے اور اُس کے لفظوں کا ذخیرہ عام زبان ہی سے آیا ہے۔

( 12 ) مجذوب کی بَڑ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اُلٹی سیدھی بکواس کرنا بے معنی اور لایعنی باتیں کرنا مجذوب کی بَڑ کہلاتا ہے’’ مجذوب‘‘ کسی ایسے شخص کو کہتے ہیں جس کے ہوش و حواس میں خلل پڑ گیا ہو ایسا ہی آدمی بے تکی اور بے ہنگم پن کی باتیں کرتا ہے۔

( 13 ) مُجرا کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

’’مُجرا ‘‘ بامعنی سلام آتا ہے اسی لئے عام زبان میں کہتے ہیں کہ ان سے ہمارا بھی سلام مجرا ہے طوائفوں کے یہاں مجرا رقص کی محفل کو کہتے ہیں یعنی آج ان کے یہاں مجرا ہے اس کا مطلب ہے کہ رقص و سرود کی محفل ہے درباری سلام کو بھی مجرا کہتے ہیں اور لکھنؤ والے سلام پیش کرنے کو مجرا بجا لانا کہتے ہیں یہ محاورہ بھی اِس اعتبار سے ہمارے تہذیبی رویّوں کی نشاندہی کرتا ہے۔

( 14 ) مرچیں لگنا، مرچیں سی لگ جانا ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کسی بات پر خفا ہونا اور بات بھی وہ جس میں اس کی اپنی کوئی کمزوری چھُپی ہوئی ہو وہ سامنے آ جائے تو اس کو مرچیں لگنا کہتے ہیں کہ میری بات سے اس کے کیسے مرچیں لگیں یہ سماج کا ایک تبصرہ ہے کہ سچی بات کوئی سننا نہیں چاہتا۔

( 15 ) مَرد کی صورت نہ دیکھنا ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جو عورت یا لڑکی انتہائی پاکیزہ کردار ہوتی ہے اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے مرد کی صورت بھی نہیں دیکھی یہاں مرد سے مراد وہ شخص ہے جس سے جنس و جذبہ کا کوئی تعلق ہو ورنہ مرد تو ماں باپ بھی ہوتے ہیں۔

( 16 ) مُردوں کی ہڈیاں اکھیڑنا یا گڑے مردے اکھیڑنا ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مرنے والوں سے متعلق ہمارا جو تہذیبی رو یہ رہا ہے اس میں انہیں دعا درود سے یا د کرنا بھی ہے اور بعض ایسے محاورے بھی مردوں سے متعلق ہیں جو ہمارے سماجی رویوں کی نشاندہی کرتے ہیں مثلاً ایسی باتوں کو یاد کرنا جن میں بُرائی کے پہلو موجود ہوں گڑھے مُردے اکھاڑنا کہا جاتا ہے۔

اِس لئے کہ ہم اپنی معاشرتی کمزوریوں کا کوئی علاج تلاش نہیں کر پاتے اسی لئے یہ سوچتے ہیں کہ اُن باتوں کو بھُلا دیا جائے اور اُن پر خاک ڈال دی جائے اور اگر اُن کا کوئی ذکر کرتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ گڑے مُردے اکھیڑتا ہے یا مُردوں کی ہڈیاں اکھیڑتا ہے مقصد یہ ہوتا ہے کہ خوامخواہ کی باتیں نہ کی جائیں یا  پھر تکلیف دینے والی باتوں کو یاد نہ کیا جائے۔ ان محاورات سے ہماری سماجی زندگی کا عمل اور  ردِ عمل دونوں سامنے آتے ہیں۔

( 17 ) مُردے کا مال۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے سماجی عمل کا ایک بہت ہی گھِناونا عمل یہ ہے کہ ہم مُردے کا مال کو اُس کی زمین و جائداد کو کسی نہ کسی بہانہ لوٹ لیتے ہیں اور جو قوم فریب و دغا دھوکہ یا زبردستی کر کے زندوں کو اُن کے مال سے محروم کر دیتے ہیں تو مُردوں کے ساتھ ہمارا سلوک کیا ہو گا اسی لئے لوگ یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں بیوہ کا حق چھین لیتے ہیں یہی مُردے کا مال کہلاتا ہے اور جب کوئی آدمی ’’دیکھتی آنکھوں ‘‘ بد دیا نتی کرتا ہے تو دوسرے کہتے ہیں کہ کیا مُردے کا مال سمجھ رکھا ہے۔

( 18 ) مرزا پھویا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جو بچہ اپنے ماں باپ یا بڑوں کے لاڈ پیار اور  ناز برداری کی وجہ سے بہت نازک مزاج اور  تحریر یا نازک مزاج ہو جاتے ہیں ان کو مرزا پھویا کہتے ہیں یعنی روئی کا بہت ہی چھوٹا سا اور نازک سا پھویا ایسا پھویا جسے عطر سے بسایا جاتا ہے۔

سماجی طور پر ہمارے معاشرے میں غیر ضروری نزاکت نازک مزاجی بُری بات سمجھی جاتی ہے اور اسی پر ایک طنز ہے اور اس دور کی یادگار ہے جب رئیسوں کے بچہ ناز نخرے کے علاوہ کچھ جانتے ہی نہیں۔

( 19 ) مُرمُروں کا تھیلا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مُرمُرے کھیلوں کی طرح چاول سے تیا رکیا ہوا ایک آئیٹم ہوتا ہے بہت ہلکا قریب قریب بے وزن اب اگرمُرمُرے ایک تھیلے میں بھر لئے جائیں تو تھیلا بہت بڑا ہوتا ہے مگر اِس میں وزن کچھ بھی نہیں ہوتا وہ آدمی جو بظاہر موٹا تازہ اور بھاری بھرکم ہوتا ہے اُسے مُرمُروں کا تھیلا کہتے ہیں۔

( 20 ) مرنے کی فرصت نہیں ہوتی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

موت کے لئے فرصت و فراغت کی کوئی شرط نہیں ہوتی مگر آدمی اپنے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر ہی لیتا ہے اور بہانہ بھی ایسا جو اُسی کے لئے قابلِ قبول ہوتا ہے کسی دوسرے کے لئے نہیں ایسے ہی بہانوں میں سے یہ بہانہ بھی ہے کہ مرنے کی بھی فرصت نہیں ظاہر یہ کرنا ہوتا ہے کہ میں بہت ضروری کسی کام میں لگا ہوا ہوں اور اس کو پورا کر لینا چاہتا ہوں اس وقت تو اگر فرشتۂ موت آ جائے تو اس سے بھی معذرت کر لوں گا کہ فی الوقت مجھے فرصت نہیں ہے اِس وقت میں جینا چاہتا ہوں اپنا کام سمٹانا چاہتا ہوں مجھے مرنے کی بھی فرصت نہیں۔

( 21 ) مسجد میں اینٹ الٹ کر رکھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مسلمان عورتوں کا محاورہ ہے اور اِس کے معنی یہ ہیں کہ مسجد کے احترام میں یا اُس کے کام میں کوئی بھی بے توجہی یا بدیانتی نہیں برتنی چاہیے اِس لئے کہ اُس کی سزا بہت شدید ہوتی ہے مطلب ہے کہ سماج میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے رہے جو مذہب کے کاموں میں مقدس فرائض کی انجام دہی میں دیانتدارانہ رہے اسی پر یہ تنبیہ کی گئی یہ الگ بات ہے کہ عورتوں میں خاص طور پر جاہل عورتوں میں توہم پرستی زیادہ ہوتی ہے اور اُسی کے رشتہ سے اس طرح کے تصورات بھی اُن میں زیادہ ہوتے ہیں۔

( 22 ) مشعل کے نیچے سے نکلا ہوا ہے۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ایک طرح سے نیا محاورہ ہے مگر بہت دلچسپ ہے جب تک گیس کے ہنڈے یا بجلی کے بلب نہیں آتے تھے اُس وقت تک زیادہ تر مشعلوں ہی سے کام لیا جاتا تھا۔ اور جُلوسوں کے موقع پر مشعل بردار ہوتے تھے جو دوسروں کو روشنی دِکھلاتے تھے لیکن خود اندھیروں میں رہتے تھے یہ بالکل وہی بات ہے کہ چراغ تلے اندھیرا اس کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ زمانے کے ساتھ گھوما پھرا ہے اور تجربہ کار ہے۔

( 23 ) مشعل لیکر ڈھونڈھنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

تلاش اور تجسس سے بھی روشنی و چراغ اور مشعل کا عملی اور اشاراتی رشتہ ہے اسی لئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اس کو تلاش کرنے کے لئے مشعل لیکر نکلا اقبال کا مشہور شعر ہے اور اسی عمل کی طرف اشارہ ہے۔

؂ آئے عُشاق گئے وعدۂ فردا لیکر

اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لیکر۔

( 24 ) مِصری کھلانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مصری خاص طرح کی مٹھائی ہے برف جیسی شفاف ڈلیوں والی مٹھائی یہ خوشی کے موقع پر رسماً بھیجی بھی جاتی ہے اور کھِلائی بھی جاتی ہے اچھی باتوں کو مصری کی ڈلیاں بھی کہا جاتا ہے میٹھائی کھلانا یا مٹھائی بانٹنا ہمارے معاشرے میں خوشی کا اظہار کرنا ہے۔

( 25 ) مطلع صاف ہو جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آسمان کے کنارے کو جہاں چاند نظر آتا ہے مطلع کہتے ہیں اگر مطلع غبار آلود یا ابرآلود ہوتا ہے تو چاند نظر نہیں آتا اور مطلع کے صاف ہونے کی صورت میں ہم نئے چاند کو صاف صاف دیکھ سکتے ہیں اسی لئے کہتے ہیں کہ مطلع صاف ہے غبار کا پردہ یا  ابر کا ٹکڑا نہیں ہے یہ محاورہ خاص طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور ایسے آدمی کے لئے کہا جاتا ہے جس کے ذہن میں کچھ نہیں ہوتا جو دل سے محسوس نہیں کرتا اور دماغ سے سوچتا نہیں اس کے لئے کہا جا تا کہ وہاں تو مطلع صاف ہے وہ بالکل خالی الذہن ہے۔

( 26 ) معرکے کا آدمی۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

معرکہ جنگ کو بھی کہتے ہیں کسی اور  مقابلہ کو بھی اب جو آدمی مقابلہ کی سکت رکھتا ہے وہ معرکہ آدمی کہلاتا ہے اب یہ ظاہر ہے کہ جو آدمی معرکہ کا آدمی ہو گا وہ معمولی آدمی نہیں ہو سکتا غیر معمولی آدمی کو بھی معرکہ کا آدمی کہا جاتا ہے۔

( 27 ) مغز کھانا، مغز چٹ کر جانا، مغز کو چڑھنا، مغز کے کیڑے جھڑنا یا مغز کی کیل نکلنا وغیرہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے یہاں بعض لوگ غیر ضروری باتیں کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور اپنی باتوں سے دوسروں کو پریشان کرتے ہیں جس سے اُن کی سوچ بچار کی قوت کم ہو جاتی ہے یا ختم ہو جاتی ہے یہ وقتی طور پر ہوتا ہے اُسے محاورے کے طور پر کہتے ہیں کہ وہ تو خواہ مخواہ مغز خالی کرنا یا مغز چٹ کرنا کہتے ہیں۔ جب کوئی دوا خوشبو یا بدبو بے طرح دماغ کو متاثر کرتی ہے تو اسے مغز کو چڑھنا کہتے ہیں۔

جو آدمی الٹی سیدھی اور غلط سلط باتیں کرتا ہے اُس کے لئے کہا جاتا ہے کہ اُس کے دماغ میں تو کیڑا کاٹتا ہے اور جب کسی طریقہ سے اُس کی احمقانہ باتوں کو سامنے لایا جاتا ہے اور اُس کے غلط رو یہ کو کَنڈَم کیا جاتا ہے تو اسے دماغ کے کیڑے جھاڑنا یا جھڑنا کہتے ہیں۔

ہماری داستانوں میں اس طرح کی کہانیاں ملتی ہیں کہ اس کے مغز میں کیل ٹھونک دی یہ ایک طرح کا استعاراتی بیان ہوتا ہے مغز میں کبھی کیل نہیں ٹھوکتی مگر کیل دینا بھی ایک عمل ہے اور اُسی کا ردِ عمل کیل نکالنا ہے یہ دونوں کہانیوں اور داستانوں میں سامنے آنے والے عمل ہیں جو ہماری سماجی فکروں کا ایک رُخ ہیں۔

( 28 ) ملاحظہ کا آدمی ملاحظہ والا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

لحاظ ایک طرح کی رو یہ کی خوبی ہے کہ آدمی ’’لحاظ پاس‘‘ رکھے یعنی معاملہ کرتے وقت آدمی کو یہ خیال رہنا چاہیے کہ یہ کون شخص ہے کس مزا ج کا ہے اور معاملات میں کس طرح کی خوبصورتیاں برتنا چاہتا ہے اسی لئے ہم ایسے لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ لحاظ پاس کا آدمی ہے اس کی آنکھوں میں لحاظ ہے یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ قرض اُدھار تو لحاظ والے آدمی ہی سے مل سکتا ہے اور جو لوگ اُن باتوں کا لحاظ نہیں کرتے اُن کو بد لحاظ قرار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اُس کی آنکھ میں ذرا شرم لحاظ نہیں ہے اس معنی میں یہ محاورہ ہمارے سماجی رویوں کو ان کی نفسیات اور معاملات کے ساتھ پیش کرتا ہے۔

( 29 ) منجھدار میں پڑا ہوا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

منجھدار بہتے دریا یا ندی کا Mainدھارا ہوتا ہے جو زیادہ  پُر قوت انداز سے بہتا ہے اور دریا کے چڑھاؤ اور پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے جس میں ٹھہر نا مشکل ہوتا ہے۔ اور اس سے کشتی یا تیراک بھی اکثر گزر نہیں پاتے اسی لئے منجھدار میں پڑنا مصیبت میں پڑنے کو کہتے ہیں اور دوسرے لفظوں میں اُسے منجھدار میں پھنسنا کہا جاتا ہے۔ یہاں ایک گیت کے بول پیش کئے جاتے ہیں۔

؂ نیا پٹری منجھدار ست

سگھیری کون لگائے پار

( 30 ) منکا ڈھلنا یا ڈھلکنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

سر سے لیکر کمر تک گردن میں جو مہروں کا سلسلہ ہے اُسے ’’منکا‘‘ کہتے ہیں اور اسی کے سہارے سر گردن پر  سنبھلتا ہے موت کے قریب ’’منکا‘‘ ڈھل جاتا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ موت کا ذکر کرنے کے بجائے یہ کہا جائے کہ اس کا منکا ڈھل گیا ہے اور یہ ایک طرح کا سماجی طرز اظہار ہے عام لوگ کس طرح کی باتیں پسند کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ سب سماج میں رہنے والے ہیں۔

( 31 ) مَن کا میلا یا کھوٹا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

من طبیعت دل اور مزاج کو کہا جاتا ہے اور طبیعت کا میل ہویا مزاج کی خرابی اور دل کا کھوٹ آدمی کی طبعی یا مزاجی کیفیت کی برائی کی طرف اشارہ کرتا ہے اسی کو من میں بیر و بُغض رکھنا کہا جاتا ہے۔

( 32 ) من کے چیتے ہو جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ محاورہ خاص دہلی میں بولا جاتا ہے اور پرانی دلی کے علاقہ میں اسے سنا جا سکتا ہے مغربی یوپی میں بالکل استعمال نہیں ہوتا دل کی خواہش کے مطابق کوئی کام ہو جانا یا کوئی کامیابی حاصل ہو جانا اس کے لئے من کے چیتے ہو جانا کہا جاتا ہے۔

( 33 ) منگنی دینا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کوئی شے کسی کے مانگنے پر عاریتاً دے دینا یہ دہلی کا خاص محاورہ ہے اور اس کے بجائے مانگے کی چیز مغربی یوپی میں استعمال ہوتا ہے۔ 

( 34 ) من مارنا، من مار کے بیٹھ جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

اپنی دلی خواہش پوری نہ ہونے پر صبر کر کے بیٹھ جانا یا بیٹھ رہنا من مارنا کہلاتا ہے یہ مجبوری کا صبر کرنا ہوتا ہے کہ جی تو نہیں چاہتا مگر کچھ ہو بھی نہیں سکتا۔ اس لئے آدمی اپنی مجبوریوں کو تسلیم کر لیتا ہے سماجی نفسیات کو ایک خاص ماحول میں کھول کر دیکھا جائے تو یہ محاورہ جو ایک تصور بھی ہے اور  تصویر بھی ایک زندہ حقیقت کی صورت میں سامنے آتا ہے اور  انسان یہ کہتا نظر آتا ہے۔

؂ تری مرضی ہے اگر یونہی تولے یونہی سہی۔

( 35 ) منہ اتر جانا یا ذرا سا منہ نکل آنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

جب آدمی دُکھ سے دوچار ہوتا ہے تو اس کا چہرہ اتر جاتا ہے اس پر کمزور ی نقاہت یا محرومی برسنے لگتی ہے اسی کو ذرا سا منہ نکل آنا یا منہ اتر جانا بھی کہتے ہیں یہ کسی دکھ تکلیف کے باعث بھی ہو سکتا ہے دوسرے محاوروں کی طرح یہ بھی سماجی طریقہ پر اظہار کا ایک حصہ یا انداز ہے اور  اس سے ہم یہ سجھ سکتے ہیں کہ بات کہنے کے کیا کیا طریقہ و سلیقہ ہیں جو عام زبان میں برتے جاتے رہے ہیں۔

( 36 ) منہ آنا، منہ باندھ کے بیٹھنا، منہ بگاڑنا، منہ بگڑنا، منہ بنانا، منہ بند کرنا، منہ بند ہو جانا، منہ بنوانا، منہ ڈھانپنا، منہ بھرانا، منہ بھر دینا، منہ بولا، منہ بولی، منہ بولتی مورت، مُنہ پر چڑھنا وغیرہ۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

مُنہ سے متعلق بہت سے محاورے ہیں جو سماجی رویوں اور  معاشرتی نفسیات کو پیش کرتے ہیں اس میں منہ چڑھنا منہ چڑھا ہونا یعنی کسی کے لئے بہت عزیز ہونا کہ وہ ناز نخرہ کر سکے منہ آنا منہ کی ایک بیماری بھی ہے اور خواہ مخواہ دوسرے کے مدمقابل آنے کی کوشش بھی اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ خوامخواہ میرے مُنہ آتا ہے منہ کی کھانا بدترین شکست کو کہتے ہیں کہ آخر مُنہ کی کھائی یعنی رُسوائی کے ساتھ اپنی ہار قبول کی۔ مُنہ ڈھانپنا، چھُپانے کو بھی کہتے ہیں اُردُو کا ایک مشہور شعر ہے۔

؂ لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھُپائے

بھری محفل سے اٹھو ایا گیا ہوں

میں منہ دکھانے کے لائق نہیں رہا میرا مُنہ زبردستی بند کر دیا گیا اب میں کچھ کہہ بھی نہیں سکتا حکم ہے کہ منہ بند رکھو یعنی زبان مت کھولو اظہارِ خیال بھی نہ کرو منہ دیکھی بات یعنی سچ بات کسی کے منہ پر نہ کہہ کر کوئی بھی جھوٹی سچی بات کہہ دینا اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ تو منہ دیکھے کی بات کرتے ہیں جیسا موقع ہوتا ہے بات کو بدل دیتے ہیں۔ منہ بولی بہن منہ بولا بیٹا یہ گویا محبت کے رشتہ پیدا کرتا ہے یا محبت سے کسی کو اپنا بنانا منہ بولی مورت ایسی تصویر جو رکھی ہوئی منہ سے بول رہی ہو یعنی Life Like ہو مُنہ دکھائی شادی کی ایک رسم ہے جسے مُنہ رونمائی بھی کہتے ہیں اور جس میں پہلے پہل دلہن کا منہ دیکھنے والیاں کوئی نہ کوئی تحفہ یا روپیہ پیسہ پیش کرتی ہیں۔

( 37 ) منہ توڑ جواب،منہ توڑنا، منہ پھیلانا، منہ پسارنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

سخت جواب دینا، دلیلوں کے ساتھ جواب دینا آدمی دوسروں کی بات کو سن کر چپ ہو جاتا ہے تو خود ہی بات کا رخ بدل دیتا ہے لیکن اگر برداشت کرنا نہیں چاہتا تو پھر سخت جواب دینے پربھی اور  اگر بات کو ٹالنا یا avoidکرنا چاہتا ہے آمادہ ہو جاتا ہے اور جس لب و لہجہ میں اور جس انداز میں جواب دیتا ہے اس کو منہ توڑ جواب دینا کہتے ہیں دراصل منہ توڑنا منہ پر تھپَّڑ یا ایسی کوئی چیز مارنا ہے جس سے سخت ضرب پہنچے گی۔ اسی لئے ہمارے ہاں یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھ سے کہتا یا اس طرح پیش آتا تومیں اس کا منہ توڑ دیتا منہ توڑ جواب بھی اسی جذبہ کی ترجمانی کرتا ہے۔

ہمارے ہاں دامن پسارنا ہاتھ پسارنا اپنے لئے کچھ مانگنا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ساری عمر تو فلاں کے سامنے ہاتھ پسار رہا ہے یعنی ہاتھ پھیلا رہا ہے اردو کا مصرعہ ہے۔

؂ پھیلائیے نہ ہاتھ نہ دامن پسارئیے۔

منہ پسارنا بھی اسی معنی میں آتا ہے یعنی اپنے لئے کچھ طلب کرنا اور عاجزی کے ساتھ طلب کرنا اُس کے مقابلہ میں منہ پھیلانا نا خوشی کا اظہار کرنا ہے منہ چڑھنا بھی ناراضگی کے معنی میں آتا ہے جیسے ذرا سی بات پر اُن کا منہ چڑھ جاتا ہے۔

( 38 ) منہ در منہ کہنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

کسی کے سامنے بے جھجھک کوئی بات کہنا، صفائی سے کہنا اس سلسلہ میں منہ در منہ ہونا بھی محاورہ ہے۔ ہمارا معاشرہ کچھ اس طرح کا ہے کہ ہم پیٹھ پیچھے تو بہت کچھ کہتے ہیں بُرائیاں کرتے ہیں عیب نکالتے ہیں اور  اگر ایک محاورہ کا سہار ا لیا جائے تو کیڑے نکالتے ہیں لیکن کسی کے مُنہ در منہ یعنی سامنے کچھ کہنے اور  اظہارِ خیال میں کتراتے اور  گھبراتے ہیں۔ اس محاورہ میں ہماری یہی تمدنی روش سامنے آتی ہے۔

( 39 ) منہ دیکھ کر رہ جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یہ حیرت کی صورت میں بھی ہوتا ہے اور تمنا کی صورت میں بھی اردو کا شعر ہے۔

؂ ذرا دیکھ اے محو آئینہ داری

تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں

( 40 ) منہ زوری کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

یعنی غلط باتیں کہنا اور زور داری کے ساتھ کہنا مُنہ زوری کہلاتا ہے مگر منہ زور گھوڑا دوسری بات ہے یعنی ایسا گھوڑا جس کو لگام دینا مشکل ہوتا ہے بدتمیز آدمی کو بھی منہ زور گھوڑا کہتے ہیں۔

( 41 ) مُنہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ضعیفی اور  بُڑھاپے کی انتہائی صورتِ حال کی طرف اشارہ کرنے والا محاورہ ہے۔ یعنی جب کسی طرح طاقت باقی نہ رہی تواب ہوکیا سکتا ہے یہ محض کمزوری کو نہیں کہتے اِس میں بڑھاپا اور  پایان عُمر شریک ہے۔

( 42 ) منہ میں گھُنگھنیاں بھر جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

آدمی جہاں بات کرنے کا موقع ہو وہاں بھی چپ رہے اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ تو منہ میں گھنگھیاں بھرے بیٹھے ہیں اور  بول ہی نہیں رہے ہیں۔ منہ ہمارا بہت ضروری عضو ہے کھانا پینا وغیرہ غصہ اور  پیار اپنائیت اور غیریت کا  اظہار منہ اور  زبان ہی کے ذریعہ ہوتا ہے اسی لئے منہ کی ایک سماجی اور معاشرتی اہمیت بھی ہے۔ اگر آدمی بات نہ کر سکے تو اس کی سماجی حیثیت کس حد تک مجروح ہو جاتی ہے اس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل بات نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں منہ سے متعلق محاورے ہماری معاشرتی زندگی اور سماجی ذہن کے کتنے رخ کو پیش کرتے ہیں وہ آدمی بھی کیا جو نہ منہ سے بولے نہ سر سے کھیلے۔

( 43 ) موت کا پسینہ آ جانا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

زندگی کا آخری وقت آ جانا اس سلسلہ میں یہ بھی ایک تجربہ ہے کہ’’ دم حق‘‘ ہونے سے یعنی آخری سانس لینے سے پہلے مرنے والے کو پسینہ آتا ہے خاص طور پر ماتھا یا پیشانی نم آلود ہو جاتی ہے اس کو موت کا پسینہ آنا کہا جاتا ہے اُردُو کا ایک شعر ہے۔

؂ پسینہ موت کا آیا ذرا آئینہ تو لاؤ

ہم اپنی زندگی کی آخری تصویر دیکھیں گے

اس سے ایک بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ہم نے زندگی کی سچائیوں اور واقعاتی صورتوں کو بھی محاوروں میں شامل کیا ہے محاوروں میں اپنے سے متعلق صورتِ حال کو نہ کہ محفوظ کیا ہے بلکہ معنیاتی طور پر اُسے ایک نئی معنویت سے آشنا بھی کیا ہے۔

( 44 ) موتی کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں، موتیوں سے منہ بھرنا، موتی چُور کے لڈو۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

موتی ہمارے معاشرے میں دولت و ثروت عزت اور  عظمت کی ایک علامت ہے اسی لئے اچھے آدمی کو اُس کی خوبیوں کے باعث ہم ہیرے یا موتی سے تشبیہہ دیتے ہیں پنجابی زبان میں تو موتیاں والوں یا  موتیاں والیاں کہا جاتا ہے موتیوں میں تول دینا موتیوں سے منہ بھر دینا یا موتی کوٹ کوٹ کر بھرے ہونا بڑے انعام بڑے عطیہ بڑی خوبیوں کو کہا جاتا ہے موتیوں کا نوالہ اچھے سے اچھا کھانا کھلانے کو کہا جاتا ہے سونے کا نوالہ بھی ایسے ہی موقع پر آتا ہے اور موتی چُور کے لڈو بھی ایسے ہی تصورات کا آئینہ دار ہے۔

( 45 ) موچھوں کے کونڈے کرنا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

ہمارے یہاں نذر و نیاز کی غرض سے کھانا پکانا اور  تقسیم کرنا ہے جسے ایک مقدس رسم کے طور پر انجام دیا جاتا ہے ایسا خوشی کے موقع پر بھی کیا جاتا ہے اور اسی کو خوشیوں بھرے مبالغہ کے طور پر موچھوں کے کونڈے کرنا کہا جاتا ہے جو بچہ کے جوان ہونے پر خوشی کے اظہار کا ایک موقع ہوتا ہے اور بطور رسم اسے کیا جاتا ہے۔

( 46 ) مول لے کے چھوڑ دینا۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بڑی نیت کی بات ہوتی ہے یا پھر اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ہم نے احسان کر کے چھوڑ دیا مول لینا قیمت ادا کرنا ہوتا ہے اور قیمت ادا کرنے کے بعد آدمی اپنا حق زیادہ سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تو میرا مول لیا ہوا ہے یا پھر طنز کے طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ تم نے مجھے مول تھوڑے لے لیا ہے یعنی مجھ پر اتنا حق کیوں جتاتے ہو۔

جتنا زر خرید اشیاء یا غلاموں پر جتایا جاتا ہے اس سے سماجی نفسیات اور معاشرتی رویوں کی نشاندہی ہوتی ہے کہ انسان سماج میں رہ کر کس کس طرح سوچتا ہے اور کس کس پیرایہ میں اپنی سوچ کا اظہار کرتا ہے۔

( 47 ) میدہ و شہاب۔ ( سید ضمیر حسن دہلوی )

بہت اچھے رنگ روپ کی لڑکیوں کے لئے میدہ و شہاب جیسی رنگت کہا جاتا ہے اور کبھی کبھی رنگت کا لفظ نہیں بھی آتا اور  صرف میدہ و شہاب کہا جاتا ہے کہ وہ لڑکی کیا ہے میدہ و شہاب کی طرح ہے۔

ہمارے ہاں خوبصورتی ہو یا  بدصُورتی اُس کے لئے تشبیہوں اور  استعاروں سے کام لیا جاتا ہے کہ وہی تأثر کو ایک خوبصورت شکل دینے میں ہمارے کام آتے ہیں۔ میدہ،شہاب دو صفتیں رکھتے ہیں ’’میدہ‘‘ نرم بہت ہوتا ہے اور  اُس کو جب چھُوا جاتا ہے تو نرمی کا ایک عجیب احساس ہوتا ہے جو ہمارے اعصابی نظام کو بھی ایک حد تک متاثر کرتا ہے۔ اسی لئے جب ہم کسی شے کو چھُوتے  ہیں تو اُس میں اسی انداز گداز‘ نرمی‘ اور  دل آویزی کا احساس ہوتا ہے اس کے مقابلہ میں پتھر‘ لوہا‘ لکڑی اپنا الگ احساس رکھتے ہیں۔ ’شہاب‘‘ ٹوٹنے والے ستارے کو کہتے ہیں جو نظر کے سامنے آتا ہے اور  تیزی سے گزر جاتا ہے یہ چاندی جیسی چمکتی ہوئی لکیر ہمیں بے حد اچھی لگتی ہے کہ اُس میں ایک خاص جھلملاہٹ ہوتی ہے۔ یہی جھلمِلاہٹ اُس وقت بھی ہماری نظر میں ہوتی ہے جب ہم کسی سفید رنگ کی لڑکی یا لڑکے کو دیکھتے ہیں۔ لڑکی خاص طور پر اپنی عمر، بھول پن، سادگی یا پھر شوخی یا معصومانہ شرارت کے اعتبار سے اُس کی سنہری سنہری اور  صبح جیسی سفید رنگت دل کو بہت بھاتی ہے۔ اسی نسبت سے جس کی صورت و شکل اور  چہرہ کی خوبصورت دھوپ کی تعریف کرنی ہوتی ہے اُس کے لئے کہتے ہیں میدہ و شہاب سا رنگ۔

0.0 " 0 "ووٹ وصول ہوئے۔ 

تبصرہ تحریر کریں۔:

اِس تحریر پر کوئی تبصرہ موجود نہیں۔

سرفراز صدیقی سوشل میڈیا پر

منجانب:سرفراز صدیقی۔ صفحات کو بنانے والے: زبیر ذیشان ۔